امیرالمؤمنین حضرت سیِّدنا عُمر بن عبدُالعزیزرحمۃ اللہ علیہ کی کنیت ابوحَفص،نام عمربن عبدالعزیزہے، آپ کی والدہ حضرت سیِّدنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی پوتی سیّدتنا اُمِّ عاصم بنتِ عاصم تھیں۔(الثقات لابن حبان،2/354 ملخصاً)آپ عابدو زاہد،بُردبَار، عاجِزی واِنکِساری کے پیکر، خوفِ خداسے لَبْریز، عَدْل وانصاف قائم کرنے، بھلائی اور نیکیوں کو محبوب رکھنے، نیکی کا حکم دینے اوربرائی سے مَنْع کرنے والے تھے۔ آپ کا شمار اُن خُلَفا میں ہوتا ہے جو خلیفہ ہونے کے باوجود شان و شوکت اور عیش وعِشْرت کی زندگی سے دور رہے۔ (ماخوذ از طبقات ابن سعد، 5/260) آپ نےصرف 29 ماہ کےعرصے میں دنیا کےایک بڑے حصے میں خوشحالی کاایسااِسلامی اِنقلاب برپاکیاجس کی مثال صَدْیاں گزر جانے کے بعد بھی نہیں ملتی، آپ نے عَہْدِ خُلفائے راشِدین کی یاد تازہ کردی۔آپ کو عمُرِثانی بھی کہا جاتا ہے۔ (الثقات لابن حبان، 2/354،مرقاۃ المفاتیح،9/245،تحت الحدیث:5375- 5376) آپ رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ منتخَب ہوئے تو اس وقت مُعاشَرے کی حالت بہت بری تھی،اُمَراء نے لوگوں کی جائیداوں پر ناحق قبضے کئے ہوئے تھے،دین سے بے راہ روی عام تھی، شراب نوشی عام ہونے کے علاوہ بہت سی ممنُوعاتِ شرعیہ مَملکتِ اسلامیہ میں رائج ہوچکی تھیں۔ آپ نےدینی،حکومتی اورمُعاشرتی شعبہ جات میں اِصلاح کے لئے انقلابی کوششیں فرمائیں۔ دعوتِ دین آپ نے دینِ اسلام کی دعوت عام کرنے کے لئے تِبَّت، چین اور دُوردراز مَمالک میں وُفود روانہ کئےاور وہاں کے حکمرانوں کو دعوتِ اِسلام پیش کی جس کے اثر سے مشرق و مغرب میں کئی بادشاہوں اور راجاؤں نے اسلام قبول کیا۔(مجددین اسلام نمبر، ص59ملخصاً) عدل و انصاف آپ رحمۃ اللہ علیہ نےمجبوروں، مظلوموں اور مَحْروموں کوان کی وہ جائیدادیں واپس دلائیں جنہیں شاہی خاندان کے افراد، حُکومتی اَہلکاروں اور دیگر اُمَرا نے اپنے تَصَرُّف میں لے رکھا تھا۔ (سیدناعمربن عبدالعزیز کی 425حکایات، ص162ملخصاً) تدوینِ حدیث آپ نے نبیِّ اکرم،رحمتِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیثِ مبارکہ مِٹ جانے کے خوف سے ان کوجمع کرنے کا اہتمام فرمایا۔(سنن دارمی، 1/137، حدیث:488ملخصاً) غیر شرعی اُمور کا خاتمہ شراب نوشی کے خاتِمہ کے لئے مختلف تدبیریں فرمائیں مثلاً شرابیوں کو سخت سزائیں دیں اورذِمّیوں کو بھی حکم فرمایاکہ وہ ہمارے شہروں میں ہرگز شراب نہ لائیں۔ (طبقات الکبریٰ،5/283 ملخصاً) غیر مسلموں کے مذہبی تَہْوارکے موقع پر مسلمانوں کوتحفے تحائف(Gifts)بھیجنے سے روکا۔ (طبقات الکبریٰ، 5/291) آپ رحمۃ اللہ علیہ کو صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے اس قدر مَحبّت تھی کہ امیرالمؤمنین حضرت سیّدنا علی المرتضیٰ اور حضرت سیّدنا امیرمُعاویہ رضی اللہ عنہما کی شان میں نازیبا الفاظ بکنے والوں کوسختی سے منع فرمایا ۔( تاریخ الخلفاء، ص195، الاستیعاب، 3/475) نیز یزید کو امیرُالمومنین کہنے والے کو بھی کوڑے لگوائے۔(سیراعلام النبلاء، 5/84ملخصاً) فلاح عامہ آپ نے ایک لنگر خانہ قائم کیا جس میں فُقراو مساکین اورمسافروں کو کھانا پیش کیا جاتا تھا۔(تاریخ دمشق، 45/218)اسی طرح مُسافروں کے لئے سرائے خانے اور ان کی سُوارِیوں کے لئے اَصْطَبل تعمیر کروائے، نابیناؤں، فالج زدہ، یتیموں اور معذوروں کی خدمت کے لئے غلام اور اَخراجات عطا فرمائے اور بچوں کے وظائف بھی مُقرّر فرمائے۔ (سیدناعمربن عبدالعزیز کی425 حکایات، ص447تا452 ملخصاً) مَعاشی انقلاب آپ کے عدل وانصاف اورحُسنِ انتظام سےایسا انقلاب (Revolution) آیاکہ زکوٰۃ لینے والے دینے والے بن گئے اورزکوٰۃ دینےوالوں کو فُقراتلاش کرنے سے بھی نہیں ملتے تھے۔ (سیرۃ ابن عبدالحکم ،ص59)


پچھلے مضمون میں اسی سوال کا جواب دیا گیا تھا اور اِس مضمون میں اسی کی تکمیل ہے۔ خلاصۂ کلام یہ تھا کہ دین علماء نے مشکل نہیں کیا بلکہ یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ دین ہے جسے ہر مسلمان کو دل و جان سے ماننا ہی ہوگا اب یہ کام اعتراض کرنے والوں کا ہے کہ وہ ہمیں بیان کریں کہ وہ کون سے کام ہیں جنہیں علماء نے مشکل بنایا ہے۔

ہم نے عبادات کی مثال دی تھی کہ نماز،روزہ،زکوٰۃ اور حج تو اللہ کی طرف سے فرض کئے گئے ہیں اگر دل مانے تو کرنا اور دل نہ مانے تو بھی کرنا ہی ہے۔

اب آئیے ذرا دیگر احکام کی طرف۔اِس وقت دنیا کا معاشی نظام سُودی معیشت پر مبنی ہے، بینُ الاقوامی، قومی اور نجی مالی معاملات میں سُود کا عمل دخل ہے اور علماء اس کی حرمت و شناعت و قباحت پر وقتاً فوقتاً کلام کرتے رہتے ہیں اور کرتے رہیں گے اور یہ سب کلام اُن کا اپنی طرف سے نہیں اور نہ ہی انہوں نے سُود کو خود سے حرام کیا ہے بلکہ سُود کی حرمت قرآن نے بیان کی ہے اور ایک دو آیتوں میں نہیں، بہت سی آیات میں اور ایک دو حدیثوں میں نہیں بلکہ درجنوں احادیث میں بیان ہوئی ہے۔ اب اگر کسی کو سود کی لَت لگی ہے یا اُس کی نظر میں گویا نظامِ کائنات ہی سود پر چل رہا ہے تو وہ جو مرضی سمجھے لیکن مسلمان ہونے کے ناطے اسے سود سے بچنا فرض ہے اور سود کی حرمت اِدھر اُدھر نہیں ہوسکتی اور اب اگر اِس حکم میں کسی کو مشکل یا بہت مشکل یا بہت ہی مشکل نظر آتی ہے تو اسے یہی عرض ہے کہ جنابِ عالی سُود کو ربُّ العالمین نےحرام کیااوررحمۃٌ لِّلعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنےاسے بارباربیان کیا ہے۔یہ علماء کی کوئی ذاتی خواہش و ایجاد نہیں ہے،لہٰذا غریب ہو یا امیر، ریڑھی والا ہویا بزنس مین،کسی بینک کا سربراہ ہویا بڑی بڑی انشورنس کمپنیوں کا مالک ہر ایک کو اس کی حرمت پر یقین رکھتے ہوئے اس سے ہر حال میں بچنا ہی پڑے گا۔

یونہی کوئی سمجھتا ہے کہ سرکاری دفتروں میں فائل کو پہیے لگانے پڑتے ہیں یعنی فائل کے ساتھ رشوت کے پیسے دینے پڑتے ہیں اور اس کے بغیر کام نہیں ہوتا تو علماء اسے حرام ہی کہیں گے کیونکہ باطل طریقے سے مال کھانے کو قرآن نے حرام قرار دیا اور رشوت لینے دینے والے کو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ و اٰلہٖ وسلَّم نے جہنمی قرار دیا۔ اب اگر کسی کو رشوت کے بغیر کام کرنے یا کرانے میں مشکل لگتی ہے اور رشوت کی حرمت اُس پر دشوار ہے یا جو بھی ہے لیکن بہرحال یہی طے ہے کہ یہ سختی و مشکل علماء نے تیار نہیں کی بلکہ خداوندِ عالم نے نظامِ عالم کی صلاح و فلاح کے لئے یہ بہترین احکام دئیے ہیں۔

اسلام میں عقائد و معاملات کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کا بھی ایک پورا باب ہے جن میں حسنِ اخلاق، صبر، شکر، توکل اور صلہ رحمی وغیرہ چیزیں ہیں جن کا قرآن و حدیث میں کئی جگہ تذکرہ موجود ہے مثلاً لوگوں کو معاف کیا کرو،صبر سے کام لو اللہصبرکرنے والوں کے ساتھ ہے،مسلماناللہ کا شکر بجالائیں اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کریں اوران سےاچھے انداز میں گفتگو کریں۔ اخلاقیات کے باب پر تو شاید کسی کو اتنا کلام نہ ہوکہ اچھےاخلاق اپنانےکی دعوت توسبھی دیتےہیں لیکن عمومی اخلاقیات اور اسلامی اخلاقیات میں فرق ہے مثلاًاپنی ذات کی خاطرغصہ کرنے سے تو دونوں طرح کی اخلاقیات میں منع کیا جاتا ہے لیکن اس سے آگے عمومی اخلاقیات ملک و وطن کی خاطر غصہ کرنے کی تو اجازت دیتی ہے لیکن خدا و رسول کی خاطر اور دین کے لئے غصہ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتی اور یہی بھاشن سیکولر اور لبرل لوگ دیتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلامی اخلاقیات ہمیں اللہ و رسول کی خاطر غصہ کرنے کی اجازت بلکہ حکم دیتی ہے جیسے اگر مَعَاذَ اللہ ان ہستیوں کی گستاخی کی جائے تو غصہ کرنا تقاضائے ایمان ہےاور ایسی جگہ رواداری یا اس کے بھاشن غیرتِ ایمانی کے منافی ہیں۔ یونہی خدا و رسول کے منکروں کو سخت ناپسند کرنا اور خدا کے احکام کی پامالی پرکم از کم دل میں برا جاننااسلامی اخلاقیات ہے۔ یہ اخلاقیات قرآن و احادیث میں جگہ جگہ بیان کی گئی ہیں۔ اب سیکولر، لبرل لوگ اس پر جتنا مرضی منہ بگاڑیں، اعتراض کریں ، مشکل کہیں بلکہ مَعَاذَ اللہ بداخلاقی کہیں اور سارا الزام اٹھا کر علماء پر ڈال دیں، بہرحال یہ معلوم ہے کہ یہ احکام علماء نے نہیں بنائے بلکہ قرآن و احادیث میں موجودہیں۔ جو چاہے وہ اَلْحُبُّ فِی اللہ وَالْبُغْضُ فِی اللہ کے عنوان کے تحت آیات و احادیث دیکھ لے۔

