ابتدائے
اسلام میں ایمان لاکر مدینۂ مُنوّرہ کی طرف ہجرت کرنے والی صحابیات میں سے ایک
خوش نصیب صحابیہ حضرت فاطمہ بنتِ قَیس فِہْریہ قرشیہ رضی
اللہ عنھا بھی ہیں۔
مختصر تعارف:آپ کا نام فاطمہ، والدہ کا نام اُمَیْمَہ
بنتِ ربیعہ اور والد کا نام قَیْس بن خالد ہے۔آپ بہت حُسن و جمال والی، دانش مند اور
صائبُ الرائے خاتون ہیں۔آپ حضرت سیّدنا ضحّاک بن قَیس رضی
اللہ عنہ کی بڑی بہن ہیں جو قبیلۂ بنوقیس کے سردار تھے۔آپ کا سلسلۂ
نسب اس طرح ہے: فاطمہ بنتِ قيس بن خالد الاكبر بن وَهب بن ثَعْلَبَہ بن وائِلَہ بن
عَمرو بن شَيْبان بن مَحارِب بن فِہْر
بن مالك بن نَضْر بن كِنانہ۔([1])
نکاح:صحابۂ کرام رضی
اللہ عنھم نے اپنی ذاتی حیثیت
بالکل فنا کر کےاپنی ذات اور اپنی آل اولاد کورسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےحوالے کردیا تھا۔یہی وجہ ہےکہ جب آپ
رضی اللہ عنہا کے پاس نکاح کے پیغامات آئے تو آپ نے اس معاملے کا مالک حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کوبنادیا اور کہا: میرا معاملہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہاتھ میں ہےجس سے چاہیں نکاح فرمادیں۔
چنانچہ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّمنے انہیں حضرت اُسامہ بن زید رضی
اللہ عنہ سے نکاح کرنے کا مشورہ عنایت فرمایا،آپ نے حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کرتے ہوئے حضرت اُسامہ بن زید
رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا۔ آپ کہا
کرتی تھیں کہ اللہ پاک نے اس
نکاح میں ایسی برکت عطا فرمائی کہ اس نکاح کی بدولت لوگ مجھ پر رشک کرنے لگے۔([2])
خدمتِ حدیث و احکامِ اسلام کی اِشاعت:٭آپ رضی اللہ عنہا نے حضور نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے 34 اَحادیثِ مُبارکہ روایت کیں ٭آپ
سے مَروی روایات احادیثِ مُبارکہ کی مشہور کُتُب صِحاح سِتّہ (یعنی
بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، ابنِ ماجہ اور نسائی) میں مذکور ہیں
٭آپ سے کِبار تابعینِ کرام رحمۃ اللہ علیھم نے احادیث روایت کی ہیں جن میں حضرت سَعید بن مُسیّب،
عُروہ بن زُبير، اَسود بن يزيد نَخَعی، سُلیمان
بن يَسار، عامر شَعْبی، عبدُ
الرّحمٰن بن عاصم اور ابوسلمہ بن عبدُ الرّحمٰن
جیسی ہستیوں کے نام شامل ہیںرحمۃ اللہ علیھم اجمعین٭طلاق یافتہ
عورت کے نان نفقے اور رہائش سے متعلّق احادیث آپ نے روایت کی ہیں ٭ مسلم اور ابو
داؤد کی ایک حدیث جو عُلَما میں ”حدیثِ جَسّاسہ“([3])کے
نام سے شہرت
رکھتی ہے، وہ بھی آپ رضی اللہ عنھا سے مَروی ہے۔([4])
وفات:آپ رضی
اللہ عنھاکےسنِ وفات(Death Year) کا تذکرہ سیرت کی کتابوں میں نہیں ملتا البتہ علّامہ
محمد بن احمد ذَھَبیرحمۃ اللہ علیہ نے
ذکر کیا کہ آپ کی وَفات حضرت سیّدنا امیرِ معاویہرضی
اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ہوئی۔([5])
جن خوش نصیبوں نے اىمان کے ساتھ سرکارِ عالی وقار صلَّی
اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کى صحبت پائى، چاہے
یہ صحبت اىک لمحے کے لئے ہی ہو اور پھر اِىمان پر خاتمہ ہوا انہیں صحابی کہا جاتا
ہے۔ یوں توتمام ہی صحابۂ کرام رضیَ
اللہُ عنہم عادل، متقی ،پرہیز گار، اپنے پیارے آقا صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم پر جان نچھاور کرنے والے اور رضائے الٰہی کی خوش خبری
پانےکے ساتھ ساتھ بے شمارفضائل و کمالات
رکھتے ہیں لیکن ان مقدس حضرات کی طویل
فہرست میں ایک تعداد ان صحابہ رضیَ اللہُ عنہم کی ہے جوایسے فضائل و کمالات رکھتے ہیں جن میں کوئی
دوسرا شریک نہیں اور ان میں سرِ فہرست وہ
عظیم ہستی ہیں کہ جب حضرت سیّدنا محمد بن حنفیہ رحمۃُ اللہِ علیہ نے اپنے والدِ ماجد حضرت سیّدنا علیُّ المرتضیٰ رضیَ اللہُ عنہ سے پوچھا: رسولُ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے بعد (اس اُمّت کے) لوگوں میں سب سے بہترین شخص کون ہیں؟ تو حضرت سیّدنا
علی رضیَ اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا: حضرت ابو بکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ۔([1]) اے عاشقانِ رسول!آئیے
حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضیَ
اللہُ عنہ کی ذاتِ گرامی سے متعلق چند ایسے فضائل و کمالات پڑھئے جن
میں آپ رضیَ اللہُ عنہ لاثانی و بے مثال ہیں۔
(1،2)ثَانِیَ اثْنَیْنِ: اللہ پاک نے آپ رضیَ اللہُ عنہ کیلئےقراٰنِ مجید میں’’صَاحِبِہٖ‘‘یعنی ”نبی کے
ساتھی“ اور ”ثَانِیَ اثْنَیْنِ“(دو میں سے دوسرا)فرمایا،([2]) یہ فرمان کسی اور کے
حصّے میں نہیں آیا۔
(3)نام صِدِّیق: آپ رضیَ اللہُ عنہ کا نام صدیق آپ کے
رب نے رکھا،آپ کے علاوہ کسی کا نام صدیق نہ رکھا۔
(4)رفیقِ ہجرت: جب کفّارِ مکّہ کے ظلم و ستم اور تکلیف
رَسانی کی وجہ سے نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مکّۂ
معظمہ سے ہجرت فرمائی تو آپ رضیَ
اللہُ عنہ ہی سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے رفیقِ ہجرت تھے۔
(5)یارِ غار: اسی ہجرت کے موقع پر صرف آپ رضیَ اللہُ عنہ ہی رسولُ اللہصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے یارِ غار رہے۔([3])
(6)صرف
ابو بکر کا دروازہ کُھلا رہے گا: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے آخری ایام
میں حکم ارشاد فرمایا: مسجد (نبوی) میں کسی کا دروازہ باقی نہ رہے،مگر ابوبکر کادروازہ بند
نہ کیا جائے۔([4])
(7)جنّت میں پہلے داخلہ: حضورِ اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا:
جبریلِ امین علیہِ السَّلام میرے پاس آئےاور میرا ہاتھ پکڑ کر جنّت کا وہ دروازہ
دکھایاجس سے میری اُمّت جنّت میں داخل ہوگی۔ حضرت سیّدناابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ نے عرض کی: یَارسولَ اللہ!میری یہ خواہش ہے کہ میں بھی اس وقت آپ کے ساتھ ہوتا، تاکہ
میں بھی اس دروازے کو دیکھ لیتا۔ رحمتِ عالَم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ابوبکر! میری اُمّت میں
سب سےپہلے جنّت میں داخل ہونے والے شخص تم ہی ہوگے۔([5])
(8)تین لُقمے اور تین مبارک بادیں: ایک مرتبہ نبیِّ
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کھانا تیار کیا اور صحابۂ کرام رضیَ
اللہُ عنہمکو بُلایا، سب کو ایک ایک لُقمہ عطا کیا جبکہ حضرت ابو بکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ کو تین لُقمے عطا کئے۔ حضرت سیّدنا عباس رضیَ اللہُ عنہ نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا: جب پہلا لقمہ دیا
تو حضرت جبرائیل علیہِ السَّلام نے کہا: اے عتیق! تجھے مبارک ہو ،جب دوسرا لقمہ
دیا تو حضرت میکائیل علیہِ السَّلام نے کہا: اے رفیق! تجھے مبارک ہو، تیسرا لقمہ دیا تو اللہ کریم نے فرمایا: اے
