اربعین ِعثمانی

Tue, 27 Jul , 2021
2 years ago

مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ،دامادِ رسول، اِمَامُ الْاَسْخِیَاء، پیکرِ شرم و حیا حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی عظمت و شان پر مشتمل 40 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجموعہ بنام

اَربعیْنِ عثمانی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنط اَمَّا بَعْدُ!

فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمط

اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک فرامین پڑھنا، سننا، یاد کرنا، انہیں دوسروں تک پہنچانا اور ممکنہ صورت میں ان پر عمل کرنا ایک مسلمان کے لئے دنیا و آخرت میں فلاح و نجات کا باعث ہے۔فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے: نَضَّرَ اللَّہُ اِمْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِیْثًا فَحَفِظَہٗ حَتّٰی یُبَلِّغَہٗ  یعنی اللہ پاک اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی اور اسے یاد کر لیا یہاں تک کہ اسے (دوسروں تک) پہنچا دیا۔(ابوداؤد،3/450،حدیث:3660)

بالخصوص 40 حدیثیں یاد کرنے یا انہیں کسی بھی طرح مسلمانوں تک پہنچانے کی فضیلت کئی حدیثوں میں بیان کی گئی ہے۔ اس بارے میں 2 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاحظہ فرمائیے:

(1)مَنْ حَفِظَ عَلٰی اُمَّتِيْ اَرْبَعِيْنَ حَدِيْثًا يَنْفَعُهُمُ اللهُ عَزَّ وَجَلَ بِهَا قِيْلَ لَهٗ اَدْخِلْ مِنْ اَيِّ اَبْوَابِ الْجَنَّةِ شِئْتَ یعنی جس شخص نے میری امت تک 40 ایسی حدیثیں پہنچائیں جن سے اللہ پاک نے میری امت کو فائدہ پہنچایا تو (قیامت کے دن)اس شخص سے کہا جائے گا:جنت کے جس دروازے سے چاہو داخل ہوجاؤ۔ (حلیۃ الاولیا،4/210،حدیث:5280)

(2)مَا مِنْ مُسْلِم ٍيَحْفَظُ عَلٰى اُمَّتِىْ اَرْبَعِيْنَ حَدِيْثًا يُعَلِّمُهُمْ بِهَا اَمْرَ دِيْنِهِمْ اِلَّا جِيْءَ بِهٖ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَقِيْلَ لَهٗ: اِشْفَعْ لِمَنْ شِئْتَ یعنی جو بھی مسلمان میری امت تک 40 ایسی حدیثیں پہنچائے جن کے ذریعے انہیں دین کے احکام سکھائے تو قیامت کے دن اسے لاکر کہا جائے گا:تم جس کی چاہو شفاعت کرلو۔(جامع بیان العلم و فضلہ،ص63)

اس مفہوم کی احادیث کے پیشِ نظر ہر دور میں اہلِ علم مختلف عنوانات پر 40 احادیثِ مبارکہ کے گلدستے سجا کر مسلمانوں تک پہنچاتے رہے۔ ان خوش نصیبوں کی صف میں خود کو شامل کرانے اور احادیث میں بیان کردہ فضائل پانے کے لئے راقمُ الحروف نے مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب پر مشتمل ’’اربعینِ عثمانی‘‘مرتب کی ہے۔

اس مجموعے میں فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اعراب لگانے اور بزرگانِ دین کی کتابوں سے شرح حدیث ذکر کرنے کی مقدور بھر کوشش کی گئی ہے۔

تمام اسلامی بھائیوں سے گزارش ہے کہ اس تالیف کاخود مطالعہ فرمائیں ، دوسرے مسلمانوں تک پہنچائیں اور اگر اس میں کسی بھی قسم کی شرعی، فنی، اعرابی یا ادبی غلطی پائیں تو راقم کو اس فون نمبر (03002505936) پرضرور مطلع فرمائیں تاکہ اگلی بار کام کے موقع پر درست کیا جاسکے۔

(1) لِكُلِّ نَبِيٍّ رَفِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَرَفِيقِي فِيهَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ یعنی جنت میں ہر نبی کا کوئی(خاص) ساتھی ہوتاہے اور میرے(خصوصی) جنتی ساتھی عثمان ہیں ۔ (ابن ماجہ،1 /78، حدیث:109)

شرح: اس حدیث میں حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے لئے رفاقتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جو خوش خبری بیان کی گئی وہ مُطْلَق ہے اور دنیا و آخرت دونوں کو شامل ہے۔یہ فرمانِ عالی شان صحابۂ كرام علیہم الرضوان میں سے کسی اور کے لئے رَفاقت کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر نبی علیہ السلام کے لئے کوئی خاص رفیق ہوتا ہے جبکہ رحمتِ عالَم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے کئی خاص رُفقاء ہیں۔حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کو خصوصاً ذکر کرنے میں آپ کے بلند و بالا مقام و مرتبے کے طرف اشارہ ہے۔(مرقاۃ المفاتیح،10/432)

(2) حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے:میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ہمراہ موجود تھا کہ ایک شخص نے حاضر ہوکر ہاتھ ملانے کا شرف حاصل کیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم        نے اپنا مبارک ہاتھ نہ کھینچا یہاں تک کہ اس شخص نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور پھر عرض گزار ہوا:یارسول اللہ!عثمان آرہے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اِمْرُؤٌ مِّنْ اَهْلِ الْجَنَّةِ یعنی وہ ایک جنتی آدمی ہیں۔ (معجم اوسط،1/99،حدیث:300)

(3) عُثْمَانُ فِي الْجَنَّةِ یعنی عثمان جنتی ہیں۔(ابوداؤد،4/279،حدیث:4649)

شرح:یعنی سب سے پہلے جانے والوں کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے۔(فیض القدیر،4/399)

(4) حضرت سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: اللہ کے حبیب     صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک باغ میں تشریف لے گئے اور مجھے باغ کے دروازے کی حفاظت کا حکم فرمایا۔ایک صاحب نے دروازے پر آکر حاضری کی اجازت طلب کی۔ارشاد فرمایا:انہیں آنے کی اجازت دو اور جنت کی خوش خبری بھی سنادو،یہ آنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ   تھے۔ اس کے بعد ایک اور صاحب نے اجازت طلب کی،ان سے متعلق بھی یہی ارشاد ہوا کہ انہیں اجازت دو اور جنت کی بشارت سناؤ،یہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  تھے ۔ اس کے بعد تیسرے صاحب نے حاضری کی اجازت مانگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ تَوَقُّفْ کرنے کے بعد ارشاد فرمایا: اِئْذَنْ لَّهٗ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوٰى سَتُصِيبُهٗ یعنی انہیں آنے کی اجازت دو اور جنت کی خوش خبری بھی سناؤ ایک مصیبت کے ساتھ جو عنقریب انہیں پہنچے گی۔جب میں نے  حضرتِ عثمان رضی اللہ عنہ   کو یہ فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنایا  تو انہوں نے(جنت کی خوشخبری پر) حمدِ خداوندی  بجا لانے کے بعد فرمایا: (اس مصیبت پر صبر کرنے کے معاملے میں)اللہ مددگار ہے۔ (بخاری،2/529، حدیث: 3695،3693،لمعات التنقیح،9/648)

شرح :حضرت عثمانِ غنی ( رضی اللہ عنہ  )نے دونوں چیزوں پر خدا کا شکر کیا مگر بلا و فتنہ پر اللہ سے مدد مانگی کہ مجھے صبر کی توفیق ملے۔(مراٰۃ المناجیح، 8/410)

(5) مَنْ جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَلَهُ الْجَنَّةُ یعنی جو تنگی والے لشکر(غزوۂ تبوک)کے لئے تیاری کا سامان مہیا کرے تو اس کے لئے جنت ہے۔ (یہ فرمانِ عالیشان سن کر) حضرت سیدنا عثمانِ غنی  رضی اللہ عنہ  نے لشکر کے لئے سامان پیش کیا۔ (بخاری،2/529)

(6) حضرت سيدنا عبدالله بن حوالہ رضی اللہ عنہ   كا بيان ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے(غیبی خبر دیتے ہوئے )ارشاد فرمایا: ذَاتَ يَوْمٍ تَهْجُمُوْنَ عَلٰى رَجُلٍ مُعْتَجِرٍ بِبُرْدَةٍ يُبَايِعُ النَّاسَ مِنْ اَهْلِ الْجَنَّةِ یعنی ایک دن تم لوگ ایک ایسے جنتی شخص کے پاس داخل ہوگے جو سر پر چادر اوڑھے ہوئے لوگوں سے بیعت لے رہا ہوگا۔پھر جب (خلافتِ عثمانی کے آغاز کے موقع پر)میں حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ   کے پاس گیا تو وہ سر پر دھاری دار چادر اوڑھے ہوئے لوگوں سے بیعت لے رہے تھے۔ (مستدرک،6 /77، حديث:4589)

(7) رحمتِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا:کیا جنت میں بجلی کی چمک ہو گی؟ارشاد فرمایا: نَعَمْ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهٖ اِنَّ عُثْمَانَ لَيَتَحَوَّلُ مِنْ مَنْزلٍ اِلٰى مَنْزِلٍ فَتَبْرُقُ لَهُ الْجَنَّةُ یعنی ہاں،اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے!جب عثمان (جنت میں )ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوں گے تو جنت ان کے لئے بجلی کی طرح چمکے گی۔ (مستدرک،6/78،حديث:4590)

(8) الله کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے رُومہ نامی کنواں خرید کر مسلمانوں پر صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی تو حضرت سیدنا عثمانِ غنی  رضی اللہ عنہ   نے 400 دینارکے بدلے اس کنویں کو خریدا اور مسلمانوں پر صدقہ کردیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کو اس بات کی خبر ملی تو آپ نے دعا فرمائی:اَللّٰهُمَّ اَوْجِبْ لَهُ الْجَنَّةَ یعنی اے اللہ !عثمان کے لئے جنت کو لازم فرمادے۔(الطبقات الکبری،1/392)

(9) شہزادیٔ رسول حضرت سيده امِ كلثوم رضی الله عنہا نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر سوال کیا:یارسول اللہ! کیا فاطمہ کے شوہر (علی المرتضیٰ)میرے شوہر (عثمانِ غنی)سے افضل ہیں؟سرکارِ دوعالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ارشاد فرمایا: زَوْجُكِ يُحِبُّهُ اللهُ وَرَسُوْلُهٗ وَيُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ وَاَزِيْدُكِ لَوْ قَدْ دَخَلْتِ الْجَنَّةَ فَرَاَيْتِ مَنْزِلَہٗ لَمْ تَريٰ اَحَدًا مِّنَ اَصْحَابِيْ يَعْلُوْهُ فِيْ مَنْزِلَتِهٖ یعنی تمہارے شوہر سے اللہ و رسول محبت فرماتے ہیں اور وہ اللہ و رسول سے محبت کرتے ہیں۔ایک بات مزید بتادوں،اگر تم جنت میں جاکر اپنے شوہر کا ٹھکانہ دیکھو تو میرے صحابہ میں سے کسی کا ٹھکانہ ان سے بلند و بالا نہیں دیکھو گی۔ (مجمع الزوائد، 9/100، حدیث:14532)

(10) لَيَدْخُلَنَّ بِشَفَاعَةِ عُثْمَانَ سَبْعُوْنَ اَلْفًا كُلُّهُمْ قَدْ اِسْتَوْجَبُواالنَّارَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ یعنی عثمان کی شفاعت کی بدولت 70 ہزار ایسے افراد جن پر دوزخ لازم ہوچکی ہوگی وہ بلاحساب و کتاب جنت میں داخل ہوں گے۔ (کنزالعمال،6 /269، جزء:11، حدیث:32806)

شرح:ان 70 ہزار افراد کا دوزخ میں داخلہ لازم ہوچکا ہوگا لیکن حضرت عثمانِ غنی   رضی اللہ عنہ   کے اِکرام(عزت و تعظیم) کے لئے اللہ پاک ان لوگوں سے متعلق آپ کی شفاعت قبول فرمائے گا۔(التنویر،9/217)

(11)اَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ یعنی ميری امت میں سے سب سےسچے حیادار عثمان ہیں۔(ابن ماجہ،1/102،حديث:154)

شرح:حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ   اللہ پاک اور اس کی مخلوق سے بہت حیا فرمانے والے تھے یہاں تک کہ اپنی بیویوں سے اور تنہائی میں بھی شرم و حیا فرماتے تھے۔آپ کی اس شرم و حیا کی بدولت اللہ پاک کے فرشتے بھی آپ سے حیا کرتے تھے۔حدیثِ پاک میں فرمایا گیا ہے:اِنَّ الْحَيَاءَ مِنْ الْاِيمَانِ یعنی حیا ایمان سے ہے(بخاری،1/19،حدیث:24) تو گویا کہ مذکورہ بالا حدیث میں یہ فرمایا گیا کہ سب سے زیادہ ایمان والے عثمان ہیں۔ایک دوسری حدیث میں فرمایا گیا:اَلْحَيَاءُ لَا يَاْتِيْ اِلَّا بِخَيْرٍیعنی شرم و حیا صرف بھلائی ہی لاتی ہے۔(بخاری،4/131،حدیث:6117)تو گویا کہ اوپر والی حدیث میں یہ فرمایا گیا کہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ  سے صرف خیر و بھلائی ہی ظاہر ہوتی ہے یا پھر آپ صرف خیر و بھلائی کا ہی ارتکاب فرماتے ہیں۔(فیض القدیر،1/588)

(12)مَرَّ بِيْ عُثْمَانُ وَعِنْدِيْ مَلَكٌ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ شَهِيْدٌ يَقْتُلُهٗ قَوْمُهٗ اِنَّا لَنَسْتَحْيِيْ مِنْهُ یعنی عثمان میرے پاس سے گزرے تو فرشتوں میں سے ایک فرشتہ میرے پاس موجود تھا۔اس فرشتے نے کہا:یہ شہید ہیں جنہیں ان کی قوم قتل کرے گی ،بے شک ہم (فرشتے) ان سے حیا کرتے ہیں ۔(معجم كبير، 5/159، حدیث:4939)

(13)ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے حجرے میں اس طرح آرام فرمارہےتھے کہ مبارک رانیں یا پنڈلیاں کھلی ہوئی تھیں۔(اس دوران )حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حاضری کی اجازت مانگی تو انہیں اسی حالت میں اجازت د ی اور (ان سے)گفتگو فرمائی،پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حاضری کا اِذن طلب کیا تو انہیں بھی اسی حالت میں اجازت دی اور (ان سے)گفتگو فرمائی۔ اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حاضری کی اجازت چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور لباس مبارک کو درست فرمایا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر بات چیت کرتے رہے۔جب آپ چلے گئے تو میں نے عرض کی:حضراتِ ابوبکر و عمر آئے تو آپ نے کچھ تکلف نہیں فرمایا لیکن حضرت عثمان کی آمد پر آپ اٹھ بیٹھے اور لباس کو درست فرمایا(اس کا کیا سبب ہے؟)نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَلَا اَسْتَحِيْ مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحِيْ مِنْهُ الْمَلَائِكَةُ یعنی کیا میں اس مرد سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔(مسلم،ص1004،حدیث:6209)

شرح :شیخِ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :سرکارِ دوعالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے حیا کرنے سے مراد ان کی تعظیم و توقیر کرنا ہے۔(لمعات التنقیح،9/636)

امام ابنِ حجر ہیتمی مکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اس حدیثِ پاک میں حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی ایک عظیم فضیلت کا بیان ہے اور اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ فرشتوں کے نزدیک آپ کی کس قدر عظمت و منزلت ہے نیز یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ شرم و حیاء ایک اچھی صفت ہے جو فرشتوں کی صفات میں سے ہے۔(فتح الالٰہ، 10/578)

امام بدرالدین محمود بن احمد عینی رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا:حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سركارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داماد ہونے کی وجہ سے بھی اس بات کے زیادہ حقدار تھے کہ آپ سے حیا کی جائے کیونکہ انسان اپنے سسر کی نسبت داماد سے زیادہ حیا کرتا ہے۔(عمدۃ القاری،11/426)

(14) ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مبارک بستر پرحضرت عائشہ صدیقہ کی چادر اوڑھ کر لیٹے ہوئے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حاضری کی اجازت چاہی۔سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی حال میں انہیں اجازت دی اور وہ اپنی ضرورت پوری کرکے چلے گئے۔اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حاضری کا اذن مانگا تو انہیں اسی حال میں اجازت عطا فرمائی اور وہ بھی اپنی ضرورت مکمل کرکے چلےگئے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پھر میں نے حاضری کا اذن مانگا تو رحمتِ عالم صلی للہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ بیٹھے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا: اِجْمَعِي عَلَيْكِ ثِيَابَكِ یعنی اپنا لباس درست کرلو۔میں حاضرِ خدمت ہوکر اپنی ضرورت پوری کرکے چلا گیا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا عرض گزار ہوئیں: یا رسول اللہ!کیا وجہ ہے کہ آپ نے حضرات ِابوبکر و عمر کے لئے اس طرح اہتمام نہیں فرمایا جیسے حضرت عثمان کے لئے فرمایا۔سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اِنَّ عُثْمَانَ رَجُلٌ حَيِيٌّ وَاِِنِّيْ خَشِيْتُ اِنْ اَذِنْتُ لَهٗ عَلیٰ تِلْكَ الْحَالِ اَنْ لَّا يَبْلُغَ اِلَيَّ فِي حَاجَتِهٖ یعنی عثمان ایک شرمیلے مرد ہیں۔مجھے یہ اندیشہ تھا کہ اگر میں نے انہیں اسی حالت میں آنے کی اجازت دی تو وہ مجھ سے اپنی ضرورت بیان نہیں کرسکیں گے۔ (مسلم، ص1004، حدیث: 6209)

شرح:یعنی اگر ہم ان کے سامنے اسی بے تکلفی سے لیٹے رہے تو وہ اتنے شرمیلے ہیں کہ یہاں نہ بیٹھ سکیں گے ،نہ مجھ سے بات کرسکیں گے، نہ وہ عرض پوری کرسکیں گے جس کے لئے وہ یہاں آئے تھے۔(مراٰۃ المناجیح،8/393)

(15) عُثْمَانُ رَجُلٌ ذُوْ حَيَاءٍ سَاَلْتُ رَبِّيْ اَنْ لَّا يُوْقِفَه ٗ لِلْحِسَابِ فَشَفَّعَنِيْ یعنی عثمان ایک شرمیلے مردہیں۔میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ انہیں حساب لینے کے لئے کھڑا نہ کرے تو اس نے میری شفاعت قبول فرمالی۔ (تاریخ دمشق،39/97)

(16)عُثْمَانُ اَحْیَا اُمَّتِيْ وَاَكْرَمُهَا یعنی عثمان میری امت میں سے سب سے زیادہ باحیا اور سخی ہیں۔ (حلیۃ الاولیاء،1/93،حدیث:157)

شرح:امت سے مراد وہ افراد ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات میں موجود تھے یا پھر قیامت تک دنیا میں آنے والے مسلمان مراد ہیں۔ (التنویر،7/204)

امام محمد عبدالرؤف مُناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :شرم و حیا ایک ایسا وصف ہے جس سے دیگر خوبیاں جنم لیتی ہیں۔منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کرنے کے بعد حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے اپنا سیدھا ہاتھ کبھی شرم گاہ پر نہیں لگایا،اسلام لانے کے بعد سے آپ ہر جمعہ کوایک غلام آزاد فرماتے ،آپ کے آزاد کردہ غلاموں کی مجموعی تعداد تقریباً 2400ہے۔آپ نے اسلام لانے سے پہلے اور بعد کبھی چوری یا زنا کا اِرتکاب نہ کیااور سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری میں حفظِ قراٰن کا اعزاز پایا۔ (فیض القدیر،4/399)

(17)اَلسَّخَاءُ شَجَرَةٌ فِى الْجَنَّةِ وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ غُصْنٌ مِّنْ اَغْصَانِهَا یعنی سخاوت ایک جنّتی درخت ہےاورعثمان بن عفان اُس کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہیں۔ (کنز العمال،جز :11، 6/273،حدیث: 32849)

(18)حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ يَّبْتَاعُ مِرْبَدَ بَنِيْ فُلَان ٍغَفَرَ اللهُ لَهٗ یعنی جو فلاں لوگوں کی مِرْبدَ (وہ زمین جس میں کھجوریں سکھائی جاتی ہیں)خرید لے ،اللہ پاک اس کی مغفرت فرمائے۔ میں نے وہ زمین 20 ہزار یا 25 ہزار میں خرید لی۔جب میں نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر اس بات کی خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِجْعَلْهُ فِيْ مَسْجِدِنَا وَاَجْرُهٗ لَكَ یعنی اس زمین کو ہماری مسجد میں شامل کردو،اس کا ثواب تمہیں ملے گا۔(نسائی،ص518، حدیث :3179)

(19)سركارِ نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کو غزوۂ تبوک کے لئے(راہِ خدا میں ) خرچ کرنے کی ترغیب دلارہے تھے کہ حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوکر عرض گزار ہوئے: یارسول اللہ! ایک سو اونٹ تمام ضروری سامان کے ہمراہ اللہ کی راہ میں دینے کی میں ذمہ داری لیتا ہوں۔حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو دوبارہ ترغیب دلائی تو آپ نے 200اونٹ اور تیسری بار ترغیب دلانے پر 300 اونٹ تمام ضروری سامان سمیت پیش کرنے کی نیت فرمائی۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرماتے ہوئے منبر شریف سے نیچے تشریف لے آئے: مَا عَلٰى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهٖ مَا عَلٰى عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهٖ یعنی اس کے بعد عثمان جو کچھ کرے اس پر مُؤَاخذہ نہیں،اس کے بعد عثمان جو کچھ کرے اس پر مُؤَاخذہ نہیں۔ (ترمذی، 5/391، حديث:3720)

شرح:یعنی یہ نیکی کرنے کے بعد ان کے کسی عمل پر انہیں گناہ نہیں ملے گا،مراد یہ ہے کہ ان کا یہ عمل ان کی تمام خطاؤں کے لئے کفارہ بن گیا ہے۔یہ فرمانِ عالیشان ایسے ہی ہے جیسے اہلِ بدر سے متعلق فرمایا گیا: لَعَلَّ اللَّهَ اِطَّلَعَ عَلٰى اَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْیعنی بے شک اللہ پاک نے اہلِ بدر کی طرف خصوصی توجہ كركے ارشاد فرمایا:تم جو چاہے کرو،تحقیق میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔(مسلم،ص1040،حدیث:6401،لمعات التنقیح،9/638)

حضورِ انور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے تین بار چندہ کی اپیل کی ۔ہر بار میں حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)نے سو، دو سو، تین سو اونٹ کا مع سامان کے اعلان کیا ، کسی کو بولنے کا موقع ہی نہ دیا،چھ سو اونٹ مع سامان کا بھی اعلان کیا اور ایک ہزار اشرفیوں کا بھی جیساکہ دوسری روایات میں ہے۔خیال رہے کہ یہ تو ان کا اعلان تھا مگر حاضر کرنے کے وقت 950 اونٹ، پچاس گھوڑے اور ایک ہزار اشرفیاں پیش کیں، پھر بعد میں دس ہزار اشرفیاں اور پیش کیں ۔ (مراٰۃ المناجیح،8/395)

(20) غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ایک ہزار دینار(سونے کی اشرفیاں)اپنی آستین میں لائے اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں ڈال دیں۔سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان اشرفیوں کو الٹ پلٹ کر ملاحظہ فرمانے لگے اور پھر دو مرتبہ ارشاد فرمایا: مَاضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْيَوْمِ یعنی آج کے بعد عثمان جو بھی کریں ان کا کوئی عمل انہیں نقصان نہ دے گا۔ (ترمذی، 5/392، حديث:3721)

شرح:اس فرمان عالی میں حضرت عثمان غنی (رضی اللہ عنہ)کو تین بشارتیں دی گئیں: ایک یہ کہ ان کے سارے گذشتہ گناہ اور خطائیں معاف ہوگئیں ،ان کا آج کا یہ عمل ان کا کفارہ بن گیا۔دوسرے یہ(کہ) آئندہ وہ گناہوں سے محفوظ رہیں گے۔ تیسرے یہ کہ ان کا خاتمہ ایمان پر ہوگا۔ (مراٰۃ المناجیح،8/396)

(21)حضرت سيدنا ابومسعود رضی الله عنہ كا بيان ہے:ہم ایک جہاد کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ موجود تھے کہ لوگوں کو کھانے پینے کے سامان کی کمی کا سامنا ہوا یہاں تک کہ میں نے مسلمانوں کے چہرے پر غم جبکہ منافقین کے چہرے پر خوشی کے آثار دیکھے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ معاملہ ملاحظہ کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: وَاللهِ لاَ تَغِيْبُ الشَّمْسُ حَتّٰى يَاتِيَكُمُ اللهُ بِرِزْقٍ یعنی اللہ پاک کی قسم!سورج غروب ہونے سے پہلے اللہ کریم تمہیں رزق عطا فرمادے گا۔(یہ سن کر) حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کو یقین ہوگیا کہ اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس خبر کو پورا کردیں گے،چنانچہ آپ نے کھانے کے سامنے سے لدے ہوئے 14اونٹ خریدے اور ان میں سے 9 بارگاہِ رسالت میں پہنچادیے۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں دریافت کیا تو عرض کیا گیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ کی خدمت میں یہ تحفہ بھیجا ہے۔ اس موقع پر مسلمانوں کے چہرے پر خوشی جبکہ منافقین کے چہرے پر غم کے آثار نمایاں ہوئے اور میں نے سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے دونوں مبارک ہاتھ اس طرح اٹھارکھے ہیں کہ بغلوں کی سفیدی دیکھی جاسکتی ہے اور حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے لئے ایسی دعا فرمارہے ہیں کہ اس سے پہلے اور اس کے بعد میں نے آپ کو کسی کے لئے ایسی دعا کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ (معجم اوسط،5/258، حدیث:7255)

(22) حضرت سيدنا ابوہريره رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں(پردے کے احکام نازل ہونے سے پہلے) شہزادیٔ رسول ،زوجۂ عثمانِ غنی حضرت سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا تو ان کے ہاتھ میں کنگھی تھی۔ فرمانے لگیں:ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس سے تشریف لے گئے۔ میں نے سرِ انور میں کنگھی کی ،(اس دوران)آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا: كَيْفَ تَجِدِيْنَ اَبَا عَبْدِ اللهتم ابو عبداللہ (یعنی عثمانِ غنی)کو کیسا پاتی ہو؟میں نے عرض کی:اچھا پاتی ہوں۔ارشاد فرمایا: اَكْرِمِيْهِ فَاِنَّهٗ مِنْ اَشْبَهِ اَصْحَابِيْ بِيْ خُلُقاً یعنی ان کی عزت کرو کیونکہ وہ میرے ان صحابہ میں سے ہیں جن کی سیرت میری سیرت سے مُشابہ (یعنی ملتی جلتی)ہے۔ (مستدرك،8/414، حديث:7027 )

(23) حضرت سيدنا عثمانِ غنی رضی ا للہ عنہ اپنی زوجہ ،شہزادیٔ رسول حضرت رقیہ رضی اللہ عنہاکے ہمراہ جب ہجرت کرکے حبشہ چلے گئے تو کچھ عرصے تک ان دونوں کی کوئی خبر نہ آئی ۔رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لاکر ان کے بارے میں کسی خبر سے متعلق دریافت فرماتے تھے۔ایک دن ایک عورت نے آکر ان کی خبر پہنچائی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اِنَّ عُثْمَانَ اَوَّلُ مَنْ هَاجَرَ اِلَى اللهِ بِاَهْلِهٖ بَعْدَ لُوْطٍ یعنی حضرت لوط علیہ السلام کے بعد عثمان وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی اہلیہ کے ہمراہ اللہ پاک کی طرف ہجرت کی۔(معجم كبير،1/90،حدیث:143)

شرح:اسلام کے ابتدائی دور میں جب مشرکین کے مظالم دن بدن بڑھنے لگے تو رحمتِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا:حبشہ میں ایک ایسا بادشاہ موجود ہے جس کے یہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا ۔اگر تم وہاں چلے جاؤ تو اللہ پاک تمہارے لئے کشادگی فرمادے گا۔اس فرمانِ عالیشان پر مسلمانوں نے دو مرتبہ حبشہ کی طرف ہجرت کی جس میں سے پہلی ہجرت اعلانِ نبوت کے 5ویں سال رجب کے مہینے میں ہوئی ۔پہلی بار ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی تعداد ایک قول کے مطابق 15 تھی جن میں سے 11مرد اور 4عورتیں تھیں۔یہ حضرات پیدل سمندر تک گئے اور پھر وہاں سے آدھے دینار پر کشتی کرائے پر لے کر حبشہ پہنچے۔اس ہجرت کے لئے پہل کرنے والے حضرت عثمانِ غنی اور آپ کی زوجہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہما تھے۔اس ہجرت کے بعد کچھ عرصے تک ان حضرات کی کوئی خیر خبر موصول نہ ہوئی یہاں تک کہ ایک عورت نے حاضر ہوکر بارگاہِ رسالت میں عرض کیا:میں نے ان دونوں کو اس حال میں دیکھا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ کو سواری پر بٹھا کر کہیں لے جارہے تھے۔(فتح الباری،8/161)

(24) حضرت سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے:حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے غزوۂ بدر سے غیر حاضری کا سبب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی ان کی زوجیت میں تھیں اور وہ بیمار تھیں۔نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا: اِنَّ لَكَ اَجْرَ رَجُلٍ مِّمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمَهٗ یعنی تمہیں غزوۂ بدر میں شریک ہونے والوں کے برابر ثواب بھی ملے گا اور مالِ غنیمت میں سے حصہ بھی۔ (بخاری،2/352،حديث:3130)

شرح:حضورِ اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ (رضی اللہ عنہا) حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالی عنہ کی زوجیت میں تھیں اور غزوۂ بدر کے موقع پر سخت علیل اور جاں بلب تھیں حتی کہ اسی اثناء میں وصال فرماگئیں۔ان کی تیمار داری کے لئے حضرت عثمان کو حکم ہوا کہ گھر ہی رہو،تم کو غزوے میں شرکت کا ثواب بھی ملے گااور مالِ غنیمت سے حصہ بھی۔حضورِ اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جب بدر سے مدینۂ طیبہ واپس ہوئے تو وہ دفن بھی ہوچکی تھیں،فتح کی بشارت لے کر جب زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ مدینۂ طیبہ پہنچے تو دفنائی جارہی تھیں۔جس صبح کو ان کا وصال ہوا اسی دن حضورِ اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلممدینۂ طیبہ پہنچے۔(نزہۃ القاری،4/233)

(25) غزوۂ بدر کے دن رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا: اِنَّ عُثْمَانَ اِنْطَلَقَ فِيْ حَاجَةِ اللَّهِ وَحَاجَةِ رَسُولِ اللَّهِ وَاِنِّيْ اُبَايِعُ لَهٗ یعنی عثمان اللہ کے کام اور اس کے رسول کے کام کے لئے گئے ہیں،ان کی طرف سے میں بیعت کرتا ہوں۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مالِ غنیمت میں ان کے لئے حصہ مقرر فرمایا اور ان کے علاوہ کسی اور غیر حاضر شخص کا حصہ مقرر نہیں فرمایا۔ (ابوداؤد،3/98،حديث:2726)

شرح:یہ فرمانِ عالی بدر کی غنیمت تقسیم فرماتے وقت کا ہے۔خیال رہے کہ جنابِ رقیہ(رضی اللہ عنہا) کی تیمارداری حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت تھی مگر اس کو اﷲ رسول کا کام فرمایا گیا۔معلوم ہوا کہ حضور کی فرمانبرداری رب تعالی کی اطاعت ہے۔(اس موقع پر) حضور ِانور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا بایاں(Left) ہاتھ اٹھایا اور فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اپنے داہنے(Right) ہاتھ کو فرمایا کہ یہ ہمارا ہاتھ ہے اور خود ہی حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ) کی طرف سے بیعت کی۔ اس بیعتِ عثمان کا واقعہ دوبار ہوا:ایک تو غزوۂ بدر میں، دوسرے بیعتُ الرضوان میں مقامِ حدیبیہ میں، یہ ہے حضرت عثمان کی شان رضی اللہ عنہ۔

دستِ حبیبِ خدا جو کہ یَدُ اﷲ تھا

ہاتھ بنا آپ کا ،آپ وہ ذی شان ہیں

(مراٰۃ المناجیح،5/601)

(26) مَا زَوَّجْتُ عُثْمَانَ اُمَّ كُلْثُوْمٍ اِلَّا بِوَحْيٍ مِّنَ السَّماءِ یعنی میں نے عثمان کا ام کلثوم سے نکاح آسمان سے آنے والی وحی(یعنی اللہ پاک کے حکم)کی وجہ سے کیا ہے۔(معجم اوسط،4/77،حدیث:5269)

(27) يَا عُثْمَانُ هَذَا جِبْرِيلُ أَخْبَرَنِي أَنَّ اللَّهَ قَدْ زَوَّجَكَ أُمَّ كُلْثُومٍ بِمِثْلِ صَدَاقِ رُقَيَّةَ عَلَى مِثْلِ صُحْبَتِهَایعنی اے عثمان!یہ جبریل ہیں جنہوں نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ اللہ پاک نے تمہارا نکاح رقیہ کے مہر جتنے مہر پر امِ کلثوم سے فرمادیا ہے اور ان کے ساتھ بھی ویسا ہی حسنِ سلوک لازم ہوگا ۔(ابن ماجہ،1/79،حدیث:110)

شرح:ظاہر یہ ہے کہ خود اللہ پاک نے یہ نکاح فرمادیا جیسا کہ ازواجِ مطہرات کا معاملہ ہے ،مثلاً ام المؤمنین حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بارے میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: فَلَمَّا قَضٰى زَیْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنٰكَهَا ترجمۂ کنزالعرفان: پھر جب زید نے اس سے حاجت پوری کرلی تو ہم نے آپ کا اس کے ساتھ نکاح کردیا۔(پ22،احزاب:37،حاشیۃ سندی علی ابن ماجہ،1/79)

(28) حضرت سيدنا عثمانِ غنی رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی دوسری شہزادی(حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہا ) کو میرے نکاح میں دیتے وقت ارشاد فرمایا:لَوْ اَنَّ عِنْدِيْ عَشْرًا لَزَوَّجْتُكَهُنَّ وَاحِدَةً بَعْدَ وَاحِدَةٍ فَاِنِّيْ عَنْكَ لَرَا ض ٍ یعنی ا گر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے وہ سب تمہارے نکاح میں دے دیتا کیونکہ میں تم سے راضی ہوں۔ (معجم اوسط،4/322،حدیث:6116)

(29)حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں موجود رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہزادی(حضرت امِ کلثوم رضی اللہ عنہا)کے وصال کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے ارشاد فرمایا:زَوِّجُوْا عُثْمَانَ لَوْ كَانَ لِيْ ثَالِثَةٌ لَزَوَّجْتُهٗ وَ مَا زَوَّجْتُهٗ اِلَّا بِالْوَحْيِ مِنَ اللهِ عَزَّوَجَلَّ یعنی عثمان کا نکاح کرواؤ۔اگر میری کوئی تیسری (غیر شادی شدہ)بیٹی موجود ہوتی تو میں (اس سے)عثمان کا نکاح کروادیتا اور میں نے عثمان کا (اپنی 2 بیٹیوں سے)نکاح صرف اللہ پاک کے حکم سے کروایا تھا۔ (معجم کبیر،17/184،حدیث:490)

(30) ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے :(مجھے وہ وقت یاد ہے جب)اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی مبارک پیٹھ کے ساتھ مجھ سے ٹیک لگاکر تشریف فرماتھے اورحضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ حاضرِ خدمت تھے۔ جبریلِ امین علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن نازل کررہے تھے اور آپ حضرت عثمان سے ارشاد فرمارہے تھے: اُكْتُبْ يَا عُثَيْم یعنی اے عثمان! لکھو۔ اللہ پاک نے آپ کو یہ مقام و مرتبہ اس لئے عطا فرمایا کیونکہ آپ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یہاں عزت والے تھے۔(مسند احمد،10/101،حدیث:26190)

شرح :سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کو’’ يَا عُثَيْم ‘‘ کہہ کر پکارنا محبت اور شفقت کے طور پر تھا۔اس روایت سے بارگاہِ رسالت میں آپ کا مقام و مرتبہ ظاہر ہوتا ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ کاتِبینِ وحی میں سے ہیں۔(زرقانی علی المواہب،4/541)

(31) اَللّٰهُمَّ قَدْ رَضِيْتُ عَنْ عُثْمَانَ فَارْضَ عَنَهْ یعنی اے اللہ!میں عثمان سے راضی ہوں،تُو بھی اس سے راضی ہوجا۔(تاریخِ دمشق،39/53)

(32) الله كے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بار صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے ارشاد فرمایا: لِيَنْهَضْ كُلُّ رَجُلٍ مِّنْكُمْ اِلٰى كُفْوِهٖ یعنی تم میں سے ہر شخص اٹھ کر اپنے ہم پَلَّہ کے پاس چلا جائے۔یہ فرماکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور ا نہیں گلے لگاکر ارشاد فرمایا: اَنْتَ وَلِيِّيْ فِي الدُّنْيَاوَالْآخِرَةِ یعنی تم دنیا وآخرت میں میرےدوست ہو۔ (مستدرک،6/75، حديث:4586)

(33)اِنِّيْ سَاَلْتُ عُثْمَانَ حَاجَةً سِرًّا فَقَضَاهَا سِرًّا فَسَاَلْتُ اللهَ اَنْ لَّا يُحَاسِبَ عُثْمَانَ یعنی میں نے پوشیدہ طور پر عثمان سے ایک ضرورت کا ذکر کیا تو انہوں نے خفیہ طور پر اسے پورا کردیا ، اس پر میں نے اللہ پاک سے دعا فرمائی کہ وہ عثمان سے حساب و کتاب نہ لے۔ (مرقاۃ المفاتیح،10/432،الریاض النضرہ،2/31)

(34) يَا عُثْمَانُ اِنَّهٗ لَعَلَّ اللَّهَ يُقَمِّصُكَ قَمِيصًا فَاِنْ اَرَادُوْكَ عَلٰى خَلْعِهٖ

فَلَا تَخْلَعْهُ لَهُمْ یعنی اے عثمان! اللّٰہ پاک تمہیں ایک قمیص پہنائے گا، اگر لوگ تم سے وہ قمیص اُتارنا چاہیں تو تم ان کی وجہ سے اُسے مت اتارنا۔ (ترمذی،5/394،حدیث:3725)

شرح:یعنی اللّٰہ تعالٰی آپ کو خِلافت عطا فرمائے گا۔ لوگ تم کو معزول کرنا چاہیں گے، تم ان کے کہنے سے خلافت سے دَسْت بَرْدَار نہ ہونا کیونکہ تم حق پر ہوگے وہ باطل پر۔(مراٰۃ المناجیح،8/402)جب باغیوں نے حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے گھر کا محاصرہ کیا اور آپ سے خلافت سے دست برداری کا مطالبہ کیا تو اسی فرمانِ عالی شان کے پیشِ نظر آپ نے دست برداری سے انکار فرمادیا۔(مرقاۃ المفاتیح،10/442)

یعنی عثمان صاحبِ قمیصِ ہُدیٰ

حُلّہ پوشِ شہادت پہ لاکھوں سلام

(حدائقِ بخشش،ص312)

(35)سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرضِ وصال میں ارشاد فرمایا: وَدِدْتُ اَنَّ عِنْدِيْ بَعْضَ اَصْحَابِيْ یعنی میں چاہتا ہے کہ میرے صحابہ میں سے کوئی میرے پاس ہو۔حاضرین نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلانے کے بارے میں پوچھا تو آپ خاموش رہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے متعلق دریافت کیا تو بھی آپ نے سُکوت فرمایا۔تیسری بار عرض کی گئی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو آپ کے پاس بُلالائیں ۔ارشاد فرمایا:ہاں۔چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حاضرِ خدمت ہوکر خدمتِ اقدس میں تنہا بیٹھ گئے۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ گفتگو فرمائی جسے سن کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔جب(خلافت کے آخری دنوں میں) باغیوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے مکانِ عالیشان کا محاصرہ کرلیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا اور میں اس پر صبر کروں گا۔(ابن ماجہ،1 /80، حدیث:113)

شرح:یعنی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے) مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ اگر لوگ تمہیں خلافت سے دست بردار کرانے کی کوشش کریں تو ان کی بات مت ماننا یا پھر یہ وصیت فرمائی تھی کہ میں صبر کروں اور (محاصرہ کرنے والوں سے)لڑائی نہ کروں۔ (لمعات التنقیح،9/644)

(36) حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک فتنے کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے متعلق ارشاد فرمایا: يُقْتَلُ فِيهَا هَذَا مَظْلُومًا یعنی اس فتنے کے دوران انہیں مظلومیت کی حالت میں شہید کردیا جائے گا۔(ترمذی،5/395،حدیث:3728)

(37) حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:تم میرے بعد اختلاف اور فتنہ دیکھو گے۔ایک شخص نے عرض کی:یا رسول اللہ!آپ ہمیں اس وقت کیا کرنے کا حکم دیتے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:عَلَيْكُمْ بِالْاَمِيْرِ وَاَصْحَابِهٖیعنی (مسلمانوں کے)امیر اور ان کے رفقاء کو لازم پکڑ لینا۔(مشکوٰۃ المصابیح،2/426،حدیث:6082)

