میمونہ بنتِ اسحاق!
اسٹیج سے اعلان ہوا تو چھوٹی میمونہ اپنی امّی
جان کا ہاتھ پکڑے پوزیشن آنے پر انعام لینےکے لئے آگے بڑھی۔
تقریب ختم ہونے کے بعد اُمِّ میمونہ گھر واپسی
کی تیّاری کر رہی تھیں کہ پیچھے سے آواز آئی:کہاں غائب رہتی ہو؟ آپ تو عید کا چاند
ہی ہو گئی ہو۔ اُمِّ میمونہ نے مُڑ کر دیکھا تو فرحین اور راحیلہ کھڑی مسکرا رہی
تھیں۔
ارے آپ!!! اُمِّ میمونہ نے خوشی سے کہا اور تینوں
خواتین آپس میں سلام کرتے ہوئے قریب رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئیں۔
خانگی ذمّہ داریوں سے فرصت ہی نہیں ملتی ویسے
بھی میمونہ کے ابُّوکی بھی خواہش ہے کہ میں گھر اور بچّوں کو زیادہ سے زیادہ وقت
دوں، اُمِّ میمونہ نے اپنی مصروفیات گنواتے ہوئے کہا۔
فرحین فوراً بولیں: ہاں بھئی! یہ مَرد تو چاہتے
ہی یہی ہیں کہ عورتیں گھروں میں قید رہیں اور خود صبح سے شام تک باہر مزے کرتے رہتے
ہیں۔
تب تک راحیلہ اسکول کینٹین سے سب کے لئے چائے لے
آئی تھی۔
ایسا صِرف عورتیں سوچتی
ہیں، حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دن بھر ذہنی یا جسمانی مَشَقَّت سے بھرپور کام کرنے کے
ساتھ ساتھ باس وغیرہ کی جلی کٹی برداشت کرنا، اور مقصد اپنی سہولیات یا آسائشات نہیں
بلکہ اپنے بیوی، بچّوں کی خواہشیں پوری کرنا، انہیں بہتر زندگی فراہم کرنا ہوتا
ہے۔ یہ ہیں ان کی زندگی کےمزے، اُمِّ میمونہ نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا۔
کیسی خواہشیں؟ جب بھی کسی چیز کا کہو تو یہی
سُننے کو ملتا ہے کہ ابھی ہاتھ تنگ ہے تو ابھی فلاں ضرورت ہے۔ ہاں! اپنی ماں اور
بہنوں کی فرمائشیں تو جھٹ سے پوری کر دی جاتی ہیں، راحیلہ تَلْخ لہجے کے ساتھ
گفتگو میں شریک ہوئی۔
راحیلہ بہن! دِل چھوٹا نہیں کرتے، جو چیز ہمارے نصیب
میں لکھی ہے وہ ہمیں مل کر رہے گی، چاہے کوئی سو (100) رُکاوٹیں
کھڑی کرے، اُمِّ میمونہ چائے کا گھونٹ بھرنے کے لئے رکیں، پھر اپنی بات جاری رکھتے
ہوئے بولیں:
ناراض مت ہونا! میں بھی آپ کی طرح ایک عورت ہی
ہوں، اس لئے جانتی ہوں کہ عورتوں کا دل نہیں بھرتا، الماری میں کپڑے رکھنے کی جگہ
نہیں ہوتی پھر بھی کپڑے نہ ہونے کی شکایت کریں گی، کسی دوسرے کے پاس اپنے سے بہتر
چیز دیکھ لی تو شوہر کو کوسنے شروع، ایسی ہی چھوٹی بڑی باتوں کو لے کر شوہروں کی ناشُکری
کرتی رہتی ہیں، اس حوالے سے کل ہی میں نے ایک حدیثِ پاک پڑھی تھی آپ کو سناتی ہوں:
پیارے
آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں نے جہنّم میں اکثریت عورتوں
کی دیکھی۔
یَارسولَ اللہ!اس کی وجہ کیا ہے؟ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے پوچھا۔ارشادفرمایا: وہ ناشُکری کرتی ہیں۔
عرض کی گئی: کیا وہ اللہ پاک کی ناشُکری کرتی ہیں؟
ارشاد فرمایا: وہ شوہر کی ناشُکری کرتی ہیں اور
احسانات سے مُکَر جاتی ہیں، اگر تُم کسی عورت کے ساتھ عمْر بھر اچّھا سُلوک کرو
پھر بھی تُمہاری طرف سے اسے کوئی ہلکی سی بات پہنچے تو کہے گی: میں نے تُم سے کبھی
کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔(بخاری،3/463،حدیث:5197)
خُلُوص اور سچّائی بہرحال اپنا اثر رکھتی ہے، اُمِّ
میمونہ کی باتیں سُن کر فرحین اور راحیلہ کے چہرے پر چھائی نَدامت بتا رہی تھی کہ
وہ اپنی سابِقَہ سوچ پر شرمندہ ہیں۔
شام کے وقت چاچُو گھر
پہنچے تو انہیں حیرت ہوئی کہ شرارتی ننّھے میاں صوفے پر مُنہ
لٹکائے بیٹھے ہیں اور ان کی خالہ کے بیٹے سُہیل اورسلیم کھیل کود رہے ہیں، دن
بھرکے کام کاج کی تھکاوٹ کے باوجود چاچو سیدھا ننھے میاں کے پاس آگئے۔
آپ خاموش کیوں بیٹھے ہیں؟
بچّوں کے ساتھ کھیل کیوں نہیں رہے؟ چاچو نے پوچھا۔ میرا دل نہیں چاہ
رہا، ننھے میاں نے رُوٹھے منہ جواب دیا۔ چلو! جب آپ کا دل کرے تب کھیل لینا، چاچو نے ننّھے میاں کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
ننّھے میاں کافی دیر بعد
بھی صوفے سے نہیں اُٹھے تو چاچو قریب آکر بولے: کیا ہوا ہے؟ آج ہمارے ننھے میاں
اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل ہی نہیں رہے۔مجھے کسی کے ساتھ نہیں کھیلنا، میں دادی
سے ناراض ہوں، ننّھے میاں نے غُصّہ میں منہ دوسری طرف کر لیا۔
دادی نے ایسا کیا کردیا
جو آپ ان سے ناراض ہیں؟ چاچو نے پوچھا، مگر ننّھے میاں نے کوئی جواب نہیں دیا۔یہ بات آہستہ آہستہ پورے گھر میں پھیل گئی کہ
ننّھے میاں دادی جان سے ناراض ہیں، دادی جان تک خبر پہنچی تو وہ اپنے کمرے سے چشمہ پہنے بغیر ہی اپنے لاڈلے پوتے کے پاس چلی
آئیں۔
ارے! میرا چاند مجھ سے
ناراض ہےاور مجھے پتا ہی نہیں۔ لیکن! کس بات نے میرے لال کو اپنی دادی سے ناراض کیا
ہے؟ ننھے میاں سے دادی نے پوچھا: دادی!
