تذکرۂ داداجی میاں صاحب

Fri, 20 Aug , 2021
3 years ago

تذکرۂ داداجی میاں صاحب

حضرت سیدمبارک شاہ محدثِ الوری رحمۃ اللہ علیہ بنام

الورکے پہلے محدث

حضرت علامہ سید مبارک شاہ محدثِ الوری رحمۃ اللہ علیہ دسویں سن ہجری کے عظیم عالم،محدث،فقیہ ،شیخ طریقت اور صاحب ِکرامت ولی اللہ تھے ،اہل الور(صوبہ راجستھان ،ہند)کو آپ سے علم وعرفان حاصل ہوا،چونکہ بادشاہانِ وقت آپ کے عقیدت مندتھے اس لیے آپ کی برکت سے انہوں نے اس علاقے پر توجہ دی، جس کی وجہ سے اس خطے نے بہت ترقی کی،اس مضمون میں محدث الوری کا ذکرخیرکیا جاتاہے ۔

پیدائش

حضرت علامہ سیدمبارک شاہ محدثِ الوری المعروف داداجی میاں صاحب کی پیدائش ایک سادات گھرانے میں تقریباً 897ھ مطابق 1491ء میں ہوئی ،آپ کے والدِگرامی حضرت علامہ ابوالمبارک حنفی رحمۃ اللہ علیہ خاندانِ سادات کے چشم و چراغ تھے ۔(1)

دہلی سے راجستھان کی جانب ہجرت

داداجی میاں صاحب کی رہائش دہلی میں تھی ،اس زمانے میں بادشاہانِ ہند کا دارالحکومت دہلی تھا اوراللہ والے دربارِ شاہی سے عموماً دور رہتے ہیں، آپ نے وہاں سے ہجرت کرکے دہلی سے جنوب مغرب کی جانب راجستھان(2) جانے کا فیصلہ کیا۔ جب آپ جے پور(3) کے جنگل قلعہ آمیر(4) میں پہنچے تو جے پورکے راجہ نے آپ کا استقبال کیا اوراپنے ہاں رُکنے کی درخواست کی، آپ نے درخواست قبول کرلی ،اس نے آپ کی خدمت میں تحفے تحائف پیش کئے مگرآپ نے قبول نہ فرمائے ،پھراس نے اپنا مسئلہ بیان کیا کہ بادشاہِ وقت مجھ سے ناراض ہے آپ سفارش کردیں ،آپ نے سفارش کرنے سے بھی انکارکردیا اورجے پورسے الورتشریف لے آئے ۔ (5)

الورکی صورت حال

الور(6) اس زمانے میں علاقۂ میوات(7) کا مرکزی مقام تھا ،خان ِخاناں عبدالرحیم،ترسون محمدعادل اورحسن خان میواتی وغیرہ یہاں کے والی میوات تھے۔(8)انھوں نے اپنے اپنے دورِحکومت میں الورمیں کافی ترقیاتی کام کروائے، مساجد اور مزاراتِ بزرگانِ دین تعمیرکروائےگئے، الور کے مشہور قلعے کی تعمیربھی حسن خان میواتی نے کروائی، الور شہر کے جنوب میں کوہِ اراولی پربت (کالاپہاڑ)ہے ،الورشہراس سے جانبِ شمال میدانی علاقے پر مشتمل ہے ، یہ پہاڑی سلسلہ اگرچہ خشک ہے مگراس میں جابجاچشمے نکلتے اورموسم برسات میں آبشاریں(9) بہتی ہیں جس کی وجہ سے اس کے بہت سے مقامات سرسبزوشاداب ہونے کی وجہ سے قابلِ دیدہیں ،برسات کے موسم میں اس کی دلکشی میں اضافہ ہوجاتاتھا،داداجی میاں حضرت سید مبارک شاہ محدثِ الوری کو یہ مقام پسندآیا اورآپ الورکے باہر کوہ اراولی پربت کے دامن میں قیام پذیرہوئے اورعبادت میں مصروف ہوگئے ۔ (10)