صدیق! تجھے مبارک ہو۔([6])
(9)سب سے افضل: حضرت سیّدنا ابو
دَرْدَاء رضیَ اللہُ عنہ کا بیان ہےکہ نبیوں کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ کے آگےچلتے
ہوئے دیکھا تو ارشاد فرمایا: کیا تم اس کے آگے چل رہے ہو جو تم سے بہتر ہے۔کیا تم
نہیں جانتے کہ نبیوں اور رسولوں کے بعد ابوبکر سے افضل کسی شخص پر نہ تو سورج طلوع
ہوااور نہ ہی غروب ہوا۔([7])
(10)گھر کے صحن میں مسجد: ہجرت سے قبل حضرت ابو بکر
صدیق رضیَ اللہُ عنہ نے اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنائی ہوئی تھی چنانچہ حضرت
سیّدتنا عائشہ رضیَ اللہُ عنہا فرماتی ہیں: میں نے ہوش سنبھالا تو والدین دینِ اسلام پر
عمل کرتے تھے،کوئی دن نہ گزرتا مگر رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم دن کے دونوں کناروں صبح و شام ہمارے گھر تشریف لاتے۔ پھر حضرت ابوبکر کو خیال
آیا کہ وہ اپنے گھر کے صحن میں مسجد بنالیں، پھر وہ اس میں نماز پڑھتے تھےاور (بلند آواز سے) قراٰنِ مجید پڑھتے
تھے،مشرکین کے بیٹے اور ان کی عورتیں سب اس کو سنتے اور تعجب کرتےاور حضرت ابوبکر
کی طرف دیکھتے تھے۔([8])
(11)سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والے: پیارے آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک مرتبہ یوں
ارشاد فرمایا: جس شخص کی صحبت اور مال نے مجھے سب لوگوں سے زیادہ فائدہ پہنچایا وہ
ابوبکر ہے اور اگر میں اپنی اُمّت میں سے میں کسی کو خلیل( گہرا دوست) بناتا تو ابوبکر کو
بناتا لیکن اسلامی اخوت قائم ہے۔([9])
(12)حوضِ کوثر پر رَفاقت: پیارے نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک دفعہ حضرت
صدیق رضیَ اللہُ عنہ سے فرمایا: تم میرے صاحب ہوحوضِ کوثر پر اور تم میرے
صاحب ہو غار میں۔([10])
(13)سب سے زیادہ مہربان: شفیعِ اُمّت صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیّدنا
جبریلِ امین علیہِ السَّلام سے اِسْتِفْسار فرمایا: میرے ساتھ ہجرت کون کرے گا؟ تو سیّدنا
جبریلِ امین علیہِ السَّلام نے عرض کی: ابو بکر (آپ کے ساتھ ہجرت کریں گے)، وہ آپ کے بعد آپ کی اُمّت کے معاملات سنبھالیں گے اور
وہ اُمّت میں سے سب سے افضل اوراُمّت پر سب سے زیادہ مہربان ہیں۔([11])
(14)صدیقِ اکبر کے احسانات: نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا بدلہ چُکا دیا ہے، مگر ابوبکر کے مجھ پر وہ
احسانات ہیں جن کا بدلہ اللہ پاک
اُنہیں روزِ قیامت عطا فرمائے گا۔([12])
(15)خاص تجلّی: پیارے حبیب صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم غارِ ثور تشریف لے جانے لگے تو حضرت
ابوبکر صدیق رضیَ اللہُ عنہ نے اُونٹنی پیش کرتے ہوئے عرض کی: یا رسولَ اللہ!اس پر سوار ہوجائیے۔ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سوار ہوگئے پھر
آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضیَ
اللہُ عنہ کی طرف متوجہ ہوکر ارشاد فرمایا: اے ابوبکر! اللہ پاک تمہیں رضوانِ
اکبر عطا فرمائے۔ عرض کی: وہ کیا ہے؟ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک تمام بندوں پر
عام تجلّی اور تم پر خاص تجلّی فرمائے گا۔([13])
وصال
و مدفن:آپ رضی
اللہ عنہ کا وصال 22 جُمادَی الاخریٰ 13ھ شب سہ شنبہ
(یعنی پیر
اور منگل کی درمیانی رات) مدینۂ منورہ (میں) مغرب و عشاء کے درمیان تریسٹھ (63) سال کی عمر میں
ہوا۔ حضرت سیّدنا عمر بن خطّاب رضی اللہ عنہ نے نمازِ
جنازہ پڑھائی([14]) اور آپ رضی
اللہ عنہ کوپیارے آقاصلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پہلو میں دفن کیا گیا۔([15])اللہ پاک کی ان پر رحمت
ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو ۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
سائیڈ پہ ہٹ جاؤ! میں نےاب تمہاری پٹائی کر دینی ہے، اُمِّ بلال روٹیاں
پکانے میں مصروف تھی اور چھوٹی بیٹی اَرْویٰ اس کا دوپٹہ پکڑے کھڑی تھی اور ضد
کررہی تھی:امی! میں بھی روٹی پکاؤں گی۔ابھی اس کی ضدختم نہ
ہوئی تھی کہ اندر سے چھوٹے بیٹے کے رونے کی آواز آئی، اَرْویٰ
! جاؤ! چھوٹے بھائی کو چُپ کرواؤ، میں آتی ہوں، لیکن اَرْویٰ ٹَس سے مَس نہیں ہوئی۔
سارا دن گھر کے کام ہی ختم نہیں ہوتے، بچے
تو دوگھڑی سکون کا سانس بھی نہیں لینے دیتے!آج اِن کے ابو آتے
ہیں تو کہتی ہوں کہ ہمیں کچھ دن کے لئے میرے بھائی کے گھر چھوڑ آئیں، اُمِّ بلال
نےپریشان ہوکر سوچا۔
کل آپ ہمیں ارویٰ کے ماموں کے گھر چھوڑ آئیے گا،
رات کے کھانے کے بعد سلیم صاحب کو چائے پیش کرتے ہوئے اُمِّ
بلال نے کہا۔کتنے دن کا ارادہ ہے؟ سلیم صاحب نے پوچھا۔ یہی کوئی ہفتہ، دس دن۔ٹھیک
ہے،سلیم صاحب نے چائے کا گھونٹ بھر کر جواب دیا۔
اُمِّ عاتکہ بچوں کو اسکول بھیج کر گھر کی
صفائی ستھرائی میں مشغول تھی کہ ڈور بیل کی آوازسنائی دی، کون ہے؟
بھابی! میں ہوں اُمِّ بلال ۔
اپنی چھوٹی نند کی آواز پہچان کر اُمِّ عاتکہ نے دروازہ کھول دیا۔
ارے آپ لوگ! آنے سے پہلے خبر تو دی
ہوتی، امِّ عاتکہ نے اُمِّ بلال کےسلام کا جواب دینے کے بعد اس سے گلے ملتے ہوئے
کہا۔
بس ہم نے سوچا آپ کو سرپرائز دیتے ہیں، بھائی اور آپ سے ملے ہوئے بھی تو کافی
دن ہو گئے تھے، آپ لوگوں کو تو ہماری یاد آتی نہیں تو ہم ہی ملنے آ گئے، اُمِّ
بلال نے جواباً کہا۔
بہت ا چھا کیا تم نے، میں تو بچوں کے اسکول کی وجہ سے کہیں آ جا بھی نہیں سکتی، چلو آپ آرام
سے بیٹھو میں چائےبنا کر لاتی ہوں۔
اُمِّ بلال کو بھائی کے گھر آئے ہفتہ گزر چکا تھا، نہ کھانا پکانے کی جھنجٹ نہ گھر کے کاموں کی ٹینشن، سارا دن بھابی
خاطر تواضع میں مگن رہتیں تو شام کے وقت بھائی صاحب آکر بہن اور بھانجا بھانجی کے خوب ناز اٹھاتے، دن کے دس بجے ناشتے سے فارغ ہو کر اُمِّ بلال
بیسن پر ہاتھ دھو رہی تھی کہ اَرْویٰ کی آواز آئی: امی ،امی!بڑی خالہ کا فون آیا ہے۔
اِدھر لاؤ بیٹی،السلام علیکم!باجی کیسی ہیں آپ؟
میں ٹھیک ہوں، آپ سُناؤ! کہاں مصروف ہو، اتنے دنوں
سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟ باجی نے آگے سے کہا۔
ارے مت پوچھئے باجی،
ہم تو بڑے مزے میں ہیں ، خوب عیش ہورہے ہیں ، ایک ہفتہ ہو گیا یاسر بھائی کے گھر
ٹھہرے ہوئے ہیں، اُمِّ بلال نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
ایک ہفتہ !! باجی نے
زور دیتے ہوئے کہا، کچھ تو خیال کرو بہن! کسی پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتے۔
نہیں باجی، بھابھی
اور بھائی تو بہت خوش ہیں بالکل بھی تنگ نہیں ہو رہے،میرا اور بچوں کا خوب خیال
رکھ رہے ہیں۔
باجی سمجھانے لگیں
:میری بہن! مُرَوَّت اور لحاظ بھی کوئی
چیز ہوتی ہے، اب وہ آپ کو خود تو
نہیں کہیں گے کہ چلے
جاؤ، آخر مہمان کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں!