آپ نے ٹھیک نہیں کیا۔ میں سُہیل اور
سلیم کے ساتھ کھیل رہا تھا، آپ آئیں اورسُہیل اور سلیم کو 5 اخروٹ دئیے اور مجھے
صرف 4 اخروٹ۔ ان 4میں سے بھی ایک اخروٹ خالی تھا۔ ننّھے میاں نے ناراض ہونے کی وجہ بتائی ۔
گھر کے سب لوگ قریب آچکے
تھےاور ننھے میاں کی باتوں پر حیران ہورہے تھے۔ ارے بھئی! میں نے تومُٹّھی بھر کر
اخروٹ دئیے تھے ان کو 5 مل گئے اور آپ کو چار۔تم تو میرے لاڈلے ہو، ایک نہیں بلکہ
2 اخروٹ اور دوں گی مگر! اس کے لئے تم کو ایک سچی کہانی سننی ہو گی اور اس پرعمل
کرنا ہوگا۔ دادی نےاخروٹ کی لالچ دیتے ہوئے کہا۔ ”2 اخروٹ!! جلدی بتائیے، میں ضرور
عمل کروں گا۔“ ننّھے میاں نے جلدی جلدی کہا۔
کہانی سننے کے لئے گھر کے
بڑے بھی ننّھے میاں کی طرح اپنے بچپن میں لوٹ گئے اور خاموش ہوکر توجّہ سے سننے
لگے۔ دادی نے کہانی شروع کی:
ایک مرتبہ ایک بُھوکا شخص ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّمکے
پاس آیااور کھانا مانگنے لگا اس وقت آپ کے گھر میں کھانے کے لئے کچھ نہ تھا۔ پھر
ہمارے مدنی آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس بُھوکے شخص کو کیا جواب دیا۔
ننّھے میاں نے دادی جان سے سوال کیا۔ دادی جان نے بتایا کہ آپ نے لوگوں سے پوچھا: اسے کون مہمان بنائے گا؟ ایک
صحابی کھڑے ہوئے اور اس شخص کو مہمان بناکر گھر لے گئے۔
کچھ کھانے کو ہے؟ گھر پہنچ
کر اپنی بیوی سےپوچھنےلگے۔ وہ بولیں:صرف بچّوں کا کھانا رکھا ہوا ہے۔ان صحا بی نے
کہا: بچّوں کو ایسے ہی سُلادو اور وہ کھانا مہمان کےلئے لے آؤ۔ جب ہمارا مہمان
کھانا کھانے لگے تو تم چراغ بُجھادینا۔ ہم مہمان کے پاس بیٹھے رہیں گے اور مہمان یہ
سمجھے گا کہ ہم دونوں اس کے ساتھ کھارہے ہیں۔
ان صحابی کی بیوی نے ایسا
ہی کیا اور مہمان یہی سمجھتا رہا کہ دونوں میاں بیوی اس کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں۔
اس طرح دونوں میاں بیوی خود تو بُھوکے رہے مگر! اپنے مہمان کی بُھوک کو ختم کردیا۔
دادی نے کہانی کے بعد ننّھے
میاں کو سمجھاتے ہوئے کہا: اچھے لوگ اپنے مہمانوں کی بہت عزّت (Respect) کرتے ہیں۔ سلیم اور سُہیل بھی ہمارے مہمان(Guest) ہیں اگر کبھی کوئی چیز انہیں زیادہ مِل جائے اور
آپ کو کم ملے یا آپ کی چیز خراب نکلے تو اس پر ناراض نہ ہوا کریں اور نہ بُرا مانا
کریں۔
ننّھےمیاں نے ہاں میں سَر
ہِلاتے ہوئے کہا: ٹھیک ہے دادی!مہمان کو جو چیز دی جائےگی میں اس پر ناراض
نہیں ہوا کروں گا۔ اب جلدی سے مجھے اخروٹ دیجئے ، ننّھے میاں کی بات سُن کر سب مسکرا دئیے۔
ایک دن بادشاہ (King)نے بڑا عجیب وغریب حکم دیا: ملک بھر سے بے وقوفوں کو اکٹّھا کیاجائے، ان میں سے جو سب
سے بڑا بے وقوف (Fool)ہوگا اُسے انعام دیا جائے گا۔ انعام کے لالَچ میں سینکڑوں
بےوقوف دربار میں اکٹّھے ہوگئے۔ بادشاہ نے ان میں بےوقوفی کے مختلف مقابلے (Competitions) کروائے، فائنل راؤنڈ میں جو شخص جیتا اُسے ”بے وقوفوں کا چیمپیئن“
قرار دیا گیا، بادشاہ نے قیمتی ہیرے جَواہِرات کا شاہی ہار اپنے گلے
سےاُتار کر اسے انعام میں دیا ۔ ’’سب سے بڑا بےوقوف“ شخص یہ اِعْزازو انعام پاکر خُوشی خُوشی
گھر کو لَوٹ گیا۔ کچھ عرصے بعد بادشاہ شدید بیمار ہوکر بِستر سے لگ گیا۔ اس کی
بیماری کا سُن کر ’’سب سے بڑا بے وقوف ‘‘بھی ملنے کے خیال سے آیا ، بادشاہ بیڈ
ریسٹ (Bed
Rest)پر تھا لیکن اس شخص کو بادشاہ
سے ملاقات کی خُصُوصی اجازت دے دی گئی۔ بےوقوف شخص
نے بادشاہ سے پوچھا: کیاحال ہے؟ بادشاہ بولا: اس شخص کا حال کیا پوچھتے ہو جو ایسے
سفر پر جارہا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ بےوقوف نے حیرت سے پوچھا : کیا آپ وہاں
سے واپس نہیں آئیں گے؟ وہیں رہیں گے؟ بادشاہ نے بے بسی سے کہا: ہاں! ایسا ہی ہے۔
بے وقوف نے سوال کیا: پھر تو آپ نے وہاں بہت
بڑا محل(Palace)، باغات (Gardens)، خدمت کے لئے شاہی کنیزیں، غُلام (Slaves) اور عیش و عِشْرت کا بہت سارا
سامان روانہ کردیا ہوگا! بادشاہ چیخ مار کر رونے لگا، بےوقوف نے بادشاہ کی یہ حالت
دیکھی تو حیرت میں پڑ گیا کہ بادشاہ کو اچانک کیا ہوگیا ہے! ’’نہیں! میں نے وہاں
ایسا کچھ نہیں بھیجا،“ بادشاہ نے بمشکل جواب دیا۔ بے وقوف شخص کہنے لگا : یہ کیسے
ہوسکتا ہے؟ آپ تو بہت عقل مند اور سمجھدار ہیں! آپ نے کچھ نہ کچھ تو بھیجا ہوگا؟
بادشاہ آہیں بھرنے لگا ،نہیں نہیں! میں نے واقعی وہاں پر کچھ انتظام نہیں کیا۔
بےوقوف جانے کے لئے پلٹنے لگا تو اپنے گلے سے ہار اُتارا اور یہ کہہ کر بادشاہ کے
گلے میں ڈال دیا : پھرتو اس ہار کے سب سے زیادہ حقدار آپ ہیں۔
جب استاذ
صاحب (Teacher)
نے
عالِم کورس کی کلاس فائیو میں یہ سبق آموز فرضی حکایت سُنائی تو طلبۂ کرام مُنْتظِر
تھے کہ اب استاذ صاحب نصیحت کے کون کون سے موتی انہیں عطا فرماتے ہیں!
زندگی کے پانچ مراحل: چندسیکنڈز
کے بعد استاذ صاحب اپنی سِیٹ سے کھڑے ہوئے، بورڈ پر پانچ لکیریں کھینچیں اور ہر
ایک کے شروع میں نمبرز لکھ دئیے :
1۔۔۔2۔۔۔3۔۔۔4۔۔۔5۔۔۔
طَلَبہ کی دِلچسپی دیکھنے کے لائق تھی، استاذ صاحب نے بولنا شروع کیا، قراٰن و حدیث کی روشنی میں انسان
کی زندگی کو اِجمالی طور پر ان پانچ مراحل(Stages) میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :
(1)عالَمِ اَرْواح (The World of Spirits)، جہاں ہمارے خالق ومالک نے
ہم سے اپنے رب ہونے کا اقرار کروایا تھا ،اس کا ذکر سورۂ اَعْراف میں ہے:﴿اَلَسْتُ
بِرَبِّكُمْ ؕ-قَالُوْا بَلٰى﴾ تَرجَمۂ کنزُالایمان:کیا میں تمہارا رب نہیں سب بولے کیوں نہیں۔
(پ9،الاعراف:172) (2)عالَمِ دُنیا (World)، جہاں ہم پیدا ہوئے اور مقرَّرہ مدّت تک زندگی
گزارنے کے بعد یہاں سے رُخصت ہوجائیں گے (3)عالَمِ بَرْزَخْ(Duration
between Death and Resurrection)، مَرنے کے بعد سے قیامت قائم ہونے تک کا درمیانی وقت عالمِ برزخ کہلاتا ہے
(4)حَشْر (Judgment
day)، جب ہم قبروں سے اُٹھیں گے اور
میدانِ محشر میں پہنچ کر اپنے اچھے بُرے اعمال کا حساب دیں گے (5)میدانِ محشر جس کے
بعد ہمیں جنّت یا دوزخ میں داخل کردیا جائے گا ۔
اس کے بعد استاذ صاحب فرمانے لگے: ہم پہلا
مرحلہ (Stage) گزار آئے ، دُوسرا اس زمین پرگزار
رہے ہیں، جبکہ تین مرحلے باقی ہیں۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ پانچوں میں سے صرف
