دادی امّاں نےدلخراش واقعہ سنایا

دادی اماں کوئٹہ سے پشاورکیا آئیں گھر کا ہر فرد خوش تھا خاص طور پر کاشف ،بلال اور ننھی عائشہ تو دادی کے پاس ہی بیٹھ گئے تھے،امی نے جیسے تیسے کرکے بچوں کو کمرے سے باہر نکالا تو دادی آرام کےلئے لیٹ گئیں۔ رات کھانا کھانے کے بعد تینوں بچے پھر دادی کے گرد جمع ہوگئے اور کہانی سنانے کی ضد کرنے لگے، دادی محرم کا مہینا شروع ہوچکا ہے، اس لئے آج تمہیں ایک سچی کہانی سناؤں گی، بچوں نے ایک آواز میں کہا: ہم ضرور سنیں گے۔ دادی سینکڑوں سال پہلے صحابی رسول حضرت سیدنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے انتقال کے بعد یزیدنے ملک کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا، ایک آدمی نے اسے مشورہ دیا: سب لوگوں کوکہوکہ وہ تمہیں اپنا حاکم تسلیم کر لیں جو تمہاری بات مان لے تو ٹھیک ہے اور جو انکار کرے اسے قتل کردو، یزید کو یہ مشورہ پسند آیا اس نے لوگوں پر سختی کی تو بہت سارے لوگوں نے یزید کو اپنا حاکم مان لیا، یزید ایک نالائق آدمی تھا اس لئے بعض صحابہ کرام رضیَ اللہُ تعالٰی عنہم نے اسے حاکم ماننے سے انکارکردیا ان میں ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے نواسے حضرت امام حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بھی شامل تھے۔ کوفہ کے رہنے والوں نے امام حسین کے پاس بہت سارے خط بھیجے اور کہا: ہماری جانیں آپ پر قربان ہیں آپ ہمارے پاس تشریف لے آئیےہم سب آپ کو حاکم مانتے ہیں ۔ امام حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے پہلے اپنے چچاکے بیٹے حضرت مسلم بن عقیل رضیَ اللہُ تعالٰی عنہما کو کوفہ بھیجا تاکہ دیکھ کر بتائیں کہ یہ لوگ اپنی بات میں کتنے سچے ہیں ؟ اگر ان کی بات سچ ہوئی تو ہم کوفہ جائیں گے۔ حضرت مسلم رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کوفہ پہنچے تو 12 ہزار لوگوں نے ان کی بات ماننے کا یقین دلایا ، حضرت مسلم رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے امام حسین کو خط میں ساری تفصیل لکھ دی اور کہا: آپ کوفہ آجائیے، کوفہ کے گورنر ابن زیاد کو معلوم ہوا تواس نے حضرت مسلم رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کو پکڑنے کا حکم دے دیا ، یہ دیکھ کر کوفہ والوں نے حضرت مسلم کا ساتھ چھوڑ دیا حضرت مسلم رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے ایک گھر میں پناہ لے لی، ابن زیاد نے انہیں گرفتار کرلیا اور شہید کردیا۔ دادی سانس لینے کے لئے خاموش ہوئیں توبچوں کے سوالات شروع ہوگئے، کاشف پھر کیا امام حسین کوفہ آگئے تھے؟ دادی امام حسین3 ذو الحجہ کو 82 افراد کے ساتھ مکہ سے روانہ ہوئےتھے اور ابھی راستے میں تھے کہ حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر مل گئی، امام حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے فرمایا: ہم تب تک واپس نہیں جائیں گے جب تک خون کا بدلہ نہ لےلیں یا پھر اس راہ میں قربان ہوجائیں گے ۔ بلال کوفہ والوں نے امام حسین کو بلایا تھا اب تو انہوں نے خوب مدد کی ہوگی؟ دادی کوفہ کے لوگ بہت برے تھے انہوں نے امام حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کو اپنے پاس بلوایا لیکن ان کی کوئی مدد نہیں کی بلکہ دشمنوں کے ساتھ مل کر ان پر حملہ کردیا امام حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے جب یہ دیکھا کہ ان کے ساتھی کم تعداد میں ہیں اور مقابلے میں بہت سارے لوگ ہیں تو انہوں نے بے عزتی والی زندگی گزارنے کے بجائے عزت سے مرنا پسند کیا۔ یزید کی 22 ہزار کی فوج کےسامنے 82 افراد تھے جن میں عورتیں بچے اور بیمار بھی تھے اور وہ بھی جنگ کے ارادے سے نہیں آئے تھے دشمنوں نے لشکروالوں کا پانی تک بند کردیا مرد عورتیں بچے سب پیاس اور بھوک سے پریشان ہوگئے تھے امام حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے ساتھی ایک ایک کرکے راہِ خدا میں شہید ہونے لگے آخر کار 10 محرم 61 ہجری جمعہ کے دن نہایت بہادری اور ہمت سے لڑتے ہوئے امام حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ بھی شہید ہوگئے مگر یزید جیسے نالائق حکمران کی بات نہیں مانی۔ ننھی عائشہ: دادی! یزید کیا اچھا آدمی نہیں تھا ؟ دادی: یزید بہت بُرا آدمی تھا، گندے کام کرتا تھا، شراب پیتا تھا اور نمازیں قضا کرتا تھا۔ بلال: یزید اتنابُرا تھاتو دوسرے لوگوں نے یزید کو اپنا حاکم کیوں مانا تھا؟ دادی: کچھ لوگوں نے اسے حاکم مان کر بڑے بڑے عہدے اور وزارتیں لے لیں اور اپنی جائیدادیں بنائیں جبکہ اچھے لوگوں نے اسے دل سے اپنا حاکم نہیں مانا تھا ،اگر وہ ایسا نہ کرتے یزید انہیں قید میں ڈال دیتا ان پر ظلم کرتا اور انہیں قتل کردیتا۔ کاشف امام حسین نے یزید کی بات کیوں نہیں مان لی؟ دادی: امام حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ نے دوستوں، گھر والوں بلکہ خود اپنی جان کو راہِ خدا میں پیش کرکے دین اسلام کو طاقت ور بنایا ہے۔ اگر امام حسین بھی یزید کی بات مان لیتے تو ہمیں دین اسلام کی خاطر قربانی دینے کا جذبہ کیسے ملتا، ہم یہ کیسے کہتے کہ ہمارے اندر ایسے بہادر افراد بھی ہونے چاہئیں جوظلم کرنے والوں کے آگے ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں، مشکل اور پریشانی والے حالات میں دشمنوں کے سامنے سر نہ جھکائیں اور ہمت و بہادری کے ساتھ ان کے سامنے اپنا سینہ تان لیں۔ بلال: دادی! میرا ایک دوست کہہ رہا تھا کہ یزید نے امام حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کو شہید نہیں کیا تھا کیونکہ وہ تو وہاں موجود ہی نہیں تھا؟ دادی : جو کچھ کربلا کے میدان میں اور اس کے بعد خاندانِ نبوت کے ساتھ ہوا وہ سب یزید کے حکم اور خوشی سے ہوا تھا اس لئے یزید اس واقعہ کا سب سے بڑا ذمہ دار ہے۔ میرے بچو! جو لوگ یزید کو اچھا کہتے ہیں ان کے قریب بھی مت جاؤ اور امام حسین رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کی محبت کا دم بھرتے رہو کیونکہ جو دنیا میں جس سے محبت کرتا ہے کل آخرت میں اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ چلو بچو! اب کافی دیر ہوگئی ہے جلدی سے اپنے کمرے میں جاکر سو جاؤ پھر صبح فجر کی نماز بھی پڑھنی ہے ۔