ارے باجی آپ بھی پتا نہیں کیا کیا سوچ
لیتی ہیں! مہمان نوازی کے آداب تو سُنے تھے یہ ’’مہمان کے آداب ‘‘آپ پتا نہیں کہاں سے نکال
لائیں!
دیکھو بہن!خود ہمارے گھر کوئی
دو سے تین دن رہنے آجائے تو ہم کتنے پریشان ہو جاتے ہیں، گھریلو ٹائم ٹیبل کے ساتھ ساتھ ماہانہ بجٹ بھی خطرے میں دکھائی دیتا ہے
تو دوسروں کے بارے میں کیا خیال ہے آخر وہ بھی تو اسی دنیا میں رہتے ہیں،
یہ مسائل انہیں بھی تو درپیش ہو سکتے ہیں،اور مہمان کے آداب میری اپنی سوچ نہیں
ہیں ہمارا اسلام ہمیں اس کی تعلیم دیتا ہےسنو!ہما
رے پیارےآقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے:مہمانی ایک دِن رات
ہےاور دعوت تین دِن ہے، اس کے بعد صدقہ ہے، مہمان کو حلال نہیں کہ اس کے پاس ٹھہرا
رہے،حتّٰی کہ اسے تنگ کر دے۔( مشکاۃ المصابیح،
2/101، حدیث:4244)بڑی بہن ہونے کے
ناطے میرا سمجھانا ضروری تھا، آگے تمہاری مرضی، اچھا فون رکھتی ہوں۔
باجی کے الوداعی
سلام کا جواب دیتے ہوئے اُمِّ بلال سوچ رہی تھی کہ اَرْویٰ کے ابو
کو فون کر کے بولتی ہوں، آج دفتر سے چھٹی کے بعد ہمیں لینے آ جائیں۔
عموماً بچّے امتحانات (Exams) کو بہت سنجیدہ لیتے ہیں، بہت شرارتی بچے بھی امتحانات قریب آتے ہی ساری شوخیاں بُھول کر کتابیں کھول کر
بیٹھ جاتے ہیں اور محنتی بچے تو ان دنوں گویا کہ کھانا پینا ہی بھول جاتے ہیں۔
امتحانات کی اہمیت اپنی جگہ لیکن بچوں کی
شگفتگی اورخوشیاں بھی اہم ہیں۔ لہٰذا امتحانات کے دنوں میں والدین کو چاہئے کہ بچّوں کی جسمانی اور ذہنی نشو و نَما کا خاص خیال رکھیں۔جہاں تک بات ہے امتحانات کی
تیاری کی تو اس معاملے میں بھی سب کچھ ٹیچرز پر ڈال کر خود کو بری الذِمّہ نہ
سمجھیں بلکہ امتحانات کی تیاری میں خود بھی بچّوں کی مدد کریں۔ذیل میں چھ ایسے نِکات(Points)
پیش کئے جارہے ہیں جن پر عمل کرکے آپ امتحانات کی
تیاری میں بچّوں کی مدد کرسکتے ہیں۔
(1)ذہنی سکون و حوصلہ دیں:ہمارےتعلیمی نظام اور معاشرتی رویّے نے امتحانات کے معاملے میں بچوں کو بہت
حَسّاس بنا دیا ہے اور امتحانات کے سبب وہ ذہنی دباؤ (Depression) کا شکار بھی ہوجاتے ہیں، ایسی صورتِ
حال میں امتحانات کی تیاری کرنا انتہائی دشوار ہوتا ہے لہٰذا آپ کو چاہئے کہ انہیں
پُرسکون کریں، حوصلہ دیں اور امتحانات کی تیاری میں درپیش مسائل پر بچّوں سے بات
کریں اور انہیں حل کریں، یوں بچّے آپ کی دل چسپی اور تعاوُن کا اِحساس کرنے لگیں
گے اور یہی احساس انہیں ذہنی سکون فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مزید محنت پر اُبھارے
گا۔
(2)شیڈول بنائیں:بچّوں کے ساتھ مِل جُل کر اس طرح کا ٹائم ٹیبل بنائیں جس پر وہ بھی آسانی
سے عمل کرکےامتحانات کی تیاری کرسکیں اور آپ کے معمولات بھی متأثِّر نہ ہوں نیز
حتَّی الْاِمکان صبح کے وقت کو ترجیح دیں۔
(3)چھٹیوں کی وجہ
سے رہ جانے والا کام: بعض اوقات اسکول سے غیر حاضری کی
صورت میں بچوں کا کچھ کام ادھورا (نامکمل) رہ جاتا ہے جسے بچّے کسی مجبوری یا غفلت
کی وجہ سے پورا نہیں کرپاتے، کوشش کرکے پہلے ان کاموں کو خود یا اپنے بچّے کے
ساتھی طالبِ علم (Class fellow)
کی کاپی لے کر مکمل کروائیں تاکہ امتحانات کی تیاری میں کسی پریشانی کا سامنا نہ
ہو۔
(4)مضامین کی تقسیم کاری:تمام مضامین (Subjects)
کو برابر اہمیت دیں،کسی مضمون کو آسان سمجھ کر اس کی تیاری میں کوتاہی مت کرنے دیں
اور اس طرح سے سمجھائیں کہ بیٹا! ممکن ہے کہ جس مضمون کو آپ آسان سمجھ رہے ہو اس کا سوالیہ پرچہ(Question Paper)آپ کی امید کے خلاف ہو اور کمرۂ
امتحان(Examination Hall) میں آپ کو پریشان کردے۔ ہاں جن مضامین کو مشکل سمجھا جاتا ہے ان کی تیاری کو
اِضافی وقت دیں اور انہیں بار بار دہرائیں
تاکہ بعد میں بھول نہ جائیں۔
(5)کتاب کی تقسیم کاری:نصابی
کتاب کے تین حصّے کر لیجئے (1)جسے بچّے کے اساتذہ (Teachers) نے اہم قرار
دیا ہے (2)جس کے پیپر میں آنے کی امید ہو، ان دو حصوں کی تیاری کرنے کی صورت میں
بچّے کے امتحان میں کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں (3)جس کا پیپر میں آنا
بعید (دور) ہو، پہلے دو حصوں کے ساتھ ساتھ اس حصّے کی بھی تیاری کروائی جائے،بعض
اوقات اسی کی دہرائی(Repeat)بھی پوزیشن پانے کا سبب بن جاتی ہے۔
(6)یاد کرنے کا انداز:بچّوں کو رٹّا (Cramming) لگوانے سے
بچئے، اسباق کو سمجھ کر توجُّہ کے ساتھ پڑھنے اور یاد کرنے کو ان پر لازم کریں نیز اہم پیراگراف کو بِالکل
مختصر اور پوائنٹس کی صورت میں
لکھوائیں کہ کئی بار سرسری نظر کرنے کی بجائے ایک بار لکھ کر یاد کر لینا
زیادہ بہتر ہوتا ہے کیونکہ لکھتے وقت دماغ حاضر رکھنا پڑتا ہے اور لکھا ہوا سبق
دماغ میں نسبتاً زیادہ محفوظ رہتا ہے۔
بہو!!! ایک کپ چائے تو بنا دو۔
زینب کی شادی کو 6 ہی مہینے ہوئے تھے، سسرال میں صرف ساس تھی، چاروں
نندیں شادی شدہ تھیں لیکن ایک تو لااُبالی طبیعت، اوپر
سے معاشرے کا اثرتھا کہ اسے وہ بھی بوجھ لگتی تھیں، ابھی بھی بڑے مزے سے موبائل پر
کسی سہیلی سے چیٹنگ میں مصرو ف تھی کہ ساس کی فرمائش نے سارا مزہ کِرکِرا کر دیا
تھا۔ غصّے سے اٹھی اور موبائل ہاتھ میں پکڑے ہی کچن میں
چلی آئی۔چائے کے لئے پانی چولہے پر رکھتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ پتا نہیں کب اِن سے جان چھوٹے گی، ملازمہ سمجھ رکھا ہےمجھے۔
ساس کو چائے دے کر باہر
آئی تو یاسر کی کال آگئی، آج رات کوئی مہمان آ رہے
ہیں،اسپیشل ڈشز بنانے کا کہہ کر یاسر نے تو فون بند کر دیا تھا لیکن زینب پر جھنجلاہٹ طاری ہو چکی تھی، اندر سےعطیّہ
بیگم نے کپ اٹھانے کا کہا تو غصے سے بڑبڑانے لگی: سارا دن انہی کے کام کرتے رہو، یہ لا دو،
یہ اٹھا لو، یہ پکا دو۔
آواز زیادہ اونچی تو نہیں
تھی لیکن اتنی ضرور تھی کہ عطیّہ بیگم کے کانوں تک پہنچ ہی گئی جسے سن کر وہ دل ہی
دل میں دعا کر رہی تھیں کہ اللہ پاک بندے کوکبھی کسی کا محتاج نہ
بنائے، کمر درد نے تو مجھے بستر سے ہی لگا دیا ہے، کہاں میں پانچ پانچ بچوں کو
اکیلے پالنے والی؟ اور کہاں اب چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے بھی بہو کی محتاج ؟ کتنی
کوششوں سے میں نے اکلوتے بیٹے کے لئے رشتہ
تلاش کیا تھا، بہت سے رشتے ٹھکرا کر اعلیٰ تعلیم یافتہ بہو تو مل گئی تھی لیکن اب
احساس ہوتا ہے کہ تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ ہونے میں فرق ہے، شاید میری ترجیحات
ہی غلط تھیں۔
السلام علیکم امی جان! یاسر
کی آواز پر عطیّہ بیگم کی سوچوں کی تان ٹوٹ گئی تھی۔وعلیکم السلام بیٹا! آ گئے آفس
سے، کپڑے چینج کر کے بہو کا ہاتھ بٹا دو، اکیلی جان کیاکیاکرے گی!