اوپر بیان کردہ سوداورایمانی غیرت وہ احکام ہیں جن کا الزام عموماً دین سے دور لوگ علماء پر ڈال دیتے ہیں اور اس کے علاوہ سیکولر، لبرل لوگوں کو جس مسئلے کا زیادہ غم لگا ہوا ہے وہ پردے کا مسئلہ ہے۔ انہیں علماء کا عورتوں کو پردے کی ترغیب دینا بہت تکلیف دیتا ہے۔ان افراد کے لئے عورت کا پردہ صرف ایک چادر نہیں بلکہ اپنی شیطانی خواہشات کے لئے تنگ کفن محسوس ہوتا ہے یا بالفاظ دیگر خواہشات کے لذیذ کباب میں حیا کی ہڈی محسوس ہوتا ہے حالانکہ پردہ خواہشات کے اِس ناپاک زہریلے کباب سے روکنے کا ذریعہ ہے۔بہرحال اسی پردے اور حیا کے لباس کو تار تار کرنے کے لئے کبھی عورت کی آزادی کے نام پر،کبھی عورت کی نوکری کے نام پر اور کبھی دوسرے حیلوں سے پردے کی دھجیاں اڑانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ خود قرآنِ پاک حیا اور پردے کو کھول کھول کر بیان فرماتا ہے کہ مسلمان مرد اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور مسلمان عورتیں بھی نظریں نیچی رکھیں اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں۔اب اگر کسی کادل مانےیا نہ مانے پردہ تو کرناہی ہوگا اور وہ بات بھی یہاں یاد رکھیں کہ یہ احکام علماء کے خود ساختہ نہیں بلکہ قرآن اور حدیث کے ہیں۔

ایک اور چیز ہے جس پر علماء کا کلام دین بیزار لوگوں کے لئےغم و غصہ کا باعث بنتا ہے اور وہ ہے ناچ، گانا، ٹھمکے، مجرے، جسے آج کی شیطانی زینت کے الفاظ میں لپیٹ کرموسیقی، ڈانس، شامِ موسیقی، روح کے نغمے، جشنِ طرب، فن کار، کلاکار اور نجانے کیا کیا کہا جاتا ہے۔ اسے بھی علماء ناجائز و حرام کہتے ہیں لیکن اپنی طرف سے نہیں بلکہ قرآن و حدیث اور پوری امت کے اتفاق و اجماع سے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ علماء پر تبرا کرکے حرام کام، حلال نہیں ہوجائیں گے۔اس لئے خدا سے ڈریں اور حیلے بہانے کر کے گناہ کرنے کی بجائے اللہ و رسول کے احکامات کی طرف آجائیں اور علمائے کرام کی رہنمائی میں زندگی گزاریں۔

دن لہو میں کھونا تجھے شب صبح تک سونا تجھے

شرمِ نبی خوفِ خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

حضرت سیّدنا امیر معاویہ

Wed, 11 Mar , 2020
4 years ago

صحابی ابنِ صحابی حضرت سیّدُنا امیر معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مل جاتا ہے۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ 6ہجری میں صلحِ حُدیبیہ کے بعد دولتِ ایمان سے مالامال ہوئے مگر اپنا اسلام ظاہر نہ کیا۔ پھر فتحِ مکّہ کے عظمت والے دن والدِ ماجد حضرت ابوسفیان رضیَ اللہُ عنہ کے ساتھ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر اس کا اظہار کیا تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مرحبا فرمایا۔(طبقاتِ ابن سعد، 7/285) حُلْیۂ مبارکہ حضرت امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ گورے رنگ اور لمبے قد والے تھے، چہرہ نہایت وجیہ اور رُعْب و دبدبے والا تھا۔ زرد خِضاب استعمال فرمانے کی وجہ سے یوں معلوم ہوتا کہ داڑھی مبارک سونے کی ہے۔ (تاریخ الاسلام للذھبی، 4/308)فضائل و مناقب آپ رضیَ اللہُ عنہ کے اوصاف و کارنامے اور فضائل و مناقب کتبِ احادیث و سِیَر اور تواریخِ اسلام کے روشن اوراق پر نور کی کِرنیں بکھیر رہے ہیں۔ آپ کو کتابتِ وحی کے ساتھ ساتھ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے خُطوط تحریر کرنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔(معجم کبیر، 5/108، حدیث: 4748) دعائے مصطَفٰے کئی مرتبہ مصطفٰے کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعاؤں سے نوازا کبھی علم وحِلم کی یوں دعا دی:اے اللہ!معاویہ کو علم اور حلم (بردباری) سے بھر دے۔(تاریخ کبیر، 8/68،حدیث:2624) کبھی ہدایت کا روشن ستارہ یوں بنایا: یااللہ!معاویہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قائم رہنے والا اور لوگوں کے لئے ذریعۂ ہدایت بنا۔ (ترمذی، 5/455،حدیث:3868)کبھی نوازشوں کی بارش کو یوں برسایا: اے اللہ! معاویہ کو حساب و کتاب کا عِلم عطا فرما اور اس سے عذاب کو دور فرما۔ (مسنداحمد، 6/85، حدیث: 17152)کبھی خاص مجلس میں ان کی عظمت پر یوں مہر لگائی:معاویہ کو بلاؤ اور یہ معاملہ ان کے سامنے رکھو، وہ قَوی اور امین ہیں۔(مسند بزار، 8/433،حدیث:3507)کبھی سفر میں خدمت کا شرف بخشا اور وضو کرتے ہوئے نصیحت فرمائی: معاویہ! اگر تم کو حکمران بنایا جائے تو اللہ پاک سے ڈرنا اور عدل و انصاف کا دامن تھام کر رکھنا۔(مسند احمد، 6/32، حدیث: 16931) اوصافِ مبارکہ حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ اخلاص اور عہد و وفا، علم و فضل اور فقہ و اجتہاد، حسن ِسلوک، سخاوت، تقریر و خطابت، مہمان نوازی، تحمل و بُردباری، غریب پروری، خدمتِ خَلق، اطاعتِ الٰہی، اتّباعِ سنّت، تقویٰ اور پرہیز گاری جیسے عمدہ اوصاف سے مُتَّصِف تھے۔ بُردباری ایک مرتبہ ایک آدمی نے آپ رضیَ اللہُ عنہسے سخت کلامی کی مگر آپ نے خاموشی اختیار فرمائی، یہ دیکھ کر کسی نے کہا: اگر آپ چاہیں تو اسے عبرت ناک سزا دے سکتے ہیں، فرمایا:مجھے اس بات سے حیا آتی ہے کہ میری رِعایا میں سے کسی کی غلطی کی وجہ سے میرا حِلم (یعنی قوت برداشت) کم ہو۔ (حلم معاویہ لابن ابی الدنیا، ص:22) اصلاحِ نفس کا جذبہ آپ رضیَ اللہُ عنہ اپنے کام کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ اپنی اصلاح کا جذبہ بھی رکھتے تھے چنانچہ ایک مرتبہ اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ رضیَ اللہُ عنہا کو مکتوب روانہ کیا کہ مجھے وہ باتیں لکھ دیں جن میں میرے لئے نصیحت ہو۔ (ترمذی، 4/186، حدیث: 2422مختصراً) فرمانِ مولیٰ مشکل کُشا جنگِ صِفِّین کے بعد امیرُ المؤمنین حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے حضرت امیرمعاویہ رضیَ اللہُ عنہ کے بارے میں فرمایا: معاویہ کی حکومت کو ناپسند نہ کرو کہ اگر وہ تم میں نہ رہے تو تم سَروں کو کندھوں سے ایسے ڈھلکتے ہوئے دیکھو گے جیسےاندرائن (پھل)۔ (یعنی تم اپنے دشمن کے سامنے نہیں ٹھہر سکو گے)۔(مصنف ابن ابی شیبہ، 8/724، رقم: 18) شیرِ خدا سے مَحبّت حضرت سیّدُنا علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کی شہادت کی خبر سُن کر آپ نے حضرت سیّدُنا ضرار رضیَ اللہُ عنہ سے فرمایا: میرے سامنے حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰکَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے اوصاف بیان کریں۔ جب حضرت ضرار رضیَ اللہُ عنہ نے حضرت سیّدُنا علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے اوصاف بیان کئے تو آپ رضیَ اللہُ عنہ کی آنکھیں بھر آئیں اور داڑھی مبارک آنسوؤں سے تَر ہو گئی، حاضرین بھی اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے اور رونے لگے۔(حلیۃ الاولیاء،1/126مختصراً) اہلِ بیت کی خدمت حضرت سیّدُنا امام حُسین رضیَ اللہُ عنہ کو بیش قیمت نذرانے پیش کرنے کے باوجود آپ ان سے مَعْذِرَت کرتے اور کہتے: فی الحال آپ کی صحیح خدمت نہیں کرسکا آئندہ مزید نذرانہ پیش کروں گا۔ (کشف المحجوب، ص77ماخوذاً) کعبہ میں نماز جب آپ رضیَ اللہُ عنہ مکۂ مُکرّمہ میں داخل ہوئے تو حضرت سیّدُنا عبدُاللہ بن عمر رضیَ اللہُ عنہُما سے سوال کیا: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کعبہ میں کس جگہ نماز پڑھی تھی؟ انہوں نے کہا: دیوار سے دو یا تین ہاتھ کا فاصلہ رکھ کر نماز پڑھ لیجئے۔(اخبارِ مکۃ للازرقی،1/378) موئے مبارک کا دھووَن پیا ایک بار آپ رضیَ اللہُ عنہ مدینۂ مُنوّرہ تشریف لائے تو حضرت سیّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ رضیَ اللہُ عنہَا کی خدمتِ عالیہ میں آدمی بھیجا کہ آپ کے پاس رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رِدا (یعنی چادر) مُقدّسہ اور موئے مبارک ہیں، میں ان کی زیارت کرناچاہتا ہوں، حضرت سیّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ رضیَ اللہُ عنہا نے وہ دونوں مُتبرّک چیزیں بھجوادیں۔ آپ رضیَ اللہُ عنہ نے حصولِ بَرَکت کے لئے چادر مبارک کو اوڑھ لیا پھر ایک برتن میں موئے مبارک کو غسل دیا اور اس غَسالَہ کو پینے کے بعد باقی پانی اپنے جسم پر مَل لیا۔ (تاریخ ابنِ عساکر، 59/153) وصالِ مبارک آپ رضیَ اللہُ عنہ کے پاس حضور سیّدِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تَبرّکات میں سے اِزار (تہبند) شریف، ردائے اقدس، قمیصِ اطہر، موئے مبارک اور ناخنِ بابرکت کے مقدّس تراشے تھے، تَبرّکات سے برکات حاصل کرنے اور اہلِ بیت و صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کی خدمت کا سلسلہ جاری و ساری تھا کہ وقت نے سفرِِ زندگی کے اختتام پذیر ہونے کا اعلان کردیا چنانچہ بَوقتِ انتقال وصیّت کی کہ مجھے حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اِزار شریف و ردائے اقدس و قمیصِ اطہر میں کفن دینا، ناک اور منہ پر موئے مبارک اور ناخنِ بابرکت کے تراشے رکھ دینا اور پھر مجھے اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْن کے رحم پر چھوڑ دینا۔(تاریخ ابن عساکر، 59/229تا231) کاتبِ وحی، جلیلُ القدر صحابیِ رسول حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ نے 22رجب المرجب(1)60ھ میں 78سال کی عمر میں داعیِ اَجل کو لبیک کہا۔(معجم کبیر، 19/305، رقم: 679، استیعاب، 3/472) حضرت سیّدُنا ضَحّاک بن قَیس رضیَ اللہُ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھانے کا شرف حاصل کیا جبکہ دِمَشْق کے بابُ الصغیر کو آخری آرام گاہ ہونے کا اعزاز بخشا گیا۔ (الثقات لابن حبان،1/436) بدگوئی سے توبہ شمسُ الائمہ امام سَرْخَسی رحمۃُ اللہِ علیہ (سالِ وفات: 483ھ) نے مبسوط میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ پہلے پہل امامِ جلیل محمد بن فضل الکماری رحمۃُ اللہِ علیہ (سالِ وفات: 381ھ) حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضیَ اللہُ عنہ کے خلاف بدگوئی اور عیب جوئی میں مبتلا ہوگئے تھے پھر ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ ان کے منہ سے لمبے لمبے بال نکل کر پاؤں تک لٹک گئے ہیں اور وہ ان بالوں کو اپنے پاؤں میں روندتے چلے جارہے ہیں جبکہ زبان سے خون جاری ہے جس سے ان کو سخت تکلیف اور اذیت ہورہی ہے، بیدار ہونے کے بعد انہوں نے تعبیر بتانے والے سے اس کی تعبیر پوچھی تو اس نے کہا: آپ کِبار صحابہ علیہمُ الرِّضوان میں سے کسی صحابی کی بدگوئی اور ان پر طعن کرتے ہیں، اس فعل سے بچئے اور اجتناب کیجئے۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس سے فوراً تائب ہوگئے۔ (المبسوط،جز:24، 12/57)

