انسان جب مادیت
بھری زندگی،اس کی کثافتوں اور الجھنوں سے
تنگ آجاتا ہے………
اوراس کا دل عیش ونشاط سے بھرجاتا ہے……… توآخر کاروہ روحانیت،ذہنی سکون اوردل کے آرام کی تلاش وجستجومیں نکل کھڑا ہوتا ہے ……… روحانیت کیا ہے ؟………اس کی ضرورت واہمیت
کیا ہے؟………اورانسان کو اس کی تلاش کیوں ہے؟………آئیے !ان سوالات کے جوابات ڈھونڈتے ہیں۔
لفظ ”روحانیت“روح سے بنا ہے اور
روح کے معنی ہیں راحت ، سکون اور قرار لہٰذا
روحانیت کا مطلب بنے گا ایسا عمل جس سے سکون حاصل کیا جائے………اللہ تعالیٰ نے
جس طرح مادے کے ذریعے انسان کا ظاہری وجودبنایا ہے اسی طرح روح کے ذریعے ایک باطنی
وجود بھی تخلیق کیا ہے ……… انسان کا ظاہری وجود ہاتھ، پاؤں، چہرہ، جسم ، دل، گردے پھیپڑے اور دیگر اعضا پر مبنی ہے
جبکہ باطنی وجودایمان،نور،عقل،معرفت،غوروفکر،
جذبات ، احساسات، خوشی ، غمی، بے چینی اور سکون جیسی کیفیا ت پر مشتمل ہے………دنیا کے مذاہب
میں ہمیں روحانیت یعنی سکون حاصل کرنے کے جدا جدا طریقے نظر آتے ہیں جیسے کوئی یوگا کرتا ہے………کوئی مراقبہ
کرتا ہے………کوئی جنگلات وویرانوں میں پناہ ڈھونڈتا ہے ………کوئی غاروں کو اپنی آماجگاہ بناتا ہے………
کوئی پُرفضا مقامات کو مسکن بناتا ہے………اور کوئی دنیا کے شوروغل سے دُور سُنسان جگہوں کا متلاشی ہے الغرض مقصد سب کا
ایک ہے کہ اپنی روح کو سکون وچین پہنچایا
جائے ………مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر ایسا کرنے سے کامل
سکون حاصل نہیں ہوتا ………ان سب کے برعکس ہم جب اسلام کے تصور روحانیت پر
غور کرتے ہیں تو ہمیں ایک کامل تسکین دینے والا نظام نظر آتا ہے ۔چنانچہ،
اسلام میں روحانیت کامطلب اپنے خالق ومالک کا قرب ہے ……… پہلے
بتایا جاچکا کہ انسان کے دو پہلو ہیں ایک مادی اور دوسرا روحانی ………مادی پہلو کا تعلق دنیا سے اور روحانی پہلو کا تعلق اللہ پاک سے ہے………انسان کے روحانی اور مادی پہلو ایک دوسرے کے ساتھ
جنگ میں ہیں……… اگر انسان نے خدا
کی قربت حاصل کرنی ہے تو اسے اپنے مادی پہلو کو کچلنا ہو گا……… پس اگر انسان اپنے مادی پہلو کو کچلنے میں کامیاب
ہو گیا تو وہ قرب الٰہی کو پا لے گا……… اور اگر وہ ا پنے مادی پہلو کو کچلنے میں
ناکام رہا تو راہِ خدا سے بھٹک جائے گا………پھر یہ کہ جوبندہ
رب کریم کے جتنا قریب ہوتا ہے وہ اتنی ہی
بڑی روحانی شخصیت کا مالک بن جاتا ہے ………ہمارے پیارے دین میں قرب الٰہی پانے کا مدار قرآن پاک اور سنت نبوی پر عمل کرنے میں ہے ……… کیونکہ اب پوری انسانیت کے پاس دینی وآسمانی علوم
کا سرچشمہ صرف قرآن کریم ہے اوران علوم کی کامل تشریح وتوضیح حضور خاتم الانبیاء ﷺ کا قول وعمل ہے………آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
” تَرَكْتُ فِيْكُمْ
أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِیِّہٖترجمہ:میں نے تم میں دو چیزیں
چھوڑیں ہیں جب تک انہیں تھامے رکھو گے گمراہ نہیں ہوگے ،اللہ تعالیٰ کی کتاب اور
اس کے رسول کی سنت۔“ (موطاامام
مالک،حدیث:1594)
ایک مشہور حدیث قدسی ہے جس میں
قربِِ الہٰی یعنی اسلامی روحانیت پانے کا راز کھول کر بیان کیا گیا ہے اسے یہاں بیان کرنا فائدے سے خالی نہ
ہوگا۔حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:میرا بندہ فرائض کی
ادائیگی کے ذریعے جتنا میراقرب حاصل کرتا ہے اس کی مثل کسی دوسرے عمل سے حاصل نہیں
کرتا(ایک روایت میں یوں ہے: میرابندہ
کسی ایسی شئے سے میراقرب نہیں پاتاجوفرض کواداکرنے سے زیادہ پسندہو) اورمیرا بندہ نوافل(کی کثرت)سے میرے قریب ہوتارہتاہے یہاں تک کہ میں اس کو
اپنا محبوب بنالیتا ہوں اورجب میں اسے محبوب بنالیتاہوں تو میں اس کاکان بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ سنتا
ہے اور میں اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے
وہ دیکھتا ہے اور میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اورمیں اس کا
پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ۔اگروہ مجھ سے مانگے تو میں اسے ضروردیتا ہوں
اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں ۔‘‘(صحیح بخاری ،حدیث:6502)
حضرت امام ابوعبداللہ محمدبن
عمر المعروف امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ (وفات :606ھ) نے اس حدیث پاک کامعنی ومقصدیہ بیان
فرمایاہے کہ جب بندہ اپنے آپ کواللہ ربُّ العزت کے عشق ومحبت والی آگ میں
جلاکرفناکردیتاہے………نفسانیت وانانیت والازنگ اورمیل
کچیل دور ہو جاتا ہے………اورانوارِالہٰیہ سے اس کابدن
منورہوجاتاہے تووہ اللہ تعالیٰ کے انوارہی سے دیکھتا ہے………انہی
کی بدولت سنتاہے ………اس کابولناانہی انوارکے ذریعے
ہے ………اس کا چلنا ،پھرنااورپکڑنا،مارناانہی
سے ہوتاہے ………امام رازی کے الفاظ یہ ہیں: ’’اِذَاصَارَ نُوْرُ جَلَالِ اللّٰہِ لَہٗ سَمْعًا سَمِعَ ال ْقَرِیْبَ
وَالْبَعِیْدَ وَاِذَاصَارَنُوْرُجَلَالِ اللّٰہِ لَہٗ بَصَرًارَأَی الْقَرِیْبَ
وَالْبَعِیْدَ وَاِذَا صَارَذَالِکَ النُّوْرُیَدًالَہٗ قَدَرَعَلَی التَّصَرُّفِ
فِی الصَّعْبِ وَالسَّہْلِ وَالْقَرِیْبِ وَالْبَعِیْدِترجمہ:اللہ پاک کانورِجلال جب
بندۂ محبوب کے کان بن جاتاہے تووہ ہر آوازکوسن سکتاہے نزدیک ہویادور اور آنکھیں
نورِجلال سے منورہوجاتی ہیں تودورونزدیک کا فرق ختم ہوجاتاہے یعنی ہرگوشۂ کائنات
پیش نظرہوتاہے اورجب وہی نوربندہ کے ہاتھوں میں جلوہ گر ہوتا ہے توقریب وبعید اور
مشکل وآسان میں اسے تصرف کی قدرت حاصل ہوجاتی ہے۔‘‘( تفسیرکبیر، 7/436)
سچی بات ہے کہ اللہ رب العزت پر
ایمان رکھنے والا بندہ جتنا زیادہ اپنے رب کو یاد کرتا ہے………اس
کے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے اتنا زیادہ
روحانیت وسکون حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوۡبُہُمۡ
بِذِکْرِ اللہِ ؕاَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوۡبُ (پ13،الرعد:28)ترجمہ:وہ جو ایمان
لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔(کنزالایمان)
اور اللہ تعالیٰ کی یاد یعنی
ذکر الٰہی کی اعلی ترین قسم نماز ہے ۔جیسا
کہ فرمان الٰہی ہے:وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ
لِذِکْرِیۡ (پ16،طٰہٰ:20)ترجمہ: اور میری یاد
کے لئے نماز قائم رکھ۔(کنزالایمان)
روحانیت کوتفصیل کے ساتھ سمجھنے کے لیے ہمیں روحانیت کے درج ذیل تین پہلووں کو سمجھنا ہوگا:
پہلا پہلو :اپنی ذات کی معرفت ۔دوسرا پہلو:اللہ
تعالیٰ کی معرفت۔تیسرا پہلو:شخصیت کی تعمیر۔
پہلے اور دوسرے پہلو کا تعلق علم کے ساتھ ہے جبکہ تیسرے پہلو کا تعلق عمل کے
ساتھ ہے………معلوم ہوا کہ پہلے دونوں معرفتوں کا حصول ہو اور پھران معرفتوں کے نتائج
کو عملی شکل میں ڈھال کرانسان اپنی شخصیت
کی تعمیر کرے ……… لہذا انسان سب سے پہلے خود کوسمجھنے اور پہچاننے کی کوشش کرے تاکہ اُسے اپنے جذبات ، احساسات، خواہشات ، رغبتوں ، رحجانات ،
شخصی کمزوریوں اور اچھائیوں کا پتا چل سکے……… پھر وہ جس قدر جانتا چلا جاتا ہے اُسی قدر اپنی ذات اور باطنی وجود
کی معرفت وپہچان حاصل کرتا جاتا ہے………حضرت
یحیٰ بن معاذ رازی فرماتے ہیں : مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہُ ترجمہ:جس نے خود کو پہچان لیا اُس نے
اپنے رب تعالیٰ کو پہچان لیا۔(صواعق محرقہ،2/379)اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو اپنی ذات میں
پائی جانے والی ناتوانی وکمزوری اور کمی وکوتاہی کو پہچان لیتا ہے وہ یہ بھی جان لیتا ہے کہ اس کا کوئی رب
اور پالنے والا ہے جو کمال سے متصف ہے ،وہ ہر عیب سے پاک ہے اوراس کے سارے کام
درست ہیں۔
اپنی ذات کو سمجھنے اور پہچاننے کے
بعدروحانیت کا دوسرامرحلہ رب تعالیٰ کی
معرفت ہے………اسلام اس مرحلے پر سب سے پہلا
یہ درس دیتا ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی
ذات پر ایمان لائے ………پھراس کی صفات کا اقرار
کرے اور صفات کے ذریعے ہی بندے کو رب
تعالیٰ کی ایک حد تک معرفت حاصل ہوتی ہے………واضح
رہے کہ روحانیت کا یہ دوسرا پہلو ایک لحاظ سے پہلے پہلو سے جُڑا ہوا ہے………ان دونوں علمی پہلوؤں کے بعدبندہ روحانیت کے تیسرے پہلو کی طرف متوجہ ہوجائے ………اور
وہ ہے شخصیت کی تعمیرو تہذیب………جب انسان نے اپنی ذات اور باطنی وجود کوپہچان کررب
تعالیٰ کی یک گونہ معرفت حاصل کرلی اور زندگی کا مقصد واضح کرلیا تو اب
ایک ایسی شخصیت کو تعمیر کرنا ضروری ہوجاتا ہے جو ایسی تمام خرابیوں، بُرائیوں اوربداعمالیوں سے پاک ہو جن
کی وجہ سے بندہ بارگاہِ الٰہی میں درجہ
قبولیت پر فائز ہونے سے محروم رہ جاتا ہے
۔
اسلام نے اس مرحلے پربندے کے لیے عبادات و
اخلاقیات کا ایک سلسلہ رکھا ہے جس مِیں علم و عمل ساتھ ساتھ چلتے ہیں………ایک طرف عبادات جیسے نماز روزہ اور زکوٰۃ و حج کے ذریعے شخصیت کورب تعالیٰ سے جوڑا جاتا ہے تو دوسری جانب اخلاقیات اور حقوق العباد کی ادائیگی کے ذریعے مخلوق سے
اچھے تعلق کی بنیاد رکھی جاتی ہے……… الغرض
ان تین پہلووں کے لحاظ سے روحانیت کا مطلب یہ ہوا کہ بندہ پہلے اپنے ظاہروباطن کو
پہچانے………پھر رب تعالیٰ کی معرفت حاصل
کرے ………اورپھراس معرفت کی بنیاد پر
اپنی شخصیت کاتزکیہ وتصفیہ کرے ………یعنی اپنی شخصیت کو نکھارنے ، سنوارنے اور اُس کی
تعمیر کرنے کے لیے خود کو گناہوں اور بُرائیوں سے بچائے……… رب کریم کی اطاعت کرے ………اور حضوراکرم ﷺ کے اتباع میں
لگ جائے۔
اگر ہم صحابہ کرام ،تابعین عظام اور
اولیائے امت کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو واضح طور پر دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ان نفوس قدسیہ کی زندگیاں
روحانیت کے مذکورہ تینوں پہلوؤں کے گرد گھومتی نظر آئیں گی………یہ حضرات ساری عمرخود شناسی
،خدا شناسی اور تزکیہ نفس میں بسر کردیتے ہیں……… اسلامی تصوف کی بھی یہی
تعلیمات ہیں ………کہا جاسکتا ہے
کہ تصوف وطریقت روحانیت کے حصول کا ایک مکمل نصاب(Complete
Course)ہے
………تصوف کی اصطلاح میں جس شخصیت
کو مرشد(شیخ/پیر/رہبر /استاد)کہتے ہیں وہ اپنے مریدوں اورشاگردوں کو سب سے پہلے اپنے اندر جھانکنے کادرس دیتا……… تاکہ سب سے پہلے باطن میں پائی جانے والی
خرابیوں سے آگاہی ہو………دل میں پائی جانی والی
خواہشات،رغبتوں،میلانات وجذبات سے واقفیت حاصل ہو………اور
بندہ اپنی ذات میں پائی جانے والی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا اعتراف کرلے……… اوریوں روحانیت کا پہلا مرحلہ طے ہوجائے ………پھرکامل مرشد رب کریم کی ذات وصفات ، اُس کے کمالات اور
اُس ذاتِ وحدہ لاشریک سے تعلق رکھنے والے عقائد ونظریات کی تعلیم دیتا ہے ………اور بتدرج اپنے مرید کو رب
تعالیٰ کی شانوں سے آگاہ کرتا ہے تاکہ روحانیت کا دوسرا مرحلہ ذاتِ باری کی معرفت
کا حصول طے ہوسکے ……… اور بندہ قربِ
الٰہی کی منزلوں پر فائز ہوتا چلا جائے………اس کے بعد پیرومرشد انسان کی شخصیت کی تعمیر کی طرف متوجہ ہوتا ہے……… اور اسے نفس کُشی کے
طریقے سکھاتا……… ظاہروباطن کی
صفائی وپاکیزگی پر زور دیتا ہے ………اسلامی تعلیمات وشرعی احکامات پر عمل کے لیے ابھارتا ہے………خلق
خدا پر شفقت ونرمی کا درس دیتا ہے……… انسانیت
کی خدمت اوراُس کی فلاح وصلاح کی ضرورت سمجھاتا ہے………وہ اپنے مرید کے سامنے عاجزی وانکساری کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے………الغرض اسلامی روحانیت ( یعنی قرب الٰہی)پانے کے لیے کسی کامل مرشد کا مل جانا خدا تعالیٰ کی بڑی زبردست نعمت ہے۔
قرآن وسنت روحانیت کے مذکورہ تینوں پہلوؤں کو جابجا بیان کرتے نظر آتے ہیں………دعوتِ
توحید اور اقرار نبوت کے بعد حضرات انبیاء
کرام بھی انسانوں کو ان تینوں پہلوؤں سے روشناس کراتے رہے……… اور بندوں کو بتاتے رہے کہ معرفت نفس،معرفت الٰہی اور تزکیہ
نفس کرنے والے لوگ ہی دنیا وآخرت میں
کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں ………اور جو اس سے غفلت برتتے ہیں وہ دنیا میں تباہی اور
آخرت میں عذابِِ الٰہی کا شکار ہوجاتے ہیں ………محسن
انسانیت ، نبی رحمت ﷺ نے بھی اپنی امت کو یہ تعلیم دی ………اور
انہیں رب تعالیٰ تک پہنچانے والا سیدھا راستہ بتایا……… پس جولوگ اس شاہراہِ صراط مستقیم پر گامز ن ہوگئے وہ کامیاب
کہلائے……… قرآن پاک نے ان کے گُن گائے………زبانِ رسالت نے اُن کی سرخروئی
پر مہرتصدیق ثبت فرمائی………خلق
خدا نے اُن کی عظمتوں کا اعتراف کیا………دنیاو آخرت میں انہیں بشارتیں
دی گئیں ………اورکسی
کو صحابی،کسی کو تابعی اور کسی کو ولی اللہ کہا گیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ
یَحْزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾الَّذِیۡنَ
اٰمَنُوۡا وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی
الۡاٰخِرَۃِ ؕ لَا تَبْدِیۡلَ لِکَلِمٰتِ اللہِ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ
الْعَظِیۡمُ ﴿ؕ۶۴﴾ترجمہ :سن لو بیشک اللہ
کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں
انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور
آخرت میں اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔(کنزالایمان)
آگے چل کر بندوں کو روحانیت کے حصول……… اور قرب الٰہی پانے کے طریقوں……… اور راستوں سے آگاہ کرنے کے لیے یہ سلسلہ اُمت کے صوفیااور
اولیاکے ہاتھوں میں دیاگیا ………اور آج تک یہ مردانِ خدا اِس ذمہ داری کو بحسن وخوبی نبھا رہے ہیں ……… خلاصۂ کلام یہ ہے کہ بندہ نفسانیت،انانیت اور خواہشات کے بتوں کو پاش پاش کردے ……… عبادت،ریاضت اورفکرآخرت سے خودکو مزین کرے……… تقوی وپرہیزگاری کی سواری پر سوارہوجائے……… قربِِ الٰہی کی منزلوں تک
پہنچانے والے اعمال مسلسل بجالائے اور اولیاء کرام وعلماء عظام کا ہمنشین بن جائے
تو ایک وقت آئے گا جب وہ روحانیت سے سرفراز ہوجائے گا………ارشادِ ربانی
ہے:
وَالَّذِیۡنَ جٰہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمْ
سُبُلَنَا ؕ وَ اِنَّ اللہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿٪۶۹﴾(پ21،العنکبوت:69)ترجمہ :اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے اور
بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے۔(کنزالایمان)
رب کریم ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے کراپنے قرب سے نوازے اوراپنے
نیک بندوں کی صحبت ورفاقت عطا فرماکر روحانیت سے مالا مال کردے ۔ امین بجاہ طٰہٰ ویٰسین ﷺ
محمد آصف اقبال مدنی
کراچی،پاکستان
پیارے اسلامی بھائیو!دنیا دارُ العمل ہے، اس میں جو اعمال کریں گے
قیامت کے دن ان کا بدلہ ملےگا، نیک اعمال پر ثواب اور بُرے اعمال پر عذاب ہوگا، اپنی
زندگی نیک اعمال میں گزارنے والے خوش جبکہ غفلت یا کفر و شرک میں گزارنے والے
پریشان ہوں گے،وہاں ایک چھوٹی نیکی کی بڑی قدر ہوگی مگر کوئی کسی کو دینے کےلئے
تیار نہ ہوگا، بعض لوگ غفلت اور گناہوں میں زندگی گزارنے کی وجہ سے جبکہ بعض لوگ
کفر و شرک میں زندگی بسر کرنے کی وجہ سے حسرت کریں گے۔ آہ! آہ! اس وقت سوائے حسرت
کے کچھ ہاتھ نہ آئےگا، ان حسرت کرنے والوں میں سے بعض یہ تمنا کریں گے کہ کاش
فلاں کام یا فلاں نیکی کی ہوتی، یا فلاں کام نہ کیا ہوتا، بعض تو واپس دنیا میں
بھیجے جانے کی تمنا کریں گے، لیکن دوبارہ دنیا میں کسی کا آنا نہیں ہوسکے گا، ہماری
کامیابی اور ناکامی انہی اعمال پر منحصر ہوں گے جو ہم نے دنیا میں کئے تھے۔ قراٰنِ
کریم نے مختلف مقامات پر لوگوں کی حسرتوں کو مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے، آئیے
ذیل میں ان میں سے چند آیات تفسیر کے ساتھ پڑھتے ہیں:
(1)وَلَوْ تَرٰۤی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ
فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُکَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَنَکُوْنَ
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۲۷) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اور اگر آپ دیکھیں جب انہیں آگ پر کھڑا کیا جائے گا پھر یہ کہیں گے اے کاش
کہ ہمیں واپس بھیج دیا جائے اور ہم اپنے رب کی آیتیں نہ جھٹلائیں اور مسلمان ہوجائیں۔(پ7،الانعام:27)
تفسیر صِراطُ الجنان
میں ہے:اس آیت کا خلاصہ ہےکہ اگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافروں کی حالت دیکھیں
جب انہیں آگ پر کھڑا کیا جائے گا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بڑی
خوفناک حالت دیکھیں گے اور اس وقت کافر کہیں گے کہ اے کاش کہ کسی طرح ہمیں واپس دنیا
میں بھیج دیا جائے اور ہم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتیں نہ جھٹلائیں اور مسلمان ہوجائیں تاکہ اس ہولناک
عذاب سے بچ سکیں۔(صراط الجنان،3/89)
(2) وَیَوْمَ یَعَضُّ
الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا(۲۷) ترجَمۂ کنزُ العرفان: اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا ئے
گا، کہے گا: اے کاش کہ میں نے رسول کے ساتھ راستہ اختیار کیا ہوتا۔ (پ19، الفرقان:27)
تفسیر صراط الجنان
میں ہے : ارشاد
فرمایا کہ وہ وقت یاد کریں جس دن ظالم
حسرت و ندامت کی وجہ سے اپنے ہاتھوں پر
کاٹے گا اورکہے گا : اے کاش کہ میں نے
رسول کے ساتھ جنت و نجات کاراستہ اختیار کیا ہوتا، ان کی پیروی کیا کرتا اور ان کی
ہدایت کو قبول کیا ہوتا۔یہ حال اگرچہ کفار کے لئے عام ہے مگر عقبہ بن ابی معیط سے
اس کا خاص تعلق ہے۔ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ عقبہ بن ابی معیط اُبی بن خلف
کا گہرا دوست تھا، حضورسیّد المرسَلین صلَّی اللہ تعالی ٰ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
کے ارشاد فرمانے سے اُس نے لَا ٓاِلٰہَ
اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کی شہادت دی اور اس کے بعد اُبی بن خلف کے زور
ڈالنے سے پھر مُرتَد ہوگیا، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ تعالی ٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسے قتل ہوجانے
کی خبر دی، چنانچہ وہ بدر میں مارا گیا۔
اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ قیامت
کے دن اس کو انتہا درجہ کی حسرت و ندامت ہوگی اوراس حسرت میں وہ اپنے ہاتھوں کو کاٹنے لگے گا۔ (صراط الجنان،7/18)
(3) یٰوَیْلَتٰى
لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا(۲۸) لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ
لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا(۲۹) ترجَمۂ کنزُ العرفان: ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ بیشک اس نے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس
سے بہکا دیا اور شیطان انسان کو مصیبت کے وقت بے مدد چھوڑ دینے والا ہے ۔
(پ19، الفرقان:28،
29 )
تفسیرِ صراط الجنان
میں ہے: اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن کافر کہے
گا:ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتاجس نے مجھے
گمراہ کر دیا۔ بیشک اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس نصیحت یعنی قرآن
اور ایمان سے بہکا دیا اور شیطان کی فطرت ہی یہ ہے کہ وہ انسان کو مصیبت کے وقت بے
یارو مددگار چھوڑ دیتا ہے اور جب انسا ن پربلاو عذاب نازل ہوتا ہے تو اس وقت اس سے
علیحدگی اختیار کرلیتا ہے ۔(صراط الجنان،7/19)
(4)یوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ
یٰلَیْتَنَاۤ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا(۶۶) ترجَمۂ کنزُالعرفان: جس دن ان کے چہرے آگ میں باربارالٹے جائیں گے توکہتے ہوں
گے: ہائے!اے کاش! ہم نے اللہ کا حکم مانا ہوتا اور رسول کا حکم مانا ہوتا۔ (پ22، الاحزاب:66)
تفسیرِ صراط الجنان میں ہے : اس
سے پہلی آیت میں بیان ہو اکہ جہنم کی آگ
میں کافروں کا کوئی حمایتی اور مددگار نہ ہو گا اور ا س آیت
میں ان کے عذاب کی کیفیت بیان کی جا رہی
ہے کہ جس دن کافروں کے چہرے جہنم کی آگ میں بار بار الٹ پلٹ کئے جائیں گے اورآگ
میں جلنے کے باعث ان کے چہرے کی رنگت تبدیل ہورہی ہو گی تو اس وقت وہ انتہائی حسرت
کے ساتھ یہ کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے! اے کاش! ہم نے دنیا میں اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول علیہ السّلام کا حکم مانا ہوتا
تو آج ہم عذاب میں گرفتار نہ ہوتے۔ خیال رہے کہ جہنم میں کافروں کے پورے جسم پرعذاب ہوگا اور یہاں آیت میں چہرے کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ
چہرہ انسان کے جسم کاسب سے مکرم اورمُعَظَّم عُضْو ہوتا ہے اورجب ان کاچہرہ آگ میں باربارالٹ رہا ہوگا تو یہ ان کے لیے بہت زیادہ
ذلت اوررسوائی کاباعث ہوگا۔ (صراط الجنان،8/99)
(5)حَتّٰۤى اِذَا جَآءَنَا قَالَ یٰلَیْتَ بَیْنِیْ
وَبَیْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِیْنُ(۳۸) ترجَمۂ کنزُالعرفان: یہاں تک
کہ جب وہ کافر ہمارے پاس آئے گا تو(اپنے ساتھی شیطان سے )کہے گا: اے کاش! میرے اور
تیرے درمیان مشرق و مغرب کے برابر دوری ہوجائے تو (تُو) کتنا ہی برا ساتھی ہے۔(پ25،الزخرف:38)
تفسیر صراط الجنان میں ہے: یعنی قرآن سے منہ پھیرنے
والے کفار، شیطان کے ساتھی ہوں گے یہاں تک کہ جب قیامت کے دن ان میں سے ہر ایک
اپنے ساتھی شیطان کے ساتھ ہمارے پاس آئے گا تووہ شیطان کو مُخاطَب کر کے کہے
گا:اے میرے ساتھی! اے کاش! میرے اور تیرے درمیان اتنی دوری ہو جائے جتنی مشرق و
مغرب کے درمیان دوری ہے کہ جس طرح وہ اکٹھے نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ایک دوسرے کے
قریب ہو سکتے ہیں اسی طرح ہم بھی اکٹھے نہ ہوں اور نہ ہی ایک دوسرے کے قریب ہوں اورتو
میرا کتنا ہی برا ساتھی ہے۔(صراط الجنان،9/131، 132)
(6)وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِشِمَالِهٖ فَیَقُوْلُ
یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِیَهْۚ(۲۵) وَ لَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَهْۚ(۲۶)
یٰلَیْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِیَةَۚ(۲۷) مَاۤ اَغْنٰى عَنِّیْ مَالِیَهْۚ(۲۸) هَلَكَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَهْۚ(۲۹) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اور رہا وہ جسے اس کانامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا
جائے گا تو وہ کہے گا: اے کاش کہ مجھے میرا نامہ اعمال نہ دیا جاتا۔ اور میں نہ
جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔اے کاش کہ دنیا کی موت ہی (میرا کام) تمام کردینے والی
ہوجاتی۔(پ29، الحاقہ:25تا29)
تفسیر صراط الجنان
میں ہے: سعادت مندوں کا
حال بیان کرنے کے بعد اب بد بختوں کا حال
بیان کیاجا رہا ہے ، چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی چار آیات کا خلاصہ یہ ہے
کہ جس کا نامۂ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ جب اپنے نامۂ اعمال کو
دیکھے گا اور اس میں اپنے برے اعمال لکھے ہوئے پائے گا تو شرمندہ و رُسوا ہو کر
کہے گا: اے کاش کہ مجھے میرا نامۂ اعمال نہ دیا جاتا اور میں نہ جانتا کہ میرا
حساب کیا ہے۔ اے کاش کہ دنیا کی موت ہی ہمیشہ کیلئے میری زندگی ختم کردیتی اور
مجھے حساب کیلئے نہ اُٹھایا جاتا اور اپنا اعمال نامہ پڑھتے وقت مجھے یہ ذلت و
رسوائی پیش نہ آتی۔(صراط الجنان،10/326، 327)
(7)اِنَّاۤ اَنْذَرْنٰكُمْ عَذَابًا قَرِیْبًا
یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُ وَیَقُوْلُ الْكٰفِرُ
یٰلَیْتَنِیْ كُنْتُ تُرٰبًا۠ (۴۰) ترجَمۂ کنزُالعرفان: بیشک
ہم تمہیں ایک قریب آئے ہوئے عذاب سے ڈراچکے جس دن آدمی وہ دیکھے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور کافر کہے گا: اے کاش کہ میں کسی
طرح مٹی ہوجاتا۔(پ30، النباء:40)
تفسیر صراط الجنان
میں ہے: ارشاد فرمایا کہ اے کفارِ مکہ ! ہم دنیا میں تمہیں اپنی آیات کے ذریعے قیامت کے دن کے عذاب سے ڈرا چکے ہیں جو کہ قریب آ گیا ہے اور یہ عذاب اس دن ہو گا
جس دن ہر شخص اپنے تمام اچھے برے اعمال اپنے نامۂ اعمال میں لکھے ہوئے دیکھے گا اور کافر کہے گا: اے کاش کہ
میں کسی طرح مٹی ہوجاتا تاکہ عذاب سے
محفوظ رہتا۔کافر یہ تمنا کب کرے گا اس کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن
عمر رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن جب جانوروں اور چوپایوں کو اٹھایا جائے گا اور انہیں ایک
دوسرے سے بدلہ دلایا جائے گا یہاں تک کہ
اگر سینگ والے نے بے سینگ والے کو مارا ہوگا تو اُسے بھی بدلہ دلایا جائے گا، اس
کے بعد وہ سب خاک کردیئے جائیں گے ،یہ دیکھ
کر کافر تمناکرے گا کہ کاش! میں بھی ان کی
طرح خاک کردیا جاتا ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ جب مومنین پر اللہ تعالیٰ انعام
فرمائے گا تو ان نعامات کو دیکھ کر کافر تمنا کرے گا کہ کاش !وہ دنیا میں خاک ہوتا یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت
کے معاملے میں عاجزی اورتواضع کرنے
والاہوتا متکبر اورسرکش نہ ہوتا ۔ایک قول یہ بھی ہے کہ کافر سے مراد ابلیس ہے جس
نے حضرت آدم علیہ الصّلوٰۃ و السّلام پر یہ اعتراض کیا
تھا کہ وہ مٹی سے پیدا کئے گئے اور اپنے آگ سے پیدا کئے جانے پر فخر کیا تھا۔ جب
وہ قیامت کے دن حضرت آدم علیہ الصّلوٰۃ و السّلام اور اُن کی ایماندار اولاد کے ثواب کو دیکھے گا اوراپنے
آپ کو عذاب کی شدت میں مبتلا پائے گا تو
کہے گا: کاش! میں مٹی ہوتا یعنی حضرت آدم علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی طرح مٹی سے پیدا
کیا ہوا ہوتا۔(صراط الجنان، 10/520)
(8)وَجِایْٓءَ یَوْمَىٕذٍۭ بِجَهَنَّمَ یَوْمَىٕذٍ یَّتَذَكَّرُ
الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰىؕ(۲۳) یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ
لِحَیَاتِیْۚ(۲۴) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اور اس دن جہنم لائی جائے گی، اس دن آدمی سوچے گا اور اب اس کے لئے سوچنے
کا وقت کہاں؟ وہ کہے گا: اے کاش کہ میں نے اپنی زندگی میں (کوئی نیکی) آگے بھیجی
ہوتی۔(پ30، الفجر:23، 24)
تفسیر ِصراط الجنان میں دوسری
آیت کے تحت لکھا ہے کہ قیامت کے دن آدمی کہے گا کہ اے کاش! میں نے اپنی زندگی
میں کوئی نیکی آگے بھیجی ہوتی۔یہاں زندگی سے مراد یا دنیوی زندگی ہے یا اُخروی
زندگی، پہلی صورت میں آیت کا مطلب یہ ہے کہ کاش میں دُنْیَوی زندگی میں کچھ
نیکیاں کما کر آگے بھیج دیتا۔ دوسری صورت میں مطلب یہ ہے کہ کاش میں نے اس دائمی
زندگی کے لئے کچھ بھیج دیا ہو تا، ساری عمر فانی زندگی کے لئے کمائی کی اور خدا کو
یاد نہ کیا۔ کفار کے لئے یہ پچھتانا بھی عذاب ہو گا، دنیا میں نیکو کار مومن کا
نادم ہونا درجات کی ترقی کا سبب ہے اورگنہگار مومن کا پچھتانا توبہ ہے مگر کافر کا
قیامت میں پچھتانا محض عذاب ہے۔(صراط الجنان،10/673)
پنجہ شریف (1) نزدمٹھہ ٹوانہ (2) ضلع خوشاب(3) کاملک اعوان (4) قاضی خاندان عرصہ درازسے دین متین کی خدمت میں مصروف ہے، انیس
صدی عیسوی میں اس کے سربراہ حضرت مولانا حافظ
قاضی محمد عبدالحکیم قادری صاحب تھے جو اپنےوقت کے بہترین حافظ قرآن
،جیدعالم دین،حسن ظاہری وباطنی کے پیکر اورعلم وعمل کے جامع تھے ، اللہ پاک نےانہیں بیٹے کی نعمت سے نوازا، اکلوتاہونے کی وجہ سے ماں باپ اس بچے سے بہت محبت کرتے تھے،انھوں نے اس کی
تربیت اس اندازمیں کی کہ یہ بچپن سے حصولِ علم میں مگن رہتا تھا، ابتدائی عمرمیں
ہی حفظ قرآن کی سعادت پائی،اب یہ حافظ صاحب کے معززلقب سے پکارا جانے لگا،حافظ
صاحب نے درسِ نظامی کی ابتدائی کتب اپنے والدگرامی سے پڑھیں،ان کا شوق علم اتنا بڑھا کہ انھوں نے دیگرشہروں میں
جاکر نامورعلماسےپڑھنے کا فیصلہ کیا،ایک دن اپنےوالد گرامی کی خدمت میں
حاضرہوکربصداحترام بیرون شہرجانے کی اجازت
مانگی ،والدگرامی چونکہ علم کی گہرائی کوجانتے تھے اورسفرکے فوائدسے بھی واقف تھے چنانچہ انھوں نےاپنے اکلوتے اورفرمانبرداربیٹے
کو اجازت دے دی۔
حافظ صاحب نے
مختلف شہروں میں حاضرہوکرخوب علم دین حاصل کیا ، دوران تعلیم
ان کے ذہن میں عقیدہ ومعمولات اہل سنت کے بارے میں کچھ اشکا ل پیداہوگئے،کچھ عرصہ کےبعدگھرلوٹے
تووالدمحترم کی خدمت میں ان اشکال کو بیان کیا،انھوں نےجواب دیا مگران کی تشفی نہ
ہوئی ،آپ کےوالد مولانا محمدعبدالحکیم قادری صاحب اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃاللہ
علیہ(5) کے
بارے میں جانتے تھے کہ یہ اِس وقت علماومشائخ اہل سنت کی قیادت فرمارہےہیں اوردرجہ
مجددیت پر فائز ہیں ، عقیدہ
ومعمولات اہل سنت کی ترویج واشاعت کے سبب نہ صرف ہند بلکہ عالم اسلام میں مشہورہیں
۔ چنانچہ دونوں باپ بیٹانےباہم طے کیا کہ
ہم اعلیٰ حضرت سے ملاقات وزیارت کے لیے بریلی شریف (6) کاسفرکرتے
ہیں ۔ یہ اپنےگاؤں پنجہ شریف (نزدمٹھہ ٹوانہ ضلع خوشاب)سے 1328ھ مطابق 1910ء میں عازم بریلی ہوئے ،تقریبا 926کلومیٹرسفرکی
صوبتیں برداشت کرتے ہوئے بریلی شریف پہنچے۔حسن اتفاق سے اعلیٰ حضرت اس وقت
دارالعلوم منظراسلام (7) کے
طلبہ کو درس دےرہےتھے اورموضوع بھی وہی تھاجس کی وجہ سے ان باپ بیٹے نے سفرکیا
تھا،اعلیٰ حضرت جیسے جیسے گفتگوفرماتے گئے ، اشکال دورہوتے گئے ،درس کے اختتام تک حافظ صاحب نےفیصلہ کرلیاکہ میں مرید بنوں گا تو اعلیٰ حضرت
کا بنوں گا،بعددرس ان دونوں کی اعلیٰ حضرت سےملاقات ہوئی ،اعلیٰ حضرت علماوطلبہ
سےبہت محبت کرتے تھے،جب آپ کو معلوم ہواکہ یہ شمال مغربی پنجاب سے سفرکرکےبریلی
پہنچے ہیں تو اعلیٰ حضرت نے مزید ان کا اکرام فرمایا،بعدمصافحہ اعلیٰ حضرت نے
پوچھا:مولانا! کیسےتشریف لائے ،برجستہ عرض کیاحضور!بیعت کرناچاہتاہوں ،فرمایا،کیاپڑھےہوئےہو؟حافظ صاحب نے جوابااپنی تعلیم کی تفصیلات بیان کیں،اعلیٰ
حضرت نے حوصلہ افزائی فرمائی اورمزیدپڑھنےکےلیے دارالعلوم منظراسلام میں داخلہ
لینے کا حکم ارشادفرمایا۔(8) یہ دوسال وہاں رہے(9)
اوراعلیٰ حضرت سے خوب استفادہ کیاحتی کہ اعلیٰ حضرت نےانہیں سلسلہ قادریہ رضویہ میں خلافت سے بھی
نوازدیا ۔(10) شوقِ علم سے سرشاران عالم دین کا اسم گرامی
حضرت مولاناباباجی قاضی حافظ محمدعبدالغفورقادری رضوی ہے ۔ان کے بارے میں اب تک جومعلومات حاصل ہوسکی
،وہ بیان کی جاتی ہیں :
قاضی خاندن کا تعارف:قاضی
خاندان کا تعلق وادی سون سکیسر(11) کے
گاؤں چِٹّہ (12) سے ہے ،ان کےآباواجدادوہاں سے
مٹھہ ٹوانہ میں منتقل ہوئے ، قاضی خاندان کے
جدامجدحافظ عطامحمدصاحب کی لائق گاشت زمین مٹھہ ٹوانہ (ضلع خوشاب) سے تقریبا چھ
سات کلومیٹرکےفاصلے پر پہاڑکے
دامن میں تھی جس میں یہ کھیتی باڑی کیاکرتے تھے ، یہ اپنے بیلوں کے ہمراہ زمین پر جاتے آتے تلاوت قرآن میں مصروف رہتے تھے ،مشہوریہ ہے روزانہ ایک ختم قرآن کی سعادت پایا
کرتے تھے ،ان کے تین بیٹے اورایک بیٹی تھی:
(1)بڑے بیٹے قاضی
فیروزدین تھے ، جوچک 58ضلع سرگودھا میں زمین داری کیا کرتےتھے،ان
کا ایک بیٹاقاضی شعیب الدین تھا،جو جوانی
میں فوت ہوا۔
(2) دوسرے بیٹے مولانا حافظ قاضی عبدالحکیم
قادری تھے ،(13) جوکہ علامہ عبدالغفورقادری کے والدگرامی ہیں۔
(3)تیسرےبیٹے قاضی مظفردین تھے ،یہ عالم دین
تھے اورآرمی میں خطیب رہے ،ان کے بیٹےمولانا قاضی ضیاء الدین صاحب بھی عالم دین
اورآرمی میں خطیب تھے ،ان دونوں باپ بیٹا کا انتقال مٹھہ ٹوانہ میں ہوا،مولانا
قاضی ضیاء الدین صاحب کے بیٹےمولانا قاضی عبدالقیوم صاحب ہیں ، ابھی یہ چندسال کے تھے کہ والدصاحب کا انتقال ہوگیا ،باباجی
علامہ عبدالغفورصاحب نےانہیں مٹھہ ٹوانہ سے پنجہ شریف میں بُلالیا ، انکی پرورش مٹھہ ٹوانہ میں ہوئی ،انھوں نے باباجی سے
ہی علم دین حاصل کیا ، باباجی کےانتقال کےبعد یہ جامع مسجدابھاروالی کے امام وخطیب
مقررہوئے ، 1410ھ /1990ءمیں آپ کا وصال پنجہ شریف میں ہوا،آبائی
قبرستان میں تدفین ہوئی ۔مولاناقاضی عبدالقیوم قادری صاحب کے بیٹے مولانا قاضی زین العابدین قادری صاحب تھے جوجامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ بھکھی شریف(14) کے فارغ التحصیل تھے ۔ان کاوصال یکم رمضان1434ھ/9جولائی 2013ء میں پنجہ شریف میں ہوا،والدکے
قبرکےقریب تدفین ہوئی ۔
(4)ایک بیٹی تھیں جن کا نکا ح قاضی شیرمحمدقادری بن قاضی پیرمحمدقادری صاحب
سے ہوا ،ان کے بیٹے عارف باللہ حضرت قاضی
محمددین قادری (15) تھے جو کہ علامہ عبدالغفورصاحب کے
شاگرداوربیٹی کے سسرتھے ۔ (16)
پیدائش: خلیفۂ اعلیٰ
حضرت ،عالم باعمل حضرت علامہ قاضی باباجی حافظ محمدعبدالغفورقادری رضوی رحمۃ اللہ
علیہ کی ولا د ت باسعادت 1293ھ
مطابق 1886ء پنجہ شریف
(نزدمٹھہ ٹواناضلع خوشاب پنجاب)پاکستان میں ہوئی۔(17)
والدین کا تذکرہ :آپ
کے والدگرامی حضرت مولانا حافظ قاری قاضی عبدالحکیم قادری صاحب کی ولادت 1856ء /1272ءمیں ہوئی اور1941ء /1360ءمیں 85سال کی عمرمیں وصال فرمایا،پنجہ
شریف قبرستان میں تدفین ہوئی ،آپ جیدعالم
دین ،مضبوط حافظ قرآن اورآرمی میں خطیب تھے ،فوج سے سبکدوش کے ہونے کے بعدکھیتی
باڑی کیا کرتے تھے ،آپ عالم باعمل اورقصیدۂ غوثیہ کے عامل تھے ۔ ابتدائی عمرمیں
بوجوہ مٹھہ ٹوانہ سے اپنے ایک رشتہ دارقاضی شیرمحمدقادری کے ہمراہ پنچہ شریف منتقل ہوگئے تھے۔ (18) آپ کی والدہ
محترمہ حضرت فیض بی صالحہ خاتون تھیں ،جو مٹھہ ٹوانہ کےعالم دین حضرت
مولانا قاضی شیخ احمدصاحب کی بیٹی اور اس
زمانے میں مٹھہ ٹوانہ کی واحدجامع
مسجدقاضایاں والی کے امام وخطیب
مولاناقاضی فضل احمد صاحب کی بہن تھیں ۔(19)
تعلیم وتربیت:آپ کی ابتدائی تعلیم وتربیت والدگرامی حضرت
مولاناقاضی قاری حافظ محمدعبدالحکیم قادری صاحب کے ہاں ہوئی، مزیدتعلیم مختلف شہروں میں حاصل کی ،دوران
تعلیم آپ کے ذہن میں عقیدہ ومعمولات اہل سنت کے بارے میں کچھ اشکا ل پیداہوگئے۔ آپ
کے والدگرامی 1328ھ / 1910ء میں آپ کو بریلی شریف (یوپی ہند) اعلیٰ حضرت
امام احمدرضا کی بارگاہ میں لے گئے ۔آپ کی صحبت وزیارت کی برکت سے سارے شکوک
وشبہات دورہوگئے اوراعلیٰ حضرت کے علم وتقویٰ سے اس قدرمتاثرہوئے کہ سلسلہ عالیہ
قادریہ میں آپ کے دست اقدس پر بیعت کرلی ،مزیدعلم دین کے حصول کے لیے دارالعلوم (مدرسہ
اہل سنت وجماعت)منظراسلام بریلی شریف میں داخلہ لے لیا۔(20)
بریلی شریف میں آپ کا قیام : 1328ھ/1910ء سے 1330ھ/1912ء دوسال علامہ عبدالغفورقادری صاحب نے بریلی شریف میں
گزارا،اس وقت کے دارالعلوم کے اساتذہ ،اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان ، حجۃ الاسلام
حامدرضا خان(21) ، صدرالشریعہ
مفتی امجدعلی اعظمی (22) ،مفتی اعظم ہندمولانا مصطفی رضا خان (23) اورعلامہ
سیدبشیراحمدشاہ علی گڑھی (24) رحمۃا
للہ علیہم سے استفادہ کرنے کی سعادت پائی ۔(25)اس دوران
دارالعلوم منظراسلام کےتین سالانہ جلسے ہوئے ،قرین قیاس یہی ہے کہ آپ نےان تینوں میں شرکت کی ہوگی،دارالعلوم
منظراسلام کا نواں سالانہ جلسہ بتاریخ 27،28،29ذیقعدہ1330ھ مطابق8، 9،10نومبر1912ءبروزجمعہ ،ہفتہ اوراتواربریلی شریف کی مرکزی جامع مسجد بی بی جی صاحبہ(محلہ
بہاری پور،بریلی) (26) میں
منعقدہوا،غالبااس میں آپ کی دستاربندی ہوئی اوریوں فاضل دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف کا
شرف پایا ۔(27) 1328ھ تا1330ھ تک جو طلبہ پڑھتے تھے ان میں محدث اعظم بہارحضرت
مولانااحسان علی محدث مظفرپوری(28) حضر ت مولانا محمدطاہر رضوی(29) ،حضرت مولاناعبدالرشیدرضوی(30) اورمولانا عبدالرحیم رضوی(31)وغیرہ شامل ہیں۔(32)
سلسلہ قادریہ کی خلافت :آپ کے
والدگرامی علامہ قاضی عبدالحکیم قادری صاحب کے شیخ طریقت حضرت سیدنا پیرعبدالرحمن
قادری ملتانی (33) رحمۃا للہ علیہ کے اشارہ غیبی پر اعلیٰ حضرت
امام احمدرضا نے آپ کو سلسلہ قادریہ رضویہ کی خلافت عطافرمائی۔6ذیقعدۃ
الحرام 1330ھ / 17،اکتوبر1912ء
کوسندتکمیل کےساتھ سند اجازت دی گئی ، اعلیٰ حضرت نے آپ کے نام کے ساتھ یہ القابات
تحریر فرمائے:برادریقینی،صالح سعید،مفلح رشید،فاضل حمید،حسن الشمائل، محمودالخصائل،
راغب الی اللہ ،الغفورالشکور قاری حافظ مولوی محمد عبد الغفور ابن مولوی حافظ قاری
محمدعبدالحکیم شاہ پوری نوربالنور المعنوی،الصوری ۔ان القابات سے آپ کی شخصیت کی
عکاسی ہوتی ہے۔(34)
اسنادکی معلومات :ماہررضویت
پروفیسرڈاکٹرمسعوداحمدمجددی صاحب (35) تحریرفرماتے ہیں : امام احمدرضا کے تلامذہ
اورخلفاء پاک وہند کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں، 1990ء
سکھرسندھ میں قیام کےدوران محترم مولانا حافظ محمدرفیق
صاحب قادری(36) زیدعنایتہ
(مہتمم جامعہ انوارمصطفی سکھر)نے فرمایاکہ ایک دستاویزاِن کے
علم میں بھی ہے جوان کے استادگرامی مولانا عبدالغفورعلیہ الرحمہ کے گھرانے میں
محفوظ ہے ۔تلاش کرکےمہیاکرنے کا وعدہ فرمایا،پھر24جون
1992ءکو یہ وعدہ
پوراہوااورموصوف کے صاحبزادے برادرم مفتی محمدعارف سعیدی(37) زیدمجدہ
اورمکرمی مفتی محمدابراہیم قادری(38) زیدعنایتہ دستاویزلےکرغریب خانے پر
تشریف لائےاوراس کے عکس عنایت فرمائے ۔ دستاویزکےمطالعہ کے بعدمعلوم ہواکہ یہ
دوسندیں ہیں جن کاتعلق پاکستان کےمولانامحمدعبدالغفورشاہ پوری سے ہے۔ایک سندتکمیل
ہےاوردوسری سندخلافت واجازت ہے۔اس سندکے ساتھ تیسری سندحدیث ہےجو مولوی
بشیراحمدصاحب نے عنایت کی آخرمیں حجۃ الاسلام مولاناحامدرضا خاں صاحب نے ان الفاظ
کےساتھ دستخظ فرمائے ہیں :واناذالک من الشاہدین ۔،یہ
اسناد،ادارہ تحقیقات امام احمدرضا (39)
نے اپنے سالنامہ معارف رضا،شمارہ 1413ھ/1992ء میں
شائع کردیا ہے ۔ (40)
شادی واولاد:آپ کی شادی اپنی فیملی کی ایک نیک
خاتون سَیدبی بی سے ہوئی ،انھوں نے بعدشادی آپ سے ہی علم دین حاصل کی ، تصوف کی
تعلیم پائی ، مکمل ترجمہ قرآن کنزالایمان اورتفسیرخزائن العرفان باباجی سے پڑھا
،عالمہ فاضلہ اورصالحہ خاتون تھیں ۔(41) اللہ پاک نے آپ کوچاندسی بیٹی خدیجہ بی
بی عطافرمائی ، جس کی آپ نے بہترین تربیت فرمائی ،انھوں نےاپنےوالدووالدہ سےعلم
دین حاصل کیا ،اپنےوالدین کی طرح یہ بھی نہایت عبادت گزار،نیک اورزہدوتقویٰ میں
باکمال تھیں ،یہ خواتین کو تعویذات دیا کرتی ،بیمارخواتین اوران کے بچوں کو دم کیا
کرتی تھیں ،یہ مستجاب الدعوات تھیں ،ان کی خدمت میں
عورتوں کا بہت رجوع تھا ،دوردراز سے
خواتین آتی ،دعائیں کرواتیں ،دم کرواتی ،تعویذلیتی اوردل کی مرادیں پاتی تھیں ،باباجی
علامہ عبدالغفورقادری صاحب نے ان کی شادی
اپنے پھوپھی زادبھائی اورشاگردعارف باللہ حافظ قاضی محمددین قادری صاحب (42) کے صاحبزادے امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ (پنجہ
شریف )حضرت
مولانا قاضی عبدالرحمن قادری صاحب (43)
سے کی ۔جامعہ مسجدرحمانیہ کے موجودہ امام وخطیب قاضی الحاج حبیب الرحمن صاحب آپ کے
بیٹےا ورجانشین ہیں ۔(44)اس
مضمون میں قاضی حبیب الرحمن صاحب نے بہت مددفرمائی ،اللہ پاک انہیں
بہترجزاعطارفرمائے۔
ذریعہ آمدن :علامہ عبدالغفورقادری صاحب
جیدعالم دین ہونے کے ساتھ بہت بڑے زمینداربھی تھے ،پنجہ شریف میں آپ کے پاس 33،ایکڑ،تھل (45) میں ایک سوایکڑ،بارانی علاقے میں 15
،ایکڑ اور ساہیوال (46) میں
35،ایکڑزمین تھی ،پنجہ شریف کی زمین آپ خود کاشت
کرتے تھے اوربقیہ زمینیں آپ نے مزارعت پر
دی ہوئی تھیں، مزارع حضرات کو آپ کی طرف سے سخت تاکیدتھی کہ دیگرلوگوں کی زمینوں
سے ایک فٹ فاصلہ رکھ کرفصل گاشت کی جائے ،آپ کے تقوےکا یہ عالم تھاکہ اگرآپ کوشک
گزرتاہے کہ کہیں مزارع نے اس بات کو پیش نظرنہیں رکھا تو اس خوف سے کہ کہیں کسی کے
کچھ دانے ہماری طرف نہ آگئے ہوں ،آپ وہ پوری آمدن راہ خدامیں خرچ کردیا کرتے تھے ۔(47)
دینی خدمات: کچھ عرصہ کے لیےفوج میں
بطورخطیب ملازم ہوگئے ،فیروزپورچھاؤنی(48) میں امامت وخطابت میں مصروف رہے ۔(49) کچھ عرصہ یہ
خدمت سرانجام دینے کے بعد آپ وہاں سے سبکدوش ہوکر اپنے گاؤں پنجہ شریف تشریف لے آئے ،آپ نے اپنے محلہ خوشحالی
والا(پنجہ شریف ضلع خوشاب)کی اُبھاروالی مسجد (جسے ان کے والدعلامہ عبدالحکیم قادری نے بنایا تھااس )میں
امامت وخطابت شروع فرمائی اوراپنی بیٹھک
میں مدرسہ قائم فرمایا ۔جس میں حفظ قرآن اوردرس نظامی کی کتب پڑھانے کا سلسلہ تھا
، خیرخواہی امت کے جذبے کے تحت تعویذات بھی دیا کرتے تھے مگریہ سب خدمات فی سبیل
اللہ تھیں ۔(50)
تصنیف وتالیف:دین اسلام
کا ترویج واشاعت کاایک اہم ذریعہ کتب کی تصنیف وتالیف بھی ہے ،علامہ
عبدالغفورقادری صاحب بھی حالات حاضرسےآگاہ تھے اوراس وقت کی ضرورت کے مطابق تصنیف
وتالیف میں مصروف رہے،فتنہ قادیانیت کےرد میں آپ کے دورسائل تحفۃ العلماء فی
تردیدمرزا المعروف لیاقت مرزا (51) اور عمدۃ البیان فی جواب سوالات اہل القادیان(52) ہیں ،یہ دونوں رسائل حضرت علامہ مفتی
محمدامین قادری عطاری(53) رحمۃ اللہ علیہ نےعلمائے اہل سنت کے کتب ورسائل کےمجموعہ ’’عقیدہ
ختم النبوۃ ‘‘ (54) کی تیرہویں جلد میں
شائع کئے ہیں ،مزیدتصانیف
سے آگاہی نہ ہوسکی ۔
کتب خانہ :علامہ
عبدالغفورقادری صاحب کوچارپانچ زبانوں پر عبورحاصل تھا ،عربی تکلم میں تو آپ
ماہرتھے ،آپ کے کتب خانے میں کثیرکتب تھی ،جوآپ کی وفات کےبعدجامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ بھکھی شریف(55) میں منتقل کردی گئیں ۔(56)
تحریک پاکستان میں حصہ:آپ نےتحریک پاکستان میں بھرپورحصہ لیا ، عوام وعلماء سب کو اس کی اہمیت سے
آگاہ کیا ،آپ کی ان کوششوں سے پنجاب میں تحریک پاکستان کےلیے رائے عامہ ہموارہوئی ،آپ نےمجاہدملت حضرت
مولانامحمدعبدالستار خان نیازی(57) کے قافلے کی سرپرستی فرمائی ،23تا25صفرالمظفر 1365ھ27تا29جنوری 1946ء کو آپ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے
پچیسویں عرس کےموقع پر بریلی شریف تشریف
لے گئے جہاں پاکستان کےحق میں قراردادمنظورہوئی،اس قرار داد کی ترتیب وتدوین کمیٹی میں آپ شامل تھے
۔بریلی شریف میں آپ کو’’مولانا پنچابی‘‘ کے لقب سے یادکیا جاتاتھا
۔ (58)
علمائے اہل سنت کا آپ کا اکرام کرنا:آپ کے علمااہل
سنت سے گہرے تعلقات تھے ، محدث اعظم پاکستان مولانا علامہ سرداراحمدچشتی قادری(59) رحمۃا للہ علیہ دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف سےفارغ
التحصیل ہیں ،یوں محدث اعظم آپ
کےاستاذبھائی ہیں ،چونکہ علامہ عبدالغفورقادری صاحب کی فراغت محدث اعظم سے پہلے
ہوئی اس لیے محدث اعظم آپ کی تعظیم کیا کرتے تھے ،یہیں وجہ ہے کہ حافط الحدیث
مولاناسیدمحمدجلال الدین قادری بھکھی شریف(60) اوراستاذالعلمامولانا محمدنوازصاحب(61) بھی
آپ کابہت اکرام فرمایاکرتے تھے ۔ (62)
ولی کامل اورتقویٰ وپرہیزگاری :علامہ
عبدالغفورقادری صاحب مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ باکرامت ولی اورشیخ طریقت بھی تھے،رزق
حرام بلکہ مشتبہات سے مکمل اجتناب فرماتے ،اپنے گھرکے غذائی ضروریات کو پوراکرنے
کے لیے گاؤں کی قریبی زمین میں خود کھیتی باڑی کرتے اورسبزیاں اگاتے تھے ،
دوردورسے مخلوق خداآپ کی بارگاہ میں حاضرہوتی اورعلم وروحانیت سے سیراب ہوتی۔تجلیات خلفائےاعلیٰ حضرت میں ہے : آپ عابدشب بیداراورزہدوورع میں منفردالمثال تھے،اخلاق
وخلوص،نیازمندی،عزیمت،حسن سلوک،قناعت پروری ،ایثار و قربانی،جذبہ ٔبندگی،کفایت شعاری اورفضل وکمال کے اوصاف
حمیدہ سے متصف تھے۔عشق رسول کی جودولت دہلیزمرشدسے ملی تھی،اس سے ہمہ وقت
سرشاررہاکرتے تھے ۔آپ جماعت اہل سنت کے عظیم مبلغ اورمسلک اعلیٰ حضرت کے بہترین
داعی تھے ۔کبھی بھی کسی مسئلہ شرعیہ میں مخالفین کی پرواہ نہیں کی ۔(63)
ماہ رمضان کے روزوں سے محبت :ماہ رمضان کے روزوں سے محبت کا عالم یہ تھا کہ
زندگی کے آخری تین سال بڑھاپے کی وجہ سے آپ کمزورہوگئے ،ان سالوں میں ماہ رمضان گرمیوں
میں تھا،پنجہ شریف میں روزے رکھنا مشکل ہوگیا،چنانچہ آپ نے روزے
رکھنے کےلیے اپنے شاگرداورمنہ بولے بیٹے حضرت مولانا حافظ حاجی دوست محمداعوان
صاحب(64)، کے پاس کھجولا (ضلع چکوال) (65)تشریف
لے جاتے،کیونکہ وہاں کا موسم قدرے ٹھنڈاہوتاتھا ۔ ایک مہینہ آپ وہیں قیام فرماتے
اورنمازعیدکے بعد واپس آیا کرتے تھے ۔(66)
تلامذہ وشاگرد:آپ
سے کئی علمانے استفادہ کیا ،درس نظامی کی کتب پڑھیں ،مثلا ولی کامل حضرت مولاناصوفی قاضی محمددین قادری اوران کےبیٹے
حضرت مولانا قاضی عبدالرحمن قادری امام
وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف(67)، استاذالحفاظ، مردکامل،حضرت باواجی حافظ
غلام احمد سَلَوئی والے چکوال(68) ،سیاح حرمین باباجی سیدطاہرحسین شاہ
جوہرآباد ضلع خوشاب(69)رفیق ملت حضرت مولانا حافظ محمدرفیق صاحب
قادری سکھرسندھ(70)،حضرت مولاناحاجی غلام محمداعوان موضع بِٹّہ ضلع
خوشاب(71)
اورمولانا
حافظ حاجی غوث محمداعوان موضع کھجولاضلع چکوال(72) آپ کے مشہور
تلامذہ میں سے ہیں۔ (73)
وفات ومدفن: علامہ عبدالغفورقادری صاحب نےغالبا 15رجب المرجب 1371
ھ / 9مارچ1952 ءکو وصال فرمایا۔(74) قبرستان پنجہ شریف کی ایک احاطہ میں خاندان کے دیگرافراد کے ساتھ آپ کی
قبرشریف ہے۔یہ احاطہ مستطیل شکل میں ہے ،اس میں تقریبا 15قبورہیں
،مشرقی جانب لکڑی کا دروازہ ہے ،چاروں طرف 3 سے 4فٹ سرخ اینٹوں کی دیوارہے،اس
احاطے کی لمبائی تقریباپچاس ساٹھ فٹ
اورچوڑائی پندرہ سولہ فٹ ہے۔بابا جی علامہ
عبدالغفورصاحب کی قبراس احاطے کے شمال مغربی دیواروں کے ساتھ ہے۔مغربی
دیواراورباباجی کی قبرکے درمیان صرف حضرت مولانا عبدالقیوم قادری صاحب کی قبرہے ۔قدموں کی جانب حضرت مولانا محمدزین العابدین قادری صاحب کی
قبرہے۔ راقم ربیع الاول 1447ھ /جنوری 2016ء کو برادران اسلامی حاجی غلام عباس عطاری ،محمدنثارعطاری اورمحمدنویدعطاری کے ہمراہ پنجہ شریف حاضرہوا ،محترم غلام جیلانی
صاحب (ٹیچرپرائمری اسکول پنجہ )نے اپنے اسٹوڈنٹس کے ساتھ استقبال کیا ،باباجی علامہ عبدالغفورقادری کے
خاندان کے لوگوں سے ملاقات ہوئی ،ان سے معلومات لیں ،باباجی کی مسجدکی زیارت کی اورپھر آپ کے مزارشریف پر حاضرہوکرفاتحہ کی
سعادت پائی۔آپ کے لوح مزارپر یہ اشعاردرج ہیں
،جسے ترجمے (75) کے
ساتھ ملاحظہ کیجئے:
پرز حسرت ہمیں گرئیم غمگیں |
|
حسرت سے پُر، غمگین یہی کہتا ہوں |
کہ ازما کرد رحلت عالم دیں |
|
کہ ہم سے اِک عالمِ دین رِحلت فرما گئے |
زما عبدالغفور اکنوں نہاں شد |
|
عبدالغفور اب
ہم سے پوشیدہ ہوگئے |
بییں ظلمت کہ گم شد ما ہ پرویں |
|
یہ ظلمت دیکھ جس میں ماہِ پروین کھو گئے |
خلیق و حاجی و قاریٔ قرآں |
|
خلیق و حاجی اور قاریٔ قرآن |
شدہ مدفون بذیر خاک مسکیں |
|
زیرِ خاک مدفون ومکین ہوگئے |
اگر صالح وفائش رابہ پرسی |
|
صالح اگر اُن کا سنِ وفات پوچھتے
ہو |
’’تو حق بخش بہ آن باد‘‘ اندریں بیں |
|
’’تو حق بخش بہ آن باد‘‘ میں دیکھ لے 1371 ھ |
حواشی ومراجع:
(1) پنجہ شریف مٹھہ ٹوانہ سےجانب جنوب مغرب 6کلومیٹرفاصلے پر موجودایک قصبہ ہے،جس کی آبادی تقریبادس
ہزارہے ،اس میں کل پانچ مساجدہیں جن میں سے تین جامع مساجدہیں (1)جامع مسجدرحمانیہ(2)جامع مسجدشرقی ابھاروالی(3)جامع مسجداُترا بھان اَڈے والی
،ایک پرائمری اسکول ہے ۔
(2) مٹھہ ٹوانہ ایک قدیم قصبہ اورضلع خوشاب کی ایک یونین کونسل ہے، جو خوشاب شہر سے جانب مغرب 24 کلومیٹر فاصلے پرواقع ہے۔مٹھہ ٹوانہ ریلوے اسٹیشن تو میانوالی
روڈپر قائم ہے مگرمٹھہ ٹوانہ کی آبادی ریلوے اسٹیشن سے جانب جنوب تقریبا ساڑھےپانچ
کلومیٹرکے فاصلے پر ہے جسے مٹھہ ٹوانہ روڈ
کے ذریعے آپس میں ملایا گیا ہے ۔اس شہرکی بنیاد1580ء میں رکھی گئی ۔ 1857ء میں اسے ضلع لیہ سے الگ کر کے اس وقت کے ضلع شاہ پور میں شامل کیا گیا ۔ مٹھہ
ٹوانہ میں اس وقت بھی کئی قدیمی اور تاریخی عمارات موجود ہیں ۔اسے’’ تھل
داکِنارہ‘‘ بھی کہاجاتاہے،اس کی آبادی تقریبا28ہزارہے۔ (نگرنگرپنجاب،379)
(3) خوشاب پاکستان کے ضلع پنجاب میں شمال
کی جانب ایک قدیم ترین شہرہے ،اس کا آغاز پندرہ
سو(1500)قبل مسیح
ہوا،یہ دریائے جہلم کے مغربی کنارے سےڈیڑھ
میل دور واقع ہے ، پہلی مرتبہ 1583ءمیں اس کے گرد فصیل بنائی گئی ،جس میں کئی دروازے تھے
،سیلابوں کی وجہ سے یہ فصیل کئی مرتبہ
تباہ ہوئی ، 1866ءمیں اس کی تعمیرجدیدکروائی گئی، اس باردیوار شہر میں چار بڑے
