مولاناسردارعلی خان عزومیاں  رحمۃ اللہ علیہ

سرپرستِ اعلیٰ اول ادارۂ تحقیقاتِ امام احمدرضا انٹرنیشنل کراچی (1) شیخ الحدیث حضرت مفتی تقدس علی خان صاحب (2) کے برادرِ اصغر شیخ الحدیث مفتی اعجاز ولی خان صاحب (3) کے حالاتِ زندگی جمع کرنے کے دوران معلومات ہوئیں کہ مفتی اعجاز ولی خان صاحب کے ایک استاذ مولانا الحاج سردارعلی خان عزومیاں صاحب بھی ہیں جن کی تدفین ملتان شریف میں ہوئی ،راقم کو کچھ تنظیمی کاموں کے لئےدودن کراچی سے ملتان جانا تھااس لئے وہاں کے احباب مولانا حافظ محمد افضل مدنی صاحب اورحافظ ریحان احمدعطاری صاحب (مؤلف کتاب فیضان اعلیٰ حضرت،ناشرشبیربرادرز لاہور )سے ان کےخاندان سےرابطہ اور مزارکو تلاش کرنے کا کہا۔ راقم بذریعہ عادل کوچ 18شوال 1442ھ مطابق 30مئی 2021ء ملتان پہنچا، بعدِعصر طے ہواکہ ہمیں مزارشریف واقع شاہ شمس قبرستان (قدیم خانیوال روڈ) جانا ہے۔بتایا گیا برادرِ اسلامی محمدکاشف عطاری صاحب ملتان میں موجودخانوادۂ اعلیٰ حضرت سے رابطے میں ہیں ،مولانا سردارعلی خان صاحب کے پوتے جودت علی خان صاحب خودقبرستان آئیں گے،بعدِعصر حاجی ندیم احمدعطاری صاحب کی گاڑی پر ہم قبرستان پہنچے ، تھوڑی دیربعدجودت علی خان صاحب بھی اپنے صاحبزادے سردارعلی خان ثانی صاحب کے ہمراہ تشریف لے آئے ، مولانا سردارعلی خان عزومیاں اورخانوادہ اعلیٰ حضرت کے چنداورافراد کی قبورشاہ شمس قبرستان برلب سڑک پر واقع ہیں، وہاں جاکر فاتحہ خوانی کی، اس کے بعد کا شف صاحب کے والدین کی قبورپر فاتحہ کرنےکے بعد برادرِ اسلامی محمداویس عطاری صاحب کی دکان پر آئے، وہاں جودت علی خان صاحب سے کچھ حالات معلوم کئے نیز حافظ ریحان صاحب نے بتایا کہ میری کتاب فیضانِ اعلیٰ حضرت میں دو مقامات پر مولاناسردارعلی خان صاحب کا تذکرہ موجودہے، ان اور دیگرتمام معلومات کی روشنی میں یہ مضمون تیارکیا گیاہے :

اعلیٰ حضرت سے رشتہ

مولانا الحاج سردار علی خان عزومیاں رشتے میں اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ(4) کے پوتے ہیں۔ اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے: اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے پڑدادا حافظ کاظم علی خان صاحب (5) کے تین بیٹے ٭امام العلماءمولانا رضا علی خاں(6) ٭رئیس الحکماء حکیم تقی علی خان (7)٭جعفرعلی خان اورچاربیٹیاں تھیں، ان میں سے ایک بیٹی زینت موتی بیگم تھیں جن کا نکاح محمدحیات خان یوسف زئی سے ہوا، ان کے دوبیٹے نعمت (عرف بزرگ) علی خان اورکوچک خان تھے،نعمت (عرف بزرگ ) علی خان کے ایک بیٹے حاجی وارث علی خان تھے جن کی شادی اعلیٰ حضرت کی ہمشیرہ حجاب بیگم سے ہوئی۔(8) حجاب بیگم مولانا سردارعلی خان صاحب کی دادی صاحبہ ہیں ،(9) یوں اعلیٰ حضرت رشتے میں مولانا سردارعلی خان صاحب کے داداہوئے۔

