خلیفۂ چہارم،امیرُ المؤمنین حضرت سیّدُنا علی بن ابی طالب کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم عامُ الفیل کے تیس برس بعد جبکہ حضورِاکرم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے اعلانِ نَبُوَّت فرمانے سے دس سال قبل پیدا ہوئے۔(تاریخ ابن عساکر، 41/361) حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم چار بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے،بہن بھائیوں میں سے حضرت عقیل اورحضرت جعفر، حضرت امِّ ہانی اور حضرت جُمانہ علیہِمُ الرِّضْوَان دولتِ ایمان سے سرفراز ہوئے۔ (سبل الہدیٰ و الرشاد 11/88،ریاض النضرہ، 2/104، مصنف عبد الرزاق، 7/134، حدیث: 12700) پرورش، لقب و کنیت حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ نے حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے کنارِ اقدس میں پرورش پائی، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی گود میں ہوش سنبھالا، آنکھ کھلتے ہی محمّد رّسولُ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کا جمالِ جہاں آراء دیکھا، حضورِانور ہی کی باتیں سنیں، عادتیں سیکھیں، ہرگز ہرگزبتوں کی نجاست سے آپ کا دامنِ پاک کبھی آلودہ نہ ہوا۔ اسی لئے لقبِ کریم کَرَّمَ اللہُ تعالٰی وَجْہَہ ملا۔ (فتاویٰ رضویہ، 28/436 بتغیر) آپ رضیَ اللہُ عنہ کی کنیت ابو الحسن اور ابو تُراب ہے۔ نکاح آپ رضیَ اللہُ عنہ اور حضرت سیّدَتُنابی بی فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کا بابرکت نکاح 2 ہجری ماہِ صفر، رجب یا رمضان میں ہوا۔ (اتحاف السائل للمناوی، ص:2 ) جہیزو رہائش حضرت بی بی فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کے جہیز میں ایک چادر، کھجور کی چھال سے بھرا ہوا ایک تکیہ، ایک پیالہ، دو مٹکے اور آٹا پیسنے کی دو چکّیاں تھیں۔ (مسند احمد، 1/223،حدیث، 819، معجم کبیر، 24/137، حدیث: 365) بی بی فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کی رہائش کے لئے حضرت علیکرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کا گھر کاشانۂ اقدس صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم سے دور تھا اس لئے حضرت سیّدُنا حارثہ بن نعمان رضیَ اللہُ عنہ نے کاشانۂ اقدس سے قریب اپنا ایک گھر حضرت علی و فاطمہ رضیَ اللہُ عنہُما کے لئے پیش کردیا۔(طبقات ابن سعد، 8/19 ملخصاً) ابتدائی تین دن ان دونوں مُقدّس ہستیوں نے دن روزے میں اور رات عبادتِ الٰہی میں بسر کی۔ (روض الفائق، ص: 278) کام کاج کی ذمّہ داری گھر کے کام کاج(مثلا ً چکی پیسنے ،جھاڑو دینےاور کھانا پکانےکے کام وغیرہ ) حضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کرتی تھیں اور باہر کے کام (مثلاً بازار سے سودا سلف لانا، اونٹ کو پانی پلانا وغیرہ) حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے ذمّہ داریوں میں شامل تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، 8/157، حدیث: 14) والدہ کی خدمتحضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کی والدہ ماجدہ کی خدمت بھی کیا کرتی تھیں چنانچہ حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے اپنی والدہ کی خدمت میں کہا: فاطمہ زہرا آپ کوگھر کے کاموں سے بے پروا کردیں گی۔ (الاصابہ، 8/269ملخصاً) ایک بستر حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہُما کے پاس ایک ہی بسترتھا اور وہ بھی مینڈھے کی ایک کھال، جسے رات کو بچھاکر آرام کیا جاتا پھر صبح کو اسی کھال پر گھاس دانہ ڈال کر اونٹ کے لئے چارے کا انتظام کیا جاتا اور گھر میں کوئی خادم بھی نہ تھا۔ (طبقاتِ ابن سعد ، 8/18) گھر والوں کا احساس ایک روز رسولِ خدا صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے اور فرمایا: میرے بچّے (یعنی حسن و حسین) کہاں ہیں؟ حضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا نے عرض کی: آج ہم لوگ صبح اٹھے تو گھر میں ایک چیز بھی ایسی نہ تھی جس کو کوئی چکھ سکے، بچّوں کے والد نے کہاکہ میں ان دونوں کو لے کر باہر جاتا ہوں اگر گھر پر رہیں گے تو تمہارے سامنے روئیں گے اور تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ہے کہ کھلاکر چپ کرواسکو چنانچہ وہ فلاں یہودی کی طرف گئے ہیں۔ رسولِ اکرم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم وہاں تشریف لے گئے، دیکھاکہ دونوں بچّے ایک صُراحی سے کھیل رہے ہیں اور ان کے سامنے بچی کھچی کھجوریں ہیں۔ رسولِ محترم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا: علی! دھوپ تیز ہونے سے پہلے بچّوں کو گھر لے چلو، آپ نے عرض کی: یانبیَّ اللہ صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم! آج صبح سے گھر میں ایک دانہ نہیں ہے اگر آپ تھوڑی دیر تشریف رکھیں تو میں فاطمہ کے لئے کچھ بچی کھچی کھجوریں جمع کرلوں۔ یہ سُن کر رحمتِ عالَم صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم بیٹھ گئے، حضرت علیکَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے کچھ کھجوریں جمع کرکے ایک کپڑے میں باندھ لیں۔ (معجم کبیر، 22/422، حدیث: 1040) بچّوں کی صحت یابی کے لئے مَنّت ایک مرتبہ حسنینِ کریمَین رضیَ اللہُ عنہُما بیمار ہوئے، حضرت علی مرتضٰی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم اور حضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا نے بچّوں کی صحت یابی کے لئے تین روزوں کی مَنّت مان لی، اللہ تعالیٰ نے صحت دی، منّت پوری کرنے کا وقت آیا تو روزے رکھ لئے گئے، حضرت علیکَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم ایک یہودی سےکچھ کلو جَو لائے، حضرت خاتونِ جنّت نے تینوں دن پکایا لیکن جب افطار کا وقت آیا اور روٹیاں سامنے رکھیں تو ایک روز مسکین، ایک روز یتیم، ایک روز قیدی آگیا اور تینوں روز یہ سب روٹیاں ان لوگوں کو دے دی گئیں اورگھر والوں نے صرف پانی سے افطار کرکے اگلا روزہ رکھ لیا۔ (خزائن العرفان، پ29، الدھر،تحت الآیۃ:8 ص:1073 ملخصاً) عید کا دن امیرُ المؤمنین حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کے پاس ایک مرتبہ عیدُ الاضحیٰ کے دن کچھ مہمان آئے تو آپ نے انہیں خزیرہ (آٹے اور گوشت سے تیار ایک قسم کا کھانا) پیش کیا، یہ دیکھ کر انہوں نے کہا : اللہ آپ کا بھلا کرے آپ ہمیں مرغابی کھلائیے، ارشاد فرمایا: اللہ کے رسول صلَّی اللہُ علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم نے فرمایا ہے کہ خلیفہ کے لئے اللہ کے مال سے صرف دو ہی برتن حلال ہیں ایک وہ جس میں خلیفہ اور اس کے گھر والے کھائیں، دوسرا وہ برتن جسے وہ لوگوں کے سامنے رکھے۔ (مسنداحمد، 1/169، حدیث: 578) وصیت پر عمل بی بی فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کی بہن حضرت زینب رضیَ اللہُ عنہَا کی ایک صاحبزادی حضرت اُمامہ رضیَ اللہُ عنہَا تھیں، حضرت فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا نے حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کو وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد آپ اُمامہ سے نکاح کر لیں۔ چنانچہ حضرت علی رضیَ اللہُ عنہ نے وصیت پر عمل کرتے ہوئے ان سے نکاح کرلیا۔ (زرقانی علی المواھب، 2/358) مہمان نوازی جب آپ نے اُمُّ البنین بنتِ حازم رضیَ اللہُ عنہَا سے نکاح کیا تو ان کے پاس 7 دن ٹھہرے ساتویں دن کچھ عورتیں آپ کی زوجہ سے ملنے آئیں، یہ دیکھ کر آپ نےاپنے غلام کو درہم عطا کیا اور فرمایا: مہمانوں کیلئے اس سے انگور خرید لاؤ۔ (ابن ابی الدنیا، الجوع، 4/127، رقم:281) ازواج کے درمیان انصاف حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے اپنی دو بیویوں میں اس طرح تقسیم کاری کررکھی تھی کہ پہلی بیوی کے پاس دن گزارتے تو اس کے لئے نصف درہم کا گوشت خریدتے دوسری کے پاس دن گزارتے تو اس کے لئے بھی نصف درہم کاگوشت خریدتے۔(الزہد لاحمد، ص157، رقم :696) نکاح و اولاد حضرت بی بی فاطمہ رضیَ اللہُ عنہَا کی زندگی میں حضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم کو دوسرے نکاح کی اجازت نہ تھی، لیکن ان کے وصال کے بعدحضرت علی کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم نے یکے بعد دیگرے کئی نکاح کئے ، آپ کے 14 لڑکے اور 18 لڑکیاں تھیں، بی بی فاطمہ زہرا رضیَ اللہُ عنہَا کے بطنِ مبارَک سے امام حسن ،حسین، محسن، بی بی زینب اور بی بی اُمِّ کُلثوم علیہِمُ الرِّضْوَان پیدا ہوئے، حضرت محسن کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا۔(ریاض النضرہ، 2/239)


حیا میں حیات ہے

Sat, 7 Mar , 2020
5 years ago

ملازِمہ نے کسی باحِجاب خاتون کی آمد کی اطلاع دی تو فریحہ نے اسے ڈرائنگ رُوم میں بٹھانے کا کہا، کچھ وقفے کے بعد ڈرائنگ روم میں داخل ہونے پرسامنے بیٹھی عورت کو دیکھ کر اس کے منہ سے خوشی اور خیرت میں ڈوبی ہوئی آواز نکلی : فَرْوَہ تم!!!

