اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت مولانا شاہ احمد رضا
خان علیہ رحمۃ الرحمن دنیائے اسلام کی ان عظیم ہستیوں میں سےتھے جنہوں نے نہ صرف
بر صغیر پاک وہندمیں رہنے والوں کو فیضیاب کیا بلکہ دیگر ممالک کے بسنے والے افراد
بھی اس بارگاہ سے اپنے شرعی معاملات کا حل پاتے نظر آئے، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ
تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں ملک وبیرون ملک سے کتنی کثرت سے سوالات آتے تھے اس کا
جواب بارگاہِ اعلیٰ حضرت سے یوں ملتا ہے:
بفضلہ تعالیٰ تمام ہندستان ودیگر ممالک مثل چین
و افریقہ و امریکہ وخود عرب شریف وعراق سے ا ستفتا آتے ہیں اور ایک ایک وقت میں
چار چار سوفتوے جمع ہوجاتے ہیں بحمد اﷲ تعالیٰ حضرت جد امجد قدس سرہ العزیز کے وقت
سے اس ۱۳۳۷ھ تک اس دروازے سے فتوے جاری ہوئے اکانوے (۹۱)برس اور خود اس فقیر
غفرلہ کے قلم سے فتوے نکلتے ہوئے اکاون(۵۱) برس ہونے آئے یعنی اس صفر کی ۱۴ تاریخ
کو پچاس(۵۰) برس چھ (۶)مہینے گزرے، اس نو۹ کم سو۱۰۰ برس میں کتنے ہزار فتوے لکھے
گئے ، بارہ مجلد تو صرف اس فقیر کے فتاوے کے ہیں۔(فتاوی
رضویہ، 6/562)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
فقیر کے یہاں علاوہ
دیگر مشاغل کثیرہ دینیہ کے کار فتوٰی اس درجہ وافر ہے کہ دس مفتیوں کے کام سے زائد
ہے۔ شہر ودیگر بلاد امصار جملہ اقطار ہندوستان وبنگال وپنجاب و ملیبار وبرہما
وارکان و چین وغزنی وامریکہ وافریقہ حتی کہ سرکار حرمین شریفین محترمین سے استفتاء
آتے ہیں ا ور ایک وقت میں پانچ پانچ سو جمع ہوجاتے ہیں۔(فتاوی رضویہ، 9/499)
افریقہ:
(۱)افریقہ کے مقام بھوٹا بھوٹی باسو ٹولینڈ سے
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی خدمت میں مختلف موضوعات پر111سوالات پوچھے گئے جن کے جوابات آپ نے تحریر فرمائے ۔"فتاوی
افریقہ"کی صورت میں یہ سوالات مع
جوابات موجود ہیں۔
اسی مقام سے آپ کی خدمت میں مزید6 استفتاء
بھیجے گئے ۔ (فتاوی رضویہ، 4/324، 365، 563، 572،
599، 11/301)
(۲)افریقہ کے مقام ’’منڈی‘‘ سے بھی آپ کی خدمت
میں روزے سےمتعلق استفتاء بھیجا گیا ۔ (فتاوی رضویہ،
10/431)
(۳) افریقہ کے مقام ’’ٹرانسوال‘‘سے جمعہ کے
متعلق استفتاء بھیجا گیا۔(فتاوی رضویہ، ۶/۳۵۵)
(٤) افریقہ کے علاقے ’’ ممباسہ‘‘ سے 4 استفتاء بھیجے گئے ۔ (فتاوی رضویہ، 6/352، 7/198،300، 9/523)
(5)افریقہ کے مقام ’’ڈربن
نا ٹال‘‘ سے 1استفتاء بھیجاگیا ۔ (فتاوی رضویہ، 21/195)
(6)افریقہ کے مقام ’’بلنڈی‘‘ سے2 استفتاء بھیجے
گئے۔ (فتاوی رضویہ، 7/235،468)
(7) افریقہ ’’جوہانس برگ ‘‘ سے بھی آپ کی خدمت
میں 1استفتاء بھیجا گیا۔(فتاوی رضویہ، 8/394)
(8) افریقہ سے ایک مزید استفتاء بھیجا گیا لیکن
اس مقام کا نام ذکر نہیں ۔(فتاوی رضویہ،23/375)
برما:
ملک برما سے اعلیٰ حضرت کی خدمت میں 5استفتاء بھیجئے گئے جن کے جوابات آپ نے تحریر فرمائے۔(دیکھئے فتاوی رضویہ قدیم ۶/۲۵، ۳/۷۴۶،۱۰/۱۴۴نصف
ثانی،۱۰/۱۴۶نصف ثانی، ۶/۱۵۴)
بنگلہ
دیش:
(۱)بنگلہ دیش کےمختلف علاقوں سے اعلیٰ حضرت کی خدمت میں73 سےزائداستفتاء بھیجے گئے جن کی کچھ تفصیل یہ ہے:
(1)ڈھاکہ سے 9 استفتاء
پوچھے گئے۔ (فتاوی رضویہ،7/137،8/86، 365، 552، 575،
11/352، 12/392، 14/622، 20/333)
(2)نواکھالی سے 18 استفتاء پوچھے گئے۔ (فتاوی رضویہ، 1-ب/1071، 8/154، 9/159، 420، 643، 13/136،
155، 208، 233، 16/261، 295، 17/614، 19/494، 20/310، 24/180، 338، 23/110، 329 )
(3)چٹاگانگ سے 3
استفتاء پوچھے گئے۔ (فتاوی رضویہ، 4/328، 6/234، 12/386 )
(4)پیڑا بنگال سے1استفتاء پوچھا گیا۔ (فتاوی رضویہ،
8/107)
(5)سلہٹ سے 15 استفتاء پوچھے گئے۔ (فتاوی رضویہ، 8/164، 584، 9/161، 176، 408، 653، 10/154،
11/413، 12/325، 637، 639، 646، 13/305، 21/634، 23/541)
(6)کمرلہ سے5 استفتاء بھیجے گئے۔ (فتاوی رضویہ، 8/355، 595، 22/203، 23/562، 24/113)
(7)پابنہ سے2 استفتاء بھیجے گئے۔ (فتاوی رضویہ، 5/378، 8/341)
(8)بیر بھوم 2استفتاء بھیجے گئے۔ (فتاوی رضویہ، 9/264، 528)
(9) بنگلہ دیش کے مقام ’’شرشدی‘‘ ضلع نواکھالی سے آپ کی
خدمت میں3 استفتاء بھیجے گئے۔ (فتاوی رضویہ، 9/158،420،23/330)
(10) میمن سنگھ کے علاقہ سے بھی آپ کی خدمت میں
14استفتاء بھیجے گئے۔ (فتاوی رضویہ، 7/346، 8/77، 354، 361، 456، 570، 584،9/646،
19/486، 20/444، 22/407، 23/545، 691، 714)
(11) چاہ بگان ضلع ڈونگ سے بھی آپ کی خدمت میں استفتاء
بھیجا گیا۔ (فتاوی رضویہ،20/260)
عراق:
عراق سے اعلیٰ حضرت کی خدمت میں کتنے استفتاء
بھیجے گئے ان کی صحیح تعداد تو معلوم نہیں البتہ بغداد شریف سے بھیجے گئے 2 استفتاء کا ذکر فتاوی رضویہ میں ملتا ہے۔ (فتاوی رضویہ،۱۵/۱۶۵، 9/۵۹۳)
افغانستان:
افغانستان سے بھی آپ کی خدمت میں استفتاء بھیجا
گیا ۔ (خطوط مشاہیر بنام امام احمد رضا،1/402)
پاکستان:
پاکستان کے مختلف شہروں(کراچی ،لاہور،ڈیرہ غازی خان،پاکپتن،راولپنڈی،گجر
خان، پشاور، سکھر،بہالپور، جہلم، ہری پور اورمیرپور آزاد کشمیر) سے اعلیٰ حضرت کی
خدمت میں88سے زائد استفتاء بھیجئے گئے جن کے جوابات آپ نے
تحریر فرمائے۔
(1) کراچی سے 10 استفتاء بھیجے گئے۔ ( فتاوی رضویہ،6/574، 576،7/527، 528، 8/443، 14/604، 20/348، 21/248، 29/89، 26/353)
(2) مرکز الاولیاء لاہور سے 20استفتاء بھیجے گئے۔ ( فتاوی رضویہ،9/657، 10/520، 11/463، 488، 663، 12/169، 14/102،
426، 580، 394، 17/131، 19/292، 505، 18/359، 21/281، 26/278، 590، 29/201، 335، 591)
(3) ڈیرہ غازی خان سے 3 استفتاء بھیجے گئے۔ (فتاوی رضویہ،11/684، 14/617، 24/133)
(4)راولپنڈی سے 14استفتاء بھیجے گئے۔(فتاوی رضویہ، 4/342، 6/189، 10/291، 486،11/259، 12/180،193،358،
378، 14/654، 18/511، 619، 20/290، 29/334)
(5) بہاولپورسے13استفتاء بھیجے گئے۔ (فتاوی رضویہ،11/443، 14/641، 691، 15/283، 16/241، 18/123،
415، 600، 19/362، 384، 638، 26/374، 378)
(6) جہلم سے6استفتاء بھیجے گئے۔ ( فتاوی رضویہ،5/322، 9/139، 16/529، 20/223، 21/666، 22/692)
(7) پشاور سے 5استفتاء بھیجے گئے۔ ( فتاوی رضویہ،6/190، 11/215، 16/336، 18/624، 22/200)
(8) سکھر سے 4استفتاء بھیجے گئے۔( فتاوی رضویہ،11/680، 20/210، 223، 21/290)
(9) بلوچستان سے 12استفتاء بھیجے گئے۔ ( فتاوی رضویہ، 4/601، 8/108، 212، 9/406، 11/237، 13/585،
17/337، 19/505، 20/222، 26/609، 29/204، 328)
(10) میرپور
آزاد کشمیر سے استفتاء بھیجا گیا۔( فتاوی رضویہ،11/647)
پرتگال:
پرتگال کے علاقے ’’دمن
خرد‘‘ سے بھی آپ کی خدمت میں3استفتاء بھیجے گئے۔ (فتاوی
رضویہ، 5/386، 414، 8/589)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی
تحریر کردہ کتب ورسائل سے پتہ چلتا ہے کہ 105 سے زائد علوم وفنون پر آپ نے قلم
اٹھایا ہے۔ (ماخوذ ازمعارف رضا، ص233، سال1991) جن میں دینی علوم مثلاً قرآن وحدیث ،فقہ وغیرہ کے ساتھ
ساتھ دیگرعلوم وفنون مثلاً سائنس، ریاضی،
معاشیات واقتصادیات وغیرہ شامل ہیں، کتب ورسائل کے ساتھ ساتھ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے
اشعار بھی ان علوم وفنون سے لبریز نظر آتے ہیں۔