بہتر امّی جان!اتنا کہہ کر
یاسر اپنے کمرے کی طرف بڑھا اور فریش ہو کر کچن میں گیا: بھئی کتنی دیر ہے؟ بڑے
زوروں کی بھوک لگی ہے، مہمان بھی پہنچنے والے ہوں گے۔
کھانا تیار ہو چکا ہے، بس
امی جان کی فرمائشوں سے فرصت مل
جائے، زینب نے جواب دیا۔
فرمائشوں سے کیا مطلب ہے
بیگم صاحبہ؟ ایک سُوپ ہی تو اضافی بنواتی ہیں وہ بس!
انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ
چھوڑیں جناب! آپ تو شام کو آتے
ہیں، سارا دن تو گھر پر میں ہوتی ہوں، کپڑے دھو دو، دوائی لادو، دوائی
کھانی ہے تو دودھ گرم کر
دو، تھک گئی ہوں میں یہ سب کرتے کرتے، اپنے لئے بھی ٹائم نہیں مل پاتا مجھے!
بس کر جائیں بیگم صاحبہ! یاسر
نے بیچ میں ہی زینب کو ٹوک دیا
ورنہ وہ تو ابھی مزید
بولنا چاہ رہی تھی، اگر امّی جان کے کچھ کام ہمیں کرنا پڑ جائیں تو اس میں شکایت
کیسی! آخر وہ ہماری ماں ہیں، ہمارا حق
ہے ان کی خدمت کریں اور ان
کو کسی کمی کا احساس نہ ہونے دیں۔
جناب!وہ میری نہیں صرف آپ
کی ماں ہیں،ان کی خدمت میرا نہیں آپ کا حق ہے، ویسے بھی بہو پر
ساس سسر کی خدمت کرنا فرض نہیں ہے، زینب نے
آگے سے جواب دیا۔
اتنے میں ڈور بیل کی آواز
سنائی دی، یاسر نے دل ہی دل میں خدا
کا شکر ادا کیا اور کہا: آپ
کا ساس نامہ ختم ہو گیا ہو تو میں مہمانوں کو بٹھا
آؤں، یقیناً وہی ہوں گے۔
کھانے کے بعد یاسر عشا کی
نماز پڑھنے چلا گیا، سنّتیں ادا کرنے کے بعد وہیں گم صُم
بیٹھا تھا کہ کسی نے کندھا ہلایا، اوپر دیکھا تو امام صاحب کھڑے تھے، یاسر فوراً
کھڑا ہو گیا اور امام صاحب سے مصافحہ کیاتو وہ کہنے لگے:خیریت یاسر بیٹا! بڑی گہری
سوچ میں گم تھے۔
امام صاحب کو اس مسجد میں
دس سال سے زیادہ عرصہ بِیت چکا تھا، اپنے ہر نمازی کو نہ صرف نام سے جانتے تھے
بلکہ ہر ایک کی خوشی غمی میں بھی شریک ہوتے، اسی لئے نمازی بھی اپنے معاملات میں ان
سے صلاح مشورہ لیا کرتے تھے۔امام صاحب کے خیر خیریت پوچھنے پر یاسرنے انہیں اپنی
پریشانی بتائی اور مشورہ مانگا کہ میں اس مسئلے کو کس طرح حل کروں؟
امام صاحب کہنے لگے: یاسر
بیٹا! کہہ تو وہ ٹھیک رہی ہیں لیکن ہمارامسئلہ یہ ہے کہ ذمہ داریوں کی بات
آئے تو ہمیں فرض واجب یا د آ جاتے ہیں اور
حقوق لینے ہوں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا، پھر امام صاحب نے اسے حکمت بھرا مشورہ دیا جسے سن کر یاسرمطمئن ہو کر گھر آ گیا۔
یاسر اگلے روز آفس میں تھا
کہ زینب کی کال آئی: سنئے! آج جلدی گھر
آئیے گا، سیل لگی ہے، میں نے سوٹ لینے جانا ہے۔ بیگم صاحبہ کی فرمائش پر یاسر کو امام صاحب کا مشورہ یاد آگیا اس
نے نرمی سے جواب دیا: ابھی پچھلے ماہ ہی تو نیا سوٹ دلوایا تھا، وہ کہاں گیا؟
کیا ہو گیا ہے آپ کو! آپ کب سےپچھلے سوٹوں کا حساب رکھنے
لگے؟
سنئے محترمہ! ہر سیل سے
سوٹ خریدنا کوئی لازمی تھوڑی ہے، اچھا
میں فون رکھتا ہوں، کلائنٹ
میرااِنتظار کر رہا ہے۔
کال تو کٹ چکی تھی لیکن زینب وہیں بیٹھی فون کو گُھورے جارہی تھی۔
شام کے وقت یاسر گھر آیا تو ایسے نارمل تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں!
خیر،کھانے وغیرہ سے فارغ ہوا تو زینب پھر سےسوٹ کی بات لے کر بیٹھ گئی، سنئے!دو
مہینے بعد میری بھانجی کی شادی بھی ہے، تب بھی
تو سوٹ لینے پڑیں گے اس لئے کہہ رہی ہوں کہ ابھی سیل سے لے لیتی ہوں۔
یاسر نے نرمی سے جواب دیا:
کوئی ضرورت نہیں ہے شادی پر جانے کی! گھر پہ رہو خود کو ٹائم دو اور۔۔۔
یہ آپ نے کیا صبح سے ’’لازمی
نہیں، ضروری نہیں‘‘ کی رَٹ لگا رکھی ہے؟ زینب نے غصے سے یاسر کی بات بیچ میں ہی
کاٹ دی، ٹھیک ہے ہر بات لازمی نہیں ہوتی
لیکن اخلاقیات اور معاشرتی تقاضے بھی کوئی
چیز ہوتے ہیں ،بھانجی کی شادی پر اس کی سگی خالہ ہی غائب ہو تو کیا
کہیں گے لوگ کہ بھانجی کے لئے بھی خالہ کے پاس وقت نہیں تھا؟
دیکھیں بیگم صاحبہ! یاسر
نے مسکراتے ہوئے کہا: آپ کی ”ساس کی خدمت بہو پر فرض نہیں ہے“ والی بات
سن کر میں نے غور کیا تو احساس ہوا آپ سچ کہہ رہی تھیں، واقعی میں نے آپ کے ساتھ
غلط کیا تھا، لیکن!اتنا کہہ کریاسر سانس لینے کے لئے رکا تو زینب انہیں پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔
یاسر نے دوبارہ کہنا شروع
کیا :لیکن! آئندہ ہمیں اپنے باقی معاملات میں بھی یہی معیار اپنانا ہوگاکہ ایک
دوسرے سے صرف فرض کاموں کا مطالبہ کریں گے، میں آپ سے والدہ کی خدمت کا نہیں بولوں
گا تو آپ بھی چھ ماہ سے پہلے مجھ سے نئے سوٹ کا مطالبہ نہیں کریں گی کیونکہ شوہر
پر ہر چھ مہینے میں بیوی کو ایک نیا سوٹ دلانا واجب ہے، ایک سال سے پہلے بہن، بھائیوں
سے ملنے کی ضد نہیں کریں گی کیونکہ یہی بیوی کا حق ہے،ہم دونوں اخلاقی معاملات کو چھوڑ دیتے ہیں، آپ بھی وہ کام کریں جو آپ پر
فرض ہیں اور میں بھی وہ
کام کروں جو مجھ پر فرض ہیں ، ٹھیک ہے، اب تو خوش ہیں ناں؟
یاسر کی باتیں سن کر زینب دل ہی دل میں اپنے سلوک (behaviour) پر شرمندہ تھی اور سوچ رہی تھی کہ ہر چیزکو
فرض و واجب کی نظر سے نہیں دیکھتے، اخلاقیات اور معاشرتی زندگی کے بھی کچھ تقاضے ہوتے
ہیں،خصوصاًگھریلو زندگی میں خوشی بھرنے کے لئے تو قدم قدم پر اس اصول کو اپنانے کی
حاجت ہے۔
زینب کے چہرے پر چھائی شرمندگی بتا رہی تھی کہ
اسے اپنے نامناسب سلوک کا احساس ہو چکا ہےاور یاسر اسے دیکھ
کر سوچ رہا تھا کہ کل آفس سے واپسی پر اسے نیا سوٹ دِلا دوں گا۔
نام
ونسب
سید
محمد ظفرالدین بن عبد الرزاق، کنیت ’’ابوالبرکات‘‘ اور آپ کالقب ’’ مَلِکُ الْعُلَما ‘‘ہے۔ آپ