دنیا ہی دارُالعمل ہے جس کا اَثَر بقیہ تین مرحلوں یعنی بَرْزَخ، میدانِ محشر اور
جنّت یا دوزخ میں داخلے پر پڑے گا، منقول ہے: اَلدُّنْیَا
مَزْرَعَۃُ الْآخِرَۃ یعنی دُنیا آخرت کی کھیتی ہے۔(فیض
القدیر،2/440،تحت الحدیث:2245)
پیارے اسلامی
بھائیو! اب غور کیجئے کہ ہم بھی کہیں اس بادشاہ کی طرح غفلت کا شکار تو نہیں کیونکہ
ہمارا فوکس صرف اور صرف دُنیاوی زندگی کے فوائد(Benefits)سمیٹنے اور نُقصانات سے بچنے
پر ہوتا ہے حالانکہ دُنیا اور آخرت میں اتنا بڑا فرق (Difference)
ہے
جتنا سمندر اور پانی کے چھوٹے سے قطرے میں ہوتا ہے، چنانچہ فرمانِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اللہ کی
قسم! آخرت کے مقابلے میں دنیا اتنی سی ہے
جیسے کوئی اپنی اُنگلی کو سمندر میں ڈالے
تو وہ دیکھے کہ اس انگلی پر کتنا پانی آیا۔ (مسلم،ص1171،حدیث:7197)
انسان کتنا سمجھدار کتنا نادان؟ غورکیجئے کہ انسان
کتنا سمجھدار (Intelligent) ہےکہ بہت سے کام ایڈوانس میں
کر لیتا ہے ، مثلاً *گرمی کا موسم آنے سے
پہلےA.C یا
رُوم کُولر کو چیک کروا کر اس کی سَرْوِس کروا لیتا ہے *شدید گرمی میں باہر جانے
سے پہلے اے سی آن کرکے جاتا ہے تاکہ واپسی پر کمرا ٹھنڈا ملے *لوڈشیڈنگ کا سامنا
ہوتو یوپی ایس، اسٹینڈ بائی جنریٹر کا بندوبست کرلیتا ہے *گاڑی تک پہنچنے سے پہلے
ریمورٹ سے دروازہ اَن لاک کردیتا ہے *رَش سے بچنے کے لئے رمضان کی آمد سے پہلے عید کی شاپنگ کرلیتا ہے * آسمان پر
بادل دیکھ کر چھتری(Umbrella) ساتھ رکھتا ہے *گھر سے نکلتے وقت A.T.M کارڈ ساتھ رکھتا ہے کہ کہیں
بھی رقم کی ضرورت پڑسکتی ہے *سائیکل والا دَس بِیس روپے، بائیک والا سو دوسو اور کار
والا ہزار پانچ سو روپے جیب میں ڈال کر باہر نکلتا ہے کہ راستے میں ٹائر پنکچر
ہوگیا، پیڑول ختم ہوگیایا چھوٹی موٹی خرابی آگئی تو پریشانی نہ ہو *موبائل تنگ
کرنے لگے تو بیچ دیتا ہے کہ ڈیڈ (Dead)
ہوگیا تو کوئی قیمت نہیں ملے گی *بچّی ابھی اپنے پاؤں پر چلنا بھی شروع نہیں کرتی
کہ اس کی شادی کی فکر میں گُھلنا شروع کر دیتا
ہے *اس کے کام پورے نہیں ہوتے تو ٹائم مینجمنٹ
سیکھتا ہے، ڈیلی، وِیکلی، منتھلی اور اینول(سالانہ) پلاننگ کرتا ہے*
عوامی رجحانات دیکھ کر کاروبار کا رُخ (Business Direction) موڑ دیتا ہے۔
لیکن ہماری
اکثریت کتنی نادان (Ignorant)ہے کہ اُخروی زندگی کے
انتظامات اس کی ترجیحات(Preferences) میں شامل ہی نہیں ہیں، وہ اِقْدامات
جن سے جہانِ آخرت کی بہتری وابستہ ہے، اس کے معمولاتِ زندگی کا حصّہ ہی نہیں ہیں۔
اپنے امیج کو بہتر بنانے کے لئے بارش،آندھی،بیماری میں اپنے آفس، کاروبار یا کسی تقریب میں وقت پر پہنچنے کو بےحد
ضروری سمجھنے والا یہ انسان اپنے رب کو راضی کرنے اور آخرت کے انعامات پانے
کے لئے پانچ وقت کی فرض نماز کے لئے مسجد میں حاضری سے غافل ہے۔آفس میں ایمرجنسی
نوعیت کا کام آجائے تو اپنے ریکارڈ کو بہتر کرنے کے لئے اس کام کو کرنے کی دُھن اس
پر سوار ہوجاتی ہے پھر یہ نہ بُھوک پیاس دیکھتا ہے، نہ کوئی بیماری اس کی راہ میں
رُکاوٹ بنتی ہے نہ تھکاوٹ اس کا راستہ روکتی ہے، لیکن جب بات رمضان کے فرض روزے
رکھنے کی آتی ہے تو یہ مختلف بہانے بنانے لگتا ہے۔یار دوستوں کی محفلوں اور مختلف
تقریبات میں اپنی ناک اُونچی رکھنے کے لئے بے حساب خرچ کرنے والے کو جب زکوٰۃ فرض
ہونے پر اس کا حساب لگا کر ادا کرنے کا کہا جاتا ہے تو اس کا ہاتھ اور دِل دونوں
تنگ پڑجاتے ہیں پھر یہ تھوڑی بہت رقم دے کر اپنے دل کو منالیتا ہے کہ میں نے زکوٰۃ
ادا کردی ہے۔اسی طرح تکبّر، حَسَد، بدگُمانی جیسے باطنی گناہوں سے بچنا، حُقوقُ الْعِباد
ادا کرنے میں کوئی کمی نہ رہنے دینا، فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ مُسْتَحَبّات پرعمل
کرکے انعاماتِ آخرت پانے کے لئے نیکیوں کا خزانہ اِکَٹّھا کرنے کی طرف عُمُوماً انسان
کی توجّہ نہیں ہوتی مگر جسے اللہ
کریم توفیق دے ۔
اے عاشقانِ
رسول! آپ کا کاروباردن دُگنی رات چوگنی ترقّی کرے یا نہ کرے، ملازمت میں آپ کا
گریڈ اپ ہویا نہ ہو، اس پر کوئی سزا نہیں لیکن فرائض وواجبات چھوڑنے پر عذاباتِ
جہنّم کی وارننگز موجود ہیں۔ حضرت سیّدنا سُفیان ثَوْریرحمۃ
اللہ علیہ کا فرمان ہے: لوگ سوئے
ہوئے ہیں جب انہیں موت آئے گی تو بیدار ہوجائیں گے۔(حلیۃ
الاولیاء،7/54،حدیث:9576)
اللہ پاک ہماری دنیا اور آخرت دونوں بہتر فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:آفَةُ الْعِلْمِ النِّسْيَانُ، وَاِضَاعَتُهُ اَنْ
تُحَدِّثَ بِهٖ غَيْرَ اَهْلِهٖ یعنی علم کی آفت اس کو بُھول جانا ہے
اور نااہل سے علم کی بات کہنا علم کو ضائع کرنا ہے۔([1])
شرح:اس حدیثِ پاک میں علم کے متعلّق دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے(1)علم کی
آفت کیا ہے؟(2) علم ضائع کیسے ہوتا ہے؟حکیمُ
الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جیسے مال و صحّت بعض آفتوں سے برباد ہوجاتے
ہیں ایسے ہی عِلْم بُھولنے سے برباد ہوجاتا ہے ۔([2])
علم کی آفت”نِسْیان“سے بچئے: علم کی آفت یعنی نِسْیان اور بُھولنےکا
مرض کوئی معمولی آفت نہیں ہے بلکہ بہت بڑی آفت ہے اس آفت سے کیسے بچا جائے اس سے
متعلق حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
عالِم کو چاہیئے کہ علم کا مَشغلہ رکھے، کُتُب
بِینی چھوڑ نہ دے، حافظہ کمزور کرنے والی عادتوں اور چیزوں سے بچے۔([3])
علّامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ بندہ ان اَسباب سے بچے جو کہ نِسیان کا سبب ہیں، جیسا کہ علم کے اِستِحْضار
(یاد کرنے)سے اِعراض کرنا
اور ان کاموں میں مشغول ہو جانا جو دل کو دنیا کی رنگینیوں میں پھنسا دیں اور عقل کو ضائع کر دیں۔([4])
”نِسْیان“ کے
اسباب: علم کی آفت ”نِسْیان“(بُھولنے
کے مرض ) میں پھنسنے کا ایک بڑا سبب گناہ بھی ہیں جس سے حافظہ کمزور ہوجاتا ہے چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:
شَكَوْتُ اِلىٰ وَكِيْعٍ سُوْ ءَ
حِفْظِي فَاَوْصَانِيْ اِلىٰ
تَرْكِ المَعَاصِيْ
فَاِنَّ العِلْمَ فَضْلٌ مِنْ الٰہٍ وَفَضْلُ اللهِ لَا يُعْطیٰ
لِعَاصِي
ترجمہ:میں نے
اپنے استاد وَکِیع رحمۃ
اللہ علیہ سے حافِظہ کی
خرابی کی شکایت کی انہوں نے مجھے گناہ چھوڑنے کی نصیحت فرمائی، کیونکہ عِلْم اللہ پاک کا فضل ہے اور اللہ پاک کا فضل گناہ گار کو عطا نہیں
