بزرگوں کا عرس

Wed, 26 Feb , 2020
4 years ago

داؤد صاحب بازار(Market)جانے لگے تو حَسَن رَضَا بھی اپنے ابّوجان کے ساتھ ہولیا۔آج خلافِ معمول داؤدصاحب نے دودھ زیادہ خریدا تو حسن رضا نے پوچھا:ابّوجان !آج اتنا زیادہ دودھ کیوں خریدلیا ہے آپ نے؟ابّو جان: بیٹا! آج 11ربیعُ الْآخِر ہےاور اس دن سلسلۂ قادریہ کے عظیم پیشواپیرانِ پیر حضرت سیّدُنا غوثِ اعظم عبدُالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا عُرْس مبارک منایاجاتا ہےتو انکے عُرْس کے سلسلےمیں ہم بھی اپنے گھر میں نِیاز(لنگر) کا اہتمام کریں گے،اس لئے آج دودھ زیادہ خریدا ہے۔

حَسن رضا:ابّو جان! یہ”عُرس“کیا ہوتا ہے؟ابّو جان:بیٹا! ویسے تو عُرس عربی زبان میں شادی(Marriage) کو کہا جاتا ہے،اور اسلام میں بزرگانِ دین کی سالانہ فاتحہ کی محفل جو ان کی تاریخِ وفات پر ہوا سے بھی عرس کہتے ہیں، کیونکہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ قبر میں جب سوالات کرنے والے فرشتے مَیِّت کا امتحان لیتے ہیں اور وہ کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ کہتے ہیں:نَمْ کَنَوْمَۃِ الْعَرُوس لَا یُوقِظُہ اِلَّا اَحَبُّ اَھْلِہٖ اِلَیْہ یعنی اُس دُلہن کی طرح سوجا کہ جس کو اس کے گھر والوں کے سوا کوئی نہیں جگاتا۔ (ترمذی، 2/337،حدیث:1073) تو چونکہ فرشتوں نے ان کو عَرُوس کہاہوتا ہے اس لئے وہ دن عُرس کہلاتا ہے۔)مراٰۃ المناجیح،1/134)

اسی وجہ سے جس تاریخ کوصحابَۂ کرام،تابعین،عُلَمائے دین اور اولیائےکرام میں سے کوئی اس دنیا سے رُخْصَت ہوئے ہوتے ہیں اس تاریخ کو عقیدت مندوں کی ایک تعداد ان کے مزارات پر حاضری دیتی ہے اور فیض یاب ہوتی ہے،ان سے محبّت رکھنے والے مسلمان ان کے ایصالِ ثواب کے لئے مزارات کے قریب اور دیگر مقامات پردِینی محافل کااہتمامکرتے ہیں جن میں تلاوت و نعت اور ذِکْرواَذْکار کے علاوہ عُلَما و مُبَلِّغیْن بیانات کے ذریعے اللہپاک کے اَحکامات، اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں،صاحبِ مزارکاتعارف،ان کی سِیرت کے بارے میں بتاتے اور بزرگوں کی تعلیمات لوگوں میں عام کرتےہیں۔ انہی محفلوں کو”بزرگوں کا عُرس“ کہا جاتا ہے۔ 11ربیعُ الآخِرکو سلسلۂ قادریہ کے عظیم پیشوا پیرانِ پیر سیدنا غوثِ اعظم عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کاعُرس مبارک بڑے ہی ادب واحترام سےمنایا جاتا ہے ، کئی عاشقانِ غوثِ اعظم اس کو بڑی گیارہویں شریف بھی کہتے ہیں۔ابّوجان!عُرس منانے سے ہمیں کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے؟ حَسن رضا نے سوال کیا۔

ابّو جان: آپ نے بہت ہی اچّھا سوال کیا،حسن بیٹا!اللہپاک کے نیک بندوں کاعرس منانے کے ہمیں بہت سارے فائدے حاصل ہوتے ہیں: (1)سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اس سے ہم پر اللہ پاک کی رحمت نازل ہوتی ہے،روایت میں ہے:اللہ کے نیک بندوں کے ذِکْرکے وقت اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔(حلیۃ الاولیاء،7/335،رقم:10750) (2)ان کا ذکرِخیرکرنے اور سننے سے ہمارے دل میں نیک بندوں کی مَحبَّت پیدا ہوتی ہے۔ جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ کَل قیامت میں ہم اللہ کے ان پیاروں کے ساتھ ہوں گے کیونکہ جو اللہ کی رضا کے لئے کسی سے مَحبَّت رکھے وہ قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہوگا۔ (3)عرس منانے کی برکت سے ہمیں بزرگوں اور نیک بندوں کی زندگی کے بارے میں معلومات (Information) حاصل ہوتی ہیں کہ انہوں نے کس طرح اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و فرمانبرداری میں اپنی زندگی گزاری (4)اسی طرح ان کے تقویٰ و پرہیزگاری اور علم و عمل کے واقعات سُن کر ہمارے اندر بھی تقویٰ و پرہیزگاری اور علم و عمل کا جذبہ بیدار ہوتاہے۔ اللہ کریم ہمیں بھی بزرگوں سے مَحبَّت کااظہار اور ان کی برکتیں پانےکےلئےان کاعرس منانےکی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


کراماتِ اولیاء کا ثبوت

Tue, 25 Feb , 2020
4 years ago

زمانَۂ نبوّت سے آج تک اَہلِ حق کے درمیان کبھی بھی اِس مسئلے میں اِختِلاف نہیں ہوا،سبھی کا عقیدہ ہے کہ صَحابَۂ کِرام علیہمُ الرِّضوان اور اَولیائے عِظام رحمہمُ اللہ السَّلام کی کرامتیں حق ہیں۔ ہر زمانے میں اللہ والوں سے کَرامات کا ظہور ہوتا رہا اور اِنْ شَآءَ اللہ قِیامت تک کبھی بھی اِس کا سِلسِلہ ختم نہیں ہوگا۔

کرامت کیا ہے؟مشہور مُفَسِّروحکیمُ الْاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:اصطلاحِ شریعت میں کرامت وہ عجیب و غریب چیز ہے جو ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہو۔ حَق یہ ہے کہ جو چیز نبی کا معجزہ بن سکتی ہے وہ ولی کی کرامت بھی بن سکتی ہے،سِوا اُس معجزہ کے جو دلیلِ نبوت ہو جیسے وَحِی اور آیاتِ قرآنیہ۔(مراٰۃ المناجیح،8/268)

عقیدہ:امامِ جلیل، مفتیِ جنّ و اِنْس، نَجْمُ الْمِلَّۃِ وَالدِّین عمر نَسَفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کَرَاماتُ الْاَوْلِیَاءِ حَقٌّ فَتَظھَرُ الْکَرَامَۃُ عَلٰی طَرِیْقِ نَقضِ الْعَادَۃِ لِلْوَِلِیِّ مِنْ قَطْعِ مُسَافَۃِ الْبَعِیْدَۃِ فِی الْمُدَّۃِ الْقَلِیْلَۃ ترجمہ:اولیاءاللہ کی کرامات حق ہیں، پس ولی کی کرامت خلافِ عادت طریقے سے ظاہر ہوتی ہے مثلاً طویل سفر کو کم وقت میں طے کر لینا۔

اس کی شرح میں حضرت امام سَعْدُالدّین تَفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جیسے حضرت سیّدُنا سلیمان علیہ السَّلام کے درباری حضرت آصف بن بَرخِیا رضی اللہ عنہ کا طویل مسافت (Long Distance) پر موجود تختِ بِلقیس کو پلک جھپکنے سے پہلے لے آنا۔(شرح عقائد نسفیہ ، ص316تا318)

بعدِ وصال بھی کرامات:اولیاء اللہ سے ان کے وصال (Death) کے بعد بھی کرامات ظاہر ہوتی ہیں جیسا کہ حضرت امام ابراہیم بن محمد باجُوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جمہور اہلِ سنّت کا یہی مؤقّف ہے کہ اولیائے کرام سے ان کی حیات اور بَعْدَالْمَمَات (یعنی مرنے کے بعد) کرامات کا ظہور ہوتا ہے (فِقْہ کے) چاروں مَذاہِب میں کوئی ایک بھی مذہب ایسا نہیں جو وِصال کے بعد اولیا کی کرامات کا انکار کرتا ہو بلکہ بعدِ وصال کرامات کا ظہور اَولیٰ ہے کیونکہ اس وقت نفس کَدُورَتَوں سے پاک ہوتا ہے۔(تحفۃ المرید،ص363)

مُنکرِ کرامات کا حکم:یہ عقیدہ ضروریاتِ مذہبِ اہلِ سنّت میں سے ہے لہٰذا جو کراماتِ اولیا کا انکار کرے، وہ بَدمذہب و گمراہ ہے چنانچہ امامِ اہلِ سنّت، امام احمد رضا خانرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کراماتِ اولیاء کا انکار گمراہی ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 14/324)

شَرح فقہِ اَکبر میں ہے:کراماتِ اولیا قرآن و سنّت سے ثابت ہیں، مُعْتَزِلَہ اور بِدْعَتِیوں کے کراماتِ اولیا کا انکار کرنے کا کوئی اعتبار نہیں۔(شرح فقہ اکبر، ص141)

کرامت کی قسمیں:حضرت علّامہ یوسف بن اسماعیل نَبْہَانِی رحمۃ اللہ علیہ نے کراماتِ اولیا کے موضوع پر اپنی کتاب”جامع کراماتِ اولیاء“ کی ابتدا میں کرامت کی ستّر سے زیادہ اقسام (Types) کو بیان فرمایا ہے۔اولیائے کرام سے ظاہر ہونے والی کرامتوں کی اَقسام اور ان کی تعداد کے متعلّق حضرت علّامہ تاجُ الدّین سُبْکی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:میرے خیال میں اولیائے کرام سے جتنی اقسام کی کرامتیں ظاہر ہوئی ہیں ان کی تعداد 100 سے بھی زائد ہے۔(طبقات الشافعیۃ الکبریٰ،2/78)

