روحانیت کا درست مفہوم

Tue, 1 Jun , 2021
2 years ago

انسان جب مادیت بھری زندگی،اس کی کثافتوں اور  الجھنوں سے تنگ آجاتا ہے……… اوراس کا دل عیش ونشاط سے بھرجاتا ہے……… توآخر کاروہ روحانیت،ذہنی سکون اوردل کے آرام کی تلاش وجستجومیں نکل کھڑا ہوتا ہے ……… روحانیت کیا ہے ؟………اس کی ضرورت واہمیت کیا ہے؟………اورانسان کو اس کی تلاش کیوں ہے؟………آئیے !ان سوالات کے جوابات ڈھونڈتے ہیں۔

لفظ ”روحانیت“روح سے بنا ہے اور روح کے معنی ہیں راحت ، سکون اور قرار لہٰذا روحانیت کا مطلب بنے گا ایسا عمل جس سے سکون حاصل کیا جائے………اللہ تعالیٰ نے جس طرح مادے کے ذریعے انسان کا ظاہری وجودبنایا ہے اسی طرح روح کے ذریعے ایک باطنی وجود بھی تخلیق کیا ہے ……… انسان کا ظاہری وجود ہاتھ، پاؤں، چہرہ، جسم ، دل، گردے پھیپڑے اور دیگر اعضا پر مبنی ہے جبکہ باطنی وجودایمان،نور،عقل،معرفت،غوروفکر، جذبات ، احساسات، خوشی ، غمی، بے چینی اور سکون جیسی کیفیا ت پر مشتمل ہے………دنیا کے مذاہب میں ہمیں روحانیت یعنی سکون حاصل کرنے کے جدا جدا طریقے نظر آتے ہیں جیسے کوئی یوگا کرتا ہے………کوئی مراقبہ کرتا ہے………کوئی جنگلات وویرانوں میں پناہ ڈھونڈتا ہے ………کوئی غاروں کو اپنی آماجگاہ بناتا ہے……… کوئی پُرفضا مقامات کو مسکن بناتا ہے………اور کوئی دنیا کے شوروغل سے دُور سُنسان جگہوں کا متلاشی ہے الغرض مقصد سب کا ایک ہے کہ اپنی روح کو سکون وچین پہنچایا جائے ………مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر ایسا کرنے سے کامل سکون حاصل نہیں ہوتا ………ان سب کے برعکس ہم جب اسلام کے تصور روحانیت پر غور کرتے ہیں تو ہمیں ایک کامل تسکین دینے والا نظام نظر آتا ہے ۔چنانچہ،

اسلام میں روحانیت کامطلب اپنے خالق ومالک کا قرب ہے ……… پہلے بتایا جاچکا کہ انسان کے دو پہلو ہیں ایک مادی اور دوسرا روحانی ………مادی پہلو کا تعلق دنیا سے اور روحانی پہلو کا تعلق اللہ پاک سے ہے………انسان  کے روحانی اور مادی پہلو ایک دوسرے کے ساتھ جنگ میں ہیں……… اگر انسان نے خدا کی قربت حاصل کرنی ہے  تو اسے اپنے مادی پہلو کو کچلنا ہو گا……… پس اگر انسان اپنے مادی پہلو کو کچلنے میں کامیاب ہو گیا تو وہ قرب الٰہی کو پا لے گا……… اور اگر وہ ا پنے مادی پہلو کو کچلنے میں ناکام رہا تو راہِ خدا سے بھٹک جائے گا………پھر یہ کہ جوبندہ رب کریم کے جتنا قریب ہوتا ہے وہ اتنی ہی بڑی روحانی شخصیت کا مالک بن جاتا ہے ………ہمارے پیارے دین میں قرب الٰہی پانے کا مدار قرآن پاک اور سنت نبوی پر عمل کرنے میں ہے ……… کیونکہ اب پوری انسانیت کے پاس دینی وآسمانی علوم کا سرچشمہ صرف قرآن کریم ہے اوران علوم کی کامل تشریح وتوضیح حضور خاتم الانبیاء ﷺ کا قول وعمل ہے………آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

تَرَكْتُ فِيْكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِیِّہٖترجمہ:میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑیں ہیں جب تک انہیں تھامے رکھو گے گمراہ نہیں ہوگے ،اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔“ (موطاامام مالک،حدیث:1594)