کے مورث اعلیٰ سید ابراہیم بن سید ابوبکر غزنوی ملقب بہ ”مَدارُ الْمُلْک“ہیں۔ ان
کا نسب ساتویں پشت میں حضور غوثِ اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
تک
پہنچتا ہے۔([1])
تاریخِ
ولادت
آپ
رسول پور، میجرا ضلع پٹنہ(موجودہ ضلع نالندہ) صوبہ بہار میں 10 مُحَرَّمُ
الْحَرام 1303ہجری بمطابق 19اکتوبر 1880عیسوی کو
صبح صادق کے وقت پیدا ہوئے۔ ظفرالدین نام اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کی بارگاہ سے ملا اور اسی نام سے شہرت پائی۔([2])
بیعت
وخلافت
مُحَرَّمُ الْحَرام 1321ہجری میں اعلیٰ حضرت سے مرید ہوئے۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ
نے تمام سلاسل میں انہیں اجازت ِ عام عطا فرمائی۔
کمالات
وخصائص اعلیٰ حضرت کی زبانی
اعلیٰ حضرت،امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ نے مفتی ظفرالدین بہاری رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کے بارے میں فرمایا:”مکرمی مولانا مولوی محمد ظفرالدین صاحب قادری سَلَّمہٗ
فقیر کے یہاں اعز طلبہ سے ہیں اور میرے بجانے عزیز
۔ابتدائی کتب کے بعد یہیں تحصیل علوم کی۔ اور اب کئی سال سے میرے مدرسے میں مدرس
اور اس کے علاوہ کار افتا میں میرے معین ہیں ۔میں
نہیں کہتا کہ جتنی درخواستیں آئی ہوں سب سے یہ زائد ہیں مگر اتنا ضرور کہوں گا:”
(1)... سنی خالص مخلص نہایت صحیحُ
الْعقیدہ ہادی مہدی ہیں (2)...عام
درسیات میں بِفَضلِہ تَعَالیٰ عاجزنہیں (3)...مفتی ہیں (4)...مصنف ہیں (5)...واعظ
ہیں(6)...مناظرہ بِعَونِہ تَعالیٰ کرسکتے ہیں(7)...علماء زمانہ میں ’’علم توقیت‘‘سے
تنہاءآگاہ ہیں ۔“ ([3])
علمِ
توقیت اور فلکیات پر آپ کی تصانیف
(1)...”اَلْجَواہِر وَ
الْیَواقِیت فِی عِلْمِ التَّوْقِیت“ (2)...”بَدْرُالْاِسْلَام
لِمِیْقَاتِ کُلِّ الصَّلوٰۃِ وَالصِّیَام“
(3)...”تَوْضِیْحُ الْاَفْلَاک “ معروف
بہ”سُلَّمُ السَّمَاء“(4)...”مُؤَذِّنُ الْاَوقات“ جیسی قیمتی اور نادِر تصانیف آپ کی توقیت دانی اور علم فلکیات میں مہارتِ تامہ کا مُنہ
بولتا ثبوت ہیں۔
وفات
حسرت آیات
شب
دو شنبہ(پیر کی رات) 19 جَمادی
الْاُخْریٰ 1382ھ مطابق 18نومبر 1962ء کو ذکرِجہر ”اللہ،اللہ “کرتے ہوئے واصل بحق ہوئے۔ ([4])
اعلیٰ حضرت،امامِ اہل سنت رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ اپنے خلیفہ وشاگرد ملک العلما رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کے
متعلق فرماتے ہیں:
میرے ظفر کو اپنی ظفر دے اس سے شکستیں کھاتے یہ ہیں
استاذ صاحب(Teacher) نے وائٹ بورڈ پر ایک لائن کھینچی
اورطَلَبہ(Students) سے پوچھنے لگے: آپ میں سے کون اس لائن کو چُھوئے اور
مٹائے بغیر چھوٹا کرسکتا ہے؟ایک طالبِ عِلْم نے فوراً عرض کی:اس لکیر کو چھوٹا
کرنے کے لئے کچھ حصّہ مٹانا پڑے گا اور آپ چُھونے اور مٹانے سے منع کررہے ہیں،یہ چھوٹی نہیں ہو سکتی۔
استاذ صاحب نے دیگر طَلَبہ کی طرف سُوالیہ نظروں سے دیکھا تو
انہوں نے بھی سرہلا کر تائید کردی۔اب استاذ صاحب نے ایک بڑی لائن اس لائن کے برابر میں کھینچ دی اور بولے:اب
بتاؤ! پہلی لائن چھوٹی ہوئی یا نہیں؟حالانکہ میں نے اسے چُھوا تک
نہیں اور نہ ہی مٹایا ہے! طَلَبہ کہنے لگے: یہ تو کمال ہوگیا!
استاذ صاحب نے مارکر ٹیبل پر رکھا اور بولنا شروع
کیا: آج ہم نے کتابِ زندگی کا بڑا اہم سبق (Lesson) سیکھا ہے کہ کس طرح دوسروں کو نقصان
پہنچائے بغیر ان سے آگے نکلا جاسکتا ہے، ان کو ڈی گریڈ کئے بغیر زیادہ عزت کمائی جاسکتی ہے؟دَراَصْل!
دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش انسان کی نفسیات میں شامل ہے چاہے وہ کسی بھی شعبےاور طَبَقے سے تعلق رکھتا
ہو! وہ اسٹوڈنٹ ہو، تاجر ہو، ملازم ہو، کھلاڑی ہو، ڈاکٹر ہو، وکیل ہو، پروفیسر ہو،
رائٹر ہو یا کوئی اور! لیکن اگر وہ اپنی ترقی کے لئے اپنا قد بڑھانے کے بجائے دوسروں
کی ٹانگیں کاٹ کرانہیں چھوٹا بنانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ نیگیٹو اپروچ ہے، جبکہ پازیٹو اپروچ یہ ہے کہ اپنی مہارت،خصوصیت اور کارکردگی کو بہتر کیا
جائے،اس طرح آپ کسی کی قدر کم کئے بغیر فتح کی منزل (وکٹری اسٹینڈ) تک پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن افسوس!یہ ہمارا معاشرتی اَلْمِیہ (Social Disaster)ہے کہ جیتنے کے
لئے پہلا طریقہ زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً ❀تاجر اپنی تجارت چمکانے کے لئے دوسرے تاجر کی ساکھ اور شُہرت خراب کرنے کی کوشش
کرتا ہے ❀ملازم پروموشن پانے کے لئے اپنے مدِّمُقابل(Competitor) کو بدنام کرتا ہے یا اسے نوکری سے ہی نکلوانے کی کوشش کرتا ہے ❀طالبِ عِلم امتحانات (Examinations)میں پوزیشن پانے
کے لئے دوسرے کا رزلٹ خراب کرنے کے لئے اس کا وقت برباد کرتا ہےیا اس کے نوٹس
وغیرہ غائب کر دیتا ہے❀ایک ڈاکٹر دوسرے
ڈاکٹروں کو نااہل (Incompetent) اور نِکَمّا ثابت کرکے اپنا کلینک چمکانے کی کوشش کرتا ہے ❀نعت خواں اپنا قد کاٹھ بڑھانے کےلئے
دوسرے نعت خوانوں کی راہ میں
رکاوٹ ڈالتے ہیں۔اس نیگیٹو اپروچ کا ایک نقصان
تو یہ ہوسکتا ہے کہ جو گڑھا اس شخص نے کسی کے لئے کھودا اس میں خود جاگرے اور اسے لینے کے دینے پڑ جائیں۔ دوسرا نقصان یہ کہ
کسی کی پوزیشن ڈاؤن کرنے کے لئے اس پر جھوٹے الزامات لگائے،اس کے عیب اُچھالے،اس کی غیبتیں کیں،دل آزاری کی تو گناہوں کا انبار اعمال نامے میں جمع ہونا
شروع ہوجاتا ہےجس کا سازشیں کرنے والے کو احساس تک
نہیں ہوتا، اس کے سر پر تو فقط دوسرے کو ہرانے کا بُھوت سوار ہوتا ہے!