کراماتِ اولیا کی چند مثالیں: مُردَہ زندہ کرنا، مُردوں سے کلام کرنا، مادَر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دینا، مَشرِق سے مغرب تک ساری زمین ایک قدم میں طے کرجانا، دریا کا پھاڑ دینا،دریا کو خُشک کر دینا، دریا پر چلنا، نباتات سے گفتگو، کم کھانے کا کثیر لوگوں کو کِفایَت کرنا وغیرہ۔

قراٰن سے ثبوت:حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے پاس گرمی کے پھل سردیوں میں اور سردیوں کے پھل گرمی میں موجود ہوتے۔ (تحفۃ المرید،ص363) حضرت زَکَرِیَّا علیہ السَّلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا سے پوچھا:یہ پھل تمہارے پاس کہاں سے آئے؟ تو حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے جواب دیا:یہ اللہ پاک کی طرف سے ہیں چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے:﴿ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَۙ-وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًاۚ-قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَاؕ-قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ ترجمۂ کنزالایمان:جب زکریا اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے اس کے پاس نیا رزق پاتے کہا اے مریم یہ تیرے پاس کہاں سے آیا؟ بولیں وہ اللہ کے پاس سے ہے۔(پ3، اٰل عمرٰن:37)

اصحابِ کہف کا تین سو نو (309) سال تک بغیر کھائے پئے سوئے رہنا بھی (کرامت کی دلیل) ہے۔(تحفۃ المرید،ص363)

حدیث سے ثبوت:کُتُبِ اَحادیث میں کرامات پر بے شمار روایات موجود ہیں، بعض عُلَما و مُحَدِّثِین نے اس موضوع پر مستقل کتابیں تحریر فرمائی ہیں۔ایک روایت ملاحظہ فرمائیے: ہمارے پیارے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے صحابی حضرت عبدُاللہ رضی اللہ عنہ کا علمِ غیب دیکھئے کہ اپنی مَوت، نَوعِیَتِ مَوت، حُسنِ خاتِمَہ وغیرہ سب کی خبر پہلے سے دے دی۔ چنانچہ حضرت سیّدُنا جابِر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب غَزْوَۂ اُحُد ہوا میرے والد نے مجھے رات میں بُلا کر فرمایا: میں اپنے متعلق خیال کرتا ہوں کہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابہ میں پہلا شہید میں ہوں گا۔میرے نزدیک رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد تم سب سے زیادہ پیارے ہو۔ مجھ پر قرض ہے تم ادا کردینا اور اپنی بہنوں کے لئے بھلائی کی وَصِیَّت قبول کرو۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہم نے دیکھا صبح سب سے پہلے شہید وہی تھے۔

(بخاری،1/454،حدیث:1351مختصراً)

امیرُالمؤمنین حضرت سیّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ ایک صالح نوجوان کی قبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: اے فُلاں!اللہ پاک نے وعدہ فرمایا ہے کہ﴿وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ(۴۶)ترجمۂ کنزالایمان:اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جَنّتیں ہیں۔(پ27،الرحمٰن: 46) اے نوجوان!بتا تیرا قبر میں کیا حال ہے؟اس صالح نوجوان نے قبر کے اندر سے آپ کا نام لے کر پکارااوربُلَند آواز سے دو مرتبہ جواب دیا: میرے رب نے مجھے یہ دونوں جنّتیں عطا فرما دیں۔(حجۃ اللہ علی العالمین،ص612)

حضرت سیّدُنا سفینہ رضی اللہ عنہ کی کرامت بھی بہت مشہور ہے کہ یہ رُوم کی سَرزمین میں دورانِ سفر اسلامی لشکر سے بِچَھڑ گئے۔ لشکر کی تلاش میں جارہے تھے کہ اچانک جنگل سے ایک شیر نکل کر ان کے سامنے آگیا۔حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ نے شیر کو مخاطب کر کے کہا: اے شیر! اَنَامَولٰی رَسُولِ اللہِ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم یعنی میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا غلام ہوں، میرا معاملہ اِس اِس طرح ہے۔ یہ سُن کر شیر دُم ہِلاتا ہُوا ان کے پہلو میں آکر کھڑا ہوگیا۔ جب کوئی آواز سنتا تو اُدھر چلا جاتا، پھر آپ کے بَرابَر چلنے لگتا حتّٰی کہ آپ لشکر تک پہنچ گئے پھر شیر واپس چلا گیا۔

(مشکاۃ المصابیح ،2/400،حدیث:5949)

اللہ کریم کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


عاجزی اختیار کرو

Mon, 24 Feb , 2020
4 years ago

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:اِنَّ اللهَ اَوْحٰى اِلَيَّ اَنْ تَوَاضَعُوا حَتّٰى لَا يَفْخَرَ اَحَدٌ عَلَى اَحَدٍیعنی اللہ پاک نے میری طرف وحی فرمائی کہ تم لوگ تواضُع (عاجزی) اختیار کرو یہاں تک کہ کوئی بھی دوسرے پر فَخْر نہ کرے۔(مسلم، ص 1174، حدیث:7210)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث مبارکہ کی شرح میں فرماتے ہیں: یعنی عجز و اِنکسار اختیار کرو تاکہ کوئی مسلمان کسی مسلمان پر تکبّر نہ کرے نہ مال میں نہ نسب و خاندان میں نہ عزت یا جتھہ (طاقت) میں۔(مراٰۃ المناجیح، 6/ 506، 507) مِرْقات میں ہے:کسی پر فَخْر اور ظلم و زیادتی کرنا تکبُّر کے نتیجے میں ہوتا ہے نیز مُتَکَبِّر اپنے آپ کو ہر ایک سے بَرتَر سمجھتا ہے اور کسی کے تابع ہونے کو قُبول نہیں کرتا۔(مرقاۃ المفاتیح،8/635،تحت الحدیث:4898)

عاجزی کی تعریف: لوگوں کی طبیعتوں اور ان کے مقام و مرتبے کے اعتبار سے ان کے لئے نرمی کا پہلو اختیار کرنا اور اپنے آپ کو حقیر و کَمْتَر اور چھوٹا خیال کرنا عاجزی و اِنکساری کہلاتا ہے۔(فیض القدیر، 1/599، تحت الحدیث: 925)

عاجزی کے متعلق 5فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(1)عاجزی اختیار کرو اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھا کرو اللہ کریم کی بارگاہ میں بڑے مرتبے کے حامِل بندے بَن جاؤ گے اور تکبّر سے بھی بَری ہوجاؤ گے۔(کنزالعمال،جزء3، 2/49، حدیث: 5722)

(2)علم سیکھو، علم کے لئے سکینہ (اطمینان) اور وَقار سیکھو اور جس سے علم سیکھواس کے لئے تواضُع اور عاجزی بھی کرو۔(معجمِ اوسط،4/342، حدیث: 6184)

(3)تم پر لازم ہے کہ عاجزی اختیار کرو اور بے شک عاجزی کا اَصْل مقام دل ہے۔(کنز العمال،جزء3، 2/49، حدیث: 5724)

(4)جواپنے مسلمان بھائی کے لئے تواضُع اختیار کرتا ہے اللہ کریم اسے بلندی عطا فرماتا ہے اور جو اُس پر بلندی چاہتا ہے، اللہ پاک اسے پستی میں ڈال دیتا ہے۔(معجمِ اوسط،5/390،حدیث:7711)

(5)مَجلس میں اَدنیٰ جگہ پر بیٹھنا بھی اللہ پاک کے لئے عاجزی کرنا ہے۔

(معجمِ کبیر، 1/114، حدیث: 205)

شہنشاہِ دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اِنکساری

(1)رسولِ پاک صاحبِ لَولاک کے خادِمِ خاص حضرت سیّدُنا اَنَس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مریض کی عیادت فرماتے، جنازے میں تشریف لے جاتے، دَرازگَوش (Donkey) پر سواری فرماتے اور غلاموں (Slaves) کی دعوت بھی قبول فرمایا کرتے تھے۔(شمائل ترمذی،ص190، حدیث: 315)

(2)نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جَو کی روٹی اور پُرانے سالن کی دعوت بھی دی جاتی تو آپ قبول فرمالیتے۔(شمائل ترمذی،ص190، حدیث:316)

(3)حجّۃُ الْوَداع میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک لاکھ سے زائد شمعِ نبوت کے پروانوں کے ساتھ اپنی مقدس زندگی کے آخری حج میں تشریف لے گئے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُونٹنی پر ایک پُرانا پالان تھا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جسمِ انور پر ایک چادر تھی جس کی قیمت چاردرہم کے برابر بھی نہ تھی۔(زرقانی علی المواھب،6/54)

”عاجزی و اِنکساری“ اَسلاف کی نظر میں

(1)اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:عاجزی اختیار کرنا افضل عبادت ہے۔(الزواجر،1/163)

(2)حضرت سیّدُنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: عاجزی یہ ہے کہ جب تم اپنے گھرسے نکلو تو جس مسلمان سے بھی ملو اسے اپنے آپ سے افضل جانو۔(سابقہ حوالہ)

(3)حضرت سیّدُنا فُضَیْل بن عِیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عاجزی یہ ہے کہ تم حق کے آگے جُھک جاؤ اور اس کی پیروی (یعنی اسےFollow) کرو اور اگر تم سب سے بڑے جاہل سے بھی حق بات سنو تو اُسے بھی قبول کرلو۔(سابقہ حوالہ)