مفتی تقدس علی خان صاحب سے رشتہ

مذکورہ حاجی وارث علی خان صاحب کے دوبیٹے ٭حاجی واجدعلی خان ٭حاجی شاہدعلی خان اور تین بیٹیاں ٭کنیز خدیجہ زوجہ علی احمدخان٭کنیزعائشہ زوجۂ حجۃ الاسلام علامہ حامدرضاخان٭کنیز فاطمہ زوجہ مولانا سردارولی خان (مفتی تقدس علی خان صاحب کی والدہ)تھیں۔یوں مفسرِ ہند مولانا ابراہیم رضا خان جیلانی میاں(10)، مولانا حماد رضا خان نعمانی میاں (11) اور مفتی تقدس علی خان صاحب ،مولانا سردارعلی خان عزومیاں کے پھوپھی زادبھائی ہیں اورحجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب(12) آپ کے پھوپھا ہیں ۔حاجی وارث علی خان صاحب کےبیٹے حاجی واجدعلی خان صاحب کی شادی مستجاب بیگم سے ہوئی، ان کی ایک بیٹی کنیز رسول زوجہ مظفرحسین بدایونی اور تین بیٹے ٭مولانا سردارعلی خان عزومیاں ٭ماجدعلی خان ٭اورحاجی ساجدعلی خان تھے۔

پیدائش

مولانا الحاج سردارعلی خان عزومیاں کی ولادت بریلی میں تخمیناً1320ھ مطابق1902ء کو ہوئی ۔ملک العلما مولانا ظفرالدین محدث بہاری رحمۃ اللہ علیہ (13) نے آپ کے بچپن کے دوواقعات تحریرکئے گئے ہیں : (1)مولوی سردار علی خان صاحب عرف عزومیاں کی اوائلِ عمری میں ایک شب عشاء کی نماز کے وقت دروازہ سے کسی نے اُن کی نسبت پوچھا ’’ وہ بچہ اچھا ہے ؟‘‘مکان میں سے کسی نے جا کر دیکھا تو کوئی نہ تھا دوسری شب پھر آواز آئی ’’وہ بچہ اچھا ہے ؟‘‘ یونہی تیسری شب پھرآواز آئی ’’وہ بچہ اچھا ہے؟ ‘‘۔ اب فکر لاحق ہوئی اور لو گ وقت ِمقر رہ پر چھپ کر جا بجا کھڑے ہو گئے، سب نے آواز بدستور سنی مگر آواز دینے والا نظر نہ آیا۔ بالآخر چار پانچ روزیونہی گزر جانے کے بعد عزو میاں کی دادی صاحبہ (حجاب بیگم)نے جو سیدی اعلیٰ حضرت کی بڑی ہمشیرہ تھیں ارشادفرمایا کہ ’’امَّن میاں‘‘کو بلاؤ۔ (اعلیٰ حضرت کی والدہ انہیں اَمّن میاں کے نام سے پکارا کرتی تھیں) چنانچہ اعلیٰ حضرت حسبِ طلب وہاں پہنچے اور بہن کی کرسی کے برابر والی کرسی پر صحن میں بیٹھ گئے اور آواز کا انتظار کرنے لگے ، آواز آنے کا وقت گزرے ہوئے کچھ دیر ہوئی اور آواز نہ آئی تو اعلیٰ حضرت نے ارشاد فرمایا : بنو میا ں کو شبہ ہوا ہو گا کہاں آواز آئی؟ انہوں نے کہا ’’ نہیں ایسا نہیں ،کئی دن سے سب لوگ برابر سن رہے ہیں ‘‘ فرمایا :خیر میں بیٹھا ہوں اورپھر باتیں کرنے لگے ۔ غرض نصف گھنٹے سے زائد قیام فرمایا مگر آواز نہ آئی ،آخرِ کا ر کاشانۂ اقدس تشریف لے گئے ،ابھی قریب پھاٹک کے تھے کہ آپ کے جاتے ہی آواز آئی ’’وہ بچہ اچھا ہے؟‘‘ اعلیٰ حضرت واپس تشریف لے آئے اور صبح نمازِ فجر پڑھ کر ایک تعویذ لکھ کر عزومیاں کے گلے میں ڈلوادیا اور فرمایا ’’ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اب آواز نہ آئے گی‘‘۔چنانچہ اس روزکے بعد سے آج تک وہ آواز نہیں سنی گئی ۔ (14)