شرح: یعنی اس وقت حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ) خلیفۂ برحق ہوں گے، ان کے ساتھی حق پر ہوں گے۔ تم سب کو امان عثمان کے دامن میں ملے گی۔(مراٰۃ المناجیح، 8/408)

(38) حضرت سيدنا مُرَّہ بن کعب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ فتنوں کا ذکر فرمایا اور ان فتنوں کو بہت قریب بتایا ۔اتنے میں ایک صاحب چادر اوڑھے ہوئے وہاں سے گزرے۔سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:هٰذَا يَوْمَئِذٍ عَلَى الْهُدىٰیعنی اس دن یہ شخص ہدايت پر ہوگا۔میں نے اٹھ کر دیکھاتو وہ صاحب حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔میں نے ان کا چہرہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کرکے پوچھا:آپ ان کے بارے میں فرمارہے ہیں؟ ارشاد فرمایا:نَعَمْ یعنی ہاں۔ (ترمذی، 5/393، حديث:3724)

شرح :یہاں فتنوں سے مراد وہ جنگ و جِدال ہیں جو حضور ِ انور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے (وصالِ ظاہری کے)بعد مسلمانوں میں ہونے والے تھے۔(مراٰۃ المناجیح،8/401)

(39) سرکارِ دوعالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضراتِ ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کے ہمراہ اُحُد پہاڑ پر قدم رَنجہ فرمایا تو پہاڑ ہلنے لگا۔ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مبارک پاؤں سے ٹھوکر مار کر پہاڑ سے ارشاد فرمایا:اُثْبُتْ اُحُدُ فَاِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَ شَهِيدَانِ یعنی اےاُحُد!ساکن ہوجا!تجھ پرایک نبی،ایک صدیق اور دوشہید موجودہیں۔(بخاری،2/524،حدیث: 3675،ابوداؤد، 4/280، حدیث:4651 )

شرح: یہ حضرات یا تو احد پہاڑ اور وہاں پر شہداء کے مزارات کی زیارت کرنے تشریف لے گئے تھے یا ویسے ہی سیر و سیاحت کے لیے چڑھے تھے،پہاڑ خوشی میں وَجد کرنے اور ہلنے لگا کہ آج مجھ پر ایسے قدم آئے۔معلوم ہوا کہ اللہ کے مقبول بندے ولی ساری خَلْقَت کے محبوب ہوتے ہیں، ان کی تشریف آوری سے سب خوشیاں مناتے ہیں، انہیں پتھر اور پہاڑ بھی جانتے ہیں۔یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب کے انجام سے خبردار ہیں کہ فرمایا :ان میں سے دو صحابہ شہید ہو کر وفات پا جائیں گے۔ (مِراٰۃ المناجیح، ج8،ص408 )

امام ابنِ مُلَقِّن رحمة الله عليه فرماتے ہیں: اس حدیث سے ان حضرات کی فضیلت ظاہر ہے۔(التوضیح لشرح الجامع الصحیح،20/272)

شِہَابُ الْمِلَّۃِ وَ الدِّین اما م احمد بن محمد خَفَاجی مصری حنفی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں:اُحُد پہاڑ کا ہلنا یا تو اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہیبت اور اللہ پاک کے خوف کے سبب تھا یا پھر اتفاق سے ان حضرات کی تشریف آوری کے وقت زلزلہ آگیا تھا جس کی وجہ سے پہاڑ ہلنے لگا۔سرکارِ دوعالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہاڑ کو ساکن رہنے اور حرکت نہ کرنے کا حکم فرمایا ۔اللہ پاک نے پہاڑ میں سمجھ بوجھ اور زندگی پیدا فرمائی تھی کیونکہ پہاڑ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم سنا بھی اور اس کی تعمیل بھی کی۔(نسیم الریاض،4/36)

امام ابن حجر مکی ہیتمی شافعی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :اُحُد پہاڑ کا ہلنا فخر کی وجہ سے تھا (کہ مجھ پر کن عظیم ہستیوں کے قدم پڑے ہیں)۔(فتح الالہ،10/584)

ایک ٹھوکر میں اُحُد کا زَلزلہ جاتا رہا

رکھتی ہیں کتنا وقار اللہ اکبر ایڑیاں

(حدائقِ بخشش،ص87)

(40) رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک جنازہ لایا گیا لیکن آپ نے اس کی نمازِ جنازہ ادا نہیں فرمائی۔صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی :یا رسول اللہ!ہم نے اس سے پہلے نہیں دیکھا کہ آپ نے کسی کی نمازِ جنازہ ترک فرمائی ہو۔ ارشاد فرمایا:اِنَّهٗ كَانَ يُبْغِضُ عُثْمَانَ فَاَبْغَضَهُ اللَّهُ یعنی یہ شخص عثمانِ غنی سے دشمنی رکھتا تھا تو اللہ پاک بھی اس سے دشمنی رکھتا ہے۔ (ترمذی، 5/396، حدیث:3729)

شرح:حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میت پر نمازِ جنازہ ادا کرنا میت کےلئے دعا اور شفاعت پر مشتمل ہوتا ہے اور وہ شخص (اپنے اس گناہ کے باعث)اس سعادت سے محروم رہا،اللہ پاک کی پناہ۔اس حدیث شریف میں یہ ذکر نہیں ہے کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسروں کو بھی اس شخص کی نمازِ جنازہ پڑھنے سے منع فرمادیا،ممکن ہے کہ آپ نے خود اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھی ہو اور دوسرے حضرات نے پڑھ لی ہو جیسا کہ ایک مقروض شخص کے بارے میں منقول ہے۔(نسیم الریاض،4/525)

اللہ کریم’’اربعینِ عثمانی‘‘کو قبول فرمائے ، اسے مُؤَلِّف اور اس کے والدین و اہلِ خانہ کے لئے مغفرت کا سبب بنائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

رُک جائیں مرے کام حسنؔ ہو نہیں سکتا

فیضان مددگار ہے عثمانِ غنی کا

(ذوقِ نعت،ص81)


رسولِ کریم ﷺ کا مختصر اور مجمل  کلام فرمانا اور سامعین کا سوالات کرنا

معلم اعظم، جنابِ رسولِ اکرم ﷺ کی ذاتِ والا صفات سے بڑھ کر کائنات میں کوئی ایک بھی ایسی ہستی نہ گزری جس کے اندازِ تربیت و تفہیم انسانی فطرت کے کثیر تر پہلوؤں کو محیط ہوں، یہ آپ ﷺ کا امتیازی اور منفر د ترین وصف ہے، گزشتہ مضامین میں یہ بیان ہوا کہ آپ ﷺ کبھی اچھائی کا ایسا ذکر کرتے کہ سامعین متجسس ہو کر مزید کا سوال کرتے ، کبھی برائی کا ایسا ذکر کرتے کہ سامعین مزید وضاحت سننے کے لئے تیار ہوجاتے، اسی طرح ایک اندازِ تفہیم یہ بھی تھا کہ کوئی مختصر جامع لیکن مجمل کلام فرماتے جسے سنتے ہی سامعین الرٹ ہوجاتے اور مزید وضاحت کا مطالبہ کرتے جیسا کہ

حضرت سیّدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ الدِّينَ النَّصِيحَةُ إِنَّ الدِّينَ النَّصِيحَةُ إِنَّ الدِّينَ النَّصِيحَةُ

بے شک دین خیرخواہی ہے، بے شک دین خیر خواہی ہے، بے شک دین خیرخواہی ہے ہیں۔

یہ ایک ایسا کلام ہے کہ سننے والا مزید وضاحت چاہتا ہے، چنانچہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا :

لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟

یارسول اللہ !(دین ) کس کے لئے خیرخواہی ہے؟

تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

لِلَّهِ وَكِتَابِهِ وَرَسُولِهِ، وَأَئِمَّةِ الْمُؤْمِنِينَ، وَعَامَّتِهِمْ،

اللہ تعالیٰ ، اس کی کتاب، اس کے رسولﷺ،ائمہ مسلمین اور عام مسلمانوں کے لئے ۔

اس حدیث پاک کی شرح میں علمائے کرام فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ کے لیے خیرخواہی کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمام خوبیوں کا جامع ماننا ، تمام عیوب سے پاک ماننا، اللہ تعالیٰ کو معبود برحق اور شریک سے پاک ماننا ، اس کی اطاعت کرنا، اس کی نافرمانی سے اجتناب کرنا ،اس کا شکر ادا کرنا، اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت کرنا اور اس سےمحبت کرنا وغیرہ۔

کتابُ اللہ کے لیے خیرخواہی کا معنی یہ ہے کہ اس پر ایمان لانا یہ اعتقاد رکھنا کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ، کوئی اس کی مختصر ترین سورت کی مثل بھی نہیں لاسکتا ، اس کے احکام پر عمل کرنا ، اس کی تلاوت کرنا وغیرہ، یونہی اللہ تعالیٰ کی دیگر کتابوں پر بھی ایمان لانا کتابُ اللہ کے لیے نصیحت کے معنی میں شامل ہے ۔

رسول اللہ ﷺ کے لئے خیرخواہی کا معنی یہ ہے کہ اُن کی رسالت کی تصدیق کرنا ، جو کچھ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے لے کر آئے اس پر ایمان لانا، ان کی اطاعت کرنا، ان کی تعظیم وتوقیر کرنا ، ان کی سنت پر عمل کرنا اِس کی دعوت کو عام کرنا ، ان سے اور ان کے صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے محبت کرناوغیرہ،

ائمہ مسلمین کے لئے خیرخواہی کا معنی یہ ہے کہ اگر اس سے مراد حکام کو لیا جائے تو معنی ہوگا جو کچھ شریعت کے مطابق حکم کریں اس میں ان کی بات ماننا، ان کے خلاف بغاوت نہ کرنا ، ان کو حق کی تلقین کرنا وغیرہ۔اور علما ہوں تو اس کا معنی ہوگا کہ شرعی احکام میں ان کی اطاعت کرنا ان کی تعظیم وتکریم کرنا وغیرہ

اور عام مسلمانوں کے لیے خیرخواہی کا معنی یہ ہے کہ اُن کی دین ودنیا کے بھلائی کے کاموں میں رہنمائی کرنا ، اس کے لیے قول وفعل کے ذریعے ان کی مدد کرنا ، بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت کرنا وغیرہ۔

(جامع العلوم والحکم، ص106، 107، الفتح المبین،ص 253تا257، المعین علی تفہم الاربعین، ص226تا228،)

ایک خاص طبقہ کو مخاطب کرکے انجام بیان کرنا اور اس پر ہونے والے سوالات کا جواب دینا

ناصح و مصلح اور معلم و مربی کا سب سے بڑا وصف یہی ہوتا ہے کہ وہ گفتگو و نصیحت کے لئے ہمیشہ ایسا انداز اختیار کرتے جو سامع کو متوجہ و متنبہ کردے، پیارے رسولِ کریم ﷺ کائنات بھر کے معلمین و مصلحین کے لئے معلم اعظم ہیں، آپ ﷺ کا نصیحت و ہدایت دل میں اتاردینے والا ایک مبارک انداز یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ مخاطبین میں سے ایک طبقہ یا گروہ کو خاص کرکے انہیں کسی اچھے کا برے انجام کی خبر دیتے ، سننے والے فوراً متنبہ و متجسس ہو کر سوال کرتے ، جیسا کہ ایک موقع پر عورتوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا:

يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ، فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ

اے عَورَتو! صدقہ کیا کرو کیونکہ میں نے اکثر تم کو جہنَّمی دیکھا ہے۔

جب کسی مخاطب کو کسی برے انجام کا کہا جائے تو لازمی سی بات ہے کہ اسے تجسس ہوتاہے اور وہ وجہ جاننے کی کوشش کرتاہے، اسی طرح عورتوں نے بھی عرض کیا:

وَبِمَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟

یارسول اللہ!وہ کس سبب سے؟

ارشاد فرمایا:

تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ العَشِيرَ

اس لئے کہ تم لعنت بہت کرتی ہو اوراپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔(صحیح بخاری، کتاب الحیض، باب ترک الحائض الصوم، جلد1، صفحہ123، حدیث:304)


کسی  برے مقام یا بدلے کاذکر فرمانا اور لوگوں کا متجسس ہو کر سوال کرنا

معلم اعظم، نبی مکرم ﷺ کے جس اندازِ تکلم سے لوگ مزید طلب علم کی جستجو پاتے تھے اس کی ایک صورت یہ تھی کہ آپ ﷺ کسی بُرے انجام یا بدلے کا ذکر فرماتے تو لوگ اس انجام کی وجہ معلوم کرنے کے لئے تجسس میں سوال کرتے اور رسولِ کریم ﷺ جواب ارشاد فرماتے ہوئے تربیت فرماتےجیسا کہ

اللہ کے غضب کے شکار 4لوگ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أَرْبَعَةٌ يُصْبِحُونَ فِي غَضَبِ اللَّهِ، وَيُمْسُونَ فِي سَخَطِ اللَّهِ

چار لوگ ایسے ہیں کہ وہ صبح اللہ کے غضب میں کرتے ہیں اور شام اللہ کی ناراضگی میں۔

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:

مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟

یارسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟

تو رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

(1)عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مرد، (2)مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورتیں، (3)جانور کے ساتھ بدکاری کرنے والے اور (4)مردوں سے بدکاری کرنے والے(المعجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ محمد، جلد7، صفحہ63، حدیث:6858)

اللہ کی ناراضگی کے شکار 10افراد

حضور نبی رحمت، شفیع امت ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کے دس افراد ایسے ہیں جن سے اللہ عزوجل قیامت کے دن ناراض ہوگا اور ان کے بارے میں جہنم کا حکم فرمائے گا۔

عرض کیا گیا:

يا رسول الله، من هؤلاء؟

یا رسول اللہ !وہ کون ہیں؟

ارشاد فرمایا:

(1) أولهم الشيخ الزاني ان میں سے پہلا شخص بوڑھا زانی ہے ، (2)والإمام الجائر ظالم بادشاہ، (3)ومدمن الخمر شراب کا عادی، (4) ومانع الزكاة زکوٰۃ نہ دینے والا، (5)واكل الربا سود کھانے والا، (6)والذي يطلق ويمسك اپنی بیوی کو طلاق دے کر حرام طریقے سے اپنے پاس رکھنے والا، (7)والذي يحكم بالجور ظلم کا حکم دینے والا، (8)والماشي بالنميمة لوگوں کی چغل خوری کرنے والا، (9)وشاهد الزور جھوٹی گواہی دینے والا، (10) وتارك الصلاة نماز نہ پڑھنے والا اور () والذي ينظر لوالديه بعين الغضب اپنے والدین کو غصے سے دیکھنے والا۔(الزھر الفائح لابن یوسف الجزری، آفات الغفلۃ، صفحہ27)

وہ کم تَر درجہ میں ہوں گے

حضرت سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسولِ کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا، آپ ﷺ کعبہ معظمہ کے سایہ میں جلوہ گر تھے، جب آپ ﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا:

هُمُ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ

ربِّ کعبہ کی قسم! وہ لوگ بڑے خسارے میں ہیں ؟

محترم قارئین! غورکیجئے کہ ایک اہم ترین بات سامعین کے دلنشین کرنے کا کیسا انداز تھا ، اس انداز میں کیا کشش تھی خود جنابِ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے الفاظ ملاحظہ کیجئے ، چنانچہ فرماتے ہیں کہ

فَجِئْتُ حَتَّى جَلَسْتُ، فَلَمْ أَتَقَارَّ أَنْ قُمْتُ، فَقُلْتُ

میں حاضر ہوا اور بیٹھ گیا، لیکن میں ٹھہر نہ سکا پھر میں کھڑا ہوا اور بارگاہِ رسالت میں عرض کیا:

يَا رَسُولَ اللهِ، فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، مَنْ هُمْ؟

یارسول اللہ!میرے ماں باپ آپ پر قربان، وہ کون لوگ ہیں؟

تو رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:

هُمُ الْأَكْثَرُونَ أَمْوَالًا، إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا - مِنْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ - وَقَلِيلٌ مَا هُمْ

وہ لوگ جو کثیر مال والے ہیں (وہ قیامت کے دن کم تَر درجہ میں ہوں گے)، سوائے ان کے جنہوں نے اپنے آگے پیچھے، دائیں اور بائیں مال کے بارے میں ایسے اور ایسے اور ایسے کہا (یعنی راہِ خدا میں خرچ کرنے کا کہا) اور وہ بہت کم ہیں۔(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب تغلیظ عقوبۃ من لایؤدی الزکاۃ، صفحہ385، حدیث:2300)

تین افراد سے اللہ کلام نہ فرمائے گا

حضرت ابوذر غفاری ہی سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

تین افراد کے ساتھ قیامت کے دن اللہ کریم کلام نہ فرمائے گا نہ ہی ان کی طرف نظر فرمائے گا، نہ انہیں پاک فرمائے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا۔

رسولِ کریم ﷺ نے یہ تین بار ارشاد فرمایا

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:

خَابُوا وَخَسِرُوا، مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟

وہ خائب و خاسر ہوئے، یارسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟

ارشاد فرمایا:

الْمُسْبِلُ، وَالْمَنَّانُ، وَالْمُنفقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ

(تکبر سے ٹخنوں سے نیچے) کپڑا لٹکانے والا، دے کر احسان جتلانے والا اور اپنا سامان جھوٹی قسم کھا کر بیچنے والا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار۔۔الخ، صفحہ65، حدیث:293)


اللہ و الے کون ہیں؟

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ مکرم ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ لِلَّهِ أَهْلِينَ مِنَ النَّاسِ

لوگوں میں سے کچھ لوگ ”اللہ والے“ ہیں۔

کسی کے ”اللہ والا“ ہونے کا زبانِ رسالت سے مژدہ ملنا کوئی چھوٹی بات نہیں ہے، پیارے مصطفےٰ ﷺ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سننے کے بعد لوگوں نے سوال کیا:

مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟

یارسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟

تو ارشاد فرمایا:

أَهْلُ الْقُرْآنِ هُمْ أَهْلُ اللهِ، وَخَاصَّتُهُ

اہل قرآن(یعنی قرآن پاک حفظ كرنے والے ا وراس پر عمل کرنے والے) وہ لوگ ہیں جو اللہ والے ہیں اور وہ اللہ کے خاص بندے ہیں۔(مسند احمد، مسند المکثرین، مسند انس بن مالک، جلد19، صفحہ305، حدیث:12292،النہایۃ لابن اثیر،جلد1، صفحہ83)

الله كے محبوب چار لوگ

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ اللهَ يُحِبُّ مِنْ أَصْحَابِي أَرْبَعَةً أَخْبَرَنِي أَنَّهُ يُحِبُّهُمْ، وَأَمَرَنِي أَنْ أُحِبَّهُمْ

اللہ کریم میرے صحابہ میں سے چار سے محبت فرماتاہے ، اس نے خبر دی ہے کہ وہ ان سے محبت رکھتا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں بھی ان سے محبت رکھوں۔

قارئین کرام! یوں تو رسول کریم ﷺ کے سبھی صحابہ کرام اللہ رب العزّت کے محبوب بندے ہیں جبھی تو قراٰن کریم میں بھی ان کے لئے” و کلا و عداللہ الحسنیٰ“ ارشاد فرمایا ہے۔ البتہ بعض خاص مواقع پر بعض صحابہ کے لئے خصوصی فرمان بھی جاری ہوئے ہیں، جیسا کہ بی بی خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو اللہ کریم نے سلام بھیجا، بی بی عائشہ کی طہارت پر آیات نازل فرمائیں، جناب ابوبکر کو صدیق و عتیق کا لقب دیا وغیرہ۔

بہر حال جب رسولِ کریم ﷺ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا تو صحابہ کرام نے عرض کیا:

مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟

یارسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟

تو ارشاد فرمایا:

إِنَّ عَلِيًّا مِنْهُمْ، وَأَبُو ذَرٍّ الْغِفَارِيُّ، وَسَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ، وَالْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ الْكِنْدِيُّ

علی انہی میں سے ہیں اور(بقیہ تین) ابوذرغفاری اور سلمان فارسی اور مقداد بن اسود الکندی ہیں۔(مسند احمد، تتمہ مسند الانصار، حدیث بریدہ اسلمی، جلد38، صفحہ68)

70ہزار امتی بلاحساب داخل جنت

ایک موقع پر رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُونَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ

میری امت میں سے 70ہزار لوگ بلاحساب جنت میں داخل ہوں گے۔

قارئین کرام! قیامت کے دن دونوں جہاں کا خالق و مالک دنیا میں کئے گئےسبھی اعمال کا حساب لے گا، وہ ایسا دن ہوگا کہ انبیائے کرام علیہم السلام بھی ربّ کریم کا جلال اور خوف اپنے دلوں پر محسوس کر رہے ہوں گے حالانکہ انبیائے کرام یقینی و حتمی طور پر جانتے ہیں کہ وہ قطعی جنتی ہیں، قیامت کی دن کی یہ کیفیت جاننے والے ہر شخص کے ذہن میں ضرور آتا ہے کہ پتا تو چلے آخر وہ کون ہیں جنہیں بلاحساب داخل جنت کیا جائے گا! رسولِ کریم ﷺ کے اس مبارک فرمان نے سامعین کو متوجہ کردیا تو انہوں نے سوال کیا:

مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللهِ؟

یارسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟

تو ارشاد فرمایا:

هُمُ الَّذِينَ لَا يَسْتَرْقُونَ، وَلَا يَكْتَوُونَ، وَلَا يَتَطَيَّرُونَ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ۔

وه لوگ جو منتر جنتر نہیں کرتے اور نہ داغتے ہیں اور نہ بدشگونی لیتے ہیں اور اپنے رب تعالیٰ پر توکل و بھروسا رکھتے ہیں۔(صحیح مسلم،کتاب الایمان، صفحہ112، حدیث:525)

شرح بخاری امام قسطلانی میں ہے کہ اس حدیث پاک میں منتر نہ کرنے سے مراد وہ دم وغیرہ ہے جس میں کفریہ یا شرکیہ الفاظ ہوں اور داغنے سے مراد علاج کرتے ہوئے صرف اسی علاج پر بھروسا کرنا اور اللہ پر توکل نہ کرنا ہے۔(ارشادالساری، کتاب الطب، باب من لم یرق، جلد8، صفحہ 396)

اللہ کی خاطر محبت رکھنے والے

رسولِ اکرم نے فرمایا:

إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ لَأُنَاسًا مَا هُمْ بِأَنْبِيَاءَ، وَلَا شُهَدَاءَ يَغْبِطُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ وَالشُّهَدَاءُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، بِمَكَانِهِمْ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى

اللہ کے بندوں میں سے کچھ بندے ایسے ہیں جو نہ تو انبیاء ہیں اور نہ ہی شہداء، بلکہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک ان کا مقام دیکھ کر انبیاء وشہدا ء بھی ان پر رشک کریں گے۔

رسولِ کریم ﷺ کے اس فرمان مبارک میں بات ہی ایسی تھی کہ سامعین کو شوق پیدا ہوتا ہے اور وہ ان خوش نصیبوں کے بارے میں جاننے کا تجسس رکھتے ہیں ، چنانچہ صحابہ کرام نے عرض کیا:

يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُخْبِرُنَا مَنْ هُمْ

یارسول اللہ! ہمیں خبردیجئے کہ وہ کون لوگ ہوں گے؟

پیارے مصطفےٰ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

هُمْ قَوْمٌ تَحَابُّوا بِرُوحِ اللَّهِ عَلَى غَيْرِ أَرْحَامٍ بَيْنَهُمْ، وَلَا أَمْوَالٍ يَتَعَاطَوْنَهَا، فَوَاللَّهِ إِنَّ وُجُوهَهُمْ لَنُورٌ، وَإِنَّهُمْ عَلَى نُورٍ لَا يَخَافُونَ إِذَا خَافَ النَّاسُ، وَلَا يَحْزَنُونَ إِذَا حَزِنَ النَّاسُ

یہ وہ لوگ ہيں جو رشتہ داری یا مال کے لین دین کے سبب نہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے لئے دوسروں سے محبت رکھتے ہیں، اللہ کی قسم!ان کے چہرے نور کے ہوں گے، وہ ایسے نور پر ہوں گے کہ جب لوگ خوفزدہ ہوں گے تو انہیں کوئی خوف نہ ہو گا اور جب لوگ غمزدہ ہوں گے تو انہیں کچھ غم نہ ہوگا۔(سنن ابوداؤد، ابواب الاجارۃ، باب فی الرہن، جلد3، صفحہ402، حدیث:3527)


اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ70سے زائد علوم وفنون میں مہارت رکھتے تھے۔بہت ساری کتب علوم حدیث آپ کے زیر مطالعہ رہی تھیں ۔حدیث کی تخریج،صحت،ضعف اور وضع پر گہری نظرتھی اور آپ کے سامنے علوم حدیث کی بے شمار جہتیں تھیں۔ان ہی جہتوں میں سےحدیث کی تخریج اور اس کے اصول بھی ہیں۔ حدیث کی تخریج فن علم حدیث کا ایک اہم ترین حصہ ہےاور ہم محدثین کرام کی بڑی تعداد کو اس فن کا اہتمام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔منقول ہے کہ امام ابوعبداللہحاکم (وفات405ہجری)،امام ابونعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی (وفات 430ہجری)،امام احمد بن حسین بیہقی(وفات458ہجری)،خطیب بغدادی (وفات 463 ہجری) رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْاس فن تخریج میں پیش رو تھے۔

امام ابن حجر عسقلانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ(وفات852ہجری)کی کتاب ”تلخيص الحبير فی احاديث الرافعي الكبير“ اور امام جمال الدین زیلعی(وفات762ہجری) رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی کتاب ”نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ“فن تخریج کی دو اہم اور بڑی کتابیں ہیں۔”اصول فن تخریج“ کی بات کریں تو اس فن کے موجد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہقرار پاتے ہیں۔اسی بات کو استاذ جامعۃ الکرم برطانیہ علامہ ابو المحاسن محمد نوید جمیل القادری نے”امام احمد رضا کی خدمات علوم حدیث کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ “کے پیش لفظ میں بیان کیا ہے۔یہ صرف دعویٰ ہی نہیں بلکہ اس پردلائل بھی موجود ہیں۔

فن اصول تخریج کے موجد:

فن اصولِ تخریج میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی کتاب ”الروض البہیج فی آداب التخریج “ایک منفرد اور بے نظیر کتاب ہے۔مولوی رحمن علی خلیفہ حاجی امداداللہ مہاجر مکی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ”تذکرۂ علمائے ہند“ میں جب امام احمد رضا علیہ الرحمہ کی اس کتاب کا ذکر کیا تو ان الفاظ سے کیا:”اگر پیش ازیں کتابے درین فن نافتہ شود پس مصنف را موجد تصینف ہذا می تواں گفت“ترجمہ: اگر اس سے پہلےاس فن میں کسی نے کتاب نہ لکھی ہوتو مصنف (اعلیٰ حضرت)کو اس فن کا موجد کہا جاسکتا ہے۔(تذکرۂ علمائےہند،ص17،امام احمد رضا خان کی خدمات علوم حدیث کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ،پیش لفظ،ص14)بعد والوں میں فن اصول تخریج کے حوالے سے نمایاں طور پر دو شخصیتوں کانام اور ان کی کتابوں کا ذکر آتا ہے:

(1) علامہ شیخ سید احمد بن محمد حسنی ادریسی غمازی مغربی اور ان کی کتاب ”حصول التفریج باصول التخریج“ ہے اور(2)ڈاکٹر محمود طحان اور ان کی کتاب”اصول التخریج ودراسات الاسانید“

یہ دونوں حضرات اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے بعد کےہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں حضرات اپنی اپنی کتاب کو فن اصول تخریج میں پہلی کتاب گردانتے ہیں اور خود کو اس فن کا موجد قرار دیتے ہیں۔اسی بات کومحقق علامہ ابو المحاسن محمد نوید جمیل القادری بیان کرکے لکھتے ہیں:دونوں حضرات کے تصور میں یہ دعویٰ خالی از دلیل نہیں بلکہ استقصاءِ تام،تلاش وجستجو،تفتیش کے بعد بحث وفحص سے بھی اس فن اصول تخریج کےلئے کتاب تو کُجا کسی کتاب کا نام تک نہیں ملتا۔سید غمازی صاحب کی عبارت میں تو اس فن کے اصول کے اشارات تک نہ ملنے کی تحقیق ہے۔اب دونوں حضرات کی عبارات ملاحظہ فرمایئے:

ڈاکٹر محمود طحان کی عبارت:

رہی بات”اصول تخریج“کی تو میرے علم میں نہیں ہےکہ کسی شخص نے ان ابحاث کا ذکر کیا ہویا اس فن میں کوئی تصنیف موجود ہو، نہ زمانہ قدیم میں اور نہ ہی زمانہ حال میں ۔( اصول التخریج ودراسات الاسانید،صفحہ5)

سید غمازی کی عبارت:

اس فن اصول تخریج کی اصل اور بنیادوں کو کوئی شخص نہیں پہنچا اور نہ کوئی اس طرف متنبہ ہوا کہ اس فن میں کچھ تالیف کرے اور اس کی فصلوں کو ترتیب دے۔میرے علم میں نہیں کسی نے اس فن میں کوئی مستقل تصنیف کی ہواور نہ مجھے کسی ایسے شخص کے بارے میں علم ہے جس نے اس فن کے اصول کو علیحدہ سے جمع کیا ہوبلکہ اس کے قواعد کی طرف اشارہ بھی نہیں ملتا۔( حصول التفریج باصول التخریج ،صفحہ11)(امام احمد رضا خان کی خدمات علوم حدیث کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ،پیش لفظ،ص15تا16 مع تصرف)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ ہی اس فن اصول تخریج کے موجد ہیں کیونکہ آپ کی تصنیف ”الروض البہیج فی آداب التخریج “ان دونوں حضرات کی تصانیف سے پہلے کی ہے۔

فن اصول تخریج میں مہارت:

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی فن اصول تخریج سے واقفیت اور مہارت کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ علامہ ابن عابدین شامی (وفات 1252ہجری)علیہ الرحمہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب”رد المحتار “ کے باب الاذان میں ایک حدیث پاک ذکر فرمائی اور اس کے بعد فرمایا:قَدْ اَخْرَجَ السُّيُوطِيیعنی اس حدیث پاک کی تخریج امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے فرمائی۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے اس پر تنبیہ کرتے ہوئے ”جد الممتار علی رد المحتار“ میں فرمایا:لفظ ” اَخْرَجَ“غیرمحل میں ہےکیونکہ یہ محدثین کے ہاں روایت کے معنیٰ میں ہے جس کے ساتھ سند ہوتی ہے۔یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ سند کے ساتھ روایت ذکر نہیں کرتے لہٰذااولیٰ یہی تھا کہ علامہ شامی علیہ الرحمہ” اَخْرَجَ“کی جگہ ”نَقَلَ“یا ”ذَکَرَ“یا ”اَوْرَدَ“یا اس سے ملتے جلتے الفاظ ذکر کرتے۔(جد الممتار،جلد3،ص72مکتبۃ المدینہ)

تخریج اور فن اصول تخریج سے آگاہی رکھنے والے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کتابوں اور ان کے مصنفین اور مؤلفین کے بارے میں آگاہی رکھےتاکہ حوالہ دینے میں غلطی نہ کربیٹھے۔اس میدان میں بھی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ اپنی مثال آپ تھے۔چنانچہ امام طحطاوی علیہ الرحمہ نے درمختار کے حاشیہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی ایک روایت نقل کرتے ہوئے فرمایاکہ بزار اور طیالسی نے بھی اسے روایت کیا اور طبرانی نے بھی حلیۃ الاولیاء میں حضرت ابن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے ذکر میں اسے بیان کیا،یہ بات المقاصد الحسنہ میں ہے۔اس حاشیہ پر اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:علامہ شامی علیہ الرحمہ نے بھی (رد المحتارمیں )اسی طرح” المقاصد الحسنہ“کے حوالے سے بلاتبصرہ نقل فرمایا حالانکہ حلیۃ الاولیاء حافظ ابو نعیم کی تصنیف ہے ،حافظ ابو قاسم سلیمان طبرانی اس کے مؤلف نہیں ہیں۔ (تعلیقات رضا،ص162کرماں والا بک شاپ لاہور)

حوالہ جات کے رموز اوراشارات سے واقفیت:

تخریج اور فن اصول تخریج جاننے والے کو عبارت کے حوالے کے لئے استعمال ہونے والے رموزاور اشارات سے واقف ہونا بہت اہم اور ضروری ہے۔اس حوالے سے بھی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ بے مثال ہیں۔صاحب قنیہ ایک مسئلہ ذکر کرتے ہوئے ”کص“،”مت“ اور ”قع“کے حوالے دیتے ہیں۔اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ان رموز کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”کص“سے مراد رکن الائمہ صباغی ہیں، ”مت“سے مراد مجد الائمہ ترجمانی ہیں اور ”قع“ سے مراد قاضی عبد الجبار ہیں۔(جد الممتار،جلد3، ص53 مکتبۃ المدینہ)

مدارج کتب سے واقفیت:

فنِ اصول تخریج سے واقفیت رکھنے والے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مدارج کتب کو جانتا ہو یعنی یہ جانتا ہو کہ فلاں کتاب کس درجہ کی ہے اور اس کا کیا مرتبہ ہے۔کتب فقہ میں ہے تو کیا وہ متن ہے ،شرح ہے یا فتاوی میں سے ہے اور کتب حدیث میں سے ہے تو کیا وہ صحاح میں سے یا سنن میں سے یا پھر مسانید وغیرہ میں سے ہے۔ان میں سے پہلے کسے فوقیت حاصل ہےاور پھر کسے۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اس حوالے سے بھی اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں چنانچہ آپ خودفرماتے ہیں:میرے نزدیک فقہ میں (کُتبِ)متون،شرح اور فتاوی کا حال وہی ہے جو حدیث میں (کُتبِ)صحاح ،سنن اور مسانید کا حال ہے۔(فتاوی رضویہ،4/208تا211)یعنی جس طرح کتب احادیث میں پہلا درجہ صحاح پھر سنن کا اور پھر مسانید کا ہے یونہی کتب فقہ میں پہلا درجہ کُتبِ متون پھر کُتب شروح اور پھر کتب فتاوی کا ہے۔اسی مقام پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے متون ،شروح اور فتاوی کی بہت سی کتابیں گنوائی یوں ہی صحاح ،سنن اور مسانید کی بہت سی کتابوں کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ساتھ یہ بھی بیان فرمایا کہ کون سی کتب متون شامل ہیں اور کون سی نہیں،کن کتب کا درجہ شرح کا ہے اور کن کا فتاوی کا۔کون سی کتب ضعیف ہیں اور کون سی مستند ، صحاح میں کون سی کتب شامل ہیں اور کون سی نہیں اور اسی طریقے سے کتب سنن اور مسانید کا تذکرہ فرمایا ۔اتنا کچھ ذکر کرنے کے بعد بھی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:اس سے متعلق پوری بحث کا جسے شوق ہو وہ میرا رسالہ ”مدارج طبقات الحدیث“ملاحظہ کرے۔ (فتاوی رضویہ، 4/208)


لغت میں حاشیہ سے مراد وہ شرح یا یادداشت  ہے جو کسی کتاب کے متن سے باہر لکھی جائے۔آزاد دائرہ معارف میں ہے:”حاشیہ متن میں موجود کسی لفظ یا الفاظ کے معنیٰ،ترجمے،مختصر تشریح اور وضاحت کو کہتے ہیں۔“ درحقیقت حاشیہ سے مراد وہ افکار ہیں جنہیں مؤلف،مصنف یا محقق متن سے علیحدہ صفحے کی ایک طرف تحریر کرتا ہے۔اسےہامش ، تعلیق اور انگریزی میں فٹ نوٹ(Footnote) سے تعبیر کرتے ہیں۔ حاشیہ کا مقصد مشکل اور پیچیدہ امور کی تشریح کرنا، کسی نظریہ ،سوچ اور عقیدے کی وضاحت اور اس کی مزید تفصیل بیان کرنا،کسی آیت قرآنی یا حدیث نبوی کی تخریج کرنا،کسی شخصیت ،جگہ اورفن کا تعارف کروانا،کسی رائے کی تحقیق یا کسی رائے پر تبصرہ کرناوغیرہ ہے۔

حاشیہ نگاری کی ابتدا:

علامہ شمس بریلوی علیہ الرحمہ حاشیہ نگاری کی ابتدا کے متعلق لکھتے ہیں:تلاش سے پتا چلتا ہے کہ حاشیہ نگاری کا آغاز ساتویں صدی ہجری میں ہوااور سب سے پہلے محشی یا حاشیہ نگار نجم العلما علی بن محمد بن احمد بن علی ہیں۔آپ نے ہدایہ کے مشکل مقامات پر فوائد کے نام سے حاشیہ لکھا ہے۔آپ نے 667ہجری میں وفات پائی۔اس لئے حاشیہ نگاری کی ابتدا ہم ساتویں صدی ہجری کو قرار دے سکتے ہیں۔(امام احمد رضا کی حاشیہ نگاری،جلد دوم،ص27)

حاشیہ نگاری کی اہمیت وضروت:

محشی اپنے نقطہ نظر سے جس جملہ،کلمہ یا جس لفظ کی تشریح اورتوضیح ضروری خیال کرتا ہے اس کو حاشیہ کے لئے منتخب کرتا ہے۔کہیں کسی معنیٰ کی وضاحت مقصود ہوتی ہے،کہیں توضیح کے بجائے وہ مصنف یا مؤلف سے اختلاف کرتا ہےاور اس اختلا ف کو وہ مصنف کے معاصرین،دیگر مصنفین،مصنف کے پیشواؤں کے بیان کے حوالوں سے مستدل کرتا ہے۔کبھی اختلاف پردلیل پیش کرتا ہے اور ان تمام چیزوں سے قاری کے ذہن میں بہت سی مفید معلومات آتی ہیں ۔اشکالات اور اعتراضات دفع ہوتے ہیں،مزید شرح اور وضاحت حاصل ہوتی ہے،کتاب کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔کبھی مصنف یا مؤلف کوئی نکتہ بیان کرتا ہےجسے سمجھنا قاری کے لئے مشکل ہوتا ہے محشی اس کی وضاحت کرکے قاری کے لئے آسانی پیدا کرتا ہے۔کبھی محشی اجمال کی تفصیل اور کسی بات پر تنبیہ کرتاہے۔کبھی مصنف کوئی ایک صورت بیان کرتا ہےتو محشی اس کی دیگر صورتیں بیان کرکے قاری کو اس بارے میں مکمل آگاہی دیتا ہے۔کبھی مصنف کوئی ایسی بات بیان کرتا ہے جس سے عقیدے پر ضرب پڑ رہی ہوتی ہےیا کوئی بدمذہب اسے دلیل بنا سکتا ہے محشی وہاں عقیدہ اہل سنت کی وضاحت کرتا ہےاور ہونے والے اعتراض کو رفع کرتا ہے۔

حاشیہ کے اندراج کے طریقے:

آج کل حواشی کے اندراج کے لئے عام طور پر تین طریقے استعمال کیے جاتے ہیں:

پہلا طریقہ:ہر صفحے کے حواشی اسی صفحے پرنچلے حصے میں درج کئے جاتے ہیں۔ایک صفحے پر جتنے حواشی ہوتے ہیں ان کے نمبرلگادیئے جاتے ہے مثلاً ایک صفحے پر چھ حواشی ہوں تو ایک سے لے کر چھ تک نمبرلگادیئے جاتے ہے اور یہ حواشی اسی صفحہ سے شروع ہو کر اسی صفحہ پر ختم ہو جاتے ہیں یاکبھی اس سے اگلے ایک دو صفحات تک بھی چلے جاتے ہیں۔

دوسرا طریقہ:ہرکتاب،باب یا فصل کےلئے مسلسل نمبر لگائے جاتے ہیں اور کتاب ،باب یا فصل کےاختتام پر تمام حواشی اکھٹے درج کئے جاتے ہیں۔

تیسرا طریقہ:پوری کتاب کے حواشی کے لئے مسلسل نمبر لگائے جاتے ہیں اور کتاب کے آخر میں سارے حواشی اکھٹے کردیئے جاتے ہیں۔

حاشیہ میں درج ہونے والے امور:

محققین اور اہل علم حضرات حاشیہ میں جن امور کا ذکر کرتے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

1۔قرآنی آیات کے حوالے،شان نزول اور تفسیربیان کرنا۔2۔احادیث،آثار صحابہ ،تابعین ،تبع تابعین وغیرہ بزرگان ِ دین کے اقوال کی تخریج اور ان میں وارد ہونے والے مشکل الفاظ کی وضاحت اوراصول حدیث کی روشنی میں روایت کی فنی حیثیت کو بیان کرنا۔3۔ شخصیات کا تعارف خواہ معروف ہوں یا غیر معروف۔ 4۔ممالک، شہروں، قصبوں اور مقامات کا تعارف۔5۔حادثات،واقعات اور ادوار کو بیان کرنا۔6۔اشعار کی وضاحت،شعروں کےاوزان اور بحور کو بیان کرنا،شعرا کے نام اور قصائد کا پس منظر لکھنا۔7۔ضرب الامثال اور محاوروں کی وضاحت کرنا۔8۔عبارات ، اقتباسات ،روایات کی تحقیق کرکے اصل مصادر کی جانب راہنمائی کرنا۔9۔متن کتاب میں ذکر کردہ مسائل کے دلائل، ان کی وضاحت اور شرح کےلئے مثالیں دینا۔10۔مصنف یا مؤلف کی رائے سے اختلاف کرنا اور اس پر دلائل دینا۔11۔کسی غلطی کی نشان دہی اور درست بات کو ذکر کرنا۔

12۔کتاب کے نسخوں میں اختلاف ہو تو اسے بیان کرنا اور درست کی نشان دہی کرنا۔13۔مشکل الفاط کے معانی بیان کرنا۔14۔کسی عبارت اور اقتباس کا ترجمہ کرنا۔15۔کسی مذہب یا عقیدے کی وضاحت کرنا۔16۔متن کی عبارت کے ربط کو بیان کرنا۔17۔مصنف یا مؤلف نے جس بات کی طرف اشارہ کیا ہےاس کی وضاحت وصراحت کرنا۔18۔مصنف یا مؤلف نے کسی کتاب کا حوالہ دیا ہےاس کتاب کا تعارف بیان کرنا۔19۔کسی کتاب کے مستند یا غیر مستند ہونے کو بیان کرنا۔20۔کسی بات کا خلاصہ یا اختصار کرنا۔

حاشیہ،تعلیق اور شرح میں فرق:

شرح میں متن(Text) کے اکثر مقامات کی وضاحت ہوتی ہے۔حاشیہ میں ان ہی مقامات کو زیر غور لایاجاتا ہے جہاں حواشی کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے ہر لفظ یا مقام کی وضاحت نہیں کی جاتی۔اسی لیے کہا جاتا ہے:” اَلْحَاشِیَۃُ مَاتُوْضِحُ الْمَتَنَ بَعْضَہُ یعنی حاشیہ اُسے کہتے ہیں جو متن کے بعض حصے کی توضیح کرے۔“حواشی اگر کم ہوں تو اسے تعلیق سے بھی تعبیر کرتے ہیں اور کبھی حواشی کو بھی تعلیقات کہہ دیتے ہیں۔علامہ شمس بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:کسی کتاب کی شرح وہ کسی متن سے متعلق ہوتو توضیح ومطالب اورتصریح کے لئے اصل متن سے زیادہ ضخامت اور حجم کی خواہاں ہوتی ہے۔شرح اور تعلیق کا خاص فرق یہ ہے کہ شرح میں متن کی کسی سطر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاتا تمام وکمال متن کی تصریح وتوضیح کی جاتی ہے اور تعلیقات میں یہ ضروری نہیں۔تعلیقات نگار متن کے جس جزو کی چاہتا ہے تعلیقات کے ذریعے وضاحت کرتا ہے اس پر یہ پابندی نہیں کہ شرح کی طرح تمام متن کی وضاحت کرے۔تعلیقات نگار متن کے جس قدر حصہ پر چاہتا ہے تعلیقات لکھتا ہے۔حاشیہ اگرچہ شرح کی طرح لازمہ ہر سطر نہیں ہوتا لیکن شرح سے زیادہ دقت نظر کا طالب وخواہاں ہے۔محشی اپنے نقطہ نظر سے جس جملہ،جس کلمہ یا جس لفظ کو تصریح وتوضیح کےلئے ضروری خیال کرتا ہے اس کو حاشیہ کے لئے منتخب کرتا ہے۔(امام احمد رضا کی حاشیہ نگاری،ص34تا39ملخصاً)

از:محمد گل فراز مدنی (اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)


کسی  عمل یا اجر کا مجمل ذکر کرنا اور سامعین کا شوق و تجسس سے سوال کرنا

سامع کے ذہن میں بات کو بٹھا دینے کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ کسی عمل یا کسی فائدہ کا مجمل ذکر کیا جائے، یہ انداز بھی رسولِ کریم ﷺ کی مبارک سیرت کے مطالعہ سے ملتا ہے ، آپ ﷺ کئی مواقع پر کسی عمل یا کسی اجر کا مجمل ذکر فرماتے جس سے سامعین کو شوق پیدا ہوتا کہ اس عمل کے بارے میں جانا جائے یوں وہ خوب متوجہ ہوجاتے ، چنانچہ

جنت کی کیاریاں

ایک مرتبہ رسولِ معلم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِذَا مَرَرْتُمْ بِرِيَاضِ الجَنَّةِ فَارْتَعُوا

جب تمہارا گزر جنت کی کیاریوں پرسے ہوتو اس میں سے کچھ چُن لیا کرو۔

حریصِ علم مصطفےٰ جناب ابوہریرہ نے عرض کیا:یارسول اللہ!