(4)حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اصل عاجزی یہ ہے کہ تم دُنیوی نعمتوں میں اپنے آپ سے کمتر کے سامنے بھی عاجزی کا اظہار کرو حتی کہ تم یقین کرلو کہ تمہیں دنیوی اعتبار سے اُس پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور جو شخص دنیوی اعتبار سے تم پر فوقیت رکھتا ہے اپنے آپ کو اس سے بَرتر سمجھو حتی کہ یقین کرلو کہ اُس شخص کو دنیوی اعتبار سے تم پر کوئی فضیلت نہیں۔(احیاء العلوم، 3/419)

عاجزی کے انعام اور تکبّر کے انجام پر 3روایات

(1)رسولِ اکرمصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ معظّم ہے: جس نے اللہ پاک سے ڈرتے ہوئے تواضُع اختیار کی تو اللہ کریم اسے بلندی عطا فرمائے گا، جو خود کو بڑا سمجھتے ہوئے غُرُور کرے تو اللہ جَبّار اسے پَسْت کردے گا۔(کنزالعمال،جزء3، 2/50، حدیث: 5734)

(2) حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:ہر آدمی کے سَر میں ایک لگام ہوتی ہے جسے ایک فِرِشتہ تھامے ہوتا ہے جب وہ تواضُع اختیار کرتا ہے تو اللہ اس لگام کے ذریعے اسے بلند فرما دیتا ہے اور فِرِشتہ کہتا ہے: بلند ہوجا! اللہ تجھے بلند فرمائے۔ اور جب وہ (اَکَڑ کر) اپنا سَر اُوپر اٹھاتا ہے تواللہ اسے زمین کی طرف پھینک دیتا ہے اور فِرِِشتہ کہتا ہے : پَسْت ہو جا! اللہ تجھے پست کرے۔

(معجمِ کبیر، 12/169، حدیث: 12939)

(3) ایک بزرگ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے کوہ ِصَفا کے قریب ایک شخص کو خَچّر پر سوار دیکھا، دو لڑکے اس کے سامنے سے لوگوں کو دُور کر رہے تھے، پھر میں نے اسے بغداد میں دیکھا کہ وہ ننگے پاؤں اور حَسْرَت زَدَہ تھا، اس کے بال بہت بڑھے ہوئے تھے، میں نے اس سے پوچھا: اللہ پاک نے تیرے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ تو اس نے جواب دیا:میں نے ایسی جگہ رِفْعَت چاہی جہاں لوگ عاجزی کرتے ہیں تو اللہ پاک نے مجھے ایسی جگہ رُسوا کر دیا جہاں لوگ رِفْعَت پاتے ہيں۔(الزواجر، 1/164)

پیارے اسلامی بھائیو!ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی زندگی میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی تعلیمات کے مطابق عاجزی و اِنکساری پیدا کریں اور تکبّر کی نَحُوست سے دُور رہیں۔

تُو چھوڑ دے تکبر ہو بھائی میرے عاجز

چھائی ہے اس پہ رحمت کرتا ہے جو تواضُع


رسول ِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک حدیث ِ پاک میں سات قسم کے افراد کے لئے فرمایا کہ یہ شہید ہیں ۔ ان میں سے ایکذَاتُ الجَنْب (یعنی نَمُونِیا میں مبتلا ہو کر مرنے والا ) بھی ہے۔)[1]( حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث میں بیان کردہ بیماری کے متعلّق فرماتے ہیں:جس میں پسلیوں پر پُھنْسیاں نمودار ہوتی ہیں، پسلیوں میں درد اور بُخار ہوتا ہے اکثر کھانسی بھی اُٹھتی ہے ۔)[2](

نَمُونِیا/ذاتُ الجَنْب:یہ ایک ہی بیماری کے دو نام ہیں۔پھیپھڑوں میں انفیکشن ہونےکی وجہ سےسوزش ہوتی ہے جسے نمونیا (Pneumonia) کہا جاتاہے۔ پھیپھڑوں میں وَرَم ہونے کی وجہ سے وہاں ہَوا جانے میں مشکل ہوتی ہے اور مریض کو سانس لینے میں سخت تکلیف ہوتی ہے۔اس کی وجہ سے پھیپھڑوں میں موجود ہوا کی تھیلیاں متأثّر ہوتی ہیں جنہیں Alveoliکہا جاتا ہے۔اس میں کبھی ایک پھیپھڑا متأثّر ہوتا ہے اور کبھی دونوں، سوزِش اکثر پھیپھڑوں کے نچلے حصّے میں ہوتی ہے۔اس مرض میں ہر عمْر کےافراد مُبتَلا ہو سکتے ہیں خاص کر بچّے اور بوڑھے افراد اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ موسمِ سرما میں اس کے خطرات زیادہ بڑھ جاتے ہیں اورنمونیا میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے۔بعض مَمالک میں دودھ پیتےاور پانچ سال سے کم عمر والے بچّوں کی اَمْوات کی بڑی وجہ نمونیا ہے۔ نمونیا کی اقسام اوراسباب:اس کی تین قسمیں ہیں۔(1)بیکٹریل نمونیا (2)وائرل نمونیا(3)فنگل نمونیا۔اس بیماری کے لاحق ہونے کے بہت سے اَسباب (Reasons) ہیں ان میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے: (1)پھیپھڑوں اور سانس کی نالی میں انفیکشن ہونا (2)سردی لگنا (3)کھانسی اور گلا خراب ہونا (4)گیلے کپڑے دیر تک پہنے رہنا (5) دیر تک سرد ہوا میں رہنا (6)سگریٹ اورتمباکو استعمال کرنا (7)ورزش یا کھیل کے بعدسرد گھاس پر لیٹ جانا(8)جانور باندھنےکی جگہ زیادہ دیر تک رہنا(9)نیز دمہ، شوگر،دل کے امراض (Heart Diseases)،خَسْرہ، چیچک، انفلوئزا اورگُردوں میں سوزِش کی وجہ سے بھی نمونیا ہوسکتا ہے۔نمونیا کی علامات:اس کی علامات میں سے(1)نزلہ زکام ہونا(2) کھانسی کے ساتھ بلغم آنا (3)سانس لینے میں دُشواری ہونا (4)تیز بخار،سینہ اور پیٹ میں درد ہونا (5)زیادہ پسینے آنا(6)جِلد کی رنگت کا نیلا پڑ جانا(7)بلڈ پریشر کا کم ہوناوغیرہ۔پانی کی مقدار بڑھائیں:بچّوں کو پانی زیادہ پلانا چاہئے کہ اس سےانفیکشن ٹھیک ہونا شروع ہوجاتا ہےاورصحت میں بہتری آجاتی ہے البتّہ اس صُورت میں بُھوک کم لگتی ہے۔ حفاظتی ٹِیکا:جن بیماریوں سے بچاؤ کے لئے حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں ان میں سے ایک نمونیا بھی ہے۔بچّوں کو حفاظتی ٹیکا لگوانے کے کئی فوائد ہیں کہ نمونیا سمیت دیگر کئی امراض سے حفاظت ہوسکتی ہےبعض لوگ سہولت ہونے کے باوجود بھی اپنے بچّوں کو ٹیکا نہیں لگواتے۔ انہیں چاہئے کہ بچّوں کو ٹیکا ضرورلگوا لیا کریں کہ اس کے ذریعے نمونیا پر قابو پانا ممکن ہوسکتاہے۔حفاظتی ٹیکا نہ لگوانے کے نقصانات:ٹیکا نہ لگوانے کے چار نقصانات ذکر کئے جاتے ہیں:(1)بچّہ کچھ کھا پی نہیں سکتا کیونکہ اس کی ساری توانائی سانس لینے میں صَرف ہو رہی ہوتی ہے (2)بُخار ہو جاتا ہے (3)آکسیجن کی کمی سےپھیپھڑے(Lungs) بھی متأثّر ہوجاتے ہیں(4)دماغ کو آکسیجن نہیں پہنچتی تو دماغ کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔نمونیا والوں کی غذا: نمونیا کے علاج کے بعد مریض بالخصوص بچّے کوپہلے کی نسبت زیادہ اور بہتر خوراک دینی چاہئے کیونکہ نمونیا میں بچّہ کھاتا پیتا نہیں اور جسم کو توانائی چاہئے۔ بہتر یہ ہے کہ مریض کو سبزیاں اور ایسی غذائیں زیادہ دیں جن میں وٹامن A ہوکیونکہ وٹامنAانفیکشن کو درست رکھتاہے۔بعض لوگ بیماری میں بچّوںکو کھانا نہیں کِھلاتے انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے بلکہ کھانا کِھلاناچاہئے۔نمونیا اور ماں کا دودھ:شِیر خوار بچّوں(Infants) کو ماں کادودھ پلائیے کیونکہ ماں کا دودھ بچّے کے لئے اللہ پاک کی بڑی نعمت ہے۔ اس سے بچّے کی صحت بھی اچّھی ہوجاتی ہے اور ماں کےدودھ میں اللہ کریم نے ایسی طاقت رکھی ہے جو نمونیا سمیت دیگر کئی امراض کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بچّوں کی حفاظت کیجئے:والدین بالخصوص ماؤں کو چاہئے کہ ایسی جگہوں پر جہاں دُھواں ہوخصوصاً باورچی خانے وغیرہ میں بچّوں کو لےکر نہ جائیں اور انہیں جانے بھی نہ دیں۔اسی طرح بچّوں کے قریب سگریٹ بھی نہ پی جائے کیونکہ سگریٹ اور دھوئیں سےپھیپھڑوں پر بُرا اثر پڑسکتااور نمونیا ہوسکتاہے۔وقت پر علاج نہ کروانا:بیماری کوئی بھی ہو شروع ہی میں اس کے علاج کا اہتمام کرنا چاہئے،اسی طرح نمونیا کے علاج میں بھی کوتاہی ہرگز نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وقت پر یا مستند ڈاکٹر سےعلاج نہ کروانے سے جان جانے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ نمونیا کا گھریلوعلاج ایک عدد دیسی انڈے کی زردی، 10 تولے شہد یعنی 60گرام اورزعفران دورتّی یعنی ایک گرام کا چوتھائی حصّہ لیجئے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ زعفران کو پِیس کر شہد میں شامل کیجئے پھر انڈے کی ز ردی اس میں ملاکر اچّھی طرح مکس کر لیجئے۔ دن میں تین سے چار بار بچّوں کو دودھ یاپانی کےساتھ آدھی چمّچ دیجئے۔ دو سال سے کم عمْر بچّوں کو چوتھائی چمّچ دیجئے، اِنْ شَآءَ اللہ نمونیا کا خاتمہ ہوجائے گا۔ خودسے اپنا علاج مت کیجئے حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اہلِ عَرَب کو اکثر صَفْراوی بُخار آتے تھے جن میں غسل مُفید ہوتا ہے۔ ہم لوگوں کو ماہرطبیب کے مَشوَرے کے بغیرغسل کے ذَرِیعے بُخار کا علاج نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ ہم غیرِعرب ہیں،ہمیں اکثر وہ بُخار ہوتے ہیں جن میں غسل نقصان دہ ہے، اس سے نمونیا کا خطرہ ہوتا ہے۔ مرقات میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے حدیثِ پاک کا ترجمہ پڑھ کربُخار میں غسل کیا تو اُسے نمونیا ہو گیا اور بڑی مشکل سے اُس کی جان بچی۔)[3](

