18 ذوالحج کو خلیفہ سوم، دامادِ رسولﷺ حضرت عثمان
غنی رضی
اللہ عنہ کا یومِ شہادت ہے۔ آپ کا نام عثمان، کنیت ابو عمر
اور لقب ذوالنورین تھا۔ سلسلہ نسب پانچویں پشت میں نبی کریم ﷺ سے جا کر ملتا ہے ( عثمان بن عفان بن ابوالعاص بن امیہ بن عبد شمس
بن عبد مناف) ۔ آپ کی نانی جان’’ام حکیم البیضاء‘‘
جناب عبدالمطلب کی بیٹی تھیں جو حضورﷺ کے والد ماجد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی سگی بہن تھیں۔ اس رشتہ کے لحاظ سے آپ کی والدہ
حضورﷺ کی پھوپھی کی بیٹی تھیں۔
پیدائش و قبولِ
اسلام: آپ کی ولادت
عام الفیل کے چھ سال بعد ہوئی۔آپ ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے ابتداء میں
اسلام قبول کیا۔ ابن اسحاق کے قول کے مطابق آپ نے حضرت ابوبکر صدیق کی دعوت پر اسلام
قبول کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت
علی المرتضیٰ رضی
اللہ عنہ اور حضرت زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بعد مردوں میں چوتھے آپ ہیں جو مشرف بہ اسلام
ہوئے۔
نکاح:آپ سخاوت، محاسنِ اخلاق، حلم و وقار،
تقوی وطہارت اور حسنِ معاشرت میں اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔تاریخِ انسانیت میں ایک منفرد
مقام اللہ تعالی نے حضرت
عثمان غنی کو عطا فرمایا کہ سوائے آپ کے کسی نبی کی دو بیٹیاں کسی امتی کے نکاح میں
یکے بعد دیگرے نہیں آئیں۔ غزوہ بدر کے فوراً بعد جب حضورﷺ کی پیاری صاحبزادی اور حضرت
عثمان غنی کی اہلیہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا وصال ہو گیا تو حضرت عثمان ان کی جدائی میں
بہت غمگین رہا کرتے تھے۔ حضورﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ
کے ساتھ کر دیا۔
خدماتِ دینیہ: آپ امت مسلمہ
کے عظیم محسن ہیں۔ ہجرت کے بعد مسلمانوں کیلئے پینے کے پانی کی سخت تکلیف تھی۔ آپ
نے ایک یہودی سے منہ مانگی قیمت ادا کر کے صاف شفاف پانی کاکنواں خرید کر مسلمانوں
کیلئے وقف کر دیا۔ اس موقع پر آپ کو زبانِ رسالتِ مآبﷺ سے جنت الفروس کی خوشخبری
ملی۔ مسجد نبوی شریف کی توسیع کیلئے پچیس ہزار درہم کی ملحقہ زمین خرید کر وقف کر دی۔
غزوہ تبوک کے موقع پر مدینہ طیبہ میں مسلمان تنگدستی کا شکار تھے۔ حضورﷺ نے صحابہ کرام
کو بڑھ چڑھ کر مالی تعاون کی تلقین فرمائی تو حضرت عثمان غنی نے تین سو اونٹ مع ساز
و سامان کے پیش کئے۔ اس موقع پر حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’آج کے بعد کوئی عمل عثمان
کو نقصان نہیں دے گا‘‘ تفسیر خازن اور تفسیر معالم التنزیل کی روایات کے مطابق آپ
نے ایک ہزار اونٹ مع ساز و سامان حضورﷺ کی خدمت میں پیش کئے۔ اسی غزوہ کے موقع پر آپ
نے ایک ہزار نقد دینار پیش کئے تو نبی کریم ﷺ نے ہاتھ اٹھا کر تین دفعہ دعا کی ’’اے
اللہ میں عثمان سے
راضی ہوں تو بھی راضی ہو جا‘‘۔ دورصدیقی میں جب قحط سالی کی صورت پیدا ہوئی تو آپ
نے ایک ہزار اونٹوں پر آنے والا غلہ محتاجوں میں تقسیم فرمادیا حالانکہ تاجر کئی گنا
زیادہ قیمت پر خریدنے کیلئے تیارتھے۔
غزوہ بدر کے موقع پر آپ کی اہلیہ حضرت رقیہ سخت
بیمار تھیں۔ ان کی تیمار داری کی وجہ سے آپ شریک نہ ہو سکے لیکن حضورﷺ نے آپ کو بدری
صحابہ میں شمار کرتے ہوئے مال غنیمت میں سے حصہ عطا فرمایا۔ اسی طرح بیعت رضوان کے