بادشاہ ِہند سلیم سوری کی عقیدت

داداجی میاں صاحب کے قیام الورکے ایام میں بادشاہِ ہند سلیم سوری(11) الورآیا ،مسلم ہوں یا غیرمسلم سب حضرت سیدمبارک شاہ الوری رحمۃ اللہ علیہ کی بزرگی کے قائل تھے ،بادشاہ کو بھی آپ سے بہت عقیدت ہوگئی ، وہ آپ کی خدمت میں حاضرہوتا اوراپنے ہاتھ سے جوتے سیدھے کرنا اپنے لیے سعادت سمجھتا ۔(12)جیساکہ مرقع الورمیں ہے :سلیم شاہ کے دل میں ان کی ولایت کا عقیدہ آیا اورسب سے زیادہ ان پر اعتقادلایا ،حتی کہ روزانہ خدمتِ شیخ میں جاتاتھا اورآپ کے قدموں میں سرجھکاتاتھا ،کئی بارجوتاآپ کا بادشاہ نے خودصاف کیا اورغلاموں کی طرح بے تکلف کام خدمت ِگاری کی ۔(13) یہی وجہ ہے کہ افغان قوم کے ہاں آپ بہت مقبول اوراثرورسوخ رکھتے تھے ۔(14)

یادگارواقعہ

963ھ مطابق1556ء میں مشہورولی اللہ حضرت شیخ محمدسلیم(15) فتح پوری چشتی(16) افغانوں کے ہاتھوں آزمائش میں مبتلا ہوئے ،واقعہ کچھ یوں ہے کہ جب سوری سلطنت کے افغانوں کوسلطنت مغلیہ سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا تو انہوں نےحضرت شیخ محمدسلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کوفتح پورسیکری (17)سے اس غلط فہمی میں پکڑکر رن تھمبور قلعے (18) میں قید کرلیا کہ ان کے پاس مال ودولت کاخزانہ ہوگا، جب داداجی میاں صاحب کو معلوم ہواتو آپ بُساور(موجودہ نام بُھساور(Bhusawar)نزدبھرتپور،راجستھان)کے راستے سے رن تھمبورقلعے پہنچے اورافغانوں سے آپ کو آزادکروایا۔(19)

حج بیت اللہ کی سعادت

داداجی میاں صاحب نے دوحج کئے ،چنانچہ مرقع الورمیں ہے :شیخ مبارک صاحب نے دوبارحج بیت اللہ کا شرف پایا۔ (20)

مشہورمؤرخ ملاعبدالقادرآپ کی خدمت میں

مشہورمؤرخ ملا عبدالقادربدایونی نے دوبارشیخ مبارک کی زیارت کی ،پہلی مرتبہ یہ اپنے والدملاملوک شاہ حنفی بدایونی صاحب کے ہمراہ 963ھ مطابق1556ء میں زیارت سے مشرف ہوااوردوسری مرتبہ 987ھ مطابق 1579ء میں زیارت کی ۔چنانچہ منتخب التواریخ میں ہے :میری سولہ سال عمرتھی (21)،اپنے والدکے ساتھ بساورمیں ان کی ملازمت میں حاضرہواتھا ،بعدازاں جب 987ھ میں اکبراجمیرسے فتح پورکے راستہ سے ہوکرآتاتھا تومیں دوبارہ ان کی خدمت میں حاضرہواتھا۔(22)

کثیرالفیض مؤثرشخصیت

داداجی میاں صاحب کے الورمیں مقیم ہونے سے خوب اسلام پھیلا،غیرمسلم جوق درجوق اسلام میں داخل ہوئے، لوگوں کو ظاہری وباطنی اور دینی ودنیاوی فوائدحاصل ہونے لگے ،چونکہ آپ بہترین عالمِ دین ،صاحبِ کرامت ولی اللہ اور کثیرالفیض تھے اس لیے لوگوں کا آپ کی طرف بہت رجوع تھا۔ (23) آپ صاحبِ کمال بزرگ تھے،آپ کی ذات میں سخاوت اور ایثارپسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،مخلوقِ خدا پر کثیر مال خرچ کیا کرتے تھے،حاجت مندوں کی مددکرتے اورامراءبھی خالی ہاتھ نہ جاتے ۔(24)

شیخ مبارک اوراکبربادشاہ

داداجی میاں صاحب کی ولایت اوراثرپذیری کی خبریں اکبربادشاہ تک بھی پہنچی، اسے ان سے ملنے کا شوق پیداہوا۔ 987ھ مطابق 1579ء کوبادشاہ ایک مہم کے لیے اس علاقے کی طرف آیا ،اس کا گزر الورسے ہواتو اس نے آپ کی زیارت کا قصد(ارادہ)کیا، پیغام دینے والے نے سیدمبارک شاہ صاحب کو اطلاع دی ،آپ نے فرمایا کہ بادشاہ کس طرح آنا چاہتاہے؟بتایا گیا ہاتھی پر بیٹھ کر ،آپ ایسے مکان میں تھے جس کا دروازہ اتنا چھوٹاتھا کہ ہاتھی سوارتوکیا ،گھڑسواربھی داخل نہیں ہوسکتاتھا ،بحرحال آپ نے بادشاہ کوآنے کی اجازت دی ،آپ کی کرامت سے وہ دروازہ اتنا کشادہ ہوگیا کہ بادشاہ ہاتھی پر سوارہوکر اس مکان میں حاضرہوا،ملاقات ہوئی ، جب وہ واپس جانے لگاتو دروازہ اپنی اصلی حالت میں آگیا، آپ نے فرمایا: فقیروں کا امتحان لینے آیا ہے ،اب خود بھی کچھ کرکے دِکھا،بادشاہ مکان کی دیوارتوڑکر باہرآیا ،پھراس نے آپ کی بہترین رہائش اوروسیع وعریض مسجداورپختہ باؤنڈری تعمیرکروادی ۔(25) یہ وہی مقام ہے جو محلہ دائرہ کہلاتاہے۔ بادشاہ اس کرامت سے مزید متاثرہوا،اس نے دوگاؤں جو سلیم شاہ سوری نے آپ کے آستانے کے اخراجات کے لیے وقف کئےتھے وہ بحال کردئیے اورمزیدسات سوبیگہ زمین پر مشتمل الورکاچنبیلی باغ بھی پیش کیا۔(26)

وفات ومدفن

داداجی میاں صاحب حضرت سیدمبارک شاہ محدثِ الوری رحمۃ اللہ علیہ کاوصال 22محرم 987ھ مطابق 21مارچ 1579ء کو نوے (90)سال کی عمرمیں الورمیں ہوا۔ تدفین الورشہرسے باہر ہوئی،بعدمیں مرقدپر عالیشان مزار تعمیرکروایاگیا ۔(27)

عرس ومحفل

خلیفۂ اعلیٰ حضرت، امام المحدثین حضر ت علامہ مفتی سید دیدارعلی شاہ الوری (28) کے چچاجان صوفی کامل، مرشد دوراں، عالم باعمل حضرت سیدنثارعلی شاہ رضوی مشہدی قادری چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ (29)آپ کے مزارپر مراقبہ کرتے اورہرسال عرس کروایا کرتے تھے ،عرس کی ایک نشست میں علمائے اہل سنت کے بیانات ہوتے تھے ۔(30)

اللہ پاک کی داداجی میاں حضرت سید مبارک شاہ محدثِ الوری پر رحمت ہو اورانکے صدقے ہماری مغفرت ہو۔

حواشی ومراجع

(1)مستفاد، منتخب التواریخ فارسی،563 ، روشن تحریریں ،130 ،نزھۃ الخواطر،4/251۔مقام ولادت معلوم نہ ہوسکا۔

(2)راجستھان کے لغوی معنی  راجاؤں کی جگہ ہے۔ تقسیمِ ہند سے پہلے اسے راجپوتانہ بھی کہا جاتا تھا۔ راجستھان بھارت کی ایک شمالی ریاست ہے۔ یہ بلحاظ رقبہ بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے ۔ راجستھان بھارت کے شمالِ مغربی حصےمیں واقع ہے ،اس کی زیادہ ترسرزمین بنجر اور بے آب و گیاہ(بغیرپانی ودرخت ) صحرائے تھار پر مشتمل ہے۔ راجستھان کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر جے پور ہے۔ دیگر اہم شہروں میں الور،جودھ پور، اودے پور ، کوٹہ، بیکانیر اور سوائی مادھوپور ہیں۔راجستھان کو ایک عظیم شرف یہ حاصل ہے کے اس کے شہراجمیرشریف میں سلطان الہند،خواجہ غریب نواز،معین الدین حضرت خواجہ سیدحسن سنجری اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا مزارپرانوارہے ، جس کی زیارت کرنے کے لیے ہند بلکہ دنیا بھرسے سالانہ کروڑوں لوگ آتے اورآپ کے فیوض وبرکات سے مالامال ہوتے ہیں ، راجستھان میں دنیا کے قدیم ترین پہاڑی سلسلوں میں مشہور سلسلہ کوہ اراولی پربت(کالاپہاڑ) بھی ہے۔ ان کے علاوہ بھرت پور، راجستھان میں پرندوں کے لئے مشہور یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل کیولاڈیو نیشنل پارک ہے اور تین نیشنل ٹائیگر ریزور ٭ سوائی مادھوپور میں رنتھمبور نیشنل پارک، ٭الورمیں سرسکا ٹائیگر ریزرو اور ٭کوٹہ میں مکندر ہل ٹائیگر ریزرو ہیں ۔