ان میں سے کچھ علوم درج ذیل ہیں:
(1) علم لغت(Vocabulary): الفاظ کی بناوٹ اور معانی کا علم
اس فن میں اعلیٰ حضرت کی دو کتابیں ہیں:(1)اَحْسَنُ الْجُلُوْہ فِی
تَحْقِیْقِ المِیْلِ وَالذِّرَاعِ وَالْفَرْسَخِ وَالْغُلُوہ (2)فَتْحُ الْمُعْطِی بِتَحْقِیْقِ مَعْنَی الْخَاطِی وَالْمُخْطِی۔(حیات
اعلیٰ حضرت،۲/۷۷ مکتبہ نبویہ لاہور)
(2) علم تاریخ(History)
اس فن میں اعلیٰ حضرت کی تین کتابیں ہیں: (1)اِعْلَامُ الصَّحَابَۃِالْمُوَافِقِیْنَ
لِلْاَمِیْرِ مُعَاوِیَۃَ وَاُمِّ الْمُؤْمِنِیْن (2)جَمْعُ الْقُرْآنِ و بِمَ عَزْوَہُ لِعُثْمَان(3)سرگزشت وماجرائے ندوہ۔ (حیات اعلیٰ حضرت،۲/۸۹)
(3) علم تکسیر(Fractional Numeral
Math)
(1)اَطَائِبُ الْاِکْسِیْرِ فِی عِلْمِ التَّکْسِیْرِ۔(2) 1152 مربَّعات (3)حاشیہ اَلدُّرُّ الْمَکْنُوْن (4) رسالہ در علمِ تکسیر(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۲)
(4) علم توقیت و نجوم(Reckoning of Time)
اوقات نماز کا علم ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے
تاکہ ہر نماز صحیح وقت پر ادا کی جائے، اعلیٰ حضرت اس فن میں بھی یکتائے زمانہ تھے
، آپ ہی نے سب سے پہلے متحدہ پاک وہند میں شمسی سال کے اعتبار سے اوقاتِ نماز کا
نقشہ مرتب کیا تھا۔اس فن میں اعلیٰ حضرت نے اردو، فارسی اور عربی زبانوں میں کم
وبیش 16 کتب وحواشی تحریر فرمائے: (1)اَلْاَنْجَبُ الْاَنِیْقِ فِیْ طُرْقِ التَّعْلِیْقِ (2)زِیْجُ الْاَوْقَاتِ لِلصَّوْمِ وَالصَّلٰوۃ ِ (3)تاجِ توقیت(4)کَشْفُ الْعِلّۃِ عَنْ سَمْتِ الْقِبْلَۃِ
(5)دَرْءُ الْقُبْحِ عَنْ دَرْکِ وَقْتِ
الصُّبْح(6)سِرُّ الْاَوْقَاتِ (7)تَسْہِیْلُ التَّعْدِیْلِ (8)جدولِ اوقات (9)طلوع وغروب نیرین (10)اِسْتِنْبَاطُ الْاَوْقَاتِ
(11)اَلْبُرْہَانُ الْقَوِیْمِ عَلَی
الْعَرْضِ وَالتَّقْوِیْمِ (12)اَلْجَوَاہِرُ وَالتَّوْقِیْتُ
فِیْ عِلْمِ التَّوْقِیْتِ (13)رؤیتِ
ہلالِ رمضان (14)جدولِ ضرب (15)حاشیہ جَامِعُ الْاَفْکَار (16)حاشیہ زُبْدَۃُ الْمُنْتَخَب۔ (حیات
اعلیٰ حضرت،۲/۹۴)
(5تا 7) علم نجوم، ہیئت وفلکیات(اسٹرولوجی واسٹرونومی)
علم نجوم یعنی ستاروں اور سیاروں کے متعلق علم۔
علم ہیئت : وہ علم جس میں اجرام ِ فلکی ،زمین اور اس کی
گردش و کشش وغیرہ سے بحث کی جاتی ہے ۔
اعلیٰ حضرت ستاروں اور سیاروں کی چالوں سے اتنے زیادہ
باخبر تھے کہ جب آپ سے سوال کیا گیا کہ اہرامِ مصر کب اور کس نے تعمیر کیا تو آپ
نے امیر المؤمنین مولی علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے قول کی روشنی میں اوراس
فن میں اپنی مہارت سےجواب دیا کہ اسکی تعمیرات کو12640 سال آٹھ ماہ کا عرصہ
گزرچکا ہے اور یہ تعمیرات سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش سے بھی 5750 سال پہلے
جنات نے کی تھی ۔(معارف رضا، ص16-17،
مجلہ 2013)
ان علوم پر امام اہلسنّت علیہ الرحمہ کی درج ذیل آٹھ
کتابیں ہیں: (1) مَیْلُ
الْکَوَاکِبِ وَتَعْدِیْلِ الْاَیَّامِ (2)اِسْتِخْرَاجُ
تَقْوِیْمَاتِ کَوَاکِب(3) زَاکِیُ الْبِہَا فِیْ قُوّۃِ
الْکَوَاکِبِ وَضُعْفِہَا (4)رِسَالَۃُ الْعَاد قَمَر (5)حاشیہ حَدَائِقُ النُّجُوْم (6)اِقْمَارُ الْاِنْشِرَاحِ لِحَقِیْقَۃِ الْاِصْبَاحِ (7)اَلصِّرَاحُ الْمُوْجِزُ فِی تَعْدِیْلِ الْمَرْکَزِ (8)جَادَۃُ الطُّلُوْعِ وَالْحَمْرِ لِلسَّیَّارَۃِ وَالنُّجُومِ
وَالْقَمْرِ۔ (حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۵)
(8-9) علمُ الْحِسَاب وریاضی(Arithmetic & Mathemetic)
ان پر امام
اہلسنّت علیہ الرحمہ کی درج ذیل دس کتابیں ہیں: (1)کَلامُ الْفَہِیْمِ فِی سَلَاسِلِ
الْجَمْعِ وَالتَّقْسِیْمِ (2)جَدْوَلُ الرِّیَاضِی (3)مسئولیاتِ اَسہام (4)اَلْجَمَلُ الدَّائِرَۃِ فِی خُطُوطِ
الدَّائِرَۃِ (5)اَلْکَسْرُ الْعُسْرٰی (6)زَاوِیَۃُ الْاِخْتِلَافِ الْمَنْظَرِ (7)عَزْمُ الْبَازِی فِی جَوِّ الرِّیَاضِی (8)کسورِ اَعشاریہ (9)معدنِ علومی درسنینِ
ہجری، عیسوی ورومی (10)حاشیہ جامعِ بہادر خانی۔ (حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۶)
(10) علمِ اَرْثْمَا طِیْقِی (Greek Arithmetic)
اس فن میں اعلیٰ حضرت کی تین کتابیں ہیں: (1)اَلْمُوْہِبَاتُ فِی الْمُرَبَّعَاتِ (2)اَلْبُدُوْرُ فِی اَوْجِ الْمَجْذُوْرِ (3)کِتَابُ الْاَرْثْمَاطِیْقِی۔ (حیات
اعلیٰ حضرت، ۲/۹۷)
(11) علم جبر ومقابلہ(Algebra)
یہ علم حساب کی فرع ہے۔ اس فن میں اعلیٰ حضرت کا ایک
رسالہ ہے:(۱)حَلُّ
الْمُعَادَلَات لِقَوِیِّ الْمُکَعَّبَاتِ (2)رسالہ جبرومقابلہ (3)حاشیہ اَلْقَوَاعِدُ الْجَلِیْلَۃ۔ (حیات
اعلیٰ حضرت،۲/۹۷)
(12) علم الزیجات(Astronomical Tables)
اس علم میں اعلیٰ حضرت کی ایک کتاب ہے: (۱)مُسْفِرُ الْمَطَالِعِ لِلتَّقْوِیْمِ
وَالطَّالِعِ (2)حاشیہ زیج بہادر
خانی۔ (حیات اعلیٰ حضرت،۲ /۱۰۱)
(13) علم الجفر(Numerology Cum
Literology)
اس فن میں اعلیٰ حضرت نے بغیر کسی استاد کےاس قدر مہارت
حاصل کی کہ اس فن کے کئی قواعد آپ نے خود استخراج فرمائے،عربی زبان میں6 کتابیں
ہیں: (1)اَلثَّوِاقِبُ
الرَّضَوِیَّۃ عَلَی الْکَوَاکِبِ الدُّرِّیَّۃ (2)اَلْجَدَاوِلُ الرَّضَوِیَّۃ عَلَی الْکَوَاکِبِ الدُّرِّیَّۃ (3)اَلْاَجْوِبَۃُ الرَّضَوِیَّۃ لِلْمَسَائِلِ الْجَفَرِیَّۃ (4)اَلْجَفَرُ الْجَامِع (5)سَفرُ السَّفر عَنِ الْجَفَرِ بِالْجَفَرِ (6) مُجْتَلَّی الْعُرُوسِ وَالنُّفُوسِ۔
(14) علم ہندسہ(Geometry): خطوط اور
زاویوں کا علم
(1)اَلْمَعْنَی الْمُجَلِّی لِلْمُغْنِی وَالظِّلِّی (2)اَلْاَشْکَالُ الْاِقْلِیْدَسْ (3)حاشیہ اصولِ ہندسہ (4)حاشیہ تحریرِ اقلیدس۔
(15-16) سائنس وہیئت (سائنس اینڈ فزکس)
اس فن پر آپ
رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی تحریروں اور فتاوی میں بیش بہا خزانہ عطا فرماتے
ہوئے کئی سائنسی نظریات بھی پیش کئے ہیں ، اس فن پر آپ کی درج ذیل 3 اردوکتابوں
اور 1 عربی حاشیہ کا پتہ چلا ہے: (1) نزولِ آیاتِ قرآن بسکونِ زمین وآسمان(2)
فوزِ مُبین دَر رَدِّ حرکتِ زمین (3) مُعینِ مُبین بَہر دَورِ شمس وسکونِ زمین
(4)حاشیہ اصولِ طبعی ۔
(17)معاشیات واقتصادیات(Economics)
اعلیٰ حضرت نے اس شعبہ میں بھی مسلمانوں کی نہ صرف
بھرپور رہنمائی فرمائی بلکہ انہیں معاشی استحکام کا راستہ بھی دکھایا اس سلسلے میں
آپ نے1912ء میں چار معاشی نکات بھی پیش کئے، اس موضوع پر آپ کی 3 کتابیں ہیں:
(1)کِفْلُ
الْفَقِیْہِ الْفَاہِمِ فِی اَحْکَامِ قِرْطَاسِ الدَّرَاہِمِ (2)تدبیرِفلاح ونجات واصلاح (3)اَلمُنٰی وَالدُّرَرْلِمَنْ عَمَدَ
مَنِیْ آرْدَرْ
(18) علم ارضیات(Geology)
یعنی وہ علم جس میں زمین اور اس کے حصوں کے متعلق گفتگو
کی جاتی ہے، زلزلے کا تعلق بھی اسی علم سے ہے ۔ زلزلہ کیسے آتا ہے؟ اس کے اسباب
کیا ہیں؟زلزلہ مختلف علاقوں میں کیوں آتا ہے؟ زلزلہ پوری دنیا میں ایک ساتھ کیوں
نہیں آتا ؟ زلزلہ کبھی کم شدت کے ساتھ اور کبھی انتہائی شدت کے ساتھ کیوں آتا
ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب اس فن کا ماہر ہی دے سکتا ہے، امام اہلسنّت سے جب
سوالات پوچھے گئے تو آپ علیہ الرحمہ نے اپنی فنی مہارت سے ان تمام کے تسلی بخش جوابات مرحمت فرمائے، اسی طرح