(2) رمضان المبارک کا مہینہ ہے سحری کے وقت عزومیاں بیدار ہوتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ جس برتن میں دودھ رکھا تھا ، ایک بلی منہ ڈالے ہوئے پی رہی ہے، انہوں نے لکڑی اٹھا کر ایک ایسی ضرب لگائی کہ وہ فوراً مر گئی، حضرت مخدومہ محترمہ دادی صاحبہ (حجاب بیگم)یہ کیفیت دیکھ کر ان پر بہت ناراض ہوئیں اور زعفران خادمہ سے فرمایا کہ اس بلی کو باہر پھینک دے، وہ پیش مسجد (سامنے کے حصے میں )افتادہ (ناکارہ)زمین پر بیری کے درخت کے نیچے ڈال دیتی ہے، اب نمازِ فجر کے وقت دادی صاحبہ ملاحظہ فرماتی ہیں کہ وہی بلی عزو میاں کی چار پائی کے پاس مردہ پڑی ہے اور اگلے دنوں پاؤں غائب ہیں، غرض فورا ًاعلیٰ حضرت کو مسجد سےبلایا گیا ،حضور تشریف لائے اور فرمایا اس کو نظر بد تھی، اسی لیے بلی کےدونوں ہاتھ قلم کردیئے گئے اور عزو میاں کو سوتا ہوا دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ اس کے ا ٹھنے سے پہلے اس بلی کو فوراً چھپا دیا جائے چنانچہ بتعجیل(جلدی سے) اسی جگہ دفن کرادیا اورحضور نے ایک تعویذ ارقام (تحریر)فرما کر عزومیاں کے گلے میں ڈلوا دیا۔(15)

تعلیم وتربیت

آپ نے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی پھر دارالعلوم منظراسلام (16) میں داخلہ لے لیا ۔ابتدائی تعلیم میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی ،پھر اعلیٰ حضرت کی شفقت ونظرکرم سے کُتُب بینی کا ایسا شوق پید ہواکہ اپنے ساتھیوں سے سبقت لے گئے چنانچہ آپ خود بیان کرتے ہیں: مدرسے کے اوقات میں مولوی صاحب طلبہ کو درس دے رہے ہوتے ،مگر میرے کان بالکل ان کی تقریر سے نا آشنا رہتے تھے ،میں نہ کبھی کتاب کا مطالعہ کر تا، نہ کبھی سبق یاد کرتا، فقط مدرسہ کے وقت کتاب ہاتھ میں لیتا اور پھر کتاب سے کوئی غرض مطلب نہیں ہوتی، اور اسی وجہ سے ڈر کے مارے اعلیٰ حضرت کے سامنے نہ آتا ، نمازوں کے اوقات میں جب نماز قائم ہو جاتی تو اخیر میں آکر شریک ہو جاتا اور سب سے پہلے ہی پڑھ کرمسجد سے نکل جاتا ۔

ایک روز نمازِ عشاء کے لئے یہ سوچ کر جاتا ہوں کہ پہلے ہی پڑھ کر چلا آؤں گا۔ بیرونی درجہ کی شمالی فصیل کے در میں بیٹھا ہی تھا کہ دفعتاً حضور (اعلیٰ حضرت) اندرونی درجہ سے نکل کر میرے قریب آکر کھڑے ہو گئے، اب قدم نہ آگے بڑھتا ہے نہ پیچھے ہٹتا ہے ۔اعلیٰ حضرت دریافت فرماتے ہیں کیا پڑھتے ہو ؟عرض کی’’ہدایہ آخرین و عقائدِ نسفی‘‘ حضور کو یہ سن کر بہت مسرت ہوئی ، ما شآء اللہ فرماتے ہوئے دست ِشفقت میرے سر پر پھیرا ، جس سے بالکل کایا پلٹ گئی ۔ مجھے کتب بینی کا شوق پیدا ہو جاتا ہے کہ کتاب ہاتھ سے چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا ، ذہن بھی ایسا رَسا(تیز) ہو گیا کہ اپنے ہم سبقوں میں ممتا ز ہو گیا ،بلکہ جس شب کا یہ واقعہ ہے اس کی صبح ہی کو جس وقت درجے میں جا کر بیٹھتا ہوں اور سبق شروع ہوتا ہے تو میرے استاد حضرت مولانا رحم الہٰی صاحب(17) مجھ میں فرق محسو س فرماتے ہیں۔ ان کی حیرت و استعجاب (حیرانی) پر میں نے سارا واقعہ بیان کر دیا کہ جس وقت سے حضور سید ی اعلیٰ حضرت نے میرے سر پر ہاتھ رکھا ہے میں خود اپنے آپ میں یہ تبدیلی محسوس کر رہا ہوں۔(18) آپ نے اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان، حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خان، حضرت مولانا رحم الہیٰ منگلوری ،حضرت علامہ مولانا ظہورالحسین فاروقی نقشبندی (19) اورمولانا حسنین رضا خان(20) رحمۃ اللہ علیہم سے شاگردی کا شرف پایا۔