جی ہاں! میں، آپ نے تو ہمیں بُھلا ہی دیا تھا تو سوچا خود ہی ملنے چلی آؤں۔ فَرْوَہ نے مَحبّت سے فریحہ کو گلے لگاتے ہوئے جواب دیا۔

کہاں غائب تھی شادی کے بعد سے؟ اور یہ کیا نیک پروین بی بی جیسا حُلیہ بنا لیا ہے؟ میلاد والی باجی بن بیٹھی ہو کیا؟ فَرْوَہ اور فریحہ نے اسکول اور کالج کے تعلیمی مَراحِل ایک ساتھ طے کئے تھے، پورے کالج میں دونوں فیشن سمبل (Symbol) کے طور پر مشہور تھیں، کون سا فیشن آج کل چل رہاہے اور کون سا پُرانا ہو چکا، اس کی اِطِّلاع بھی دوسری لڑکیوں کو انہی کے ذریعے ملتی تھی، اور یہی یکساں شوق (Common Hobby) دونوں کی گہری دوستی کا سبب بھی تھا، لیکن ماضی کے بَرعَکس فَرْوَہ کو باپردہ دیکھ کر فریحہ کی حیرانی طنزیہ سُوال میں ڈھل گئی تھی۔

باتیں ہی سناؤگی یا چائے پانی بھی پوچھوگی؟ فروہ نے اس کے طنز کو نظر انداز کرتے ہوئے شائستہ لہجے میں جواب دیا۔

اوہ! تمہیں دیکھ کر تو سب کچھ بھول گئی تھی، اتنا کہہ کر فریحہ باہَر چلی گئی۔ ملازمہ کو مہمان نوازی کی ہدایت دے کر واپس آئی تو فروہ کے پاس ہی صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہنے لگی: اب بتاؤ، کہاں غائب ہو گئی تھی؟

میرے بچّوں کے ابّو کا پروفیشن تو آپ جانتی ہی تھیں تو اسی سلسلے میں شادی کے بعد ہم کراچی شفٹ ہوگئے تھے، فروہ نے جواب دیا۔

اتنے میں ملازمہ مہمان نوازی کے لَوازِمات سے بھرپور ٹرالی لے آئی، فریحہ نے چائے کا کپ اسے دیتے ہوئے کہا: اور یہ تبدیلی کیسے آ گئی؟ اس کا اشارہ فروہ کے حجاب کی طرف تھا۔

دیکھو! حجاب نہ صرف عورت کی ضَرورت ہے بلکہ اسی میں عورت کی عظمت بھی ہے۔ فروہ اتنا کہنے کے بعد چائے کا گھونٹ بھرنے کے لئے رُکی۔

واہ!یعنی اگر میں حِجاب نہیں کرتی تو میں باعظمت بھی نہیں؟

کل تک تَو تم بھی بے پردہ گھومتی تھی۔ فریحہ نے فروہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی غصّے سے بیچ میں کاٹ دی تھی۔

فروہ نے مَحبّت سے اس کا ہاتھ تھامتےہوئے کہا: فریحہ آپ نے میری تبدیلی کا سبب پوچھا تھا جس سے آپ کو اختلاف ہوسکتا ہے لیکن یوں غصّہ کرنا تو بِالکل مناسب نہیں ہے،آپ اجازت دیں تو میں اپنی بات مکمل کر سکتی ہوں؟

ماضی میں جیسے کو تیسا جواب دینے والی فروہ کے مِزاج کی مُثْبَت تبدیلی(Positive Change)فریحہ پہلے ہی محسوس کر چکی تھی، اور اپنے طنز اور غصّے کے جواب میں ملنے والی مُسکراہٹ اور نرم رویّے نے اسے سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ فروہ کا صرف لباس اور سوچ ہی نہیں بدلی بلکہ ساری کی ساری شخصیت (Personality) بدل چکی ہے۔اپنے ردِّ عمل (Reaction) پر شرمندگی محسوس ہوئی تو اُس نے مَعْذِرَت خواہانہ لہجے میں کہا: سوری! نہ جانے اچانک مجھے کیا ہوگیا؟خیر بتاؤ کہ تمہیں حِجاب (یعنی پردے)کی ضرورت اور عَظمت کا احساس کیسے ہوا؟

دیکھیں فریحہ! اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ آج کی عورت کو مَردوں کی طرف سے مختلف مَسائل کاسامنا رہتا ہے،جن پہ مختلف فورمز پر آئے روز بَحْث و مُباحَثَہ اور قانون سازی بھی کی جاتی ہے لیکن مسائل وہیں کے وہیں ہیں، آخر کیوں؟

بھئی مجھے کیا پتا؟ فریحہ نے ہنستے ہوئے فروہ کی ”کیوں“ کا جواب دیا۔

کیونکہ انہیں اس شے کا علم ہی نہیں ہے کہ جس میں عورت کی عظمت ہے،اس کی حفاظت ہے،تمہاری طرح پہلے میں بھی اس ”کیوں (Why) کے جواب سے لَاعِلْم تھی، دیگر لوگوں کی طرح صِرف مَردوں کو قُصوروار گَردانتی اور اس مَرَض کا علاج صرف اور صرف عورت کی آزادی میں دکھائی دیتا تھا۔

تواورکیا؟ عورت کی آزادی کے علاوہ اس کا کوئی سنجیدہ حل (Solution) نہیں ہے،عورت جب تک چادر اور چار دیواری میں قید رہے گی، ظُلم و سِتم کا شِکار رہے گی۔ فریحہ نے جذباتی انداز میں فروہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

فروہ کے چہرے پر مُسکراہٹ بکھر گئی اور پھر نرم لہجے میں بولی: اسلام اور فطرتِ انسانی (Human Nature) سے لَاعِلْم لوگوں کو یہ جذباتیت بھرا نعرہ بہت اپیل کرتا ہے لیکن زمینی حقائق (Ground Realities) جذباتیت کے تابع نہیں ہوتے، ان کی اپنی سچّائی ہوتی ہےاور معذرت کے ساتھ زمینی حقیقت یہی ہے کہ جن مُعاشروں میں عورت کو آزادی مِلی وہاں عورت کی حفاظت کے مَسائل تو کیا حَل ہوئے بلکہ پہلے سے زیادہ سنگین مسائل نے جَنم لیا، کہیں ایسا تو نہیں کہ عورت کی آزادی کا نعرہ لگانے والے عورت تک پہنچنے کی آزادی چاہتے ہیں،جس روز ہماری بہنوں کو اس حقیقت کا علم ہوگیا اس دن انہیں پتا چل جائے گا کہ چودہ صدیاں پہلے اسلام نے عورت کی حفاظت اور عظمت کیلئے جو پردے کا نُسخہ تجویز کیا تھا وہی واحد اور بہترین حَل ہے جس کی آج کے ترقّی یافتہ لیکن خوفِ خُدا سے عاری مُعاشرے میں اہمیت (Importance) پہلے سے کئی گُنا بڑھ چکی ہے۔

فروہ کی باتوں سے چَھلکنے والا یقین بتا رہا تھا کہ بہت جُسْتْجو کے بعد اس نے جینے کا سلیقہ سیکھاہے، جس میں خالی جذباتیت نہیں بلکہ اپنے دِین پَر اعتماد بھی ہے اور آفاقی سچّائی بھی ہے۔

فریحہ ایک بے جان تصویر کی طرح حیرت سے فروہ کا منہ تک رہی تھی۔ سالوں سے میڈیا کی جذباتی یَلغار سے اس کے ذہن میں تعمیر ہونے والی خَیالات کی عمارت ایک عِلمی سچّائی کا بوجھ بھی برداشت نہ کرسکی، فریحہ اس کی بنیادوں کی واضح لَرزِش محسوس کر رہی تھی، پوچھنے لگی: تمہاری بات میری سمجھ میں آگئی ہے،لیکن یہ بتاؤ  کہ تم میں یہ تبدیلی آئی کہاں سے؟

فروہ نے اعتراف کیا کہ  دعوتِ اسلامی نے مجھے بدل کر رکھ دیا ہے، میرا تو تم سمیت تمام اسلامی بہنوں کو مشورہ ہےکہ اپنے کِردار و عمل میں مُثْبَت تبدیلی کے لئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہوجائیں اور اپنے علاقےمیں ہونے والے اسلامی بہنوں کے ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کو اپنا معمول بنالیں۔

مشہور جملہ ہے کہ دین بہت مشکل ہے اور بعض تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ دین مشکل نہیں تھا لیکن مولویوں نے مشکل بنا دیا۔ کیا واقعی اسلام بہت مشکل دین ہے یا یہ ایک وسوسہ اور پروپیگنڈا ہے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ پست ہمت آدمی کے لئے معمولی سا کام بھی مشکل ہوتا ہے جبکہ باہمت کے لئے بھاری کام بھی آسان ہوتا ہے، جیسی نیت ویسی مراد۔ مومن کو باہمت ہونا چاہیے، حدیث میں ہے: اللہ تعالیٰ بلند ہمتی والے کام پسند فرماتا ہے۔(معجم اوسط، 2/179، حدیث:2940)

اسلام کامعاملہ یہ ہے کہ انسان کی طاقت وقوت اور ہمت و حوصلہ کے اعتبار سے بنیادی طور پر اسلام آسان ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ (پ3، البقرۃ:286) اللہ کسی جان پر اس کی طاقت کے برابر ہی بوجھ ڈالتا ہے۔“ اور فرمایا: ﴿وَ مَا جَعَلَ عَلَیْكُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍؕ (پ17، الحج:78) ”اور تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی۔“ اور فرمایا: ﴿یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ(پ2، البقرۃ: 185) ’’اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا۔‘‘ اور نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا: اِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ ”بےشک دین بہت آسان ہے۔“ (بخاری،1/36، حدیث:39) مذکورہ آیات اور حدیث سے مجتہدین ِ کرام نے یہ اصول بنایا ہے: اَلْحَرَجُ مَدْفُوْعٌ ”حرج دور ہے یعنی اسے دور کیا جاتا ہے۔“ (المبسوط للسرخسی، 16/108) اور اَلْمَشَقَّۃُ تَجْلُبُ التَّیْسِیْرَ ”مشقت آسانی لاتی ہے۔“ (الاشباہ والنظائر،ص64) یعنی جہاں بہت مشقت آجائے تو وہاں شریعت آسانی پیدا کردیتی ہے۔

ان دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ حقیقت میں طاقت وہمت کے اعتبار سے شرعی احکام آسان ہیں اگرچہ بعض احکام دوسرے بعض کی نسبت یا بعض حالات میں مشکل ہوتے ہیں لیکن کبھی ایسے مشکل نہیں ہوتے کہ ناقابلِ برداشت ہوجائیں اور دنیا جہان کے اکثر کاموں میں حقیقت ِ حال یہ ہے کہ ہرکام کے لئے کچھ نہ کچھ ہمت، کوشش اور مشقت تو کرنی ہی پڑتی ہے۔ اب رہا یہ کہ یہ کچھ نہ کچھ مشقت بھی بہت مشکل ہے تو اس کے متعلق عرض ہے کہ آخر یہ مشقت دین کے معاملے میں ہی کیوں یاد آتی اور محسوس ہوتی ہے۔ اس سے کہیں بڑھ کر مشقت کا سامنا زندگی کے اکثر ضروری معاملات میں کرنا پڑتا ہے۔ آئیے! ذرا ان معاملات پر نظر دوڑائیں:

بچپن اور تعلیم دیکھ لیں، بچہ پیدا ہوتا ہے تو پہلے بیٹھنا، کھڑا ہونا، چلنا اور دوڑنا سیکھتا ہے پھر چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی اسکول جاتا، محنت سے پڑھائی کرتا، اسکول سے واپسی پر ٹیوشن پڑھتا، وہاں یا گھر پر ہوم ورک کرتا، اسباق سمجھتا، یاد کرتا اور دن رات ایک کرکے امتحانات کی تیاری کرتا ہے۔ محنت کا یہ سلسلہ عموماً 12، 14 یا 16 سال جاری رہتا ہے۔ پھر اِس تعلیم میں بھی اگر سائنس، میڈیکل، انجیئنرنگ وغیرہ کے اسٹوڈنٹس کو دیکھیں تو مشقت کا حقیقی معنی پتہ چل جاتا ہے کہ نہ دن کا پتہ اور نہ رات کی خبر، بندہ ہے اور کتابیں، کالج کی دوڑ ہے اور پاس ہونے کی فریادیں۔ کیا یہ مشقت دین پر عمل کی مشقت سے کم ہے؟ نہیں نہیں، بہت زیادہ ہے۔