دروازے، مشرق کی جانب کابلی گیٹ، مغرب کی جانب لاہوری گیٹ،شمال کی جانب جہلمی گیٹ
اور جنوب کی جانب ملتانی گیٹ تعمیر کیے گئے،1700ءمیں خوشاب جہلم کمشنری کے تحت تھا
اور اس کا صدر مقام شاہ پورتھا۔ 1849ء کو اسے شاہ پورسے جداکرکے ضلع لیہ کا حصہ بنا دیا گیا
،1853ءمیں اسے ٹاؤن کمیٹی کا درجہ ملا، بعد
ازاں اسے میونسپل کمیٹی بنا دیا گیا،دوبارہ یہ ضلع
شاہ پورکا حصہ بنادیاگیا ،1867ء میں خوشاب کو تحصیل کا درجہ دیا گیا،1940ء میں شاہ پورضلع ختم کرکے
سرگودھا ضلع بنایا گیا، 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت خوشاب ضلع سرگو دھا کی
تحصیل تھااور 1983ءمیں خوشاب کو الگ ضلع کا درجہ دے دیا گیا،اس وقت اس کی چارتحصیلیں ہیں (1)تحصیل خوشاب (2)تحصیل قائدآباد (3)تحصیل نوشہرہ (وادی سون سکیسر) اور (4)تحصیل نور پور تھل ۔تحصیل خوشاب اور قائد آباد میدانی ، تحصیل
نوشہرہ پہاڑی اور تحصیل نور پور تھل صحرائی علاقہ ہے۔1998ء میں اس ضلع کی آبادی تقریبا9لاکھ 58ہزارکے قریب تھی۔ اس کا رقبہ 6ہزار5سو11(6511)مربع کلومیٹر ہے۔ خوشاب بزرگوں کی سر زمین ہے ، سب سے زیادہ
مشہور مزارات میں خاندان غوثیہ کے دوبھائیوں سیداحمدشاہ جیلانی اورسیدمحمودشاہ
جیلانی کا درباربادشاہاں اور دربارسخی شاہ سیدمعروف قادری رحمۃ اللہ علیہم شامل ہیں، خوشاب کی سب سے اہم
سوغات ڈھوڈا ہے۔ یہ ایک مٹھائی ہے
جو یہاں نسل در نسل تیار کی جاتی ہے اور اپنے ذائقہ میں بے مثال ہے۔(نگرنگرپنجاب،373تا376)
(4) ملک اعوان ،علوی عربی النسل ہیں ،یہ زراعت پیشہ قبیلہ اوراسلحہ کے استعمال میں
مہارت رکھتاہے ،جسامت کے لحاظ سے تنومند،مضبوط اورچوڑے شانوں والے،درمیانے قدکے
مالک،ملنساراورخوش اخلاق ہوتے ہیں ، اس
خاندان کے جدامجدحضرت عون قطب شاہ علوی ،امیرالمؤمنین حضرت علی المرتضی رضی اللہ
عنہ کے بیٹے حضرت سیدنا محمدبن حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان کے چشم چراغ تھے
،حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ہمشیرہ کی شادی ان سے
ہوئی تھی یہ غوث پاک کے مرید تھے،انہی کے حکم سے ہند میں تبلیغ اسلام کے لیے آئے
،اپنے اعلیٰ مرتنے کی وجہ سے قطب کہلائے ،ان کی وفات بغدادمیں 1160ھ میں ہوئی ۔(اقوام پاکستان کا انسائیکلوپیڈیا ،799تا806)
(5) اعلیٰ حضرت ،مجدددین وملت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت10شوال 1272ھ /6جون 1856ءکو بریلی شریف(یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340 ھ /28،اکتوبر1921ءکو وصال فرمایا۔ مزار جائے
پیدائش میں مرجع خاص وعام ہے۔آپ حافظ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے
ماہر،تاجدارفقہاو محدثین، مصلح امت، نعت گوشاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت،
تقریبا ایک ہزارکتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب وعجم اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین
شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن،فتاویٰ رضویہ (33جلدیں)، جد الممتارعلی ردالمحتار(7 جلدیں،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی) اور حدائق بخشش آپ کی
مشہور تصانیف ہیں۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ،282، 301)
(6) بریلی Bareilly)):یہ بھارت کے صوبے
اترپردیش میں واقع ہے، دریائے گنگا کے کنارے یہ ایک خوبصورت شہر ہے۔ دریا کی خوشگوار فضاء نے
اس کے حسن میں موثر کردار ادا کیا ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ
کی پیدائش ووفات یہیں ہوئی ،اس لیے یہ شہرآپ کی نسبت سےعالمگیرشہرت رکھتاہے۔
(7) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ نے شہر بریلی(یوپی ہند) میں(غالباماہ شعبان
المعظم) 1322ھ/ اکتوبر1904ء میں دارالعلوم(مدرسہ اہل سنت وجماعت) منظر اسلام بریلی کی بنیاد رکھی، اس
مدرسے کے بانی اعلیٰ حضرت ،سربراہ حجۃ الاسلام مولانا حامدرضا قادری اورپہلے مہتمم
برادراعلیٰ حضرت مولانا حسن رضا خان مقررہوئے ، ہر سال اس ادارے سے فارغ التحصیل
ہونے والے حفاظ قرآن، قراء، عالم اور فاضل گریجویٹ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد
ہے۔(صدسالہ منظراسلام نمبرماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،ماہ مئی 2001ء،قسط 1ص28،132)
(8) عقیدہ ختم
النبوۃ،13/507۔
(9) ماہنامہ جہان
رضا فروری ،مارچ2016ء،ص51 ۔
(10) تذکرہ خلفائے
اعلیٰ حضرت ،367۔
(11) وادی سون
سکیسرضلع خوشاب کی ایک صحت افزا وادی
ہے،جوسلسلہ کوہ نمک کے پہاڑوںمیں دس
ہزارایکٹررقبے پرمشتمل ہے ، یہاں کے پہاڑ
ریتلی چٹانوں اور چونے کے پتھروں پر مشتمل ہیں ، یہاں کی زراعت کا دارومداربرسات
پر ہے،یہاں مارچ سے اکتوبر تک موسم انتہائی خوشگوار رہتا ہے ،سردیوں میں شدید سردی پڑتی ہے اور درجہ
حرارت نقطہ انجماد سے نیچے چلا جاتا ہے،اس میں کئی وادیاں اورچھوٹے بڑے گاؤں
اورقصبے ہیں ، اس کے بہترین مقامات میں سے کھبیکی جھیل ، اوچھالی جھیل، مائی والی ڈھیری،جاہلر جھیل ،کھڑومی جھیل ، سوڈھی جے والی، کنہٹی گارڈن اورچشمہ ڈیپ شریف ہیں۔
(12) چِٹہ (chitta)گاؤں وادی سون سکیسرکےمشہوراوچھالی جھیل کے کنارے واقع ہے، چٹہ کے سرسبز کھیت بہت خوب صورت منظر پیش کرتے
ہیں۔
(13) ان کا تذکرہ والدمحترم
کے عنوان سے آگےآرہا ہے۔
(14) حافظ
الحدیث حضرت علامہ مفتی سید محمد جلال الدین شاہ مشہدی رحمۃ اللہ
علیہ عصر حاضرکے عظیم محدث و مفسر، یگانہ روزگار
اورعظیم فقیہ تھے۔آپ نے یکم شوال المکرم 1359ھ / 2نومبر1941ء میں اپنے قصبہ
بھکھی شریف (منڈی بہاؤالدین) میں ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی جس کانام ’’جامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ ‘‘
تجویز کیا گیا۔ قبلہ حافظ الحدیث نے
چالیس (40)سال تک یہاں مسند تدریس کو رونق بخشی اور کثیرعلمامشائخ اس
چشمہ علم وعمل سے سیراب ہوئے ۔
(15) ولی کامل
حضرت مولاناصوفی قاضی محمددین قادری رحمۃ
اللہ علیہ کی ولادت 1295ھ/1888ء پنجہ شریف (نزدمٹھہ ٹواناضلع خوشاب
پنجاب)پاکستان میں ہوئی اوریہیں یکم
محرم 1360ھ /29جنوری1941 ء کو وصال فرمایا،آپ کاخاندان سات(7) پشتوں سےقادریہ سلسلے سے منسلک ہے ،آپ کے والدگرامی صوفی قاضی
شیرمحمدقادری ولی کامل اورپیر طریقت تھے ، قاضی محمددین قادری ابھی تین چارسال کے
تھے کہ آپ کے والدکا انتقال ہوگیا چنانچہ بچپن سے ہی انہیں اپنے ماموں علامہ
عبدالحکیم قادری کی صحبت ملی ، درس نظامی کی کتب باباجی علامہ
عبدالغفورقادری صاحب سے پڑھیں ،بعدحصول علم دین اپنے گاؤں پنجہ شریف میں جامعہ مسجدرحمانیہ تعمیرکی اوراس میں امامت وخطابت
کیا کرتے تھے ،یہاں آپ حفظ قرآن کا درس بھی شروع فرمایا ،آپ تصوف کی طرف زیادہ
مائل تھے،سلسلہ قادریہ گیلانیہ میں
مریدوخلیفہ تھے ،مرجع العلماوعوام تھے ،پیری مریدی کو ذریعہ آمدن نہ بنایا بلکہ
کھیتی باڑی کرتے تھے،جو فرمایاکرتے تھے ہوجاتاتھا،آپ کی کرامات زبان زدعام ہیں ۔
قبرستان پنجہ شریف کی ایک چاردیواری میں خاندان کے دیگرافراد کے ساتھ آپ کا مزار
ہے۔ ان کے صحبت یافتہ درویش محمدشفیع قادری صاحب کی قبرپچاس سال کے بعدکھل گئی تو
لوگوں نےدیکھا تو ان کی میت صحیح ودرست تھی۔
(16) یہ تمام
معلومات نواسۂ علامہ عبدالغفورقادری ،حضرت مولانا قاضی حبیب الرحمن صاحب نے دی ہیں جواس وقت باباجی کے خاندان کےنمائند ے،خوش اخلا ق،خوش لباس اورملنسارشخصیت
کے مالک ہیں۔
(17) ماہنامہ جہان
رضا فروری ،مارچ2016ء،صفحہ51میں لکھا ہے کہ
آپ کی پیدائش 1872ء میں ہوئی ۔
(18) یہ معلومات
قاضی حبیب الرحمن صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔
(19) یہ معلومات قاضی حبیب الرحمن
صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔
(20) عقیدہ ختم
النبوۃ،13/507۔
(21) شہزادۂ اعلیٰ حضرت،حُجّۃُ الاسلام مفتی حامد رضا خان رحمۃ اللہ
علیہ علامہ دہر، مفتی اسلام ،نعت گوشاعر،اردو،ہندی ،فارسی
اورعربی زبانوں عبوررکھنے والےعالم دین ، ظاہری وباطنی حسن سےمالامال ،جانشینِ
اعلیٰ حضرت اوراکابرین اہل سنت سے تھے
۔بریلی شریف میں ربیعُ الاول1292ھ/1875ء میں پیداہوئے اور17جمادی الاولیٰ 1362ھ /22مئی 1943ءمیں وصال فرمایا اور مراز شریف خانقاہِ رضویہ بریلی شریف
ہند میں ہے، تصانیف میں فتاویٰ حامدیہ مشہورہے۔(فتاویٰ حامدیہ،ص48،79)
(22) صدرالشریعہ حضرت مولانا مفتی محمد امجد
علی اَعظمی رحمۃ اللہ علیہ 1300 ھ /1883ءکو اترپردیش ہند کے قصبے مدینۃُ العُلَماء گھوسی میں پیدا ہوئے اور2 ذوالقعدۃالحرام 1367ھ /6 ستمبر 1948ء کو وفات پائی۔ جائے پیدائش
میں مزار زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔،آپ
جیدعالم دین ،استاذالعلما ،فقیہ اسلام
،مریدوخلیفہ اعلیٰ حضرت ،جامع معقول ومنقول اورعبقری شخصیت کے مالک تھے ،آپ کی کتب
میں بہارشریعت کو شہرت عامہ حاصل ہوئی ،جوعوام وخواص میں مقبول ومحبوب ہے ۔(تذکرۂ صدر الشریعہ،ص5،39 ، 41)،بہارِ شریعت کی
تخریج وتسہیل کی سعادت دعوتِ اسلامی کے ادارۂ تصنیف وتالیف المدینۃ العلمیہ ، اسلامک ریسرچ سینڑ
فیضان مدینہ کراچی کوحاصل ہوئی ،جس نے بہت خوبصورت اندازمیں چھ جلدوں میں شائع کیا
ہے۔
(23) شہزادۂ اعلیٰ حضرت، مفتیِ اعظم ہند، حضرت علّامہ مولانا مفتی محمدمصطفےٰ رضا
خان نوری رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1310ھ /1892ءرضا نگر محلّہ سوداگران بریلی (یوپی،ہند) میں ہوئی۔ آپ
فاضل دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف، جملہ علوم و فنون کے ماہر، جید عالِم دین،
مصنفِ کتب، مفتی و شاعرِ اسلام، شہرۂ آفاق شیخِ طریقت، مرجعِ علما و مشائخ اور
عوامِ اہلِ سنّت تھے۔ 35سے زائد تصانیف و تالیفات میں سامانِ بخشش اور فتاویٰ
مصطفویہ مشہور ہیں۔ 14 محرمُ الحرام 1402ھ/12نومبر1981ء میں وصال فرمایا اور بریلی شریف میں والدِ گرامی امام
احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کے پہلو
میں دفن ہوئے۔(جہانِ مفتی اعظم، ص64تا130)
(24) جامع معقول ومنقول ،استاذالعلماحضرت علامہ سیدبشیراحمد شاہ علی گڑھی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت علی گڑھ(یوپی ہند)کے
سادات گھرانے میں ہوئی ،تمام درس نظامی مع دورہ حدیث شریف استاذالہندحضرت علامہ
لطف اللہ علی گڑھی سے پڑھا،زندگی کا ایک
حصہ اپنے استاذگرامی کے مدرسہ فیض عام کانپوراورجامعہ شمس العلوم بدایون میں تدریس
کرنے میں صرف کیا ، جب (غالباماہ شعبان المعظم) 1322ھ/ اکتوبر1904ء میں دارالعلوم(مدرسہ اہل سنت وجماعت) منظر اسلام بریلی
شریف کا آغازہواتو آپ اس میں صدرمدرس
بنائے گئے ،6ذیقعدۃ الحرام 1330ھ مطابق 17،اکتوبر1912ء میں جب علامہ عبدالغفورقادری صاحب کی سند حدیث دی گئی تو
اس پر علامہ سیدبشیراحمدشاہ صاحب کے ہی دستخط ہیں ، آپ کا وصال علی گڑھ میں ہوا۔(تذکرہ علمائے اہلسنت ، 72،73،استاذالہند،51)
(25) تذکرہ خلفائے اعلی حضرت،366،367۔
(26) مرکزی جامع مسجدبی بی جی صاحبہ ،بریلی شریف کےمحلہ بہاری پورمیں واقع ہے ،اس
میں دارالعلوم منظراسلام کے سالانہ جلسے ہوتے تھے،1356ھ/1937ء میں مفتی اعظم ہندمفتی
محمدمصطفی رضا خان قادری کی سرپرستی میں دارالعلوم مظہراسلام قائم ہوا،محدث اعظم پاکستان علامہ سرداراحمدقادری
چشتی صاحب اس کے منتظم اورشیخ الحدیث
مقررہوئے،اس دارالعلوم کی مستقل عمارت نہیں تھی ،مسجدکےحجروں اورصحن میں پڑھائی کا
سلسلہ ہوتاتھا۔( حیات محدث اعظم ،45)
(27) صدسالہ منظراسلام نمبرماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،ماہ مئی 2001ء،قسط 1ص 235
(28) محدث بہارحضرت مولانا احسان علی مظفرپوری رحمۃ اللہ علیہ
کی ولادت 1316ھ کو فیض پور(ضلع
سیتامڑھی [سابقہ ضلع مظفرپور [بہارہند)میں ہوئی اوررمضان 1402ھ کو وفات پائی ،مزارفیض پورمیں ہے، جہاں ہرسال دس شوال
کوعرس ہوتاہے،آپ نے ابتدائی تعلیم 1326ھ میں مدرسہ نورالہدی
پوکھیراسے حاصل کی،1327ھ میں دارالعلوم منطراسلام میں داخل ہوئے ،بقیہ تمام تعلیم یہیں سے حاصل کرکے فارغ التحصیل
ہوئے اور یہیں مدرس ہوگئے،آپ نے تقریباپچاس سال تدریس فرمائی ،سینکڑوں علمانے آپ
سے استفادہ کیا ،آپ شیخ التفسیراورشیخ الحدیث کے عہدے پر بھی فائزرہے ۔آپ حجۃ
الاسلام علامہ حامدرضاقادری رضوی صاحب کے
مریدوخلیفہ تھے ۔(تذکرہ علمائے اہلسنت ،سیتامڑھی،1/50،فتاویٰ رضویہ ،7/297)
(29) ان کے حالات نہ مل سکے۔
(30) ان کے حالات نہ مل سکے۔
(31) ان کے حالات نہ مل سکے۔
(32) صدسالہ منظراسلام نمبرماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،ماہ مئی 2001ء،قسط 1ص 255۔
(33) ان کے حالات نہ مل سکے ۔
(34) معارف رضا،شمارہ 1413ھ/1992ء،ص235۔نام میں جوعلاقائی نسبت ’’شاہ پوری‘‘ لکھی ہے اس کی وجہ یہ
ہے اس زمانے(1330ھ / 1912ء) میں موجود ہ ضلع خوشاب ، ضلع شاہ
پورکی تحصیل تھی۔مزیددیکھئے حاشیہ :3
(35) ماہر رضویات حضرت علامہ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مجددی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت یکم جمادی الاخریٰ 1349ھ / 24،اکتوبر1930ء کو دہلی ہندمیں ہوئی اور23ربیع الاخر1429ھ /29،اپریل 2008ء کو کراچی میں وصال فرمایا ،تدفین احاطہ ِ خانوادۂ مجددیہ
ماڈل کالونی قبرستان،ملیرکراچی میں ہوئی ۔آپ عالم دین،سلسلہ نقشبندیہ مظہریہ کے
مرشدکریم،جدیدوقدیم علوم سے مالامال،عالم باعمل ،مصنف کتب کثیرہ اوراکابرین اہلسنت
سے تھے،اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات پر آپ کی 40سے زائدکتب ورسائل اورمقالات یادگارہیں ،امام ربانی حضرت
مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کےحالات
وخدمت اورمقامات پر مشتمل مقالات کاعظیم انسائیکلوپیڈیا (12جلدیں)آپ کی زیرسرپرستی شائع ہوا۔ آپ نہایت ملنسار، اعلی
اخلاق کے مالک اور محبت و شفقت فرمانے والے بزرگ تھے۔(پروفیسرڈاکٹرمحمدمسعوداحمد حیات ،علمی اورادبی خدمات،77تا108)راقم زمانہ طالب علمی میں ایک مرتبہ انکی خدمت میں حاضرا،بہت شفقت فرمائی ،حوصلہ
افزائی فرمائی اوردعاؤں سے نوازا۔
(36) رفیق ملت حضرت ِ مولانا حافظ محمدرفیق رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش1353ھ/ 1935ءکو بلی ماران دہلی ہند کے دینی گھرانے میں ہوئی اور27جمادی الاولی1425ھ/16،جولائی2004ء کو سکھرمیں انتقال فرمایا ،تدفین مدرسہ انوارمصطفی سکھرکے
ایک گوشے میں ہوئی،آپ حافظ قرآن،عالم باعمل ،علامہ عبدالغفوررضوی اورمحدث اعظم
پاکستان علامہ سرداراحمدرضوی رحمۃ اللہ علیہما کے شاگرد،(ثانی الذکرسے مرید بھی ہوئے )،استاذالحفاظ،جامعہ انوارمصطفی سکھرسمیت کئی
اداروں کے بانی اورسرپرست تھے ،خدمت عوام
بذریعہ تعویذات میں بھی مشہورتھے۔آپ کی تمام اولاددینی تعلیم سے آراستہ ہوئی۔آپ کو
کئی مشائخ مثلا پیرایرانی،پیرصاحب دیوال،مولانا محمدقاسم مشوری وغیرہ سے خلافت
حاصل تھی۔(انوارعلمائےاہل سنت سندھ،936تا939)
(37) حضرت
مولانا مفتی محمد عارف سعیدی صاحب کی
پیدائش ربیع الاول 1384ھ مطابق 10،اگست1964ء کو سکھرمیں ہوئی،ابتدائی اسلامی
تعلیم والدصاحب رفیق ملت حضرت ِ مولانا حافظ محمدرفیق رضوی صاحب حاصل کی
پھر جامعہ غوثیہ
رضویہ سکھرمیں داخلہ لیا ،1974ءمیں والدصاحب
نے جامعہ انوارمصطفی بنایا تو اس میں آگئے وہیں کتب درسِ نظامیہ علامہ مولانا محمد
بخش نظامی صاحب اور مفتی محمدابراہیم قادری صاحب سے پڑھیں ،1982
ء کو جامعہ اسلامیہ انوارالعلوم ملتان میں
غزالی دوراں علامہ سیداحمدسعیدکاظمی شاہ صاحب سے دورہ حدیث شریف پڑھا ،آپ سے ہی
بیعت کا شرف بھی پایا ،بعدحصول تعلیم
جامعہ انوارمصطفی میں کتب درس نظامی اوردورحدیث شریف پڑھانے کی سعادت پائی ،امامت
وخطابت کا سلسلہ بھی رہا ،ایک رسالہ بھی تصنیف کیا ۔آپ کو اپنے والدگرامی سمیت کئی مشائخ سے خلافت
حاصل ہے۔(بذریعہ واٹس ایپ مفتی صاحب سے معلومات لی گئیں۔)
(38) شیخ الحدیث والتفسیر،مفتی اہل سنت حضرت علامہ مفتی محمدابراہیم قادری صاحب کی پیدائش 12جولائی 1954ء/11ذیقعدہ1373ھ کو سوئی ضلع ڈیرہ بگٹی بلوچستان میں ہوئی ،آپ نے علم
دین،سوئی ،سکھر،بندیال شریف،واںبھچراں وغیرہ سے حاصل کیا اوردورہ حدیث دارالعلوم
امجدیہ کراچی سے کرنےکی سعادت پائی ،آپ برہان ملت ،خلیفہ اعلیٰ حضرت علامہ برہان الحق قادری جبل پوری رحمۃ اللہ
علیہ سےبیعت ہوئے اورخلیفہ مفتی اعظم ہند مفتی محمدحسین قادری
سکھروی رحمۃ اللہ علیہ اورمعمارملت حضرت منان رضامنانی میاں قادری صاحب سے خلافت
پائی ،آپ نے کئی مدارس میں تدریس فرمائی ،کئی جیدعلماآپ کے شاگردہیں، آجکل جامعہ
غوثیہ رضویہ کے شیخ الحدیث والتفسیراورمفتی ہیں ،آپ کثیرالفتاویٰ ہیں ،آپ کامجموعۂ فتاویٰ زیرطباعت ہے جو چارسےپانچ
جلدوں پر مشتمل ہوگا،آپ 2009ءتا2012ءتک اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کےرکن بھی رہے۔ (بذریعہ فون مفتی صاحب سے معلومات لی گئیں۔)
(39) ادارہ تحقیقات امام احمدرضا انٹرنیشنل کراچی کومولانا سیدمحمدریاست علی قادری
نوری صاحب نے 1400ھ/1980ء میں قائم فرمایا ،جس کا مقصدتعلیماتِ رضا کا فروغ ہے،1401ھ تا1440ھ تک اس کی40سالہ کارکردگی کا جائزہ لیاجائے توزبان پرادارےکےاراکین
ومعاونین کےحق میں دعاکے الفاظ جاری ہوجاتےہیں :٭1440ھ تک48،امام احمدرضا کانفرنسوں کا انعقادکروایاجاچکا ہے۔٭ سالنامہ معارفِ رضا کی 19جلدیں اور ماہنامہ معارف رضا کے 220 شمارے شائع
ہوچکے ہیں، ٭سالانہ مجلہ امام احمد رضاکے 32شماروں کی اشاعت ہوچکی ہے۔ ٭ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا رحمۃ اللہ علیہ کی
35تصانیف، پی ایچ ڈی کے 21مقالات ،مسعود
ملت پروفیسرڈاکٹرمسعوداحمدصاحب کی 21کتب،صاحبزادہ علامہ وجاہت رسول قادری صاحب کی 21تصانیف اورپروفیسر
ڈاکٹرمجید اللہ قادری صاحب کے35مقالات شائع ہوچکے ہیں یوں شائع شدہ کتب و رسائل کی تعداد164 ہے۔٭دیگرکاموں میں پی
ایچ ڈی اور ایم فل مقالہ جات لکھوانا ،اعلیٰ حضرت پر لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی
کے لیے گولڈ میڈل اور سلور میڈل کا اجراء
کرنا ،تعلیمات رضا کو عام کرنے کے لیے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کااستعمال کرنا اور اخبارات و جرائد کے ذریعے
فروغ تعلیمات امام احمد رضا کو عام
کرنامزیدبراں ہے ۔ (مزیدتفصیل کےلیے دیکھئے:کتاب
’’ادارہ تحقیقات امام احمدرضا کی چالیس سالہ خدمات کا جائزہ۔‘‘)
(40) تذکرہ خلفائے اعلی حضرت،366،367،معارف
رضا،شمارہ 1413/1992،ص235۔
(41) یہ معلومات
قاضی حبیب الرحمن صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔
(42) ان کے
مختصرحالات حاشیہ 15میں دیکھئے۔
(43) حضرت مولانا
قاضی عبدالرحمن قادری رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش1348ھ/ 1930ء کو پنجہ شریف
میں ہوئی اوریہیں4صفر1434ھ/ 18دسمبر2012ء میں وفات ہوئی ۔تدفین قبرستان پنجہ شریف میں
خاندانی چاردیواری کے اندرہوئی ۔ آپ
نےاپنےوالدقاضی محمددین قادری صاحب سے ناظرہ قرآن مجیدپڑھا ،ابھی آپ
تقریا10 سال کے تھے کہ والدگرامی کا انتقال ہوگیا ،اس کے بعد انہیں بابا جی علامہ
عبدالغفورقادری صاحب کی صحبت حاصل ہوئی ،ان سے علم دین حاصل کیا ،فراغت کے بعدآپ نے
جامع مسجدرحمانیہ کےامام وخطیب طورپر خدمت دین کا آغازکیا، اس میں قائم حفظ القرآن
کے مدرسے میں تدریس کی اور زمدگی بھریہ خدمت سرانجام دیتے رہے۔
(44) قاضی حبیب
الرحمن صاحب کی پیدائش1370ھ/ 1950 ء کوپنجہ شریف میں ہوئی ،آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی کیا ،مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں ،فقہ اورتفسیرکی
کتب زیرمطالعہ رہتی ہیں، سات سالہ جدہ میں ملازمت بھی کی ،کچھ عرصہ بزنس اورزمین
داری میں مصروف رہے ۔آپ کے دوصاحبزادے ہیں بڑے بیٹے قاضی ضیاء الرحمن اسلام آباد میں ملازمت اورچھوٹے صاحبزادے قاضی
تنزیل الرحمن بزنس کرتے ہیں ۔اللہ پاک ان
کے گھرانے کو سلامت رکھے۔
(45) تھل ریتلاعلاقہ ہے ،یہ دریائے جہلم اوردریائے سندھ
کے درمیان واقع ہےاس کی شروعات ضلع خوشاب کے صدرمقام جوہرآباد سے ہوتی ہیں اور قائد آباد سے نیچے پھر ضلع
میانوالی میں ہرنولی کے قریب سے شروع ہو جاتا ہے۔ خوشاب سے میانوالی کو ملانے والی
ریلوے لائن سے جنوب کی طرف سارا علاقہ تھل کے صحرا پرمشتمل ہے۔
(46) ساہیوال ،ضلع
سرگودھا کی تحصیل اورقصبہ ہے،یہ دریائے جہلم کے بائیں کنارے پرواقع ہے،اسے سولہویں
صدی میں بلوچ قبیلے نے قائم کیاجائے ،اس کی موجودہ آبادی
تقریبا40ہزارہے،مشہوردرگاہ آستانہ عالیہ چشتیہ سیال شریف اسی کے قریب واقع ہے ۔(نگرنگرپنجاب،367)
(47) یہ معلومات
قاضی حبیب الرحمن صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔
(48) فیروزپورمشرقی
پنجاب(ہند)کا ایک شہرہے جوقصورشہرسےتقریبا27کلومیٹرفاصلے
پر ہے ، یہ دریائے ستلج کے کنارے واقع ہے
،اسے 1351ء میں تغلق پادشاہ سلطان فیروزشاہ تغلق نے
آبادکیا، اس میں فوج کا اڈا(Cantonment)بھی ہے اس لیے
یہ فیروز پورچھاؤنی کے نام سے مشہورہے۔
(49) ماہنامہ جہان
رضا فروری ،مارچ2016ء،صفحہ51میں لکھا ہے کہ
آپ بریلی شریف میں جانے سے پہلےفوج میں بطورخطیب بھرتی ہوئے۔
(50) یہ معلومات
قاضی حبیب الرحمن صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔
(51) عقیدہ ختم
النبوۃ،13/509
(52) عقیدہ ختم
النبوۃ،13/541
(53) عالم باعمل حضرت مولانا مفتی محمدامین قادری عطاری رحمۃ
اللہ علیہ کی ولادت 22رجب1391ھ /7نومبر1971ء کو کھارادراولڈ سٹی کراچی کے ایک میمن گھرانے
میں ہوئی ،بچپن سےہی مرکزی انجمن اشاعت اسلام اورپھردعوت اسلامی میں شامل ہوئے،1985ء میں امیراہلسنت علامہ محمدالیاس عطارقادری صاحب کے ذریعے سلسلہ قادریہ رضویہ میں بیعت ہوئے ،1998ءمیں دارالعلوم
امجدیہ کراچی سے فارغ التحصیل ہوکرفتاویٰ نویسی میں مصروف ہوگئے،1999ء میں دارالافتاء دارالعلوم غوثیہ نزدپرانی
سبزی منڈی کراچی میں بطورمفتی ومدرس درس
نظامی خدمات سرانجام دینےلگے،آپ کااکثروقت فتویٰ نویسی ،تدریس درس نظامی ،واعظ
ونصیحت اورتصنیف وتالیف میں صرف ہوتاتھا،ردقادنیت پر علمائےاہل سنت کی کتب ورسائل
کو ایک مجموعے کی صورت میں جدیدکمپوزنگ اورنئے اندازطباعت کے ساتھ شائع کرنا آپ کا
یادگارکارنامہ ہے ۔صرف 36سال کی عمرمیں
آپ کا وصال 18ذیقعدہ1426ھ /20دسمبر2005ءکو کراچی میں ہوا۔(عقیدہ ختم
النبوۃ،جلد1،تعارف مؤلف،انوارعلمائےاہل سنت سندھ،116)
(54) کتاب ’’عقیدہ ختم
النبوۃ ‘‘سواصدی پر محیط علمائے اہل سنت پاک وہند کی ان کتب ورسائل کا مجموعہ ہے ،جو
ردقادیانیت کے موضوع پر ہیں ، عالم باعمل حضرت مولانا مفتی محمدامین قادری عطاری رحمۃ
اللہ علیہ نے ان کتب ورسائل کو جدیدطریقہ اشاعت کے مطابق شائع کرنےکا
بیڑااٹھایااورجنوری 2005ء میں اس کی
پہلی جلدشائع ہوئی ،اب تک اس مجموعہ کی 15جلدیں شائع
ہوچکی ہیں ،مزید5جلدوں کی اشاعت باقی ہے ،فی الحال بوجوہ مزیداشاعت کا سلسلہ رکا ہواہے ۔(عقیدہ ختم النبوۃ،1/9، انوارعلمائےاہل سنت سندھ،117)
(55) حافظ
الحدیث حضرت علامہ مفتی سید محمد جلال الدین شاہ مشہدی رحمۃ اللہ
علیہ عصر حاضرکے عظیم محدث و مفسر، یگانہ روزگار
اورعظیم فقیہ تھے۔آپ نے یکم شوال المکرم 1359ھ / 2نومبر1941ء میں اپنے قصبہ
بھکھی شریف (ضلع منڈی بہاؤالدین،پنجاب) میں ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی جس
کانام ’’جامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ ‘‘
تجویز کیا گیا۔ قبلہ حافظ الحدیث نےیہاں
چالیس سال تک یہاں تدریس فرمائی ۔
(56) یہ معلومات
قاضی حبیب الرحمن صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔
(57) مجاہدملت حضرت
مولانا محمدعبدالستارخان نیازی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 22ذیقعد1333ھ/یکم اکتوبر1915ء کو موضع اٹک
پنیالہ(تحصیل عیسیٰ خیل)ضلع میانوالی میں ہوئی،7صفر1422ھ/یکم مئی2001ء کو میانوالی
میں انتقال فرمایا،مزار’’مجاہدملت کمپلیکس‘‘ روکھڑی موڑمیانوالی میں ہے ۔آپ عالم دین،پرچوش مبلغ ،باہمت