ایک مشہور حدیث قدسی ہے جس میں قربِِ الہٰی یعنی اسلامی روحانیت پانے کا راز کھول کر بیان کیا گیا ہے اسے یہاں بیان کرنا فائدے سے خالی نہ ہوگا۔حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:میرا بندہ فرائض کی ادائیگی کے ذریعے جتنا میراقرب حاصل کرتا ہے اس کی مثل کسی دوسرے عمل سے حاصل نہیں کرتا(ایک روایت میں یوں ہے: میرابندہ کسی ایسی شئے سے میراقرب نہیں پاتاجوفرض کواداکرنے سے زیادہ پسندہو) اورمیرا بندہ نوافل(کی کثرت)سے میرے قریب ہوتارہتاہے یہاں تک کہ میں اس کو اپنا محبوب بنالیتا ہوں اورجب میں اسے محبوب بنالیتاہوں تو میں اس کاکان بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اورمیں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ۔اگروہ مجھ سے مانگے تو میں اسے ضروردیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں ۔‘‘(صحیح بخاری ،حدیث:6502)

حضرت امام ابوعبداللہ محمدبن عمر المعروف امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ (وفات :606ھ) نے اس حدیث پاک کامعنی ومقصدیہ بیان فرمایاہے کہ جب بندہ اپنے آپ کواللہ ربُّ العزت کے عشق ومحبت والی آگ میں جلاکرفناکردیتاہے………نفسانیت وانانیت والازنگ اورمیل کچیل دور ہو جاتا ہے………اورانوارِالہٰیہ سے اس کابدن منورہوجاتاہے تووہ اللہ تعالیٰ کے انوارہی سے دیکھتا ہے………انہی کی بدولت سنتاہے ………اس کابولناانہی انوارکے ذریعے ہے ………اس کا چلنا ،پھرنااورپکڑنا،مارناانہی سے ہوتاہے ………امام رازی کے الفاظ یہ ہیں: ’’اِذَاصَارَ نُوْرُ جَلَالِ اللّٰہِ لَہٗ سَمْعًا سَمِعَ ال ْقَرِیْبَ وَالْبَعِیْدَ وَاِذَاصَارَنُوْرُجَلَالِ اللّٰہِ لَہٗ بَصَرًارَأَی الْقَرِیْبَ وَالْبَعِیْدَ وَاِذَا صَارَذَالِکَ النُّوْرُیَدًالَہٗ قَدَرَعَلَی التَّصَرُّفِ فِی الصَّعْبِ وَالسَّہْلِ وَالْقَرِیْبِ وَالْبَعِیْدِترجمہ:اللہ پاک کانورِجلال جب بندۂ محبوب کے کان بن جاتاہے تووہ ہر آوازکوسن سکتاہے نزدیک ہویادور اور آنکھیں نورِجلال سے منورہوجاتی ہیں تودورونزدیک کا فرق ختم ہوجاتاہے یعنی ہرگوشۂ کائنات پیش نظرہوتاہے اورجب وہی نوربندہ کے ہاتھوں میں جلوہ گر ہوتا ہے توقریب وبعید اور مشکل وآسان میں اسے تصرف کی قدرت حاصل ہوجاتی ہے۔‘‘( تفسیرکبیر، 7/436)

سچی بات ہے کہ اللہ رب العزت پر ایمان رکھنے والا بندہ جتنا زیادہ اپنے رب کو یاد کرتا ہے………اس کے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے اتنا زیادہ روحانیت وسکون حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوۡبُہُمۡ بِذِکْرِ اللہِ ؕاَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوۡبُ (پ13،الرعد:28)ترجمہ:وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔(کنزالایمان)

اور اللہ تعالیٰ کی یاد یعنی ذکر الٰہی کی اعلی ترین قسم نماز ہے ۔جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیۡ (پ16،طٰہٰ:20)ترجمہ: اور میری یاد کے لئے نماز قائم رکھ۔(کنزالایمان)

روحانیت کوتفصیل کے ساتھ سمجھنے کے لیے ہمیں روحانیت کے درج ذیل تین پہلووں کو سمجھنا ہوگا:

پہلا پہلو :اپنی ذات کی معرفت ۔دوسرا پہلو:اللہ تعالیٰ کی معرفت۔تیسرا پہلو:شخصیت کی تعمیر۔