فراغت اوردستاربندی

آپ دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف سےغالباً 1340ھ مطابق 1922ء کو فارغ التحصیل ہوئے ۔دستاربندی دارالعلوم منظراسلام کے اٹھارہویں سالانہ جلسے (بتاریخ 22تا24شعبان1340ھ مطابق 21تا23،اپریل 1922ء،جمعہ تااتوار بمقام خانقاہ رضویہ محلہ سوداگران) میں جیدعلماومشائخ کی موجودگی میں ہوئی۔(21)

سلسلۂ قادریہ میں بیعت وخلافت

مولانا سردارعلی خان عزومیاں نے سیدی اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان صاحب سے بیعت کا شرف حاصل کیا۔ آپ کو اعلیٰ حضرت سے بہت عقیدت تھی، آپ کا معمول تھا کہ دارالعلوم منظراسلام میں تدریس کے لئے کتب کا مطالعہ اعلیٰ حضرت کے مزارکے اس حصے میں کیا کرتے تھے جس جانب اعلیٰ حضرت کاچہرہ مبارک ہے یعنی جانبِ قبلہ اور اگر کوئی الجھن واقع ہوتی ہے تواعلیٰ حضرت کی نظر ِ کرم سے فوراً حل ہو جاتی تھی۔ (22)صاحبزادۂ اعلیٰ حضرت ،حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خان صاحب نے آپ کو سلسلہ قادریہ رضویہ کی خلافت واجازت سے نوازا۔(23)

دینی خدمات

مولانا سردار علی خان عزومیاں نے دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اسی میں تدریس کا آغازفرمایا، اولاً درجۂ اوّل اوردوم کے طلبہ کو درس دیا کرتے تھے۔(24) پھر دیگرکتابیں بھی پڑھانے لگے ،مفتی اعجاز ولی خان صاحب نے آپ سے تفسیر جلالین پڑھی۔(25) دارالعلوم منظراسلام میں تدریس کا سلسلہ شوال 1340ھ مطابق جون 1922ءتا شعبان1366ھ مطابق جون 1947ء تک 26سال جاری رہا، پاکستان بننے کے بعدمولانا سردار علی خان عزومیاں نےاپنی فیملی کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی اورملتان کے علاقے جمال پورہ میں رہائش اختیارفرمالی ،یہاں انھوں نے ایک جائے نمازقائم فرمائی اوراپنی وفات تک تقریباً 7سال اس میں امامت وخطابت اورمحلے کے بچوں کو قراٰن مجید پڑھانے کاسلسلہ جاری رکھا ،آپ رات کا اکثرحصہ عبادت میں گزاراکرتے تھے۔

شادی واولاد

مولانا سردار علی خان عزومیاں کا نکاح مسنون اپنے چچا حاجی شاہدعلی خان کی بیٹی کنیز زہرہ عزوصاحبہ سے تقریباً 1345ھ مطابق1927ء کو ہوا،عزوصاحبہ کی والدہ مصطفائی بیگم اعلیٰ حضرت کی سب سے بڑی بیٹی تھیں جن کا انتقال اعلیٰ حضرت کی حیات میں ہی ہوگیا تھا ۔(26) یوں عزوصاحبہ اعلیٰ حضرت کی سگی نواسی تھیں، عزوصاحبہ کی ولادت تخمیناً 1325ھ مطابق 1907ء کوبریلی میں ہوئی اور آپ نے ملتان میں6جمادی الاولیٰ 1406ھ مطابق 17جنوری 1986ء کو 81سال کی عمرمیں وصال فرمایا ۔ مولانا سردارعلی خان صاحب کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں :

(1)افتخارعلی خان:ان کی پیدائش تقریباً 1354ھ مطابق 1936ء کو بریلی میں اور وفات 16صفر1416ھ مطابق 15جولائی 1995ء کو ملتان میں ہوئی ،شاہ شمس قبرستان میں والدصاحب کے قدموں میں مدفون ہوئے، افتخارعلی خان صاحب کی چاربیٹیاں اورتین بیٹے تھے۔ افتخارعلی خان صاحب کی بیٹیاں ٭زوجہ سید نوید احمد(ان کےدوبیٹے سیدجنید احمد، سید حماد احمد اورایک بیٹی ہیں) ٭زوجہ محمودعلی خان(انکی دوبیٹیاں ہیں) ٭بنت افتخار(انکی ایک بیٹی اورایک بیٹےہیں) اور٭زوجہ شاہ رخ سہیل(ان کے دوبیٹے اورایک بیٹی ہیں)ہیں۔ جبکہ افتخارعلی خان صاحب کےبیٹے ٭ذوالفقارعلی خان(ان کی دوبیٹیاں ہیں) ٭وجاہت علی خان(ان کے بیٹے شیزر علی خان ہیں) اور ٭جودت علی خان ہیں۔ جودت علی خان صاحب کے تین بیٹے سردار علی خان ،شرحبیل علی خان اورشہروزعلی خان ہیں ۔