رہبرورہنما،اخبارخلافت پاکستان کے مدیر ،مجلس اصلاح قوم ،دی پنجاب مسلم سٹوڈنٹس
فیڈریشن،آل پاکستان عوامی تحریک کے بانی،تحریک پاکستان کے متحرک کارکن،تحریک نفاذِ
شریعت،تحریک ختم نبوت،تحریک نفاذِ نظام مصطفیٰ میں بھرپورحصہ
لیا، قومی اسمبلی اورسینٹ کے رکن بھی رہے۔آپ کا شماراکابرین اہل سنت میں
ہوتاہے ۔آپ آستانہ عالیہ میبل شریف ضلع بھکر میں مریداورقطب مدینہ حضرت مولانا
ضیاء الدین احمدمدنی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔آپ نے اٹھارہ سے زیادہ مقالات
وکتب ورسائل تحریرفرمائے۔(تحریک پاکستان میں
علماء ومشائخ کا کردار،427)
(58) ماہنامہ جہان
رضا فروری ،مارچ2016ء،ص 52۔البریلویۃ کا تحقیقی اورتنقیدی
جائزہ،294،سیرت صدرالشریعہ،72۔
(59) محدثِ اعظم
پاکستان حضرت علّامہ مولانا محمد سردار احمد قادری چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1323ھ/1905 میں ضلع گورداسپور (موضع دیال گڑھ
مشرقی پنجاب) ہند میں ہوئی اور یکم شعبان 1382ھ/28دسمبر1982ء کو وصال فرمایا،آپ کا مزار مبارک فیصل آباد پنجاب، پاکستان میں ہے۔آپ جامعہ
منظراسلام بریلی شریف کے فارغ
التحصیل،جامعہ مظہراسلام بریلی شریف کے
پہلے مہتمم، استاذالعلماء، محدثِ جلیل، شیخِ طریقت، بانیِ سنّی رضوی جامع مسجد و
جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام فیصل آباد اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے ہیں۔(حیاتِ محدثِ اعظم،
ص334،27)
(60) حافظُ الحدیث
حضرت مولانا پیر سیّد محمد جلالُ الدّین شاہ مشہدی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1333ھ/1915ء کو بھکھی
شریف ( ضلع منڈی بہاؤ الدّین،پنجاب)
پاکستان میں ہوئی اور یہیں 5ربیعُ الاوّل1406 ھ /18نومبر1985ءکو وصال فرمایا۔آپ حافظ ِ قراٰن ،فاضل جامعہ
مظہرالاسلام بریلی شریف،خلیفہ مفتی اعظم ہند، تلمیذ و خلیفہ محدث اعظم پاکستان،
مرید و خلیفہ پیر سیّد نور الحسن بخاری (کیلیانوالہ شریف)،بانی جامعہ محمدیہ نوریہ
رضویہ بھکھی شریف اور استاذُالعلماء ہیں۔(حیات محدث اعظم، ص357،نوائے وقت ،25نومبر2014ء)
(61) استاذالاستاذ،شیخ
الحدیث حضرت علامہ محمدنوازنقشبندی کیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1920ء /1338ء کو موضع بلو(نزدکولوتارڑضلع حافظ آباد،پنجاب ) میں ہوئی اوروصال 27شعبان/13،اکتوبر2004ء کو 84سال کی عمرمیں گوجرانوالہ میں ہوا،تدفین جامعہ مدینۃ العلم گوجرانوالہ کے ایک
گوشے میں ہوئی ، آپ محدث اعظم ،صدرالشریعہ ،مفتی اعظم ہندکے شاگرداورسراج السالکین
حضرت سیدنورالحسن بخاری کیلانی کے مریدتھے ، آپ جیدعالم دین ،جامع معقول ومنقول
،شیخ الجامعہ بھکھی شریف ،زینت
مسندتدریس،بانی جامعہ مدینۃ العلم گوجرانوالہ اور مجاز طریقت تھے۔(تذکرہ زینت مسندتدریس،99،133،137،182)
(62) یہ معلومات قاضی حبیب الرحمن
صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔
(63) تجلیات خلفاء
اعلیٰ حضرت ،639 ۔
(64) استاذالحفاظ
،حضرت مولاناحافظ حاجی غوث محمداعوان رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 1322ھ / 1904ء کو پنجہ شریف کی ایک زمینداراعوان
گھرانے میں ہوئی اوریہیں12ذیقعدہ 1386ھ / 22فروری 1967ء کو وفات پائی ،مقامی قبرستان میں دفن
کیاگیا۔آپ نے قاضی محمددین قادری صاحب سےحفظ قرآن کی سعادت پائی ،باباجی علامہ
عبدالغفورقادری صاحب سےعلمی استفادہ کیا ،پھر حضرت باواجی سلوئی حافظ غلام محمد گولڑوی سے دینی کتب پڑھیں ،قریبی
گاؤں کھجولا( تحصیل چوآسیدن شاہ ضلع
چکوال)کے امام و خطیب مقررہوئے ،یہاں حفظ قرآن کا درس بنایااورساری زندگی تعلیم
وتعلم میں صرف فرمائی ،باواجی کی وفات کے بعد دہلی اورہند کے دیگرشہروں میں تحصیل
علم دین بھی کیا ، آپ کامیاب
مناظراورپختہ عالم دین تھے ،آپ کےشاگردکثیرہیں ،آپ قبلہ پیرمہرعلی شاہ صاحب کے
مریدتھے ،راقم نے یہ تمام معلومات آپ کے
اکلوتےبیٹے حافظ مقبول احمد اعوان صاحب(حال
مقیم راولپنڈی) سے بذریعہ فون حاصل کیں ،اللہ پاک انہیں جزاعطافرمائے۔
(65) کھجولاچوآسیدن
شاہ کا ایک مضافتی گاؤں ہے جو اس سےاڑھائی کلومیٹرکے فاصلے پرہے۔
(66) یہ تفصیلات مولانا حافظ دوست محمد اعوان صاحب کے بیٹے حافظ مقبول احمداعوان صاحب نےبذریعہ فون بتائیں۔
(67) ان مختصرحالات
حاشیہ نمبر15میں درج ہیں ۔
(68) استاذالحفاظ
مردکامل،حضرت باواجی سلوئی حافظ غلام محمد
گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت موضع عینو تحصیل و ضلع خوشاب کے حافظ میاں
محمداعوان گولڑوی کے گھر1305ھ/ 1888ء میں ہوئی اور
6محرم 1394ھ /9فروری 1974ء کو چواسیدن شاہ،ضلع چکوال میں وصال فرمایا ،تدفین رحمانیہ مسجد چواسیدن شاہ
میں ہوئی ،آپ جیدحافظ قرآن ،حسن ظاہری وباطنی سے مالامال ،مریدوخلیفہ قبلہ عالم
پیرمہرعلی شاہ،تلمیذمولانا عبدالغفورقادری تھے،آپ
نے اولاچک 70سرگودھا اورپھر سلوئی شریف میں حفظ القرآن کا مدرسہ بنایا ،زندگی بھراس مدرسے
میں تدریس فرمائی ،علاقے میں رفاعی کاموں میں بھی فعال کرداررہا مثلا گاؤں میں
ڈسپنسری،ڈاکخانہ اوراسکول آپ کی کوششوں سے
بنایاگیا،سلوئی میں آپ کی خدمات 47سال پرمحیط ہیں
،کثیرعلماومشائخ آپ کے تلامذہ ہیں ۔(مردکامل،25،57،58،31،33،تذکرہ علمائے اہل سنت ضلع چکوال، 69)ان کاتذکرہ
راقم نے بچپن سےہی اپنے والدگرامی الحاج محمدصادق چشتی مرحوم سےسناتھا،کیونکہ میرے
والد گرامی کے دوست اورپیربھائی حضرت مولانا حافظ محمدحسن چشتی صاحب (ساکن ڈھیری
،تحصیل پنڈدادنخان ضلع جہلم ) حضرت باواجی کے شاگردتھے ۔
(69) قدوۃ المشائخ
حضرت باباجی سیدطاہرحسین شاہ نقشبندی قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت موضع الگوں
(ضلع فیروز پور،ہند)میں1321ھ/ 1904ء کو
سادات گھرانے میں ہوئی اور24جمادی الاخریٰ1425ھ/ 11،اگست 2004ء کو جوہرآبادضلع خوشاب میں وصال فرمایا،مزارشریف
یہیں ہے۔آپ شیرربانی میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کےمرید تھے ،آپ کے ہی مدرسے میں علم دین حاصل
کیا، آپ نے تین سال پنجہ شریف میں رہ کر حفظ قرآن اورابتدائی فارسی وعربی کتب
پڑھیں ،کئی شہروں اورملکوں کی سیاحت فرمائی ،حضرت عبدالرزاق چشتی قادری آستانہ
بھوپال ہندنے خلافت عطافرمائی ، مستقل قیام ذوالحجہ 1411ھ/ جولائی 1991ء میں الاعوان ٹاؤن جوہرآبادمیں فرمایا،یہیں
مدرسہ ومسجدشیرربانی اورآستانہ کی
بنیادرکھی ،آپ ادارہ معین الاسلام بیربل شریف سرگودھا کے سرپرست بھی تھے ۔(تذکرہ فخرالسادات،25،29،30،جہاں رضا فروری مارچ2016ء،ص52)
(70) ان مختصرحالات
حاشیہ نمبر36میں درج ہیں ۔
(71) عالم باعمل حضرت مولانا حاجی غلام محمداعوان قادری رحمۃ اللہ
علیہ کی پیدائش1342ھ/ 1924ء کوموضع بِٹہ (ضلع خوشاب)کے ایک اعوان زمین دارگھرانے میں
ہوئی ،پرائمری کلاس تک پڑھنےکے بعد کاشت کاری شروع کردی،خوش قسمتی سے انہیں چودہ
سال کی عمرمیں حضرت پیر سخی سلطان اعظم قادری
سلطانی صاحب (آستانہ عالیہ قادریہ
سلطانیہ موسیٰ والی شریف ،نزدپپلاں ضلع میانوالی )سے بیعت کا شرف حاصل ہوا،یہ
نمازروزہ اورشریعت کے پابندہوگئے ،اس کے بعدجب ان کے بڑے بیٹے زمین سنبھالنے کے قابل ہوئے تو انھوں
نے تحصیل علم کے لیے سفرشروع فرمایا ، اسلامی کتب پڑھنےکے لیے باباجی علامہ عبدالغفورقادری صاحب کے پاس پنجہ
شریف میں تین سال رہے ،ان کی وفات کےبعدچھپڑشریف (وادی سون سکیسر)جاکر تعلیم مکمل
کی ، اس کےبعداپنےگاؤں میں آگئے ،مکی مسجدبنائی اوراسےآبادکیا،زمین داری کاسلسلہ بھی رہا ،99سال کی عمرمیں20جمادی الاولیٰ1441ھ/ 16جنوری 2020ء بروزجمعرات فوت ہوئے،تدفین بِٹہ قبرستان میں ہوئی ۔ ان کےدو بیٹے مولانا
حافظ محمدرمضان چشتی صاحب پاک آرمی اورمولانا محمدسلیم چشتی صاحب پاک نیوی میں
خطیب اعلیٰ ہیں یہ تمام معلومات ثانی
الذکرنےعطافرمائیں ،جس پر راقم ان کا شکرگزارہے۔
(72) ان کےمختصرحالات حاشیہ نمبر64میں درج ہیں ۔
(73) عقیدہ ختم
النبوۃ،13/507، تذکرہ خلفائے اعلی
حضرت ،366۔
(74) ماہنامہ جہان
رضا فروری ،مارچ2016ء،صفحہ 52میں لکھا ہے کہ
آپ کا وصال وسط رجب 1372ھ کو ہواجبکہ لوح
مزارپر مہینے کی صراحت تو نہیں البتہ سن 1371لکھا ہواہے۔
(75) ان اشعارکا ترجمہ محشی کتب درس نظامیہ ،
استاذالعلماعلامہ عبدالواحدعطاری مدنی
صاحب (المدینۃ العلمیہ ،اسلامک ریسرچ سینڑ
فیضان مدینہ کراچی)نے فرمایا ،اس پر راقم ان کا شکرگذارہے ۔
سفیرِ
عشق و محبت امیرِ اہلِ سنت محمد الیاس عطار قادری
تحریر:محمد عمر فیاض عطاری مدنی
اسلامک ریسرچ سینٹر ”دعوتِ اسلامی“
نسلِ انسانی کی طویل تاریخ اپنے سینے میں متعدد
ایسی شخصیات کو محفوظ کئے ہوئے ہے جن کے وجود سے عالم ِ انسانیت کو فلاح کی توفیق
حاصل ہوئی۔چرخِ اسلام پر ائمہ کرام،مفسرین، محدثین، فقہا اور صوفیا کی ایک کہکشاں منور ہے۔ ہر وجود محترم اور لائقِ تعظیم ہے۔ پندرہوں صدی ہجری
سرزمینِ بر صغیر پر ایسا ہی ایک وجود علم و عمل کی روشنیاں بکھیرتے دیکھ رہی ہے۔میری
مراد اِس صدی ہجری کی وہ پاک طینت و پاک سیرت شخصیت ہیں جنہیں دنیا شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی
حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ
الْعَالِیَہ کے
نام سے جانتی و پہچانتی ہے۔
آپ جماعتِ اہلِ سنّت کے ممتاز ترین صاحبِ علم و
بصیرت اور باقیاتِ صالحات میں سے ایک ہیں۔شیخِ کامل سنتوں کے عامل قبلہ امیرِ اہلِ
سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ زوال پذیر معاشرے اور انحطاط کی طرف اترتی ہوئی
امّتِ مسلمہ کی طرف بیداری کا پیغام بن کر
آئے۔ نظریات کا فساد،اعمال کا بگاڑ اور سیرت و کردار کا زوال روح فرسا تھا ،بے
یقینی اور بے عملی کا زہر سارے معاشرے کو متعفن کررہا تھا۔اللہ پاک کا کرم ہوا،مصطفیٰ کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی رحمت
ہوئی کہ خطہ پاکستان پر اس محسنِ ملّت کا ظہور ہوا۔
مختصر تعارف:آپ کا نام محمد الیاس،والد کا نام حاجی
عبدالرحمن قادری،کنیت ابو بلال،تخلص عطار اور مشہور القابات شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنت اور
بانیِ دعوتِ اسلامی ہیں جبکہ اہلِ محبت آپ کو باپا کہہ کر بھی بلاتے ہیں۔ آپ کی پیدائش 26 رمضان المبارک 1369 ہجری بمطابق 1950ء میں پاکستان کے مشہور شہر کراچی میں ہوئی۔آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ
الْعَالِیَہ دورِ شباب ہی میں علومِ دینیہ کے زیور سے
آراستہ ہوچکے تھے۔ آپ نے حصولِ علم کے ذرائع میں سے کتب بینی اورصحبت علما کو اختیار
کیا ۔اس سلسلے میں آپ نے سب سے زیادہ استفادہ مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی
وقارالدین قادِری رَضَوی رحمۃ اللہ علیہ سے کیا اور مسلسل 22 سال ان کی صحبت بابرکت سے مستفیض ہوتے رہے حتی کہ انہوں
نے قبلہ امیرِاَہلِ سنّت کو اپنی خلافت واجازت سے بھی نوازا۔
علمی حیثیت:آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ذکاوتِ طبع، قوتِ اتقان اور وسعتِ مطالعہ میں اپنی مثال آپ ہیں۔ کثرتِ مطالعہ، بحث وتمحیص
اوراَکابر علمائےکرام سے تحقیق وتدقیق کی وجہ سے آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ مسائلِ
شرعیہ اورتصوّف واخلاق پر یدِ طولیٰ رکھتے ہیں، کئی سالوں سے مسلسل”مدنی مذاکرہ“ نامی
ہفتہ وار ایسی علمی نشست قائم فرماتے ہیں
جس میں شرکت کرنے والے ہر خاص و عام کو
شرعی، طبی، تاریخی اور تنظیمی معلومات کا خزانہ ہاتھ آتا ہے۔
تحریری خدمات:آپ ایک اچھے انشاپرداز اور صاحبِ اسلوب،کہنہ مشق
ادیب اور قابلِ اعتماد قلم کار ہیں۔آپ کی نثری خدمات متعدد کتب و رسائل پر مشتمل
ہیں جن میں اصلاحی موضوعات اور دینِ اسلام کے بنیادی مسائل کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ آپ کی تحریر کی خاصیت یہ
ہے کہ اس میں سلاست و روانی ، ایجاز و اختصار اور روحانی تاثیر پائی جاتی ہے۔ آپ کی تحریریں
اردو ادب کا وہ قیمتی خزانہ ہیں جن میں بیان کے جوش و زور اور شوکت وجلالت کے
نگار خانے آراستہ ہیں۔
شاعری:اللہ پاک نے آپ کو وہ زورِ قلم عطا فرمایا ہے کہ جہاں آپ کے
نثری شہہ پارے ادبی حیثیت کے حامل ہیں
وہیں آپ کی شاعری بھی آپ کی قادرالکلامی پر شاہد و عادل ہے۔حمد ہو یا
نعت، منقبت ہو یا صلاۃُ سلام،مثنویات ہوں یا شادی کا سہرہ، استغاثات ہوں، مناجات
ہوں یا رمضان کےالوداعی کلام ! ہر موضوع پر آپ نے قلم اٹھایا اور بہترین اشعار
لکھے۔ آپ کی لکھی نعتیں ”پکارو یا رسول اللہ
اور نور والا آیا ہے“ بچے بچے کو زبانی یاد ہوتی ہیں۔ہر جمعہ کو بیشتر مساجد کے اسپیکر آپ کے لکھے ہوئے صلاۃ و سلام ”تاجدارِ حرم اے شہنشاہِ دیں تم پہ ہر دم
کروڑوں درود و سلام“ اور ”زائر طیبہ روضے پہ جاکر تو سلام میرا رو رو کہ کہنا“ کی
صداؤں سے گونج رہے ہوتے ہیں۔ رمضان کا الوداعی جمعہ کیا آتا ہے گویا ہر مسجد سے آپ کے لکھےہوئے کلام ”قلبِ
عاشق ہے اب پارہ پارہ الوداع الوداع ماہ ِرمضاں“ کی آوازیں آرہی ہوتی ہیں۔آپ کا نعتیہ دیوان ”وسائلِ بخشش“
متعدد بار شائع ہوچکا ہے۔
اوصافِ حمیدہ:اللہ نے آپ کو اپنے اسلاف کا پَرتَو بنایا ہے۔ محبتِ الٰہی، عشقِ رسول،الفتِ صحابہ،علما سے پیار،مدینے
سے عقیدت، سنّت سے محبت اور ان کا احیاء، آخرت کی فکر، امّت کا درد، تبلیغِ قراٰن
و سنّت اور اصلاحِ امّت کا جذبہ، نیکیوں کی حرص، عاجزی و انکساری، صبر و استقلال، عفو
و درگزر، زہدوتقویٰ، اخلاص، حسنِ اخلاق،جود وسخا، دنیاسے بے رغبتی اور خیر خواہیِ
مسلمین آپ کے وہ اوصافِ حمیدہ ہیں جو آپ
کی طبیعت میں گویا رَچ بس چکے ہیں۔
شادی کے پُرمسرت موقع پر بہت سے لوگ غیر شرعی
معاملات میں پڑ جاتے ہیں حتیٰ کہ بعض دینی
سوجھ بوجھ رکھنے والوں کو یہ سوچ کہ ”زمانہ کیا کہے گا،شادی ایک بار ہی تو ہوتی
ہے“ غفلت میں مبتلا کردیتی ہےلیکن سنیئے اس ولیِ کامل کی شادی کے
بارے میں: آپ فرماتے ہیں میں نے اپنی شادی کا کارڈ سب سے پہلے مدینے میں رہنے والے
ایک صاحب کے ذریعے بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم میں بھجوایا اور وقتِ نکاح یہ سوچ کر مجھ پر عجیب کیفیت طاری تھی کہ میں نے
بارگاہِ رسالت میں دعوت عرض کی ہے،اب دیکھئے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کب کرم فرماتے اور تشریف لاتے ہیں۔ اللہ اکبر کبیرا کیا شان ہے اس مردِ قلندر کی،سبحان اللہ۔
حق گوئی: ہر دور میں باطل نے حق کو زیر کرکے اپنا تسلط
قائم کرنے کی کوشش کی مگر حق اور اہل حق باطل اور اہلِ باطل کے مقابل سینہ سپر رہے اورہردور میں حق غالب رہا جبکہ باطل کو منہ کی کھانا پڑی۔اس دو ر میں بھی
موقع بموقع کئی بار باطل نے سر اٹھایا اور عَلمِ اسلام کو پست کرنے کی کوششیں کیں مگر امیرِ
اہلِ سنت دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے عَلمِ
حق کبھی سرنگوں نہ ہونے دیا اور اپنے شب و روز کو اہلِ سنّت کی ترویج و اشاعت اور
فاضلِ بریلوی امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے مشن کو فروغ دینے کے لئے وقف کرتے ہوئے عشق و مستی کا پیغام اس
جرأت وقوت سے دیا کہ بدعقیدگی کے
ایوانوں پر لرزہ طاری ہوگیا۔ جب اسلام
دشمن قوتوں نے بے مثل مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے گستاخانہ
خاکے بنائے تب اس مردِ مجاہد نے دنیا بھر
میں فیضانِ جمالِ مصطفیٰ کے نام سے مساجد بنانے کا اعلان کرکے ایسا انوکھا کارنامہ
انجام دیا کہ دشمن دانت پیستا رہ گیا ، الحمد للہ دنیا بھر میں فیضانِ جمالِ مصطفیٰ کے نام سے
کئی مساجد قائم کردی گئیں جہاں بندگانِ خداوند
اپنے رب کے حضور سجدہ ریزی کرتے ہیں۔
سنی وہی ہوتا ہے جس کے ایک ہاتھ میں اہلِ بیتِ
اطہار اور دوسرے ہاتھ میں صحابۂ کرام کا دامن ہو۔ اہلِ بیتِ اطہار نجات کی کشتی
اور صحابۂ کرام آسمان ہدایت کے روشن ستارے ہیں۔ سنی اہلِ بیت کی کشتی میں سوار ہوکر
نجومِ رسالت کی پیروی کرتے ہوئے اپنے ایمان
کو سلامت رکھتا ہے۔امیر اہلِ سنت میں بھی اہلِ
بیتِ اطہار اور صحابۂ کرام کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہے جس کی واضح مثال یہ کہ آپ
نے21 رمضان المبارک کو یومِ شہادت سیدنا مولا علیٰ المرتضیٰ شیرِ خدا کَرَّمَ اللہ تعالٰی وجہَہُ الکریم کے موقع
پر مولیٰ علی کے نام پر 2121 مساجد بنانے کا اعلان کیا،حُب علی کا
اظہار کرتے ہوئے براہِ راست مدنی مذاکرے میں آپ کا کہنا تھا کہ اگر تم میرے جسم کی
بوٹی بوٹی کردو تو وہ بھی کہے گی ”یاعلی ،یاعلی، یاعلی!“۔ یوم شہادتِ سیدہ
فاطمۃ الزہراء رضی
اللہ عنہا آیا تو آپ نے بڑی
شان و شوکت سے جلوسِ بیادِ فاطمہ رضی اللہ عنہا نکالا لیکن جب بعض لوگوں نے اصحابِ ذی
وقار بالخصوص حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی عدالت کو تقیہ اور کتمان کی چادر کی اوٹ
میں نشانہ بنانا شروع کیا تو اس مردِ مجاہد نے بھی چپ کی چادر اوڑھنا مناسب نہ سمجھا
اور فیضانِ امیرِ معاویہ کے نام سے 22سو مساجد بنانے کا اعلان کردیا جس پر سینکڑوں احباب نے مساجد بنانے کی نہ صرف نیت کی بلکہ تعمیراتی کام کا آغاز بھی
کردیا، اس اعلان سے بھی باطل کے ایوانوں میں سناٹا چھاگیا۔الغرض ہر موڑ
پر استقامت علیٰ الحق کا مظاہرہ کرتے ہوئے
عشق و محبت کے اس سفیر نے منہجِ اہلِ سنّت کے داعی ہونے کا مکمل ثبوت دیا اور احقاقِ حق کا حق ادا کردیا۔
آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ تنہا چلے تھے لیکن قوتِ عشق نے بہت جلد راستے ہموار کرلئے ،محبت کے زمزے پھوٹنے لگے، لوگوں کے دلوں میں عشقِ رسول کی قندیلیں روشن ہوتی گئیں اور ایک انقلاب برپا ہوگیا۔آج گلشنِ عطار ہرا بھرا نظر آتا ہے۔عرب ہو یا ایشیاء،افریقہ ہو یا امریکہ ،یورپ ہو یا آسٹریلیا جس سمت جائیے ہر سو عطار کا فیضان نگاہوں کی راحت کا سامان بنتا ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے:
دنیا بھر میں
فضلِ رب سے چرچے ہیں عطار کے
بڑے بڑے گن گاتے
ہیں ان کے ستھرے کردار کے
نوٹ:رمضان المبارک کی 26 ویں تاریخ کو
امیر اہلِ سنت کا یومِ پیدائش ہے،اس عظیم
ہستی کے لئے دعائے عافیت و صحت کرنا مت
بھولئے گا۔
اللہ پاک پیاری دعوتِ اسلامی اور اس تحریک کے بانی، سیدی و
مرشدی و سندی شیخِ طریقت قبلہ امیرِ اَہلِ
سنّت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کو حاسدین کے حسد،شریروں کی شرارت،بروں کی برائی
اوربد نظروں کی بد نظری سے بچائے اور آپ کا سایہ ہمارے سروں پر دراز فرمائے ۔اٰمین بجاہِ
طہٰ و یٰسین
الوداع
ماہِ رمضان
از:
محمد کاشف سلیم عطاری مدنی
رائٹراسلامک ریسرچ سینٹردعوتِ اسلامی( المدینۃ العلمیہ )
رمضان المبارک
کے آخری جمعہ کو الوداعی خطبہ پڑھا جاتا ہے جو اسلامی نقطۂ نظر سے نہ صرف جائز
بلکہ اچھا کام ہے لہذا اگر کوئی ضروری نہ سمجھتے
ہوئے اسےپڑھتا ہے تو اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس کی بدولت لوگو ں کو خاص رقت والی کیفیت حاصل ہوتی ہے اور لوگ روتے آنسو بہاتے ہیں اور ان
میں بڑی تعداد اپنےگنا ہوں پر نادم ہوکر توبہ کرتی ہے ۔
اگرچہ اس خطبہ کا ثبوت نبی پاکصلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم اور صحابہ
وتابعین رضوانُ
اللہ علیہم اجمعین کے مقدس دور سے نہیں ملتا پھر بھی شریعت کی نظر میں
یہ ایک اچھا کام ہے کیونکہ یہ عمل شریعت کے کسی قانون کے خلاف نہیں نیز اس کے
اغراض ومقاصد میں لوگوں کی اصلاح کا عظیم مقصد بھی موجود ہے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے: مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً
فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أُجُوْرِهِمْ شَيْءٌ
([1]) یعنی
جس شخص نےاسلام میں کوئی نیک طریقہ جاری
کیا پھر بعد میں اس طریقے کو اپنایا گیاتو
اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا اجر بھی اس نیک کام جاری کرنے والےکے نامہ اعمال
میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے
اجر میں بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔
الوداعی اشعار کے جائز ونیک عمل ہونے پر چنددلائل
(1) جب
کسی چیز کے کرنے یااس سے رکنے کے بارے میں کوئی دلیل نہ ہو تو علماء وفقہائے
کرام کی بہت بڑی تعداد کا نظریہ یہ ہے کہ
ایسی چیز جائز ہوتی ہے۔([2])
(2)اللہ پاک کا فرمان ہے: ترجمۂ کنز
الایمان: اور بھلے کام کرو اس اُمید پر کہ
تمہیں چھٹکارا ہو۔(پ17،الحج:77)
تو
یہ اشعار پڑھنا بھی یقیناً بھلائی اور نیکی کا کام ہے کیونکہ ان کو پڑھ کر اور سن
کر ایک خاص رقت حاصل ہوتی ہے اور دل نرم پڑتا ہے جس کے نتیجے میں انسان گناہوں سے
توبہ کرتا اور نیکیوں کی طرف بڑھتا ہے جوکہ نیک کام ہے۔
(3)یہ اشعار عموماًوعظ
ونصیحت پر بھی مشتمل ہوتےہیں اور وعظ
ونصیحت کا حکم تو خود قرآنِ پاک میں موجود ہے چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:ترجَمۂ کنز الایمان : تو تم نصیحت فرماؤ اگر
نصیحت کام دے ۔(پ
30،الاعلی :9)
(4) بے شک یہ
مقدس مہینا اللہ پاک کی نشانیوں میں سے ہے۔ ([3]) اور اللہ پاک کی نشانیوں کی تعظیم اور ان کا
احترام دل کی پرہیزگاری کی دلیل ہے جیساکہ قرآنِ پاک میں ارشاد ہوا:ترجَمۂ کنز
الایمان: اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے۔ (پ17،
الحج:32) اور الوداع کے ذریعے رمضان المبارک کی تعظیم
اور احترام دلوں میں بڑھتا ہے ۔
(۵) نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے شعبان المعظم کے آخر میں استقبالِ رمضان کا خطبہ پڑھنا ، اس کی آمد
کی خوشخبری دینا اور اس کی عظمت بیان فرمانا ثابت ہے([4]) اور جب یہ
سب نبی پاک صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے
ثابت ہے تو اس کے جانے پر حسرت وافسوس کرنا اور الوداعی اشعار کے منع ہونے کی کوئی
دلیل نہیں، اسی طرح آمدِ رمضان اور رخصتِ رمضان دونوں چیزیں ایک دوسرے کی ضد(opposite) ہیں
تو جس طرح اس کے آنے پر خوش ہونا اور اس کا استقبال کرنا شریعت کو پسند ہے اسی طرح اس کے جانے پر حسرت وندامت ظاہر کرنا
بھی شریعتِ مطہرہ کو پسند ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے استقبالِ رمضان کے مبارک عمل
نے گویا الوداع کے جائز ہونے کی طرف
رہنمائی فرمادی۔
(۶) علمائے اہلسنّت کی بڑی تعدادکا رمضان المبارک کے
آخری جمعہ کو الوداع پڑھنا اس کے جائز ہونے کی واضح دلیل ہے
کیونکہ روایتوں میں ہے: مَا رَأَى الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا
فَهُوَ عِنْدَ اللهِ حَسَنٌ ([5]) جسے
مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ پاک کے یہاں
بھی اچھا ہے ۔
کئی سو برس پہلے کے جیدعلمائے کرام رحمہم اللہ سے الوداعی خطبہ کا ثبوت
(7) علامہ ابوالفرج عبد الرحمن ابن جوزی رحمۃُ
اللہِ علیہ (وفات597ھ) نے
’’وداعِ رمضان‘‘ کے نام سے پورا رسالہ(Booklet)
تحریر فرمایا ہے ۔
(8) علامہ حافظ
ابن رجب حنبلی رحمۃُ
اللہِ علیہ (وفات795ھ)نے
اپنی کتاب ’’لطائف المعارف‘‘([6])
میں پورا ایک باب(Chapter) ’’وداعِ رمضان ‘‘کے نام سےقائم فرمایا ہے۔
(9) علامہ ابن حجر مکی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات974ھ)نے"اَلنُّخَبُ الْجَلِیْلةُ فِی الْخُطَبِ الْجَزِیْلَة"([7]) نام سے ایک کتاب لکھی جس میں رمضان المبارک کو ان الفاظ سے الوداع فرمایا ہے::
اے روزوں، تراویح، نوافل اور روشنیوں کے مہینے تجھ پر سلام ہو، ہم تجھے الوداع
کہتے ہیں۔
الوداعی خطبہ سے متعلق بعض وسوسے اور ان کے جوابات
پہلا
وسوسہ
وداعِ رمضان پر مشتمل خطبہ نبی کریم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ،
صحابۂ کرام رضی
اللہُ عنہم،
تابعین اور تبع تابعین رحمۃُ اللہِ علیہم کسی سے ثابت
نہیں لہٰذا یہ بدعت وگمراہی ہے۔
جواب
اگر اس دلیل کو درست مانا جائے تو وداعِ
رمضان کے خطبہ کے علاوہ دیگر خطبوں پر جو بڑے بڑے علمائے کرام نے کتابیں لکھیں اور
خطباءِ کرام اپنےخطبوں میں جو اضافے کرتے ہیں وہ سب بھی ان مقدس ہستیوں سے ثابت
نہیں حالانکہ وہ رائج ہیں([8])اورنہ
کوئی ان پر اعتراض کرتا ہے تو پھر صرف
الوداعی خطبہ پر ہی اعتراض کیوں!