تیمم کے مسئلہ میں مٹی اور پتھروں کی اقسام وحالتوں پر اپنی تحقیق سے 107 ایسی
اقسام کا اضافہ فرمایا ہے جن سے تیمم جائز ہے اور 73 وہ بھی بتائی ہیں جن سے تیمم
جائز نہیں، مزید تفصیل کیلئے آپ کا رسالہ ’’ اَلْمَطَرُ السَّعِیْد عَلٰی نَبْتِ
جِنْسِ الصَّعِیْد‘‘ کا مطالعہ کیا
جاسکتا ہے۔
(19) علم حجریات(Petrology)
یہ علم ارضیات
کی ایک شاخ ہے جس میں پتھروں سے متعلق معلومات حاصل کی جاتی ہیں کہ کون سا پتھر،
معدنیات، ہیرے جواہرات کہاں اور کیسے بنتے ہیں اور ان کو کس طرح تقسیم کیا جاسکتا
ہے، Metalکی تعریف جتنی وضاحت
کے ساتھ اعلیٰ حضرت نے فرمائی ہے اتنی وضاحت کے ساتھ علم حجریات والے بھی نہ
کرسکے، اس فن میں اعلیٰ حضرت کے 3 رسائل ہیں: (1)حُسْنُ التَّعَمُّم لِبَیَانِ حَدِّ
التَّیَمُّم (2)اَلْمَطَرُ السَّعِیْد عَلٰی
نَبْتِ جِنْسِ الصَّعِیْد (3)اَلْجِدُّ السَّدِیْد فِیْ
نَفْیِ الْاِسْتِعْمَالِ عَنِ الصَّعِیْد۔(ماخوذ ازمعارف رضا، ص17، مجلہ 2013)
(20) علم صوتیات:
یہ علم ہیئت کی
ایک اہم شاخ ہے جس میں آواز کی لہروں سے متعلق علم حاصل کیا جاتا ہے، موبائل فون
کے ذریعے ایک دوسرے تک آواز کا پہنچنا اسی طرح الٹرا ساؤنڈ کی مشینوں میں بھی
آوازکی لہروں سے مدد لی جاتی ہے، اعلیٰ حضرت آواز کی لہروں سے بھی بھرپور واقف
تھے ،’’اَلْکَشْفُ
شَافِیَا حُکْمُ فُوْنُوْ جِرَافِیا‘‘
نامی کتاب اس فن پر آپ کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔(ماخوذ ازمعارف رضا، ص17، مجلہ 2013)
(21) علم البحر(Oceanography)
اس علم کی ایک شاخ سمندری موجوں سے تعلق رکھتی ہے جسے Tidesکہا جاتا ہے اور یہ لہریں مختلف قسم کی ہوتی ہیں، ان میں سے ایک قسم کو ’’مدوجزر‘‘ یعنی Lunar Tideکہا
جاتا ہے،اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے’’فوز مبین ‘‘ میں ’’مدووجزر‘‘ کے سبب پر اپنا
مؤقف نہ صرف مدلل انداز میں بیان فرمایا بلکہ اس فن میں بھی اپنی مہارت کا لوہا
منوایا۔
(22) علم الوفق
اس فن میں بھی اعلیٰ حضرت کی ایک کتاب ہے: (۱)اَلْفَوْزُ بِالْآمَال فِی
الْاَوْفَاقِ وَالْاَعْمَالِ۔ (حیات اعلیٰ حضرت، ۲/۹۳)
تحریر: مولانا انصار احمد مصباحی صاحب
نُوْرُ الْاِيْضَاحِ کوآپ میں سے اکثر لوگوں نے حرفاً حرفاً پڑھا
ہوگا۔ بر صغیر کے سارے مدارس نظامیہ میں داخل نصاب ہے۔ سچ پوچھیں تو فقہ حنفی میں
اس سے مختصر اور جامع کتاب نہیں لکھی گئی۔ اس کے مشمولات طلبہ کو آگے کی فقہی
مطولات میں روح کا کام کرتے ہیں۔ نور الایضاح کی
اختصار اور جامعیت کی خوبی اسے دوسری کتابوں سے ممتاز کرتی ہے۔
کتاب کا پورا نام ”نُوْرُ الْاِيْضَاحِ وَ نَجَاةُ
الْاَرْوَاحِ“ ہے۔ مصنف ہیں شیخ ابو الاخلاص حسن بن عمارشرنبلالی
حنفی مصری رحمۃ
اللہ علیہ (م
١٠٧٩ھ )۔ مصنف نے یہ کتاب اپنے بعض
محبین کے لئے لکھی، جب ضرورت محسوس کیا کہ کئی مقامات وضاحت طلب ہیں، کہیں کہیں
عبارت مبہم ہوگئی ہے، توضیح و تشریح کی ضرورت ہے، تو خود ہی اس کی مختصر شرح ”مَرَاقِی الْفَلَّاحِ بِاِمْدَادِ
الْفَتَّاحِ“ کے نام سے لکھ دی۔
آج میری توجہ کی چیز کتاب ہے نہ ہی اس کی شرح بلکہ جس چیز نے مجھے
اس مشہور کتاب کا تجزیہ لکھنے پر مجبور کیا، وہ اس کا حاشیہ ہے۔
دعوت اسلامی کے”مکتبۃالمدینہ“ نے،
نُوْرُ الْاِيْضَاحِ اور مَرَاقِی الْفَلَّاحِ کو ”النورُ و الضياءُ من افاداتِ الامام
احمد رضا“ نام کے
حاشیے کے ساتھ شائع کیا ہے۔ نام سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ حاشیے شیخ الاسلام حضور
اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمة اللہ علیہ کے افادات پر مشتمل ہیں،لیکن آپ
کو کہیں پر بھی افادات کا گمان نہیں ہوگا، بلکہ مستقل اور مکمل حاشیہ ہی لگتا ہے۔ یہ
یقیناً دعوت اسلامی کی مجلس المدینۃ العلمیہ کے علما کی محنت
شاقہ کا نتیجہ ہے۔ جَدُّ الْمُمْتَار کے بعد رضویات میں دعوت اسلامی کا یہ نمایاں کام
کہا جا سکتا ہے۔
ترتیب یہ ہے کہ صفحے میں پہلے نور الایضاح کی
عبارت ہے، نیچے مراقی کی شرح اور پھر امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے
افادات۔ افادات عام فہم اور سلیس عبارتوں میں لکھے گئے ہیں، جن کا سر چشمہ فتاوی
رضویہ شریف ، جَدُّ
الْمُمْتَار اور حضرت امام کی دوسری کتب فقہ پر لکھی گئیں
حواشی و تعلیقات ہیں۔ امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی عادت کریمہ
تھی، دوران مطالعہ کتابوں میں حاشیہ بھی لکھ دیا کرتے۔ ماہر رضویات پروفیسر مسعود
احمد مجددی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں، ”راقم کے کتب خانے میں صرف علم حدیث
کے متعلق امام احمد رضا علیہ الرحمہ کے ٢١ مخطوطات موجود ہیں“۔ (جامع الاحادیث، مقدمہ ، ٦٥) حضرت
امام نے فقہ میں تین سو کے قریب کتابیں تصنیف فرمائیں، فقہ حنفی کی ہدایہ، کتاب الخراج،
فتح القدیر، بدائع و الصنائع، فواتح الرحموت، الجوہرہ، البحر الرائق، مجمع الانہر،
فتاوی ہندیہ، فتاوی حدیثیہ،
فتاوی خیریہ وغیرہ
٣٥ کتابوں پر حواشی و تعلیقات ہیں۔
زیر نظر حاشیہ آپ کے گراں قدر افادات پر مشتمل
ہے۔ ملک العلماء رحمۃ
اللہ علیہ فرمایا کرتےتھے، ”اعلی حضرت کے افادات بھی
افادات ہوتے ہیں“۔ (مقدمہ صیح البہاری)
نور الایضاح
ویسے تو میں آج مسلسل آٹھ سالوں سے پڑھا رہا ہوں، لیکن جو لطف مندرجہ شرح اور امام احمد رضا خان فاضل
بریلوی علیہ
الرحمہ کے افادات کے ساتھ پڑھنے میں آیا، اس کی چاشنی میرا
ذوق مطالعہ کبھی فراموش نہیں کر پائیگا۔ اس دور میں کتابوں کی عمدہ اور معیاری
اشاعت ہی کمال ہے، فقہ کی کسی کتاب کو فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے افادات کے
ساتھ شائع کرنا سونے پہ سہاگا ہے۔ نور الایضاح کے مصنف کے حالات بہت مختصر ہے، اس
کمی کے علاوہ ساری باتیں قابل تعریف ہیں۔
کتاب ” نُوْرُ الْاِيْضَاحِ مع مَرَاقِی الْفَلَّاحِ “ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کیجئے:
تحریر: مولانا
محمد ضیاء السلام قادری صاحب (دارالعلوم منظر الاسلام واہ کینٹ)
عرس رضا کے موقع پر دعوت اسلامی کی طرف سے امت
کو عظیم تحفہ :
پچھلے دنوں تنظیم المدارس اہلسنت کے تحت
امتحانات کا سلسلہ ہوا تو اس وقت بھی یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ واہ کینٹ ،ٹیکسلا
،حسن ابدال کے بڑے بڑے جامعات ایک طرف اور دعوت اسلامی کا جامعۃ المدینہ ایک طرف ۔
سب سے زیادہ امتحانات دینے والے طلباء کی تعداد جامعۃ المدینہ کی تھی اور اب عرس
امام اہلسنت رحمۃ
اللہ علیہ کے موقع پر جامعات المدینہ سے عالم کورس کر کے
فراغت حاصل کرنے والے طلباء کرام کی دستار فضیلت کی جا رہی ہے جس کی تعداد دیکھ کر
انتہائی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ 1000سے زائد علماء اس سال تیار ہو کر خدمت دین کے
لیے میدان میں اتر رہے ہیں۔
یہ دعوت اسلامی ہے کہ جس سے تعداد پوچھنی نہیں پڑھتی بلکہ خود نظر آ
جاتی ہے اور اگر کوئی پوچھ بھی لے تو بتانے میں شرم محسوس نہیں ہوتی بلکہ سر فخر
سے بلند کر کے تعداد بتائی جاتی ہے اس وقت دعوت اسلامی کے تحت 814 سے زائد جامعات قائم ہیں جہاں 64 ہزار سے زائد
طلباء علم دین حاصل کر رہے ہیں ۔فتدبر!!!