وَمَا رِيَاضُ الجَنَّةِ؟

جنت کی کیاریاں کیا ہیں؟

ارشاد فرمایا: مساجد

مزید عرض کیا:

وَمَا الرَّتْعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟

یارسول اللہ!ان میں سے چننا کیا ہے؟

تو ارشاد فرمایا:

یہ کہنا:سُبْحَانَ اللَّهِ وَالحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ

(سنن ترمذی، کتاب الدعوات، جلد5، صفحہ304، حدیث:3520)

ایک درہم کا لاکھ سے تقابل

اسی طرح ایک موقع پر مجلسِ اصحاب میں ارشاد فرمایا:

سَبَقَ دِرْهَمٌ مِائَةَ أَلْفٍ

ایک درہم ایک لاکھ پر سبقت لے گیا

ایک اور لاکھ میں بہت فرق ہے، یہ ایسا جملہ ہے کہ ہر سننے والا متجسس ہوجاتاہے کہ ایسے کیسے ہوسکتاہے! چنانچہ صحابہ کرام نے بھی پیارے نبی ﷺ کے اس فرمان پر عرض کیا: یارسول اللہ! وہ کیسے؟

معلمِ اعظم جنابِ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

رَجُلٌ لَهُ دِرْهَمَانِ فَأَخَذَ أَحَدَهُمَا فَتَصَدَّقَ بِهِ، وَرَجُلٌ لَهُ مَالٌ كَثِيرٌ فَأَخَذَ مِنْ عُرْضِ مَالِهِ مِائَةَ أَلْفٍ، فَتَصَدَّقَ بِهَا

ایک آدمی جس کے پاس دو درہم ہیں اس نے ان میں سے ایک صدقہ کردیا اور ایک آدمی جس کے پاس کثیر مال ہے اس نے اپنے مال میں سے ایک لاکھ صدقہ دیے۔(سنن الکبری للنسائی، کتاب الزکاۃ، جلد2، صفحہ32، حدیث:2307)

قارئین کرام! واقعی بہت قابلِ غور بات ہے کہ ایک شخص کی کل ملکیت ہی دو درہم ہیں اس نے جب ایک درہم راہِ خدا میں دیا تو گویا اس نے اپنی آدھی دولت راہِ خدا میں دے دی، اور جس کے پاس کثیر دولت ہے اس نے ایک لاکھ درہم راہِ خدا میں دیا اگرچہ بظاہر یہ ایک لاکھ ہے لیکن اس کی دولت کے اعتبار سے تو کچھ حصہ بنتاہے۔ اس فرمانِ عظیم میں تربیت و تفہیم کے دو نکات یہ بھی ملے کہ (1)غربا کو انفاق فی سبیل اللہ پر حوصلہ افزائی فرمائی گئی اور (2)کسی کے پاس مال کم ہو یا زیادہ،بہرصورت انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب ہے۔

کسی اچھے مقام یا بدلے کاذکر فرمانا جس سے لوگ متجسس ہو کر سوال کرتے

کسی اجر، انعام یا اچھے مقام و رتبہ کا ذکر کرنا اور یہ نہ بتانا کہ یہ کس کے لئےہے تو سامعین کو ایک تجسس ہوتاہے کہ آخر یہ کس کے لئے ہوگا؟ یہ بھی ایک تربیت و تفہیم کا انداز ہے جو کہ سیرتِ نبی کریم ﷺ سے ہمیں معلوم ہوتاہے چنانچہ

جنتی محل

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ فِي الْجَنَّةِ غُرَفًا تُرَى ظُهُورُهَا مِنْ بُطُونِهَا، وَبُطُونُهَا مِنْ ظُهُورِهَا

بے شک جنت میں ایک مکان ہے جس کے اندر سے اس کا باہر نظر آتاہے اور اس کے باہر سے اس کا اندر نظر آتاہے۔

ایک اعرابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا:

لِمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟

یارسول اللہ! وہ کس کے لئے ہے؟

معلم اعظم جنابِ رسول مکرم ﷺ نے فرمایا:

هِيَ لِمَنْ قَالَ طَيِّبَ الْكَلَامِ، وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ، وَأَفْشَى السَّلَامَ، وَصَلَّى بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ

وہ اس کے لئے ہے جو ستھری بات کہے، کھانا کھلائے، سلام عام کرے اور رات میں جب لوگ سوجاتے ہیں وہ نماز (نفل) ادا کرے۔(مصنف ابن ابی شیبۃ، کتاب الادب، باب ماقالوا فی افشاء السلام، جلد13، صفحہ193، حدیث:26257)

(بقیہ اگلی قسط میں)


134خلفائے اعلیٰ حضرت

Wed, 9 Jun , 2021
2 years ago

عالمِ اسلام کی عبقری اور نابغۂ روزگار شخصیت امام عشق و محبت ، امامِ اہلِ سنت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے    شجرِ اسلام کو اپنے لہو سے جس طرح سیراب کیا اور اس کی آبیاری میں جس جانکاہی  کا مظاہرہ فرمایا ہے اس کے اَنمِنٹ  نقوش پوری  دنیا میں دیکھے جارہے ہیں۔بر صغیر  کے طبقۂ علما کے سرخیل  امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تمام عمر ایوانِ جہل و ظلمت میں قندیلِ ربانی روشن     کرتے رہے۔   آپ نے فقہ و فتاویٰ ، تفسیر و کلام اور سیر و تاریخ کے دامن میں اپنے علم و فن کے جو نقوش ثبت کئے ہیں وہ آج بھی آبدار موتی کی طرح چمک دمک رہے ہیں اور ان سے عالَمِ انسانیت فیضیاب ہورہا ہے۔

ایک  طرف اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی اپنی ذاتی خدمات اسلامی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل  ہیں تو دوسری طرف  ان کے سو  (100)سے زیادہ تربیت یافتہ خلفا اور ہزاروں تلامذہ کی خدماتِ دینی بھی بر صغیر کی تاریخ کا ایک انمول حصہ ہے۔ امامِ اہلِ سنت نے برصغیر میں بالخصوص تقدیسِ الٰہی، تحفظِ ختمِ نبوت  اور تعظیمِ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    کی خدمات کا جو بیڑا اٹھایاتھا  ان کے تلامذہ اور خلفا نے اس کو چار چاند لگانے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔

اعلیٰ حضرت نے شعبہ ہائے زندگی کے  ہر میدان کا مردِ مجاہد تیار کرکے قوم کو  عطا کیا۔ حجۃ الاسلام، صدرالشریعہ، صدرالافاضل، محدثِ اعظم ہند، مفتیِ اعظم ہند، ملک العلماء، مبلغِ اسلام، شیر بیشۂ اہلسنت جیسے برجِ  فضل و کمال کے درخشندہ ماہ ونجوم آپ  ہی کی آغوشِ تربیت میں پروان چڑھے ہیں۔ آپ کے متعدد خلفا نے مختلف جہتوں میں کام کیا ۔ مثلاً فقہی، معاشرتی اور معاشی مسائل،تحریک جدو جہد آزادی، تبلیغِ اسلام، روحانی اور طریقت کے افکار، ردِ مذاہبِ باطل ادیان وغیرہا۔ آپ کے خلفا پاکستان، ہند، بنگال، افریقہ اور بلادِ عرب میں  پھیلے ہوئے ہیں جنہوں نے پاک و ہند اور بیرونی دنیا  کے گوشہ گوشہ میں اسلام کا پیغام پہنچایا اور مسلکِ اہل سنت و جماعت کی اشاعت  کرتے ہوئے ملت اسلامیہ کو مدینے  کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا سچا فدائی و پرستار بنایا۔

یہاں   بڑی جانفشانی اور خوب محنت کے بعد 134  خلفائے اعلیٰ حضرت کا مختصر اور جامع   تذکرہ جمع کیا گیا ہے۔ حالات لکھتے وقت  حتی الامکان یہ کوشش کی گئی ہے کہ ہر خلیفۂ اعلیٰ حضرت کا لقب، کنیت ملے تو اس کا ذکر، نسبت، مکمل نام، پیدائش اور وفات کی تاریخ، ان کی  لکھی ہوئی کتاب، ان کا قائم کردہ ادارہ ہو تو اس کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ البتہ بعض خلفا کے متعلق ممکنہ  تلاش و بسیار کے باجود  زیادہ معلومات نہ مل سکیں ، اس لئے ان کے متعلق جتنی معلومات میسر آئیں وہ رقم کردی گئی ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ پاک اس کاوش کو اپنی بارگاہِ عالی میں قبول فرمائے اور ہمیں مسلکِ اعلیٰ پر دوام نصیب فرمائے۔ آمین

آ

(1) عاشقِ اعلیٰ حضرت مولانا سیِّد  آصف علی کانپوری علیہ رحمۃ اللہ القَوی ، عالمِ باعمل اور مجازِ طریقت تھے، کانپور محلہ فیل خانہ قدیم میں 1295ہجری میں پیدا ہوئے اور 14شوال 1360ہجری میں کانپور (یوپی) ہند میں ہی وِصال فرمایا۔ (تجلیاتِ خلفائے اعلیٰ حضرت، ص283-288)

الف

(2 ) عالمِ باعمل حضرت سیدابراہیم بن عبدالقادرحنفی مدنی کی ولادت مدینہ شریف میں ہوئی۔ آپ عالمِ باعمل تھے۔ فاضلِ اَجل، عابد و زاہد اور بڑ ے پرہیز گار تھے ۔ تحصیلِ علم کے لیے6 ماہ بریلی میں اعلیٰ حضرت کے پاس بھی رہے۔ (تذکرہ ٔخلفائے اعلیٰ حضرت ص 79،تاریخ الدولۃ المکیہ ص 117،ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت 214) (3)مُفسّر اعظم حضرتِ مولانا ابراہیم رضا خان رضوی جیلانی میاں رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1325 ھ کو بریلی شریف (یوپی) ہند میں ہوئی۔ آپ عالمِ دین، مصنف، مہتمم دار العلوم منظرِ اسلام اور شیخ الحدیث تھے۔ 11 صَفَرُالْمُظَفَّر 1385ھ کو وصال فرمایا، آپ کا مزار مبارک بریلی شریف (یوپی) ہند میں روضۂِ اعلیٰ حضرت کے دائیں جانب مرجعِ خلائق ہے۔ (تجلیات تاجُ الشریعہ، ص93، مفتی اعظم اورانکے خلفاء، ص110)

 (4)مفتیِ اعظم پاکستان، سیّدُ المحدّثین حضرت علامہ ابوالبرکات سیّد احمد قادری رضوی اشرفی علیہ رحمۃ اللہ القَوی ، استاذُ العُلَماء، شیخ الحدیث، مناظرِ اسلام، بانی و امیر مرکزی دارُالعلوم حِزبُ الاحناف اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔ 1319 ہجری کو محلہ نواب پور اَلْوَر (راجستھان) ہند میں پیدا ہوئے اور لاہور میں 20شوّال 1398ہجری میں وِصال فرمایا، مزار مبارک   دارُالعلوم حِزب الاحناف داتا دربار مارکیٹ   لاہور میں ہے۔(تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ، ص314-318)

(5)مفسّرقراٰن حضرت علامہ سَیِّد ابوالحسنات محمد احمد قادِرِی اَشْرَفی علیہ رحمۃ اللہ القَوی 1314ھ اَلْوَر (راجستھان) ہند میں پیدا ہوئے  اور2شعبان 1380ھ میں پاکستان کے دوسرے بڑے شہر  لاہور میں  وفات پائی، مزارِ داتا گنج بخش سیّد علی ہَجْویری کے قُرب میں دفن ہونے کا شرف پایا۔ آپ حافظ، قاری، عالمِ باعمل، بہترین واعِظ، مسلمانوں کے مُتَحَرِّک راہنما اور کئی کتب کے مُصَنِّف تھے۔ تصانیف میں تفسیرُالحَسَنات (8جلدیں) آپ کا خوبصورت کارنامہ ہے۔ ( تذکرہ اکابراہلسنت، ص442،  تفسیرالحسنات، 1/46)

 (6)مدرسِ حرم، عالمِ باعمل حضرت سیّدنا شیخ سیّد ابوبکر بن سالم البار مکّی عَلَوی شافعی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت1301 ھ کومکّۂ مکرمہ کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی اور 2 صَفَرُالْمُظَفَّر 1384ھ کو وصال فرمایا، جنّت المعلیٰ میں مدفون ہوئے۔ آپ قاضیِ شہر، فقیہِ شافعی، استاذُ العُلَما، مصنف اور شیخِ طریقت تھے۔(الدلیل المشیر، ص 21، سالنامہ معارف رضا 1999ء، ص200)

(7)شہزادۂ شیخ المشائخ،حضرت مولاناسیّد ابوالمحمود احمد اشرف اشرفی  کی ولادت 1286 ھ کچھوچھہ شریف (ضلع امبیڈ کر نگر،یوپی) ہند میں ہوئی۔آپ عالمِ باعمل،شیخِ طریقت، مناظرِ اسلام اورسلطان الواعظین تھے۔ 15ربیع الآخر 1347ھ کو وصال فرمایا۔مزار کچھوچھہ شریف میں ہے۔(حیات مخدوم الاولیا، ص439تا449)

 (8)اُستاذُالعُلَماء مولانا اَحمد بخش صادِق تونْسَوِی رَضَوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی عالِمِ باعمل، شاعِر، صاحبِ تصنیف، مُدرِّس و مُہْتَمِمْ مدرسہ محمودیہ تونسہ شریف اور بانیِ جامِع مسجد احمد بخش (بلاک12،  ڈیرہ غازی خان پنجاب) تھے۔ 1262ھ میں پیدا ہوئے  اور 2 رجب 1364ھ میں وصال فرمایا۔ مزار مذکورہ جامِع مسجد سے مُتّصِل ہے۔ (تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت، ص124)

 (9)مدرسِ حرم، قاضیِ مکّۂِ مکرّمہ حضرت سیّدنا شیخ احمد بن عبدُاللہ ناضرین شافعی مکّی قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1299ھ میں مکّۂ مکرّمہ میں ہوئی اور 13 صَفَرُالْمُظَفَّر 1370 ھ کو وصال فرمایا، جنّۃُ المَعلٰیمیں دفن کئے گئے۔ آپ بہترین مدرس، علومِ قدیم و جدید کے جامع، صاحبِ تقویٰ و ورع، فقہِ شافعی کے فقیہ اور باعمل عالمِ دین تھے۔ (الدلیل المشیر،  ص 46 تا51)

 (10)شیخ الاسلام، حضرت امام احمد بن محمد حضراوی مكّى شاذلی قادری رحمۃ اللّٰہ  علیہ حافظُ القراٰن، عالمِ باعمل، شاعرومؤرِّخِ اسلام،  فقیہِ شافعی، کاتب و مصنّف کتب اور استاذُ العُلَماء تھے۔ 1252ھ کو مصر کے شہر اِسکَنْدَریہ میں پیدا ہوئے، حصولِ علم کے بعد زندگی بھر مکّۂ مکرَّمہ میں رہے اور یہیں 21ذوالقعدہ 1327ھ میں وصال فرمایا۔ تصنیف شدہ کتب میں نَفَحَاتُ الرّضی والقُبُول فِي فَضَائل الْمَدِيْنَةِ وزِيَارَةِ الرَّسُوْل بھی یادگار ہے۔(مختصر نشر النور والزھر، ص 84۔ سالنامه معارف رضا 1999، ص203)

(11)امین الفقہاء حضرت مولانا احمدحسن خان قادری رضوی حیدرآبادی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1292ھ کو حیدرآباد دکن ہندمیں ہوئی۔ آپ جیّدعالمِ دین ،بہترین واعظ،سلسلہ قادریہ کے شیخِ طریقت تھے۔ آپ کا وصال29 ربیع الآخر 1395ھ کو حیدرآباد  دکن میں ہی ہوا۔ (تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت 557تا561)

(12)تاجُ الْفُیُوض حضرت مولانا احمد حسین امروہی نقشبندی قادِری علیہ رحمۃ اللہ القَوی عالِمِ باعمل، شیخِ طریقت، شاعِر، کئی کُتُب کے مصنف اور مُتَرْجِم تھے۔ 1289ھ میں پیدا ہوئے اور 27رجب 1361ھ میں وِصال فرمایا۔ تدفین والِدِ گِرامی کے پہلو اَمروہہ ضلع مُرادآباد (یوپی) ہند میں ہوئی۔ (تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت،ص126،تذکرہ مشائخِ قادریہ، ص264)

(13)استاذُ العُلَما، حضرت مولانا سیّد احمد عالَم قادری رجہتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت موضع بچروکھی نزد رجہت (ضلع نوادہ، بہار) ہند میں ہوئی اور 12 صَفَرُالْمُظَفَّر 1377ھ کو وصال فرمایا، بسرام پور، تھانہ امام گنج (ضلع گیا، بہار) ہند میں آسودۂ خاک ہیں۔ آپ جیّد عالِم، مدرس اور قادرُ الکلام واعظ تھے۔ (ماہنامہ اعلیٰ حضرت،اپریل 2002ء صد سالہ منظرِ اسلام نمبر قسط:2، ص167)

 (14)مبلغِ اسلام،حضرت مولانا شاہ احمد مختار صدیقی قادری رحمۃ اللہ علیہ عالمِ باعمل،واعظِ خوش بیان، استاذُ العلماء، ہمدردِمِلّت اور بلند پایہ مُصنف تھے ،آپ کی کوشش سےکئی غیرمسلم دائرہِ اسلام میں داخل ہوئے۔1294ھ میں میرٹھ (یوپی، ہند) میں پیدا ہوئے اور14 جمادی الاولیٰ1357ھ کودَمّن پرتگیز (ہند) میں وصال فرمایا۔(ماہانہ معارف رضا جون 2012ء، ص29)

(15) قاضی مکہ شیخ اَسْعدبن احمددھان مکی حَنَفِی کی ولادت 1280 ھ مکہ شریف میں ہوئی اور 1341 ھ کووِصال فرمایا، مکہِ مکرمہ میں دَفْن کئے گئے ۔آپ کثیرعُلُوْم کے جامِع ،بہترین کاتِب، مُدَرِّسِ حَرَم،امِام نمازِ تراویح ، حَسَنَۃُ الزَمان، زاہد ومتقی، رُکْنِ مَجْلسِ تعزیراتِ شَرْعِیہ ، صدرہیئۃِمجلسِ تَدْقیِقْاتِ اُمُوْرِ الْمُطَوِّفِیْن (معلمین سے معاملات کی چھان بین کرنے والے ادارے کےصدر) اور مُقَرِّظُ الدَوْلۃ المکیۃ وحُسام الحَرَمَیْن تھے۔(مختصر نشر النور والزھر ص129، امام احمدرضا محدث بریلوی اورعلماء مکہ مکرمہ ص201تا205)

 (16)مُحَافِظِ کُتُبِ حَرَم،عالمِ جَلیل حضرت شیخ سیداسماعیل بن سیدخلیل حنفی قادری آفندی مکی کی ولادت اندازاً  1270 ھ کو مکہ شریف میں ہوئی اوروصال 1329 ھ کواستبول میں فرمایا۔آپ جَیِّدومُحتاط عالمِ دین،بڑے ذَہین وفَطین،وَجیہ صورت اور حُسنِ اَخلاق کے پیکر تھے ۔(الاجازات  المتینہ ص32تا35،تذکرۂ خلفائے اعلیٰ حضرت ص36 تا53،تاریخ الدولۃ المکیہ ص104

(17)امام العُلَماء حضرت مولانا حافظ امام الدین کوٹلوی قادری رضوی رحمۃ اللہ  علیہکی ولادت کوٹلی لوہاراں مغربی)ضلع سیالکوٹ) میں ہوئی اور19 صفَر المُظفّر  1381 ھ کو وصال فرمایا،تدفین قبرستان عیدگاہ شریف راولپنڈی میں ہوئی۔ آپ عالم باعمل ،اچھے واعظ ،مصنفِ کتب ،قادرالکلام شاعراورمجازِطریقت تھے ۔ نصرۃ الحق آپکے کلام کا مجموعہ ہے ۔ (تذکرہ فقیۂ اعظم،ص 30 ،33)

(18) صاحبِ بہارِ شریعت صدرُالشّریعہ حضرت  علامہ مولانا مفتی  امجد علی اعظمی رحمۃ اللّٰہ  علیہ کی ولادت 1300ھ کو مدینۃ العُلَماءگھوسی (ضلع مؤ،یوپی)ہند میں ہوئی اور 2 ذوالقعدہ1376ھ کووصال فرمایا،مزارمبارک گھوسی میں ہے۔ آپ جیّدعالم ومدرّس،متقی وپرہیزگار،مصنف کتب ،استاذالعُلَماء،مصنفِ کتب وفتاویٰ ، مؤثرشخصیت کے مالک اوراکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔اسلامی معلومات کا انسائکلوپیڈیا بہارِ شریعت آپ کی ہی تصنیف ہے۔(تذکرہ صدرالشریعہ،5، 41وغیرہ)

(19)صاحبِ باغِ فردوس حضرت مولانا سیّد ایّوب علی رضوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی ، فارسی و ریاضی میں ماہر، مُدَرِّس، شاعر، مصنف، بانیٔ رضوی کتب خانہ اوراعلیٰ حضرت کے پیش کار(منیجر) تھے۔ 1295ھ بریلی شریف( یوپی ،ہند) میں پیدا  ہوئے، جمعۃُالوداع 26رمضان 1390ھ کو وصال فرمایا، مزار مبارک میانی قبرستان لاہور میں ہے۔ (ماہنامہ معارف رضا، نومبر 2001ء، ص19،21)

ب

(20) فاضلِ مکہ،حضرت مولانا بکررفیع مکی کو اعلیٰ حضرت نے3صفر1324ھ کو مکہِ مکرمہ میں خِلافت سے نوازا۔ (الاجازات المتینۃ،ص44)

(21) برہانِ ملت حضرت مولانا مفتی  برہان الحق جبل پوری علیہ رحمۃ اللہ القَوی  کی ولادت 1310ھ کو جبل پور(سی پی) ہند میں ہوئی اور وصال26ربیع الاول 1405ھ کو فرمایا ۔مزارمبارک عیدگاہ کلاں رانی تال جبل پورمیں ہے ۔آپ فاضل دارالعلوم منطرِاسلام،مفتیِ اسلام،عُلومِ عقلیہ ونقلیہ کے ماہر،نعت گوشاعر،بہترین واعظ،متحرک راہنما،شیخِ طریقت اوردرگاہِ قادریہ سلامیہ کے سجادہ نشین تھے ۔تصنیف کردہ 26کتب ورسائل میں ’’جذبات برہان‘‘بھی  ہے جو آپ کا نعتیہ دیوان  ہے۔ (برہان ملت کی حیات وخدمات،16،17،63 )

(22) زینتُ القُرّاء حضرت مولانا حافظ قاری  بشیر الدّین قادری نقشبندی  جبل پوری علیہ رحمۃ اللہ القَوی ، مدرّس، شیخِ طریقت اور اچھے قاری تھے،ولادت 1285ہجری میں اور وصال 2 شوال 1326ہجری میں ہوا۔ مزار مبارک عیدگاہ کلاں جبل پور (مدھیہ پردیش)  ہند میں ہے۔(تجلیاتِ خلفائے اعلیٰ حضرت،ص431-434)

ج

(23) مُدَرِّسِ حَرَم حضرتِ سَیِّدُناشیخ جمال بن امیربن حسین مالکی قادری کی ولادت 1285 ھ کومکہ شریف میں ہوئی۔ وفات 1349ھ کوفرمائی ،مکہ شریف میں دفن کئے گئے۔آپ امام مالکی،مُصَنِّفِ کُتُب،جَسْٹس شرعی عدالت،رُکْنِ مجلس اَعلیٰ محکمہ تعلیم اور  مُقَرِّظُ الدولۃ المکیۃ وحُسام الحرمین تھے، آپ کی کتب میں ’’الثمرات الجنیۃ فی الاسئلۃ النحویۃ‘‘ مشہور ہے۔ (مختصر نشر النوروالزھر،ص 163،اما م احمد رضا محدث بریلوی اور علماء مکہ مکرمہ، ص 149تا151)

(24)مداحُ الحبیب مولانا صوفی شاہ محمد جمیل الرحمٰن خان قادری رضوی کی ولادت بریلی شریف ( یوپی) ہند میں ہوئی۔ 1343 ھ کو وصال فرمایا،تدفین قبرستان بہاری پور(سول لائن سٹی اسٹیشن) بریلی شریف(یوپی) ہندمیں مَزَار مولانا حسن رضا خان کے پہلو میں ہوئی۔ آپ خوش الحان نعت خوان، واعِظ خُوش بَیاں،عالمِ باعمل اورصاحبِ دِیوان شاعر تھے۔ (تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت،ص132،134۔برکات قادریت ص 15تا18 ،بریلی سے مدینہ ص 2)

ح

(25) شہزادۂِ اعلیٰ حضرت،حُجّۃُ الاسلام مفتی حامد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ عالم دین،ظاہری وباطنی حسن سےمالامال اور جانشینِ اعلیٰ حضرت تھے۔ بریلی شریف میں ربیعُ الاول1292ھ میں پیداہوئے اور17جمادی الاولیٰ 1362ھ میں وصال فرمایا اور مزار شریف خانقاہِ رضویہ بریلی شریف ہند میں ہے، تصانیف میں فتاویٰ حامدیہ مشہور ہے۔ (فتاویٰ حامدیہ،ص48،79)

 (26) مُحسنِ ملّت حضرتِ علّامہ مولانا حامد علی فاروقی رضوی رائے پوری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادتِ باسعادت قاضی پور چندہا (الٰہ آباد یوپی) ہند میں 1306ھ میں ہوئی۔ 26 محرّمُ الحرام 1388ھ کو وصال فرمایا، رائے پور کے مشہور ولیُ اللہ حضرت فاتح شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے قرب میں آپ کی تدفین ہوئی۔ آپ فاضل منظرِ اسلام بریلی شریف، مناظر و خطیبِ اسلام، ملّی قائد اور قومی راہنما تھے، آپ نے کئی فتاویٰ بھی لکھے، آپ کا 1924ء میں قائم کردہ ”مدرسہ و ادارہ اصلاحُ المسلمین و دارُالیتامیٰ چھتیس گڑھ ہند“ آج بھی قوم و ملت کی آبیاری کررہا ہے۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت، ص562تا573)

 (27)مقرب شاہ جی میاں حضرت مولانا حکیم حبیب الرحمٰن خان رضوی پیلی بھیتی کی ولادت 1288ھ پیلی بھیت (یوپی) ہند میں ہوئی۔ 1362ھ کو وِصال فرمایا، ان کی تدفین ان کے اپنےذاتی باغ میں ہوئی ۔ آپ عالم شہیر،مُدَرِّس جلیل، استاذالعُلَماء،مقبولِ عوام وعلما اوربانیٔ مدرسہ آستانہ عالیہ شیریہ ہیں۔(تذکرۂ خلفائے اعلی حضرت،  ص135۔تذکرہ محدثِ سورتی، ص242)

(28) ہمدردِ ملّت حضرت مولانا حافظ  حبیب اللہ قادری میرٹھی علیہ رحمۃ اللہ القَوی ، عالمِ باعمل، واعظِ خوش بیان، عربی وفارسی کےمدرِس اور بانیِ مسلم دَارُ الیَتَامٰی وَالمَسَاکِیْن مِیرَٹھ ہیں۔ 1304ہجری میں پیدا ہوئے اور 26شوال 1367 ہجری میں وِصال فرمایا۔ مزار مبارک قبرستان شاہ ولایت محلہ خیر نگر میرٹھ (یوپی) ہند میں ہے۔ (تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت، ص 227-233)

(29) صاحبِ ذوقِ نعت، استاذِ زَمَن مولانا حسن رضا خان علیہ رحمۃ الحنَّان برادرِ اکبراعلیٰ حضرت، قادِرُالکلام شاعر ،کئی کتب کےمصنف    اور دارُالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف کےمہتممِ اوّل ہیں، 1276ھ  کو محلہ سوداگران بریلی میں پیدا  ہوئے،  22ر مضان 1326ھ کو وہیں وصال فرمایا، مزارمبارک قبرستان بہاری پور نزد پولیس لائن سٹی اسٹیشن بریلی شریف (یوپی، ہند) میں ہے۔آپ حضرت شاہ ابوالحسین نوری کے مریدوخلیفہ تھے، اعلیٰ حضرت نے بھی آپ کو خلافت سے نوازا۔ (تذکرہ علمائے اہل سنت ،ص79،78،تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت ،91)

(30)خلیفۂِ اعلیٰ حضرت، سیّدُنا شیخ حسن بن عبدُالرّحمٰن عُجَیْمی حنفی مکی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ عالمِ کبیر،فاضلِ جلیل اور عُجَیْمیخاندان کے علمی وارث تھے،1289ھ میں ولادت ہوئی اورجمادی الاولیٰ1361ھ میں وصال فرمایا،جنت المعلیٰ مکۂِ مکرمہ میں دفن کیے گئے۔( مکۂ مکرمہ کے عُجَیْمی علما، ص95 ۔ الاجازت المتینۃ، ص64)

 (31) شہزادۂ استاذِ زمن، استاذُ العُلَما حضرتِ مولانا حسنین  رضا خان رضوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1310 ھ کو بریلی شریف (یوپی) ہند میں ہوئی۔ آپ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت کے بھتیجے، داماد، شاگرد و خلیفہ، جامع معقول و منقول، کئی کُتُب کے مصنف، مدرسِ دار العلوم منظرِ اسلام، صاحبِ دیوان شاعر، بانیِ حسنی پریس و ماہنامہ الرضا و جماعت انصار الاسلام تھے۔ وصال5 صَفَرُالْمُظَفَّر 1401ھ میں فرمایا اور مزار بریلی شریف میں ہے۔  (تجلیات تاج الشریعہ، ص95، صدر العلما محدث بریلوی نمبر،  ص77تا81)

(32) مفسرقرآن حضرت مولاناحشمت علی فائق  قادری رضوی کی ولادت 1882ء بریلی شریف میں ہوئی اوریہیں 1962ء کو وصال فرمایا۔ قبرستان باقر گنج بریلی شریف میں دَفْن کئے گئے۔آپ فاضل منظراسلام،واعِظ اور شاعر تھے۔ آپ نے بالُخُصوص بچوں، عورتوں اور دینی طَلَبَہ کے لیے کُتُب تحریر فرمائیں۔ آپ کی تفسیر جواہرالایقان المعروف تفسیررضوی  پانچ جلدوں پرمشتمل ہے۔ (جہان مفتی اعظم ہند،1072)

(33) شیر بیشۂ سنّت، عبیدالرّضا مولانا ابو الفتح حشمت علی خان رضوی لکھنوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی 1319ھ کولکھنو(یوپی)   ہند میں پیدا ہوئے۔ آپ حافظُ القراٰن، فاضل دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف، مناظرِ اہلِ سنّت، مفتیِ اسلام، مصنف، مدرس، شاعر، شیخِ طریقت اور بہترین واعظ تھے۔ چالیس تصانیف میں ”الصوارم الہندیہ“ اور ”فتاویٰ شیربیشۂ سنّت“ زیادہ مشہور ہیں۔ وصال8 محرَّمُ الحرام 1380ھ میں فرمایا، مزار مبارک بھورے خاں پیلی بھیت (یوپی) ہند میں ہے۔ (تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت، ص 304تا316)

 (34) اِمامِ تراویح فی الحَرَم سیّدحسین بن صدیق دَحْلان حسنی مکی شافعی کی ولادت 1294 ھ کو مکہ شریف میں ہوئی۔ وفات 1340 ھ کو انڈونیشیا میں ہوئی اور یہیں دفن کئے گئے۔ آپ خوش الحان قاری، مبلغ اسلام، سیاحِ مَمالِکِ اِسلامیہ، اَدیب وشاعر، جیدعالم اوراُستاذالعُلَما تھے ۔(نشرالنورص 179،امام احمدرضا محدث بریلوی اورعلمائے مکہ مکرمہ ص303)

(35) منظورِنظر اعلیٰ حضرت شیخ سیدحسین بن عبد القادر حَنَفِیْ مَدَنی   کی وِلادت اوروِصال مدینہ شریف میں ہوا۔تدفین جَنَّۃُ الْبَقِیْع میں کی گئی۔آپ مدرس مسجدنبوی،جامِع عُلُوم جَدیدہ وقَدیمہ بالخُصُوص جَفَر ،نُجُوم، ہیئت ، اوفاق، اور تکسیرمیں ماہر، متقی وقانِع اورباحیا تھے۔ تحصیلِ علم کے لیے 14 ماہ بریلی میں اعلیٰ حضرت کے پاس بھی رہے۔( تذکرۂ خلفائے اعلیٰ حضرت ص58تا60،تاریخ الدولۃ المکیہ ص66،117،ملفوظات اعلیٰ حضرت, 211تا214)

(36)حضرت مولانا سَیِّدحسین علی رضوی اجمیری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کتاب ”دربارِچشت اجمیر“ کے مصنف،انجمن تبلیغِ مُحِبِّ مِشَن ہند اجمیر کے بانی اور روضہ ِٔخواجہ غریب نواز کے مجاور تھے۔ وصال 22شعبان1387 ھ  میں  ہوا اور اناساگرھاٹی اجمیر (راجستھان) ہند میں دفن کیے گئے۔ (تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت، 448تا462)

خ

(37) اُستاذالعُلَماحضرت مولانا خلیل الرحمٰن بہاری قادری رضوی ،جیدعالم دین ، واعظ خوش بیان،مدرس مدرسہ عربیہ متیال مٹھ مدراس(ریاست تامل ناڈو) اورمجازطریقت تھے۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت،ص415تا417)

د

(38) امامُ الْمُحدِّثین حضرت مولانا سیِّد  دِیدارعلی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری علیہ رحمۃ اللہ القَویجَیِّد عالِم، اُستاذُالعُلَماء، مفتیِ اسلام تھے۔ آپ اَکابِرِینِ اَہلِ سنّت سے تھے۔ 1273ھ کو اَلْوَر (راجِسْتھان) ہِند میں پیدا ہوئے اور  لاہور میں 22رجب 1345ھ میں  وِصال فرمایا۔  دارُالعُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف اور فتاویٰ دِیداریہ آپ کی یادگار ہیں۔ آپ کا مزار مُبارَک اَندرونِ دہلی  گیٹ محمدی محلّہ  لاہور میں ہے۔ (فتاویٰ دیداریہ، ص2)

ر

(39)استاذُ العُلَماء، حضرت مولانا رحم الٰہی منگلوری مظفر نگری قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت منگلور (ضلع مظفر نگر، یو پی)ہند میں ہوئی۔ آپ ماہرِ معقولات عالم، صدر مدرس اور مجازِ طریقت تھے۔ آپ نے بحالتِ سفر (غالباً28) صَفَرُالْمُظَفَّر 1363ھ کو وصال فرمایا۔ (تذکرہ خلفائے اعلی حضرت، ص138)

(40)استاذُالعُلَماء حضرت علامہ مفتی  رحیم بخش آروی رَضَوی،جیِّد مُدَرِّس،مُنَاظِر،واعظ،مجازِ طریقت اور بانیٔ مدرسہ فیضُ الغُرَبَا (آرہ بہارہند)تھے۔ 8شعبان 1344ھ میں وفات پائی ،مولا باغ قبرستان آرہ (ضلع شاہ آبادبہار) ہند میں تدفین ہوئی۔ (تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت، ص137)

(41)بڑے مولانا حضرت علامہ مفتی  رحیم بخش باتھوی رَضَوی عَلَیْہ رَحْمَۃُ اللہ القوی عالمِ باعمل، عارف باللہ،فاضل منظرِاسلام، استاذُ العلماء اور شیخ طریقت ہیں،19 جُمادی الاُخریٰ 1379ھ میں وصال فرمایا، مزارمبارک جنوبی قبرستان موضع باتھ اصلی ضلع سیتامڑھی صوبہ بہارہند میں ہے۔(تذکرہ علماء اہل سنت سیتامڑھی،157تا159،فقیہ اسلام ،266)

س

(42)استاذالعلماحضرتِ سیّدنا شیخ سیّد  سالم بن سیدعیدروس بن عبدالرحمٰن البار،  مکی علوی شافعی علیہ رحمۃ اللہ القَوی مکۂِ مکرمہ کے جَیِّدعالِمِ دین ،مُدَرِّس،شیخِ طریقت ، 11صفر1324ھ کو مکہِ مکرمہ میں اعلیٰ حضرت سے خلافت پانے والے، حرمِ پاک کےدومُدَرِّسِیْن شیخ سیدعیدروس البار،مکی (1299تا1367 ھ ) اور خلیفہِ اعلیٰ حضرت شیخ سید ابوبکرالبار،مکی (1301تا1384ھ) کے والدِگرامی تھے۔آپ نے  1327ھ کو مکۂِ مکرمہ میں وفات پائی۔ (الاجازات المتینۃ ،46،خلفائے اعلیٰ حضرت ،61)

(43) واعِظِ خُوش بَیاں حضرت مولانا سرفراز احمد قادری رضوی کی ولادت غالباً محلہ  مکہڑی کھوہ مرزاپور(یوپی) ہندمیں ہوئی اوریہیں وِصال فرمایا۔آپ فاضل مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت، عالمِ دین،واعِظ اور مَجازِ طریقت تھے۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت، ص 317)