(3)جے پور جسے گلابی شہرکے نام سے بھی جانا جاتا ہے، بھارت میں راجستھان ریاست کا دار الحکومت ہے۔جے پور سیاحوں کے لیے بے پناہ کشش رکھتا ہے۔ 2008ء میں اسے ایشیا کا ساتواں بڑا سیاحتی مرکز قرار دیا گیا تھا۔

(4)آمیر قلعہ  ہند کی ریاست راجستھان کے آمیر شہر میں واقع ہے۔ اس کا کل رَقبہ 4 کلومْربع میٹر پر محیط ہے۔ آمیر قلعہ مغل راجپوت تعمیر کا ایک عمدہ شاہکار ہے،جو راجستھان کے دار الحکومت جے پور سے 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

(5)روشن تحریریں ،128۔

(6)الور(Alwar)ہند کے صوبے راجستھان کا ایک اہم شہرہے کوہ ِاراولی پربت کے دامن میں میدانی علاقے پر مشتمل ہے ، جو دہلی سے 150 کلومیڑکے فاصلے پر جانب جنوبِ مشرق ہے ۔ ( اردودائرہ معارف اسلامیہ ،3/203،میوقوم اورمیوات ،94،95)

(7)مختلف ادوارمیں میوات کے علاقے کا حدودواربعہ بدلتارہا ہے اس وقت علاقۂ میوات جسے کہا جاتاہے اس کی تفصیل یہ ہے:٭ریاست راجستھان: الور، لچھمن گڑھ، تجارہ، رام گڑھ،کشن گڑھ،گوبندگڑھ،کٹھومرکا کچھ حصہ، بھرت پور،کامس،پہاری اورنگرکا کچھ حصہ٭ریاستِ ہریانہ:سہنہ بلاک، نوح،فیروزپور،جھرکا،بلب گڑھ کا مغربی حصہ٭ریاست اْترپردیش: چھانہ ضلع متھرا کے مغربی دیہات۔ )میوقوم اورمیوات ،34 وغیرہ)

(8) 1372ء تا 1527ء خان زادہ راجپوت خاندان نے ریاست میوات پر حکومت کی اور اس وقت میوات ایک آزاد ریاست تھی۔ یہاں کے بادشاہ کو والی میوات کہا جاتا تھا۔

(9)جب پانی کے بہاؤ کے راستے میں نرم و سخت چٹانوں کی افقی(زمین سے آسمان کی جانب) تہیں یکے بعد دیگرے واقع ہوں، چٹانوں کی موٹائی زیادہ ہو اور نرم چٹانیں کٹ جائیں اور سخت چٹانیں اپنی جگہ باقی رہیں تو پانی ایک چادر کی شکل میں بلندی سے گرتا ہے، اسے آبشار (Waterfalls )یا جھرنا کہا جاتا ہے۔

(10)روشن تحریریں ،128،129۔

(11)سلیم شاہ کا اصل نام اسلام خان سوری تھا،یہ بانی سوری سلطنتِ شیرشاہ سوری کا دوسرابیٹااورسلطنتِ سوری کا دوسراحکمران تھا ،اس کا انتقال 961 ھ مطابق 1554ء میں ہوا۔

(12)تذکرہ اولیائے راجستھان ،2/39۔

(13)مرقع الور،49۔

(14)تذکرہ صوفیائے میوات ،292۔

(15)یہ واقعہ کس شخصیت کے بارے میں ہے ؟منتخب التورایخ فارسی میں ایک لائن میں شیخ اسلام فتح پوری اوردوسری لائن میں نام شیخ اسلیم لکھا ہے ،(منتخب التواریخ فارسی،۵۷۳،مرکزتحقیقات ،رایانہ ای قائمیہ اصفحان،ایران)البتہ منتخب التواریخ کے سب سے پہلےترجمے (جومولانا احتشام الدین مراد آبادی نے کیا ہے جسے مطبع نولکشور، لکھنؤ سے 1889ء میں شائع کیا گیا)میں شیخ سلیم فتحپوری لکھا ہے۔(منتخب التواریخ ،۴۴۶) یہی درست معلوم ہوتاہے ۔کیونکہ شیخ سلیم فتحپوری چشتی اورشیخ سیدمبارک شاہ الوری کا ایک ہی زمانہ ہے نیز اس زمانے میں شیخ اسلام فتح پوری نام سے کوئی مشہورشخصیت کا تذکرہ نہیں ملا۔