پہلے اور دوسرے پہلو کا تعلق علم کے ساتھ ہے جبکہ تیسرے پہلو کا تعلق عمل کے ساتھ ہے………معلوم ہوا کہ پہلے دونوں معرفتوں کا حصول ہو اور پھران معرفتوں کے نتائج کو عملی شکل میں ڈھال کرانسان اپنی شخصیت کی تعمیر کرے ……… لہذا انسان سب سے پہلے خود کوسمجھنے اور پہچاننے کی کوشش کرے تاکہ اُسے اپنے جذبات ، احساسات، خواہشات ، رغبتوں ، رحجانات ، شخصی کمزوریوں اور اچھائیوں کا پتا چل سکے……… پھر وہ جس قدر جانتا چلا جاتا ہے اُسی قدر اپنی ذات اور باطنی وجود کی معرفت وپہچان حاصل کرتا جاتا ہے………حضرت یحیٰ بن معاذ رازی فرماتے ہیں : مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہُ ترجمہ:جس نے خود کو پہچان لیا اُس نے اپنے رب تعالیٰ کو پہچان لیا۔(صواعق محرقہ،2/379)اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو اپنی ذات میں پائی جانے والی ناتوانی وکمزوری اور کمی وکوتاہی کو پہچان لیتا ہے وہ یہ بھی جان لیتا ہے کہ اس کا کوئی رب اور پالنے والا ہے جو کمال سے متصف ہے ،وہ ہر عیب سے پاک ہے اوراس کے سارے کام درست ہیں۔

اپنی ذات کو سمجھنے اور پہچاننے کے بعدروحانیت کا دوسرامرحلہ رب تعالیٰ کی معرفت ہے………اسلام اس مرحلے پر سب سے پہلا یہ درس دیتا ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لائے ………پھراس کی صفات کا اقرار کرے اور صفات کے ذریعے ہی بندے کو رب تعالیٰ کی ایک حد تک معرفت حاصل ہوتی ہے………واضح رہے کہ روحانیت کا یہ دوسرا پہلو ایک لحاظ سے پہلے پہلو سے جُڑا ہوا ہے………ان دونوں علمی پہلوؤں کے بعدبندہ روحانیت کے تیسرے پہلو کی طرف متوجہ ہوجائے ………اور وہ ہے شخصیت کی تعمیرو تہذیب………جب انسان نے اپنی ذات اور باطنی وجود کوپہچان کررب تعالیٰ کی یک گونہ معرفت حاصل کرلی اور زندگی کا مقصد واضح کرلیا تو اب ایک ایسی شخصیت کو تعمیر کرنا ضروری ہوجاتا ہے جو ایسی تمام خرابیوں، بُرائیوں اوربداعمالیوں سے پاک ہو جن کی وجہ سے بندہ بارگاہِ الٰہی میں درجہ قبولیت پر فائز ہونے سے محروم رہ جاتا ہے ۔

اسلام نے اس مرحلے پربندے کے لیے عبادات و اخلاقیات کا ایک سلسلہ رکھا ہے جس مِیں علم و عمل ساتھ ساتھ چلتے ہیں………ایک طرف عبادات جیسے نماز روزہ اور زکوٰۃ و حج کے ذریعے شخصیت کورب تعالیٰ سے جوڑا جاتا ہے تو دوسری جانب اخلاقیات اور حقوق العباد کی ادائیگی کے ذریعے مخلوق سے اچھے تعلق کی بنیاد رکھی جاتی ہے……… الغرض ان تین پہلووں کے لحاظ سے روحانیت کا مطلب یہ ہوا کہ بندہ پہلے اپنے ظاہروباطن کو پہچانے………پھر رب تعالیٰ کی معرفت حاصل کرے ………اورپھراس معرفت کی بنیاد پر اپنی شخصیت کاتزکیہ وتصفیہ کرے ………یعنی اپنی شخصیت کو نکھارنے ، سنوارنے اور اُس کی تعمیر کرنے کے لیے خود کو گناہوں اور بُرائیوں سے بچائے……… رب کریم کی اطاعت کرے ………اور حضوراکرم ﷺ کے اتباع میں لگ جائے۔