موقع پر مقام حدیبیہ میں حضورﷺ نے دوران بیعت اپنے ایک ہاتھ کو حضرت عثمان کا ہاتھ
قرار دیا۔آپ کا شمار ان دس جلیل القدر صحابہ کرام میں ہوتا ہے جنہیں نبی کریمﷺ نے
دنیا میں جنت کی بشارت دے دی تھی۔
فتوحات:
آپ نے پوری امت کو ایک قرأتِ قرآن پر جمع کیا۔ حضرت عمر کے دورِ خلافت میں شروع
ہونے والے فتوحات کے سلسلے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ آپ کے دور میں طرابلس، شام،
افریقہ، جزیرہ قبرص، جزیرہ روڈس، قسطنطنیہ، آرمینیا، خراسان، طبرستان اور کئی ایک
مزید علاقے فتح ہوئے۔ آپ نے مدینہ پاک میں نہری نظام کو مضبوط کیا۔ سیلاب سے بچاؤ
کیلئے ڈیم تعمیر کئے۔ کنویں کھدوائے۔ آپ حد درجہ شرم و حیا کرنے والے تھے۔ ترمذی اور
ابن ماجہ میں حضرت مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ آنے والے
وقت کے فتنوں کا ذکر فرمارہے تھے۔ ایک شخص سر پر کپڑا ڈالے ہوئے پاس سے گزرا تو آپ
نے اس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ’’فتنوں کے دور میں یہ شخص راہ ہدایت پر ہوگا‘‘
حضرت مرہ فرماتے ہیں کہ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہ حضرت عثمان غنی تھے۔ حضرت مرہ
فرماتے ہیں کہ میں نے پھر پوچھا: یا رسول اللہ:کیا یہ شخص اس وقت راہ ہدایت پر ہو گا تو آپ نے
فرمایا’’ہاں یہی‘‘۔ ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے حضرت عثمان کی طرف اشارہ
کر کے فرمایا کہ فتنوں کے دور میں اس شخص کوشہید کر دیا جائے گا‘‘حضرت عمر نے قاتلانہ
حملے میں زخمی ہو نے کے بعد اور اپنی شہادت سے پہلے خلیفہ کے انتخاب کیلئے چھ افراد
کی کمیٹی بنائی تھی۔ ان میں حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمان
بن عوف اورحضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تین دنوں میں گفت و شنید اور افہام
و تفہیم کے بعد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کوخلیفہ
سوم منتخب کیا گیا۔
آپ نے تقریباًبارہ سال تک امورِ خلافت
سر انجام دیئے۔ آخری دور میں ایک یہودی النسل عبداللہ بن سبا نے کوفہ، بصرہ اور مصر کے فسادی
گروہوں کو جمع کیا اور اسلام کے خلاف ایک گہری سازش کی۔ آپ پر طرح طرح کے الزامات
کی بوچھاڑ کی گئی۔ آپ نے ہر سوال کا معقول جواب دیا۔
وصال: ذوالحج کے مہینہ
میں اکثر صحابہ کرام حج کی ادائیگی کیلئے مکہ شریف چلے گئے تھے۔ سازشیوں کو موقع مل
گیا اور آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ کئی دنوں تک آپ اور آپ کے اہل خانہ کو بھوکا
پیاسا رکھا گیا۔ ساتھیوں نے مقابلے کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا کہ’’میں اپنے نبی
کے شہر مدینے کو خون سے رنگین نہیں کرنا چاہتا‘‘ آپ نے تمام مصائب و آلام کے باوجود
حضورﷺ کی وصیت کے مطابق خلعت خلافت نہیں اتاری۔ اس طرح بروز جمعۃ المبارک بمطابق
18 ذو الحج 35 ہجری میں قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے انتہائی درد ناک انداز میں آپ کو
شہید کر دیا گیا۔ آپ کی قبر مبارک مسجد نبوی شریف کے پاس جنت البقیع میں ہے۔
اللہ پاک ان کی قبر
پر کروڑ کروڑ رحمتیں نازل فرمائے ۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم