تعارُف مَلِکُ العلما

Wed, 12 Feb , 2020
4 years ago

نام ونسب

سید محمد ظفرالدین  بن عبد الرزاق، کنیت ’’ابوالبرکات‘‘ اور آپ کالقب ’’ مَلِکُ الْعُلَما ‘‘ہے۔ آپ کے مورث اعلیٰ سید ابراہیم بن سید ابوبکر غزنوی ملقب بہ ”مَدارُ الْمُلْک“ہیں۔ ان کا نسب ساتویں پشت میں حضور غوثِ اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ تک پہنچتا ہے۔([1])

تاریخِ ولادت

آپ رسول پور، میجرا ضلع پٹنہ(موجودہ ضلع نالندہ) صوبہ بہار میں 10 مُحَرَّمُ الْحَرام 1303ہجری بمطابق 19اکتوبر 1880عیسوی کو صبح صادق کے وقت پیدا ہوئے۔ ظفرالدین نام اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کی بارگاہ سے ملا اور اسی نام سے شہرت پائی۔([2])

بیعت وخلافت

مُحَرَّمُ الْحَرام 1321ہجری میں اعلیٰ حضرت سے مرید  ہوئے۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ نے تمام سلاسل میں انہیں اجازت ِ عام عطا فرمائی۔

کمالات وخصائص اعلیٰ حضرت کی زبانی

اعلیٰ حضرت،امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ نے مفتی ظفرالدین بہاری رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کے بارے میں فرمایا:”مکرمی مولانا مولوی محمد ظفرالدین صاحب قادری سَلَّمہٗ فقیر کے یہاں اعز طلبہ سے ہیں اور میرے بجانے عزیز ۔ابتدائی کتب کے بعد یہیں تحصیل علوم کی۔ اور اب کئی سال سے میرے مدرسے میں مدرس اور اس کے علاوہ کار افتا میں میرے معین ہیں ۔میں نہیں کہتا کہ جتنی درخواستیں آئی ہوں سب سے یہ زائد ہیں مگر اتنا ضرور کہوں گا:” (1)... سنی خالص مخلص نہایت صحیحُ الْعقیدہ ہادی مہدی ہیں (2)...عام درسیات میں بِفَضلِہ تَعَالیٰ عاجزنہیں (3)...مفتی ہیں (4)...مصنف ہیں (5)...واعظ ہیں(6)...مناظرہ بِعَونِہ تَعالیٰ کرسکتے ہیں(7)...علماء زمانہ میں ’’علم توقیت‘‘سے تنہاءآگاہ ہیں ۔“ ([3])

علمِ توقیت اور فلکیات پر آپ کی تصانیف

(1)...اَلْجَواہِر وَ الْیَواقِیت فِی عِلْمِ التَّوْقِیت(2)...بَدْرُالْاِسْلَام لِمِیْقَاتِ کُلِّ الصَّلوٰۃِ وَالصِّیَام(3)...تَوْضِیْحُ الْاَفْلَاک “ معروف بہ”سُلَّمُ السَّمَاء(4)...مُؤَذِّنُ الْاَوقات“ جیسی قیمتی اور نادِر تصانیف آپ کی توقیت دانی اور علم فلکیات میں مہارتِ تامہ کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں۔

وفات حسرت آیات

شب دو شنبہ(پیر کی رات) 19 جَمادی الْاُخْریٰ 1382؁ھ مطابق 18نومبر 1962؁ء کو ذکرِجہر ”اللہ،اللہ “کرتے ہوئے واصل بحق ہوئے۔ ([4])

اعلیٰ حضرت،امامِ اہل سنت رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ اپنے خلیفہ وشاگرد ملک العلما رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کے متعلق فرماتے ہیں:

میرے ظفر کو اپنی ظفر دے اس سے شکستیں کھاتے یہ ہیں



[1]... حیاتِ ملک العلما،ص9 ادارہ معارفِ نعمانیہ

[2]... حیاتِ ملک العلما،ص9

[3]...حیاتِ اعلیٰ حضرت،۱/۵۳،بتغیر مرکز اہلسنت برکات رضا ،پوربندر گجرات ہند

[4]...حیاتِ ملک العلما،ص16


استاذ صاحب(Teacher) نے وائٹ بورڈ پر ایک لائن کھینچی اورطَلَبہ(Students) سے پوچھنے لگے: آپ میں سے کون اس لائن کو چُھوئے اور مٹائے بغیر چھوٹا کرسکتا ہے؟ایک طالبِ عِلْم نے فوراً عرض کی:اس لکیر کو چھوٹا کرنے کے لئے کچھ حصّہ مٹانا پڑے گا اور آپ چُھونے اور مٹانے سے منع کررہے ہیں،یہ چھوٹی نہیں ہو سکتی۔ استاذ صاحب نے دیگر طَلَبہ کی طرف سُوالیہ نظروں سے دیکھا تو انہوں نے بھی سرہلا کر تائید کردی۔اب استاذ صاحب نے ایک بڑی لائن اس لائن کے برابر میں کھینچ دی اور بولے:اب بتاؤ! پہلی لائن چھوٹی ہوئی یا نہیں؟حالانکہ میں نے اسے چُھوا تک نہیں اور نہ ہی مٹایا ہے! طَلَبہ کہنے لگے: یہ تو کمال ہوگیا!

استاذ صاحب نے مارکر ٹیبل پر رکھا اور بولنا شروع کیا: آج ہم نے کتابِ زندگی کا بڑا اہم سبق (Lesson) سیکھا ہے کہ کس طرح دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر ان سے آگے نکلا جاسکتا ہے، ان کو ڈی گریڈ کئے بغیر زیادہ عزت کمائی جاسکتی ہے؟دَراَصْل! دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش انسان کی نفسیات میں شامل ہے چاہے وہ کسی بھی شعبےاور طَبَقے سے تعلق رکھتا ہو! وہ اسٹوڈنٹ ہو، تاجر ہو، ملازم ہو، کھلاڑی ہو، ڈاکٹر ہو، وکیل ہو، پروفیسر ہو، رائٹر ہو یا کوئی اور! لیکن اگر وہ اپنی ترقی کے لئے اپنا قد بڑھانے کے بجائے دوسروں کی ٹانگیں کاٹ کرانہیں چھوٹا بنانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ نیگیٹو اپروچ ہے، جبکہ پازیٹو اپروچ یہ ہے کہ اپنی مہارت،خصوصیت اور کارکردگی کو بہتر کیا جائے،اس طرح آپ کسی کی قدر کم کئے بغیر فتح کی منزل (وکٹری اسٹینڈ) تک پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن افسوس!یہ ہمارا معاشرتی اَلْمِیہ (Social Disaster)ہے کہ جیتنے کے لئے پہلا طریقہ زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً تاجر اپنی تجارت چمکانے کے لئے دوسرے تاجر کی ساکھ اور شُہرت خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے ملازم پروموشن پانے کے لئے اپنے مدِّمُقابل(Competitor) کو بدنام کرتا ہے یا اسے نوکری سے ہی نکلوانے کی کوشش کرتا ہے طالبِ عِلم امتحانات (Examinations)میں پوزیشن پانے کے لئے دوسرے کا رزلٹ خراب کرنے کے لئے اس کا وقت برباد کرتا ہےیا اس کے نوٹس وغیرہ غائب کر دیتا ہےایک ڈاکٹر دوسرے ڈاکٹروں کو نااہل (Incompetent) اور نِکَمّا ثابت کرکے اپنا کلینک چمکانے کی کوشش کرتا ہے نعت خواں اپنا قد کاٹھ بڑھانے کےلئے دوسرے نعت خوانوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔اس نیگیٹو اپروچ کا ایک نقصان تو یہ ہوسکتا ہے کہ جو گڑھا اس شخص نے کسی کے لئے کھودا اس میں خود جاگرے اور اسے لینے کے دینے پڑ جائیں۔ دوسرا نقصان یہ کہ کسی کی پوزیشن ڈاؤن کرنے کے لئے اس پر جھوٹے الزامات لگائے،اس کے عیب اُچھالے،اس کی غیبتیں کیں،دل آزاری کی تو گناہوں کا انبار اعمال نامے میں جمع ہونا شروع ہوجاتا ہےجس کا سازشیں کرنے والے کو احساس تک نہیں ہوتا، اس کے سر پر تو فقط دوسرے کو ہرانے کا بُھوت سوار ہوتا ہے! گناہوں کا احساس ہی نہ ہو تو تَوبہ کا ذہن کیسے بنے گا؟ آخِرت کے عذابات سے یہ شخص کیونکر بچ سکے گا؟

اگلا پیریڈ شروع ہوچکا تھا، کلاس رُوم سے رخصت ہونے سے پہلےاستاذ صاحب نے تاکید کی: پیارے طَلَبہ! زندگی میں ترقی پانے کے لئے کبھی بھی منفی طریقہ نہ اپنائیے گا۔ اللہ پاک ہمیں اپنی ناراضی والے کاموں سے بچائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


انسانی زندگی ضَروریات (Necessities)، سہولیات (Comforts) اورآسائشات(Luxuries) پر مشتمل ہےاور یہ سب چیزیں مفت میں نہیں ملتیں ان کے لئے رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔ ہمارےمعاشرے(Society)میں عُموماً چار قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں:ایک وہ جو بےحساب کماتے اور بےحساب خرچ کرتے ہیں(ایسے لوگ آگے چل کر معاشی پریشانیوں (Financial Crisis) کا شکار ہوسکتے ہیں)، دوسرے وہ جو بے حساب کماتے اور حساب سے خرچ کرتے ہیں، تیسرے وہ جو حساب سے کماتے اور حساب سے خرچ کرتے ہیں اور چوتھے وہ جو حساب سے کماتے اور بےحساب خرچ کرتے ہیں، اس قسم کے لوگ عُموماً تنخواہ دار ہوتے ہیں جو مالی طور پر پریشان رہتے ہیں جس کا اثر اِن کی گھریلو زندگی پر بھی پڑتا ہےاورمیاں بیوی کے درمیان جھگڑے ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

گھریلو بجٹ بنانا کیوں ضَروری ہے؟”گزارہ نہیں ہوتا،“ ”پوری نہیں پڑتی،“”آج کل ہاتھ تنگ ہے“ جیسے جملے آپ نے اکثر سُنے ہوں گے۔بےشک بعض بے چاروں کی آمدنی (Income) ہی اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ اپنے اخراجات (Expenses) کتنے ہی کم کرلیں ان کی زندگی کی بنیادی ضَرورتیں ہی پوری نہیں ہوتیں اللہ کریم ان کے حالات بہتر فرمائے، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں،جنہیں کمانا تو آتا ہے خرچ کرنا نہیں آتا۔

یاد رکھئے! خرچ کرنےکے بعد پریشان ہونے سے بہتر ہے کہ خرچ کرنے سے پہلے سوچ لیا جائے، اس لئے اگر ہم آمدنی اورخرچ میں توازُن(Balance)قائم کرنے کیلئے گھریلو بجٹ بنالیں تو کئی ٹینشنوں سے بچ جائیں گے۔

گھریلو بجٹ بنانے کی احتیاطیں: بجٹ بنانے سے پہلے چند باتوں کا ضَرور خیال رکھئے:Äفُضول خرچی سے پرہیز کیجئے، غیرضروری اَخراجات کو گھریلوبجٹ کا حصّہ نہ بنائیے Äگناہوں کے کاموں مثلاً سینما ہال وغیرہ کی ٹکٹوں اور فلمیں گانے وغیرہ سننے دیکھنے کے لئے مہنگے ساؤنڈ سسٹم اور ایل سی ڈیز (LCDs) وغیرہ پرخرچ نہ کیجئے Äرقم ایک شخص کےپاس جمع ہواوروہی اخراجات کے لئے رقم ادا کرے اور وہی آمدنی اور اخراجات کا تحریری حساب بھی رکھے Äجس کام کے لئے گھریلو بجٹ میں جتنی رقم خاص(Fix) کی گئی ہے اس سے زیادہ خرچ نہ کی جائے Äجہاں جہاں بچت(Saving) ممکن ہو کر لی جائے،جتنی بچت زیادہ اُتنی پریشانی کم۔

گھریلوبجٹ بنانے کا طریقہ:اپنے ماہانہ گھریلوبجٹ کو 10 حصّوں میں تقسیم کرلیجئے (ہر ایک اپنے رَہَن سَہن(Lifestyle) کے مطابق اس میں کمی یا اضافہ بھی کرسکتا ہے):

(1)راشن:اس میں آٹا، چاول، گھی، کوکنگ آئل، چینی، چائے کی پتی، دالیں، سبزیاں، پھل، گوشت، نمک، مِرچ، مسالے، دودھ وغیرہ شامل ہیں (2)صفائی ستھرائی: اس میں گھر، لباس، بدن اور برتنوں کی صفائی کے لئے استعمال ہونے والی اشیاء مثلاً صابن،سرف، شیپمو، فنائل، ٹوتھ پیسٹ، مسواک جیسی چیزیں شامل ہیں (3)یوٹیلٹی بلز(Utility Bills): مثلاً بجلی،گیس،پانی،کیبل، انٹرنیٹ، موبائل کارڈ لوڈ(Load) کروانا وغیرہ (4)کرایہ(Rent):جیسے مکان کا کرایہ، دفتر یا کسی کے گھر جانے کےلئے بس یا ٹیکسی، رکشے کا کرایہ وغیرہ، کمیٹی (یعنی بیسی)ڈالی ہوتواس کی ادائیگی،قرض (Loan) لیا ہوتو اس کی ادائیگی،اگر اپنی بائیک یا کار ہے تو اس کے پیٹرول اور سروس وغیرہ کا خرچہ (5)علاج(Medical Treatment): بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کی فیس اور دوائی کی قیمت وغیرہ (6)تعلیم(Education):اسکول کالج وغیرہ کی فیس، اسکول وین(Van) کی فیس، کتابوں، کاپیوں اوراسٹیشنری پرآنے والے اخراجات اور بچّوں کا جیب خرچ(Pocket Money)اور روزانہ کا اسکول لنچ (7)گھریلو سامان کی مَرَمَّت یا تبدیلی:جیسے فریج، واشنگ مشین، گیس کے چولہے وغیرہ میں خرابی کی صورت میں مَرَمَّت (Repairing)کا خرچہ کرنا یا پُرانا سامان استعمال کے قابل نہ ہونے کی صورت میں نیا خریدنا (8)راہِ خدا میں خرچ کرنا:کسی ضَرورت مند کی مددکرنا، بھوکےغریب کو کھانا کھلانا یا مسجد و مَدْرَسہ میں فنڈ دینا وغیرہ (9)غیرمتوقع اَخراجات (Unexpected Expenses): مثلاً اچانک مہمان آگئے یا کسی شادی وغیرہ میں شرکت کرنا پڑی یا کوئی چیز گم ہوگئی، موبائل یا بائیک وغیرہ چھن گئی یا چوری ہوگئی (10)طویلُ المدّت خرچے (Long Term Expenses): مستقبل میں کوئی شے مثلاً فریج،واشنگ مشین،فرنیچر،بائیک یا زمین وغیرہ خریدنے کا ارادہ ہو تو اخراجات کے بعد بچ جانے والی رقم محفوظ کرلینا۔

کس پر کتنا خرچ کرنا ہے؟اس کےلئے مَشورہ ہےکہ سب سے پہلےیہ حساب لگالیں کہ آپ اُوپر بیان ہونے والی چیزوں پراپنے گھر میں کتنا خرچ کرتے ہیں اورکہاں کہاں کٹوتی(یعنی کم کرنے)کی گنجائش ہے؟اس کےمطابق اپنے ماہانہ خرچ کا حساب کرلیں پھر اپنے گھر کا بجٹ نیچے دئیے گئےفرضی گھریلو بجٹ کےمطابق بنالیں(آپ چاہیں تو فیصدی رقم کی جگہ اصل رقم بھی لکھ سکتے ہیں مثلاً

آپ کے یوٹیلٹی بلز کا خرچ دس ہزار ہے تو بجٹ ٹیبل میں یہی لکھ دیجئے):

گھریلو بجٹ کا ٹیبل

راشن

40فی صد

صفائی ستھرائی

05فی صد

یوٹیلٹی بلز

10فی صد

کرایہ

12فی صد

علاج

05فی صد

تعلیم

10فی صد

مَرَمَّت یا تبدیلی

03فی صد

راہِ خدا میں خرچ

05فی صد

غیر متوقع اخراجات

05فی صد

طویلُ المدت خرچ

05فی صد

اللہپاک کی رحمت سے اُمید ہےکہ گھریلواخراجات کا اس طرح جائزہ لینے اوربجٹ بنانے سے فضول خرچی سے بھی جان چھوٹےگی اوربِلاوجہ کسی کے آگےسوال بھی نہیں کرنا پڑے گا۔اللہ پاک ہمیں آسانی اور عافیت عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


مسلمانوں کے بنیادی عقائد و نظریا ت میں سے حضرت سیّدُنا عیسیٰ روحُ اللہ علٰی نَبِیِّنَا وعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام سے متعلّق عقائد بھی بہت اہمیّت کے حامل ہیں۔ آپ علیہ السَّلام سے متعلّق تین اسلامی عقیدے اور ان کا انکار کرنےوالے کا شرعی حکم یہاں بیان ہوگا: (1)اللہ پاک نے آپ علیہ السَّلام کو زندہ سلامت آسمان پر اُٹھالیا(2)آپ علیہ السَّلام پر اب تک موت طاری نہیں ہوئی(3)قیامت سے پہلےآپ علیہ السَّلام دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔

پہلا اور دوسراعقیدہ: حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ السَّلام کو نہ تو قتل کیا گیا اور نہ ہی سُولی (یعنی پھانسی) دی گئی بلکہاللہ پاک نے آپ کو زندہ سلامت آسمان پر اُٹھالیا۔ جو منافق شخص یہودیوں کو آپ کاپتا بتانے کے لئے آپ کے گھر میں داخل ہوا تھا اللہ پاک نے اسے آپ کا ہم شکل بنادیا۔ اس شخص کا چہرہ حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام جیسا ہوگیا جبکہ اس کے ہاتھ پاؤں آپ کےہاتھ پاؤں سے مختلف تھے۔ یہودیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام کے دھوکے میں اسی شخص کو سُولی پرچڑھا دیا۔یہ دونوں عقیدے دینِ اسلام کے بنیادی اور ضروری عقائد میں سے ہیں جن کا انکار کرنے والا کافر ہے۔)[1](

ان دونوں عقیدوں کی دلیل اللہ پاک کا یہ فرمان ہے: وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْؕ-وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُؕ-مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّۚ-وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢاۙ(۱۵۷) بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا(۱۵۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: انہوں نے نہ تواسے قتل کیا اور نہ اسے سولی دی بلکہ ان (یہودیوں) کے لئے (عیسیٰ سے) ملتا جلتا (ایک آدمی) بنادیا گیا اور بیشک یہ (یہودی) جو اس عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہ میں پڑے ہوئے ہیں (حقیقت یہ ہے کہ) سوائے گمان کی پیروی کے ان کو اس کی کچھ بھی خبر نہیں اور بیشک انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا تھا۔)[2](

تیسرا عقیدہ:حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ السَّلام قیامت کے قریب آسمان سے اُتر کردنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گےاور دینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بول بالا فرمائیں گے۔یہ عقیدہ اہلِ سنّت وجماعت کے ضروری عقائد میں سے ہے جس کا انکار کرنے والا گمراہ اور بدمذہب ہے۔ سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کثیر فرامین سے یہ عقیدہ ثابت ہے اور اہلِ سنّت و جماعت اس پر متفق ہیں۔)[3](

ضروری وضاحت:قیامت سے پہلے حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ السَّلام کادنیا میں دوبارہ تشریف لانا ختمِ نبوّت کے خلاف نہیں ہے کیونکہ وہ سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نائب کے طور پرتشریف لائیں گے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شریعت کے مطابق احکام جاری فرمائیں گے۔ امام جلالُ الدین سُیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ السَّلام جب زمین پر تشریف لائیں گے ہوں گے تو رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نائب کے طور پر آپ کی شریعت کے مطابق حکم فرمائیں گے نیز آپ کی اِتباع کرنے والوں اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امّت میں سے ہوں گے۔)[4](

نزولِ عیسیٰ علیہ السَّلام کے بارے میں تین فرامینِ مصطفےٰ

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کثیر احادیث میں حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ السَّلام کی دنیا میں دوبارہ تشریف آوری کو بیان فرمایا ہے۔ ان میں سے تین فرامین ملاحظہ فرمائیے:

(1)اس ذات کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے، قریب ہے کہ تم میں حضرت ابنِ مریم علیہ السَّلام نازل ہوں گے جو انصاف پسند ہوں گے،صَلیب کو توڑیں گے،خنزیر (Pig) کو قتل کریں گے، جِزیَہ)[5]( ختم کر دیں گے اور مال اتنا بڑھ جائے گا کہ لینے والا کوئی نہ ہو گا۔)[6](

(2)(دجّال کے ظاہر ہونے کے بعد)اللہ پاک حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام کو بھیجے گا تو وہ جامع مسجد دِمشق کے سفید مشرقی مینارے پر اس حال میں اُتریں گے کہ انہوں نے ہلکے زرد رنگ کے دو حُلّے پہنے ہوں گے اور انہوں نے دو فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھ رکھے ہوں گے،جب آپ سر نیچاکریں گے تو پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے اور جب آپ سر اٹھائیں گے تو موتیوں کی طرح سفید چاندی کے دانے جھڑ رہے ہوں گے۔)[7](

(3)ضرور عیسیٰ ابنِ مریم حاکم و امامِ عادل ہوکر اتریں گے اور ضرور شارعِ عام کے راستے حج یا عمرے یا دونوں کی نیّت سے جائیں گے اور ضرورمیری قبر پر آکر سلام کریں گےاور میں ضرور ان کے سلام کا جواب دوں گا۔)[8](

تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لئے شہزادۂ اعلیٰ حضرت، حجۃُالاسلام حضرت مفتی محمد حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے رسالے اَ لصَّارِمُ الرَّبَّانِی عَلٰی اَسْرَافِ الْقادیَانی کا مطالعہ فرمائیے جو ’’فتاویٰ حامدیہ‘‘ میں موجود ہے۔



([1])فتاویٰ حامدیہ، ص140 ملخصاً، تفسیر مدارک، النسآء، تحت الآیۃ: 157، ص263، 264

([2])پ6، النسآء: 157،158

([3])فتاویٰ حامدیہ، ص142 ملخصاً

([4])خصائصِ کبریٰ، 2/329

([5])وہ ٹیکس جو اسلامی حکومت میں غیر مسلموں سے لیا جاتا تھا۔

([6])بخاری، 2/50، حدیث: 2222

([7])مسلم،ص1201، حدیث:7373، ابو داؤد، 4/157،حدیث:4321

([8])مستدرک، 3/489، حدیث:4218


تربیت کے سلسلے میں نیک ماحول اور اچّھی صحبت کا بڑا عمل دخل ہے، کسی کا ذہن بنا کر اسے نیک ماحول میں لانا اس کی بہترین تربیت کا سبب بن سکتا ہے۔ حضرت عبدُالقادر عیسیٰ شاذِلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:صَحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے درِشفا سے وابستہ رہتے تھےاور آپ ان کا تَزْ کِیہو تربیت (یعنی نَفْس و قَلْب کو پاک صاف) فرماتے تھے۔)[i](

قول و فعل میں یکسانیت: تربیت کرنے والے کے لئے جن باتوں کا لِحاظ رکھنا ضَروری ہے ان میں سے ایک انتہائی اہم چیز قول و فعل کا ایک ہونا بھی ہے۔ اپنی ذات کو عملی نَمونہ(Practical Model) بنا کر پیش کرنے سے زیرِ تربیت افراد کا ذہن بنانے میں بہت آسانی رہتی ہے جبکہ قول و فعل میں پایا جانے والا تَضاد (Difference) ان کے دِلوں کی تشویش کا باعث بن سکتا ہے کہ فلاں کام یہ خود تو کرتا نہیں اور ہمیں کرنے کا کہتا رہتا ہے، اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ لوگ اس کی بات پر توجہ نہیں کرتےاور عمل کرنے کی طرف راغب نہیں ہوتے۔تربیت کرنے والے کا خود اپنا کِردار (Character) مثالی ہونا چاہئے، اس کا لوگوں پر بڑا گہرا اَثر (Impact) پڑتا ہے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زبانی تربیت جہاں صَحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی فِکْر و عمل کو جِلا بخش رہی تھی وہیں آپ کی عملی زندگی (Practical Life)نے بھی صَحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بے حد متأثر کیا، جو اِرشاد فرماتے آپ کی زندگی خود اس کی آئینہ دار ہوتی۔ جب آدَمی کا عمل اس کے قول کے مطابق ہو تو لوگوں کو اس سے مَحبَّت ہوجاتی ہے اور یہی مَحبَّت تربیت اور کردار سازی (Character Building) میں مُعاوِن ثابت ہوتی ہے۔

جُود و سَخاوَت: سرکارِ دوعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےخود بھی سخاوت کا مظاہرہ کیا اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی۔چنانچہ حضرت سیِّدُنا جابر بن عبدُاللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلَّمسے جب بھی کچھ مانگا جاتا تو آپ جواب میں ”لَا“ یعنی”نہیں“نہ فرماتے تھے۔)[ii](ایک شخص نے بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوکر سوال کیا تو آپ نے اسے اتنی بکریاں (Goats)عطا فرمائیں جس سے دو پہاڑوں کے درمیان کی جگہ بھر گئی تو وہ سائل اپنی قوم کے پاس جا کر کہنے لگا:تم سب اسلام قبول کر لو، بے شک حضرت محمد (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) اتنا عطا فرماتے ہیں کہ فاقے کا خوف نہیں رہتا۔)[iii](اور امت کو ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: بے شکاللہ پاک نے اس دین کو اپنے لئے خاص کیااور تمہارے دین کے لئے سخاوت اور حُسن اخلاق ہی مناسب ہیں لہٰذا اپنے دین کو ان دونوں کے ساتھ زینت دو۔)[iv](اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا:سخاوت اللہ پاک کے جُود و کرم سے ہے، سخاوت کرو اللہ کریم مزید عطا فرمائے گا۔)[v](

زُہد و قَناعَت: رَحْمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود بھی زُہد و قناعت والی زندگی بسر فرمائی اور اُمّت کو بھی اسی کی تعلیم ارشاد فرمائی۔چنانچہ ایک مرتبہ حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکے کندھے پکڑکر ارشاد فرمایا:دنیا میں اس طرح رہو کہ گویا تم مسافر ہو۔)[vi]( ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: دنیا اُس کا گھر ہے جس کا کوئی گھر نہ ہو اور اُس کا مال ہے جس کا کوئی مال نہ ہو اور اِس کے لئے وہ جمع کرتا ہے جس میں عقل نہ ہو۔)[vii](

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اپنا یہ عالَم تھا کہ چٹائی پر سوتے تھے جس سے جِسْمِ اَقدس پر چٹائی کے نشانات بن جاتے تھے۔ آپ اور آپ کے اَہل و عِیال (Family Members) نے کبھی تین دن مسلسل (Continuous) روٹی پیٹ بھر کر نہیں کھائی اور نہ ہی کبھی آپ کے لئے آٹا چھان کر پکایا گیا۔ ”ایک مرتبہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے (جَو کی) روٹی کا ایک ٹکڑا خدمتِ اَقدس میں پیش کیا تو اِرشادفرمایا:یہ پہلا کھانا ہے جو تین دن کے بعد تمہارے والد کے منہ میں داخل ہوا ہے۔“)[viii](یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ حُضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کی عطا سے ہر چیز کے مالک ہیں، آپ جیسی چاہتے ویسی شاہانہ زندگی بَسر فرما سکتے تھے مگر آپ لوگوں کو زُہد و قَناعَت کی جو تعلیم دیتے تھے اس کا عملی نَمونہ خود پیش فرمانا چاہتے تھے۔الغرض یہ کہ اگر ہم کسی سے کوئی نیک عمل کروانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اسے اپنی ذات پر نافذ کرنا ہوگا ورنہ اچھے نتائج کی اُمّید رکھنا حَماقَت ہے۔

دِلی ہمدردی و خیر خواہی: تربیت کرنے والا جس کی تربیت کرنا چاہتا ہے اس کے ساتھ اسے دلی ہمدردی ہو، اس کی اِصلاح و تربیت کے حوالے سے اپنے دل میں کُڑھتا ہو اور اس کے ساتھ خیرخواہی کے جذبات اس میں موجود ہوں، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ صِرف صَحابہ کے حوالے سے فِکْر مند رہتے بلکہ ایمان نہ لانے والے کافروں کی ہدایت کے لئے بھی انتہائی غمگین رہا کرتے تھے،چنانچہ قراٰن پاک میں ہے:

فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا(۶)

تَرجَمۂ کنزُ العِرفان: اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو ہوسکتا ہے کہ تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کو ختم کردو۔)[ix](حالانکہ مشرکینِ مکّہ آپ کو اور آپ کے غلاموں کو پریشان کرتے تھے، ظُلْم و سِتَم کے پہاڑ توڑتے تھے، مگر رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ان کے ساتھ طرزِ عمل یہ ہوتا کہ آپ ان کے ایمان نہ لانے کے باعث انتہائی غمزَدہ رہا کرتے۔

میری تمام عاشقانِ رسول سے فریاد ہے کہ ان بیان کردہ راہ نما اُصولوں کو اپنا تے ہوئے معاشرے کے افراد کی تربیت میں اپنا حصّہ ملائیے اور اس حوالے سےمخلص ہوجائیے اِنْ شَآءَ اللہ معاشرہ نیکی کی راہ کی طرف گامزن ہوجائے گا۔

نوٹ:یہ مضمون نگران شوریٰ کے بیانات اور گفتگو وغیرہ کی مدد سےتیار کرکے انہیں چیک کروانے کے بعد پیش کیا گیا ہے۔


([i])آدابِ مرشدِ کامل، ص80 بحوالہ حقائق عن التصوف، ص47 ملخصاً

([ii])مسلم، ص973، حديث: 6018

([iii])مسلم، ص973، حديث: 6020

([iv])معجم کبير، 18/ 159، حديث:347

([v])کنز العمال، جزء6، 3/169، حدیث:16213 ملتقطاً

([vi])بخاری،4/223،حدیث:6416

([vii])شعب الایمان،7/375،حدیث:10638

([viii])معجمِ کبیر، 1/258، حدیث: 750 ملتقطاً

([ix])پ15، الکھف: 6


اجزائے  ترکیبی:

ڈبل روٹی کے پیس: 2 عدد

چاول پسے ہوئے:دو مُٹھی کم و بیش تین کھانے کے چمچ

الائچی: پسی ہوئی دو سے تین عدد

چینی:تین بڑے چمچ کھانے والے

خُشک دودھ: چار چھوٹے ساشے)اس کی مقدار بڑھانا چاہیں تو بڑھا سکتے ہیں)

آئل: دو سے تین چمچ

دودھ : ایک لیٹر

ترکیب:

(1)ڈبل روٹی کے ٹکڑے (Pieces)کر لیجئے اور ان ٹکڑوں کو گرائنڈر میں بِالکل باریک پِیس لیں یا ہاتھوں کی مدد سے باریک چُورا کرلیں۔

(2)اب ڈبل روٹی کے اس چُورے کو فرائی پین میں ایک سے دو منٹ کیلئے فرائی (Fry) کرلیں۔

(3)چینی کے 3 بڑے چمچ فرائی پین میں ڈال کرپھیلا دیں اور ہلکی آنچ پر رکھ دیں۔

(4) جب چینی پگھل جائے (خود بخود پگھل جائے گی اس دوران چمچ نہیں چلانا) تو چُولہے سے ہٹا کر کسی اسٹیل کی پلیٹ میں چکنائی (Oil) لگا کر پھیلا دیں۔

(5)جب پگھلی ہوئی چینی (Caramel) ٹھنڈی ہو کر کڑک (Hard) ہوجائے، تو اسے چمچ (Spoon) کی مدد سے توڑ لیں اور گرائنڈ (Grind) کرلیں۔

(6)بریڈ کرمبز(Breadcrumbs)،گرائنڈ چینی، خُشک دودھ، الائچی پِسی ہوئی، چاول پسے ہوئے (چاولوں کو خشک پیس لیں، بھگونے کی ضرورت نہیں) ان تمام اجزا کو ایک بڑے پیالے میں ڈال کر مِکس کر لیں۔

(7)کسی پتیلی میں دودھ ڈالیں اور یہ سارامِکسْچَر (Mixture) ڈال کر گاڑھا ہونے تک پکائیں۔

(8)جب کھیر گاڑھی ہو جائے تو چولہے سے اُتار لیں ، چاہیں تو اپنی پسند کے میوہ جات (Dry Fruit) بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ لیجئے! مزیدار اور سَستی کھیر تیار ہے۔

نوٹ: اس مکسچر کو ایک مہینے تک محفوظ کر سکتے ہیں اور جب چاہیں استعمال کرسکتے ہیں۔


چائے عُموماً لوگ ناشتے(Breakfast) میں، شام کے وقت ریفریشمنٹ کے لئے اور مہمانوں کے لئے بطورِ مہمان نوازی استعمال کرتے ہیں۔ موسمِ سرما میں اس کی مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے مگر اَدْرَک کی چائے کے اپنے ہی فوائد ہیں اور موسمی بیماریوں میں اس کا استعمال موزُوں بھی ہے۔ آئیے ادرک کی چائے کے چند فوائد مُلاحَظہ کرتے ہیں: ٭ادرک کی چائے وزن کم کرنے کے لئے مُفید ہے کیونکہ اس کے پینے سے بُھوک میں کمی واقع ہوتی ہے ٭نظامِ اِنہضام(Digestive System)کو ٹھیک رکھتی اور بدہضمی و گیس سے بچاتی ہے ٭بلڈ شوگر لیول کو متوازن (Balance) رکھتی ہے ٭اس سے خُون کا بہاؤ بڑھتا ہے ٭ نزلہ و زکام میں مُفید ہے ٭گلے کے درد اور خراش کو دور کرتی اور گلے کو صاف رکھتی ہے ٭تھکن و سُستی سے نجات بخشتی ہے ٭کھانسی میں آرام پہنچاتی ہے ٭بلغم کو خارج کرتی ہے ٭پٹّھوں کے درد، سوجن اور ناک کی سوزِش (Rhinitis) کے لئے بھی مُفید ہے ٭پسینہ نکالتی اور جسم کو تروتازہ کرتی ہے۔

احتیاط:اَدْرَک کی چائے اپنے اندر بے شمار فوائد سموئے ہوئے ہے البتہ چند افراد کو ادرک کی چائے پینے میں احتیاط کرنی چاہئے مثلاً ٭خون کو پتلا کرنے والی دوائیں استعمال کرنے والوں کو ٭گرم مزاج والوں (یعنی جن کا معدہ گرم ہو ان) کو ٭نکسیر والے مریضوں کو اَدْرک کی چائے پینے سے پرہیز کرنا چاہئے ٭اسی طرح ادرک کی چائے نیند اُڑا دیتی ہے لہٰذا رات میں اس کے استعمال سے بچنا چاہئے۔


ناشُکری (Ungratefulness)

Wed, 29 Jan , 2020
4 years ago

میمونہ بنتِ اسحاق!

اسٹیج سے اعلان ہوا تو چھوٹی میمونہ اپنی امّی جان کا ہاتھ پکڑے پوزیشن آنے پر انعام لینےکے لئے آگے بڑھی۔

تقریب ختم ہونے کے بعد اُمِّ میمونہ گھر واپسی کی تیّاری کر رہی تھیں کہ پیچھے سے آواز آئی:کہاں غائب رہتی ہو؟ آپ تو عید کا چاند ہی ہو گئی ہو۔ اُمِّ میمونہ نے مُڑ کر دیکھا تو فرحین اور راحیلہ کھڑی مسکرا رہی تھیں۔

ارے آپ!!! اُمِّ میمونہ نے خوشی سے کہا اور تینوں خواتین آپس میں سلام کرتے ہوئے قریب رکھی کرسیوں پر بیٹھ گئیں۔

خانگی ذمّہ داریوں سے فرصت ہی نہیں ملتی ویسے بھی میمونہ کے ابُّوکی بھی خواہش ہے کہ میں گھر اور بچّوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دوں، اُمِّ میمونہ نے اپنی مصروفیات گنواتے ہوئے کہا۔

فرحین فوراً بولیں: ہاں بھئی! یہ مَرد تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ عورتیں گھروں میں قید رہیں اور خود صبح سے شام تک باہر مزے کرتے رہتے ہیں۔

تب تک راحیلہ اسکول کینٹین سے سب کے لئے چائے لے آئی تھی۔

ایسا صِرف عورتیں سوچتی ہیں، حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دن بھر ذہنی یا جسمانی مَشَقَّت سے بھرپور کام کرنے کے ساتھ ساتھ باس وغیرہ کی جلی کٹی برداشت کرنا، اور مقصد اپنی سہولیات یا آسائشات نہیں بلکہ اپنے بیوی، بچّوں کی خواہشیں پوری کرنا، انہیں بہتر زندگی فراہم کرنا ہوتا ہے۔ یہ ہیں ان کی زندگی کےمزے، اُمِّ میمونہ نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا۔

کیسی خواہشیں؟ جب بھی کسی چیز کا کہو تو یہی سُننے کو ملتا ہے کہ ابھی ہاتھ تنگ ہے تو ابھی فلاں ضرورت ہے۔ ہاں! اپنی ماں اور بہنوں کی فرمائشیں تو جھٹ سے پوری کر دی جاتی ہیں، راحیلہ تَلْخ لہجے کے ساتھ گفتگو میں شریک ہوئی۔

راحیلہ بہن! دِل چھوٹا نہیں کرتے، جو چیز ہمارے نصیب میں لکھی ہے وہ ہمیں مل کر رہے گی، چاہے کوئی سو (100) رُکاوٹیں کھڑی کرے، اُمِّ میمونہ چائے کا گھونٹ بھرنے کے لئے رکیں، پھر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولیں:

ناراض مت ہونا! میں بھی آپ کی طرح ایک عورت ہی ہوں، اس لئے جانتی ہوں کہ عورتوں کا دل نہیں بھرتا، الماری میں کپڑے رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی پھر بھی کپڑے نہ ہونے کی شکایت کریں گی، کسی دوسرے کے پاس اپنے سے بہتر چیز دیکھ لی تو شوہر کو کوسنے شروع، ایسی ہی چھوٹی بڑی باتوں کو لے کر شوہروں کی ناشُکری کرتی رہتی ہیں، اس حوالے سے کل ہی میں نے ایک حدیثِ پاک پڑھی تھی آپ کو سناتی ہوں:

پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں نے جہنّم میں اکثریت عورتوں کی دیکھی۔

یَارسولَ اللہ!اس کی وجہ کیا ہے؟ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے پوچھا۔ارشادفرمایا: وہ ناشُکری کرتی ہیں۔

عرض کی گئی: کیا وہ اللہ پاک کی ناشُکری کرتی ہیں؟

ارشاد فرمایا: وہ شوہر کی ناشُکری کرتی ہیں اور احسانات سے مُکَر جاتی ہیں، اگر تُم کسی عورت کے ساتھ عمْر بھر اچّھا سُلوک کرو پھر بھی تُمہاری طرف سے اسے کوئی ہلکی سی بات پہنچے تو کہے گی: میں نے تُم سے کبھی کوئی بھلائی دیکھی ہی نہیں۔(بخاری،3/463،حدیث:5197)

خُلُوص اور سچّائی بہرحال اپنا اثر رکھتی ہے، اُمِّ میمونہ کی باتیں سُن کر فرحین اور راحیلہ کے چہرے پر چھائی نَدامت بتا رہی تھی کہ وہ اپنی سابِقَہ سوچ پر شرمندہ ہیں۔


خالی اخروٹ اور مہمان 

Sat, 25 Jan , 2020
4 years ago

شام کے وقت چاچُو گھر پہنچے تو انہیں حیرت ہوئی کہ شرارتی ننّھے میاں صوفے پر مُنہ لٹکائے بیٹھے ہیں اور ان کی خالہ کے بیٹے سُہیل اورسلیم کھیل کود رہے ہیں، دن بھرکے کام کاج کی تھکاوٹ کے باوجود چاچو سیدھا ننھے میاں کے پاس آگئے۔

آپ خاموش کیوں بیٹھے ہیں؟ بچّوں کے ساتھ کھیل کیوں نہیں رہے؟ چاچو نے پوچھا۔ میرا دل نہیں چاہ رہا، ننھے میاں نے رُوٹھے منہ جواب دیا۔ چلو! جب آپ کا دل کرے تب کھیل لینا، چاچو نے ننّھے میاں کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

ننّھے میاں کافی دیر بعد بھی صوفے سے نہیں اُٹھے تو چاچو قریب آکر بولے: کیا ہوا ہے؟ آج ہمارے ننھے میاں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل ہی نہیں رہے۔مجھے کسی کے ساتھ نہیں کھیلنا، میں دادی سے ناراض ہوں، ننّھے میاں نے غُصّہ میں منہ دوسری طرف کر لیا۔

دادی نے ایسا کیا کردیا جو آپ ان سے ناراض ہیں؟ چاچو نے پوچھا، مگر ننّھے میاں نے کوئی جواب نہیں دیا۔یہ بات آہستہ آہستہ پورے گھر میں پھیل گئی کہ ننّھے میاں دادی جان سے ناراض ہیں، دادی جان تک خبر پہنچی تو وہ اپنے کمرے سے چشمہ پہنے بغیر ہی اپنے لاڈلے پوتے کے پاس چلی آئیں۔

ارے! میرا چاند مجھ سے ناراض ہےاور مجھے پتا ہی نہیں۔ لیکن! کس بات نے میرے لال کو اپنی دادی سے ناراض کیا ہے؟ ننھے میاں سے دادی نے پوچھا: دادی! آپ نے ٹھیک نہیں کیا۔ میں سُہیل اور سلیم کے ساتھ کھیل رہا تھا، آپ آئیں اورسُہیل اور سلیم کو 5 اخروٹ دئیے اور مجھے صرف 4 اخروٹ۔ ان 4میں سے بھی ایک اخروٹ خالی تھا۔ ننّھے میاں نے ناراض ہونے کی وجہ بتائی ۔

گھر کے سب لوگ قریب آچکے تھےاور ننھے میاں کی باتوں پر حیران ہورہے تھے۔ ارے بھئی! میں نے تومُٹّھی بھر کر اخروٹ دئیے تھے ان کو 5 مل گئے اور آپ کو چار۔تم تو میرے لاڈلے ہو، ایک نہیں بلکہ 2 اخروٹ اور دوں گی مگر! اس کے لئے تم کو ایک سچی کہانی سننی ہو گی اور اس پرعمل کرنا ہوگا۔ دادی نےاخروٹ کی لالچ دیتے ہوئے کہا۔ ”2 اخروٹ!! جلدی بتائیے، میں ضرور عمل کروں گا۔“ ننّھے میاں نے جلدی جلدی کہا۔

کہانی سننے کے لئے گھر کے بڑے بھی ننّھے میاں کی طرح اپنے بچپن میں لوٹ گئے اور خاموش ہوکر توجّہ سے سننے لگے۔ دادی نے کہانی شروع کی:

ایک مرتبہ ایک بُھوکا شخص ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے پاس آیااور کھانا مانگنے لگا اس وقت آپ کے گھر میں کھانے کے لئے کچھ نہ تھا۔ پھر ہمارے مدنی آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس بُھوکے شخص کو کیا جواب دیا۔ ننّھے میاں نے دادی جان سے سوال کیا۔ دادی جان نے بتایا کہ آپ نے لوگوں سے پوچھا: اسے کون مہمان بنائے گا؟ ایک صحابی کھڑے ہوئے اور اس شخص کو مہمان بناکر گھر لے گئے۔

کچھ کھانے کو ہے؟ گھر پہنچ کر اپنی بیوی سےپوچھنےلگے۔ وہ بولیں:صرف بچّوں کا کھانا رکھا ہوا ہے۔ان صحا بی نے کہا: بچّوں کو ایسے ہی سُلادو اور وہ کھانا مہمان کےلئے لے آؤ۔ جب ہمارا مہمان کھانا کھانے لگے تو تم چراغ بُجھادینا۔ ہم مہمان کے پاس بیٹھے رہیں گے اور مہمان یہ سمجھے گا کہ ہم دونوں اس کے ساتھ کھارہے ہیں۔

ان صحابی کی بیوی نے ایسا ہی کیا اور مہمان یہی سمجھتا رہا کہ دونوں میاں بیوی اس کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں۔ اس طرح دونوں میاں بیوی خود تو بُھوکے رہے مگر! اپنے مہمان کی بُھوک کو ختم کردیا۔

دادی نے کہانی کے بعد ننّھے میاں کو سمجھاتے ہوئے کہا: اچھے لوگ اپنے مہمانوں کی بہت عزّت (Respect) کرتے ہیں۔ سلیم اور سُہیل بھی ہمارے مہمان(Guest) ہیں اگر کبھی کوئی چیز انہیں زیادہ مِل جائے اور آپ کو کم ملے یا آپ کی چیز خراب نکلے تو اس پر ناراض نہ ہوا کریں اور نہ بُرا مانا کریں۔

ننّھےمیاں نے ہاں میں سَر ہِلاتے ہوئے کہا: ٹھیک ہے دادی!مہمان کو جو چیز دی جائےگی میں اس پر ناراض نہیں ہوا کروں گا۔ اب جلدی سے مجھے اخروٹ دیجئے ، ننّھے میاں کی بات سُن کر سب مسکرا دئیے۔


بے وقوفوں کا چیمپیئن

Thu, 23 Jan , 2020
4 years ago

ایک دن بادشاہ (King)نے بڑا عجیب وغریب حکم دیا: ملک بھر سے بے وقوفوں کو اکٹّھا کیاجائے، ان میں سے جو سب سے بڑا بے وقوف (Fool)ہوگا اُسے انعام دیا جائے گا۔ انعام کے لالَچ میں سینکڑوں بےوقوف دربار میں اکٹّھے ہوگئے۔ بادشاہ نے ان میں بےوقوفی کے مختلف مقابلے (Competitions) کروائے، فائنل راؤنڈ میں جو شخص جیتا اُسے ”بے وقوفوں کا چیمپیئن“ قرار دیا گیا، بادشاہ نے قیمتی ہیرے جَواہِرات کا شاہی ہار اپنے گلے سےاُتار کر اسے انعام میں دیا ۔ ’’سب سے بڑا بےوقوف“ شخص یہ اِعْزازو انعام پاکر خُوشی خُوشی گھر کو لَوٹ گیا۔ کچھ عرصے بعد بادشاہ شدید بیمار ہوکر بِستر سے لگ گیا۔ اس کی بیماری کا سُن کر ’’سب سے بڑا بے وقوف ‘‘بھی ملنے کے خیال سے آیا ، بادشاہ بیڈ ریسٹ (Bed Rest)پر تھا لیکن اس شخص کو بادشاہ سے ملاقات کی خُصُوصی اجازت دے دی گئی۔ بےوقوف شخص نے بادشاہ سے پوچھا: کیاحال ہے؟ بادشاہ بولا: اس شخص کا حال کیا پوچھتے ہو جو ایسے سفر پر جارہا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ بےوقوف نے حیرت سے پوچھا : کیا آپ وہاں سے واپس نہیں آئیں گے؟ وہیں رہیں گے؟ بادشاہ نے بے بسی سے کہا: ہاں! ایسا ہی ہے۔ بے وقوف نے سوال کیا: پھر تو آپ نے وہاں بہت بڑا محل(Palace)، باغات (Gardens)، خدمت کے لئے شاہی کنیزیں، غُلام (Slaves) اور عیش و عِشْرت کا بہت سارا سامان روانہ کردیا ہوگا! بادشاہ چیخ مار کر رونے لگا، بےوقوف نے بادشاہ کی یہ حالت دیکھی تو حیرت میں پڑ گیا کہ بادشاہ کو اچانک کیا ہوگیا ہے! ’’نہیں! میں نے وہاں ایسا کچھ نہیں بھیجا،“ بادشاہ نے بمشکل جواب دیا۔ بے وقوف شخص کہنے لگا : یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ آپ تو بہت عقل مند اور سمجھدار ہیں! آپ نے کچھ نہ کچھ تو بھیجا ہوگا؟ بادشاہ آہیں بھرنے لگا ،نہیں نہیں! میں نے واقعی وہاں پر کچھ انتظام نہیں کیا۔ بےوقوف جانے کے لئے پلٹنے لگا تو اپنے گلے سے ہار اُتارا اور یہ کہہ کر بادشاہ کے گلے میں ڈال دیا : پھرتو اس ہار کے سب سے زیادہ حقدار آپ ہیں۔

جب استاذ صاحب (Teacher) نے عالِم کورس کی کلاس فائیو میں یہ سبق آموز فرضی حکایت سُنائی تو طلبۂ کرام مُنْتظِر تھے کہ اب استاذ صاحب نصیحت کے کون کون سے موتی انہیں عطا فرماتے ہیں!

زندگی کے پانچ مراحل: چندسیکنڈز کے بعد استاذ صاحب اپنی سِیٹ سے کھڑے ہوئے، بورڈ پر پانچ لکیریں کھینچیں اور ہر ایک کے شروع میں نمبرز لکھ دئیے :

1۔۔۔2۔۔۔3۔۔۔4۔۔۔5۔۔۔

طَلَبہ کی دِلچسپی دیکھنے کے لائق تھی، استاذ صاحب نے بولنا شروع کیا، قراٰن و حدیث کی روشنی میں انسان کی زندگی کو اِجمالی طور پر ان پانچ مراحل(Stages) میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

(1)عالَمِ اَرْواح (The World of Spirits)، جہاں ہمارے خالق ومالک نے ہم سے اپنے رب ہونے کا اقرار کروایا تھا ،اس کا ذکر سورۂ اَعْراف میں ہے:﴿اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ؕ-قَالُوْا بَلٰى تَرجَمۂ کنزُالایمان:کیا میں تمہارا رب نہیں سب بولے کیوں نہیں۔ (پ9،الاعراف:172) (2)عالَمِ دُنیا (World)، جہاں ہم پیدا ہوئے اور مقرَّرہ مدّت تک زندگی گزارنے کے بعد یہاں سے رُخصت ہوجائیں گے (3)عالَمِ بَرْزَخْ(Duration between Death and Resurrection)، مَرنے کے بعد سے قیامت قائم ہونے تک کا درمیانی وقت عالمِ برزخ کہلاتا ہے (4)حَشْر (Judgment day)، جب ہم قبروں سے اُٹھیں گے اور میدانِ محشر میں پہنچ کر اپنے اچھے بُرے اعمال کا حساب دیں گے (5)میدانِ محشر جس کے بعد ہمیں جنّت یا دوزخ میں داخل کردیا جائے گا ۔

اس کے بعد استاذ صاحب فرمانے لگے: ہم پہلا مرحلہ (Stage) گزار آئے ، دُوسرا اس زمین پرگزار رہے ہیں، جبکہ تین مرحلے باقی ہیں۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ پانچوں میں سے صرف دنیا ہی دارُالعمل ہے جس کا اَثَر بقیہ تین مرحلوں یعنی بَرْزَخ، میدانِ محشر اور جنّت یا دوزخ میں داخلے پر پڑے گا، منقول ہے: اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْآخِرَۃ یعنی دُنیا آخرت کی کھیتی ہے۔(فیض القدیر،2/440،تحت الحدیث:2245)

پیارے اسلامی بھائیو! اب غور کیجئے کہ ہم بھی کہیں اس بادشاہ کی طرح غفلت کا شکار تو نہیں کیونکہ ہمارا فوکس صرف اور صرف دُنیاوی زندگی کے فوائد(Benefits)سمیٹنے اور نُقصانات سے بچنے پر ہوتا ہے حالانکہ دُنیا اور آخرت میں اتنا بڑا فرق (Difference) ہے جتنا سمندر اور پانی کے چھوٹے سے قطرے میں ہوتا ہے، چنانچہ فرمانِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اللہ کی قسم! آخرت کے مقابلے میں دنیا اتنی سی ہے جیسے کوئی اپنی اُنگلی کو سمندر میں ڈالے تو وہ دیکھے کہ اس انگلی پر کتنا پانی آیا۔ (مسلم،ص1171،حدیث:7197)

انسان کتنا سمجھدار کتنا نادان؟ غورکیجئے کہ انسان کتنا سمجھدار (Intelligent) ہےکہ بہت سے کام ایڈوانس میں کر لیتا ہے ، مثلاً *گرمی کا موسم آنے سے پہلےA.C یا رُوم کُولر کو چیک کروا کر اس کی سَرْوِس کروا لیتا ہے *شدید گرمی میں باہر جانے سے پہلے اے سی آن کرکے جاتا ہے تاکہ واپسی پر کمرا ٹھنڈا ملے *لوڈشیڈنگ کا سامنا ہوتو یوپی ایس، اسٹینڈ بائی جنریٹر کا بندوبست کرلیتا ہے *گاڑی تک پہنچنے سے پہلے ریمورٹ سے دروازہ اَن لاک کردیتا ہے *رَش سے بچنے کے لئے رمضان کی آمد سے پہلے عید کی شاپنگ کرلیتا ہے * آسمان پر بادل دیکھ کر چھتری(Umbrella) ساتھ رکھتا ہے *گھر سے نکلتے وقت A.T.M کارڈ ساتھ رکھتا ہے کہ کہیں بھی رقم کی ضرورت پڑسکتی ہے *سائیکل والا دَس بِیس روپے، بائیک والا سو دوسو اور کار والا ہزار پانچ سو روپے جیب میں ڈال کر باہر نکلتا ہے کہ راستے میں ٹائر پنکچر ہوگیا، پیڑول ختم ہوگیایا چھوٹی موٹی خرابی آگئی تو پریشانی نہ ہو *موبائل تنگ کرنے لگے تو بیچ دیتا ہے کہ ڈیڈ (Dead) ہوگیا تو کوئی قیمت نہیں ملے گی *بچّی ابھی اپنے پاؤں پر چلنا بھی شروع نہیں کرتی کہ اس کی شادی کی فکر میں گُھلنا شروع کر دیتا ہے *اس کے کام پورے نہیں ہوتے تو ٹائم مینجمنٹ سیکھتا ہے، ڈیلی، وِیکلی، منتھلی اور اینول(سالانہ) پلاننگ کرتا ہے* عوامی رجحانات دیکھ کر کاروبار کا رُخ (Business Direction) موڑ دیتا ہے۔

لیکن ہماری اکثریت کتنی نادان (Ignorant)ہے کہ اُخروی زندگی کے انتظامات اس کی ترجیحات(Preferences) میں شامل ہی نہیں ہیں، وہ اِقْدامات جن سے جہانِ آخرت کی بہتری وابستہ ہے، اس کے معمولاتِ زندگی کا حصّہ ہی نہیں ہیں۔ اپنے امیج کو بہتر بنانے کے لئے بارش،آندھی،بیماری میں اپنے آفس، کاروبار یا کسی تقریب میں وقت پر پہنچنے کو بےحد ضروری سمجھنے والا یہ انسان اپنے رب کو راضی کرنے اور آخرت کے انعامات پانے کے لئے پانچ وقت کی فرض نماز کے لئے مسجد میں حاضری سے غافل ہے۔آفس میں ایمرجنسی نوعیت کا کام آجائے تو اپنے ریکارڈ کو بہتر کرنے کے لئے اس کام کو کرنے کی دُھن اس پر سوار ہوجاتی ہے پھر یہ نہ بُھوک پیاس دیکھتا ہے، نہ کوئی بیماری اس کی راہ میں رُکاوٹ بنتی ہے نہ تھکاوٹ اس کا راستہ روکتی ہے، لیکن جب بات رمضان کے فرض روزے رکھنے کی آتی ہے تو یہ مختلف بہانے بنانے لگتا ہے۔یار دوستوں کی محفلوں اور مختلف تقریبات میں اپنی ناک اُونچی رکھنے کے لئے بے حساب خرچ کرنے والے کو جب زکوٰۃ فرض ہونے پر اس کا حساب لگا کر ادا کرنے کا کہا جاتا ہے تو اس کا ہاتھ اور دِل دونوں تنگ پڑجاتے ہیں پھر یہ تھوڑی بہت رقم دے کر اپنے دل کو منالیتا ہے کہ میں نے زکوٰۃ ادا کردی ہے۔اسی طرح تکبّر، حَسَد، بدگُمانی جیسے باطنی گناہوں سے بچنا، حُقوقُ الْعِباد ادا کرنے میں کوئی کمی نہ رہنے دینا، فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ مُسْتَحَبّات پرعمل کرکے انعاماتِ آخرت پانے کے لئے نیکیوں کا خزانہ اِکَٹّھا کرنے کی طرف عُمُوماً انسان کی توجّہ نہیں ہوتی مگر جسے اللہ کریم توفیق دے ۔

اے عاشقانِ رسول! آپ کا کاروباردن دُگنی رات چوگنی ترقّی کرے یا نہ کرے، ملازمت میں آپ کا گریڈ اپ ہویا نہ ہو، اس پر کوئی سزا نہیں لیکن فرائض وواجبات چھوڑنے پر عذاباتِ جہنّم کی وارننگز موجود ہیں۔ حضرت سیّدنا سُفیان ثَوْریرحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے: لوگ سوئے ہوئے ہیں جب انہیں موت آئے گی تو بیدار ہوجائیں گے۔(حلیۃ الاولیاء،7/54،حدیث:9576)

اللہ پاک ہماری دنیا اور آخرت دونوں بہتر فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


علم کی حفاظت کیجئے

Wed, 22 Jan , 2020
4 years ago

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:آفَةُ الْعِلْمِ النِّسْيَانُ، وَاِضَاعَتُهُ اَنْ تُحَدِّثَ بِهٖ غَيْرَ اَهْلِهٖ یعنی علم کی آفت اس کو بُھول جانا ہے اور نااہل سے علم کی بات کہنا علم کو ضائع کرنا ہے۔([1])

شرح:اس حدیثِ پاک میں علم کے متعلّق دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے(1)علم کی آفت کیا ہے؟(2) علم ضائع کیسے ہوتا ہے؟حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جیسے مال و صحّت بعض آفتوں سے برباد ہوجاتے ہیں ایسے ہی عِلْم بُھولنے سے برباد ہوجاتا ہے ۔([2])

علم کی آفت”نِسْیان“سے بچئے: علم کی آفت یعنی نِسْیان اور بُھولنےکا مرض کوئی معمولی آفت نہیں ہے بلکہ بہت بڑی آفت ہے اس آفت سے کیسے بچا جائے اس سے متعلق حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عالِم کو چاہیئے کہ علم کا مَشغلہ رکھے، کُتُب بِینی چھوڑ نہ دے، حافظہ کمزور کرنے والی عادتوں اور چیزوں سے بچے۔([3]) علّامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ بندہ ان اَسباب سے بچے جو کہ نِسیان کا سبب ہیں، جیسا کہ علم کے اِستِحْضار (یاد کرنے)سے اِعراض کرنا اور ان کاموں میں مشغول ہو جانا جو دل کو دنیا کی رنگینیوں میں پھنسا دیں اور عقل کو ضائع کر دیں۔([4])

”نِسْیان“ کے اسباب: علم کی آفت ”نِسْیان“(بُھولنے کے مرض ) میں پھنسنے کا ایک بڑا سبب گناہ بھی ہیں جس سے حافظہ کمزور ہوجاتا ہے چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:

شَكَوْتُ اِلىٰ وَكِيْعٍ سُوْ ءَ حِفْظِي فَاَوْصَانِيْ اِلىٰ تَرْكِ المَعَاصِيْ

فَاِنَّ العِلْمَ فَضْلٌ مِنْ الٰہٍ وَفَضْلُ اللهِ لَا يُعْطیٰ لِعَاصِي

ترجمہ:میں نے اپنے استاد وَکِیع رحمۃ اللہ علیہ سے حافِظہ کی خرابی کی شکایت کی انہوں نے مجھے گناہ چھوڑنے کی نصیحت فرمائی، کیونکہ عِلْم اللہ پاک کا فضل ہے اور اللہ پاک کا فضل گناہ گار کو عطا نہیں ہوتا۔([5]) علّامہ محمد امین بن عمر عابدین شامی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ چھ چیزیں حافظہ کمزور کرتی ہیں: (1)چُوہے (Mouse) کا جُوٹھا کھانا (2)جُوں پکڑ کر زندہ چھوڑ دینا (3)ٹھہرے پانی میں پیشاب کرنا (4)عِلْک گُوند(درخت کا وہ گوند جو چبانے سے نہ گُھلے) چبانا (5)کھٹّا سیب کھانا (6)سیب کے چھلکے چبانا۔([6])

”نِسْیان“ کا علاج: شیخُ الاسلام امام ابراہیم زَرْنُوجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (1)مِسواک کرنا (2)شہد کا استعمال رکھنا (3)گوند مع شکر استعمال کرنا (4) نہار منہ(خالی پیٹ) 21دانے کشمش کھانا بھی حافظے کو قوی کرتاہے۔([7])

مطالعہ محفوظ رکھنے کے طریقے:کچھ طریقے وہ بھی ہیں جن کو بروئے کار لاتے ہوئے زیادہ دیر تک معلومات کو اپنے حافظے میں محفوظ رکھا جاسکتا ہے مثلاً (1) مطالعہ کرنے کے بعدتمام مطالعے کو ابتداسے انتہا تک سَرسَرِی نظر سے دیکھا جائےاور اس کا ایک خلاصہ اپنے ذہن میں نقش کرلیا جائے (2) جومطالعہ کریں اُسے اچّھی اچّھی نیّتوں کے ساتھ اپنے گھر والوں اور دوستوں سے بیان کریں اس طرح بھی معلومات کا ذخیرہ طویل مدّت تک ہمارے دماغ میں محفوظ رہے گا (3)مشہور مقولہ ہے:’’مَاتَکَرَّرَ تَقَرَّرَ یعنی جس بات کی تکرار کی جاتی ہے وہ دِل میں قرار پکڑلیتی ہے۔‘‘ جو کچھ پڑھیں اس کی دُہرائی (Repeat) کرتےرہیئے (4)علمی محافل میں شرکت کی عادت ڈالنے کی برکت سے جہاں علم میں پختگی آئےگی وہیں معلومات کا بیش قیمت خزانہ ہاتھ آئے گا۔

نااہل کو علم دینا: یاد رکھئے کہ مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے اور عِلم وہ شمع ہے جسے جتنا پھیلایا جائےگھٹتا نہیں بلکہ اس کی روشنی اتنی ہی پھیلتی ہے، مگر نا اہل شخص کے سامنے علم کے راز و اَسْرار بیان کئے جائیں تو وہ ان عِلمی نِکات کو سمجھ نہیں سکے گا اورغلط فہمی میں مبتلا ہوجائے گایا پھر اپنی ناسمجھی کی بنا پر وہ خواہ مخواہ ان علمی نکات کا انکار کر بیٹھے گا۔ نااہل سے مُراد کون لوگ ہیں اس کے بارے میں علامہ عبدُالرَّءوف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یہ وہ لوگ ہیں جو علم کی باتوں کو سمجھ نہیں سکتے یا اس پر عمل نہیں کرتے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کے سامنے علم کی بات کرنا علم کو مُہْمَل و بیکار بنانے کے مُتَرادِف ہوگا۔([8])علّامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ علم کو ضائع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ علم کی بات اس دنیا دار کو بیان کرنا جو نہ اسےسمجھ سکتا ہو اور نہ اس پر عمل کرتا ہو۔([9])امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کثیر حَضْرَمی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ حکمت کی بات اَحمقوں کو بیان نہ کرو کہ وہ تمہیں جُھٹلا دیں گے اور باطل باتیں حُکما کو بیان نہ کرو وہ تم پر غضبناک ہوں گے۔ اپنے علم کو اس سے نہ روکو جو اس کا اہل ہو کہ گنہگار ہوگے اور اس سے بیان نہ کرو جو اس کا اہل نہ ہو کہ وہ تم کو بیوقوف سمجھے گا۔ بےشک تجھ پر تیرے علم کا ایسے ہی حق ہے جس طرح تیرے مال کا حق ہے۔([10])



([1])مصنّف ابن ابی شیبہ، 344/13، حدیث:26663

([2])مراٰۃ المناجیح، 1/224

([3])مراٰۃ المناجیح، 1/224

([4])مرقاۃ المفاتیح، 523/1، تحت الحدیث: 265

([5])اشعۃ اللمعات،188/1

([6])مراٰۃ المناجیح، 1/224

([7])تعلیم المتعلم طریق التعلم،ص118

([8])فیض القدیر ، 70/1،تحت الحدیث:12ملخصاً

([9])مرقاۃ المفاتیح، 523/1، تحت الحدیث: 265

([10])فیض القدیر ،1/70،تحت الحدیث:12ملخصاً


پسند کا کھانا

Tue, 21 Jan , 2020
4 years ago

روزانہ کی طرح اسکول سے آنے کے بعد خُبَیب نے امّی کو سلام کیا، امّی آج بہت بھوک لگ رہی ہے پلیز!جلدی سے کھانا دیدیجئے۔اچّھابیٹا!یونیفارم چینج کرکے ہاتھ منہ دھولیجئے تب تک میں اپنے بیٹے کے لئے دسترخوان لگادیتی ہوں۔

ہاتھ منہ دھوکر خُبیب یہ کہتا ہوا دسترخوان پر بیٹھ گیا: اللہ کرے میری پسند کی ڈش بنی ہو۔

لگتا ہے آج آپ نے ناشتہ ٹھیک طرح سے نہیں کیا خُبَیب؟ امّی نے کھانا بڑھاتے ہوئے کہا، خُبَیب نےسالن دیکھاتو اس کامنہ بن گیا ،کہنے لگا:امّی مجھے کچھ اور بنادیں،آپ کو تومعلوم ہے میں لوکی(Gourd)شوق سے نہیں کھاتا!

امّی نے خُبَیب کا مُرجھایا ہوا چہرہ دیکھا تو فوراً کہا: اچّھا ٹھیک ہے میں آپ کے لئے آملیٹ بنادیتی ہوں ۔

خُبَیب کی یہ سب باتیں اس کے ماموں بھی سُن رہے تھے۔خُبَیب نے لنچ کرنے کے بعد آرام کیا۔ ٹیوشن سے آنے کے بعد ماموں نے کہا :بیٹا!یقیناً ہم سب کی طرح آپ کے بھی آئیڈیل اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔

خُبیب نے ہاں میں سَر ہِلاتے ہوئے کہا:جی ماموں جان! میں انہیں اپنا رول ماڈل مانتاہوں۔ مَا شَآءَ اللّٰہ! یہ تو بہت اچّھی بات ہے، پھر ماموں نے خُبَیب سے سوال کیا:اچّھا ایک بات بتائیے کیا آپ کو معلوم ہےکہ ہمارے پیارے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو لوکی شریف بہت پسند تھی؟ خُبَیب نے نفی میں سَرہلاتے ہوئے کہا:نہیں۔

ماموں کہنے لگے: چلئے!میں آپ کو ایک واقعہ سناتاہوں پھر آپ مجھے اس سے حاصل ہونے والا سبق بتائیے گا۔ جی ٹھیک ہے ماموں! یہ کہہ کر خُبَیب واقعہ غور سے سننے لگا۔

ماموں نےکہا:صحابیِ رسول حضرت اَنَس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک بار اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ دعوت میں گیا، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں سالن لایا گیاجس میں لوكی(یعنی کدّو شریف) اورخشک کیا ہوا نمکین گوشت تھا ،رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس سالن میں سے لوکی تلاش کررہے تھے، حضرت اَنس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اسی لئے میں اس دن سے لوکی پسند کرنے لگا۔

جیسے ہی ماموں نے واقعہ ختم کیا خُبَیب نےفوراً کہا: اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں بھی لوکی شریف شوق سے کھانی چاہئے۔

ارے واہ بھئی!آپ تو واقعی بہت ذہین ہیں، ماموں نےکہا۔

خُبَیب نے اَفسُرْدَہ لہجے میں کہا:آج میں نے کتنا بڑا چانس مِس کردیا نا ماموں جان! دوپہر ہی میں لوکی شریف پکی تھی مگر میں نے نہیں کھائی ۔

ماموں نے خُبَیب کا موڈ بدلنے کے لئے کہا،آپ کی نالج میں ایک اور بات کا اضافہ کروں؟خُبَیب نے خوش ہوکر کہا: جی بالکل ماموں جان!

یہ بات تو آپ كومعلوم ہوچکی کہ لوکی کھانا نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّت ہے۔اس كے علاوہ میڈیکل سائنس نے اس کے بہت سےفوائد(Benefits)بھی بیان کئے ہیں:خُبَیب نے حیرت سےکہا:وہ کیا کیا ہیں؟ماموں نے بتایا:لوکی دماغ کو بڑھاتی اورعقل میں اضافہ کرتی ہے۔(حافظہ کیسے مضبوط ہو، ص138)

بیٹا! اگر آپ لوکی کے مَزید فوائد جاننا چاہتے ہیں تو ربیعُ الآخر 1438ھ/جنوری2017ء کا ماہنامہ فیضانِ مدینہ پڑھئے۔

اِنْ شَآءَ اللہ ماموں جان! خُبَیب نے اپنے عَزْم کا اظہار کیا۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہُ علٰی محمَّد