اس کےبعد نوکری دیکھ لیں، تعلیم مکمل کرنے کے بعد گھر بیٹھے نوکری نہیں مل جاتی بلکہ اچھی نوکری کےلئے کئی جگہوں کے چکر لگانے اور دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ کبھی نوکری کی جگہ نہیں اور کبھی جگہ تو دس افراد کو رکھنے کی ہے لیکن انٹرویو کے لئے چار سو محنت مشقت سے پڑھے ہوئے امیدوار بیٹھے ہیں۔ انٹرویو کی بھرپور تیاری کے بعد بھی یا تو انٹرویو میں فیل ہو جاتے ہیں یا پاس ہونے کے باوجود ٹاپ ٹین میں نام نہ آنے کی وجہ سے نوکری سے باہر۔ اب دوبارہ وہی دفتروں کے چکر، افسروں کی خوشامدیں، رشوتوں کے لین دین پھر بھی لیلیٰ مقصود رسائی سے دور، قلب، محبوب نوکری کے عدمِ حصول سے مہجور اور صدموں سے چُورچُور۔ اگر پوچھیں کہ بھائی کیوں اتنی مشقت کرتے اور خواری اٹھاتے ہو تو جواب ملے گا کہ یہی ہے زمانے کا دستور۔ واہ! کہاں دین پر عمل کے لئے تھوڑی سی مشقت پر سینہ کوبی اور آہ و زاری اور کہاں نوکر بننے کی خاطر یہ ذوق شوق اور بےقراری۔ اب ہزار محنت اور کوشش کے باوجود نوکری مل بھی گئی تو کیا بیٹھے بٹھائے تنخواہ مل جاتی ہے؟ نہیں، وہاں بھی وقت کی پابندی، ماتحتوں کی کام چوری اور اوپر والوں کی سینہ زوری سب برداشت کر کے مطلوبہ نتیجہ دے کر ہی تنخواہ ملتی ہے ورنہ نوکری سے چھٹی۔

کاروبار کا معاملہ دیکھ لیں، کاروبار شروع کرنے میں مشکلات کے بیسیوں مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ نقصان ہوجائے تو کام تمام یا اس کے ازالے کے لئے دن رات محنت کرنی پڑتی ہے پھر جب پیسہ آ جاتا ہے تو دشمنیاں، حسد، بیماریاں، چوروں اور ڈاکوؤں کے خطرات بھی ساتھ ہی آتے ہیں لیکن دین کو مشقت سمجھنے والے دنیوی زندگی کے تھوڑے سے مزے کے لئے یہ ساری مشکلات برداشت کرتے ہیں۔

شادی دیکھ لیں، جب شادی کا مرحلہ آتا ہے تو شادی کے بعد چار دن کی چاندنی ہوتی ہے اور پھر آزمائشوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اولاد نہ ہو تو طعنے، احساسِ محرومی اور اگلی شادی کی سوچ اور اگر اولاد ہو جائے تو ایک طرف ماں اس کے کھانے پینے، راحت و آرام کا خیال رکھ کر مشقت برداشت کرتی ہے اور دوسری طرف باپ دن رات ایک کرکےسردی گرمی، دھوپ بارش وغیرہ ہر طرح کے حالات میں بچے کو کھلانے کے لئے محنت کرتا ہے ۔

یونہی لائف اسٹائل کے لئے مشقتیں دیکھ لیں، اگر کسی آدمی نے اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہوکہ اسے اچھی گاڑی، رہائش کے لئے عالیشان بنگلہ چاہیے تو اسے گھر بیٹھے دولت نہیں مل جائے گی بلکہ بہت سی قربانیاں دینی ہوں گی، راتوں کو جاگنا پڑے گا، گرمی سردی برداشت کرنا پڑے گی، محنت کرنی پڑے گی تبھی منزل پر پہنچ سکتا ہے کیونکہ یہ تمام مشکلات زندگی کا حصہ ہیں، بغیر مشقت دنیا کا نظام چل ہی نہیں سکتا۔

اب عرض ہے کہ جب زندگی مشقت اور جدوجہد کا دوسرا نام ہے تو اسلام بھی اسی زندگی کا حصہ بلکہ اس کی روح ہے اور اس عظیم روح یعنی اسلام پر عمل کرنے میں اللہ تعالیٰ نے دوسرے امورِ حیات کی نسبت بہت کم مشقتیں رکھی ہیں مثلاً عبادات کو دیکھ لیں، نماز ایک ڈسپلن ہے جس کا دورانیہ پانچ نمازوں میں تقریباً ڈیڑھ سے اڑھائی گھنٹے ہیں لیکن اس کے مقابلےمیں فوج کے ڈسپلن میں اس سے کئی گنا زیادہ مشقت اٹھانی پڑتی ہے، یونہی کسی آفس میں کام کرنے میں آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی اور اس کے ڈسپلن کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ حیرت ہے کہ اُس سخت ڈسپلن اور مشقت پر کوئی کلام نہیں کرتا جبکہ ڈیڑھ گھنٹے کی نماز کی ادائیگی کو بہت بڑی مشکل کے طور پر پیش کردیا جاتا ہے۔

اصل بات یہ ہے مشقت اٹھانے کا دار و مدار مقصد کے ساتھ لگن پر ہوتا ہے۔اچھی سواری، اچھی رہائش اور پرسکون زندگی کے حصول کی لگن چونکہ دل کی گہرائیوں میں موجود ہوتی ہے اس لئے ساری مشقتیں قابلِ برداشت ہوجاتی ہیں جبکہ آخرت کی ابدی زندگی، دائمی جنت کی اعلیٰ نعمتیں، رضائے الٰہی اور قرب ِ خداوندی کی لگن مَعَاذَ اللہ دلوں میں اُتنی راسخ نہیں ہے، اس لئے دین پر عمل کی محنت پہاڑ جیسی مشکل معلوم ہوتی ہے حالانکہ جنت کی دائمی نعمتیں اور دیدارِ الٰہی وہ اعلیٰ ترین مقاصد ہیں کہ کروڑوں زندگیاں تلواروں کے لاکھوں واروں پر کٹوا کٹوا کر قربان کردی جائیں تو بھی سودا مفت ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دین مشکل نہیں، پست ہمتی اور کم حوصلگی اسے مشکل بنا دیتی ہیں۔

اب رہی یہ بات کہ مولویوں نے دین کو مشکل بنادیا ہے، اس کا جواب اگلی قسط میں دیا جائے گا۔

قِیامت کے دن جس کی نیکیوں کا پَلَّہ بھاری ہوگا اور اس کے نیک عمل زیادہ ہوں گےتو وہ جنّت کی من پسند زندگی میں ہوگا اور جس کی نیکیوں کا پَلَّہ ہلکا پڑے گا تو اس کا ٹھکانا جہنّم ہوگا۔احادیثِ مُبارکہ میں بہت سی ایسی عبادات،اعمال، اوراد و وَظائف بیان کئے گئے ہیں جوبروزِ قیامت بندۂ مؤمن کے نیکیوں کے پلڑے کو بھر دیں گے اور اس کے لئے ذریعۂ نجات بنیں گے،یہاں چند ایسی نیکیاں ذکرکی جارہی ہیں جو میزانِ عمل کو بھر دیتی ہیں ، چنانچہ

میزانِ عمل کو بھرنے والےکلمات:نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں، میزانِ عمل میں بھاری ہیں اوراللہ پاک کو بہت پسند ہیں۔ (وہ دو کلمے یہ ہیں): سُبْحٰنَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ،سُبْحٰنَ اللہِ الْعَظِیْم“۔(بخاری، 4/297، حدیث:6682)

ہمیں بھی چاہئے کہ ان کلمات کو ہمیشہ وردِ زبان رکھیں کہ یہ دو کلمات اللہ کریم کو بہت زیادہ محبوب ہیں، زبان پر بہت ہلکے پھلکے ہیں مگر قیامت کے دن میزانِ عمل میں ان کا وزْن بہت بھاری ہوگا یعنی عمل بہت تھوڑا ہے مگر اس کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے۔

میزان پر سب سے زیادہ وزْنی عمل:نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:پانچ چیزیں میزان پر سب سے زیادہ وزن والی ہیں:(1)سُبْحٰنَ اللہ (2)اَلْحَمْدُ لِلّٰہ(3)لَاۤاِلٰہَ اِلَّا اﷲ (4)اَﷲُ اَکْبَر (5)کسی مسلمان شخص کا نیک بچّہ مرجائے اور وہ اس پر ثواب کی اُمّید رکھتے ہوئے صبر کرے۔

(صحیح ابنِ حبان ،2/100، حدیث:830 ملخصاً)

اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میزان کو بھردیتی ہے:نبیِّ مُکَرَّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: صفائی نصف ایمان ہے اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میزان کو بھر دیتا ہے اور ’’سُبْحٰنَ اللہ وَالْحَمْدُ لِلّٰہ‘‘ زمین و آسمان کے درمیان ہر چیز کو بھر دیتے ہیں اور نماز نور ہے اور صدقہ دلیل یعنی راہنما ہے، صبرروشنی ہے اورقراٰن تیرے حق میں یا تیرے خلاف حجت ہے۔(مسلم، ص 115،حدیث:534)

حکیمُ الْاُمّت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو شخص ہر حال میں اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہا کرے تو قیامت میں میزانِ عمل کے نیکی کا پلّہ اس سےبھرجائے گا اورایک حمد تمام گناہوں پر بھاری ہوگی۔کیونکہ یہ ہیں ہمارے کام اور وہ ہے رب کا نام۔

مزید فرماتے ہیں:ان دوکلموں(سُبْحٰنَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ) کا ثواب اگر دنیا میں پھیلایا جائے تو اتنا ہے کہ اس سے سارا جہان بھر جائے یا مطلب یہ ہے کہ سُبْحٰنَ اللہ میں اللہ کی بےعیبی کا اقرار ہے اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میں اسی کے تمام کمالات کا اظہار۔اور یہ دو چیزیں وہ ہیں جن کے دلائل سے دنیا بھری ہوئی ہے کہ ہرذرّہ اور ہر قطرہ رب کی تسبیح و حمد کررہا ہے۔(مراٰۃُ المناجیح،1/232)

حُسنِ اَخلاق سے وزْنی کوئی شے نہیں:دینِ اسلام میں حُسنِ اَخلاق کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور ہمارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حُسنِ اخلاق کوبہت زیادہ پسندفرمایا اور اس کے متعلّق بشارت عطا فرمائی کہ قیامت کے دن حُسنِ اخلاق کو میزانِ عمل میں نیکیوں کے پلڑے میں رکھا جائے گا اوریہ اس کی نیکیوں میں سب سے وزنی عمل ہو گا چنانچہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا:قیامت کے دن مؤمن کے میزان میں حُسنِ اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی شے نہیں ہوگی۔(تر مذی ،3/404، حدیث:2009)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہُ علٰی محمَّد