(44) تِلمیذِاعلیٰ حضرت مولانامفتی  نواب سلطان احمدخان قادری رضوی کی ولادت ذوالحجہ  1279ھ    کو بریلی کے خاندان نواب حافظ الملک رحمت خان بہادر  میں ہوئی ،آپ فاضل منظراسلام ،علم الفرائض میں وحیدالعصراورحضرت ابوالحسین نوری کے مرید اوراعلیٰ حضرت کے خلیفہ تھے ،فتاویٰ رضویہ کی پہلی چارجلدیں آپ نے ترتیب دیں ۔(مکتوبات امام احمدرضا خان بریلوی،حاشیہ ،ص153،تذکرہ علمائے ہندوستان ،183)

 (45) مفکرِ اسلام، پروفیسر حضرت علّامہ سیّد سلیمان اشرف بہاری علیہ رحمۃ اللہ الوَالی کی ولادتِ باسعادت 1295ھ میں مِیر داد،   ضلع پٹنہ، بہار ہند میں ہوئی اور وصال 5ربیعُ الاوّل 1358ھ کو فرمایا۔ تدفین علی گڑھ اسلامی یونیورسٹی کے اندر شیروانیوں والے قبرستان میں ہوئی۔ آپ کی کئی کتب مثلاً النّور، الرّشاد وغیرہ یادگار ہیں۔(تذکرۂ خلفائے اعلیٰ حضرت، ص144، سیدی ضیاء الدین احمد القادری، 2/266-268 )

ش

(46) امینُ الفتویٰ  مفتی شفیع احمدبیسلپوری مُدَرِّس،واعِظ،مفتیٔ اسلام اورخلیفۂ اعلیٰ حضرت ہیں،شعبان1301ھ بیسل پور (پیلی بھیت،یوپی) ہند میں پیدا ہوئے، عین عالمِ جوانی میں محض  37 سال  کی مختصر عمر میں24 رمضان جمعۃُ الوداع 1338ھ کو وصال فرمایا، مزارمبارک بیسل پورمیں ہے۔ (مجالسِ علماء، ص75۔ تذکرہ محدث سورتی،ص288)

(47)استاذالعُلَماء حضرت علامہ مفتی شمس الدین احمد باسنوی قادری علیہ رحمۃ اللہ القَوی  کی ولادت 1274ھ کو کمہاری نزدباسنی ، ناگور  راجستھان میں ہوئی ،آپ عالمِ باعمل ،جیّدمدرس ،مفتی اسلام ،خطیب احمدشہیدمسجدکمہاری ،عاشقِ کتب اورشیخِ طریقت تھے۔ 27رجب 1357ھ کو جائے پیدائش میں وصال فرمایا،تدفین مزارِحضرت بالاپیرحسن سے جانب مغرب ہوئی ۔ (تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت، 463تا470)

(48)شمس العلماء، حضرت مولانا مفتی قاضی ابوالمَعالی شمس الدّین احمد جعفری رضوی جونپوریعلیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1322ھ محلہ میرمست جونپور (یوپی) ہند میں ہوئی۔ آپ فاضل دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف، جیّد مدرس، صاحبِ قانونِ شریعت اور شیخِ طریقت تھے۔ یکم محرّمُ الحرام1401ھ کو وصال فرمایا، آپ کو احاطۂِ مزارِ حضرت قطب الدّین بینادل قلندر، جونپور (یوپی) ہند میں دفن کیا گیا۔ (قانون شریعت ،19تا21،تذکرہ خلفائےاعلیٰ حضرت ،198)

(49)استاذُالعلماء، مفتیِ اسلام حضرت علّامہ ابوالسعادات شہابُ الدّین احمد کویا ازہر شالیاتی ملیباری شافعی قادری کی ولادتِ باسعادت 1302ھ قریہ چالیم ملیبار کیرالا (جنوبی ہند) میں ہوئی اور یہیں 27 محرمُ الحرام 1374ھ کو وصال فرمایا، آپ جیّدعالِم، مدرس، شیخِ طریقت، مفتیِ اسلام، مرجعِ عوام و علما اور عِلْم و عمل کے جامع تھے۔ آپ ”دارالافتاء الازہریہ“ کے بانی ہیں اور الفتاوی الازہریہ فی احکام الشرعیہ آپکے فتاویٰ کا مجموعہ ہے۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت، ص574تا578)

ص

(50)مفتیِ اَعظم مکہ ، عالمِ اَجل حضرت شیخ   صالح کمال حَنَفِی قادری کی ولادت63 12 ھ کومکہ شریف میں ہوئی اوریہیں 1332ھ کو وِصال فرمایا ،مکہ شریف کے قبرستان اَلْمَعْلٰی میں دَفْن کئے گئے۔آپ علامہِ دَہْر،حافِظ وقاری، مُدَرِّسِ مسجدِحَرَم، قاضیِ جَدَّہ، شیخُ الخُطَباوَالْاَئِمہ،اُستاذُالْعُلَما اورمکہ شریف کی مُؤَثِّر شخصیت تھے۔ آپ نے اعلیٰ حضرت کی 4 کتب فتاویٰ الحَرَمَین برجف ندوۃ المین ،الدَوْلَۃُ الْمَکِّیۃ،حُسام الحَرَمین، کِفْلُ الْفَقِیْہِ الْفَاہِمْ پر تَقارِیْظ بھی تحریر فرمائی تھیں۔( اما م احمد رضا محدث بریلوی اور علماء مکہ مکرمہ، ص 305)

ض

(51) قُطْبِ مدینہ،شیخُ العَرَبِ والعَجَم، حضرت مولانا ضیاء الدین احمدقادری مدنیرحمۃ اللہ تعالٰی علیہکی ولادت1294ھ کلاس والاضلع سیالکوٹ میں ہوئی اوروصال 4ذوالحجہ 1401ھ کو مدینہ منورہ میں ہوا۔ تدفین جنۃ البقیع میں کی گئی ۔آپ عالم باعمل ،ولیِ کامل ،حسنِ اخلاق کے پیکراوردنیا بھرکے علماومشائخ کے مرجع تھے ۔آپ نے تقریبا75سال مدینۂِ منوّرہ میں قیام کرنے کی سعادت حاصل کی ،اپنے مکان عالی شان پرروزانہ محفل میلادکا انعقادفرماتے تھے۔ (سیدی قطب مدینہ،17،11،8،7)

(52) استاذُالعلماء، مولانا ابوالمساکین   ضیاء الدّین ہمدم قادری پیلی بھیتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادتِ باسعادت شوّال 1290ھ تلہر (ضلع شاہ جہانپور،یوپی) ہند میں ہوئی اور 28 محرمُ الحرام1364ھ کو وصال فرمایا، پیلی بھیت (یوپی) ہند میں بہشتیوں والی مسجد سے متصل آسودۂ خاک ہیں۔ آپ جیّدمدرس، مصنف، صاحبِ دیوان شاعر، شیخِ طریقت اور پیلی بھیت کی مؤثّر شخصیت تھے۔(تذکرہ محدثِ سورتی، ص274تا275)

ظ

(53)مَلِکُ العُلَماء حضرت مولانا مفتی سیّدظفَرُ الدّین رضوی محدِّث بِہاری عَلَیْہ رَحْمَۃُ اللہ القوی عالمِ باعمل، مناظرِ اہلِ سنّت، مفتیِ اسلام، ماہرِ علمِ توقیت، استاذُ العلما ءاور صاحبِ تصانیف ہیں، حیاتِ اعلیٰ حضرت اور صَحِیْحُ الْبِہَارِی کی تالیف آپ کا تاریخی کارنامہ ہے، 1303ھ میں پیدا ہوئے اور 19 جُمادی الاُخریٰ 1382ھ میں وصال فرمایا، قبرستان شاہ گنج پٹنہ (بہار) ہند میں دفن کئے گئے۔(حیاتِ ملک العلما،ص 9،16،20،34 )

(54) قطبِ میواڑ حضرت مولانا مفتی ظہیر الحسن اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1302ھ کو محلہ اورنگ آباد اعظم گڑھ (یوپی) ہند میں ہوئی اور 12ربیعُ الاوّل 1382ھ کو وصال فرمایا، مزار مبارک مسجد سے متصل احاطۂِ اولیا برھم پول اودھے پور (راجستھان) ہند میں ہے۔ آپ جَیِّد مفتیِ اسلام، مدرّس مدرسہ اسلامیہ اودھے پور، عالمِ باعمل اور شیخِ طریقت تھے۔ (سالنامہ یاد گارِ رضا 2007ء، ص143-151)

 ع

(55)مفتیِ مالکیہ حضرت سیّدُنا شیخ عابد بن حسین مالکی قادری علیہ رحمۃ اللہ القَوی، عالمِ باعمل، مدرّسِ حرم اور کئی کُتُب کےمصنّف ہیں۔ 1275ہجری میں مکۂ مکرمہ زَادَھَا اللہُ شَرفًاوَّ تَعْظِیمًا کے ایک علمی خاندان میں پیدا ہوئے اور 22شوال 1341 ہجری میں یہیں وِصال فرمایا۔(مختصر نشر النور والزھر، ص 181۔امام احمد رضا محدثِ بریلوی اور علماء مکہ مکرمہ، ص 129-136)

(56)سلطان الواعِظِیْن حضرت علامہ مولانا   عبدُالاَحد مُحَدِّث پیلی بھیتی علیہ رحمۃ اللہ القَوی مجازِ طریقت، استاذُالعُلَماء اور واعِظِ خوش بیاں تھے۔ 1298ھ میں پیلی بَھیت (یوپی) ہند میں پیدا ہوئے اور یہیں 13شعبان 1352ھ میں وصال فرمایا،  گَنْج مرادآباد(ضلع اناؤ) ہند میں دربارِ مولانا فضل رحمٰن گنج مرادآبادی کے قرب میں دفن کیے گئے۔(تذکرہ محدث سورتی،209تا218)

(57) مُحبّ اعلیٰ حضرت الحاج سیدعبدالرزاق رضوی  ہندکی ریاست مدھیہ پردیش کے شہر کٹنی کی صاحب ثروت شخصیت  اورمَجازِطریقت تھے، مَزارِاعلیٰ حضرت تعمیرکمیٹی کے رُکْن بنائے گئے۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت،ص446تا447)

(58)امامِ تراویح و مدرّسِ مسجدِ حرام حضرت سیّدنا شیخ عبدُالرحمن بن احمد دھان مکی حنفی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ حافظُ القراٰن، عالمِ باعمل، ماہرِ فلکیات، استاذُ العُلَماء، مقبولِ عوام وخواص اور مقرِّظِ الدّولۃُ المَکّیۃ وحُسّامُ الحَرَمَین ہیں۔ مکّۂ مکرَّمہ میں 1283ھ کو پیدا ہوئے اور 12 ذوالقعدۃ الحرام 1337ھ کو وصال فرمایا، قبرستان المعلیٰ میں دھان خاندان کے احاطے میں دفن کئے گئے۔ (مختصر نشر النور والزھر، ص241۔ امام احمد رضا محدث بریلوی اور علماء مکۂ مکرمہ، ص205تا211)

(59) مسندالعصر، حضرت شیخ سیِّدعبدالرحمن بن سید عبد الحی کَتَّانی حسنی مالکی کی ولادت1338ھ کو ہوئی ،    اعلیٰ حضرت نے27ذوالحجہ 1323ھ کو مکہ مکرمہ میں ان کے والداورانہیں   خلافت سے نوازا ۔شرف ملت حضرت علامہ عبدالحکیم شرف قادری صاحب نے ان سے اجازت پائی ، کتاب نيل الأماني بفهرسة مسند العصر عبد الرحمن میں ان کے مشائخ میں اعلیٰ حضرت کا نام بھی درج ہے ۔(الاجازت المتینہ،ص41،تذکرہ سنوسی مشائخ ،109،215)

(60)مخدومِ ملّت حضرت مولاناسیّد عبدالرحمٰن رضوی گیاوی بہاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی  عالمِ دین،فتاویٰ نویس، مدرس اورشیخِ طریقت تھے ،آپ کی ولادت 1294ھ کو بیتھوشریف(ضلع گیاصوبہ بہار) ہند میں ہوئی، خانقاہ رحمانیہ کیری شریف(ضلع بانکا،صوبہ بہار) ہند میں13ذوالحجہ 1392ھ کووصال فرمایا ،مزار مبارک یہیں ہے۔ (تجلیات خلفائے اعلیٰ حضر ت ،418تا 421)

(64)عمیدالعلماء، حضرت مولانا عبدالرحمٰن جے پوری رضوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت  مؤ ناتھ بھنجن (ضلع مؤ،یوپی) ہند میں ہوئی اور 12 جمادی الاخریٰ  1370 ھ کو وصال فرمایا۔ تدفین تکیہ آدم شاہ (آگرہ روڈ،جے پور،راجستھان)ہند میں ہوئی۔  آپ عالمِ باعمل ،مدرس،بانی دارالعلوم بحرالعلوم مؤ ناتھ بھنجن، شیخِ طریقت اورولی کامل تھے۔ (تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت، ص 475تا479)

(62)حضرت مفتی حافظ سیّد عبدالرّشید عظیم آبادی علیہ رحمۃ اللہ القَوی ، مدرسہ منظرِ اسلام بریلی شریف کے اوّلین طالبِ علم، ملک                    العلماء علامہ سیّد ظفر الدّین بِہاری کے زندگی بھر کے رفیق، جیّد عالِم، مُناظرِ اسلام اور کئی مدارِس خُصوصاً جامعہ اسلامیہ شمسُ الھدیٰ پٹنہ کے مدرِّس تھے۔ 1290ہجری میں موضع موہلی (پٹنہ) میں پیدا ہوئے اور 24شوال 1357ہجری میں وِصال فرمایا، مزار مبارک موضع کوپا عظیم آباد پٹنہ (یوپی) ہند میں ہے۔(جہانِ ملک العلماء، ص 863-959-965)

 (63)عالمِ جَلیل حضرت مولاناعبدالجبارقادری رضوی ڈھاکہ (بنگلادیش )میں پیداہوئے اوریہیں  وِصال فرمایا   ۔فاضل مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت،مُریدوخلیفہ اعلیٰ حضرت اور اچھے عالم دین   تھے۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت،ص2تا669)

 (64)شیخِ طریقت، حضرت صاحِبزادہ مولانا  عبدالحکیم خان شاہجہانپوری قادِری علیہ رحمۃ اللہ القَوی عالِمِ باعمل،صُوفی، مُصَنِّف  اوریادگارِ اَسلاف تھے۔ مَوضَع کرلان نزد شاہجہانپور ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے اور یکم رجب 1388ھ کو الٰہ آباد (یو پی) ہِند میں وِصال فرمایا۔ (تجلیاتِ خلفائے اعلیٰ حضرت، ص188تا194، تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت، ص11)

(65)اُستاذالعُلَما،حضرت مولانا مفتی عبد الحق پنجابی محدث پیلی بھیتی کی ولادت   محلہ پنجابیاں پیلی بھیت ( یوپی)  ہند میں ہوئی۔یہیں75 سال کی عمر میں 1361 ھ کووِصال فرمایا۔ آپ فاضل مدرستہ الحدیث پیلی بھیت،ذَہین وفَطین عالمِ دین، اوراد و وظائف کے پابند،بہترین مُدَرِّس اورپیلی بھیت کے چاروں مَدارِس مَدْرَسہ الحدیث ،مَدْرَسہ حافظیہ ،مَدْرَسہ رحمانیہ اور مَدْرَسہ آستانہ شیریہ  میں تدریسی خدمات سَراَنْجام دینے والے تھے۔ (تذکرہ خلفائے اعلی حضرت ،ص180۔تذکرہ محدثِ سورتی، ص252)

(66)استاذالعُلَماء حضرت مولانا عبد الحَیّ قادری پیلی بھیتی کی ولادت تقریباً 1299ھ پیلی بھیت (یوپی) ہند میں ہوئی اور وصال 24ربیع الآخر1359ھ کوہوا۔تدفین قبرستان محلہ منیرخان پیلی بھیت میں ہوئی۔آپ ذہین وفطین عالمِ دین، جامع علوم وفنون ،مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت کے سینئرمدرس،محدثِ سورتی کے بھتیجے اور علمی جانشین تھے۔(تذکرہ محدثِ سورتی،  ص253)

(67)عالمِ جلیل، حضرت شیخ سیِّد عبد الحی کَتَّانی حسنی مالکی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت  1305ھ فاس مغرب (یعنی مراکش) میں ہوئی۔ 12 رجب 1382ھ کو وصال فرمایا۔ نیس(Nice) فرانس کے قبرستان میں دفن کئے گئے۔ آپ  مُحَدِّث  عرب وعجم، عالمِ باعمل،  کئی کتب کے مصنف اورخلیفۂ اعلیٰ حضرت تھے۔ آپ کی کتاب”فِہْرِسُ الفہارس“ علمائے سِیَر(علمائے سیرت)میں معروف ہے۔ (نظامِ حکومتِ نبویہ مترجم، ص 27، الاعلام للزرکلی، 6/187)

 (68)مجازِطریقت  حضرت الحاج عبدالسّتّاراسماعیل کاٹھیاواڑی رضوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی رنگون (برما)کی صاحب ثروت اوردینی حمیت سے مالامال شخصیت کے مالک  اور جماعتِ رضائے مصطفیٰ کے عمائدین میں سے تھے۔رنگون پھرافریقہ میں مسلک حق اہلِ سنّت کی خوب اشاعت کی ،آپ کا وصال غالباً 19شوال 1354ھ کو افریقہ میں ہوا۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت،515تا516،تذکرہ مشاہیرالفقیہ ،115)

 (69)حضرت مولانا   عبدالستارصدیقی دہلوی مکی حنفی چشتی قادری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت مکہ مکرمہ میں1286 کو ہوئی اوریہیں11رجب 1355ھ کو وصال فرمایا۔آپ حافظِ قراٰن، فاضل مدرسہ صولتیہ، مدرس مسجدِحرام ،امام تراویح فی الحرم ، محدِّثِ وقت،مؤرخ ،مجازِطریقت اورکئی کتب کے مصنف تھے۔ آپ کی 35کتب میں فيض الملك المتعاليآپ کی مشہورکتاب ہے۔انھوں نے 18ذوالحجہ 1323ھ کو اعلیٰ حضرت سے اجازتِ حدیث حاصل کی۔ ( فيض الملك المتعالی،9/1 تا47، نثرالجواہروالدرر،708/1۔710)

(70)ناصِرُ الاسلام حضرت مولانا سیّد  عبدالسَّلام باندوی قادری علیہ رحمۃ اللہ البارِی ، عالمِ دین، قومی راہنما، خطیب، مصنّف، شاعر، پیرِ طریقت اور بانیِ انجمنِ امانت الاسلام تھے، 1323ہجری کو باندہ (یوپی،ہند) میں پیدا ہوئے اور 6 شوال 1387 ہجری میں وِصال فرمایا۔ مزارِ مبارک  پا پوش قبرستان ناظم آباد   کراچی میں ہے۔(تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت، ص 315۔ انوارِ علمائے اہلِ سنت سندھ، ص 479-483)

 (71)عیدُالاسلام،حضرت مولانامفتی حافظ   عبدالسلام رضوی جبل پوری رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ کی ولادت1283 ھ میں جبل پور (ایم پی ، ہند) میں ہوئی ،تعلیم والدِگرامی سے حاصل کی، اعلیٰ حضرت کے مریدو خلیفہ ہیں ،جبل پور میں دارُالافتاء عیدُالاسلام قائم کیا۔ 14 جمادی الاولیٰ 1371ھ کو جبل پورمیں وصال فرمایا، مزار شریف مشہورہے۔(برہان ملت کی حیات وخدمات، ص 28تا37)

(72)استاذالعُلَماء،حضرت مولانا حافظ عبد العزیز خان محدث بجنوری رضوی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ کی ولادت بجنور (یوپی، ہند) میں ہوئی، آپ عالم، مدرس اور شیخِ طریقت تھے، جامعہ منظر اسلام بریلی میں طویل عرصہ تدریس کی،8جمادی الاولیٰ 1369ھ  میں بریلی شریف میں وصال فرمایا ۔تدفین انجمن اسلامیہ بریلی قبرستان میں ہوئی۔(تذکرہ خلفائے اعلی حضرت، ص181)

(73)مُبلّغِ اسلام، حضرت مولانا شاہ عبدالعلیم صِدّیقی مِیرَٹھیرحمۃ اللہ علیہ دینی دنیاوی عُلوم کے جامِع، كئی زبانوں کے ماہر، درجن سے زائدکتب کے مصنف ،شُعْلہ بیان خطیب،متعد اداروں کے بانی اور تعلیماتِ اسلام میں گہری نظررکھنے والے عالمِ دین تھے، انہوں نے دنیا کے کئی مَمَالِک کاسفرکیا، ان کی کوشِشوں سے صاحبِ اِقتدارحضرات سمیت تقریباً پچاس ہزار(50,000)غیرمسلم دائرہِ اسلام میں داخل ہوئے ۔آپ 1310ھ کو میرٹھ(یوپی) ہند میں پیدا ہوئے اور وصال 22ذوالحجۃ الحرام 1374ھ کو مدینۂ منوّرہ میں ہوا، تدفین جنت البقیع میں  کی گئی۔ (تذکرہ اکابرِ اہلِ سنت،ص236تا242)

(74)عالمِ باعمل علاّمہ قاضی حافظ عبد الغفورقادری رضوی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ ،قاضی اعوان خاندان کے چشم وچراغ،فاضل دارالعلوم منظراسلام بریلی، استاذُ العُلَماء، آرمی خطیب (فیروزپورچھاؤنی) اور صاحبِ تصنیف ہیں، 1293ھ میں پیدا ہوئے اور 15رجب المرجب 1371 ھ میں وصال فرمایا، تدفین قبرستان پنجہ شریف (نزد مٹھا ٹوانہ ضلع خوشاب، پنجاب) پاکستان میں ہوئی، آپ کے دو رسائل تحفۃ العلماء اور عمدۃ البیان مطبوع ہیں۔(تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت، 366، عقیدۂ ختم النبوۃ، 13/507، 541 )

 (75) حافظُ المسائل حضرت علّامہ   عبدالکریم نقشبندی رضوی چتوڑی محدّث بھیروگڑھی رحمۃ اللہ علیہ، جیدعالمِ دین، واعظ، مدرس، مصنف، شیخِ طریقت اور فعّال عالمِ دین تھے۔ پیدائش چتوڑگڑھ میواڑ (راجستھان) ہند میں ہوئی اور وصال 15 صَفَرُالْمُظَفَّر (غالباً 1342ھ) کو بھیروگڑھ (ضلع اجین، ایم پی) ہند میں ہوا۔ (تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت، ص490تا500، ماہنامہ معارفِ رضا دسمبر 2014ء، ص20)

(76)رئیس مکہ مکرّمہ حضرت شیخ عبدالقادرکُرْدِی آفندی مکی  علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت  1275ھ کواَرْبِیل (کردستان) عراق میں ہوئی۔ عالمِ دین، مکۂ مکرمہ کے مُجاوِر، مُتَرْجِم، مصنف اور خلیفۂِ اعلیٰ حضرت تھے۔ 9رجب 1365ھ کو طائف میں وفات پائی اوروہیں دفن کئے گئے۔ (اجازات المتینہ، ص ،31،69، تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت، ص 67)

(77)شَیخُ الخُطَباء و الاَئِمّہ، امام الحرم حضرت سیّدنا شیخ عبدُاللہ ابو الخیر مِرداد مکّی حنفی قادری رحمۃ اللہ علیہکی ولادت  1285ھ کو مکّہ شریف میں ہوئی اور شہادت طائف میں (غالباً یکم صفر) 1343ھ کو ہوئی۔ آپ جیّد عالمِ دین، حنفی فقیہ، مؤرّخ، مصنف، مدرس اور مکّہ شریف کی مؤثر شخصیت تھے۔ علمائے مکّہ کے حالات و کرامات پر مشتمل ضخیم کتاب ”نشر النّور والزھر“ آپ کی یادگار ہے۔ (مختصر نشر النور والزھر، ص31، اما م احمد رضا محدث بریلوی اور علماءِ مکّۂ مکرمہ، ص21،89)

(78) سیاحِ مَمَالِکِ اِسلامیہ حضرت شیخ سیّدعبداللہ بن صدقہ دَحْلان حسنی مکی شافعی کی ولادت91 12 ھ کومکہ شریف میں ہوئی اور وِصال 10صفر1363ھ کوقاروت (Garut) صوبہ جاوا مغربی انڈو نیشا میں فرمائی۔آپ امام الحرم،ماہرعلم فلکیات، فقیہ اسلام، مقبول خاص وعام،کئی مَساجد،مَدارِس اور تنظیمات کے بانی تھے ۔(سالنامہ معارف رضا 1999ء، ص198)

 (79) شہزادہ رئیس مکہ  شیخ عبداللہ فرید مکی کُرْدِی رئیسِ مکہِ مکرمہ حضرت شیخ عبدالقادرکُرْدِی آفندی مکی کے فرزند ارجمند تھے ،ان کو اعلیٰ حضرت نے  9صفرالمظفر1324ھ کو  خلافت سے نواز  ا۔ (اجازات المتینہ، ص ،31،69)

(80)شیخ الواعظین، حضرت مولانا مفتی  عبداللہ کوٹلوی نقشبندی قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کوٹلی لوہاراں غربی (سیالکوٹ) پاکستان میں 1281ھ کو ہوئی اور یہیں 13 صَفَرُالْمُظَفَّر 1342ھ کو وصال فرمایا، عبداللہ شاہ قبرستان میں تدفین ہوئی، آپ عالمِ باعمل، واعظِ خوش بیان، صاحبِ دیوان شاعر اور مصنّف تھے، شعری مجموعہ ”انواع احمدی“ مطبوع ہے۔(اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی اور علمائے کوٹلی لوہاراں، ص13،تذکرہ اکابرِ اہلِ سنّت، ص83)

(81) استاذالعلماحضرت مولاناعلامہ قاضی حافظ عبدالواحد رضوی کی ولادت 1302ھ کوعلاقہ امازئی گڑھی کپورہ ضلع مردان (خیبرپختون خواہ )پاکستان کے علمی گھرانے میں ہوئی اوریہیں 14ربیع الاول1381ھ کووصال فرمایا،تدفین گھڑی امازئی کے سنڈاسرقبرستان  میں ہوئی۔آپ فاضل دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف ،عالم باعمل ،زاہدوعبادت گزار، امام و خطیب جامع مسجدمیاں گان اوربانی مدرسہ تعلیم الاسلام  ہیں۔ (حیات خلیفہ اعلیٰ حضرت مولوی عبدالواحد الرضوی، ص،24، 63، 42، 44)

 (82)مجاہدِدین وملت حضرت مولاناقاضی عبدالوحید فردوسی رضوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی  کی ولا د ت 1289 ھ عظیم آبادپٹنہ بہار ہندمیں ہوئی ،آپ متحرک عالمِ دین، صاحبِ ثروت ،بہترین واعظ ،نعت گوشاعر ،مفکروراہنماتھے ، آپ نے مجلسِ عالی حمایت  سنّتِ محمدی بنائی ،پریس بنام مطبعِ اعوانِ اہلسنت وجماعت (مطبع حنفیہ )کا آغازکیا ،دینی رسالہ تحفہ ٔ حنفیہ (مخزنِ تحقیق) جاری کیا اور مدرسہ اہلسنت وجماعت (مدرسہ حنفیہ) قائم فرمایا۔آپ کاوصال 19 ربیع الاول 1326ھ کو ہوااور درگاہِ حضرت پیرجگ جوت جٹھلی شریف پٹنہ (بہار)ہندمیں دفن کئے گئے۔(  سالنامہ معارف رضا2005 ء ، 251،تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت ص191،تذکرہ علمائے اہلسنت ص153)

 (83)تِلمیذِ اعلیٰ حضرت مولاناعزیز الحسن خان رضوی پھپھوندی  کی ولادت با سعادت قصبہ پھپھوند ( ضلع اٹاوہ) ہند میں ہوئی اور1362 ھ  کو وِصال فرمایا، تدفین قصبہ پھپھوند شریف (Phaphund،ضلع اوریا،اترپردیش) ہند میں ہوئی۔آپ فاضل دارالعلوم منظراسلام ، علم وعمل کے جامع اورپیکراخلاص وتقوی تھے۔(تذکرہ خلفائے اعلی حضرت،ص183۔تذکرہ علمائے اہلِ سنت، ص183، تذکرہ محدث سورتی ص 256)

 (84) خلیفہ وتِلمیذِ اعلیٰ حضرت، حضرت مولاناحکیم مفتی سید عزیز غوث بریلوی قادری رضوی کی ولادت با سعادت بریلی شریف (یوپی)ہند میں ہوئی۔ 1363ھ کو وِصال فرمایااور بریلی شریف (یوپی)ہندمیں آسودۂ خاک ہوئے۔آپ اولین فاضلِ دارالعلوم منظر اسلام، مفتی اسلام اورجَیِّدعالمِ دین تھے۔(جہان مفتیٔ اعظم ص1075،تذکرۂ علمائے اہل سنت ص 183،ماہنامہ اعلیٰ حضرت صدسالہ منظراسلام نمبرقسط1،مئی 2001 ص243 )

(85)عالم جلیل،حضرت سید علوی بن حسن الکاف حضرمی علوی خاندن کے چشم چراغ تھے۔ ( الاجازت المتینۃ، ص46 )

(86)محدِّثُ الحرمین حضرت شیخ عمر بن حَمدان مَحْرَسی مالکی علیہ رحمۃ اللہ القَوی، 1291ہجری میں مَحْرَس (وِلایت صَفَاقُس)تیونس میں پیدا ہوئے اور 9 شوال 1368ہجری کو مدینۂ منورہ میں وِصال فرمایا۔ محدّثِ کبیر، تقریباً 35 اکابرین سے سندِ حدیث لینے والے، حرم شریف اور مسجدِ نبوی کے مدرّس اور متعدد اکابرینِ اَہلِ سنّت کے اُستاذ ہیں۔ آپ نے کم و بیش44 سال حرمین شریفین میں درسِ حدیث دینے کی سعادت پائی۔(الدليل المشير ص 318۔امام احمد رضا محدثِ بریلوی اور علماء مکہ مکرمہ، ص 161۔ دمشق کے غلایینی علما، ص 26)

(87)حضرت صوفی عنایت حسین قادری رضوی مُریدو خلیفہ اعلیٰ حضرت اوربریلی شریف (یوپی)ہندکے رہنے والے تھے۔(مکتوبات امام احمدرضا خان بریلوی،حاشیہ،ص107)

(88)حامیِ سنّت  حضرت الحاج عیسیٰ محمدخان گجراتی  رضوی  دھوراجی علیہ رحمۃ اللہ القَوی (ضلع راجکوٹ،ریاست گجرات) ہندکی صاحبِثروت شخصیت،مجازِطریقت،مسائلِ فقہیہ پر عبوررکھنے والے ،بہترین واعظ ، مدرسہ مسکینیہ دھوراجی اور جماعتِ رضائے مصطفیٰ کے  عمائدین میں شامل تھے۔آپ کا وصال جمادی الاولیٰ 1363ھ دھوراجی گجرات ہند میں ہوا۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت، 513 تا514 ،مشاہیرالفقیہ ،183)

(89)حضرت مولانا عبدالسلام اعظمی گھوسوی کا تعلق مدینۃ العلماگھوسی (ضلع اعظم گڑھ،یوپی)سےہے، آپ  صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی کے چچازادبھائی واستاذمولانا محمدصدیق اعظمی اورعلامہ وصی احمدمحدث سورتی کے شاگرد تھے ، آپ کو 1330ھ /1912ءاپنے استاذعلامہ صدیق صاحب کی وفات کے بعدمخدوم الاولیاء   حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی کچھوچھوی نے  مدرسہ لطیفیہ اشرفیہ مصباح العلوم مبارک پورکا صدرمدرس بنایا،اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان نے انہیں 1336ھ کو خلافت عطافرمائی،آپ کا وصال 12صفرالمظفر 1336ھ ہوا۔(حیات مخدوم الاولیا ،290،تذکرہ محدث سورتی،269، دبدبہ سکندری رامپور شمارہ نمبر 17 جلد54 دسمبر 1917)

غ

 (90)خلیفۂِ اعلیٰ حضرت مولاناحکیم غلام احمدشوق فریدی نقشبندی جماعتی رضوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1284ھ محلہ                              سرائے کبیرسنبھل(نزدمرادآباد،یوپی)ہند میں ہوئی اور وصال23ربیع الاول 1362ھ کومرادآبادمیں ہو ا ،مزارشاہ باقی قبرستان میں درگاہ حضرت مظہراللہ شاہ صفی سے متصل جانبِ شمال مغرب ہے،آپ عالمِ دین ،حاذق طبیب ،صاحبِ دیوان شاعر،قومی راہنما،سجادہ نشین درگاہ شیخ کبیرکلہ رواں، تیس سے زائدکتابوں کےمصنف    اورصدرالافاضل کے خالہ زاد بھائی تھے۔ (تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت 330تا339، تذکرہ خلفائے امیر ملت،ص116،121)

(91) فقیہ دوراں، حضرتِ علّامہ مولانا قاضی ابوالمُظفّر غلام جان ہزاروی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فاضل دارالعلوم مظہرِ اسلام بریلی شریف، بہترین مدرس، مفتیِ اسلام اور صاحبِ تصنیف ہیں۔ آپ کی ولادت 1316ھ اوگرہ مدنی صحرا (مانسہرہ، پاکستان) میں ہوئی اور وصال 25 محرمُ الحرام 1379ھ کو فرمایا، آپ   لاہور میں غازی عِلْم دین شہید کے مزار کے جنوبی جانب محوِ استراحت ہیں۔ ”فتاویٰ غلامیہ“ آپ کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے۔(حیات فقیہ زماں،تذکرہ اکابرِ اہلِ سنت، ص299تا300)

(92)شیخُ الاصفیاء حضرت مولانا سیّد غلام علی اجمیری چشتی رضوی  علیہ رحمۃ اللہ القَوی عالمِ باعمل، عاشقِ سلطانُ الہند، مُحِبِّ  اعلیٰ حضرت،حسنِ اخلاق کے پیکر اور خادمِ درگاہِ اجمیر شریف تھے 15ربیعُ الاوّل 1374ھ کو وصال فرمایا، مزارِ خواجہ غریب نواز سے متصل قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔(تجلیاتِ خلفائے اعلیٰ حضرت، ص 471تا474)

 (93) استاذالعلماء حضرت مولانا سیّد غِیاث الدّین حسن شریفی چشتی رضوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادتِ باسعادت1304ھ کو قصبہ رجہت (ضلع گیا، صوبہ بہار) ہند میں ہوئی۔ آپ فاضل دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف، مدرس، مصنف، واعظ اور شیخِ کامل تھے۔ اردو، فارسی اور عربی تصانیف میں ”غِیِاث الطالبین“ اہم ہے۔ آپ نے 13 محرّمُ الحرام 1385ھ میں وصال فرمایا، مزارِ مبارک خانقاہِ کبیریہ شہسرام (ضلع آرہ، صوبہ بہار) ہند کے احاطۂ قبرستان میں ہے۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت، ص364تا373،ماہنامہ معارفِ رضا، اگست2007ء، ص30تا35)

ف

(94)سیِّدُ السادات حضرت مولانا پیر سیِّد فتح علی شاہ  نقوی قادِری علیہ رحمۃ اللہ القَوی، عالِمِ دین، واعِظ، شاعِر اورصاحِبِ تصنیف تھے، 1296ھ میں پیدا ہوئے اور 9رجب 1377ھ کو وِصال فرمایا، آپ کا مزار جامِع مسجدسیِّد فتح علی شاہ سے مُتَّصِل محلّہ کھراسیاں جیرامپور کھروٹہ سیداں ضلع ضیاکوٹ (سیالکوٹ، پنجاب پاکستان) میں ہے۔(تذکرہ اکابرینِ اَہْلِ سنّت، ص 367)

ق

(95)تلمیذِ اعلیٰ حضرت، امام السالکین حضرت علّامہ سیّد ابوالفیض قلندر علی گیلانی سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش  1312ھ میں کوٹلی لوہاراں شرقی (ضلع   سیالکوٹ) پاکستان میں ہوئی۔ آپ جیّد عالمِ دین، فاضلِ دارُالعلوم منظرِ اسلام بریلی، بہترین خطیب، صاحبِ تصنیف اور صاحبِ کرامت شیخِ طریقت تھے۔ 27 صَفَرُالْمُظَفَّر 1377ھ کو وصال فرمایا، مزارمبارک ہنجروال (ملتان روڈ)  لاہور میں ہے۔(تذکرہ مشائخ سہروردیہ قلندریہ ص234تا289، تذکرہ علمائے اہلسنت وجماعت لاہور، ص302)

ک

(96) عاشِق اعلیٰ حضرت حاجی کِفایت اللہ خان قادری رضوی کی ولادت بریلی شریف میں تقریبا1300 ھ میں ہوئی اور وصال 1359ھ کے بعدہوا۔آپ اعلیٰ حضرت کے خادمِ خاص ،متقی وپرہیزگار،محبوب خلیفہ اورمُجاوِرِخانقاہ رضویہ تھے۔ خانقاہ رضویہ میں   تعویذات دینے کی ذمہ داری ان کے سپردتھی۔ (تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت،ص141تا149)

ل

(97)ناصرِ ملّت حضرت مولانا محمد لعل خان قادری رضوی رحمۃ اللّٰہ علیہ خادمِ سنّت، مصنّفِ کُتب اور عالی ہمت ہستی کےمالک تھے۔ پیدائش 1283ھ ویلور (مدراس،تامل ناڈو) ہند میں ہوئی۔ 15ذوالقعدۃ الحرام 1339ھ کو وصال فرمایا اور کلکتہ (ہند)  میں آسودۂ خاک ہوئے۔(تذکرہ خلفائے اعلی حضرت، ص317،321۔ تجلیاتِ خلفائے اعلیٰ حضرت، ص 554)

م

(98) اما م وخطیب مسجدِنَبَوِیْ سیّدمامون بَری مدنی حنفی قادری کا تعلق افریقی ملک تُوْنُسْ کے سیِّدبَری قبیلے سے ہے۔ آپ جیدعالم، مفتیٔ اَحناف مدینہ منورہ، اُستاذ العُلَماء اور بہترین خطیب تھے۔(تاریخ الدولۃ المکیۃ ص 82،188،تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت، ص 76تا79،علمائے عرب کے خطوط ص45 )

(99)اَدِیْبِ جَلیل،حضرت شیخ  مامون عبدالوہاب اَرْزَنْجانی مدنی قادری کی ولادت چودہویں صدی کے شروع میں اَرْزَنْجان (مشرقی اناطولیہ) ترکی میں ہوئی۔ وصال 1375ھ میں فرمایا۔آپ بہترین عالم دین،جامع علوم جدیدہ وقدیمہ ، روحانی اسکالر، صحافی،بانی اخبارالمدینۃ المنورہ(عربی و ترکی) ومجلہ (میگزین) المناھج دمشق اورکئی کُتُب کے مُصَنِّف تھے۔ ( علمائے عرب کے خطوط ص38تا40 ،الاجازت المتینۃ، 36،38 )

(100) واعِظِ اسلام حضرت مولانامحمداسماعیل پشاوری قادری رضوی عالِم ،واعِظ اورمجَازِطریقت تھے۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت،  664)

 (101) صوفی باصفا ثنا خوانِ مصطفیٰ ،حضرت مولانا حافظ محمد اسماعیل فخری چشتی رضوی کی ولادت ریاست محمود آباد(ضلع     سیتا پور، یوپی ) ہندغالباً 1300 ھ میں ہوئی۔یہیں 1371 ھ میں وِصال فرمایا اور دَفْن کئے گئے۔فاضل مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت ،بانی مدرسہ نظامیہ محمودآباد،اُستاذالعُلَمااوررِقت وسوز کے مالک تھے۔ (تذکرہ خلفائے اعلی حضرت، ص211۔تذکرہ علمائے اہلِ سنت ،ص62،تذکرہ محدث سورتی،ص258 )

 (102) حضرت پروفیسرالحاج محمد الیاس برنی چشتی قادِری  فاروقی علیہ رحمۃ اللہ القَوی  کی ولادت برن (بلندشہر،یوپی) ہند میں1307ھ کو ہوئی اوریہیں 22رجب  1378ھ کووصال ہوا۔آپ نے دنیاوی علوم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،  لکھنؤ اور علمِ حدیث پیلی بھیت سے حاصل کیا،آپ صدرشعبہ ِٔمعاشیات وناظم شعبہ دارالترجمہ جامعہ عثمانیہ حیدرآباددکن، نعت گو شاعر،مصنّفِ کتب اورماہرِمعاشیات تھے۔ 33کتب میں سے قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ اورعلم المعیشت مشہور ہوئیں۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت ،ص658تا661،سالنامہ معارف رضا1984ء،ص250)

(103) ابو حنیفہ صغیر، امین الفتویٰ حضرت سیّدنا شیخ سیّد ابو الحسین محمد بن عبدالرحمن مرزوقی مکی حنفی رحمۃ اللہ علیہکی ولادت 1284 ھ کومکہ مکرّمہ میں ہوئی۔ آپ حافظُ القراٰن، فقیہِ حنفی، عہدِعثمانی میں مکّہ شریف کے قاضی، تراویح کے امام اور عہدِ ہاشمی میں وزارتِ تعلیم کے بڑے عہدے پر فائز رہے۔ 25 صَفَرُالْمُظَفَّر 1365ھ کو وصال فرمایا اور جنّۃُ المعلٰی مکّۂ مکرّمہ میں تدفین ہوئی۔ (تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت، ص80تا83،حسام الحرمین، ص79)

(104)فاضل نوجوان حضرت سیّدمحمدبن عثمان دحلان مکیرحمۃ اللہ علیہ کو اعلیٰ حضرت نے مکہ شریف سے مدینہ منورہ  سفرشروع کرتے وقت24صفر1324ھ کو اجازت وخلافت عطافرمائی ۔( الاجازات المتینۃ ص 65، ملفوظات اعلیٰ حضرت  215)

(105) ہمدردِ مِلّت، حضرت مولانا حافظ سیّد محمد حسین میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1290ھ بریلی شریف (یوپی) ہند میں ہوئی ۔آپ حافظ القراٰن، صاحبِ ثروت عالمِ دین اور دین کا درد رکھنے والے راہنما تھے۔ آپ نے میرٹھ میں دینی کُتُب شائع کرنے کیلئے طلسمی پریس اور یتیموں کے لئے مسلم دارالیتامٰی والمساکین قائم فرمایا اور جب پاکستان آئے تو گُلبہار میں عظیم الشان جامع مسجد غوثیہ کی بنیاد رکھی۔ آپ نے 14 ربیع الاوّل 1384ھ میں وصال فرمایا، تدفین قبرستان پاپوش نگر  کراچی  میں ہوئی۔(تذکرۂ خلفائے اعلیٰ حضرت، ص213،سالنامہ معارفِ رضا 2008ء، ص236-238)

(106) برادرِ  اعلیٰ حضرت مفتی محمد رضا خان نوری رضوی رحمۃ اللہ علیہ علمُ الفَرائض (وراثت کےعلم) کے ماہر تھے۔1293ھ میں پیداہوئے اور21شعبان 1358ھ میں وصال فرمایا،مزار قبرستان بِہَاری پور نزد پولیس لائن سٹی اسٹیشن بریلی شریف  (یوپی، ہند) میں ہے۔ (معارف رئیس الاتقیاء،32،تجلیات تاج الشریعہ،89،تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت ،91)

(107) شیخ الدلائل حضرت شیخ سیِد محمد سعید بن محمد مالکی قادری مغربی مدنی ادریسی کی  ولادت با سعادت اندازاً1270ھ مدینہ شریف یا مراکش  میں ہوئی۔1330ھ کے بعدکسی سال وِصال فرمایا ۔آپ جیدعالم ،مُدَرِّس مسجدِ نَبَوِیْ شریف ،شیخِ طریقت، مُقَرِّظُ الدولۃ المکیۃ اورحُسام الحرمین،اورمَرْجَع خلَائق شخصیت   تھے۔(تاریخ الدولۃ المکیۃ ص120 ، الاجازات المتینۃ ص 54، ملفوظات اعلیٰ حضرت 921)

 (108) فقیہِ اعظم حضرت علامہ محمد شریف محدث کوٹلوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1277ھ میں کوٹلی لوہاراں ( سیالکوٹ) پاکستان میں ہوئی۔ 6ربیع الآخر1370 ھ کو وصال فرمایا، آپ کا مزار مبارک کوٹلی لوہاراں غربی محلہ نکھوال (  سیالکوٹ) پاکستان میں جامع مسجد شریفی سے متصل ہے۔ آپ عالمِ باعمل،شیخِ طریقت، مفتیِ اسلام، استاذ العُلَماء، واعظِ خوش بیان،  رئیس التحریر ہفتہ روزہ اخبار الفقیہ ، مناظرِ اسلام،  شاعروادیب اور صاحبِ تصنیف تھے۔ (تذکرہ فقیۂ اعظم،ص97-100)

(109)مفتیِ مالِکِیَّہ شیخ محمدعلی بن حسین مالِکِی مکی علیہ رحمۃ اللہ القَوی مُدَرِّسِ حَرَم، مصنفِ کتبِ کثیرہ اور امامُ النَّحْو ہیں، 1287ھ میں مکہشریف میں پیدا ہوئے اور طائف میں 28شعبان 1367ھ کو وصال فرمایا۔حضرت  سیّدُناعبد اللّٰہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے مزار کے قریب دفن ہونے کی سعادت پائی۔(مختصرنشرالنوروالزھر، ص181،اما م احمد رضا محدث بریلوی اور علماء مکہ مکرمہ، ص 136تا 149)

(110)مفتی محمد عمرالدّین ہزاروی، مفتیِ اسلام، مُصَنِّف، نامور علمائے اسلام میں سے ہیں۔ طویل عرصہ بمبئی میں  خدمتِ دین میں مصروف رہے۔ وصال 14شعبان 1349ھ میں فرمایا، مزار شریف کوٹ نجیبُ اللّٰہ (ضلع   مانسہرہ) خیبر پختون خواہ پاکستان میں ہے۔ (تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت،622تا627)

(111)عالمِ باعمل حضرت علّامہ محمد عمر بن ابوبکر کھتری رَضَوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ولادت 1291ھ  کو پور بندر (صوبہ گجرات) ہند میں ہوئی اور وصال 5 ذوالقعدۃ الحرام  1384ھ کو ہوا۔ مزار پور بندر (گجرات) ہند میں ہے۔ (تجلیاتِ خلفائے اعلیٰ حضرت، ص 532،533)

(112)پابندِسنت حضرت مولاناسیدمحمدعمرظہیرالدین اِلٰہ آبادی قادری رضوی کی ولادت غالباً موضع خلیل پورپرگنہ نواب گنج  ضلع الہ آباد(یوپی) ہندمیں ہوئی اوریہیں وصال فرمایا۔آپ  فاضل مدرسۃ الحدیث پیلی بھیت ،عالمِ باعمل اور مجازِطریقت تھے۔ (تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت،ص13 ،تذکرہ محدث سورتی ،ص 269)

(113)جامع جمال وافتخار مولاناسیدمحمدعمرمطوف بن سید ابوبکررشیدی مکی،عالم دین ، عالی ہمت، جامع اور حُجاج کو حج و طواف کرانے پر مَعْمُوْر تھے۔ اعلیٰ حضرت نے دوسرے حج کے موقع پر ان کے گھرقیام فرمایا اور انہیں 11صفر 1324ھ کو خلافت اوراجازت عطافرمائیں۔ (الاجازات المتینہ، ص ،9،55،تذکرۂ خلفائے اعلیٰ حضرت،112تا116)

(114) شیخِ طریقت حضرت مولانا قاضی محمدقاسم میاں رضوی ،عالمِ دین ،مَجازِطریقت،حامیِ سنت اورامام جامع مسجد گونڈل  پوربندر(کاٹھیاواڑ گجرات)ہند  تھے۔(خطوط مشاہیربنام احمدرضا ،ص314)

 (115) مُحدِّثِ اَعظم ہند حضرت مولانا سیِّد محمد کچھوچھوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی عالِمِ کامل، مُفسِّرقراٰن، واعِظِ  دِلنشین، صاحِبِ  دِیوان شاعِر اور اکابرینِ اَہلِ سنّت سے تھے۔1311ھ میں پیدا ہوئے اور 16رجب 1381ھ میں وِصال فرمایا۔ مزارمُبارَک کچھوچھہ شریف (ضلع امبیڈکر نگر، یوپی) ہِند میں ہے۔ 25 تصانیف میں سے ترجمۂ قراٰن ”مَعارِفُ القراٰن“ کو سب سے زیادہ شُہرت حاصل ہوئی۔ (تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت،ص 219تا224)

(116) عالِمِ ربّانی حضرت مولانا مفتی قاضی ابوالفخرمحمد نور قادِری رَضَوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی عالِمِ باعمل، شاعِر، مُصَنِّف، اُردو اور عربی زبان کے ماہر تھے۔ 13رَجَبُ الْمُرَجَّب1307ھ میں پیدا ہوئے اور   صفرالمظفریاربیع الاول 1333ھ  میں وصال ہوا۔ آپ کا مزار پنجاب (پاکستان)  کے شہر چکوال سے مُتّصِل مَوْضَع اوڈھروال کے قبرستان میں ہے۔ آپ نے 15 کُتُب تالیف فرمائیں۔ (تذکرہ علمائے اَہْلِ سنّت ضلع چکوال، ص 45،47،118)

(117) شہزادۂ اعلیٰ حضرت، مفتیِ اعظم ہند، حضرت علّامہ مولانا مفتی محمدمصطفےٰ رضا خان نوری رضوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1310ھ رضا نگر محلّہ سوداگران بریلی (یوپی،ہند) میں ہوئی۔ آپ فاضل دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف، جملہ علوم و فنون کے ماہر، جید عالِم، مصنفِ کتب، مفتی و شاعرِ اسلام، شہرۂ آفاق شیخِ طریقت، مرجعِ علما و مشائخ اور عوامِ اہلِ سنّت تھے۔ 35سے زائد تصانیف و تالیفات میں سامانِ بخشش اور فتاویٰ مصطفویہ مشہور ہیں۔ 14 محرّمُ الحرام 1402ھ میں وصال فرمایا اور بریلی شریف میں والدِ گرامی امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کے پہلو میں دفن ہوئے۔ (جہانِ مفتی اعظم، ص64تا130)

(118) اُستاذالعُلَماحضرت مولانامحمدیوسف افغانی مہاجر مکی، جید عالم، مدرس مدرسہ صولتیہ مکۂ  معظمہ اور صاحبِ فَضائل و مَنَاقِب تھے۔ 24 صفر 1324ھ کو اعلیٰ حضرت سے خلافت کی سعادت پائی۔ ( الاجازت المتینۃ، ص47،تذکرۂ خلفائے اعلیٰ حضرت، 117 )

(119) خلیفۂِ مفتیِ اعظم الور،شیخِ طریقت حضرت مولانا مفتی سیّدمحمودالحسن زیدی الوری نقشبندی رضوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی جیّدعالمِ دین ،فاضل دارالعلوم مُعینیہ عثمانیہ اجمیرشریف،مدرس مدرسہ اسلامیہ اودے پور،صدرانجمن خادم الاسلام الور اور جانشین درگاہِ سیّدارشادعلی مجددی الوری علیہ رحمۃ اللہ القَوی تھے۔آپ کا وصال 16جمادی الاولیٰ 1365ھ کو الورمیں ہوااورتدفین بیرون لادیددروازہ کےمتصل ہوئی۔ ( تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت501تا504 ،مشاہیرالفقیہ ،190،191)

 (120) عالمِ باعمل حضرت علّامہ محمود جان خان قادری جام جودھ پوری پشاوری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ولادت 1255ھ کو پشاور پاکستان میں ہوئی اور 3 صَفَرُالْمُظَفَّر 1370ھ کو وصال فرمایا، مزار مبارک جام جودھ پور (ضلع جام نگر،گجرات) ہند میں ہے۔ آپ عالمِ دین، خطیبِ اہلِ سنّت، شاعرِ اسلام اور جام جودھ پور کی ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ منظوم حیاتِ اعلیٰ حضرت ”ذکرِ رضا“ آپ کی یادگار ہے۔ (شخصیاتِ اسلام، ص 136تا138)

(121) جامع علوم و فُنون حضرت مولانا حافظ مشتاق اَحمد صِدّیقی کانپوری علیہ رحمۃ اللہ القَوی ، استاذُ العُلَماء، واعِظ، شیخ الحدیث والتفسیرتھے۔ 1295ہجری میں سہارن پور (یوپی) ہند میں پیدا ہوئے اور کانپور ہند میں یکم شوال 1360ہجری کو وِصال فرمایا۔ آپ کو بساطیوں والے قبرستان پنجابی محلہ کانپور(یوپی) ہندمیں والدِ گرامی علامہ احمد حسن کانپوری کے مزار سے متصل دفن کیا گیا۔(تذکرہ محدثِ سورتی، ص289-290)

(122) حضرت  شیخ سید مصطفیٰ  خلیل آفندی مکی ،حَسَب نَسَب کے اِعتبارسے اعلیٰ ،عقل وذَہانت کے مالک،صِدق وَفا سے مُتَّصِفْ اوربرادرمُحافِظِ کُتُبِ حَرَم سیداسماعیل تھے ۔آپکا وِصال1229 ھ میں ہوا ۔(الاجازات  المتینہ ص 8،14،30،تذکرۂ خلفائے اعلیٰ حضرت ص119)

(123) بدرِمُنیر حضرت مولانا منیرالدین بنگالی رضوی ،عالم دین ،مَجازِطریقت اورصاحبِ کَرامت بُزُرْگ تھے ۔آپ  متحدہ بنگال ہند کے رہنے والے تھے۔حصول علمِ دین کے بعد11 سال بریلی شریف میں رہے ۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت،ص 555)

(124) عاشِق رضا حضرت میرمؤمن علی مؤمن جنیدی رضوی حافِظِ قرآن ،بہترین نعت خواں ،صاحبِ دِیوان شاعر اور بانیِ مدرسۃ العلوم مسلمانان تاجپور (ناگپور، مہاراشٹرہند) تھے۔ آپ کا دِیوان  ’’تحفۂ مؤمن ‘‘شائع شدہ ہے۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت،ص  664)

ن

(125) مفتیِ آگرہ حضرت علامہ مولانا حافظ نِثار احمدکانْپوری رضویرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ولادت 1297ھ کانپور (یوپی) ہند میں ہوئی۔ غالباً 16ذوالحجہ 1349ھ کو حج سے واپسی پر جَدّہ شریف میں وصال فرمایا اور جنّت البقیع میں دَفْن ہوئے۔خوش اِلحان حافظ وقاری، عالمِ باعمل،سِحْربَیاں خَطیب ،حاضِردماغ مُناظِر اور قومی رَاہنُماتھے۔(تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت، ص349-تذکرہ محدثِ سورتی،ص292)

(126) خطیب العُلَماءحضرت مولانانذیراحمدخُجندی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1305ھ کو میرٹھ(یوپی )ہند میں ہوئی  اور وصال  6  شعبان 1368ھ کو مدینۂِ منوّرہ میں ہو۱۔ تدفین جنۃ البقیع میں کی گئی۔آپ عالمِ باعمل ،خوش الحان قاری،امام جامع مسجدخیرالدین بمبئی،بہترین قلمکار، مجاہدِتحریک آزادی اورقادرالکلام شاعرتھے۔ (جب جب تذکرہ ٔ خجندی ہوا، 15،84 ،193 )

(127) صدرُالاَفاضِل حضرت علامہ حافظ سیّد نعیم الدّین مُرادآبادی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہکی ولادت 1300ھ مُرادآباد(ہند) میں ہوئی اور آپ نے 18ذوالحجہ 1367ھ کو وفات پائی۔دینی عُلوم کے ماہِر، شیخُ الحدیث، مُفَسِّرِقراٰن، مُناظِرِ ذيشان، مُفتیٔ اسلام ،درجن سے زائد کُتُب کے مصنف،قومی رَاہنما وقائد،شیخِ طریقت، اسلامی شاعر،بانیِ جامعہ نعیمیہ مُرادآباد، اُستاذُالعُلَماءاوراکابرینِ اہلِ سنّت میں سے تھے۔کُتُب میں تفسیرِخزائنُ العِرفان مشہور ہے۔(حیات صدرالافاضل،ص9تا19)

(128)سیدالسادات حضرت مولاناعلامہ سیدنوراحمدچاٹگامی رضوی 1279ھ کو چاٹگام میں پیداہوئے اوریہیں 1345ھ میں وصال فرمایا۔فاضل مدرسہ فرنگی محل لکھنؤ،مُریدوخلیفہ اعلیٰ حضرت اوربہترین واعِظ تھے۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت، 665تا668)

(129) فخرالاماثل حضرت مولانا نورالحسن لکھنوی،ہندکے  شہرلکھنوکے رہنے والے تھے ۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت  353)

(130) قُطْبِ وقت حضرت مولانا سیّدنُورُ الحَسَن نَگِینْوِی نقشبندی قادِری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہکی  ولادت 1315ھ کو مَحَلّہ سادات،نگینہ شریف ضلع بَجْنَور (اُترپردیش) ہند میں ہوئی اور 22 ذوالحجہ1393ھ کو وصال فرمایا،مزار مواز والہ (نزدموچھ ضلع میانوالی،پنجاب)پاکستان میں ہے۔آپ عالمِ باعمل،شیخِ طریقت اور ولیِ کامل تھے۔(مقاماتِ نور، ص62،204-فیضانِ اعلی حضرت، ص680)

ہ

(131) سلطانُ الواعظین مولانا سیّد   ہدایت رسول لکھنوی علیہ رحمۃ اللہ القَوی واعظ، شیخِ طریقت، شاعر، مصنف  اورتلمیذوخلیفۂ اعلیٰ حضرت تھے، تصانیف میں ”فیوضِ ہدایت“ مطبوعہ ہے،غالباً1276 ھ مصطفےٰ آباد(رام پور،یوپی،ہند) میں پیدا  ہوئے، 23 رمضان المبارک 1332ھ کو یہیں وصال فرمایا۔ (تذکرۂ خلفائے اعلی حضرت، ص353،363)

ی

 (132) استاذُالحُفّاظ، حضرت مولانا حافظ یعقوب علی خان پیلی بھیتی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی ولادتِ باسعادت پیلی بھیت (یوپی) ہند میں ہوئی اور 27 محرمُ الحرام1357ھ کو وصال فرمایااوریہیں پاکھڑ(یاموٹاپاکر)والی پُرانی جامع مسجد (محلہ بھورے خاں) سے متصل باغ میں  دفن کیے گئے۔ آپ فاضل مدرَسۃ الحدیث  پیلی بھیت ،حافظ القران ،مدرس مدرسۃ الحدیث ومدرسہ احمدیہ جامع مسجد،  ولیُّ اللہ اور استاذُالحُفَاظ تھے۔(تجلیات امام احمدرضا ، ص53تا55،161، تذکرہ محدثِ سورتی، ص 269)

(133) حکیمِ اہلِ سنت حضرت مولاناحکیم یعقوب علی خان رامپوری قادری کی ولادت ایک علمی گھرانے میں غالباً 1260 ھ کو قصبہ بلاسپورتحصیل وضلع رامپور (یوپی)ہند میں ہوئی۔آپ فاضل دارالعلوم منظراسلام، جیدعالم ،بہترین واعظ، عالم باعمل اورحاذِق طبیب تھے۔(تذکرہ کاملان رام پور ص 454،تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت ،341تا350)

(134)زینتُ القُرّاء، حضرت مولانا قاری حافظ  یقین الدّین رضوی عَلَیْہ رَحْمَۃُ اللہ القوی حافظ القراٰن، فاضل دارالعلوم منظرِ اسلام،شیخ طریقت اور صاحبِ تصنیف تھے، آستانۂ رضویہ کی مسجد میں نمازِ تراویح پڑھاتے تھے،25سال مسجد پٹھان محلہ ضلع بالاسور(اڑیسہ) ہندمیں خدمات سرانجام دیں ۔یہیں 2 جُمادی الاُخریٰ 1353ھ کو وصال  فرمایا۔مزاراحاطۂِ قدمِ رسول قبرستان میں ہے۔( تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت 534تا540)


قرآنِ کریم کی کل انیس(19)  آیات ہیں جن میں انبیاءِ کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی بشریت کا بیان ہے۔

ان انیس (19) آیات میں سے پندرہ (15) وہ آیات ہیں جن میں کفار ومشرکین نے انبیاء کو اپنے جیسا بشر کہا ہے۔ اور قرآن نے انکے اقوال کو حکایت کیا ہے۔ جبکہ(4) آیات ایسی ہیں جن میں انبیاء کرام علیہم السلام نے اپنے آپ کو بشر کہا ہے۔ آئیے پہلے ان انیس (19) آیات پر ایک نظر ڈالتے ہیں پھر انکی تفسیر وتشریح بھی مستند علماء کی زبانی سنیں گے۔ یہاں چند امور ہیں:

پہلا امر:

کفار ومشرکین کی یہ عادت تھی کہ وہ انبیاءِ کرام علیہ السلام کو اپنے جیسا بشرِ محض کہتے تھے اوراسکے ساتھ کوئی وصف یا امتیازی قید نہیں لگاتے تھے جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں۔

آیات بالترتیب یہ ہیں:

(١)..﴿وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖۤ اِذْ قَالُوۡا مَاۤ اَنۡزَلَ اللہُ عَلٰی بَشَرٍ مِّنۡ شَیۡءٍ﴾ [الأنعام:91]

(٢)..﴿فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوْمِہٖ مَا نَرٰىکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرٰىکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیۡنَ ہُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاۡیِۚ وَ مَا نَرٰی لَکُمْ عَلَیۡنَا مِنۡ فَضْلٍۭ بَلْ نَظُنُّکُمْ کٰذِبِیۡنَ ﴿۲۷﴾﴾ [هود:27]

(٣)..﴿قَالُوۡۤا اِنْ اَنۡتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَاؕ تُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَصُدُّوۡنَا عَمَّا کَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا فَاۡتُوۡنَا بِسُلْطٰنٍ مُّبِیۡنٍ﴾ [إبراهيم:10]

(٤)..﴿قَالَ لَمْ اَکُنۡ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہٗ مِنۡ صَلْصٰلٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوۡنٍ ﴿۳۳﴾﴾ [الحجر:33] (یہ شیطان کا قول حکایت کیا گیا ہے)

(٥)..﴿وَاَسَرُّوا النَّجْوَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا ہَلْ ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ [الأنبياء:3]

(٦)..﴿فَقَالَ الْمَلَؤُا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوْمِہٖ مَا ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ۙ یُرِیۡدُ اَنۡ یَّتَفَضَّلَ عَلَیۡکُمْ﴾ [المؤمنون:24]

(٧,٨)..﴿وَقَالَ الْمَلَاُ مِنۡ قَوْمِہِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَکَذَّبُوۡا بِلِقَآءِ الْاٰخِرَۃِ وَ اَتْرَفْنٰہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ۙ مَا ہٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ۙ یَاۡکُلُ مِمَّا تَاۡکُلُوۡنَ مِنْہُ وَ یَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوۡنَ ﴿ۙ۳۳﴾ وَلَئِنْ اَطَعْتُمۡ بَشَرًا مِّثْلَکُمْ ۙ اِنَّکُمْ اِذًا لَّخٰسِرُوۡنَ ﴿ۙ۳۴﴾﴾ [المؤمنون:33،34]

(٩)..﴿فَقَالُوۡۤا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیۡنِ مِثْلِنَا﴾ [المؤمنون:47]

(10)..﴿قَالُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیۡنَ ﴿۱۵۳﴾ مَاۤ اَنۡتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَاۚفَاۡتِ بِاٰیَۃٍ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۱۵۴﴾﴾ [الشعراء:153، 154]

(11)..﴿وَمَاۤ اَنۡتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَ اِنۡ نَّظُنُّکَ لَمِنَ الْکٰذِبِیۡنَ ﴿۱۸۶﴾﴾ [الشعراء:186]

(12)..﴿قَالُوۡا مَاۤ اَنۡتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۙ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنۡ شَیۡءٍ ۙ اِنْ اَنۡتُمْ اِلَّا تَکْذِبُوۡنَ ﴿۱۵﴾﴾ [يس:15]

(13)..﴿کَذَّبَتْ ثَمُوۡدُ بِالنُّذُرِ ﴿۲۳﴾ فَقَالُوۡۤا اَبَشَرًا مِّنَّا وٰحِدًا نَّتَّبِعُہٗۤ ۙ اِنَّاۤ اِذًا لَّفِیۡ ضَلٰلٍ وَّ سُعُرٍ ﴿۲۴﴾﴾ [القمر:23، 24]

(14)..﴿فَقَالُوۡۤا اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا۫ فَکَفَرُوۡا وَ تَوَلَّوۡا﴾ [التغابن:6]

(15)..﴿فَقَالَ اِنْ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ یُّؤْثَرُ ﴿ۙ۲۴﴾ اِنْ ہٰذَاۤ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ﴿۲۵﴾﴾ [المدثر:24، 25]

قارئینِ کرام آپ نے ان آیات میں دیکھ لیا ہو گا کہ

(۱)۔۔کفار ومشرکین نے اللہ کے حبیب کو اپنے جیسا بشر کہا ہے۔ جیسا کہ بَشَرٌ مِّثْلُنَا وغیرہ کے بار بار تکرار سے صاف ظاہر ہے۔

(2)۔۔آیات کے سیاق وسباق سے صاف ظاہر ہے کہ بار بار بشر بشر کی تکرار سے نبی کی تحقیر یا اسکا عجز بیان کرنا مقصود ہے جیسا کہ اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا اور اِنْ ہٰذَاۤ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِوغیرہ کلمات سے صاف ظاہر ہے۔

(3)۔۔لفظ بشر کو بغیر کسی ایسے وصف یا قید کے بیان کیا گیا ہے جس سے انبیاء کی بشریت عام لوگوں کی بشریتِ محضہ سے ممتاز ہو جائے۔ بلکہ وصف یا قید لگا کرممتاز کرنا تو دور کی بات مثلیت کا دعوی کیا گیا ہے۔

کفار کی اس روش کے برخلاف آئیے اب قرآنِ کریم کا اسلوب دیکھتے ہیں۔ مندرجہ ذیل چار(4) مقامات ملاحظہ فرمائیں:

(1)..﴿قَالَتْ لَہُمْ رُسُلُہُمْ اِنۡ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ وَلٰکِنَّ اللہَ یَمُنُّ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖؕ وَمَا کَانَ لَنَاۤ اَنۡ نَّاۡتِیَکُمۡ بِسُلْطٰنٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ﴾ [إبراهيم:11]

(2)..﴿قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیۡ ہَلْ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا﴾ [الإسراء:93]

(3)..﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمْ اِلٰہٌ وّٰحِدٌ﴾ [الكهف:110]

(4)..﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمْ اِلٰہٌ وّٰحِدٌ﴾ [فصلت:6]

پہلی آیت میں رسلِ عظام نے اپنی بشریت ﴿بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ سےبیان کرنے کے فورا بعد کلمہ ﴿ وَلٰکِنَّ سے اس وہم کا استدراک کیا ہے جو آج کل کے بیمار دلوں میں رچ بس گیا ہے کہ انبیاء تو فقط ہماری طرح بشر ہیں وبس۔ اور نبوت ورسالت جیسے عظیم مراتب دکھائی نہیں دیتے۔

فمن کان فی ہذہ اعمی فہو فی الآخرہ اعمی واضل سبیلا

حاشیہ: ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ نحو میر میں ہے(لکن ّحرفِ استدراک ہے) اور اسکے حاشیہ میں ہے: (استدراک کا معنی ہے گزشتہ کلام سے پیدا ہونے والے وہم کو دور کرنا)۔

دوسری آیت میں بشر کے فورا بعد رسولا کے اضافے سے گمراہ گروں کا رستہ بند کر دیا گیا ہے۔کہ میں بشر تو ہوں لیکن تمہاری طرح بشرِ محض نہیں بلکہ اللہ کا رسول بھی ہوں۔ فمن لم یجعل اللہ لہ نورا فما لہ من نور

جبکہ تیسری اور چوتھی آیات میں یوحی الی کے وصف اور قید سے مماثلتِ محضہ کا دعوی کرنیوالوں کو آئینہ دکھا کرقیامت تلک کے لئے فرق واضح کر دیا گیا ہے۔

فبای حدیث بعدہ یومنون

مذکورہ بالا چاروں آیات میں آپ نے اچھی طرح ملاحظہ فرمالیا کہ کسطرح قرآنِ کریم نے بشریتِ انبیاء کو وصفِ رسالت اور وحیِ الہی کے ساتھ بیان فرمایا اسی طرح کلمہ مبارکہ½أشهد أنّ محمدا عبده ورسوله¼ میں عبدہ کے فورا بعد رسولہ کے اضافہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبدیت کو عام لوگوں کی عبدیت سے ممتاز کردیا ہے۔ لہذا جو انبیاء کی بشریت بیان کرے تو اسکے لئے ضروری ہے کہ کسی ایسے وصف یا قید کا اضافہ کردے جس سے بشریتِ محضہ کاوہم ختم ہو اور کفار کے طریقہ سے اجتناب حاصل ہو۔ مثال کے طور پر یہ الفاظ استعمال کرے:

افضل البشر، سید البشر، خیر البشر، عبداللہ ورسولہ وغیرہ۔

اب آئیے انبیاءِ کرام کی بشریت بیان کرنے کے سلسلے میں علماء ومفسرین کا روح پر ور انداز ملاحظہ کرتے ہیں۔

تفسیرِ قشیری میں ہے:

﴿ قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ ﴾...إلخ [الكهف:110]: أَخْبِرْ أَنَّكَ لهم من حيث الصورة والجنسية مُشاكِلٌ، والفَرْقُ بينكَ وبينهم تخصيصُ الله سبحانه إياكَ بالرسالة، وتَرْكه إياهم في الجهالة. انتهى

یعنی: اللہ نے فرمایا کہ اے نبی لوگوں کو خبر دو کہ تم صورت وجنس کے اعتبار سے تو لوگوں کی طرح ہو جبکہ تمہارے اور انکے درمیان فرق یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں رسالت کے ساتھ خاص فرمایا اور انہیں جہالت میں چھوڑ دیا۔

دیکھئے کس طرح صورت وجنس میں مماثلت بیان کرنے کے بعد عام لوگوں اور نبی کے درمیان فرق کو بھی واضح فرما دیا۔ بس یہی وہ انداز ہے جو بد مذہب گمراہ گروں میں مفقود اور پاک طینت علماء کرام میں محبوب ومودود ہے۔فسبحان اللہ عما یصفون

آئیے اب مزید آگے چلتے ہیں۔ تفسیر روح المعانی میں ہے:

قوله تعالى: ﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمْ اِلٰہٌ وّٰحِدٌ﴾ إشارة إلى جهة مشاركته صلى الله عليه وسلم للناس وجهة امتيازه ولولا تلك المشاركة ما حصلت الإفاضة ولولا ذلك الامتياز ما حصلت الاستفاضة. وقد أشار مولانا جلال الدين القونوي الرومي قدس سره إلى ذلك. انتهى

یعنی: اللہ تعالی کا فرمانِ عالیشان ﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمْ اِلٰہٌ وّٰحِدٌ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لوگوں سے جہتِ مشارکت اور جہتِ امتیاز کی طرف اشارہ ہے۔ اگر یہ مشارکت نہ ہوتی تو لوگوں کو فیض حاصل نہ ہوتا اور اگر یہ امتیاز نہ ہوتا کوئی فیض طلب نہ کرتا۔اسی طرف مولانا روم قدس سرہ نے اشارہ فرمایاہے۔ انتہی۔

دیکھئے کس قدر اچھوتے انداز میں جہتِ مماثلت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ جہتِ امتیاز بیان کرکے دیانتِ علمی کا ثبوت دیا ہے۔

مزید آگے بڑھتے ہیں۔ تفسیر ملا علی قاری میں ہے:

﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ لا أدعي الإحاطة بما هنالك, ﴿یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمْ اِلٰہٌ وّٰحِدٌ﴾ وإنما تميّزتُ عنكم بنحو ذلك. وقال الأستاذ: معناه أَخبِر أنك مثلهم من حيث الصورة والجنسية ومباينهم من حيث السيرة والخصوصية فإنه سبحانه خصه بالنبوة والرسالة وتركَ غيرَه في بيداء الجهالة والضلالة. ويقال إني وأنتم في الصورة أَكْفاء ووجه اختصاصي عنكم إيحاء. انتهى (أنوار القرآن وأسرار الفرقان للقاري)

یعنی میں کلماتِ رب کے احاطے کا دعوی نہیں کرتا۔ مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے ۔ بس اسی وحی ونبوت کی وجہ سے میں تم سےممتاز ہوں۔ استادنے فرمایا اس آیت کا معنی ہے کہ اے نبی تم لوگوں کو خبر دے دو کہ تم صورت وجنس کی حیثیت سے تو لوگوں کی طرح ہو لیکن سیرت وخصوصیت میں ان سے جدا ہو کیونکہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ورسالت کے ساتھ خاص فرمایااور دوسروں کو جہالت وضلالت کے میدان میں چھوڑ دیا۔ اور (اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی )کہا گیا ہے کہ: میں اور تم صورتا تو ایک جیسے ہیں لیکن میری وجہِ خصوصیت وحیِ الہی ہے۔

دیکھئے صورت وجنسیت میں مماثلت ومشابہت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ کسطرح عام لوگوں سےنبوی فرق کو اہتمام کے ساتھ واضح کیا گیا ہے۔ اللہ سب کو ہدایت دے۔

مزید آگے چلتے ہیں۔ حجۃ الاسلام امام غزالی فرماتے ہیں:

النبي إذا شارك الناس في البشرية والإنسانية في الصورة فقد باينهم من حيث المعنى؛ إذ بشريته فوق بشرية الناس لاستعداد بشريته لقبول الوحي. ﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ أشار إلى طرف من المشابهة من حيث الصورة ﴿یُوۡحٰۤی اِلَیَّ﴾ أشار إلى طرف المباينة من حيث المعنى. انتهى (معارج القدس للإمام الغزالي)

یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم بشریت وانسانیت میں تو صورتا لوگوں سے مشارکت رکھتے ہیں لیکن معنًا ان سے مختلف ہیں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت لوگوں کی بشریت پر فوقیت رکھتی ہے اسلئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت میں قبولِ وحی کی استعداد وصلاحیت ہے۔﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ سے صورتا مشابہت کی طرف اشارہ فرمایا اور ﴿یُوۡحٰۤی اِلَیَّسے من حیث المعنی جدا اور مختلف ہونے کی طرف اشارہ فرمایا۔

امام غزالی نے بھی نبی کی بشریت کو دیگر لوگوں کی بشریت سے مغایر ومبائن بلکہ اعلی قرار دیا ہے۔ فالآن حصحص الحق۔

تفسیرِ سلمی میں ہے:

قال ابن عطاء في قوله: ﴿اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ [فصلت:6] في ظاهر الأحكام ومحلّ الاتّباع, أُمثّل لكم سُبل الشريعة وأحكام الدين وأَكملُكم بوحي من ربكم أنه إله واحد فمن صدّقني واتبع سنّتي فقد وصل إلى الرضوان ومن خالفني وأعرض عني فقد أعرض عن طريقة الحق فأنا بشر مثلكم في الظاهر ولست مثلكم في الحقيقة ألا تراه صلى الله عليه وسلم يقول: ((إني لست كأحدكم إني أبيت عند ربي فيُطعمني ويَسقيني)) رواه الترمذي. انتهى (تفسير السلمي)

یعنی ابن عطاء نے اللہ کے اس فرمان ﴿اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْکے بارے میں کہا کہ میں ظاہر احکام اور محل اتباع میں تمہاری مثل ہوں۔ تمہارے لئے شریعت کے راستے اور دین کے احکام بیان کرتا ہوں اور تم میں سب سے زیادہ کامل ہوں کہ تمہارے رب کی طرف سے مجھے وحی آئی ہے کہ وہ واحد معبود ہے۔ تو جس نے میری تصدیق کی اور میری سنت کی اتباع کی تو اس نے رضا ئے الہی کو پا لیا اور جس نے مجھ سے اعراض کیا تو اس نے راہِ حق سے روگردانی کی۔ میں ظاہرا تمہاری طرح بشر ہوں اور حقیقت میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: میں تمہاری طرح نہیں ہوں میں اپنے رب کے پاس رات گزارتا ہوں وہ مجھ کھلاتا پلاتا ہے۔رواہ الترمذی

یہاں بھی حضور علیہ السلام کی بشریت کو دیگر لوگوں کی بشریت سے ممتاز کرکے بیان کیا گیا ہے۔ قد تبین الرشد من الغی۔

ایک قدم اور آگے چلتے ہیں۔ تفسیرِ مظہری میں ہے:

﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمْ اِلٰہٌ وّٰحِدٌ﴾ [الكهف:110] قلت فيه سد لباب الفتنة افتتن بها النصارى حين رأوا عيسى يبرئ الأكمه والأبرص ويحيى الموتى وقد أعطى الله تعالى لنبيّنا صلى الله عليه وسلم من المعجزات أضعاف ما أعطى عيسى عليه السلام فأمره بإقرار العبوديّة وتوحيد الباري لا شريك له. انتهى (تفسير المظهرى)

یعنی میں کہتا ہوں کہ اس آیت میں اس فتنے کا سد باب ہے جس میں نصاری مبتلا ہوگئے تھے جب انھوں نے عیسی علیہ السلام کو کوڑی اور برص والے کو تندرست کرتے اور مردوں کو زندہ کرتے دیکھا۔ اور اللہ تعالی نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عیسی علیہ السلام سے کئی گنا زیادہ معجزات عطا فرمائے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوتوحید وبندگی کے اقرار کا حکم دیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالی نے اقرارِ بشریت کروایا اسکی حکمت قاضی ثناء اللہ صاحب یہ بیان کرتے ہیں کہ یہ اسلئے تاکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے کثیر معجزات دیکھ کرکوئی آپکی الوہیت کا گمان نہ کرلے جسطرح نصاری نے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں گمان کر لیا تھا۔ یہ اقرار اس لئے نہیں کروایا تھا کہ کوئی مماثلتِ محضہ اور ہمسری کا دعوی کرے۔ فالی اللہ المشتکی

نیز فتح الباری میں ہے:

وَلَعَلَّ السِّرَّ فِي قَوْله ﴿اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ امْتِثَالُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: ﴿ قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ أي في إِجراء الأحكام على الظاهر الذي يَستوي فيه جميع المكلَّفين فأُمر أَنْ يَحكُمَ بمِثْلِ ما أُمروا أَنْ يَحْكُمُوا بِهِ لِيَتِمَّ الاقتِداءُ به وَتَطِيبَ نُفوسُ العِبَادِ للانقِياد إلى الأحكام الظّاهرة من غير نَظَرٍ إلى الباطن. انتهى (فتح الباري لابن حجر)

شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول میں کہ ’’میں تمہاری طرح بشر ہوں‘‘ اللہ کے حکم ’’کہو کہ میں تمہاری طرح بشر ہوں‘‘ کا امتثال اور اسکی بجا آوری ہے۔ یعنی میں ظاہری احکام کے اجرا ء میں تمہاری طرح ہوں کہ جس میں سب مکلفین برابر ہیں۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی حکم دیا گیاجیسا لوگوں کو حکم دیا گیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء ہواور بندوں کے نفوس احکامِ ظاہرہ کی بجا آوری کے لئےراغب ہوں باطن کی طرف نظر کئے بغیر۔

اور شفا شریف میں ہے:

وقال تعالى ﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ﴾ الآية فمحمد صلى الله عليه وسلم وسائر الأنبياء من البشر أُرسلوا إلى البشر ولولا ذلك لما أطاق الناس مقاومتهم والقبول عنهم ومخاطبتهم قال الله تعالى ﴿وَلَوْ جَعَلْنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلْنٰہُ رَجُلًا﴾ [الأنعام:9] أي لَما كان إلاّ في صورة البشر الذين يمكنكم مخالطتهم إذ لا يطيقون مقاومة المَلَك ومخاطبته ورؤيته إذا كان على صورته، وقال تعالى ﴿قُلۡ لَّوْ کَانَ فِی الۡاَرْضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمْشُوۡنَ مُطْمَئِنِّیۡنَ لَنَزَّلْنَا عَلَیۡہِمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَکًا رَّسُوۡلًا﴾ [الإسرا:95] أي لا يمكن في سنة الله إرسال الملَك إلا لمن هو من جنسه أو من خصه الله تعالى واصطفاه وفواه على مقاومته كالأنبياء والرسل فالأنبياء والرسل عليهم السلام وسائط بين الله تعالى وبين خلقه يبلغونهم أوامره ونواهيه ووعده ووعيده ويعرّفونهم بما لم يَعلموه مِن أمره وخلقِه وجلالِه وسلطانه وجبروته وملكوته, فظواهرهم وأجسادهم وبِنْيتهم متصفة بأوصاف البشر طارئ عليها ما يطرأ على البشر من الأعراض والأسقام والموت والفناء ونعوت الإنسانية, وأرواحهم وبواطنهم متصفة بأعلى من أوصاف البشر متعلقة بالملإ الأعلى متشبهة بصفات الملائكة سليمة من التغير والآفات لا يلحقها غالبا عجز البشرية ولا ضعف الإنسانية إذ لو كانت بواطنهم خالصة للبشريّة كظواهرهم لما أطاقوا الأخذ عن الملائكة ورؤيتَهم ومخاطبتَهم ومُخالّتَهم كما لا يطيقه غيرهم من البشر, ولو كانت أجسادهم وظواهرهم متّسمة بنعوت الملائكة وبخلاف صفات البشر لما أطاق البشر ومن أُرسلوا إليه مخالطتهم كما تقدم من قول الله تعالى. فجُعلوا من جهة الأجسام والظواهر مع البشر ومن جهة الأرواح والبواطن مع الملائكة، كما قال صلى الله عليه وسلم ((لو كنتُ متخذا من أمتي خليلا لاتخذتُ أبا بكر خليلا ولكن أُخوّة الإسلام لكن صاحبكم خليل الرحمن)) وكما قال ((تنام عيناي ولا ينام قلبي)) وقال ((إني لست كهيئتكم إني أظلّ يطعمني ربي ويسقيني)) فبواطنهم منزّهة عن الآفات مطهّرة عن النقائص والاعتلالات. انتهى. (الشفا بتعريف حقوق المصطفى)