گناہوں کا احساس ہی نہ ہو تو تَوبہ کا ذہن کیسے
بنے گا؟ آخِرت کے عذابات سے یہ شخص کیونکر بچ سکے گا؟
اگلا پیریڈ شروع ہوچکا تھا، کلاس رُوم سے رخصت ہونے
سے پہلےاستاذ صاحب نے تاکید کی: پیارے طَلَبہ! زندگی میں ترقی پانے کے لئے کبھی
بھی منفی طریقہ نہ اپنائیے گا۔ اللہ پاک ہمیں اپنی ناراضی والے کاموں سے بچائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
انسانی زندگی ضَروریات (Necessities)، سہولیات (Comforts) اورآسائشات(Luxuries) پر مشتمل ہےاور یہ سب چیزیں مفت میں نہیں ملتیں ان کے لئے رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔ ہمارےمعاشرے(Society)میں عُموماً چار قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں:ایک وہ جو بےحساب کماتے اور بےحساب خرچ کرتے ہیں(ایسے لوگ آگے چل کر معاشی پریشانیوں (Financial Crisis) کا شکار ہوسکتے ہیں)، دوسرے وہ جو بے حساب کماتے اور حساب سے خرچ کرتے ہیں، تیسرے وہ جو حساب سے کماتے اور حساب سے خرچ کرتے ہیں اور چوتھے وہ جو حساب سے کماتے اور بےحساب خرچ کرتے ہیں، اس قسم کے لوگ عُموماً تنخواہ دار ہوتے ہیں جو مالی طور پر پریشان رہتے ہیں جس کا اثر اِن کی گھریلو زندگی پر بھی پڑتا ہےاورمیاں بیوی کے درمیان جھگڑے ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
گھریلو بجٹ بنانا کیوں ضَروری ہے؟”گزارہ نہیں ہوتا،“ ”پوری نہیں پڑتی،“”آج کل ہاتھ تنگ ہے“ جیسے جملے آپ نے اکثر سُنے ہوں گے۔بےشک بعض بے چاروں کی آمدنی (Income) ہی اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ اپنے اخراجات (Expenses) کتنے ہی کم کرلیں ان کی زندگی کی بنیادی ضَرورتیں ہی پوری نہیں ہوتیں اللہ کریم ان کے حالات بہتر فرمائے، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں،جنہیں کمانا تو آتا ہے خرچ کرنا نہیں آتا۔
یاد رکھئے! خرچ کرنےکے بعد پریشان ہونے سے بہتر ہے کہ خرچ کرنے سے پہلے سوچ لیا جائے، اس لئے اگر ہم آمدنی اورخرچ میں توازُن(Balance)قائم کرنے کیلئے گھریلو بجٹ بنالیں تو کئی ٹینشنوں سے بچ جائیں گے۔
گھریلو بجٹ بنانے کی احتیاطیں: بجٹ بنانے سے پہلے چند باتوں کا ضَرور خیال رکھئے:Äفُضول خرچی سے پرہیز کیجئے، غیرضروری اَخراجات کو گھریلوبجٹ کا حصّہ نہ بنائیے Äگناہوں کے کاموں مثلاً سینما ہال وغیرہ کی ٹکٹوں اور فلمیں گانے وغیرہ سننے دیکھنے کے لئے مہنگے ساؤنڈ سسٹم اور ایل سی ڈیز (LCDs) وغیرہ پرخرچ نہ کیجئے Äرقم ایک شخص کےپاس جمع ہواوروہی اخراجات کے لئے رقم ادا کرے اور وہی آمدنی اور اخراجات کا تحریری حساب بھی رکھے Äجس کام کے لئے گھریلو بجٹ میں جتنی رقم خاص(Fix) کی گئی ہے اس سے زیادہ خرچ نہ کی جائے Äجہاں جہاں بچت(Saving) ممکن ہو کر لی جائے،جتنی بچت زیادہ اُتنی پریشانی کم۔
گھریلوبجٹ بنانے کا طریقہ:اپنے ماہانہ گھریلوبجٹ کو 10 حصّوں میں تقسیم کرلیجئے (ہر ایک اپنے رَہَن سَہن(Lifestyle) کے مطابق اس میں کمی یا اضافہ بھی کرسکتا ہے):
(1)راشن:اس میں آٹا، چاول، گھی، کوکنگ آئل، چینی، چائے کی پتی، دالیں، سبزیاں، پھل، گوشت، نمک، مِرچ، مسالے، دودھ وغیرہ شامل ہیں (2)صفائی ستھرائی: اس میں گھر، لباس، بدن اور برتنوں کی صفائی کے لئے استعمال ہونے والی اشیاء مثلاً صابن،سرف، شیپمو، فنائل، ٹوتھ پیسٹ، مسواک جیسی چیزیں شامل ہیں (3)یوٹیلٹی بلز(Utility Bills): مثلاً بجلی،گیس،پانی،کیبل، انٹرنیٹ، موبائل کارڈ لوڈ(Load) کروانا وغیرہ (4)کرایہ(Rent):جیسے مکان کا کرایہ، دفتر یا کسی کے گھر جانے کےلئے بس یا ٹیکسی، رکشے کا کرایہ وغیرہ، کمیٹی (یعنی بیسی)ڈالی ہوتواس کی ادائیگی،قرض (Loan) لیا ہوتو اس کی ادائیگی،اگر اپنی بائیک یا کار ہے تو اس کے پیٹرول اور سروس وغیرہ کا خرچہ (5)علاج(Medical Treatment): بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کی فیس اور دوائی کی قیمت وغیرہ (6)تعلیم(Education):اسکول کالج وغیرہ کی فیس، اسکول وین(Van) کی فیس، کتابوں، کاپیوں اوراسٹیشنری پرآنے والے اخراجات اور بچّوں کا جیب خرچ(Pocket Money)اور روزانہ کا اسکول لنچ (7)گھریلو سامان کی مَرَمَّت یا تبدیلی:جیسے فریج، واشنگ مشین، گیس کے چولہے وغیرہ میں خرابی کی صورت میں مَرَمَّت (Repairing)کا خرچہ کرنا یا پُرانا سامان استعمال کے قابل نہ ہونے کی صورت میں نیا خریدنا (8)راہِ خدا میں خرچ کرنا:کسی ضَرورت مند کی مددکرنا، بھوکےغریب کو کھانا کھلانا یا مسجد و مَدْرَسہ میں فنڈ دینا وغیرہ (9)غیرمتوقع اَخراجات (Unexpected Expenses): مثلاً اچانک مہمان آگئے یا کسی شادی وغیرہ میں شرکت کرنا پڑی یا کوئی چیز گم ہوگئی، موبائل یا بائیک وغیرہ چھن گئی یا چوری ہوگئی (10)طویلُ المدّت خرچے (Long Term Expenses): مستقبل میں کوئی شے مثلاً فریج،واشنگ مشین،فرنیچر،بائیک یا زمین وغیرہ خریدنے کا ارادہ ہو تو اخراجات کے بعد بچ جانے والی رقم محفوظ کرلینا۔
کس پر کتنا خرچ کرنا ہے؟اس کےلئے مَشورہ ہےکہ سب سے پہلےیہ حساب لگالیں کہ آپ اُوپر بیان ہونے والی چیزوں پراپنے گھر میں کتنا خرچ کرتے ہیں اورکہاں کہاں کٹوتی(یعنی کم کرنے)کی گنجائش ہے؟اس کےمطابق اپنے ماہانہ خرچ کا حساب کرلیں پھر اپنے گھر کا بجٹ نیچے دئیے گئےفرضی گھریلو بجٹ کےمطابق بنالیں(آپ چاہیں تو فیصدی رقم کی جگہ اصل رقم بھی لکھ سکتے ہیں مثلاً
آپ کے یوٹیلٹی بلز کا خرچ دس ہزار ہے تو بجٹ ٹیبل میں یہی لکھ دیجئے):
گھریلو بجٹ کا ٹیبل
راشن |
40فی صد |
صفائی ستھرائی |
05فی صد |
یوٹیلٹی بلز |
10فی صد |
کرایہ |
12فی صد |
علاج |
05فی صد |
تعلیم |
10فی صد |
مَرَمَّت یا تبدیلی |
03فی صد |
راہِ خدا میں خرچ |
05فی صد |
غیر متوقع اخراجات |
05فی صد |
طویلُ المدت خرچ |
05فی صد |
اللہپاک کی رحمت سے اُمید ہےکہ گھریلواخراجات کا اس طرح جائزہ لینے اوربجٹ بنانے سے فضول خرچی سے بھی جان چھوٹےگی اوربِلاوجہ کسی کے آگےسوال بھی نہیں کرنا پڑے گا۔اللہ پاک ہمیں آسانی اور عافیت عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مسلمانوں کے بنیادی عقائد و نظریا ت میں سے حضرت
سیّدُنا عیسیٰ روحُ اللہ علٰی نَبِیِّنَا
وعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام سے متعلّق عقائد بھی بہت اہمیّت کے حامل ہیں۔ آپ
علیہ السَّلام سے متعلّق
تین اسلامی عقیدے اور ان کا انکار کرنےوالے کا شرعی حکم یہاں بیان ہوگا: (1)اللہ پاک نے آپ علیہ السَّلام کو زندہ سلامت
آسمان پر اُٹھالیا(2)آپ علیہ السَّلام پر اب تک موت
طاری نہیں ہوئی(3)قیامت سے پہلےآپ علیہ السَّلام دنیا
میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔
پہلا اور دوسراعقیدہ: حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ
السَّلام کو نہ تو قتل کیا گیا اور نہ ہی سُولی (یعنی پھانسی) دی گئی بلکہاللہ پاک نے آپ کو زندہ
سلامت آسمان پر اُٹھالیا۔ جو منافق شخص یہودیوں
کو آپ کاپتا
بتانے کے لئے آپ کے گھر میں داخل ہوا تھا اللہ پاک نے اسے آپ کا ہم شکل بنادیا۔ اس شخص کا
