ابتدائے اسلام میں ایمان لاکر مدینۂ مُنوّرہ کی طرف ہجرت کرنے والی صحابیات میں سے ایک خوش نصیب صحابیہ حضرت فاطمہ بنتِ قَیس فِہْریہ قرشیہ رضی اللہ عنھا بھی ہیں۔

مختصر تعارف:آپ کا نام فاطمہ، والدہ کا نام اُمَیْمَہ بنتِ ربیعہ اور والد کا نام قَیْس بن خالد ہے۔آپ بہت حُسن و جمال والی، دانش مند اور صائبُ الرائے خاتون ہیں۔آپ حضرت سیّدنا ضحّاک بن قَیس رضی اللہ عنہ کی بڑی بہن ہیں جو قبیلۂ بنوقیس کے سردار تھے۔آپ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے: فاطمہ بنتِ قيس بن خالد الاكبر بن وَهب بن ثَعْلَبَہ بن وائِلَہ بن عَمرو بن شَيْبان بن مَحارِب بن فِہْر بن مالك بن نَضْر بن كِنانہ۔([1])

نکاح:صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے اپنی ذاتی حیثیت بالکل فنا کر کےاپنی ذات اور اپنی آل اولاد کورسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےحوالے کردیا تھا۔یہی وجہ ہےکہ جب آپ رضی اللہ عنہا کے پاس نکاح کے پیغامات آئے تو آپ نے اس معاملے کا مالک حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کوبنادیا اور کہا: میرا معاملہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہاتھ میں ہےجس سے چاہیں نکاح فرمادیں۔ چنانچہ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے انہیں حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نکاح کرنے کا مشورہ عنایت فرمایا،آپ نے حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کرتے ہوئے حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا۔ آپ کہا کرتی تھیں کہ اللہ پاک نے اس نکاح میں ایسی برکت عطا فرمائی کہ اس نکاح کی بدولت لوگ مجھ پر رشک کرنے لگے۔([2])

خدمتِ حدیث و احکامِ اسلام کی اِشاعت:٭آپ رضی اللہ عنہا نے حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے 34 اَحادیثِ مُبارکہ روایت کیں ٭آپ سے مَروی روایات احادیثِ مُبارکہ کی مشہور کُتُب صِحاح سِتّہ (یعنی بخاری، مسلم، ابوداؤد، ترمذی، ابنِ ماجہ اور نسائی) میں مذکور ہیں ٭آپ سے کِبار تابعینِ کرام رحمۃ اللہ علیھم نے احادیث روایت کی ہیں جن میں حضرت سَعید بن مُسیّب، عُروہ بن زُبير، اَسود بن يزيد نَخَعی، سُلیمان بن يَسار، عامر شَعْبی، عبدُ الرّحمٰن بن عاصم اور ابوسلمہ بن عبدُ الرّحمٰن جیسی ہستیوں کے نام شامل ہیںرحمۃ اللہ علیھم اجمعین٭طلاق یافتہ عورت کے نان نفقے اور رہائش سے متعلّق احادیث آپ نے روایت کی ہیں ٭ مسلم اور ابو داؤد کی ایک حدیث جو عُلَما میں ”حدیثِ جَسّاسہ“([3])کے نام سے شہرت رکھتی ہے، وہ بھی آپ رضی اللہ عنھا سے مَروی ہے۔([4])

وفات:آپ رضی اللہ عنھاکےسنِ وفات(Death Year) کا تذکرہ سیرت کی کتابوں میں نہیں ملتا البتہ علّامہ محمد بن احمد ذَھَبیرحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا کہ آپ کی وَفات حضرت سیّدنا امیرِ معاویہرضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ہوئی۔([5])



([1])تہذیب الکمال، 11/756،اسد الغابہ،7/248

([2])ابوداؤد، 2/416، حدیث: 2284،نسائی، 6/80،حدیث:3238ملخصاً

([3])یعنی وہ حدیثِ پاک جس میں دجّال سے متعلق احوال مذکور ہیں۔

([4])سیر اعلام النبلا،2/319،تہذیب الکمال،11/755، تہذیب الاسماء واللغات، 2/617

([5])سیر اعلام النبلاء، 2/319