ہمارے نبی اور باقی دیگر انبیاء بشر تھے اور بشر کی طرف بھیجے گئے تھے اگر انبیاء بشر نہ ہوتے تو لوگوں میں انکے ساتھ کھڑے ہونے اور ان سے لینے اور ان سے کلام کرنے کی طاقت نہ ہوتی۔اللہ تعالی نے فرمایا ’’اور اگرہم نبی کو فرشتہ کرتے جب بھی اسے مرد ہی بناتے‘‘ کنز الایمان۔ یعنی صورتِ بشر پر ہی ہوتے تاکہ لوگوں کے لئےان سے میل جول آسان ہو کیونکہ لوگ فرشتے کو اسکی صورت میں دیکھنے اور اس سے کلام کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا: تم فرماؤ اگر زمین میں فرشتے ہوتے چین سے چلتے تو ان پر ہم رسول بھی فرشتہ اتارتے۔کنز الایمان۔ یعنی اللہ کی سنت جاریہ میں فرشتے کو بھیجنا ممکن نہیں مگر اسکے لئے جو اسی کی جنس سے ہو۔ یا اسکے لئے جسے اللہ نے خاص کرلیا ہو اور چن لیا ہو اورفرشتے کو اسکا ساتھ دینے کے لئے مقرر کر لیا ہوجیسے کہ انبیاء ورسل۔ لہذا انبیاء ورسل اللہ اور مخلوق کے درمیان وسائط ہیں۔کہ وہ اللہ کے اوامر ونواہی اور وعدہ وعید کو ان تک پہنچاتے ہیں۔اور جو وہ نہیں جانتے وہ انہیں بتاتے ہیں یعنی اسکا امر، خلق، جلال، سلطنت اور اسکی جبروتیت وملکوتیت۔پس انکے ظواہر اور اجساد واجسام اوصافِ بشر سے متصف ہوتے ہیں اور ان پر بشر کے سے اعراض ، اسقام، موت وفناء اور صفاتِ انسانیہ طاری ہوتی ہیں۔ اور انکی ارواح وباطن اوصافِ بشر سےزیادہ اعلی صفات کے ساتھ متصف ہوتے اور ملأِ اعلی کے ساتھ متعلق، صفاتِ ملائکہ سے مشابہہ، تغیر وآفات سے محفوظ، عجز بشریت وضعفِ انسانیت سےاکثر پاک ہوتے ہیں۔کیونکہ اگر انکے بواطن انکے ظواہر کی طرح خالص بشری ہوتے تو وہ دیگر بشر کی طرح ملائکہ سے لینے انہیں دیکھنے ان سے گفتگو کرنے اور ان سے میل جول کی طاقت نہ رکھتے۔ اور اگر انکے اجساد وظواہرصفاتِ بشر کے بجائے صفاتِ ملائکہ سے متصف ہوتے تو لوگ ان سے استفادہ و مخالطت نہ کرپاتے۔ جیسا کہ گزر گیا۔

لہذا اجسام وظواہر کے اعتبار سے بشر کی طرح بنائے گئے اور ارواح وبواطن کے اعتبار سے ملائکہ کی طرح بنائے گئے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر میں اپنی امت میں کسی کو اپنا دوست بناتا توابو بکر کو بناتا لیکن وہ اسلامی بھائی ہیں لیکن تمہارا صاحب اللہ کا خلیل ہے۔ اور ارشاد فرمایا: میری آنکھیں سوتی ہیں دل نہیں سوتا۔ اور فرمایا: میں تمہاری طرح نہیں ہوں مجھے میرا رب کھلاتا پلاتا ہے۔ پس ان کے بواطن آفات سے پاک اور نقائص وعلل سے صاف ہوتے ہیں۔انتہی

ناظرین آپ قاضی عیاض مالکی کے مندرجہ بالا کلمات کو بار بار پڑھیں اور گمراہوں کے دعوائے مماثلت ومساوات پربار بار افسوس کریں۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:

واضح رہے کہ یہاں ایک ادب او رقاعدہ ہے جسے بعض اصفیا اور اہل تحقیق نے بیان کیا ہے اور اس کا جان لینا اور اس پر عمل پیرا ہونا مشکلات سے نکلنے کا حل اور سلامت رہنے کا سبب ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر کسی مقام پر اﷲ رب العزت جل وعلا کی طرف سے کوئی خطاب،عتاب،رعب ودبدبہ کا اظہار یا بے نیازی کا وقوع ہو مثلاً آپ ہدایت نہیں دے سکتے،آپ کے اعمال ختم ہوجائیں گے،آپ کے لئے کوئی شیئ نہیں،آپ حیات دنیوی کی زینت چاہتے ہیں،اوراس کی مثل دیگر مقامات،یا کسی جگہ نبی کی طرف سےعبدیت،انکساری،محتاجی و عاجزی اور مسکینی کا ذکر آئے مثلاً میں تمھاری طرح بشر ہوں،مجھے اسی طرح غصہ آتا ہے جیسے عبد کو آتا ہے اور میں نہیں جانتا اس دیوار کے ادھر کیا ہے،میں نہیں جانتا میرے ساتھ اور تمھارے ساتھ کیا کیا جائے گا،اور اس کی مثل دیگر مقامات،ہم امتیوں اورغلاموں کو جائز نہیں کہ ان معاملات میں مداخلت کریں،ان میں اشتراک کریں اور اسے کھیل بنائیں،بلکہ ہمیں پاس ادب کرتے ہوئے خاموشی وسکوت اور توقف کرنا لازم ہے ، مالک کا حق ہے کہ وہ اپنے بندے سے جو چاہے فرمائے، اس پر اپنی بلندی اور غلبہ کا اظہار کرے،بندے کا بھی یہ حق کہ وہ اپنے مالک کے سامنے بندگی اور عاجزی کا اظہار کرے ،دوسرے کی کیا مجال کہ وہ اس میں دخل اندازی کرے اور حد ادب سے باہر نکلنے کی کوشش کرے،اس مقام پر بہت سے کمزور اور جاہل لوگوں کے پاؤں پھسل جاتے ہیں جس سے وہ تباہ و برباد ہوجاتے ہیں، اﷲ تعالٰی محفوظ رکھنے والا اور مدد کرنے والا ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔ (مدارج النبوۃ 1/83, باب سوم, وصل در ازالہ شبہات از بعضے آیات مبهمات وموهمات, ط: نوریہ رضویہ سکھر, باكستان)

دوسرا امر:

ما قبل آیات اور انکے ضمن میں گزرنے والی ابحاث سے یہ امر روزِ روشن کی طرح واضح ہو گیا ہے کہ کفار کا یہ وطیرہ تھا کہ وہ بات بات پر یہ کہتے تھے کہ انبیاء ہماری طرح ہی بشر ہیں اور انہیں ہم پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ اور کہتے تھے کہ: ﴿اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا﴾ [التغابن:6] کیا ایک بشر ہمیں ہدایت دے گا۔ چنانچہ تفسیر البحر المحیط میں اس آیت کے تحت ہے کہ: ½أنهم يقولون نحن متساوُون في البشرية، فأنى يكون لهؤلاء تمييز علينا بحيث يصيرون هُداةً لنا؟¼ انتهى

یعنی کفار یہ کہتے تھے کہ ہم اور انبیاء بشریت میں برابر ہیں۔ تو انہیں ہم پر کیسے برتری حاصل ہوگئی کہ ہمارے ہادی بنیں۔انتہی۔

تو کفار کے رد میں آیات بشریت نازل ہوئیں جن میں وحیِ الہی، رسالت اور اللہ کےفضل واحسان کے ذکر سے انبیاء کا امتیاز ظاہر کیا گیا ہے جیسا کہ ماقبل گزرا۔لہذا ثابت ہوا کہ وہ تساوی، مثلیت اور برابری جسکے رد میں آیاتِ قرآنیہ نازل ہوئیں اسی تساوی اور برابری کو آج کے بعض فرقِ ضالہ پورے زور وشور کے ساتھ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اور علماء اسلام وقرآن کریم کے اسلوب سے روگردانی کرتےہوئے کفار کی بولی بول رہے ہیں۔سچ فرمایا اللہ تعالی نے: ﴿یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًاۙ وَّیَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا﴾ [البقرة:١٢٦]. نسأل الله العفو والعافية۔

امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں:

½وخُصّ في القرآن كل موضع اعتُبر من الإنسان جُثّته وظاهرُه بلفظ البشر، نحو: ﴿الَّذِیۡ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا﴾ [الفرقان:54]، و﴿اِنِّیۡ خٰلِقٌۢ بـَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ﴾ [ص:71]، ولما أراد الكفار الغَضَّ من الأنبياء اعتبروا ذلك فقالوا: ﴿اِنْ ہٰذَاۤ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ﴾ [المدثر:25]، و﴿اَبَشَرًا مِّنَّا وٰحِدًا نَّتَّبِعُہٗۤ﴾ [القمر:24]، ﴿مَاۤ اَنۡتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا﴾ [يس:15]، ﴿اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیۡنِ مِثْلِنَا﴾ [المؤمنون:47]، ﴿فَقَالُوۡۤا اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا﴾ [التغابن:6]، وعلى هذا قال: ﴿اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ [الكهف:110]، تنبيها أن الناس يتساوَون في البشرية، وإنما يتفاضلون بما يختصون به من المعارف الجليلة والأعمال الجميلة، ولذلك قال بعده: ﴿یُوۡحٰۤی اِلَیَّ﴾ [الكهف:110]، تنبيها أني بذلك تميّزتُ عنكم¼. انتهى (المفردات للراغب)

ترجمہ: قرآن میں ہر وہ مقام جہاں انسان کا جثہ اور اسکا ظاہری جسم مراد ہے اسےلفظ بشر کے ساتھ خاص کیا گیا ہے۔ جیسے کہ ﴿الَّذِیۡ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا﴾ [الفرقان:54] اور و﴿اِنِّیۡ خٰلِقٌۢ بـَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ﴾ [ص:71]. لہذا جب کفار نے انبیاء کرام علیہم السلام سے صرفِ نظر کی تو انھوں نےاسی ظاہری جسم وجثہ کا اعتبار کیا اور کہا: ﴿اِنْ ہٰذَاۤ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ﴾ [المدثر:25]، اور﴿اَبَشَرًا مِّنَّا وٰحِدًا نَّتَّبِعُہٗۤ﴾ [القمر:24]، ﴿مَاۤ اَنۡتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا﴾ [يس:15]، ﴿اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیۡنِ مِثْلِنَا﴾ [المؤمنون:47]، ﴿فَقَالُوۡۤا اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا﴾ [التغابن:6]

اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ [الكهف:110] تاکہ اس بات کی تنبیہ ہو کہ تمام لوگ بشریت میں برابر ہیں۔بس فضیلت انہی معارفِ جلیلہ اور اعمالِ جمیلہ کے سبب ہوتی ہے جنکے ساتھ انہیں خاص کیا جاتا ہے۔اسی لئے اسکے بعد فرمایا: ﴿یُوۡحٰۤی اِلَیَّ﴾ [الكهف:110]۔ اس بات پرتنبیہ کے لئے کہ میں انہی امور کی وجہ سے تم سے ممتاز اور جدا ہوں۔

مذکورہ بالا اقتباس سے معلوم ہوا کہ کفار کی یہ عادت تھی کہ وہ انبیاءِ کرام کے ظاہری جسم وجثہ پرنظر رکھتے ہوئے انہیں اپنے جیسا بشرِ محض گمان کرتے تھے اور وہ درجات وکمالات جو اللہ کریم نے انہیں اپنے فضل وکرم سے عطا کئے تھے جیسے نبوت ورسالت، معرفت وشریعت، نور وہدایت وغیرہ ان سے صرفِ نظر کرتے تھے۔جسکی وجہ سے وہ گمراہ ہوگئے۔لہذا ضروری ہے کہ بشریتِ محضہ کے قول سے بچا جائے کیونکہ یہ کفار کا قول ہے جس طرح کفارومنافقین کے قول راعنا سے بچا جاتا ہے۔

تیسرا امر:

مؤمن اور مشرک دونوں بشر ہیں لہذا چاہئے کہ دونوں برابر ہوں لیکن قرآن فرماتا ہے: ﴿وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیۡرٌ مِّنۡ مُّشْرِکٍ﴾ [البقرة:221], اور رب کی شان دیکھئے کہ نبی سے فرماتا ہے کہ: ﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات سے فرماتا ہے کہ: ﴿یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ﴾ [الأحزاب:32] اے نبی کی بیبیو تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو, فاعتبروا يا أولي الأبصار.

چوتھا امر:

انبیاءِ کرام کا اپنے آپ کو اوروں کی مثل بشر کہنا تواضع اور انکساری کے سبب تھا لہذاکسی اورشخص کے لئے یہ روا نہیں کہ وہ خود یہ الفاظ استعمال کرے۔

چنانچہ علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں:

قوله تعالى: ﴿قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ﴾ قال ابن عباس: علَّم الله تعالى رسوله التواضع لئلا يُزهَى على خلقه، فأمره أن يُقِرَّ على نفسه بأنه آدمي كغيره، إِلا أنه أُكرم بالوحي. انتهى (زاد المسير)

ابنِ عباس نے فرمایا: اللہ تعالی نے اپنے رسول کو تواضع کی تعلیم دی تاکہ اسکی مخلوق پر بڑائی نہ جتائیں۔ لہذا رسول کو حکم دیا کہ وہ اقرار کریں کہ وہ بھی آدمی ہیں دیگر کی طرح سوائے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ساتھ تکریم دی گئی ہے۔

اور تفسیرِ بغوی میں ہے:

علم الله رسوله التواضع لئلا يَزهُو على خلقه، فأمره أن يُقرّ فيقول: إني آدمي مثلكم، إلا أني خصصتُ بالوحي وأكرمني الله به. انتهى (تفسير البغوي)

اسکا مفہوم بھی ما قبل کی مثل ہے۔

اور تفسیرِ قرطبی میں ہے کہ:

أَي لستُ بمَلَك بل أنا من بني آدم. قال الحَسن: علَّمه الله تعالى التواضُع. انتهى (تفسير القرطبي)

یعنی میں فرشتہ نہیں بلکہ اولادِ آدم میں سے ہوں۔ حسن نے کہا کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تواضع کی تعلیم دی۔

حکایت:

امام شعرانی فرماتے ہیں کہ:

وكان (الشيخ محمد أبو المواهب الشاذلي) رضي الله عنه يقول: قلتُ: مرة في مجلس

محمد بشر لا كالبشر بل هو ياقوت بين الحجر

فرأيتُ النبيّ صلى الله عليه وسلم، فقال لي: قد غفر الله لك، ولكل من قالها معك، وكان رضي الله عنه لم يزل يقولها في كل مجلس إلى أن مات. انتهى, (الطبقات الكبرى)

یعنی شیخ محمد ابو المواہب شاذلی رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ میں نے ایک مرتبہ کسی مجلس میں یہ شعر پڑھا:

محمد بشر لا كالبشر بل هو ياقوت بين الحجر

ترجمہ: محمد صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں لیکن کسی بشر کی طرح نہیں، بلکہ اس طرح ہیں جیسے یاقوت پتھروں کے درمیان۔

تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے مجھ سے فرمایا: اللہ نے تجھے بخش دیا اورہر اس شخص کو بھی جس نے یہ کلمہ تمہارے ساتھ کہا۔اسکے بعد شیخ مذکور جب تک بقید حیات رہے ہر مجلس میں یہ شعر کہا کرتے تھے۔

کسی نے کیا خوب کہا:

لا يمكن الثناء كما كان حقُّه بعد از خدا بزرگ توئی قصه مختصر

نوٹ: (۱)۔۔اعلی حضرت امامِ اہلسنت فرماتے ہیں کہ:

جو مُطْلَقاً حضور سے بشریت کی نفی کرے وہ کافر ہے،قال تعالی: ﴿قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیۡ ہَلْ کُنۡتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوۡلًا [اسراء:93]

تم فرماؤ:میرا رب پاک ہے میں تو صرف اللہ کا بھیجا ہوا ایک آدمی ہوں۔

(2)۔۔تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ:

اور حضور پُر نور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو بشر کہنے میں راہِ سلامت یہ ہے کہ نہ تو آپ کی بشریت کا مُطْلَقاً انکار کیا جائے اور نہ ہی کسی امتیازی وصف کے بغیر آپ کی بشریت کا ذکر کیا جائے بلکہ جب حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بشریت کا ذکر کیا جائے تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو افضل البشر یا سیّد البشر کہا جائے یا یوں کہا جائے کہ آپ کی ظاہری صورت بشری ہے اور باطنی حقیقت بشریَّت سے اعلیٰ ہے۔


روحانیت کا درست مفہوم

Tue, 1 Jun , 2021
2 years ago

انسان جب مادیت بھری زندگی،اس کی کثافتوں اور  الجھنوں سے تنگ آجاتا ہے……… اوراس کا دل عیش ونشاط سے بھرجاتا ہے……… توآخر کاروہ روحانیت،ذہنی سکون اوردل کے آرام کی تلاش وجستجومیں نکل کھڑا ہوتا ہے ……… روحانیت کیا ہے ؟………اس کی ضرورت واہمیت کیا ہے؟………اورانسان کو اس کی تلاش کیوں ہے؟………آئیے !ان سوالات کے جوابات ڈھونڈتے ہیں۔

لفظ ”روحانیت“روح سے بنا ہے اور روح کے معنی ہیں راحت ، سکون اور قرار لہٰذا روحانیت کا مطلب بنے گا ایسا عمل جس سے سکون حاصل کیا جائے………اللہ تعالیٰ نے جس طرح مادے کے ذریعے انسان کا ظاہری وجودبنایا ہے اسی طرح روح کے ذریعے ایک باطنی وجود بھی تخلیق کیا ہے ……… انسان کا ظاہری وجود ہاتھ، پاؤں، چہرہ، جسم ، دل، گردے پھیپڑے اور دیگر اعضا پر مبنی ہے جبکہ باطنی وجودایمان،نور،عقل،معرفت،غوروفکر، جذبات ، احساسات، خوشی ، غمی، بے چینی اور سکون جیسی کیفیا ت پر مشتمل ہے………دنیا کے مذاہب میں ہمیں روحانیت یعنی سکون حاصل کرنے کے جدا جدا طریقے نظر آتے ہیں جیسے کوئی یوگا کرتا ہے………کوئی مراقبہ کرتا ہے………کوئی جنگلات وویرانوں میں پناہ ڈھونڈتا ہے ………کوئی غاروں کو اپنی آماجگاہ بناتا ہے……… کوئی پُرفضا مقامات کو مسکن بناتا ہے………اور کوئی دنیا کے شوروغل سے دُور سُنسان جگہوں کا متلاشی ہے الغرض مقصد سب کا ایک ہے کہ اپنی روح کو سکون وچین پہنچایا جائے ………مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر ایسا کرنے سے کامل سکون حاصل نہیں ہوتا ………ان سب کے برعکس ہم جب اسلام کے تصور روحانیت پر غور کرتے ہیں تو ہمیں ایک کامل تسکین دینے والا نظام نظر آتا ہے ۔چنانچہ،

اسلام میں روحانیت کامطلب اپنے خالق ومالک کا قرب ہے ……… پہلے بتایا جاچکا کہ انسان کے دو پہلو ہیں ایک مادی اور دوسرا روحانی ………مادی پہلو کا تعلق دنیا سے اور روحانی پہلو کا تعلق اللہ پاک سے ہے………انسان  کے روحانی اور مادی پہلو ایک دوسرے کے ساتھ جنگ میں ہیں……… اگر انسان نے خدا کی قربت حاصل کرنی ہے  تو اسے اپنے مادی پہلو کو کچلنا ہو گا……… پس اگر انسان اپنے مادی پہلو کو کچلنے میں کامیاب ہو گیا تو وہ قرب الٰہی کو پا لے گا……… اور اگر وہ ا پنے مادی پہلو کو کچلنے میں ناکام رہا تو راہِ خدا سے بھٹک جائے گا………پھر یہ کہ جوبندہ رب کریم کے جتنا قریب ہوتا ہے وہ اتنی ہی بڑی روحانی شخصیت کا مالک بن جاتا ہے ………ہمارے پیارے دین میں قرب الٰہی پانے کا مدار قرآن پاک اور سنت نبوی پر عمل کرنے میں ہے ……… کیونکہ اب پوری انسانیت کے پاس دینی وآسمانی علوم کا سرچشمہ صرف قرآن کریم ہے اوران علوم کی کامل تشریح وتوضیح حضور خاتم الانبیاء ﷺ کا قول وعمل ہے………آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

تَرَكْتُ فِيْكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِیِّہٖترجمہ:میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑیں ہیں جب تک انہیں تھامے رکھو گے گمراہ نہیں ہوگے ،اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔“ (موطاامام مالک،حدیث:1594)

ایک مشہور حدیث قدسی ہے جس میں قربِِ الہٰی یعنی اسلامی روحانیت پانے کا راز کھول کر بیان کیا گیا ہے اسے یہاں بیان کرنا فائدے سے خالی نہ ہوگا۔حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:میرا بندہ فرائض کی ادائیگی کے ذریعے جتنا میراقرب حاصل کرتا ہے اس کی مثل کسی دوسرے عمل سے حاصل نہیں کرتا(ایک روایت میں یوں ہے: میرابندہ کسی ایسی شئے سے میراقرب نہیں پاتاجوفرض کواداکرنے سے زیادہ پسندہو) اورمیرا بندہ نوافل(کی کثرت)سے میرے قریب ہوتارہتاہے یہاں تک کہ میں اس کو اپنا محبوب بنالیتا ہوں اورجب میں اسے محبوب بنالیتاہوں تو میں اس کاکان بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اورمیں اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ۔اگروہ مجھ سے مانگے تو میں اسے ضروردیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں ۔‘‘(صحیح بخاری ،حدیث:6502)

حضرت امام ابوعبداللہ محمدبن عمر المعروف امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ (وفات :606ھ) نے اس حدیث پاک کامعنی ومقصدیہ بیان فرمایاہے کہ جب بندہ اپنے آپ کواللہ ربُّ العزت کے عشق ومحبت والی آگ میں جلاکرفناکردیتاہے………نفسانیت وانانیت والازنگ اورمیل کچیل دور ہو جاتا ہے………اورانوارِالہٰیہ سے اس کابدن منورہوجاتاہے تووہ اللہ تعالیٰ کے انوارہی سے دیکھتا ہے………انہی کی بدولت سنتاہے ………اس کابولناانہی انوارکے ذریعے ہے ………اس کا چلنا ،پھرنااورپکڑنا،مارناانہی سے ہوتاہے ………امام رازی کے الفاظ یہ ہیں: ’’اِذَاصَارَ نُوْرُ جَلَالِ اللّٰہِ لَہٗ سَمْعًا سَمِعَ ال ْقَرِیْبَ وَالْبَعِیْدَ وَاِذَاصَارَنُوْرُجَلَالِ اللّٰہِ لَہٗ بَصَرًارَأَی الْقَرِیْبَ وَالْبَعِیْدَ وَاِذَا صَارَذَالِکَ النُّوْرُیَدًالَہٗ قَدَرَعَلَی التَّصَرُّفِ فِی الصَّعْبِ وَالسَّہْلِ وَالْقَرِیْبِ وَالْبَعِیْدِترجمہ:اللہ پاک کانورِجلال جب بندۂ محبوب کے کان بن جاتاہے تووہ ہر آوازکوسن سکتاہے نزدیک ہویادور اور آنکھیں نورِجلال سے منورہوجاتی ہیں تودورونزدیک کا فرق ختم ہوجاتاہے یعنی ہرگوشۂ کائنات پیش نظرہوتاہے اورجب وہی نوربندہ کے ہاتھوں میں جلوہ گر ہوتا ہے توقریب وبعید اور مشکل وآسان میں اسے تصرف کی قدرت حاصل ہوجاتی ہے۔‘‘( تفسیرکبیر، 7/436)

سچی بات ہے کہ اللہ رب العزت پر ایمان رکھنے والا بندہ جتنا زیادہ اپنے رب کو یاد کرتا ہے………اس کے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے اتنا زیادہ روحانیت وسکون حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوۡبُہُمۡ بِذِکْرِ اللہِ ؕاَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوۡبُ (پ13،الرعد:28)ترجمہ:وہ جو ایمان لائے اور ان کے دل اللہ کی یاد سے چین پاتے ہیں سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا چین ہے۔(کنزالایمان)

اور اللہ تعالیٰ کی یاد یعنی ذکر الٰہی کی اعلی ترین قسم نماز ہے ۔جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیۡ (پ16،طٰہٰ:20)ترجمہ: اور میری یاد کے لئے نماز قائم رکھ۔(کنزالایمان)

روحانیت کوتفصیل کے ساتھ سمجھنے کے لیے ہمیں روحانیت کے درج ذیل تین پہلووں کو سمجھنا ہوگا:

پہلا پہلو :اپنی ذات کی معرفت ۔دوسرا پہلو:اللہ تعالیٰ کی معرفت۔تیسرا پہلو:شخصیت کی تعمیر۔

پہلے اور دوسرے پہلو کا تعلق علم کے ساتھ ہے جبکہ تیسرے پہلو کا تعلق عمل کے ساتھ ہے………معلوم ہوا کہ پہلے دونوں معرفتوں کا حصول ہو اور پھران معرفتوں کے نتائج کو عملی شکل میں ڈھال کرانسان اپنی شخصیت کی تعمیر کرے ……… لہذا انسان سب سے پہلے خود کوسمجھنے اور پہچاننے کی کوشش کرے تاکہ اُسے اپنے جذبات ، احساسات، خواہشات ، رغبتوں ، رحجانات ، شخصی کمزوریوں اور اچھائیوں کا پتا چل سکے……… پھر وہ جس قدر جانتا چلا جاتا ہے اُسی قدر اپنی ذات اور باطنی وجود کی معرفت وپہچان حاصل کرتا جاتا ہے………حضرت یحیٰ بن معاذ رازی فرماتے ہیں : مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہُ ترجمہ:جس نے خود کو پہچان لیا اُس نے اپنے رب تعالیٰ کو پہچان لیا۔(صواعق محرقہ،2/379)اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو اپنی ذات میں پائی جانے والی ناتوانی وکمزوری اور کمی وکوتاہی کو پہچان لیتا ہے وہ یہ بھی جان لیتا ہے کہ اس کا کوئی رب اور پالنے والا ہے جو کمال سے متصف ہے ،وہ ہر عیب سے پاک ہے اوراس کے سارے کام درست ہیں۔

اپنی ذات کو سمجھنے اور پہچاننے کے بعدروحانیت کا دوسرامرحلہ رب تعالیٰ کی معرفت ہے………اسلام اس مرحلے پر سب سے پہلا یہ درس دیتا ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان لائے ………پھراس کی صفات کا اقرار کرے اور صفات کے ذریعے ہی بندے کو رب تعالیٰ کی ایک حد تک معرفت حاصل ہوتی ہے………واضح رہے کہ روحانیت کا یہ دوسرا پہلو ایک لحاظ سے پہلے پہلو سے جُڑا ہوا ہے………ان دونوں علمی پہلوؤں کے بعدبندہ روحانیت کے تیسرے پہلو کی طرف متوجہ ہوجائے ………اور وہ ہے شخصیت کی تعمیرو تہذیب………جب انسان نے اپنی ذات اور باطنی وجود کوپہچان کررب تعالیٰ کی یک گونہ معرفت حاصل کرلی اور زندگی کا مقصد واضح کرلیا تو اب ایک ایسی شخصیت کو تعمیر کرنا ضروری ہوجاتا ہے جو ایسی تمام خرابیوں، بُرائیوں اوربداعمالیوں سے پاک ہو جن کی وجہ سے بندہ بارگاہِ الٰہی میں درجہ قبولیت پر فائز ہونے سے محروم رہ جاتا ہے ۔

اسلام نے اس مرحلے پربندے کے لیے عبادات و اخلاقیات کا ایک سلسلہ رکھا ہے جس مِیں علم و عمل ساتھ ساتھ چلتے ہیں………ایک طرف عبادات جیسے نماز روزہ اور زکوٰۃ و حج کے ذریعے شخصیت کورب تعالیٰ سے جوڑا جاتا ہے تو دوسری جانب اخلاقیات اور حقوق العباد کی ادائیگی کے ذریعے مخلوق سے اچھے تعلق کی بنیاد رکھی جاتی ہے……… الغرض ان تین پہلووں کے لحاظ سے روحانیت کا مطلب یہ ہوا کہ بندہ پہلے اپنے ظاہروباطن کو پہچانے………پھر رب تعالیٰ کی معرفت حاصل کرے ………اورپھراس معرفت کی بنیاد پر اپنی شخصیت کاتزکیہ وتصفیہ کرے ………یعنی اپنی شخصیت کو نکھارنے ، سنوارنے اور اُس کی تعمیر کرنے کے لیے خود کو گناہوں اور بُرائیوں سے بچائے……… رب کریم کی اطاعت کرے ………اور حضوراکرم ﷺ کے اتباع میں لگ جائے۔

اگر ہم صحابہ کرام ،تابعین عظام اور اولیائے امت کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو واضح طور پر دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ان نفوس قدسیہ کی زندگیاں روحانیت کے مذکورہ تینوں پہلوؤں کے گرد گھومتی نظر آئیں گی………یہ حضرات ساری عمرخود شناسی ،خدا شناسی اور تزکیہ نفس میں بسر کردیتے ہیں……… اسلامی تصوف کی بھی یہی تعلیمات ہیں ………کہا جاسکتا ہے کہ تصوف وطریقت روحانیت کے حصول کا ایک مکمل نصاب(Complete Course)ہے ………تصوف کی اصطلاح میں جس شخصیت کو مرشد(شیخ/پیر/رہبر /استاد)کہتے ہیں وہ اپنے مریدوں اورشاگردوں کو سب سے پہلے اپنے اندر جھانکنے کادرس دیتا……… تاکہ سب سے پہلے باطن میں پائی جانے والی خرابیوں سے آگاہی ہو………دل میں پائی جانی والی خواہشات،رغبتوں،میلانات وجذبات سے واقفیت حاصل ہو………اور بندہ اپنی ذات میں پائی جانے والی کوتاہیوں اور کمزوریوں کا اعتراف کرلے……… اوریوں روحانیت کا پہلا مرحلہ طے ہوجائے ………پھرکامل مرشد رب کریم کی ذات وصفات ، اُس کے کمالات اور اُس ذاتِ وحدہ لاشریک سے تعلق رکھنے والے عقائد ونظریات کی تعلیم دیتا ہے ………اور بتدرج اپنے مرید کو رب تعالیٰ کی شانوں سے آگاہ کرتا ہے تاکہ روحانیت کا دوسرا مرحلہ ذاتِ باری کی معرفت کا حصول طے ہوسکے ……… اور بندہ قربِ الٰہی کی منزلوں پر فائز ہوتا چلا جائے………اس کے بعد پیرومرشد انسان کی شخصیت کی تعمیر کی طرف متوجہ ہوتا ہے……… اور اسے نفس کُشی کے طریقے سکھاتا……… ظاہروباطن کی صفائی وپاکیزگی پر زور دیتا ہے ………اسلامی تعلیمات وشرعی احکامات پر عمل کے لیے ابھارتا ہے………خلق خدا پر شفقت ونرمی کا درس دیتا ہے……… انسانیت کی خدمت اوراُس کی فلاح وصلاح کی ضرورت سمجھاتا ہے………وہ اپنے مرید کے سامنے عاجزی وانکساری کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے………الغرض اسلامی روحانیت ( یعنی قرب الٰہی)پانے کے لیے کسی کامل مرشد کا مل جانا خدا تعالیٰ کی بڑی زبردست نعمت ہے۔

قرآن وسنت روحانیت کے مذکورہ تینوں پہلوؤں کو جابجا بیان کرتے نظر آتے ہیں………دعوتِ توحید اور اقرار نبوت کے بعد حضرات انبیاء کرام بھی انسانوں کو ان تینوں پہلوؤں سے روشناس کراتے رہے……… اور بندوں کو بتاتے رہے کہ معرفت نفس،معرفت الٰہی اور تزکیہ نفس کرنے والے لوگ ہی دنیا وآخرت میں کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں ………اور جو اس سے غفلت برتتے ہیں وہ دنیا میں تباہی اور آخرت میں عذابِِ الٰہی کا شکار ہوجاتے ہیں ………محسن انسانیت ، نبی رحمت ﷺ نے بھی اپنی امت کو یہ تعلیم دی ………اور انہیں رب تعالیٰ تک پہنچانے والا سیدھا راستہ بتایا……… پس جولوگ اس شاہراہِ صراط مستقیم پر گامز ن ہوگئے وہ کامیاب کہلائے……… قرآن پاک نے ان کے گُن گائے………زبانِ رسالت نے اُن کی سرخروئی پر مہرتصدیق ثبت فرمائی………خلق خدا نے اُن کی عظمتوں کا اعتراف کیا………دنیاو آخرت میں انہیں بشارتیں دی گئیں ………اورکسی کو صحابی،کسی کو تابعی اور کسی کو ولی اللہ کہا گیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَکَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الۡاٰخِرَۃِ ؕ لَا تَبْدِیۡلَ لِکَلِمٰتِ اللہِ ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیۡمُ ﴿ؕ۶۴ترجمہ :سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔(کنزالایمان)

آگے چل کر بندوں کو روحانیت کے حصول……… اور قرب الٰہی پانے کے طریقوں……… اور راستوں سے آگاہ کرنے کے لیے یہ سلسلہ اُمت کے صوفیااور اولیاکے ہاتھوں میں دیاگیا ………اور آج تک یہ مردانِ خدا اِس ذمہ داری کو بحسن وخوبی نبھا رہے ہیں ……… خلاصۂ کلام یہ ہے کہ بندہ نفسانیت،انانیت اور خواہشات کے بتوں کو پاش پاش کردے ……… عبادت،ریاضت اورفکرآخرت سے خودکو مزین کرے……… تقوی وپرہیزگاری کی سواری پر سوارہوجائے……… قربِِ الٰہی کی منزلوں تک پہنچانے والے اعمال مسلسل بجالائے اور اولیاء کرام وعلماء عظام کا ہمنشین بن جائے تو ایک وقت آئے گا جب وہ روحانیت سے سرفراز ہوجائے گا………ارشادِ ربانی ہے:

وَالَّذِیۡنَ جٰہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا ؕ وَ اِنَّ اللہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿٪۶۹(پ21،العنکبوت:69)ترجمہ :اور جنہوں نے ہماری راہ میں کوشش کی ضرور ہم انہیں اپنے راستے دکھادیں گے اور بیشک اللہ نیکوں کے ساتھ ہے۔(کنزالایمان)

رب کریم ہمیں نیک اعمال کی توفیق دے کراپنے قرب سے نوازے اوراپنے نیک بندوں کی صحبت ورفاقت عطا فرماکر روحانیت سے مالا مال کردے ۔ امین بجاہ طٰہٰ ویٰسین

محمد آصف اقبال مدنی

کراچی،پاکستان


پیارے اسلامی بھائیو!دنیا دارُ العمل ہے، اس میں جو اعمال کریں گے قیامت کے دن ان کا بدلہ ملےگا، نیک اعمال پر ثواب اور بُرے اعمال پر عذاب ہوگا، اپنی زندگی نیک اعمال میں گزارنے والے خوش جبکہ غفلت یا کفر و شرک میں گزارنے والے پریشان ہوں گے،وہاں ایک چھوٹی نیکی کی بڑی قدر ہوگی مگر کوئی کسی کو دینے کےلئے تیار نہ ہوگا، بعض لوگ غفلت اور گناہوں میں زندگی گزارنے کی وجہ سے جبکہ بعض لوگ کفر و شرک میں زندگی بسر کرنے کی وجہ سے حسرت کریں گے۔ آہ! آہ! اس وقت سوائے حسرت کے کچھ ہاتھ نہ آئےگا، ان حسرت کرنے والوں میں سے بعض یہ تمنا کریں گے کہ کاش فلاں کام یا فلاں نیکی کی ہوتی، یا فلاں کام نہ کیا ہوتا، بعض تو واپس دنیا میں بھیجے جانے کی تمنا کریں گے، لیکن دوبارہ دنیا میں کسی کا آنا نہیں ہوسکے گا، ہماری کامیابی اور ناکامی انہی اعمال پر منحصر ہوں گے جو ہم نے دنیا میں کئے تھے۔ قراٰنِ کریم نے مختلف مقامات پر لوگوں کی حسرتوں کو مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے، آئیے ذیل میں ان میں سے چند آیات تفسیر کے ساتھ پڑھتے ہیں:

(1)وَلَوْ تَرٰۤی اِذْ وُقِفُوْا عَلَی النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُکَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَنَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۲۷) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اور اگر آپ دیکھیں جب انہیں آگ پر کھڑا کیا جائے گا پھر یہ کہیں گے اے کاش کہ ہمیں واپس بھیج دیا جائے اور ہم اپنے رب کی آیتیں نہ جھٹلائیں اور مسلمان ہوجائیں۔(پ7،الانعام:27)

تفسیر صِراطُ الجنان میں ہے:اس آیت کا خلاصہ ہےکہ اگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافروں کی حالت دیکھیں جب انہیں آگ پر کھڑا کیا جائے گا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بڑی خوفناک حالت دیکھیں گے اور اس وقت کافر کہیں گے کہ اے کاش کہ کسی طرح ہمیں واپس دنیا میں بھیج دیا جائے اور ہم اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی آیتیں نہ جھٹلائیں اور مسلمان ہوجائیں تاکہ اس ہولناک عذاب سے بچ سکیں۔(صراط الجنان،3/89)

(2) وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى یَدَیْهِ یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلًا(۲۷) ترجَمۂ کنزُ العرفان: اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا ئے گا، کہے گا: اے کاش کہ میں نے رسول کے ساتھ راستہ اختیار کیا ہوتا۔ (پ19، الفرقان:27)

تفسیر صراط الجنان میں ہے : ارشاد فرمایا کہ وہ وقت یاد کریں جس دن ظالم حسرت و ندامت کی وجہ سے اپنے ہاتھوں پر کاٹے گا اورکہے گا : اے کاش کہ میں نے رسول کے ساتھ جنت و نجات کاراستہ اختیار کیا ہوتا، ان کی پیروی کیا کرتا اور ان کی ہدایت کو قبول کیا ہوتا۔یہ حال اگرچہ کفار کے لئے عام ہے مگر عقبہ بن ابی معیط سے اس کا خاص تعلق ہے۔ اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ عقبہ بن ابی معیط اُبی بن خلف کا گہرا دوست تھا، حضورسیّد المرسَلین صلَّی اللہ تعالی ٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ارشاد فرمانے سے اُس نے لَا ٓاِلٰہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کی شہادت دی اور اس کے بعد اُبی بن خلف کے زور ڈالنے سے پھر مُرتَد ہوگیا، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ تعالی ٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسے قتل ہوجانے کی خبر دی، چنانچہ وہ بدر میں مارا گیا۔ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی کہ قیامت کے دن اس کو انتہا درجہ کی حسرت و ندامت ہوگی اوراس حسرت میں وہ اپنے ہاتھوں کو کاٹنے لگے گا۔ (صراط الجنان،7/18)

(3) یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا(۲۸) لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا(۲۹) ترجَمۂ کنزُ العرفان: ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ بیشک اس نے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس سے بہکا دیا اور شیطان انسان کو مصیبت کے وقت بے مدد چھوڑ دینے والا ہے ۔

(پ19، الفرقان:28، 29 )

تفسیرِ صراط الجنان میں ہے: اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ قیامت کے دن کافر کہے گا:ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتاجس نے مجھے گمراہ کر دیا۔ بیشک اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس نصیحت یعنی قرآن اور ایمان سے بہکا دیا اور شیطان کی فطرت ہی یہ ہے کہ وہ انسان کو مصیبت کے وقت بے یارو مددگار چھوڑ دیتا ہے اور جب انسا ن پربلاو عذاب نازل ہوتا ہے تو اس وقت اس سے علیحدگی اختیار کرلیتا ہے ۔(صراط الجنان،7/19)

(4)یوْمَ تُقَلَّبُ وُجُوْهُهُمْ فِی النَّارِ یَقُوْلُوْنَ یٰلَیْتَنَاۤ اَطَعْنَا اللّٰهَ وَاَطَعْنَا الرَّسُوْلَا(۶۶) ترجَمۂ کنزُالعرفان: جس دن ان کے چہرے آگ میں باربارالٹے جائیں گے توکہتے ہوں گے: ہائے!اے کاش! ہم نے اللہ کا حکم مانا ہوتا اور رسول کا حکم مانا ہوتا۔ (پ22، الاحزاب:66)

تفسیرِ صراط الجنان میں ہے : اس سے پہلی آیت میں بیان ہو اکہ جہنم کی آگ میں کافروں کا کوئی حمایتی اور مددگار نہ ہو گا اور ا س آیت میں ان کے عذاب کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے کہ جس دن کافروں کے چہرے جہنم کی آگ میں بار بار الٹ پلٹ کئے جائیں گے اورآگ میں جلنے کے باعث ان کے چہرے کی رنگت تبدیل ہورہی ہو گی تو اس وقت وہ انتہائی حسرت کے ساتھ یہ کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے! اے کاش! ہم نے دنیا میں اللہ تعالیٰ اور ا س کے رسول علیہ السّلام کا حکم مانا ہوتا تو آج ہم عذاب میں گرفتار نہ ہوتے۔ خیال رہے کہ جہنم میں کافروں کے پورے جسم پرعذاب ہوگا اور یہاں آیت میں چہرے کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ چہرہ انسان کے جسم کاسب سے مکرم اورمُعَظَّم عُضْو ہوتا ہے اورجب ان کاچہرہ آگ میں باربارالٹ رہا ہوگا تو یہ ان کے لیے بہت زیادہ ذلت اوررسوائی کاباعث ہوگا۔ (صراط الجنان،8/99)