چہرہ حضرت عیسیٰ علیہ
السَّلام جیسا ہوگیا جبکہ اس کے ہاتھ پاؤں آپ کےہاتھ پاؤں سے مختلف تھے۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ
علیہ السَّلام کے دھوکے میں اسی شخص کو سُولی پرچڑھا دیا۔یہ دونوں عقیدے دینِ اسلام کے بنیادی
اور ضروری عقائد میں سے ہیں جن کا انکار کرنے والا کافر ہے۔)[1](
ان دونوں عقیدوں کی دلیل اللہ پاک کا یہ فرمان ہے: وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ
مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْؕ-وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ
لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُؕ-مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّۚ-وَ
مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢاۙ(۱۵۷) بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا(۱۵۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: انہوں نے نہ تواسے قتل کیا اور نہ اسے سولی دی بلکہ ان
(یہودیوں) کے لئے (عیسیٰ سے) ملتا جلتا (ایک آدمی) بنادیا گیا اور بیشک یہ (یہودی) جو
اس عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہ میں پڑے ہوئے ہیں (حقیقت یہ ہے کہ) سوائے گمان کی پیروی کے ان کو اس کی کچھ بھی خبر نہیں
اور بیشک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا تھا۔)[2](
تیسرا عقیدہ:حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ السَّلام قیامت کے قریب آسمان سے اُتر کردنیا میں دوبارہ
تشریف لائیں گےاور دینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا بول بالا فرمائیں گے۔یہ عقیدہ اہلِ سنّت وجماعت کے ضروری عقائد میں سے ہے جس کا انکار کرنے والا گمراہ اور بدمذہب ہے۔ سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کثیر فرامین سے یہ عقیدہ ثابت ہے اور اہلِ سنّت و جماعت اس پر متفق
ہیں۔)[3](
ضروری
وضاحت:قیامت سے پہلے حضرت سیّدُنا
عیسیٰ علیہ
السَّلام کادنیا میں دوبارہ تشریف
لانا ختمِ نبوّت کے خلاف نہیں ہے کیونکہ وہ سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نائب کے طور
پرتشریف لائیں گے اور آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی شریعت کے مطابق احکام جاری فرمائیں گے۔ امام
جلالُ الدین سُیوطی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے
ہیں: حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ السَّلام جب زمین پر تشریف
لائیں گے ہوں گے تو رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نائب کے طور پر آپ کی شریعت کے مطابق حکم فرمائیں گے نیز آپ
کی اِتباع کرنے والوں اور آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی امّت میں سے ہوں گے۔)[4](
نزولِ عیسیٰ علیہ السَّلام کے بارے میں تین فرامینِ مصطفےٰ
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
کثیر احادیث میں حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ السَّلام کی دنیا میں دوبارہ تشریف آوری کو بیان فرمایا
ہے۔ ان میں سے تین فرامین ملاحظہ فرمائیے:
(1)اس ذات کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے، قریب ہے کہ تم میں حضرت ابنِ مریم علیہ السَّلام نازل
ہوں گے جو انصاف پسند ہوں گے،صَلیب کو توڑیں گے،خنزیر (Pig) کو قتل کریں گے، جِزیَہ)[5]( ختم کر دیں گے اور مال اتنا بڑھ جائے گا کہ لینے
والا کوئی نہ ہو گا۔)[6](
(2)(دجّال کے ظاہر
ہونے کے بعد)اللہ پاک حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام کو بھیجے گا تو وہ جامع
مسجد دِمشق کے سفید مشرقی مینارے پر اس حال میں اُتریں گے کہ انہوں نے ہلکے زرد رنگ کے دو حُلّے پہنے ہوں گے اور انہوں نے دو فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ رکھے ہوں گے،جب آپ سر نیچاکریں گے تو پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے
اور جب آپ سر اٹھائیں گے تو موتیوں کی طرح سفید چاندی کے دانے جھڑ رہے ہوں گے۔)[7](
(3)ضرور عیسیٰ ابنِ مریم حاکم و امامِ عادل ہوکر
اتریں گے اور ضرور شارعِ عام کے راستے حج یا عمرے یا دونوں کی نیّت سے جائیں گے اور ضرورمیری قبر پر آکر سلام کریں گےاور
میں ضرور ان کے سلام کا جواب دوں گا۔)[8](
تفصیلی معلومات حاصل کرنے
کے لئے شہزادۂ اعلیٰ حضرت، حجۃُالاسلام
حضرت مفتی محمد حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے
رسالے ”اَ لصَّارِمُ الرَّبَّانِی عَلٰی اَسْرَافِ الْقادیَانی“ کا
مطالعہ فرمائیے جو ’’فتاویٰ حامدیہ‘‘ میں موجود ہے۔
تربیت کے سلسلے میں نیک ماحول اور اچّھی صحبت کا بڑا عمل
دخل ہے، کسی کا ذہن بنا کر اسے نیک ماحول میں لانا اس کی بہترین تربیت کا سبب بن
سکتا ہے۔ حضرت عبدُالقادر عیسیٰ شاذِلی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:صَحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے درِشفا سے
وابستہ رہتے تھےاور آپ ان کا تَزْ کِیہو تربیت (یعنی نَفْس و قَلْب کو پاک صاف) فرماتے تھے۔)[i](
قول و فعل میں یکسانیت: تربیت کرنے
والے کے لئے جن باتوں کا لِحاظ رکھنا ضَروری ہے ان میں سے ایک انتہائی اہم چیز قول
و فعل کا ایک ہونا بھی ہے۔ اپنی ذات کو عملی نَمونہ(Practical
Model) بنا کر پیش کرنے سے زیرِ تربیت افراد کا ذہن بنانے میں بہت آسانی رہتی ہے جبکہ
قول و فعل میں پایا جانے والا تَضاد (Difference)
ان کے دِلوں کی تشویش کا باعث بن سکتا ہے کہ فلاں کام یہ
خود تو کرتا نہیں اور ہمیں کرنے کا کہتا رہتا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ لوگ
اس کی بات پر توجہ نہیں کرتےاور عمل کرنے کی طرف راغب نہیں ہوتے۔تربیت کرنے والے
کا خود اپنا کِردار (Character)
مثالی ہونا چاہئے، اس کا لوگوں پر بڑا گہرا اَثر (Impact) پڑتا ہے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی زبانی
تربیت جہاں صَحابۂ کرام رضی
اللہ عنہم کی فِکْر و عمل کو جِلا بخش رہی تھی وہیں آپ کی عملی زندگی (Practical Life)نے بھی صَحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بے حد متأثر کیا، جو اِرشاد فرماتے آپ
کی زندگی خود اس کی آئینہ دار ہوتی۔ جب آدَمی کا عمل اس کے قول کے مطابق ہو تو
لوگوں کو اس سے مَحبَّت ہوجاتی ہے اور یہی مَحبَّت تربیت اور کردار سازی (Character Building) میں مُعاوِن ثابت ہوتی ہے۔
جُود و سَخاوَت: سرکارِ دوعالَم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےخود بھی
سخاوت کا مظاہرہ کیا اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی۔چنانچہ حضرت سیِّدُنا جابر بن عبدُاللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلَّمسے جب بھی کچھ مانگا جاتا تو آپ جواب
میں ”لَا“ یعنی”نہیں“نہ فرماتے تھے۔)[ii](ایک شخص نے بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوکر سوال کیا تو آپ نے اسے اتنی بکریاں (Goats)عطا فرمائیں جس سے دو پہاڑوں کے درمیان کی جگہ بھر گئی تو وہ سائل اپنی قوم
