معلّمِ  اعظم، جنابِ رسولِ اکرم ﷺ کی مبارک سیرت سے معلوم ہونے والے طرقِ تربیت و تفہیم میں سے ایک اہم طریقہ ”سوال و جواب“ کا تذکرہ چل رہا تھا، گزشتہ مضامین میں صحابہ کرام کے سوالات کی 10نوعتیں اور ان پر رسولِ کریم ﷺ کے جوابات اور تربیت و تفہیم فرمانے کا انداز بیان کیا گیا۔ اب ہم یہ بیان کریں گے کہ رسولِ کریم ﷺ کی مبارک سیرت اور انداز سے ایسی کئی صورتوں کا پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ خود ایسا کلام یا عمل بھی فرماتے کہ نتیجۃ سامعین و ناظرین سوال کرتے اور اپنی علمی تشنگی کا اظہار کرتے جس پر رسولِ کریم ﷺ جواباً تربیت و تفہیم فرماتے، آئیے اس کی چند صورتیں ملاحظہ کرتے ہیں:

سامعین کو متجسس کرنے والا کلام فرمانا اور نتیجۃ سوالات ہونا اور آپ کا جواب دینا

کبھی ایسا ہوتا کہ رسول کریم ﷺ لوگوں کو جہنم کے کسی طبقے یا وادی کا ذکر فرماتے یا اس سے پناہ مانگنے کی تاکید فرماتے، اس طرح سامعین میں تجسس پیدا ہوجاتا کہ معلوم تو کریں کہ آخر وہ کونسا گناہ ہے جس کی اتنی سخت سزاہے؟ چنانچہ لوگ آپ کی بارگاہ میں سوال کرتے، سنن ابن ماجہ میں کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:

تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ جُبِّ الحَزَنِ

’’جُبُّ الْحُزْن سے پناہ مانگو۔‘‘

نبی کریم ﷺ کے اس کلام مبارک کو سن کر لوگوں کو تجسس ہوا کہ آخر یہ کیا چیز ہے؟ چنانچہ اس کلام کے نتیجے میں سوال کیا گیا: یارسول اللہ! وَمَا جُبُّ الحَزَنِ؟ جُبُّ الْحُزْن کیا ہے؟

قارئین کرام سامعین کے ذہن میں کسی بات کو بہت مستقم کرنے کا یا ایک انداز ہوتا ہے جو رسولِ معلم ﷺ نے اپنایا، لوگ جب آپ ﷺ کے فرمان پر متجسس و متوجہ ہوئے اور سوال کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:

وَادٍ فِي جَهَنَّمَ تَتَعَوَّذُ مِنْهُ جَهَنَّمُ كُلَّ يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ

یہ جہنم کی ایک وادی ہے جس سے خود جہنم بھی دن میں چار سو مرتبہ پناہ مانگتا ہے۔

اس پر لوگوں نے مزید عرض کیا:یارسول اللہ!

وَمَنْ يَدْخُلُهُ؟ اس میں کون داخل ہوگا؟

ارشاد فرمایا:

الْقَرَّاءُونَ الْمُرَاءُونَ بِأَعْمَالِهِمْ

اس میں ان قراء (اہل علم) کو ڈالا جائے گا جو اپنے اعمال کی ریاکاری کرتے ہوں گے۔ (ابن ماجہ،کتاب السنۃ، باب الانتفاع بالعلم والعمل بہ،1/166، حدیث:255)

رسولِ کریم ﷺ نے ایک موقع پر نماز کی درست ادائیگی کی اہمیت دلانے کے لئے ارشاد فرمایا:

إِنَّ أَسْوَأَ النَّاسِ سَرِقَةً، الَّذِي يَسْرِقُ صَلَاتَهُ

سب سے بدتر چور وہ ہے جو اپنی نماز ميں چوری کرتا ہے؟

اب یہ ایک ایسی بات تھی کہ جس پر ہر کسی کی توجہ اٹھتی ہے، کیونکہ ہر وہ مسلمان جو نما ز ادا کرتاہے تو یقینا وہ جاننا چاہے گا کہ آخر نماز کی چوری کیا ہے؟ چنانچہ اس کلام کے نتیجے میں لوگوں نے عرض کیا: یارسول اللہ!

وَكَيْفَ يَسْرِقُهَا؟

کوئی شخص اپنی نماز ميں کس طرح چوری کرسکتا ہے؟

پیارے مصطفےٰ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَا يُتِمُّ رُكُوعَهَا وَلَا سُجُودَهَا

وہ اس کے رکوع و سجود پورے نہيں کرتا۔(مسند احمد، مسند ابی سعید الخدری، جلد18، صفحہ90، حدیث:11532)

قارئین کرام غور کیجئے کہ رسولِ کریم ﷺ نے کس قدر مختصر اور بہت متوجہ کردینے والا کلام فرمایا کہ لوگوں کو تجسس ہوا اور پھر سوال کرکے ایسا جواب پایا جو کائنات میں آنے والے آخری مسلمان تک کے لئے نصیحت رہے گا۔

کسی عمل کو مقربین کے عمل سے تشبیہ دینا اور پھر سوال پر سمجھانا

حضوراکرم ﷺ کا ایک اندازِ تربیت یہ بھی تھا کہ کسی عمل کمی دیکھ کر اس کی درستی اور فائدہ سمجھانے کے لئے مقربین کا ذکر فرماتے، جب لوگ اس پر حصولِ توضیح کے لئے سوال عرض کرتے تو تربیت فرماتےجیسا کہ

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟

تم لوگ ایسے صفیں کیوں نہیں بناتے جیسے فرشتے ربّ العزّت کی بارگاہ میں بناتے ہیں؟

قارئین کرام غور کیجئے کہ کیسابات کو دل کے اندر اتار دینے والا اندازِ تفہیم ہے، ایسے الفاظ ارشاد فرمائے کہ ہر بندہ مؤمن بارگاہِ الٰہی میں کھڑے ہونے کے انداز کے بارے میں جاننے کے لئے تڑپ اٹھے ، چنانچہ ایسا ہی ہوااور صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا:یارسول اللہ!

وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟

فرشتے اپنے ربِّ کریم کی بارگاہ میں کیسے صفیں بناتے ہیں؟

ارشاد فرمایا:

يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ

وہ اگلی صفیں پوری کرتے ہیں اور صف میں مِل کر کھڑے ہوتے ہیں۔ (صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ ، باب الامر بالسکون فی الصلاۃ۔۔الخ، صفحہ181، حدیث:968{430})


     سفیرِ عشق و محبت امیرِ اہلِ سنت محمد الیاس عطار قادری

تحریر:محمد عمر فیاض عطاری مدنی

اسلامک ریسرچ سینٹر ”دعوتِ اسلامی“

نسلِ انسانی کی طویل تاریخ اپنے سینے میں متعدد ایسی شخصیات کو محفوظ کئے ہوئے ہے جن کے وجود سے عالم ِ انسانیت کو فلاح کی توفیق حاصل ہوئی۔چرخِ اسلام پر ائمہ کرام،مفسرین، محدثین، فقہا اور صوفیا کی ایک کہکشاں منور ہے۔ ہر وجود محترم اور لائقِ تعظیم ہے۔ پندرہوں صدی ہجری سرزمینِ بر صغیر پر ایسا ہی ایک وجود علم و عمل کی روشنیاں بکھیرتے دیکھ رہی ہے۔میری مراد اِس صدی ہجری کی وہ پاک طینت و پاک سیرت شخصیت ہیں جنہیں دنیا شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے نام سے جانتی و پہچانتی ہے۔

آپ جماعتِ اہلِ سنّت کے ممتاز ترین صاحبِ علم و بصیرت اور باقیاتِ صالحات میں سے ایک ہیں۔شیخِ کامل سنتوں کے عامل قبلہ امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ  زوال پذیر معاشرے اور انحطاط کی طرف اترتی ہوئی امّتِ مسلمہ کی طرف بیداری کا پیغام بن کر آئے۔ نظریات کا فساد،اعمال کا بگاڑ اور سیرت و کردار کا زوال روح فرسا تھا ،بے یقینی اور بے عملی کا زہر سارے معاشرے کو متعفن کررہا تھا۔اللہ پاک کا کرم ہوا،مصطفیٰ کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی رحمت ہوئی کہ خطہ پاکستان پر اس محسنِ ملّت کا ظہور ہوا۔

مختصر تعارف:آپ کا نام محمد الیاس،والد کا نام حاجی عبدالرحمن قادری،کنیت ابو بلال،تخلص عطار اور مشہور القابات شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنت اور بانیِ دعوتِ اسلامی ہیں جبکہ اہلِ محبت آپ کو باپا کہہ کر بھی بلاتے ہیں۔ آپ کی پیدائش 26 رمضان المبارک 1369 ہجری بمطابق 1950ء میں پاکستان کے مشہور شہر کراچی میں ہوئی۔آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ دورِ شباب ہی میں علومِ دینیہ کے زیور سے آراستہ ہوچکے تھے۔ آپ نے حصولِ علم کے ذرائع میں سے کتب بینی اورصحبت علما کو اختیار کیا ۔اس سلسلے میں آپ نے سب سے زیادہ استفادہ مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی وقارالدین قادِری رَضَوی رحمۃ اللہ علیہ سے کیا اور مسلسل  22 سال ان کی صحبت بابرکت سے مستفیض ہوتے رہے حتی کہ انہوں نے قبلہ امیرِاَہلِ سنّت کو اپنی خلافت واجازت سے بھی نوازا۔

علمی حیثیت:آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ذکاوتِ طبع، قوتِ اتقان اور وسعتِ مطالعہ میں اپنی مثال آپ ہیں۔ کثرتِ مطالعہ، بحث وتمحیص اوراَکابر علمائےکرام سے تحقیق وتدقیق کی وجہ سے آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ مسائلِ شرعیہ اورتصوّف واخلاق پر یدِ طولیٰ رکھتے ہیں، کئی سالوں سے مسلسل”مدنی مذاکرہ“ نامی ہفتہ وار ایسی علمی نشست قائم فرماتے ہیں جس میں شرکت کرنے والے ہر خاص و عام کو شرعی، طبی، تاریخی اور تنظیمی معلومات کا خزانہ ہاتھ آتا ہے۔

تحریری خدمات:آپ ایک اچھے انشاپرداز اور صاحبِ اسلوب،کہنہ مشق ادیب اور قابلِ اعتماد قلم کار ہیں۔آپ کی نثری خدمات متعدد کتب و رسائل پر مشتمل ہیں جن میں اصلاحی موضوعات اور دینِ اسلام کے بنیادی مسائل کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ آپ کی تحریر کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں سلاست و روانی ، ایجاز و اختصار اور روحانی تاثیر پائی جاتی ہے۔ آپ کی تحریریں اردو ادب کا وہ قیمتی خزانہ ہیں جن میں بیان کے جوش و زور اور شوکت وجلالت کے نگار خانے آراستہ ہیں۔

شاعری:اللہ پاک نے آپ کو وہ زورِ قلم عطا فرمایا ہے کہ جہاں آپ کے نثری شہہ پارے ادبی حیثیت کے حامل ہیں وہیں آپ کی شاعری بھی آپ کی قادرالکلامی پر شاہد و عادل ہے۔حمد ہو یا نعت، منقبت ہو یا صلاۃُ سلام،مثنویات ہوں یا شادی کا سہرہ، استغاثات ہوں، مناجات ہوں یا رمضان کےالوداعی کلام ! ہر موضوع پر آپ نے قلم اٹھایا اور بہترین اشعار لکھے۔ آپ کی لکھی نعتیں ”پکارو یا رسول اللہ اور نور والا آیا ہے“ بچے بچے کو زبانی یاد ہوتی ہیں۔ہر جمعہ کو بیشتر مساجد کے اسپیکر آپ کے لکھے ہوئے صلاۃ و سلام ”تاجدارِ حرم اے شہنشاہِ دیں تم پہ ہر دم کروڑوں درود و سلام“ اور ”زائر طیبہ روضے پہ جاکر تو سلام میرا رو رو کہ کہنا“ کی صداؤں سے گونج رہے ہوتے ہیں۔ رمضان کا الوداعی جمعہ کیا آتا ہے گویا ہر مسجد سے آپ کے لکھےہوئے کلام ”قلبِ عاشق ہے اب پارہ پارہ الوداع الوداع ماہ ِرمضاں“ کی آوازیں آرہی ہوتی ہیں۔آپ کا نعتیہ دیوان ”وسائلِ بخشش“ متعدد بار شائع ہوچکا ہے۔

اوصافِ حمیدہ:اللہ نے آپ کو اپنے اسلاف کا پَرتَو بنایا ہے۔ محبتِ الٰہی، عشقِ رسول،الفتِ صحابہ،علما سے پیار،مدینے سے عقیدت، سنّت سے محبت اور ان کا احیاء، آخرت کی فکر، امّت کا درد، تبلیغِ قراٰن و سنّت اور اصلاحِ امّت کا جذبہ، نیکیوں کی حرص، عاجزی و انکساری، صبر و استقلال، عفو و درگزر، زہدوتقویٰ، اخلاص، حسنِ اخلاق،جود وسخا، دنیاسے بے رغبتی اور خیر خواہیِ مسلمین آپ کے وہ اوصافِ حمیدہ ہیں جو آپ کی طبیعت میں گویا رَچ بس چکے ہیں۔

شادی کے پُرمسرت موقع پر بہت سے لوگ غیر شرعی معاملات میں پڑ جاتے ہیں حتیٰ کہ بعض دینی سوجھ بوجھ رکھنے والوں کو یہ سوچ کہ ”زمانہ کیا کہے گا،شادی ایک بار ہی تو ہوتی ہے“ غفلت میں مبتلا کردیتی ہےلیکن سنیئے اس ولیِ کامل کی شادی کے بارے میں: آپ فرماتے ہیں میں نے اپنی شادی کا کارڈ سب سے پہلے مدینے میں رہنے والے ایک صاحب کے ذریعے بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں بھجوایا اور وقتِ نکاح یہ سوچ کر مجھ پر عجیب کیفیت طاری تھی کہ میں نے بارگاہِ رسالت میں دعوت عرض کی ہے،اب دیکھئے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کب کرم فرماتے اور تشریف لاتے ہیں۔ اللہ اکبر کبیرا کیا شان ہے اس مردِ قلندر کی،سبحان اللہ۔