(5)حَتّٰۤى اِذَا جَآءَنَا قَالَ یٰلَیْتَ بَیْنِیْ وَبَیْنَكَ بُعْدَ الْمَشْرِقَیْنِ فَبِئْسَ الْقَرِیْنُ(۳۸) ترجَمۂ کنزُالعرفان: یہاں تک کہ جب وہ کافر ہمارے پاس آئے گا تو(اپنے ساتھی شیطان سے )کہے گا: اے کاش! میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کے برابر دوری ہوجائے تو (تُو) کتنا ہی برا ساتھی ہے۔(پ25،الزخرف:38)

تفسیر صراط الجنان میں ہے: یعنی قرآن سے منہ پھیرنے والے کفار، شیطان کے ساتھی ہوں گے یہاں تک کہ جب قیامت کے دن ان میں سے ہر ایک اپنے ساتھی شیطان کے ساتھ ہمارے پاس آئے گا تووہ شیطان کو مُخاطَب کر کے کہے گا:اے میرے ساتھی! اے کاش! میرے اور تیرے درمیان اتنی دوری ہو جائے جتنی مشرق و مغرب کے درمیان دوری ہے کہ جس طرح وہ اکٹھے نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ایک دوسرے کے قریب ہو سکتے ہیں اسی طرح ہم بھی اکٹھے نہ ہوں اور نہ ہی ایک دوسرے کے قریب ہوں اورتو میرا کتنا ہی برا ساتھی ہے۔(صراط الجنان،9/131، 132)

(6)وَ اَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِشِمَالِهٖ فَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ كِتٰبِیَهْۚ(۲۵) وَ لَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَهْۚ(۲۶) یٰلَیْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِیَةَۚ(۲۷) مَاۤ اَغْنٰى عَنِّیْ مَالِیَهْۚ(۲۸) هَلَكَ عَنِّیْ سُلْطٰنِیَهْۚ(۲۹) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اور رہا وہ جسے اس کانامہ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ کہے گا: اے کاش کہ مجھے میرا نامہ اعمال نہ دیا جاتا۔ اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔اے کاش کہ دنیا کی موت ہی (میرا کام) تمام کردینے والی ہوجاتی۔(پ29، الحاقہ:25تا29)

تفسیر صراط الجنان میں ہے: سعادت مندوں کا حال بیان کرنے کے بعد اب بد بختوں کا حال بیان کیاجا رہا ہے ، چنانچہ اس آیت اور ا س کے بعد والی چار آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جس کا نامۂ اعمال بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ جب اپنے نامۂ اعمال کو دیکھے گا اور اس میں اپنے برے اعمال لکھے ہوئے پائے گا تو شرمندہ و رُسوا ہو کر کہے گا: اے کاش کہ مجھے میرا نامۂ اعمال نہ دیا جاتا اور میں نہ جانتا کہ میرا حساب کیا ہے۔ اے کاش کہ دنیا کی موت ہی ہمیشہ کیلئے میری زندگی ختم کردیتی اور مجھے حساب کیلئے نہ اُٹھایا جاتا اور اپنا اعمال نامہ پڑھتے وقت مجھے یہ ذلت و رسوائی پیش نہ آتی۔(صراط الجنان،10/326، 327)

(7)اِنَّاۤ اَنْذَرْنٰكُمْ عَذَابًا قَرِیْبًا یَّوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ یَدٰهُ وَیَقُوْلُ الْكٰفِرُ یٰلَیْتَنِیْ كُنْتُ تُرٰبًا۠ (۴۰) ترجَمۂ کنزُالعرفان: بیشک ہم تمہیں ایک قریب آئے ہوئے عذاب سے ڈراچکے جس دن آدمی وہ دیکھے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور کافر کہے گا: اے کاش کہ میں کسی طرح مٹی ہوجاتا۔(پ30، النباء:40)

تفسیر صراط الجنان میں ہے: ارشاد فرمایا کہ اے کفارِ مکہ ! ہم دنیا میں تمہیں اپنی آیات کے ذریعے قیامت کے دن کے عذاب سے ڈرا چکے ہیں جو کہ قریب آ گیا ہے اور یہ عذاب اس دن ہو گا جس دن ہر شخص اپنے تمام اچھے برے اعمال اپنے نامۂ اعمال میں لکھے ہوئے دیکھے گا اور کافر کہے گا: اے کاش کہ میں کسی طرح مٹی ہوجاتا تاکہ عذاب سے محفوظ رہتا۔کافر یہ تمنا کب کرے گا اس کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن جب جانوروں اور چوپایوں کو اٹھایا جائے گا اور انہیں ایک دوسرے سے بدلہ دلایا جائے گا یہاں تک کہ اگر سینگ والے نے بے سینگ والے کو مارا ہوگا تو اُسے بھی بدلہ دلایا جائے گا، اس کے بعد وہ سب خاک کردیئے جائیں گے ،یہ دیکھ کر کافر تمناکرے گا کہ کاش! میں بھی ان کی طرح خاک کردیا جاتا ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ جب مومنین پر اللہ تعالیٰ انعام فرمائے گا تو ان نعامات کو دیکھ کر کافر تمنا کرے گا کہ کاش !وہ دنیا میں خاک ہوتا یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے معاملے میں عاجزی اورتواضع کرنے والاہوتا متکبر اورسرکش نہ ہوتا ۔ایک قول یہ بھی ہے کہ کافر سے مراد ابلیس ہے جس نے حضرت آدم علیہ الصّلوٰۃ و السّلام پر یہ اعتراض کیا تھا کہ وہ مٹی سے پیدا کئے گئے اور اپنے آگ سے پیدا کئے جانے پر فخر کیا تھا۔ جب وہ قیامت کے دن حضرت آدم علیہ الصّلوٰۃ و السّلام اور اُن کی ایماندار اولاد کے ثواب کو دیکھے گا اوراپنے آپ کو عذاب کی شدت میں مبتلا پائے گا تو کہے گا: کاش! میں مٹی ہوتا یعنی حضرت آدم علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی طرح مٹی سے پیدا کیا ہوا ہوتا۔(صراط الجنان، 10/520)

(8)وَجِایْٓءَ یَوْمَىٕذٍۭ بِجَهَنَّمَ یَوْمَىٕذٍ یَّتَذَكَّرُ الْاِنْسَانُ وَاَنّٰى لَهُ الذِّكْرٰىؕ(۲۳) یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْۚ(۲۴) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اور اس دن جہنم لائی جائے گی، اس دن آدمی سوچے گا اور اب اس کے لئے سوچنے کا وقت کہاں؟ وہ کہے گا: اے کاش کہ میں نے اپنی زندگی میں (کوئی نیکی) آگے بھیجی ہوتی۔(پ30، الفجر:23، 24)

تفسیر ِصراط الجنان میں دوسری آیت کے تحت لکھا ہے کہ قیامت کے دن آدمی کہے گا کہ اے کاش! میں نے اپنی زندگی میں کوئی نیکی آگے بھیجی ہوتی۔یہاں زندگی سے مراد یا دنیوی زندگی ہے یا اُخروی زندگی، پہلی صورت میں آیت کا مطلب یہ ہے کہ کاش میں دُنْیَوی زندگی میں کچھ نیکیاں کما کر آگے بھیج دیتا۔ دوسری صورت میں مطلب یہ ہے کہ کاش میں نے اس دائمی زندگی کے لئے کچھ بھیج دیا ہو تا، ساری عمر فانی زندگی کے لئے کمائی کی اور خدا کو یاد نہ کیا۔ کفار کے لئے یہ پچھتانا بھی عذاب ہو گا، دنیا میں نیکو کار مومن کا نادم ہونا درجات کی ترقی کا سبب ہے اورگنہگار مومن کا پچھتانا توبہ ہے مگر کافر کا قیامت میں پچھتانا محض عذاب ہے۔(صراط الجنان،10/673)


پنجہ شریف (1) نزدمٹھہ ٹوانہ (2) ضلع خوشاب(3) کاملک اعوان (4) قاضی خاندان عرصہ درازسے دین متین کی خدمت میں مصروف ہے، انیس صدی عیسوی میں اس کے سربراہ حضرت مولانا حافظ قاضی محمد عبدالحکیم قادری صاحب تھے جو اپنےوقت کے بہترین حافظ قرآن ،جیدعالم دین،حسن ظاہری وباطنی کے پیکر اورعلم وعمل کے جامع تھے ، اللہ پاک نےانہیں بیٹے کی نعمت سے نوازا، اکلوتاہونے کی وجہ سے ماں باپ اس بچے سے بہت محبت کرتے تھے،انھوں نے اس کی تربیت اس اندازمیں کی کہ یہ بچپن سے حصولِ علم میں مگن رہتا تھا، ابتدائی عمرمیں ہی حفظ قرآن کی سعادت پائی،اب یہ حافظ صاحب کے معززلقب سے پکارا جانے لگا،حافظ صاحب نے درسِ نظامی کی ابتدائی کتب اپنے والدگرامی سے پڑھیں،ان کا شوق علم اتنا بڑھا کہ انھوں نے دیگرشہروں میں جاکر نامورعلماسےپڑھنے کا فیصلہ کیا،ایک دن اپنےوالد گرامی کی خدمت میں حاضرہوکربصداحترام بیرون شہرجانے کی اجازت مانگی ،والدگرامی چونکہ علم کی گہرائی کوجانتے تھے اورسفرکے فوائدسے بھی واقف تھے چنانچہ انھوں نےاپنے اکلوتے اورفرمانبرداربیٹے کو اجازت دے دی۔

حافظ صاحب نے مختلف شہروں میں حاضرہوکرخوب علم دین حاصل کیا ، دوران تعلیم ان کے ذہن میں عقیدہ ومعمولات اہل سنت کے بارے میں کچھ اشکا ل پیداہوگئے،کچھ عرصہ کےبعدگھرلوٹے تووالدمحترم کی خدمت میں ان اشکال کو بیان کیا،انھوں نےجواب دیا مگران کی تشفی نہ ہوئی ،آپ کےوالد مولانا محمدعبدالحکیم قادری صاحب اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃاللہ علیہ(5) کے بارے میں جانتے تھے کہ یہ اِس وقت علماومشائخ اہل سنت کی قیادت فرمارہےہیں اوردرجہ مجددیت پر فائز ہیں ، عقیدہ ومعمولات اہل سنت کی ترویج واشاعت کے سبب نہ صرف ہند بلکہ عالم اسلام میں مشہورہیں ۔ چنانچہ دونوں باپ بیٹانےباہم طے کیا کہ ہم اعلیٰ حضرت سے ملاقات وزیارت کے لیے بریلی شریف (6) کاسفرکرتے ہیں ۔ یہ اپنےگاؤں پنجہ شریف (نزدمٹھہ ٹوانہ ضلع خوشاب)سے 1328ھ مطابق 1910ء میں عازم بریلی ہوئے ،تقریبا 926کلومیٹرسفرکی صوبتیں برداشت کرتے ہوئے بریلی شریف پہنچے۔حسن اتفاق سے اعلیٰ حضرت اس وقت دارالعلوم منظراسلام (7) کے طلبہ کو درس دےرہےتھے اورموضوع بھی وہی تھاجس کی وجہ سے ان باپ بیٹے نے سفرکیا تھا،اعلیٰ حضرت جیسے جیسے گفتگوفرماتے گئے ، اشکال دورہوتے گئے ،درس کے اختتام تک حافظ صاحب نےفیصلہ کرلیاکہ میں مرید بنوں گا تو اعلیٰ حضرت کا بنوں گا،بعددرس ان دونوں کی اعلیٰ حضرت سےملاقات ہوئی ،اعلیٰ حضرت علماوطلبہ سےبہت محبت کرتے تھے،جب آپ کو معلوم ہواکہ یہ شمال مغربی پنجاب سے سفرکرکےبریلی پہنچے ہیں تو اعلیٰ حضرت نے مزید ان کا اکرام فرمایا،بعدمصافحہ اعلیٰ حضرت نے پوچھا:مولانا! کیسےتشریف لائے ،برجستہ عرض کیاحضور!بیعت کرناچاہتاہوں ،فرمایا،کیاپڑھےہوئےہو؟حافظ صاحب نے جوابااپنی تعلیم کی تفصیلات بیان کیں،اعلیٰ حضرت نے حوصلہ افزائی فرمائی اورمزیدپڑھنےکےلیے دارالعلوم منظراسلام میں داخلہ لینے کا حکم ارشادفرمایا۔(8) یہ دوسال وہاں رہے(9) اوراعلیٰ حضرت سے خوب استفادہ کیاحتی کہ اعلیٰ حضرت نےانہیں سلسلہ قادریہ رضویہ میں خلافت سے بھی نوازدیا ۔(10) شوقِ علم سے سرشاران عالم دین کا اسم گرامی حضرت مولاناباباجی قاضی حافظ محمدعبدالغفورقادری رضوی ہے ۔ان کے بارے میں اب تک جومعلومات حاصل ہوسکی ،وہ بیان کی جاتی ہیں :

قاضی خاندن کا تعارف:قاضی خاندان کا تعلق وادی سون سکیسر(11) کے گاؤں چِٹّہ (12) سے ہے ،ان کےآباواجدادوہاں سے مٹھہ ٹوانہ میں منتقل ہوئے ، قاضی خاندان کے جدامجدحافظ عطامحمدصاحب کی لائق گاشت زمین مٹھہ ٹوانہ (ضلع خوشاب) سے تقریبا چھ سات کلومیٹرکےفاصلے پر پہاڑکے دامن میں تھی جس میں یہ کھیتی باڑی کیاکرتے تھے ، یہ اپنے بیلوں کے ہمراہ زمین پر جاتے آتے تلاوت قرآن میں مصروف رہتے تھے ،مشہوریہ ہے روزانہ ایک ختم قرآن کی سعادت پایا کرتے تھے ،ان کے تین بیٹے اورایک بیٹی تھی:

(1)بڑے بیٹے قاضی فیروزدین تھے ، جوچک 58ضلع سرگودھا میں زمین داری کیا کرتےتھے،ان کا ایک بیٹاقاضی شعیب الدین تھا،جو جوانی میں فوت ہوا۔

(2) دوسرے بیٹے مولانا حافظ قاضی عبدالحکیم قادری تھے ،(13) جوکہ علامہ عبدالغفورقادری کے والدگرامی ہیں۔

(3)تیسرےبیٹے قاضی مظفردین تھے ،یہ عالم دین تھے اورآرمی میں خطیب رہے ،ان کے بیٹےمولانا قاضی ضیاء الدین صاحب بھی عالم دین اورآرمی میں خطیب تھے ،ان دونوں باپ بیٹا کا انتقال مٹھہ ٹوانہ میں ہوا،مولانا قاضی ضیاء الدین صاحب کے بیٹےمولانا قاضی عبدالقیوم صاحب ہیں ، ابھی یہ چندسال کے تھے کہ والدصاحب کا انتقال ہوگیا ،باباجی علامہ عبدالغفورصاحب نےانہیں مٹھہ ٹوانہ سے پنجہ شریف میں بُلالیا ، انکی پرورش مٹھہ ٹوانہ میں ہوئی ،انھوں نے باباجی سے ہی علم دین حاصل کیا ، باباجی کےانتقال کےبعد یہ جامع مسجدابھاروالی کے امام وخطیب مقررہوئے ، 1410ھ /1990ءمیں آپ کا وصال پنجہ شریف میں ہوا،آبائی قبرستان میں تدفین ہوئی ۔مولاناقاضی عبدالقیوم قادری صاحب کے بیٹے مولانا قاضی زین العابدین قادری صاحب تھے جوجامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ بھکھی شریف(14) کے فارغ التحصیل تھے ۔ان کاوصال یکم رمضان1434ھ/9جولائی 2013ء میں پنجہ شریف میں ہوا،والدکے قبرکےقریب تدفین ہوئی ۔

(4)ایک بیٹی تھیں جن کا نکا ح قاضی شیرمحمدقادری بن قاضی پیرمحمدقادری صاحب سے ہوا ،ان کے بیٹے عارف باللہ حضرت قاضی محمددین قادری (15) تھے جو کہ علامہ عبدالغفورصاحب کے شاگرداوربیٹی کے سسرتھے ۔ (16)

پیدائش: خلیفۂ اعلیٰ حضرت ،عالم باعمل حضرت علامہ قاضی باباجی حافظ محمدعبدالغفورقادری رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولا د ت باسعادت 1293ھ مطابق 1886ء پنجہ شریف (نزدمٹھہ ٹواناضلع خوشاب پنجاب)پاکستان میں ہوئی۔(17)

والدین کا تذکرہ :آپ کے والدگرامی حضرت مولانا حافظ قاری قاضی عبدالحکیم قادری صاحب کی ولادت 1856ء /1272ءمیں ہوئی اور1941ء /1360ءمیں 85سال کی عمرمیں وصال فرمایا،پنجہ شریف قبرستان میں تدفین ہوئی ،آپ جیدعالم دین ،مضبوط حافظ قرآن اورآرمی میں خطیب تھے ،فوج سے سبکدوش کے ہونے کے بعدکھیتی باڑی کیا کرتے تھے ،آپ عالم باعمل اورقصیدۂ غوثیہ کے عامل تھے ۔ ابتدائی عمرمیں بوجوہ مٹھہ ٹوانہ سے اپنے ایک رشتہ دارقاضی شیرمحمدقادری کے ہمراہ پنچہ شریف منتقل ہوگئے تھے۔ (18) آپ کی والدہ محترمہ حضرت فیض بی صالحہ خاتون تھیں ،جو مٹھہ ٹوانہ کےعالم دین حضرت مولانا قاضی شیخ احمدصاحب کی بیٹی اور اس زمانے میں مٹھہ ٹوانہ کی واحدجامع مسجدقاضایاں والی کے امام وخطیب مولاناقاضی فضل احمد صاحب کی بہن تھیں ۔(19)

تعلیم وتربیت:آپ کی ابتدائی تعلیم وتربیت والدگرامی حضرت مولاناقاضی قاری حافظ محمدعبدالحکیم قادری صاحب کے ہاں ہوئی، مزیدتعلیم مختلف شہروں میں حاصل کی ،دوران تعلیم آپ کے ذہن میں عقیدہ ومعمولات اہل سنت کے بارے میں کچھ اشکا ل پیداہوگئے۔ آپ کے والدگرامی 1328ھ / 1910ء میں آپ کو بریلی شریف (یوپی ہند) اعلیٰ حضرت امام احمدرضا کی بارگاہ میں لے گئے ۔آپ کی صحبت وزیارت کی برکت سے سارے شکوک وشبہات دورہوگئے اوراعلیٰ حضرت کے علم وتقویٰ سے اس قدرمتاثرہوئے کہ سلسلہ عالیہ قادریہ میں آپ کے دست اقدس پر بیعت کرلی ،مزیدعلم دین کے حصول کے لیے دارالعلوم (مدرسہ اہل سنت وجماعت)منظراسلام بریلی شریف میں داخلہ لے لیا۔(20)

بریلی شریف میں آپ کا قیام : 1328ھ/1910ء سے 1330ھ/1912ء دوسال علامہ عبدالغفورقادری صاحب نے بریلی شریف میں گزارا،اس وقت کے دارالعلوم کے اساتذہ ،اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان ، حجۃ الاسلام حامدرضا خان(21) ، صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی (22) ،مفتی اعظم ہندمولانا مصطفی رضا خان (23) اورعلامہ سیدبشیراحمدشاہ علی گڑھی (24) رحمۃا للہ علیہم سے استفادہ کرنے کی سعادت پائی ۔(25)اس دوران دارالعلوم منظراسلام کےتین سالانہ جلسے ہوئے ،قرین قیاس یہی ہے کہ آپ نےان تینوں میں شرکت کی ہوگی،دارالعلوم منظراسلام کا نواں سالانہ جلسہ بتاریخ 27،28،29ذیقعدہ1330ھ مطابق8، 9،10نومبر1912ءبروزجمعہ ،ہفتہ اوراتواربریلی شریف کی مرکزی جامع مسجد بی بی جی صاحبہ(محلہ بہاری پور،بریلی) (26) میں منعقدہوا،غالبااس میں آپ کی دستاربندی ہوئی اوریوں فاضل دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف کا شرف پایا ۔(27) 1328ھ تا1330ھ تک جو طلبہ پڑھتے تھے ان میں محدث اعظم بہارحضرت مولانااحسان علی محدث مظفرپوری(28) حضر ت مولانا محمدطاہر رضوی(29) ،حضرت مولاناعبدالرشیدرضوی(30) اورمولانا عبدالرحیم رضوی(31)وغیرہ شامل ہیں۔(32)

سلسلہ قادریہ کی خلافت :آپ کے والدگرامی علامہ قاضی عبدالحکیم قادری صاحب کے شیخ طریقت حضرت سیدنا پیرعبدالرحمن قادری ملتانی (33) رحمۃا للہ علیہ کے اشارہ غیبی پر اعلیٰ حضرت امام احمدرضا نے آپ کو سلسلہ قادریہ رضویہ کی خلافت عطافرمائی۔6ذیقعدۃ الحرام 1330ھ / 17،اکتوبر1912ء کوسندتکمیل کےساتھ سند اجازت دی گئی ، اعلیٰ حضرت نے آپ کے نام کے ساتھ یہ القابات تحریر فرمائے:برادریقینی،صالح سعید،مفلح رشید،فاضل حمید،حسن الشمائل، محمودالخصائل، راغب الی اللہ ،الغفورالشکور قاری حافظ مولوی محمد عبد الغفور ابن مولوی حافظ قاری محمدعبدالحکیم شاہ پوری نوربالنور المعنوی،الصوری ۔ان القابات سے آپ کی شخصیت کی عکاسی ہوتی ہے۔(34)

اسنادکی معلومات :ماہررضویت پروفیسرڈاکٹرمسعوداحمدمجددی صاحب (35) تحریرفرماتے ہیں : امام احمدرضا کے تلامذہ اورخلفاء پاک وہند کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں، 1990ء سکھرسندھ میں قیام کےدوران محترم مولانا حافظ محمدرفیق صاحب قادری(36) زیدعنایتہ (مہتمم جامعہ انوارمصطفی سکھر)نے فرمایاکہ ایک دستاویزاِن کے علم میں بھی ہے جوان کے استادگرامی مولانا عبدالغفورعلیہ الرحمہ کے گھرانے میں محفوظ ہے ۔تلاش کرکےمہیاکرنے کا وعدہ فرمایا،پھر24جون 1992ءکو یہ وعدہ پوراہوااورموصوف کے صاحبزادے برادرم مفتی محمدعارف سعیدی(37) زیدمجدہ اورمکرمی مفتی محمدابراہیم قادری(38) زیدعنایتہ دستاویزلےکرغریب خانے پر تشریف لائےاوراس کے عکس عنایت فرمائے ۔ دستاویزکےمطالعہ کے بعدمعلوم ہواکہ یہ دوسندیں ہیں جن کاتعلق پاکستان کےمولانامحمدعبدالغفورشاہ پوری سے ہے۔ایک سندتکمیل ہےاوردوسری سندخلافت واجازت ہے۔اس سندکے ساتھ تیسری سندحدیث ہےجو مولوی بشیراحمدصاحب نے عنایت کی آخرمیں حجۃ الاسلام مولاناحامدرضا خاں صاحب نے ان الفاظ کےساتھ دستخظ فرمائے ہیں :واناذالک من الشاہدین ۔،یہ اسناد،ادارہ تحقیقات امام احمدرضا (39) نے اپنے سالنامہ معارف رضا،شمارہ 1413ھ/1992ء میں شائع کردیا ہے ۔ (40)

شادی واولاد:آپ کی شادی اپنی فیملی کی ایک نیک خاتون سَیدبی بی سے ہوئی ،انھوں نے بعدشادی آپ سے ہی علم دین حاصل کی ، تصوف کی تعلیم پائی ، مکمل ترجمہ قرآن کنزالایمان اورتفسیرخزائن العرفان باباجی سے پڑھا ،عالمہ فاضلہ اورصالحہ خاتون تھیں ۔(41) اللہ پاک نے آپ کوچاندسی بیٹی خدیجہ بی بی عطافرمائی ، جس کی آپ نے بہترین تربیت فرمائی ،انھوں نےاپنےوالدووالدہ سےعلم دین حاصل کیا ،اپنےوالدین کی طرح یہ بھی نہایت عبادت گزار،نیک اورزہدوتقویٰ میں باکمال تھیں ،یہ خواتین کو تعویذات دیا کرتی ،بیمارخواتین اوران کے بچوں کو دم کیا کرتی تھیں ،یہ مستجاب الدعوات تھیں ،ان کی خدمت میں عورتوں کا بہت رجوع تھا ،دوردراز سے خواتین آتی ،دعائیں کرواتیں ،دم کرواتی ،تعویذلیتی اوردل کی مرادیں پاتی تھیں ،باباجی علامہ عبدالغفورقادری صاحب نے ان کی شادی اپنے پھوپھی زادبھائی اورشاگردعارف باللہ حافظ قاضی محمددین قادری صاحب (42) کے صاحبزادے امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ (پنجہ شریف )حضرت مولانا قاضی عبدالرحمن قادری صاحب (43) سے کی ۔جامعہ مسجدرحمانیہ کے موجودہ امام وخطیب قاضی الحاج حبیب الرحمن صاحب آپ کے بیٹےا ورجانشین ہیں ۔(44)اس مضمون میں قاضی حبیب الرحمن صاحب نے بہت مددفرمائی ،اللہ پاک انہیں بہترجزاعطارفرمائے۔

ذریعہ آمدن :علامہ عبدالغفورقادری صاحب جیدعالم دین ہونے کے ساتھ بہت بڑے زمینداربھی تھے ،پنجہ شریف میں آپ کے پاس 33،ایکڑ،تھل (45) میں ایک سوایکڑ،بارانی علاقے میں 15 ،ایکڑ اور ساہیوال (46) میں 35،ایکڑزمین تھی ،پنجہ شریف کی زمین آپ خود کاشت کرتے تھے اوربقیہ زمینیں آپ نے مزارعت پر دی ہوئی تھیں، مزارع حضرات کو آپ کی طرف سے سخت تاکیدتھی کہ دیگرلوگوں کی زمینوں سے ایک فٹ فاصلہ رکھ کرفصل گاشت کی جائے ،آپ کے تقوےکا یہ عالم تھاکہ اگرآپ کوشک گزرتاہے کہ کہیں مزارع نے اس بات کو پیش نظرنہیں رکھا تو اس خوف سے کہ کہیں کسی کے کچھ دانے ہماری طرف نہ آگئے ہوں ،آپ وہ پوری آمدن راہ خدامیں خرچ کردیا کرتے تھے ۔(47)

دینی خدمات: کچھ عرصہ کے لیےفوج میں بطورخطیب ملازم ہوگئے ،فیروزپورچھاؤنی(48) میں امامت وخطابت میں مصروف رہے ۔(49) کچھ عرصہ یہ خدمت سرانجام دینے کے بعد آپ وہاں سے سبکدوش ہوکر اپنے گاؤں پنجہ شریف تشریف لے آئے ،آپ نے اپنے محلہ خوشحالی والا(پنجہ شریف ضلع خوشاب)کی اُبھاروالی مسجد (جسے ان کے والدعلامہ عبدالحکیم قادری نے بنایا تھااس )میں امامت وخطابت شروع فرمائی اوراپنی بیٹھک میں مدرسہ قائم فرمایا ۔جس میں حفظ قرآن اوردرس نظامی کی کتب پڑھانے کا سلسلہ تھا ، خیرخواہی امت کے جذبے کے تحت تعویذات بھی دیا کرتے تھے مگریہ سب خدمات فی سبیل اللہ تھیں ۔(50)

تصنیف وتالیف:دین اسلام کا ترویج واشاعت کاایک اہم ذریعہ کتب کی تصنیف وتالیف بھی ہے ،علامہ عبدالغفورقادری صاحب بھی حالات حاضرسےآگاہ تھے اوراس وقت کی ضرورت کے مطابق تصنیف وتالیف میں مصروف رہے،فتنہ قادیانیت کےرد میں آپ کے دورسائل تحفۃ العلماء فی تردیدمرزا المعروف لیاقت مرزا (51) اور عمدۃ البیان فی جواب سوالات اہل القادیان(52) ہیں ،یہ دونوں رسائل حضرت علامہ مفتی محمدامین قادری عطاری(53) رحمۃ اللہ علیہ نےعلمائے اہل سنت کے کتب ورسائل کےمجموعہ ’’عقیدہ ختم النبوۃ ‘‘ (54) کی تیرہویں جلد میں شائع کئے ہیں ،مزیدتصانیف سے آگاہی نہ ہوسکی ۔

کتب خانہ :علامہ عبدالغفورقادری صاحب کوچارپانچ زبانوں پر عبورحاصل تھا ،عربی تکلم میں تو آپ ماہرتھے ،آپ کے کتب خانے میں کثیرکتب تھی ،جوآپ کی وفات کےبعدجامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ بھکھی شریف(55) میں منتقل کردی گئیں ۔(56)

تحریک پاکستان میں حصہ:آپ نےتحریک پاکستان میں بھرپورحصہ لیا ، عوام وعلماء سب کو اس کی اہمیت سے آگاہ کیا ،آپ کی ان کوششوں سے پنجاب میں تحریک پاکستان کےلیے رائے عامہ ہموارہوئی ،آپ نےمجاہدملت حضرت مولانامحمدعبدالستار خان نیازی(57) کے قافلے کی سرپرستی فرمائی ،23تا25صفرالمظفر 1365ھ27تا29جنوری 1946ء کو آپ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے پچیسویں عرس کےموقع پر بریلی شریف تشریف لے گئے جہاں پاکستان کےحق میں قراردادمنظورہوئی،اس قرار داد کی ترتیب وتدوین کمیٹی میں آپ شامل تھے ۔بریلی شریف میں آپ کو’’مولانا پنچابی‘‘ کے لقب سے یادکیا جاتاتھا ۔ (58)

علمائے اہل سنت کا آپ کا اکرام کرنا:آپ کے علمااہل سنت سے گہرے تعلقات تھے ، محدث اعظم پاکستان مولانا علامہ سرداراحمدچشتی قادری(59) رحمۃا للہ علیہ دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف سےفارغ التحصیل ہیں ،یوں محدث اعظم آپ کےاستاذبھائی ہیں ،چونکہ علامہ عبدالغفورقادری صاحب کی فراغت محدث اعظم سے پہلے ہوئی اس لیے محدث اعظم آپ کی تعظیم کیا کرتے تھے ،یہیں وجہ ہے کہ حافط الحدیث مولاناسیدمحمدجلال الدین قادری بھکھی شریف(60) اوراستاذالعلمامولانا محمدنوازصاحب(61) بھی آپ کابہت اکرام فرمایاکرتے تھے ۔ (62)

ولی کامل اورتقویٰ وپرہیزگاری :علامہ عبدالغفورقادری صاحب مدرس ہونے کے ساتھ ساتھ باکرامت ولی اورشیخ طریقت بھی تھے،رزق حرام بلکہ مشتبہات سے مکمل اجتناب فرماتے ،اپنے گھرکے غذائی ضروریات کو پوراکرنے کے لیے گاؤں کی قریبی زمین میں خود کھیتی باڑی کرتے اورسبزیاں اگاتے تھے ، دوردورسے مخلوق خداآپ کی بارگاہ میں حاضرہوتی اورعلم وروحانیت سے سیراب ہوتی۔تجلیات خلفائےاعلیٰ حضرت میں ہے : آپ عابدشب بیداراورزہدوورع میں منفردالمثال تھے،اخلاق وخلوص،نیازمندی،عزیمت،حسن سلوک،قناعت پروری ،ایثار و قربانی،جذبہ ٔبندگی،کفایت شعاری اورفضل وکمال کے اوصاف حمیدہ سے متصف تھے۔عشق رسول کی جودولت دہلیزمرشدسے ملی تھی،اس سے ہمہ وقت سرشاررہاکرتے تھے ۔آپ جماعت اہل سنت کے عظیم مبلغ اورمسلک اعلیٰ حضرت کے بہترین داعی تھے ۔کبھی بھی کسی مسئلہ شرعیہ میں مخالفین کی پرواہ نہیں کی ۔(63)

ماہ رمضان کے روزوں سے محبت :ماہ رمضان کے روزوں سے محبت کا عالم یہ تھا کہ زندگی کے آخری تین سال بڑھاپے کی وجہ سے آپ کمزورہوگئے ،ان سالوں میں ماہ رمضان گرمیوں میں تھا،پنجہ شریف میں روزے رکھنا مشکل ہوگیا،چنانچہ آپ نے روزے رکھنے کےلیے اپنے شاگرداورمنہ بولے بیٹے حضرت مولانا حافظ حاجی دوست محمداعوان صاحب(64)، کے پاس کھجولا (ضلع چکوال) (65)تشریف لے جاتے،کیونکہ وہاں کا موسم قدرے ٹھنڈاہوتاتھا ۔ ایک مہینہ آپ وہیں قیام فرماتے اورنمازعیدکے بعد واپس آیا کرتے تھے ۔(66)

تلامذہ وشاگرد:آپ سے کئی علمانے استفادہ کیا ،درس نظامی کی کتب پڑھیں ،مثلا ولی کامل حضرت مولاناصوفی قاضی محمددین قادری اوران کےبیٹے حضرت مولانا قاضی عبدالرحمن قادری امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف(67)، استاذالحفاظ، مردکامل،حضرت باواجی حافظ غلام احمد سَلَوئی والے چکوال(68) ،سیاح حرمین باباجی سیدطاہرحسین شاہ جوہرآباد ضلع خوشاب(69)رفیق ملت حضرت مولانا حافظ محمدرفیق صاحب قادری سکھرسندھ(70)،حضرت مولاناحاجی غلام محمداعوان موضع بِٹّہ ضلع خوشاب(71) اورمولانا حافظ حاجی غوث محمداعوان موضع کھجولاضلع چکوال(72) آپ کے مشہور تلامذہ میں سے ہیں۔ (73)

وفات ومدفن: علامہ عبدالغفورقادری صاحب نےغالبا 15رجب المرجب 1371 ھ / 9مارچ1952 ءکو وصال فرمایا۔(74) قبرستان پنجہ شریف کی ایک احاطہ میں خاندان کے دیگرافراد کے ساتھ آپ کی قبرشریف ہے۔یہ احاطہ مستطیل شکل میں ہے ،اس میں تقریبا 15قبورہیں ،مشرقی جانب لکڑی کا دروازہ ہے ،چاروں طرف 3 سے 4فٹ سرخ اینٹوں کی دیوارہے،اس احاطے کی لمبائی تقریباپچاس ساٹھ فٹ اورچوڑائی پندرہ سولہ فٹ ہے۔بابا جی علامہ عبدالغفورصاحب کی قبراس احاطے کے شمال مغربی دیواروں کے ساتھ ہے۔مغربی دیواراورباباجی کی قبرکے درمیان صرف حضرت مولانا عبدالقیوم قادری صاحب کی قبرہے ۔قدموں کی جانب حضرت مولانا محمدزین العابدین قادری صاحب کی قبرہے۔ راقم ربیع الاول 1447ھ /جنوری 2016ء کو برادران اسلامی حاجی غلام عباس عطاری ،محمدنثارعطاری اورمحمدنویدعطاری کے ہمراہ پنجہ شریف حاضرہوا ،محترم غلام جیلانی صاحب (ٹیچرپرائمری اسکول پنجہ )نے اپنے اسٹوڈنٹس کے ساتھ استقبال کیا ،باباجی علامہ عبدالغفورقادری کے خاندان کے لوگوں سے ملاقات ہوئی ،ان سے معلومات لیں ،باباجی کی مسجدکی زیارت کی اورپھر آپ کے مزارشریف پر حاضرہوکرفاتحہ کی سعادت پائی۔آپ کے لوح مزارپر یہ اشعاردرج ہیں ،جسے ترجمے (75) کے ساتھ ملاحظہ کیجئے:

پرز حسرت ہمیں گرئیم غمگیں

حسرت سے پُر، غمگین یہی کہتا ہوں

کہ ازما کرد رحلت عالم دیں

کہ ہم سے اِک عالمِ دین رِحلت فرما گئے

زما عبدالغفور اکنوں نہاں شد

عبدالغفور اب ہم سے پوشیدہ ہوگئے

بییں ظلمت کہ گم شد ما ہ پرویں

یہ ظلمت دیکھ جس میں ماہِ پروین کھو گئے

خلیق و حاجی و قاریٔ قرآں

خلیق و حاجی اور قاریٔ قرآن

شدہ مدفون بذیر خاک مسکیں

زیرِ خاک مدفون ومکین ہوگئے

اگر صالح وفائش رابہ پرسی

صالح اگر اُن کا سنِ وفات پوچھتے ہو

’’تو حق بخش بہ آن باد‘‘ اندریں بیں

’’تو حق بخش بہ آن باد‘‘ میں دیکھ لے

1371 ھ

حواشی ومراجع:

(1) پنجہ شریف مٹھہ ٹوانہ سےجانب جنوب مغرب 6کلومیٹرفاصلے پر موجودایک قصبہ ہے،جس کی آبادی تقریبادس ہزارہے ،اس میں کل پانچ مساجدہیں جن میں سے تین جامع مساجدہیں (1)جامع مسجدرحمانیہ(2)جامع مسجدشرقی ابھاروالی(3)جامع مسجداُترا بھان اَڈے والی ،ایک پرائمری اسکول ہے ۔

(2) مٹھہ ٹوانہ ایک قدیم قصبہ اورضلع خوشاب کی ایک یونین کونسل ہے، جو خوشاب شہر سے جانب مغرب 24 کلومیٹر فاصلے پرواقع ہے۔مٹھہ ٹوانہ ریلوے اسٹیشن تو میانوالی روڈپر قائم ہے مگرمٹھہ ٹوانہ کی آبادی ریلوے اسٹیشن سے جانب جنوب تقریبا ساڑھےپانچ کلومیٹرکے فاصلے پر ہے جسے مٹھہ ٹوانہ روڈ کے ذریعے آپس میں ملایا گیا ہے ۔اس شہرکی بنیاد1580ء میں رکھی گئی ۔ 1857ء میں اسے ضلع لیہ سے الگ کر کے اس وقت کے ضلع شاہ پور میں شامل کیا گیا ۔  مٹھہ ٹوانہ میں اس وقت بھی کئی قدیمی اور تاریخی عمارات موجود ہیں ۔اسے’’ تھل داکِنارہ‘‘ بھی کہاجاتاہے،اس کی آبادی تقریبا28ہزارہے۔ (نگرنگرپنجاب،379)

(3) خوشاب پاکستان کے ضلع پنجاب میں شمال کی جانب ایک قدیم ترین شہرہے ،اس کا آغاز پندرہ سو(1500)قبل مسیح ہوا،یہ دریائے جہلم کے مغربی کنارے سےڈیڑھ میل دور واقع ہے ، پہلی مرتبہ 1583ءمیں اس کے گرد فصیل بنائی گئی ،جس میں کئی دروازے تھے ،سیلابوں کی وجہ سے یہ فصیل کئی مرتبہ تباہ ہوئی ، 1866ءمیں اس کی تعمیرجدیدکروائی گئی، اس باردیوار شہر میں چار بڑے دروازے، مشرق کی جانب کابلی گیٹ، مغرب کی جانب لاہوری گیٹ،شمال کی جانب جہلمی گیٹ اور جنوب کی جانب ملتانی گیٹ تعمیر کیے گئے،1700ءمیں خوشاب جہلم کمشنری کے تحت تھا اور اس کا صدر مقام شاہ پورتھا۔ 1849ء کو اسے شاہ پورسے جداکرکے ضلع لیہ کا حصہ بنا دیا گیا ،1853ءمیں اسے ٹاؤن کمیٹی کا درجہ ملا، بعد ازاں اسے میونسپل کمیٹی بنا دیا گیا،دوبارہ یہ ضلع شاہ پورکا حصہ بنادیاگیا ،1867ء میں خوشاب کو تحصیل کا درجہ دیا گیا،1940ء میں شاہ پورضلع ختم کرکے سرگودھا ضلع بنایا گیا، 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت خوشاب ضلع سرگو دھا کی تحصیل تھااور 1983ءمیں خوشاب کو الگ ضلع کا درجہ دے دیا گیا،اس وقت اس کی چارتحصیلیں ہیں (1)تحصیل خوشاب (2)تحصیل قائدآباد (3)تحصیل نوشہرہ (وادی سون سکیسر) اور (4)تحصیل نور پور تھل ۔تحصیل خوشاب اور قائد آباد میدانی ، تحصیل نوشہرہ پہاڑی اور تحصیل نور پور تھل صحرائی علاقہ ہے۔1998ء میں اس ضلع کی آبادی تقریبا9لاکھ 58ہزارکے قریب تھی۔ اس کا رقبہ 6ہزار5سو11(6511)مربع کلومیٹر ہے۔ خوشاب بزرگوں کی سر زمین ہے ، سب سے زیادہ مشہور مزارات میں خاندان غوثیہ کے دوبھائیوں سیداحمدشاہ جیلانی اورسیدمحمودشاہ جیلانی کا درباربادشاہاں اور دربارسخی شاہ سیدمعروف قادری رحمۃ اللہ علیہم شامل ہیں، خوشاب کی سب سے اہم سوغات ڈھوڈا ہے۔ یہ ایک مٹھائی ہے جو یہاں نسل در نسل تیار کی جاتی ہے اور اپنے ذائقہ میں بے مثال ہے۔(نگرنگرپنجاب،373تا376)

