سائیڈ پہ ہٹ جاؤ! میں نےاب تمہاری پٹائی کر دینی ہے، اُمِّ بلال روٹیاں
پکانے میں مصروف تھی اور چھوٹی بیٹی اَرْویٰ اس کا دوپٹہ پکڑے کھڑی تھی اور ضد
کررہی تھی:امی! میں بھی روٹی پکاؤں گی۔ابھی اس کی ضدختم نہ
ہوئی تھی کہ اندر سے چھوٹے بیٹے کے رونے کی آواز آئی، اَرْویٰ
! جاؤ! چھوٹے بھائی کو چُپ کرواؤ، میں آتی ہوں، لیکن اَرْویٰ ٹَس سے مَس نہیں ہوئی۔
سارا دن گھر کے کام ہی ختم نہیں ہوتے، بچے
تو دوگھڑی سکون کا سانس بھی نہیں لینے دیتے!آج اِن کے ابو آتے
ہیں تو کہتی ہوں کہ ہمیں کچھ دن کے لئے میرے بھائی کے گھر چھوڑ آئیں، اُمِّ بلال
نےپریشان ہوکر سوچا۔
کل آپ ہمیں ارویٰ کے ماموں کے گھر چھوڑ آئیے گا،
رات کے کھانے کے بعد سلیم صاحب کو چائے پیش کرتے ہوئے اُمِّ
بلال نے کہا۔کتنے دن کا ارادہ ہے؟ سلیم صاحب نے پوچھا۔ یہی کوئی ہفتہ، دس دن۔ٹھیک
ہے،سلیم صاحب نے چائے کا گھونٹ بھر کر جواب دیا۔
اُمِّ عاتکہ بچوں کو اسکول بھیج کر گھر کی
صفائی ستھرائی میں مشغول تھی کہ ڈور بیل کی آوازسنائی دی، کون ہے؟
بھابی! میں ہوں اُمِّ بلال ۔
اپنی چھوٹی نند کی آواز پہچان کر اُمِّ عاتکہ نے دروازہ کھول دیا۔
ارے آپ لوگ! آنے سے پہلے خبر تو دی
ہوتی، امِّ عاتکہ نے اُمِّ بلال کےسلام کا جواب دینے کے بعد اس سے گلے ملتے ہوئے
کہا۔
بس ہم نے سوچا آپ کو سرپرائز دیتے ہیں، بھائی اور آپ سے ملے ہوئے بھی تو کافی
دن ہو گئے تھے، آپ لوگوں کو تو ہماری یاد آتی نہیں تو ہم ہی ملنے آ گئے، اُمِّ
بلال نے جواباً کہا۔
بہت ا چھا کیا تم نے، میں تو بچوں کے اسکول کی وجہ سے کہیں آ جا بھی نہیں سکتی، چلو آپ آرام
سے بیٹھو میں چائےبنا کر لاتی ہوں۔
اُمِّ بلال کو بھائی کے گھر آئے ہفتہ گزر چکا تھا، نہ کھانا پکانے کی جھنجٹ نہ گھر کے کاموں کی ٹینشن، سارا دن بھابی
خاطر تواضع میں مگن رہتیں تو شام کے وقت بھائی صاحب آکر بہن اور بھانجا بھانجی کے خوب ناز اٹھاتے، دن کے دس بجے ناشتے سے فارغ ہو کر اُمِّ بلال
بیسن پر ہاتھ دھو رہی تھی کہ اَرْویٰ کی آواز آئی: امی ،امی!بڑی خالہ کا فون آیا ہے۔
اِدھر لاؤ بیٹی،السلام علیکم!باجی کیسی ہیں آپ؟
میں ٹھیک ہوں، آپ سُناؤ! کہاں مصروف ہو، اتنے دنوں
سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟ باجی نے آگے سے کہا۔
ارے مت پوچھئے باجی،
ہم تو بڑے مزے میں ہیں ، خوب عیش ہورہے ہیں ، ایک ہفتہ ہو گیا یاسر بھائی کے گھر
ٹھہرے ہوئے ہیں، اُمِّ بلال نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
ایک ہفتہ !! باجی نے
زور دیتے ہوئے کہا، کچھ تو خیال کرو بہن! کسی پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتے۔
نہیں باجی، بھابھی
اور بھائی تو بہت خوش ہیں بالکل بھی تنگ نہیں ہو رہے،میرا اور بچوں کا خوب خیال
رکھ رہے ہیں۔
باجی سمجھانے لگیں
:میری بہن! مُرَوَّت اور لحاظ بھی کوئی
چیز ہوتی ہے، اب وہ آپ کو خود تو
نہیں کہیں گے کہ چلے
جاؤ، آخر مہمان کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں!
ارے باجی آپ بھی پتا نہیں کیا کیا سوچ
لیتی ہیں! مہمان نوازی کے آداب تو سُنے تھے یہ ’’مہمان کے آداب ‘‘آپ پتا نہیں کہاں سے نکال
لائیں!
دیکھو بہن!خود ہمارے گھر کوئی
دو سے تین دن رہنے آجائے تو ہم کتنے پریشان ہو جاتے ہیں، گھریلو ٹائم ٹیبل کے ساتھ ساتھ ماہانہ بجٹ بھی خطرے میں دکھائی دیتا ہے
تو دوسروں کے بارے میں کیا خیال ہے آخر وہ بھی تو اسی دنیا میں رہتے ہیں،
یہ مسائل انہیں بھی تو درپیش ہو سکتے ہیں،اور مہمان کے آداب میری اپنی سوچ نہیں
ہیں ہمارا اسلام ہمیں اس کی تعلیم دیتا ہےسنو!ہما
رے پیارےآقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے:مہمانی ایک دِن رات
ہےاور دعوت تین دِن ہے، اس کے بعد صدقہ ہے، مہمان کو حلال نہیں کہ اس کے پاس ٹھہرا
رہے،حتّٰی کہ اسے تنگ کر دے۔( مشکاۃ المصابیح،
2/101، حدیث:4244)بڑی بہن ہونے کے
ناطے میرا سمجھانا ضروری تھا، آگے تمہاری مرضی، اچھا فون رکھتی ہوں۔
باجی کے الوداعی
سلام کا جواب دیتے ہوئے اُمِّ بلال سوچ رہی تھی کہ اَرْویٰ کے ابو
کو فون کر کے بولتی ہوں، آج دفتر سے چھٹی کے بعد ہمیں لینے آ جائیں۔