حق گوئی: ہر دور میں باطل نے حق کو زیر کرکے اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کی مگر حق اور اہل حق باطل اور اہلِ باطل کے مقابل سینہ سپر رہے اورہردور میں حق غالب رہا جبکہ باطل کو منہ کی کھانا پڑی۔اس دو ر میں بھی موقع بموقع کئی بار باطل نے سر اٹھایا اور عَلمِ اسلام کو پست کرنے کی کوششیں کیں مگر امیرِ اہلِ سنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے عَلمِ حق کبھی سرنگوں نہ ہونے دیا اور اپنے شب و روز کو اہلِ سنّت کی ترویج و اشاعت اور فاضلِ بریلوی امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے مشن کو فروغ دینے کے لئے وقف کرتے ہوئے عشق و مستی کا پیغام اس جرأت وقوت سے دیا کہ بدعقیدگی کے ایوانوں پر لرزہ طاری ہوگیا۔ جب اسلام دشمن قوتوں نے بے مثل مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گستاخانہ خاکے بنائے تب اس مردِ مجاہد نے دنیا بھر میں فیضانِ جمالِ مصطفیٰ کے نام سے مساجد بنانے کا اعلان کرکے ایسا انوکھا کارنامہ انجام دیا کہ دشمن دانت پیستا رہ گیا ، الحمد للہ دنیا بھر میں فیضانِ جمالِ مصطفیٰ کے نام سے کئی مساجد قائم کردی گئیں جہاں بندگانِ خداوند اپنے رب کے حضور سجدہ ریزی کرتے ہیں۔

سنی وہی ہوتا ہے جس کے ایک ہاتھ میں اہلِ بیتِ اطہار اور دوسرے ہاتھ میں صحابۂ کرام کا دامن ہو۔ اہلِ بیتِ اطہار نجات کی کشتی اور صحابۂ کرام آسمان ہدایت کے روشن ستارے ہیں۔ سنی اہلِ بیت کی کشتی میں سوار ہوکر نجومِ رسالت کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ایمان کو سلامت رکھتا ہے۔امیر اہلِ سنت میں بھی اہلِ بیتِ اطہار اور صحابۂ کرام کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے جس کی واضح مثال یہ کہ آپ نے21 رمضان المبارک کو یومِ شہادت سیدنا مولا علیٰ المرتضیٰ شیرِ خدا کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم کے موقع پر مولیٰ علی کے نام پر 2121 مساجد بنانے کا اعلان کیا،حُب علی کا اظہار کرتے ہوئے براہِ راست مدنی مذاکرے میں آپ کا کہنا تھا کہ اگر تم میرے جسم کی بوٹی بوٹی کردو تو وہ بھی کہے گی ”یاعلی ،یاعلی، یاعلی!“۔ یوم شہادتِ سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا آیا تو آپ نے بڑی شان و شوکت سے جلوسِ بیادِ فاطمہ رضی اللہ عنہا نکالا لیکن جب بعض لوگوں نے اصحابِ ذی وقار بالخصوص حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی عدالت کو تقیہ اور کتمان کی چادر کی اوٹ میں نشانہ بنانا شروع کیا تو اس مردِ مجاہد نے بھی چپ کی چادر اوڑھنا مناسب نہ سمجھا اور فیضانِ امیرِ معاویہ کے نام سے 22سو مساجد بنانے کا اعلان کردیا جس پر سینکڑوں احباب نے مساجد بنانے کی نہ صرف نیت کی بلکہ تعمیراتی کام کا آغاز بھی کردیا، اس اعلان سے بھی باطل کے ایوانوں میں سناٹا چھاگیا۔الغرض ہر موڑ پر استقامت علیٰ الحق کا مظاہرہ کرتے ہوئے عشق و محبت کے اس سفیر نے منہجِ اہلِ سنّت کے داعی ہونے کا مکمل ثبوت دیا اور احقاقِ حق کا حق ادا کردیا۔

آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ تنہا چلے تھے لیکن قوتِ عشق نے بہت جلد راستے ہموار کرلئے ،محبت کے زمزے پھوٹنے لگے، لوگوں کے دلوں میں عشقِ رسول کی قندیلیں روشن ہوتی گئیں اور ایک انقلاب برپا ہوگیا۔آج گلشنِ عطار ہرا بھرا نظر آتا ہے۔عرب ہو یا ایشیاء،افریقہ ہو یا امریکہ ،یورپ ہو یا آسٹریلیا جس سمت جائیے ہر سو عطار کا فیضان  نگاہوں کی راحت کا سامان بنتا ہے۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے:

دنیا بھر میں فضلِ رب سے چرچے ہیں عطار کے

بڑے بڑے گن گاتے ہیں ان کے ستھرے کردار کے

نوٹ:رمضان المبارک کی 26 ویں تاریخ کو امیر اہلِ سنت کا یومِ پیدائش ہے،اس عظیم ہستی کے لئے دعائے عافیت و صحت کرنا مت بھولئے گا۔

اللہ پاک پیاری دعوتِ اسلامی اور اس تحریک کے بانی، سیدی و مرشدی و سندی شیخِ طریقت قبلہ امیرِ اَہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کو حاسدین کے حسد،شریروں کی شرارت،بروں کی برائی اوربد نظروں کی بد نظری سے بچائے اور آپ کا سایہ ہمارے سروں پر دراز فرمائے ۔اٰمین بجاہِ طہٰ و یٰسین 


الوداع ماہِ رمضان

Thu, 6 May , 2021
2 years ago

الوداع ماہِ رمضان

از: محمد کاشف سلیم عطاری مدنی

رائٹراسلامک ریسرچ سینٹردعوتِ اسلامی( المدینۃ العلمیہ )

رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو الوداعی خطبہ پڑھا جاتا ہے جو اسلامی نقطۂ نظر سے نہ صرف جائز بلکہ اچھا کام ہے لہذا اگر کوئی ضروری نہ سمجھتے ہوئے اسےپڑھتا ہے تو اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس کی بدولت لوگو ں کو خاص رقت والی کیفیت حاصل ہوتی ہے اور لوگ روتے آنسو بہاتے ہیں اور ان میں بڑی تعداد اپنےگنا ہوں پر نادم ہوکر توبہ کرتی ہے ۔

اگرچہ اس خطبہ کا ثبوت نبی پاکصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اور صحابہ وتابعین رضوانُ اللہ علیہم اجمعین کے مقدس دور سے نہیں ملتا پھر بھی شریعت کی نظر میں یہ ایک اچھا کام ہے کیونکہ یہ عمل شریعت کے کسی قانون کے خلاف نہیں نیز اس کے اغراض ومقاصد میں لوگوں کی اصلاح کا عظیم مقصد بھی موجود ہے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے: مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْءٌ ([1]) یعنی جس شخص نےاسلام میں کوئی نیک طریقہ جاری کیا پھر بعد میں اس طریقے کو اپنایا گیاتو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس نیک کام جاری کرنے والےکے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔

الوداعی اشعار کے جائز ونیک عمل ہونے پر چنددلائل

(1) جب کسی چیز کے کرنے یااس سے رکنے کے بارے میں کوئی دلیل نہ ہو تو علماء وفقہائے کرام کی بہت بڑی تعداد کا نظریہ یہ ہے کہ ایسی چیز جائز ہوتی ہے۔([2])

(2)اللہ پاک کا فرمان ہے: ترجمۂ کنز الایمان: اور بھلے کام کرو اس اُمید پر کہ تمہیں چھٹکارا ہو۔17،الحج:77) تو یہ اشعار پڑھنا بھی یقیناً بھلائی اور نیکی کا کام ہے کیونکہ ان کو پڑھ کر اور سن کر ایک خاص رقت حاصل ہوتی ہے اور دل نرم پڑتا ہے جس کے نتیجے میں انسان گناہوں سے توبہ کرتا اور نیکیوں کی طرف بڑھتا ہے جوکہ نیک کام ہے۔

(3)یہ اشعار عموماًوعظ ونصیحت پر بھی مشتمل ہوتےہیں اور وعظ ونصیحت کا حکم تو خود قرآنِ پاک میں موجود ہے چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:ترجَمۂ کنز الایمان : تو تم نصیحت فرماؤ اگر نصیحت کام دے ۔30،الاعلی :9)

(4) بے شک یہ مقدس مہینا اللہ پاک کی نشانیوں میں سے ہے۔ ([3]) اور اللہ پاک کی نشانیوں کی تعظیم اور ان کا احترام دل کی پرہیزگاری کی دلیل ہے جیساکہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوا:ترجَمۂ کنز الایمان: اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے۔ 17، الحج:32) اور الوداع کے ذریعے رمضان المبارک کی تعظیم اور احترام دلوں میں بڑھتا ہے ۔

(۵) نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے شعبان المعظم کے آخر میں استقبالِ رمضان کا خطبہ پڑھنا ، اس کی آمد کی خوشخبری دینا اور اس کی عظمت بیان فرمانا ثابت ہے([4]) اور جب یہ سب نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ثابت ہے تو اس کے جانے پر حسرت وافسوس کرنا اور الوداعی اشعار کے منع ہونے کی کوئی دلیل نہیں، اسی طرح آمدِ رمضان اور رخصتِ رمضان دونوں چیزیں ایک دوسرے کی ضد(opposite) ہیں تو جس طرح اس کے آنے پر خوش ہونا اور اس کا استقبال کرنا شریعت کو پسند ہے اسی طرح اس کے جانے پر حسرت وندامت ظاہر کرنا بھی شریعتِ مطہرہ کو پسند ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے استقبالِ رمضان کے مبارک عمل نے گویا الوداع کے جائز ہونے کی طرف رہنمائی فرمادی۔

(۶) علمائے اہلسنّت کی بڑی تعدادکا رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو الوداع پڑھنا اس کے جائز ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ روایتوں میں ہے: مَا رَأَى الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللهِ حَسَنٌ ([5]) جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ پاک کے یہاں بھی اچھا ہے ۔

کئی سو برس پہلے کے جیدعلمائے کرام رحمہم اللہ سے الوداعی خطبہ کا ثبوت

(7) علامہ ابوالفرج عبد الرحمن ابن جوزی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات597ھ) نے ’’وداعِ رمضان‘‘ کے نام سے پورا رسالہ(Booklet) تحریر فرمایا ہے ۔

(8) علامہ حافظ ابن رجب حنبلی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات795ھ)نے اپنی کتاب ’’لطائف المعارف‘‘([6]) میں پورا ایک باب(Chapter) ’’وداعِ رمضان ‘‘کے نام سےقائم فرمایا ہے۔

(9) علامہ ابن حجر مکی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات974ھ)نے"اَلنُّخَبُ الْجَلِیْلةُ فِی الْخُطَبِ الْجَزِیْلَة"([7]) نام سے ایک کتاب لکھی جس میں رمضان المبارک کو ان الفاظ سے الوداع فرمایا ہے:: اے روزوں، تراویح، نوافل اور روشنیوں کے مہینے تجھ پر سلام ہو، ہم تجھے الوداع کہتے ہیں۔

الوداعی خطبہ سے متعلق بعض وسوسے اور ان کے جوابات

پہلا وسوسہ

وداعِ رمضان پر مشتمل خطبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ، صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم، تابعین اور تبع تابعین رحمۃُ اللہِ علیہم کسی سے ثابت نہیں لہٰذا یہ بدعت وگمراہی ہے۔

جواب

اگر اس دلیل کو درست مانا جائے تو وداعِ رمضان کے خطبہ کے علاوہ دیگر خطبوں پر جو بڑے بڑے علمائے کرام نے کتابیں لکھیں اور خطباءِ کرام اپنےخطبوں میں جو اضافے کرتے ہیں وہ سب بھی ان مقدس ہستیوں سے ثابت نہیں حالانکہ وہ رائج ہیں([8])اورنہ کوئی ان پر اعتراض کرتا ہے تو پھر صرف الوداعی خطبہ پر ہی اعتراض کیوں!

جمعۃ المبارک اور دیگر خطبوں سے اصل مقصد لوگوں کو اللہ پاک کے انعامات یاددلانا، اس کے عذاب سے ڈرانا ، شریعت کے احکامات بتانا اور لوگوں کو وعظ ونصیحت کرنا ہے تو جس خطبہ میں بھی یہ چیزیں ہونگی تو خطبہ کااصل مقصد حاصل ہوجائے گا چاہے اس خطبہ کے الفاظ اور معنی نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ، صحابۂ کرام،تابعین اورتبع تابعین رضی اللہُ عنہم سے ثابت ہوں یا نئے بنائے گئے ہوں ، لہٰذا ہر وہ خطبہ جوشرعی مقاصد پر پورا اترتا ہو وہ جائز ہے اور الوداعی خطبہ بھی اس میں شامل ہے۔

دوسرا وسوسہ

رمضان المبارک کے جانے پر حسرت وافسوس کا اظہار کرنا غیر شرعی کام ہے کیونکہ روزہ افطار کرنا خوشی اور مسرت کا ایک سبب ہے جیساکہ حدیث پاک میں بھی ہے۔([9])

جواب

حدیثِ پاک میں افطار کے وقت جس فرحت وخوشی کا ذکر ہے اس سے مراد انسانی عادت ہے کہ اس کی طبیعت کوخوشی ہوتی ہے ، شرعی فرحت مراد نہیں کیونکہ نیک لوگوں کو تو روزے اور دیگر عبادتوں کی بجاآوری میں فرحت حاصل ہوتی ہے اور ان بابرکت دنوں کے گزرنے پر انہیں دکھ اور ملال ہوتا ہے۔

تیسرا وسوسہ

پانچوں ارکانِ اسلام برابر ہیں پھر صرف رمضان المبارک کے ہی گزرنے پر افسوس کیا جاتا ہے دیگر پر نہیں؟

جواب

زکوٰۃ کی ادائیگی کا شریعتِ مطہرہ کی طرف سے کوئی وقت خاص نہیں اور نہ ہی تمام لوگوں کو ایک ساتھ ادائیگی کا شریعت نے پابند کیا ہے لہٰذا اس پر حسرت وافسوس نہیں کیا جاسکتاجبکہ رمضان المبارک کا مہینا سب مسلمانوں کیلئے ایک ہی ہے، اس ماہِ مبارک کی بے شمار برکتیں ہیں تو اس کا ہر گزرتا، دن افسوس وحسرت کا باعث ہے، کیا عجب اگلا رمضان نصیب ہو یا نہ ہواورجہاں تک نماز کی بات ہے تو ہر نماز کا وقت مقرر ہے نیزنماز کے پورے وقت میں عام مغفرت کی بشارت رمضان المبارک جیسی نہیں ہے اوراس بات میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں کہ حج کے ایام بہت برکت والے ہیں لیکن افعالِ حج کی ادائیگی صرف حاجیوں پر لازم ہے دیگر لوگوں پر نہیں جبکہ روزہ ایسی عبادت ہے جو سب مسلمانوں پریکساں فرض ہے۔