جمعۃ المبارک اور دیگر خطبوں سے اصل مقصد
لوگوں کو اللہ پاک کے انعامات یاددلانا، اس کے عذاب سے ڈرانا ، شریعت کے احکامات
بتانا اور لوگوں کو وعظ ونصیحت کرنا ہے تو جس خطبہ میں بھی یہ چیزیں ہونگی تو خطبہ کااصل مقصد حاصل ہوجائے گا چاہے اس
خطبہ کے الفاظ اور معنی نبی پاک صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ،
صحابۂ کرام،تابعین اورتبع تابعین رضی اللہُ عنہم سے ثابت ہوں
یا نئے بنائے گئے ہوں ، لہٰذا ہر وہ خطبہ
جوشرعی مقاصد پر پورا اترتا ہو وہ جائز ہے اور الوداعی خطبہ بھی اس میں شامل ہے۔
دوسرا
وسوسہ
رمضان المبارک کے جانے پر حسرت وافسوس کا
اظہار کرنا غیر شرعی کام ہے کیونکہ روزہ افطار کرنا خوشی اور مسرت کا ایک سبب ہے
جیساکہ حدیث پاک میں بھی ہے۔([9])
جواب
حدیثِ پاک میں افطار کے وقت جس فرحت وخوشی
کا ذکر ہے اس سے مراد انسانی عادت ہے کہ
اس کی طبیعت کوخوشی ہوتی ہے ، شرعی فرحت
مراد نہیں کیونکہ نیک لوگوں کو تو روزے اور دیگر عبادتوں کی بجاآوری میں فرحت
حاصل ہوتی ہے اور ان بابرکت دنوں کے گزرنے پر انہیں دکھ اور ملال ہوتا ہے۔
تیسرا
وسوسہ
پانچوں ارکانِ اسلام برابر ہیں پھر صرف
رمضان المبارک کے ہی گزرنے پر افسوس کیا جاتا ہے دیگر پر نہیں؟
جواب
زکوٰۃ کی ادائیگی کا شریعتِ مطہرہ کی طرف
سے کوئی وقت خاص نہیں اور نہ ہی تمام لوگوں کو ایک ساتھ ادائیگی کا شریعت نے پابند
کیا ہے لہٰذا اس پر حسرت وافسوس نہیں کیا
جاسکتاجبکہ رمضان المبارک کا مہینا سب مسلمانوں کیلئے ایک ہی ہے، اس ماہِ مبارک کی
بے شمار برکتیں ہیں تو اس کا ہر گزرتا، دن افسوس وحسرت کا باعث ہے، کیا عجب اگلا
رمضان نصیب ہو یا نہ ہواورجہاں تک نماز کی بات ہے تو ہر نماز کا وقت مقرر ہے
نیزنماز کے پورے وقت میں عام مغفرت کی بشارت رمضان المبارک جیسی نہیں ہے اوراس بات
میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں کہ حج کے ایام بہت برکت والے ہیں لیکن افعالِ حج کی
ادائیگی صرف حاجیوں پر لازم ہے دیگر لوگوں پر نہیں جبکہ روزہ ایسی عبادت ہے جو سب
مسلمانوں پریکساں فرض ہے۔
چوتھا وسوسہ
خطبۃ الوداع کی حدیث من گھڑت
ہے اورمن گھڑت حدیث پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔
جواب
جس خطبۃ الوداع کو علمائے کرام نے من گھڑت
قراردیا ہے ([10]) اس سے مراد وہ خطبہ ہے جسے نبی پاک صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
وفات ظاہری سے کچھ پہلے منبر پر فرمانے اور اسکے بعد کوئی خطبہ ارشاد نہ فرمانے کا
دعوی کیا گیا ہے اور اسے ’’خطبۃ الوداع‘‘ کا نام دیا گیاہے ، ایک جیسے نام کی وجہ سے رمضان المبارک کے الوداعی خطبہ پر
اُس من گھڑت خطبہ کا حکم لگانا کسی طرح بھی درست نہیں ،مختصر یہ کہ الوداعی خطبہ
جائز ہے البتہ اگر علمائے کرام یہ محسوس کریں کہ عوام اسے فرض وواجب سمجھنے لگے
ہیں تو عوام کی غلط فہمی دور کرنے کیلئےکبھی کبھار اس کو ترک بھی کردیں ۔
خطبۃ الوداع نوحہ نہیں ہے
پانچواں وسوسہ
خطبۃ الوداع کے الفاظ کے نتیجے میں لوگوں
کا رونا نوحہ ہے او ر نوحہ کی ممانعت صحیح حدیثوں سے ثابت
ہے۔
جواب
’’نوحہ‘‘ کا معنی لغت کی کتابوں میں
’’رونے‘‘ کے ملتے ہیں اب چاہے وہ رونا آواز کے ساتھ ہو یا بغیر آواز کے ۔
شریعت کی رو سے نوحہ یعنی میّت کے
اوصاف بڑھاچڑھاکر بیان کر نا اور آواز سے رونا جس کو
’’بَین‘‘ کہتے ہیں یہ حرام ہے اور حدیثوں میں اسی طرح کے رونے سے ممانعت ہے اسی وجہ سے ترمذی شریف کی روایت میں ’’صَوْت
عِنْدَ مُصِیْبَة‘‘ کے
الفاظ ہیں جس سے مراد کسی شخص کے انتقال پربلند آواز سے رونا ہے۔
اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنے شہزادے حضرت ابراہیم رضی اللہُ عنہ کی وفات پر روئے تو آپ کے
صحابی حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہُ عنہ نے دلی خدشے کا اظہار کرتے ہوئے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کیا آپ نے ہمیں رونے سے منع نہیں فرمایا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے دو آوازوں سے منع کیا تھا : (1) مصیبت کے وقت آواز نکال کر منہ نوچنے اور گریبان پھاڑنے سے (2) مزمار سے۔صحابیِ رسول رضی اللہُ عنہ نے صرف رونے کو
نوحہ سمجھا مگر نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے واضح فرمادیا کہ میت پر صرف رونا نوحہ نہیں بلکہ آواز کے ساتھ رونا اور
منہ نوچنا،گریبان پھاڑنا ’’نوحہ‘‘ ہے۔([11])
الوداعی خطبہ اور الوداعی اشعار پڑھنے والوں
میں سے کوئی بھی عموماً نوحہ والی حالت نہیں
اپناتا بلکہ الوداعی الفاظ کہتے ہوئے صرف آنسو بہاتے ہیں اور یہ منع نہیں، نبی
پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے شہزادے کے وصال پر جو الفاظ ارشاد فرمائے تھے اس میں
’’فراق‘‘ کا لفظ موجود
ہے نیز روایتوں سے آنسو مبارک بہانا بھی ثابت ہے۔نیز الفراق اور الوداع کے الفاظ
استعمال کرنے کو بے صبری بھی نہیں کہا جاسکتا بلکہ چیخنا چلانا، بال نوچنا، سینہ
پیٹنا گریبان پھاڑنا یہ چیزیں بے صبری اور نوحہ ہیں جن کے بارے میں انبیائے کرام کے سردار صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا: جو گریبان پھاڑے، منہ پیٹے اور جاہلیت کا پکارنا پکارے (یعنی نوحہ کرے) وہ ہم میں سے
نہیں۔([12])
الوداع میں ان سے کوئی بھی کام نہیں ہوتا۔
حاصل یہ ہے کہ ماہِ رمضان المبارک کووداع
کرنا شرعی طور پر نہ صرف جائز بلکہ اچھی نیتوں کے ساتھ باعثِ اجر وثواب ہے البتہ
اس میں شرعی حدود وقیود کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔ اللہ پاک ہمیں رمضان المبارک کا
حقیقی عاشق اور قدردان بنائے نیز مسلمانوں
کو تشویش میں ڈالنے کیلئے اس مبارک عمل پر بلا وجہ بے جا اعتراضات کرنے والوں کو
بھی ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین
[1]… "مسلم"،
کتاب العلم، باب من سن سنۃ حسنۃ او سیئۃ… الخ، ص1102، حدیث: 6800۔
[2]… "ردالمحتار"،کتاب
الطہارۃ،مطلب:المختار أنّ الاصل فی
الاشیاء الاباحۃ،1/234۔
[3]… "شرح النووی
علی مسلم"،کتاب الایمان، باب کل مؤمن مسلم… الخ ،الجزءالاول،1/148۔
[4]… "شعب الایمان"،باب فی الصیام ،فضائل شہر رمضان،3/305،حدیث:3608۔
[5]… "مسند احمد"
،مسند عبد اللہ بن مسعود ،2/16، حدیث:3600۔
[6]… "لطائف المعارف"، ص249-237۔
[7]… "النخب
الجلیلۃ فی الخطب الجزیلۃ "، الخطبۃ الرابعۃ لوداع شہر رمضان ، ص127۔
[8]… اس کی ایک مثال حضرت علامہ ابن حجر رحمۃُ اللہِ علیہ کی کتاب"اَلنُّخَبُ
الْجَلِیْلةُ فِی الْخُطَبِ الْجَزِیْلَة" ہے جس میں آپ نے ہر اسلامی مہینے کےہر
جمعہ کے الگ الگ خطبے تحریر فرمائے جو یقیناً آپ کے اضافے ہیں۔
[9]… "مسلم"،کتاب
الصیام،باب فضل الصیام،ص447،حدیث:2706۔
[10]… "اللآلی
المصنوعۃ" ،کتاب المواعظ والوصایا،2/311۔
[11]…"شرح معانی
الآثار" ،کتاب الکراہیۃ،باب البکاء علی المیت ،4/108-107۔
[12]… "بخاری "،کتاب
الجنائز، باب لیس منا من ضرب الخدود ، 1/ 439 ،حدیث:1297۔
دنیا میں سب سے بڑا اور
چھوٹا روزہ کہاں ہوگا؟
(شعبہ اوقاتُ الصلوۃ،دعوتِ اسلامی)
اَلْحَمْدُلِلّٰہ!2021/ 1442 ھ کا رمضان المبارک تشریف
لاچکا ہے۔دنیا بھر کے عشاقِ رمضان اللہ پاک کے اس مقدس مہمان کو مرحبا
کہنے کے لیے بے تاب تھے۔ یاد رہے کہ روزے کا دوسرا نام صبر ہے اور صبر پر اجر ہی اجر ہے۔جو روزہ دار جتنی
زیادہ بھوک وپیاس وغیرہ کے سبب مشقت برداشت کرے گا اتنا ہی اجر کا مستحق ہوگا۔ جن
ممالک میں روزے کا دورانیہ جتنا زیادہ ہوگا وہاں کے عشاقِ رمضان کو اتنا ہی اجر
کمانے کا موقع ملے گا۔آئیے اس مضمون میں ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں سب سے
زیادہ طویل اور سب سے کم دورانیہ کا روزہ کن ممالک میں اور کیوں ہوگا؟
روزہ
چھوٹا بڑا ہونے کی وجہ
یاد رہے کہ روزے کا وقت
صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک ہے۔چونکہ سورج چھ ماہ شمالی دنیا میں رہتا ہے اور چھ ماہ جنوبی دنیا میں۔ لہذا جب سورج شمالی
دنیا میں آئے گا تو شمالی دنیا بشمول
پاکستان دن بڑا اور رات چھوٹی ہوگی جبکہ جنوبی دنیا کا دن چھوٹا اور رات بڑی ہوگی۔یوں ہی جب سورج
جنوبی دنیا میں چھ ماہ رہے گا تو وہاں کے دن بڑے اور راتیں چھوٹی ہوگی اور شمالی
دنیا میں معاملہ برعکس یعنی راتیں بڑی اور دن چھوٹے ہوں گے۔
21مارچ سے 23ستمبر تک سورج شمالی دنیا میں رہتا ہے ۔ان چھ
ماہ میں یہاں گرمی اور جنوبی دنیا میں سردی کا موسم ہوتا ہے جبکہ 23 ستمبر سے 21 مارچ تک جنوبی دنیا میں ہوتا ہے لہذا سورج کے
قریب ہونے کے سبب جنوبی دنیا میں گرمی اور شمالی دنیا بشمول پاکستان سردی ہوتی ہے۔
چونکہ 1442 /2021 کا رمضان شریف اپریل ،مئی میں آرہا ہے لہذا شمالی دنیا
والوں کے لیے روزہ بڑا اور جنوبی دنیا والوں کے لیے چھوٹا ہوگا۔اب ہم وہ چارٹ پیش
کرتے ہیں کہ جس سے دنیا کے بڑے سے بڑے اور
چھوٹے سے چھوٹے روزے کا دورانیہ آپ جان سکیں گے:
دنیا کے ممالک میں سب سے
بڑا روزہ
٭ٹورمسو (ناروے) Tromso Norway : 22
گھنٹے 50 منٹ
٭بوڈو(ناروے) Bodo Norway:21 گھنٹے 56 منٹ
٭اوسلو (ناروے) Oslo Norway: 20 گھنٹے 35 منٹ
٭کوپن ہیگن (ڈنمارک) Copenhagen
Denmark : 20 گھنٹے 13 منٹ
٭اوڈینسی (ڈنمارک)Odense Denmark: 20 گھنٹے 08 منٹ
دنیا کے ممالک میں سب سے
چھوٹا روزہ
٭پونٹا اریناس
(چلی) Punta Arenas Chile: 10گھنٹے 47 منٹ
٭دونیدین (نیوزی
لینڈ) Dunedin New zealand : 11گھنٹے 18 منٹ
نوٹ:پاکستان میں روزے کا دورانیہ سب سے بڑا ”چترال : 15 گھنٹے
45 منٹ “اور سب سے چھوٹا ”نگر پارکر 14 گھنٹے 40 منٹ“ ہوگا۔
ایمان اور عقائد کی
دُرستی کے بعد تمام فَرائض میں نہایت اَہم و اَعظم نماز ہے۔(1) قراٰن و حدیث
اس کی اَہمیّت سے مالامال ہیں۔ ایک روایت کے مطابق قِیامت کے روز سب سے پہلے نماز
کا حساب لیا جائے گا۔(2)قراٰنِ پاک میں جابَجا اس کی تاکید آئی ہے۔
ہمارے نبیِّ کریم صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
نماز سے بہت محبت تھی۔ امام بَیْہَقِی علیہ رحمۃ اللہ القَوی نے روایت کیا کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے پوچھا گیا: اسلام میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کیا چیزہے؟
تو نبیِّ کریم صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا:نماز کو اپنے وقت میں ادا کرنا، جس نے نماز چھوڑی اس کا کوئی دین نہیں،
نماز دین کا سُتون ہے۔(3) سیّدُالاَتْقِیاء، غوثِ اعظم، پیرانِ
پیر، روشن ضمیر حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادرجیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کی سیرتِ مبارَکہ میں بھی نماز سے محبت جابَجا
ملتی ہے۔ آپ رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ کی مبارک زندگی میں
نماز کا کتنا اہتمام ہوتا تھا۔ اس سے متعلّق چند واقعات درج ذیل ہیں۔ عشاکے وضو سے فَجْر کی نماز ابوالفتح ہروی علیہ رحمۃ اللہ القَوی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت سیّدنا شیخ
عبدُالقادر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کی خدمت میں چالیس سال رہا۔ میں نے دیکھا کہ آپ ہمیشہ عشا کے وُضو سے
فَجْر کی نماز پڑھتے۔ آپ کا معمول تھا کہ جب وُضو ٹوٹ جاتا تو فوراً وُضو فرما لیتے
اور وُضو کر کے دو رکعت تَحِیَّۃُ الْوُضو ادا
فرماتے اور رات کو عشا کی نماز پڑھ کر اپنے خَلْوَت خانے میں داخل ہوتے اور صبح کی
نماز کے وقت وہاں سے نکلا کرتے۔([4]) اللہُ اَکْبَر! غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو نماز سے کتنی محبت تھی۔ اے کاش! ہمیں بھی غوثِ پاک
کے صدقے نمازوں کی پابندی نصیب ہو جائے اور فَرائض کے ساتھ ساتھ ہم نَفْل نماز کے
بھی عادی ہوجائیں۔ روزانہ ایک ہزار نوافل ہمارے غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ روزانہ ایک ہزار نوافل ادا فرماتے۔(5) نماز
میں مشغولیت امیرِاہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ
الْعَالِیَہ اپنے رسالے ”سانپ نُما
جن“ میں یہ حِکایَت نَقْل کرتے ہیں کہ حضور غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں ”جامع منصور“ میں
مصروفِ نماز تھا کہ ایک سانپ آگیا۔ اس نے میرے سجدے کی جگہ سَر رکھ کر اپنا منہ
کھول دیا۔ میں نے اسے ہٹا کر سجدہ کیا مگر وہ میری گردن سے لِپَٹ گیا۔ پھر وہ میری
ایک آستین میں گُھسااور دوسری سے نکلا۔ نماز مکمل کرنے کے بعد جب میں نے سلام پھیرا
تو و ہ غائب ہوگیا۔ دوسرے روز میں پھر اُسی مسجِد میں داخل ہوا تو مجھے ایک بڑی بڑی
آنکھوں والا آدَمی نظر آیا میں نے اُسے دیکھ کر اندازہ لگالیا کہ یہ شخص انسان نہیں
بلکہ کوئی جِنّ ہے۔ وہ جنّ مجھ سے کہنے لگا کہ میں آپ کو تنگ کرنے والا وُہی سانپ
ہوں۔ میں نے سانپ کے رُوپ میں بہت سارے اولیاءُ اللہ رحمہم اللہ تعالٰی کو آزمایا ہے مگر آپ جیسا کسی کو بھی ثابت قدم نہیں پایا۔ پھر وہ جِنّ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے
دستِ مبارک پر تا ئب ہوگیا۔([6])
اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی
معنوں میں حضورِ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا غلام اور ان کی سیرت پر چلنے والا بنائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عالم دین اور استاد نائب رسول ہے،اللہ
تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ
الْحُجُرٰتِ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْقِلُوۡنَ ﴿۴﴾ وَلَوْ اَنَّہُمْ
صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیۡہِمْ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمْ ؕ وَ اللہُ
غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾(پ26،الحجرات:4۔5)ترجمہ کنز
الایمان: بے شک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں
اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم آپ ان کے پاس تشریف لاتے تو یہ اُن کے لئے بہتر
تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
علامہ نظام الدین علیہ الرحمہ نقل
فرماتے ہیں :استاد کی تعظیم یہ ہے کہ وہ اندر ہو اور یہ حاضر ہو تو اس کے دروازہ
پر ہاتھ نہ مارے بلکہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرے ۔(فتاوی
عالمگیری،5/378)کیونکہ عالمِ
دین ہر مسلمان کے حق میں عام طور پراور استادِ علم دین اپنے شاگرد کے حق میں خاص
طور پر نائبِ حضور پُر نور سیّد عالمﷺ ہے۔(الحقوق
لطرح العقوق،ص78)
استاد آقا اور شاگرد غلام ہے،حضور نبی رحمتﷺ فرماتے
ہیں: جس نے کسی آدمی کوقرآن مجید کی ایک آیت سیکھائی وہ اس کا آقا ہے۔(معجم
کبیر،8/112،حدیث:7528)امیر المؤمنین حضرت علی المرتضی رضی
اللہ عنہ
فرماتے ہیں:جس نے مجھے ایک حرف سکھایا اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا چاہے تو مجھے
بیچ دے اور چاہے تو آزاد کردے۔(المقاصد الحسنہ،ص483)حضرت امام
شعبہ بن حجاج
رحمۃ اللہ علیہ
نے فرمایا:جس سے میں نے چار یا پانچ حدیثیں لکھیں میں اس کا تاحیات غلام ہوں۔بلکہ
فرمایا:جس سے میں نے ایک حدیث لکھی میں اس کا عمر بھر غلام رہا ہوں۔(المقاصد
الحسنہ،ص483)
استاد کے سامنے ہمیشہ عاجزی کی جائے
اور
خود کوکبھی بھی استاد سے افضل نہ
سمجھاجائے ۔حضور نبی اکرم ﷺفرماتے
ہیں:علم سیکھو اور علم کے لئے ادب واحترام سیکھو،جس استاد نے تمہیں علم سکھایاہےاس
کے سامنے عاجزی اور انکساری اختیار کرو۔(معجم اوسط، 4/342، حدیث:6184) اعلی
حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :عقلمند
اور سعادت مند اگر استاد سے بڑھ بھی جائیں تو اسے استاد کا فیض اور اس کی برکت
سمجھتے ہیں اور پہلے سے بھی زیادہ استاد کے پاؤں کی مٹی پر سر ملتے ہیں جبکہ بے
عقل اور شریر اور ناسمجھ جب طاقت وتوانائی حاصل کرلیتے ہیں تو بوڑھے باپ پر ہی زور
آزمائی کرتے ہیں اور اس کے حکم کی خلاف ورزی اختیار کرتے ہیں، جب خود بوڑھے ہوں گے
تو اپنے کئے کی جزا اپنے ہاتھ سے چکھیں گےصحیح بخاری ،جلد3،ص163 پر ہے:کَمَا تُدِیْنُ تُدَان یعنی جیسا
کرو گے ویسا بھرو گے۔(الحقوق لطرح العقوق،ص90)
استاد کا حق ماں باپ سے بھی زیادہ
ہے،علماء
کرام فرماتے ہیں کہ استاد کے حق کو والدین
کے حق پر مقدم رکھنا چاہئے کیونکہ والدین کے ذریعے بدن کی زندگی ہے اور استاد روح
کی زندگی کا سبب ہے ۔کتاب ”عین العلم“ میں ہے:والدین کے ساتھ نیکی کرنی
چاہئے کیونکہ ان کی نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے اور استاد کے حق کو والدین کے حق پر
مقدم رکھناچاہئے کیونکہ وہ روح کی زندگی کا ذریعہ ہے جبکہ علامہ مناویرحمۃ
اللہ علیہ نقل
فرماتے ہیں :جو شخص لوگوں کو علم سکھائے وہ بہترین باپ ہے کیونکہ وہ بدن کا نہیں
روح کا باپ ہے۔(تیسیرشرح
جامع الصغیر2/454)
استاد کے تمام حقوق اد کیے جائیں،استاد کے حقوق کا
انکار کرناتمام مسلمانوں بلکہ سارے عقل
والوں کے اتفاق کے خلاف ہے ،یاد رہے کہ عالم کا حق جاہل پر اور استاد کا حق شاگرد
پر یکساں ہے،فتاوی عالمگیری میں چند حقوق یہ بیان ہوئے ہیں : شاگر استاد سے پہلے بات نہ کرے ،
اس کے بیٹھنے کی جگہ اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے اور چلنے میں اس سے آگے
نہ بڑھے، اپنے مال میں کسی چیزسے اس کے ساتھ بخل نہ کرے( یعنی جوکچھ اسے
درکار ہو بخوشی حاضر کرے اور اس کے قبول کر لینے میں اس کا احسان اور اپنی سعادت
جانے۔)استاد
کے حق کو اپنے ماں باپ اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم رکھے اور جس نے اسے اچھا
علم سکھایا اگرچہ ایک حرف ہی پڑھایا ہو اس کے لئے عاجزی وانکساری کرے اور لائق
نہیں کہ کسی وقت اس کی مدد سے باز رہے، اپنے استاد پر کسی کو ترجیح نہ دے لہذا اگرکسی
کو ترجیح دے گا تو اس نے اسلام کی رسیوں سے ایک رسّی کھول دی اوراستاذ کی تعظیم یہ
ہے کہ وہ اندر ہو اور یہ حاضر ہو تو اس کے دروازہ پر ہاتھ نہ مارے بلکہ اس کے باہر
آنے کا انتظار کرے ۔(فتاوی عالمگیری،5/373تا379)
استاد کی بات ہمیشہ مانی جائے،کبھی
استاد کی بات کو رَد نہ کرے ،وہ اگر کسی
جائز بات کا حکم دے تواپنی طاقت وحیثیت کے
مطابق اُس پر عمل کرنے کو اپنی سعادت
سمجھے ۔اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے
ہیں : جس نے استاد کی نافرمانی کی اُس نے
اسلام کی گرہوں سے ایک گرہ کھول دی، علماء فرماتے ہیں :جس سے اس کے استاد کو
کسی طرح کی ایذا پہنچے وہ علم کی برکت سے محروم رہے گااور اگر استاد کا
حکم کسی شرعی واجب کے متعلق ہو تو اب اس کا لازم ہونا اور زیادہ
ہوگیا،استاد کے ایسے حکم میں اُس کی
نافرمانی تو واضح طور پر جہنم کا راستہ ہے (نعوذباللہ من
ذالک)۔ہاں!
اگر استاد کسی خلافِ شرع بات کا حکم دے تو
شاگردوہ بات ہرگز نہ مانے کیونکہ حدیث پاک میں ہے :اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں
کسی کی اطاعت جائز نہیں ۔(مسند احمد،7/363،حدیث:20678) مگر اس نہ ماننے پر بھی گستاخی وبے ادبی سے
پیش نہ آئے بلکہ بکمال عاجزی سے معذرت کرے اوراُس پر عمل کرنے سے بچے۔(الحقوق لطرح العقوق،ص79ماخوذا)
شاگر ہمیشہ استادکا شکر گزار رہے،کیونکہ
استاد کی ناشکری خوفناک بلا اور تباہ کن بیماری ہے اور علم کی برکتوں کو ختم
کرنیوالی ۔حضور نبی کریم ﷺنے فرمایا ہے:وہ
آدمی اللہ تعالیٰ کا شکر بجا نہیں لا تا جو لو گوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا (ابو
داؤد، 4/335،حدیث:4811)۔پھر یہ کہ شاگر کبھی استاد کا مقابلہ نہ کرے کہ یہ
تو ناشکری سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ ناشکری
تو یہ ہے کہ شکر نہ کیا جائے اور مقابلے کی صورت میں بجائے شکر کے اس کی مخالفت
بھی ہے اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے ”جس نے احسان کے بدلے برائی کی اس نے تو
ناشکری سے بھی بڑا گناہ کیا“
محمد آصف اقبال
16فروری 2019ء
لفظ دُعَا دَعْوٌ یا دَعْوَۃٌ
سے بنا ہے جس کے معنیٰ بُلانا یا پُکارنا ہے۔قراٰن شریف میں لفظِ دُعا پانچ معنیٰ
میں استعمال ہوا ہے۔ (1)پُکارنا (2)بُلانا (3)تمنا، آرزو کرنا (4)پوجنا یعنی معبود
سمجھ کر پُکارنا (5)مانگنا یا دُعا کرنا ۔ اس مضمون میں صرف آخری معنیٰ کو سامنے
رکھتے ہوئے گفتگو کی گئی ہے ۔
دُعا مانگنے کا حکم اللہ پاک نے خود قراٰنِ مجید میں دیا ہے چنانچہ فرمانِ باری
تعالیٰ ہے: اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ
لَكُمْؕ- ترجَمۂ کنزُ العرفان: مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ (پ24،
المؤمن: 60) دُعا
مانگنا اللہ پاک کے اَنبیا و مُرسلین کا معمول، اُس کے پیارے آخری نبی، مکی مدنی
محمدِ عربی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بہت ہی پیاری سنّت اور ایک عظیم عبادت ہے جس
میں بندہ اپنے خالق و مالک کی پاک بارگاہ میں اپنی
حاجات و ضروریات پیش کرتا ہے۔ قراٰن و حدیث میں کئی مقامات پر دعا مانگنے کے فضائل اور دعا مانگنے کی ترغیب ارشاد
فرمائی گئی ہے، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا
دَعَانِۙ- ترجَمۂ کنزُالعرفان: میں دعا کرنے والے کی دعا قبول
کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرے۔(پ2، البقرۃ: 186) نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اللہ پاک کے نزدیک کوئی چیز دعا سے
بزرگ تَر نہیں۔(ترمذی،
5/243، حدیث:3381) ایک
جگہ ارشاد فرمایا: دعا
مسلمانوں کا ہتھیار، دین کا ستون اور آسمان و زمین کا نور ہے۔(مستدرک
للحاکم، 2/162، حدیث: 1855) قارئین کرام! اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں کئی
مقامات پر انبیا و مُرسلین، ملائکہ مقربین، مسلمین و مؤمنین اور نیک صالحین بندوں
کی دعائیں ذِکْر فرمائی ہیں۔ اس مضمون میں 15انبیا و مُرسلین، ملائکہ مقربین، مسلمین و مؤمنین اور نیک صالحین بندوں
کی 54 قراٰنی دُعائیں بیان کی جارہی ہیں۔ اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ ان دعاؤں
کو اپنے معمولات کا حصہ بنا لیجئے اِنْ شآءَ اللہ دنیا و آخرت کی کثیر برکتیں حاصل
ہوں گی:
حضرت سیّدُنا آدم علیہ السّلام کی دُعا:(1)رَبَّنَا
ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ
مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۲۳) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی
کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان
والوں میں سے ہوجائیں گے۔(پ8، الاعراف: 23)
حضرت سیّدُنا نُوح علیہ السّلام کی دُعائیں: (2)رَبِّ اِنِّیْۤ اَعُوْذُ بِكَ
اَنْ اَسْــٴَـلَكَ مَا لَیْسَ لِیْ بِهٖ عِلْمٌؕ- وَاِلَّا تَغْفِرْ لِیْ
وَتَرْحَمْنِیْۤ اَكُنْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ(۴۷) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تجھ سے وہ
چیز مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اور اگر تو میری مغفرت نہ فرمائے اور مجھ پر رحم
نہ فرمائے تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوجاؤں گا۔(پ12، ھود:47) (3)رَّبِّ
اَنْزِلْنِیْ مُنْزَلًا مُّبٰرَكًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ(۲۹) ترجَمۂ کنزُالعرفان:اے میرے رب! مجھے برکت والی جگہ اتار دے اور تو سب
سے بہتر اُتارنے والا ہے۔(پ18، المؤمنون: 29) (4)رَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ كَذَّبُوْنِۚۖ(۱۱۷)
فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَبَیْنَهُمْ فَتْحًا وَّنَجِّنِیْ وَمَنْ مَّعِیَ مِنَ
الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۸) ترجَمۂ کنزُالعرفان:اے میرے رب! بیشک میری قوم
نے مجھے جھٹلایا۔ تو مجھ میں اور ان میں پورا فیصلہ کردے اور مجھے اور میرے ساتھ
والے مسلمانوں کو نجات دے۔ (پ19، الشعراء: 117، 118) (5)رَبِّ
اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَیْتِیَ مُؤْمِنًا وَّلِلْمُؤْمِنِیْنَ
وَالْمُؤْمِنٰتِؕ-وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا تَبَارًا۠(۲۸) ترجَمۂ
کنزُالعرفان: اے میرے
رب!مجھے اور میرے ماں باپ کو اور میرے گھر میں حالتِ ایمان میں داخل ہونے والے کو
اور سب مسلمان مردوں اور سب مسلمان عورتوں کوبخش دے اور کافروں کی تباہی میں اضافہ
فرما دے۔(پ29،
نوح:28)
حضرت سیّدُنا ابراہیم و اسماعیل علیہما السّلام کی دعا: (6)رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّاؕ-
اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۱۲۷) رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ
لَكَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ۪- وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ
عَلَیْنَاۚ- اِنَّكَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۱۲۸) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے
ہمارے رب! ہم سے قبول فرما، بیشک تو ہی ہے سننے والا جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب! اورہم دونوں کو
اپنا فرمانبردار رکھ اور ہماری اولاد میں سے ایک ایسی امت بنا جو تیری فرمانبردار
ہواور ہمیں ہماری عبادت کے طریقے دکھا دے اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرما بیشک
تو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔(پ1، البقرۃ: 127، 128)
حضرت سیّدُنا ابراہیم علیہ السّلام کی دعائیں:(7)رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ
الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ﳓ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِ(۴۰) رَبَّنَا
اغْفِرْ لِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۠(۴۱) ترجَمۂ
کنزُالعرفان: اے میرے
رب! مجھے اور کچھ میری اولاد کونماز قائم کرنے والا رکھ، اے ہمارے رب اور میری دعا
قبول فرما۔ اے ہمارے رب! مجھے اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو بخش دے جس
دن حساب قائم ہوگا۔(پ13، ابراہیم: 40، 41) (8)رَبِّ هَبْ لِیْ حُكْمًا
وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَۙ(۸۳) وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَۙ(۸۴) وَاجْعَلْنِیْ مِنْ
وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِیْمِۙ(۸۵) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! مجھے حکمت عطا کر اور مجھے ان سے
ملادے جو تیرے خاص قرب کے لائق بندے ہیں۔ اوربعدوالوں میں میری اچھی شہرت رکھ دے۔
اور مجھے ان میں سے کردے جو چین کے باغوں کے وارث ہیں۔ (پ19، الشعراء: 83تا85) (9)رَبَّنَا
عَلَیْكَ تَوَكَّلْنَا وَاِلَیْكَ اَنَبْنَا وَاِلَیْكَ الْمَصِیْرُ(۴) رَبَّنَا
لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَاۚ-اِنَّكَ
اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۵) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہم نے تجھی پر بھروسہ کیا اور تیری
ہی طرف رجوع لائے اور تیری ہی طرف پھرنا ہے۔اے ہمارے رب! ہمیں کافروں کیلئے آزمائش
نہ بنا اور ہمیں بخش دے، اے ہمارے رب! بیشک تو ہی بہت عزّت والا، بڑا حکمت والا ہے۔(پ28،
الممتحنۃ: 4، 5) (10)رَبِّ
هَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰۰) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! مجھے نیک اولاد عطا فرما۔(پ23،
الصّٰٓفّٰت:100)
حضرت سیّدُنا موسیٰ علیہ السّلام کی دعائیں: (11)اَعُوْذُ بِاللّٰهِ اَنْ
اَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ(۶۷) ترجَمۂ کنزُالعرفان:میں اللہ کی پناہ مانگتا
ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔ (پ1، البقرۃ: 67) (12)رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَلِاَخِیْ
وَاَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِكَ ﳲ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ۠(۱۵۱) ترجَمۂ
کنزُالعرفان: اے میرے
رب! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو سب
رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔(پ9، الاعراف: 151) (13)اَنْتَ
وَلِیُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ(۱۵۵)
وَاكْتُبْ لَنَا فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ اِنَّا
هُدْنَاۤ اِلَیْكَؕ- ترجَمۂ کنزُالعرفان:تو ہمارا مولیٰ ہے، تو ہمیں بخش دے اور ہم پررحم
فرما اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے۔ اور ہمارے لیے اس دنیا میں اور آخرت میں
بھلائی لکھ دے، بیشک ہم نے تیری طرف رجوع کیا۔(پ9، الاعراف: 155، 156) (14)رَبِّ
اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْۙ(۲۵) وَیَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْۙ(۲۶) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ
کھول دے۔اور میرے لیے میرا کام آسان فرما دے۔(پ16، طٰہٰ: 25، 26) (15)رَبِّ
اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب!میں نے اپنی جان پر
زیادتی کی تو تومجھے بخش دے۔ (پ20، القصص:16) (16)رَبِّ
نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۠(۲۱) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! مجھے ظالموں سے
نجات دیدے۔ (پ20،
القصص:21)
حضرت سیّدُنا عیسیٰ علیہ السّلام کی دعا: (17)اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا
مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا
وَاٰیَةً مِّنْكَۚ-وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(۱۱۴) ترجَمۂ
کنزُالعرفان: اے
اللہ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک دسترخوان اُتار دے جو ہمارے لئے اور ہمارے
بعد میں آنے والوں کے لئے عید اور تیری طرف سے ایک نشانی ہوجائے اور ہمیں رزق عطا
فرما اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔(پ7، المآئدۃ:114)
حضرت سیّدُنا لُوط علیہ السّلام کی دعائیں: (18)رَبِّ نَجِّنِیْ وَاَهْلِیْ
مِمَّا یَعْمَلُوْنَ(۱۶۹) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! مجھے اور میرے گھر والوں کو ان کے اعمال
سے محفوظ رکھ۔(پ19، الشعراء:
169) (19)رَبِّ
انْصُرْنِیْ عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِیْنَ۠(۳۰) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب!ان فسادی لوگوں کے
مقابلے میں میری مدد فرما۔(پ20، العنکبوت:30)
حضرت سیّدُنا ایوب علیہ السّلام کی دعا: (20)(رَبِّیْ) اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ
الرّٰحِمِیْنَۚۖ(۸۳) ترجَمۂ کنزُ العرفان: (اے میرے رب!) بیشک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے
والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔(پ17، الانبیاء:83)
حضرت سیّدُنا یونس علیہ السّلام کی دعا: (21)لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنْتَ سُبْحٰنَكَ ﳓ اِنِّیْ
كُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَۚۖ(۸۷) ترجَمۂ کنزُالعرفان: تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ہرعیب سے
پاک ہے، بیشک مجھ سے بے جا ہوا۔ (پ17، الانبیاء:87)
حضرت سیّدُنا یوسف علیہ السّلام کی دعائیں:(22)یَغْفِرُ اللّٰهُ
لَكُمْ٘-وَهُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(۹۲) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اللہ
تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانو ں سے بڑھ کر مہربان ہے۔(پ13،
یوسف:92) (23)فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ
وَالْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا
وَالْاٰخِرَةِۚ- تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ(۱۰۱) ترجَمۂ
کنزُالعرفان:اے آسمانوں
اور زمین کے بنانے والے! تو دنیا اور آخرت میں میرا مددگار ہے، مجھے اسلام کی حالت
میں موت عطا فرما اور مجھے اپنے قرب کے لائق بندوں کے ساتھ شامل فرما۔(پ13،
یوسف: 101)
حضرت سیّدُنا شعیب علیہ
السّلام کی دعا:(24)رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَیْرُ
الْفٰتِحِیْنَ(۸۹) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہم میں اور ہماری قوم میں
حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے اور تو سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا ہے۔(پ9،
الاعراف:89)
حضرت سیّدُنا زکریا علیہ السّلام کی دُعائیں: (25)رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ
ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ(۳۸) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! مجھے اپنی بارگاہ
سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی
دعاسننے والاہے۔(پ3،
آل عمرٰن: 38) (26)رَبِّ
لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَۚۖ(۸۹) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور
تو سب سے بہتر وارث ہے۔ (پ17، الانبیاء:89)
حضرت سیّدُنا سلیمان علیہ السّلام کی دعا: (27)رَبِّ اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ
الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰى وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا
تَرْضٰىهُ وَاَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِكَ فِیْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۹) ترجَمۂ
کنزُالعرفان: اے میرے
رب!مجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس احسان کا شکر اداکروں جو تو نے مجھ پر اور میرے
ماں باپ پر کیا اور (مجھے توفیق دے) کہ میں وہ نیک کام کروں جس پر تو راضی ہو اور
مجھے اپنی رحمت سے اپنے ان بندوں میں شامل کر جو تیرے خاص قرب کے لائق ہیں۔(پ19،
النمل:19)
اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دعائیں: (28)رَّبِّ
زِدْنِیْ عِلْمًا(۱۱۴) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔(پ16،
طٰہٰ: 114) (29)رَّبِّ
اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ
مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِیْرًا(۸۰) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب مجھے پسندیدہ طریقے سے داخل فرما اور
مجھے پسندیدہ طریقے سے نکال دے اور میرے لئے اپنی طرف سے مددگار قوت بنادے۔(پ15،
بنی اسرائیل: 80) (30)رَبِّ احْكُمْ
بِالْحَقِّؕ-وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوْنَ۠(۱۱۲)ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! حق کے ساتھ فیصلہ فرمادے اور ہمارا رب
رحمٰن ہی ہے جس سے ان باتوں کے خلاف مدد طلب کی جاتی ہے جو تم کرتے ہو۔(پ17،
الانبیاء:112) (31)رَّبِّ
اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِۙ(۹۷) وَاَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ(۹۸) ترجَمۂ
کنزُالعرفان:اے میرے
رب! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اور اے میرے رب! میں تیری
پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ شیطان میرے پاس آئیں۔(پ18، المؤمنون: 97، 98) (32)رَّبِّ
اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ۠(۱۱۸) ترجَمۂ کنزُالعرفان:اے میرے رب! بخش دے اور رحم فرما اور تو سب سے بہتر
رحم فرمانے والا ہے۔(پ18، المؤمنون: 118) (33)اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِۙ(۱)
مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَۙ(۲) وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَۙ(۳) وَمِنْ شَرِّ
النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِۙ(۴) وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۠(۵) ترجَمۂ کنزُالعرفان: میں صبح کے رب کی پناہ لیتا ہوں۔ اس
کی تمام مخلوق کے شر سے۔ اور سخت اندھیری رات کے شر سے جب وہ چھاجائے۔ اور ان
عورتوں کے شر سے جو گرہوں میں پھونکیں مارتی ہیں۔ اور حسد والے کے شر سے جب وہ حسد
کرے۔ (پ30،
الفلق: 1تا5) (34)اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِۙ(۱) مَلِكِ
النَّاسِۙ(۲) اِلٰهِ النَّاسِۙ(۳) مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ ﳔ الْخَنَّاسِﭪ(۴)
الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِۙ(۵) مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ۠(۶) ترجَمۂ
کنزُالعرفان:میں تمام لوگوں کے رب کی پناہ لیتا ہوں۔ تمام لوگوں کا بادشاہ۔ تمام
لوگوں کا معبود۔ بار بار وسوسے ڈالنے والے، چھپ جانے والے کے شر سے(پناہ لیتا ہوں)۔ وہ جو لوگوں کے دلوں میں
وسوسے ڈالتا ہے۔ جنوں اورانسانوں میں سے۔ (پ30، الفلق: 1تا5)
ملائکہ
مقربین، مسلمین و مؤمنین اور نیک صالحین بندوں کی دعائیں: (35)رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً
وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱) ترجَمۂ
کنزُالعرفان:اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب
سے بچا۔(پ2،
البقرۃ:201) (36)رَبَّنَاۤ
اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ
الْكٰفِرِیْنَؕ(۲۵۰) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہم پر صبر ڈال
دے اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اورکافر قوم کے مقابلے میں ہماری مددفرما۔(پ2،
البقرۃ:250)(37)سَمِعْنَا
وَاَطَعْنَا ﱪ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَیْكَ الْمَصِیْرُ(۲۸۵) رَبَّنَا لَا
تُؤَاخِذْنَاۤ اِنْ نَّسِیْنَاۤ اَوْ اَخْطَاْنَاۚ-رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَاۤ
اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهٗ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَاۚ-رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا
مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖۚ-وَاعْفُ عَنَّاٙ-وَاغْفِرْ لَنَاٙ-وَارْحَمْنَاٙ- اَنْتَ
مَوْلٰىنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ۠(۲۸۶) ترجَمۂ
کنزُالعرفان: اے ہمارے رب!ہم نے سنا اور مانا، (ہم پر) تیری معافی ہواور
تیری ہی طرف پھرنا ہے۔اے ہمارے رب! اگر ہم بھولیں یا خطا کریں تو ہماری گرفت نہ
فرما،اے ہمارے رب! اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر
رکھا تھا، اے ہمارے رب!اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہیں اور ہمیں
معاف فرمادے اور ہمیں بخش دے اور ہم پر مہربانی فرما، تو ہمارا مالک ہے پس کافر
قوم کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔(پ3، البقرۃ: 285، 286) (38)رَبَّنَا لَا تُزِغْ
قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ-اِنَّكَ
اَنْتَ الْوَهَّابُ(۸) رَبَّنَاۤ
اِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لَّا رَیْبَ فِیْهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخْلِفُ
الْمِیْعَادَ۠(۹) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب تو نے ہمیں ہدایت عطا
فرمائی ہے،اس کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا
فرما، بیشک تو بڑاعطا فرمانے والاہے۔ اے ہمارے رب! بیشک تو سب لوگوں کو اس دن جمع
کرنے والا ہے جس میں کوئی شبہ نہیں، بیشک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔(پ3،
آل عمرٰن:8، 9) (39)رَبَّنَاۤ
اِنَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِۚ(۱۶) ترجَمۂ
کنزُالعرفان: اے
ہمارے رب! ہم ایمان لائے ہیں، تو تو ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب
سے بچالے۔ (پ3،
آل عمرٰن:16) (40)رَبَّنَاۤ
اٰمَنَّا بِمَاۤ اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ
الشّٰهِدِیْنَ(۵۳) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہم اس کتاب پر ایمان
لائے جو تو نے نازل فرمائی اورہم نے رسول کی اِتّباع کی پس ہمیں گواہی دینے والوں
میں سے لکھ دے۔(پ3،
آل عمرٰن:53)(41)رَبَّنَا
اغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْۤ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا
وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ(۱۴۷) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہمارے گناہوں کو اور ہمارے معاملے میں جو ہم
سے زیادتیاں ہوئیں انہیں بخش دے اور ہمیں ثابت قدمی عطا فرما اور کافر قوم کے
مقابلے میں ہماری مدد فرما۔(پ4، آل عمرٰن: 147) (42)رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا
بَاطِلًاۚ-سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(۱۹۱) رَبَّنَاۤ اِنَّكَ مَنْ
تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْتَهٗؕ-وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ(۱۹۲)
رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا
بِرَبِّكُمْ فَاٰمَنَّا ﳓ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا
سَیِّاٰتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْاَبْرَارِۚ(۱۹۳) رَبَّنَا وَاٰتِنَا مَا
وَعَدْتَّنَا عَلٰى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-اِنَّكَ لَا
تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ(۱۹۴) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب!تو نے یہ سب بیکار
نہیں بنایا۔ تو پاک ہے، تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔ اے ہمارے رب! بیشک جسے تو
دوزخ میں داخل کرے گا اسے تو نے ضرور رسوا کردیا اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں
ہے۔ اے ہمارے رب! بیشک ہم نے ایک ندا دینے والے کو ایمان کی ندا (یوں ) دیتے ہوئے سنا کہ اپنے رب پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے
آئے پس اے ہمارے رب! تو ہمارے گنا ہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں مٹادے اور ہمیں
نیک لوگوں کے گروہ میں موت عطا فرما۔ اے ہمارے رب! اورہمیں وہ سب عطا فرما جس کا
تو نے اپنے رسولوں کے ذریعے ہم سے وعدہ فرمایا ہے اور ہمیں قیامت کے دن رسوانہ
کرنا۔بیشک تو وعدہ خلافی نہیں کرتا۔(پ4، آل عمرٰن:191تا194)([1])
(43)رَبَّنَا
لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۠(۴۷) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہمیں ظالموں کے ساتھ نہ کرنا۔(پ8، الاعراف:47) (44)رَبَّنَاۤ
اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ۠(۱۲۶) ترجَمۂ
کنزُالعرفان:اے ہمارے رب! ہم پر صبر انڈیل دے اور ہمیں حالتِ اسلام میں موت عطا
فرما۔(پ9،
الاعراف: 126) (45)رَبَّنَا
لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَۙ(۸۵) وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ
مِنَ الْقَوْمِ الْكٰفِرِیْنَ(۸۶) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہمیں ظالم لوگوں کے لیے آزمائش نہ
بنا۔ اور اپنی رحمت فرما کر ہمیں کافروں سے نجات دے۔ (پ11، یونس: 85تا86) (46)رَّبِّ
ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًاؕ(۲۴) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے میرے رب! تو ان دونوں پر رحم
فرما جیسا ان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا۔(پ15، بنی اسرائیل: 24) (47)رَبَّنَاۤ اٰتِنَا مِنْ
لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّ هَیِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا(۱۰) ترجَمۂ
کنزُالعرفان: اے ہمارے
رب! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے لئے ہمارے معاملے میں ہدایت کے
اسباب مہیا فرما۔(پ15،
الکھف: 10) (48)رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا
وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ(۱۰۹) ترجَمۂ کنزُالعرفان:اے ہمارے رب!ہم ایمان لائے تو ہمیں بخش
دے اور ہم پر رحم فرما اور تو سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے۔(پ18، المؤمنون: 109) (49)رَبَّنَا
اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ﳓ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًاۗۖ(۶۵)
اِنَّهَا سَآءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا(۶۶) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب!ہم سے جہنم کا عذاب
پھیر دے، بیشک اس کا عذاب گلے کا پھندا ہے۔ بیشک وہ بہت ہی بری ٹھہرنے اور قیام
کرنے کی جگہ ہے۔(پ19،
الفرقان: 65، 66) (50)رَبَّنَا
هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا
لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا(۷۴) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب! ہماری بیویوں اور ہماری اولاد سے ہمیں
آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔(پ19، الفرقان: 74) (51)رَبَّنَا
وَسِعْتَ كُلَّ شَیْءٍ رَّحْمَةً وَّعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِیْنَ تَابُوْا
وَاتَّبَعُوْا سَبِیْلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِیْمِ(۷) رَبَّنَا
وَاَدْخِلْهُمْ جَنّٰتِ عَدْنِ ﹰالَّتِیْ وَعَدْتَّهُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ
اٰبَآىٕهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّیّٰتِهِمْؕ- اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ
الْحَكِیْمُۙ(۸) وَقِهِمُ السَّیِّاٰتِؕ- وَمَنْ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوْمَىٕذٍ
فَقَدْ رَحِمْتَهٗؕ- وَذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۠(۹) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے ہمارے رب!تیری رحمت اور
علم ہر شے سے وسیع ہے تو انہیں بخش دے جوتوبہ کریں اور تیرے راستے کی پیروی کریں
اور انہیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔ اے ہمارے رب! اور انہیں اور ان کے باپ دادا اور ان
کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو نیک ہوں ان کو ہمیشہ رہنے کے ان باغوں میں داخل
فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے، بیشک تو ہی عزت والا، حکمت والا ہے۔ اور
انہیں گناہوں کی شامت سے بچالے اور جسے تونے اس دن
گناہوں کی شامت سے بچالیا تو بیشک تو نے اس پر رحم فرمایااور یہی بڑی کامیابی ہے۔(پ24، المؤمن:7تا9) (52)رَبِّ
اَوْزِعْنِیْۤ اَنْ
اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰى وَالِدَیَّ وَاَنْ
اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ ﱂ اِنِّیْ تُبْتُ
اِلَیْكَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(۱۵) ترجَمۂ کنزُالعرفان:اے میرے
رب!مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پراور میرے ماں باپ
پر فرمائی ہے اور میں وہ نیک کام کروں جس سے تو راضی ہوجائے اور میرے لیے میری اولاد میں
نیکی رکھ،میں نے تیری طرف رجوع کیااور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔(پ26،
الاحقاف:15) (53)رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ
سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠(۱۰) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اے
ہمارے رب! ہمیں اورہمارے ان بھائیوں کوبخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے
دل میں ایمان والوں کیلئے کوئی کینہ نہ رکھ، اے ہمارے رب! بیشک تو نہایت مہربان،
بہت رحمت والا ہے۔(پ28،
الحشر: 10) (54)رَبَّنَاۤ
اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَاۚ-اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ(۸) ترجَمۂ کنزُالعرفان:اے
ہمارے رب! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کردے اور ہمیں بخش دے، بیشک تو ہر چیز پر خوب
قادر ہے۔ (پ28، التحریم: 8)
([1])ان آیات میں ”رَبَّنَا“ کا لفظ پانچ بار ہے، اعلیٰ حضرت امام
احمد رضا خان رحمۃُ
اللہِ علیہ کے
والدِ محترم حضرت مفتی نقی علی خان رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے
ہیں: پانچ بار ”یَارَبَّنَا“ کہنا
بھی نہایت مؤثر ِاِجابت ہے (یعنی دعا کی قبولیت میں بہت اَثر
رکھتا ہے)۔
قرآنِ مجید میں اس لفظ مبارک کو پانچ بار ذِکْر کر کے اس کے بعد ارشاد فرمایا: (فَاسْتَجَابَ
لَھُمْ رَبُّھُمْ) تو
ان کی دعا قبول کی اُن کے رب نے۔(پ4، آل عمرٰن: 195)
حضرت
سیدنا امام جعفر صادق رضی
اللہ عنہ سے
منقول ہے:جو شخص عجز کے وقت پانچ بار ”یَارَبَّنَا“ کہے، اللہ تعالیٰ اسے اس چیز
سے جس کا خوف رکھتا ہے، امان بخشے اور جو چیز چاہتا ہے، عطا فرمائے پھر یہ آیتیں
تلاوت کیں: (رَبَّنَا
مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا) اِلٰی قَوْلِہٖ تَعَالٰی: (اِنَّكَ
لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ) (پ4، آل عمرٰن:191تا194، فضائلِ
دعا، ص71)
بچوں کے لئے لکھنا یوں تو آسان ہے کہ بیٹھا جائے،
قلم پکڑا جائے اور ساری معلومات کو سمیٹ دیا جائے پھر نتیجۃً یہ سمجھا جائے کہ ہمارے
لکھے ہوئے سے بچے احساسِ ذمہ داری، خود اعتمادی اور بلند عزائم پانے میں کامیاب
ہوجائیں گے، نیک امنگوں سے سرشار ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین صلاحیتوں اور قابلیتوں
کے حامل ہوں گے اور آگے چل کر اپنے دین،
قوم اور ملک کے لئے ضرور مفید ثابت ہوں
گے، لیکن! کیا یہ نتائج بچوں کی طبیعت، ذہنی رجحانات اور دلی لگاؤ کا
لحاظ رکھے بغیر حاصل ہوں گے؟، ان کی عمر، دلچسپی اور الفاظوں کے ذخیرے کی رعایت کئے بغیر مل جائیں گے؟ ہرگز نہیں !
