ایک دن بادشاہ (King)نے بڑا عجیب وغریب حکم دیا: ملک بھر سے بے وقوفوں کو اکٹّھا کیاجائے، ان میں سے جو سب
سے بڑا بے وقوف (Fool)ہوگا اُسے انعام دیا جائے گا۔ انعام کے لالَچ میں سینکڑوں
بےوقوف دربار میں اکٹّھے ہوگئے۔ بادشاہ نے ان میں بےوقوفی کے مختلف مقابلے (Competitions) کروائے، فائنل راؤنڈ میں جو شخص جیتا اُسے ”بے وقوفوں کا چیمپیئن“
قرار دیا گیا، بادشاہ نے قیمتی ہیرے جَواہِرات کا شاہی ہار اپنے گلے
سےاُتار کر اسے انعام میں دیا ۔ ’’سب سے بڑا بےوقوف“ شخص یہ اِعْزازو انعام پاکر خُوشی خُوشی
گھر کو لَوٹ گیا۔ کچھ عرصے بعد بادشاہ شدید بیمار ہوکر بِستر سے لگ گیا۔ اس کی
بیماری کا سُن کر ’’سب سے بڑا بے وقوف ‘‘بھی ملنے کے خیال سے آیا ، بادشاہ بیڈ
ریسٹ (Bed
Rest)پر تھا لیکن اس شخص کو بادشاہ
سے ملاقات کی خُصُوصی اجازت دے دی گئی۔ بےوقوف شخص
نے بادشاہ سے پوچھا: کیاحال ہے؟ بادشاہ بولا: اس شخص کا حال کیا پوچھتے ہو جو ایسے
سفر پر جارہا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ بےوقوف نے حیرت سے پوچھا : کیا آپ وہاں
سے واپس نہیں آئیں گے؟ وہیں رہیں گے؟ بادشاہ نے بے بسی سے کہا: ہاں! ایسا ہی ہے۔
بے وقوف نے سوال کیا: پھر تو آپ نے وہاں بہت
بڑا محل(Palace)، باغات (Gardens)، خدمت کے لئے شاہی کنیزیں، غُلام (Slaves) اور عیش و عِشْرت کا بہت سارا
سامان روانہ کردیا ہوگا! بادشاہ چیخ مار کر رونے لگا، بےوقوف نے بادشاہ کی یہ حالت
دیکھی تو حیرت میں پڑ گیا کہ بادشاہ کو اچانک کیا ہوگیا ہے! ’’نہیں! میں نے وہاں
ایسا کچھ نہیں بھیجا،“ بادشاہ نے بمشکل جواب دیا۔ بے وقوف شخص کہنے لگا : یہ کیسے
ہوسکتا ہے؟ آپ تو بہت عقل مند اور سمجھدار ہیں! آپ نے کچھ نہ کچھ تو بھیجا ہوگا؟
بادشاہ آہیں بھرنے لگا ،نہیں نہیں! میں نے واقعی وہاں پر کچھ انتظام نہیں کیا۔
بےوقوف جانے کے لئے پلٹنے لگا تو اپنے گلے سے ہار اُتارا اور یہ کہہ کر بادشاہ کے
گلے میں ڈال دیا : پھرتو اس ہار کے سب سے زیادہ حقدار آپ ہیں۔
جب استاذ
صاحب (Teacher)
نے
عالِم کورس کی کلاس فائیو میں یہ سبق آموز فرضی حکایت سُنائی تو طلبۂ کرام مُنْتظِر
تھے کہ اب استاذ صاحب نصیحت کے کون کون سے موتی انہیں عطا فرماتے ہیں!