ہوتا۔([5])
علّامہ محمد امین بن عمر عابدین شامی
حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ چھ چیزیں حافظہ کمزور کرتی ہیں: (1)چُوہے (Mouse) کا جُوٹھا کھانا (2)جُوں پکڑ کر زندہ
چھوڑ دینا (3)ٹھہرے پانی میں پیشاب کرنا (4)عِلْک گُوند(درخت کا وہ گوند جو چبانے سے نہ گُھلے) چبانا (5)کھٹّا سیب کھانا (6)سیب کے چھلکے چبانا۔([6])
”نِسْیان“ کا
علاج: شیخُ الاسلام امام ابراہیم زَرْنُوجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں: (1)مِسواک کرنا (2)شہد کا استعمال رکھنا (3)گوند مع شکر استعمال کرنا (4)
نہار منہ(خالی پیٹ) 21دانے کشمش کھانا بھی حافظے کو قوی کرتاہے۔([7])
مطالعہ محفوظ
رکھنے کے طریقے:کچھ طریقے وہ بھی ہیں جن کو بروئے کار
لاتے ہوئے زیادہ دیر تک معلومات کو اپنے حافظے
میں محفوظ رکھا جاسکتا ہے مثلاً (1) مطالعہ کرنے کے بعدتمام مطالعے کو ابتداسے انتہا تک سَرسَرِی
نظر سے دیکھا جائےاور اس کا ایک خلاصہ اپنے ذہن میں نقش کرلیا جائے (2) جومطالعہ
کریں اُسے اچّھی اچّھی نیّتوں کے ساتھ اپنے گھر والوں اور دوستوں سے بیان کریں اس
طرح بھی معلومات کا ذخیرہ طویل مدّت تک ہمارے دماغ میں محفوظ رہے گا (3)مشہور مقولہ ہے:’’مَاتَکَرَّرَ تَقَرَّرَ یعنی جس بات کی تکرار کی جاتی ہے وہ دِل میں قرار پکڑلیتی
ہے۔‘‘ جو کچھ پڑھیں اس کی دُہرائی (Repeat) کرتےرہیئے (4)علمی محافل میں شرکت کی عادت ڈالنے کی برکت سے جہاں علم میں
پختگی آئےگی وہیں معلومات کا بیش قیمت خزانہ ہاتھ آئے گا۔
نااہل کو علم
دینا: یاد رکھئے کہ مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے اور عِلم وہ شمع ہے جسے جتنا
پھیلایا جائےگھٹتا نہیں بلکہ اس کی روشنی اتنی ہی پھیلتی ہے، مگر نا اہل شخص کے
سامنے علم کے راز و اَسْرار بیان کئے جائیں تو وہ ان عِلمی نِکات کو سمجھ نہیں سکے گا اورغلط
فہمی میں مبتلا ہوجائے گایا پھر اپنی ناسمجھی کی بنا پر وہ خواہ مخواہ ان علمی
نکات کا انکار کر بیٹھے گا۔ نااہل سے مُراد کون لوگ ہیں اس کے بارے میں علامہ عبدُالرَّءوف
مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یہ وہ لوگ ہیں جو علم کی
باتوں کو سمجھ نہیں سکتے یا اس پر عمل
نہیں کرتے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کے سامنے علم کی بات کرنا علم کو مُہْمَل و بیکار
بنانے کے مُتَرادِف ہوگا۔([8])علّامہ علی قاری رحمۃ
اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ علم کو ضائع کرنے کا
مطلب یہ ہے کہ علم کی بات اس دنیا دار کو بیان کرنا جو نہ اسےسمجھ سکتا ہو اور نہ اس
پر عمل کرتا ہو۔([9])امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کثیر حَضْرَمی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ حکمت کی بات اَحمقوں کو بیان نہ کرو کہ وہ تمہیں جُھٹلا دیں گے اور
باطل باتیں حُکما کو بیان نہ کرو وہ تم پر غضبناک ہوں گے۔ اپنے علم کو اس سے نہ
روکو جو اس کا اہل ہو کہ گنہگار ہوگے اور اس سے بیان نہ کرو جو اس کا اہل نہ ہو کہ وہ تم کو بیوقوف سمجھے گا۔ بےشک
تجھ پر تیرے علم کا ایسے ہی حق ہے جس طرح تیرے مال کا حق ہے۔([10])
روزانہ کی طرح اسکول سے آنے کے بعد خُبَیب نے امّی کو سلام کیا، امّی آج بہت
بھوک لگ رہی ہے پلیز!جلدی سے کھانا دیدیجئے۔اچّھابیٹا!یونیفارم چینج کرکے ہاتھ منہ
دھولیجئے تب تک میں اپنے بیٹے کے لئے دسترخوان لگادیتی ہوں۔
ہاتھ منہ دھوکر خُبیب یہ کہتا
ہوا دسترخوان پر بیٹھ گیا: اللہ کرے میری پسند کی ڈش بنی ہو۔
لگتا ہے آج آپ نے ناشتہ
ٹھیک طرح سے نہیں کیا خُبَیب؟ امّی
نے کھانا بڑھاتے ہوئے کہا، خُبَیب نےسالن دیکھاتو اس کامنہ بن گیا ،کہنے لگا:امّی
مجھے کچھ اور بنادیں،آپ کو تومعلوم ہے میں لوکی(Gourd)شوق سے نہیں کھاتا!
امّی نے خُبَیب کا مُرجھایا ہوا چہرہ دیکھا تو فوراً
کہا: اچّھا ٹھیک ہے میں آپ کے لئے آملیٹ
بنادیتی ہوں ۔
خُبَیب کی یہ سب باتیں اس کے ماموں بھی سُن رہے تھے۔خُبَیب نے لنچ کرنے کے بعد آرام کیا۔
ٹیوشن سے آنے کے بعد ماموں نے کہا :بیٹا!یقیناً ہم سب کی طرح آپ کے بھی آئیڈیل اللہ پاک
کے آخری نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔
خُبیب نے ہاں میں سَر ہِلاتے
ہوئے کہا:جی ماموں جان! میں انہیں اپنا رول ماڈل مانتاہوں۔ مَا شَآءَ اللّٰہ! یہ تو بہت اچّھی بات ہے،
پھر ماموں نے خُبَیب سے سوال کیا:اچّھا ایک بات بتائیے کیا آپ کو معلوم ہےکہ ہمارے پیارے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو لوکی شریف بہت پسند تھی؟ خُبَیب نے نفی میں سَرہلاتے
ہوئے کہا:نہیں۔
ماموں کہنے لگے: چلئے!میں آپ کو ایک واقعہ سناتاہوں
پھر آپ مجھے اس سے حاصل ہونے والا سبق بتائیے گا۔ جی ٹھیک ہے ماموں! یہ کہہ
کر خُبَیب واقعہ غور سے سننے لگا۔
ماموں نےکہا:صحابیِ رسول
حضرت اَنَس بن مالک رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک بار اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ دعوت میں گیا، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں سالن لایا گیاجس میں لوكی(یعنی کدّو شریف) اورخشک کیا ہوا نمکین گوشت تھا ،رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس
سالن میں سے لوکی تلاش کررہے تھے، حضرت اَنس رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں:اسی لئے میں اس دن سے لوکی پسند کرنے لگا۔
جیسے ہی ماموں نے واقعہ ختم کیا خُبَیب
نےفوراً کہا: اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں بھی لوکی شریف شوق سے کھانی چاہئے۔
ارے واہ بھئی!آپ تو واقعی
بہت ذہین ہیں، ماموں نےکہا۔
خُبَیب نے اَفسُرْدَہ لہجے میں کہا:آج میں نے
کتنا بڑا چانس مِس کردیا نا ماموں جان! دوپہر ہی میں لوکی شریف پکی تھی مگر میں نے
نہیں کھائی ۔
ماموں نے خُبَیب کا موڈ بدلنے کے لئے کہا،آپ کی نالج میں ایک اور بات کا اضافہ کروں؟خُبَیب
نے خوش ہوکر کہا: جی بالکل ماموں جان!
یہ بات
تو آپ كومعلوم ہوچکی کہ لوکی کھانا نبیِّ
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّت ہے۔اس كے علاوہ میڈیکل سائنس نے اس کے بہت سےفوائد(Benefits)بھی بیان کئے ہیں:خُبَیب نے حیرت سےکہا:وہ کیا کیا ہیں؟ماموں نے بتایا:لوکی دماغ کو بڑھاتی اورعقل میں اضافہ کرتی ہے۔(حافظہ
کیسے مضبوط ہو، ص138)
بیٹا!