(4) ملک اعوان ،علوی عربی النسل ہیں ،یہ زراعت پیشہ قبیلہ اوراسلحہ کے استعمال میں مہارت رکھتاہے ،جسامت کے لحاظ سے تنومند،مضبوط اورچوڑے شانوں والے،درمیانے قدکے مالک،ملنساراورخوش اخلاق ہوتے ہیں ، اس خاندان کے جدامجدحضرت عون قطب شاہ علوی ،امیرالمؤمنین حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت سیدنا محمدبن حنفیہ رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان کے چشم چراغ تھے ،حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ہمشیرہ کی شادی ان سے ہوئی تھی یہ غوث پاک کے مرید تھے،انہی کے حکم سے ہند میں تبلیغ اسلام کے لیے آئے ،اپنے اعلیٰ مرتنے کی وجہ سے قطب کہلائے ،ان کی وفات بغدادمیں 1160ھ میں ہوئی ۔(اقوام پاکستان کا انسائیکلوپیڈیا ،799تا806)

(5) اعلیٰ حضرت ،مجدددین وملت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت10شوال 1272ھ /6جون 1856ءکو بریلی شریف(یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340 ھ /28،اکتوبر1921ءکو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجع خاص وعام ہے۔آپ حافظ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے ماہر،تاجدارفقہاو محدثین، مصلح امت، نعت گوشاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریبا ایک ہزارکتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب وعجم اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن،فتاویٰ رضویہ (33جلدیں)، جد الممتارعلی ردالمحتار(7 جلدیں،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی) اور حدائق بخشش آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ،282، 301)

(6) بریلی Bareilly)):یہ بھارت کے صوبے اترپردیش میں واقع ہے، دریائے گنگا کے کنارے یہ ایک خوبصورت شہر ہے۔ دریا کی خوشگوار فضاء نے اس کے حسن میں موثر کردار ادا کیا ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ووفات یہیں ہوئی ،اس لیے یہ شہرآپ کی نسبت سےعالمگیرشہرت رکھتاہے۔

(7) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ نے شہر بریلی(یوپی ہند) میں(غالباماہ شعبان المعظم) 1322ھ/ اکتوبر1904ء میں دارالعلوم(مدرسہ اہل سنت وجماعت) منظر اسلام بریلی کی بنیاد رکھی، اس مدرسے کے بانی اعلیٰ حضرت ،سربراہ حجۃ الاسلام مولانا حامدرضا قادری اورپہلے مہتمم برادراعلیٰ حضرت مولانا حسن رضا خان مقررہوئے ، ہر سال اس ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والے حفاظ قرآن، قراء، عالم اور فاضل گریجویٹ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد ہے۔(صدسالہ منظراسلام نمبرماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،ماہ مئی 2001ء،قسط 1ص28،132)

(8) عقیدہ ختم النبوۃ،13/507۔

(9) ماہنامہ جہان رضا فروری ،مارچ2016ء،ص51 ۔

(10) تذکرہ خلفائے اعلیٰ حضرت ،367۔

(11) وادی سون سکیسرضلع خوشاب کی ایک صحت افزا وادی ہے،جوسلسلہ کوہ نمک کے پہاڑوںمیں دس ہزارایکٹررقبے پرمشتمل ہے ، یہاں کے پہاڑ ریتلی چٹانوں اور چونے کے پتھروں پر مشتمل ہیں ، یہاں کی زراعت کا دارومداربرسات پر ہے،یہاں مارچ سے اکتوبر تک موسم انتہائی خوشگوار رہتا ہے ،سردیوں میں شدید سردی پڑتی ہے اور درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے چلا جاتا ہے،اس میں کئی وادیاں اورچھوٹے بڑے گاؤں اورقصبے ہیں ، اس کے بہترین مقامات میں سے کھبیکی جھیل ، اوچھالی جھیل، مائی والی ڈھیری،جاہلر جھیل ،کھڑومی جھیل ، سوڈھی جے والی، کنہٹی گارڈن اورچشمہ ڈیپ شریف ہیں۔

(12) چِٹہ (chitta)گاؤں وادی سون سکیسرکےمشہوراوچھالی جھیل کے کنارے واقع ہے، چٹہ کے سرسبز کھیت بہت خوب صورت منظر پیش کرتے ہیں۔

(13) ان کا تذکرہ والدمحترم کے عنوان سے آگےآرہا ہے۔

(14) حافظ الحدیث حضرت علامہ مفتی سید محمد جلال الدین شاہ مشہدی رحمۃ اللہ علیہ عصر حاضرکے عظیم محدث و مفسر، یگانہ روزگار اورعظیم فقیہ تھے۔آپ نے یکم شوال المکرم 1359ھ / 2نومبر1941ء میں اپنے قصبہ بھکھی شریف (منڈی بہاؤالدین) میں ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی جس کانام ’’جامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ ‘‘ تجویز کیا گیا۔ قبلہ حافظ الحدیث نے چالیس (40)سال تک یہاں مسند تدریس کو رونق بخشی اور کثیرعلمامشائخ اس چشمہ علم وعمل سے سیراب ہوئے ۔

(15) ولی کامل حضرت مولاناصوفی قاضی محمددین قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1295ھ/1888ء پنجہ شریف (نزدمٹھہ ٹواناضلع خوشاب پنجاب)پاکستان میں ہوئی اوریہیں یکم محرم 1360ھ /29جنوری1941 ء کو وصال فرمایا،آپ کاخاندان سات(7) پشتوں سےقادریہ سلسلے سے منسلک ہے ،آپ کے والدگرامی صوفی قاضی شیرمحمدقادری ولی کامل اورپیر طریقت تھے ، قاضی محمددین قادری ابھی تین چارسال کے تھے کہ آپ کے والدکا انتقال ہوگیا چنانچہ بچپن سے ہی انہیں اپنے ماموں علامہ عبدالحکیم قادری کی صحبت ملی ، درس نظامی کی کتب باباجی علامہ عبدالغفورقادری صاحب سے پڑھیں ،بعدحصول علم دین اپنے گاؤں پنجہ شریف میں جامعہ مسجدرحمانیہ تعمیرکی اوراس میں امامت وخطابت کیا کرتے تھے ،یہاں آپ حفظ قرآن کا درس بھی شروع فرمایا ،آپ تصوف کی طرف زیادہ مائل تھے،سلسلہ قادریہ گیلانیہ میں مریدوخلیفہ تھے ،مرجع العلماوعوام تھے ،پیری مریدی کو ذریعہ آمدن نہ بنایا بلکہ کھیتی باڑی کرتے تھے،جو فرمایاکرتے تھے ہوجاتاتھا،آپ کی کرامات زبان زدعام ہیں ۔ قبرستان پنجہ شریف کی ایک چاردیواری میں خاندان کے دیگرافراد کے ساتھ آپ کا مزار ہے۔ ان کے صحبت یافتہ درویش محمدشفیع قادری صاحب کی قبرپچاس سال کے بعدکھل گئی تو لوگوں نےدیکھا تو ان کی میت صحیح ودرست تھی۔

(16) یہ تمام معلومات نواسۂ علامہ عبدالغفورقادری ،حضرت مولانا قاضی حبیب الرحمن صاحب نے دی ہیں جواس وقت باباجی کے خاندان کےنمائند ے،خوش اخلا ق،خوش لباس اورملنسارشخصیت کے مالک ہیں۔

(17) ماہنامہ جہان رضا فروری ،مارچ2016ء،صفحہ51میں لکھا ہے کہ آپ کی پیدائش 1872ء میں ہوئی ۔

(18) یہ معلومات قاضی حبیب الرحمن صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔

(19) یہ معلومات قاضی حبیب الرحمن صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔

(20) عقیدہ ختم النبوۃ،13/507۔

(21) شہزادۂ اعلیٰ حضرت،حُجّۃُ الاسلام مفتی حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ علامہ دہر، مفتی اسلام ،نعت گوشاعر،اردو،ہندی ،فارسی اورعربی زبانوں عبوررکھنے والےعالم دین ، ظاہری وباطنی حسن سےمالامال ،جانشینِ اعلیٰ حضرت اوراکابرین اہل سنت سے تھے ۔بریلی شریف میں ربیعُ الاول1292ھ/1875ء میں پیداہوئے اور17جمادی الاولیٰ 1362ھ /22مئی 1943ءمیں وصال فرمایا اور مراز شریف خانقاہِ رضویہ بریلی شریف ہند میں ہے، تصانیف میں فتاویٰ حامدیہ مشہورہے۔(فتاویٰ حامدیہ،ص48،79)

(22) صدرالشریعہ حضرت مولانا مفتی محمد امجد علی اَعظمی رحمۃ اللہ علیہ  1300 ھ /1883ءکو اترپردیش ہند کے قصبے مدینۃُ العُلَماء گھوسی میں پیدا ہوئے اور2 ذوالقعدۃالحرام 1367ھ /6 ستمبر 1948ء کو وفات پائی۔ جائے پیدائش میں مزار زیارت گاہِ خاص و عام ہے۔،آپ جیدعالم دین ،استاذالعلما ،فقیہ اسلام ،مریدوخلیفہ اعلیٰ حضرت ،جامع معقول ومنقول اورعبقری شخصیت کے مالک تھے ،آپ کی کتب میں بہارشریعت کو شہرت عامہ حاصل ہوئی ،جوعوام وخواص میں مقبول ومحبوب ہے ۔(تذکرۂ صدر الشریعہ،ص5،39 ، 41)،بہارِ شریعت کی تخریج وتسہیل کی سعادت دعوتِ اسلامی کے ادارۂ تصنیف وتالیف المدینۃ العلمیہ ، اسلامک ریسرچ سینڑ فیضان مدینہ کراچی کوحاصل ہوئی ،جس نے بہت خوبصورت اندازمیں چھ جلدوں میں شائع کیا ہے۔

(23) شہزادۂ اعلیٰ حضرت، مفتیِ اعظم ہند، حضرت علّامہ مولانا مفتی محمدمصطفےٰ رضا خان نوری رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1310ھ /1892ءرضا نگر محلّہ سوداگران بریلی (یوپی،ہند) میں ہوئی۔ آپ فاضل دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف، جملہ علوم و فنون کے ماہر، جید عالِم دین، مصنفِ کتب، مفتی و شاعرِ اسلام، شہرۂ آفاق شیخِ طریقت، مرجعِ علما و مشائخ اور عوامِ اہلِ سنّت تھے۔ 35سے زائد تصانیف و تالیفات میں سامانِ بخشش اور فتاویٰ مصطفویہ مشہور ہیں۔ 14 محرمُ الحرام 1402ھ/12نومبر1981ء میں وصال فرمایا اور بریلی شریف میں والدِ گرامی امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کے پہلو میں دفن ہوئے۔(جہانِ مفتی اعظم، ص64تا130)

(24) جامع معقول ومنقول ،استاذالعلماحضرت علامہ سیدبشیراحمد شاہ علی گڑھی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت علی گڑھ(یوپی ہند)کے سادات گھرانے میں ہوئی ،تمام درس نظامی مع دورہ حدیث شریف استاذالہندحضرت علامہ لطف اللہ علی گڑھی سے پڑھا،زندگی کا ایک حصہ اپنے استاذگرامی کے مدرسہ فیض عام کانپوراورجامعہ شمس العلوم بدایون میں تدریس کرنے میں صرف کیا ، جب (غالباماہ شعبان المعظم) 1322ھ/ اکتوبر1904ء میں دارالعلوم(مدرسہ اہل سنت وجماعت) منظر اسلام بریلی شریف کا آغازہواتو آپ اس میں صدرمدرس بنائے گئے ،6ذیقعدۃ الحرام 1330ھ مطابق 17،اکتوبر1912ء میں جب علامہ عبدالغفورقادری صاحب کی سند حدیث دی گئی تو اس پر علامہ سیدبشیراحمدشاہ صاحب کے ہی دستخط ہیں ، آپ کا وصال علی گڑھ میں ہوا۔(تذکرہ علمائے اہلسنت ، 72،73،استاذالہند،51)

(25) تذکرہ خلفائے اعلی حضرت،366،367۔

(26) مرکزی جامع مسجدبی بی جی صاحبہ ،بریلی شریف کےمحلہ بہاری پورمیں واقع ہے ،اس میں دارالعلوم منظراسلام کے سالانہ جلسے ہوتے تھے،1356ھ/1937ء میں مفتی اعظم ہندمفتی محمدمصطفی رضا خان قادری کی سرپرستی میں دارالعلوم مظہراسلام قائم ہوا،محدث اعظم پاکستان علامہ سرداراحمدقادری چشتی صاحب اس کے منتظم اورشیخ الحدیث مقررہوئے،اس دارالعلوم کی مستقل عمارت نہیں تھی ،مسجدکےحجروں اورصحن میں پڑھائی کا سلسلہ ہوتاتھا۔( حیات محدث اعظم ،45)

(27) صدسالہ منظراسلام نمبرماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،ماہ مئی 2001ء،قسط 1ص 235

(28) محدث بہارحضرت مولانا احسان علی مظفرپوری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1316ھ کو فیض پور(ضلع سیتامڑھی [سابقہ ضلع مظفرپور [بہارہند)میں ہوئی اوررمضان 1402ھ کو وفات پائی ،مزارفیض پورمیں ہے، جہاں ہرسال دس شوال کوعرس ہوتاہے،آپ نے ابتدائی تعلیم 1326ھ میں مدرسہ نورالہدی پوکھیراسے حاصل کی،1327ھ میں دارالعلوم منطراسلام میں داخل ہوئے ،بقیہ تمام تعلیم یہیں سے حاصل کرکے فارغ التحصیل ہوئے اور یہیں مدرس ہوگئے،آپ نے تقریباپچاس سال تدریس فرمائی ،سینکڑوں علمانے آپ سے استفادہ کیا ،آپ شیخ التفسیراورشیخ الحدیث کے عہدے پر بھی فائزرہے ۔آپ حجۃ الاسلام علامہ حامدرضاقادری رضوی صاحب کے مریدوخلیفہ تھے ۔(تذکرہ علمائے اہلسنت ،سیتامڑھی،1/50،فتاویٰ رضویہ ،7/297)

(29) ان کے حالات نہ مل سکے۔

(30) ان کے حالات نہ مل سکے۔

(31) ان کے حالات نہ مل سکے۔

(32) صدسالہ منظراسلام نمبرماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،ماہ مئی 2001ء،قسط 1ص 255۔

(33) ان کے حالات نہ مل سکے ۔

(34) معارف رضا،شمارہ 1413ھ/1992ء،ص235۔نام میں جوعلاقائی نسبت ’’شاہ پوری‘‘ لکھی ہے اس کی وجہ یہ ہے اس زمانے(1330ھ / 1912ء) میں موجود ہ ضلع خوشاب ، ضلع شاہ پورکی تحصیل تھی۔مزیددیکھئے حاشیہ :3

(35) ماہر رضویات حضرت علامہ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مجددی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت یکم جمادی الاخریٰ 1349ھ / 24،اکتوبر1930ء کو دہلی ہندمیں ہوئی اور23ربیع الاخر1429ھ /29،اپریل 2008ء کو کراچی میں وصال فرمایا ،تدفین احاطہ ِ خانوادۂ مجددیہ ماڈل کالونی قبرستان،ملیرکراچی میں ہوئی ۔آپ عالم دین،سلسلہ نقشبندیہ مظہریہ کے مرشدکریم،جدیدوقدیم علوم سے مالامال،عالم باعمل ،مصنف کتب کثیرہ اوراکابرین اہلسنت سے تھے،اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات پر آپ کی 40سے زائدکتب ورسائل اورمقالات یادگارہیں ،امام ربانی حضرت مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کےحالات وخدمت اورمقامات پر مشتمل مقالات کاعظیم انسائیکلوپیڈیا (12جلدیں)آپ کی زیرسرپرستی شائع ہوا۔ آپ نہایت ملنسار، اعلی اخلاق کے مالک اور محبت و شفقت فرمانے والے بزرگ تھے۔(پروفیسرڈاکٹرمحمدمسعوداحمد حیات ،علمی اورادبی خدمات،77تا108)راقم زمانہ طالب علمی میں ایک مرتبہ انکی خدمت میں حاضرا،بہت شفقت فرمائی ،حوصلہ افزائی فرمائی اوردعاؤں سے نوازا۔

(36) رفیق ملت حضرت ِ مولانا حافظ محمدرفیق رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش1353ھ/ 1935ءکو بلی ماران دہلی ہند کے دینی گھرانے میں ہوئی اور27جمادی الاولی1425ھ/16،جولائی2004ء کو سکھرمیں انتقال فرمایا ،تدفین مدرسہ انوارمصطفی سکھرکے ایک گوشے میں ہوئی،آپ حافظ قرآن،عالم باعمل ،علامہ عبدالغفوررضوی اورمحدث اعظم پاکستان علامہ سرداراحمدرضوی رحمۃ اللہ علیہما کے شاگرد،(ثانی الذکرسے مرید بھی ہوئے )،استاذالحفاظ،جامعہ انوارمصطفی سکھرسمیت کئی اداروں کے بانی اورسرپرست تھے ،خدمت عوام بذریعہ تعویذات میں بھی مشہورتھے۔آپ کی تمام اولاددینی تعلیم سے آراستہ ہوئی۔آپ کو کئی مشائخ مثلا پیرایرانی،پیرصاحب دیوال،مولانا محمدقاسم مشوری وغیرہ سے خلافت حاصل تھی۔(انوارعلمائےاہل سنت سندھ،936تا939)

(37) حضرت مولانا مفتی محمد عارف سعیدی صاحب کی پیدائش ربیع الاول 1384ھ مطابق 10،اگست1964ء کو سکھرمیں ہوئی،ابتدائی اسلامی تعلیم والدصاحب رفیق ملت حضرت ِ مولانا حافظ محمدرفیق رضوی صاحب حاصل کی پھر جامعہ غوثیہ رضویہ سکھرمیں داخلہ لیا ،1974ءمیں والدصاحب نے جامعہ انوارمصطفی بنایا تو اس میں آگئے وہیں کتب درسِ نظامیہ علامہ مولانا محمد بخش نظامی صاحب اور مفتی محمدابراہیم قادری صاحب سے پڑھیں ،1982 ء کو جامعہ اسلامیہ انوارالعلوم ملتان میں غزالی دوراں علامہ سیداحمدسعیدکاظمی شاہ صاحب سے دورہ حدیث شریف پڑھا ،آپ سے ہی بیعت کا شرف بھی پایا ،بعدحصول تعلیم جامعہ انوارمصطفی میں کتب درس نظامی اوردورحدیث شریف پڑھانے کی سعادت پائی ،امامت وخطابت کا سلسلہ بھی رہا ،ایک رسالہ بھی تصنیف کیا ۔آپ کو اپنے والدگرامی سمیت کئی مشائخ سے خلافت حاصل ہے۔(بذریعہ واٹس ایپ مفتی صاحب سے معلومات لی گئیں۔)

(38) شیخ الحدیث والتفسیر،مفتی اہل سنت حضرت علامہ مفتی محمدابراہیم قادری صاحب کی پیدائش 12جولائی 1954ء/11ذیقعدہ1373ھ کو سوئی ضلع ڈیرہ بگٹی بلوچستان میں ہوئی ،آپ نے علم دین،سوئی ،سکھر،بندیال شریف،واںبھچراں وغیرہ سے حاصل کیا اوردورہ حدیث دارالعلوم امجدیہ کراچی سے کرنےکی سعادت پائی ،آپ برہان ملت ،خلیفہ اعلیٰ حضرت علامہ برہان الحق قادری جبل پوری رحمۃ اللہ علیہ سےبیعت ہوئے اورخلیفہ مفتی اعظم ہند مفتی محمدحسین قادری سکھروی رحمۃ اللہ علیہ اورمعمارملت حضرت منان رضامنانی میاں قادری صاحب سے خلافت پائی ،آپ نے کئی مدارس میں تدریس فرمائی ،کئی جیدعلماآپ کے شاگردہیں، آجکل جامعہ غوثیہ رضویہ کے شیخ الحدیث والتفسیراورمفتی ہیں ،آپ کثیرالفتاویٰ ہیں ،آپ کامجموعۂ فتاویٰ زیرطباعت ہے جو چارسےپانچ جلدوں پر مشتمل ہوگا،آپ 2009ءتا2012ءتک اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کےرکن بھی رہے۔ (بذریعہ فون مفتی صاحب سے معلومات لی گئیں۔)

(39) ادارہ تحقیقات امام احمدرضا انٹرنیشنل کراچی کومولانا سیدمحمدریاست علی قادری نوری صاحب نے 1400ھ/1980ء میں قائم فرمایا ،جس کا مقصدتعلیماتِ رضا کا فروغ ہے،1401ھ تا1440ھ تک اس کی40سالہ کارکردگی کا جائزہ لیاجائے توزبان پرادارےکےاراکین ومعاونین کےحق میں دعاکے الفاظ جاری ہوجاتےہیں :٭1440ھ تک48،امام احمدرضا کانفرنسوں کا انعقادکروایاجاچکا ہے۔٭ سالنامہ معارفِ رضا کی 19جلدیں اور ماہنامہ معارف رضا کے 220 شمارے شائع ہوچکے ہیں، ٭سالانہ مجلہ امام احمد رضاکے 32شماروں کی اشاعت ہوچکی ہے۔ ٭ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا رحمۃ اللہ علیہ کی 35تصانیف، پی ایچ ڈی کے 21مقالات ،مسعود ملت پروفیسرڈاکٹرمسعوداحمدصاحب کی 21کتب،صاحبزادہ علامہ وجاہت رسول قادری صاحب کی 21تصانیف اورپروفیسر ڈاکٹرمجید اللہ قادری صاحب کے35مقالات شائع ہوچکے ہیں یوں شائع شدہ کتب و رسائل کی تعداد164 ہے۔٭دیگرکاموں میں پی ایچ ڈی اور ایم فل مقالہ جات لکھوانا ،اعلیٰ حضرت پر لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے گولڈ میڈل اور سلور میڈل کا اجراء کرنا ،تعلیمات رضا کو عام کرنے کے لیے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کااستعمال کرنا اور اخبارات و جرائد کے ذریعے فروغ تعلیمات امام احمد رضا کو عام کرنامزیدبراں ہے ۔ (مزیدتفصیل کےلیے دیکھئے:کتاب ’’ادارہ تحقیقات امام احمدرضا کی چالیس سالہ خدمات کا جائزہ۔‘‘)

(40) تذکرہ خلفائے اعلی حضرت،366،367،معارف رضا،شمارہ 1413/1992،ص235۔

(41) یہ معلومات قاضی حبیب الرحمن صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔

(42) ان کے مختصرحالات حاشیہ 15میں دیکھئے۔

(43) حضرت مولانا قاضی عبدالرحمن قادری رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش1348ھ/ 1930ء کو پنجہ شریف میں ہوئی اوریہیں4صفر1434ھ/ 18دسمبر2012ء میں وفات ہوئی ۔تدفین قبرستان پنجہ شریف میں خاندانی چاردیواری کے اندرہوئی ۔ آپ نےاپنےوالدقاضی محمددین قادری صاحب سے ناظرہ قرآن مجیدپڑھا ،ابھی آپ تقریا10 سال کے تھے کہ والدگرامی کا انتقال ہوگیا ،اس کے بعد انہیں بابا جی علامہ عبدالغفورقادری صاحب کی صحبت حاصل ہوئی ،ان سے علم دین حاصل کیا ،فراغت کے بعدآپ نے جامع مسجدرحمانیہ کےامام وخطیب طورپر خدمت دین کا آغازکیا، اس میں قائم حفظ القرآن کے مدرسے میں تدریس کی اور زمدگی بھریہ خدمت سرانجام دیتے رہے۔

(44) قاضی حبیب الرحمن صاحب کی پیدائش1370ھ/ 1950 ء کوپنجہ شریف میں ہوئی ،آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی کیا ،مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں ،فقہ اورتفسیرکی کتب زیرمطالعہ رہتی ہیں، سات سالہ جدہ میں ملازمت بھی کی ،کچھ عرصہ بزنس اورزمین داری میں مصروف رہے ۔آپ کے دوصاحبزادے ہیں بڑے بیٹے قاضی ضیاء الرحمن اسلام آباد میں ملازمت اورچھوٹے صاحبزادے قاضی تنزیل الرحمن بزنس کرتے ہیں ۔اللہ پاک ان کے گھرانے کو سلامت رکھے۔

(45) تھل ریتلاعلاقہ ہے ،یہ دریائے جہلم اوردریائے سندھ کے درمیان واقع ہےاس کی شروعات ضلع خوشاب کے صدرمقام جوہرآباد سے ہوتی ہیں اور قائد آباد سے نیچے پھر ضلع میانوالی میں ہرنولی کے قریب سے شروع ہو جاتا ہے۔ خوشاب سے میانوالی کو ملانے والی ریلوے لائن سے جنوب کی طرف سارا علاقہ تھل کے صحرا پرمشتمل ہے۔

(46) ساہیوال ،ضلع سرگودھا کی تحصیل اورقصبہ ہے،یہ دریائے جہلم کے بائیں کنارے پرواقع ہے،اسے سولہویں صدی میں بلوچ قبیلے نے قائم کیاجائے ،اس کی موجودہ آبادی تقریبا40ہزارہے،مشہوردرگاہ آستانہ عالیہ چشتیہ سیال شریف اسی کے قریب واقع ہے ۔(نگرنگرپنجاب،367)

(47) یہ معلومات قاضی حبیب الرحمن صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔

(48) فیروزپورمشرقی پنجاب(ہند)کا ایک شہرہے جوقصورشہرسےتقریبا27کلومیٹرفاصلے پر ہے ، یہ دریائے ستلج کے کنارے واقع ہے ،اسے 1351ء میں تغلق پادشاہ سلطان فیروزشاہ تغلق نے آبادکیا، اس میں فوج کا اڈا(Cantonment)بھی ہے اس لیے یہ فیروز پورچھاؤنی کے نام سے مشہورہے۔

(49) ماہنامہ جہان رضا فروری ،مارچ2016ء،صفحہ51میں لکھا ہے کہ آپ بریلی شریف میں جانے سے پہلےفوج میں بطورخطیب بھرتی ہوئے۔

(50) یہ معلومات قاضی حبیب الرحمن صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔

(51) عقیدہ ختم النبوۃ،13/509

(52) عقیدہ ختم النبوۃ،13/541

(53) عالم باعمل حضرت مولانا مفتی محمدامین قادری عطاری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 22رجب1391ھ /7نومبر1971ء کو کھارادراولڈ سٹی کراچی کے ایک میمن گھرانے میں ہوئی ،بچپن سےہی مرکزی انجمن اشاعت اسلام اورپھردعوت اسلامی میں شامل ہوئے،1985ء میں امیراہلسنت علامہ محمدالیاس عطارقادری صاحب کے ذریعے سلسلہ قادریہ رضویہ میں بیعت ہوئے ،1998ءمیں دارالعلوم امجدیہ کراچی سے فارغ التحصیل ہوکرفتاویٰ نویسی میں مصروف ہوگئے،1999ء میں دارالافتاء دارالعلوم غوثیہ نزدپرانی سبزی منڈی کراچی میں بطورمفتی ومدرس درس نظامی خدمات سرانجام دینےلگے،آپ کااکثروقت فتویٰ نویسی ،تدریس درس نظامی ،واعظ ونصیحت اورتصنیف وتالیف میں صرف ہوتاتھا،ردقادنیت پر علمائےاہل سنت کی کتب ورسائل کو ایک مجموعے کی صورت میں جدیدکمپوزنگ اورنئے اندازطباعت کے ساتھ شائع کرنا آپ کا یادگارکارنامہ ہے ۔صرف 36سال کی عمرمیں آپ کا وصال 18ذیقعدہ1426ھ /20دسمبر2005ءکو کراچی میں ہوا۔(عقیدہ ختم النبوۃ،جلد1،تعارف مؤلف،انوارعلمائےاہل سنت سندھ،116)

(54) کتاب ’’عقیدہ ختم النبوۃ ‘‘سواصدی پر محیط علمائے اہل سنت پاک وہند کی ان کتب ورسائل کا مجموعہ ہے ،جو ردقادیانیت کے موضوع پر ہیں ، عالم باعمل حضرت مولانا مفتی محمدامین قادری عطاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کتب ورسائل کو جدیدطریقہ اشاعت کے مطابق شائع کرنےکا بیڑااٹھایااورجنوری 2005ء میں اس کی پہلی جلدشائع ہوئی ،اب تک اس مجموعہ کی 15جلدیں شائع ہوچکی ہیں ،مزید5جلدوں کی اشاعت باقی ہے ،فی الحال بوجوہ مزیداشاعت کا سلسلہ رکا ہواہے ۔(عقیدہ ختم النبوۃ،1/9، انوارعلمائےاہل سنت سندھ،117)

(55) حافظ الحدیث حضرت علامہ مفتی سید محمد جلال الدین شاہ مشہدی رحمۃ اللہ علیہ عصر حاضرکے عظیم محدث و مفسر، یگانہ روزگار اورعظیم فقیہ تھے۔آپ نے یکم شوال المکرم 1359ھ / 2نومبر1941ء میں اپنے قصبہ بھکھی شریف (ضلع منڈی بہاؤالدین،پنجاب) میں ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی جس کانام ’’جامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ ‘‘ تجویز کیا گیا۔ قبلہ حافظ الحدیث نےیہاں چالیس سال تک یہاں تدریس فرمائی ۔

(56) یہ معلومات قاضی حبیب الرحمن صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔

(57) مجاہدملت حضرت مولانا محمدعبدالستارخان نیازی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 22ذیقعد1333ھ/یکم اکتوبر1915ء کو موضع اٹک پنیالہ(تحصیل عیسیٰ خیل)ضلع میانوالی میں ہوئی،7صفر1422ھ/یکم مئی2001ء کو میانوالی میں انتقال فرمایا،مزار’’مجاہدملت کمپلیکس‘‘ روکھڑی موڑمیانوالی میں ہے ۔آپ عالم دین،پرچوش مبلغ ،باہمت رہبرورہنما،اخبارخلافت پاکستان کے مدیر ،مجلس اصلاح قوم ،دی پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن،آل پاکستان عوامی تحریک کے بانی،تحریک پاکستان کے متحرک کارکن،تحریک نفاذِ شریعت،تحریک ختم نبوت،تحریک نفاذِ نظام مصطفیٰ میں بھرپورحصہ لیا، قومی اسمبلی اورسینٹ کے رکن بھی رہے۔آپ کا شماراکابرین اہل سنت میں ہوتاہے ۔آپ آستانہ عالیہ میبل شریف ضلع بھکر میں مریداورقطب مدینہ حضرت مولانا ضیاء الدین احمدمدنی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔آپ نے اٹھارہ سے زیادہ مقالات وکتب ورسائل تحریرفرمائے۔(تحریک پاکستان میں علماء ومشائخ کا کردار،427)

(58) ماہنامہ جہان رضا فروری ،مارچ2016ء،ص 52۔البریلویۃ کا تحقیقی اورتنقیدی جائزہ،294،سیرت صدرالشریعہ،72۔

(59) محدثِ اعظم پاکستان حضرت علّامہ مولانا محمد سردار احمد قادری چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1323ھ/1905 میں ضلع گورداسپور (موضع دیال گڑھ مشرقی پنجاب) ہند میں ہوئی اور یکم شعبان 1382ھ/28دسمبر1982ء کو وصال فرمایا،آپ کا مزار مبارک فیصل آباد پنجاب، پاکستان میں ہے۔آپ جامعہ منظراسلام بریلی شریف کے فارغ التحصیل،جامعہ مظہراسلام بریلی شریف کے پہلے مہتمم، استاذالعلماء، محدثِ جلیل، شیخِ طریقت، بانیِ سنّی رضوی جامع مسجد و جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام فیصل آباد اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے ہیں۔(حیاتِ محدثِ اعظم، ص334،27)

(60) حافظُ الحدیث حضرت مولانا پیر سیّد محمد جلالُ الدّین شاہ مشہدی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1333ھ/1915ء کو بھکھی شریف ( ضلع منڈی بہاؤ الدّین،پنجاب) پاکستان میں ہوئی اور یہیں 5ربیعُ الاوّل1406 ھ /18نومبر1985ءکو وصال فرمایا۔آپ حافظ ِ قراٰن ،فاضل جامعہ مظہرالاسلام بریلی شریف،خلیفہ مفتی اعظم ہند، تلمیذ و خلیفہ محدث اعظم پاکستان، مرید و خلیفہ پیر سیّد نور الحسن بخاری (کیلیانوالہ شریف)،بانی جامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ بھکھی شریف اور استاذُالعلماء ہیں۔(حیات محدث اعظم، ص357،نوائے وقت ،25نومبر2014ء)

(61) استاذالاستاذ،شیخ الحدیث حضرت علامہ محمدنوازنقشبندی کیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1920ء /1338ء کو موضع بلو(نزدکولوتارڑضلع حافظ آباد،پنجاب ) میں ہوئی اوروصال 27شعبان/13،اکتوبر2004ء کو 84سال کی عمرمیں گوجرانوالہ میں ہوا،تدفین جامعہ مدینۃ العلم گوجرانوالہ کے ایک گوشے میں ہوئی ، آپ محدث اعظم ،صدرالشریعہ ،مفتی اعظم ہندکے شاگرداورسراج السالکین حضرت سیدنورالحسن بخاری کیلانی کے مریدتھے ، آپ جیدعالم دین ،جامع معقول ومنقول ،شیخ الجامعہ بھکھی شریف ،زینت مسندتدریس،بانی جامعہ مدینۃ العلم گوجرانوالہ اور مجاز طریقت تھے۔(تذکرہ زینت مسندتدریس،99،133،137،182)

(62) یہ معلومات قاضی حبیب الرحمن صاحب (امام وخطیب جامع مسجدرحمانیہ پنجہ شریف)نے دی ہیں ۔

(63) تجلیات خلفاء اعلیٰ حضرت ،639 ۔

(64) استاذالحفاظ ،حضرت مولاناحافظ حاجی غوث محمداعوان رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 1322ھ / 1904ء کو پنجہ شریف کی ایک زمینداراعوان گھرانے میں ہوئی اوریہیں12ذیقعدہ 1386ھ / 22فروری 1967ء کو وفات پائی ،مقامی قبرستان میں دفن کیاگیا۔آپ نے قاضی محمددین قادری صاحب سےحفظ قرآن کی سعادت پائی ،باباجی علامہ عبدالغفورقادری صاحب سےعلمی استفادہ کیا ،پھر حضرت باواجی سلوئی حافظ غلام محمد گولڑوی سے دینی کتب پڑھیں ،قریبی گاؤں کھجولا( تحصیل چوآسیدن شاہ ضلع چکوال)کے امام و خطیب مقررہوئے ،یہاں حفظ قرآن کا درس بنایااورساری زندگی تعلیم وتعلم میں صرف فرمائی ،باواجی کی وفات کے بعد دہلی اورہند کے دیگرشہروں میں تحصیل علم دین بھی کیا ، آپ کامیاب مناظراورپختہ عالم دین تھے ،آپ کےشاگردکثیرہیں ،آپ قبلہ پیرمہرعلی شاہ صاحب کے مریدتھے ،راقم نے یہ تمام معلومات آپ کے اکلوتےبیٹے حافظ مقبول احمد اعوان صاحب(حال مقیم راولپنڈی) سے بذریعہ فون حاصل کیں ،اللہ پاک انہیں جزاعطافرمائے۔

(65) کھجولاچوآسیدن شاہ کا ایک مضافتی گاؤں ہے جو اس سےاڑھائی کلومیٹرکے فاصلے پرہے۔

(66) یہ تفصیلات مولانا حافظ دوست محمد اعوان صاحب کے بیٹے حافظ مقبول احمداعوان صاحب نےبذریعہ فون بتائیں۔

(67) ان مختصرحالات حاشیہ نمبر15میں درج ہیں ۔

(68) استاذالحفاظ مردکامل،حضرت باواجی سلوئی حافظ غلام محمد گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت موضع عینو تحصیل و ضلع خوشاب کے حافظ میاں محمداعوان گولڑوی کے گھر1305ھ/ 1888ء میں ہوئی اور 6محرم 1394ھ /9فروری 1974ء کو چواسیدن شاہ،ضلع چکوال میں وصال فرمایا ،تدفین رحمانیہ مسجد چواسیدن شاہ میں ہوئی ،آپ جیدحافظ قرآن ،حسن ظاہری وباطنی سے مالامال ،مریدوخلیفہ قبلہ عالم پیرمہرعلی شاہ،تلمیذمولانا عبدالغفورقادری تھے،آپ نے اولاچک 70سرگودھا اورپھر سلوئی شریف میں حفظ القرآن کا مدرسہ بنایا ،زندگی بھراس مدرسے میں تدریس فرمائی ،علاقے میں رفاعی کاموں میں بھی فعال کرداررہا مثلا گاؤں میں ڈسپنسری،ڈاکخانہ اوراسکول آپ کی کوششوں سے بنایاگیا،سلوئی میں آپ کی خدمات 47سال پرمحیط ہیں ،کثیرعلماومشائخ آپ کے تلامذہ ہیں ۔(مردکامل،25،57،58،31،33،تذکرہ علمائے اہل سنت ضلع چکوال، 69)ان کاتذکرہ راقم نے بچپن سےہی اپنے والدگرامی الحاج محمدصادق چشتی مرحوم سےسناتھا،کیونکہ میرے والد گرامی کے دوست اورپیربھائی حضرت مولانا حافظ محمدحسن چشتی صاحب (ساکن ڈھیری ،تحصیل پنڈدادنخان ضلع جہلم ) حضرت باواجی کے شاگردتھے ۔

(69) قدوۃ المشائخ حضرت باباجی سیدطاہرحسین شاہ نقشبندی قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت موضع الگوں (ضلع فیروز پور،ہند)میں1321ھ/ 1904ء کو سادات گھرانے میں ہوئی اور24جمادی الاخریٰ1425ھ/ 11،اگست 2004ء کو جوہرآبادضلع خوشاب میں وصال فرمایا،مزارشریف یہیں ہے۔آپ شیرربانی میاں شیر محمد شرقپوری رحمۃ اللہ علیہ کےمرید تھے ،آپ کے ہی مدرسے میں علم دین حاصل کیا، آپ نے تین سال پنجہ شریف میں رہ کر حفظ قرآن اورابتدائی فارسی وعربی کتب پڑھیں ،کئی شہروں اورملکوں کی سیاحت فرمائی ،حضرت عبدالرزاق چشتی قادری آستانہ بھوپال ہندنے خلافت عطافرمائی ، مستقل قیام ذوالحجہ 1411ھ/ جولائی 1991ء میں الاعوان ٹاؤن جوہرآبادمیں فرمایا،یہیں مدرسہ ومسجدشیرربانی اورآستانہ کی بنیادرکھی ،آپ ادارہ معین الاسلام بیربل شریف سرگودھا کے سرپرست بھی تھے ۔(تذکرہ فخرالسادات،25،29،30،جہاں رضا فروری مارچ2016ء،ص52)

(70) ان مختصرحالات حاشیہ نمبر36میں درج ہیں ۔

(71) عالم باعمل حضرت مولانا حاجی غلام محمداعوان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش1342ھ/ 1924ء کوموضع بِٹہ (ضلع خوشاب)کے ایک اعوان زمین دارگھرانے میں ہوئی ،پرائمری کلاس تک پڑھنےکے بعد کاشت کاری شروع کردی،خوش قسمتی سے انہیں چودہ سال کی عمرمیں حضرت پیر سخی سلطان اعظم قادری سلطانی صاحب (آستانہ عالیہ قادریہ سلطانیہ موسیٰ والی شریف ،نزدپپلاں ضلع میانوالی )سے بیعت کا شرف حاصل ہوا،یہ نمازروزہ اورشریعت کے پابندہوگئے ،اس کے بعدجب ان کے بڑے بیٹے زمین سنبھالنے کے قابل ہوئے تو انھوں نے تحصیل علم کے لیے سفرشروع فرمایا ، اسلامی کتب پڑھنےکے لیے باباجی علامہ عبدالغفورقادری صاحب کے پاس پنجہ شریف میں تین سال رہے ،ان کی وفات کےبعدچھپڑشریف (وادی سون سکیسر)جاکر تعلیم مکمل کی ، اس کےبعداپنےگاؤں میں آگئے ،مکی مسجدبنائی اوراسےآبادکیا،زمین داری کاسلسلہ بھی رہا ،99سال کی عمرمیں20جمادی الاولیٰ1441ھ/ 16جنوری 2020ء بروزجمعرات فوت ہوئے،تدفین بِٹہ قبرستان میں ہوئی ۔ ان کےدو بیٹے مولانا حافظ محمدرمضان چشتی صاحب پاک آرمی اورمولانا محمدسلیم چشتی صاحب پاک نیوی میں خطیب اعلیٰ ہیں یہ تمام معلومات ثانی الذکرنےعطافرمائیں ،جس پر راقم ان کا شکرگزارہے۔

(72) ان کےمختصرحالات حاشیہ نمبر64میں درج ہیں ۔

(73) عقیدہ ختم النبوۃ،13/507، تذکرہ خلفائے اعلی حضرت ،366۔

(74) ماہنامہ جہان رضا فروری ،مارچ2016ء،صفحہ 52میں لکھا ہے کہ آپ کا وصال وسط رجب 1372ھ کو ہواجبکہ لوح مزارپر مہینے کی صراحت تو نہیں البتہ سن 1371لکھا ہواہے۔

(75) ان اشعارکا ترجمہ محشی کتب درس نظامیہ ، استاذالعلماعلامہ عبدالواحدعطاری مدنی صاحب (المدینۃ العلمیہ ،اسلامک ریسرچ سینڑ فیضان مدینہ کراچی)نے فرمایا ،اس پر راقم ان کا شکرگذارہے ۔