(2)مختارعلی خان:ان کی پیدائش تقریباً 1360ھ مطابق 1941ءمیں ہوئی اورآپ نےاسلام آباد میں21 ربیع الآخر 1427 ھ مطابق 20مئی 2006ء کو وفات پائی اورگلشن کالونی ٹیکسلا (ضلع راولپنڈی )میں تدفین ہوئی ۔ آپ کی شادی مولانا حمادرضا خان نعمانی میاں کی بیٹی عترت بیگم سے ہوئی، عترت بیگم کی پیدائش1365ھ مطابق 1946ء کو بریلی میں ہوئی اوروصال22ربیع الاول 1426ھ مطابق یکم مئی 2005ء کو ملتان میں ہوا،شاہ شمس قبرستان میں تدفین ہوئی۔ان کے ایک بیٹےفوادعلی خان صاحب اورتین بیٹیاں سطوت عاطف،صباحت مرزا اورشازیہ ارشدہیں،فوادعلی خان صاحب کے ایک بیٹے مصطفی علی خان ہیں۔ (3)سرشارعلی خان سجادبریلوی: ان کی پیدائش تقریباً 1363ھ مطابق 1944ء کو بریلی میں اور وفات1423ھ مطابق2002 ء کو ملتان میں ہوئی ،انھوں نے شادی نہیں کی ۔ (4)انیس بیگم :ان کی پیدائش 1346ھ مطابق 1928ء کو بریلی شریف میں ہوئی ،یہ 1366ھ مطابق 1947ءکو دوران ہجرت 19سال کی عمرمیں وفات پاگئیں۔ (5)زاہدہ بیگم:ان کی چھ بیٹیاں اورتین بیٹے ،وسیم،ندیم اورکلیم ہیں ۔ (6)نجمہ بیگم: ان کی شادی محمدفاروق صدیقی صاحب سے ہوئی ، ان کےایک بیٹے جوادصدیقی اورایک بیٹی کنول ناز ہیں، جوادصدیقی صاحب کی ایک بیٹی کنیز فاطمہ اورتین بیٹےمحمدطلحہ صدیقی ،محمدبلال صدیقی اورمحمدفاروق صدیقی ہیں ۔جبکہ کنول ناز صاحبہ کی بیٹی خدیجہ کاشف شیروانی ہیں۔(27) اللہ پاک مولانا سردارعلی خان عزومیاں کے سارےگھرانے کو سلامت رکھے، انہیں اور ہم سب کو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے نقشِ قدم پر چلنے کی سعادت نصیب فرمائے ۔

وفات ومدفن

آپ نے صفرالمظفر 1374ھ مطابق اکتوبر1954ءکو مدینۃ الاولیا ملتان میں وصال فرمایا ،تدفین شاہ شمس قبرستان برلب سٹرک میں ہوئی ،آپ کی قبرایک چاردیواری میں ہے،اس چاردیواری میں جانب جنوب تین قبورہیں مولانا سردارعلی خان صاحب کی قبردرمیان میں ہے جبکہ جانبِ مشرق آپ کی اہلیہ کنیززہرہ بیگم عزوصاحبہ اورجانبِ مغرب عترت بیگم (زوجہ مختارعلی خان وبنت مولانا حمادرضا خان) کی قبرہے، قدموں کی جانب مولانا سردارعلی خان عزومیاں کی ہمشیرہ کنیزرسول اور بیٹے افتخارعلی خان مدفون ہیں ۔

حواشی ومراجع

(1)ادارۂ تحقیقاتِ امام احمدرضا انٹرنیشنل کراچی کومولانا سیدمحمدریاست علی قادری نوری صاحب نے 1400ھ مطابق1980ء میں قائم فرمایا ، جس کا مقصدتعلیماتِ رضا کا فروغ ہے۔ اس کی 40سالہ کارکردگی کےلئے دیکھئے:کتاب ’’ادارۂ تحقیقاتِ امام احمدرضا کی چالیس سالہ خدمات کا جائزہ۔‘‘