نوٹ: ہر دوا اپنے طبیب (ڈاکٹریاحکیم)کے مشورے سے استعمال کیجئے۔ اس مضمون کی طبّی تفتیش مجلسِ طبّی علاج (دعوتِ اسلامی) کے ڈاکٹر محمد کامران اسحٰق عطّاری اور حکیم رضوان فردوس عطّاری نے  فرمائی ہے۔



([1])ابوداؤد ،3/252،حدیث:3111

([2])مراٰۃ المناجیح، 2/420

([3])مراٰۃ المناجیح، 2/429،430 ماخوذاً


ان سے تمنا نظر کی ہے

Sat, 22 Feb , 2020
4 years ago

وہ جہنم میں گیا جو اُن سے مُستَغنِی ہوا

ہے خلیلُ اللہ کو حاجت رسولُ اللہ کی([1])

الفاظ ومعانی:مُستَغنِی:بےپروا،بےنیاز۔خلیلُاللہ: حضرت سیِّدُنا ابراہیم علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کا لقب۔ حاجت: ضَرورت۔

شرح:اس شعر میں اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّترحمۃ اللہ علیہ نےبڑی فصاحت کےساتھ ایک حدیثِ پاک اوراسلامی عقیدے کی بہترین ترجُمانی فرمائی ہے۔اللہ پاک نے اپنے محبوبِِ اکبر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دنیا و آخرت میں یہ مقام و اِعزاز عطا فرمایا ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مدد و حمایت سے کوئی مخلوق بےنیاز نہیں،مخلوقات میں سےہر ایک کو رسولِ اعظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حاجت ہے۔تمہیں کو تکتے ہیں سب: رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ ربّ العزّت نے تین خاص دعائیں عطا فرمائیں، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:میں نے(دو تو دنیا میں)عرض کرلیں:اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِاُمَّتِیْ، اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِاُمَّتِیْ! اےاللہ! میری اُمّت کی بخشش فرما، اے خُدا! میری اُمّت کی مغفرت فرما۔وَاَخَّرْتُ الثَّالِثَۃَ لِیَوْمٍ یَرْغَبُ اِلَیَّ الْخَلْقُ کُلُّھُمْ حَتّٰی اِبْرَاھِیْم اور تیسری عرض کو اُس دن (یعنی قیامت کے دن) کے لئے مؤخَّر کردیا جس میں ساری مخلوق میری طرف نیاز مند (حاجت مند) ہوگی یہاں تک کہ ابراہیم علیہ السَّلام بھی۔(مسلم، ص318، حدیث: 1904ملخصاً) حدیثِ پاک کے مطابق قیامت کے دن ساری مخلوق حتّٰی کہ حضرت سیِّدُنا ابراہیم خلیلُ اللہ علیہ السَّلام کو بھی(جوکہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعدسب سے افضل و اعلیٰ ہیں، ان) کو بھی شفیعِ اعظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف رغبت اور حاجت ہو گی۔لہٰذا جب شفیعِ مُعَظَّم، نبیِّ اعظم صلَّی اللہ علیہ واٰ لہٖ وسلَّم کے بعد سب سے افضل و بزرگ ہستی (حضرتِ ابراہیم علیہ السَّلام) کو بھیرسولُاللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حاجت ہے تو ان کےبعد والوں کا کیا پوچھنا! اب بھی اگر مَعَاذَ اللہ! کوئی شفاعتِ مصطفےٰ اور مددِ مجتبیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اپنے آپ کو بےنیاز سمجھے کہ مجھے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حاجت نہیں ہے! تو پھر ایسے (رحمتِ خُداوندی و شفاعتِ مصطَفَوِی سے) محروم شخص کا ٹھکانا جہنم ہی ہوگا کیونکہ شفاعت کا منکِر اس سے محروم رہے گا۔ حدیثِ پاک میں ہے:”میری شفاعت روزِ قیامت حق ہے جو اس پر ایمان نہ لائے گا،اس کےقابل نہ ہوگا۔“(کنز العمال، جز 14، 7/171،حدیث:39053) اَلْعِیاذُ بِاللہ

اسلامی عقیدہ:بہارِ شریعت میں ہے:تمام مخلوق اوّلین و آخرین حُضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی نیاز مند ہے، یہاں تک کہ حضرت ابراہیم خلیلُ اللہ علیہ السَّلام۔(بہارِشریعت،1/69)

مَا و شُما تو کیا کہ خَلیلِ جَلیل کو

کل دیکھنا کہ اُن سے تَمنّا نظرکی ہے

(حدائقِ بخشش،ص223)


([1])یہ شعر اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے نعتیہ دیوان ”حدائقِ بخشش“ سے لیا گیا ہے۔


اجزائے ترکیبی:

٭مچھلی 300 گرام ٭انڈا ایک عدد

٭نمک حسبِ ذائقہ ٭ کٹی ہوئی لال مرچ دو چائے کے چمچ

٭کٹا ہوا دھنیا ایک چائے کا چمچ ٭سفید زیرہ ایک چائے کا چمچ

٭بیسن تین چائے کے چمچ ٭میدہ دو چائے کے چمچ

٭یلو فوڈ کلر ¼ یعنی چوتھائی چمچ

٭مچھلی دھونے کے لئے لیموں کا رس حسبِ ضرورت ٭ادرک لہسن کا پانی ڈیڑھ چمچ

٭اجوائن¼چمچ ٭گرم مسالا ایک چائے کا چمچ۔

ترکیب:

(1)تین سو گرام مچھلی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر لیں۔

(2)برتن میں ڈال کراچھی طرح نمک اور لیمن جوس لگا کر پانی سے دھولیں۔

(3)اس کے بعد مچھلی کو کسی صاف برتن میں ڈال کر اوپر سے انڈا، نمک،کٹی ہوئی لال مرچ ،کٹا ہوا دھنیا،گرم مسالا، بیسن، میدہ، پیلا رنگ، لیموں کا رس، ادرک،لہسن کا پانی اور اجوائن ڈال کراچھی طرح مِکس کرکے پندرہ سے بیس مِنٹ کے لئے رکھ دیں۔ رکھنے کے بعد کڑاہی میں تیل گرم کر کے مسالا لگی مچھلی کو گرم تیل میں ڈال دیں ۔

(4)ہلکابراؤن(Light Brown)ہونے تک فرائی کریں۔

لیجئے!مزیدارفرائیڈ فِش تیار ہے ۔سلاد اور چٹنی کے ساتھ کھائیے اورمہمانوں کو پیش کیجئے۔


قالین (Carpet)رنگ برنگے دیدہ زیب ہوں یا سادےاور ایک رنگ کے، گھر کی خوبصورتی اور زیبائش میں اضافہ ہی کرتے ہیں یہی سوچ رکھتے ہوئے بعض گھروں میں قالین تو بچھا لیا جاتا ہے لیکن اس کی صفائی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی، زیادہ سے زیادہ قالین پر ایک چادر بچھا دی جاتی ہے جس کے اوپر سے ہی اور کبھی کبھار چادر ہٹا کر قالین کے اُوپر سے جھاڑو لگادی جاتی ہے حالانکہ دیگر چیزوں کے مقابلے میں قالین میں دھول مٹّی کئی گُنا زیادہ جذب (Absorb) ہوتی ہے یوں ہی زیادہ عرصہ بِچھے رہنے سے اس میں نمی آ جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ بڑوں بالخصوص بچّوں کی جِلدی بیماریوں کا سبب بنتا ہے لہٰذا وقتاً فوقتاً اس کی مکمل صفائی کرتے رہنا چاہئے۔گھر میں موجود چھوٹے بچّوں کی وجہ سے قالین پر داغ دھبے لگ جاتے ہیں۔ اگر پکّے داغ نہ ہوں تو وہ ڈٹرجنٹ (Detergent) سے آسانی سے صاف ہوجاتے ہیں لیکن بعض داغ سخت اور ضدی ہوتے ہیں جِن کو بسہولت صاف کرنے کے لئے مختلف طریقوں پر عمل کیا جا سکتا ہے۔