ہرصحابیِ نبی جنّتی جنّتی

صدیق و عمر بھی جنّتی جنّتی

عثمانِ غنی جنّتی جنّتی

فاطمہ و علی جنّتی جنّتی

حسن و حسین بھی جنّتی جنّتی

امیرِ معاویہ بھی جنّتی جنّتی

(1) 4 اور 15 رجب المرجب بھی مروی ہے۔

ماہ ِرَجَبُ المُرَجَّبکو کئی بزرگانِ دین سے نِسبت حاصل ہے، اِنہی میں سے ایک ہستی ایسی بھی ہے جس نے بھٹکے ہوؤں کو راہ دکھائی،حُسْنِ اَخلاق کی چاشنی سے بداَخْلاقی کی کڑواہٹ دور کی،عمدہ کِردار کی خوشبو سے پریشان حالوں کی داد رَسی فرمائی اور عِلم کے نور سے جَہالت کی تاریکی کا خاتمہ فرمایاوہ عظیمُ المَرتَبَت شخصیت حضرت سیّدنا امام جعفر صادق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہیں۔

نام ونسب:آپ کانام”جعفر“ اورکُنیّت”ابوعبداللہ‘‘ہے ۔آپ کی ولادت 80 ہجری میں ہوئی،آپ کے دادا شہزاد ۂ امام حسین حضرت سیّدناامام زَیْنُ الْعَابِدِین علی اَوسط اور والد امام محمد باقِر ہیں جبکہ والدہ حضرت سیّدتنا اُمِّ فَرْوَہ بنتِ قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق ہیںرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن۔ یوں والد کی جانب سےآپ”حسینی سَیِّد“اوروالدہ کی جانب سے”صدیقی“ہیں۔سچ گوئی کی وجہ سےآپ کو”صادِق‘‘ کے لقب سے جانا جاتا ہے۔(سیر اعلام النبلا، 6/438)

تعلیم و تربیت :آپ نےمدینۂ مُنَوَّرہ کی مشکبار عِلمی فضا میں آنکھ کھولی اور اپنے والدِ گرامی حضرت سیّدنا امام ابوجعفرمحمدباقِر، حضرت سیّدنا عُبَيۡد الله بن ابی رافع،نواسۂ صدیقِ اکبر حضرت سیّدناعُروہ بن زُبَير،حضرت سیّدناعطاء اورحضرت سیّدنانافع عَلَیْہِمُ الرََّحْمَۃکے چَشْمۂ عِلْم سے سیراب ہوئے۔(تذکرۃ الحفاظ،1 /126)دو جَلیلُ القدر صحابۂ کِرام حضرت سیّدنا اَنَس بن مالک اورحضرت سیّدنا سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی زیارت سے مُشَرَّف ہونے کی وجہ سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہتابعی ہیں ۔(سیر اعلام النبلا، 6/438)

دینی خدمات: کتاب کی تصنیف سےزیادہ مشکل افراد کی علمی، اَخلاقی اور شخصی تعمیر ہے اور اُستاد کا اِس میں سب سے زیادہ بُنیادی کِردار ہوتا ہے۔ حضرت سیّدنا امام جعفرصادِق رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی صحبت میں رَہ کرکئی تَلامِذہ(شاگرد) اُمّت کے لئے مَنارۂ نور بنے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے عِلمی فیضان سے فیض یاب ہونے والوں میں آپ کے فرزندامام موسیٰ کاظم، امامِ اعظم ابو حنیفہ ، امام مالک، حضرت سفیان ثَوری،حضرت سفیان بن عُیَیْنَہ عَلَیْہِمُ الرَّحۡمَۃ کے نام سرِفَہرِست ہیں۔(تذکرۃ الحفاظ ، 1/125، سیر اعلام النبلا ،6 / 439)

قابلِ رشک اوصاف ومعمولات: خوش اَخلاقی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی طبیعت کا حصہ تھی جس کی وجہ سے مبارک لبوں پر مسکراہٹ سجی رہتی مگر جب کبھی ذکرِ مصطفےٰ ہوتا تو (نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ہیبت وتعظیم کے سبب)رنگ زَرد ہوجاتا،کبھی بھی بے وضو حدیث بیان نہ فرماتے ، نمازاور تلاوت میں مشغول رہتےیا خاموش رہتے ، آپ کی گفتگو”فضول گوئی“سے پاک ہوتی۔(الشفا مع نسیم الریاض، 4/488ملخصاً) آپ کے معمولات ِزندگی سے آباء و اجداد کے اَوصاف جھلکتے تھے،آپ کےرویّےمیں نانا جان نبیِّ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی معاف کردینے والی کریمانہ شان دیکھنے میں آتی، گُفتار سےصدیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی حق گوئی کا اظہار ہوتا اور کردارمیں شجاعتِ حیدری نظر آتی، آپ کے عفوودَرگُزر کی ایک جھلک مُلاحَظَہ کیجیے:(حکایت)ایک مرتبہ غلام نے ہاتھ دُھلوانے کے لئے پانی ڈالا مگر پانی ہاتھ پر گرنے کے بجائے کپڑوں پر گرگیا، آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اسے نہ تو جھاڑا، نہ ہی سزا دی بلکہ اسے معاف کیا اور شفقت فرماتے ہوئے اسے آزاد بھی کردیا۔ (بحرالدموع،ص 202 ملخصاً)

وصال و مَدْفَن:آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا وصال 15رَجَبُ الْمُرَجَّب 148 ہجری کو68سال کی عمر میں ہوا اور تدفین جَنَّتُ الْبَقِیْع آپ کے دادا امام زین العابدین اور والد امام محمد باقِر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہماکی قبورِ مبارَکہ کے پاس ہوئی۔(الثقات لابن حبان،3 / 251،وفیات الاعیان، 1/168)

خلیفۂ چہارم،امیرُ المؤمنین حضرت سیّدُنا علی بن ابی طالب کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم عامُ الفیل کے تیس برس بعد جبکہ حضورِاکرم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے اعلانِ نَبُوَّت فرمانے سے دس سال قبل پیدا ہوئے۔(تاریخ ابن عساکر، 41/361) حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے،بہن بھائیوں میں سے حضرت عقیل اورحضرت جعفر، حضرت امِّ ہانی اور حضرت جُمانہ علیہِمُ الرِّضْوَان دولتِ ایمان سے سرفراز ہوئے۔ (سبل الہدیٰ و الرشاد 11/88،ریاض النضرہ، 2/104، مصنف عبد الرزاق، 7/134، حدیث: 12700) پرورش، لقب و کنیت حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نے حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے کنارِ اقدس میں پرورش پائی، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی گود میں ہوش سنبھالا، آنکھ کھلتے ہی محمّد رّسولُ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کا جمالِ جہاں آراء دیکھا، حضورِانور ہی کی باتیں سنیں، عادتیں سیکھیں، ہرگز ہرگزبتوں کی نجاست سے آپ کا دامنِ پاک کبھی آلودہ نہ ہوا۔ اسی لئے لقبِ کریم کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہ ملا۔ (فتاویٰ رضویہ، 28/436 بتغیر) آپ رضیَ اللہُ عنہ کی کنیت ابو الحسن اور ابو تُراب ہے۔ نکاح آپ رضیَ اللہُ عنہ اور حضرت سیّدَتُنابی بی فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کا بابرکت نکاح 2 ہجری ماہِ صفر، رجب یا رمضان میں ہوا۔ (اتحاف السائل للمناوی، ص:2 ) جہیزو رہائش حضرت بی بی فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کے جہیز میں ایک چادر، کھجور کی چھال سے بھرا ہوا ایک تکیہ، ایک پیالہ، دو مٹکے اور آٹا پیسنے کی دو چکّیاں تھیں۔ (مسند احمد، 1/223،حدیث، 819، معجم کبیر، 24/137، حدیث: 365) بی بی فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کی رہائش کے لئے حضرت علیکرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کا گھر کاشانۂ اقدس صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم سے دور تھا اس لئے حضرت سیّدُنا حارثہ بن نعمان رضیَ اللہُ عنہ نے کاشانۂ اقدس سے قریب اپنا ایک گھر حضرت علی و فاطمہ رضیَ اللہُ عنہُما کے لئے پیش کردیا۔(طبقات ابن سعد، 8/19 ملخصاً) ابتدائی تین دن ان دونوں مُقدّس ہستیوں نے دن روزے میں اور رات عبادتِ الٰہی میں بسر کی۔ (روض الفائق، ص: 278) کام کاج کی ذمّہ داری گھر کے کام کاج(مثلا ً چکی پیسنے ،جھاڑو دینےاور کھانا پکانےکے کام وغیرہ ) حضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کرتی تھیں اور باہر کے کام (مثلاً بازار سے سودا سلف لانا، اونٹ کو پانی پلانا وغیرہ) حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے ذمّہ داریوں میں شامل تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، 8/157، حدیث: 14) والدہ کی خدمتحضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کی والدہ ماجدہ کی خدمت بھی کیا کرتی تھیں چنانچہ حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے اپنی والدہ کی خدمت میں کہا: فاطمہ زہرا آپ کوگھر کے کاموں سے بے پروا کردیں گی۔ (الاصابہ، 8/269ملخصاً) ایک بستر حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہُما کے پاس ایک ہی بسترتھا اور وہ بھی مینڈھے کی ایک کھال، جسے رات کو بچھاکر آرام کیا جاتا پھر صبح کو اسی کھال پر گھاس دانہ ڈال کر اونٹ کے لئے چارے کا انتظام کیا جاتا اور گھر میں کوئی خادم بھی نہ تھا۔ (طبقاتِ ابن سعد ، 8/18) گھر والوں کا احساس ایک روز رسولِ خدا صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے اور فرمایا: میرے بچّے (یعنی حسن و حسین) کہاں ہیں؟ حضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا نے عرض کی: آج ہم لوگ صبح اٹھے تو گھر میں ایک چیز بھی ایسی نہ تھی جس کو کوئی چکھ سکے، بچّوں کے والد نے کہاکہ میں ان دونوں کو لے کر باہر جاتا ہوں اگر گھر پر رہیں گے تو تمہارے سامنے روئیں گے اور تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے کہ کھلاکر چپ کرواسکو چنانچہ وہ فلاں یہودی کی طرف گئے ہیں۔ رسولِ اکرم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم وہاں تشریف لے گئے، دیکھاکہ دونوں بچّے ایک صُراحی سے کھیل رہے ہیں اور ان کے سامنے بچی کھچی کھجوریں ہیں۔ رسولِ محترم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا: علی! دھوپ تیز ہونے سے پہلے بچّوں کو گھر لے چلو، آپ نے عرض کی: یانبیَّ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم! آج صبح سے گھر میں ایک دانہ نہیں ہے اگر آپ تھوڑی دیر تشریف رکھیں تو میں فاطمہ کے لئے کچھ بچی کھچی کھجوریں جمع کرلوں۔ یہ سُن کر رحمتِ عالَم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم بیٹھ گئے، حضرت علیکَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے کچھ کھجوریں جمع کرکے ایک کپڑے میں باندھ لیں۔ (معجم کبیر، 22/422، حدیث: 1040) بچّوں کی صحت یابی کے لئے مَنّت ایک مرتبہ حسنینِ کریمَین رضیَ اللہُ عنہُما بیمار ہوئے، حضرت علی مرتضٰی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم اور حضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا نے بچّوں کی صحت یابی کے لئے تین روزوں کی مَنّت مان لی، اللہ تعالیٰ نے صحت دی، منّت پوری کرنے کا وقت آیا تو روزے رکھ لئے گئے، حضرت علیکَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم ایک یہودی سےکچھ کلو جَو لائے، حضرت خاتونِ جنّت نے تینوں دن پکایا لیکن جب افطار کا وقت آیا اور روٹیاں سامنے رکھیں تو ایک روز مسکین، ایک روز یتیم، ایک روز قیدی آگیا اور تینوں روز یہ سب روٹیاں ان لوگوں کو دے دی گئیں اورگھر والوں نے صرف پانی سے افطار کرکے اگلا روزہ رکھ لیا۔ (خزائن العرفان، پ29، الدھر،تحت الآیۃ:8 ص:1073 ملخصاً) عید کا دن امیرُ المؤمنین حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے پاس ایک مرتبہ عیدُ الاضحیٰ کے دن کچھ مہمان آئے تو آپ نے انہیں خزیرہ (آٹے اور گوشت سے تیار ایک قسم کا کھانا) پیش کیا، یہ دیکھ کر انہوں نے کہا : اللہ آپ کا بھلا کرے آپ ہمیں مرغابی کھلائیے، ارشاد فرمایا: اللہ کے رسول صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا ہے کہ خلیفہ کے لئے اللہ کے مال سے صرف دو ہی برتن حلال ہیں ایک وہ جس میں خلیفہ اور اس کے گھر والے کھائیں، دوسرا وہ برتن جسے وہ لوگوں کے سامنے رکھے۔ (مسنداحمد، 1/169، حدیث: 578) وصیت پر عمل بی بی فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کی بہن حضرت زینب رضیَ اللہُ عنہَا کی ایک صاحبزادی حضرت اُمامہ رضیَ اللہُ عنہَا تھیں، حضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا نے حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کو وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد آپ اُمامہ سے نکاح کر لیں۔ چنانچہ حضرت علی رضیَ اللہُ عنہ نے وصیت پر عمل کرتے ہوئے ان سے نکاح کرلیا۔ (زرقانی علی المواھب، 2/358) مہمان نوازی جب آپ نے اُمُّ البنین بنتِ حازم رضیَ اللہُ عنہَا سے نکاح کیا تو ان کے پاس 7 دن ٹھہرے ساتویں دن کچھ عورتیں آپ کی زوجہ سے ملنے آئیں، یہ دیکھ کر آپ نےاپنے غلام کو درہم عطا کیا اور فرمایا: مہمانوں کیلئے اس سے انگور خرید لاؤ۔ (ابن ابی الدنیا، الجوع، 4/127، رقم:281) ازواج کے درمیان انصاف حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے اپنی دو بیویوں میں اس طرح تقسیم کاری کررکھی تھی کہ پہلی بیوی کے پاس دن گزارتے تو اس کے لئے نصف درہم کا گوشت خریدتے دوسری کے پاس دن گزارتے تو اس کے لئے بھی نصف درہم کاگوشت خریدتے۔(الزہد لاحمد، ص157، رقم :696) نکاح و اولاد حضرت بی بی فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کی زندگی میں حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کو دوسرے نکاح کی اجازت نہ تھی، لیکن ان کے وصال کے بعدحضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے یکے بعد دیگرے کئی نکاح کئے ، آپ کے 14 لڑکے اور 18 لڑکیاں تھیں، بی بی فاطمہ زہرا رضیَ اللہُ عنہَا کے بطنِ مبارَک سے امام حسن ،حسین، محسن، بی بی زینب اور بی بی اُمِّ کُلثوم علیہِمُ الرِّضْوَان پیدا ہوئے، حضرت محسن کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا۔(ریاض النضرہ، 2/239)


حیا میں حیات ہے

Sat, 7 Mar , 2020
4 years ago

ملازِمہ نے کسی باحِجاب خاتون کی آمد کی اطلاع دی تو فریحہ نے اسے ڈرائنگ رُوم میں بٹھانے کا کہا، کچھ وقفے کے بعد ڈرائنگ روم میں داخل ہونے پرسامنے بیٹھی عورت کو دیکھ کر اس کے منہ سے خوشی اور خیرت میں ڈوبی ہوئی آواز نکلی : فَرْوَہ تم!!!

جی ہاں! میں، آپ نے تو ہمیں بُھلا ہی دیا تھا تو سوچا خود ہی ملنے چلی آؤں۔ فَرْوَہ نے مَحبّت سے فریحہ کو گلے لگاتے ہوئے جواب دیا۔

کہاں غائب تھی شادی کے بعد سے؟ اور یہ کیا نیک پروین بی بی جیسا حُلیہ بنا لیا ہے؟ میلاد والی باجی بن بیٹھی ہو کیا؟ فَرْوَہ اور فریحہ نے اسکول اور کالج کے تعلیمی مَراحِل ایک ساتھ طے کئے تھے، پورے کالج میں دونوں فیشن سمبل (Symbol) کے طور پر مشہور تھیں، کون سا فیشن آج کل چل رہاہے اور کون سا پُرانا ہو چکا، اس کی اِطِّلاع بھی دوسری لڑکیوں کو انہی کے ذریعے ملتی تھی، اور یہی یکساں شوق (Common Hobby) دونوں کی گہری دوستی کا سبب بھی تھا، لیکن ماضی کے بَرعَکس فَرْوَہ کو باپردہ دیکھ کر فریحہ کی حیرانی طنزیہ سُوال میں ڈھل گئی تھی۔

باتیں ہی سناؤگی یا چائے پانی بھی پوچھوگی؟ فروہ نے اس کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے شائستہ لہجے میں جواب دیا۔

اوہ! تمہیں دیکھ کر تو سب کچھ بھول گئی تھی، اتنا کہہ کر فریحہ باہَر چلی گئی۔ ملازمہ کو مہمان نوازی کی ہدایت دے کر واپس آئی تو فروہ کے پاس ہی صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہنے لگی: اب بتاؤ، کہاں غائب ہو گئی تھی؟

میرے بچّوں کے ابّو کا پروفیشن تو آپ جانتی ہی تھیں تو اسی سلسلے میں شادی کے بعد ہم کراچی شفٹ ہوگئے تھے، فروہ نے جواب دیا۔

اتنے میں ملازمہ مہمان نوازی کے لَوازِمات سے بھرپور ٹرالی لے آئی، فریحہ نے چائے کا کپ اسے دیتے ہوئے کہا: اور یہ تبدیلی کیسے آ گئی؟ اس کا اشارہ فروہ کے حجاب کی طرف تھا۔

دیکھو! حجاب نہ صرف عورت کی ضَرورت ہے بلکہ اسی میں عورت کی عظمت بھی ہے۔ فروہ اتنا کہنے کے بعد چائے کا گھونٹ بھرنے کے لئے رُکی۔

واہ!یعنی اگر میں حِجاب نہیں کرتی تو میں باعظمت بھی نہیں؟

کل تک تَو تم بھی بے پردہ گھومتی تھی۔ فریحہ نے فروہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی غصّے سے بیچ میں کاٹ دی تھی۔

فروہ نے مَحبّت سے اس کا ہاتھ تھامتےہوئے کہا: فریحہ آپ نے میری تبدیلی کا سبب پوچھا تھا جس سے آپ کو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن یوں غصّہ کرنا تو بِالکل مناسب نہیں ہے،آپ اجازت دیں تو میں اپنی بات مکمل کر سکتی ہوں؟

ماضی میں جیسے کو تیسا جواب دینے والی فروہ کے مِزاج کی مُثْبَت تبدیلی(Positive Change)فریحہ پہلے ہی محسوس کر چکی تھی، اور اپنے طنز اور غصّے کے جواب میں ملنے والی مُسکراہٹ اور نرم رویّے نے اسے سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ فروہ کا صرف لباس اور سوچ ہی نہیں بدلی بلکہ ساری کی ساری شخصیت (Personality) بدل چکی ہے۔اپنے ردِّ عمل (Reaction) پر شرمندگی محسوس ہوئی تو اُس نے مَعْذِرَت خواہانہ لہجے میں کہا: سوری! نہ جانے اچانک مجھے کیا ہوگیا؟خیر بتاؤ کہ تمہیں حِجاب (یعنی پردے)کی ضرورت اور عَظمت کا احساس کیسے ہوا؟

دیکھیں فریحہ! اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ آج کی عورت کو مَردوں کی طرف سے مختلف مَسائل کاسامنا رہتا ہے،جن پہ مختلف فورمز پر آئے روز بَحْث و مُباحَثَہ اور قانون سازی بھی کی جاتی ہے لیکن مسائل وہیں کے وہیں ہیں، آخر کیوں؟

بھئی مجھے کیا پتا؟ فریحہ نے ہنستے ہوئے فروہ کی ”کیوں“ کا جواب دیا۔

کیونکہ انہیں اس شے کا علم ہی نہیں ہے کہ جس میں عورت کی عظمت ہے،اس کی حفاظت ہے،تمہاری طرح پہلے میں بھی اس ”کیوں (Why) کے جواب سے لَاعِلْم تھی، دیگر لوگوں کی طرح صِرف مَردوں کو قُصوروار گَردانتی اور اس مَرَض کا علاج صرف اور صرف عورت کی آزادی میں دکھائی دیتا تھا۔

تواورکیا؟ عورت کی آزادی کے علاوہ اس کا کوئی سنجیدہ حل (Solution) نہیں ہے،عورت جب تک چادر اور چار دیواری میں قید رہے گی، ظُلم و سِتم کا شِکار رہے گی۔ فریحہ نے جذباتی انداز میں فروہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

فروہ کے چہرے پر مُسکراہٹ بکھر گئی اور پھر نرم لہجے میں بولی: اسلام اور فطرتِ انسانی (Human Nature) سے لَاعِلْم لوگوں کو یہ جذباتیت بھرا نعرہ بہت اپیل کرتا ہے لیکن زمینی حقائق (Ground Realities) جذباتیت کے تابع نہیں ہوتے، ان کی اپنی سچّائی ہوتی ہےاور معذرت کے ساتھ زمینی حقیقت یہی ہے کہ جن مُعاشروں میں عورت کو آزادی مِلی وہاں عورت کی حفاظت کے مَسائل تو کیا حَل ہوئے بلکہ پہلے سے زیادہ سنگین مسائل نے جَنم لیا، کہیں ایسا تو نہیں کہ عورت کی آزادی کا نعرہ لگانے والے عورت تک پہنچنے کی آزادی چاہتے ہیں،جس روز ہماری بہنوں کو اس حقیقت کا علم ہوگیا اس دن انہیں پتا چل جائے گا کہ چودہ صدیاں پہلے اسلام نے عورت کی حفاظت اور عظمت کیلئے جو پردے کا نُسخہ تجویز کیا تھا وہی واحد اور بہترین حَل ہے جس کی آج کے ترقّی یافتہ لیکن خوفِ خُدا سے عاری مُعاشرے میں اہمیت (Importance) پہلے سے کئی گُنا بڑھ چکی ہے۔

فروہ کی باتوں سے چَھلکنے والا یقین بتا رہا تھا کہ بہت جُسْتْجو کے بعد اس نے جینے کا سلیقہ سیکھاہے، جس میں خالی جذباتیت نہیں بلکہ اپنے دِین پَر اعتماد بھی ہے اور آفاقی سچّائی بھی ہے۔

فریحہ ایک بے جان تصویر کی طرح حیرت سے فروہ کا منہ تک رہی تھی۔ سالوں سے میڈیا کی جذباتی یَلغار سے اس کے ذہن میں تعمیر ہونے والی خَیالات کی عمارت ایک عِلمی سچّائی کا بوجھ بھی برداشت نہ کرسکی، فریحہ اس کی بنیادوں کی واضح لَرزِش محسوس کر رہی تھی، پوچھنے لگی: تمہاری بات میری سمجھ میں آگئی ہے،لیکن یہ بتاؤ  کہ تم میں یہ تبدیلی آئی کہاں سے؟

فروہ نے اعتراف کیا کہ  دعوتِ اسلامی نے مجھے بدل کر رکھ دیا ہے، میرا تو تم سمیت تمام اسلامی بہنوں کو مشورہ ہےکہ اپنے کِردار و عمل میں مُثْبَت تبدیلی کے لئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہوجائیں اور اپنے علاقےمیں ہونے والے اسلامی بہنوں کے ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کو اپنا معمول بنالیں۔

مشہور جملہ ہے کہ دین بہت مشکل ہے اور بعض تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ دین مشکل نہیں تھا لیکن مولویوں نے مشکل بنا دیا۔ کیا واقعی اسلام بہت مشکل دین ہے یا یہ ایک وسوسہ اور پروپیگنڈا ہے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ پست ہمت آدمی کے لئے معمولی سا کام بھی مشکل ہوتا ہے جبکہ باہمت کے لئے بھاری کام بھی آسان ہوتا ہے، جیسی نیت ویسی مراد۔ مومن کو باہمت ہونا چاہیے، حدیث میں ہے: اللہ تعالیٰ بلند ہمتی والے کام پسند فرماتا ہے۔(معجم اوسط، 2/179، حدیث:2940)

اسلام کامعاملہ یہ ہے کہ انسان کی طاقت وقوت اور ہمت و حوصلہ کے اعتبار سے بنیادی طور پر اسلام آسان ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ (پ3، البقرۃ:286) اللہ کسی جان پر اس کی طاقت کے برابر ہی بوجھ ڈالتا ہے۔“ اور فرمایا: ﴿وَ مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍؕ (پ17، الحج:78) ”اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی۔“ اور فرمایا: ﴿یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ(پ2، البقرۃ: 185) ’’اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا۔‘‘ اور نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: اِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ ”بےشک دین بہت آسان ہے۔“ (بخاری،1/36، حدیث:39) مذکورہ آیات اور حدیث سے مجتہدین ِ کرام نے یہ اصول بنایا ہے: اَلْحَرَجُ مَدْفُوْعٌ ”حرج دور ہے یعنی اسے دور کیا جاتا ہے۔“ (المبسوط للسرخسی، 16/108) اور اَلْمَشَقَّۃُ تَجْلُبُ التَّیْسِیْرَ ”مشقت آسانی لاتی ہے۔“ (الاشباہ والنظائر،ص64) یعنی جہاں بہت مشقت آجائے تو وہاں شریعت آسانی پیدا کردیتی ہے۔

ان دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ حقیقت میں طاقت وہمت کے اعتبار سے شرعی احکام آسان ہیں اگرچہ بعض احکام دوسرے بعض کی نسبت یا بعض حالات میں مشکل ہوتے ہیں لیکن کبھی ایسے مشکل نہیں ہوتے کہ ناقابلِ برداشت ہوجائیں اور دنیا جہان کے اکثر کاموں میں حقیقت ِ حال یہ ہے کہ ہرکام کے لئے کچھ نہ کچھ ہمت، کوشش اور مشقت تو کرنی ہی پڑتی ہے۔ اب رہا یہ کہ یہ کچھ نہ کچھ مشقت بھی بہت مشکل ہے تو اس کے متعلق عرض ہے کہ آخر یہ مشقت دین کے معاملے میں ہی کیوں یاد آتی اور محسوس ہوتی ہے۔ اس سے کہیں بڑھ کر مشقت کا سامنا زندگی کے اکثر ضروری معاملات میں کرنا پڑتا ہے۔ آئیے! ذرا ان معاملات پر نظر دوڑائیں:

بچپن اور تعلیم دیکھ لیں، بچہ پیدا ہوتا ہے تو پہلے بیٹھنا، کھڑا ہونا، چلنا اور دوڑنا سیکھتا ہے پھر چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی اسکول جاتا، محنت سے پڑھائی کرتا، اسکول سے واپسی پر ٹیوشن پڑھتا، وہاں یا گھر پر ہوم ورک کرتا، اسباق سمجھتا، یاد کرتا اور دن رات ایک کرکے امتحانات کی تیاری کرتا ہے۔ محنت کا یہ سلسلہ عموماً 12، 14 یا 16 سال جاری رہتا ہے۔ پھر اِس تعلیم میں بھی اگر سائنس، میڈیکل، انجیئنرنگ وغیرہ کے اسٹوڈنٹس کو دیکھیں تو مشقت کا حقیقی معنی پتہ چل جاتا ہے کہ نہ دن کا پتہ اور نہ رات کی خبر، بندہ ہے اور کتابیں، کالج کی دوڑ ہے اور پاس ہونے کی فریادیں۔ کیا یہ مشقت دین پر عمل کی مشقت سے کم ہے؟ نہیں نہیں، بہت زیادہ ہے۔

اس کےبعد نوکری دیکھ لیں، تعلیم مکمل کرنے کے بعد گھر بیٹھے نوکری نہیں مل جاتی بلکہ اچھی نوکری کےلئے کئی جگہوں کے چکر لگانے اور دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ کبھی نوکری کی جگہ نہیں اور کبھی جگہ تو دس افراد کو رکھنے کی ہے لیکن انٹرویو کے لئے چار سو محنت مشقت سے پڑھے ہوئے امیدوار بیٹھے ہیں۔ انٹرویو کی بھرپور تیاری کے بعد بھی یا تو انٹرویو میں فیل ہو جاتے ہیں یا پاس ہونے کے باوجود ٹاپ ٹین میں نام نہ آنے کی وجہ سے نوکری سے باہر۔ اب دوبارہ وہی دفتروں کے چکر، افسروں کی خوشامدیں، رشوتوں کے لین دین پھر بھی لیلیٰ مقصود رسائی سے دور، قلب، محبوب نوکری کے عدمِ حصول سے مہجور اور صدموں سے چُورچُور۔ اگر پوچھیں کہ بھائی کیوں اتنی مشقت کرتے اور خواری اٹھاتے ہو تو جواب ملے گا کہ یہی ہے زمانے کا دستور۔ واہ! کہاں دین پر عمل کے لئے تھوڑی سی مشقت پر سینہ کوبی اور آہ و زاری اور کہاں نوکر بننے کی خاطر یہ ذوق شوق اور بےقراری۔ اب ہزار محنت اور کوشش کے باوجود نوکری مل بھی گئی تو کیا بیٹھے بٹھائے تنخواہ مل جاتی ہے؟ نہیں، وہاں بھی وقت کی پابندی، ماتحتوں کی کام چوری اور اوپر والوں کی سینہ زوری سب برداشت کر کے مطلوبہ نتیجہ دے کر ہی تنخواہ ملتی ہے ورنہ نوکری سے چھٹی۔

کاروبار کا معاملہ دیکھ لیں، کاروبار شروع کرنے میں مشکلات کے بیسیوں مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ نقصان ہوجائے تو کام تمام یا اس کے ازالے کے لئے دن رات محنت کرنی پڑتی ہے پھر جب پیسہ آ جاتا ہے تو دشمنیاں، حسد، بیماریاں، چوروں اور ڈاکوؤں کے خطرات بھی ساتھ ہی آتے ہیں لیکن دین کو مشقت سمجھنے والے دنیوی زندگی کے تھوڑے سے مزے کے لئے یہ ساری مشکلات برداشت کرتے ہیں۔

شادی دیکھ لیں، جب شادی کا مرحلہ آتا ہے تو شادی کے بعد چار دن کی چاندنی ہوتی ہے اور پھر آزمائشوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اولاد نہ ہو تو طعنے، احساسِ محرومی اور اگلی شادی کی سوچ اور اگر اولاد ہو جائے تو ایک طرف ماں اس کے کھانے پینے، راحت و آرام کا خیال رکھ کر مشقت برداشت کرتی ہے اور دوسری طرف باپ دن رات ایک کرکےسردی گرمی، دھوپ بارش وغیرہ ہر طرح کے حالات میں بچے کو کھلانے کے لئے محنت کرتا ہے ۔

یونہی لائف اسٹائل کے لئے مشقتیں دیکھ لیں، اگر کسی آدمی نے اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہوکہ اسے اچھی گاڑی، رہائش کے لئے عالیشان بنگلہ چاہیے تو اسے گھر بیٹھے دولت نہیں مل جائے گی بلکہ بہت سی قربانیاں دینی ہوں گی، راتوں کو جاگنا پڑے گا، گرمی سردی برداشت کرنا پڑے گی، محنت کرنی پڑے گی تبھی منزل پر پہنچ سکتا ہے کیونکہ یہ تمام مشکلات زندگی کا حصہ ہیں، بغیر مشقت دنیا کا نظام چل ہی نہیں سکتا۔

اب عرض ہے کہ جب زندگی مشقت اور جدوجہد کا دوسرا نام ہے تو اسلام بھی اسی زندگی کا حصہ بلکہ اس کی روح ہے اور اس عظیم روح یعنی اسلام پر عمل کرنے میں اللہ تعالیٰ نے دوسرے امورِ حیات کی نسبت بہت کم مشقتیں رکھی ہیں مثلاً عبادات کو دیکھ لیں، نماز ایک ڈسپلن ہے جس کا دورانیہ پانچ نمازوں میں تقریباً ڈیڑھ سے اڑھائی گھنٹے ہیں لیکن اس کے مقابلےمیں فوج کے ڈسپلن میں اس سے کئی گنا زیادہ مشقت اٹھانی پڑتی ہے، یونہی کسی آفس میں کام کرنے میں آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی اور اس کے ڈسپلن کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ حیرت ہے کہ اُس سخت ڈسپلن اور مشقت پر کوئی کلام نہیں کرتا جبکہ ڈیڑھ گھنٹے کی نماز کی ادائیگی کو بہت بڑی مشکل کے طور پر پیش کردیا جاتا ہے۔

اصل بات یہ ہے مشقت اٹھانے کا دار و مدار مقصد کے ساتھ لگن پر ہوتا ہے۔اچھی سواری، اچھی رہائش اور پرسکون زندگی کے حصول کی لگن چونکہ دل کی گہرائیوں میں موجود ہوتی ہے اس لئے ساری مشقتیں قابلِ برداشت ہوجاتی ہیں جبکہ آخرت کی ابدی زندگی، دائمی جنت کی اعلیٰ نعمتیں، رضائے الٰہی اور قرب ِ خداوندی کی لگن مَعَاذَ اللہ دلوں میں اُتنی راسخ نہیں ہے، اس لئے دین پر عمل کی محنت پہاڑ جیسی مشکل معلوم ہوتی ہے حالانکہ جنت کی دائمی نعمتیں اور دیدارِ الٰہی وہ اعلیٰ ترین مقاصد ہیں کہ کروڑوں زندگیاں تلواروں کے لاکھوں واروں پر کٹوا کٹوا کر قربان کردی جائیں تو بھی سودا مفت ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دین مشکل نہیں، پست ہمتی اور کم حوصلگی اسے مشکل بنا دیتی ہیں۔

اب رہی یہ بات کہ مولویوں نے دین کو مشکل بنادیا ہے، اس کا جواب اگلی قسط میں دیا جائے گا۔

قِیامت کے دن جس کی نیکیوں کا پَلَّہ بھاری ہوگا اور اس کے نیک عمل زیادہ ہوں گےتو وہ جنّت کی من پسند زندگی میں ہوگا اور جس کی نیکیوں کا پَلَّہ ہلکا پڑے گا تو اس کا ٹھکانا جہنّم ہوگا۔احادیثِ مُبارکہ میں بہت سی ایسی عبادات،اعمال، اوراد و وَظائف بیان کئے گئے ہیں جوبروزِ قیامت بندۂ مؤمن کے نیکیوں کے پلڑے کو بھر دیں گے اور اس کے لئے ذریعۂ نجات بنیں گے،یہاں چند ایسی نیکیاں ذکرکی جارہی ہیں جو میزانِ عمل کو بھر دیتی ہیں ، چنانچہ

میزانِ عمل کو بھرنے والےکلمات:نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں، میزانِ عمل میں بھاری ہیں اوراللہ پاک کو بہت پسند ہیں۔ (وہ دو کلمے یہ ہیں): سُبْحٰنَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ،سُبْحٰنَ اللہِ الْعَظِیْم“۔(بخاری، 4/297، حدیث:6682)

ہمیں بھی چاہئے کہ ان کلمات کو ہمیشہ وردِ زبان رکھیں کہ یہ دو کلمات اللہ کریم کو بہت زیادہ محبوب ہیں، زبان پر بہت ہلکے پھلکے ہیں مگر قیامت کے دن میزانِ عمل میں ان کا وزْن بہت بھاری ہوگا یعنی عمل بہت تھوڑا ہے مگر اس کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے۔

میزان پر سب سے زیادہ وزْنی عمل:نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:پانچ چیزیں میزان پر سب سے زیادہ وزن والی ہیں:(1)سُبْحٰنَ اللہ (2)اَلْحَمْدُ لِلّٰہ(3)لَاۤاِلٰہَ اِلَّا اﷲ (4)اَﷲُ اَکْبَر (5)کسی مسلمان شخص کا نیک بچّہ مرجائے اور وہ اس پر ثواب کی اُمّید رکھتے ہوئے صبر کرے۔

(صحیح ابنِ حبان ،2/100، حدیث:830 ملخصاً)

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میزان کو بھردیتی ہے:نبیِّ مُکَرَّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: صفائی نصف ایمان ہے اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میزان کو بھر دیتا ہے اور ’’سُبْحٰنَ اللہ وَالْحَمْدُ لِلّٰہ‘‘ زمین و آسمان کے درمیان ہر چیز کو بھر دیتے ہیں اور نماز نور ہے اور صدقہ دلیل یعنی راہنما ہے، صبرروشنی ہے اورقراٰن تیرے حق میں یا تیرے خلاف حجت ہے۔(مسلم، ص 115،حدیث:534)

حکیمُ الْاُمّت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو شخص ہر حال میں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہا کرے تو قیامت میں میزانِ عمل کے نیکی کا پلّہ اس سےبھرجائے گا اورایک حمد تمام گناہوں پر بھاری ہوگی۔کیونکہ یہ ہیں ہمارے کام اور وہ ہے رب کا نام۔

مزید فرماتے ہیں:ان دوکلموں(سُبْحٰنَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ) کا ثواب اگر دنیا میں پھیلایا جائے تو اتنا ہے کہ اس سے سارا جہان بھر جائے یا مطلب یہ ہے کہ سُبْحٰنَ اللہ میں اللہ کی بےعیبی کا اقرار ہے اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میں اسی کے تمام کمالات کا اظہار۔اور یہ دو چیزیں وہ ہیں جن کے دلائل سے دنیا بھری ہوئی ہے کہ ہرذرّہ اور ہر قطرہ رب کی تسبیح و حمد کررہا ہے۔(مراٰۃُ المناجیح،1/232)

حُسنِ اَخلاق سے وزْنی کوئی شے نہیں:دینِ اسلام میں حُسنِ اَخلاق کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حُسنِ اخلاق کوبہت زیادہ پسندفرمایا اور اس کے متعلّق بشارت عطا فرمائی کہ قیامت کے دن حُسنِ اخلاق کو میزانِ عمل میں نیکیوں کے پلڑے میں رکھا جائے گا اوریہ اس کی نیکیوں میں سب سے وزنی عمل ہو گا چنانچہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا:قیامت کے دن مؤمن کے میزان میں حُسنِ اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی شے نہیں ہوگی۔(تر مذی ،3/404، حدیث:2009)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہُ علٰی محمَّد


سَرزمینِ ہِندمیں جہاں عرصۂ دراز سے کفر وشرک کا دَوْر دَوْرَہ تھا ،اور ظُلْم و جَوْر کی فَضا قائم تھی اورلوگ اَخلاق و کِردار کی پستی کا شِکار تھے۔ اِس خطّے کے لوگوں کو نورِ ہدایت سے روشناس کروانے،ظُلْم وسِتَم سے نجات دلانے اور لوگوں کے عقائدواَعمال کی اِصلاح کرنے والے بُزرگانِ دین میں حضرت خواجہ مُعینُ الدِّین سیّدحَسَن چشتی اَجمیریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکا اِسمِ گرامی بہت نُمایاں ہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی وِلادت537ھ بمطابق 1142ء کو سِجِسْتان یا سِیْسْتان کے علاقے سَنْجَر میں ایک پاکیزہ اور علمی گھرانے میں ہوئی۔(اقتباس الانوار،ص345،ملخصاً)آپ کا اسمِ گرامی حسن ہے اور آپ نَجِیبُ الطَّرَفَیْن سیِّد ہیں۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کےمشہوراَلقابات میں مُعینُ الدّین،غریب نواز، سلطانُ الہِنْد اور عطائے رسول شامل ہیں۔(معین الہند حضرت خواجہ معین الدین اجمیری، ص18 ملخصاً) حُصُولِ عِلْم کے لئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے شام، بغداداور کِرمان وغیرہ کاسفر بھی اِختیارفرمایا نیز کثیر بزرگانِ دین سے اِکْتِسابِ فیض کیاجن میں آپ کے پیرو مُرشِدحضرت خواجہ عثمان ہارْوَنی اورپیرانِ پیرحُضُور غوثِ پاک حضرت شیخ سیِّد عبدالقادِر جیلانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہما کے اَسماء قابلِ ذِکْر ہیں۔ زیارتِ حَرَمَیْن کےدوران بارگاہِ رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے آپ کو ہند کی وِلایت عطا ہوئی اوروہاں دین کی خدمت بجا لانے کا حکم ملا۔(سیر الاقطاب، ص142،ملخصاً) چنانچہ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سرزمینِ ہِند تشریف لائے اور اَجمیر شریف (راجِستھان) کو اپنا مُسْتَقِل مسکن بناتے ہوئے دینِ اسلام کی تَرْوِیج واِشَاعَت کا آغاز فرمایا۔ خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی دینی خدمات میں سب سے اَہَم کارنامہ یہ ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اپنے اَخْلاق ، کِرْدَاراور گُفْتَار سے اس خطّے میں اسلام کا بول بالا فرمایا ۔لاکھوں لوگ آپ کی نگاہِ فیض سے متاثّر ہو کرکفر کی اندھیریوں سے نکل کر اسلام کےنورمیں داخل ہو گئے، یہاں تک کہ جادوگر سادھو رام،سادو اَجے پال اورحاکم سبزوار جیسے ظالم و سَرْکَش بھی آپ کے حلقۂ اِرادت(مریدوں) میں شامل ہو گئے۔ (معین الہند حضرت خواجہ معین الدین اجمیری، ص56ملخصاً) ہِندمیں خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی آمد ایک زبردست اسلامی، روحانی اور سماجی اِنقلاب کا پَیْش خَیْمَہ ثابت ہوئی۔خواجہ غریب نواز ہی کے طُفیل ہِندمیں سِلسِلۂ چِشتیہ کا آغاز ہوا۔ (تاریخ مشائخ چشت، ص136) آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اِصلاح و تبلیغ کے ذریعے تَلَامِذَہ و خُلَفَا کی ایسی جماعت تیار کی جس نےبَرِّ عظیم(پاک وہند) کے کونے کونے میں خدمتِ دین کا عظیم فَرِیْضہ سَرْ اَنْجَام دیا۔ دِہلی میں آپ کے خلیفہ حضرت شیخ قُطْبُ الدِّین بَخْتیار کاکی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَا قِی نے اور ناگور میں قاضی حمیدُ الدِّین ناگوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے خدمتِ دین کے فرائض سَر اَنْجَام دئیے۔ (تاریخ مشائخ چشت،ص139 تا 142ملخصاً)خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے اس مِشَنْ کو عُرُوْج تک پہنچانے میں آپ کے خُلَفَا کے خُلَفَانے بھی بھر پور حصّہ ملایا، حضرت بابا فرید گَنْجِ شَکَر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے پاکپتن کو،شیخ جمالُ الدِّین ہَانْسْویعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے ہَانْسی کو اور شیخ نِظامُ الدِّین اَوْلِیارَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے دِہلی کو مرکز بنا کر اِصلاح وتبلیغ کی خدمت سَرْ اَنْجَام دی۔(تاریخ مشائخ چشت، ص 147 تا 156 ملخصاً) خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تحریر و تصنیف کے ذریعے بھی اِشاعتِ دین اور مخلوقِ خدا کی اِصلاح کا فریضہ سر اَنجام دیا۔آپ کی تصانیف میں اَنِیْسُ الاَرْوَاح، کَشْفُ الاَسْرَار، گَنْجُ الاَسْرَار اور دیوانِ مُعِیْن کا تذکرہ ملتا ہے۔(معین الہند حضرت خواجہ معین الدین اجمیری ،ص103ملخصاً) خواجہ غریب نوازرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نےتقریباً45 سال سر زمینِ ہِند پر دینِ اِسْلام کی خدمت سَرْاَنْجَام دی اور ہِند کےظُلْمت کَدے میں اسلام کا اُجالا پھیلایا۔آپ کا وِصال 6رجب627ھ کو اَجمیرشریف(راجِستھان،ہند) میں ہوااور یہیں مزارشریف بنا۔آج برِّ عظیم پاک و ہِند میں ایمان واسلام کی جو بہار نظر آرہی ہے اِس میں حضرت خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی سعی بے مثال کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔

اللہ کریم کے جن نیک بندوں نے اصلاحِ اُمّت اور اشاعتِ اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کیں،ان میں ایک بڑا نام سلطانُ الہند،خواجہ غریب نواز حضرت سیّد معینُ الدّین حسن سنجری چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے۔ آپ کی ولادت 537 ہجری کو سیستان (موجودہ ایران) کے علاقہ ”سَنجر“ میں ہوئی۔ (اقتباس الانوار،ص345)آپ رحمۃ اللہ علیہ نے تقریباً 81 سال راہِ خدا میں علم کے حصول اور مخلوقِ خدا کی اصلاح میں گزارے اور کئی کتابیں بھی تحریر فرمائیں۔آپرحمۃ اللہ علیہکا وصال 6رجب المرجب633ہجری کو ہوا۔(فیضانِ خواجہ غریب نواز، ص17، 25) خوش نصیب مسلمان ہر سال 6رجب المرجب کو چَھٹی شریف کے نام سے آپ کا عُرس مناتے اور ایصالِ ثواب کرتے ہیں۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول میں عُرسِ خواجہ غریب نوازاہتمام کے ساتھ منایا جاتاہے، رجب المرجب کے پہلے 6دنوں میں روزانہ مدنی مذاکروں کا سلسلہ ہوتا ہے،ان ایّام میں ملک و بیرونِ ملک یہ مدنی مذاکرے دیکھے جانے کے ساتھ ساتھ ہزاروں عاشقانِ رسول دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ کراچی میں حاضر ہوکر فیضانِ خواجہ غریب نوازکی برکتیں حاصل کرتے ہیں۔6رجب المرجب کو دُنیا بھر میں باقاعدہ ”اجتماعِ یومِ غریب نواز“ کا سلسلہ بھی ہوتا ہے۔

خواجہ غریب نواز کے ملفوظات حضرت سیّدنا خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ کے مریدِ صادق اورخلیفۂ اکبر حضرت خواجہ قطبُ الدِّین بختیار کاکیرحمۃ اللہ علیہنے اپنے پیر و مرشد کے ملفوظات پر مشتمل ایک کتاب ترتیب دی جس کا نام ’’دلیل العارفین‘‘ رکھا۔اس کتاب میں سے حضور خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات ملاحظہ کیجئے۔ نماز تمام مقامات سے بڑھ کرمقام ہے۔نمازحق تعالیٰ سے ملاقات کا وسیلہ ہے۔ (دلیل العارفین، ص75) وہ لوگ کیسے مسلمان ہیں جو فرض نماز میں اس قدر تاخیر کرتے ہیں کہ نماز کا وقت ہی گزر جاتا ہے( اور پھر قضا پڑھتے ہیں) ان کی مسلمانی پر 20 ہزار مرتبہ افسوس ہے جو مولا کریم کی عبادت میں کوتاہی کرتے ہیں۔

حکایت ایک دفعہ یوں ارشاد فرمایا کہ میرا گزر ایک ایسے شہر سے ہوا جہاں کے لوگ وقت سے پہلے ہی نماز کے لئے تیار ہوجاتے اور بَروقت نماز کی ادائیگی کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم جلدہی نماز کی تیاری نہیں کریں گے تو ہوسکتا ہے اس کا وقت نکل جائے پھر کل قیامت کے روز کس طرح یہ منہ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دکھاسکیں گے؟ (دلیل العارفین، ص83) نماز ایک امانت ہے جو اللہپاک نے اپنے بندوں کے سپرد کی ہے،لہٰذا بندوں پر لازم ہے کہ وہ اس امانت میں کسی قسم کی خیانت نہ کریں۔(دلیل العارفین، ص83) جو شخص قراٰنِ مجید کو دیکھتا ہے اللہ کریم کے فضل سے اس کی بینائی تیز ہوجاتی ہے ،اس کی آنکھ نہ دُکھتی ہے نہ خشک ہوتی ہے۔(دلیل العارفین، ص92) جس نے جو کچھ پایا خدمتِ مرشد سے پایا۔ پس مُرید پر لازم ہے کہ پیر کے فرمان سے ذرّہ برابر بھی تجاوز نہ کرے۔ پیر صاحب جو کچھ اسے نماز، تسبیح اور اوراد وغیرہ کے بارے میں فرمائیں، اسے غور سے سُنے اور اس پر عمل کرے کیونکہ پیر، مُرید کو سنوارنے کے لئے اور اسے کمال تک پہنچانے کے لئے عمل کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔(دلیل العارفین، ص75)

اب کیا ہوگا؟

Sat, 29 Feb , 2020
4 years ago

ایک نامور شخصیت جو اپنے شعبے میں بہت کامیاب سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے اپنا واقعہ کچھ یوں بیان کیا:میں اس وقت چَھٹی (6th) کلاس میں پڑھتا تھا، سالانہ امتحان کا رزلٹ آیا تو میں فیل ہوگیا، ایک رشتے دار خاتون میری امّی سے کہنے لگیں: اس نے پڑھناپڑھانا تو ہے نہیں! اسے ”خَراد“([1]) کا کام سیکھنے پر لگا دیں، مجھے ان کی بات بُری تو بہت لگی لیکن میں نے دل میں ٹھان لی کہ اب میں صرف پاسنگ مارکس نہیں بلکہ پوزیشن لے کر دکھاؤں گا، میری محنتوں کا پھل اس وقت ملا جب اگلے ہی سال میں نے فرسٹ پوزیشن لی اور پھر آگے بڑھتا چلا گیا، آج مجھے عزّت، دولت، شہرت! کیا کچھ حاصل نہیں ہے۔

ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین! انسان کی زندگی کامیابیوں اور ناکامیوں کا مجموعہ ہے، کسی تعلیمی امتحان (Educational exam) میں کامیابی درکار ہو یا ملازمت وغیرہ کے حصول میں کامرانی! ہمیں Success کے ساتھ Failure کا امکان بھی پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔ لیکن ہماری ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ ہم اپنی توقعات کا لیول اتنا بُلند کر لیتے ہیں کہ جب ناکام ہوتے ہیں تو مایوسی کی حد سے گزر جاتے ہیں،جس کی وجہ سے کچھ لوگ تو نفسیاتی مریض بھی بن جاتے ہیں، کچھ نشے میں پناہ ڈھونڈتے ہیں اور بعض بے چارے تو اتنے دل برداشتہ ہوجاتے ہیں کہ اپنے ہاتھوں سے موت کو گلے لگا کر خُودکشی جیسا حرام کام کر گزرتے ہیں۔ چند مہینوں کے دوران کچھ خبریں ایسی سامنے آئیں جس نے مجھے تشویش میں مبتلاکردیا، وہ خبریں ایسے نوجوانوں کی تھیں جنہوں نے امتحان میں فیل ہونے یا کم نمبر آنے یا کسی خاص کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے گلے میں پھندا لگا کر یا کسی اونچی بلڈنگ سے کُود کر یا کسی دریا وغیرہ میں چھلانگ لگا کر خودکُشی کر لی ۔

بطورِ نمونہ تین افسوس ناک خبریں ملاحظہ کیجئے :’’میرے پیارے ابو اور میری ماں، مجھے معاف کردینا۔ میرا رزلٹ بہت گندا آیا ہے۔ اور جس کی وجہ سے اب کوئی عزت میری نہیں رہے گی۔ مگر میں نے نمبر لینے کی کوشش کی تھی۔ بس مجھے معاف کردینا۔ اللہ حافظ۔‘‘یہ الفاظ اس پرچی پر لکھے تھے جو ملتان میں فرسٹ ایئر کے طالبِ علم نے اپنے والدین کے نام مُبَیِّنہ طور پر لکھی تھی۔(ایکسپریس نیوز،15 اکتوبر2019) گیارہویں کلاس کے ایک طالب علم نے فائنل امتحانات میں ناکامی کے بعد خودکشی کرلی۔ ایک ہفتہ قبل ہی ایک اور طالب علم بھی خودکشی کرچکا ہے، وہ سیکنڈ ایئر میں زیرِ تعلیم تھا۔ (اردوپوائنٹ ویب سائٹ، 14اپریل 2018) مصر میں میٹرک کی طالبہ نے امتحان میں ناکامی کے خوف سے ایک عمارت سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی، بلڈنگ سے گِر کر لڑکی کے جسم پر شدید چوٹیں آئیں اس کو فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دَم توڑ گئی۔

(اےآروائی نیوز، 5جون2018)

اے عاشقانِ رسول !ناکام ہونے والے تو دُنیا سے چلے گئے لیکن اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کو حسرت و یاس کی داستان بنا گئے، آج ان کے والدین سے پوچھا جائے کہ زندہ سلامت اولاد چاہئے یا امتحان میں کامیابی اور پوزیشن! تو بلاتاخیر ان کا جواب یہی ہوگا کہ ہمیں اپنی اولاد سلامت چاہئے۔ لیکن ایسے والدین اور رشتے داروں کو سوچنا ہوگا کہ کس کے طعنوں کے خوف، کس کی طرف سے بُرا بھلا کہنے کے اندیشے نے ایک انسان کو اپنی ہی جان لینے پر مجبور کیا؟ تو شاید جواب کے آئینے میں انہیں اپنا ہی وجود کھڑا دکھائی دے۔ فیل ہوجانے والا پہلے ہی صدمے سے دوچار ہوتا ہے ایسے میں اُسے سہارے، ہمدردی اور دلجوئی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن افسوس! خاندان والے مل کر اس کی وہ کلاس لیتے ہیں اور کیا چھوٹا کیا بڑا! ایسی ایسی باتیں سُناتے ہیں اور ایسا دل توڑتے ہیں کہ ہتھوڑے سے بھی کیا ٹُوٹتا ہوگا! ایک سے زیادہ بار فیل ہونے والے سے تو ایسا رویّہ رکھا جاتا ہے جیسے اس نے دنیا کا سب سے بڑا جُرم کرلیا ہو۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ فیل ہوجانا بُرا سہی لیکن اس پر ہمارا ردِّعمل تو مہذّب اور شائستہ ہونا چاہئے۔ فیل ہونے والے کا حوصلہ بڑھایا جائے گا، اس کے مسائل سُن کر حل نکالا جائے گا تو ہی وہ آئندہ پاس ہونے یا پوزیشن لینے کی سوچے گا! کم از کم اس کا یہ ذہن تو بناہی دیا جائے کہ فیل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا ہی ختم ہوگئی ہے، خدارا! اپنے جگر کے ٹکڑے کو اتنا اعتماد تو فراہم کردیجئے کہ خدانخواستہ فیل ہونے کی صورت میں وہ پلٹ کر گھر آسکے، آپ اسے زندہ سلامت دیکھ سکیں۔ خیال رہے کہ بہت سارے کیسز میں والدین نہیں بلکہ دیگر رشتہ داروں کے رویّے بھی کارفرما ہوتے ہیں، بہرحال ہمیں کسی کو تباہ کرنے کے لئے جمع نہیں ہونا چاہئے۔

امیرِ اہلِ سنّت کا انداز: امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ محمد الیاس عطّار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ایک مرتبہ جامعۃُ المدینہ کے طلبہ میں اچھی پوزیشن لینے والوں میں انعامات تقسیم فرما رہے تھے، اختتام پر آپ نے دریافت فرمایا کہ سب سے کم نمبر کس کے آئے ہیں؟ جواب میں جس طالبِ علم نے ہاتھ اٹھایا، آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اسے انعام دیا اور یہ مدنی پھول عطا کیا کہ کامیاب ہونے والوں کی حوصلہ افزائی تو ہر کوئی کرتا ہے، کم نمبر لینے والوں کا بھی حوصلہ بڑھانا چاہئے تاکہ وہ آئندہ اچھے نمبر لے سکیں۔

محترم والدین! آپ کو بھی چاہئے کہ اپنی اولاد کی ذہانت، صلاحیت اور ہمّت دیکھ کر اس سے توقعات باندھیں، بچّوں کا یہ ذہن بنائیں کہ تم جو کچھ پڑھ رہے ہو وہ تمہیں آنا چاہئے، تمہیں اچّھا اسٹوڈنٹ بننا ہے، اگر پوزیشن لوگے تو تمہیں فلاں انعام ملے گا، پوزیشن نہ لے سکے تو ”کچھ نہیں کہا جائے گا“، اس کے برعکس بچّوں کو اس پریشر میں رکھنا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے تمہیں پوزیشن لینی ہے ورنہ تم ناکام اور نااہل سمجھے جاؤ گے! اس کے لئے نہ اسے مناسب آرام کرنے دیتے ہیں، نہ ذہن کو فریش کرنے دیتے ہیں، اُسے کتابی کیڑا بنا دیتے ہیں جو خوراک کھانے کے لئے باہر نکلتا ہے پھر دوبارہ کتاب میں گھس جاتا ہے۔ امتحانات میں پوزیشن آنا اچھی بات ہے لیکن معذرت کے ساتھ یہ غلط فہمی بھی دُور کرلیجئے کہ صرف پوزیشن لینے والے ہی زندگی میں کامیاب ہوسکتے ہیں، پوزیشن تو بائی چانس بھی آسکتی ہے کہ جو سوالات اچھی طرح تیار کئے وہی پیپر میں آگئے اور پوزیشن آگئی۔ آپ اردگرد کے جن لوگوں کو کامیاب سمجھتے ہیں ان میں سے چند نام ایک لسٹ میں لکھ لیجئے اور دیکھئے کہ کیا یہ سب پوزیشن ہولڈر تھے؟میرا اپنا مُشاہَدَہ ہے کہ بہت مرتبہ پوزیشن ہولڈر دیکھتے رہ گئے اور عَمَلی زندگی میں کامیابی کا میڈل کوئی اور لے اُڑا۔ پھر اگر پوزیشن لینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم اپنے عزیزوں دوستوں میں فخر سے کہہ سکیں:جناب! ہمارے بچّے کی فرسٹ پوزیشن آئی ہے، اسے سوشل میڈیا پر شئیر کرکے اپنا قد بڑھا سکیں، تو اس کے لئے اپنی اولاد کو تختۂ مشق بنانا سِتم ظریفی ہے یا نہیں! اس کا جواب اپنے دل سے لے لیجئے۔نیز کہیں ایسا تو نہیں جو آپ سے نہ ہوسکا وہ اپنی اولاد سے کروانا چاہتے ہوں، ایک دلچسپ مگر فرضی حکایت پڑھئے اور اپنے رویّے پر ٹھنڈے دماغ سے نظرِ ثانی کرلیجئے:

یہ آپ کی مارک شیٹ ہے! ایک شخص شام کو تھکا ہارا گھر پہنچا، جاکر صوفے پر بیٹھا ہی تھا کہ سامنے میز پر پانچویں کلاس کی مارک شیٹ دکھائی دی، وہ سمجھا کہ اس کی بیوی نے رکھی ہے تاکہ اپنے بیٹے کا رزلٹ دیکھ سکے، نمبر دیکھنا شروع کئے تو اس کا پارہ بھی چڑھنا شروع ہوگیا، بیٹے کو بُلاکر سامنے کھڑا کیا اورلال پیلا ہونا شروع ہوگیا:یہ دیکھو Maths میں صرف 55 نمبر، Science میں45، کمپیوٹر میں صرف 40! اتنے کم نمبر!تمہارے دماغ میں بُھس بھرا ہوا ہے! وہ بے تکان بولتا چلاجارہا تھا، بیٹا حیران پریشان کھڑا تھا کہ خدایا!یہ اچانک ابو کو کیا ہوگیا ہے! اس کی گرما گرم آوازیں سُن کر بیوی بھی کچن چھوڑ کر بھاگی چلی آئی اور کچھ کہنے کی کوشش کی مگر وہ تو کسی کی سننے کو تیار ہی نہیں تھا، جب اس نے مارکس شیٹ پر اچھی طرح تبصرہ کرلیا تو بیوی ہمت کرکے بولی: میرے سرتاج! سنئے تو سہی، یہ مارک شیٹ آپ کے بیٹے کی نہیں ہے،اس کا رزلٹ تو کل آئے گا۔وہ حیرت سے کہنے لگا: پھر کس کی ہے؟ ”وہ میں پرانے کاغذات درست کررہی تھی اس میں سے آپ کی پُرانی مارک شیٹ نکل آئی تو میں نے یادگار کے طور پر دکھانے کے لئے یہاں ٹیبل پر رکھی تھی کہ آپ آئیں گے تو دکھاؤں گی۔“ بیوی کاجواب سُن کر شوہر کے کانوں میں کچھ ہی دیر پہلے کئے جانے والے تبصرے کی آوازیں گُونجنے لگیں، اب اسے اپنی شرمندگی اور جھینپ مٹانے کے لئے کوئی بہانہ نہیں مل رہا تھا، لہٰذا وہ خاموشی سے واش رُوم کی طرف بڑھ گیا، جاتے ہوئے چور نظروں سے دیکھا تو بیوی اور بیٹا منہ چُھپا کر ہنس رہے تھے۔

آخری بات: جتنی توجہ ہم دنیاوی تعلیم میں کامیابیوں پر دیتے ہیں، اگراس سے آدھی توجہ ہم اپنی اولاد کو نماز، روزہ اور دیگر فرائض و واجبات کا پابند بنانے پر دیں تو ہمارا معاشرہ صحیح معنوں میں اسلامی معاشرہ بن سکتا ہے۔ اس جذبے کو پانے اور بڑھانے کے لئے عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک دعوتِ اسلامی کے اپنے علاقے میں ہونے والے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں اپنے بیٹوں کے ساتھ شرکت کیجئے اور مثبت نتائج کھلی آنکھوں سے ملاحظہ کیجئے۔


([1])ایک مشین جس سے لکڑی یا دھات یعنی لوہے وغیرہ کو تراشاخراشا جاتا ہے۔


بچوں کو نمازی بنائیں

Thu, 27 Feb , 2020
4 years ago

اسلام کے بُنیادی اَرکان میں نماز ایک اِمتِیازی شان رکھتی ہے جو اللہ پاک اور اس کے رسول کی رضا پانے، اُخْرَوِی کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ اور بے حیائی سمیت دیگر بُرائیوں سے حِفاظت (Protection)کا بھی سبب ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اَولاد کی تربیت کرنا اور انہیں نمازی بنانا والدین کی اَہَم ذِمّہ داری (Responsibility) ہے۔ اسی اہمیت کے پیشِ نظر بچّوں کو چھوٹی عمر سے ہی نماز کا عادی بنانا چاہئے تاکہ جب وہ بڑے ہوں تو نماز پڑھنا ان کی زندگی کا مستقل حصہ بن چکا ہو۔ یاد رہے کہ بچّوں کو فَقَط نماز کا کہہ دینا ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ اولاد سے پہلے آپ خود بھی نماز کی پابندی فرمائیں تاکہ آپ کو دیکھ کر بچّے بھی نماز کی طرف راغب ہوں، گھر کی خواتین بچّوں کی نظروں کے سامنے نماز ادا کریں گی تو اِنْ شَآءَ اللہ یہ بہترین عَمَلی ترغیب (Practical Motivation) ہوگی۔ بچّوں کو نمازی بنانے کیلئے مزید ان اُمور کو پیشِ نظر رکھئے: ٭اپنے بچّوں کو وُضو کا طریقہ سِکھائیں ٭نماز کی تسبیحات،قراٰنِ پاک کی چھوٹی چھوٹی سُورتیں اور بَتَدرِیج (Gradually) (آہستہ آہستہ) دُعائے قُنوت وغیرہ بھی یاد کرائیں ٭المدینۃ العلمیہ کا بچوں کے لئے تیار کردہ نصاب”اسلام کی بنیادی باتیں“ بچوں کولے کردیجئے،جس سے بچے روزانہ کچھ نہ کچھ سیکھتے رہیں اور یاد بھی کرتے رہیں (مثلاً ایمانِ مُفصّل، ایمانِ مُجْمَل، 6کلمے، اذان کی دُعا، نماز کا طریقہ، دُعائے قنوت وغیرہ) ٭بچّوں کو دیر تک نہ جاگنے دیں بلکہ آپ خود بھی جلدی سونے کا اہتمام کریں اور بچّوں کو بھی جلدی سُلائیں تاکہ نمازِ فجر کے لئے اٹھنے میں آسانی ہو ٭سردیوں کے موسم میں بچّوں کیلئے نِیم گرم پانی کا اہتمام کریں تاکہ وہ بَآسانی وضو کرلیں کیونکہ گرم پانی مُیَسَّر (Available) نہ ہونے کی صورت میں ٹھنڈے پانی کی دُشواری بچّوں اور نماز کے بیچ میں آڑے آسکتی ہے نیز وہ بیمار بھی ہوسکتے ہیں ٭والد صاحب کو چاہئے کہ سمجھدار بچّے کو اوّلاً نَرمی اور محبت کے ساتھ مسجد کے آداب سے آگاہ کریں مثلاً مسجد میں شور نہیں مچانا، اِدھر اُدھر نہیں بھاگنا، نمازیوں کے آگے سے نہیں گزرنا وغیرہ۔ پھر اسےاپنے ساتھ مسجد لے کر جائیں اور جماعت کی سب سے آخری صَف میں دیگر بچّوں کے ساتھ کھڑا کریں ٭بچّوں کو نماز پڑھنے پر کبھی کَبھار انعام (Gift) بھی دیں لیکن اس انداز سے نہ دیں کہ وہ نماز کا عادی بننے کے بجائے انعام کے لالچی بن جائیں۔ اِنْ شَآءَ اللہ اس حکمتِ عَمَلی کی بَدولت بچّوں کا مسجد کے ساتھ روحانی رشتہ قائم ہوجائے گا۔

بچّوں کو نماز کا حکم دینے کے متعلق تین فرامینِ صَحابہ

(1)حضرت سیّدُنا ابنِ عبّاس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اَيْقِظُوا الصَّبِيَّ يُصَلِّي، وَلَوْ بِسَجدَةٍ یعنی بچے کو نماز کیلئے بیدار کرو اگرچہ ایک ہی سجدہ کرلیں۔(مصنف عبدالرزاق،4/120،رقم: 7328) (2)حضرت سیّدُنا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حَافِظُوا عَلٰی اَبْنَائِکُمْ فِی الصَّلَاۃِ یعنی نماز کے معاملہ میں اپنے بچوں پر توجّہ دو۔(مصنف عبدالرزاق، 4/120، رقم:7329) (3)حضرت سیّدُنا ابنِ عُمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: يُعَلَّمُ الصَّبِيُّ الصَّلَاةَ اِذَا عَرَفَ يَمِينَهٗ مِنْ شِمَالِهٖ یعنی جب بچّہ دائیں اور بائیں میں فرق کرنے لگے تو اسے نماز کی تعلیم دی جائے۔(مصنف ابن ابی شیبہ، 3/202،رقم:3504)

اللہ پاک ہمیں اور ہماری اولاد کو مَرتے دَم تک نماز پڑھتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ:نماز سے متعلق احکامِ شرعیہ کی معلومات کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ”نماز کے احکام“ کا مطالعہ کیجئے۔