اور جو
تعداد اس وقت جامعات المدینہ میں زیر تعلیم ہے اور جو میں نے ٹیکسلا ،حسن ابدال
اور واہ کینٹ میں تنظیم المدارس کے تحت امتحانات دینے والے طلبا کی تعداد دیکھی اس
سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ سالوں میں عنقریب دعوت اسلامی سے عالم کورس کر کے
فراغت حاصل کرنے والوں کی تعداد تین چار ہزار سے زائد ہوگی ۔ اس پر فتن دور میں
اتنے علماء و مبلغین تیار کرنا اور پھر ان علماء کو مختلف شعبہ جات میں دین متین کی
خدمت کے لیے لگا دینا یقینا امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کرامت ہے اور یہ آپ کے جذبہ خدمت دین اور
مسلک اہلسنت کے لیے دن رات کی محنت و کوشش
اور اپنی ذاتی ترجیحات کو پس پشت ڈال کر
خدمت دین کا نتیجہ ہے کہ آج ہر سمت سے نظریں
دعوت اسلامی کو ہی تلاش کرتی ہیں اور لوگ اپنے دین و عقائد کے معاملے میں امیر
اہلسنت
دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی آواز اور آپ کی تحریک کو اپنے عقائد و اعمال
کا محافظ اور مضبوط قلعہ شمار کرتے ہیں ۔
موجودہ حالت کو ایک ولی کامل نے تقریبا تین سال قبل ملاحظہ کیا اور امت کو ایک نعرہ دیا ،میری
معلومات کے مطابق اس نعرہ کو بلند کرنے سے قبل امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے
علمائے کرام و مفتیان عظام سے فرمایا کہ ایک
نعرہ بتائیے جو کہ ہر بچہ کی زبان پر آسانی سے جاری ہو تو مختلف مفتیان کرام
نے مختلف نعرے بتائے لیکن قبلہ امیر
اہلسنت دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے فرمایا
آسان سے آسان نعرہ ہو ،تو پھر امیر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے خود ایک نعرہ
بلند کیا جو کہ زبان پر انتہائی آسانی سے جاری ہونے والا نعرہ تھا اور وہ نعرہ تھا ” ہر صحابی نبی جنتی جنتی “
شکریہ امیر اہلسنت جنہوں نے امت کو اتنے علماء کا تحفہ دیا ۔ اللہ پاک محسن اہلسنت کا سایہ تا دیر سلامت رکھے ۔
یہ فیض ہے غوث
پاک کا،یہ فیض ہےاحمد رضا کا
شکریہ دعوت اسلامی
نوٹ: راقم کی تحریر میں ادارے کی پالیسی کے
مطابق ترمیم کی گئی ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلی رحمۃ اللہ علیہ نے اسلاف کے مسلک و منہج کی مدلل انداز میں ترجمانی
و نمائندگی کی۔ آپ نے اپنے عہد میں نہ صرف پرانے بلکہ نوپید فتنوں کابھی علمی محاسبہ
کیا۔ ان پر شرعی حکم عائد کر کے سرمایۂ ملت کی نگہبانی کی۔ آپ کی خدماتِ علمیہ دانش گاہوں اور تحقیقی اداروں
کا محور و مصدر ٹھہریں۔ آج عالم یہ ہے کہ جہانِ علم و فضل میں کارِ رضا، فکرِ رضا،
یادِ رضا اور ذکرِ رضا کی دھوم ہے۔ ہر بزم میں اعلیٰ حضرت کا چرچا ہے۔ ہر فن کی بلندی
پر فکرِ رضا کا علَم لہرا رہا ہے۔ہر گلشن میں بریلی کے گُلِ ہزارہ کی خوشبو ہے۔
اعلیٰ حضرت کی ان خدماتِ دینیہ اور تعلیمات کو چاردانگ عالم
میں آسان کرکے پیش کرنے کے عظیم مقصد کے
تحت عالمی مذہبی تحریک دعوتِ اسلامی نےشعبہ
المدینۃ العلمیہ کی بنیاد رکھی۔ ابتداءً المدینۃ العلمیہ کو چھ ڈیپارمنٹس میں تقسیم
کیا گیا، ان چھ میں ایک شعبہ کتب اعلیٰ حضرت کی داغ بیل بھی ڈالی گئی۔ اس شعبے کا خالصتاً کام اعلیٰ حضرت کی کتابوں کو جدید دورکے تقاضوں کے مطابق آسان
سے آسان کرکے شائع کرنا ہے۔ اس شعبے میں اعلیٰ حضرت کی اردو کتب اوررسائل پر تسہیل، تخریج،
تلخیص، ترجمہ اور حاشیہ جبکہ عربی کتب میں تبییض ،تصحیح، تحقیق وتخریج الغرض موجودہ دور میں
تحقیق شدہ کتب کے معیار کے مطابق کام سَر
انجام دیا جاتا ہے۔
المدینۃ العلمیہ نے
اپنے 19 سالہ علمی سفرمیں اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات و تعلیمات اور فروغِ مسلکِ اعلیٰ حضرت کی
ترویج و اشاعت میں جو قابلِ ذکر خدمات سر انجام دی ہیں ان کی مختصر جھلکیاں نذرِ قارئین
کی جاتی ہیں:
(1)...جَدُّ الْمُمْتار عَلٰی
رَدِّ الْمُحْتار(سات جلدیں) (2)...اَجْلَی الْاِعْلَام اَنَّ الْفَتْوٰی مُطْلَقًا عَلٰی
قَوْلِ الْاِمَام (3)...اَلتَّعْلِیْقُ الرَّضَوِی
عَلٰی صَحِیْحِ الْبُخَارِی (4)...اَنْوَارُ
الْمَنَّان فِیْ تَوْحِیْدِ الْقُرْآن (5)...اَلتَّعْلِیْقَاتُ
الرَّضَوِیَّۃ عَلَی الْہِدَایۃ وَشُرُوْحِہَا (6)...اَلْفتاوی المختارۃ من الفتاوی
الرضویۃ (7)...راہ خدا میں خرچ کرنے کے فضائل (8)...اولاد کے حقوق، والدین
زوجین اور اساتذہ کے حقوق(9)...حقوق العباد کیسے معاف ہوں (10)...شفاعت کے متعلق 40حدیثیں (11)...فضائل دعا (12)...کرنسی نوٹ کے شرعی احکامات (13)...عیدین میں گلے ملنا کیسا؟ (14)...شریعت وطریقت (15)...ولایت کا آسان راستہ (تصوّرِ شیخ) (16)...اعلیٰ حضرت سے سوال جواب (17)...ثبوت ہلال کے طریقے (18)...دس عقیدے
آئندہ کے اہداف:
المدینۃ العلمیہ کے زیرِ اہتمام شعبہ کُتُب اعلیٰ حضرت کے آئندہ
کے اہداف میں زیرِ تدوین و زیرِ غور کام میں(1) علم غیب پر انسائیکلو
پیڈیا ’’مَاٰلِی الْجَیْب بِعُلُوْمِ الْغَیْب‘‘ (2) اَلنُّور وَالضِّیَاء (3)خیر
الامال فی حکم الکسب والسؤال پر تحقیقی کام جاری ہے۔
الغرض ! اب تک اس شعبے سے امام اہل سنّت کی تقریباً 34 کتب
ورسائل شائع ہوچکے ہیں جن میں 22 اردو کتب ورسائل ہیں اور عربی کتب ورسائل کی
تعداد 12 ہے۔ ان میں سے تین دار الکتب العلمیۃ بیروت سے بھی شائع ہوچکی ہیں اور ایک
عنقریب شائع ہوگی۔ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ
در حقیقت یہ سب عاشقِ اعلیٰ حضرت، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علامہ
مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکی دعاؤں ، محبتوں اور شفقتوں کانتیجہ ہے جنہوں نے عاشقانِ
رسول کو رضویت
کی نہ صرف خوب پہچان کرائی بلکہ افکار
ونظریاتِ رضاکی کھل کر ترجمانی کی اورمسلکِ
اعلیٰ حضرت کےسچے علم بردار کہلائے.یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر و نگارش پرنظریات
وافکارِ رضا کی گہری چھاپ دکھائی دیتی ہے،
یہ وہی ہستی ہیں جنہوں نے قلم اٹھاتے ہی سب سے پہلا رسالہ اعلیٰ حضرت کی سیرت پر
لکھا، آپ کا یہ قول”اعلیٰ حضرت پر میری
آنکھیں بند ہیں“ اعلیٰ حضرت سے سچی عقیدت ومحبت اور اُن پر کامل اعتماد کا
عکاس ہے۔ الغرض!رضویات کےحوالے سے بانیِ دعوتِ اسلامی کی جو
محنت، جدو جہد، جاں سوزی، والہیت، وارفتگی
اور گوں ناگوں خدمات ہیں وہ اظہر من الشمس ہیں۔
اللہ رب العزت چمنستانِ
رضا کے ہر پھول کو ہمیشہ پھلتا پھولتا اور
شاد و آباد رکھے، اس باغ کے ہر رَکھوالے کی خیر فرمائےاور ہمیں اس چمن سے خوشہ
چینی کی توفیقِ رفیق عطا فرمائے۔ آ مین۔
عمارتِ نبوت کی آخری اینٹ
تحریر: مفتی محمد قاسم عطاری
ارشادباری تعالیٰ ہے: : مَا كَانَ
مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ
خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجمہ: محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف
لانے والے ہیں۔(پ22،الاحزاب:40)
تفسیر یہ آیتِ مبارکہ حضور پُر نور صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آخری نبی (Last
Prophet) ہونے پر
نَصِّ قطعی ہے اور اس کا معنیٰ پوری طرح واضح ہے جس میں کسی تاویل اور تخصیص کی
ذرّہ بھر بھی گُنجائش نہیں۔ ختمِ نبوت سے متعلِّق تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ
نے حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تمام انبیاء و مرسلین علیہمُ
الصَّلٰوۃُ والسَّلام کے آخر میں مبعوث فرمایا اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر
نبوت و رِسالت کا سلسلہ ختم فرما دیا، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ یا آپ صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد قیامت قائم ہونے تک کسی کو نَبُوَّت ملنا مُحال ہے۔ یہ عقیدہ ضروریاتِ
دین سے ہے، اس کا منکر اور اس میں ادنیٰ سا بھی شک و شبہ کرنے والا کافر، مرتد اور
ملعون ہے۔
مذکورہ بالا آیت کے علاوہ بیسیوں آیات ایسی ہیں جو مختلف
پہلوؤں کے اعتبار سے حضورِ انور صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آخری نبی ہونے کی تائید و تَثْوِیب کرتی ہیں جیسے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی رِسالت کے پہلو سے دیکھا جائے تو (1)آپ صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سب انسانوں کی طرف رسول بنا کر
بھیجا گیا۔(پ9، الاعراف:158) (2)تمام لوگوں
کے لئے بشیر و نذیر بنایا گیا۔(پ22، سبا:28) (3)آپ صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سارے جہانوں کو عذابِ الٰہی سے ڈرانے
والے۔(پ18، الفرقان:01) (4)تمام لوگوں کو کفر کی ظلمت سے
ایمان کے نور کی طرف نکالنے والے۔ (پ13، ابراہیم:01) (5)اور ہر جہان کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں۔(پ17، الانبیاء:107) (6)اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہمُ الصَّلٰوۃُ والسَّلام سے یہ عہد لیا کہ جب حضورِ اکرم صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تشریف آوَری ہو تو وہ
ان پر ایمان لائیں اور ان کی مدد کریں۔(پ3،اٰل عمرٰن:81) ان کے بعد کسی نبی پر ایمان و مدد