قالین کے پکے داغوں کی صفائی اگر قالین قیمتی ہو اور بہت زیادہ پُرانا نہ ہو تو بہتر یہی ہے کہ اُس کی صفائی ڈرائی کلینر (Dry cleaner) سے کروائی جائے، کہیں گھریلو ٹوٹکوں کی وجہ سے خراب نہ ہو جائے اور اگر قیمتی نہیں یا زیادہ پُرانا ہو چکا ہے تو نیچے لکھے ہوئے گھریلو ٹوٹکوں کے ذریعے اس کے داغ دھبّے مٹائے جا سکتے ہیں:(1)داغ پر کچھ دیر کے لئے سِرکہ ڈال دیں جب سوکھ جائے تو اس کو قالین صاف کرنے والی مشین (Vacuum Cleaner) سے صاف کر لیں(2)جِس گھر میں بہت چھوٹے بچےّ ہوں وہاں قالین کو گندگی سے بچانا کافی مشکل ہوتا ہے، کبھی بچے قے (Vomiting) کردیتے ہیں تو کبھی دودھ گِرا دیتے ہیں، اسے صاف کرنے کے لئے بیکنگ سوڈا (Baking soda) اس پر ڈال دیں اور خشک ہونے کے بعد صاف کر لیں داغ کے ساتھ ساتھ بدبُو بھی چلی جائے گی(3) قالین سے چائے یا کافی کے دَھبّے صاف کرنے کے لئے گرم پانی میں سرکہ ملائیں اور اسے دھبوں پر لگادیں اور پھر کچھ دیر بعد ٹشو پیپر سے رگڑ کر صاف کردیں (4)بعض اوقات چیونگم کارپیٹ پر چپک جاتی ہے اس کو صاف کرنے کے لئےآئس کیوبز (Ice cubes) اس پر رگڑیں اور چُھری کی مدد سے آہستہ سے کُھرچ کر ہٹا لیں(5)تیل اور چکنائی کے داغ صاف کرنے کے لئے اس جگہ پر نمک،کھانے کا سوڈا اور مکئی کا آٹا (Corn Flour) ملاکر لگادیں۔ اس مکسچر کو جذب ہونے کا وقت دیں اور پھر کچھ دیر بعد اسے صاف کرلیں۔(6)روشنائی (Ink) سے قالین پر داغ پڑ جائیں تو تھوڑے سے دودھ میں میدہ ملا کر پیسٹ بنا لیں اور داغ پر لگا دیں جب خشک ہو جائے تو برش (Brush) کی مدد سے ہٹا دیں، داغ صاف ہو جائے گا۔(7) پھلوں کے داغ صاف کرنے کے لئے ڈیڑھ چمچ سرکہ میں ایک چمچ واشنگ پاؤڈر مِلا لیں اور اس کو داغ پر لگائیں جب خشک ہوجائے تو اُسے صاف کرلیں۔اِسی طرح مختلف داغوں کی صفائی کے لئے لیموں کا رس، ٹوتھ پیسٹ (Toothpaste) اور ہائیڈروجن پَرآکسائیڈ (Hydrogen Peroxide) کا مکسچر بھی مفید ہے۔


ابتدائے اسلام میں ایمان لاکر مدینۂ مُنوّرہ کی طرف ہجرت کرنے والی صحابیات میں سے ایک خوش نصیب صحابیہ حضرت فاطمہ بنتِ قَیس فِہْریہ قرشیہ رضی اللہ عنھا بھی ہیں۔

مختصر تعارف:آپ کا نام فاطمہ، والدہ کا نام اُمَیْمَہ بنتِ ربیعہ اور والد کا نام قَیْس بن خالد ہے۔آپ بہت حُسن و جمال والی، دانش مند اور صائبُ الرائے خاتون ہیں۔آپ حضرت سیّدنا ضحّاک بن قَیس رضی اللہ عنہ کی بڑی بہن ہیں جو قبیلۂ بنوقیس کے سردار تھے۔آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے: فاطمہ بنتِ قيس بن خالد الاكبر بن وَهب بن ثَعْلَبَہ بن وائِلَہ بن عَمرو بن شَيْبان بن مَحارِب بن فِہْر بن مالك بن نَضْر بن كِنانہ۔([1])

نکاح:صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے اپنی ذاتی حیثیت بالکل فنا کر کےاپنی ذات اور اپنی آل اولاد کورسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےحوالے کردیا تھا۔یہی وجہ ہےکہ جب آپ رضی اللہ عنہا کے پاس نکاح کے پیغامات آئے تو آپ نے اس معاملے کا مالک حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کوبنادیا اور کہا: میرا معاملہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہاتھ میں ہےجس سے چاہیں نکاح فرمادیں۔ چنانچہ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے انہیں حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نکاح کرنے کا مشورہ عنایت فرمایا،آپ نے حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کرتے ہوئے حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا۔ آپ کہا کرتی تھیں کہ اللہ پاک نے اس نکاح میں ایسی برکت عطا فرمائی کہ اس نکاح کی بدولت لوگ مجھ پر رشک کرنے لگے۔([2])

خدمتِ حدیث و احکامِ اسلام کی اِشاعت:٭آپ رضی اللہ عنہا نے حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے 34 اَحادیثِ مُبارکہ روایت کیں ٭آپ سے مَروی روایات احادیثِ مُبارکہ کی مشہور کُتُب صِحاح سِتّہ (یعنی بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، ابنِ ماجہ اور نسائی) میں مذکور ہیں ٭آپ سے کِبار تابعینِ کرام رحمۃ اللہ علیھم نے احادیث روایت کی ہیں جن میں حضرت سَعید بن مُسیّب، عُروہ بن زُبير، اَسود بن يزيد نَخَعی، سُلیمان بن يَسار، عامر شَعْبی، عبدُ الرّحمٰن بن عاصم اور ابوسلمہ بن عبدُ الرّحمٰن جیسی ہستیوں کے نام شامل ہیںرحمۃ اللہ علیھم اجمعین٭طلاق یافتہ عورت کے نان نفقے اور رہائش سے متعلّق احادیث آپ نے روایت کی ہیں ٭ مسلم اور ابو داؤد کی ایک حدیث جو عُلَما میں ”حدیثِ جَسّاسہ“([3])کے نام سے شہرت رکھتی ہے، وہ بھی آپ رضی اللہ عنھا سے مَروی ہے۔([4])

وفات:آپ رضی اللہ عنھاکےسنِ وفات(Death Year) کا تذکرہ سیرت کی کتابوں میں نہیں ملتا البتہ علّامہ محمد بن احمد ذَھَبیرحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا کہ آپ کی وَفات حضرت سیّدنا امیرِ معاویہرضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ہوئی۔([5])



([1])تہذیب الکمال، 11/756،اسد الغابہ،7/248

([2])ابوداؤد، 2/416، حدیث: 2284،نسائی، 6/80،حدیث:3238ملخصاً

([3])یعنی وہ حدیثِ پاک جس میں دجّال سے متعلق احوال مذکور ہیں۔

([4])سیر اعلام النبلا،2/319،تہذیب الکمال،11/755، تہذیب الاسماء واللغات، 2/617

([5])سیر اعلام النبلاء، 2/319


جن خوش نصیبوں  نے اىمان کے ساتھ سرکارِ عالی وقار صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کى صحبت پائى، چاہے یہ صحبت اىک لمحے کے لئے ہی ہو اور پھر اِىمان پر خاتمہ ہوا انہیں صحابی کہا جاتا ہے۔ یوں توتمام ہی صحابۂ کرام رضیَ اللہُ عنہم عادل، متقی ،پرہیز گار، اپنے پیارے آقا صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم پر جان نچھاور کرنے والے اور رضائے الٰہی کی خوش خبری پانےکے ساتھ ساتھ بے شمارفضائل و کمالات رکھتے ہیں لیکن ان مقدس حضرات کی طویل فہرست میں ایک تعداد ان صحابہ رضیَ اللہُ عنہم کی ہے جوایسے فضائل و کمالات رکھتے ہیں جن میں کوئی دوسرا شریک نہیں اور ان میں سرِ فہرست وہ عظیم ہستی ہیں کہ جب حضرت سیّدنا محمد بن حنفیہ رحمۃُ اللہِ علیہ نے اپنے والدِ ماجد حضرت سیّدنا علیُّ المرتضیٰ رضیَ اللہُ عنہ سے پوچھا: رسولُ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے بعد (اس اُمّت کے) لوگوں میں سب سے بہترین شخص کون ہیں؟ تو حضرت سیّدنا علی رضیَ اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا: حضرت ابو بکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ۔([1]) اے عاشقانِ رسول!آئیے حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ کی ذاتِ گرامی سے متعلق چند ایسے فضائل و کمالات پڑھئے جن میں آپ رضیَ اللہُ عنہ لاثانی و بے مثال ہیں۔

(1،2)ثَانِیَ اثْنَیْنِ: اللہ پاک نے آپ رضیَ اللہُ عنہ کیلئےقراٰنِ مجید میں’’صَاحِبِہٖ‘‘یعنی ”نبی کے ساتھی“ اور ”ثَانِیَ اثْنَیْنِ(دو میں سے دوسرا)فرمایا،([2]) یہ فرمان کسی اور کے حصّے میں نہیں آیا۔

(3)نام صِدِّیق: آپ رضیَ اللہُ عنہ کا نام صدیق آپ کے رب نے رکھا،آپ کے علاوہ کسی کا نام صدیق نہ رکھا۔

(4)رفیقِ ہجرت: جب کفّارِ مکّہ کے ظلم و ستم اور تکلیف رَسانی کی وجہ سے نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مکّۂ معظمہ سے ہجرت فرمائی تو آپ رضیَ اللہُ عنہ ہی سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے رفیقِ ہجرت تھے۔

(5)یارِ غار: اسی ہجرت کے موقع پر صرف آپ رضیَ اللہُ عنہ ہی رسولُ اللہصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے یارِ غار رہے۔([3])

(6)صرف ابو بکر کا دروازہ کُھلا رہے گا: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے آخری ایام میں حکم ارشاد فرمایا: مسجد (نبوی) میں کسی کا دروازہ باقی نہ رہے،مگر ابوبکر کادروازہ بند نہ کیا جائے۔([4])