(2)تِلْمیذِ اعلیٰ حضرت، مفتی تَقدُّس علی خان رَضَوی رحمۃ اللہ علیہ عالِمِ باعمل، شیخُ الحدیث،خلیفۂ حجۃ الاسلام،شیخ طریقت ،سابق مہتمم دارالعلوم منظراسلام بریلی ،سابق شیخ الجامعہ جامعہ راشدیہ پیرجوگوٹھ سندھ اور استاذُ العلماء ہیں۔ رجب المرجب 1325ھ مطابق اگست 1907ءکو بریلی شریف ہند میں پیدا ہوئے اور 03رجب 1408ھ /22فروری 1988ءکو کراچی میں وصال فرمایا اور پیرجو گوٹھ ضلع خیرپور میرس سندھ کے قبرستان میں تدفین ہوئی ۔ (مفتیِ اعظم اور ان کے خلفاء، ص 268، 273)

(3)تلمیذِ اعلیٰ حضرت مفتی محمد اعجاز ولی خان قادری رَضَوی، شیخ الحدیث، استاذُ العلماء،جید مدرس درسِ نظامی ، فقیہِ عصر، مصنّف، مترجم، واعِظ اور مجازِ طریقت تھے۔11ربیع الآخر 1332ھ مطابق 20مارچ 1914ء کو بریلی شریف ہند میں پیدا ہوئے اور لاہور میں 24 شوال 1393ھ مطابق 20نومبر1973ءکو وصال فرمایا، مزار مبارک میانی صاحب قبرستان لاہور میں ہے۔( تذکرہ اکابرِ اہلِ سنت، ص 63-65)

(4)اعلیٰ حضرت، مجدِّدِدین و ملّت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت10شوال 1272ھ /6جون 1856ءکو بریلی شریف(یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340 ھ مطابق28،اکتوبر1921ءکو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجعِ خاص وعام ہے۔آپ حافظ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے ماہر،فقیہِ اسلام، محدثِ وقت، مصلحِ اُمَّت، نعت گوشاعر، سلسلۂ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریباً ایک ہزارکتب کے مصنف، مرجعِ علمائے عرب وعجم، استاذالفقہاومحدثین،شیخ الاسلام والمسلمین، مجتہد فی المسائل اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن،فتاویٰ رضویہ (33جلدیں)، جد الممتارعلی ردالمحتار(7 جلدیں،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی) اور حدائقِ بخشش آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ،282، 301)

(5)حافظ کاظم علی خان ،دربارِاودھ کی طرف سے بدایون کے تحصیل دار(سٹی مجسٹریٹ)تھے ،دوسوفوجیوں کی بٹالین آپ کی خدمت میں رہتی تھی ،آپ کو آٹھ گاؤں معافی جاگیرمیں ملےتھے ، مال ومنصب کے باوجودآپ کا میلان دین کی جانب تھا،آپ حافظِ قرآن اورحضرت علامہ شاہ نورالحق قادری رازقی فرنگی محلی (متوفی 1237ھ مطابق1882ء)کے مریدوخلیفہ تھے ،ہرسال بارہ ربیع الاول کو محفلِ میلادکیا کرتے تھے جوخانوادۂ رضویہ میں اب بھی ہوتی ہے۔(تجلیاتِ تاج الشریعہ ،83،84)

(6)جدِّ اعلیٰ حضرت، امام العلماء مفتی رضا علی خان صاحب عالمِ دین، اسلامی شاعر، مفتیِ اسلام، استاذالعلماء، علامہ فضل رحمن گنج مرادآبادی کے مرید، شیخِ طریقت اورصاحبِ کرامت ولی کامل تھے۔1224ھ/1809ء کو بریلی شریف کے صاحبِ حیثیت دینی گھرانے میں پیدا ہوئے اور 2جمادی الاولیٰ1286ھ/10اگست 1869 ءکویہیں وصال فرمایا، مزار قبرستان بہاری پورنزدپولیس لائن سٹی اسٹیشن بریلی شریف (یوپی، ہند) میں ہے۔ (معارفِ رئیس اتقیا،ص17)

(7) رئیس الحکماء حکیم تقی علی خان صاحب مولانا رضا علی خان صاحب کے حقیقی بھائی تھے، یہ بہت بہادر ، قومی ہیکل، فنِ طِب میں خاص مہارت رکھتے تھے،یہ حکیم محمد اجمل خان دہلوی کےشاگردتھے، ان کی شادی حکیم اجمل صاحب کے منجھلے بھائی حکیم محمد واصل خان صاحب کی بیٹی سے ہوئی، یہ ریاست جے پور کے شاہی طبیب تھے ، ا ن کے4 بیٹے تھے:(1)مہدی علی خان(2)حکیم ہادی علی خان(3) فتح علی خان(4)فدا علی خان، ان میں سے حکیم ہادی علی خان مفتی تقدس علی خان کے داداہیں۔ ( حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبۃ رضویہ کراچی،15)