کا کہیں ذکر نہیں فرمایا۔ (7)آپ صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے رسولوں کی تشریف آوَری کے بارے میں بتایا گیا۔(پ4،اٰل عمرٰن: 144، پ17،
الانبیاء:41، پ7، الانعام:34) لیکن آپ کے بعد کسی بھی رسول کے آنے کی خبر نہیں دی گئی۔ (8)حضرت
عیسیٰ علیہ الصَّلٰوۃ
والسَّلام نے تورات کی تصدیق کی اور رسولِ کریم صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آمد کی بِشارت دی۔(پ28،الصف:06) جبکہ حضور پُر نور صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے بعد کسی نبی کے آنے کی بشارت نہیں دی۔
آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لائے ہوئے دین کے پہلو سے دیکھا جائے تو (9)اللہ تعالیٰ نے آپ صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دین کامل کردیا۔(پ6، المآئدہ:03) کہ یہ پچھلے دینوں کی طرح مَنْسُوخ
نہ ہو گا بلکہ قیامت تک باقی رہے گا۔ (10)آپ صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ہدایت اور سچّے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو تمام
دینوں پر غالب کردے۔ (پ28،الصف:09)
آپ صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل ہونے والی کتاب قراٰنِ مجید کے پہلو سے دیکھا جائے
تو (11)اللہ تعالیٰ نے کُتُبِ
اِلٰہیّہ پر
ایمان سے متعلق قراٰن اور سابقہ کتابوں کا ذکر فرمایا۔ (پ1، البقرۃ:04،پ5، النسآء: 136،
162) لیکن قراٰن کے بعد کسی اور
آسمانی کتاب کاذِکر نہیں کیا۔ (12)قراٰن پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔(پ26،
الاحقاف: 29) لیکن اس نے اپنے بعد کسی کتاب کی تصدیق نہیں کی۔ (13)قراٰن
تمام جہانوں کے لئے نصیحت ہے۔(پ30، التکویر:26) (14)قراٰن پوری انسانیت کے لئے ذریعۂ
ہدایت ہے۔(پ
1، البقرۃ:185)
آخر
میں ایک حدیثِ پاک بھی ملاحظہ ہو،چنانچہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:میری اور تمام
انبیاء کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک عمده اور خوبصورت عمارت بنائی اور لوگ اس کے آس
پاس چکّر لگا کر کہنے لگے :ہم نے اس سے بہترین عمارت نہیں دیکھی مگر یہ ایک اینٹ ( کی جگہ خالی ہے جو کھٹک رہی ہے) تو میں (اس عمارت کی) وہ (آخری) اینٹ ہوں۔(مسلم،ص965،حدیث:5959)
”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“(محرم
الحرام 1439) ، صفحہ5، مضمون:تفسیر قراٰنِ کریم
”خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ“ کا معنیٰ تفاسیر کی روشنی میں
تحریر: ابوالحسن راشد علی عطاری مدنی
عقیدہ ختمِ نُبُوَّت دینِ اسلام کا بنیادی
عقیدہ ہے۔ یہ ایک حساس ترين عقیدہ
ہے۔ ختم نبوت کا انکار قراٰن کا انکار ہے۔ختمِ نبوت کا انکار صحابۂ کرام کے اجماع
کا انکار ہے ۔ختمِ نبوت کا انکار ساری امتِ محمدیہ کے علما و فقہا و اَسلاف کے
اجماع کا انکار ہے۔ ختمِ نبوت کو نہ ماننا رسولِ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
مبارک زمانہ سے لے کر آج تک کے ہر ہر مسلمان کے عقیدے کو جھوٹا کہنے کے مترادف ہے۔ اللہ ربُّ العزّت کا فرمانِ عظیم ہے:
: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰)
تَرجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب
کچھ جانتا ہے۔( پ22،
الاحزاب:40)
ختمِ نُبُوَّت کے منکر اس آیتِ مبارکہ کے الفاظ ” خَاتَمُ النَّبِیِّیْن “ کے معنی میں طرح طرح کی بے بنیاد، جھوٹی اور دھوکا پر
مبنی تاوِیلاتِ فاسدہ کرتے ہیں جو کہ قراٰن، احادیث، فرامین و اجماعِ صحابہ اور مفسرین، محدثین، محققین،
متکلمین اور ساری اُمّتِ محمّدیّہ کے خلاف ہیں۔ تفاسیر اور اقوال مفسرین کی روشنی
میں خَاتَمُ النَّبِیِّیْن کا معنیٰ آخری نبی ہی ہے،
چنانچہ مفسّر قران:
ابو جعفر محمد بن جریر طبری (وفات: 310ھ)، ابوالحسن علی بن
محمد بغدادی ماوردی (وفات:450ھ)، ابو الحسن علی بن احمد واحدی نیشاپوری شافعی (وفات: 468ھ)، ابوالمظفر منصور بن محمد المروزی سمعانی شافعی (وفات: 489ھ)، محیُّ السُّنّۃ ابومحمد حسین بن مسعود بغوی (وفات: 510ھ)، ابو محمد عبدُالحق بن غالب اندلسی محاربی (وفات: 542ھ)، سلطانُ العلماء
ابومحمد عز الدين عبدالعزيز بن عبد السلام سلمی دمشقی (وفات: 660ھ)، ناصرُ الدّين ابوسعيد عبدُالله بن عمر شیرازی بیضاوی (وفات: 685ھ)، ابوالبركات عبدُالله بن احمد نسفی (وفات: 710ھ)، ابوالقاسم محمد بن احمد بن
محمد الکلبی غرناطی (وفات: 741ھ)، ابوعبدُالله محمد بن محمد بن عرفہ ورغمی مالکی (وفات: 803ھ)، جلال الدّين محمد بن احمد محلی (وفات: 864ھ) اور ابوالسعود العمادی
محمد بن محمد بن مصطفىٰ (وفات:982ھ) رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہم اَجْمعین سمیت دیگر کثیر مفسرینِ کرام نے اس آیت کی تفسیر میں ہمارے پیارے آقا محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آخری نبی ہونے کی تصریح و تاکید فرمائی ہے۔ ذیل میں چند تفاسیر کے اِقتِباسات ملاحظہ کیجئے:
۞امامِ اہلِ سنّت، ابو منصور ماتریدی (وفات:
333ھ) اپنی تفسیر ”تاویلات اہل السنۃ“ میں لکھتے ہیں:جو کوئی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد نبی کے آنے کا دعویٰ کرے تو اس سے کوئی حجت و دلیل طلب
نہیں کی جائے گی بلکہ اسے جھٹلایا جائے گا کیونکہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم فرما
چکے ہیں:لَا نَبِیَّ بَعْدِي
یعنی
میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ( تاویلات
اہل السنۃ،8/396، تحت الآیۃ:40)
۞صاحبِ زادُ المسیر ابوالفرج
عبدُالرّحمٰن بن علی جوزی (وفات: 597ھ) لکھتے ہیں: ” خَاتَمُ النَّبِیِّیْن “ کے معنی آخِرُالنّبیین ہیں، حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے
فرمایا: اس سے مراد یہ ہے کہ اگر اللہ کریم محمّدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے
ذریعے سلسلۂ نُبُوَّت ختم نہ فرماتا
تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بیٹا حیات
رہتا جو ان کے بعد نبی ہوتا۔ ( زاد المسیر،6/393، تحت الآیۃ: 40)
۞الجامع
لاحكامِ القراٰن میں امام ابوعبدُالله محمد بن احمد قُرطبی (وفات: 671ھ) لکھتے ہیں:” خَاتَمُ النَّبِیِّیْن“ کے یہ الفاظ تمام قدیم و جدید علمائے
اُمّت کے نزدیک مکمل طور پر عُموم(یعنی
ظاہری معنیٰ) پر ہیں جو بطورِ نَصِ
قطعی تقاضا کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی نہیں۔اور خَاتَمُ النَّبِیِّیْن کے ختم نبوت کے خلاف دوسرے معنیٰ نکالنے اور تاویلیں کرنے والوں کا رَد کرتے ہوئے امام قُرطبی لکھتے
ہیں کہ میرے نزدیک یہ اِلْحاد یعنی بے دینی ہے اور ختمِ نُبُوَّت کے بارے میں
مسلمانوں کے عقیدہ کو تشویش میں ڈالنے کی خبیث حرکت ہے، پس ان سے بچو اور بچو اور اللہ ہی
اپنی رحمت سے ہدایت دینے والا ہے۔ ( تفسیر
قرطبی،جز14، 7/144، تحت الآیۃ:40)
۞تفسیر لُبابُ التاویل میں حضرت علاءُالدّین علی بن محمد خازِن (وفات: 741ھ) لکھتے ہیں: خَاتَمُ
النَّبِیِّیْن کے معنی ہیں کہ اللہ کریم نے ان پر سلسلۂ نُبُوَّت ختم
کردیا پس ان کے بعد کوئی نبوت نہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی اور نبی ہے۔ حضرت
سیّدُنا عبدُالله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے
ہیں: کیونکہ اللہ کریم جانتا تھا کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی نہیں اسی لئے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کو کوئی ایسی مذکر اولاد عطا نہ فرمائی جو جوانی کی عمر کو پہنچی ہو اور رہا
حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام کا تشریف
لانا تو وہ تو ان انبیا میں سے ہیں جو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے دنیا میں تشریف لاچکے اور جب آخر زمانہ میں تشریف
لائیں گے تو شریعتِ محمدیہ پر عمل کریں گے اور انہی کے قِبلہ کی جانب منہ کرکے
نماز پڑھیں گے گویاکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُمّت سے
بھی ہوں گے۔ ( تفسیر خازن،3/503، تحت الآیۃ:40)
۞مشہور تفسیر
اللباب فی علوم الكتاب میں ابوحفص سراج الدين عمر بن علی حنبلی دمشقی (وفات:
775ھ) حضرت سیدنا عبدُالله بن
عباس کا قول ”اللہ
کریم کا فیصلہ تھا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی نہ ہو اسی لئے ان کی
کوئی مذکر اولاد سن رجولیت(یعنی جوان آدمی کی عمر) کو نہ پہنچی“
نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: کہا گیا ہے کہ
جن کے بعد کوئی نبی نہیں، وہ اپنی اُمّت پر بہت زیادہ شفیق اور ان کی ہدایت کے بہت
زیادہ خواہاں ہوں گے گویا کہ وہ اُمّت کے لئے اس والد کی طرح ہوں گے جس کی اور کوئی اولاد نہ ہو۔( اللباب
فی علوم الکتاب،15/558، تحت الآیۃ: 40)
اس تفسیر کے مطابق دیکھا جائے تو اللہ ربُّ العزّت کے بعد اس اُمّت پر سب سے زیادہ شفیق و مہربان جنابِ محمدِ مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی ہیں، جس پر آیتِ قراٰنی عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)تَرجَمۂ کنزُ الایمان: جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔ ( پ11، التوبۃ:128) سمیت کثیر آیات واضح دلیل ہیں۔
۞تفسیر نظم الدرر میں