کے پاس جا کر کہنے لگا:تم سب اسلام قبول کر لو، بے شک حضرت محمد (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم) اتنا عطا فرماتے ہیں کہ فاقے کا خوف نہیں رہتا۔)[iii](اور امت کو ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: بے شکاللہ پاک نے اس دین کو اپنے لئے خاص کیااور تمہارے دین کے لئے سخاوت اور حُسن
اخلاق ہی مناسب ہیں لہٰذا اپنے دین کو ان دونوں کے ساتھ زینت دو۔)[iv](اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا:سخاوت اللہ پاک کے جُود و کرم سے ہے، سخاوت کرو
اللہ کریم مزید عطا فرمائے گا۔)[v](
زُہد و قَناعَت: رَحْمتِ عالَم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود بھی زُہد و قناعت والی زندگی بسر فرمائی
اور اُمّت کو بھی اسی کی تعلیم ارشاد فرمائی۔چنانچہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکے کندھے پکڑکر ارشاد فرمایا:دنیا میں
اس طرح رہو کہ گویا تم مسافر ہو۔)[vi]( ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: دنیا اُس کا گھر ہے
جس کا کوئی گھر نہ ہو اور اُس کا مال ہے
جس کا کوئی مال نہ ہو اور اِس کے لئے وہ جمع کرتا ہے جس میں عقل نہ ہو۔)[vii](
آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا اپنا یہ عالَم تھا کہ چٹائی پر سوتے تھے جس
سے جِسْمِ اَقدس پر چٹائی کے نشانات بن جاتے تھے۔ آپ اور آپ کے اَہل و عِیال (Family Members) نے کبھی تین دن مسلسل (Continuous) روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی اور نہ ہی کبھی آپ کے لئے
آٹا چھان کر پکایا گیا۔ ”ایک مرتبہ حضرت فاطمہ رضی
اللہ عنہا نے (جَو کی) روٹی کا ایک ٹکڑا خدمتِ اَقدس میں پیش
کیا تو اِرشادفرمایا:یہ پہلا کھانا ہے جو تین دن کے بعد تمہارے والد کے منہ میں داخل
ہوا ہے۔“)[viii](یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ حُضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کی عطا سے
ہر چیز کے مالک ہیں، آپ جیسی چاہتے ویسی شاہانہ زندگی بَسر فرما سکتے تھے مگر آپ لوگوں
کو زُہد و قَناعَت کی جو تعلیم دیتے تھے اس کا عملی نَمونہ خود پیش فرمانا چاہتے تھے۔الغرض یہ کہ اگر ہم کسی سے کوئی نیک عمل
کروانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اسے اپنی ذات پر نافذ کرنا ہوگا ورنہ
اچھے نتائج کی اُمّید رکھنا حَماقَت ہے۔
دِلی ہمدردی و خیر
خواہی: تربیت کرنے والا جس کی تربیت کرنا
چاہتا ہے اس کے ساتھ اسے دلی ہمدردی ہو، اس کی اِصلاح و تربیت کے حوالے سے اپنے دل
میں کُڑھتا ہو اور اس کے ساتھ خیرخواہی کے جذبات اس میں موجود ہوں، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ صِرف صَحابہ کے حوالے سے فِکْر مند رہتے بلکہ
ایمان نہ لانے والے کافروں کی ہدایت کے لئے بھی انتہائی غمگین رہا کرتے تھے،چنانچہ
قراٰن پاک میں ہے:
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ
اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا(۶)
تَرجَمۂ کنزُ العِرفان: اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو ہوسکتا ہے کہ تم ان
کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کو ختم کردو۔)[ix](حالانکہ مشرکینِ
مکّہ آپ کو اور آپ کے غلاموں کو پریشان کرتے تھے، ظُلْم و سِتَم کے پہاڑ توڑتے تھے، مگر رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ان کے ساتھ طرزِ عمل یہ ہوتا کہ آپ ان کے ایمان نہ لانے
کے باعث انتہائی غمزَدہ رہا کرتے۔
میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ ان بیان کردہ راہ نما اُصولوں کو اپنا تے ہوئے
معاشرے کے افراد کی تربیت میں اپنا حصّہ ملائیے اور اس حوالے سےمخلص ہوجائیے اِنْ شَآءَ اللہ معاشرہ نیکی کی
راہ کی طرف گامزن ہوجائے گا۔
اجزائے ترکیبی:
ڈبل روٹی کے پیس: 2 عدد
چاول پسے ہوئے:دو مُٹھی کم
و بیش تین کھانے کے چمچ
الائچی: پسی ہوئی دو سے تین عدد
چینی:تین بڑے چمچ کھانے
والے
خُشک دودھ: چار چھوٹے
ساشے)اس کی مقدار بڑھانا چاہیں تو بڑھا سکتے ہیں)
آئل: دو سے تین چمچ
دودھ :
ایک لیٹر
ترکیب:
(1)ڈبل روٹی کے
ٹکڑے (Pieces)کر لیجئے اور
ان ٹکڑوں کو گرائنڈر میں بِالکل باریک پِیس لیں یا ہاتھوں کی مدد سے باریک چُورا کرلیں۔
(2)اب ڈبل روٹی کے اس
چُورے کو فرائی پین میں ایک سے دو منٹ کیلئے فرائی (Fry) کرلیں۔
(3)چینی کے 3 بڑے چمچ
فرائی پین میں ڈال کرپھیلا دیں اور ہلکی آنچ پر رکھ دیں۔
(4) جب چینی پگھل جائے (خود
بخود پگھل جائے گی اس دوران چمچ نہیں چلانا) تو چُولہے سے ہٹا کر کسی اسٹیل کی پلیٹ
میں چکنائی (Oil) لگا کر پھیلا
دیں۔
(5)جب پگھلی ہوئی چینی (Caramel) ٹھنڈی ہو کر کڑک
(Hard) ہوجائے، تو اسے چمچ (Spoon) کی مدد سے
توڑ لیں اور گرائنڈ (Grind) کرلیں۔
(6)بریڈ کرمبز(Breadcrumbs)،گرائنڈ چینی،
خُشک دودھ، الائچی پِسی ہوئی، چاول پسے ہوئے (چاولوں کو خشک پیس لیں، بھگونے کی ضرورت
نہیں) ان تمام اجزا کو ایک بڑے پیالے میں ڈال کر مِکس کر لیں۔
(7)کسی پتیلی میں دودھ
ڈالیں اور یہ سارامِکسْچَر (Mixture) ڈال کر گاڑھا ہونے تک پکائیں۔
(8)جب کھیر گاڑھی ہو جائے
تو چولہے سے اُتار لیں ، چاہیں تو اپنی
پسند کے میوہ جات (Dry Fruit) بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ لیجئے! مزیدار اور سَستی کھیر
تیار ہے۔
نوٹ: اس مکسچر کو ایک
مہینے تک محفوظ کر سکتے ہیں اور جب چاہیں استعمال کرسکتے ہیں۔
چائے
عُموماً لوگ ناشتے(Breakfast) میں،
شام کے وقت ریفریشمنٹ کے لئے اور مہمانوں کے لئے بطورِ مہمان نوازی استعمال کرتے
ہیں۔ موسمِ سرما میں اس کی مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے مگر اَدْرَک کی چائے کے اپنے ہی
فوائد ہیں اور موسمی بیماریوں میں اس کا استعمال موزُوں بھی ہے۔ آئیے ادرک کی چائے
کے چند فوائد مُلاحَظہ کرتے ہیں: ٭ادرک کی چائے وزن کم کرنے کے لئے مُفید ہے
کیونکہ اس کے پینے سے بُھوک میں کمی واقع ہوتی
ہے ٭نظامِ اِنہضام(Digestive System)کو ٹھیک رکھتی اور بدہضمی و گیس سے بچاتی
ہے ٭بلڈ شوگر لیول کو متوازن (Balance) رکھتی ہے ٭اس سے خُون کا
بہاؤ بڑھتا ہے ٭ نزلہ و زکام میں مُفید ہے ٭گلے کے درد اور خراش کو دور کرتی
اور گلے کو صاف رکھتی ہے ٭تھکن و سُستی سے نجات بخشتی ہے ٭کھانسی میں آرام پہنچاتی
ہے ٭بلغم کو خارج کرتی ہے ٭پٹّھوں کے درد، سوجن
اور ناک کی سوزِش (Rhinitis)
کے
لئے بھی مُفید ہے ٭پسینہ نکالتی اور جسم کو تروتازہ کرتی ہے۔
احتیاط:اَدْرَک کی
چائے اپنے اندر بے شمار فوائد سموئے ہوئے ہے البتہ چند افراد کو ادرک کی چائے پینے
میں احتیاط کرنی چاہئے مثلاً ٭خون کو پتلا کرنے والی دوائیں استعمال کرنے والوں کو
٭گرم مزاج والوں (یعنی جن کا معدہ گرم ہو ان) کو ٭نکسیر
والے مریضوں کو اَدْرک کی چائے پینے سے پرہیز کرنا چاہئے ٭اسی طرح ادرک کی چائے
نیند اُڑا دیتی ہے لہٰذا رات میں اس کے استعمال سے بچنا چاہئے۔