(8)حیاتِ اعلیٰ حضرت،14تا17۔

(9) فیضانِ اعلیٰ حضرت،ص435۔

(10)مُفسرِ اعظم حضرتِ مولانا محمد ابراہیم رضا خان رضوی جیلانی میاں رحمۃ اللہ علیہ حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب کے بڑے صاحبزادے ہیں، آپ کی ولادت 10ربیع الآخر1325ھ/23مئی1907ء کو بریلی شریف (یوپی) ہند میں ہوئی۔ آپ عالمِ دین، مصنف، سجادہ نشین آستانہ عالیہ قادریہ رضویہ بریلی شریف، مہتمم دار العلوم منظرِ اسلام اور شیخ الحدیث تھے۔11 صَفَرُالْمُظَفَّر 1385ھ مطابق 11جون 1965ء کو وصال فرمایا، آپ کا مزار مبارک بریلی شریف (یوپی) ہند میں روضۂ اعلیٰ حضرت کے دائیں جانب مرجعِ خلائق ہے۔ (تجلیاتِ تاج الشریعہ، ص93،مفتی اعظم اوران کے خلفاء، ص110، تذکرۂ جمیل ، 204)

(11)مولانا حمادرضا خان نعمانی میاں حجۃ الاسلام کے چھوٹے فرزندہیں ،آپ کی ولادت 1334ھ/1915ء کو بریلی شریف میں ہوئی ، اعلیٰ حضرت کی زیارت سے مشرف ہوئے ،اعلیٰ حضرت نے اپنے ایک مکتوب میں آپ کو ’’چھوٹانبیرہ ‘‘تحریرفرمایاہے ،آپ نے علمِ دین حجۃ الاسلام سے حاصل کیا ،1357ھ/1937ءکوآپ کی شادی بریلی کے ایک سادات گھرانے میں ہوئی ،3بیٹے اور4بیٹیاں ہیں ،آپ نے پاکستان ہجرت فرمائی اور 1375ھ/1956ءکو کراچی میں وصال فرمایا۔ تدفین فردوس قبرستان کراچی میں ہوئی۔ (تجلیات تاج الشریعہ، ص94 ، ضیائے طیبہ ویب سائٹ)

(12) شہزادۂ اعلیٰ حضرت،حجۃ الاسلام مفتی حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ علامۂ دہر، مفتیِ اسلام ،نعت گوشاعر،اردو،ہندی ،فارسی اورعربی زبانوں میں عبوررکھنے والےعالمِ دین ، ظاہری وباطنی حسن سےمالامال ،شیخِ طریقت ،جانشینِ اعلیٰ حضرت اوراکابرین اہل سنت سے تھے۔ بریلی شریف میں ربیعُ الاول1292ھ/اپریل1875ء میں پیداہوئے اور17جمادی الاولیٰ 1362ھ /22مئی 1943ءمیں وصال فرمایا ، مزار شریف خانقاہِ رضویہ بریلی شریف ہند میں ہے، تصانیف میں فتاویٰ حامدیہ مشہورہے۔( فتاویٰ حامدیہ،ص48،79)

(13)مَلِکُ العُلَماء حضرت مولانا مفتی سیّدمحمد ظفَرُ الدّین رضوی محدِّث بِہاری رحمۃ اللہ علیہ عالمِ باعمل، مناظرِ اہلِ سنّت، مفتیِ اسلام، ماہرِ علمِ توقیت، استاذُ العلما ءاور صاحبِ تصانیف ہیں، حیاتِ اعلیٰ حضرت اور صحیح البہاری کی تالیف آپ کا تاریخی کارنامہ ہے، 23 اکتوبر 1885 ء مطابق 14محرم 1303ھ میں پیدا ہوئے اور 19 جُمادی الاُخریٰ 1382ھ مطابق 17نومبر1962ءمیں وصال فرمایا، قبرستان شاہ گنج پٹنہ (بہار) ہند میں دفن کئے گئے۔ ( حیاتِ ملک العلما،ص 9،16،20،34 )

(14) فیضانِ اعلیٰ حضرت،ص435۔

(15)حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہار ی مکتبہ نبویہ لاہور ص 953 ۔

