مسلمانوں کے بنیادی عقائد و نظریا ت میں سے حضرت
سیّدُنا عیسیٰ روحُ اللہ علٰی نَبِیِّنَا
وعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام سے متعلّق عقائد بھی بہت اہمیّت کے حامل ہیں۔ آپ
علیہ السَّلام سے متعلّق
تین اسلامی عقیدے اور ان کا انکار کرنےوالے کا شرعی حکم یہاں بیان ہوگا: (1)اللہ پاک نے آپ علیہ السَّلام کو زندہ سلامت
آسمان پر اُٹھالیا(2)آپ علیہ السَّلام پر اب تک موت
طاری نہیں ہوئی(3)قیامت سے پہلےآپ علیہ السَّلام دنیا
میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔
پہلا اور دوسراعقیدہ: حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ
السَّلام کو نہ تو قتل کیا گیا اور نہ ہی سُولی (یعنی پھانسی) دی گئی بلکہاللہ پاک نے آپ کو زندہ
سلامت آسمان پر اُٹھالیا۔ جو منافق شخص یہودیوں
کو آپ کاپتا
بتانے کے لئے آپ کے گھر میں داخل ہوا تھا اللہ پاک نے اسے آپ کا ہم شکل بنادیا۔ اس شخص کا
چہرہ حضرت عیسیٰ علیہ
السَّلام جیسا ہوگیا جبکہ اس کے ہاتھ پاؤں آپ کےہاتھ پاؤں سے مختلف تھے۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ
علیہ السَّلام کے دھوکے میں اسی شخص کو سُولی پرچڑھا دیا۔یہ دونوں عقیدے دینِ اسلام کے بنیادی
اور ضروری عقائد میں سے ہیں جن کا انکار کرنے والا کافر ہے۔)[1](
ان دونوں عقیدوں کی دلیل اللہ پاک کا یہ فرمان ہے: وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ
مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْؕ-وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ
لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُؕ-مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّۚ-وَ
مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢاۙ(۱۵۷) بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا(۱۵۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: انہوں نے نہ تواسے قتل کیا اور نہ اسے سولی دی بلکہ ان
(یہودیوں) کے لئے (عیسیٰ سے) ملتا جلتا (ایک آدمی) بنادیا گیا اور بیشک یہ (یہودی) جو
اس عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہ میں پڑے ہوئے ہیں (حقیقت یہ ہے کہ) سوائے گمان کی پیروی کے ان کو اس کی کچھ بھی خبر نہیں
اور بیشک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا تھا۔)[2](
تیسرا عقیدہ:حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ السَّلام قیامت کے قریب آسمان سے اُتر کردنیا میں دوبارہ
تشریف لائیں گےاور دینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا بول بالا فرمائیں گے۔یہ عقیدہ اہلِ سنّت وجماعت کے ضروری عقائد میں سے ہے جس کا انکار کرنے والا گمراہ اور بدمذہب ہے۔ سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کثیر فرامین سے یہ عقیدہ ثابت ہے اور اہلِ سنّت و جماعت اس پر متفق
ہیں۔)[3](
ضروری
وضاحت:قیامت سے پہلے حضرت سیّدُنا
عیسیٰ علیہ
السَّلام کادنیا میں دوبارہ تشریف
لانا ختمِ نبوّت کے خلاف نہیں ہے کیونکہ وہ سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نائب کے طور
پرتشریف لائیں گے اور آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی شریعت کے مطابق احکام جاری فرمائیں گے۔ امام
جلالُ الدین سُیوطی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے
ہیں: حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ السَّلام جب زمین پر تشریف
لائیں گے ہوں گے تو رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نائب کے طور پر آپ کی شریعت کے مطابق حکم فرمائیں گے نیز آپ
کی اِتباع کرنے والوں اور آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی امّت میں سے ہوں گے۔)[4](
نزولِ عیسیٰ علیہ السَّلام کے بارے میں تین فرامینِ مصطفےٰ
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
کثیر احادیث میں حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ السَّلام کی دنیا میں دوبارہ تشریف آوری کو بیان فرمایا
ہے۔ ان میں سے تین فرامین ملاحظہ فرمائیے:
(1)اس ذات کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے، قریب ہے کہ تم میں حضرت ابنِ مریم علیہ السَّلام نازل
ہوں گے جو انصاف پسند ہوں گے،صَلیب کو توڑیں گے،خنزیر (Pig) کو قتل کریں گے، جِزیَہ)[5]( ختم کر دیں گے اور مال اتنا بڑھ جائے گا کہ لینے
والا کوئی نہ ہو گا۔)[6](
(2)(دجّال کے ظاہر
ہونے کے بعد)اللہ پاک حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام کو بھیجے گا تو وہ جامع
مسجد دِمشق کے سفید مشرقی مینارے پر اس حال میں اُتریں گے کہ انہوں نے ہلکے زرد رنگ کے دو حُلّے پہنے ہوں گے اور انہوں نے دو فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ رکھے ہوں گے،جب آپ سر نیچاکریں گے تو پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے
اور جب آپ سر اٹھائیں گے تو موتیوں کی طرح سفید چاندی کے دانے جھڑ رہے ہوں گے۔)[7](
(3)ضرور عیسیٰ ابنِ مریم حاکم و امامِ عادل ہوکر
اتریں گے اور ضرور شارعِ عام کے راستے حج یا عمرے یا دونوں کی نیّت سے جائیں گے اور ضرورمیری قبر پر آکر سلام کریں گےاور
میں ضرور ان کے سلام کا جواب دوں گا۔)[8](
تفصیلی معلومات حاصل کرنے
کے لئے شہزادۂ اعلیٰ حضرت، حجۃُالاسلام
حضرت مفتی محمد حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے
رسالے ”اَ لصَّارِمُ الرَّبَّانِی عَلٰی اَسْرَافِ الْقادیَانی“ کا
مطالعہ فرمائیے جو ’’فتاویٰ حامدیہ‘‘ میں موجود ہے۔