چوتھا وسوسہ

خطبۃ الوداع کی حدیث من گھڑت ہے اورمن گھڑت حدیث پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔

جواب

جس خطبۃ الوداع کو علمائے کرام نے من گھڑت قراردیا ہے ([10]) اس سے مراد وہ خطبہ ہے جسے نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی وفات ظاہری سے کچھ پہلے منبر پر فرمانے اور اسکے بعد کوئی خطبہ ارشاد نہ فرمانے کا دعوی کیا گیا ہے اور اسے ’’خطبۃ الوداع‘‘ کا نام دیا گیاہے ، ایک جیسے نام کی وجہ سے رمضان المبارک کے الوداعی خطبہ پر اُس من گھڑت خطبہ کا حکم لگانا کسی طرح بھی درست نہیں ،مختصر یہ کہ الوداعی خطبہ جائز ہے البتہ اگر علمائے کرام یہ محسوس کریں کہ عوام اسے فرض وواجب سمجھنے لگے ہیں تو عوام کی غلط فہمی دور کرنے کیلئےکبھی کبھار اس کو ترک بھی کردیں ۔

خطبۃ الوداع نوحہ نہیں ہے

پانچواں وسوسہ

خطبۃ الوداع کے الفاظ کے نتیجے میں لوگوں کا رونا نوحہ ہے او ر نوحہ کی ممانعت صحیح حدیثوں سے ثابت ہے۔

جواب

’’نوحہ‘‘ کا معنی لغت کی کتابوں میں ’’رونے‘‘ کے ملتے ہیں اب چاہے وہ رونا آواز کے ساتھ ہو یا بغیر آواز کے ۔

شریعت کی رو سے نوحہ یعنی میّت کے اوصاف بڑھاچڑھاکر بیان کر نا اور آواز سے رونا جس کو ’’بَین‘‘ کہتے ہیں یہ حرام ہے اور حدیثوں میں اسی طرح کے رونے سے ممانعت ہے اسی وجہ سے ترمذی شریف کی روایت میں ’’صَوْت عِنْدَ مُصِیْبَة‘‘ کے الفاظ ہیں جس سے مراد کسی شخص کے انتقال پربلند آواز سے رونا ہے۔

اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنے شہزادے حضرت ابراہیم رضی اللہُ عنہ کی وفات پر روئے تو آپ کے صحابی حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہُ عنہ نے دلی خدشے کا اظہار کرتے ہوئے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کیا آپ نے ہمیں رونے سے منع نہیں فرمایا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے دو آوازوں سے منع کیا تھا : (1) مصیبت کے وقت آواز نکال کر منہ نوچنے اور گریبان پھاڑنے سے (2) مزمار سے۔صحابیِ رسول رضی اللہُ عنہ نے صرف رونے کو نوحہ سمجھا مگر نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے واضح فرمادیا کہ میت پر صرف رونا نوحہ نہیں بلکہ آواز کے ساتھ رونا اور منہ نوچنا،گریبان پھاڑنا ’’نوحہ‘‘ ہے۔([11])

الوداعی خطبہ اور الوداعی اشعار پڑھنے والوں میں سے کوئی بھی عموماً نوحہ والی حالت نہیں اپناتا بلکہ الوداعی الفاظ کہتے ہوئے صرف آنسو بہاتے ہیں اور یہ منع نہیں، نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے شہزادے کے وصال پر جو الفاظ ارشاد فرمائے تھے اس میں ’’فراق‘‘ کا لفظ موجود ہے نیز روایتوں سے آنسو مبارک بہانا بھی ثابت ہے۔نیز الفراق اور الوداع کے الفاظ استعمال کرنے کو بے صبری بھی نہیں کہا جاسکتا بلکہ چیخنا چلانا، بال نوچنا، سینہ پیٹنا گریبان پھاڑنا یہ چیزیں بے صبری اور نوحہ ہیں جن کے بارے میں انبیائے کرام کے سردار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو گریبان پھاڑے، منہ پیٹے اور جاہلیت کا پکارنا پکارے (یعنی نوحہ کرے) وہ ہم میں سے نہیں۔([12]) الوداع میں ان سے کوئی بھی کام نہیں ہوتا۔

حاصل یہ ہے کہ ماہِ رمضان المبارک کووداع کرنا شرعی طور پر نہ صرف جائز بلکہ اچھی نیتوں کے ساتھ باعثِ اجر وثواب ہے البتہ اس میں شرعی حدود وقیود کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔ اللہ پاک ہمیں رمضان المبارک کا حقیقی عاشق اور قدردان بنائے نیز مسلمانوں کو تشویش میں ڈالنے کیلئے اس مبارک عمل پر بلا وجہ بے جا اعتراضات کرنے والوں کو بھی ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین



[1]… "مسلم"، کتاب العلم، باب من سن سنۃ حسنۃ او سیئۃ… الخ، ص1102، حدیث: 6800۔

[2]… "ردالمحتار"،کتاب الطہارۃ،مطلب:المختار أنّ الاصل فی الاشیاء الاباحۃ،1/234۔

[3]… "شرح النووی علی مسلم"،کتاب الایمان، باب کل مؤمن مسلم… الخ ،الجزءالاول،1/148۔

[4]… "شعب الایمان"،باب فی الصیام ،فضائل شہر رمضان،3/305،حدیث:3608۔

[5]… "مسند احمد" ،مسند عبد اللہ بن مسعود ،2/16، حدیث:3600۔

[6]… "لطائف المعارف"، ص249-237۔

[7]… "النخب الجلیلۃ فی الخطب الجزیلۃ "، الخطبۃ الرابعۃ  لوداع شہر رمضان ، ص127۔

[8]… اس کی ایک مثال حضرت علامہ ابن حجر رحمۃُ اللہِ علیہ کی کتاب"اَلنُّخَبُ الْجَلِیْلةُ فِی الْخُطَبِ الْجَزِیْلَة" ہے جس میں آپ نے ہر اسلامی مہینے کےہر جمعہ کے الگ الگ خطبے تحریر فرمائے جو یقیناً آپ کے اضافے ہیں۔

[9]… "مسلم"،کتاب الصیام،باب فضل الصیام،ص447،حدیث:2706۔

[10]… "اللآلی المصنوعۃ" ،کتاب المواعظ والوصایا،2/311۔

[11]…"شرح معانی الآثار" ،کتاب الکراہیۃ،باب البکاء علی المیت ،4/108-107۔

[12]… "بخاری "،کتاب الجنائز، باب لیس منا من ضرب الخدود ، 1/ 439 ،حدیث:1297۔


(9)بعض اعمال کے  بارے میں تقابلاً ہونے والے سوالات کے جواب دینا

صحابہ کرام کے سوالات کا ایک انداز یہ بھی تھا کہ وہ بعض اعمال کے بارے میں تقابلاً سوال کرتے، یہ تقابل کبھی عمل کے اچھے برے ہونے کے حوالے سے ہوتا تو کبھی نیت کے اچھے یا برے ہونے کے حوالے سے ہوتا، بعض مرتبہ بہتر اور بہترین کے اعتبار سے تقابل ہوتا اور کبھی نتیجہ کے اعتبار سے تقابل ہوتا۔

ایک عمل میں نیت کے اچھے یا برے ہونے کے اعتبار سے تقابلاً سوال کرتے ہوئے حضرت سيّدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی:یارسول اللہ! مجھے جہاد اور جنگ کے بارے میں ارشاد فرمائیے(یعنی ان میں کیا فرق ہے؟ )

رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اے عبداللہ بن عمرو! اگر تم صبر کرتے ہوئے اور ثواب پانے کے لئے لڑو تو اللہ تعالیٰ تمہیں صابر اور ثواب والا اٹھائے گا اور اگر تم دکھلاوے اور مال كی کثرت کے لئے لڑو تو اللہ بھی تمہیں ریاکار اور دنيا كا طلبگار اٹھائے گا۔ اے عبداللہ بن عمرو! تم جس حال میں لڑو گے یا مرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اسی حالت میں اٹھائے گا۔(سنن ابی داؤد،کتاب الجہاد، باب من قاتل لتکون کلمۃ اللہ ھی العلیا،جلد3، صفحہ 21،حدیث:2519)

ایک موقع پر صدیقۂ کائنات، مفتیہ اسلام بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جنت میں جانے والوں کے بارے میں تقابلاً سوال :

يا رسول الله أي أهل الجنة أكثر وأيهم أقل

یارسول اللہ! اہل جنت میں کثرت کن کی ہوگی اور قلیل کون ہوں گے؟

رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: أكثرهم المساكين وأقلهم الأغنياء والنساء،

جنت میں اکثریت مساکین کی ہوگی جبکہ قلت اہلِ ثروت اور عورتوں کی ہوگی۔(کنزالعمال، کتاب الزکوۃ، الباب الثالث، الفصل الاول،الجزء6، جلد3، صفحہ207، حدیث:16659)

اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک موقع پر پڑوسیوں کے بارے میں بھی تقابلاً سوال کیا چنانچہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی:

يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي جَارَيْنِ فَإِلَى أَيِّهِمَا أُهْدِي؟

يارسول الله ! ميرے دو ہمسائے ہیں میں ان میں سے کس کی طرف ہدیہ بھیجوں؟

پیارے مصطفےٰ ﷺ نے ایسا جامع جواب دیا کہ حقوق پڑوس میں وہ ہمیشہ کے لئے اصول بن گیا، آپ نے فرمایا:

إِلَى أَقْرَبِهِمَا مِنْكِ بَابًا

اس کی طرف(ہدیہ بھیجو) جس کا دروازہ تمہارے دروازے سے قریب ہے۔(صحیح بخاری، کتاب الشفعۃ، باب ای الجوار اقرب، جلد2، صفحہ62،حدیث:2259)

اسی طرح حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں دوافراد میں سے کون سلام میں پہل کرے کے بارے میں تقابلاً سوال کا تذکرہ ہے چنانچہ فرماتے ہیں:

رسول کریم ﷺ کی بارگاہ میں سوال کیا گیا:

يَا رَسُولَ اللَّهِ! الرَّجُلَانِ يَلْتَقِيَانِ أَيُّهُمَا يَبْدَأُ بِالسَّلَامِ

يارسول الله! جب وه شخص ملیں تو ان میں سے سلام میں پہل کون کرے؟

پیارے مصطفےٰ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أَوْلَاهُمَا بِاللَّهِ

جو ان میں سے اللہ کے زیادہ نزدیک ہو(یعنی سلام میں پہل کرنے والے اللہ کریم کے زیادہ نزدیک ہے)۔(سنن ترمذی، ابواب الاستئذان، باب ماجاء فی فضل الذی یبدء بالسلام، جلد4،صفحہ319، حدیث:2703)

قارئین کرام غور کیجئے کہ مصطفےٰ کریم ﷺ نے کیسے پیارے انداز میں سوال کا جواب بھی ارشاد فرمادیا اور سلام میں پہل کرنے والے کی فضیلت بھی ارشاد فرمادی۔

(10)عقائد کی توضیح اور مابعد آنے والوں کی تعلیم پر مشتمل سوال کرنا اور رسولِ کریم ﷺ کا سمجھانا

اگر ذخیرہ حدیث پر توجہ کی جائے تو واضح ہوتاہے کہ تعلیماتِ اسلامیہ کا ایک کثیر حصہ صحابہ کرام علیہم الرضوان کے سوالات کے نتیجے میں ہم تک پہنچا ہے۔ صحابہ کرام کے سوالات کی 9صورتوں کا بیان گزرچکا ہے، یہاں دسویں صورت بیان کی جاتی ہے۔ صحابہ کرام کے کئی سوالات ایسے ہوتے تھے کہ جن کا جواب عقائد اسلامیہ کی توضیح کرتا اور صرف صحابہ کرام ہی نہیں بلکہ بعد میں آنے والوں کے لئے بھی عقائد و نظریات کی اصلاح کا سبب ہو گیا جیسا کہ ایک موقع پر رسولِ کریم ﷺ نے درودِ پاک کی فضیلت میں ارشاد فرمایا:

إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَفِيهِ قُبِضَ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ

جمعہ تمہارے دنوں میں سے سب سے افضل دن ہے، اسی میں حضرت آدم(علیہ الصلوٰۃ و السلام) پیدا ہوئے اور اسی دن ان کی روح قبض ہوئی، اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن قیامت آئے گی، لہٰذا اس دن مجھ پر کثرت سے درودِ پاک پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درودِ پاک مجھ پر پیش کیا جاتاہے۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان جو کہ ہر وقت علم کے پیاسے رہتے تھے اور کیوں نہ ہوں کہ علم و حکمت اور خزائن الٰہیہ کا بحرِ بےکنار جو آنکھوں کےسامنے ہوتا تھا، چنانچہ صحابہ کرام نے اس موقع پر بھی سوال کیا:

يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ، وَقَدْ أَرَمْتَ أَيْ يَقُولُونَ قَدْ بَلِيتَ؟

یارسول اللہ!ہمارا درودِ پاک آپ ﷺ تک کیسے پہنچے گا حالانکہ آپ کو دنیا سے پردہ فرمائے ہوئے مدت ہو چکی ہوگی۔؟

تو رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ

تحقیق اللہ عزوجل نے زمین پر انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے ا جسام کھانا حرام فرما دیا ہے۔(سنن نسائی، کتاب الجمعۃ، باب اکثار الصلاۃ علی النبی ﷺ یوم الجمعۃ، صفحہ238،حدیث:1371)

محترم قارئین! غور کیجئے کہ معلم اعظم رسولِ اکرم ﷺ نے کیسے ایک مختصر جملے میں ہزار سال بعد اٹھنے والے فتنہ کا بھی رد فرمادیا، اور واضح فرمادیا کہ اللہ رب العزت کے انبیاء و رسل دنیا سے پردہ کرنے کے بعد بھی حیات ہوتے ہیں، سب سنتے ہیں۔


(شعبہ اوقاتُ الصلوۃ،دعوتِ اسلامی)

اَلْحَمْدُلِلّٰہ!2021/ 1442 ھ کا رمضان المبارک تشریف لاچکا ہے۔دنیا بھر کے عشاقِ رمضان اللہ پاک کے اس مقدس مہمان کو مرحبا کہنے کے لیے بے تاب تھے۔ یاد رہے کہ روزے کا دوسرا نام صبر ہے اور صبر پر اجر ہی اجر ہے۔جو روزہ دار جتنی زیادہ بھوک وپیاس وغیرہ کے سبب مشقت برداشت کرے گا اتنا ہی اجر کا مستحق ہوگا۔ جن ممالک میں روزے کا دورانیہ جتنا زیادہ ہوگا وہاں کے عشاقِ رمضان کو اتنا ہی اجر کمانے کا موقع ملے گا۔آئیے اس مضمون میں ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ طویل اور سب سے کم دورانیہ کا روزہ کن ممالک میں اور کیوں ہوگا؟

روزہ چھوٹا بڑا ہونے کی وجہ

یاد رہے کہ روزے کا وقت صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک ہے۔چونکہ سورج چھ ماہ شمالی دنیا میں رہتا ہے اور چھ ماہ جنوبی دنیا میں۔ لہذا جب سورج شمالی دنیا میں آئے گا تو شمالی دنیا بشمول پاکستان دن بڑا اور رات چھوٹی ہوگی جبکہ جنوبی دنیا کا دن چھوٹا اور رات بڑی ہوگی۔یوں ہی جب سورج جنوبی دنیا میں چھ ماہ رہے گا تو وہاں کے دن بڑے اور راتیں چھوٹی ہوگی اور شمالی دنیا میں معاملہ برعکس یعنی راتیں بڑی اور دن چھوٹے ہوں گے۔

21مارچ سے 23ستمبر تک سورج شمالی دنیا میں رہتا ہے ۔ان چھ ماہ میں یہاں گرمی اور جنوبی دنیا میں سردی کا موسم ہوتا ہے جبکہ 23 ستمبر سے 21 مارچ تک جنوبی دنیا میں ہوتا ہے لہذا سورج کے قریب ہونے کے سبب جنوبی دنیا میں گرمی اور شمالی دنیا بشمول پاکستان سردی ہوتی ہے۔

چونکہ 1442 /2021 کا رمضان شریف اپریل ،مئی میں آرہا ہے لہذا شمالی دنیا والوں کے لیے روزہ بڑا اور جنوبی دنیا والوں کے لیے چھوٹا ہوگا۔اب ہم وہ چارٹ پیش کرتے ہیں کہ جس سے دنیا کے بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے روزے کا دورانیہ آپ جان سکیں گے:

دنیا کے ممالک میں سب سے بڑا روزہ

٭ٹورمسو (ناروے) Tromso Norway : 22 گھنٹے 50 منٹ

٭بوڈو(ناروے) Bodo Norway:21 گھنٹے 56 منٹ

٭اوسلو (ناروے) Oslo Norway: 20 گھنٹے 35 منٹ

٭کوپن ہیگن (ڈنمارک) Copenhagen Denmark : 20 گھنٹے 13 منٹ

٭اوڈینسی (ڈنمارک)Odense Denmark: 20 گھنٹے 08 منٹ

دنیا کے ممالک میں سب سے چھوٹا روزہ

٭پونٹا اریناس (چلی) Punta Arenas Chile: 10گھنٹے 47 منٹ

٭دونیدین (نیوزی لینڈ) Dunedin New zealand : 11گھنٹے 18 منٹ

نوٹ:پاکستان میں روزے کا دورانیہ سب سے بڑا ”چترال : 15 گھنٹے 45 منٹ “اور سب سے چھوٹا ”نگر پارکر 14 گھنٹے 40 منٹ“ ہوگا۔


تربیت و تفہیم ایک ایسا معاملہ ہے کہ ابتدائے کائنات سے اب تک اس کے انداز  میں بتدریج تبدیلیاں آتی رہی ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ جو انداز اللہ کریم کے نیک بندوں اور بالخصوص رسولِ اکرم، شہنشاہِ دوعالم ﷺ نے اپنائے نہ تو ان سے بہتر کوئی انداز اپنائے جاسکتے ہیں اور نہ ہی ان کا مکمل احاطہ ہوسکا ہے۔ پیارے مصطفےٰ ﷺ کے اسوۂ تربیت و تفہیم میں ایک انداز ”مختلف سوالات کے جوابات دے کر تربیت فرمانا“ کی سات صورتیں گزشتہ مضامین میں بیان ہوئیں، اسی سلسلے کی ایک کڑی اس مضمون میں پیش کی جاتی ہے:

(8)مختلف اعمال کے اجر و ثواب کے متعلق سوالات کا جواب دینا

یہ ایک حقیقت ہے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان ہمارے لئے اللہ کریم کی بہت بڑی اور عظیم نعمت ہیں، یہ انہی نفوس قدسیہ کا فیضان ہے کہ انہوں نے بارگاہِ رسالت میں طرح طرح کے موضوعات پر سوالات کئے اور حضور نبی کریم ﷺ نے جوابات ارشاد فرمائے جس کے نتیجے میں بعد میں آنے والوں کو زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی مل رہی ہے۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان آسمان ہدایت کے درخشاں ستارے ہیں، یہ ان کی فہم و فراست، طلب علم دین کی حرص، احکام شریعت جاننے کی جستجو اور ہر عمل میں اخلاص و للہیت کا ہی نتیجہ ہے کہ طرح طرح کے معاملات و حالات میں ایسے ایسے سوالات بارگاہِ نبی میں کئے کہ جن پر ملنے والے نبوی جوابات رہتی دنیا تک کے لئے ہدایت و رہنمائی کا چراغ ہیں۔ دیگر ہزاروں موضوعات کی طرح صحابہ کرام کے سوالات کا ایک موضوع یہ بھی تھا کہ مختلف اعمال کے اجرو ثواب کے متعلق سوالات کرتے تھے اور رسولِ کریم ﷺ جوابات عطا فرماتے ہوئے تربیت و تفہیم فرماتے جیسا کہ

ایک شخص رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا، عرض کی: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ شَهِدْتُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، وَصَلَّيْتُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَصُمْتُ الشَّهْرَ، وَقُمْتُ رَمَضَانَ، وَآتَيْتُ الزَّكَاةَ؟

یارسول اللہ!آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں کہ اگر میں گواہی دوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں، اور پانچ نمازیں ادا کروں اور رمضان کے روزے رکھوں اور رمضان میں عبادت كروں اور زکاۃ ادا کروں تو میں کن لوگوں میں سے ہوں؟

رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ مَاتَ عَلَى هَذَا كَانَ مِنَ الصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ

جو ان اعمال پر فوت ہوا وہ صدیقین اور شہداء میں سے ہے۔(صحیح ابن خزیمۃ، جلد3، صفحہ340، حدیث:2212)

قارئین کرام! غور کیجئے کہ کوئی بہت زیادہ عبادت نہیں صرف توحید و رسالت کی گواہی کے بعد تین فرائض کی ادائیگی پر صدیقین اور شہداء کا درجہ ملنے کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ یہ رسولِ کریم ﷺ کا اندازِ تعلیم و تربیت ہے کہ دینِ الٰہی پر عمل کرنے والوں کو بڑے بڑے اجر و ثواب کی بشارت عطا فرماتے جس سے عمل کرنے والوں کو مزید حوصلہ ملتا اور وہ اپنے اعمال میں مزید اخلاص و استقامت لانے کی کوشش کرتے۔

اسی طرح اجروثواب کے متعلق اصحاب عقبہ نے بھی سوال کیا تھا، یہ بڑا ہی ایمان افروز واقعہ ہے چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ حضرت عباس حضور اكرم کے ہمراہ انصار کے پاس گئے اور فرمایا: بات شروع کرو لیکن بات لمبی نہ کرنا، کیونکہ جاسوسوں کی آنکھیں تمہارے اوپر ہیں اور مجھے تم پر کفار قریش کا بھی خطرہ ہے۔

ان میں سے ایک شخص جس کی کنیت ابوامامہ تھی اور وہ ان دنوں میں انصار کے خطیب سمجھے جاتے تھے اور ان کا نام اسعد بن زرارہ تھا، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی: یارسول اللہ! آپ کا ہم سے اپنے رب کے لئے، اپنے لئے اور اپنے اصحاب کے لئے کیا مطالبہ ہے؟ اور ساتھ میں یہ بھی فرما دیجئے کہ ہمیں اس پرکیاثواب حاصل ہوگا؟

نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تم سے اپنے رب کے لیے یہ سوال کرتا ہوں کہ اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ اور اپنی ذات کے لیے یہ سوال کرتا ہوں کہ مجھ پر ایمان لاؤ اور ان چیزوں سے میری حفاظت کرو جن سے تم اپنی جانوں کی حفاظت کرتے ہو اور میں اپنے اصحاب کے لیے تم سے سوال کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ تم غم خواری کا معاملہ کرو۔

انصار نے عرض کیا : فَمَا لَنَا إِذَا فَعَلْنَا ذَلِكَ

اگر ہم ایساکریں گے تو ہمارے لیے کیا ثواب ہے۔

ارشاد فرمایا: لَكُمْ عَلَى اللَّهِ الْجَنَّةُ

تمہارے لیے اللہ کے ذمہ کرم پر جنت ہوگی۔(مصنف ابن ابی شیبۃ، جلد7، صفحہ444، حدیث:37103)

بارگاہِ رسالت میں مختلف اعمال کے اجرو ثواب کے متعلق صرف صحابہ کرام ہی سوال نہ کرتے تھے، بلکہ صحابیات طیبات بھی یہ جذبہ رکھتی تھیں، چنانچہ حضرت سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ چلے جارہے تھے کہ ایک عورت اپنے بچے کے ساتھ حاضر بارگاہ ہوئی، اس نے عرض کی: یارسول اللہ ! کیا یہ بچہ بھی حج کرسکتاہے؟

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہاں اور اس کا اجر تیرے لئے ہے۔

عرض کی: فَمَا ثَوَابُهُ إِذَا وَقَفَ بِعَرَفَةَ

جب یہ وقوفِ عرفہ کرے گا تو اس کا کیا اجر ہے؟

ارشاد فرمایا: يُكْتَبُ لِوَالِدَيْهِ بِعَدَدِ كُلِّ مَنْ وَقَفَ بِالْمَوْقِفِ عَدَدُ شَعْرِ رُءُوسِهِمْ حَسَنَاتٌ

اس کے والدین کے لئے ہر وقوفِ عرفہ کرنے والے کے بالوں کے برابر نیکیاں لکھی جائیں گی۔

(المعجم الاوسط، جلد3صفحہ350، حدیث:3375)

محترم قارئین! اس جواب پر قربان جانے کو جی چاہتاہے، ہر وہ بندہ جسے اللہ کریم نے استطاعت دی ہے اسے چاہئے کہ خود پر حج فرض ہے تو وہ تو لازمی کرے لیکن ہو سکے تو اپنے بچوں کو بھی کروائے کہ اتنی ساری نیکیاں دنیا کے مال کے خرچ ہونے کے ڈر سے چھوڑنا عقلمندی نہیں ہے۔


ایمان اور عقائد کی دُرستی کے بعد تمام فَرائض میں نہایت اَہم و اَعظم نماز ہے۔(1) قراٰن و حدیث اس کی اَہمیّت سے مالامال ہیں۔ ایک روایت کے مطابق قِیامت کے روز سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا۔(2)قراٰنِ پاک میں جابَجا اس کی تاکید آئی ہے۔ ہمارے نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نماز سے بہت محبت تھی۔ امام بَیْہَقِی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے روایت کیا کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا: اسلام میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کیا چیزہے؟ تو نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:نماز کو اپنے وقت میں ادا کرنا، جس نے نماز چھوڑی اس کا کوئی دین نہیں، نماز دین کا سُتون ہے۔(3) سیّدُالاَتْقِیاء، غوثِ اعظم، پیرانِ پیر، روشن ضمیر حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادرجیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کی سیرتِ مبارَکہ میں بھی نماز سے محبت جابَجا ملتی ہے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی مبارک زندگی میں نماز کا کتنا اہتمام ہوتا تھا۔ اس سے متعلّق چند واقعات درج ذیل ہیں۔ عشاکے وضو سے فَجْر کی نماز ابوالفتح ہروی علیہ رحمۃ اللہ القَوی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سیّدنا شیخ عبدُالقادر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کی خدمت میں چالیس سال رہا۔ میں نے دیکھا کہ آپ ہمیشہ عشا کے وُضو سے فَجْر کی نماز پڑھتے۔ آپ کا معمول تھا کہ جب وُضو ٹوٹ جاتا تو فوراً وُضو فرما لیتے اور وُضو کر کے دو رکعت تَحِیَّۃُ الْوُضو ادا فرماتے اور رات کو عشا کی نماز پڑھ کر اپنے خَلْوَت خانے میں داخل ہوتے اور صبح کی نماز کے وقت وہاں سے نکلا کرتے۔([4]) اللہُ اَکْبَر! غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو نماز سے کتنی محبت تھی۔ اے کاش! ہمیں بھی غوثِ پاک کے صدقے نمازوں کی پابندی نصیب ہو جائے اور فَرائض کے ساتھ ساتھ ہم نَفْل نماز کے بھی عادی ہوجائیں۔ روزانہ ایک ہزار نوافل ہمارے غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ روزانہ ایک ہزار نوافل ادا فرماتے۔(5) نماز میں مشغولیت امیرِاہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنے رسالے ”سانپ نُما جن“ میں یہ حِکایَت نَقْل کرتے ہیں کہ حضور غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں ”جامع منصور“ میں مصروفِ نماز تھا کہ ایک سانپ آگیا۔ اس نے میرے سجدے کی جگہ سَر رکھ کر اپنا منہ کھول دیا۔ میں نے اسے ہٹا کر سجدہ کیا مگر وہ میری گردن سے لِپَٹ گیا۔ پھر وہ میری ایک آستین میں گُھسااور دوسری سے نکلا۔ نماز مکمل کرنے کے بعد جب میں نے سلام پھیرا تو و ہ غائب ہوگیا۔ دوسرے روز میں پھر اُسی مسجِد میں داخل ہوا تو مجھے ایک بڑی بڑی آنکھوں والا آدَمی نظر آیا میں نے اُسے دیکھ کر اندازہ لگالیا کہ یہ شخص انسان نہیں بلکہ کوئی جِنّ ہے۔ وہ جنّ مجھ سے کہنے لگا کہ میں آپ کو تنگ کرنے والا وُہی سانپ ہوں۔ میں نے سانپ کے رُوپ میں بہت سارے اولیاءُ اللہ رحمہم اللہ تعالٰی کو آزمایا ہے مگر آپ جیسا کسی کو بھی ثابت قدم نہیں پایا۔ پھر وہ جِنّ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے دستِ مبارک پر تا ئب ہوگیا۔([6])

اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا غلام اور ان کی سیرت پر چلنے والا بنائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


کتبِ احادیث اور سیرتِ طیبہ میں سائلین و سامعین کی حوصلہ افزائی کی کثیر نظیریں ملتی ہیں اور اگر اس کا تتبع کیا جائے تو پوری کتاب تیار ہوسکتی ہے البتہ اس مضمون کے اعتبار سے  ایک آخری روایت پیش کی جاتی ہے چنانچہ مصر کےا یک شخص کا کہنا ہے کہ میں نے حضرت سیّدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے سورۂ یونس کی آیت نمبر64 :” لَهُمُ الْبُشْرٰى فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ترجمہ کنزالایمان:انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی “کے بارے پوچھا تو انہوں نے فرمایا:

مَا سَأَلَنِي عَنْهَا أَحَدٌ غَيْرُكَ إِلَّا رَجُلٌ وَاحِدٌ مُنْذُ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

میں نے جب سے رسولِ کریم ﷺ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا ہے تمہارے علاوہ صرف ایک آدمی نے مجھ سے اس کے بارے میں سوال کیا ہے۔

پھر فرمایا(کہ جب میں نے رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہ میں اسی آیت کے بارے میں پوچھا تو) رسولِ کریم ﷺ نے مجھے فرمایا تھا:

مَا سَأَلَنِي عَنْهَا أَحَدٌ غَيْرُكَ مُنْذُ أُنْزِلَتْ

جب سے یہ آیت نازل ہوئی ہے تمہارے سوا کسی نے اس کے متعلق سوال نہیں کیا۔

پھر آیت مبارکہ کے متعلق فرمایا:اس سے مراد نیک اور اچھے خواب ہیں جو مسلمان دیکھتا ہے یا اسے دکھایا جاتاہے۔

(سنن ترمذی، کتاب الرؤیا، جلد4، صفحہ121، حدیث:2280)

اسی طرح صرف صحابہ ہی نہیں بلکہ صحابیات میں سے بھی جب کوئی صحابیہ سوال کرتیں تو آپ ﷺ کئی مواقع پر ان کی حوصلہ افزائی فرماتے اور ان کی فہم و فراست کی تعریف بھی فرماتے جیسا کہ گزشتہ مضمون میں شعب الایمان کے حوالے سے حضرت اسماء بنت یزید کا واقعہ گزرا کہ آپ نے رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی:’’یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں آپ کے پاس خواتین کی ترجمان بن کر آئی ہوں، جہاں تک میری بات ہے یارسول اللہ! میری جان آپ پر قربان، البتہ مشرق ومغرب کی ہر عورت جو میرے آپ کے پاس حاضر ہونے کا سبب جانتی ہے یا نہیں مگر اس کا بھی وہی سوال ہے جو میں پوچھنے آئی ہوں۔۔۔۔۔ رسولِ کریم ﷺ ان کا مکمل سوال سن کر صحابہ کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ’’کیا تم نے کبھی کسی عورت کو اس سے زیادہ اچھے طریقے سے اپنے دین کے متعلق سوال کرتے ہوئے سنا ہے؟’’ صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! ہمارا تو گمان بھی نہیں کہ کوئی عورت اس جیسا سوال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوگی۔ پھر نبی کریم ﷺ حضرت اسماء کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’جاؤ اور اپنے پیچھے سب عورتوں کو بتادو کہ عورت کا اپنے شوہر کی اچھی بیوی بن کر رہنا اور اس کی خوشنودی چاہنا اور اس کے ساتھ ہم آہنگ رہنا ان سب اعمال میں اس کے ساتھ اجر وثواب میں برابری کا ذریعہ ہے۔ حضرت اسماء یہ سن کر خوشی سے نعرہ تکبیر بلند کرتی اور کلمہ طیبہ کی صدا لگاتی ہوئی وہاں سے لوٹیں۔

(الجامع لشعب الایمان، الشعب ستون، حقوق الاولاد والاھلین، جلد11، صفحہ177، حدیث:8369)

ہمارے ہاں معاشرے میں ایک عجیب رویہ پایا جاتا ہے، بچہ کسی وجہ سے بچپن میں نہ پڑھ سکا تو اب اگر 10سال کا ہوگیا تو اسے پہلی دوسری کلاس میں داخلہ دلوانا معیوب سمجھا جاتاہے، کچھ داڑھی مونچھ کے بال نکل آئیں اور ابھی قرآن پاک نہ پڑھا ہو تو قرآن سیکھنے میں شرم و عار محسوس کی جاتی ہے، تھوڑا جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ دیں تو کہیں طہارت، نماز اور دیگر عمومی فرض علوم سیکھنے میں بےتُکی شرم آڑے آجاتی ہے، حالانکہ علم دین حاصل کرنے کا تو جس عمر میں بھی موقع ملے ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ رسولِ کریم، معلمِ کائنات، شاہ ِ موجودات ﷺ کا طالبِ علم کے ساتھ انداز بہت کریمانہ تھا، ایک بڑی عمر کے صحابی حضرت سیّدنا قبیصہ بن مخارق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، آپ نے پوچھا:” يَا قَبِيصَةُ مَا جَاءَ بِكَ قبیصہ کیسے آنا ہوا ؟“ میں نے عرض کی: كَبِرَتْ سِنِّي وَرَقَّ عَظْمِي فَأَتَيْتُكَ لِتُعَلِّمَنِي مَا يَنْفَعُنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهِ میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور میری ہڈیاں کمزور ہوچکی ہیں میں آپ کی خدمت میں اس لیے حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے کوئی ایسی بات سکھا دیجئے جس سے اللہ مجھے نفع پہنچائے، نبی مکرم ﷺ نے (حضرت قبیصہ کے جذبہ طلب علم اور سوال پربہت حوصلہ افزائی کرتے ہوئے) فرمایا:” يَا قَبِيصَةُ مَا مَرَرْتَ بِحَجَرٍ وَلَا شَجَرٍ وَلَا مَدَرٍ إِلَّا اسْتَغْفَرَ لَكَ اے قبیصہ! تم جس پتھر یا درخت یا مٹی پر سے گزر کر آئے ہو ان سب نے تمہارے لیے استغفار کیا ہے۔“

قارئین کرام! غور تو کیجئے کہ کیسے شفیق و مہربان اور عظیم و اعظم معلم و مربی ہیں کہ بوڑھے شخص کے جذبہ حصول علم کی بھی کتنی قدر و حوصلہ افزائی فرماتے ہیں۔

مزید ارشاد فرمایا: اے قبیصہ! جب تم فجر کی نماز پڑھا کرو تو تین مرتبہ سبحان اللہ العظیم وبحمدہ کہہ لیا کرو،تم نابینا پن اور جذام اور فالج کی بیماریوں سے محفوظ رہوگے اور قبیصہ یہ دعا کیا کرو: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِمَّا عِنْدَكَ وَأَفِضْ عَلَيَّ مِنْ فَضْلِكَ وَانْشُرْ عَلَيَّ رَحْمَتَكَ وَأَنْزِلْ عَلَيَّ مِنْ بَرَكَاتِكَ اے اللہ میں تجھ سے اس چیز کا سوال کرتا ہوں جو تیرے پاس ہے مجھ پر اپنے فضل کا فیضان فرما مجھ پر اپنی رحمت کو وسیع فرما اور مجھ پر اپنی برکتیں نازل فرما۔ (مسند احمد بن حنبل، مسند البصریین، حدیث قبیصۃ بن مخارق، جلد34، صفحہ207، الرسالۃ بیروت)

الحمد للہ!رسولِ مہربان، کائناتِ الٰہیہ کے سلطان جناب محمد مصطفےٰ ﷺ کے فیضان سے عاشقانِ رسول کی انٹرنیشل دینی تحریک ”دعوتِ اسلامی“ جہاں دینی خدمت کے دیگر بیسیوں شعبہ جات میں مصرو ف عمل ہے وہیں ایک بہت ہی اہم شعبہ ”مدرسۃ المدینہ برائے بالغان“ بھی ہے۔ اس شعبہ کے تحت دنیا بھر میں جہاں جہاں دعوتِ اسلامی کا نیٹ ورک ہے وہاں وہاں بڑی عمر کے مسلمان مرد وخواتین کو طہارت، نماز، قاعدہ، ناظرہ قراٰن پاک اور دیگر چند ضروری مسائل سکھانے کا اہتمام ہوتاہے۔ اللہ کریم کے فضل و کرم سے تادمِ تحریر ملک و بیرونِ ملک میں 34ہزار441 مدرسۃ المدینہ بالغان کا سلسلہ جاری ہے جن میں1لاکھ96ہزار935 سے زائد مردو خواتین مفت قراٰن پاک اور دیگر فرض علوم کی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہیں،

اس کے علاوہ الحمد للہ کئی طرح کے شارٹ کورسز، اجتماعات، مدنی حلقوں اور مساجد میں درس و بیان کے ذریعے بھی بہت بڑی تعداد میں بڑی عمر کے مسلمان مرد و خواتین کی اصلاح و تربیت کا سلسلہ جاری ہے۔

(بقیہ آنے والی قسط میں )


استاد کا مقام ومرتبہ

Tue, 6 Apr , 2021
3 years ago

عالم دین اور استاد نائب رسول ہے،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوۡنَ ﴿۴﴾ وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیۡہِمْ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمْ ؕ وَ اللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵(پ26،الحجرات:4۔5)ترجمہ کنز الایمان: بے شک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ اُن کے لئے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

علامہ نظام الدین علیہ الرحمہ نقل فرماتے ہیں :استاد کی تعظیم یہ ہے کہ وہ اندر ہو اور یہ حاضر ہو تو اس کے دروازہ پر ہاتھ نہ مارے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے ۔(فتاوی عالمگیری،5/378)کیونکہ عالمِ دین ہر مسلمان کے حق میں عام طور پراور استادِ علم دین اپنے شاگرد کے حق میں خاص طور پر نائبِ حضور پُر نور سیّد عالم ہے۔(الحقوق لطرح العقوق،ص78)

استاد آقا اور شاگرد غلام ہے،حضور نبی رحمتفرماتے ہیں: جس نے کسی آدمی کوقرآن مجید کی ایک آیت سیکھائی وہ اس کا آقا ہے۔(معجم کبیر،8/112،حدیث:7528)امیر المؤمنین حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جس نے مجھے ایک حرف سکھایا اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا چاہے تو مجھے بیچ دے اور چاہے تو آزاد کردے۔(المقاصد الحسنہ،ص483)حضرت امام شعبہ بن حجاج رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:جس سے میں نے چار یا پانچ حدیثیں لکھیں میں اس کا تاحیات غلام ہوں۔بلکہ فرمایا:جس سے میں نے ایک حدیث لکھی میں اس کا عمر بھر غلام رہا ہوں۔(المقاصد الحسنہ،ص483)

استاد کے سامنے ہمیشہ عاجزی کی جائے اور خود کوکبھی بھی استاد سے افضل نہ سمجھاجائے ۔حضور نبی اکرم فرماتے ہیں:علم سیکھو اور علم کے لئے ادب واحترام سیکھو،جس استاد نے تمہیں علم سکھایاہےاس کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔(معجم اوسط، 4/342، حدیث:6184) اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :عقلمند اور سعادت مند اگر استاد سے بڑھ بھی جائیں تو اسے استاد کا فیض اور اس کی برکت سمجھتے ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ استاد کے پاؤں کی مٹی پر سر ملتے ہیں جبکہ بے عقل اور شریر اور ناسمجھ جب طاقت وتوانائی حاصل کرلیتے ہیں تو بوڑھے باپ پر ہی زور آزمائی کرتے ہیں اور اس کے حکم کی خلاف ورزی اختیار کرتے ہیں، جب خود بوڑھے ہوں گے تو اپنے کئے کی جزا اپنے ہاتھ سے چکھیں گےصحیح بخاری ،جلد3،ص163 پر ہے:کَمَا تُدِیْنُ تُدَان یعنی جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔(الحقوق لطرح العقوق،ص90)

استاد کا حق ماں باپ سے بھی زیادہ ہے،علماء کرام فرماتے ہیں کہ استاد کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھنا چاہئے کیونکہ والدین کے ذریعے بدن کی زندگی ہے اور استاد روح کی زندگی کا سبب ہے ۔کتاب ”عین العلم“ میں ہے:والدین کے ساتھ نیکی کرنی چاہئے کیونکہ ان کی نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے اور استاد کے حق کو والدین کے حق پر مقدم رکھناچاہئے کیونکہ وہ روح کی زندگی کا ذریعہ ہے جبکہ علامہ مناویرحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں :جو شخص لوگوں کو علم سکھائے وہ بہترین باپ ہے کیونکہ وہ بدن کا نہیں روح کا باپ ہے۔(تیسیرشرح جامع الصغیر2/454)

استاد کے تمام حقوق اد کیے جائیں،استاد کے حقوق کا انکار کرناتمام مسلمانوں بلکہ سارے عقل والوں کے اتفاق کے خلاف ہے ،یاد رہے کہ عالم کا حق جاہل پر اور استاد کا حق شاگرد پر یکساں ہے،فتاوی عالمگیری میں چند حقوق یہ بیان ہوئے ہیں : شاگر استاد سے پہلے بات نہ کرے ، اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے اور چلنے میں اس سے آگے نہ بڑھے، اپنے مال میں کسی چیزسے اس کے ساتھ بخل نہ کرے( یعنی جوکچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کرے اور اس کے قبول کر لینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت جانے۔)استاد کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے اور جس نے اسے اچھا علم سکھایا اگرچہ ایک حرف ہی پڑھایا ہو اس کے لئے عاجزی وانکساری کرے اور لائق نہیں کہ کسی وقت اس کی مدد سے باز رہے، اپنے استاد پر کسی کو ترجیح نہ دے لہذا اگرکسی کو ترجیح دے گا تو اس نے اسلام کی رسیوں سے ایک رسّی کھول دی اوراستاذ کی تعظیم یہ ہے کہ وہ اندر ہو اور یہ حاضر ہو تو اس کے دروازہ پر ہاتھ نہ مارے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے ۔(فتاوی عالمگیری،5/373تا379)

استاد کی بات ہمیشہ مانی جائے،کبھی استاد کی بات کو رَد نہ کرے ،وہ اگر کسی جائز بات کا حکم دے تواپنی طاقت وحیثیت کے مطابق اُس پر عمل کرنے کو اپنی سعادت سمجھے ۔اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جس نے استاد کی نافرمانی کی اُس نے اسلام کی گرہوں سے ایک گرہ کھول دی، علماء فرماتے ہیں :جس سے اس کے استاد کو کسی طرح کی ایذا پہنچے وہ علم کی برکت سے محروم رہے گااور اگر استاد کا حکم کسی شرعی واجب کے متعلق ہو تو اب اس کا لازم ہونا اور زیادہ ہوگیا،استاد کے ایسے حکم میں اُس کی نافرمانی تو واضح طور پر جہنم کا راستہ ہے (نعوذباللہ من ذالک)۔ہاں! اگر استاد کسی خلافِ شرع بات کا حکم دے تو شاگردوہ بات ہرگز نہ مانے کیونکہ حدیث پاک میں ہے :اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں ۔(مسند احمد،7/363،حدیث:20678) مگر اس نہ ماننے پر بھی گستاخی وبے ادبی سے پیش نہ آئے بلکہ بکمال عاجزی سے معذرت کرے اوراُس پر عمل کرنے سے بچے۔(الحقوق لطرح العقوق،ص79ماخوذا)

شاگر ہمیشہ استادکا شکر گزار رہے،کیونکہ استاد کی ناشکری خوفناک بلا اور تباہ کن بیماری ہے اور علم کی برکتوں کو ختم کرنیوالی ۔حضور نبی کریمنے فرمایا ہے:وہ آدمی اللہ تعالیٰ کا شکر بجا نہیں لا تا جو لو گوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا (ابو داؤد، 4/335،حدیث:4811)۔پھر یہ کہ شاگر کبھی استاد کا مقابلہ نہ کرے کہ یہ تو ناشکری سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ ناشکری تو یہ ہے کہ شکر نہ کیا جائے اور مقابلے کی صورت میں بجائے شکر کے اس کی مخالفت بھی ہے اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے ”جس نے احسان کے بدلے برائی کی اس نے تو ناشکری سے بھی بڑا گناہ کیا“

محمد آصف اقبال

16فروری 2019ء


54قراٰنی دُعائیں

Tue, 6 Apr , 2021
3 years ago

لفظ دُعَا دَعْوٌ یا دَعْوَۃٌ سے بنا ہے جس کے معنیٰ بُلانا یا پُکارنا ہے۔قراٰن شریف میں لفظِ دُعا پانچ معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔ (1)پُکارنا (2)بُلانا (3)تمنا، آرزو کرنا (4)پوجنا یعنی معبود سمجھ کر پُکارنا (5)مانگنا یا دُعا کرنا ۔ اس مضمون میں صرف آخری معنیٰ کو سامنے رکھتے ہوئے گفتگو کی گئی ہے ۔

دُعا مانگنے کا حکم اللہ پاک نے خود قراٰنِ مجید میں دیا ہے چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ- ترجَمۂ کنزُ العرفان: مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ (پ24، المؤمن: 60) دُعا مانگنا اللہ پاک کے اَنبیا و مُرسلین کا معمول، اُس کے پیارے آخری نبی، مکی مدنی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بہت ہی پیاری سنّت اور ایک عظیم عبادت ہے جس میں بندہ اپنے خالق و مالک کی پاک بارگاہ میں اپنی حاجات و ضروریات پیش کرتا ہے۔ قراٰن و حدیث میں کئی مقامات پر دعا مانگنے کے فضائل اور دعا مانگنے کی ترغیب ارشاد فرمائی گئی ہے، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِۙ- ترجَمۂ کنزُالعرفان: میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرے۔(پ2، البقرۃ: 186) نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اللہ پاک کے نزدیک کوئی چیز دعا سے بزرگ تَر نہیں۔(ترمذی، 5/243، حدیث:3381) ایک جگہ ارشاد فرمایا: دعا مسلمانوں کا ہتھیار، دین کا ستون اور آسمان و زمین کا نور ہے۔(مستدرک للحاکم، 2/162، حدیث: 1855) قارئین کرام! اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں کئی مقامات پر انبیا و مُرسلین، ملائکہ مقربین، مسلمین و مؤمنین اور نیک صالحین بندوں کی دعائیں ذِکْر فرمائی ہیں۔ اس مضمون میں 15انبیا و مُرسلین، ملائکہ مقربین، مسلمین و مؤمنین اور نیک صالحین بندوں کی 54 قراٰنی دُعائیں بیان کی جارہی ہیں۔ اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ ان دعاؤں کو اپنے معمولات کا حصہ بنا لیجئے اِنْ شآءَ اللہ دنیا و آخرت کی کثیر برکتیں حاصل ہوں گی:

حضرت سیّدُنا آدم علیہ السّلام کی دُعا:(1)رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۲۳) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہوجائیں گے۔(پ8، الاعراف: 23)

حضرت سیّدُنا نُوح علیہ السّلام کی دُعائیں: (2)رَبِّ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِكَ اَنْ اَسْــٴَـلَكَ مَا لَیْسَ لِیْ بِهٖ عِلْمٌؕ- وَاِلَّا تَغْفِرْ لِیْ وَتَرْحَمْنِیْۤ اَكُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ(۴۷) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے وہ چیز مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اور اگر تو میری مغفرت نہ فرمائے اور مجھ پر رحم نہ فرمائے تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجاؤں گا۔(پ12، ھود:47) (3)رَّبِّ اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُّبٰرَكًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ(۲۹) ترجَمۂ کنزُالعرفان:اے میرے رب! مجھے برکت والی جگہ اتار دے اور تو سب سے بہتر اُتارنے والا ہے۔(پ18، المؤمنون: 29) (4)رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ كَذَّبُوْنِۚۖ(۱۱۷) فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَبَیْنَهُمْ فَتْحًا وَّنَجِّنِیْ وَمَنْ مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۸) ترجَمۂ کنزُالعرفان:اے میرے رب! بیشک میری قوم نے مجھے جھٹلایا۔ تو مجھ میں اور ان میں پورا فیصلہ کردے اور مجھے اور میرے ساتھ والے مسلمانوں کو نجات دے۔ (پ19، الشعراء: 117، 118) (5)رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِؕ-وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا تَبَارًا۠(۲۸) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب!مجھے اور میرے ماں باپ کو اور میرے گھر میں حالتِ ایمان میں داخل ہونے والے کو اور سب مسلمان مردوں اور سب مسلمان عورتوں کوبخش دے اور کافروں کی تباہی میں اضافہ فرما دے۔(پ29، نوح:28)

حضرت سیّدُنا ابراہیم و اسماعیل علیہما السّلام کی دعا: (6)رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ- اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۱۲۷) رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ۪- وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَیْنَاۚ- اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۱۲۸) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہم سے قبول فرما، بیشک تو ہی ہے سننے والا جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب! اورہم دونوں کو اپنا فرمانبردار رکھ اور ہماری اولاد میں سے ایک ایسی امت بنا جو تیری فرمانبردار ہواور ہمیں ہماری عبادت کے طریقے دکھا دے اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرما بیشک تو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔(پ1، البقرۃ: 127، 128)

حضرت سیّدُنا ابراہیم علیہ السّلام کی دعائیں:(7)رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ﳓ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِ(۴۰) رَبَّنَا اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۠(۴۱) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! مجھے اور کچھ میری اولاد کونماز قائم کرنے والا رکھ، اے ہمارے رب اور میری دعا قبول فرما۔ اے ہمارے رب! مجھے اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو بخش دے جس دن حساب قائم ہوگا۔(پ13، ابراہیم: 40، 41) (8)رَبِّ هَبْ لِیْ حُكْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَۙ(۸۳) وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَۙ(۸۴) وَاجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِیْمِۙ(۸۵) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! مجھے حکمت عطا کر اور مجھے ان سے ملادے جو تیرے خاص قرب کے لائق بندے ہیں۔ اوربعدوالوں میں میری اچھی شہرت رکھ دے۔ اور مجھے ان میں سے کردے جو چین کے باغوں کے وارث ہیں۔ (پ19، الشعراء: 83تا85) (9)رَبَّنَا عَلَیْكَ تَوَكَّلْنَا وَاِلَیْكَ اَنَبْنَا وَاِلَیْكَ الْمَصِیْرُ(۴) رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَاۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۵) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہم نے تجھی پر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف رجوع لائے اور تیری ہی طرف پھرنا ہے۔اے ہمارے رب! ہمیں کافروں کیلئے آزمائش نہ بنا اور ہمیں بخش دے، اے ہمارے رب! بیشک تو ہی بہت عزّت والا، بڑا حکمت والا ہے۔(پ28، الممتحنۃ: 4، 5) (10)رَبِّ هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰۰) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! مجھے نیک اولاد عطا فرما۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:100)

حضرت سیّدُنا موسیٰ علیہ السّلام کی دعائیں: (11)اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ(۶۷) ترجَمۂ کنزُالعرفان:میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔ (پ1، البقرۃ: 67) (12)رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِاَخِیْ وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِكَ ﳲ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ۠(۱۵۱) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔(پ9، الاعراف: 151) (13)اَنْتَ وَلِیُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ(۱۵۵) وَاكْتُبْ لَنَا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ اِنَّا هُدْنَاۤ اِلَیْكَؕ- ترجَمۂ کنزُالعرفان:تو ہمارا مولیٰ ہے، تو ہمیں بخش دے اور ہم پررحم فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے۔ اور ہمارے لیے اس دنیا میں اور آخرت میں بھلائی لکھ دے، بیشک ہم نے تیری طرف رجوع کیا۔(پ9، الاعراف: 155، 156) (14)رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْۙ(۲۵) وَیَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْۙ(۲۶) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کھول دے۔اور میرے لیے میرا کام آسان فرما دے۔(پ16، طٰہٰ: 25، 26) (15)رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب!میں نے اپنی جان پر زیادتی کی تو تومجھے بخش دے۔ (پ20، القصص:16) (16)رَبِّ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۠(۲۱) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! مجھے ظالموں سے نجات دیدے۔ (پ20، القصص:21)

حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ السّلام کی دعا: (17)اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰیَةً مِّنْكَۚ-وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(۱۱۴) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے اللہ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک دسترخوان اُتار دے جو ہمارے لئے اور ہمارے بعد میں آنے والوں کے لئے عید اور تیری طرف سے ایک نشانی ہوجائے اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔(پ7، المآئدۃ:114)

حضرت سیّدُنا لُوط علیہ السّلام کی دعائیں: (18)رَبِّ نَجِّنِیْ وَاَهْلِیْ مِمَّا یَعْمَلُوْنَ(۱۶۹) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! مجھے اور میرے گھر والوں کو ان کے اعمال سے محفوظ رکھ۔(پ19، الشعراء: 169) (19)رَبِّ انْصُرْنِیْ عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِیْنَ۠(۳۰) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب!ان فسادی لوگوں کے مقابلے میں میری مدد فرما۔(پ20، العنکبوت:30)

حضرت سیّدُنا ایوب علیہ السّلام کی دعا: (20)(رَبِّیْ) اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ(۸۳) ترجَمۂ کنزُ العرفان: (اے میرے رب!) بیشک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔(پ17، الانبیاء:83)

حضرت سیّدُنا یونس علیہ السّلام کی دعا: (21)لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ(۸۷) ترجَمۂ کنزُالعرفان: تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ہرعیب سے پاک ہے، بیشک مجھ سے بے جا ہوا۔ (پ17، الانبیاء:87)

حضرت سیّدُنا یوسف علیہ السّلام کی دعائیں:(22)یَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ٘-وَهُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(۹۲) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانو ں سے بڑھ کر مہربان ہے۔(پ13، یوسف:92) (23)فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِۚ- تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ(۱۰۱) ترجَمۂ کنزُالعرفان:اے آسمانوں اور زمین کے بنانے والے! تو دنیا اور آخرت میں میرا مددگار ہے، مجھے اسلام کی حالت میں موت عطا فرما اور مجھے اپنے قرب کے لائق بندوں کے ساتھ شامل فرما۔(پ13، یوسف: 101)

حضرت سیّدُنا شعیب علیہ السّلام کی دعا:(24)رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ(۸۹) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہم میں اور ہماری قوم میں حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے اور تو سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔(پ9، الاعراف:89)

حضرت سیّدُنا زکریا علیہ السّلام کی دُعائیں: (25)رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! مجھے اپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعاسننے والاہے۔(پ3، آل عمرٰن: 38) (26)رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ(۸۹) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث ہے۔ (پ17، الانبیاء:89)

حضرت سیّدُنا سلیمان علیہ السّلام کی دعا: (27)رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰى وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَاَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِكَ فِیْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۹) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب!مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر اداکروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیا اور (مجھے توفیق دے) کہ میں وہ نیک کام کروں جس پر تو راضی ہو اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے ان بندوں میں شامل کر جو تیرے خاص قرب کے لائق ہیں۔(پ19، النمل:19)

اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دعائیں: (28)رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا(۱۱۴) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔(پ16، طٰہٰ: 114) (29)رَّبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا(۸۰) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب مجھے پسندیدہ طریقے سے داخل فرما اور مجھے پسندیدہ طریقے سے نکال دے اور میرے لئے اپنی طرف سے مددگار قوت بنادے۔(پ15، بنی اسرائیل: 80) (30)رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّؕ-وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوْنَ۠(۱۱۲)ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! حق کے ساتھ فیصلہ فرمادے اور ہمارا رب رحمٰن ہی ہے جس سے ان باتوں کے خلاف مدد طلب کی جاتی ہے جو تم کرتے ہو۔(پ17، الانبیاء:112) (31)رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِۙ(۹۷) وَاَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ(۹۸) ترجَمۂ کنزُالعرفان:اے میرے رب! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اور اے میرے رب! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ شیطان میرے پاس آئیں۔(پ18، المؤمنون: 97، 98) (32)رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ۠(۱۱۸) ترجَمۂ کنزُالعرفان:اے میرے رب! بخش دے اور رحم فرما اور تو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے۔(پ18، المؤمنون: 118) (33)اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِۙ(۱) مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَۙ(۲) وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَۙ(۳) وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِۙ(۴) وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠(۵) ترجَمۂ کنزُالعرفان: میں صبح کے رب کی پناہ لیتا ہوں۔ اس کی تمام مخلوق کے شر سے۔ اور سخت اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھاجائے۔ اور ان عورتوں کے شر سے جو گرہوں میں پھونکیں مارتی ہیں۔ اور حسد والے کے شر سے جب وہ حسد کرے۔ (پ30، الفلق: 1تا5) (34)اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِۙ(۱) مَلِكِ النَّاسِۙ(۲) اِلٰهِ النَّاسِۙ(۳) مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ ﳔ الْخَنَّاسِﭪ(۴) الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِۙ(۵) مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ۠(۶) ترجَمۂ کنزُالعرفان:میں تمام لوگوں کے رب کی پناہ لیتا ہوں۔ تمام لوگوں کا بادشاہ۔ تمام لوگوں کا معبود۔ بار بار وسوسے ڈالنے والے، چھپ جانے والے کے شر سے(پناہ لیتا ہوں)۔ وہ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔ جنوں اورانسانوں میں سے۔ (پ30، الفلق: 1تا5)

ملائکہ مقربین، مسلمین و مؤمنین اور نیک صالحین بندوں کی دعائیں: (35)رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱) ترجَمۂ کنزُالعرفان:اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔(پ2، البقرۃ:201) (36)رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَؕ(۲۵۰) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہم پر صبر ڈال دے اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اورکافر قوم کے مقابلے میں ہماری مددفرما۔(پ2، البقرۃ:250)(37)سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ﱪ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَیْكَ الْمَصِیْرُ(۲۸۵) رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِیْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَاۚ-رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَاۤ اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَاۚ-رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖۚ-وَاعْفُ عَنَّاٙ-وَاغْفِرْ لَنَاٙ-وَارْحَمْنَاٙ- اَنْتَ مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ۠(۲۸۶) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب!ہم نے سنا اور مانا، (ہم پر) تیری معافی ہواور تیری ہی طرف پھرنا ہے۔اے ہمارے رب! اگر ہم بھولیں یا خطا کریں تو ہماری گرفت نہ فرما،اے ہمارے رب! اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر رکھا تھا، اے ہمارے رب!اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہیں اور ہمیں معاف فرمادے اور ہمیں بخش دے اور ہم پر مہربانی فرما، تو ہمارا مالک ہے پس کافر قوم کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔(پ3، البقرۃ: 285، 286) (38)رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ(۸) رَبَّنَاۤ اِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ۠(۹) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب تو نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے،اس کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بیشک تو بڑاعطا فرمانے والاہے۔ اے ہمارے رب! بیشک تو سب لوگوں کو اس دن جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شبہ نہیں، بیشک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔(پ3، آل عمرٰن:8، 9) (39)رَبَّنَاۤ اِنَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِۚ(۱۶) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے ہیں، تو تو ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔ (پ3، آل عمرٰن:16) (40)رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ(۵۳) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہم اس کتاب پر ایمان لائے جو تو نے نازل فرمائی اورہم نے رسول کی اِتّباع کی پس ہمیں گواہی دینے والوں میں سے لکھ دے۔(پ3، آل عمرٰن:53)(41)رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْۤ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ(۱۴۷) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہمارے گناہوں کو اور ہمارے معاملے میں جو ہم سے زیادتیاں ہوئیں انہیں بخش دے اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اور کافر قوم کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔(پ4، آل عمرٰن: 147) (42)رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ-سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(۱۹۱) رَبَّنَاۤ اِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَهٗؕ-وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ(۱۹۲) رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا ﳓ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِۚ(۱۹۳) رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلٰى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ(۱۹۴) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب!تو نے یہ سب بیکار نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔ اے ہمارے رب! بیشک جسے تو دوزخ میں داخل کرے گا اسے تو نے ضرور رسوا کردیا اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہے۔ اے ہمارے رب! بیشک ہم نے ایک ندا دینے والے کو ایمان کی ندا (یوں ) دیتے ہوئے سنا کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے پس اے ہمارے رب! تو ہمارے گنا ہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں مٹادے اور ہمیں نیک لوگوں کے گروہ میں موت عطا فرما۔ اے ہمارے رب! اورہمیں وہ سب عطا فرما جس کا تو نے اپنے رسولوں کے ذریعے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اور ہمیں قیامت کے دن رسوانہ کرنا۔بیشک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔(پ4، آل عمرٰن:191تا194)([1]) (43)رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۠(۴۷) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہمیں ظالموں کے ساتھ نہ کرنا۔(پ8، الاعراف:47) (44)رَبَّنَاۤ اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ۠(۱۲۶) ترجَمۂ کنزُالعرفان:اے ہمارے رب! ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمیں حالتِ اسلام میں موت عطا فرما۔(پ9، الاعراف: 126) (45)رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَۙ(۸۵) وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ(۸۶) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہمیں ظالم لوگوں کے لیے آزمائش نہ بنا۔ اور اپنی رحمت فرما کر ہمیں کافروں سے نجات دے۔ (پ11، یونس: 85تا86) (46)رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! تو ان دونوں پر رحم فرما جیسا ان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا۔(پ15، بنی اسرائیل: 24) (47)رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّ هَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا(۱۰) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے لئے ہمارے معاملے میں ہدایت کے اسباب مہیا فرما۔(پ15، الکھف: 10) (48)رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ(۱۰۹) ترجَمۂ کنزُالعرفان:اے ہمارے رب!ہم ایمان لائے تو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے۔(پ18، المؤمنون: 109) (49)رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ﳓ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًاۗۖ(۶۵) اِنَّهَا سَآءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا(۶۶) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب!ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دے، بیشک اس کا عذاب گلے کا پھندا ہے۔ بیشک وہ بہت ہی بری ٹھہرنے اور قیام کرنے کی جگہ ہے۔(پ19، الفرقان: 65، 66) (50)رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(۷۴) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہماری بیویوں اور ہماری اولاد سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔(پ19، الفرقان: 74) (51)رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ(۷) رَبَّنَا وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ ﹰالَّتِیْ وَعَدْتَّهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّیّٰتِهِمْؕ- اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُۙ(۸) وَقِهِمُ السَّیِّاٰتِؕ- وَمَنْ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوْمَىٕذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهٗؕ- وَذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۠(۹) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب!تیری رحمت اور علم ہر شے سے وسیع ہے تو انہیں بخش دے جوتوبہ کریں اور تیرے راستے کی پیروی کریں اور انہیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔ اے ہمارے رب! اور انہیں اور ان کے باپ دادا اور ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو نیک ہوں ان کو ہمیشہ رہنے کے ان باغوں میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے، بیشک تو ہی عزت والا، حکمت والا ہے۔ اور انہیں گناہوں کی شامت سے بچالے اور جسے تونے اس دن گناہوں کی شامت سے بچالیا تو بیشک تو نے اس پر رحم فرمایااور یہی بڑی کامیابی ہے۔(پ24، المؤمن:7تا9) (52)رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰى وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ ﱂ اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْكَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(۱۵) ترجَمۂ کنزُالعرفان:اے میرے رب!مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پراور میرے ماں باپ پر فرمائی ہے اور میں وہ نیک کام کروں جس سے تو راضی ہوجائے اور میرے لیے میری اولاد میں نیکی رکھ،میں نے تیری طرف رجوع کیااور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔(پ26، الاحقاف:15) (53)رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠(۱۰) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہمیں اورہمارے ان بھائیوں کوبخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کیلئے کوئی کینہ نہ رکھ، اے ہمارے رب! بیشک تو نہایت مہربان، بہت رحمت والا ہے۔(پ28، الحشر: 10) (54)رَبَّنَاۤ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَاۚ-اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۸) ترجَمۂ کنزُالعرفان:اے ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کردے اور ہمیں بخش دے، بیشک تو ہر چیز پر خوب قادر ہے۔ (پ28، التحریم: 8)



([1])ان آیات میں ”رَبَّنَا“ کا لفظ پانچ بار ہے، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کے والدِ محترم حضرت مفتی نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: پانچ بار ”یَارَبَّنَا“ کہنا بھی نہایت مؤثر ِاِجابت ہے (یعنی دعا کی قبولیت میں بہت اَثر رکھتا ہے)۔ قرآنِ مجید میں اس لفظ مبارک کو پانچ بار ذِکْر کر کے اس کے بعد ارشاد فرمایا: (فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ) تو ان کی دعا قبول کی اُن کے رب نے۔4، آل عمرٰن: 195) حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:جو شخص عجز کے وقت پانچ بار ”یَارَبَّنَا“ کہے، اللہ تعالیٰ اسے اس چیز سے جس کا خوف رکھتا ہے، امان بخشے اور جو چیز چاہتا ہے، عطا فرمائے پھر یہ آیتیں تلاوت کیں: (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا) اِلٰی قَوْلِہٖ تَعَالٰی: (اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ) (پ4، آل عمرٰن:191تا194، فضائلِ دعا، ص71)


(سلسلہ تحریر”تربیت و تفہیم سیرتِ مصطفےٰ کے آئینہ میں“ کی تیسری قسط میں ”حضور ﷺ  سے ہونے والے سوالات اور آپ کا اسوۂ جواب“ کے تعلق سے 10صورتیں بیان کی گئی تھیں، جن میں سے ساتویں قسم”سوال کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرنا“ ہے، آئیے! اس کی تفصیل جانتے ہیں)

(7)سوال کرنے والے کی حوصلہ افزائی کرنا

رسولِ مکرم ﷺ کی بارگاہ میں سوالات کئے جاتے تو آپ ﷺ کا جواباً اصلاح و تربیت فرمانے کا ایک بہت دل موہ لینے والا انداز ”سائل کی حوصلہ افزائی کرنا“ ظہورپذیر ہوتا، یوں کہہ لیجئے کہ اگر سائل آپ ﷺ کی شان و عظمت اور مقامِ نبوت کے پیشِ نظر جتنا بھی مرعوب ہوتا، آپ ﷺ کے لب ہائے مقدسہ سے سوال یا سائل کی حوصلہ افزائی کے کلمات سن کر طبیعت ہشاش بشاش ہوجاتی، آئیے حوصلہ افزائی فرمانے کے حوالے سے چند روایات اور نکات ملاحظہ کرتے ہیں:

حضور نبی رحمت ﷺ ایک ماہر صاحبِ حکمت اور رمزشناس معلمِ کامل ہیں، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اچّھے سوالات پر صحابۂ کرام کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کی: ”یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ مجھے ایسا عمل ارشاد فرمائیں جو مجھے جنّت میں داخل کردے!“ نبی کریم ﷺ نے(ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے)فرمایا:”بَخٍ بَخٍ لَقَدْ سَأَلْتَ عَنْ عَظِيمٍ وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللَّه یعنی شاباش! شاباش! بے شک تُو نے عظیم (چیز) کے بارے میں سوال کیا اور بِلاشبہ وہ اس شخص کیلئے آسان عمل ہے جس پر اللہ آسان کردے۔ فرض نماز پڑھو اور فرض زکوٰۃ ادا کردو۔“ (مسند ابی داؤد طیالسی، ص76، حدیث: 560)

رسولِ کریم ﷺ نے لفظ”بخ، بخ“ استعمال فرمایا، یہ لفظ کسی چیز کی تعریف اور اس کے بارے میں اظہار خوشی کے لیے استعمال کیا جا تا ہے اور اس کے معنی شاباش، بہت خوب، آفرین اوراس کے مترادفات سے کئے جاتے ہیں۔ امام ابنِ اثیر جزری لکھتے ہیں:یہ کلمہ مدح اور کسی چیز سے رضا مندی کے موقع پر بولا جاتاہے اور مبالغہ کے لئے مکرر (یعنی بار بار) بولا جاتاہے۔(النہایۃ فی غریب الاثر،جلد1، صفحہ101)

مزید یہ کہ رسولِ کریم ﷺ نے خوشی و تعریف کے اظہار کو مزید تقویت دینے کے لئے یہ لفظ دو بار ارشاد فرمایا۔

ایک مرتبہ حضرت سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی:”يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِكَ يَوْمَ القِيَامَةِ یا رسول اللہ! روزِ قیامت آپ کی شفاعت کی سعادت پانے کا سب سے زیادہ حق دار کون ہوگا؟“

جنابِ ابوہریرہ کے اس سوال پر رسولِ کریم ﷺ نے ان کے بارے میں اپنے حسن ظن اور حوصلہ افزائی کا کیا ہی خوب اظہار فرمایا، ارشاد فرمایا:”لَقَدْ ظَنَنْتُ، يَا أَبَا هُرَيْرَةَ، أَنْ لاَ يَسْأَلَنِي عَنْ هَذَا الحَدِيثِ أَحَدٌ أَوَّلُ مِنْكَ، لِمَا رَأَيْتُ مِنْ حِرْصِكَ عَلَى الحَدِيثِ۔ اے ابو ہریرہ! حدیث کے متعلق تمہاری حرص کے پیش نظر مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے اس کے متعلق مجھ سے کوئی دریافت نہ کرے گا۔

قارئین کرام!ربّ کعبہ کی قسم! ابوہریرہ کے نصیبوں پر قربان جانے کو دل کرتاہے، کیسے مقدروں والے ہیں کے جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ حرصِ طلبِ حدیث کا گمان رکھتے ہیں۔

پھر جواب دیتے ہوئے فرمایا: روز قیامت میری شفاعت کی سعادت کا سب سے زیادہ حق دار وہ ہوگا، جس نے سچے دل سے”لا إله إلا الله “ کہا ہوگا۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار، جلد4، صفحہ264، حدیث:6570)

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک اعرابی رسول اکرم ﷺ کی بارگاہ میں آیا اور سوال کیا:

عَلِّمْنِي عَمَلًا يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ

مجھے ايسا عمل سكھا دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کردے۔

رسول کریم ﷺ نے( اس اعرابی کی حوصلہ افزائی فرمائی اور سوال کی تعریف کرتے ہوئے) فرمایا:

لَئِنْ كُنْتَ أَقَصَرْتَ الْخُطْبَةَ لَقَدْ أَعْرَضْتَ الْمَسْأَلَةَ

تم نے بات تو اگرچہ مختصر کی ہے لیکن سوال بہت بڑا پوچھا ہے۔

پھر فرمایا: أَعْتِقِ النَّسَمَةَ، وَفُكَّ الرَّقَبَةَجان آزادکرو اور گردن چھڑاؤ۔

اس نے عرض کی : کیا یہ دونوں ایک ہی نہیں؟

آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، جان آزاد کرنا یہ ہے کہ تو تنہا اس کو آزاد کرے اور گردن چھڑانا یہ ہے کہ اس کی قیمت کی ادائیگی میں معاونت کرے اور زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی یا بکری عطیہ دو، ظالم قرابت دار سے بھی اچھا سلوک کرو، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو بھوکے کو کھلاؤ اور پیاسے کو پانی پلاؤ اور نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہوتو خیروبھلائی کی بات کے علاوہ اپنی زبان کوروکے رکھو۔(الآداب للبیہقی،باب فی اطعام الطعام و سقی الماء، صفحہ 32، رقم:88مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ)

سبحان اللہ!ایک چھوٹے سے سوال کے جواب میں حسن معاشرت اور فکر آخرت کے کیسے کیسے زریں اصول بیان فرمادئیے۔

سائل کی حوصلہ افزائی فرمانے کے حوالے سے ایک اور روایت حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

ایک سفر کے دوران رسولِ کریم ﷺ کے سامنے ایک اعرابی آگیا اور آپ کی سواری کی لگام تھام کر عرض کرنے لگا:یارسول اللہ! أَخْبِرْنِي بِمَا يُقَرِّبُنِي مِنَ الْجَنَّةِ، وَمَا يُبَاعِدُنِي مِنَ النَّارِ

مجھے وہ عمل بتادیجئے جو مجھے جنت سے قریب کر دے اور جہنم کی آگ سے دور کر دے؟

نبی کریم ﷺ نے اس اعرابی کے سوال پر قولی اور عملی دونوں طرح سے اس کی حوصلہ افزائی فرمائی چنانچہ آپ اس کی بات سن کر ایک لمحے کے لئے خاموش رہے، پھر اپنے صحابہ کرام کی جانب دیکھا اور پھر ارشاد فرمایا:

لَقَدْ وُفِّقَ، أَوْ لَقَدْ هُدِيَ

بلاشبہ اسے خیر کی توفیق ملی ہے یا اس کی رہنمائی کی گئی ہے۔

رسولِ کریم ﷺ نے اعرابی سے (سوال دہرانے کا فرماتے ہوئے)کہا: تم نے کیسے کہا؟ تو اس نے سوال دوبارہ عرض کیا۔

آپ ﷺ نے فرمایا:

تَعْبُدُ اللهَ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ

اللہ کی عبادت کرو اور کسی شے کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ، نماز قائم رکھو، زکوٰۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو۔

جواب دینے کے بعد فرمایا: دَعِ النَّاقَةَ

اب اونٹنی کو چھوڑ دو۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، صفحہ36، حدیث:104)

رسولِ کریم ﷺ کا اعرابی کا سوال سننا، پھر توقف فرمانا اور صحابہ کرام کی جانب دیکھنا اور پھر اس اعرابی کو ”توفیق دیاگیا“ فرمانا، یہ حوصلہ افزائی کے بڑے ہی پیارے انداز ہیں۔

(بقیہ آنے والی قسط میں )


(گزشتہ دو مضامین میں بارگاہِ رسالت میں ہونے والے سوالات کی4صورتوں کا ذکر ہوا، مزید چند صورتیں ملاحظہ کیجئے)

(5)کسی فضیلت، اجر یا مقام دلانے والے اعمال کے متعلق ہونے والے سوالات کا جواب دینا

رسولِ کریم ﷺ کی تشریف آوری کامقصد ہی مخلوقِ خدا کی رہنمائی اور تعلیمِ دینِ الٰہی تھا، اس لئے کوئی کیسا ہی سوال کرتاآپ جواب ارشاد فرماتے، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپ کی بارگاہ میں کسی خاص اجر، مقام یا رتبہ ذکر کیا جاتا اور پھر سوال کیا جاتا کہ یہ کس عمل سے مل سکتاہے؟ اس طرح کے سوالات کئی مواقع پر ہوئے، چنانچہ

حضرت سیّدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ

جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: عَلِّمْنِي أَوْ دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ قَالَ: «كُنْ مُؤَذِّنًا» قَالَ: لَا أَسْتَطِيعُ قَالَ: «كُنْ إِمَامًا» قَالَ: لَا أَسْتَطِيعُ قَالَ: «فَقُمْ بِإِزَاءِ الْإِمَامِ»

ایک شخص نے رسولِ مکرم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی:مجھے ایسا عمل سکھائیے یا ایسے عمل کی طرف میری رہنمائی کیجئے جو مجھے جنت میں پہنچادے ، ارشاد فرمایا: مؤذن بن جاؤ۔ اس نے عرض کیا: میں اس کی طاقت نہیں رکھتا،توارشاد فرمایا: امام بن جاؤ، اس نے عرض کیا:میں یہ بھی نہیں کرسکتا،تو فرمایا:پھر امام کے برابر میں کھڑے ہوا کرو۔ (المعجم الاوسط للطبرانی، باب المیم، من اسمہ محمد، جلد7، صفحہ363، حدیث:7737 دارالحرمین، القاھرۃ)

اسی طرح حضرت سیّدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :

قال رجلٌ: يا رسولَ الله، دُلَّني على عَمَل يَنفَعُني الله به، قال: «عَلَيْكَ بِرَكْعَتَيِ الفَجْرِ؛ فَإِنَّ فِيهِمَا فَضِيلَةً» .

ایک شخص نے عرض کی:یارسول اللہ!مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جس کے سبب اللہ کریم مجھے نفع عطا فرمائے، ارشاد فرمایا: فجر کی دو رکعات(یعنی سنتّوں ) کو لازم پکڑ لو کیونکہ ان میں بڑی فضیلت ہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی، مسند عبداللہ بن عمر، جلد13، صفحہ337، حدیث:14147)

جلیل القدر صحابی رسول کہ ذخیرۂ حدیث میں جن کی مرویات سب سے زیادہ ہیں یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہ میں عرض کی:

يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي إِذَا رَأَيْتُكَ طَابَتْ نَفْسِي وَقَرَّتْ عَيْنِي، فَأَنْبِئْنِي عَنْ كُلِّ شَيْءٍ. فَقَالَ: كُلُّ شَيْءٍ خُلِقَ مِنْ مَاءٍ قَالَ: قُلْتُ : أَنْبِئْنِي عَنْ أَمْرٍ إِذَا أَخَذْتُ بِهِ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ. قَالَ: أَفْشِ السَّلَامَ، وَأَطْعِمِ الطَّعَامَ، وَصِلِ الْأَرْحَامَ، وَقُمْ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ، ثُمَّ ادْخُلِ الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ

یارسولَ اللہ! جب میں آپ کو دیکھتا ہوں تو میرا دل ٹھنڈا ہوجاتاہے اور آنکھوں کو قرار آجاتاہے، آپ مجھے ہر چیز کے بارے میں بتائیے، ارشاد فرمایا: ہرچیز پانی سے پیدا کی گئی ہے، فرماتے ہیں میں نے عرض کی:مجھے ایسی چیز کے بارے میں رہنمائی فرمائیے کہ جسے میں تھام لوں تو جنت میں داخل ہوجاؤں، ارشاد فرمایا:”سلام عام کرو، کھانا کھلاؤ، صلہ رحمی کرو اور جب لوگ راتوں میں سو رہے ہوں تم قیام کرو یعنی بارگاہِ الٰہی میں نماز پڑھو، پس تم سلامتی کے ساتھ داخل جنت ہوجاؤ گے۔(مسند احمد، مسند المکثرین من الصحابۃ، مسند ابی ہریرۃ، جلد13، صفحہ314، حدیث:7932)

رہنمائے عالَم و معلّمِ اعظم ﷺ نے مختصر سے چار جملوں میں دینی و دنیوی فوائد کو محیط ایسے امور کو جمع فرمادیا ہے کہ صرف اہلِ اسلام ہی نہیں بلکہ غیر مسلم معاشرے بھی ان میں سے پہلے تین کی اہمیت کے معترف بلکہ ان پر اپنی اپنی طرز سے عامل بھی ہیں، ہر واقف و ناواقف کو سلام کرنا ، دوسروں کو کھانا کھلانا اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا یہ کسی بھی معاشرے، طبقے اور علاقے کی حسنِ معاشرت کے بنیادی قواعد و اصول ہیں جو رسولِ کریم ﷺ نے آج سے 14سو سال قبل ارشاد فرمادئیے۔

(6) یہ انسانی فطرت ہے کہ جو نعمت دوسروں کو ملتی ہے اس کی تمنا دل میں اٹھتی ہے، اس کے مختلف پہلو ہیں، دینِ اسلام اچھے پہلو کی حوصلہ افزائی اور برے پہلو کی مذمت کرتاہے، برا پہلو یہ کہ نعمت دوسرے سے چھن جائے اور ہمیں مل جائے، یہ حسد ہے جو کہ بہت مذموم ہے، جبکہ اچھا پہلو یہ ہے کہ دوسرے سے اس نعمت کے زوال کی تمنا نہ ہو اور اپنے لئے حصول کی تمنا ہو، چونکہ صحابہ کرام اور صحابیات علم اور اجرو ثواب کے بہت حریص تھے اس لئے وہ ایسے مواقع پر بھی سوالات کرتے تھے کہ جب رسولِ کریم ﷺ کسی ایک فرد یا طبقہ کو کسی عمل کا اجر و ثواب بتاتے تھے، چنانچہ ام المؤ منین حضرتِ سیدتنا مَیْمُونَہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ نے مردوں اور عورتوں کی صف کے درمیان کھڑے ہوکر فرمایا: اے خواتین کے گروہ! جب تم اس حبشی (یعنی حضرتِ سیدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کی اذان اور اقامت سنوتو جیسے یہ کہے تم بھی اسی طرح کہہ لیاکرو کیونکہ تمہارے لئے ایسا کرنے میں ہر حر ف کے بدلے میں دس لاکھ نیکیاں ہیں، (یہ سن کر ) حضرتِ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا:یہ فضیلت تو عورتوں کے لئے ہے مردوں کیلئے کیاہے؟ تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اے عمر!مردوں کیلئے اس سے دگنا ثواب ہے ۔ (المعجم الکبیرللطبرانی، مسند النساء، ازواج رسول اللہ ﷺ، میمونۃ بنت الحارث، جلد24، صفحہ16، حدیث:28)

اسی طرح عورتیں بھی مردوں کے لئے طرح طرح کی نیکیوں اور اجرو ثواب کا سن کر سرکار دوجہاں ﷺ سے سوال کرتی تھیں، چنانچہ

شعب الايمان میں ہے کہ رسولِ کریم ﷺ اپنے صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے کہ حضرت اسماء بنت یزید حاضرِ بارگاہ ہوئیں اور عرض کی:’’یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں آپ کے پاس خواتین کی ترجمان بن کر آئی ہوں، جہاں تک میری بات ہے یارسول اللہ! میری جان آپ پر قربان، البتہ مشرق ومغرب کی ہر عورت جو میرے آپ کے پاس حاضر ہونے کا سبب جانتی ہے یا نہیں مگر اس کا بھی وہی سوال ہے جو میں پوچھنے آئی ہوں۔ اللہ نے آپ کو مردوں اور عورتوں، سب کی طرف رسول برحق بنا کر بھیجا ہے اور ہم آپ پر اور آپ کو بھیجنے والے اللہ کریم پر ایمان لائی ہیں۔ ہم خواتین پردہ نشین ہو کر گھروں کی حد تک رہتی ہیں، مردوں کی جنسی ضرورتوں کو پوراکرتیں اور ان کے بچوں کو پالتی ہیں، جبکہ مَردوں کو ہم پر کئی طرح سے فضیلت دی گئی، وہ جمعہ، نماز باجماعت، نمازِ جنازہ، مریضوں کی عیادت اور پے درپے حج اورجہاد فی سبیل اللہ میں شریک ہوتے ہیں جبکہ ہم خواتین پیچھے ان کے اموال کی حفاظت اور بچوں کی پرورش کرتی اور کپڑے بُنتی ہیں، اب سوال یہ ہے کہ ان مَردوں کے ثواب میں سے کچھ حِصّہ ہم عورتوں کو بھی ملے گا یا نہیں؟

حضرت اسماء کا یہ سوال سن کر نبی کریم ﷺ صحابہ کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ’’کیا تم نے کبھی کسی عورت کو اس سے زیادہ اچھے طریقے سے اپنے دین کے متعلق سوال کرتے ہوئے سنا ہے؟’’ صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ! ہمارا تو گمان بھی نہیں کہ کوئی عورت اس جیسا سوال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوگی۔ پھر نبی کریم ﷺ حضرت اسماء کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’جاؤ اور اپنے پیچھے سب عورتوں کو بتادو کہ عورت کا اپنے شوہر کی اچھی بیوی بن کر رہنا اور اس کی خوشنودی چاہنا اور اس کے ساتھ ہم آہنگ رہنا ان سب اعمال میں اس کے ساتھ اجر وثواب میں برابری کا ذریعہ ہے۔ حضرت اسماء یہ سن کر خوشی سے نعرہ تکبیر بلند کرتی اور کلمہ طیبہ کی صدا لگاتی ہوئی وہاں سے لوٹیں۔ (الجامع لشعب الایمان، الشعب ستون، حقوق الاولاد والاھلین، جلد11، صفحہ177، حدیث:8369)

(بقیہ آنے والی قسط میں )