اگر آپ لوکی کے مَزید فوائد جاننا چاہتے ہیں تو ربیعُ الآخر 1438ھ/جنوری2017ء کا ماہنامہ فیضانِ مدینہ پڑھئے۔
اِنْ شَآءَ اللہ ماموں جان! خُبَیب
نے اپنے عَزْم کا اظہار کیا۔
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی
اللہُ علٰی محمَّد
اللہ کے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
اعلانِ نبوت کرنے سے پہلے صحرائے عرب میں ایک ماں اپنے 8 سالہ بچّے کے ساتھ ننھیال
(بچے کے نانا کے گھر) کی طرف جارہی تھی کہ راہزنوں نے حملہ کرکے تمام
مال و اَسباب لُوٹ لیااور جاتے ہوئے بچّے کو اُٹھا لے گئے۔ راہزنوں نے مکّہ کے
مشہور بازار عُکَّاظ میں اس بچّے کو فروخت کے لئے پیش کردیا۔ادھر حضرت سیّدتُنا خَدیجۃُ
الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے
اپنے بھتیجے حضرت حَکیم بن حِزام رضیَ
اللہ عنہ سے فرمایا: میرے لئے ایک عربیُ النّسل،سمجھدار
غلام(Slave) خرید لاؤ، حضرت
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے
بازار میں اسی بچے کو دیکھا تو اسے خرید کر اپنی پھوپھی کو پیش کردیا۔ جب حضرت
خدیجۃُ الکبریٰ رضی اللہ عنہا سَرورِ
کونین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نکاح میں تشریف لائیں تو رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے دل کو
اس بچّے کے خصائل،عادت و اَطوار اس قدر بھائے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اس غلام کو طَلب کرلیا حضرت خدیجہ نے اس غلام
کو بارگاہِ اَقدس میں بطورِ تحفہ پیش کردیا۔([1])
پیارے اسلامی بھائیو! رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی غلامی میں آنے والے، شفقتوں اور مَحَبّتوں کے
سائے میں پروان چڑھنے والے اس غلام کو دنیا حضرت سیّدنا زَید بن حارِثَہ رضی اللہ عنہ کے
نام سے پہچانتی ہے۔والد کو ترجیح نہ دی: اتفاقاً حضرت زید رضی اللہ عنہ کی قوم کے
چند افراد حج کی غرض سے مکّہ آئے تو انہوں نے آپ کو پہچان لیا اور جاکر والد کو
خبر دی کہ تمہارا بیٹا غلامی کی زندگی گزار رہا ہے۔ باپ نے فوراً اپنے بھائی کو ساتھ لیا اور بیٹے
کو غلامی سے چُھڑانے کی خاطر فِدیہ کی رقم لے کر مکۂ مُکرّمہ پہنچ گئے۔ پیارے آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا:زید سے پوچھ لو اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہے تو فدیہ کے بغیر اسے لے
جاؤ،اور اگر نہ جانا چاہے تو اسے چھوڑ دو ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے
مقابلے میں بھلا کس کو پسند کرسکتا ہوں! آپ میرے لئے ماں، باپ اور چچّا کی جگہ ہیں،
باپ اور چچا نے کہا: اے زید ! تم غلامی کو پسند کررہے ہو! حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں
اس عظیم ہستی کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑوں گا، حضرت زید رضی اللہ عنہ کی غیرمعمولی مَحَبّت اور تعلقِ خاطر کو دیکھ کر
پیارے آقا صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
انہیں آزاد کردیا اور فرمایا:زید میرا بیٹا ہے۔والد اور چچا حضرت زید رضی اللہ عنہ پر یہ اعزاز و
اکرام دیکھ کر شاداں و فرحاں ہوئے اور مطمئن ہوکر لوٹ گئے۔([2])باپ کی طرف منسوب کرو: صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم حضرت
زید رضی اللہ عنہ کو
پہلے ”زید بن محمد“ کہا کرتے تھے لیکن جب سورۂ
احزاب کی آیت نمبر 5﴿#"ïO'Ï(k0h¨o^﴾ (تَرجَمۂ کنزُ الایمان:اُنھیں ان کے باپ ہی کا کہہ کر پکارو یہ اللہ کے نزدیک زیادہ ٹھیک ہے) نازِل
ہوئی تو آپ کو ”زید بن حارثہ“ پکارنے لگے۔([3]) فضائل ومناقب:حضرت زَید بن حارِثَہ رضی اللہ عنہ آسمانِ فضیلت کے وہ چاند ہیں جس کی چمک کبھی
مانْد نہ پڑے گی، وفا شِعاری، شوقِ جہاد ،ذوقِ عبادت، عاجزی و انکساری میں بلند
مقام پایا، کم عُمْری سے لے کر شہادت تک رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا
ساتھ نبھایا، آزاد کردہ غلاموں میں سب سے پہلے دولتِ ایمان کو جھولی میں بھرنے کا
شرف پایا،([4]) وہ واحد
صحابی ہیں جن کا نام قراٰن مجید میں آیا،([5]) صحابۂ کرام میں حِبُّ النَّبِی یعنی ”نبی کے محبوب“ کا لقب پایا،([6]) سِن 2 ہجری غزوہ
ٔبدر کی فتحِ مُبین کی خبر مدینے پہنچانے کیلئے آپ رضی اللہ عنہ ہی کا نام سامنے آیا،([7]) 2شعبان سِن 5 ہجری رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم غزوۂ بَنی مُصْطَلِق روانہ ہوئے تو آپ کو مدینے پاک میں
اپنا نائب بنایا،([8]) سات یا نو مرتبہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو امیرِ لشکر بناکر روانہ فرمایا، اور ہر
مرتبہ آپ نے کامیابی و کامرانی کا جھنڈا لہرایا۔([9])
سفرِ طائف میں رفاقت: اعلانِ نبوت کے دسویں سال ماہِ شوّال میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے سفرِ طائف کاقصد
کیا، جب کُفّار رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر پتھروں کی بارش کرتے،ساتھ ساتھ طَعنہ زنی
کرتے، گالیاں دیتے، تالیاں بجاتے اور ہنسی اڑاتے تو حضرت زید رضی اللہ عنہ دوڑ دوڑ کراپنے
محبوب کریم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر آنے والے پتھروں کو اپنے بدن پر لیتے تھے اور رحمت ِعالَم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بچانے کی کوشش کرتے یہاں تک کہ آپ
کاسَر زخمی ہوگیا ۔([10]) مددِ الٰہی: ایک مرتبہ آپ رضی
اللہ عنہ سفر پر روانہ ہوئے
تو ایک مُنافِق آپ کے ساتھ ہولیا ،ایک کَھنڈر کے پاس پہنچ
کر وہ منافِق کہنے لگا: ہم یہیں آرام کرتے ہیں، دونوں اندر داخل ہوئے حضرت زید رضی اللہ عنہ آرام کرنے لگے،یہ
دیکھ کر اس منافق نے آپ کو رَسّی سے مضبوطی کے ساتھ باندھ دیا اور آپ کو قتل کرنا
چاہا،آپ نے اس سے پوچھا: تومجھے کیوں مارنا چاہتا ہے؟ اس نے کہا:اس وجہ سے کہ محمد
صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم تم سے مَحبّت کرتے
ہیں اور میں ان سے شدید نفرت کرتا ہوں، آپ نے فوراً پکارا: یارحمٰن! اَغِثْنِی، یااللہ! میری مدد کر، اچانک منافق کے کانوں میں آواز آئی:تیری بربادی! اسے
قتل مت کر، منافق کھنڈر سے باہر نکلا مگر کوئی نظر نہیں آیا اس نے پھر قتل کرنا
چاہا پھر وہی آواز پہلے سے بھی قریب سنائی دی،منافق نے اِدھر اُدھر دیکھا مگر کوئی
نظر نہیں آیا اس نے تیسری مرتبہ قتل کا ارادہ کیا تو وہی آواز بہت قریب سے
آئی،منافق باہر نکلا تو اچانک ایک شہسوار نظر آیا جس کے ہاتھ میں نیزہ تھا اس نے مُنافق
کے سینے میں اس نیزے کو پیوست کردیا اور وہ منافق تڑپ تڑپ کر ٹھنڈا ہوگیا۔ شہسوار اندر داخل ہوا اور آپ رضی اللہ عنہ کی رسیاں کھولتے
ہوئے کہنے لگا: تم مجھے جانتے ہو؟میں جبرائیل ہوں۔([11])
شیطان کو دُھتکاردیا: سِن 8ہجری جُمادَی الْاُولیٰ میں غزوۂ موتہ کا
معرِکہ رُونما ہوا تو حضرت سیّدنازید رضی
اللہ عنہلشکرِ اسلام کے علَم بردار
تھے،
شیطان پاس آیا اور آپ کے دل میں زندہ رہنےکی مَحَبّت ڈالی،موت سے نفرت دلائی اور
آپ کو دنیاکی لالچ دلائی ،مگر آپ رضی
اللہ عنہ نے فرمایا: مومنین کے دِلوں میں ایمان پختہ ہونے
کا وقت تو اب ہے اور شیطان مجھے دنیا کی لالچ دے رہا ہے۔([12]) شہادت: اس معرکہ میں مسلمانوں کی