سَرزمینِ ہِندمیں جہاں عرصۂ دراز سے کفر وشرک کا دَوْر دَوْرَہ تھا ،اور ظُلْم و جَوْر کی فَضا قائم تھی اورلوگ اَخلاق و کِردار کی پستی کا شِکار تھے۔ اِس خطّے کے لوگوں کو نورِ ہدایت سے روشناس کروانے،ظُلْم وسِتَم سے نجات دلانے اور لوگوں کے عقائدواَعمال کی اِصلاح کرنے والے بُزرگانِ دین میں حضرت خواجہ مُعینُ الدِّین سیّدحَسَن چشتی اَجمیریعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکا اِسمِ گرامی بہت نُمایاں ہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی وِلادت537ھ بمطابق 1142ء کو سِجِسْتان یا سِیْسْتان کے علاقے سَنْجَر میں ایک پاکیزہ اور علمی گھرانے میں ہوئی۔(اقتباس الانوار،ص345،ملخصاً)آپ کا اسمِ گرامی حسن ہے اور آپ نَجِیبُ الطَّرَفَیْن سیِّد ہیں۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کےمشہوراَلقابات میں مُعینُ الدّین،غریب نواز، سلطانُ الہِنْد اور عطائے رسول شامل ہیں۔(معین الہند حضرت خواجہ معین الدین اجمیری، ص18 ملخصاً) حُصُولِ عِلْم کے لئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے شام، بغداداور کِرمان وغیرہ کاسفر بھی اِختیارفرمایا نیز کثیر بزرگانِ دین سے اِکْتِسابِ فیض کیاجن میں آپ کے پیرو مُرشِدحضرت خواجہ عثمان ہارْوَنی اورپیرانِ پیرحُضُور غوثِ پاک حضرت شیخ سیِّد عبدالقادِر جیلانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہما کے اَسماء قابلِ ذِکْر ہیں۔ زیارتِ حَرَمَیْن کےدوران بارگاہِ رِسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے آپ کو ہند کی وِلایت عطا ہوئی اوروہاں دین کی خدمت بجا لانے کا حکم ملا۔(سیر الاقطاب، ص142،ملخصاً) چنانچہ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سرزمینِ ہِند تشریف لائے اور اَجمیر شریف (راجِستھان) کو اپنا مُسْتَقِل مسکن بناتے ہوئے دینِ اسلام کی تَرْوِیج واِشَاعَت کا آغاز فرمایا۔ خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی دینی خدمات میں سب سے اَہَم کارنامہ یہ ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اپنے اَخْلاق ، کِرْدَاراور گُفْتَار سے اس خطّے میں اسلام کا بول بالا فرمایا ۔لاکھوں لوگ آپ کی نگاہِ فیض سے متاثّر ہو کرکفر کی اندھیریوں سے نکل کر اسلام کےنورمیں داخل ہو گئے، یہاں تک کہ جادوگر سادھو رام،سادو اَجے پال اورحاکم سبزوار جیسے ظالم و سَرْکَش بھی آپ کے حلقۂ اِرادت(مریدوں) میں شامل ہو گئے۔ (معین الہند حضرت خواجہ معین الدین اجمیری، ص56ملخصاً) ہِندمیں خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی آمد ایک زبردست اسلامی، روحانی اور سماجی اِنقلاب کا پَیْش خَیْمَہ ثابت ہوئی۔خواجہ غریب نواز ہی کے طُفیل ہِندمیں سِلسِلۂ چِشتیہ کا آغاز ہوا۔ (تاریخ مشائخ چشت، ص136) آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اِصلاح و تبلیغ کے ذریعے تَلَامِذَہ و خُلَفَا کی ایسی جماعت تیار کی جس نےبَرِّ عظیم(پاک وہند) کے کونے کونے میں خدمتِ دین کا عظیم فَرِیْضہ سَرْ اَنْجَام دیا۔ دِہلی میں آپ کے خلیفہ حضرت شیخ قُطْبُ الدِّین بَخْتیار کاکی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَا قِی نے اور ناگور میں قاضی حمیدُ الدِّین ناگوری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے خدمتِ دین کے فرائض سَر اَنْجَام دئیے۔ (تاریخ مشائخ چشت،ص139 تا 142ملخصاً)خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے اس مِشَنْ کو عُرُوْج تک پہنچانے میں آپ کے خُلَفَا کے خُلَفَانے بھی بھر پور حصّہ ملایا، حضرت بابا فرید گَنْجِ شَکَر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے پاکپتن کو،شیخ جمالُ الدِّین ہَانْسْویعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِینے ہَانْسی کو اور شیخ نِظامُ الدِّین اَوْلِیارَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے دِہلی کو مرکز بنا کر اِصلاح وتبلیغ کی خدمت سَرْ اَنْجَام دی۔(تاریخ مشائخ چشت، ص 147 تا 156 ملخصاً) خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تحریر و تصنیف کے ذریعے بھی اِشاعتِ دین اور مخلوقِ خدا کی اِصلاح کا فریضہ سر اَنجام دیا۔آپ کی تصانیف میں اَنِیْسُ الاَرْوَاح، کَشْفُ الاَسْرَار، گَنْجُ الاَسْرَار اور دیوانِ مُعِیْن کا تذکرہ ملتا ہے۔(معین الہند حضرت خواجہ معین الدین اجمیری ،ص103ملخصاً) خواجہ غریب نوازرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نےتقریباً45 سال سر زمینِ ہِند پر دینِ اِسْلام کی خدمت سَرْاَنْجَام دی اور ہِند کےظُلْمت کَدے میں اسلام کا اُجالا پھیلایا۔آپ کا وِصال 6رجب627ھ کو اَجمیرشریف(راجِستھان،ہند) میں ہوااور یہیں مزارشریف بنا۔آج برِّ عظیم پاک و ہِند میں ایمان واسلام کی جو بہار نظر آرہی ہے اِس میں حضرت خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی سعی بے مثال کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔

اللہ کریم کے جن نیک بندوں نے اصلاحِ اُمّت اور اشاعتِ اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کیں،ان میں ایک بڑا نام سلطانُ الہند،خواجہ غریب نواز حضرت سیّد معینُ الدّین حسن سنجری چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے۔ آپ کی ولادت 537 ہجری کو سیستان (موجودہ ایران) کے علاقہ ”سَنجر“ میں ہوئی۔ (اقتباس الانوار،ص345)آپ رحمۃ اللہ علیہ نے تقریباً 81 سال راہِ خدا میں علم کے حصول اور مخلوقِ خدا کی اصلاح میں گزارے اور کئی کتابیں بھی تحریر فرمائیں۔آپرحمۃ اللہ علیہکا وصال 6رجب المرجب633ہجری کو ہوا۔(فیضانِ خواجہ غریب نواز، ص17، 25) خوش نصیب مسلمان ہر سال 6رجب المرجب کو چَھٹی شریف کے نام سے آپ کا عُرس مناتے اور ایصالِ ثواب کرتے ہیں۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول میں عُرسِ خواجہ غریب نوازاہتمام کے ساتھ منایا جاتاہے، رجب المرجب کے پہلے 6دنوں میں روزانہ مدنی مذاکروں کا سلسلہ ہوتا ہے،ان ایّام میں ملک و بیرونِ ملک یہ مدنی مذاکرے دیکھے جانے کے ساتھ ساتھ ہزاروں عاشقانِ رسول دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ کراچی میں حاضر ہوکر فیضانِ خواجہ غریب نوازکی برکتیں حاصل کرتے ہیں۔6رجب المرجب کو دُنیا بھر میں باقاعدہ ”اجتماعِ یومِ غریب نواز“ کا سلسلہ بھی ہوتا ہے۔

خواجہ غریب نواز کے ملفوظات حضرت سیّدنا خواجہ غریب نوازرحمۃ اللہ علیہ کے مریدِ صادق اورخلیفۂ اکبر حضرت خواجہ قطبُ الدِّین بختیار کاکیرحمۃ اللہ علیہنے اپنے پیر و مرشد کے ملفوظات پر مشتمل ایک کتاب ترتیب دی جس کا نام ’’دلیل العارفین‘‘ رکھا۔اس کتاب میں سے حضور خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات ملاحظہ کیجئے۔ نماز تمام مقامات سے بڑھ کرمقام ہے۔نمازحق تعالیٰ سے ملاقات کا وسیلہ ہے۔ (دلیل العارفین، ص75) وہ لوگ کیسے مسلمان ہیں جو فرض نماز میں اس قدر تاخیر کرتے ہیں کہ نماز کا وقت ہی گزر جاتا ہے( اور پھر قضا پڑھتے ہیں) ان کی مسلمانی پر 20 ہزار مرتبہ افسوس ہے جو مولا کریم کی عبادت میں کوتاہی کرتے ہیں۔

حکایت ایک دفعہ یوں ارشاد فرمایا کہ میرا گزر ایک ایسے شہر سے ہوا جہاں کے لوگ وقت سے پہلے ہی نماز کے لئے تیار ہوجاتے اور بَروقت نماز کی ادائیگی کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم جلدہی نماز کی تیاری نہیں کریں گے تو ہوسکتا ہے اس کا وقت نکل جائے پھر کل قیامت کے روز کس طرح یہ منہ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دکھاسکیں گے؟ (دلیل العارفین، ص83) نماز ایک امانت ہے جو اللہپاک نے اپنے بندوں کے سپرد کی ہے،لہٰذا بندوں پر لازم ہے کہ وہ اس امانت میں کسی قسم کی خیانت نہ کریں۔(دلیل العارفین، ص83) جو شخص قراٰنِ مجید کو دیکھتا ہے اللہ کریم کے فضل سے اس کی بینائی تیز ہوجاتی ہے ،اس کی آنکھ نہ دُکھتی ہے نہ خشک ہوتی ہے۔(دلیل العارفین، ص92) جس نے جو کچھ پایا خدمتِ مرشد سے پایا۔ پس مُرید پر لازم ہے کہ پیر کے فرمان سے ذرّہ برابر بھی تجاوز نہ کرے۔ پیر صاحب جو کچھ اسے نماز، تسبیح اور اوراد وغیرہ کے بارے میں فرمائیں، اسے غور سے سُنے اور اس پر عمل کرے کیونکہ پیر، مُرید کو سنوارنے کے لئے اور اسے کمال تک پہنچانے کے لئے عمل کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔(دلیل العارفین، ص75)

اب کیا ہوگا؟

Sat, 29 Feb , 2020
5 years ago

ایک نامور شخصیت جو اپنے شعبے میں بہت کامیاب سمجھے جاتے ہیں، انہوں نے اپنا واقعہ کچھ یوں بیان کیا:میں اس وقت چَھٹی (6th) کلاس میں پڑھتا تھا، سالانہ امتحان کا رزلٹ آیا تو میں فیل ہوگیا، ایک رشتے دار خاتون میری امّی سے کہنے لگیں: اس نے پڑھناپڑھانا تو ہے نہیں! اسے ”خَراد“([1]) کا کام سیکھنے پر لگا دیں، مجھے ان کی بات بُری تو بہت لگی لیکن میں نے دل میں ٹھان لی کہ اب میں صرف پاسنگ مارکس نہیں بلکہ پوزیشن لے کر دکھاؤں گا، میری محنتوں کا پھل اس وقت ملا جب اگلے ہی سال میں نے فرسٹ پوزیشن لی اور پھر آگے بڑھتا چلا گیا، آج مجھے عزّت، دولت، شہرت! کیا کچھ حاصل نہیں ہے۔

ماہنامہ فیضانِ مدینہ کے قارئین! انسان کی زندگی کامیابیوں اور ناکامیوں کا مجموعہ ہے، کسی تعلیمی امتحان (Educational exam) میں کامیابی درکار ہو یا ملازمت وغیرہ کے حصول میں کامرانی! ہمیں Success کے ساتھ Failure کا امکان بھی پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔ لیکن ہماری ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ ہم اپنی توقعات کا لیول اتنا بُلند کر لیتے ہیں کہ جب ناکام ہوتے ہیں تو مایوسی کی حد سے گزر جاتے ہیں،جس کی وجہ سے کچھ لوگ تو نفسیاتی مریض بھی بن جاتے ہیں، کچھ نشے میں پناہ ڈھونڈتے ہیں اور بعض بے چارے تو اتنے دل برداشتہ ہوجاتے ہیں کہ اپنے ہاتھوں سے موت کو گلے لگا کر خُودکشی جیسا حرام کام کر گزرتے ہیں۔ چند مہینوں کے دوران کچھ خبریں ایسی سامنے آئیں جس نے مجھے تشویش میں مبتلاکردیا، وہ خبریں ایسے نوجوانوں کی تھیں جنہوں نے امتحان میں فیل ہونے یا کم نمبر آنے یا کسی خاص کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے گلے میں پھندا لگا کر یا کسی اونچی بلڈنگ سے کُود کر یا کسی دریا وغیرہ میں چھلانگ لگا کر خودکُشی کر لی ۔

بطورِ نمونہ تین افسوس ناک خبریں ملاحظہ کیجئے :’’میرے پیارے ابو اور میری ماں، مجھے معاف کردینا۔ میرا رزلٹ بہت گندا آیا ہے۔ اور جس کی وجہ سے اب کوئی عزت میری نہیں رہے گی۔ مگر میں نے نمبر لینے کی کوشش کی تھی۔ بس مجھے معاف کردینا۔ اللہ حافظ۔‘‘یہ الفاظ اس پرچی پر لکھے تھے جو ملتان میں فرسٹ ایئر کے طالبِ علم نے اپنے والدین کے نام مُبَیِّنہ طور پر لکھی تھی۔(ایکسپریس نیوز،15 اکتوبر2019) گیارہویں کلاس کے ایک طالب علم نے فائنل امتحانات میں ناکامی کے بعد خودکشی کرلی۔ ایک ہفتہ قبل ہی ایک اور طالب علم بھی خودکشی کرچکا ہے، وہ سیکنڈ ایئر میں زیرِ تعلیم تھا۔ (اردوپوائنٹ ویب سائٹ، 14اپریل 2018) مصر میں میٹرک کی طالبہ نے امتحان میں ناکامی کے خوف سے ایک عمارت سے چھلانگ لگا کر خودکشی کرلی، بلڈنگ سے گِر کر لڑکی کے جسم پر شدید چوٹیں آئیں اس کو فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دَم توڑ گئی۔

(اےآروائی نیوز، 5جون2018)

اے عاشقانِ رسول !ناکام ہونے والے تو دُنیا سے چلے گئے لیکن اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کو حسرت و یاس کی داستان بنا گئے، آج ان کے والدین سے پوچھا جائے کہ زندہ سلامت اولاد چاہئے یا امتحان میں کامیابی اور پوزیشن! تو بلاتاخیر ان کا جواب یہی ہوگا کہ ہمیں اپنی اولاد سلامت چاہئے۔ لیکن ایسے والدین اور رشتے داروں کو سوچنا ہوگا کہ کس کے طعنوں کے خوف، کس کی طرف سے بُرا بھلا کہنے کے اندیشے نے ایک انسان کو اپنی ہی جان لینے پر مجبور کیا؟ تو شاید جواب کے آئینے میں انہیں اپنا ہی وجود کھڑا دکھائی دے۔ فیل ہوجانے والا پہلے ہی صدمے سے دوچار ہوتا ہے ایسے میں اُسے سہارے، ہمدردی اور دلجوئی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن افسوس! خاندان والے مل کر اس کی وہ کلاس لیتے ہیں اور کیا چھوٹا کیا بڑا! ایسی ایسی باتیں سُناتے ہیں اور ایسا دل توڑتے ہیں کہ ہتھوڑے سے بھی کیا ٹُوٹتا ہوگا! ایک سے زیادہ بار فیل ہونے والے سے تو ایسا رویّہ رکھا جاتا ہے جیسے اس نے دنیا کا سب سے بڑا جُرم کرلیا ہو۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ فیل ہوجانا بُرا سہی لیکن اس پر ہمارا ردِّعمل تو مہذّب اور شائستہ ہونا چاہئے۔ فیل ہونے والے کا حوصلہ بڑھایا جائے گا، اس کے مسائل سُن کر حل نکالا جائے گا تو ہی وہ آئندہ پاس ہونے یا پوزیشن لینے کی سوچے گا! کم از کم اس کا یہ ذہن تو بناہی دیا جائے کہ فیل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا ہی ختم ہوگئی ہے، خدارا! اپنے جگر کے ٹکڑے کو اتنا اعتماد تو فراہم کردیجئے کہ خدانخواستہ فیل ہونے کی صورت میں وہ پلٹ کر گھر آسکے، آپ اسے زندہ سلامت دیکھ سکیں۔ خیال رہے کہ بہت سارے کیسز میں والدین نہیں بلکہ دیگر رشتہ داروں کے رویّے بھی کارفرما ہوتے ہیں، بہرحال ہمیں کسی کو تباہ کرنے کے لئے جمع نہیں ہونا چاہئے۔

امیرِ اہلِ سنّت کا انداز: امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ محمد الیاس عطّار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ایک مرتبہ جامعۃُ المدینہ کے طلبہ میں اچھی پوزیشن لینے والوں میں انعامات تقسیم فرما رہے تھے، اختتام پر آپ نے دریافت فرمایا کہ سب سے کم نمبر کس کے آئے ہیں؟ جواب میں جس طالبِ علم نے ہاتھ اٹھایا، آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اسے انعام دیا اور یہ مدنی پھول عطا کیا کہ کامیاب ہونے والوں کی حوصلہ افزائی تو ہر کوئی کرتا ہے، کم نمبر لینے والوں کا بھی حوصلہ بڑھانا چاہئے تاکہ وہ آئندہ اچھے نمبر لے سکیں۔

محترم والدین! آپ کو بھی چاہئے کہ اپنی اولاد کی ذہانت، صلاحیت اور ہمّت دیکھ کر اس سے توقعات باندھیں، بچّوں کا یہ ذہن بنائیں کہ تم جو کچھ پڑھ رہے ہو وہ تمہیں آنا چاہئے، تمہیں اچّھا اسٹوڈنٹ بننا ہے، اگر پوزیشن لوگے تو تمہیں فلاں انعام ملے گا، پوزیشن نہ لے سکے تو ”کچھ نہیں کہا جائے گا“، اس کے برعکس بچّوں کو اس پریشر میں رکھنا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے تمہیں پوزیشن لینی ہے ورنہ تم ناکام اور نااہل سمجھے جاؤ گے! اس کے لئے نہ اسے مناسب آرام کرنے دیتے ہیں، نہ ذہن کو فریش کرنے دیتے ہیں، اُسے کتابی کیڑا بنا دیتے ہیں جو خوراک کھانے کے لئے باہر نکلتا ہے پھر دوبارہ کتاب میں گھس جاتا ہے۔ امتحانات میں پوزیشن آنا اچھی بات ہے لیکن معذرت کے ساتھ یہ غلط فہمی بھی دُور کرلیجئے کہ صرف پوزیشن لینے والے ہی زندگی میں کامیاب ہوسکتے ہیں، پوزیشن تو بائی چانس بھی آسکتی ہے کہ جو سوالات اچھی طرح تیار کئے وہی پیپر میں آگئے اور پوزیشن آگئی۔ آپ اردگرد کے جن لوگوں کو کامیاب سمجھتے ہیں ان میں سے چند نام ایک لسٹ میں لکھ لیجئے اور دیکھئے کہ کیا یہ سب پوزیشن ہولڈر تھے؟میرا اپنا مُشاہَدَہ ہے کہ بہت مرتبہ پوزیشن ہولڈر دیکھتے رہ گئے اور عَمَلی زندگی میں کامیابی کا میڈل کوئی اور لے اُڑا۔ پھر اگر پوزیشن لینے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم اپنے عزیزوں دوستوں میں فخر سے کہہ سکیں:جناب! ہمارے بچّے کی فرسٹ پوزیشن آئی ہے، اسے سوشل میڈیا پر شئیر کرکے اپنا قد بڑھا سکیں، تو اس کے لئے اپنی اولاد کو تختۂ مشق بنانا سِتم ظریفی ہے یا نہیں! اس کا جواب اپنے دل سے لے لیجئے۔نیز کہیں ایسا تو نہیں جو آپ سے نہ ہوسکا وہ اپنی اولاد سے کروانا چاہتے ہوں، ایک دلچسپ مگر فرضی حکایت پڑھئے اور اپنے رویّے پر ٹھنڈے دماغ سے نظرِ ثانی کرلیجئے:

یہ آپ کی مارک شیٹ ہے! ایک شخص شام کو تھکا ہارا گھر پہنچا، جاکر صوفے پر بیٹھا ہی تھا کہ سامنے میز پر پانچویں کلاس کی مارک شیٹ دکھائی دی، وہ سمجھا کہ اس کی بیوی نے رکھی ہے تاکہ اپنے بیٹے کا رزلٹ دیکھ سکے، نمبر دیکھنا شروع کئے تو اس کا پارہ بھی چڑھنا شروع ہوگیا، بیٹے کو بُلاکر سامنے کھڑا کیا اورلال پیلا ہونا شروع ہوگیا:یہ دیکھو Maths میں صرف 55 نمبر، Science میں45، کمپیوٹر میں صرف 40! اتنے کم نمبر!تمہارے دماغ میں بُھس بھرا ہوا ہے! وہ بے تکان بولتا چلاجارہا تھا، بیٹا حیران پریشان کھڑا تھا کہ خدایا!یہ اچانک ابو کو کیا ہوگیا ہے! اس کی گرما گرم آوازیں سُن کر بیوی بھی کچن چھوڑ کر بھاگی چلی آئی اور کچھ کہنے کی کوشش کی مگر وہ تو کسی کی سننے کو تیار ہی نہیں تھا، جب اس نے مارکس شیٹ پر اچھی طرح تبصرہ کرلیا تو بیوی ہمت کرکے بولی: میرے سرتاج! سنئے تو سہی، یہ مارک شیٹ آپ کے بیٹے کی نہیں ہے،اس کا رزلٹ تو کل آئے گا۔وہ حیرت سے کہنے لگا: پھر کس کی ہے؟ ”وہ میں پرانے کاغذات درست کررہی تھی اس میں سے آپ کی پُرانی مارک شیٹ نکل آئی تو میں نے یادگار کے طور پر دکھانے کے لئے یہاں ٹیبل پر رکھی تھی کہ آپ آئیں گے تو دکھاؤں گی۔“ بیوی کاجواب سُن کر شوہر کے کانوں میں کچھ ہی دیر پہلے کئے جانے والے تبصرے کی آوازیں گُونجنے لگیں، اب اسے اپنی شرمندگی اور جھینپ مٹانے کے لئے کوئی بہانہ نہیں مل رہا تھا، لہٰذا وہ خاموشی سے واش رُوم کی طرف بڑھ گیا، جاتے ہوئے چور نظروں سے دیکھا تو بیوی اور بیٹا منہ چُھپا کر ہنس رہے تھے۔

آخری بات: جتنی توجہ ہم دنیاوی تعلیم میں کامیابیوں پر دیتے ہیں، اگراس سے آدھی توجہ ہم اپنی اولاد کو نماز، روزہ اور دیگر فرائض و واجبات کا پابند بنانے پر دیں تو ہمارا معاشرہ صحیح معنوں میں اسلامی معاشرہ بن سکتا ہے۔ اس جذبے کو پانے اور بڑھانے کے لئے عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک دعوتِ اسلامی کے اپنے علاقے میں ہونے والے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں اپنے بیٹوں کے ساتھ شرکت کیجئے اور مثبت نتائج کھلی آنکھوں سے ملاحظہ کیجئے۔


([1])ایک مشین جس سے لکڑی یا دھات یعنی لوہے وغیرہ کو تراشاخراشا جاتا ہے۔


بچوں کو نمازی بنائیں

Thu, 27 Feb , 2020
5 years ago

اسلام کے بُنیادی اَرکان میں نماز ایک اِمتِیازی شان رکھتی ہے جو اللہ پاک اور اس کے رسول کی رضا پانے، اُخْرَوِی کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ اور بے حیائی سمیت دیگر بُرائیوں سے حِفاظت (Protection)کا بھی سبب ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اَولاد کی تربیت کرنا اور انہیں نمازی بنانا والدین کی اَہَم ذِمّہ داری (Responsibility) ہے۔ اسی اہمیت کے پیشِ نظر بچّوں کو چھوٹی عمر سے ہی نماز کا عادی بنانا چاہئے تاکہ جب وہ بڑے ہوں تو نماز پڑھنا ان کی زندگی کا مستقل حصہ بن چکا ہو۔ یاد رہے کہ بچّوں کو فَقَط نماز کا کہہ دینا ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ اولاد سے پہلے آپ خود بھی نماز کی پابندی فرمائیں تاکہ آپ کو دیکھ کر بچّے بھی نماز کی طرف راغب ہوں، گھر کی خواتین بچّوں کی نظروں کے سامنے نماز ادا کریں گی تو اِنْ شَآءَ اللہ یہ بہترین عَمَلی ترغیب (Practical Motivation) ہوگی۔ بچّوں کو نمازی بنانے کیلئے مزید ان اُمور کو پیشِ نظر رکھئے: ٭اپنے بچّوں کو وُضو کا طریقہ سِکھائیں ٭نماز کی تسبیحات،قراٰنِ پاک کی چھوٹی چھوٹی سُورتیں اور بَتَدرِیج (Gradually) (آہستہ آہستہ) دُعائے قُنوت وغیرہ بھی یاد کرائیں ٭المدینۃ العلمیہ کا بچوں کے لئے تیار کردہ نصاب”اسلام کی بنیادی باتیں“ بچوں کولے کردیجئے،جس سے بچے روزانہ کچھ نہ کچھ سیکھتے رہیں اور یاد بھی کرتے رہیں (مثلاً ایمانِ مُفصّل، ایمانِ مُجْمَل، 6کلمے، اذان کی دُعا، نماز کا طریقہ، دُعائے قنوت وغیرہ) ٭بچّوں کو دیر تک نہ جاگنے دیں بلکہ آپ خود بھی جلدی سونے کا اہتمام کریں اور بچّوں کو بھی جلدی سُلائیں تاکہ نمازِ فجر کے لئے اٹھنے میں آسانی ہو ٭سردیوں کے موسم میں بچّوں کیلئے نِیم گرم پانی کا اہتمام کریں تاکہ وہ بَآسانی وضو کرلیں کیونکہ گرم پانی مُیَسَّر (Available) نہ ہونے کی صورت میں ٹھنڈے پانی کی دُشواری بچّوں اور نماز کے بیچ میں آڑے آسکتی ہے نیز وہ بیمار بھی ہوسکتے ہیں ٭والد صاحب کو چاہئے کہ سمجھدار بچّے کو اوّلاً نَرمی اور محبت کے ساتھ مسجد کے آداب سے آگاہ کریں مثلاً مسجد میں شور نہیں مچانا، اِدھر اُدھر نہیں بھاگنا، نمازیوں کے آگے سے نہیں گزرنا وغیرہ۔ پھر اسےاپنے ساتھ مسجد لے کر جائیں اور جماعت کی سب سے آخری صَف میں دیگر بچّوں کے ساتھ کھڑا کریں ٭بچّوں کو نماز پڑھنے پر کبھی کَبھار انعام (Gift) بھی دیں لیکن اس انداز سے نہ دیں کہ وہ نماز کا عادی بننے کے بجائے انعام کے لالچی بن جائیں۔ اِنْ شَآءَ اللہ اس حکمتِ عَمَلی کی بَدولت بچّوں کا مسجد کے ساتھ روحانی رشتہ قائم ہوجائے گا۔

بچّوں کو نماز کا حکم دینے کے متعلق تین فرامینِ صَحابہ

(1)حضرت سیّدُنا ابنِ عبّاس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اَيْقِظُوا الصَّبِيَّ يُصَلِّي، وَلَوْ بِسَجدَةٍ یعنی بچے کو نماز کیلئے بیدار کرو اگرچہ ایک ہی سجدہ کرلیں۔(مصنف عبدالرزاق،4/120،رقم: 7328) (2)حضرت سیّدُنا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حَافِظُوا عَلٰی اَبْنَائِکُمْ فِی الصَّلَاۃِ یعنی نماز کے معاملہ میں اپنے بچوں پر توجّہ دو۔(مصنف عبدالرزاق، 4/120، رقم:7329) (3)حضرت سیّدُنا ابنِ عُمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: يُعَلَّمُ الصَّبِيُّ الصَّلَاةَ اِذَا عَرَفَ يَمِينَهٗ مِنْ شِمَالِهٖ یعنی جب بچّہ دائیں اور بائیں میں فرق کرنے لگے تو اسے نماز کی تعلیم دی جائے۔(مصنف ابن ابی شیبہ، 3/202،رقم:3504)

اللہ پاک ہمیں اور ہماری اولاد کو مَرتے دَم تک نماز پڑھتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ:نماز سے متعلق احکامِ شرعیہ کی معلومات کے لئے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ کتاب ”نماز کے احکام“ کا مطالعہ کیجئے۔

بزرگوں کا عرس

Wed, 26 Feb , 2020
5 years ago

داؤد صاحب بازار(Market)جانے لگے تو حَسَن رَضَا بھی اپنے ابّوجان کے ساتھ ہولیا۔آج خلافِ معمول داؤدصاحب نے دودھ زیادہ خریدا تو حسن رضا نے پوچھا:ابّوجان !آج اتنا زیادہ دودھ کیوں خریدلیا ہے آپ نے؟ابّو جان: بیٹا! آج 11ربیعُ الْآخِر ہےاور اس دن سلسلۂ قادریہ کے عظیم پیشواپیرانِ پیر حضرت سیّدُنا غوثِ اعظم عبدُالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا عُرْس مبارک منایاجاتا ہےتو انکے عُرْس کے سلسلےمیں ہم بھی اپنے گھر میں نِیاز(لنگر) کا اہتمام کریں گے،اس لئے آج دودھ زیادہ خریدا ہے۔

حَسن رضا:ابّو جان! یہ”عُرس“کیا ہوتا ہے؟ابّو جان:بیٹا! ویسے تو عُرس عربی زبان میں شادی(Marriage) کو کہا جاتا ہے،اور اسلام میں بزرگانِ دین کی سالانہ فاتحہ کی محفل جو ان کی تاریخِ وفات پر ہوا سے بھی عرس کہتے ہیں، کیونکہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ قبر میں جب سوالات کرنے والے فرشتے مَیِّت کا امتحان لیتے ہیں اور وہ کامیاب ہوجاتا ہے تو وہ کہتے ہیں:نَمْ کَنَوْمَۃِ الْعَرُوس لَا یُوقِظُہ اِلَّا اَحَبُّ اَھْلِہٖ اِلَیْہ یعنی اُس دُلہن کی طرح سوجا کہ جس کو اس کے گھر والوں کے سوا کوئی نہیں جگاتا۔ (ترمذی، 2/337،حدیث:1073) تو چونکہ فرشتوں نے ان کو عَرُوس کہاہوتا ہے اس لئے وہ دن عُرس کہلاتا ہے۔)مراٰۃ المناجیح،1/134)

اسی وجہ سے جس تاریخ کوصحابَۂ کرام،تابعین،عُلَمائے دین اور اولیائےکرام میں سے کوئی اس دنیا سے رُخْصَت ہوئے ہوتے ہیں اس تاریخ کو عقیدت مندوں کی ایک تعداد ان کے مزارات پر حاضری دیتی ہے اور فیض یاب ہوتی ہے،ان سے محبّت رکھنے والے مسلمان ان کے ایصالِ ثواب کے لئے مزارات کے قریب اور دیگر مقامات پردِینی محافل کااہتمامکرتے ہیں جن میں تلاوت و نعت اور ذِکْرواَذْکار کے علاوہ عُلَما و مُبَلِّغیْن بیانات کے ذریعے اللہپاک کے اَحکامات، اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّتوں،صاحبِ مزارکاتعارف،ان کی سِیرت کے بارے میں بتاتے اور بزرگوں کی تعلیمات لوگوں میں عام کرتےہیں۔ انہی محفلوں کو”بزرگوں کا عُرس“ کہا جاتا ہے۔ 11ربیعُ الآخِرکو سلسلۂ قادریہ کے عظیم پیشوا پیرانِ پیر سیدنا غوثِ اعظم عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کاعُرس مبارک بڑے ہی ادب واحترام سےمنایا جاتا ہے ، کئی عاشقانِ غوثِ اعظم اس کو بڑی گیارہویں شریف بھی کہتے ہیں۔ابّوجان!عُرس منانے سے ہمیں کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے؟ حَسن رضا نے سوال کیا۔

ابّو جان: آپ نے بہت ہی اچّھا سوال کیا،حسن بیٹا!اللہپاک کے نیک بندوں کاعرس منانے کے ہمیں بہت سارے فائدے حاصل ہوتے ہیں: (1)سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ اس سے ہم پر اللہ پاک کی رحمت نازل ہوتی ہے،روایت میں ہے:اللہ کے نیک بندوں کے ذِکْرکے وقت اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔(حلیۃ الاولیاء،7/335،رقم:10750) (2)ان کا ذکرِخیرکرنے اور سننے سے ہمارے دل میں نیک بندوں کی مَحبَّت پیدا ہوتی ہے۔ جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ کَل قیامت میں ہم اللہ کے ان پیاروں کے ساتھ ہوں گے کیونکہ جو اللہ کی رضا کے لئے کسی سے مَحبَّت رکھے وہ قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہوگا۔ (3)عرس منانے کی برکت سے ہمیں بزرگوں اور نیک بندوں کی زندگی کے بارے میں معلومات (Information) حاصل ہوتی ہیں کہ انہوں نے کس طرح اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و فرمانبرداری میں اپنی زندگی گزاری (4)اسی طرح ان کے تقویٰ و پرہیزگاری اور علم و عمل کے واقعات سُن کر ہمارے اندر بھی تقویٰ و پرہیزگاری اور علم و عمل کا جذبہ بیدار ہوتاہے۔ اللہ کریم ہمیں بھی بزرگوں سے مَحبَّت کااظہار اور ان کی برکتیں پانےکےلئےان کاعرس منانےکی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


کراماتِ اولیاء کا ثبوت

Tue, 25 Feb , 2020
5 years ago

زمانَۂ نبوّت سے آج تک اَہلِ حق کے درمیان کبھی بھی اِس مسئلے میں اِختِلاف نہیں ہوا،سبھی کا عقیدہ ہے کہ صَحابَۂ کِرام علیہمُ الرِّضوان اور اَولیائے عِظام رحمہمُ اللہ السَّلام کی کرامتیں حق ہیں۔ ہر زمانے میں اللہ والوں سے کَرامات کا ظہور ہوتا رہا اور اِنْ شَآءَ اللہ قِیامت تک کبھی بھی اِس کا سِلسِلہ ختم نہیں ہوگا۔

کرامت کیا ہے؟مشہور مُفَسِّروحکیمُ الْاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:اصطلاحِ شریعت میں کرامت وہ عجیب و غریب چیز ہے جو ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہو۔ حَق یہ ہے کہ جو چیز نبی کا معجزہ بن سکتی ہے وہ ولی کی کرامت بھی بن سکتی ہے،سِوا اُس معجزہ کے جو دلیلِ نبوت ہو جیسے وَحِی اور آیاتِ قرآنیہ۔(مراٰۃ المناجیح،8/268)

عقیدہ:امامِ جلیل، مفتیِ جنّ و اِنْس، نَجْمُ الْمِلَّۃِ وَالدِّین عمر نَسَفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کَرَاماتُ الْاَوْلِیَاءِ حَقٌّ فَتَظھَرُ الْکَرَامَۃُ عَلٰی طَرِیْقِ نَقضِ الْعَادَۃِ لِلْوَِلِیِّ مِنْ قَطْعِ مُسَافَۃِ الْبَعِیْدَۃِ فِی الْمُدَّۃِ الْقَلِیْلَۃ ترجمہ:اولیاءاللہ کی کرامات حق ہیں، پس ولی کی کرامت خلافِ عادت طریقے سے ظاہر ہوتی ہے مثلاً طویل سفر کو کم وقت میں طے کر لینا۔

اس کی شرح میں حضرت امام سَعْدُالدّین تَفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جیسے حضرت سیّدُنا سلیمان علیہ السَّلام کے درباری حضرت آصف بن بَرخِیا رضی اللہ عنہ کا طویل مسافت (Long Distance) پر موجود تختِ بِلقیس کو پلک جھپکنے سے پہلے لے آنا۔(شرح عقائد نسفیہ ، ص316تا318)

بعدِ وصال بھی کرامات:اولیاء اللہ سے ان کے وصال (Death) کے بعد بھی کرامات ظاہر ہوتی ہیں جیسا کہ حضرت امام ابراہیم بن محمد باجُوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جمہور اہلِ سنّت کا یہی مؤقّف ہے کہ اولیائے کرام سے ان کی حیات اور بَعْدَالْمَمَات (یعنی مرنے کے بعد) کرامات کا ظہور ہوتا ہے (فِقْہ کے) چاروں مَذاہِب میں کوئی ایک بھی مذہب ایسا نہیں جو وِصال کے بعد اولیا کی کرامات کا انکار کرتا ہو بلکہ بعدِ وصال کرامات کا ظہور اَولیٰ ہے کیونکہ اس وقت نفس کَدُورَتَوں سے پاک ہوتا ہے۔(تحفۃ المرید،ص363)

مُنکرِ کرامات کا حکم:یہ عقیدہ ضروریاتِ مذہبِ اہلِ سنّت میں سے ہے لہٰذا جو کراماتِ اولیا کا انکار کرے، وہ بَدمذہب و گمراہ ہے چنانچہ امامِ اہلِ سنّت، امام احمد رضا خانرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کراماتِ اولیاء کا انکار گمراہی ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 14/324)

شَرح فقہِ اَکبر میں ہے:کراماتِ اولیا قرآن و سنّت سے ثابت ہیں، مُعْتَزِلَہ اور بِدْعَتِیوں کے کراماتِ اولیا کا انکار کرنے کا کوئی اعتبار نہیں۔(شرح فقہ اکبر، ص141)

کرامت کی قسمیں:حضرت علّامہ یوسف بن اسماعیل نَبْہَانِی رحمۃ اللہ علیہ نے کراماتِ اولیا کے موضوع پر اپنی کتاب”جامع کراماتِ اولیاء“ کی ابتدا میں کرامت کی ستّر سے زیادہ اقسام (Types) کو بیان فرمایا ہے۔اولیائے کرام سے ظاہر ہونے والی کرامتوں کی اَقسام اور ان کی تعداد کے متعلّق حضرت علّامہ تاجُ الدّین سُبْکی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:میرے خیال میں اولیائے کرام سے جتنی اقسام کی کرامتیں ظاہر ہوئی ہیں ان کی تعداد 100 سے بھی زائد ہے۔(طبقات الشافعیۃ الکبریٰ،2/78)

کراماتِ اولیا کی چند مثالیں: مُردَہ زندہ کرنا، مُردوں سے کلام کرنا، مادَر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دینا، مَشرِق سے مغرب تک ساری زمین ایک قدم میں طے کرجانا، دریا کا پھاڑ دینا،دریا کو خُشک کر دینا، دریا پر چلنا، نباتات سے گفتگو، کم کھانے کا کثیر لوگوں کو کِفایَت کرنا وغیرہ۔

قراٰن سے ثبوت:حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے پاس گرمی کے پھل سردیوں میں اور سردیوں کے پھل گرمی میں موجود ہوتے۔ (تحفۃ المرید،ص363) حضرت زَکَرِیَّا علیہ السَّلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا سے پوچھا:یہ پھل تمہارے پاس کہاں سے آئے؟ تو حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے جواب دیا:یہ اللہ پاک کی طرف سے ہیں چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے:﴿ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَۙ-وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًاۚ-قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَاؕ-قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ ترجمۂ کنزالایمان:جب زکریا اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے اس کے پاس نیا رزق پاتے کہا اے مریم یہ تیرے پاس کہاں سے آیا؟ بولیں وہ اللہ کے پاس سے ہے۔(پ3، اٰل عمرٰن:37)

اصحابِ کہف کا تین سو نو (309) سال تک بغیر کھائے پئے سوئے رہنا بھی (کرامت کی دلیل) ہے۔(تحفۃ المرید،ص363)

حدیث سے ثبوت:کُتُبِ اَحادیث میں کرامات پر بے شمار روایات موجود ہیں، بعض عُلَما و مُحَدِّثِین نے اس موضوع پر مستقل کتابیں تحریر فرمائی ہیں۔ایک روایت ملاحظہ فرمائیے: ہمارے پیارے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے صحابی حضرت عبدُاللہ رضی اللہ عنہ کا علمِ غیب دیکھئے کہ اپنی مَوت، نَوعِیَتِ مَوت، حُسنِ خاتِمَہ وغیرہ سب کی خبر پہلے سے دے دی۔ چنانچہ حضرت سیّدُنا جابِر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب غَزْوَۂ اُحُد ہوا میرے والد نے مجھے رات میں بُلا کر فرمایا: میں اپنے متعلق خیال کرتا ہوں کہ نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابہ میں پہلا شہید میں ہوں گا۔میرے نزدیک رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد تم سب سے زیادہ پیارے ہو۔ مجھ پر قرض ہے تم ادا کردینا اور اپنی بہنوں کے لئے بھلائی کی وَصِیَّت قبول کرو۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہم نے دیکھا صبح سب سے پہلے شہید وہی تھے۔

(بخاری،1/454،حدیث:1351مختصراً)

امیرُالمؤمنین حضرت سیّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ ایک صالح نوجوان کی قبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: اے فُلاں!اللہ پاک نے وعدہ فرمایا ہے کہ﴿وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ(۴۶)ترجمۂ کنزالایمان:اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جَنّتیں ہیں۔(پ27،الرحمٰن: 46) اے نوجوان!بتا تیرا قبر میں کیا حال ہے؟اس صالح نوجوان نے قبر کے اندر سے آپ کا نام لے کر پکارااوربُلَند آواز سے دو مرتبہ جواب دیا: میرے رب نے مجھے یہ دونوں جنّتیں عطا فرما دیں۔(حجۃ اللہ علی العالمین،ص612)

حضرت سیّدُنا سفینہ رضی اللہ عنہ کی کرامت بھی بہت مشہور ہے کہ یہ رُوم کی سَرزمین میں دورانِ سفر اسلامی لشکر سے بِچَھڑ گئے۔ لشکر کی تلاش میں جارہے تھے کہ اچانک جنگل سے ایک شیر نکل کر ان کے سامنے آگیا۔حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ نے شیر کو مخاطب کر کے کہا: اے شیر! اَنَامَولٰی رَسُولِ اللہِ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم یعنی میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا غلام ہوں، میرا معاملہ اِس اِس طرح ہے۔ یہ سُن کر شیر دُم ہِلاتا ہُوا ان کے پہلو میں آکر کھڑا ہوگیا۔ جب کوئی آواز سنتا تو اُدھر چلا جاتا، پھر آپ کے بَرابَر چلنے لگتا حتّٰی کہ آپ لشکر تک پہنچ گئے پھر شیر واپس چلا گیا۔

(مشکاۃ المصابیح ،2/400،حدیث:5949)

اللہ کریم کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


عاجزی اختیار کرو

Mon, 24 Feb , 2020
5 years ago

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:اِنَّ اللهَ اَوْحٰى اِلَيَّ اَنْ تَوَاضَعُوا حَتّٰى لَا يَفْخَرَ اَحَدٌ عَلَى اَحَدٍیعنی اللہ پاک نے میری طرف وحی فرمائی کہ تم لوگ تواضُع (عاجزی) اختیار کرو یہاں تک کہ کوئی بھی دوسرے پر فَخْر نہ کرے۔(مسلم، ص 1174، حدیث:7210)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث مبارکہ کی شرح میں فرماتے ہیں: یعنی عجز و اِنکسار اختیار کرو تاکہ کوئی مسلمان کسی مسلمان پر تکبّر نہ کرے نہ مال میں نہ نسب و خاندان میں نہ عزت یا جتھہ (طاقت) میں۔(مراٰۃ المناجیح، 6/ 506، 507) مِرْقات میں ہے:کسی پر فَخْر اور ظلم و زیادتی کرنا تکبُّر کے نتیجے میں ہوتا ہے نیز مُتَکَبِّر اپنے آپ کو ہر ایک سے بَرتَر سمجھتا ہے اور کسی کے تابع ہونے کو قُبول نہیں کرتا۔(مرقاۃ المفاتیح،8/635،تحت الحدیث:4898)

عاجزی کی تعریف: لوگوں کی طبیعتوں اور ان کے مقام و مرتبے کے اعتبار سے ان کے لئے نرمی کا پہلو اختیار کرنا اور اپنے آپ کو حقیر و کَمْتَر اور چھوٹا خیال کرنا عاجزی و اِنکساری کہلاتا ہے۔(فیض القدیر، 1/599، تحت الحدیث: 925)

عاجزی کے متعلق 5فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(1)عاجزی اختیار کرو اور مسکینوں کے ساتھ بیٹھا کرو اللہ کریم کی بارگاہ میں بڑے مرتبے کے حامِل بندے بَن جاؤ گے اور تکبّر سے بھی بَری ہوجاؤ گے۔(کنزالعمال،جزء3، 2/49، حدیث: 5722)

(2)علم سیکھو، علم کے لئے سکینہ (اطمینان) اور وَقار سیکھو اور جس سے علم سیکھواس کے لئے تواضُع اور عاجزی بھی کرو۔(معجمِ اوسط،4/342، حدیث: 6184)

(3)تم پر لازم ہے کہ عاجزی اختیار کرو اور بے شک عاجزی کا اَصْل مقام دل ہے۔(کنز العمال،جزء3، 2/49، حدیث: 5724)

(4)جواپنے مسلمان بھائی کے لئے تواضُع اختیار کرتا ہے اللہ کریم اسے بلندی عطا فرماتا ہے اور جو اُس پر بلندی چاہتا ہے، اللہ پاک اسے پستی میں ڈال دیتا ہے۔(معجمِ اوسط،5/390،حدیث:7711)

(5)مَجلس میں اَدنیٰ جگہ پر بیٹھنا بھی اللہ پاک کے لئے عاجزی کرنا ہے۔

(معجمِ کبیر، 1/114، حدیث: 205)

شہنشاہِ دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اِنکساری

(1)رسولِ پاک صاحبِ لَولاک کے خادِمِ خاص حضرت سیّدُنا اَنَس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مریض کی عیادت فرماتے، جنازے میں تشریف لے جاتے، دَرازگَوش (Donkey) پر سواری فرماتے اور غلاموں (Slaves) کی دعوت بھی قبول فرمایا کرتے تھے۔(شمائل ترمذی،ص190، حدیث: 315)

(2)نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جَو کی روٹی اور پُرانے سالن کی دعوت بھی دی جاتی تو آپ قبول فرمالیتے۔(شمائل ترمذی،ص190، حدیث:316)

(3)حجّۃُ الْوَداع میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک لاکھ سے زائد شمعِ نبوت کے پروانوں کے ساتھ اپنی مقدس زندگی کے آخری حج میں تشریف لے گئے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُونٹنی پر ایک پُرانا پالان تھا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جسمِ انور پر ایک چادر تھی جس کی قیمت چاردرہم کے برابر بھی نہ تھی۔(زرقانی علی المواھب،6/54)

”عاجزی و اِنکساری“ اَسلاف کی نظر میں

(1)اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:عاجزی اختیار کرنا افضل عبادت ہے۔(الزواجر،1/163)

(2)حضرت سیّدُنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: عاجزی یہ ہے کہ جب تم اپنے گھرسے نکلو تو جس مسلمان سے بھی ملو اسے اپنے آپ سے افضل جانو۔(سابقہ حوالہ)

(3)حضرت سیّدُنا فُضَیْل بن عِیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عاجزی یہ ہے کہ تم حق کے آگے جُھک جاؤ اور اس کی پیروی (یعنی اسےFollow) کرو اور اگر تم سب سے بڑے جاہل سے بھی حق بات سنو تو اُسے بھی قبول کرلو۔(سابقہ حوالہ)

(4)حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اصل عاجزی یہ ہے کہ تم دُنیوی نعمتوں میں اپنے آپ سے کمتر کے سامنے بھی عاجزی کا اظہار کرو حتی کہ تم یقین کرلو کہ تمہیں دنیوی اعتبار سے اُس پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور جو شخص دنیوی اعتبار سے تم پر فوقیت رکھتا ہے اپنے آپ کو اس سے بَرتر سمجھو حتی کہ یقین کرلو کہ اُس شخص کو دنیوی اعتبار سے تم پر کوئی فضیلت نہیں۔(احیاء العلوم، 3/419)

عاجزی کے انعام اور تکبّر کے انجام پر 3روایات

(1)رسولِ اکرمصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ معظّم ہے: جس نے اللہ پاک سے ڈرتے ہوئے تواضُع اختیار کی تو اللہ کریم اسے بلندی عطا فرمائے گا، جو خود کو بڑا سمجھتے ہوئے غُرُور کرے تو اللہ جَبّار اسے پَسْت کردے گا۔(کنزالعمال،جزء3، 2/50، حدیث: 5734)

(2) حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:ہر آدمی کے سَر میں ایک لگام ہوتی ہے جسے ایک فِرِشتہ تھامے ہوتا ہے جب وہ تواضُع اختیار کرتا ہے تو اللہ اس لگام کے ذریعے اسے بلند فرما دیتا ہے اور فِرِشتہ کہتا ہے: بلند ہوجا! اللہ تجھے بلند فرمائے۔ اور جب وہ (اَکَڑ کر) اپنا سَر اُوپر اٹھاتا ہے تواللہ اسے زمین کی طرف پھینک دیتا ہے اور فِرِِشتہ کہتا ہے : پَسْت ہو جا! اللہ تجھے پست کرے۔

(معجمِ کبیر، 12/169، حدیث: 12939)

(3) ایک بزرگ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے کوہ ِصَفا کے قریب ایک شخص کو خَچّر پر سوار دیکھا، دو لڑکے اس کے سامنے سے لوگوں کو دُور کر رہے تھے، پھر میں نے اسے بغداد میں دیکھا کہ وہ ننگے پاؤں اور حَسْرَت زَدَہ تھا، اس کے بال بہت بڑھے ہوئے تھے، میں نے اس سے پوچھا: اللہ پاک نے تیرے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ تو اس نے جواب دیا:میں نے ایسی جگہ رِفْعَت چاہی جہاں لوگ عاجزی کرتے ہیں تو اللہ پاک نے مجھے ایسی جگہ رُسوا کر دیا جہاں لوگ رِفْعَت پاتے ہيں۔(الزواجر، 1/164)

پیارے اسلامی بھائیو!ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی زندگی میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکی تعلیمات کے مطابق عاجزی و اِنکساری پیدا کریں اور تکبّر کی نَحُوست سے دُور رہیں۔

تُو چھوڑ دے تکبر ہو بھائی میرے عاجز

چھائی ہے اس پہ رحمت کرتا ہے جو تواضُع


رسول ِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک حدیث ِ پاک میں سات قسم کے افراد کے لئے فرمایا کہ یہ شہید ہیں ۔ ان میں سے ایکذَاتُ الجَنْب (یعنی نَمُونِیا میں مبتلا ہو کر مرنے والا ) بھی ہے۔)[1]( حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث میں بیان کردہ بیماری کے متعلّق فرماتے ہیں:جس میں پسلیوں پر پُھنْسیاں نمودار ہوتی ہیں، پسلیوں میں درد اور بُخار ہوتا ہے اکثر کھانسی بھی اُٹھتی ہے ۔)[2](

نَمُونِیا/ذاتُ الجَنْب:یہ ایک ہی بیماری کے دو نام ہیں۔پھیپھڑوں میں انفیکشن ہونےکی وجہ سےسوزش ہوتی ہے جسے نمونیا (Pneumonia) کہا جاتاہے۔ پھیپھڑوں میں وَرَم ہونے کی وجہ سے وہاں ہَوا جانے میں مشکل ہوتی ہے اور مریض کو سانس لینے میں سخت تکلیف ہوتی ہے۔اس کی وجہ سے پھیپھڑوں میں موجود ہوا کی تھیلیاں متأثّر ہوتی ہیں جنہیں Alveoliکہا جاتا ہے۔اس میں کبھی ایک پھیپھڑا متأثّر ہوتا ہے اور کبھی دونوں، سوزِش اکثر پھیپھڑوں کے نچلے حصّے میں ہوتی ہے۔اس مرض میں ہر عمْر کےافراد مُبتَلا ہو سکتے ہیں خاص کر بچّے اور بوڑھے افراد اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ موسمِ سرما میں اس کے خطرات زیادہ بڑھ جاتے ہیں اورنمونیا میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد زیادہ ہوجاتی ہے۔بعض مَمالک میں دودھ پیتےاور پانچ سال سے کم عمر والے بچّوں کی اَمْوات کی بڑی وجہ نمونیا ہے۔ نمونیا کی اقسام اوراسباب:اس کی تین قسمیں ہیں۔(1)بیکٹریل نمونیا (2)وائرل نمونیا(3)فنگل نمونیا۔اس بیماری کے لاحق ہونے کے بہت سے اَسباب (Reasons) ہیں ان میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے: (1)پھیپھڑوں اور سانس کی نالی میں انفیکشن ہونا (2)سردی لگنا (3)کھانسی اور گلا خراب ہونا (4)گیلے کپڑے دیر تک پہنے رہنا (5) دیر تک سرد ہوا میں رہنا (6)سگریٹ اورتمباکو استعمال کرنا (7)ورزش یا کھیل کے بعدسرد گھاس پر لیٹ جانا(8)جانور باندھنےکی جگہ زیادہ دیر تک رہنا(9)نیز دمہ، شوگر،دل کے امراض (Heart Diseases)،خَسْرہ، چیچک، انفلوئزا اورگُردوں میں سوزِش کی وجہ سے بھی نمونیا ہوسکتا ہے۔نمونیا کی علامات:اس کی علامات میں سے(1)نزلہ زکام ہونا(2) کھانسی کے ساتھ بلغم آنا (3)سانس لینے میں دُشواری ہونا (4)تیز بخار،سینہ اور پیٹ میں درد ہونا (5)زیادہ پسینے آنا(6)جِلد کی رنگت کا نیلا پڑ جانا(7)بلڈ پریشر کا کم ہوناوغیرہ۔پانی کی مقدار بڑھائیں:بچّوں کو پانی زیادہ پلانا چاہئے کہ اس سےانفیکشن ٹھیک ہونا شروع ہوجاتا ہےاورصحت میں بہتری آجاتی ہے البتّہ اس صُورت میں بُھوک کم لگتی ہے۔ حفاظتی ٹِیکا:جن بیماریوں سے بچاؤ کے لئے حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں ان میں سے ایک نمونیا بھی ہے۔بچّوں کو حفاظتی ٹیکا لگوانے کے کئی فوائد ہیں کہ نمونیا سمیت دیگر کئی امراض سے حفاظت ہوسکتی ہےبعض لوگ سہولت ہونے کے باوجود بھی اپنے بچّوں کو ٹیکا نہیں لگواتے۔ انہیں چاہئے کہ بچّوں کو ٹیکا ضرورلگوا لیا کریں کہ اس کے ذریعے نمونیا پر قابو پانا ممکن ہوسکتاہے۔حفاظتی ٹیکا نہ لگوانے کے نقصانات:ٹیکا نہ لگوانے کے چار نقصانات ذکر کئے جاتے ہیں:(1)بچّہ کچھ کھا پی نہیں سکتا کیونکہ اس کی ساری توانائی سانس لینے میں صَرف ہو رہی ہوتی ہے (2)بُخار ہو جاتا ہے (3)آکسیجن کی کمی سےپھیپھڑے(Lungs) بھی متأثّر ہوجاتے ہیں(4)دماغ کو آکسیجن نہیں پہنچتی تو دماغ کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔نمونیا والوں کی غذا: نمونیا کے علاج کے بعد مریض بالخصوص بچّے کوپہلے کی نسبت زیادہ اور بہتر خوراک دینی چاہئے کیونکہ نمونیا میں بچّہ کھاتا پیتا نہیں اور جسم کو توانائی چاہئے۔ بہتر یہ ہے کہ مریض کو سبزیاں اور ایسی غذائیں زیادہ دیں جن میں وٹامن A ہوکیونکہ وٹامنAانفیکشن کو درست رکھتاہے۔بعض لوگ بیماری میں بچّوںکو کھانا نہیں کِھلاتے انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے بلکہ کھانا کِھلاناچاہئے۔نمونیا اور ماں کا دودھ:شِیر خوار بچّوں(Infants) کو ماں کادودھ پلائیے کیونکہ ماں کا دودھ بچّے کے لئے اللہ پاک کی بڑی نعمت ہے۔ اس سے بچّے کی صحت بھی اچّھی ہوجاتی ہے اور ماں کےدودھ میں اللہ کریم نے ایسی طاقت رکھی ہے جو نمونیا سمیت دیگر کئی امراض کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بچّوں کی حفاظت کیجئے:والدین بالخصوص ماؤں کو چاہئے کہ ایسی جگہوں پر جہاں دُھواں ہوخصوصاً باورچی خانے وغیرہ میں بچّوں کو لےکر نہ جائیں اور انہیں جانے بھی نہ دیں۔اسی طرح بچّوں کے قریب سگریٹ بھی نہ پی جائے کیونکہ سگریٹ اور دھوئیں سےپھیپھڑوں پر بُرا اثر پڑسکتااور نمونیا ہوسکتاہے۔وقت پر علاج نہ کروانا:بیماری کوئی بھی ہو شروع ہی میں اس کے علاج کا اہتمام کرنا چاہئے،اسی طرح نمونیا کے علاج میں بھی کوتاہی ہرگز نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وقت پر یا مستند ڈاکٹر سےعلاج نہ کروانے سے جان جانے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ نمونیا کا گھریلوعلاج ایک عدد دیسی انڈے کی زردی، 10 تولے شہد یعنی 60گرام اورزعفران دورتّی یعنی ایک گرام کا چوتھائی حصّہ لیجئے۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ زعفران کو پِیس کر شہد میں شامل کیجئے پھر انڈے کی ز ردی اس میں ملاکر اچّھی طرح مکس کر لیجئے۔ دن میں تین سے چار بار بچّوں کو دودھ یاپانی کےساتھ آدھی چمّچ دیجئے۔ دو سال سے کم عمْر بچّوں کو چوتھائی چمّچ دیجئے، اِنْ شَآءَ اللہ نمونیا کا خاتمہ ہوجائے گا۔ خودسے اپنا علاج مت کیجئے حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اہلِ عَرَب کو اکثر صَفْراوی بُخار آتے تھے جن میں غسل مُفید ہوتا ہے۔ ہم لوگوں کو ماہرطبیب کے مَشوَرے کے بغیرغسل کے ذَرِیعے بُخار کا علاج نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ ہم غیرِعرب ہیں،ہمیں اکثر وہ بُخار ہوتے ہیں جن میں غسل نقصان دہ ہے، اس سے نمونیا کا خطرہ ہوتا ہے۔ مرقات میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے حدیثِ پاک کا ترجمہ پڑھ کربُخار میں غسل کیا تو اُسے نمونیا ہو گیا اور بڑی مشکل سے اُس کی جان بچی۔)[3](

نوٹ: ہر دوا اپنے طبیب (ڈاکٹریاحکیم)کے مشورے سے استعمال کیجئے۔ اس مضمون کی طبّی تفتیش مجلسِ طبّی علاج (دعوتِ اسلامی) کے ڈاکٹر محمد کامران اسحٰق عطّاری اور حکیم رضوان فردوس عطّاری نے  فرمائی ہے۔



([1])ابوداؤد ،3/252،حدیث:3111

([2])مراٰۃ المناجیح، 2/420

([3])مراٰۃ المناجیح، 2/429،430 ماخوذاً