(7)جنّت میں پہلے داخلہ: حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا: جبریلِ امین علیہِ السَّلام میرے پاس آئےاور میرا ہاتھ پکڑ کر جنّت کا وہ دروازہ دکھایاجس سے میری اُمّت جنّت میں داخل ہوگی۔ حضرت سیّدناابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ نے عرض کی: یَارسولَ اللہ!میری یہ خواہش ہے کہ میں بھی اس وقت آپ کے ساتھ ہوتا، تاکہ میں بھی اس دروازے کو دیکھ لیتا۔ رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ابوبکر! میری اُمّت میں سب سےپہلے جنّت میں داخل ہونے والے شخص تم ہی ہوگے۔([5])

(8)تین لُقمے اور تین مبارک بادیں: ایک مرتبہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کھانا تیار کیا اور صحابۂ کرام رضیَ اللہُ عنہمکو بُلایا، سب کو ایک ایک لُقمہ عطا کیا جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ کو تین لُقمے عطا کئے۔ حضرت سیّدنا عباس رضیَ اللہُ عنہ نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا: جب پہلا لقمہ دیا تو حضرت جبرائیل علیہِ السَّلام نے کہا: اے عتیق! تجھے مبارک ہو ،جب دوسرا لقمہ دیا تو حضرت میکائیل علیہِ السَّلام نے کہا: اے رفیق! تجھے مبارک ہو، تیسرا لقمہ دیا تو اللہ کریم نے فرمایا: اے صدیق! تجھے مبارک ہو۔([6])

(9)سب سے افضل: حضرت سیّدنا ابو دَرْدَاء رضیَ اللہُ عنہ کا بیان ہےکہ نبیوں کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ کے آگےچلتے ہوئے دیکھا تو ارشاد فرمایا: کیا تم اس کے آگے چل رہے ہو جو تم سے بہتر ہے۔کیا تم نہیں جانتے کہ نبیوں اور رسولوں کے بعد ابوبکر سے افضل کسی شخص پر نہ تو سورج طلوع ہوااور نہ ہی غروب ہوا۔([7])

(10)گھر کے صحن میں مسجد: ہجرت سے قبل حضرت ابو بکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ نے اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنائی ہوئی تھی چنانچہ حضرت سیّدتنا عائشہ رضیَ اللہُ عنہا فرماتی ہیں: میں نے ہوش سنبھالا تو والدین دینِ اسلام پر عمل کرتے تھے،کوئی دن نہ گزرتا مگر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دن کے دونوں کناروں صبح و شام ہمارے گھر تشریف لاتے۔ پھر حضرت ابوبکر کو خیال آیا کہ وہ اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنالیں، پھر وہ اس میں نماز پڑھتے تھےاور (بلند آواز سے) قراٰنِ مجید پڑھتے تھے،مشرکین کے بیٹے اور ان کی عورتیں سب اس کو سنتے اور تعجب کرتےاور حضرت ابوبکر کی طرف دیکھتے تھے۔([8])

(11)سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والے: پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک مرتبہ یوں ارشاد فرمایا: جس شخص کی صحبت اور مال نے مجھے سب لوگوں سے زیادہ فائدہ پہنچایا وہ ابوبکر ہے اور اگر میں اپنی اُمّت میں سے میں کسی کو خلیل( گہرا دوست) بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن اسلامی اخوت قائم ہے۔([9])

(12)حوضِ کوثر پر رَفاقت: پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک دفعہ حضرت صدیق رضیَ اللہُ عنہ سے فرمایا: تم میرے صاحب ہوحوضِ کوثر پر اور تم میرے صاحب ہو غار میں۔([10])

(13)سب سے زیادہ مہربان: شفیعِ اُمّت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیّدنا جبریلِ امین علیہِ السَّلام سے اِسْتِفْسار فرمایا: میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا؟ تو سیّدنا جبریلِ امین علیہِ السَّلام نے عرض کی: ابو بکر (آپ کے ساتھ ہجرت کریں گے)، وہ آپ کے بعد آپ کی اُمّت کے معاملات سنبھالیں گے اور وہ اُمّت میں سے سب سے افضل اوراُمّت پر سب سے زیادہ مہربان ہیں۔([11])

(14)صدیقِ اکبر کے احسانات: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا بدلہ چُکا دیا ہے، مگر ابوبکر کے مجھ پر وہ احسانات ہیں جن کا بدلہ اللہ پاک اُنہیں روزِ قیامت عطا فرمائے گا۔([12])

(15)خاص تجلّی: پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غارِ ثور تشریف لے جانے لگے تو حضرت ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ نے اُونٹنی پیش کرتے ہوئے عرض کی: یا رسولَ اللہ!اس پر سوار ہوجائیے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سوار ہوگئے پھر آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ کی طرف متوجہ ہوکر ارشاد فرمایا: اے ابوبکر! اللہ پاک تمہیں رضوانِ اکبر عطا فرمائے۔ عرض کی: وہ کیا ہے؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک تمام بندوں پر عام تجلّی اور تم پر خاص تجلّی فرمائے گا۔([13])

وصال و مدفن:آپ رضی اللہ عنہ کا وصال 22 جُمادَی الاخریٰ 13ھ شب سہ شنبہ (یعنی پیر اور منگل کی درمیانی رات) مدینۂ منورہ (میں) مغرب و عشاء کے درمیان تریسٹھ (63) سال کی عمر میں ہوا۔ حضرت سیّدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی([14]) اور آپ رضی اللہ عنہ کوپیارے آقاصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پہلو میں دفن کیا گیا۔([15])اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم



([1])بخاری، 2/522، حدیث:36717

([2])پ10، التوبۃ:40

([3])تاریخ الخلفاء، ص: 46ملتقطاً

([4])بخاری، 1/177، حدیث:466،تفہیم البخاری، 1/818

([5])ابو داؤد، 4/280،حدیث:4652

([6])الحاوی للفتاویٰ، 2/51

([7])فضائل الخلفاء لابی نعیم، ص38، حدیث:10

([8])بخاری، 1/180، حدیث:476،تفہیم البخاری، 1/829

([9])بخاری، 2/591، حدیث: 3904

([10])ترمذی، 5/378، حدیث:3690

([11])جمع الجوامع، 11/39، حدیث:160

([12])ترمذی،5/374، حدیث:3681

([13])الریاض النضرۃ، 1/166

([14])کتاب العقائد، ص43

([15])طبقاتِ ابن سعد،3/157


بن بلائے مہمان

Sun, 16 Feb , 2020
4 years ago

سائیڈ پہ ہٹ جاؤ! میں نےاب تمہاری پٹائی کر دینی ہے، اُمِّ بلال روٹیاں پکانے میں مصروف تھی اور چھوٹی بیٹی اَرْویٰ اس کا دوپٹہ پکڑے کھڑی تھی اور ضد کررہی تھی:امی! میں بھی روٹی پکاؤں گی۔ابھی اس کی ضدختم نہ ہوئی تھی کہ اندر سے چھوٹے بیٹے کے رونے کی آواز آئی، اَرْویٰ ! جاؤ! چھوٹے بھائی کو چُپ کرواؤ، میں آتی ہوں، لیکن اَرْویٰ ٹَس سے مَس نہیں ہوئی۔ سارا دن گھر کے کام ہی ختم نہیں ہوتے، بچے تو دوگھڑی سکون کا سانس بھی نہیں لینے دیتے!آج اِن کے ابو آتے ہیں تو کہتی ہوں کہ ہمیں کچھ دن کے لئے میرے بھائی کے گھر چھوڑ آئیں، اُمِّ بلال نےپریشان ہوکر سوچا۔

کل آپ ہمیں ارویٰ کے ماموں کے گھر چھوڑ آئیے گا، رات کے کھانے کے بعد سلیم صاحب کو چائے پیش کرتے ہوئے اُمِّ بلال نے کہا۔کتنے دن کا ارادہ ہے؟ سلیم صاحب نے پوچھا۔ یہی کوئی ہفتہ، دس دن۔ٹھیک ہے،سلیم صاحب نے چائے کا گھونٹ بھر کر جواب دیا۔

اُمِّ عاتکہ بچوں کو اسکول بھیج کر گھر کی صفائی ستھرائی میں مشغول تھی کہ ڈور بیل کی آوازسنائی دی، کون ہے؟

بھابی! میں ہوں اُمِّ بلال ۔

اپنی چھوٹی نند کی آواز پہچان کر اُمِّ عاتکہ نے دروازہ کھول دیا۔

ارے آپ لوگ! آنے سے پہلے خبر تو دی ہوتی، امِّ عاتکہ نے اُمِّ بلال کےسلام کا جواب دینے کے بعد اس سے گلے ملتے ہوئے کہا۔

بس ہم نے سوچا آپ کو سرپرائز دیتے ہیں، بھائی اور آپ سے ملے ہوئے بھی تو کافی دن ہو گئے تھے، آپ لوگوں کو تو ہماری یاد آتی نہیں تو ہم ہی ملنے آ گئے، اُمِّ بلال نے جواباً کہا۔

بہت ا چھا کیا تم نے، میں تو بچوں کے اسکول کی وجہ سے کہیں آ جا بھی نہیں سکتی، چلو آپ آرام سے بیٹھو میں چائےبنا کر لاتی ہوں۔

اُمِّ بلال کو بھائی کے گھر آئے ہفتہ گزر چکا تھا، نہ کھانا پکانے کی جھنجٹ نہ گھر کے کاموں کی ٹینشن، سارا دن بھابی خاطر تواضع میں مگن رہتیں تو شام کے وقت بھائی صاحب آکر بہن اور بھانجا بھانجی کے خوب ناز اٹھاتے، دن کے دس بجے ناشتے سے فارغ ہو کر اُمِّ بلال بیسن پر ہاتھ دھو رہی تھی کہ اَرْویٰ کی آواز آئی: امی ،امی!بڑی خالہ کا فون آیا ہے۔

اِدھر لاؤ بیٹی،السلام علیکم!باجی کیسی ہیں آپ؟

میں ٹھیک ہوں، آپ سُناؤ! کہاں مصروف ہو، اتنے دنوں

سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟ باجی نے آگے سے کہا۔

ارے مت پوچھئے باجی، ہم تو بڑے مزے میں ہیں ، خوب عیش ہورہے ہیں ، ایک ہفتہ ہو گیا یاسر بھائی کے گھر ٹھہرے ہوئے ہیں، اُمِّ بلال نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔

ایک ہفتہ !! باجی نے زور دیتے ہوئے کہا، کچھ تو خیال کرو بہن! کسی پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتے۔

نہیں باجی، بھابھی اور بھائی تو بہت خوش ہیں بالکل بھی تنگ نہیں ہو رہے،میرا اور بچوں کا خوب خیال رکھ رہے ہیں۔

باجی سمجھانے لگیں :میری بہن! مُرَوَّت اور لحاظ بھی کوئی چیز ہوتی ہے، اب وہ آپ کو خود تو

نہیں کہیں گے کہ چلے جاؤ، آخر مہمان کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں!

ارے باجی آپ بھی پتا نہیں کیا کیا سوچ لیتی ہیں! مہمان نوازی کے آداب تو سُنے تھے یہ ’’مہمان کے آداب ‘‘آپ پتا نہیں کہاں سے نکال لائیں!

دیکھو بہن!خود ہمارے گھر کوئی دو سے تین دن رہنے آجائے تو ہم کتنے پریشان ہو جاتے ہیں، گھریلو ٹائم ٹیبل کے ساتھ ساتھ ماہانہ بجٹ بھی خطرے میں دکھائی دیتا ہے تو دوسروں کے بارے میں کیا خیال ہے آخر وہ بھی تو اسی دنیا میں رہتے ہیں، یہ مسائل انہیں بھی تو درپیش ہو سکتے ہیں،اور مہمان کے آداب میری اپنی سوچ نہیں ہیں ہمارا اسلام ہمیں اس کی تعلیم دیتا ہےسنو!ہما رے پیارےآقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے:مہمانی ایک دِن رات ہےاور دعوت تین دِن ہے، اس کے بعد صدقہ ہے، مہمان کو حلال نہیں کہ اس کے پاس ٹھہرا رہے،حتّٰی کہ اسے تنگ کر دے۔( مشکاۃ المصابیح، 2/101، حدیث:4244)بڑی بہن ہونے کے ناطے میرا سمجھانا ضروری تھا، آگے تمہاری مرضی، اچھا فون رکھتی ہوں۔

باجی کے الوداعی سلام کا جواب دیتے ہوئے اُمِّ بلال سوچ رہی تھی کہ اَرْویٰ کے ابو کو فون کر کے بولتی ہوں، آج دفتر سے چھٹی کے بعد ہمیں لینے آ جائیں۔


عموماً بچّے امتحانات (Exams) کو بہت سنجیدہ لیتے ہیں، بہت شرارتی بچے بھی امتحانات قریب آتے ہی ساری شوخیاں بُھول کر کتابیں کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور محنتی بچے تو ان دنوں گویا کہ کھانا پینا ہی بھول جاتے ہیں۔ امتحانات کی اہمیت اپنی جگہ لیکن بچوں کی شگفتگی اورخوشیاں بھی اہم ہیں۔ لہٰذا امتحانات کے دنوں میں والدین کو چاہئے کہ بچّوں کی جسمانی اور ذہنی نشو و نَما کا خاص خیال رکھیں۔جہاں تک بات ہے امتحانات کی تیاری کی تو اس معاملے میں بھی سب کچھ ٹیچرز پر ڈال کر خود کو بری الذِمّہ نہ سمجھیں بلکہ امتحانات کی تیاری میں خود بھی بچّوں کی مدد کریں۔ذیل میں چھ ایسے نِکات(Points) پیش کئے جارہے ہیں جن پر عمل کرکے آپ امتحانات کی تیاری میں بچّوں کی مدد کرسکتے ہیں۔

(1)ذہنی سکون و حوصلہ دیں:ہمارےتعلیمی نظام اور معاشرتی رویّے نے امتحانات کے معاملے میں بچوں کو بہت حَسّاس بنا دیا ہے اور امتحانات کے سبب وہ ذہنی دباؤ (Depression) کا شکار بھی ہوجاتے ہیں، ایسی صورتِ حال میں امتحانات کی تیاری کرنا انتہائی دشوار ہوتا ہے لہٰذا آپ کو چاہئے کہ انہیں پُرسکون کریں، حوصلہ دیں اور امتحانات کی تیاری میں درپیش مسائل پر بچّوں سے بات کریں اور انہیں حل کریں، یوں بچّے آپ کی دل چسپی اور تعاوُن کا اِحساس کرنے لگیں گے اور یہی احساس انہیں ذہنی سکون فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مزید محنت پر اُبھارے گا۔

(2)شیڈول بنائیں:بچّوں کے ساتھ مِل جُل کر اس طرح کا ٹائم ٹیبل بنائیں جس پر وہ بھی آسانی سے عمل کرکےامتحانات کی تیاری کرسکیں اور آپ کے معمولات بھی متأثِّر نہ ہوں نیز حتَّی الْاِمکان صبح کے وقت کو ترجیح دیں۔

(3)چھٹیوں کی وجہ سے رہ جانے والا کام: بعض اوقات اسکول سے غیر حاضری کی صورت میں بچوں کا کچھ کام ادھورا (نامکمل) رہ جاتا ہے جسے بچّے کسی مجبوری یا غفلت کی وجہ سے پورا نہیں کرپاتے، کوشش کرکے پہلے ان کاموں کو خود یا اپنے بچّے کے ساتھی طالبِ علم (Class fellow) کی کاپی لے کر مکمل کروائیں تاکہ امتحانات کی تیاری میں کسی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔

(4)مضامین کی تقسیم کاری:تمام مضامین (Subjects) کو برابر اہمیت دیں،کسی مضمون کو آسان سمجھ کر اس کی تیاری میں کوتاہی مت کرنے دیں اور اس طرح سے سمجھائیں کہ بیٹا! ممکن ہے کہ جس مضمون کو آپ آسان سمجھ رہے ہو اس کا سوالیہ پرچہ(Question Paper)آپ کی امید کے خلاف ہو اور کمرۂ امتحان(Examination Hall) میں آپ کو پریشان کردے۔ ہاں جن مضامین کو مشکل سمجھا جاتا ہے ان کی تیاری کو اِضافی وقت دیں اور انہیں بار بار دہرائیں تاکہ بعد میں بھول نہ جائیں۔

(5)کتاب کی تقسیم کاری:نصابی کتاب کے تین حصّے کر لیجئے (1)جسے بچّے کے اساتذہ (Teachers) نے اہم قرار دیا ہے (2)جس کے پیپر میں آنے کی امید ہو، ان دو حصوں کی تیاری کرنے کی صورت میں بچّے کے امتحان میں کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں (3)جس کا پیپر میں آنا بعید (دور) ہو، پہلے دو حصوں کے ساتھ ساتھ اس حصّے کی بھی تیاری کروائی جائے،بعض اوقات اسی کی دہرائی(Repeat)بھی پوزیشن پانے کا سبب بن جاتی ہے۔

(6)یاد کرنے کا انداز:بچّوں کو رٹّا (Cramming) لگوانے سے بچئے، اسباق کو سمجھ کر توجُّہ کے ساتھ پڑھنے اور یاد کرنے کو ان پر لازم کریں نیز اہم پیراگراف کو بِالکل مختصر اور پوائنٹس کی صورت میں لکھوائیں کہ کئی بار سرسری نظر کرنے کی بجائے ایک بار لکھ کر یاد کر لینا زیادہ بہتر ہوتا ہے کیونکہ لکھتے وقت دماغ حاضر رکھنا پڑتا ہے اور لکھا ہوا سبق دماغ میں نسبتاً زیادہ محفوظ رہتا ہے۔

اہم بات:دنیوی امتحانات کی مصروفیت میں اپنے بچوں کو اُخْرَوِی امتحان سے غافل مت ہونے دیں، ان ایّام میں بھی تاکید کرکے انہیں نماز پڑھواتے رہیں،اللہ پاک کی بارگاہ میں دینی و دنیوی ہر امتحان میں کامیابی کی دعا مانگتے رہنے کی ترغیب بھی دیتے رہیں۔مزید راہ نُمائی حاصل کرنے کے لئے مکتبۃُ المدینہ سے چھپی ہوئی کتاب ”امتحان کی تیاری کیسے کریں؟“ کا مطالعہ فرمائیں۔

ساس کی خدمت

Thu, 13 Feb , 2020
4 years ago

بہو!!! ایک کپ چائے تو بنا دو۔

زینب کی شادی کو 6 ہی مہینے ہوئے تھے، سسرال میں صرف ساس تھی، چاروں نندیں شادی شدہ تھیں لیکن ایک تو لااُبالی طبیعت، اوپر سے معاشرے کا اثرتھا کہ اسے وہ بھی بوجھ لگتی تھیں، ابھی بھی بڑے مزے سے موبائل پر کسی سہیلی سے چیٹنگ میں مصرو ف تھی کہ ساس کی فرمائش نے سارا مزہ کِرکِرا کر دیا تھا۔ غصّے سے اٹھی اور موبائل ہاتھ میں پکڑے ہی کچن میں چلی آئی۔چائے کے لئے پانی چولہے پر رکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ پتا نہیں کب اِن سے جان چھوٹے گی، ملازمہ سمجھ رکھا ہےمجھے۔