اگر ہم صحابہ کرام ،تابعین عظام اور اولیائے امت کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو واضح طور پر دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ان نفوس قدسیہ کی زندگیاں روحانیت کے مذکورہ تینوں پہلوؤں کے گرد گھومتی نظر آئیں گی………یہ حضرات ساری عمرخود شناسی ،خدا شناسی اور تزکیہ نفس میں بسر کردیتے ہیں……… اسلامی تصوف کی بھی یہی تعلیمات ہیں ………کہا جاسکتا ہے کہ تصوف وطریقت روحانیت کے حصول کا ایک مکمل نصاب(Complete Course)ہے ………تصوف کی اصطلاح میں جس شخصیت کو مرشد(شیخ/پیر/رہبر /استاد)کہتے ہیں وہ اپنے مریدوں اورشاگردوں کو سب سے پہلے اپنے اندر جھانکنے کادرس دیتا……… تاکہ سب سے پہلے باطن میں پائی جانے والی خرابیوں سے آگاہی ہو………دل میں پائی جانی والی خواہشات،رغبتوں،میلانات وجذبات سے واقفیت حاصل ہو………اور بندہ اپنی ذات میں پائی جانے والی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا اعتراف کرلے……… اوریوں روحانیت کا پہلا مرحلہ طے ہوجائے ………پھرکامل مرشد رب کریم کی ذات وصفات ، اُس کے کمالات اور اُس ذاتِ وحدہ لاشریک سے تعلق رکھنے والے عقائد ونظریات کی تعلیم دیتا ہے ………اور بتدرج اپنے مرید کو رب تعالیٰ کی شانوں سے آگاہ کرتا ہے تاکہ روحانیت کا دوسرا مرحلہ ذاتِ باری کی معرفت کا حصول طے ہوسکے ……… اور بندہ قربِ الٰہی کی منزلوں پر فائز ہوتا چلا جائے………اس کے بعد پیرومرشد انسان کی شخصیت کی تعمیر کی طرف متوجہ ہوتا ہے……… اور اسے نفس کُشی کے طریقے سکھاتا……… ظاہروباطن کی صفائی وپاکیزگی پر زور دیتا ہے ………اسلامی تعلیمات وشرعی احکامات پر عمل کے لیے ابھارتا ہے………خلق خدا پر شفقت ونرمی کا درس دیتا ہے……… انسانیت کی خدمت اوراُس کی فلاح وصلاح کی ضرورت سمجھاتا ہے………وہ اپنے مرید کے سامنے عاجزی وانکساری کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے………الغرض اسلامی روحانیت ( یعنی قرب الٰہی)پانے کے لیے کسی کامل مرشد کا مل جانا خدا تعالیٰ کی بڑی زبردست نعمت ہے۔

قرآن وسنت روحانیت کے مذکورہ تینوں پہلوؤں کو جابجا بیان کرتے نظر آتے ہیں………دعوتِ توحید اور اقرار نبوت کے بعد حضرات انبیاء کرام بھی انسانوں کو ان تینوں پہلوؤں سے روشناس کراتے رہے……… اور بندوں کو بتاتے رہے کہ معرفت نفس،معرفت الٰہی اور تزکیہ نفس کرنے والے لوگ ہی دنیا وآخرت میں کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں ………اور جو اس سے غفلت برتتے ہیں وہ دنیا میں تباہی اور آخرت میں عذابِِ الٰہی کا شکار ہوجاتے ہیں ………محسن انسانیت ، نبی رحمت ﷺ نے بھی اپنی امت کو یہ تعلیم دی ………اور انہیں رب تعالیٰ تک پہنچانے والا سیدھا راستہ بتایا……… پس جولوگ اس شاہراہِ صراط مستقیم پر گامز ن ہوگئے وہ کامیاب کہلائے……… قرآن پاک نے ان کے گُن گائے………زبانِ رسالت نے اُن کی سرخروئی پر مہرتصدیق ثبت فرمائی………خلق خدا نے اُن کی عظمتوں کا اعتراف کیا………دنیاو آخرت میں انہیں بشارتیں دی گئیں ………اورکسی کو صحابی،کسی کو تابعی اور کسی کو ولی اللہ کہا گیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الۡاٰخِرَۃِ ؕ لَا تَبْدِیۡلَ لِکَلِمٰتِ اللہِ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیۡمُ ﴿ؕ۶۴ترجمہ :سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔(کنزالایمان)

آگے چل کر بندوں کو روحانیت کے حصول……… اور قرب الٰہی پانے کے طریقوں……… اور راستوں سے آگاہ کرنے کے لیے یہ سلسلہ اُمت کے صوفیااور اولیاکے ہاتھوں میں دیاگیا ………اور آج تک یہ مردانِ خدا اِس ذمہ داری کو بحسن وخوبی نبھا رہے ہیں ……… خلاصۂ کلام یہ ہے کہ بندہ نفسانیت،انانیت اور خواہشات کے بتوں کو پاش پاش کردے ……… عبادت،ریاضت اورفکرآخرت سے خودکو مزین کرے……… تقوی وپرہیزگاری کی سواری پر سوارہوجائے……… قربِِ الٰہی کی منزلوں تک پہنچانے والے اعمال مسلسل بجالائے اور اولیاء کرام وعلماء عظام کا ہمنشین بن جائے تو ایک وقت آئے گا جب وہ روحانیت سے سرفراز ہوجائے گا………ارشادِ ربانی ہے:

وَالَّذِیۡنَ جٰہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا ؕ وَ اِنَّ اللہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿٪۶۹(پ21،العنکبوت:69)ترجمہ :اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے۔(کنزالایمان)

رب کریم ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے کراپنے قرب سے نوازے اوراپنے نیک بندوں کی صحبت ورفاقت عطا فرماکر روحانیت سے مالا مال کردے ۔ امین بجاہ طٰہٰ ویٰسین

محمد آصف اقبال مدنی

کراچی،پاکستان