(16) دارالعلوم(مدرسہ اہل سنت وجماعت) منظر اسلام بریلی کی بنیاد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ نے شہر بریلی(یوپی ہند) میں غالباً ماہ ِشعبان المعظم 1322ھ/ اکتوبر1904ء کو رکھی، اس مدرسے کے بانی اعلیٰ حضرت امام احمدرضا ،سربراہ حجۃ الاسلام مولانا حامدرضا قادری اورپہلے مہتمم برادرِاعلیٰ حضرت مولانا حسن رضا خان رحمۃ اللہ علیہم مقررہوئے ، ہر سال اس ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والے حفاظِ قرآن، قراء اور علماء کی ایک بڑی تعداد ہے۔ (صدسالہ منظراسلام نمبرماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،ماہ مئی 2001ء،قسط 1ص28،132)

(17)استاذُ العلما، حضرت مولانا رحم الٰہی منگلوری مظفر نگری قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت منگلور (ضلع مظفر نگر، یو پی) ہند میں ہوئی۔ آپ ماہرِ معقولات عالم دین، صدر مدرس، مجازِ طریقت اور دارلعلوم منظراسلام کےاولین( ابتدائی) اساتذہ میں سے ہیں ۔ آپ نے بحالتِ سفر آخر (غالباً28) صَفر 1363ھ /23فروری 1944ءکو وصال فرمایا۔( تذکرہ خلفائے اعلی حضرت، ص138 )

(18)حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہار ی مکتبہ نبویہ لاہور ص951۔

(19)شمسُ العلماء حضرت علّامہ ظہور الحسین فاروقی مجددی رامپوری علیہ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1274ھ/1857 ءمیں ہوئی اور 12جُمادَی الاُخریٰ 1342ھ/20جنوری 1944ء کو رامپور (یوپی، ضلع لکھنؤ) ہند میں آپ نے وفات پائی۔ آپ علامہ عبدالحق خیرآبادی، علامہ مفتی ارشادحسین مجددی رامپوری کے شاگرداورعلامہ فضل رحمن گنج مرادآبادی سے بیعت وسندحدیث کی سعادت پانے والے ہیں ، علومِ عقلیہ و نقلیہ میں ماہرترین،استاذالعلما، صدر مدرس دارُالعلوم منظراسلام بریلی شریف،مہتمم ِثانی ارشادالعلوم، بشمول مفتیِ اعظم ہند سینکڑوں علما کے استاذ اور کئی دَرسی کتب کے مُحَشِّی ہیں۔مدرسہ عالیہ رامپورمیں بیس سال تدریس فرمائی ،یہاں کے اکثرمدرسین آپ کے شاگرد تھے ،اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ آپ پرکامل اعتمادفرماتےتھے ،اہم وضاحت : بعض کتابوں میں آپ کا نام ظہورالحسن فاروقی رامپوری لکھا گیا ہے جو کہ درست نہیں ،علامہ ظہورالحسن رامپوری ایک اورعالم دین تھے جن کے آباواجدادکاتعلق بخارا پھر رامپور سے تھا اور یہ فاروقی نہیں تھے ۔ ( تذکرہ کاملان رامپور،184تا188،ممتاز علمائے فرنگی محل، ص417تا419)

(20)صاحبزادۂ استاذِ زمن،استاذُ العلما حضرتِ مولانا محمد حسنین رضا خان رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1310 ھ کو بریلی شریف (یوپی) ہند میں ہوئی۔ آپ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت کے بھتیجے، داماد، شاگرد و خلیفہ، جامع معقول و منقول، کئی کُتُب کے مصنف، مدرسِ دارالعلوم منظرِ اسلام، صاحبِ دیوان شاعر، بانیِ حسنی پریس و ماہنامہ الرضا و جماعت انصار الاسلام تھے۔ وصال5 صَفَرُالْمُظَفَّر 1401ھ میں فرمایا اور مزار بریلی شریف میں ہے۔ (تجلیات تاج الشریعہ، ص95، صدر العلما محدث بریلوی نمبر، ص77تا81)

(21) ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،صدسالہ منظراسلام نمبر1/ 242،243۔

(22)حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہار ی مکتبہ نبویہ لاہور ص951۔

(23)تذکرۂ جمیل ،183۔

(24) حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہار ی مکتبہ نبویہ لاہور ص951۔

(25)تذکرہ اکابر اہل سنت: محمد عبد‌الحکیم شرف قادری:ص63۔

(26)حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبہ رضویہ ،ص18۔

(27)حیاتِ اعلیٰ حضرت ،مکتبہ رضویہ کراچی،۱۷،جودت علی خان صاحب سے انٹرویو۔