تعداد 3 ہزار تھی جبکہ رُومی سپاہی ایک لاکھ تھے،آپ رضی اللہ عنہ نے لڑائی شروع ہونے سے پہلے کُفّار کو اسلام کی
دعوت دی تو انہوں نے اس کا جواب تیروں کی مار اور تلواروں کے وار سے دیا۔ یہ منظر
دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ گھوڑے
سے اتر کر پاپیادہ میدانِ جنگ میں کُود پڑے، ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں نے بھی
نہایت جوش و خروش کے ساتھ لڑنا شروع کردیا ، کافروں نےآپ رضی اللہ عنہپرنیزوں
اور بَرچھیوں کی برسات کردی یوں آپ رضی
اللہ عنہ جوانمردی سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔([13])
اللّٰہ پاک کی ان پر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت
ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
([3])مسلم،ص 1014، حدیث: 6262 ، مسئلہ:اس واقعہ و قراٰنی آیت سے یہ
معلوم ہوا کہ جو لوگ کسی کا بچہ گود لیتے ہیں اور ولدیت میں اصل باپ کی جگہ اپنا
نام لکھواتے ہیں یہ جائز نہیں ہے بلکہ لے پالک بچے کو اسی کے اصل والد کی طرف ہی
منسوب کرنا لازمی ہے البتہ سرپرست کے طور پر گودلینےوالا اپنا نام لکھوا سکتا ہے مگر ولدیت کے کالم میں
اصل والد ہی کا نام ہو۔(صراط الجنان، 7/561ملخصاً)
میرے آقا کا
بچپن(بزبانِ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا)
ہمارے پیارے نبیصلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رِضاعی والِدہ حضرتِ سیّدتُنا حلیمہ سَعْدِیہرضی
اللہ تعالٰی عنہاآپ صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے
مُبارَک بچپن کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
پہلا دیدار میں نے پہلی مرتبہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اِس حال میں زِیارت کی کہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُونی لباس پہنے ریشمی بستر پر آرام فرمارہے تھے، میں نے نرمی سے جگایا تو آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے مُسکراتے ہوئے آنکھیں کھولیں اور میری طرف دیکھا،اِتنے میں مبارک آنکھوں سے ایک نور نکلا اور آسمان کی طرف بلند ہوتا چلاگیا، یہ دیکھ کر میں نے شوق و محبّت کے عالَم میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیشانی کو چوم لیا۔(مواہب الدنیہ،1/79)قَحْط دور ہوگیا میرا قبیلہ ’’بنی سَعْد“ قَحْط میں مبتلا تھا، جب میں آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو لے کر اپنے قبیلے میں پہنچی تو قَحْط دور ہوگیا، زمین سَر سَبْز، درخت پھلدار اور جانور فربہ (یعنی موٹے تازے)ہوگئے۔گھر روشن رہتاایک دن میری پڑوسن مجھ سے بولی: اے حلیمہ! تیرا گھر ساری رات روشن رہتا ہے، اِس کی کیا وجہ ہے؟ میں نے کہا: یہ روشنی کسی چراغ کی وجہ سے نہیں، بلکہ محمد(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کے نورانی چہرے کی وجہ سے ہے۔700 بکریاں میرے پاس 7 بکریاں تھیں، میں نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مُبارَک ہاتھ اُن بکریوں پر پھیرا تو اِس کی بَرَکت سے بکریاں اتنا دودھ دینے لگیں کہ ایک دن کا دودھ 40 دن کے لئے کافی ہوجاتا تھا۔ اِتنا ہی نہیں میری بکریوں میں بھی اِتنی برکت ہوئی کہ سات سے 700 ہوگئیں۔ تالاب بَرَکت والا ہوگیا قبیلے والے ایک دن مجھ سے بولے: ان کی برکتوں سے ہمیں بھی حصّہ دو! چنانچہ میں نے ایک تالاب میں آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مُبارَک پاؤں ڈالے اور قبیلے کی بکریوں کو اُس تالاب کا پانی پلایا تو ان بکریوں نے بچے جنے(پیدا کئے)اور قوم ان کے دودھ سے خوشحال و مالدار ہوگئی۔بکری کا سجدہ ایک دن میں (حضرت) محمد(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کو گود میں لئے بیٹھی تھی کہ چند بکریاں قریب سے گزریں، اُن میں سے ایک بکری نے آگے بڑھ کر آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سجدہ کیا اور سَر مُبارَک کوبوسہ دیا۔ کھیلنے سے گُریزآپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عُمْر مُبارَک جب 9 ماہ ہوئی تو اچّھی طرح کلام فرمانے لگے، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو لڑکے کھیلنے کے لئے بلاتے تو ارشاد فرماتے: مجھے کھیلنے کے لئے پیدا نہیں کیا گیا۔ مختلف برکات کا ظُہورآپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے بچّوں کے ساتھ جنگل جاتے اور بکریاں چَرایا کرتے تھے۔ ایک دن میرا بیٹا مجھ سے بولا: امّی جان! (حضرت)محمد(صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) بڑی شان والے ہیں، جس جنگل میں جاتے ہیں ہَرا بھرا ہوجاتا ہے، دھوپ میں ایک بادل اِن پر سایہ کرتا ہے، ریت پر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قدم کا نشان نہیں پڑتا، پتّھر اِن کے پاؤں تلے خمیر (گُندھے ہوئے آٹے)کی طرح نرم ہوجاتا اور اُس پر قدم کا نشان بن جاتا ہے، جنگل کے جانور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قدم چومتے ہیں۔( الکلام الاوضح فی تفسیر الم نشرح(انوارِ جمالِ مصطفےٰ)، ص107- 109ملخصاً و ملتقطاً)
اللہ اللہ وہ بچپنے کی پَھبَن |
اُس خدا بھاتی صورت پہ لاکھوں سلام |
(حدائق بخشش، ص063)
ویڈیو گیم
فرضی حکایت:حشمت
اپنے کمرے میں بیٹھا ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ پڑھ رہا تھا ۔ چچا جان نے دروازہ کھولا اور کہا: حشمت بیٹا! ذیشان آپ سے
ملنے آئے ہیں۔ حشمت نے ذیشان کو گیسٹ روم میں بٹھادیا، تھوڑی دیر بعد ذیشان نے
اپنا موبائل نکالا اور اس پر گیم(Game) کھیلنا شروع کر دی، اس دوران وہ خوشی کے مارے اُچھل کود کر رہا تھا اور
عجیب عجیب منہ بھی بنا رہا تھا۔ حشمت نے حیران ہو کر پوچھا: ذیشان! یہ کیا کر رہے
ہو؟ ذیشان نے کہا: حشمت! ادھر آؤ، دیکھو یہ کتنی اچھی گیم (Game) ہے، مجھے بہت مزہ آ رہا ہے۔ حشمت نے پاس
بیٹھتے ہوئے کہا: ذیشان بھائی! ویڈیو
گیم (Video
Game) کھیلنا بُری
بات ہے، اسی لئے میں ویڈیو
گیم (Video
Game) نہیں کھیلتا۔
ذیشان نے کہا: یہ تم کیا کہہ رہے ہو! یہ بُری بات نہیں ہے، دیکھو! مجھے تو خود
میرے ابو نے موبائل میں اور کمپیوٹر میں
ویڈیو گیمز ڈال کر دی ہیں۔ میں
گھر میں جہاں چاہے آسانی کے ساتھ وڈیوگیم
کھیلتا ہوں اور جب گھر میں کھیلنے کا دل نہ ہو تو باہر گیم کی دکان
پر چلا جاتا ہوں، وہاں دوسروں کے ساتھ مل کر کھیلنے میں تو اور زیادہ مزہ آتا ہے۔
قریب موجود چچا جان بھی یہ باتیں سُن رہے تھے۔ انہوں نے کہا: ذیشان بیٹا! حشمت ٹھیک کہہ رہا ہے، آئیں
میں آپ کو ویڈیو گیمز (Video Games) کے کچھ نقصانات بتاتا
ہوں:
(1)کچھ ویڈیو
گیمز (Video
Games) ایسی ہوتی ہیں
جن میں نظر آنے والے کارٹونز کا لباس اور شکل و صورت اسلامی ہوتی ہے اور انہیں
بُرے لوگوں کے روپ میں پیش کر کے مروایا جاتا ہے۔ ایسی گیمز (Games) کھیلنے سے آہستہ آہستہ ہمارے دل سے اسلام اور
مسلمانوں کی محبت نکل سکتی ہے۔
(2)ویڈیوگیمز(Video
Games)کےذریعےایک
دوسرے کی پٹائی لگانے، خون
بہانے، قتل کرنے، گَن چلانے، لوٹ مار اور چوری کرنے، معافی مانگنے والے کو معاف نہ