اسی
لئے میرے عزیز! بچوں کے لئے لکھتے ہوئے آپ کو بچہ بننا پڑے گا، ان کی نفسیات،
رجحانات اور دلی میلانات کو سمجھنا پڑے گا اور پسند
و ناپسند، جبلی اور نفسیاتی تقاضوں کا دھیان رکھنا ہوگا تبھی وہ آپ کی تحریر میں
دلچسپی لیں گے اور آپ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔
ذیل
میں اسی پس منظر کی وجہ سے بچوں کے لکھاریوں کے لئے 15مفید اور کارآمد اصول پیش
کئے جارہے ہیں ، انہیں قبول فرمائیے، عمل میں لائیے اور نتیجہ پائیے۔
(1)لکھنے سے پہلے کے
کام:(Before Writing)
(01)بچوں
کے لئے کچھ بھی لکھنے سے پہلے آپ کو طے کرنا ہوگا کہ آپ کیا پیغام دینے جارہے ہیں؟، اس تحریر کے ذریعے
سے چھوٹے سے دماغ میں کیا بٹھانا چاہتے
ہیں؟، ورنہ تحریر بے مقصد ہوجائے گی یا مضمون اور سبق میں کوئی ربط ہی نہیں رہے گا۔ یقین نہیں آتا تو ایک مثال پڑھ لیجئے:
کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک کوے کی کہانی پڑھی
تھی، کہ سرداری حاصل کرنے کے لئے اس نے ایک تدبیر کی، سب پرندوں کے پنکھ جمع کئے،
اور رنگ برنگی بن کر سرداری حاصل کرلی لیکن جب دوسروں کو اس حقیقت کا پتا چلا تو
انہوں نے خوب اس کی درگت بنائی۔ اس کے بعد کہانی سے درس دیتے ہوئے موصوف لکھتے
ہیں:
”اچھا اخلاق سب سے بڑی خوب صورتی ہے“۔
لہٰذا
یہ طریقہ غلط ہے کہ لکھنے کے بعدتانے بانے ملا کر زبردستی نتیجہ اخذ کیا جائے اور
کڑوی دوائی کی طرح بچے کو پکڑ کر پلایا جائے۔
(02)اس
کے ساتھ دوسری اہم چیز جس کی لکھنے سے پہلے رعایت کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اس مضمون کی وساطت سے جو پیغام آپ دینا چارہے ہیں وہ کس عمر کے بچوں کے لئےہے؟
لکھنے سے پہلے آپ کو متعین کرنا ہوگا کہ یہ پیغام کس عمر کے بچوں کے لئے ہے؟ پندرہ سال کے بچے کے لئے چڑے چڑی کی
کہانی اتنی ہی غیر دلچسپ اور بور ہوگی جتنی کہ 8 سال سے کم عمر بچے کے لئے سائنسی
معلوماتی کہانی۔
عمر
کے تعین ہی سے مضمون کی بہت سی چیزیں متعین ہوتی ہیں مثلاً بنیادی خیال، پلاٹ، اندازِ
بیاں، زبان، اس کی طوالت وغیرہ ۔آپ
کی معلومات کے لئے یہ نقشہ پیش ہے جس میں ایج لمٹ کے اعتبار سے مضمون یا کتاب کا حجم بتایا گیا ہے۔
0
سے 3 سال تک |
200
الفاظ |
2 سے پانچ سال تک |
200
سے 500 الفاظ |
3 سے 7 سال تک |
500
سے 800 الفاظ |
4 سے 8 سال تک |
600
سے 1000 الفاظ |
5 سے 10 سال تک |
3000
سے 10000 الفاظ |
7 سے 12 سال تک |
10،000
سے 30،000 الفاظ |
(2)لکھتے وقت کے کام: (During Writing)
بچوں کے لئے لکھتے وقت جن باتوں کا خیال رکھنا
چاہئے ذیل میں انہیں بیان کیا جارہا ہے۔
(01)ہر
مضمون کے تین بنیادی عناصر ہوتے ہیں:
ابتدا، نفس مضمون اور خاتمہ ، مگر جب بات بچوں
کی ہو تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے،
ہر عنصرکی پوری پوری رعایت رکھنا ضروری ہوجاتی ہے۔
ابتداء
کو کیسے دلکش بنانا ہے؟، آخر سے آگے آنا ہے یا یا درمیان سے شروع کرنا ہے ؟ کردار
کا تعارف بیانی ہوگا یا عملی؟درمیان مضمو ن میں سلاست اور تجسس کیسے برقرار رکھنا
ہے؟ مکالمہ جات کو کیسے طول دیتے ہیں ؟ خاتمہ میں مسئلہ کا حل دیا جاتا ہے یا کسی اور موڑ کا پتا بتاکر رخصت ہوجاتے ہیں
؟ان ساری چیزوں کی معلومات ہونی چاہئے اور استعمال بھی آنا چاہئے، اگر اب تک پتا
نہیں ہیں تو انہیں سیکھئے، لکھاریوں کے
مضامین میں تلاش کیجئے،نوٹ کیجئے اور پھر استعمال کیجئے۔
(02)لکھتے
وقت انداز چاہے روایتی ہو یا آب بیتی، اس میں بیان، عمل، حرکت اور مکالمے سب کا رنگ ہونا چاہئے لیکن اس طرح کہ کوئی حصہ بھی زیادہ طوالت کا
شکار نہ ہو۔ جیساکہ
شعیب ۔۔۔شعیب۔۔شہاب صاحب نےلان میں اخبار پڑھتے ہوئے کہا۔
کمرے میں بال بناتے
ہوئے شعیب نے جواب دیا: جی آیا ،بابا جان!
بیٹا! شاپنگ کے لئے جانا ہے، جلدی کرو، دیر ہورہی ہے ۔
جی بابا جان! میں تو تیار ہوں، شعیب لان میں آچکا تھا، و ہ بس علیزہ آپی اورآمنہ تیار ہورہی ہیں،
(03)لکھتے
وقت آپ کو یہ یاد رکھنا پڑے گا کہ جس عمر
اور علمی کیفیت کے بچہ کو آ پ شروع میں
دکھا رہے ہیں آخر تک اس کا لیول اسی طرح رہنا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ شروع میں وہ بالکل بھولا نظر آئے اور آخر تک
پہنچتے پہنچتے ایسا محسوس ہو کہ وہ تو سب جانتا ہے ۔
جیساکہ
ایک کہانی کے شروع میں بچے کی علمی حیثیت
واضح کرتے ہوئے لکھا جاتا ہے:
بابا جان کے ساتھ جب گھر کی طرف واپسی ہوئی تو میں نے بابا جان سے پوچھا:
بابا جان ! امام بخاری کون تھے؟
لیکن
آخر میں وہی بچہ معصومانہ سوال کرتے
ہوئے صاحب کشف الظنون کا چھوٹا بھائی محسوس ہوتا ہے:
بابا جان! امام بخاری نے بخاری شریف کیوں لکھی؟
موطا
امام مالک، امام اعظم کی، کتاب الآثار، جامع سفیان ثوری، مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف
عبد الرزاق اور عبد اللہ ابن مبارک جیسے بڑے بڑے بزرگوں کی کتابیں موجود تھی۔ میں
نے بابا جان سے پوچھا۔
(04)یوں
ہی بچہ سے جب کوئی بات کہلوائی جائے تو اس کی سطح کا خیال رکھنا بھی
ضروری ہے، ایسا نہ ہو سات سالہ ناصر کتابوں کے حوالہ دے رہا ہو، حدیث عربی
متن کے ساتھ بتارہا ہو، معاشرے کی تباہی
کے اسباب شمار کروا رہا ہو ، مطلب کہ پوری کہانی میں فطری پن کو برقراررکھنا کہانی کی تاثیر کا سبب بنے گا۔
(05)لکھتے
وقت بچہ کے ذخیرہ الفاظ کی رعایت کرنا ایک ضروری امر ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی ذہن
نشین رہے کہ ابتدا میں لکھنے والے آسان ہی
لکھتے ہیں لیکن جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے واپس اپنی عمر کے لحاظ سے فطری زبان کی
کی طرف لوٹ جاتے ہیں، اس لیے اپنے لکھے ہوئے ٹکڑوں کو بار بار دہرانا ضروری ہے۔
(01)جملے
چھوٹے ہوں، بچوں کو طویل بیانیےیا زیادہ بیانیے پسند نہیں ہوتے۔
(02)تحریر
میں مناسب تکرارہو، جملوں کو دہرایا جائے
تاکہ ان کے ننھےذہن میں آپ کے خیالات اپنی جگہ بنا سکیں۔
(03)خیال
رہے کہ ضرورت سے زیادہ منظر کشی،نصیحت کے طویل مواعظ، ربط کا فقدان یا صریح تضاد
بچوں کی دلچسپی کے ختم ہونے کا سبب
بن سکتے ہیں۔
(04)آخری
بات یہ ہے کہ ان سب چیزوں سے آپ کی تحریر پڑھنا، سمجھنا آسان ہوجائے گی، اور سچ کہا ہے کسی نے: ’’آسانی سے پڑھی جانے
والے تحریر بہت مشکل سے لکھی جاتی ہے۔‘‘
(3)لکھنے کے بعد کے کام: (After Writing)
تحریر
لکھنے کے بعد درج ذیل چیزیں عمل میں لانے سے آپ کی تحریر میں نکھار پیدا ہوگا اور
دن بہ دن حسن بڑھے گا:
(01)مضمون
لکھ لینے کے بعد کچھ دیر کے لئے وقفہ کریں،اسے چھوڑ دیں، وقت ہو تو ایک دن کا وقفہ
کریں۔
(02)دوسرے
دن مضمون پر نظر ثانی کریں، قاری کے پڑھنے سے قبل ایک بار خود پڑھیں، جارج پلمٹن
کو (03)انٹرویو دیتے ہوئے ہیمنگوے نے کہا تھا: اپنالکھا ہوا دوبارہ پڑھئے۔یہ آپ کی
تحریر میں نکھار لانے کا سبب بنے گا۔
(04)دوسری
بار پڑھتے ہوئے جملوں کی ترتیب اور ربط کا
بغور مطالعہ کریں، ان کی نوک پلک سنواریں، املاء دیکھیں،اسے درست کریں۔
(05)اس
کے بعد کسی تجربہ کار کو چیک کرائیں اور اچھے مشورے کو قبول کریں۔
بچوں کے لئے لکھنا یوں تو آسان ہے کہ بیٹھا جائے،
قلم پکڑا جائے اور ساری معلومات کو سمیٹ دیا جائے پھر نتیجۃً یہ سمجھا جائے کہ ہمارے
لکھے ہوئے سے بچے احساسِ ذمہ داری، خود اعتمادی اور بلند عزائم پانے میں کامیاب
ہوجائیں گے، نیک امنگوں سے سرشار ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین صلاحیتوں اور قابلیتوں
کے حامل ہوں گے اور آگے چل کر اپنے دین،
قوم اور ملک کے لئے ضرور مفید ثابت ہوں
گے، لیکن! کیا یہ نتائج بچوں کی طبیعت، ذہنی رجحانات اور دلی لگاؤ کا
لحاظ رکھے بغیر حاصل ہوں گے؟، ان کی عمر، دلچسپی اور الفاظوں کے ذخیرے کی رعایت کئے بغیر مل جائیں گے؟ ہرگز نہیں !
اسی
لئے میرے عزیز! بچوں کے لئے لکھتے ہوئے آپ کو بچہ بننا پڑے گا، ان کی نفسیات،
رجحانات اور دلی میلانات کو سمجھنا پڑے گا اور پسند
و ناپسند، جبلی اور نفسیاتی تقاضوں کا دھیان رکھنا ہوگا تبھی وہ آپ کی تحریر میں
دلچسپی لیں گے اور آپ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں گے۔
ذیل
میں اسی پس منظر کی وجہ سے بچوں کے لکھاریوں کے لئے 15مفید اور کارآمد اصول پیش
کئے جارہے ہیں ، انہیں قبول فرمائیے، عمل میں لائیے اور نتیجہ پائیے۔
(1)لکھنے سے پہلے کے
کام:(Before Writing)
(01)بچوں
کے لئے کچھ بھی لکھنے سے پہلے آپ کو طے کرنا ہوگا کہ آپ کیا پیغام دینے جارہے ہیں؟، اس تحریر کے ذریعے
سے چھوٹے سے دماغ میں کیا بٹھانا چاہتے
ہیں؟، ورنہ تحریر بے مقصد ہوجائے گی یا مضمون اور سبق میں کوئی ربط ہی نہیں رہے گا۔ یقین نہیں آتا تو ایک مثال پڑھ لیجئے:
کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک کوے کی کہانی پڑھی
تھی، کہ سرداری حاصل کرنے کے لئے اس نے ایک تدبیر کی، سب پرندوں کے پنکھ جمع کئے،
اور رنگ برنگی بن کر سرداری حاصل کرلی لیکن جب دوسروں کو اس حقیقت کا پتا چلا تو
انہوں نے خوب اس کی درگت بنائی۔ اس کے بعد کہانی سے درس دیتے ہوئے موصوف لکھتے
ہیں:
”اچھا اخلاق سب سے بڑی خوب صورتی ہے“۔
لہٰذا
یہ طریقہ غلط ہے کہ لکھنے کے بعدتانے بانے ملا کر زبردستی نتیجہ اخذ کیا جائے اور
کڑوی دوائی کی طرح بچے کو پکڑ کر پلایا جائے۔
(02)اس
کے ساتھ دوسری اہم چیز جس کی لکھنے سے پہلے رعایت کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اس مضمون کی وساطت سے جو پیغام آپ دینا چارہے ہیں وہ کس عمر کے بچوں کے لئےہے؟
لکھنے سے پہلے آپ کو متعین کرنا ہوگا کہ یہ پیغام کس عمر کے بچوں کے لئے ہے؟ پندرہ سال کے بچے کے لئے چڑے چڑی کی
کہانی اتنی ہی غیر دلچسپ اور بور ہوگی جتنی کہ 8 سال سے کم عمر بچے کے لئے سائنسی
معلوماتی کہانی۔
عمر
کے تعین ہی سے مضمون کی بہت سی چیزیں متعین ہوتی ہیں مثلاً بنیادی خیال، پلاٹ، اندازِ
بیاں، زبان، اس کی طوالت وغیرہ ۔آپ
کی معلومات کے لئے یہ نقشہ پیش ہے جس میں ایج لمٹ کے اعتبار سے مضمون یا کتاب کا حجم بتایا گیا ہے۔
0
سے 3 سال تک |
200
الفاظ |
2 سے پانچ سال تک |
200
سے 500 الفاظ |
3 سے 7 سال تک |
500
سے 800 الفاظ |
4 سے 8 سال تک |
600
سے 1000 الفاظ |
5 سے 10 سال تک |
3000
سے 10000 الفاظ |
7 سے 12 سال تک |
10،000
سے 30،000 الفاظ |
(2)لکھتے وقت کے کام: (During Writing)
بچوں کے لئے لکھتے وقت جن باتوں کا خیال رکھنا
چاہئے ذیل میں انہیں بیان کیا جارہا ہے۔
(01)ہر
مضمون کے تین بنیادی عناصر ہوتے ہیں:
ابتدا، نفس مضمون اور خاتمہ ، مگر جب بات بچوں
کی ہو تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے،
ہر عنصرکی پوری پوری رعایت رکھنا ضروری ہوجاتی ہے۔
ابتداء
کو کیسے دلکش بنانا ہے؟، آخر سے آگے آنا ہے یا یا درمیان سے شروع کرنا ہے ؟ کردار
کا تعارف بیانی ہوگا یا عملی؟درمیان مضمو ن میں سلاست اور تجسس کیسے برقرار رکھنا
ہے؟ مکالمہ جات کو کیسے طول دیتے ہیں ؟ خاتمہ میں مسئلہ کا حل دیا جاتا ہے یا کسی اور موڑ کا پتا بتاکر رخصت ہوجاتے ہیں
؟ان ساری چیزوں کی معلومات ہونی چاہئے اور استعمال بھی آنا چاہئے، اگر اب تک پتا
نہیں ہیں تو انہیں سیکھئے، لکھاریوں کے
مضامین میں تلاش کیجئے،نوٹ کیجئے اور پھر استعمال کیجئے۔
(02)لکھتے
وقت انداز چاہے روایتی ہو یا آب بیتی، اس میں بیان، عمل، حرکت اور مکالمے سب کا رنگ ہونا چاہئے لیکن اس طرح کہ کوئی حصہ بھی زیادہ طوالت کا
شکار نہ ہو۔ جیساکہ
شعیب ۔۔۔شعیب۔۔شہاب صاحب نےلان میں اخبار پڑھتے ہوئے کہا۔
کمرے میں بال بناتے
ہوئے شعیب نے جواب دیا: جی آیا ،بابا جان!
بیٹا! شاپنگ کے لئے جانا ہے، جلدی کرو، دیر ہورہی ہے ۔
جی بابا جان! میں تو تیار ہوں، شعیب لان میں آچکا تھا، و ہ بس علیزہ آپی اورآمنہ تیار ہورہی ہیں،
(03)لکھتے
وقت آپ کو یہ یاد رکھنا پڑے گا کہ جس عمر
اور علمی کیفیت کے بچہ کو آ پ شروع میں
دکھا رہے ہیں آخر تک اس کا لیول اسی طرح رہنا چاہئے، ایسا نہ ہو کہ شروع میں وہ بالکل بھولا نظر آئے اور آخر تک
پہنچتے پہنچتے ایسا محسوس ہو کہ وہ تو سب جانتا ہے ۔
جیساکہ
ایک کہانی کے شروع میں بچے کی علمی حیثیت
واضح کرتے ہوئے لکھا جاتا ہے:
بابا جان کے ساتھ جب گھر کی طرف واپسی ہوئی تو میں نے بابا جان سے پوچھا:
بابا جان ! امام بخاری کون تھے؟
لیکن
آخر میں وہی بچہ معصومانہ سوال کرتے
ہوئے صاحب کشف الظنون کا چھوٹا بھائی محسوس ہوتا ہے:
بابا جان! امام بخاری نے بخاری شریف کیوں لکھی؟
موطا
امام مالک، امام اعظم کی، کتاب الآثار، جامع سفیان ثوری، مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف
عبد الرزاق اور عبد اللہ ابن مبارک جیسے بڑے بڑے بزرگوں کی کتابیں موجود تھی۔ میں
نے بابا جان سے پوچھا۔
(04)یوں
ہی بچہ سے جب کوئی بات کہلوائی جائے تو اس کی سطح کا خیال رکھنا بھی
ضروری ہے، ایسا نہ ہو سات سالہ ناصر کتابوں کے حوالہ دے رہا ہو، حدیث عربی
متن کے ساتھ بتارہا ہو، معاشرے کی تباہی
کے اسباب شمار کروا رہا ہو ، مطلب کہ پوری کہانی میں فطری پن کو برقراررکھنا کہانی کی تاثیر کا سبب بنے گا۔
(05)لکھتے
وقت بچہ کے ذخیرہ الفاظ کی رعایت کرنا ایک ضروری امر ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی ذہن
نشین رہے کہ ابتدا میں لکھنے والے آسان ہی
لکھتے ہیں لیکن جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے واپس اپنی عمر کے لحاظ سے فطری زبان کی
کی طرف لوٹ جاتے ہیں، اس لیے اپنے لکھے ہوئے ٹکڑوں کو بار بار دہرانا ضروری ہے۔
(01)جملے
چھوٹے ہوں، بچوں کو طویل بیانیےیا زیادہ بیانیے پسند نہیں ہوتے۔
(02)تحریر
میں مناسب تکرارہو، جملوں کو دہرایا جائے
تاکہ ان کے ننھےذہن میں آپ کے خیالات اپنی جگہ بنا سکیں۔
(03)خیال
رہے کہ ضرورت سے زیادہ منظر کشی،نصیحت کے طویل مواعظ، ربط کا فقدان یا صریح تضاد
بچوں کی دلچسپی کے ختم ہونے کا سبب
بن سکتے ہیں۔
(04)آخری
بات یہ ہے کہ ان سب چیزوں سے آپ کی تحریر پڑھنا، سمجھنا آسان ہوجائے گی، اور سچ کہا ہے کسی نے: ’’آسانی سے پڑھی جانے
والے تحریر بہت مشکل سے لکھی جاتی ہے۔‘‘
(3)لکھنے کے بعد کے کام: (After Writing)
تحریر
لکھنے کے بعد درج ذیل چیزیں عمل میں لانے سے آپ کی تحریر میں نکھار پیدا ہوگا اور
دن بہ دن حسن بڑھے گا:
(01)مضمون
لکھ لینے کے بعد کچھ دیر کے لئے وقفہ کریں،اسے چھوڑ دیں، وقت ہو تو ایک دن کا وقفہ
کریں۔
(02)دوسرے
دن مضمون پر نظر ثانی کریں، قاری کے پڑھنے سے قبل ایک بار خود پڑھیں، جارج پلمٹن
کو (03)انٹرویو دیتے ہوئے ہیمنگوے نے کہا تھا: اپنالکھا ہوا دوبارہ پڑھئے۔یہ آپ کی
تحریر میں نکھار لانے کا سبب بنے گا۔
(04)دوسری
بار پڑھتے ہوئے جملوں کی ترتیب اور ربط کا
بغور مطالعہ کریں، ان کی نوک پلک سنواریں، املاء دیکھیں،اسے درست کریں۔
(05)اس
کے بعد کسی تجربہ کار کو چیک کرائیں اور اچھے مشورے کو قبول کریں۔
شرح فقہ اکبر (از ملا علی قاری) جامعات المدینہ نیز تنظیم المدارس کے درجہ سابعہ کے نصاب میں شامل ہے اسی لئے چند
ماہ قبل المدینۃ العلمیہ نے شرح فقہ اکبر کو مکتبۃ المدینہ سے شائع کروانے کا ارادہ کیا۔اس کتاب پر شعبہ درسی کتب نے
کام کیالیکن کام کے دوران کتاب کے چند
ایسے مقامات سامنے آئے جن میں شرعی اغلاط تھیں چنانچہ ایسے مقامات پر فتاوی
رضویہ ودیگر کتب سے حاشیہ لگا کر واضح کر دیاگیا نیز صحیح مسئلہ وموقف بھی
بیان کردیاگیا جیسا کہ علمیہ کا اسلوب ہے۔کتاب چھپنے کے لئے پریس پر چلی گئی اور
اس بات کو چند ماہ گزر گئے۔ مجلس علمیہ کی ایک اچھی عادت ہے کہ وقتاً فوقتاً کام
کے حوالے سے پوچھ گچھ رکھتی ہے کہ کس کتاب پر کیا کام کیا ہورہا ہے وغیرہ، لہٰذا
آج سے کچھ عرصہ قبل میرا مجلس کے ساتھ بیٹھنا ہوا تومجلس نے کام کے بارے میں
پوچھا، میں نے تمام کارکردگی پیش کردی۔ اسی دوران شرح فقہ اکبر کے بارے میں بھی
بات چلی تو فقیر نے اس کے بارے میں بھی مختصرا ًبتایا لیکن جب مجلس کو پتا چلا کہ
ہم نے اس کتاب کی متعددشرعی اغلاط کودرست
کیا ہے حتی کہ وہ اغلاط جو اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے دَور سے چلی آرہی ہیں انکی
بھی تصحیح کردی گئی ہےنیز متن کی تصحیح میں حتی الامکان کافی توجہ دی گئی ہے تو
نگران مجلس المدینہ العلمیہ ورکن شوری جناب مولانا محمد شاہد عطاری مدنی نے
ارشاد فرمایا کہ جو کام آپ نے کیا ہے اگر اسکا کچھ تعارف ایک جگہ جمع کر دیا جائے
تو آپ کا کام ایک نظر میں سامنے آجائے گااور ہم اسے کسی ماہنامے یا شمارے میں
شائع کردیں گےچنانچہ مجھے بھی اس کی افادیت کا اندازہ ہوگیا کہ اسطرح اہل علم
حضرات تک ہم صحیح دینی مواد پہنچاسکیں گےنیز دعوتِ اسلامی اور اعلی حضرت کا نام مبارک مزید روشن کر سکیں گے۔الغرض انھوں
نے اس بات کا اصرار بھی کیا اور ترغیب بھی دلائی، انکی اسی ترغیب کے سبب"
شرح فقہ اکبر پر علمیہ کے کام" کے سلسلے میں کچھ لکھنے کا قصد کیا۔ اہل
علم وفن بالخصوص علماء کرام سے گزارش ہےکہ اگر اس میں کوئی کوتاہی ہو تو ضرور مطلع
فرمائیں۔ انسان بہر حال خطاء کا پتلا ہے غلطی کا امکان پھر بھی باقی ہے۔ واللہ
المستعان وعلیہ التکلان۔
شرح فقہ اکبر پر مختلف زاویوں سے کام کیا گیا ہے ، اس کام
میں سے چند مقامات کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ غیر اللہ پر لفظِ قیوم کے اطلاق کو جائز لکھا تھا ہم نے ثابت کیا کہ یہ ناجائز ہے
اورکتاب میں الحاق ہے۔
۲۔ لکھا تھا کہ "یہ جائز نہیں کہ ابن ملجم کو حضرت علی
رضی اللہ عنہ کا اور ابو لؤلؤ کو
حضرت عمر رضی
اللہ عنہ کا قاتل کہا جائے
کیونکہ انکا قاتل ہونا تواتر ویقین سے ثابت نہیں"۔ ہم نے اسے درست کردیا اور
لکھا: جی ہاں یہ کہنا جائز ہے کہ ابن ملجم نے حضرت علی کو اور ابو لؤلؤ نے حضرت
عمر کو قتل کیا (رضی اللہ عنہما)، کیونکہ یہ بات تواتر سے ثابت ہے۔
۳۔ملا علی قاری نے شرح فقہ اکبر میں والدینِ کریمین کے عدمِ
ایمان کا قول کیا ہے۔اور اس کی بنیاد امام اعظم کی اس عبارت پر رکھی:
(ووالدا رسول الله صلى الله عليه وسلم ماتا على الكفر) (الفقه الاكبر)، لیکن ہم نے ثابت کیا ہے کہ یہ عبارت امامِ اعظم کی نہیں،
مزید برآں ملا علی قاری کا اپنے موقف سے رجوع ثابت کیا۔
۴۔ سید المکاشفین شیخ ابن عربی (متوفٰی638ھ) جلیل القدر ولی وصوفی بزرگ گزرے ہیں
لیکن ملا علی قاری نے غلطی کی بنا پر انکا رد کیا اور کہا کہ یہ قبولِ ایمانِ
فرعون کے قائل ہیں۔ ہم نے ثابت کیا کہ
ایسا نہیں ہے۔
پہلی مثال
شرح فقہ اکبر میں ہے
فما سمّى به الربّ نفسه وسمّى به مخلوقاته مثل الحيّ والقيّوم والعليم
والقدير, أو سمّى به بعض
صفات عباده, فنحن نعقل بقلوبنا معاني هذه الأسماء في حق الله.....إلخ([1])
اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ بعض اسماء ایسے ہیں جن کا اطلاق اللہ تعالی نے خود اپنی ذات پر بھی کیا
ہے اور ان سے بندوں کو بھی موسوم فرمایا ہے جیسے حی ،قیوم، علیم، قدیر۔تو ایسے اسماء
کے معانی کو ہم اللہ تعالی اور بندوں دونوں کے حق میں دل سے تسلیم کرتے ہیں لیکن
فرق کے ساتھ یعنی اللہ بھی حی ہے اور بندہ بھی لیکن اللہ خود سے حی ہے اور بندہ خدا کے
بنائے سے، اللہ ازل سے حی ہے اور ابد تک لیکن بندہ حادث اور فانی ہے۔ وعلی
ھذا القیاس البواقی الی فروق کثیرۃ۔
لیکن شرح فقہ اکبر کی مذکورہ عبارت میں ایک فحش غلطی ہے جس کی وجہ آگے آرہی
ہے۔
غلطی یہ ہے کہ اس عبارت میں غیر اللہ پر لفظ (قیوم) کے اطلاق کو جائز کہا گیا ہے حالانکہ یہ جائز
نہیں۔ ہمارے موقف کی تائید امام اہل سنت اعلی حضرت کی اس عبارت سے ہوتی ہے۔
[ہماری نظر میں ہیں وہ کلمات جو اکابر اولیاء سے گزر کر اکابر علماء معتمدین
مثل امام ابن حجر مکی وملا علی قاری وغیرہما کی کتب مطبوعہ میں پائے جاتے ہیں، اور
ہم یقین کرتے ہیں کہ وہ الحاقی ہیں، ایک ہلکی نظیر علی قاری کی شرح فقہ اکبر صفحہ
۴۷ پر ہے:
ماسمی بہ الرب نفسہ وسمی بہ مخلوقاتہ مثل الحی والقیوم
والعلیم والقدیر([2]) ۔
نا م کہ رب تعالٰی نے اپنے لئے اور مخلوق کے لئے مقرر فرمائے وہ
مثل حی، قیوم، علیم، قدیر ہیں۔ (ت)
اس میں مخلوقات
پر قیوم کے اطلاق کا جواز ہے حالانکہ ائمہ فرماتے ہیں کہ غیر خدا کو قیوم کہنا کفر
ہے۔
مجمع الانہر میں ہے: اذا اطلق علی المخلوق من الاسماء المختصۃ
بالخالق نحو القدوس والقیوم والرحمٰن وغیرھا یکفر([3]) ۔
جو اللہ تعالٰی کے مخصوص ناموں میں سے کسی نام کا اطلاق مخلوق
پر کرے، جیسے قدوس، قیوم اور رحمن وغیرہ تو وہ کافر ہوجائے گا۔ (ت)
اسی طرح او رکتابوں میں ہے۔حتی کہ خود اسی شرح فقہ اکبر صفحہ ۲۴۵
میں ہے:
من قال لمخلوق یا قدوس اوالقیوم او الرحمٰن کفر ([4])۔
جو کسی مخلوق کو قدوس یا قیوم یا رحمٰن کہے کافر ہوجائے۔
پھر کیونکر مان سکتے ہیں
کہ وہ صفحہ ۴۷ کی عبارت علی قاری کی ہے ضرور الحاق ہے۔](فتاوی رضویہ 15/560)
شرح فقہ اکبر پر کام کے دوران جب ہم اس مقام پر پہنچے تو ہم نے حاشیہ لگا کر
عبارت کے سقم کو ظاہر کر دیا۔ فلله
الحمد.
دوسری مثال
شرح فقہ اکبر میں ہے:
بل لا يجوز أن
يقال إن ابن ملجم قتل عليا رضي الله عنه ولا أبو لؤلؤة قتل عمر رضي الله عنه فإن
ذلك لم يثبت متواترا([5]).