ساس کو چائے دے کر باہر آئی تو یاسر کی کال آگئی، آج رات کوئی مہمان آ رہے ہیں،اسپیشل ڈشز بنانے کا کہہ کر یاسر نے تو فون بند کر دیا تھا لیکن زینب پر جھنجلاہٹ طاری ہو چکی تھی، اندر سےعطیّہ بیگم نے کپ اٹھانے کا کہا تو غصے سے بڑبڑانے لگی: سارا دن انہی کے کام کرتے رہو، یہ لا دو، یہ اٹھا لو، یہ پکا دو۔

آواز زیادہ اونچی تو نہیں تھی لیکن اتنی ضرور تھی کہ عطیّہ بیگم کے کانوں تک پہنچ ہی گئی جسے سن کر وہ دل ہی دل میں دعا کر رہی تھیں کہ اللہ پاک بندے کوکبھی کسی کا محتاج نہ بنائے، کمر درد نے تو مجھے بستر سے ہی لگا دیا ہے، کہاں میں پانچ پانچ بچوں کو اکیلے پالنے والی؟ اور کہاں اب چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے بھی بہو کی محتاج ؟ کتنی کوششوں سے میں نے اکلوتے بیٹے کے لئے رشتہ تلاش کیا تھا، بہت سے رشتے ٹھکرا کر اعلیٰ تعلیم یافتہ بہو تو مل گئی تھی لیکن اب احساس ہوتا ہے کہ تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ ہونے میں فرق ہے، شاید میری ترجیحات ہی غلط تھیں۔

السلام علیکم امی جان! یاسر کی آواز پر عطیّہ بیگم کی سوچوں کی تان ٹوٹ گئی تھی۔وعلیکم السلام بیٹا! آ گئے آفس سے، کپڑے چینج کر کے بہو کا ہاتھ بٹا دو، اکیلی جان کیاکیاکرے گی!

بہتر امّی جان!اتنا کہہ کر یاسر اپنے کمرے کی طرف بڑھا اور فریش ہو کر کچن میں گیا: بھئی کتنی دیر ہے؟ بڑے زوروں کی بھوک لگی ہے، مہمان بھی پہنچنے والے ہوں گے۔

کھانا تیار ہو چکا ہے، بس امی جان کی فرمائشوں سے فرصت مل

جائے، زینب نے جواب دیا۔

فرمائشوں سے کیا مطلب ہے بیگم صاحبہ؟ ایک سُوپ ہی تو اضافی بنواتی ہیں وہ بس!

انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں جناب! آپ تو شام کو آتے

ہیں، سارا دن تو گھر پر میں ہوتی ہوں، کپڑے دھو دو، دوائی لادو، دوائی

کھانی ہے تو دودھ گرم کر دو، تھک گئی ہوں میں یہ سب کرتے کرتے، اپنے لئے بھی ٹائم نہیں مل پاتا مجھے!

بس کر جائیں بیگم صاحبہ! یاسر نے بیچ میں ہی زینب کو ٹوک دیا

ورنہ وہ تو ابھی مزید بولنا چاہ رہی تھی، اگر امّی جان کے کچھ کام ہمیں کرنا پڑ جائیں تو اس میں شکایت کیسی! آخر وہ ہماری ماں ہیں، ہمارا حق

ہے ان کی خدمت کریں اور ان کو کسی کمی کا احساس نہ ہونے دیں۔

جناب!وہ میری نہیں صرف آپ کی ماں ہیں،ان کی خدمت میرا نہیں آپ کا حق ہے، ویسے بھی بہو پر ساس سسر کی خدمت کرنا فرض نہیں ہے، زینب نے آگے سے جواب دیا۔

اتنے میں ڈور بیل کی آواز سنائی دی، یاسر نے دل ہی دل میں خدا

کا شکر ادا کیا اور کہا: آپ کا ساس نامہ ختم ہو گیا ہو تو میں مہمانوں کو بٹھا

آؤں، یقیناً وہی ہوں گے۔

کھانے کے بعد یاسر عشا کی نماز پڑھنے چلا گیا، سنّتیں ادا کرنے کے بعد وہیں گم صُم بیٹھا تھا کہ کسی نے کندھا ہلایا، اوپر دیکھا تو امام صاحب کھڑے تھے، یاسر فوراً کھڑا ہو گیا اور امام صاحب سے مصافحہ کیاتو وہ کہنے لگے:خیریت یاسر بیٹا! بڑی گہری سوچ میں گم تھے۔

امام صاحب کو اس مسجد میں دس سال سے زیادہ عرصہ بِیت چکا تھا، اپنے ہر نمازی کو نہ صرف نام سے جانتے تھے بلکہ ہر ایک کی خوشی غمی میں بھی شریک ہوتے، اسی لئے نمازی بھی اپنے معاملات میں ان سے صلاح مشورہ لیا کرتے تھے۔امام صاحب کے خیر خیریت پوچھنے پر یاسرنے انہیں اپنی پریشانی بتائی اور مشورہ مانگا کہ میں اس مسئلے کو کس طرح حل کروں؟

امام صاحب کہنے لگے: یاسر بیٹا! کہہ تو وہ ٹھیک رہی ہیں لیکن ہمارامسئلہ یہ ہے کہ ذمہ داریوں کی بات آئے تو ہمیں فرض واجب یا د آ جاتے ہیں اور حقوق لینے ہوں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا، پھر امام صاحب نے اسے حکمت بھرا مشورہ دیا جسے سن کر یاسرمطمئن ہو کر گھر آ گیا۔

یاسر اگلے روز آفس میں تھا کہ زینب کی کال آئی: سنئے! آج جلدی گھر آئیے گا، سیل لگی ہے، میں نے سوٹ لینے جانا ہے۔ بیگم صاحبہ کی فرمائش پر یاسر کو امام صاحب کا مشورہ یاد آگیا اس نے نرمی سے جواب دیا: ابھی پچھلے ماہ ہی تو نیا سوٹ دلوایا تھا، وہ کہاں گیا؟

کیا ہو گیا ہے آپ کو! آپ کب سےپچھلے سوٹوں کا حساب رکھنے

لگے؟

سنئے محترمہ! ہر سیل سے سوٹ خریدنا کوئی لازمی تھوڑی ہے، اچھا

میں فون رکھتا ہوں، کلائنٹ میرااِنتظار کر رہا ہے۔

کال تو کٹ چکی تھی لیکن زینب وہیں بیٹھی فون کو گُھورے جارہی تھی۔

شام کے وقت یاسر گھر آیا تو ایسے نارمل تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں! خیر،کھانے وغیرہ سے فارغ ہوا تو زینب پھر سےسوٹ کی بات لے کر بیٹھ گئی، سنئے!دو مہینے بعد میری بھانجی کی شادی بھی ہے، تب بھی تو سوٹ لینے پڑیں گے اس لئے کہہ رہی ہوں کہ ابھی سیل سے لے لیتی ہوں۔

یاسر نے نرمی سے جواب دیا: کوئی ضرورت نہیں ہے شادی پر جانے کی! گھر پہ رہو خود کو ٹائم دو اور۔۔۔

یہ آپ نے کیا صبح سے ’’لازمی نہیں، ضروری نہیں‘‘ کی رَٹ لگا رکھی ہے؟ زینب نے غصے سے یاسر کی بات بیچ میں ہی کاٹ دی، ٹھیک ہے ہر بات لازمی نہیں ہوتی لیکن اخلاقیات اور معاشرتی تقاضے بھی کوئی چیز ہوتے ہیں ،بھانجی کی شادی پر اس کی سگی خالہ ہی غائب ہو تو کیا کہیں گے لوگ کہ بھانجی کے لئے بھی خالہ کے پاس وقت نہیں تھا؟

دیکھیں بیگم صاحبہ! یاسر نے مسکراتے ہوئے کہا: آپ کی ”ساس کی خدمت بہو پر فرض نہیں ہے“ والی بات سن کر میں نے غور کیا تو احساس ہوا آپ سچ کہہ رہی تھیں، واقعی میں نے آپ کے ساتھ غلط کیا تھا، لیکن!اتنا کہہ کریاسر سانس لینے کے لئے رکا تو زینب انہیں پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔

یاسر نے دوبارہ کہنا شروع کیا :لیکن! آئندہ ہمیں اپنے باقی معاملات میں بھی یہی معیار اپنانا ہوگاکہ ایک دوسرے سے صرف فرض کاموں کا مطالبہ کریں گے، میں آپ سے والدہ کی خدمت کا نہیں بولوں گا تو آپ بھی چھ ماہ سے پہلے مجھ سے نئے سوٹ کا مطالبہ نہیں کریں گی کیونکہ شوہر پر ہر چھ مہینے میں بیوی کو ایک نیا سوٹ دلانا واجب ہے، ایک سال سے پہلے بہن، بھائیوں سے ملنے کی ضد نہیں کریں گی کیونکہ یہی بیوی کا حق ہے،ہم دونوں اخلاقی معاملات کو چھوڑ دیتے ہیں، آپ بھی وہ کام کریں جو آپ پر فرض ہیں اور میں بھی وہ

کام کروں جو مجھ پر فرض ہیں ، ٹھیک ہے، اب تو خوش ہیں ناں؟

یاسر کی باتیں سن کر زینب دل ہی دل میں اپنے سلوک (behaviour) پر شرمندہ تھی اور سوچ رہی تھی کہ ہر چیزکو فرض و واجب کی نظر سے نہیں دیکھتے، اخلاقیات اور معاشرتی زندگی کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں،خصوصاًگھریلو زندگی میں خوشی بھرنے کے لئے تو قدم قدم پر اس اصول کو اپنانے کی حاجت ہے۔

زینب کے چہرے پر چھائی شرمندگی بتا رہی تھی کہ اسے اپنے نامناسب سلوک کا احساس ہو چکا ہےاور یاسر اسے دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ کل آفس سے واپسی پر اسے نیا سوٹ دِلا دوں گا۔