کرنے اور بے رحمی کا مظاہرہ کرنے کی گویا پریکٹس (Practice) کروائی جاتی ہے، اس سے بچوں کے ذہن پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے اور وہ بھی اس
طرح کے برے کام شروع کر دیتے اور کچھ چھوٹی عمر میں اور کچھ بڑے ہو کر چور، ڈاکو اور قاتل بن سکتے ہیں، ان کے دلوں سے
رحم، صبر اور معاف کرنے کا جذبہ کم یا ختم
ہو جاتا ہے۔
(3)ویڈیو گیم (Video
Game) کھیلتے رہنے
سے نظر کمزور ہو جاتی اور سر میں درد رہنے لگتا ہے، پڑھائی میں جی نہیں لگتا۔
(4) ویڈیو گیمز (Video
Games) کی دکانوں
پر ماحول اچھا نہیں ہوتا، چنانچہ بعض بچے
بُرے لوگوں کے ساتھ رہ کر گندی عادتیں سیکھ جاتے ہیں مثلاً سگریٹ پینا شروع کر دیتے ہیں یا کوئی نشہ شروع کر دیتے ہیں اور
طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہو کر اپنی صحت خراب کر لیتے ہیں ۔
ذیشان نے کہا: چچا جان! مجھے احساس ہوگیا ہے کہ ویڈیو گیم کھیلنے کے اتنے سارے نقصان ہیں۔
میں آج سے پکی نیت کرتا ہوں کہ اب کبھی ویڈیو گیم نہیں کھیلوں گا اور اپنے
دوستوں کو بھی یہ سب باتیں بتا کر ویڈیو گیمکھیلنے سے منع کروں گا۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پڑھائی میں
سُستی
ہربار کی طرح اس بار بھی
دن گزرتے گئے، ابُّو بھی سمجھاتے رہے لیکن
خالِد اور ناصِر
دونوں بھائیوں کے وہی کام اب بھی تھے، کھانا پینا،کھیلنا کُودنا، سوشل میڈیا(Social Media) میں مصروف رہنا،
دارُالمدینہ (اسکول)ہر روز جانا مگر پڑھنا
نہیں۔ امتحان قریب آتے تو آخری دنوں میں حَل شُدَہ پرچہ جات (Solved Papers) سے تیاری کرکے پاسِنگ مارکس(Passing Marks)
لے کر کامیاب
ہوجاتے تھے۔اس دفعہ بھی اِمتحان میں ایک
مہینا باقی رہ گیا تھا لیکن یہ دونوں ہر
بار کی طرح اس مرتبہ بھی سُستی کے شکار تھے۔ دارُالمدینہ کے ایک بہت ہی پیارے
استاذامتیازصاحب تھے۔ انہیں جب خالد اور ناصر
کے نہ پڑھنے کامعلوم ہوا تو وہ شام کے وقت ان کے گھر جا پہنچے۔ دونوں
بھائیوں نے انہیں ڈرائنگ روم میں بِٹھایا، ناصر نے
استاذ صاحب کو چائے بِسکٹ پیش کئے۔ امتیاز
صاحب: آپ کو معلوم ہے کہ ایک مہینے کے بعد امتحان شروع ہو رہے ہیں۔ خالد
اور ناصر: جی استاذ صاحب! ہمیں معلوم ہے۔ امتیاز صاحب چائے کی چُسکی لیتے ہوئے بولے: پھر آپ
نے امتحان کی تیاری کرنا شرو ع کی؟ بقیہ طَلَبہ نے تو پیپروں کی تیاری شروع کردی ہے۔ خالد:
استاذ صاحب اتنی جلدی! ابھی تو پورا ایک مہینا باقی ہے۔ امتیاز
صاحب: دیکھو بیٹا! اگر آپ ابھی سے تیاری کرو گے تو بآسانی تیاری بھی ہوجائے گی اور نمبر بھی
بہت اچھے آئیں گے۔ ناصر: ہر بار کی طرح اس بار بھی آخر میں تیاری کر لیں گے، بھلے ہم تیاری آخِر میں
کریں لیکن کامیاب ہوجائیں گے، تو پھر اتنی جلدی کرنے کا کیا فائدہ؟امتیاز
صاحب: جلدی تیاری کرنے کے بہت سے فائدے ہیں، مثلاً (1)تھوڑا تھوڑا یاد کرنا ہوگا،
ایک ساتھ اتنا سارا یاد نہیں کرنا پڑے گا (2)سمجھ سمجھ کے یاد کرو گے (3)اس طرح کا
یاد کیا ہوا ایک عرصہ یاد رہے گا (4)امتحان کے دِنوں میں اِطْمِینان سے رہو گے (5)دُہْرائی کا موقع مل جائے گا۔ ابھی
سے تیاری نہیں کی تو اگرچہ امتحان میں جیسے تیسے کامیاب ہوجا ؤ گے لیکن جو امتحان کا
فائدہ ہے وہ حاصل نہیں ہوگا، اس بار کوشش کرو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ضرور فائدہ ہوگا۔ خالد:
ہماری عادت ہے کہ ہم پچھلے سالوں کے حَل
شُدَہ پرچہ جات (Solved Papers)سے تیاری کرتے ہیں
اور اس سے تیاری تو آخری دنوں میں بآسانی ہوجاتی ہے۔ امتیاز صاحب نے چائے کی
آخری چُسکی لی اور کہا: آپ دونوں اس طرح
کی چیزوں پر بھروسا مَت کریں، کیونکہ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو سُوالات ان
میں لکھے ہوتے ہیں وہ پیپر میں نہیں آتے۔ ایک دو سوال آتے بھی ہیں تو ان سے پاسِنگ
مارکس ہی مل پاتے ہیں پھر آپ صرف پاس ہونے کا ہی کیوں سوچتے ہیں، اچھے نمبر لیں گے
تو اس میں آپ کی بھی عزّت ہوگی اور آپ کے والدین کابھی نام ہوگا۔ اسی لئے
اپنی کتابوں سے تیاری کریں اور جو
سمجھ نہ آئے وہ اپنے اَساتِذہ یا کلاس
فیلوز سے پوچھ لیں۔ خالد اور ناصر: ہم ایسا ہی کریں گے۔امتیاز
صاحب: مجھے بہت خوشی ہوئی، مجھے یقین ہے
کہ آپ دونوں ابھی سے محنت شروع کردیں گےتو امتحان میں اچھے نمبر لیں گے۔اچھا اب
میں چلتا ہوں لیکن ہاں ہر روز کی اَپ ڈیٹ (Update) ضرور لیتا رہوں گا۔ خالد
اور ناصر: جی ضرور۔ پھر دونوں بھائیوں نے مِل
کر کتاب سے تیاری کرنا شروع کر دی اور ساتھ ساتھ اپنے نوٹس (Notes) بھی بناتے گئے جن سے انہیں امتحان کے دنوں میں بڑا فائدہ ہوا ۔ کل تک جو مشکل سے پاس ہوتے تھے اس بار وہ اچھے نمبروں سے پاس ہوگئے،
رِزَلْٹ کارڈ ہاتھ میں لے کر دونوں بہت خوش نظر آرہے تھے ،دارُالمدینہ سے واپسی پر
دونوں پکی نیت کرچکے تھے کہ آئندہ پہلے سے ہی امتحان کی تیاری کرلیا کریں گے۔
دوست کی مدد
چُھٹیاں ختم ہونے کے بعد اسکول میں پہلا دن تھا سب بچے نئے یونیفارم اور
نئے جوتے پہنے ہوئے تھےٹیچرجونہی کلاس رُوم میں داخل ہوئے سب بچے اِحتراماً کھڑے
ہوگئے، پڑھائی کا آغاز ہونے کے کچھ دیر بعد پرنسپل صاحب نے حامد کو اپنے آفس میں
بلوالیا،پرنسپل: سب بچے نیا یونیفارم اور نئے جوتے پہن
کر آئے ہیں آپ کا یونیفارم اور جوتے نئے کیوں نہیں ہیں؟ حامد: میری امّی نے کہا تھا
کہ کچھ دن بعد یونیفارم اور جوتے خریدلیں گے، پرنسپل: یہ
چیزیں تو پہلےسے خریدنی تھیں، کیا آپ کےوالدین کو آپ کا کوئی احساس نہیں ہے؟ حامد: پچھلے مہینے ایکسیڈنٹ میں ابّو
کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی پلاسٹر کھلنے میں 3 مہینے لگیں گے، پرنسپل: اپنی امّی کے ساتھ جاکر خریداری کرلیں! آپ کے پاس 2 دن کا وقت
ہے،حامد: مگر میری بات تو سنئے!!! پرنسپل:
2دن بعد آپ کو کلاس رُوم میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوگی، اب آپ جاسکتے ہیں۔ حامد
خاموشی سے سَر جھکائے آفس سے باہر آگیا، ہاف ٹائم میں سب بچے کھیل کود اور کھانے
پینے میں مصروف تھے لیکن حامد کلاس رُوم میں بیٹھا رو رہا تھا، اتنے میں سلیم اندر
داخل ہوا، سلیم: حامد میرے دوست کیوں رو رہے ہو؟ حامد: میرے ابّو کی ٹانگ پر پلاسٹر بندھا ہوا ہےجس کی وجہ سے ابّو کام
پر نہیں جارہے، گھر میں جو کچھ جمع ہے اسی سے تھوڑا تھوڑا کرکے کھا رہے ہیں، مگر
نیا یونیفارم اور نئے جوتے 2 دن تک نہ آئے توکلاس میں بیٹھنے نہیں دیا جائے گا، اب
میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا کروں؟ سلیم حامد کی بات سُن کر کافی اَفسُردہ
ہوگیا۔شام کی چائے کے وقت سلیم نے اپنے ابّو
سےکہا:ابّو! میرا نیا یونیفارم اور جوتے آپ نے کتنے میں خریدے
تھے؟ ابّو: 1500روپے کے، لیکن آپ کیوں پوچھ
رہے ہیں؟سلیم نے ابّو کو ساری بات بتادی سلیم: میں
چاہتا ہوں کہ آپ حامد کےلئے کچھ کریں، ابّو: ہم
امیر نہیں ہیں، پھر اس کی مدد کیسے کرسکتے
ہیں؟ سلیم:مدد کیلئے امیر ہونا ضروری تو نہیں ہے، آپ کوشش کریں تو شاید
اتنی گنجائش نکل آئے کہ اس کی مدد ہوجائے ؟ ابّو: بیٹا! آپ
جانتے ہیں کہ میں جاب کرتا ہوں، اس مہینے آپ اور آپ کے بہن بھائیوں کے یونیفارم،کتابیں کاپیاں وغیرہ خریدنے پر کافی رقم
خرچ ہوگئی ہے اس لئے حامد کی مدد کرنا میرے لئے مشکل ہے، سلیم : ابّو!