اس عبارت میں بھی ایک فحش غلطی ہے کہ
جائز کو ناجائز لکھ دیا ہےاور کہا گیا ہے کہ:
[یہ جائز نہیں کہ ابن ملجم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اور ابو لؤلؤ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قاتل کہا جائے کیونکہ ان کا قاتل ہونا تواتر
ویقین سے ثابت نہیں]
حالانکہ صحیح عبارت یہ ہے:
صحیح
عبارت: نعم
يجوز أن يقال: قتل ابن ملجم عليا رضي الله عنه وقتل أبو لؤلؤة عمر رضي الله عنه،
فإن ذلك ثبت متواترا.
یعنی جی ہاں یہ کہنا جائز ہے کہ ابن ملجم نے حضرت علی کو اور ابو لؤلؤ نے حضرت
عمر کو قتل کیا (رضی اللہ عنہما)، کیونکہ یہ بات تواتر سے ثابت ہے۔
اب اسکی دلیل ملاحظہ فرمائیں۔
دلیلِ
اول: امامِ اہل سنت اعلی حضرت فرماتے ہیں:
وقع هاهنا في
نسخة شرح الفقه الأكبر الشائعة في بلادنا تحريف شديد فنُقل فيها لفظ الإحياء هكذا:
بل لايجوز أن يقال إن ابن ملجم قتل عليا ولا أبو لؤلؤ قتل عمر فإن ذلك لم يثبت
متواترا.هـ, وهو باطل صريح كما لا يخفى, والصواب ما نقلتُ فليتنبه. (الزمزمة
القُمرية, ص:27)
اعلی حضرت کے اس قول سے پتا چلا کہ عبارت میں تحریف ہوئی ہے۔نوٹ: اعلی حضرت نے
جو صحیح عبارت بیان فرمائی وہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں۔
دلیلِ
ثانی: شرح فقہ اکبر میں احیاء العلوم کی جس عبارت کا تذکرہ کیا
گیا ہے اسے اگر احیاء العلوم میں دیکھا جائے تو اس طرح ہے:
نعم يجوز أن
يقال: قتل ابن ملجم عليا وقتل أبو لؤلؤة عمر رضي الله عنهما, فإن ذلك ثبت متواترا. (احیاء علوم الدین ۳/۱۵۴ دار صادر بیروت)
اسی طرح دار المعرفہ والی احیاء العلوم میں ہے اور اسی طرح شاملہ میں ہے۔اور
یہ عبارت بعینہ اسی طرح ہے جس طرح اعلی حضرت نے بیان فرمائی۔
افسوس: لیکن ہمیں افسوس وحیرانی اس بات کی ہے کہ ہمارے پاس موجود
شرح فقہ اکبر کے جتنے بھی مطبوعے یا نسخے ہیں (مطبوعہ صورت میں اور نیٹ سے حاصل کئے گئے پی ڈی ایف نسخے) سب میں احیاء
العلوم سے نقل کردہ عبارت غلط مرقوم ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ حیرانی اس وقت ہوئی
کہ جب بیروت (دار البشائر الاسلامیہ )کی چھپی ہوئی شرح فقہ اکبر دیکھی کہ
عبارت وہی کی وہی غلط۔ مزید برآں یہ حیرانی یہاں نہ رکی بلکہ ترقی کر کے اس وقت اپنی انتہاء کو پہنچ گئی جب اسی بیروت والی شرح فقہ اکبر(کے مبحوث عنہ مقام) پر محشی کا حاشیہ دیکھا وہ حاشیہ کیا تھا ملاحظہ فرمائیے:
إذن لِمَا ذا قتلهما أصحابُ رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ أليس لأنه ثبت
لديهم قتلُهما؟ اللهم بلى([6]).
یعنی اگر اس بات کو صحیح مان لیا جائے(کہ قاتلین کا
یقینی طور پر پتا نہیں چلا تھا یا انکا قاتل ہونا تواتر سے ثابت نہیں) تو پھر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو قتل
کیوں کیا ، کیا اس وجہ سےنہیں کہ انکا قتل کرنا صحابہ کے نزدیک ثابت ہو گیا تھا؟
کیوں نہیں، ضرور(ثابت ہو گیا تھا)۔
یہ حاشیہ محشی نے ایک اشکال واعتراض کی صورت میں لگایا ہے لیکن یہ اعتراض تو
اس صورت میں ہوگا جب عبارت کو درست مان لیا جائے جیسا کہ لفظِ اذن سے ظاہر ہے([7])۔دوسری بات یہ کہ ان دونوں کو صحابہ کرام نے قتل کیا تھا تو
اس میں بھی کلام ہے۔
حیرانی اس وجہ سے ہوئی کہ محشی کو یہاں حاشیہ لگانے کے بجائے احیاء العلوم میں
یہ عبارت دیکھنی چاہئے تھی کیونکہ یہ عبارت احیاء العلوم کے حوالے سے شرح فقہ اکبر
میں نقل کی گئی ہے، اگر محشی احیاء العلوم میں دیکھ لیتے تو انہیں بخوبی اندازہ
بلکہ علم ہو جاتا کہ یہ عبارت امام غزالی کی نہیں ہے، لہذ ا اس عبارت پر مذکورہ
حاشیہ (بصورتِ اشکال واعتراض) لگانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
بہرحال ہم نے شرح فقہ اکبر پر علمیہ کی طرف سے کام کے دوران اس مقام پر تحقیقی حاشیہ لگا دیا ہے۔
تیسری مثال
ایمانِ والدینِ کریمین (فداہما ابی وامی)
مشہور ہے کہ ملا علی قاری نے شرح فقہ اکبر میں حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
والدینِ کریمین کے عدم ایمان کا قول کیا ہے۔ہم نے اس مقام پر تحقیق کے بعد ایک
محتاط حاشیہ لگایا ہے۔ قبل اسکے کہ ہم اس حاشیہ کا خلاصہ بیان کریں۔یہ جان لینا
ضروری ہے کہ ملا علی قاری نے یہ موقف کیوں اختیار کیا۔ اس موقف کو اختیار کرنے کی
وجہ یہ ہے کہ ملا علی قاری کے سامنے فقہ اکبر( مصنف امام اعظم ) کا جو متن تھا اس میں کاتب کی غلطی([8]) سے یا کسی کی تحریف سے یہ عبارت
مذکور تھی:
(ووالدا رسول
الله صلى الله عليه وسلم ماتا على الكفر)([9]).
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا کفر پر خاتمہ ہوا۔ (معاذ اللہ)
ملا علی قاری نےیہ گمان کر کے کہ امام اعظم جیسے عظیم مجتہد نے جب یہ قول کہا ہے توضرور درست ہوگا اسی کو
اختیار کیا اور اسی کے دلائل دئیے۔ حالانکہ یہ قول امامِ اعظم کا نہیں بلکہ انکی
عبارت میں تحریف یا کاتب کی غلطی تھی۔
اب آئیےاسکی تفصیل کی طرف۔
جیسا کہ ہم ذکر کر آئے ہیں کہ مذکورہ بالا عبارت میں تحریف یا کاتب کی غلطی
ہے۔اب صحیح عبارت ملاحظہ فرمائیں۔
(ووالدا رسول
الله صلى الله عليه وسلم ما ماتا على الكفر).
اس عبارت کا ترجمہ ہے: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کریمین کا خاتمہ کفر
پر نہیں ہوا۔
دیکھئے کس طرح صرف ایک حرف([10])سے عبارت کا مفہوم واضح ودرست ہو گیا۔اس عبارت کے صحیح اور
اس سے پچھلی عبارت کے غلط ہونے کے دلائل ملاحظہ فرمائیں:
دلائل:
امام
زاہد کوثری فرماتے ہیں:
الحمد للہ خود میں نے اور میرے دوستوں نے دار الکتب المصریہ میں موجود فقہ اکبر کے دو قدیم نسخوں میں ما ماتا کے
الفاظ اور مکتبہ شیخ الاسلام کے دو قدیم نسخوں میں ماتا علی الفطرۃ کے الفاظ دیکھے
ہیں اور ملا علی قاری نے جو شرح کی ہے وہ غلط نسخہ کی بنیاد پر ہے، یہ ان سے بے ادبی ہوگئی ہے اللہ کریم انھیں معاف فرمائے([11])۔
علامہ
طحطاوی فرماتے ہیں:
وہ جو فقہ اکبر میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا خاتمہ ایمان
پر نہیں ہوا یہ امامِ اعظم کے خلاف سازش ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ فقہ اکبر کے
مستند نسخوں میں ایسا کچھ بھی نہیں([12])۔
شیخ
محمد بن ابراہیم بیجوری متوفی 1276فرماتے ہیں:
یہ امامِ اعظم کے خلاف سازش ہے ان کا دامن اس بات سے بری ہے اور ملا علی قاری (اللہ انکی مغفرت کرے) سے غلطی ہوئی کہ ایسا شنیع کلمہ کہا([13])۔
عبارت کا سقم:
قطع نظر ان دلائل کہ جو ہم نے ذکر کئے صرف عبارت پر ہی غور کر لیا جائے تو
بخوبی انداز لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں کچھ گڑبڑ ضرور ہےآئیے اب سقم عبارت دیکھتے
ہیں:
ملا علی قاری نے جو متن اختیار کیا ہے اسکی پوری عبارت یہ ہے:
(ووالدا رسول
الله صلى الله عليه وسلم ماتا على الكفر وأبو طالب عمّه مات كافراً)
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا خاتمہ کفر پر ہوا اور ابو طالب حضور کا چچا بھی کفر پر مرا۔
عربی جاننے والے حضرات کے ذہن میں فورا یہاں یہ اشکال وارد ہو گا کہ جب والدین
کریمین اور ابو طالب دونوں کا خاتمہ کفر پر ہوا توان کو الگ الگ کیوں ذکر کیا
بلکہ عربی اسلوب کے مطابق سب کو یکجا کرکے
یوں کہا جاسکتا تھا:
ووالدا رسول
الله صلى الله عليه وسلم وأبو طالب ماتوا كفارا.
یعنی والدینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو طالب کا خاتمہ کفر پر ہوا۔
نہ یہ کہ والدین
کا کفرالگ بیان کیا جائے اور ابو طالب کا الگ اور کہا جائے:
(ووالدا رسول
الله صلى الله عليه وسلم ماتا على الكفر) (وأبو طالب عمّه مات كافراً).
بخلاف اس صورت کے
کہ جب اِسے اُس طرح پڑھا جائے جیسے صحیح عبارت ہم نے بیان کی اور وہ یہ ہے:
(ووالدا رسول
الله صلى الله عليه وسلم ما ماتا على الكفر) (وأبو طالب عمّه مات كافراً).
آپ نے خود دیکھ
لیا کہ کس طرح عبارت صحیح عربی طرز واسلوب میں آکر مستقیم ہوگئی([14])۔ وللہ
الحمد
تحریف کی وجوہات:
اتنی بات ذہن نشین کر لینے کے بعد آئیے اب تحریف کی وجہ بھی علما کی زبانی
سنتے ہیں چنانچہ:
امام
زاہد کوثری فرماتے ہیں: بعض نسخوں میں (ماتا على
الفطرة) ہےاور½الفطرة¼ کا رسم الخط
½الكفر¼ سے ملتا جلتا ہے لہذا یہ خطِ کوفی
میں باآسانی ½الكفر¼ میں تحریف
وتبدیل ہو سکتا ہے([15])۔
حافظ
علامہ محمد مرتضٰی زبیدی (شارح احیاء العلوم وقاموس) اپنے رسالے
"الإنتصار لِوالدَي النبي المختار" میں فرماتے ہیں:میں نے ہمارے شیخ احمد بن مصطفٰی عمری حلبی مفتیِ لشکر ،
عالمِ معمر کے ہاں جو کچھ لکھا ہوا دیکھا اسکا معنی ومفہوم کچھ اس طرح ہے کہ: ناسخ
وکاتب نے جب لفظ ما ماتا میں ما کا تکرار دیکھا تو یہ گمان کیا کہ ایک ما زائد ہو
گیا ہے لہذا اسے حذف کردیا پھر یہ غلط عبارت والا نسخہ پھیل گیا۔ اور اسکے غلط ہونے
پر دلیل سیاق ِ خبر ہے کیونکہ اگر ابو طالب وابوین کریمین ایک ہی حالت (یعنی کفر) پر ہوتے تو مصنف ایک
ہی جملہ کہہ کر تینوں کو ایک ہی حکم میں جمع فرماتےنہ یہ کہ دو جملوں میں تذکرہ
کرتے باوجود یہ کہ ان تینوں کے حکم میں کوئی تخالف نہ ہوتا([16])۔
ملا علی قاری کا اپنے موقف سے رجوع:
ملا علی قاری علیہ رحمۃ الباری نے اپنے اس موقف سے رجوع کر لیا تھا اور ابوین
کریمین کے ثبوتِ ایمان کے قائل ہو گئے تھے چنانچہ خود شرح شفا میں فرماتے ہیں:
(وأما إسلام
أبويه ففيه أقوال، والأصح إسلامهما على ما اتفق عليه الأجلّة من الأمة كما بينه
السيوطي في رسائله الثلاث المؤلفة). ("شرح
الشفا" للقاري, 1/605)
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے ایمان کے بارے میں
چند اقوال ہیں اور سب سے صحیح قول انکے اسلام کا ہے جس پر امت کے جلیل القدر علماء
کا اتفاق ہے جیسا کہ امام سیوطی نے اپنے تین رسالوں میں بیان فرمایا۔
اسی شرح شفا میں ایک اور جگہ ملا علی قاری فرماتے ہیں:
(وأما ما ذكروا
من إحيائه عليه الصلاة والسلام أبويَه فالأصح أنه وقع على ما عليه الجُمهور
الثقات، كما قال السيوطي في رسائله الثلاث المؤلفات). ("شرح
الشفا" للقاري, 1/651)
یعنی یہ جو ذکر کیا گیا ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے
والدین کو (انکے انتقال کے بعد) زندہ فرمایا (اور پھر وہ آپ علیہ السلام پر ایمان
لائے) یہ درست ہے اور اسی بات پر جمہور ثقات متفق ہیں جیسا کہ سیوطی نے اپنے تصنیف
کردہ تین رسائل میں فرمایا۔
نوٹ: ملا علی قاری شرح شفا کی تالیف سے 1011ھ میں فارغ ہوئے
یعنی اپنی وفات سے صرف تین سال پہلے، لہذا یہ انکی آخری تالیفات میں سے ہے۔
ثبوتِ ایمان پر علما کی تالیفات وتصنیفات:
اگر فقہ اکبر کی عبارت درست ہوتی اور امامِ اعظم کا یہی موقف ہوتا کہ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کے والدین کا خاتمہ ایمان
پر نہیں ہوا تو کثیر علما ثبوتِ ایمانِ والدین کریمین پر تصنیفات وتالیفات کا خاص
اہتمام نہ کرتے اس موضوع پر علما نے جو کثیر کتب تالیف وتصنیف کی ہیں ہم ان کا
مکمل احصاء وشمار تو نہیں کر سکتے لیکن ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں:
(١).."شمول الإسلام لأصول
الرسول الكرام" للمجدد الأعظم الإمام أحمد
رضا خان, ت1340هـ
(٢).."مطلب في نجاة أبويه صلى الله عليه وسلم" للعلامة السيد محمد عبد الله الجرداني الشافعي, ت1331هـ
(٣).."الانتصار لوالدي النبي المختار" للإمام مرتضي الزبيدي, ت1205هـ
(4).."حديقة الصفا في والدي المصطفى" للعلامة أبو
محفوظ الكريم المعصومي الهندي, ت1430هـ
(5).."منهاج السنة في كون
أبوي النبي في الجنة" للعلامة ابن
طولون الدمشقي الحنفي, ت953هـ
(6).."رسالة في أبوي
النبي" لأحمد بن
سليمان بن كمال باشا, ت940هـ
(7).."انباء الاصطفاء في حق
آباء المصطفى" لمحمد بن قاسم بن يعقوب الأماسي, ت940هـ
(8).."تحقيق
آمال الداجين في أن والدي المصطفى بفضل الله في الدارين من الناجين" للإمام ابن
الجزار المصري, كان حياً سنة984هـ
(9).."الجوهرة المضية في حق أبوي
خير البرية" لصالح بن
محمد تمرتاشي الغزي, ت1055هـ
(10).."تأديب المتمردين في
حق الأبوين" لعبد الأحد بن مصطفى السيواسي, ت1061هـ
(١1).."تحقيق النصرة للقول
بإيمان أهل الفَترة"
(12).."منحة البارئ في إصلاح زلة القارئ" كلاهما لحسن
بن علي بن يحيى العجيمي المكي, ت1113هـ
(١3).."السرور والفرج في حياة إيمان والدي الرسول" لمحمد بن أبي بكر المرعشي ساجقلي, ت1150هـ
(١4).."تحفة الصفا فيما يتعلق
بأبوي المصطفى" لأحمد بن عمر الديربي الغنيمي الأزهري الشافعي, ت1151هـ
(١5).."بسط اليدين لإكرام
الأبوين" لمحمد غوث بن ناصر الدين
المدراسي ت 1238هـ
(١6).."القول المسدد في
نجاة والدي محمد" لمحمد بن عبد
الرحمن الأهدل الحسيني ت 1258هـ.
امام سیوطی کے چھے
رسائل:
(١7)..مسالك الحنفاء في والدي
المصطفى
(١8)..الدرج المنيفة في الآباء
الشريفة
(١9)..المقامة السندسية في
النسبة المصطفوية
(20)..التعظيم والمنة في أن أبوي
رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في الجنة
(21)..نشر العلمين المنيفين في
إحياء الأبوين الشريفين
(22)..السبل الجلية في الآباء
العلية.
چوتھی مثال۔
سید المکاشفین شیخ ابن عربی (متوفٰی638ھ) جلیل القدر ولی وصوفی بزرگ گزرے ہیں([17]) ان کی متعدد عظیم تصنیفات بھی ہیں جن میں سے الفتوحات
المکیہ اور فصوص الحکم بہت مشہور ہیں۔ ان کے بارے میں بعض لوگوں میں یہ مشہور
ہوگیا تھا کہ انھوں نے اپنی تصنیفات میں فرعون کے ایمان کا قول کیا ہے حالانکہ یہ
بات درست نہیں بلکہ انکی عبارات سے بعض
لوگوں نے دھوکاکھایا اور انکے خلاف ہوگئے چنانچہ ملا علی قاری نے بھی شرح فقہ اکبر
میں شیخ اکبر ابن عربی کا رد کیا اور کہا کہ میں نے ابن عربی و جلال دوانی کے رد
میں مستقل رسالہ لکھا ہے([18]) اور اسمیں فرعون کے ایمان کے قول کا رد کیا ہے([19])۔
شرح فقہ اکبر پر کام کے دوران جب ہم اس مقام پر پہنچے تو ہم نے یہاں ایک حاشیہ
لگایا جس میں شیخِ اکبر کے بارے میں غلط تأثر کو رفع کیا اور ثابت کیا کہ شیخ
اکبراس اعتراض سے بری الذمہ ہیں۔
آئیے اب ہم اپنے حاشیے کا خلاصہ بیان کرتے ہیں:
خلاصہ یہ ہے کہ شیخ اکبرکی عبارت سےایمانِ فرعون کا مفہوم اخذ کرنا درست نہیں
اور اگر اس قسم کی کوئی عبارت ہے جس سے ایسا مفہوم نکلتا ہو تو وہ مصروف عن الظاہر
ہے۔([20])
الیواقیت والجواہر للشعرانی میں ہے کہ امام نووی سے جب ابن عربی کے بارے میں
پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:
تلك أمة
قد خلت، لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عقل وشعور رکھنے والے ہر شخص پر حرام ہے کہ اللہ کے
کسی بھی ولی کے بارے میں برا گمان وخیال رکھے بلکہ اُس پر یہ واجب ہے کہ اولیاء کے
اقوال وافعال کی اچھی تاویل کرے جب تک کہ خود انکے درجے ومرتبے تک نہ پہنچ جائے([21])۔اور اس تاویل سے قلیل التوفیق ہی عاجز رہے گا([22])۔
یاد رہے کہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے جان بوجھ کر اپنی تصنیفات میں ایسے
الفاظ استعمال کئے ہیں جنکے معانی تک غیر اہل شخص کی رسائی ممکن نہ ہو اور صرف وہی
حضرات سمجھ سکیں جنکو سمجھانا مقصود ہو۔ مثال کے طور پر حضرت موصوف کا ایک شعر ہے
جس میں خدا کو یوں پکارتے ہیں:
يا من يراني
ولا أراه |
|
كم ذا أراه
ولا يراني |
لفظی ترجمہ: اے وہ ذات جو مجھے دیکھتی ہے اور میں اسے نہیں دیکھتا۔۔۔کتنی
مرتبہ میں تو اسے دیکھتا ہوں لیکن وہ مجھے نہیں دیکھتی۔
اس شعر سے جب کسی نے دھوکہ کھا کر حضرت موصوف سے پوچھا کہ اسکا معنی بتائیں تو آپ نے فی الفور
جواب دیا:
يا من يراني
مجرما |
|
ولا أراه
آخذا |
كم ذا أراه
منعما |
|
ولا يراني
لائذا |
ترجمہ: اے وہ ذات (ذاتِ خدا) جو مجھے جرم کرتے دیکھتی ہے۔۔۔۔اور میں اسے گرفت
کرتے نہیں دیکھتا
اور کتنی مرتبہ میں اسے
نعمتوں کی بارش کرتے دیکھتا ہوں۔۔۔۔ اور وہ مجھے اپنی پناہ میں آتا نہیں دیکھتی([23])
قارئینِ کرام آپ نے ملاحظہ فرما لیا ہو گاکہ کس طرح حضرت کے لفظ ولایرانی (وہ
مجھے نہیں دیکھتا) سے اشتباہ پیدا ہوااور کس طرح حضرت نے ولایرانی لائذا کہہ کر
اپنی مراد بتا دی۔اسی لئے علما نے فرمایا کہ صوفیا کی بظاہر غلط نظرآنے والی
عبارات یا انکے اقوال میں جتنا ممکن ہوسکے تاویل سے کام لیکر انکے اچھے معانی بیان
کئے جائیں۔ موجودہ دور میں بھی بعض لوگ اپنی کم فہمی یا ذاتی عناد کی بنا پراولیا
وصوفیا کی باتوں کا غلط مقصد بیان کرتے ہیں ایسے لوگوں کے بارے میں صوفیا نے
فرمایا:
حرامٌ عليهم
النظرُ في كتبنا.
یعنی ایسے لوگوں کے لئے ہماری کتابوں کو دیکھنا حرام
ہے۔کیوں کہ یا تو وہ خود کفر میں پڑ سکتے ہیں یا اولیا کی تکفیر کردیں گے۔
اور یہ الزام کہ شیخ اکبر نے ایمان فرعون کا قول کیا ہے تو اسکی تردید میں
امام عبد الوہاب شعرانی فرماتے ہیں:
منکر ومخالف کا ایک دعوٰی یہ ہے کہ شیخ اکبر قبولِ ایمانِ فرعون کے قائل ہیں
تو یہ شیخ پر کذب وافتراء ہے کیونکہ شیخ
اکبر خود اپنی کتاب الفتوحات المکیہ کے باسٹھویں باب میں تصریح فرماتے ہیں کہ
فرعون اُن اہل نار میں سے ہے جو کبھی بھی آگ سے نہ نکلیں گے۔اور فتوحات، شیخ کی
آخری تالیفات میں سے ہے کیونکہ وہ انتقال
سے تین سال قبل اس کتاب کی تالیف سے فارغ
ہوئے([24])۔
امامِ
اہل سنت اعلی حضرت کاابن عربی کے بارے میں موقف:
آئیے اب اس تمام تر بحث کواعلی حضرت
کے ارشادات در بارہ شیخِ اکبر پر ختم کرتے ہیں۔ تاکہ ختمِ سخن ہو اور کلام کی مزید
حاجت نہ رہے۔ہم یہاں صر ف ان القابات کا ذکر کریں گے جواعلی حضرت نے شیخ اکبر اور
انکی تالیف الفتوحات المکیہ کو دئیے ہیں تاکہ آپ خود شیخِ اکبر کے مقام ومرتبہ کا
اندازہ لگا سکیں، القابات یہ ہیں:
(١)حضرت سیدی امام المکاشفین محی الملۃ والدین شیخ
اکبر ابن عربی (٢) امامِ اجل, عارف کبیر (٣) اما م الطریقۃ بحر الحقیقۃسیدنا
شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رضی الله تعالى عنه فتوحات مکیہ
شریف([25]) میں فرماتے ہیں (٤)حضر ت خاتم
الولایۃ المحمدیۃ فی زمانہ بحر الحقائق ولسان القوم بجنانہ وبیانہ سیدی شیخ اکبر
محی الدین ابن عربی نَفَعَنا اللهُ فی
الدّارَين بفَيضانه.
ختم شد
([8]) جیسا کہ امام زاہد کوثری فرماتےہیں:
وعليّ القاري بنى شرحَه على النسخة الخاطئة وأساء الأدب سامحه الله. (مقدمة "العالم والمتعلم" للكوثري ص:7)
([11]) امام زاہد کوثری کی
عبارت یہ ہے: وإني بحمد الله رأيت لفظ (ما ماتا) في نسختين بدار الكتب
المصرية قديمتين كما رأى بعض أصدقائي لفظَي ½ما ماتا¼ و½ماتا على الفِطرة¼ في
نسختين قديمتين بمكتبة شيخ الإسلام, وعليّ القاري بنى شرحَه على النسخة الخاطئة وأساء الأدب سامحه الله. (مقدمة "العالم والمتعلم"
للكوثري ص:7)
([12]) علامہ طحطاوی کی
عبارت یہ ہے: وما
في "الفقه الأكبر" من أن والدَيه صلى الله عليه وسلم
ماتا على الكفر فمدسوس على الإمام, ويدل عليه أن النسخ المعتمدة منه ليس فيها شيء
من ذلك.
(حاشية الطحطاوي على الدر,كتاب النكاح, باب نكاح الكافر, ٢/٨٠)
([13]) علامہ بیجوری کی
عبارت یہ ہے: ما نقل عن
أبي حنيفة في "الفقه الأكبر"
من أن والدَي المصطفى ماتا على الكفر فمدسوس عليه، وحاشاه أن يقول ذلك. وغلط ملا
علي القاري غفر الله له في كلمة شنيعة قالها. (تحفة
المريد شرح جوهرة التوحيد ص:69)
([14]) اس تمام بحث کو کسی
نے یوں بیان کیا ہے: الذي
يقرأ: (وأبو طالب مات كافرا) بعد النص الذي نقله ملا عليّ القاري يقول معترضاً
حالا: إذا كان والدا رسول الله صلى
الله عليه وسلم ماتا على الكفر وأبو طالب كذلك فكان حق الكلام أن يكون
هكذا:
ووالدا رسول الله صلى
الله عليه وسلم
وأبو طالب ماتوا كفارا، لا أن يذكر كفر أبويه صلى
الله عليه وسلم وحده ويذكر كفر أبي طالب عقبه وحده.
([15]) امام زاہد کوثری کی
عبارت یہ ہے: ففي بعض تلك النسخ: (ماتا على
الفطرة) و½الفطرة¼ سهلة التحريف إلى ½الكفر¼ في الخط الكوفي. (مقدمة "العالم والمتعلم" للكوثري ص:7)
([16]) حافظ علامہ محمد
مرتضٰی زبیدی کی عبارت یہ ہے: وكنتُ رأيتها بخطه عند شيخنا أحمد بن مصطفى العمري
الحلبي مفتي العسكر العالم المعمر ما معناه: إن الناسخ لمّا رأى تكرُّر ½ما¼ في
½ما ماتا¼ ظن أن إحداهما زائدة فحذفها فذاعت نسختُه الخاطئة، ومن الدليل على ذلك
سياق الخبر لأن أبا طالب والأبوين لو كانوا جميعاً على حالة واحدة لجمع الثلاثة في
الحكم بجملة واحدة لا بجملتين مع عدم التخالف بينهم في الحكم. (مقدمة "العالم والمتعلم"
للكوثري ص:7)
([17]) انکی پیدائش کا واقعہ
مشہور ہے کہ انکے والد گرامی کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی چنانچہ آپ غوثِ اعظم رضی
اللہ عنہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ جناب میرے ہاں اولاد نہیں دعا
فرمائیں کہ نیک وصالح اولاد ملے۔ غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ نے سر جھکا کر مراقبہ
فرمایا اور کچھ دیر بعد سر اٹھا کر فرمایا کہ تمہارے نصیب میں اولاد نہیں ہے، لیکن
انہیں بزرگوں سے لینے کے آداب معلوم تھے عرض گزار ہوئے کہ حضرت اگر میرے مقدر میں
اولاد ہوتی تو میں آپ سے لینے کیوں آتا، میں تو اپنے مقدر میں آپ سے اولاد
لکھوانے آیا ہوں۔ یہ سن کر غوث اعظم جلال میں آگئے اور فرمایا : ادھر آؤ اور
میری پشت سے اپنی پشت رگڑو، میری صلب میں صرف ایک بیٹا رہتا ہے یہ لے جاؤ، اس طرح
محی الدین ابن عربی پیدا ہوئے۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں: میری تقدیر بری ہو تو بھلی
کردے کہ ہے۔۔۔محو واثبات کے دفتر پر کروڑا تیرا
([19]) ملا علی قاری کی
عبارت یہ ہے: وفيه رد على ابن العربي ومن تبعه
كالجلال الدواني, وقد ألفت رسالة مستقلة في تحقيق هذه المسألة وبينت ما وقع لهم من
الوهم فى المواضع المشكلة وأتيت بوضوح الأدلة المستجمعة من الكتاب والسنة ونصوص
الأئمة. (منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبر , دار البشائر الاسلامیہ بیروت، ص98)
([21]) اور جب انکے مرتبے پر
پہنچ جائے گا تو انکے قول کے صحیح معنی خود جان لے گا اور صرف اندازے سے تاویل
نہیں کرنی پڑے گی. (علمیہ)
([22]) فسئل
الإمام محي الدين النووي عن الشيخ محي الدين بن عربي
فقال: تلك أمة قد خلت, ولكن الذي عندنا أنه يحرم على كل عاقل أن يسيء الظن بأحد من
أولياء الله عزوجل ويجب عليه أن يؤول أقوالهم وأفعالهم ما
دام لم يلحق بدرجتهم ولا يعجز عن ذلك إلا قليل التوفيق.
(اليواقيت والجواهر للشعراني, ص:12)
([24]) قال الإمام عبد
الوهاب الشعراني قدس سره الرباني: ومِن دعوى المنكِر
أن الشيخ يقول بقبول إيمان فرعون وذلك كذب وافتراء على الشيخ، فقد صرح الشيخ في
الباب الثاني والستين من "الفتوحات" بأن فرعون من أهل النار الذين لا
يخرجون منها أبد الآبدين و"الفتوحات" من أواخر مؤلفاته فإنه فرغ منها
قبل موته بنحو ثلاث سنين. (اليواقيت والجواهر, ص:17)