حضرت ابراہیم بن عمر بقاعی (وفات:
885ھ) لکھتے
ہیں: کیونکہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی رسالت اور نبوت
سارے جہان کے لئے عام ہے اور یہ اعجازِ قراٰنی بھی ہے (کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل ہونے والی یہ کتاب بھی سارے جہاں کے لئےہدایت ہے)، پس
اب کسی نبی و رسول کے بھیجنے کی حاجت نہیں، لہٰذا اب رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی بھی پیدا نہ ہوگا،
اسی بات کا تقاضا ہے کہ رسولِ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
کوئی شہزادہ سنِ بلوغت کو نہ پہنچا اور
اگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے
بعد کسی نبی کا آنا علمِ الٰہی میں طے ہوتا تو محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے اِکرام و عزت کے لئے ضرور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک نسل ہی سے ہوتا کیونکہ آپ سب
نبیوں سے اعلیٰ رتبے اور شرف والے ہیں لیکن اللہ کریم نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اکرام اور اعزازکے لئے یہ فیصلہ فرمادیا کہ
آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی
نبی ہی نہیں آئے گا۔ (نظم الدرر،6/112،تحت الآیۃ:40)
۞تفسیر
الفواتح الالٰہیہ میں شیخ
علوان نعمتُ الله بن محمود (وفات: 920ھ) فرماتے ہیں:رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ کی جانب سے اللہ کے بندوں کی ہدایت کے لئے تشریف لائے، اللہ کریم
نے تمہیں راہِ رُشد و ہدایت دکھانے کے لئے تمہاری طرف اُمَمِ سابقہ کی طرح رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کو بھیجا، لیکن ان کی شان یہ ہے کہ یہ خَاتَمُ النَّبِیِّیْن اور ختم المرسلین ہیں کیونکہ ان کے تشریف لانے کے بعد دائرہ نبوت مکمل
ہوگیا اور پیغامِ رسالت تمام ہوگیا جیسا کہ خود رسالت مآب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا
ہوں اور اللہ کریم نے آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان میں فرمایا ہے:اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ
دِیْنَكُمْ تَرجَمۂ کنزُ الایمان:آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر
دیا۔ ( الفواتح الالٰہیہ،2/158، تحت
الآیۃ:40)
۞صاحبِ تفسیرِ فتح الرحمن مجير الدين بن محمد علیمی مقدسی حنبلی (وفات: 927ھ) فرماتے ہیں: خَاتَمُ
النَّبِیِّیْن کے معنیٰ ہیں نبیوں میں سے آخری یعنی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد ہمیشہ کے لئے دروازۂ نبوت بند ہوگیا اور کسی کو بھی نبوت نہیں دی جائے گی اور رہا عیسیٰ علیہ
السَّلام کاتشریف لانا تو وہ تو ان انبیا میں
سے ہیں جو آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے
پہلے دنیامیں تشریف لاچکے۔ ( فتح الرحمٰن،5/370، تحت الآیۃ:40)
اللہ کریم ہمیں عقیدہ ختمِ نُبُوّت کی حفاظت کرتے رہنے کی
توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اللہ کے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
تحریر: راشد نور عطّاری مدنی
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک کا آخری نبی ماننا اسلام کا
بنیادی عقیدہ ہے۔ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کسی طرح کا کوئی نیا نبی و
رسول نہ آیا ہے اور نہ ہی آسکتا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ السَّلام بھی قیامت کے نزدیک
جب تشریف لائیں گے تو سابق وصفِ نبوت و رسالت سے متصف ہونے کے باوجود ہمارے
رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے نائب و اُمّتی کی حیثیت سے تشریف لائیں گے
اور اپنی شریعت کے بجائے دین محمدی کی تبلیغ کریں گے۔(خصائص کبریٰ،2/329)
اِس عقیدۂ ختمِ نبوت کو
قراٰنِ پاک میں یوں بیان فرمایا گیا ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ
اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ
النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) تَرجَمۂ کنزُالعِرفان: محمد
تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیںاور سب نبیوں
کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ
جاننے والا ہے۔ (پ22،الاحزاب:40)
خودتاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
اپنی مبارک زبان سے اپنے آخری نبی ہونے کو
بیان کیا ہے :
ختمِ رسالت کے
آٹھ حروف کی نسبت سے
8 فرامینِ مصطَفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(1)فَاِنِّی آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ
وَاِنَّ مَسْجِدِی آخِرُ الْمَسَاجِدِ بےشک میں سب نبیوں میں آخری نبی ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے (جسے کسی نبی نے خود تعمیر کیا ہے)۔(مسلم،ص553،حدیث:3376)
(2)مجھے انبیائے کرام علیہمُ
الصَّلٰوۃ وَالسَّلام پر چھ چیزوں سے
فضیلت دی گئی: (۱)مجھے جامع کلمات دئیے گئے (۲)رُعْب
طاری کرکے میری مدد کی گئی (۳)میرے لئے مالِ غنیمت کو حلال کر دیا گیا (۴)میرے
لئے ساری زمین پاک اور نَماز کی جگہ بنادی گئی
(۵)مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا (۶)مجھ پر نبوت ختم کردی گئی۔ (مسلم، ص210، حدیث:1167)
(3)اِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ
قَدْ اِنْقَطَعَتْ فَلَا رَسُولَ بَعْدِی وَلَا نَبِیَّ بےشک رِسالت
اور نبوت منقطع ہوچکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا اور نہ کوئی نبی۔( ترمذی،4/121،حدیث:2279)
(4)اَنَا آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ وَاَنْتُمْ
آخِرُ الْاُمَمِ میں سب سے آخری نبی ہوں اور تم سب سے
آخری اُمّت ہو۔(ابنِ ماجہ،
4/414، حدیث: 4077)
(5)اَنَا مُحَمَّدٌ،النَّبِیُّ الاُمِّیُّ،
اَنَا مُحَمَّدٌ،النَّبِیُّ الاُمِّیُّ ، ثلاثًا، وَلَا نَبِیَّ بَعْدِی، میں محمد ہوں، اُمِّی نبی ہوں تین مرتبہ ارشاد فرمایا، اور
میرے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسند احمد، 2/665، حدیث:7000)
(6)بنی اسرائیل کا نظامِ
حکومت اُن کے اَنبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام چلاتے تھے جب
بھی ایک نبی جاتا تو اس کے بعد دوسرا نبی آتا تھا اور میرے بعد تم میں کوئی نیا نبی
نہیں آئے گا۔(مصنف
ابن ابی شیبۃ،8/615،حدیث:152)
(7)ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ، فَلَا
نُبُوَّةَ بَعْدِی اِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ۔ قِيْلَ: وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟
قَالَ:الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الرَّجُلُ اَوْ تُرَى لَه یعنی نبوت گئی، اب میرے بعد نبوت نہیں مگر بشارتیں ہیں۔ عرض کی گئی: بشارتیں
کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا:اچھا خواب کہ آدمی خود دیکھے یا اس کے لئے دیکھا جائے۔(معجم کبیر، 3/179،
حدیث:3051)
(8)اَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ
وَلا فَخْرَ یعنی میں خَاتَمُ النَّبِیِّین ہوں اور یہ بطورِ فخر نہیں کہتا۔ (معجم اوسط، 1/63،
حدیث:170، تاریخِ کبیر للبخاری، 4/236،
حدیث:5731)
”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“(محرم
الحرام 1441ھ) ، صفحہ10
اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
تحریر: کاشف شہزاد عطاری مدنی
دینِ اسلام کے بنیادی عقائد میں سےایک یہ ہے کہ اللہ پاک نے نبوّت و رسالت کاسلسلہ خَاتَمُ النَّبِیِّین، جنابِ احمدِ مجتبیٰ، محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ختم فرما دیا ہے۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کسی طرح کا کوئی نبی، کوئی رسول نہ آیا ہے، نہ آسکتا ہے اور نہ آئے گا۔ اس عقیدے سے انکار کرنے والا یا اس میں ذرہ برابر بھی شک اور تَرَدُّد کرنے والا دائرۂ اسلام سے خارِج ہے۔
حضورِ
اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے غیب کی خبر دیتے ہوئے پہلے ہی ارشاد فرما دیا
تھا : ”عنقریب میری اُمّت میں تیس (30)کَذَّاب(یعنی بہت بڑےجھوٹے) ہوں گے، ان میں سے ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے
حالانکہ میں خَاتَمُ
النَّبِیِّین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔“ (ابوداؤد، 4/132، حدیث: 4252)
سرکارِ
نامدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا آخری نبی ہونا قراٰنِ مجید کی صریح آیات اور احادیثِ مبارَکہ سے ثابت نیز تمام صحابۂ کرام، تابعینِ عظام، تبع تابعین اور تمام اُمّتِ محمدیہ کا
اجماعی عقیدہ ہے۔ آئیے اس حوالے سے احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کیجئے:
”ختمِ نبوت“ کے 7حروف کی نسبت سے
سات7فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(1)بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی، اب میرے بعد نہ کوئی
رسول ہے نہ کوئی نبی۔(ترمذی، 4/121، حدیث:2279)
(2)اے لوگو! بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد
کوئی اُمّت نہیں۔(معجم کبیر، 8/115، حدیث:7535)
(3)میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک حسین و جمیل عمارت بنائی مگر اس کے
ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ اس(عمارت) کے گِرد گھومنے
لگے اور تعجب سے کہنے لگے کہ اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟ میں (قصرِ نبوت کی) وہ اینٹ ہوں اور میں خَاتَمُ النَّبِیِّین ہوں۔ (مسلم، ص965،
حدیث:5961)
(4)بےشک میں اللہ تعالیٰ کے حضور لَوحِ محفوظ میں خَاتَمُ النَّبِیِّین (لکھاہوا) تھا جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ابھی اپنی
مٹی میں گُندھے ہوئے تھے۔ (کنز العمال،
جزء:11،6/188، حدیث:31957)
(5)میرے متعدد نام ہیں، میں مُحَمَّد ہوں، میں اَحْمَد ہوں، میں مَاحِیْ ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کُفر مٹاتا
ہے، میں حَاشِرْ ہوں کہ میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا، میں عَاقِب ہوں اور عَاقِب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔
(ترمذی، 4/382، حدیث:2849)
(6)میرے بعد نبوت میں سے کچھ باقی نہ رہے گا
مگر بشارتیں، (یعنی) اچھا خواب کہ بندہ خود دیکھےیا اس کے لئے دوسرے کو دکھایا
جائے۔ (مسندِ احمد، 9/450،
حدیث:25031ملتقطاً)
(7)(اے علی!) تم کو مجھ
سے وہ نسبت ہے جو حضرت ہارون(علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ(علیہ السلام) سے تھی مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی
نہیں۔(مسلم، ص1006، حدیث:6217)
ضروری وضاحت: قیامت سے پہلے حضرت
سیّدناعیسیٰ علٰی نَبِیِّنَاوعلیہ الصَّلٰوۃ
وَالسَّلام کا
دنیا میں دوبارہ تشریف لاناختمِ نبوت کے خلاف نہیں ہے کیونکہ وہ سرکارِ نامدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کےنائب کے
طور پر تشریف لائیں گےاورآپ صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شریعت کے مطابق
احکام جاری فرمائیں گے۔ امام جلالُ الدّین سُیوطِی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں: حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ
الصَّلٰوۃ وَالسَّلام جب نازل ہوں گے تو رَحْمتِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کےنائب کے طور پر آپ کی شریعت
کے مطابق حکم فرمائیں گےنیز آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع
کرنے والوں اورآپ کی امّت میں سےہوں گے۔ (خصائص کبریٰ، 2/329)
نہیں ہے اور نہ ہوگا بعد آقا کے نبی کوئی
وہ ہیں شاہِ رُسُل، ختمِ نبوت اس کو کہتے ہیں
لگا کر پُشت پر مُہرِ نبوت حق تعالیٰ نے
انہیں آخر میں بھیجا، خاتمیت اس کو کہتے ہیں
(قبالۂ
بخش،ص115)
”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“(ذوالحجۃ
الحرام 1439ھ) ، صفحہ8
مرزائی، احمدی اور قادیانی
مدنی مذاکرے کا ایک اہم سوال اور اس کا جواب
سوال:مرزائی، احمدی اور قادیانی ان تینوں میں کیا فرق ہے؟
جواب:مرزائی، احمدی اور قادیانی یہ تینوں ایک ہی گروپ کے نام
ہیں۔ اس گروپ کے بانی کا نام مرزا غلام احمد قادیانی تھا، جو لوگ مَعَاذَ
اللہ اس کو نبی
مانتے ہیں وہ اس کے نام ’’غلام احمد“ کی
نسبت سے احمدی، اُس کی ذات”مرزا“ کی نسبت سے مِرزائی اور اس کے شہر ’’قادیان‘‘ کی
نسبت سے قادیانی کہلاتے ہیں، تو اس کے ماننے والے مرزائی، احمدی اور قادیانی ان تین
ناموں سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہ لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت کو ماننے کی وجہ
سے مسلمان نہیں ہیں کیونکہ ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نبوت
ختم ہوگئی ہے اور اس بات کا اعلان خود سَیِّدُ الْمُرْسَلِیْن، خَاتَمُ النَّبِیِّیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی
حیاتِ ظاہِری میں فرما دیا تھا جیسا کہ تِرمِذی شریف کی حدیثِ پاک میں ہے:اَنَا
خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِی یعنی میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (ترمذی، 4/93، حدیث: 2226)
ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آخری
نبی ماننا ”ضروریاتِ دین“ سے ہے اور اس بات پر ایمان لانا شرط ہے کہ آپ علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے
بعد کوئی نیانبی نہیں آئے گا۔ اگر کوئی شخص ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد
کسی کو نیانبی مانے یا کسی کیلئے نبوت کا ملنا ممکن جانے کہ کسی کو نبوت مل سکتی
ہے تو وہ دائرۂ اسلام سے نکل کر کافِر ہوجائے
گا اور اُسے کافر و مرتد سمجھنا ضَروری ہے۔
اِسی طرح اگر
کوئی ہمارے پیارے نبی مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آخری
نبی تو مانتا ہو لیکن کسی دوسرے جھوٹے نبی کا کلمہ پڑھتا ہو یا کسی اور جھوٹے نبی
کو سچا مانتا ہو تو ایسا شخص بھی اسلام سے خارج ہے اور اس کا پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کو آخِری نبی ماننا اسے کوئی کام نہیں دے گا
بلکہ اُس شخص کو بھی کافر و مرتد جاننا لازِم و ضروری ہے۔
تو جو غلام احمد قادیانی کی نُبُوّت کو مانتے ہیں وہ
اسلام سے بالکل خارج ہیں، اسلام سے ان کا کوئی واسِطہ نہیں ہے اور یہ بالکل مرتد ہیں۔
جو بھی قادیانی مذہب پر مرے گا وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنّم میں رہے گا، ان کی سزا بُت پَرست
مشرکوں سے بھی زیادہ سخت ہے۔ مَعَاذَاللہ عَزَّوَجَلَّ جو گنہگار
جہنَّم میں داخِل ہوں گے اور آخِرکار انہیں نکال کر جب داخلِ جنّت کیاجائے گا۔اِس
کے بعد رہ جانے والے کفّار کی سزا بیان کرتے ہوئے صَدرُالشَّریعہ، بَدرُالطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانا مفتی محمد
امجد علی اعظمی علیہ
رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: کفّار کے لئے یہ (عذاب) ہوگا کہ اس کے قد برابر آگ کے صندوق (Box) میں اُسے بند کریں گے،
پھر اس میں آگ بھڑ کائیں گے اور آگ کا قُفل (Lock) لگایا جائے گا، پھر یہ صندوق آگ کے دوسرے صندوق میں رکھا جائے گا اور ان
دونوں کے درمیان آگ جلائی جائے گی اور اس میں بھی آگ کا قُفل لگایا جائے گا، پھر
اِسی طرح اُس کو ایک اور صندوق میں رکھ کر اور آگ کا قُفل لگا کر آگ میں ڈال دیا
جائے گا، تو اب ہر کافِر یہ سمجھے گا کہ اس کے سِوا اب کوئی آگ میں نہ رہا، اور یہ
عذاب بالائے عذاب ہے اور اب ہمیشہ اس کے لئے عذاب ہے۔ جب سب جنّتی جنّت میں داخل
ہولیں گے اور جہنّم میں صِرف وہی رہ جائیں گے جن کو ہمیشہ کے لئے اس میں رہنا ہے،
اس وقت جنّت و دوزخ کے درمیان موت کو مینڈھے (Ram) کی طرح لا کر کھڑا کریں گے، پھر مُنادی (آواز دینے والا) جنّت
والوں کو پُکارے گا، وہ ڈرتے ہوئے جھانکیں گے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہاں سے نکلنے
کا حکم ہو، پھر جہنمیوں کو پُکارے گا،وہ خوش ہوتے ہوئے جھانکیں گے کہ شاید اس مصیبت
سے رِہائی ہو جائے، پھر ان سب سے پوچھے گا کہ اِسے پہچانتے ہو؟ سب کہیں گے:ہاں!یہ
موت ہے، وہ ذبح کر دی جائے گی اور کہے گا:اے اہلِ جنّت!ہمیشگی ہے، اب مرنا نہیں
اور اے اہلِ نار!ہمیشگی ہے، اب موت نہیں، اس وقت اُن (جنّت والوں)کے لئے خوشی پر خوشی ہے اور اِن (جہنّم والوں) کے لئے غم
بالائے غم۔(بہارِ شریعت، 1/171،170)
جو بھی ختمِ نُبُوّت کا اِنکار کرتے ہیں میں ان
کو یہ ہمدردانہ مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اپنے حال پر رحم کریں، اپنی جان پر ظلم نہ کریں
اور نبیِ آخِرُ الزّماں، مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر سچے
دل سے ایمان لے آئیں اور جس نے نُبُوّت کا جھوٹا دعویٰ کیا اُسے مرتد سمجھیں اور
جو اُس کو نبی مانتے ہیں اُنہیں بھی مرتد سمجھیں اور اِسلام کے دامن میں آجائیں۔
اسی طرح
میں دیگر غیرمسلموں (Non-Muslims) کو بھی اِسلام کی دعوت دیتا ہوں، اسلام پُر اَمْن (Peaceful) مذہب ہے آپ اسے قبول کرلیں اِنْ
شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ آپ
کے دل میں سکون و اطمینان داخل ہوگا، دنیا میں، قبر میں اور قیامت میں راحت ملے گی
اور اِنْ
شَآءَ اللہ جنّت
کی نہ ختم ہونے والی نعمتیں بھی دی جائیں گی۔
وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ
صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی اللہ تعالٰی علٰی محمَّد
”ماہنامہ فیضانِ
مدینہ“(ربیع الاول1439ھ)، صفحہ10،9، مضمون: مدنی مذاکرے کے سوال جواب
گوہ کی گواہی
تحریر: شاہ زیب عطاری مدنی
ایک دن حُضور نبیِّ رحمت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم
اجمعین کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک اَعرابی کا اس
بابَرَکت محفل کے پاس سے گزر ہوا۔ یہ اَعرابی جنگل سے ایک گَوہ پکڑ کر لارہا تھا۔
اَعرابی نے آپ صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں لوگوں
سے سوال کیا کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ اللہ پاک کے نبی ہیں۔ اَعرابی
یہ سن کر آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں اُس وقت آپ پر ایمان لاؤں گا جب یہ گوہ
آپ کی نُبُوَّت پر ایمان لائے،یہ کہہ کر اس نے گوہ کو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے ڈال دیا۔ رسولُ