آپ مکتبۃُ المدینہ کی ایک کتاب ” بہتر کون“ لائے تھے،اس میں ہے
کہ حضرت ِسیِّدتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ
تعالٰی عنہا نے
بارگاہِ رسالت صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم میں عرض
کی: یارسولَ اللّٰہ! جنّت کی وادیوں میں اللّٰہ پاک کی رَحمت کے قُرب میں
کون ہوگا؟ پیارے آقا صلَّی اللّٰہ
تعالٰی علیہ وآلہ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: جو میری سنّت کو زندہ کرے اورمیرے پریشان اُمّتی کی تکلیف دور کرے۔(بہتر
کون، ص:129)
ابّو! آپ ہی توہمیں سمجھاتے ہیں کہ پریشان حالوں کی مدد کرنا
اور ان کی پریشانیاں دور کرنااچھے لوگوں
کا طریقہ ہوتا ہے اور آپ یہ بھی کہتے ہیں
کہ جب کسی غریب انسان کی مدد کی جاتی ہےتومدد کرنے والے کو ایسی خوشی ملتی ہےجسے
الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا اور اسے وہی سمجھ سکتا ہے جسے یہ سعادت ملے،سلیم
کی باتیں سُن کر ابّو کو بہت خوشی ہوئی کہ ان کی مَدَنی تربیت کی جھلک ابھی سے نظر
آرہی تھی ، ابّو نے سلیم کی امّی کی طرف
دیکھا، امّی: سلیم ٹھیک کہہ رہا ہے، ہم امیر نہیں تو
کیا ہوا لیکن اتنے غریب بھی نہیں ہیں کہ کسی کی تھوڑی سی بھی مدد نہیں
کرسکتے،ابّوایک جھٹکے سے کھڑے ہوئے اور سلیم کا ہاتھ پکڑ کر بولے: چلو سلیم بیٹا !
ہم آج ہی حامد کیلئے نیا یونیفارم اور
جوتے خریدیں گے، نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ کچھ دیر بعد سلیم اور اس کے ابو
حامد کے گھر کے دروازے کی بیل بجارہے تھے۔
بچوں کوسکھائیے
”اَلتَّعَلُّمُ فِی الصِّغَر كَالنَّقْشِ فيِ
الْحَجَر“یعنی بچپن میں سیکھنا پتھر
پہ لکیر کی طرح ہے۔ عربی کی یہ کہاوت جتنی مشہور ہے اتنی ہی سچی بھی ہے، بچہ جو باتیں اور
اخلاقیات سیکھتا ہے زندگی بھر انہی پر عمل کرتاہے، چاہے وہ اچھائی کا سیدھا راستہ
ہو یا بُرائی کی تاریک وادی ہو۔ اگر آج ہم اپنے بچوں کی مدنی تربیت کریں گے تو ہی
آگے چل کر وہ ملک و قوم کےخدمت گار اور معاشرے کے بہترین افراد بنیں گے۔ تربیتِ
اولاد سے متعلق کچھ مدنی پھول پیشِ خدمت ہیں:
(1) بچوں کو وقت کا پابند بنائیے اس بات کا خاص خیال رکھئے کہ آپ کے بچے وقت پر
اسکول پہنچیں۔ اگر تاخیر سے اسکول پہنچیں گے تو سبق ضائع ہوگا، ٹیچر کی نظروں میں
بچے کا امیج خراب ہوگا، کلاس میں ریکارڈ خراب ہوگا، وغیرہ وغیرہ بہت سے نقصان ہوں
گے۔ پابندی ِوقت کے لئے پیش بندی (دور اندیشی) سے
کام لیجئے، پہلے ہی ایسی تدابیر اختیار کیجئے کہ بچے تاخیر کا شکار نہ ہوں۔ صبح
ناشتے اور بچوں کی تیاری میں دیر نہ کیجئے، صبح جاگنے سے اسکول پہنچنے تک نظام
الاوقات اس طرح منظّم کیجئے کہ بچے اسکول ٹائم شروع ہونے سے 10 منٹ پہلے اسکول پہنچ جایا کریں اس
پیش بندی کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر کبھی تاخیر ہو بھی گئی تو کم از کم اسکول کے وقت
پر ضرور پہنچ جائیں گے۔ (2)ڈسپلن
کا ذہن دیجئے والدین کا کام یہیں ختم نہیں ہوجاتا کہ بچے کو اسکول بھیج
دیا اور ذمہ داری ختم! بلکہ موقع بموقع خود بھی بچے کی تربیت کرتے رہنا چاہئے،
اپنے بچے کو ڈسپلن (Discipline) سکھائیے، انہیں سمجھائیے کہ ”اسکول کے اصول کی پابندی کیا کریں، ٹیچرز کی
بات مانیں، ان کا ادب کریں۔“ ڈسپلن کی پابندی سے بچوں کا ریکارڈ بھی اچھا رہے گا
اور ٹیچرز کی نگاہوں میں عزت بھی بنے گی۔ (3) روزانہ ہوم ورک کروائیےاسکول میں گھر کے لئے
جو کام دیا جائے وہ بچوں سے روزانہ لازمی کروائیے، اس کے لئے کوئی وقت مقرر
کرلیجئے اور پابندی ِوقت کے ساتھ اپنی نگرانی میں ہوم ورک (Home work) مکمل کروائیے، اسکول کے کام میں بالکل بھی سمجھوتا
مت کیجئے، آپ اس معاملے میں ذرا سی لچک دکھائیں گے تو بچے تو بچے ہیں وہ کھیل کود
میں لگ جائیں گے اور ہوم ورک کی طرف سے بالکل غافل ہوجائیں گے، یوں ان کی پڑھائی
خراب ہوگی، ریکارڈ خراب ہوگا، اسکول میں ٹیچر سرزنش کریں گے۔ آپ کی ذرا سی بے
پروائی بچوں کا مستقبل تاریک کرسکتی ہے۔ روز کا ہوم ورک روز کروائیں گے تو ان کی
پڑھائی اچھی ہوگی، ہر نیا سبق سمجھنے میں آسانی ہوگی، امتحانات میں بہت زیادہ
محنت نہیں کرنی پڑے گی۔ (4)
اسکول بیگ دیکھ لیجئےبچے کو ذہن دیں کہ ہوم ورک کے بعد اپنی کتابیں
پنسل وغیرہ لازمی بیگ میں رکھیں، ادھر ادھر نہ پھینکیں، اپنی چیزوں کی خود حفاظت
کرنے کی عادت بنائیں نیز اپنا معمول بنائیے کہ صبح بچوں کو اسکول روانہ کرنے سے
پہلے ان کا بیگ چیک کیجئے، کتابیں پوری ہیں؟ کاپیاں سب موجود ہیں؟ پنسل، اسکیل
وغیرہ اسٹیشنری سب موجود ہے نا! اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ بچے کوئی کتاب وغیرہ گھر
پر بھول کر نہیں جائیں گے نیز محترم والدین! آپ کو بھی معلوم رہے گا کہ بچے کو اب
کس چیز کی ضرورت ہے! کیا کاپی ختم ہونے والی ہے یا نئی پنسل خریدنی ہے۔
ماں باپ کی دُعا اولاد کو
کامیاب بناتی ہے! ہر نماز کے بعد اللہ پاک کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلائیے
اور دُعا کیجئے کہ ”یااللہ! ہماری اولاد کو دین و دنیا کی
کامیابی عطا فرما۔“
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم