محرّمُ الحرام 1331ھ کی ایک مبارک شب تھی ،ایک صالح جوان ،صاحبِ بصیرت عالم دین مدینہ شریف میں محوِاِستراحَت (یعنی سورہے) تھے،خواب میں کیا دیکھتے ہیں کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ،حضراتِ شیخین کریمین یعنی حضرت ابوبکرصدیق(1) اور حضرت عمرفاروقِ اعظم (2)رضی اللہ عنہما جلوہ فرماہیں، تھوڑی دیربعد حضراتِ شیخین تشریف لے جاتے ہیں ،یہ تنہانبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس رہ جاتے ہیں، آگے بڑھ کر نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےمبارک ہاتھ پکڑکر اپنےسینےپر رکھتے ہوئےچلنےلگتےہیں اورعقائدسے متعلق یکے بعددیگرے تین سوالات عرض کرتے ہیں،نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہرسوال کے بعد انہیں جواب عطافرماکر آخرمیں یہ ارشادفرماتے ہیں کہ ’’جواحمدرضا خاں کہتے ہیں وہ حق وصِدق (سچ)ہے۔‘‘یہ خواب دیکھنے والے اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ(3) سے اتنا متاثرہوئے کہ مدینہ شریف میں ہی نیت کرلی کہ میں اعلیٰ حضرت کے پاس بریلی شریف(4) ضرورجاؤں گا اورآپ کی زیارت کروں گا۔(5) پھر جب آپ ہند آئے تو اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضرہوئے،شرفِ تلمذحاصل کرکے اجازتِ حدیث اورسلسلۂ قادریہ رضویہ میں خلافت سے سرفراز ہوئے(6) ۔ یہ عظیم ہستی ضلع چکوال (پنجاب، پاکستان) (7) کےگاؤں اوڈھروال(8) اورچکوڑہ (9) کے علامہ قاضی محمدنورقادری صاحب ہیں۔جن کا مختصرتذکرہ آنے والی سطور میں ملاحظہ کیجئے:

ولادت: خلیفۂ اعلیٰ حضرت،عالمِ رَبَّانی حضرت مولانا قاضی ابوالفخر محمد نور قادری سُنی حنفی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 13 رجب 1307ھ مطابق 5مارچ 1890ء موضع اوڈھروال (ضلع چکوال، پنجاب، پاکستان) کےایک علمی کہوٹ قریشی گھرانے میں ہوئی۔والدِ گرامی حضرت مولانا قاضی عالم نور قریشی اور دادا حافظ محمد سرداراحمد قریشی رحمۃ اللہ علیہما تھے۔ آپ کی ذاتی ڈائری میں تحریر کردہ خاندانی شجرے کے مطابق آپ کا سلسلۂ نسب نبیِ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچاجان حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ (10) سے جا ملتاہے۔(11)

علمی خاندان کےچشم وچراغ:آپ کاخاندان کئی پشتوں سے علم وفضل کا گہوارہ ہے، آپ کےداداجان حضرت علامہ حافظ محمد سردار احمد قریشی صاحب بحرالعلوم حافظ محمدعظیم پشاوری (12)رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد،جیّدعالمِ دین،محقق ومدقّق اور استاذُ العلماتھے۔ شیخ طریقت خواجہ حافظ غلام نبی للہی (13)،عالمِ شہیر مولانا حافظ عبدُالحلیم کریالوی (14) اوران کے بیٹے مولانا عالم نورقریشیرحمۃ اللہ علیہم آپ کےہی شاگردہیں۔(15)

تعلیم وتربیت: کمزور بینائی کے باوجود آپ کوحصولِ علم کابہت شوق تھا،والدِگرامی حضرت مولاناقاضی عالم نورصاحب سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے علاقے کے جید علما سے استفادہ کیا۔اترپردیش ہندبھی تشریف لےگئے، شاہجہانپور(16) اور دیگر شہروں میں علمِ دین حاصل کیا، آپ بہت ذہین وفطین تھے ۔دیگرعلوم کے ساتھ ساتھ عربی زبان پر کامل دسترس رکھتےتھے اور اپنے زمانے کے علمائے کرام سے عربی زبان میں مراسلت کیا کرتے تھے۔(17)

حرمین شریفین میں حاضری:شوال المکرّم 1329ھ مطابق اکتوبر 1911ء کو حرمین طیبین حاضرہوکرحج کی سعادت سے بہرہ ورہوئے۔ قطبِ مکۂ مکرمہ ، شیخُ الدلائل حضرت مولانا شاہ عبد الحق صدیقی محدث الہ آبادی نقشبندی حنفی مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ (18) سے جملہ علوم اور اَورَاد و وَظائف کی اجازت حاصل کی۔ اس کے بعد تین سال مدینہ منورہ میں مقیم رہے اورعلمائے مدینہ سے خوب استفادہ کیا۔(19) یہاں آپ ’’صوفی‘‘کےلقب سے معروف تھے۔آپ نے1330ھ کو مدینہ شریف میں حضرت مولاناسیّداحمدعلی رامپوری(20) اورحضرت مولانا کریم اللہ پنجابی(21)رحمۃ اللہ علیہما سےملاقاتیں کیں، انہوں نے آپ کی دعوت بھی کی ،ان حضرات نےانہیں اَلدَّوْلَۃُ الْمَکِّیَّۃ کےبعض مضامین سنائے،جسےسن کرآپ خوش ہوئے، مولانا کریم اللہ صاحب نےانہیں تقریظ لکھنےکا کہا،آپ نےفرمایا کہ میں وطن لوٹ رہا ہوں وہاں جاکراعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سےملاقات بھی کروں گا اوراچھے اندازسےتقریظ بھی لکھوں گا۔(22) علامہ احمدعلی صاحب نے علامہ شیخ یوسف نبہانی رحمۃ اللہ علیہ(23) کی کتاب ’’جواہرُالبحار‘‘ (24) اپنے دستخط کے ساتھ آپ کو عطافرمائی۔(25)

حرمین شریفین سے واپسی: ذیقعدۃ الحرام 1331ھ مطابق اکتوبر 1913ء میں نبیٔ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے بذریعہ خواب آپ کو حج کرنے اور اپنے اہل وعیال کی طرف لوٹنے کا حکم فرمایا۔چنانچہ حج سے پہلے آپ نےمدینہ شریف کوالوداع کہتے ہوئے ایک دردبھرافِراقیہ قصیدہ لکھا جوآپ کی ڈائری میں موجودہے۔وطن واپس آکرآپ کی مولاناکریمُ اللہ صاحب سےمراسلت جاری رہی مگر اَلدَّوْلَۃُ الْمَکِّیَّۃ پر تقریظ لکھ سکےیا نہیں اس کی صراحت نہیں مل سکی۔ البتہ اس موضوع پر ایک مستقل کتاب النیرالوضی فی علم النبی تحریر فرمائی۔ (26)

بیعت واجازت: ابتدائی عمر میں سلسلۂ چشتیہ کےشیخ طریقت سیّدصاحب کی صحبت یابیعت کا شرف پایا۔ (27) آپ کو آستانہ عالیہ قادریہ گیلانیہ بغداد شریف کے سجادہ نشین حضرت شیخ سیّدعلی قادری گیلانی سے بھی سندِاجازت حاصل تھی۔حرمین طیبین سے واپسی پر بریلی شریف حاضرہوئے اور اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہسے شرفِ تلمذحاصل کرکےاجازت حدیث اورسلسلۂ قادریہ رضویہ میں خلافت سے سرفراز ہوئے، (28) اعلیٰ حضرت نے آپ کو جو الاجازات المتينه لعلماء بكة والمدينة کا نسخہ اپنے دستخط کے ساتھ عطا فرمایا وہ ان کے ورثا کے پاس محفوظ ہے۔

اس پر علامہ محمدنورقادری صاحب کی یہ تحریر ہے: یقول الفقیر كان اللہ تعالی له ان أوّل إجازتی فی ھذہ "الإجازات المتینة" قول مولانا و شیخنا صاحب الحجة القاھرة مؤید الملة الطاھرة مؤلّف التألیفات النافعة عالم أهل السنّة والجماعة نخبة أهل العلم والعرفان الشیخ المفسر المحدّث الفقیه الحافظ الحاج أحمد رضا خان البریلوی عاشق النبی الآمر(صلی اللہ تعالی علیه وعلی آله وسلم)سلمہ ربہ القوی بسم اللہ الرحمن الرحیم.فی ص ۱۲ الی قوله: وھو یرید العدوان من بعد فی ص۱۳۔ وبعده قوله: یامولاناالفاضل الحسن الشمائل ص۱۷ ۔لکن ۔۔۔الجلیلة أي: قول ال۔۔۔۔وآخر کل۔۔۔اتفقت العبارات ۔۔۔منھا وغیرھا الی قوله آخر الاجازة والحمدللہ رب العالمین ص۲۳ .منھا وقد أجزت بھا وبکلّ ما أجازنی به مولانا الشیخ العارف محمد عبد الحق المکی وغیرہ من المشائخ رحمھم اللہ المنعم وکلّ من کان أهلاً لذلك من أولادي وأقاربي بشرطها المذكور في محلّه، ربنا تقبل منّا إنّك أنت السميع العليم وصلّى الله تعالى وسلّم وعلى سيّدنا محمد وآله الكريم.كتبه بقلمه الفقير إلى مولاه محمد نور السنّي الحنفي القادري ساكن أوہڈر وال ضلع جهلم، كان الله تعالى له بمحمد النبي الآمر صلّى الله تعالى عليه وآله وسلّم يوم الأربعاء ٢٣ رجب المرجب ١٣۳۲۔

یعنی فقیر(اللہ پاک اس سے راضی ہو) کہتا ہےکہ ہمارے سردار اور شیخ ، دلائلِ قاہرہ دینے والے، پاکیزہ دین کے مددگار،لوگوں کو فائدہ پہنچانے والی کتابوں کے مصنف، اہل سنّت وجماعت کے عالم، اہلِ علم ومعرفت میں ممتاز، مفسر ،محدث ، فقیہ ،حافظ، حاجی احمد رضا خان بریلوی ، نیکیوں کا حکم فرمانے والےاور برائیوں سے روکنے والے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سچے عاشق ، اللہ پاک انہیں سلامت رکھے۔ انہوں نے اپنی اس کتاب ’’الاجازات المتینه‘‘ میں مجھے پہلی اجازت ان مقامات پر ان الفاظ سے دی:صفحہ 12: ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ سے صفحہ 13: ’’ وھو یرید العدوان من بعد‘‘ تک۔اس کے بعد صفحہ 17 پر ان کے اس قول: ’’ یامولاناالفاضل الحسن الشمائل ‘‘سے ان کی آخری اجازت تک، الحمد للہ رب العلمین صفحہ 23 تک۔ بیشک (الاجازات المتینہ میں) جو مجھے اجازتیں ملی ہیں اورمولانا شیخ عارف محمد عبد الحق مکی وغیرہ مشائخ کرام رحمۃ اللہ علیہم نے جو اجازتیں دی ہیں ان سب کی ان شرائط پر جو اس کے مقام پر مذکور ہیں ، اپنی اولاد اور قریبی لوگوں میں سے اہل افراد کو اجازت دیتا ہوں ، اے اللہ! تو ہم سےاس کوقبول فرما بیشک تو ہی سب سے بہتر سننے اور جاننے والا ہے اور اللہ پاک درود وسلام نازل فرمائے۔ ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی عزت والی آل پر ۔اپنے پروردگار کامحتاج اوڈھروال ضلع جہلم (29) کے رہائشی محمد نور سنی حنفی قادری نے 23رجب 1332ھ ہجری کو اسے اپنے قلم سے لکھا ہے، اللہ پاک نیکیوں کا حکم فرمانے والے اور برائیوں سے روکنے والے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکےصدقےاس سے راضی ہو۔(30) اس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کو یہ اجازت ذیقعدۃ الحرام 1331ھ مطابق اکتوبر 1913ء کے بعد 23رجب 1332ھ مطابق 17جون 1914ء سے پہلےحاصل ہوئی ۔

علمی مقام :آپ عالمِ جلیل،مفتیِ اسلام،صوفی ِباصفا ،شاعراورمصنف تھے۔ عربی ،اردواورپنجابی میں نظم ونثرمیں کامل دسترس تھی ،علمائے اہلسنت سے عربی میں مراسلت بھی فرماتے تھے۔جن علماسے آپ کا رابطہ تھا ان میں سے حضرت قبلہ عالم پیرمہرعلی شاہ گولڑوی(31) حضرت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری(32) ،صدرُالافاضل علامہ نعیمُ الدّین مرادآبادی(33) اورحضرت علامہ فیضُ الحسن فیض(34) رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں۔(35)

خدمات دین ،تصنیف وتالیف:آپ نے اپنی زندگی کو علمِ دین کے حصول اوراس کی اشاعت کے لیے وقف کر رکھا تھا ۔ آپ نے عربی، اردو اور پنجابی میں نظم ونثرپر مشتمل 15 کتب تصنیف کیں ،جن کے نام یہ ہیں:

(1) دفع الجہال عن تکرار الجماعة(عربی )، (2)دفع الجہال عن تکرار الجماعة (اردو)، (3) المباحثۃ المعمدة قضاء السنة قبل الجمعة (اردو) (4) ردّ الشہاب علی المفتری الکذاب (اردو )، (5)مجموعہ المورد الروی فی المولا النبی (پنجابی منظوم)،(6)المراة الحلیہ للحلیة النبویة (پنجابی،منظوم)،(7) سلوک اکمل السبیل یا التوجہ الی افضل الرسول (پنجابی ، منظوم)، (8) احسن النغم فی مدح الغوث الاعظم (پنجابی منظوم) ۔(9) الخزی المزید (اردو، مطبوعہ) ، (10) التوضیحات لمافی اشعة اللمعات (عربی) (11) قول الکلم فی ظہر الجمعة(عربی مسودہ)، (12) النیرالوضی فی علم النبی(عربی مسودہ)،(13) قہدالاھوتی(عربی مسودہ)، (14) ضرب الحدیدعلی راس الرشید (عربی مسودہ) ، (15)الدود الجلیل لتاویلات الذلیل (عربی مسودہ)۔ (36)

علماسے روابط :آپ برصغیرپاک وہندکے کئی جیدعلماسے رابطے میں تھے ۔اعلیٰ حضرت امام احمدرضا رحمۃ اللہ علیہ کی جوكتاب شائع ہوتی وہ بریلی شریف سےآپ کوبھیج دی جاتی ۔(37) صدرُالافاضل حضرت علامہ مولانا سیدمحمدنعیمُ الدّین مرادآبادی کے ساتھ عربی میں مراسلت رہی۔آپ کے کئی فتاویٰ اس وقت کےمشہور ہفتہ روزہ سراجُ الاخبار(38) میں شائع ہوئے ۔(39)

سیرت وعادات:آپ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سچے عاشق،متبع سنت،صالح کردارکےمالک،شرم وحیاکے پیکراوروضع قطع میں سنّتِ رسول کے پابندتھے۔(40)

شادی واولاد:آپ کی شادی موضع چکوڑہ(ضلع چکوال)کے ایک علمی خاندان میں ہوئی ۔اس کے بعدآپ مستقل چکوڑہ میں رہائش پذیر ہوگئے ۔ آپ کے بیٹے حضرت مولانا قاضی حکیم احمدچکوڑوی طب وحکمت میں مشہور، اورآپ کے علمی جانشین تھے۔اسی طرح آپ کے خاندان کے مولانا حکیم محمد فاروق صاحب بہترین حکیم اورجامع مسجدچکوڑہ کے امام ہیں۔(41)

وفات ومدفن:1914ء کے آخراور1915ء کےشروع میں چکوال میں طاعون کی بیماری پھیل گئی، گھر کے گھر ویران ہوگئے،آپ کا وصال اسی طاعون کی بیماری میں صفرُالمظفریاربیعُ الاول 1333ھ مطابق جنوری 1915ء (42) کوکلمہ شہادت پڑھتےہوئے ہوگیا ،آپ کےخاندان کی چھ عورتیں بھی اسی دن فوت ہوئیں ،سب کا جنازہ اکٹھاہوا۔ (43) آپ کو قبرستان میاں صاحب بابا عبدالشکور(رحمۃ اللہ علیہ)موضع اوڈھروال(44) میں دفن کیا گیا۔جہاں آج بھی آپ کامزارموجودہے۔(45)

علامہ محمدنورقادری صاحب کے مزارپرحاضری کے احوال: راقم کچھ سالوں سے خلفائے وتلامذہ اعلیٰ حضرت کی معلومات ،ان کے وابستگان سے ملاقات اوران کے مزارات کی زیارات میں مصروف ہے، حضرت علامہ مفتی قاضی محمدنورقادری صاحب کےبارے میں سب سےزیادہ معلومات مصنفِ کتب کثیرہ ومنتظم اعلیٰ بہاء الدین زکریالائبریری چکوال پیرزادہ عابدحسین شاہ صاحب (46)سےحاصل ہوئیں ،ان سے ملاقات کا اشتیاق رہا، دعوت اسلامی کی برکت سے چنداسلامی بھائیوں کے ہمراہ ان سے دوملاقاتیں ہوچکی ہیں۔ ایک سفرجو راولپنڈی سےمشہورپنجابی صوفی شاعر محمدبخش قادری(47) کے شہرکھڑی شریف اور میرپورکشمیرتک ہواجس میں مبلغ دعوت اسلامی محمدحمادعطاری اورمحمدخورشیدعطاری صاحب میرے ہمراہ تھے،یہ 7جنوری 2016ء (27ربیع الاول1437ھ)کی خوشگوارصبح تھی،خورشیدبھائی نے پُرتکلف ناشتہ کروایا،انہیں کی گاڑی میں راولپنڈی سے بذریعہ موٹروےچکوال کے لیے روانہ ہوئے، غالبادوگھنٹے میں چکوال پہنچ گئے، پیرزادہ عابدصاحب انتظارمیں تھے،مرکزی ڈاکخانہ چکوال کےقریب حضرت مولانا ڈاکٹرعبدالواحد الازہری صاحب(48) کی مسجدحسینیہ حنفیہ میں ڈاکٹرصاحب اورعابدصاحب سے ملاقات ہوئی، الاجازات المتينه لعلماء بكة والمدينة کاعلامہ محمدنورصاحب کا وہ ذاتی نسخہ دیکھا جو انہیں اعلیٰ حضرت سے حاصل ہواتھا۔اس کے بعدایک اسکول میں جانا ہوا جس کے ایک ٹیچرچکوڑہ کےتھے یہیں علامہ محمدنورصاحب کی بیاض کی زیارت کی، ان ہی کےہمراہ چکوڑہ گاؤں جانا ہوا، علامہ محمدنور صاحب کےخاندان کے کئی افرادسےملاقات ہوئی اورعلامہ صاحب کا ذکرخیرہوتارہا ۔ علامہ صاحب کی مسجدکے امام وخطیب صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جو غالباًآپ کے پوتے کے بیٹے تھے ۔ان کے ساتھ چکوڑہ قبرستان میں آپ کےمزارپرانوارکی زیارت کی ، ہمیں کھڑی شریف میں ہونے والے دعوت اسلامی کے ہفتہ واراجتماع میں پہنچنا تھا اس لیے بعدِظہروہاں سے روانہ ہوئے۔ راستے میں شدید پارش اورچکوال تاجی ٹی روڈ راستے کی خرابی کی وجہ سےتاخیر ہوگئی ،جب کھڑی شریف پہنچےتو بارش کا سلسلہ جاری تھا،بعدِنمازمغرب ہفتہ واراجتماع میں بیان کرنے کی سعادت ملی۔ اس کے بعد کھانا کھایا اورمیرپورکے لیے روانہ ہوگئےاور ایک گھنٹے میں وہاں پہنچ گئے،مقامِ قیام پر پہنچ کر حمادبھائی اورخورشیدبھائی راولپنڈی روانہ ہوگئے ۔

(کتبہ: ابوماجد محمد شاہد عطاری مدنی عفی عنہ، 8جمادی الاولیٰ 1442ھ مطابق 24دسمبر2020ء، بمقام عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی)

حواشی ومراجع

(1)۔ ام المؤمنین حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بنوتمیم کے چشم و چراغ، قریش کی مُقتدِر شخصیت، اَفْضَلُ الْبَشَر بَعْدَ الْاَنْبِیَاءِ ، سفر و حضر میں سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رفیق اور مسلمانوں کے پہلے خلیفہ ہیں۔ ولادت واقعۂ فیل کے تقریباً ڈھائی سال بعدمکّہ شریف (عرب شریف) میں ہوئی۔ 22 جُمادَی الاُخریٰ 13 ہجری کو مدینۂ منوّرہ میں وِصال فرمایا اور حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پَہلو میں دفن ہوئے۔ (تاریخ الخلفاء، ص 21تا 66)

(2)۔ امیرُالمؤمنین حضرت سیّدنا ابوحفص عمر فاروقِ اعظم عِدَوِی قرشی رضی اللہ عنہ کی ولادت واقعۂ فیل کے 13سال بعد مکۂ مکرمہ میں ہوئی۔ آپ دورِ جاہلیت میں علمِ انساب، گھڑ سواری، پہلوانی اور لکھنے پڑھنے میں ماہر اور قریش کے سردار و سفیر تھے، اعلانِ نبوت کے چھٹے سال مسلمان ہوئے۔ آپ جلیلُ القدر صحابی، دینِ اسلام کی مؤثر شخصیت، قاضیِ مدینہ، قوی و امین، مبلغ عظیم، خلیفۂ ثانی، پیکرِ زہد و تقویٰ، عدل و انصاف میں ضربُ المثل اور عظیم منتظم و مدبر تھے۔ آپ کے ساڑھے 10سالہ دورِخلافت میں اسلامی حدود تقریباً سوا 22 لاکھ مربع میل تک پھیل گئیں۔ آپ نے یکم محرم 24ھ کو مدینہ شریف میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ (تاریخ الخلفاء، ص 86تا117، العبر فی خبر من غبر، 1/20)

(3)۔ اعلیٰ حضرت ،مجدددین وملت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1272ھ کو بریلی شریف(یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340 ھ کو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجع خاص وعام ہے۔آپ حافظ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے ماہر،تاجدارفقہاو محدثین، مصلح امت، نعت گوشاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریبا ایک ہزارکتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب وعجم اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن،فتاویٰ رضویہ (33جلدیں)، جد الممتارعلی ردالمحتار(7 جلدیں،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی) اور حدائق بخشش آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ،282، 301)

(4)۔ بریلی Bareilly)):یہ بھارت کے صوبے اترپردیش میں واقع ہے، دریائے گنگا کے کنارے یہ ایک خوبصورت شہر ہے۔ دریا کی خوشگوار فضاء نے اس کے حسن میں موثر کردار ادا کیا ہے۔

(5)۔ علماء عرب کےخطوط فاضل بریلوی کےنام،111

(6)۔ تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،120

(7)۔ ضلع چکوال:چکوال پاکستان کے صوبے پنجاب کے شمالی حصے میں واقع ہے، دار الحکومت پاکستان اسلام آباد سے جانب جنوب یہ ایک سوبائیس (122)کلومیٹرفاصلے پر ہے، یہ آثار ِ قدیمہ کی جنت ہے، یہاں دو کروڑ 20 لاکھ پرانے آثار بھی دریافت ہوئے ہیں، موجودہ چکوال شہر آٹھویں صدی عیسوی میں ماسٹر منہاس قوم نے آباد کیا۔انگریزی دور میں یہ ضلع جہلم کا حصہ تھا۔1985 میں اسے ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔ اس وقت ضلع چکوال چھ ہزار پانچ سو چوبیس (6524) مربع كلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے، یہ پانچ تحصیلوں چکوال، کلر کہار، چوآسیدن شاہ، تلہ گنگ اورلاوہ جبکہ 68 یونین کونسلوں پر مشتمل ہے ، یہاں کی ایک تعداد پاک فوج میں ملازم ہے، یہاں کی ریوڑیاں بہت مشہور ہیں ،مشہور نعت گو شاعر خالد محمود مرحوم کا تعلق بھی چکوال سے ہے ان کی وہ نعت جس کا مطلع ہے یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے، بہت مقبول ہے، موجودہ آبادی تقریبا ایک لاکھ ہے، ۔(نگر نگر پنجاب 131 تا 136)ر اقم کے سسرال ملوٹ (تحصیل کلر کہار ضلع چکوال )کے رہنے والے ہیں۔

(8)۔ اوڈھروال: Odherwal) پاکستان کا ایک پاکستان کی یونین کونسلیں جو ضلع چکوال میں واقع ہے۔ یہ تحصیل چکوال کا قصبہ ہے،شہرچکوال سے جانب مغرب ساڑھےچارکلومیٹرفاصلے پرہے۔تیرہویں اورچودھویں صدی ہجری میں یہ دینی علوم وفنون حاصل کرنے کا مرکز تھا ۔

(9)۔ چکوڑہ: Chakora) پاکستان کا ایک گاؤں جو پنجاب ضلع چکوال میں واقع ہے۔ جو یونین کونسل اوڈھروال میں ہے،یہ چکوال شہر سےجانب مغرب ڈیڑھ میل(تقریبا 6کلومیٹر) برلب تلہ گنگ روڈ واقع ہے۔جب 1985ء میں چکوال کو ضلع کا درجہ دیا گیا تو چکوڑہ میں غازی آباد کمپلکیس بنایا گیا جو جدید و قدیم طرزِ تعمیر کا مرقع ہے،یہ چکوال تلہ کنگ روڈ کے جنوبی کنارے واقع ہے۔(نگر نگر پنجاب ، 133)

(10)۔نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچا جان حضرتِ سَیِّدُنا ابوالْفَضْل عبّاس ہاشِمی قُرَشِی مکّی رضی اللہ عنہ عامُ الِفیل سے 3 سال قبل مَکَّۂ مُکَرَّمہ میں پیدا ہوئے اور 14 رجب 32ھ کو مدینۂ منوّرہ میں وِصال فرمایا، تدفین جَنّتُ الْبَقِیع میں ہوئی۔(تاریخِ مدینہ دمشق، 26/273،379)

(11)۔ تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،118

(12)۔ بحرُالعلوم حضرت علّامہ حافظ محمد عظیم واعظ پشاوری رحمۃ اللہ علیہ کی وِلادَت 1205ھ اور وِصال 24جُمادَی الاُولٰی 1275ھ کو فرمایا، عَربی، فارسی، پَشتو اور پنجابی زبان میں عُبور رکھنے والے جَیِّد عالمِ دین، واعظِ شِیریں بیان، نقشبندی بزرگ، استاذُالعلماء اور خطیب و امام جامع مسجد خواجہ مَعروف علاقہ گنج پشاور تھے۔( علماء و مشائخِ سرحد، ص 128تا137)

(14)۔بدۃ الکاملین حضرت مولاناخواجہ غلام نبی للّٰہی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1234ھ کو للہ شریف (تحصیل پنڈدادنخان ضلع جہلم) کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی ،ابتدائی تعلیم والدمحترم ،حضرت مولاناسردارحمد(چکوال)علامہ حافظ درازمحمداحسن پشاوری وغیرہ سےحاصل کی،مولانا خواجہ غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری(قصور) سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں مریدہوکرخلافت سےسرفرازہوئے،زندگی بھردرس وتدریس اوررشدوہدایت میں گزارکر 21؍ربیع الاول  1307ھ کووصال فرمایا ،مزارخانقاہ عالیہ للہ شریف میں ہے ۔آپ حافظ قرآن ،عالم باعمل ،شیخ طریقت ،صاحب کرامت بزرگ اوربانی خانقاہ للہ شریف ہیں ۔(تذکرہ اعلیٰ حضرت للہی،65۔ تذکرہ اکابرِ اہلسنت،363)

(14)۔مولانا حافظ عبدالحلیم کریالوی رحمۃ اللہ علیہ کریالہ (تحصیل وضلع چکوال)کےایک علمی گھرانےمیں پیداہوئے ،آپ حافظ قرآن،مفتی زمانہ،خوش الحان مقرراورصاحب تصنیف بزرگ تھے،اعلیٰ حضرت امام احمدرضاسےگہرے تعلقات تھے ،ایک عرصہ تک ممبئی (ہند)میں خدمات دین میں مصروف رہے ،ان کی ایک کتاب احترازالصالحین عن شرورالفاسقین پر اعلیٰ حضرت امام احمدرضا رحمۃ اللہ علیہ نے1301ھ میں ایک تقریظ بھی لکھی۔(تقاریظ امام احمدرضا ،80)

(15)۔تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،118 ۔

(16)۔ شاہجہاں پور : Shahjahanpur) بھارت کا ایک شہر جو اتر پردیش میں واقع ہے ۔

(17)۔تاریخ الدولۃ المکیہ ص68

(18)۔ شیخُ الدلائل حضرت مولانا محمد عبدالحق صدیقی محدثِ الٰہ آبادی، نقشبندی حنفی مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1252ھ ضلع نیوان الٰہ آباد (یوپی) ہند میں ہوئی اور وصال16شوَّالُ المکرَّم 1333ھ مکّۃُ المکرمہ میں ہوا۔ آپ استاذُالعلماء، مفسرِقراٰن، صوفیِ باصفا، قطبِ مکۂ مکرمہ، جامع علم و عمل، مقرّظِ حسامُ الحرمین اور اکابر علمائے اہلِ سنّت سے ہیں۔ متعدد تصانیف میں الاکلیل علیٰ مدارک التنزیل مطبوع ہے۔(الاعلام للزرکلی، 6/186، انوارِ قطبِ مدینہ،ص73، 189،191)

(19)۔ تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،119

(20)۔ مولانا سیداحمدعلی رامپوری رحمۃ اللہ علیہ یوپی ہند کے رہنےوالے تھے ،آپ مدینہ شریف گئے تو وہیں رہائش اختیارکرلی ،الدولۃ المکیۃ کے تقاریظ لینے میں کافی کوشش فرمائی ،خودبھی عربی میں تقریظ لکھی ،اعلیٰ حضرت سے رابطے میں رہتے تھے،ان کے کئی مکتوب شائع شدہ ہیں ،(تاریخ الدولۃ المکیۃ،64)

(21)۔ مولاناکریم اللہ پنجابی رحمۃ اللہ علیہ عالم دین،علامہ عبدالحق مکی رحمۃ اللہ علیہ کے تلمیذ،صاحب طریقت اورخیرخواہ اہلسنت تھے،عقائداہلسنت کےتحفظ واشاعت میں مخلص ومتحرک ہونےکی وجہ سے مولانا کریم اللہ جانبازفی سبیل کے لقب سے ملقب ہوئے،(تاریخ الدولۃ المکیۃ،65)

(22)۔ علماء عرب کےخطوط فاضل بریلوی کےنام،111

(23)۔ عاشقِ رسول حضرت شیخ یوسف بن اسماعیل نَبہانی اَزْہَری رحمۃ اللہ علیہ شافِعی فقیہ،صوفی،قاضی ، شاعر اور کثیرکتب کے مصنف ہیں، سَعَادَۃُ الدَّارَیْن،جامع کراماتِ اولیاءاور شَواهِدُ الحق مشہورِ زمانہ تصانیف ہیں، 1265 ھ قصبۂ اِجْزِم(نزدحیفاشمالی فلسطین) میں پیدا ہوئے،اوائلِ رَمَضان 1350ھ کو وصال فرمایا، مزارِ مبارک بیروت (لبنان) میں ہے۔ ( شواهد الحق، ص 3،8)

(24)۔ جواہرالبہار فی فضائل النبی المختار سیرت مصطفی پر عربی میں کتاب ہے ، علامہ یوسف نبہانی نے پچاس سے زائدعلمائے اہل سنت کی تحریرات کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ یہ مستقل ایک تصنیف معلوم ہوتی ہے ۔ پوری کتاب سیرت النبی ، خصائص،شمائل،مغازی، فضائل النبی ،معجزات، معاشرت النبی،عشق مصطفی، کمالات نبی جیسے عنوانات ومودسے لبریز ہے ،اس کا اردومیں ترجمہ علمائے اہلسنت مثلاعلامہ عبدالحکیم شرف قادری،علامہ عبدالحکیم شاہ جہان ہوری وغیرہ نے کیا ۔

(25)۔تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،119

(26)۔تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،119،تاریخ الدولۃ المکیۃ،69

(27)۔ علماء عرب کےخطوط فاضل بریلوی کےنام،110

(28)۔تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،119،تاریخ الدولۃ المکیۃ،69

(29)۔ اوڈھروال،پہلے ضلع جہلم میں تھا،مگر1985ء میں جب چکوال کو ضلع بنایاگیاتواب یہ اس کا حصہ ہے۔

(30)۔مخطوط الاجازات المتینہ،مخطوط کے سرور ق کی مطلوبہ عبارت کی تکمیل اوراس کاترجمہ محقق اسلامک ریسرچ سینٹرالمدینۃالعلمیہ مولاناحافظ کاشف سلیم عطاری مدنی صاحب نے کیا ہے،راقم اِس پر اُن کا شکرگذارہے۔ابوماجدعطاری

(31)۔ قبلۂ عالم، تاجدارِگولڑہ حضرت پیر سیّد مہر علی شاہ گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1275ھ میں گولڑہ شریف (اسلام آباد، پنجاب) پاکستان میں ہوئی اور29 صفر 1356ھ کو وصال فرمایا، آپ کا مزار گولڑہ شریف میں زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔ آپ جید عالمِ دین، مرجعِ علما، شیخِ طریقت، کئی کتب کے مصنف، مجاہدِ اسلام، صاحبِ دیوان شاعر اور عظیم و مؤثر شخصیت کے مالک تھے ۔(مہرِ منیر، ص61، 335، فیضانِ پیر مہر علی شاہ، ص4، 32 )

(32)۔ امیرِ ملّت حضرت پیر سیّد جماعت علی شاہ نقشبندی محدّثِ علی پوری رحمۃ اللّٰہ علیہ حافِظُ القراٰن، عالمِ باعمل، شیخُ المشائخ، مسلمانانِ برِّعظیم کے متحرّک راہنما اور مرجعِ خاص وعام تھے۔ ایک زمانہ آپ سے مستفیض ہوا، پیدائش 1257ھ میں ہوئی اور 26ذیقعدہ 1370ھ میں وصال فرمایا، مزار مبارک علی پورسیّداں (ضلع نارووال، پنچاب) پاکستان میں مرجعِ خَلائق ہے۔ (تذکرہ اکابرِ اہل سنّت،ص 113تا117)

(33)۔ صدرُالاَفاضِل حضرت علامہ حافظ سیّد محمدنعیم الدّین مُرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1300ھ مُرادآباد (ہند) میں ہوئی اور آپ نے 18ذوالحجہ 1367ھ کو وفات پائی۔دینی عُلوم کے ماہِر، شیخُ الحدیث، مُفَّسِّرقراٰن، مُناظِرِذيشان،مُفتیٔ اسلام ،درجن سے زائد کُتُب کے مصنف،قومی رَہنما وقائد،شیخِ طریقت، اسلامی شاعر،بانیِ جامعہ نعیمیہ مُرادآباد، اُستاذُالعُلَمااوراکابرینِ اہلِ سنّت میں سے تھے۔کُتُب میں تفسیرِخزائنُ العِرفان مشہور ہے۔(حیات صدرالافاضل،ص9تا19)

(34)۔ علامہ ٔ زمن حضرتِ مولانافیض الحسن فیض رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1300ھ کو بھیں چکوال کے علمی گھرانے میں ہوئی اورجمادی الاولیٰ 1347ھ کووصال فرمایا۔آپ بہترین عالم دین ،عربی ادیب وشاعر،مدرس جامعہ نعمانیہ لاہور،استاذالعلمااورکئی عربی کتب کےمترجم ہیں ۔امیرحزب اللہ حضرت پیرسیدفضل شاہ جلالپوری رحمۃ اللہ علیہ آپ کے مشہورشاگردہیں ۔(تذکرۂ علمائے اہل سنت ضلع چکوال،83)

(35)۔ تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،120

(36)۔ تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،120

(37)۔تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،45

(38) ۔ ہفتہ روزہ سراج الاخبار(1885ءتا1917ء):صاحب حدائق الحنفیہ حضرت مولانا فقیرمحمدجہلمی رحمۃ اللہ علیہ (25،اکتوبر1916ء/27ذوالحجہ1334ھ)نے1302ء کو اپنے مطبع سراج المطابع جہلم سے ہفتہ واراخبارسراج الاخبارجاری کیا،اس کی اشاعت کچھ انقطاع سے کم وبیش سولہ (16)سال جاری رہی۔اس کےمدیرغازی اسلام،مناظراہل سنت حضرت مولانا کرم الدین دبیرسیالوی رحمۃ اللہ علیہ (وفات 17جولائی 1946ء/17شعبان 1365ھ)تھے۔(ردقادنیت اورسُنی صحافت،37،46،61)

(39)۔ سراج الاخبار،6فروری1915ء،ص17

(40)۔تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،121

(41)۔ تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،122

(42)۔آپ کےمزارکےکتبے پروفات کی تاریخ 1914ء لکھی ہوئی ہے جوکہ درست نہیں،کیونکہ سراج الاخبار،6فروری1915ءمیں آپ کی وفات کا تذکرہ ہےجس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ نے صفرُالمظفریاربیعُ الاول 1333ھ مطابق جنوری 1915ء کووصال فرمایا۔

(43)۔ سراج الاخبار،6فروری1915ء،ص17

(44)۔ حضرت میاں صاحب باباعبدالشکوررحمۃ اللہ علیہ ،اڈھروال کی علمی وروحانی شخصیت،باکرامت ولی اللہ ،عوام وخواص کےمرجع اورصاحب کرامت بزرگ تھے،انھوں نےگیارہویں صدی ہجری اسی گاؤں دینی مدرسہ قائم فرمایا،جواب بھی موجودہے، اس سے ایک زمانہ مستفیض ہوا۔ان کا مزارمرجع خاص وعام ہے۔(تذکرہ علمائےاہل سنت ضلع چکوال،55)

(45)۔ تاریخ الدولۃ المکیہ ص68

(46)۔پیرزادہ عابدحسین شاہ صاحب، یادگاراسلاف حضرت مولانا پیرانورحسین شاہ رحمۃا للہ علیہ (بانی بہاوالدین زکریالائبریری وسابق امام ومدرس جامع مسجدحنفیہ رضویہ چھونبی ضلع چکوال)کے بیٹے اورعلمی جانشین ہیں ،آپ عمدہ علمی وتحقیق ذوق کے حامل ،اردووعربی ادب سے آشنا،صحافتِ عرب کا گہرائی سےمطالعہ کرنے والے ،تراجم علمائے عرب وعجم سے خوب واقف اورحُسنِ اخلاق کے مالک ہیں ۔ طویل مدت حجازمقدس میں گزاری،عرب کے اہل علم سے ذاتی مراسم اوررابطے ہیں ،بیس (20)سے زیادہ کتب ومضامین کے مصنف ہیں ،کتب میں تاریخ الدولۃ المکیۃ،امام احمدرضا محدث بریلوی اورعلمائے مکہ مکرمہ ،محدث حجازاورسعودی صحافت اورتذکرہ سنوسی مشایخ اہم ہیں ۔ آجکل چکوال میں رہائش پذیرہیں ۔راقم کئی مرتبہ ان سے ملاقات کرچکا ہے۔(مزیددیکھئے :ماہنامہ سوئےحجازدسمبر2020ء،ص59،دمشق کے غَلایینی علماء،76)

(47)۔ رُومیِ کشمیر، صاحبِ سیفُ المُلوک حضرت میاں محمد بخش قادری رحمۃ اللہ علیہ عالمِ دین، مُصنِّف، پنچابی شاعر اور ولیِ کامل تھے، آپ 1246ھ کو موضع چک بہرام (ضلع گجرات) پاکستان میں پیدا ہوئے اور 7ذوالحجہ1324ھ کو وِصال فرمایا، آپ کا مزار مبارک کھڑی شریف (ضلع میر پور) کشمیر میں مرجَعِ خاص و عام ہے۔ (انسائیکلوپیڈیا اولیائے کرام، 1/455تا469)

(48)۔حضرت مولانا ڈاکٹرعبدالواحدالازہری صاحب موضع وروال (یونین کونسل،ضلع چکوال )کے رہنےوالےہیں ،قاہرہ مصرمیں بارہ(12) سال مقیم رہے،اس دوران جامعۃ الازہرسے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی،اس کے بعدپاکستان آئےاوربین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آبادمیں پروفیسرہوئے،آپ جامعہ سعیدیہ غوثیہ (متصل جامعہ مسجدحسینیہ حنفیہ مرکزی ڈاکخانہ چکوال) اوردیگرمدارس کےبانی وسرپرست ہیں۔راقم ان سے شرف ملاقات پاچکا ہے۔(مزیددیکھئے :ماہنامہ سوئےحجازدسمبر2020ء،ص65)


رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور اسلافِ امت نے اہلِ اسلام کو قیامت کے دن کی تیاری کرنے اور اپنی آخرت سنوارنے کی نصیحتیں کرنے کے ساتھ ساتھ کئی ایسی علامات و اسباب کا بھی ذکر کیا جن کے بعد قیامت قائم ہوگی۔ انہیں اسلامی اصطلاح میں علاماتِ قیامت کہا جاتاہے۔ قیامت کی ان علامات میں سے ایک بہت ہی فکرانگیز علامت علمائے دین کا انتقال فرماجانا بھی ہے۔ فی زمانہ اگر غور کیا جائے تو یہ علامتِ قیامت اپنا آپ ظاہر کرچکی ہے۔ علما کا وصال ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ علما کا دنیا سے جانا دراصل علم کا اُٹھنا ہے اور دنیا کا علم سے محروم ہونا کائنات کا سب سے بڑا نقصان ہے۔

امامِ اہلِ سنت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”قیامت قریب ہے ، اچھے لوگ اُٹھتے جاتے ہیں ، جو جاتا ہے اپنا نائب نہیں چھوڑتا، امام بخاری نے انتقال فرمایا تو نوّے ہزار شاگرد محدّث چھوڑے، سیدنا امامِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے انتقال فرمایا اور ایک ہزار مجتہدین اپنے شاگرد چھوڑے، محدّث ہونا علم کا پہلا زینہ ہے اور مجتہد ہونا آخری منزل! اور اب ہزار مرتے ہیں اور ایک بھی ( نائب ) نہیں چھوڑتے۔( ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص238)

امامِ اہلِ سنّت، مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فرمان بہت ہی قابل فکر و تشویش ہے۔یہ بات آپ نے 100سال سے بھی پہلے فرمائی تھی تو آج 100سال بعد بھلا کیا حال ہوگا؟ وہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

مسندِ احمد میں ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:”امت اس وقت تک شریعت پر قائم رہے گی جب تک کہ ان میں تین چیزیں ظاہر نہ ہوجائیں:(1)علم کا قبض ہونا(2)ولدالزنا کی کثرت اور (3)صقارون، عرض کی گئی یارسول اللہ ! صقارون کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ آخری زمانہ کے لوگ ہیں جن کی باہم ملتے وقت کی تحیت ایک دوسرے پر لعنت کرنا ہوگی۔“(مسند احمد جلد 24، صفحہ 391، حدیث: 15628)

اس حدیث پاک کے تناظر میں دیکھا جائے تو قیامت کی یہ نشانیاں پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں، ہر آئے دن کوئی نہ کوئی عظیم و جلیل القدر عالم دین دنیا سے رخصت ہورہے ہیں۔

خطبہ حجۃ الوداع میں سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے لوگو! علم لے لو اس سے پہلے کہ وہ قبض کرلیا جائے، اس سے پہلے کہ وہ اٹھا لیا جائے۔(مسند احمد، جلد36، صفحہ621، حدیث:22290)

علم کا اٹھ جانا کس قدر ناقابلِ تلافی نقصان ہے اس کی حقیقت وہی سمجھ سکتا ہے جو علم اور اس کے فوائد و ثمرات کو جانتا اور سمجھتاہے۔ ایک عالم دین کا دنیا سے جانا گویا کہ ہمارا وراثت انبیاء سے محروم ہونا ہے کیونکہ انبیائے کرام کی وراثت علم ہے اور اس وراثت کے حامل علما ہی ہیں، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے علم کے اٹھ جانے کی کیفیت اور اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات کی خبر ان الفاظ میں ارشاد فرمائی:اِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ العِلْمَ اِنْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ العِبَادِ، وَلٰكِنْ يَّقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ، حَتّٰى اِذَا لَمْ يَبْقَ عَالِمٌ اِتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَاَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَاَضَلُّوا یعنی اﷲ پاک علم کو بندوں(کے سینوں ) سے کھینچ کر نہ اٹھائے گا بلکہ علما کی وفات سےعلم اٹھائے گا، حتّٰی کہ جب کوئی عالم نہ رہے گا لوگ جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے، جن سے مسائل پوچھے جائیں گے وہ بغیر علم فتویٰ دیں گے، تو وہ خودبھی گمراہ ہوں گے اور (دوسروں کو بھی) گمراہ کریں گے۔( بخاری، 1/54حدیث:100)

اہلِ معرفت و علم کے نزدیک علماء کے وصال کا نقصان

(1) ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک اللہ کریم لوگوں کو علم دینے کے بعد ان سے واپس نہیں کھینچتا، بلکہ علماء کو لےجاتاہے، پس جب بھی کسی عالم کو لے جاتاہے تو اس کے ساتھ اس کا علم بھی چلاجاتاہے، یہاں تک کہ وہ باقی رہ جائیں گے جن کے پاس کوئی علم نہ ہوگا پس وہ گمراہ ہوں گے۔(اخلاق العلماء للآجری، صفحہ 32)

(2) رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا: عالم کی موت ایک ایسی مصیبت ہے جس کا کوئی مداوا نہیں، ایسا شگاف ہے جو بند نہیں ہوسکتا، ایک تارا ہے جو ڈوب گیا، ایک عالم کی موت کی نسبت پورے قبیلے کی موت آسان ہے(یعنی جو نقصان پورے قبیلے کی موت سے ہوتاہے، عالم کی موت کے نقصان سے بہت کم ہے)(جامع بیان العلم و فضلہ، جلد1، صفحہ170، رقم:179)

(3) امیرُالمؤمنین حضرت سیّدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ کریم کے مقرر کردہ حلال اور حرام کی سمجھ رکھنے والے ا یک عالم کی موت کے آگے ایسے ہزارعبادت گزاروں کی موت بھی کم ہے جو دن کو روزہ رکھنے والے اور رات کو قیام کرنے والے ہوں۔ (جامع بیان العلم و فضلہ، ص42، رقم:115)

(4) شیرِ ِخدا حضرت سیّدنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم سے منقول ہے :جب عالم وفات پاتا ہے تو 77 ہزار مقربین فرشتے رخصت کرنے کے لئے اس کے ساتھ جاتے ہیں اور عالم کی موت اسلام میں ایسا رَخْنَہ ہے جسے قیامت تک بند نہیں کیا جاسکتا۔( الفقیہ و المتفقہ، 2/198، رقم :856)

(5) حضرت سیّدنا سعید بن جُبیر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ علما کا دنیا سے جانا لوگوں کی ہلاکت کی علامت ہے۔( سنن دارمی،1/90، حدیث :241)

(6) حضرت سیّدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں: عالم کی موت دینِ اسلام میں ایک ایسا شگاف ہے کہ جب تک رات اور دن بدلتے رہیں گے کوئی چیز اس شِگاف کو نہیں بھر سکتی۔( جامع بیان العلم وفضلہ،ص213،رقم:654)حضرت سیّدنا سفیان بن عُیَیْنَہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لاعلموں کے لئے بھلا اہلِ علم کی وفات سے زیادہ سخت مصیبت اور کیا ہوسکتی ہے۔( شرح السنۃ للبغوی،1/249)

(7) حضرت کعب فرماتے ہیں:تم پر لازم ہے کہ علم کے چلے جانے سے پہلے اسے حاصل کرلو، بےشک اہلِ علم کا وفات پانا علم کا جانا ہے ، عالم کی موت گویا ایک تارا ہے جو ڈوب گیا، عالم کی موت ایک ایسی دراڑ ہے جو بھری نہیں جاسکتی، ایک ایسا شگاف ہے جو پُر نہیں ہوسکتا، علما پر میرے ماں باپ قربان، ان کے بغیر لوگوں میں کوئی بھلائی نہیں۔(اخلاق العلماء للآجری، صفحہ 31)

(8) حضرت ابووائل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا:کیا تم جانتے ہو کہ اسلام کیسے کمزور ہوگا؟ لوگوں نے عرض کی: کیسے؟ فرمایا:جیسے جانور اپنے موٹاپے سے کمزوری کی طرف جاتاہے، اور جیسے کپڑا طویل عرصہ پہننے سے کمزور ہوجاتاہے اور جیسے درہم طویل عرصہ چلتے رہنے سے گھِس جاتاہے، ہوگا یوں کہ ایک قبیلہ میں دو عالم ہوں گے، پس جب ان میں سے ایک فوت ہوجائے گا تو آدھا علم جاتا رہے گا اور جب دوسرے کا انتقال ہوجائے گا تو سارا علم جاتا رہے گا۔ (اخلاق العلماء للآجری،صفحہ33) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(جاری ہے)


تحریر: ابوالنّور محمد راشد علی عطّاری مدنی

یکم ربیع الاول1442ھ

روایت میں ہے:

من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ

جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔

مجھے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ دعوتِ اسلامی سے منسلک ہوئے 15سال سے زائد عرصہ ہوگیاہے، میں اگرچہ دعوتِ اسلامی کے اندر کا ہوں، کسی کے ذہن میں شاید یہ آئے کہ گھر کا بندہ ہے گھر کے قصیدے پڑھ رہا ہےلیکن

واللہ! آج بالکل غیر اختیاری طور پر امیرِ اہلِ سنّت علّامہ الیاس قادری اور دعوتِ اسلامی کا شکریہ ادا کرنے کا دل کررہا ہے۔

بالکل غیر جانبدار رہ کر

جی ہاں!

یوں تو علامہ الیاس قادری صاحب نے زندگی کے کئی شعبہ جات میں انقلابی اقدامات اٹھائے ہیں۔

قریہ قریہ تعلیم قراٰن کے مدارس کھول دیئے

جگہ جگہ تقسیم وراثتِ انبیاء کے مراکز یعنی جامعات المدینہ کھول دیئے

اور نہ جانے کیا کیا انقلابی خدمات ہیں لیکن میں یہاں صرف ایک ڈیپارٹ کی بات کرنا چاہوں گا وہ ہے ”آئی ٹی مجلس دعوتِ اسلامی“

گزشتہ ہفتے نیت بنی کہ رسولِ کریم ﷺ کی آمد کے پیارے مہینے ربیع الاول کو اس بار بالکل الگ انداز میں منانا ہے، جس کے لئے فیصلہ ہو ا کہ پورا مہینہ سیرتِ رسولِ کریم ﷺ پربیانات کئے جائیں، ایک جدول بنایا جائے، ہر روز الگ موضوع ہو ،

جو پہلے دن کا موضوع منتخب ہوا وہ ہے

”رسول اللہ ﷺ کی شان قراٰن کی روشنی میں“

اب معاملہ تھا اس موضوع پر مواد جمع کرنے کا،

یوں تو مارکیٹ میں اس موضوع پر کتب بھی موجود ہیں اور انٹرنیٹ پر طرح طرح کے کالم بھی

لیکن اپنا ارادہ تھا کہ اپنی محنت

بس جو پہلا اور آخری ذریعہ ہاتھ آیا وہ تھا

علامہ محمد الیاس قادری صاحب کی دعوتِ اسلامی کی طرف سے بنایا گیا سافٹ وئیر

القراٰن الکریم

جی ہاں اس سافٹ وئیر میں آیات، ترجمہ اور تفسیر سرچ کرنے کا آپشن ہے، اس میں متن قراٰن، ترجمہ کنزالایمان اور تفسیر خزائن العرفان سرچ و کاپی پیسٹ کی سہولت کے ساتھ موجود ہے،

بس بیٹھے بیٹھے جو جو شانِ رسالت پر نکتہ ذہن میں آتا گیا اسے لکھتا گیا اور اس کی آیت منٹ سے بھی کم دورانیہ میں اس سافٹ وئیر کے ذریعہ سے ملتی گئی،

الحمد للہ صرف ایک سے ڈیڑھ گھنٹہ میں 30 صفحات کا آیات قراٰنیہ و ترجمہ کنزالایمان کا مجموعہ تیار ہوگیا۔

شکریہ ! شکریہ! شکریہ!

اے الیاس قادری!(دام اللہ ظلک علینا) اے دعوتِ اسلامی!

اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں اے دعوتِ اسلامی تِری دھوم مچی ہو


نام کتاب: جَدُّ الْمُمْتارعَلٰی رَدِّ الْمُحْتار

جلدوں کی تعداد: 7

کل صفحات: 4000

فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’فتاوی شامی‘‘ جسے ’’رَدُّ الْمُحْتَار‘‘ بھی کہا جاتا ہے اس پر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ نے انتہائی مفید تحقیقی حواشی تحریر فرمائے ہیں جسے جدید تحقیقی معیار کے مطابق سات جلدوں میں انتہائی مزین انداز میں مکتبۃ المدینہ نے شائع کیا ہے، یہ کتاب در اصل علامہ ابن عابدین شامی قُدِّسَ سِرُّہ السَّامی کی کتاب ردالمحتار پر عربی زبان میں حاشیہ ہے۔ اور’’رد المحتار‘‘ علامہ علاؤ الدین حصکفی علیہ الرحمہ کی’’در مختار‘‘ جو کہ امام تمرتاشی علیہ الرحمہ کی کتاب ’’تنویر الابصار‘‘ کی شرح ہے، اس پر حاشیہ ہے۔دعوتِ اسلامی کی مجلس المدینۃ العلمیہ کے شعبہ کتب اعلیٰ حضرت کے مدنی علمائے کرام نے اس کتاب میں درج ذیل کام کئے ہیں:

(1)تقدیم وترتیب (Presentation) :

٭ہر ”قَولُہُ“ پر نمبرنگ کا قیام ٭جدید عربی رسم لخط کے التزام کے ساتھ ساتھ رموز واوقاف کا اہتمام ٭مشکل الفاظ پر اعراب ٭کتاب، باب اور فصل کا قیام۔

(2)تخریج وتحقیق (References & Research):

٭قرآنی آیات، احادیث کریمہ اور عبارتوں کی تخریج ٭وہ کتابیں جو طبع ہی نہیں ہوسکیں اور مخطوطے کی شکل میں ہیں ان کی تخاریج

امام اہلسنّت علیہ الرحمہ کی عادتِ کریمہ ہے کہ کسی مسئلہ میں چند کتابوں کی عبارتیں ذکر کرنے کے بعد اپنے مؤقف کی تائید میں دیگرکئی کتابوں کے صرف نام ذکر فرمادیتے ہیں تو ان کی بھی تخریج کا اہتمام کیا گیا ہے۔

کبھی اس مسئلہ کی تحقیق کسی دوسری جگہ فرماچکے ہوتے ہیں تو اس کی طرف صرف اشارہ فرمادیتے ہیں تو ان کی بھی تخاریج کی کوشش کی گئی ہے۔

امام اہلسنت علیہ الرحمہ نے رد المحتار پر حواشی کے ساتھ ساتھ کئی علوم وفنون اور کتب پر بھی حواشی رقم فرمائے ہیں اور جد الممتار میں کئی جگہ ان کا حوالہ بھی دیا ہےتو ان حواشی کی تخریج کے ساتھ وہاں بیان کردہ امام کی تحقیق کو بھی کتاب کی زینت بنایا گیا ہے۔

جہاں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے کسی حدیث مبارکہ کی طرف اشارہ کیا ہے تو غوروخوض کے بعد امام کی مرادی حدیث مبارکہ بھی مکمل بیان کردی گئی ہے۔

اپنی رائے،تحقیق اور اضافہ جات کو امام اہلسنّت کی عبارت سے الگ رکھا گیا ہے تاکہ غلطی کی صورت میں مصنف علیہ الرحمہ کا دامن پاک رہے۔

عرب دنیا میں رائج جدید اندازِ تحقیق وتخریج اختیار کیا گیا ہے۔

(3)تقابل (Comparison) :

پوری کتاب کا ایک سے زائد مرتبہ تقابل کیا گیا ہے۔

اس حاشیے کی ابتدائی دوجلدیں (کتاب الطہارۃ تاکتاب الطلاق) الجمع الاسلامی مبارکپور ہند سے شائع ہوچکی تھیں تویہاں تک کے تقابل اور کام میں بھی اسی نسخہ کو معیار بنایا گیا ہے اس کے بعد کتاب الایمان سے آخرکتاب تک کا مواد مخطوطے کی شکل میں تھا لہذا اس کا تقابل مخطوطے سے کیا گیا ہے۔

صحتِ متن کیلئے حتی المقدور کوشش کی گئی ہے، اس میں صحتِ عبارت کے ساتھ ساتھ فقہی صحت کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ فارسی عبارتیں ماہرین سے چیک کروائی گئی ہیں، اور دیگر فنی ابحاث مثلاً کتاب الصلوۃ میں جہاں علم توقیت کے حوالے سے گفتگو آئی ہے وہاں درجہ اور دقیقہ وغیرہ میں علم توقیت کے ماہرین سے بھی مدد لی گئی ہے۔

(4)تعریب (Arabic Translation):

جہاں کہیں اردو یا فارسی عبارتیں آئی ہیں ان کی عربی بھی بنائی گئی ہے۔

(5)تراجم (Books Intro. & Persons Biography):

جہاں کہیں امام اہلسنت نے کسی شخصیت یا کتاب کا نام ذکر کیا ہے تو ان کا مختصر تعارف بھی کردیا گیا ہے اسی طرح کتاب کے مصنف کا نام ، اس کتاب کا موضوع وغیرہ بیان کردیا گیا ہے۔

(6)فتاویٰ رضویہ:

اس کتاب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ فتاویٰ رضویہ میں جہاں کہیں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے تنویر الابصار، در مختار یا رد المحتار کی کسی عبارت پر کوئی کلام فرمایا ہے۔ اسے مکمل تلاش اور چھان بین کے بعد شامل کردیا گیا ہے البتہ اصل حواشی اور فتاویٰ رضویہ کے اضافہ جات میں فرق کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔

(7)فہارس:(Indexes)

اس کتاب کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اس میں 9 طرح کی فہرستیں بنائی گئی ہیں جنہیں آپ کتاب میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

علماء ومفتیانِ کرام بالخصوص تخصص فی الفقہ کےاسلامی بھائیوں کی سہولت کیلئے امام اہلسنّت علیہ الرحمہ کا عظیم الشان رسالہ ’’ اَجْلَی الْاِعْلَام اَنَّ الْفَتْوٰی مُطْلَقًا عَلٰی قَوْلِ الْاِمَام ‘‘ کو تحقیق وتخریج کے ساتھ پہلی جلد میں شامل کیا گیا ہے، بحمد اللہ اب یہ رسالہ علیحدہ بیروت سے بھی شائع ہوچکا ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ دعوتِ اسلامی کی اس کاوش کو علمائے کرام کی طرف سے خوب سراہا گیا اور اس پر تحقیقی کام کرنے والوں کو دعاؤں سے نوازا گیا۔ اسی کی برکت ہے کہ امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کی غیر مطبوعہ تصانیف پر تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے اور اس وقت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے فقہِ حنفی کی مشہور کتاب ’’ہدایہ‘‘ اور اس کی شروحات (فتح القدیر، عنایہ، کفایہ اور حاشیہ چلپی) پر لکھے گئے حواشی پر مندرجہ بالا انداز پر کام کرکے طباعت کیلئے بیروت روانہ کردیا گیا ہے جو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ عنقریب شائع ہوجائے گی، آخر میں اخلاص وقبولیت کیلئے دعاجو ہوں اوردعاگو ہوں کہ اللہ کریم اس چمن اور اس کے نگہبان شیخ طریقت امیر اہلسنّت حضرت علامہ محمد الیاس عطار قادری اور جملہ علما ومشائخ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا سایہ اور شفقتیں تادیر قائم ودائم رکھے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مولانا شاہ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن دنیائے اسلام کی ان عظیم ہستیوں میں سےتھے جنہوں نے نہ صرف بر صغیر پاک وہندمیں رہنے والوں کو فیضیاب کیا بلکہ دیگر ممالک کے بسنے والے افراد بھی اس بارگاہ سے اپنے شرعی معاملات کا حل پاتے نظر آئے، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں ملک وبیرون ملک سے کتنی کثرت سے سوالات آتے تھے اس کا جواب بارگاہِ اعلیٰ حضرت سے یوں ملتا ہے:

بفضلہ تعالیٰ تمام ہندستان ودیگر ممالک مثل چین و افریقہ و امریکہ وخود عرب شریف وعراق سے ا ستفتا آتے ہیں اور ایک ایک وقت میں چار چار سوفتوے جمع ہوجاتے ہیں بحمد اﷲ تعالیٰ حضرت جد امجد قدس سرہ العزیز کے وقت سے اس ۱۳۳۷؁ھ تک اس دروازے سے فتوے جاری ہوئے اکانوے (۹۱)برس اور خود اس فقیر غفرلہ کے قلم سے فتوے نکلتے ہوئے اکاون(۵۱) برس ہونے آئے یعنی اس صفر کی ۱۴ تاریخ کو پچاس(۵۰) برس چھ (۶)مہینے گزرے، اس نو۹ کم سو۱۰۰ برس میں کتنے ہزار فتوے لکھے گئے ، بارہ مجلد تو صرف اس فقیر کے فتاوے کے ہیں۔(فتاوی رضویہ، 6/562)

ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

فقیر کے یہاں علاوہ دیگر مشاغل کثیرہ دینیہ کے کار فتوٰی اس درجہ وافر ہے کہ دس مفتیوں کے کام سے زائد ہے۔ شہر ودیگر بلاد امصار جملہ اقطار ہندوستان وبنگال وپنجاب و ملیبار وبرہما وارکان و چین وغزنی وامریکہ وافریقہ حتی کہ سرکار حرمین شریفین محترمین سے استفتاء آتے ہیں ا ور ایک وقت میں پانچ پانچ سو جمع ہوجاتے ہیں۔(فتاوی رضویہ، 9/499)

افریقہ:

(۱)افریقہ کے مقام بھوٹا بھوٹی باسو ٹولینڈ سے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی خدمت میں مختلف موضوعات پر111سوالات پوچھے گئے جن کے جوابات آپ نے تحریر فرمائے ۔"فتاوی افریقہ"کی صورت میں یہ سوالات مع جوابات موجود ہیں۔

اسی مقام سے آپ کی خدمت میں مزید6 استفتاء بھیجے گئے ۔ (فتاوی رضویہ، 4/324، 365، 563، 572، 599، 11/301)

(۲)افریقہ کے مقام ’’منڈی‘‘ سے بھی آپ کی خدمت میں روزے سےمتعلق استفتاء بھیجا گیا ۔ (فتاوی رضویہ، 10/431)

(۳) افریقہ کے مقام ’’ٹرانسوال‘‘سے جمعہ کے متعلق استفتاء بھیجا گیا۔(فتاوی رضویہ، ۶/۳۵۵)

(٤) افریقہ کے علاقے ’’ ممباسہ‘‘ سے 4 استفتاء بھیجے گئے ۔ (فتاوی رضویہ، 6/352، 7/198،300، 9/523)

(5)افریقہ کے مقام ’’ڈربن نا ٹال‘‘ سے 1استفتاء بھیجاگیا ۔ (فتاوی رضویہ، 21/195)

(6)افریقہ کے مقام ’’بلنڈی‘‘ سے2 استفتاء بھیجے گئے۔ (فتاوی رضویہ، 7/235،468)

(7) افریقہ ’’جوہانس برگ ‘‘ سے بھی آپ کی خدمت میں 1استفتاء بھیجا گیا۔(فتاوی رضویہ، 8/394)

(8) افریقہ سے ایک مزید استفتاء بھیجا گیا لیکن اس مقام کا نام ذکر نہیں ۔(فتاوی رضویہ،23/375)

برما:

ملک برما سے اعلیٰ حضرت کی خدمت میں 5استفتاء بھیجئے گئے جن کے جوابات آپ نے تحریر فرمائے۔(دیکھئے فتاوی رضویہ قدیم ۶/۲۵، ۳/۷۴۶،۱۰/۱۴۴نصف ثانی،۱۰/۱۴۶نصف ثانی، ۶/۱۵۴)

بنگلہ دیش:

(۱)بنگلہ دیش کےمختلف علاقوں سے اعلیٰ حضرت کی خدمت میں73 سےزائداستفتاء بھیجے گئے جن کی کچھ تفصیل یہ ہے:

(1)ڈھاکہ سے 9 استفتاء پوچھے گئے۔ (فتاوی رضویہ،7/137،8/86، 365، 552، 575، 11/352، 12/392، 14/622، 20/333)

(2)نواکھالی سے 18 استفتاء پوچھے گئے۔ (فتاوی رضویہ، 1-ب/1071، 8/154، 9/159، 420، 643، 13/136، 155، 208، 233، 16/261، 295، 17/614، 19/494، 20/310، 24/180، 338، 23/110، 329 )

(3)چٹاگانگ سے 3 استفتاء پوچھے گئے۔ (فتاوی رضویہ، 4/328، 6/234، 12/386 )

(4)پیڑا بنگال سے1استفتاء پوچھا گیا۔ (فتاوی رضویہ، 8/107)

(5)سلہٹ سے 15 استفتاء پوچھے گئے۔ (فتاوی رضویہ، 8/164، 584، 9/161، 176، 408، 653، 10/154، 11/413، 12/325، 637، 639، 646، 13/305، 21/634، 23/541)

(6)کمرلہ سے5 استفتاء بھیجے گئے۔ (فتاوی رضویہ، 8/355، 595، 22/203، 23/562، 24/113)

(7)پابنہ سے2 استفتاء بھیجے گئے۔ (فتاوی رضویہ، 5/378، 8/341)

(8)بیر بھوم 2استفتاء بھیجے گئے۔ (فتاوی رضویہ، 9/264، 528)

(9) بنگلہ دیش کے مقام ’’شرشدی‘‘ ضلع نواکھالی سے آپ کی خدمت میں3 استفتاء بھیجے گئے۔ (فتاوی رضویہ، 9/158،420،23/330)

(10) میمن سنگھ کے علاقہ سے بھی آپ کی خدمت میں 14استفتاء بھیجے گئے۔ (فتاوی رضویہ، 7/346، 8/77، 354، 361، 456، 570، 584،9/646، 19/486، 20/444، 22/407، 23/545، 691، 714)

(11) چاہ بگان ضلع ڈونگ سے بھی آپ کی خدمت میں استفتاء بھیجا گیا۔ (فتاوی رضویہ،20/260)

عراق:

عراق سے اعلیٰ حضرت کی خدمت میں کتنے استفتاء بھیجے گئے ان کی صحیح تعداد تو معلوم نہیں البتہ بغداد شریف سے بھیجے گئے 2 استفتاء کا ذکر فتاوی رضویہ میں ملتا ہے۔ (فتاوی رضویہ،۱۵/۱۶۵، 9/۵۹۳)

افغانستان:

افغانستان سے بھی آپ کی خدمت میں استفتاء بھیجا گیا ۔ (خطوط مشاہیر بنام امام احمد رضا،1/402)

پاکستان:

پاکستان کے مختلف شہروں(کراچی ،لاہور،ڈیرہ غازی خان،پاکپتن،راولپنڈی،گجر خان، پشاور، سکھر،بہالپور، جہلم، ہری پور اورمیرپور آزاد کشمیر) سے اعلیٰ حضرت کی خدمت میں88سے زائد استفتاء بھیجئے گئے جن کے جوابات آپ نے تحریر فرمائے۔

(1) کراچی سے 10 استفتاء بھیجے گئے۔ ( فتاوی رضویہ،6/574، 576،7/527، 528، 8/443، 14/604، 20/348، 21/248، 29/89، 26/353)

(2) مرکز الاولیاء لاہور سے 20استفتاء بھیجے گئے۔ ( فتاوی رضویہ،9/657، 10/520، 11/463، 488، 663، 12/169، 14/102، 426، 580، 394، 17/131، 19/292، 505، 18/359، 21/281، 26/278، 590، 29/201، 335، 591)

(3) ڈیرہ غازی خان سے 3 استفتاء بھیجے گئے۔ (فتاوی رضویہ،11/684، 14/617، 24/133)

(4)راولپنڈی سے 14استفتاء بھیجے گئے۔(فتاوی رضویہ، 4/342، 6/189، 10/291، 486،11/259، 12/180،193،358، 378، 14/654، 18/511، 619، 20/290، 29/334)

(5) بہاولپورسے13استفتاء بھیجے گئے۔ (فتاوی رضویہ،11/443، 14/641، 691، 15/283، 16/241، 18/123، 415، 600، 19/362، 384، 638، 26/374، 378)

(6) جہلم سے6استفتاء بھیجے گئے۔ ( فتاوی رضویہ،5/322، 9/139، 16/529، 20/223، 21/666، 22/692)

(7) پشاور سے 5استفتاء بھیجے گئے۔ ( فتاوی رضویہ،6/190، 11/215، 16/336، 18/624، 22/200)

(8) سکھر سے 4استفتاء بھیجے گئے۔( فتاوی رضویہ،11/680، 20/210، 223، 21/290)

(9) بلوچستان سے 12استفتاء بھیجے گئے۔ ( فتاوی رضویہ، 4/601، 8/108، 212، 9/406، 11/237، 13/585، 17/337، 19/505، 20/222، 26/609، 29/204، 328)

(10) میرپور آزاد کشمیر سے استفتاء بھیجا گیا۔( فتاوی رضویہ،11/647)

پرتگال:

پرتگال کے علاقے ’’دمن خرد‘‘ سے بھی آپ کی خدمت میں3استفتاء بھیجے گئے۔ (فتاوی رضویہ، 5/386، 414، 8/589)


اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر کردہ کتب ورسائل سے پتہ چلتا ہے کہ 105 سے زائد علوم وفنون پر آپ نے قلم اٹھایا ہے۔ (ماخوذ ازمعارف رضا، ص233، سال1991) جن میں دینی علوم مثلاً قرآن وحدیث ،فقہ وغیرہ کے ساتھ ساتھ دیگرعلوم وفنون مثلاً سائنس، ریاضی، معاشیات واقتصادیات وغیرہ شامل ہیں، کتب ورسائل کے ساتھ ساتھ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار بھی ان علوم وفنون سے لبریز نظر آتے ہیں۔

ان میں سے کچھ علوم درج ذیل ہیں:

(1) علم لغت(Vocabulary): الفاظ کی بناوٹ اور معانی کا علم

اس فن میں اعلیٰ حضرت کی دو کتابیں ہیں:(1)اَحْسَنُ الْجُلُوْہ فِی تَحْقِیْقِ المِیْلِ وَالذِّرَاعِ وَالْفَرْسَخِ وَالْغُلُوہ (2)فَتْحُ الْمُعْطِی بِتَحْقِیْقِ مَعْنَی الْخَاطِی وَالْمُخْطِی۔(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۷۷ مکتبہ نبویہ لاہور)

(2) علم تاریخ(History)

اس فن میں اعلیٰ حضرت کی تین کتابیں ہیں: (1)اِعْلَامُ الصَّحَابَۃِالْمُوَافِقِیْنَ لِلْاَمِیْرِ مُعَاوِیَۃَ وَاُمِّ الْمُؤْمِنِیْن (2)جَمْعُ الْقُرْآنِ و بِمَ عَزْوَہُ لِعُثْمَان(3)سرگزشت وماجرائے ندوہ۔ (حیات اعلیٰ حضرت،۲/۸۹)

(3) علم تکسیر(Fractional Numeral Math)

(1)اَطَائِبُ الْاِکْسِیْرِ فِی عِلْمِ التَّکْسِیْرِ۔(2) 1152 مربَّعات (3)حاشیہ اَلدُّرُّ الْمَکْنُوْن (4) رسالہ در علمِ تکسیر(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۲)

(4) علم توقیت و نجوم(Reckoning of Time)

اوقات نماز کا علم ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے تاکہ ہر نماز صحیح وقت پر ادا کی جائے، اعلیٰ حضرت اس فن میں بھی یکتائے زمانہ تھے ، آپ ہی نے سب سے پہلے متحدہ پاک وہند میں شمسی سال کے اعتبار سے اوقاتِ نماز کا نقشہ مرتب کیا تھا۔اس فن میں اعلیٰ حضرت نے اردو، فارسی اور عربی زبانوں میں کم وبیش 16 کتب وحواشی تحریر فرمائے: (1)اَلْاَنْجَبُ الْاَنِیْقِ فِیْ طُرْقِ التَّعْلِیْقِ (2)زِیْجُ الْاَوْقَاتِ لِلصَّوْمِ وَالصَّلٰوۃ ِ (3)تاجِ توقیت(4)کَشْفُ الْعِلّۃِ عَنْ سَمْتِ الْقِبْلَۃِ (5)دَرْءُ الْقُبْحِ عَنْ دَرْکِ وَقْتِ الصُّبْح(6)سِرُّ الْاَوْقَاتِ (7)تَسْہِیْلُ التَّعْدِیْلِ (8)جدولِ اوقات (9)طلوع وغروب نیرین (10)اِسْتِنْبَاطُ الْاَوْقَاتِ (11)اَلْبُرْہَانُ الْقَوِیْمِ عَلَی الْعَرْضِ وَالتَّقْوِیْمِ (12)اَلْجَوَاہِرُ وَالتَّوْقِیْتُ فِیْ عِلْمِ التَّوْقِیْتِ (13)رؤیتِ ہلالِ رمضان (14)جدولِ ضرب (15)حاشیہ جَامِعُ الْاَفْکَار (16)حاشیہ زُبْدَۃُ الْمُنْتَخَب۔ (حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۴)

(5تا 7) علم نجوم، ہیئت وفلکیات(اسٹرولوجی واسٹرونومی)

علم نجوم یعنی ستاروں اور سیاروں کے متعلق علم۔

علم ہیئت : وہ علم جس میں اجرام ِ فلکی ،زمین اور اس کی گردش و کشش وغیرہ سے بحث کی جاتی ہے ۔

اعلیٰ حضرت ستاروں اور سیاروں کی چالوں سے اتنے زیادہ باخبر تھے کہ جب آپ سے سوال کیا گیا کہ اہرامِ مصر کب اور کس نے تعمیر کیا تو آپ نے امیر المؤمنین مولی علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے قول کی روشنی میں اوراس فن میں اپنی مہارت سےجواب دیا کہ اسکی تعمیرات کو12640 سال آٹھ ماہ کا عرصہ گزرچکا ہے اور یہ تعمیرات سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش سے بھی 5750 سال پہلے جنات نے کی تھی ۔(معارف رضا، ص16-17، مجلہ 2013)

ان علوم پر امام اہلسنّت علیہ الرحمہ کی درج ذیل آٹھ کتابیں ہیں: (1) مَیْلُ الْکَوَاکِبِ وَتَعْدِیْلِ الْاَیَّامِ (2)اِسْتِخْرَاجُ تَقْوِیْمَاتِ کَوَاکِب(3) زَاکِیُ الْبِہَا فِیْ قُوّۃِ الْکَوَاکِبِ وَضُعْفِہَا (4)رِسَالَۃُ الْعَاد قَمَر (5)حاشیہ حَدَائِقُ النُّجُوْم (6)اِقْمَارُ الْاِنْشِرَاحِ لِحَقِیْقَۃِ الْاِصْبَاحِ (7)اَلصِّرَاحُ الْمُوْجِزُ فِی تَعْدِیْلِ الْمَرْکَزِ (8)جَادَۃُ الطُّلُوْعِ وَالْحَمْرِ لِلسَّیَّارَۃِ وَالنُّجُومِ وَالْقَمْرِ۔ (حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۵)

(8-9) علمُ الْحِسَاب وریاضی(Arithmetic & Mathemetic)

ان پر امام اہلسنّت علیہ الرحمہ کی درج ذیل دس کتابیں ہیں: (1)کَلامُ الْفَہِیْمِ فِی سَلَاسِلِ الْجَمْعِ وَالتَّقْسِیْمِ (2)جَدْوَلُ الرِّیَاضِی (3)مسئولیاتِ اَسہام (4)اَلْجَمَلُ الدَّائِرَۃِ فِی خُطُوطِ الدَّائِرَۃِ (5)اَلْکَسْرُ الْعُسْرٰی (6)زَاوِیَۃُ الْاِخْتِلَافِ الْمَنْظَرِ (7)عَزْمُ الْبَازِی فِی جَوِّ الرِّیَاضِی (8)کسورِ اَعشاریہ (9)معدنِ علومی درسنینِ ہجری، عیسوی ورومی (10)حاشیہ جامعِ بہادر خانی۔ (حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۶)

(10) علمِ اَرْثْمَا طِیْقِی (Greek Arithmetic)

اس فن میں اعلیٰ حضرت کی تین کتابیں ہیں: (1)اَلْمُوْہِبَاتُ فِی الْمُرَبَّعَاتِ (2)اَلْبُدُوْرُ فِی اَوْجِ الْمَجْذُوْرِ (3)کِتَابُ الْاَرْثْمَاطِیْقِی۔ (حیات اعلیٰ حضرت، ۲/۹۷)

(11) علم جبر ومقابلہ(Algebra)

یہ علم حساب کی فرع ہے۔ اس فن میں اعلیٰ حضرت کا ایک رسالہ ہے:(۱)حَلُّ الْمُعَادَلَات لِقَوِیِّ الْمُکَعَّبَاتِ (2)رسالہ جبرومقابلہ (3)حاشیہ اَلْقَوَاعِدُ الْجَلِیْلَۃ۔ (حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۷)

(12) علم الزیجات(Astronomical Tables)

اس علم میں اعلیٰ حضرت کی ایک کتاب ہے: (۱)مُسْفِرُ الْمَطَالِعِ لِلتَّقْوِیْمِ وَالطَّالِعِ (2)حاشیہ زیج بہادر خانی۔ (حیات اعلیٰ حضرت،۲ /۱۰۱)

(13) علم الجفر(Numerology Cum Literology)

اس فن میں اعلیٰ حضرت نے بغیر کسی استاد کےاس قدر مہارت حاصل کی کہ اس فن کے کئی قواعد آپ نے خود استخراج فرمائے،عربی زبان میں6 کتابیں ہیں: (1)اَلثَّوِاقِبُ الرَّضَوِیَّۃ عَلَی الْکَوَاکِبِ الدُّرِّیَّۃ (2)اَلْجَدَاوِلُ الرَّضَوِیَّۃ عَلَی الْکَوَاکِبِ الدُّرِّیَّۃ (3)اَلْاَجْوِبَۃُ الرَّضَوِیَّۃ لِلْمَسَائِلِ الْجَفَرِیَّۃ (4)اَلْجَفَرُ الْجَامِع (5)سَفرُ السَّفر عَنِ الْجَفَرِ بِالْجَفَرِ (6) مُجْتَلَّی الْعُرُوسِ وَالنُّفُوسِ۔

(14) علم ہندسہ(Geometry): خطوط اور زاویوں کا علم

(1)اَلْمَعْنَی الْمُجَلِّی لِلْمُغْنِی وَالظِّلِّی (2)اَلْاَشْکَالُ الْاِقْلِیْدَسْ (3)حاشیہ اصولِ ہندسہ (4)حاشیہ تحریرِ اقلیدس۔

(15-16) سائنس وہیئت (سائنس اینڈ فزکس)

اس فن پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی تحریروں اور فتاوی میں بیش بہا خزانہ عطا فرماتے ہوئے کئی سائنسی نظریات بھی پیش کئے ہیں ، اس فن پر آپ کی درج ذیل 3 اردوکتابوں اور 1 عربی حاشیہ کا پتہ چلا ہے: (1) نزولِ آیاتِ قرآن بسکونِ زمین وآسمان(2) فوزِ مُبین دَر رَدِّ حرکتِ زمین (3) مُعینِ مُبین بَہر دَورِ شمس وسکونِ زمین (4)حاشیہ اصولِ طبعی ۔

(17)معاشیات واقتصادیات(Economics)

اعلیٰ حضرت نے اس شعبہ میں بھی مسلمانوں کی نہ صرف بھرپور رہنمائی فرمائی بلکہ انہیں معاشی استحکام کا راستہ بھی دکھایا اس سلسلے میں آپ نے1912ء میں چار معاشی نکات بھی پیش کئے، اس موضوع پر آپ کی 3 کتابیں ہیں: (1)کِفْلُ الْفَقِیْہِ الْفَاہِمِ فِی اَحْکَامِ قِرْطَاسِ الدَّرَاہِمِ (2)تدبیرِفلاح ونجات واصلاح (3)اَلمُنٰی وَالدُّرَرْلِمَنْ عَمَدَ مَنِیْ آرْدَرْ

(18) علم ارضیات(Geology)

یعنی وہ علم جس میں زمین اور اس کے حصوں کے متعلق گفتگو کی جاتی ہے، زلزلے کا تعلق بھی اسی علم سے ہے ۔ زلزلہ کیسے آتا ہے؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟زلزلہ مختلف علاقوں میں کیوں آتا ہے؟ زلزلہ پوری دنیا میں ایک ساتھ کیوں نہیں آتا ؟ زلزلہ کبھی کم شدت کے ساتھ اور کبھی انتہائی شدت کے ساتھ کیوں آتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب اس فن کا ماہر ہی دے سکتا ہے، امام اہلسنّت سے جب سوالات پوچھے گئے تو آپ علیہ الرحمہ نے اپنی فنی مہارت سے ان تمام کے تسلی بخش جوابات مرحمت فرمائے، اسی طرح تیمم کے مسئلہ میں مٹی اور پتھروں کی اقسام وحالتوں پر اپنی تحقیق سے 107 ایسی اقسام کا اضافہ فرمایا ہے جن سے تیمم جائز ہے اور 73 وہ بھی بتائی ہیں جن سے تیمم جائز نہیں، مزید تفصیل کیلئے آپ کا رسالہ ’’ اَلْمَطَرُ السَّعِیْد عَلٰی نَبْتِ جِنْسِ الصَّعِیْد‘‘ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

(19) علم حجریات(Petrology)

یہ علم ارضیات کی ایک شاخ ہے جس میں پتھروں سے متعلق معلومات حاصل کی جاتی ہیں کہ کون سا پتھر، معدنیات، ہیرے جواہرات کہاں اور کیسے بنتے ہیں اور ان کو کس طرح تقسیم کیا جاسکتا ہے، Metalکی تعریف جتنی وضاحت کے ساتھ اعلیٰ حضرت نے فرمائی ہے اتنی وضاحت کے ساتھ علم حجریات والے بھی نہ کرسکے، اس فن میں اعلیٰ حضرت کے 3 رسائل ہیں: (1)حُسْنُ التَّعَمُّم لِبَیَانِ حَدِّ التَّیَمُّم (2)اَلْمَطَرُ السَّعِیْد عَلٰی نَبْتِ جِنْسِ الصَّعِیْد (3)اَلْجِدُّ السَّدِیْد فِیْ نَفْیِ الْاِسْتِعْمَالِ عَنِ الصَّعِیْد۔(ماخوذ ازمعارف رضا، ص17، مجلہ 2013)

(20) علم صوتیات:

یہ علم ہیئت کی ایک اہم شاخ ہے جس میں آواز کی لہروں سے متعلق علم حاصل کیا جاتا ہے، موبائل فون کے ذریعے ایک دوسرے تک آواز کا پہنچنا اسی طرح الٹرا ساؤنڈ کی مشینوں میں بھی آوازکی لہروں سے مدد لی جاتی ہے، اعلیٰ حضرت آواز کی لہروں سے بھی بھرپور واقف تھے ،’’اَلْکَشْفُ شَافِیَا حُکْمُ فُوْنُوْ جِرَافِیا‘‘ نامی کتاب اس فن پر آپ کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔(ماخوذ ازمعارف رضا، ص17، مجلہ 2013)

(21) علم البحر(Oceanography)

اس علم کی ایک شاخ سمندری موجوں سے تعلق رکھتی ہے جسے Tidesکہا جاتا ہے اور یہ لہریں مختلف قسم کی ہوتی ہیں، ان میں سے ایک قسم کو ’’مدوجزر‘‘ یعنی Lunar Tideکہا جاتا ہے،اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے’’فوز مبین ‘‘ میں ’’مدووجزر‘‘ کے سبب پر اپنا مؤقف نہ صرف مدلل انداز میں بیان فرمایا بلکہ اس فن میں بھی اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔

(22) علم الوفق

اس فن میں بھی اعلیٰ حضرت کی ایک کتاب ہے: (۱)اَلْفَوْزُ بِالْآمَال فِی الْاَوْفَاقِ وَالْاَعْمَالِ۔ (حیات اعلیٰ حضرت، ۲/۹۳)


تحریر: مولانا انصار احمد مصباحی صاحب

نُوْرُ الْاِيْضَاحِ کوآپ میں سے اکثر لوگوں نے حرفاً حرفاً پڑھا ہوگا۔ بر صغیر کے سارے مدارس نظامیہ میں داخل نصاب ہے۔ سچ پوچھیں تو فقہ حنفی میں اس سے مختصر اور جامع کتاب نہیں لکھی گئی۔ اس کے مشمولات طلبہ کو آگے کی فقہی مطولات میں روح کا کام کرتے ہیں۔ نور الایضاح کی اختصار اور جامعیت کی خوبی اسے دوسری کتابوں سے ممتاز کرتی ہے۔

کتاب کا پورا نام نُوْرُ الْاِيْضَاحِ وَ نَجَاةُ الْاَرْوَاحِ ہے۔ مصنف ہیں شیخ ابو الاخلاص حسن بن عمارشرنبلالی حنفی مصری رحمۃ اللہ علیہ (م ١٠٧٩ھ )۔ مصنف نے یہ کتاب اپنے بعض محبین کے لئے لکھی، جب ضرورت محسوس کیا کہ کئی مقامات وضاحت طلب ہیں، کہیں کہیں عبارت مبہم ہوگئی ہے، توضیح و تشریح کی ضرورت ہے، تو خود ہی اس کی مختصر شرح مَرَاقِی الْفَلَّاحِ بِاِمْدَادِ الْفَتَّاحِ کے نام سے لکھ دی۔

آج میری توجہ کی چیز کتاب ہے نہ ہی اس کی شرح بلکہ جس چیز نے مجھے اس مشہور کتاب کا تجزیہ لکھنے پر مجبور کیا، وہ اس کا حاشیہ ہے۔

دعوت اسلامی کے”مکتبۃالمدینہ“ نے، نُوْرُ الْاِيْضَاحِ اور مَرَاقِی الْفَلَّاحِ کو النورُ و الضياءُ من افاداتِ الامام احمد رضا نام کے حاشیے کے ساتھ شائع کیا ہے۔ نام سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ حاشیے شیخ الاسلام حضور اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمة اللہ علیہ کے افادات پر مشتمل ہیں،لیکن آپ کو کہیں پر بھی افادات کا گمان نہیں ہوگا، بلکہ مستقل اور مکمل حاشیہ ہی لگتا ہے۔ یہ یقیناً دعوت اسلامی کی مجلس المدینۃ العلمیہ کے علما کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔ جَدُّ الْمُمْتَار کے بعد رضویات میں دعوت اسلامی کا یہ نمایاں کام کہا جا سکتا ہے۔

ترتیب یہ ہے کہ صفحے میں پہلے نور الایضاح کی عبارت ہے، نیچے مراقی کی شرح اور پھر امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے افادات۔ افادات عام فہم اور سلیس عبارتوں میں لکھے گئے ہیں، جن کا سر چشمہ فتاوی رضویہ شریف ، جَدُّ الْمُمْتَار اور حضرت امام کی دوسری کتب فقہ پر لکھی گئیں حواشی و تعلیقات ہیں۔ امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی عادت کریمہ تھی، دوران مطالعہ کتابوں میں حاشیہ بھی لکھ دیا کرتے۔ ماہر رضویات پروفیسر مسعود احمد مجددی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، ”راقم کے کتب خانے میں صرف علم حدیث کے متعلق امام احمد رضا علیہ الرحمہ کے ٢١ مخطوطات موجود ہیں“۔ (جامع الاحادیث، مقدمہ ، ٦٥) حضرت امام نے فقہ میں تین سو کے قریب کتابیں تصنیف فرمائیں، فقہ حنفی کی ہدایہ، کتاب الخراج، فتح القدیر، بدائع و الصنائع، فواتح الرحموت، الجوہرہ، البحر الرائق، مجمع الانہر، فتاوی ہندیہ، فتاوی حدیثیہ، فتاوی خیریہ وغیرہ ٣٥ کتابوں پر حواشی و تعلیقات ہیں۔

زیر نظر حاشیہ آپ کے گراں قدر افادات پر مشتمل ہے۔ ملک العلماء رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتےتھے، ”اعلی حضرت کے افادات بھی افادات ہوتے ہیں“۔ (مقدمہ صیح البہاری)

نور الایضاح ویسے تو میں آج مسلسل آٹھ سالوں سے پڑھا رہا ہوں، لیکن جو لطف مندرجہ شرح اور امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے افادات کے ساتھ پڑھنے میں آیا، اس کی چاشنی میرا ذوق مطالعہ کبھی فراموش نہیں کر پائیگا۔ اس دور میں کتابوں کی عمدہ اور معیاری اشاعت ہی کمال ہے، فقہ کی کسی کتاب کو فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے افادات کے ساتھ شائع کرنا سونے پہ سہاگا ہے۔ نور الایضاح کے مصنف کے حالات بہت مختصر ہے، اس کمی کے علاوہ ساری باتیں قابل تعریف ہیں۔

کتاب نُوْرُ الْاِيْضَاحِ مع مَرَاقِی الْفَلَّاحِ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کیجئے:

https://arabicdawateislami.net/bookslibrary/1043/


تحریر: مولانا   محمد ضیاء السلام قادری صاحب (دارالعلوم منظر الاسلام واہ کینٹ)

عرس رضا کے موقع پر دعوت اسلامی کی طرف سے امت کو عظیم تحفہ :

پچھلے دنوں تنظیم المدارس اہلسنت کے تحت امتحانات کا سلسلہ ہوا تو اس وقت بھی یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ واہ کینٹ ،ٹیکسلا ،حسن ابدال کے بڑے بڑے جامعات ایک طرف اور دعوت اسلامی کا جامعۃ المدینہ ایک طرف ۔ سب سے زیادہ امتحانات دینے والے طلباء کی تعداد جامعۃ المدینہ کی تھی اور اب عرس امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کے موقع پر جامعات المدینہ سے عالم کورس کر کے فراغت حاصل کرنے والے طلباء کرام کی دستار فضیلت کی جا رہی ہے جس کی تعداد دیکھ کر انتہائی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ 1000سے زائد علماء اس سال تیار ہو کر خدمت دین کے لیے میدان میں اتر رہے ہیں۔

یہ دعوت اسلامی ہے کہ جس سے تعداد پوچھنی نہیں پڑھتی بلکہ خود نظر آ جاتی ہے اور اگر کوئی پوچھ بھی لے تو بتانے میں شرم محسوس نہیں ہوتی بلکہ سر فخر سے بلند کر کے تعداد بتائی جاتی ہے اس وقت دعوت اسلامی کے تحت 814 سے زائد جامعات قائم ہیں جہاں 64 ہزار سے زائد طلباء علم دین حاصل کر رہے ہیں ۔فتدبر!!!

اور جو تعداد اس وقت جامعات المدینہ میں زیر تعلیم ہے اور جو میں نے ٹیکسلا ،حسن ابدال اور واہ کینٹ میں تنظیم المدارس کے تحت امتحانات دینے والے طلبا کی تعداد دیکھی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ سالوں میں عنقریب دعوت اسلامی سے عالم کورس کر کے فراغت حاصل کرنے والوں کی تعداد تین چار ہزار سے زائد ہوگی ۔ اس پر فتن دور میں اتنے علماء و مبلغین تیار کرنا اور پھر ان علماء کو مختلف شعبہ جات میں دین متین کی خدمت کے لیے لگا دینا یقینا امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کرامت ہے اور یہ آپ کے جذبہ خدمت دین اور مسلک اہلسنت کے لیے دن رات کی محنت و کوشش اور اپنی ذاتی ترجیحات کو پس پشت ڈال کر خدمت دین کا نتیجہ ہے کہ آج ہر سمت سے نظریں دعوت اسلامی کو ہی تلاش کرتی ہیں اور لوگ اپنے دین و عقائد کے معاملے میں امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی آواز اور آپ کی تحریک کو اپنے عقائد و اعمال کا محافظ اور مضبوط قلعہ شمار کرتے ہیں ۔

موجودہ حالت کو ایک ولی کامل نے تقریبا تین سال قبل ملاحظہ کیا اور امت کو ایک نعرہ دیا ،میری معلومات کے مطابق اس نعرہ کو بلند کرنے سے قبل امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے علمائے کرام و مفتیان عظام سے فرمایا کہ ایک نعرہ بتائیے جو کہ ہر بچہ کی زبان پر آسانی سے جاری ہو تو مختلف مفتیان کرام نے مختلف نعرے بتائے لیکن قبلہ امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے فرمایا آسان سے آسان نعرہ ہو ،تو پھر امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے خود ایک نعرہ بلند کیا جو کہ زبان پر انتہائی آسانی سے جاری ہونے والا نعرہ تھا اور وہ نعرہ تھا ” ہر صحابی نبی جنتی جنتی “

شکریہ امیر اہلسنت جنہوں نے امت کو اتنے علماء کا تحفہ دیا ۔ اللہ پاک محسن اہلسنت کا سایہ تا دیر سلامت رکھے ۔

یہ فیض ہے غوث پاک کا،یہ فیض ہےاحمد رضا کا

شکریہ دعوت اسلامی

نوٹ: راقم کی تحریر میں ادارے کی پالیسی کے مطابق ترمیم کی گئی ہے۔ 


اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلاف کے مسلک و منہج کی مدلل انداز میں ترجمانی و نمائندگی کی۔ آپ نے اپنے عہد میں نہ صرف پرانے بلکہ نوپید فتنوں کابھی علمی محاسبہ کیا۔ ان پر شرعی حکم عائد کر کے سرمایۂ ملت کی نگہبانی کی۔ آپ کی خدماتِ علمیہ دانش گاہوں اور تحقیقی اداروں کا محور و مصدر ٹھہریں۔ آج عالم یہ ہے کہ جہانِ علم و فضل میں کارِ رضا، فکرِ رضا، یادِ رضا اور ذکرِ رضا کی دھوم ہے۔ ہر بزم میں اعلیٰ حضرت کا چرچا ہے۔ ہر فن کی بلندی پر فکرِ رضا کا علَم لہرا رہا ہے۔ہر گلشن میں بریلی کے گُلِ  ہزارہ کی خوشبو ہے۔

اعلیٰ حضرت کی ان خدماتِ دینیہ اور تعلیمات کو چاردانگ عالم میں آسان کرکے پیش کرنے کے عظیم مقصد کے تحت عالمی مذہبی تحریک دعوتِ اسلامی نےشعبہ المدینۃ العلمیہ کی بنیاد رکھی۔ ابتداءً المدینۃ العلمیہ کو چھ ڈیپارمنٹس میں تقسیم کیا گیا، ان چھ میں ایک شعبہ کتب اعلیٰ حضرت کی داغ بیل بھی ڈالی گئی۔ اس شعبے کا خالصتاً کام اعلیٰ حضرت کی کتابوں کو جدید دورکے تقاضوں کے مطابق آسان سے آسان کرکے شائع کرنا ہے۔ اس شعبے میں اعلیٰ حضرت کی اردو کتب اوررسائل پر تسہیل، تخریج، تلخیص، ترجمہ اور حاشیہ جبکہ عربی کتب میں تبییض ،تصحیح، تحقیق وتخریج الغرض موجودہ دور میں تحقیق شدہ کتب کے معیار کے مطابق کام سَر انجام دیا جاتا ہے۔

المدینۃ العلمیہ نے اپنے 19 سالہ علمی سفرمیں اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات و تعلیمات اور فروغِ مسلکِ اعلیٰ حضرت کی ترویج و اشاعت میں جو قابلِ ذکر خدمات سر انجام دی ہیں ان کی مختصر جھلکیاں نذرِ قارئین کی جاتی ہیں:

(1)...جَدُّ الْمُمْتار عَلٰی رَدِّ الْمُحْتار(سات جلدیں) (2)...اَجْلَی الْاِعْلَام اَنَّ الْفَتْوٰی مُطْلَقًا عَلٰی قَوْلِ الْاِمَام (3)...اَلتَّعْلِیْقُ الرَّضَوِی عَلٰی صَحِیْحِ الْبُخَارِی (4)...اَنْوَارُ الْمَنَّان فِیْ تَوْحِیْدِ الْقُرْآن (5)...اَلتَّعْلِیْقَاتُ الرَّضَوِیَّۃ عَلَی الْہِدَایۃ وَشُرُوْحِہَا (6)...اَلْفتاوی المختارۃ من الفتاوی الرضویۃ (7)...راہ خدا میں خرچ کرنے کے فضائل (8)...اولاد کے حقوق، والدین زوجین اور اساتذہ کے حقوق(9)...حقوق العباد کیسے معاف ہوں (10)...شفاعت کے متعلق 40حدیثیں (11)...فضائل دعا (12)...کرنسی نوٹ کے شرعی احکامات (13)...عیدین میں گلے ملنا کیسا؟ (14)...شریعت وطریقت (15)...ولایت کا آسان راستہ (تصوّرِ شیخ) (16)...اعلیٰ حضرت سے سوال جواب (17)...ثبوت ہلال کے طریقے (18)...دس عقیدے

آئندہ کے اہداف:

المدینۃ العلمیہ کے زیرِ اہتمام شعبہ کُتُب اعلیٰ حضرت کے آئندہ کے اہداف میں زیرِ تدوین و زیرِ غور کام میں(1) علم غیب پر انسائیکلو پیڈیا ’’مَاٰلِی الْجَیْب بِعُلُوْمِ الْغَیْب‘‘ (2) اَلنُّور وَالضِّیَاء (3)خیر الامال فی حکم الکسب والسؤال پر تحقیقی کام جاری ہے۔

الغرض ! اب تک اس شعبے سے امام اہل سنّت کی تقریباً 34 کتب ورسائل شائع ہوچکے ہیں جن میں 22 اردو کتب ورسائل ہیں اور عربی کتب ورسائل کی تعداد 12 ہے۔ ان میں سے تین دار الکتب العلمیۃ بیروت سے بھی شائع ہوچکی ہیں اور ایک عنقریب شائع ہوگی۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ

در حقیقت یہ سب عاشقِ اعلیٰ حضرت، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکی دعاؤں ، محبتوں اور شفقتوں کانتیجہ ہے جنہوں نے عاشقانِ رسول کو رضویت کی نہ صرف خوب پہچان کرائی بلکہ افکار ونظریاتِ رضاکی کھل کر ترجمانی کی اورمسلکِ اعلیٰ حضرت کےسچے علم بردار کہلائے.یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر و نگارش پرنظریات وافکارِ رضا کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے، یہ وہی ہستی ہیں جنہوں نے قلم اٹھاتے ہی سب سے پہلا رسالہ اعلیٰ حضرت کی سیرت پر لکھا، آپ کا یہ قول”اعلیٰ حضرت پر میری آنکھیں بند ہیں“ اعلیٰ حضرت سے سچی عقیدت ومحبت اور اُن پر کامل اعتماد کا عکاس ہے۔ الغرض!رضویات کےحوالے سے بانیِ دعوتِ اسلامی کی جو محنت، جدو جہد، جاں سوزی، والہیت، وارفتگی اور گوں ناگوں خدمات ہیں وہ اظہر من الشمس ہیں۔

اللہ رب العزت چمنستانِ رضا کے ہر پھول کو ہمیشہ پھلتا پھولتا اور شاد و آباد رکھے، اس باغ کے ہر رَکھوالے کی خیر فرمائےاور ہمیں اس چمن سے خوشہ چینی کی توفیقِ رفیق عطا فرمائے۔ آ مین۔


عمارتِ نبوت کی آخری اینٹ

تحریر: مفتی محمد قاسم عطاری

ارشادباری تعالیٰ ہے: : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجمہ: محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں۔(پ22،الاحزاب:40)

تفسیر یہ آیتِ مبارکہ حضور پُر نور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آخری نبی (Last Prophet) ہونے پر نَصِّ قطعی ہے اور اس کا معنیٰ پوری طرح واضح ہے جس میں کسی تاویل اور تخصیص کی ذرّہ بھر بھی گُنجائش نہیں۔ ختمِ نبوت سے متعلِّق تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تمام انبیاء و مرسلین علیہمُ الصَّلٰوۃُ والسَّلام کے آخر میں مبعوث فرمایا اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نبوت و رِسالت کا سلسلہ ختم فرما دیا، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ یا آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد قیامت قائم ہونے تک کسی کو نَبُوَّت ملنا مُحال ہے۔ یہ عقیدہ ضروریاتِ دین سے ہے، اس کا منکر اور اس میں ادنیٰ سا بھی شک و شبہ کرنے والا کافر، مرتد اور ملعون ہے۔

مذکورہ بالا آیت کے علاوہ بیسیوں آیات ایسی ہیں جو مختلف پہلوؤں کے اعتبار سے حضورِ انور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آخری نبی ہونے کی تائید و تَثْوِیب کرتی ہیں جیسے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رِسالت کے پہلو سے دیکھا جائے تو (1)آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سب انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا۔(پ9، الاعراف:158) (2)تمام لوگوں کے لئے بشیر و نذیر بنایا گیا۔(پ22، سبا:28) (3)آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سارے جہانوں کو عذابِ الٰہی سے ڈرانے والے۔(پ18، الفرقان:01) (4)تمام لوگوں کو کفر کی ظلمت سے ایمان کے نور کی طرف نکالنے والے۔ (پ13، ابراہیم:01) (5)اور ہر جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔(پ17، الانبیاء:107) (6)اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہمُ الصَّلٰوۃُ والسَّلام سے یہ عہد لیا کہ جب حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تشریف آوَری ہو تو وہ ان پر ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں۔(پ3،اٰل عمرٰن:81) ان کے بعد کسی نبی پر ایمان و مدد کا کہیں ذکر نہیں فرمایا۔ (7)آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے رسولوں کی تشریف آوَری کے بارے میں بتایا گیا۔(پ4،اٰل عمرٰن: 144، پ17، الانبیاء:41، پ7، الانعام:34) لیکن آپ کے بعد کسی بھی رسول کے آنے کی خبر نہیں دی گئی۔ (8)حضرت عیسیٰ علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام نے تورات کی تصدیق کی اور رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آمد کی بِشارت دی۔(پ28،الصف:06) جبکہ حضور پُر نور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے بعد کسی نبی کے آنے کی بشارت نہیں دی۔

آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لائے ہوئے دین کے پہلو سے دیکھا جائے تو (9)اللہ تعالیٰ نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دین کامل کردیا۔(پ6، المآئدہ:03) کہ یہ پچھلے دینوں کی طرح مَنْسُوخ نہ ہو گا بلکہ قیامت تک باقی رہے گا۔ (10)آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ہدایت اور سچّے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کردے۔ (پ28،الصف:09)

آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل ہونے والی کتاب قراٰنِ مجید کے پہلو سے دیکھا جائے تو (11)اللہ تعالیٰ نے کُتُبِ اِلٰہیّہ پر ایمان سے متعلق قراٰن اور سابقہ کتابوں کا ذکر فرمایا۔ (پ1، البقرۃ:04،پ5، النسآء: 136، 162) لیکن قراٰن کے بعد کسی اور آسمانی کتاب کاذِکر نہیں کیا۔ (12)قراٰن پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔(پ26، الاحقاف: 29) لیکن اس نے اپنے بعد کسی کتاب کی تصدیق نہیں کی۔ (13)قراٰن تمام جہانوں کے لئے نصیحت ہے۔(پ30، التکویر:26) (14)قراٰن پوری انسانیت کے لئے ذریعۂ ہدایت ہے۔(پ 1، البقرۃ:185)

آخر میں ایک حدیثِ پاک بھی ملاحظہ ہو،چنانچہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:میری اور تمام انبیاء کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک عمده اور خوبصورت عمارت بنائی اور لوگ اس کے آس پاس چکّر لگا کر کہنے لگے :ہم نے اس سے بہترین عمارت نہیں دیکھی مگر یہ ایک اینٹ ( کی جگہ خالی ہے جو کھٹک رہی ہے) تو میں (اس عمارت کی) وہ (آخری) اینٹ ہوں۔(مسلم،ص965،حدیث:5959)

”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“(محرم الحرام 1439) ، صفحہ5، مضمون:تفسیر قراٰنِ کریم

خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ کا معنیٰ تفاسیر کی روشنی میں

تحریر: ابوالحسن راشد  علی عطاری مدنی

عقیدہ ختمِ نُبُوَّت دینِ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ یہ ایک حساس ترين عقیدہ ہے۔ ختم نبوت کا انکار قراٰن کا انکار ہے۔ختمِ نبوت کا انکار صحابۂ کرام کے اجماع کا انکار ہے ۔ختمِ نبوت کا انکار ساری امتِ محمدیہ کے علما و فقہا و اَسلاف کے اجماع کا انکار ہے۔ ختمِ نبوت کو نہ ماننا رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک زمانہ سے لے کر آج تک کے ہر ہر مسلمان کے عقیدے کو جھوٹا کہنے کے مترادف ہے۔ اللہ ربُّ العزّت کا فرمانِ عظیم ہے:

: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰)

تَرجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔( پ22، الاحزاب:40)

ختمِ نُبُوَّت کے منکر اس آیتِ مبارکہ کے الفاظ ” خَاتَمُ النَّبِیِّیْن “ کے معنی میں طرح طرح کی بے بنیاد، جھوٹی اور دھوکا پر مبنی تاوِیلاتِ فاسدہ کرتے ہیں جو کہ قراٰن، احادیث، فرامین و اجماعِ صحابہ اور مفسرین، محدثین، محققین، متکلمین اور ساری اُمّتِ محمّدیّہ کے خلاف ہیں۔ تفاسیر اور اقوال مفسرین کی روشنی میں خَاتَمُ النَّبِیِّیْن کا معنیٰ آخری نبی ہی ہے،

چنانچہ مفسّر قران:

ابو جعفر محمد بن جریر طبری (وفات: 310ھ)، ابوالحسن علی بن محمد بغدادی ماوردی (وفات:450ھ)، ابو الحسن علی بن احمد واحدی نیشاپوری شافعی (وفات: 468ھ)، ابوالمظفر منصور بن محمد المروزی سمعانی شافعی (وفات: 489ھ)، محیُّ السُّنّۃ ابومحمد حسین بن مسعود بغوی (وفات: 510ھ)، ابو محمد عبدُالحق بن غالب اندلسی محاربی (وفات: 542ھ)، سلطانُ العلماء ابومحمد عز الدين عبدالعزيز بن عبد السلام سلمی دمشقی (وفات: 660ھ)، ناصرُ الدّين ابوسعيد عبدُالله بن عمر شیرازی بیضاوی (وفات: 685ھ)، ابوالبركات عبدُالله بن احمد نسفی (وفات: 710ھ)، ابوالقاسم محمد بن احمد بن محمد الکلبی غرناطی (وفات: 741ھ)، ابوعبدُالله محمد بن محمد بن عرفہ ورغمی مالکی (وفات: 803ھ)، جلال الدّين محمد بن احمد محلی (وفات: 864ھ) اور ابوالسعود العمادی محمد بن محمد بن مصطفىٰ (وفات:982ھ) رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم اَجْمعین سمیت دیگر کثیر مفسرینِ کرام نے اس آیت کی تفسیر میں ہمارے پیارے آقا محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آخری نبی ہونے کی تصریح و تاکید فرمائی ہے۔ ذیل میں چند تفاسیر کے اِقتِباسات ملاحظہ کیجئے:

۞امامِ اہلِ سنّت، ابو منصور ماتریدی (وفات: 333ھ) اپنی تفسیر ”تاویلات اہل السنۃ“ میں لکھتے ہیں:جو کوئی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد نبی کے آنے کا دعویٰ کرے تو اس سے کوئی حجت و دلیل طلب نہیں کی جائے گی بلکہ اسے جھٹلایا جائے گا کیونکہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرما چکے ہیں:لَا نَبِیَّ بَعْدِي یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ( تاویلات اہل السنۃ،8/396، تحت الآیۃ:40)

۞صاحبِ زادُ المسیر ابوالفرج عبدُالرّحمٰن بن علی جوزی (وفات: 597ھ) لکھتے ہیں: خَاتَمُ النَّبِیِّیْن کے معنی آخِرُالنّبیین ہیں، حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ اگر اللہ کریم محمّدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذریعے سلسلۂ نُبُوَّت ختم نہ فرماتا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بیٹا حیات رہتا جو ان کے بعد نبی ہوتا۔ ( زاد المسیر،6/393، تحت الآیۃ: 40)

۞الجامع لاحكامِ القراٰن میں امام ابوعبدُالله محمد بن احمد قُرطبی (وفات: 671ھ) لکھتے ہیں:” خَاتَمُ النَّبِیِّیْنکے یہ الفاظ تمام قدیم و جدید علمائے اُمّت کے نزدیک مکمل طور پر عُموم(یعنی ظاہری معنیٰ) پر ہیں جو بطورِ نَصِ قطعی تقاضا کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی نہیں۔اور خَاتَمُ النَّبِیِّیْن کے ختم نبوت کے خلاف دوسرے معنیٰ نکالنے اور تاویلیں کرنے والوں کا رَد کرتے ہوئے امام قُرطبی لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ اِلْحاد یعنی بے دینی ہے اور ختمِ نُبُوَّت کے بارے میں مسلمانوں کے عقیدہ کو تشویش میں ڈالنے کی خبیث حرکت ہے، پس ان سے بچو اور بچو اور اللہ ہی اپنی رحمت سے ہدایت دینے والا ہے۔ ( تفسیر قرطبی،جز14، 7/144، تحت الآیۃ:40)

۞تفسیر لُبابُ التاویل میں حضرت علاءُالدّین علی بن محمد خازِن (وفات: 741ھ) لکھتے ہیں: خَاتَمُ النَّبِیِّیْن کے معنی ہیں کہ اللہ کریم نے ان پر سلسلۂ نُبُوَّت ختم کردیا پس ان کے بعد کوئی نبوت نہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی اور نبی ہے۔ حضرت سیّدُنا عبدُالله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: کیونکہ اللہ کریم جانتا تھا کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی نہیں اسی لئے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کوئی ایسی مذکر اولاد عطا نہ فرمائی جو جوانی کی عمر کو پہنچی ہو اور رہا حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام کا تشریف لانا تو وہ تو ان انبیا میں سے ہیں جو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے دنیا میں تشریف لاچکے اور جب آخر زمانہ میں تشریف لائیں گے تو شریعتِ محمدیہ پر عمل کریں گے اور انہی کے قِبلہ کی جانب منہ کرکے نماز پڑھیں گے گویاکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُمّت سے بھی ہوں گے۔ ( تفسیر خازن،3/503، تحت الآیۃ:40)

۞مشہور تفسیر اللباب فی علوم الكتاب میں ابوحفص سراج الدين عمر بن علی حنبلی دمشقی (وفات: 775ھ) حضرت سیدنا عبدُالله بن عباس کا قول ”اللہ کریم کا فیصلہ تھا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی نہ ہو اسی لئے ان کی کوئی مذکر اولاد سن رجولیت(یعنی جوان آدمی کی عمر) کو نہ پہنچی“ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: کہا گیا ہے کہ جن کے بعد کوئی نبی نہیں، وہ اپنی اُمّت پر بہت زیادہ شفیق اور ان کی ہدایت کے بہت زیادہ خواہاں ہوں گے گویا کہ وہ اُمّت کے لئے اس والد کی طرح ہوں گے جس کی اور کوئی اولاد نہ ہو۔( اللباب فی علوم الکتاب،15/558، تحت الآیۃ: 40)

اس تفسیر کے مطابق دیکھا جائے تو اللہ ربُّ العزّت کے بعد اس اُمّت پر سب سے زیادہ شفیق و مہربان جنابِ محمدِ مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی ہیں، جس پر آیتِ قراٰنی عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)تَرجَمۂ کنزُ الایمان: جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔ ( پ11، التوبۃ:128) سمیت کثیر آیات واضح دلیل ہیں۔

۞تفسیر نظم الدرر میں حضرت ابراہیم بن عمر بقاعی (وفات: 885ھ) لکھتے ہیں: کیونکہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رسالت اور نبوت سارے جہان کے لئے عام ہے اور یہ اعجازِ قراٰنی بھی ہے (کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل ہونے والی یہ کتاب بھی سارے جہاں کے لئےہدایت ہے)، پس اب کسی نبی و رسول کے بھیجنے کی حاجت نہیں، لہٰذا اب رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی بھی پیدا نہ ہوگا، اسی بات کا تقاضا ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا کوئی شہزادہ سنِ بلوغت کو نہ پہنچا اور اگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کسی نبی کا آنا علمِ الٰہی میں طے ہوتا تو محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اِکرام و عزت کے لئے ضرور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک نسل ہی سے ہوتا کیونکہ آپ سب نبیوں سے اعلیٰ رتبے اور شرف والے ہیں لیکن اللہ کریم نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اکرام اور اعزازکے لئے یہ فیصلہ فرمادیا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی ہی نہیں آئے گا۔ (نظم الدرر،6/112،تحت الآیۃ:40)

۞تفسیر الفواتح الالٰہیہ میں شیخ علوان نعمتُ الله بن محمود (وفات: 920ھ) فرماتے ہیں:رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ کی جانب سے اللہ کے بندوں کی ہدایت کے لئے تشریف لائے، اللہ کریم نے تمہیں راہِ رُشد و ہدایت دکھانے کے لئے تمہاری طرف اُمَمِ سابقہ کی طرح رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھیجا، لیکن ان کی شان یہ ہے کہ یہ خَاتَمُ النَّبِیِّیْن اور ختم المرسلین ہیں کیونکہ ان کے تشریف لانے کے بعد دائرہ نبوت مکمل ہوگیا اور پیغامِ رسالت تمام ہوگیا جیسا کہ خود رسالت مآب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں اور اللہ کریم نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان میں فرمایا ہے:اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ  تَرجَمۂ کنزُ الایمان:آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا۔ ( الفواتح الالٰہیہ،2/158، تحت الآیۃ:40)

۞صاحبِ تفسیرِ فتح الرحمن مجير الدين بن محمد علیمی مقدسی حنبلی (وفات: 927ھ) فرماتے ہیں: خَاتَمُ النَّبِیِّیْن کے معنیٰ ہیں نبیوں میں سے آخری یعنی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد ہمیشہ کے لئے دروازۂ نبوت بند ہوگیا اور کسی کو بھی نبوت نہیں دی جائے گی اور رہا عیسیٰ علیہ السَّلام کاتشریف لانا تو وہ تو ان انبیا میں سے ہیں جو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے دنیامیں تشریف لاچکے۔ ( فتح الرحمٰن،5/370، تحت الآیۃ:40)

اللہ کریم ہمیں عقیدہ ختمِ نُبُوّت کی حفاظت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اللہ کے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

تحریر: راشد نور عطّاری مدنی

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک کا آخری نبی ماننا اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کسی طرح کا کوئی نیا نبی و رسول نہ آیا ہے اور نہ ہی آسکتا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ السَّلام بھی قیامت کے نزدیک جب تشریف لائیں گے تو سابق وصفِ نبوت و رسالت سے متصف ہونے کے باوجود ہمارے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نائب و اُمّتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے اور اپنی شریعت کے بجائے دین محمدی کی تبلیغ کریں گے۔(خصائص کبریٰ،2/329)

اِس عقیدۂ ختمِ نبوت کو قراٰنِ پاک میں یوں بیان فرمایا گیا ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰ تَرجَمۂ کنزُالعِرفان: محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیںاور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔ (پ22،الاحزاب:40)

خودتاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی مبارک زبان سے اپنے آخری نبی ہونے کو بیان کیا ہے :

ختمِ رسالت کے آٹھ حروف کی نسبت سے

8 فرامینِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(1)فَاِنِّی آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ وَاِنَّ مَسْجِدِی آخِرُ الْمَسَاجِدِ بےشک میں سب نبیوں میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے (جسے کسی نبی نے خود تعمیر کیا ہے)۔(مسلم،ص553،حدیث:3376)

(2)مجھے انبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام پر چھ چیزوں سے فضیلت دی گئی: (۱)مجھے جامع کلمات دئیے گئے (۲)رُعْب طاری کرکے میری مدد کی گئی (۳)میرے لئے مالِ غنیمت کو حلال کر دیا گیا (۴)میرے لئے ساری زمین پاک اور نَماز کی جگہ بنادی گئی (۵)مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا (۶)مجھ پر نبوت ختم کردی گئی۔ (مسلم، ص210، حدیث:1167)

(3)اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدْ اِنْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِی وَلَا نَبِیَّ بےشک رِسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا اور نہ کوئی نبی۔( ترمذی،4/121،حدیث:2279)

(4)اَنَا آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ وَاَنْتُمْ آخِرُ الْاُمَمِ میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے آخری اُمّت ہو۔(ابنِ ماجہ، 4/414، حدیث: 4077)

(5)اَنَا مُحَمَّدٌ،النَّبِیُّ الاُمِّیُّ، اَنَا مُحَمَّدٌ،النَّبِیُّ الاُمِّیُّ ، ثلاثًا، وَلَا نَبِیَّ بَعْدِی، میں محمد ہوں، اُمِّی نبی ہوں تین مرتبہ ارشاد فرمایا، اور میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسند احمد، 2/665، حدیث:7000)

(6)بنی اسرائیل کا نظامِ حکومت اُن کے اَنبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام چلاتے تھے جب بھی ایک نبی جاتا تو اس کے بعد دوسرا نبی آتا تھا اور میرے بعد تم میں کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔(مصنف ابن ابی شیبۃ،8/615،حدیث:152)

(7)ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ، فَلَا نُبُوَّةَ بَعْدِی اِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ۔ قِيْلَ: وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ:الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الرَّجُلُ اَوْ تُرَى لَه یعنی نبوت گئی، اب میرے بعد نبوت نہیں مگر بشارتیں ہیں۔ عرض کی گئی: بشارتیں کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا:اچھا خواب کہ آدمی خود دیکھے یا اس کے لئے دیکھا جائے۔(معجم کبیر، 3/179، حدیث:3051)

(8)اَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَلا فَخْرَ یعنی میں خَاتَمُ النَّبِیِّین ہوں اور یہ بطورِ فخر نہیں کہتا۔ (معجم اوسط، 1/63، حدیث:170، تاریخِ کبیر للبخاری، 4/236، حدیث:5731)

”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“(محرم الحرام 1441ھ) ، صفحہ10

اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

تحریر: کاشف شہزاد عطاری مدنی

دینِ اسلام کے بنیادی عقائد میں سےایک یہ ہے کہ اللہ پاک نے نبوّت و رسالت کاسلسلہ خَاتَمُ النَّبِیِّین، جنابِ احمدِ مجتبیٰ، محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ختم فرما دیا ہے۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کسی طرح کا کوئی نبی، کوئی رسول نہ آیا ہے، نہ آسکتا ہے اور نہ آئے گا۔ اس عقیدے سے انکار کرنے والا یا اس میں ذرہ برابر بھی شک اور تَرَدُّد کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارِج ہے۔

حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے غیب کی خبر دیتے ہوئے پہلے ہی ارشاد فرما دیا تھا : عنقریب میری اُمّت میں تیس (30)کَذَّاب(یعنی بہت بڑےجھوٹے) ہوں گے، ان میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خَاتَمُ النَّبِیِّین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔“ (ابوداؤد، 4/132، حدیث: 4252)

سرکارِ نامدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا آخری نبی ہونا قراٰنِ مجید کی صریح آیات اور احادیثِ مبارَکہ سے ثابت نیز تمام صحابۂ کرام، تابعینِ عظام، تبع تابعین اور تمام اُمّتِ محمدیہ کا اجماعی عقیدہ ہے۔ آئیے اس حوالے سے احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کیجئے:

”ختمِ نبوت“ کے 7حروف کی نسبت سے

سات7فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(1)بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی، اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی۔(ترمذی، 4/121، حدیث:2279)

(2)اے لوگو! بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی اُمّت نہیں۔(معجم کبیر، 8/115، حدیث:7535)

(3)میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک حسین و جمیل عمارت بنائی مگر اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس(عمارت) کے گِرد گھومنے لگے اور تعجب سے کہنے لگے کہ اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟ میں (قصرِ نبوت کی) وہ اینٹ ہوں اور میں خَاتَمُ النَّبِیِّین ہوں۔ (مسلم، ص965، حدیث:5961)

(4)بےشک میں اللہ تعالیٰ کے حضور لَوحِ محفوظ میں خَاتَمُ النَّبِیِّین (لکھاہوا) تھا جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ابھی اپنی مٹی میں گُندھے ہوئے تھے۔ (کنز العمال، جزء:11،6/188، حدیث:31957)

(5)میرے متعدد نام ہیں، میں مُحَمَّد ہوں، میں اَحْمَد ہوں، میں مَاحِیْ ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کُفر مٹاتا ہے، میں حَاشِرْ ہوں کہ میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا، میں عَاقِب ہوں اور عَاقِب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔ (ترمذی، 4/382، حدیث:2849)

(6)میرے بعد نبوت میں سے کچھ باقی نہ رہے گا مگر بشارتیں، (یعنی) اچھا خواب کہ بندہ خود دیکھےیا اس کے لئے دوسرے کو دکھایا جائے۔ (مسندِ احمد، 9/450، حدیث:25031ملتقطاً)

(7)(اے علی!) تم کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو حضرت ہارون(علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ(علیہ السلام) سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسلم، ص1006، حدیث:6217)

ضروری وضاحت: قیامت سے پہلے حضرت سیّدناعیسیٰ علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام کا دنیا میں دوبارہ تشریف لاناختمِ نبوت کے خلاف نہیں ہے کیونکہ وہ سرکارِ نامدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےنائب کے طور پر تشریف لائیں گےاورآپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شریعت کے مطابق احکام جاری فرمائیں گے۔ امام جلالُ الدّین سُیوطِی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں: حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام جب نازل ہوں گے تو رَحْمتِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےنائب کے طور پر آپ کی شریعت کے مطابق حکم فرمائیں گےنیز آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع کرنے والوں اورآپ کی امّت میں سےہوں گے۔ (خصائص کبریٰ، 2/329)

نہیں ہے اور نہ ہوگا بعد آقا کے نبی کوئی

وہ ہیں شاہِ رُسُل، ختمِ نبوت اس کو کہتے ہیں

لگا کر پُشت پر مُہرِ نبوت حق تعالیٰ نے

انہیں آخر میں بھیجا، خاتمیت اس کو کہتے ہیں

(قبالۂ بخش،ص115)

”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“(ذوالحجۃ الحرام 1439ھ) ، صفحہ8

مرزائی، احمدی اور قادیانی

مدنی مذاکرے کا ایک اہم سوال اور اس کا جواب

سوال:مرزائی، احمدی اور قادیانی ان تینوں میں کیا فرق ہے؟

جواب:مرزائی، احمدی اور قادیانی یہ تینوں ایک ہی گروپ کے نام ہیں۔ اس گروپ کے بانی کا نام مرزا غلام احمد قادیانی تھا، جو لوگ مَعَاذَ اللہ اس کو نبی مانتے ہیں وہ اس کے نام ’’غلام احمد“ کی نسبت سے احمدی، اُس کی ذات”مرزا“ کی نسبت سے مِرزائی اور اس کے شہر ’’قادیان‘‘ کی نسبت سے قادیانی کہلاتے ہیں، تو اس کے ماننے والے مرزائی، احمدی اور قادیانی ان تین ناموں سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کو ماننے کی وجہ سے مسلمان نہیں ہیں کیونکہ ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نبوت ختم ہوگئی ہے اور اس بات کا اعلان خود سَیِّدُ الْمُرْسَلِیْن، خَاتَمُ النَّبِیِّیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی حیاتِ ظاہِری میں فرما دیا تھا جیسا کہ تِرمِذی شریف کی حدیثِ پاک میں ہے:اَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِی یعنی میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (ترمذی، 4/93، حدیث: 2226)

ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آخری نبی ماننا ”ضروریاتِ دین“ سے ہے اور اس بات پر ایمان لانا شرط ہے کہ آپ علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے بعد کوئی نیانبی نہیں آئے گا۔ اگر کوئی شخص ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کسی کو نیانبی مانے یا کسی کیلئے نبوت کا ملنا ممکن جانے کہ کسی کو نبوت مل سکتی ہے تو وہ دائرۂ اسلام سے نکل کر کافِر ہوجائے گا اور اُسے کافر و مرتد سمجھنا ضَروری ہے۔

اِسی طرح اگر کوئی ہمارے پیارے نبی مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آخری نبی تو مانتا ہو لیکن کسی دوسرے جھوٹے نبی کا کلمہ پڑھتا ہو یا کسی اور جھوٹے نبی کو سچا مانتا ہو تو ایسا شخص بھی اسلام سے خارج ہے اور اس کا پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آخِری نبی ماننا اسے کوئی کام نہیں دے گا بلکہ اُس شخص کو بھی کافر و مرتد جاننا لازِم و ضروری ہے۔

تو جو غلام احمد قادیانی کی نُبُوّت کو مانتے ہیں وہ اسلام سے بالکل خارج ہیں، اسلام سے ان کا کوئی واسِطہ نہیں ہے اور یہ بالکل مرتد ہیں۔ جو بھی قادیانی مذہب پر مرے گا وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنّم میں رہے گا، ان کی سزا بُت پَرست مشرکوں سے بھی زیادہ سخت ہے۔ مَعَاذَاللہ عَزَّوَجَلَّ جو گنہگار جہنَّم میں داخِل ہوں گے اور آخِرکار انہیں نکال کر جب داخلِ جنّت کیاجائے گا۔اِس کے بعد رہ جانے والے کفّار کی سزا بیان کرتے ہوئے صَدرُالشَّریعہ، بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: کفّار کے لئے یہ (عذاب) ہوگا کہ اس کے قد برابر آگ کے صندوق (Box) میں اُسے بند کریں گے، پھر اس میں آگ بھڑ کائیں گے اور آگ کا قُفل (Lock) لگایا جائے گا، پھر یہ صندوق آگ کے دوسرے صندوق میں رکھا جائے گا اور ان دونوں کے درمیان آگ جلائی جائے گی اور اس میں بھی آگ کا قُفل لگایا جائے گا، پھر اِسی طرح اُس کو ایک اور صندوق میں رکھ کر اور آگ کا قُفل لگا کر آگ میں ڈال دیا جائے گا، تو اب ہر کافِر یہ سمجھے گا کہ اس کے سِوا اب کوئی آگ میں نہ رہا، اور یہ عذاب بالائے عذاب ہے اور اب ہمیشہ اس کے لئے عذاب ہے۔ جب سب جنّتی جنّت میں داخل ہولیں گے اور جہنّم میں صِرف وہی رہ جائیں گے جن کو ہمیشہ کے لئے اس میں رہنا ہے، اس وقت جنّت و دوزخ کے درمیان موت کو مینڈھے (Ram) کی طرح لا کر کھڑا کریں گے، پھر مُنادی (آواز دینے والا) جنّت والوں کو پُکارے گا، وہ ڈرتے ہوئے جھانکیں گے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں سے نکلنے کا حکم ہو، پھر جہنمیوں کو پُکارے گا،وہ خوش ہوتے ہوئے جھانکیں گے کہ شاید اس مصیبت سے رِہائی ہو جائے، پھر ان سب سے پوچھے گا کہ اِسے پہچانتے ہو؟ سب کہیں گے:ہاں!یہ موت ہے، وہ ذبح کر دی جائے گی اور کہے گا:اے اہلِ جنّت!ہمیشگی ہے، اب مرنا نہیں اور اے اہلِ نار!ہمیشگی ہے، اب موت نہیں، اس وقت اُن (جنّت والوں)کے لئے خوشی پر خوشی ہے اور اِن (جہنّم والوں) کے لئے غم بالائے غم۔(بہارِ شریعت، 1/171،170)

جو بھی ختمِ نُبُوّت کا اِنکار کرتے ہیں میں ان کو یہ ہمدردانہ مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنے حال پر رحم کریں، اپنی جان پر ظلم نہ کریں اور نبیِ آخِرُ الزّماں، مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر سچے دل سے ایمان لے آئیں اور جس نے نُبُوّت کا جھوٹا دعویٰ کیا اُسے مرتد سمجھیں اور جو اُس کو نبی مانتے ہیں اُنہیں بھی مرتد سمجھیں اور اِسلام کے دامن میں آجائیں۔

اسی طرح میں دیگر غیرمسلموں (Non-Muslims) کو بھی اِسلام کی دعوت دیتا ہوں، اسلام پُر اَمْن (Peaceful) مذہب ہے آپ اسے قبول کرلیں اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ کے دل میں سکون و اطمینان داخل ہوگا، دنیا میں، قبر میں اور قیامت میں راحت ملے گی اور اِنْ شَآءَ اللہ جنّت کی نہ ختم ہونے والی نعمتیں بھی دی جائیں گی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہ تعالٰی علٰی محمَّد

”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“(ربیع الاول1439ھ)، صفحہ10،9، مضمون: مدنی مذاکرے کے سوال جواب

گوہ کی گواہی

تحریر: شاہ زیب عطاری مدنی

ایک دن حُضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک اَعرابی کا اس بابَرَکت محفل کے پاس سے گزر ہوا۔ یہ اَعرابی جنگل سے ایک گَوہ پکڑ کر لارہا تھا۔ اَعرابی نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں لوگوں سے سوال کیا کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ اللہ پاک کے نبی ہیں۔ اَعرابی یہ سن کر آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں اُس وقت آپ پر ایمان لاؤں گا جب یہ گوہ آپ کی نُبُوَّت پر ایمان لائے،یہ کہہ کر اس نے گوہ کو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے ڈال دیا۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے گوہ کو پکارا تو اس نے اتنی بلند آواز سے لَبَّیْکَ کہا کہ تمام حاضرین نے سن لیا۔ پھر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سےپوچھا :اے گوہ! یہ بتا کہ میں کون ہوں؟ گوہ نے بُلند آواز سے کہا : آپ ربُّ العٰلمین کے رسول ہیں اور خاتَمُ النّبِیِّین ہیں،جس نے آپ کو سچا مانا وہ کامیاب ہو گیا اور جس نے انکار کیا وہ ناکام ہو گیا۔ یہ دیکھ کر وہ اَعرابی فوراً ہی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔)زرقانی علی المواھب ، 554/6 (

پیارے مدنی منّو اور مدنی منّیو!اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ (1)ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کے آخری نبی ہیں۔ (2)آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا ۔ (3) حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ختم نبوت پر جانور بھی ایمان رکھتے ہیں۔ (4)جو مسلمان ہے حقیقت میں وہی کامیاب ہے۔

مشکل الفاظ کے معانی

صحابہ:صحابی کی جمع،یعنی وہ شخص جس نے ایمان کی حالت میں اپنے ہوش کے ساتھ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زیارت کی یا صحبت پائی اور ایمان پر ہی خاتمہ ہوا۔

اَعرابی:عرب کے گاؤں کا رہنے والا۔ بابرکت: برکت والی۔

گوہ:ایک جانور جس کی شکل چھپکلی جیسی لیکن جسم اس سے کافی بڑا ہوتاہے۔

نُبُوَّت:نبی ہونا ۔ لَبَّیْکَ:میں حاضر ہوں۔

ربُّ العالمین:تمام جہانوں کا پالنے والا۔ خاتَم النبِیّین:آخِری نبی۔

”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“(جمادی الاخریٰ1440ھ)، صفحہ 16


انسان کی پہچان اس کا نام ہوتا ہے یہ  اس کے لیے والدین کی طرف سے پہلا تحفہ قرار پاتا ہے ، جب یہ تحفہ انسان کو ملتا ہے اس وقت محض ایک نام ہوتا ہے بعد میں وہ انسان اپنے کارناموں کے بل بوتے پر والدین کی طرف سے عطا کردہ اس سادے سے تحفے کو اتنا اونچا اور روشن کردیتا ہے کہ لوگ اس کا نام احترام سے لیتے ہیں، اپنے تو اپنے بیگانے بھی اس کے کارناموں کا اعتراف کرتے دکھائی دیتے ہیں، زمانے کے دانش ور اسے القابات سے نواز تے ہیں، مختلف میدانوں کے سرخیل اسے اپنا امیر سمجھتے ہیں، راہ ہدایت کے متلاشی اس کے دامن میں وابستگی کے بعد سرخ روئی کی امید پالیتے ہیں۔ دور حاضر میں ایسی عظیم الشان اور کثیر الجہات شخصیت جس نے اپنی ولادت پر سب سے پہلے ملنے والے تحفے ”محمد الیاس“ کو اپنی لاثانی خدمات کے ذریعے اتنا بلند اور روشن مَنارہ بنادیا جس کی روشنی رفتہ رفتہ دنیا کے اکثر ممالک میں پھیل گئی۔ اس مُدَبّرانہ صلاحیتوں سے مالا مال شخصیت نے 1401 سنِ ہجری بمطابق 1981 سن عیسوی میں تبلیغِ دین اور اِشاعتِ اسلام کے لیے ”دعوتِ اسلامی“ کے نام سے ایک ایسی تنظیم بنائی جس کے مُنَظَّم نظام نے دنیا بھر میں اسلام و سنیت کا ڈنکا بجادیا، حق کی تلاش میں پھرنے والوں کو اسلام کی روشنی میسر آئی،علم کے پیاسے باعمل عالم بنے،معرفت کے خواہش مند بحر ِ طریقت کے شناور بنے، بے عملی کے دلدل میں غوطہ کھانے والے سنتوں کی تعلیم دینے والے بنے۔ اس عظیم الشان اور کثیر الجہات شخصیت کے بے مثال کارناموں کی بدولت بچپن میں ملنے والے نام کا تحفہ ”محمد الیاس“ سادہ سے دو کلمات سے بڑھ کر ”شیخِ طریقت،امیرِ اہل سنَّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرتِ علّامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ “قرار پایا ۔ 

احیاء العلوم میں ہے کہ ایک بزرگ نے حضرت عُمَر بن عبد العزیز عَلَیْہِ الرَحْمَہ کو خط لکھا کہ جان لو! بندے کے لئے مددِالٰہی اس کی نیت کے مطابق ہوتی ہے، پس جس کی نیت کامل ہوگی اس کے لئے مددِ الٰہی بھی کامل ہوگی اور اگر نیت ناقص ہوتو اسی قدر مدد میں بھی کمی ہوتی ہے۔(احیاء العلوم، 1/221 مترجم)اس فرمان کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر نیت خالص نہ ہو تو بندہ لاکھ جتن کرے مگر رکاوٹوں اور بندشوں کے بھنور سے نہیں نکل پائے گا جبکہ اگر نیت خالص ہو اور بندہ تنہا بےسروسامانی میں کسی کام کو کرنے چلے تو اللہ کریم اس کیلئے ایسے اسباب بنائے گا کہ وہ جو اکیلا چلا تھا ایک وقت آئے گا کہ زمانہ اس کی طرف متوجہ ہو جائے گا اور لوگ اس کے اشارۂ ابرو کے منتظر ہوں گے۔

اس فرمان کی عملی تفسیر آج دعوتِ اسلامی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ 2ستمبر1981وہ دن تھا کہ جب شیخِ طریقت، علامہ مولانا الیاس عطار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہنیتِ خالص کے ساتھ عزمِ مصمم لے کر تنہا اس میدان میں نکلے تھے اور آج اللہ پاک کی رحمت سے افرادی قوت (Manpower)اور سرمایہ (Finance)کی کثرت میں دعوتِ اسلامی کی مثال نہیں ملتی، اور کسی بھی تنظیم کیلئے یہی دو چیزیں اصل ہوتی ہیں۔ یقیناً یہ سب امیر اہلسنت کی سچی نیت کا فیضان ہے۔ اللہ پاک امیر اہلسنت کے صدقے ہمیں بھی نیتوں میں اخلاص کی دولت عطا فرمائے اور دعوتِ اسلامی کو مزید برکتیں عطا فرمائے۔ امین