اللہ صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے گوہ کو پکارا تو اس نے اتنی بلند آواز سے لَبَّیْکَ
کہا کہ تمام
حاضرین نے سن لیا۔ پھر آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے اس سےپوچھا :اے گوہ! یہ بتا کہ میں کون ہوں؟ گوہ نے بُلند آواز سے کہا : آپ
ربُّ العٰلمین کے رسول ہیں اور خاتَمُ النّبِیِّین ہیں،جس نے آپ کو سچا
مانا وہ کامیاب ہو گیا اور جس نے انکار کیا وہ ناکام ہو گیا۔ یہ دیکھ کر وہ
اَعرابی فوراً ہی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گیا۔)زرقانی علی المواھب ، 554/6 (
پیارے مدنی منّو اور مدنی منّیو!اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ (1)ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم اللہ پاک کے آخری نبی ہیں۔ (2)آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا ۔ (3) حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی ختم نبوت پر جانور بھی ایمان رکھتے ہیں۔ (4)جو مسلمان ہے حقیقت میں وہی کامیاب ہے۔
مشکل الفاظ کے معانی
صحابہ:صحابی کی جمع،یعنی وہ شخص جس نے ایمان کی حالت میں اپنے ہوش کے ساتھ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی زیارت کی یا صحبت پائی اور ایمان پر ہی خاتمہ
ہوا۔
اَعرابی:عرب کے گاؤں کا رہنے
والا۔ بابرکت: برکت والی۔
گوہ:ایک جانور جس کی شکل
چھپکلی جیسی لیکن جسم اس سے کافی بڑا ہوتاہے۔
نُبُوَّت:نبی ہونا ۔ لَبَّیْکَ:میں حاضر ہوں۔
ربُّ
العالمین:تمام
جہانوں کا پالنے والا۔ خاتَم النبِیّین:آخِری نبی۔
”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“(جمادی الاخریٰ1440ھ)، صفحہ 16
احیاء العلوم میں ہے کہ ایک بزرگ نے حضرت عُمَر بن
عبد العزیز عَلَیْہِ
الرَحْمَہ کو خط لکھا کہ جان لو! بندے کے لئے مددِالٰہی اس کی نیت کے مطابق ہوتی ہے، پس
جس کی نیت کامل ہوگی اس کے لئے مددِ الٰہی بھی کامل ہوگی اور اگر نیت ناقص ہوتو
اسی قدر مدد میں بھی کمی ہوتی ہے۔(احیاء العلوم، 1/221 مترجم)اس فرمان
کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر نیت خالص نہ ہو تو بندہ لاکھ جتن کرے مگر
رکاوٹوں اور بندشوں کے بھنور سے نہیں نکل پائے گا جبکہ اگر نیت خالص ہو اور بندہ تنہا بےسروسامانی
میں کسی کام کو کرنے چلے تو اللہ کریم اس
کیلئے ایسے اسباب بنائے گا کہ وہ جو اکیلا چلا تھا ایک وقت آئے گا کہ زمانہ اس کی
طرف متوجہ ہو جائے گا اور لوگ اس کے
اشارۂ ابرو کے منتظر ہوں گے۔
اس فرمان کی عملی تفسیر آج دعوتِ اسلامی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ 2ستمبر1981وہ دن تھا کہ جب شیخِ طریقت، علامہ مولانا الیاس عطار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہنیتِ خالص کے ساتھ عزمِ مصمم لے کر تنہا اس میدان میں نکلے تھے اور آج اللہ پاک کی رحمت سے افرادی قوت (Manpower)اور سرمایہ (Finance)کی کثرت
میں دعوتِ اسلامی کی مثال نہیں ملتی، اور کسی بھی تنظیم کیلئے یہی دو چیزیں اصل
ہوتی ہیں۔ یقیناً یہ سب امیر اہلسنت کی سچی نیت کا فیضان ہے۔ اللہ
پاک امیر
اہلسنت کے صدقے ہمیں بھی نیتوں میں اخلاص
کی دولت عطا فرمائے اور دعوتِ اسلامی کو مزید برکتیں عطا فرمائے۔ امین
وقت
کے سیلاب کوصحیح سمت پھیرنا،خطرات اورنقصان کی جگہوں سے پہلے بند لگانا، بنجر
زمینوں، ریگستانوں کی آبادکاری کا اسے ذریعہ بنانا اور سیلاب زدہ مقامات پر امدادی
کاروائیاں کرنا یقیناً وقت کی ضرور ت کو پورا کرنا اور صحیح وقت پر درست
فیصلہ کرنا ہے۔ اس خوبصورت جملے کی تصویری صورت اورعملی نمونہ کا پورا پورا
حق ادا کرنے والی میری اور آپ کی تحریک دعوت اسلامی ہے۔ جس نےمعاشرے کی دنیا اور
آخرت کو سنوارنے، معاملات کو سدھارنے کے لئے جو فیصلے کئے، ان پر جو عمل کیا
اور چمکتی، دلوں کو چھوتی اور تعریف پر مجبور کرنے والی خدمات سر انجام دیں
اس کے نتیجے میں ایک، دس، سو، ہزار، لاکھ نہیں بلکہ لاکھوں لاکھ لوگ معاشرے
میں راحت کی زندگی گزار رہے ہیں، ذہنی ، قلبی اور جسمانی سکون پا رہے ہیں۔ آج 2 ستمبر کا دن ہے، خوشی کا دن ہے، اس پیاری، مذہبی،فلاحی عالمگیر تحریک دعوت
اسلامی کا یوم تاسیس ہے، ہمیں بھی چاہئے کہ موقع کا فائدہ اٹھائیں، خوشی منائیں
اور اس تحریک کا ساتھ دیں۔
پاک
و ہند میں ایک وقت وہ تھا کہ مسلمانوں
کو اپنے ایمان کی حفاظت اور عقیدے کی
پہچان کے لئے کسی مضبوط اور منظم پلیٹ
فارم کی ضرورت تھی۔ اگرچہ حفاظتِ دین و ایمان کا کام سرانجام دینے کے لئے کئی
جماعتیں میدانِ عمل میں تھیں لیکن ان کے دائرۂ کار اتنے وسیع نہ تھے کہ وہ ملک و
بیرونِ ملک یا دنیا بھر کے مسلمانوں کو مضبوط پلیٹ فارم مہیا کر سکیں ۔
ایسے
میں اللہ پاک کے
فضل اور نبیٔ کریم ﷺ کی رحمت سے علمائے کرام نے 2 ستمبر 1981ء کو ”دعوتِ
اسلامی “ کی صورت میں ایک پودا لگا کر امیرِ اہلِ سنّت کو اس کی نگہبانی و نگرانی
پر مقرر کر دیا۔ اس خُودار،محنتی،دُھن کے پکے،قول و فعل کے سچے، مہربان و مشفق ”نگہبان“ کا کیا کہنا! مولانا الیاس قادری
صاحب نے دعوتِ اسلامی کے اس ننھے پودے کی
بقا ، نگہداشت ،موسموں کی سردی و گرمی اور مخالف ہواؤں کے تھپیڑوں سے حفاظت کے عمل کو نہ صرف جی جان سے نبھایا بلکہ اس کی ترقی
و بڑھوتری کے لئے اپنا خون پسینہ تک بہانے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔
آج
2ستمبر2020 کی صبح جب نمازِ فجر ادا کرچکاتو دل ودماغ پر کسی خوشگوار یاد نے دستک
دی، فوراً ذہن میں آگیا کہ آج تو
یومِ دعوتِ اسلامی ہے ،میرے ذوق نے تقاضا کیا کہ میں آج سب سے پہلی مبارک باد اس
ہستی کو دوں جس نے آج سے کم وبیش 39 سال پہلے اس ثمربار درخت کا بیج بویا تھا،چنانچہ
میں نے عاشقانِ رسول کی تحریک دعوتِ اسلامی کے بانی ،امیراہلسنّت حضرت علامہ
مولانا محمد الیاس عطار قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ
الْعَالِیَہ کو مبارکباد کا پیغام
بھیجا چند ہی لمحوں میں اس کا رپلائی بھی موصول ہوگیا جس پر دل بہت خوش ہوا۔علاوہ
ازیں میں جانشینِ امیراہلسنّت الحاج مولانا عبید رضا عطاری مدنی مدظلہ العالی
،نگرانِ شوریٰ مولاناحاجی محمد عمران عطاری سلمہ الباری اور دیگر اراکین شوریٰ کو
بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ
وَجَلَّ جب سے دعوتِ اسلامی بنی ہے اس کا قدم ترقی کے راستے پر آگےبڑھا
ہے پیچھے نہیں ہٹا،کراچی کے ایک علاقے سے اپنا سفر شروع کرنے والی دعوتِ اسلامی اولاً
پاکستان میں پھیلی پھر اس نے دنیا بھر میں اپنا پیغام پہنچانا شروع کردیا ،آغاز
میں درس وبیان اور علاقائی دورے وغیرہ سے نیکی کی دعوت عام کرنے والی تحریک کے آج 100
سے زائد شعبے قائم ہوچکے ہیں ۔اس کے طفیل کتنے ہی بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا
مسلمانوں کو توبہ کی سعادت ملی!دعوتِ اسلامی نے بچوں ، مردوں ،عورتوں ،
جوانوں،بوڑھوں سب میں کام کیا !حافظ بنائے، قاری بنائے، عالم بنائے، مفتی بنائے،
مصنف بنائے!اس اُمت کو مدنی چینل جیسا تحفہ دیا ،سوچتا ہوں کہ وابستگانِ دعوتِ
اسلامی کی کیسی کیسی یادیں دعوتِ اسلامی سے وابستہ ہوں گی، ان تمام کو بھی یومِ دعوتِ اسلامی مبارک ہو، ایسے
عاشقانِ رسول کو چاہئے کہ دعوتِ اسلامی سے اپنا تعلق پہلے سے زیادہ مضبوط کرلیں
تاکہ نیکیوں کے راستے پر چلنے میں استقامت نصیب ہو۔اور جنہوں نے ابھی تک صرف دعوتِ
اسلامی کا نام سنا ہے وہ بھی دعوتِ اسلامی سے اپنا رشتہ جوڑ لیں ،اور کچھ نہیں کرسکتے
تو اولاً مدنی چینل دیکھنا شروع کردیں ، قُربت کی باقی منزلیں بھی اسی کے صدقے طے
ہوجائیں گی۔ اللہ پاک
دعوتِ اسلامی اور بانیٔ دعوتِ اسلامی کو نظرِ بدسے بچائے اور مزید عروج عطا فرمائے
۔ آمین
جو ادارے، تحریکیں اور تنظیمیں اپنے افراد
کو تعلیم اور روزگار دونوں فراہم کرتے ہیں ان اداروں، تنظیموں اور تحریکوں کی معاشرے میں پذیرائی بھی ہوتی ہے اور تحسین بھی ۔
”دعوتِ اسلامی“ کے جہاں کثیر محاسن ہیں وہیں ایک خوبی یہ بھی کہ
اس تحریک سے وابستہ افراد کو نہ صرف بہترین تعلیم و تربیت دی جاتی ہے وہیں ان کے لئے
شریعت سے آراستہ بہترین ماحول میں روز گار کے موا قع بھی فراہم کئے جاتے ہیں۔ اس خوبی کی جھلک ملاحظہ فرمائیں:
(1) جو
افراد فارغ التحصیل ہونے کے بعد تعلیمِ
قراٰن اور علم دین کے فروغ میں اپنا کردار
ادا کرنا چاہتے ہیں انہیں مدرسۃ المدینہ ،
مدرسۃ المدینہ آن لائن ، جامعۃ
المدینہ اور جامعۃ المدینہ آن لائن میں تدریسی و انتظامی خدمات سرانجام دینے کا موقع فراہم کیا جا تا ہے ۔
(1) اس جدید دور میں جو لوگ آئی ٹی ڈیپار ٹ میں دین کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے
”دعوت اسلامی“ کا آئی ٹی
ڈیپار ٹ موجود ہے ۔
(3)جو لوگ میڈیا کے ذریعے دین کی خدمت کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے مدنی چینل کی صورت میں ایک بہترین سہولت موجود ہے ۔
(ان شعبہ جات سے وابستہ افراد کو بہترین ماہانہ سیلری کے
ساتھ قابلیت کے اعتبار سے الاؤنسز بھی پیش کئے جاتے ہیں۔)
تو آپ بھی آئیے اور ”دعوتِ اسلامی“ سے
وابستہ ہو جائیے کیونکہ
”دعوت اسلامی“نکھار تی
بھی ہے اور سنوار تی بھی ۔