زندگی کے پانچ مراحل: چندسیکنڈز
کے بعد استاذ صاحب اپنی سِیٹ سے کھڑے ہوئے، بورڈ پر پانچ لکیریں کھینچیں اور ہر
ایک کے شروع میں نمبرز لکھ دئیے :
1۔۔۔2۔۔۔3۔۔۔4۔۔۔5۔۔۔
طَلَبہ کی دِلچسپی دیکھنے کے لائق تھی، استاذ صاحب نے بولنا شروع کیا، قراٰن و حدیث کی روشنی میں انسان
کی زندگی کو اِجمالی طور پر ان پانچ مراحل(Stages) میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :
(1)عالَمِ اَرْواح (The World of Spirits)، جہاں ہمارے خالق ومالک نے
ہم سے اپنے رب ہونے کا اقرار کروایا تھا ،اس کا ذکر سورۂ اَعْراف میں ہے:﴿اَلَسْتُ
بِرَبِّكُمْ ؕ-قَالُوْا بَلٰى﴾ تَرجَمۂ کنزُالایمان:کیا میں تمہارا رب نہیں سب بولے کیوں نہیں۔
(پ9،الاعراف:172) (2)عالَمِ دُنیا (World)، جہاں ہم پیدا ہوئے اور مقرَّرہ مدّت تک زندگی
گزارنے کے بعد یہاں سے رُخصت ہوجائیں گے (3)عالَمِ بَرْزَخْ(Duration
between Death and Resurrection)، مَرنے کے بعد سے قیامت قائم ہونے تک کا درمیانی وقت عالمِ برزخ کہلاتا ہے
(4)حَشْر (Judgment
day)، جب ہم قبروں سے اُٹھیں گے اور
میدانِ محشر میں پہنچ کر اپنے اچھے بُرے اعمال کا حساب دیں گے (5)میدانِ محشر جس کے
بعد ہمیں جنّت یا دوزخ میں داخل کردیا جائے گا ۔
اس کے بعد استاذ صاحب فرمانے لگے: ہم پہلا
مرحلہ (Stage) گزار آئے ، دُوسرا اس زمین پرگزار
رہے ہیں، جبکہ تین مرحلے باقی ہیں۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ پانچوں میں سے صرف
دنیا ہی دارُالعمل ہے جس کا اَثَر بقیہ تین مرحلوں یعنی بَرْزَخ، میدانِ محشر اور
جنّت یا دوزخ میں داخلے پر پڑے گا، منقول ہے: اَلدُّنْیَا
مَزْرَعَۃُ الْآخِرَۃ یعنی دُنیا آخرت کی کھیتی ہے۔(فیض
القدیر،2/440،تحت الحدیث:2245)
پیارے اسلامی
بھائیو! اب غور کیجئے کہ ہم بھی کہیں اس بادشاہ کی طرح غفلت کا شکار تو نہیں کیونکہ
ہمارا فوکس صرف اور صرف دُنیاوی زندگی کے فوائد(Benefits)سمیٹنے اور نُقصانات سے بچنے
پر ہوتا ہے حالانکہ دُنیا اور آخرت میں اتنا بڑا فرق (Difference)
ہے
جتنا سمندر اور پانی کے چھوٹے سے قطرے میں ہوتا ہے، چنانچہ فرمانِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اللہ کی
قسم! آخرت کے مقابلے میں دنیا اتنی سی ہے
جیسے کوئی اپنی اُنگلی کو سمندر میں ڈالے
تو وہ دیکھے کہ اس انگلی پر کتنا پانی آیا۔ (مسلم،ص1171،حدیث:7197)
انسان کتنا سمجھدار کتنا نادان؟ غورکیجئے کہ انسان
کتنا سمجھدار (Intelligent) ہےکہ بہت سے کام ایڈوانس میں
کر لیتا ہے ، مثلاً *گرمی کا موسم آنے سے
پہلےA.C یا
رُوم کُولر کو چیک کروا کر اس کی سَرْوِس کروا لیتا ہے *شدید گرمی میں باہر جانے
سے پہلے اے سی آن کرکے جاتا ہے تاکہ واپسی پر کمرا ٹھنڈا ملے *لوڈشیڈنگ کا سامنا
ہوتو یوپی ایس، اسٹینڈ بائی جنریٹر کا بندوبست کرلیتا ہے *گاڑی تک پہنچنے سے پہلے
ریمورٹ سے دروازہ اَن لاک کردیتا ہے *رَش سے بچنے کے لئے رمضان کی آمد سے پہلے عید کی شاپنگ کرلیتا ہے * آسمان پر