(16)شیخ الہند حضرت سیدنا شیخ محمدسلیم چشتی فاروقی کی ولا دت 884 ھ مطابق 1480ءمیں سرائے علاء الدین زندہ پیرمحل دہلی ہند میں ہوئی۔آپ نے 29 رمضان المبارک979ھ مطابق 14فروری 1572ءکو وصال فرمایا،آپ کاعالی شان روضہ فتح پور سیکری(ضلع آگرہ، یوپی) ہندمیں ہے۔آپ اکابراولیائےہندسے ہیں۔(تحفۃ الابرار،ص251،اخبار الاخیارمترجم، ص566، خزینۃ الاصفیاء، 2/363،361)

(17)فتح پور سیکری بھارت کے صوبہ اْتر پردیش میں واقع ایک شہر ہے۔ یہ آگرہ شہرسے 35 کلو میٹر دورواقع ہے۔ اس کی تعمیر مغل شہنشاہِ اکبر نے 1570ء میں شروع کی اور شہر 1571ء سے 1585ء تک مغل سلطنت کا دار الحکومت رہا۔ شہر کی باقیات میں سے مسجد اور محل عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیے جا چکے ہیں اور سیاحت کے لیے مشہور ہیں۔

(18)تاریخی رَن تھمبور قلعہ جنوبِ مشرقی راجستھان کے سوائی مادھو پور ضلع میں واقع ہے ، یہ کوٹہ کے شمال مشرق میں تقریبا 110 کلومیٹر اور جے پور سے 140 کلومیٹر جنوبِ مشرق میں ہے ، سوائی مادھو پورشہراس قلعے سے 11کلومیٹرکے فاصلے پرموجودہے ،جس میں ائیرپورٹ بھی ہے ۔اس قلعے کے آس پاس کے علاقے کو 1980ء میں حکومت ہند نے رَن تھمبور نیشنل پارک  کا نام دیاگیا ہے جس کا احاطہ 282 کلومیٹر ہے ۔ اس کا نام تاریخی رَن تھمبور قلعے کے نام پر رکھا گیا ہے ، جو پارک میں واقع ہے۔جہاں جنگلی جانورچیتے،ریچھ اورنیل گائے وغیرہ کثرت سے پائے جاتے ہیں۔اس تفریحی مقام میں لوگ ملک بھرسے آتے ہیں ۔

(19) مرقع الور ،49،50۔

(20)مرقع الور،57۔

(21)ملاعبدالقادر بدایونی کی پیدائش 947ھ مطابق 1541ء کی ہے ،اس اعتبارسے یہ سال963ھ ہے۔

(22) منتخب التواریخ مترجم ،446۔

(23)روشن تحریریں ،128 ۔

(24) تذکرہ اولیائے راجستھان ،2/39۔

(25) تذکرہ صوفیائے میوات ،294۔ روشن تحریریں صفحہ 129میں یہ واقعہ شاہ جہاں کی طرف منسوب کیا ہے مگریہ بات درست نہیں ،دیگرتمام کتب میں اکبربادشاہ کانام لکھا ہے ۔

(26) تذکرہ صوفیائے میوات ،295۔

(27)نزھۃ الخواطر،4/251،روشن تحریریں ،130۔

(28) امامُ الْمُحدِّثین حضرت مولانا سیِّد محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ ، جَیِّد عالِم، اُستاذُالعُلَما اورمفتیِ اسلام تھے۔ آپ اکابرینِ اہل سنّت سے تھے۔ 1273ھ مطابق 1856 ءکو اَلْوَر (راجِسْتھان) ہِند میں پیدا ہوئے اور لاہور میں 22رجب 1345ھ مطابق 26جنوری 1927ءمیں وِصال فرمایا۔ دارُالعُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہوراور فتاویٰ دِیداریہ آپ کی یادگار ہیں۔ آپ کا مزارِ مُبارَک اَندرونِ دہلی گیٹ محمدی محلّہ ،اندرون لاہور میں ہے۔(فتاویٰ دیداریہ، ص2)

(29)صوفی کامل،مرشدِدوراں،عالمِ باعمل حضرت سیدنثارعلی شاہ قادری چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت تقریباً 1840ء میں قصبہ موج پور( لچھمن گڑھ،راجستھان)میں ہوئی اور6شوال 1328ھ مطابق 11اکتوبر 1910ء کوالورمیں وصال فرمایا ،آپ عالمِ باعمل، سلسلہ قادریہ چشتیہ کے شیخِ طریقت اورالورکی مؤثرشخصیت تھے ۔(روشن تحریریں،۱۳۲تا۱۳۹)

(30)سیدی ابوالبرکات ،118۔



[1]…… معجم کبیر،حسن بن حسن بن علی عن ابیہ،۳/۸۲ ،حدیث:۲۷۲۹ ۔