بادل دیکھ کر چھتری(Umbrella) ساتھ رکھتا ہے *گھر سے نکلتے وقت A.T.M کارڈ ساتھ رکھتا ہے کہ کہیں
بھی رقم کی ضرورت پڑسکتی ہے *سائیکل والا دَس بِیس روپے، بائیک والا سو دوسو اور کار
والا ہزار پانچ سو روپے جیب میں ڈال کر باہر نکلتا ہے کہ راستے میں ٹائر پنکچر
ہوگیا، پیڑول ختم ہوگیایا چھوٹی موٹی خرابی آگئی تو پریشانی نہ ہو *موبائل تنگ
کرنے لگے تو بیچ دیتا ہے کہ ڈیڈ (Dead)
ہوگیا تو کوئی قیمت نہیں ملے گی *بچّی ابھی اپنے پاؤں پر چلنا بھی شروع نہیں کرتی
کہ اس کی شادی کی فکر میں گُھلنا شروع کر دیتا
ہے *اس کے کام پورے نہیں ہوتے تو ٹائم مینجمنٹ
سیکھتا ہے، ڈیلی، وِیکلی، منتھلی اور اینول(سالانہ) پلاننگ کرتا ہے*
عوامی رجحانات دیکھ کر کاروبار کا رُخ (Business Direction) موڑ دیتا ہے۔
لیکن ہماری
اکثریت کتنی نادان (Ignorant)ہے کہ اُخروی زندگی کے
انتظامات اس کی ترجیحات(Preferences) میں شامل ہی نہیں ہیں، وہ اِقْدامات
جن سے جہانِ آخرت کی بہتری وابستہ ہے، اس کے معمولاتِ زندگی کا حصّہ ہی نہیں ہیں۔
اپنے امیج کو بہتر بنانے کے لئے بارش،آندھی،بیماری میں اپنے آفس، کاروبار یا کسی تقریب میں وقت پر پہنچنے کو بےحد
ضروری سمجھنے والا یہ انسان اپنے رب کو راضی کرنے اور آخرت کے انعامات پانے
کے لئے پانچ وقت کی فرض نماز کے لئے مسجد میں حاضری سے غافل ہے۔آفس میں ایمرجنسی
نوعیت کا کام آجائے تو اپنے ریکارڈ کو بہتر کرنے کے لئے اس کام کو کرنے کی دُھن اس
پر سوار ہوجاتی ہے پھر یہ نہ بُھوک پیاس دیکھتا ہے، نہ کوئی بیماری اس کی راہ میں
رُکاوٹ بنتی ہے نہ تھکاوٹ اس کا راستہ روکتی ہے، لیکن جب بات رمضان کے فرض روزے
رکھنے کی آتی ہے تو یہ مختلف بہانے بنانے لگتا ہے۔یار دوستوں کی محفلوں اور مختلف
تقریبات میں اپنی ناک اُونچی رکھنے کے لئے بے حساب خرچ کرنے والے کو جب زکوٰۃ فرض
ہونے پر اس کا حساب لگا کر ادا کرنے کا کہا جاتا ہے تو اس کا ہاتھ اور دِل دونوں
تنگ پڑجاتے ہیں پھر یہ تھوڑی بہت رقم دے کر اپنے دل کو منالیتا ہے کہ میں نے زکوٰۃ
ادا کردی ہے۔اسی طرح تکبّر، حَسَد، بدگُمانی جیسے باطنی گناہوں سے بچنا، حُقوقُ الْعِباد
ادا کرنے میں کوئی کمی نہ رہنے دینا، فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ مُسْتَحَبّات پرعمل
کرکے انعاماتِ آخرت پانے کے لئے نیکیوں کا خزانہ اِکَٹّھا کرنے کی طرف عُمُوماً انسان
کی توجّہ نہیں ہوتی مگر جسے اللہ
کریم توفیق دے ۔
اے عاشقانِ
رسول! آپ کا کاروباردن دُگنی رات چوگنی ترقّی کرے یا نہ کرے، ملازمت میں آپ کا
گریڈ اپ ہویا نہ ہو، اس پر کوئی سزا نہیں لیکن فرائض وواجبات چھوڑنے پر عذاباتِ
جہنّم کی وارننگز موجود ہیں۔ حضرت سیّدنا سُفیان ثَوْریرحمۃ
اللہ علیہ کا فرمان ہے: لوگ سوئے
ہوئے ہیں جب انہیں موت آئے گی تو بیدار ہوجائیں گے۔(حلیۃ
الاولیاء،7/54،حدیث:9576)
اللہ پاک ہماری دنیا اور آخرت دونوں بہتر فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم