تحریر: مولانا سید کریم الدین  عطاری مدنی

اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ، دعوتِ اسلامی

حضرتِ سیِّدُناامام زَین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہماکی وِلادت 38 میں مدینۃ المنورہ میں ہوئی ۔آپ کے والدِ بزرگوار حضرتِ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے والدِ ماجد حضرتِ سیِّدُنا علی رضی اللہ عنہ سے اظہارِ عقیدت کے لئے اپنے بچوں کے نام علی رکھتے تھے۔ اسی مناسبت سے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا نام بھی علی ہے اور کنیت ابومحمد، ابوالحسن ، ابوالقاسم اور ابوبکر ہے،جبکہ کثرتِ عبادت کے سبب آپ کا لقب سجاد ،زین العابدین، سیدالعابدین اور امین ہے ۔آپ کی والدہ ماجدہ حضرتِ سیِّدَتُناشہر بانورضی اللہ عنہا فارس کے آخری بادشاہ یزدجرد کی بیٹی تھیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے 2سال تک اپنے دادا حضور حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی آغوشِ عاطفت میں پرورش پائی، پھر 10سال اپنے تایا جان حضرتِ سیِّدُناامام حسن رضی اللہ عنہ کے زیرِ سایہ رہے اور تقریباً 11سال اپنے والد ماجد حضرتِ سیِّدُنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی زیرِ نگرانی تربیت پاکر علوم معرفت کی منازل طے کیں ۔

چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا

آپ رضی اللہ عنہ اپنے اکابرین رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ زندگیوں کی چلتی پھرتی تصویر تھے اور خوفِ خدا میں یگانہ روزگار تھے ۔آپ رضی اللہ عنہ جب وضو کرتے تو خوف کے مارے آپ کے چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا۔ گھر والے دریافت کرتے ، ''یہ وضو کے وقت آپ کو کیا ہوجاتا ہے؟'' تو فرماتے : ''تمہیں معلوم ہے کہ میں کس کے سامنے کھڑے ہونے کا ارادہ کر رہا ہوں؟'' (احیاء العلوم ، کتاب الخوف والرجاء ج ۴، ص ۲۲۶)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

بے ہوش ہو گئے

ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے حج کا احرام باندھا تو تلبیہ (یعنی لبیک) نہیں پڑھی ۔ لوگوں نے عرض کی ،''حضور! آپ لبیک کیوں نہیں پڑھتے ؟'' آبدیدہ ہو کر ارشاد فرمایا،''مجھے ڈر لگتا ہے کہ میں لبیک کہوں اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ''لاَ لَبَّیْکْ''کی آواز نہ آجائے ، یعنی میں تو یہ کہوں کہ'' اے میرے مالک ! میں بار بار تیرے دربار میں حاضر ہوں ۔'' اور ادھر سے یہ آواز نہ آجائے کہ'' نہیں نہیں ! تیری حاضری قبول نہیں ۔''لوگوں نے کہا ، ''حضور! پھر لبیک کہے بغیر آپ کا احرام کیسے ہوگا؟'' یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے لَبَّیْکْ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ لَبَّیْکَ لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکْ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْک لاَشَرِیْکَ لَکْ پڑھا لیکن ایک دم خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ سے لرز کر اونٹ کی پشت سے زمین پر گر پڑے اور بے ہوش ہو گئے ۔ جب ہوش میں آتے تو ''لبیک'' پڑھتے اور پھر بے ہوش ہوجاتے ، اسی حالت میں آپ رضی اللہ عنہ نے حج ادا فرمایا۔(اولیائے رجال الحدیث ص۱۶۴ )

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

میدانِ کربلا کی طرف جانے والے حسینی قافلے کے شرکاء میں آپ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے

میدانِ کربلا کی طرف جانے والے حسینی قافلے کے شرکاء میں آپ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے مگر جب ۱۰ محرم الحرام کوبزمِ شہادت سجی تو آپ شدید بیمار تھے ۔ چُنانچہ آپ رضی اللہ عنہ حسینی قافلے کے واحد مرد تھے جو اس معرکہ حق وباطل کے بعد زندہ بچے تھے ۔ 58برس کی عمر میں ولید بن عبدالملک نے آپ کو زہر دیا جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ محرم الحرام ۹۴؁ھ میں شہادت کے منصب پر فائز ہوکر مدینہ شریف میں جنت البقیع میں آرام فرما ہوئے ۔

اللہ عَزّوَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت ہو

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

اونٹنی سُدھر گئی

ایک مرتبہ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی اونٹنی نے شوخی کرنا شروع کر دی۔ آپ نے اسے بٹھایا اور کوڑا دکھایا اور فرمایا : سیدھی ہو کر چلو ورنہ یہ دیکھ لو ! چنانچہ اس کے بعد اس نے شوخی چھوڑ دی۔ (جامع کرامات اولیاء ،ج۲،ص۳۱۱)

اللہ عَزّوَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت ہو

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

اسم اعظم

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ اسمِ اعظم '' اَللہُ اَللہُ اَللہُ الَّذِيْ لَا إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ '' ہے۔ (''فتح الباري''، باب للہ مائۃ اسم غیر واحدۃ، ج۱۱، ص۱۸۹، (بحوالہ ابن ابی الدنیا).

حدیث پر عمل کا جذبہ اور سخاوت امام زین العایدین

صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حضوراقدس صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو شخص مسلمان غلام کو آزاد کریگا اسکے ہر عضو کے بدلے میں اﷲتعالیٰ اس کے ہر عضو کو جہنم سے آزاد فرمائے گا۔'' سعید بن مرجانہ کہتے ہیں میں نے یہ حدیث علی بن حسین (امام زین العابدین) رضی اﷲتعالیٰ عنہما کو سنائی اونھوں نے اپنا ایک ایسا غلام آزاد کیا جس کی قیمت عبداﷲ بن جعفر دس ۱۰ ہزار دیتے تھے۔ (صحیح البخاري''،کتاب العتق،باب فی العتق وفضلہ، الحدیث : ۲۵۱۷،ج۲،ص۱۵۰.)

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے پاس نبی کریم ﷺ کی تلوار

حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس تلوار ''ذوالفقار'' حضرت زین العابدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس تھی۔ جب حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد وہ مدینہ منورہ واپس آئے تو حضرت مسور بن مخرمہ صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا مجھے یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ بنو امیہ آپ سے اس تلوار کو چھین لیں گے۔ اس لئے آپ مجھے وہ تلوار دے دیجئے جب تک میرے جسم میں جان ہے کوئی اِس کو مجھ سے نہیں چھین سکتا۔ (بخاری جلد۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من درع النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی کرامت

حجاج ابن یوسف کے وقت میں جب دوبارہ حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ اسیر کئے گئے اور لوہے کی بھاری قید و بند کا بارِگراں ان کے تنِ نازنین پر ڈالا گیا اور پہرہ دارمتعین کردئیے گئے، زہری علیہ الرحمہ اس حالت کو دیکھ کر روپڑے اور کہا کہ مجھے تمنا تھی کہ میں آپ کی جگہ ہوتا کہ آپ پر یہ بارِمصائب دل پرگوارا نہیں ہے۔اس پر امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیاتجھے یہ گمان ہے کہ اس قیدو بند ش سے مجھے کرب و بے چینی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر میں چاہوں تو اس میں سے کچھ بھی نہ رہے مگر اس میں اجر ہے اور تَذَکُّرہے اور عذابِ الٰہی عزوجل کی یادہے۔ یہ فرماکر بیڑیوں میں سے پاؤں اور ہتھکڑیوں میں سے ہاتھ نکال دئیے۔

یہ اختیارات ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے کرامۃً انھیں عطا فرمائے گئے اور وہ صبر و رضا ہے کہ اپنے وجود اور آسایشِ وجود ، گھر بار،مال و متاع سب سے رضائے الٰہی عزوجل کیلئے ہاتھ اٹھالیتے ہیں اور اس میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے۔ اللہ تعا لیٰ ان کے ظاہری و باطنی برکات سے مسلمانوں کو متمتع اور فیض یاب فرمائے اور ان کی اخلاص مندانہ قربانیوں کی برکت سے اسلام کو ہمیشہ مظفرو منصور رکھے۔آمین۔وَصَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلیٰ خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ وَعِتْرَتِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔(المنتظم، سنۃ اربع وتسعین، ۵۳۰۔علی بن الحسین...الخ، ج۶، ص۳۳۰)

شجرے قادریہ عطاریہ شریف کا ایک شعر

سَیِّدِسجاد کے صدقے میں ساجد رکھ مجھے (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ )

عِلْمِ حَقْ دے باقِر علمِ ہُد یٰ کے واسِطے (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ )

مشکل الفاظ کے معانی:سجاد:کثرت سے سجدے کرنے والا ساجد:سجدہ کرنے والا

ہدی:ہدایت باقرِ علمِ ہُدٰی:علمِ ہدایت کے ماہِر عالم

دُعائیہ شعر کا مفہوم:

یا اللہ عَزَّوَجَلَّ! تجھے سَیِّدِسجاد یعنی حضرتِ سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما کا واسطہ مجھے سجدہ کرنے والا یعنی نَمازی بنااورباقرِ علمِ ہُدٰی یعنی امام حسین رضی اللہ عنہ کے پوتے امام باقر رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سےعِلْم ِدین کی دولت سے مالا مال فرما ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم

''سجاد '' اور ''ساجد''میں معنوی مناسبت یہ ہے کہ دونوں میں ''س، ج اورد ''کا معنی ایک ہے یعنی سجدہ کرنے والا۔ جبکہ'' عَلَمِ ہُدٰی ''اور'' عِلْمِ حق ''میں لفظی مناسبت پائی جارہی ہے کہ دونوں میں ایک ہی طرح کے حُرُوف ''ع، ل اور م'' کا استعمال ہوا ہے۔

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

اس شعر میں سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ عطّاریہ کے چوتھے اورپانچویں شیخِ طریقت یعنی حضرتِ سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما اوراِن کے فرزندِ ارجمندامام محمد باقر رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے دُعا کی گئی ہے۔ (شرح شجرہ شریف مکتبہ المدینہ)

انسان نُما کُتّوں کا سالن

حضرتِ سیِّدُنا امام زین العابِدین علیہ رَحمَۃُ اللہِ المبین نے کسی شخص کو غیبت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: غیبت سے بچو، کیونکہ یہ انسان نُما کُتّوں کا سالن ہے۔(ذَمُّ الْغِیبَۃلِابْنِ اَبِی الدُّنْیا ص۱۸۱رقم۱۶۱)

كُتّوں سے تشبیہ دینے كی وجہ

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!مظلوم کربلاحضرتِ سیِّدُنا امام زین العابدین علیہ رَحمَۃُ اللہِ المبین نے غیبت کرنے والوں کوانسان نُما کتّوں کے ساتھ اس لئے تشبیہ دی ہے کہ قراٰنِ مجید اور احادیثِ مبارَکہ میں غیبت کو مردار کا گوشت کھانے کی مثل بتایا گیا ہے اور مردار کاگوشت چبانا اور کھانا کتّوں کا کام ہے لہٰذا غیبت کرنے والے گویا کُتّوں کی مثل ہو کر آدمیوں کی اَقسام سے خارِج ہوئے کیونکہ اگر آدَمی ہوتے تو ان میں آدمی کی صفت ہوتی اور انسان کی خصلت ان میں پائی جاتی ،کسی کی غیبت نہ کرتے ،کسی کا گوشت کُتّوں کی طرح نہ چباتے۔

نبی کا صدقہ سدا غیبتوں سے دور رکھنا کبھی بھی چُغلی کروں میں نہ یا رب!

ترے حبیب اگر مسکراتے آ جائیں تو گورِتیرہ میں ہو جائے چاند نا یا رب!

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(غیبت کی تباکاریاں ص 324 مکتبہ المدینہ)

(''لبیک''کیسے کہوں؟۔۔۔۔۔۔ )

حضرت سَیِّدُنا امام علی بن حسین زین العابدین رضي اللہ تعالي عنہ علمِ حدیث میں اپنے والد ِ ماجد حضرت سَیِّدُنا امام حسین ودیگر صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تعالٰی عَنہم کے وارث ہیں ۔ آپ بڑے خدا ترس تھے اور آپ کا سینۂ مبارک خشیتِ الٰہی کا سفینہ تھا ۔ ایک مرتبہ آپ نے حج کا احرام باندھا تو تلبیہ (یعنی لبیک)نہیں پڑھی ۔ لوگوں نے عرض کی ،''حضور! آپ لبیک کیوں نہیں پڑھتے ؟'' آبدیدہ ہو کر ارشاد فرمایا،''مجھے ڈر لگتا ہے کہ میں لبیک کہوں اور اللہ عزوجل کی طرف سے ''لاَ لَبَّیْکْ'' کی آواز نہ آجائے ، یعنی میں تو یہ کہوں کہ'' اے میرے مالک ! میں بار بار تیرے دربار میں حاضر ہوں ۔'' اور ادھر سے یہ آواز نہ آجائے کہ'' نہیں نہیں ! تیری حاضری قبول نہیں ۔''لوگوں نے کہا ، ''حضور! پھر لبیک کہے بغیر آپ کا احرام کیسے ہوگا؟'' یہ سن کر آپ نے بلند آواز سے لَبَّیْکْ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ لَبَّیْکَ لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکْ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْک لاَشَرِیْکَ لَکْ پڑھا لیکن ایک دم خوفِ خد ل سے لرز کر اونٹ کی پشت سے زمین پر گر پڑے اور بے ہوش ہو گئے ۔ جب ہوش میں آتے تو ''لبیک'' پڑھتے اور پھر بے ہوش ہوجاتے ، اسی حالت میں آپ نے حج ادا فرمایا۔(اولیائے رجال الحدیث ص۱۶۴ )

سیّدنا امام زین العابدین کا سفید عمامہ

حضرت سیّدنامحمد بن ہِلال رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :میں نے حضرت سیّدنا علی بن حسین (یعنی امام زین العابدین) کو سفید عمامہ شریف باندھتے دیکھا، آپ رضی اللہ عنہ عمامہ کا شملہ اپنی پیٹھ مبارک پر لٹکا تے تھے۔(تاریخ الاسلام، ۶/۴۳۲، تاریخ ابنِ عساکر، ۴۱/۳۶۵واللفظ لہ)

بعدِ وصال سخاوت کا پتا چلا

حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ اپنا سارا مال راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں خیرات کیا اور آپ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ آپ بہت سے غرباءاہلِ مدینہ کے گھروں میں ایسے پوشیدہ طریقوں سے رقم بھیجا کرتے تھے کہ ان غرباء کو خبر ہی نہیں ہوتی تھی کہ یہ رقم کہاں سے آتی ہے؟مگر جب آپ کا وصال ہو گیاتو ان غریبوں کو پتا چلاکہ یہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سخاوت تھی۔(سیر اعلام النبلاء،۵/۳۳۶)

گالی دینے والے کے ساتھ خیر خواہی

حضرتِ سَیِّدُنا امام زین العابدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو کسی نے گالی دی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے اسے اپنا مبارک کُرتا اور ایک ہزار درھم دینے کا حکم دیا۔ تو کسی نے کہا: آپ نے پانچ خصلتیں جمع کر لی ہیں :

(۱)بردباری(۲) تکلیف نہ دینا (۳) اس شخص کوایسی بات سے رہائی دینا جو اسے اللہ عزوجل سے دور کردیتی (۴) اسے توبہ وندامت کی طرف راغب کرنا (۵) برائی کے بعد تعریف کی طرف رجوع کرنا۔ آپ نے معمولی دنیا کے ساتھ یہ تمام عظیم چیزیں خرید لیں۔(احیاءالعلوم: ۳/۲۲۱)

حضرتِ سیِّدُنا زَیْنُ الْعابِدِیْن عَلِی بن حُسَیْن عَلَیْہِمَاالرَّحْمَہ

حضرتِ سیِّدُناامام زین العابدین علی بن حسین بن علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ تابعین مدینہ منورہ میں سے ہیں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ عابدین کی زینت، اطاعت گزاروں کے سردار، وفادار عبادت گزار اور مہربان سخی تھے۔(اللہ والوں کی باتیں۔۔۔جلد 3 /ص193)

دنیامیں پانچ حضرات بہت روئےہیں:

دنیامیں پانچ حضرات بہت روئےہیں:حضرتِ آدم عَلَیْہِ السَّلَامفراقِ جنت میں،حضرتِ نوح عَلَیْہِ السَّلام و(حضرتِ)یحیی عَلَیْہِ السَّلام مخوفِ خدامیں،حضرتِ فاطمہ زہرا(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا)فراقِ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم میں،حضرتِ امام زین العابدین (عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْن)واقعَۂ کربلاکےبعدحضرتِ حسین(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ)کی پیاس یادکرکے۔ (مراٰۃ المناجیح،۸/ ۲۹۱)

پانچ قسم کے لوگوں کی صحبت سے بچو:

حضرتِ سیِّدُنامحمدبن علی باقر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَافِرفرماتے ہیں:میرےوالدِماجدحضرتِ سیِّدُنااِمام زینُ العابدین علی بن حسین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَانے مجھے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’پانچ قسم کے لوگوں کی نہ تو صحبت اختیار کرنا، نہ ان سے گفتگو کرنا اورنہ ہی سفر میں ان کی رفاقت اختیار کرنا۔‘‘میں نے عرض کی:میں آپ پر قربان!وہ کون ہیں؟فرمایا: ’’فاسق کی صحبت اختیار نہ کرنا کیونکہ وہ تجھے ایک یا ایک سے کم لقمہ کے بدلے میں بیچ دے گا۔‘‘میں نے عرض کی:لقمے سے کم کیامراد ہے؟فرمایا:’’لقمے کا لالچ کرے گا لیکن اسے حاصل نہیں کر سکے گا۔‘‘میں نے عرض کی:دوسرا شخص؟ فرمایا:’’بخیل کی صحبت میں نہ بیٹھنا کیونکہ وہ ایسے وقت میں تجھ سے مال روک لے گا جب تجھے اس کی سخت حاجت وضرورت ہوگی۔‘‘میں نے عرض کی:تیسراکون ہے؟ فرمایا:’’جھوٹے کی صحبت میں نہ بیٹھنا کیونکہ وہ سَراب کی طرح ہے جو تجھ سے قریب کو دور اور دور کو قریب کر دےگا۔‘‘میں نے عرض کی:چوتھا شخص؟فرمایا:’’اَحمق(بےوقوف) کی صحبت اختیار کرنے سے بچنا کیونکہ وہ تجھےفائدہ پہنچانے کی کوشش میں نقصان پہنچادےگا۔‘‘میں نے عرض کی:پانچواں شخص کون ہے؟فرمایا: ’’رشتہ داروں سے قطع تعلُّق کرنے والے کی صحبت میں بیٹھنے سے بچنا کیونکہ میں نے کتابُاللہ میں تین مقامات پراسے ملعون پایا ہے۔‘‘

حضرت سیِّدُناامام زینُ العابدین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:سخی وہ نہیں جو مانگنے والوں کو دیتا ہے بلکہ سخی وہ ہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّکے فرمانبرداروں کے حقوق کی ادائیگی میں پہل کرتا ہےاور اپنی تعریف کا خواہشمند نہیں ہوتا بشرطیکہ بارگاہِ خداوندی سے کامل ثواب کا یقین رکھے۔(احیا العلوم ج3 /739)

فاروقِ اعظم سیِّدُنا امام زین العابدین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پھوپھا:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ حضرت سیِّدُنا امام زین العابدین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پھوپھاہیں ، کیونکہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بیٹے ہیں اور سیدتنا ام کلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بہن ہیں اور والدکی بہن پھوپھی ہوتی ہےاور پھوپھی کا شوہر پھوپھا ہوتا ہے ، چونکہ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سیدتنا اُمّ کلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے شوہر ہیں لہٰذاوہ آپ کےپھوپھا ہوئے۔(طبقات کبری، بقیۃ الطبقۃ الثانیۃ من التابعین، ج۵، ص۱۶۲۔)

علم مغازی (وہ علم جس میں غزوات کے بارے میں معلومات ہو)

حضرت سیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے صاحبزادے حضرت سیِّدُنا امام زین العابدین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں :

’’كُنَّا نَعْلَمُ مَغَازِي النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا نُعَلِّمُ السُّوْرَةَ مِنَ الْقُرْآنِ

یعنی: ہم رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مغازی کا علم اس طرح حاصل کرتے جس طرح قرآن مجید کی سورتیں سیکھا کرتے تھے۔(البدایۃ والنھایۃ، ج۲، ص۶۴۲، سبل الھدی والرشاد، الباب الثانی، اختلاف الناس۔۔۔ الخ، ج۴، ص۱۰۔)

شان فاروقِ اعظم بزبان سیِّدُنا امام زین العابدین

عہدِ رسالت میں شیخین کا مقام:

حضرت سیِّدُنا ابو حازم رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت سیِّدُنا علی بن حسین امام زین العابدین رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ’’مَا کَانَ مَنْزِلَۃُ اَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ مِنْ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یعنی حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ وسیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانے میں کیا مقام ومرتبہ تھا؟‘‘ فرمایا: ’’کَمَنْزِلِھِمَا الْیَوْمَ ھُمَا ضَجِیْعَاہُ یعنی عہدِ رسالت میں ان کا مقام ومرتبہ وہی تھا جو آج ہے کہ دونوں اس وقت بھی رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دوست تھےا ور آج مزار میں بھی دونوں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دوست ہیں ۔‘‘(مناقب امیر المومنین عمر بن الخطاب،الباب العشرون،ص۴۳۔)

زخمی کرنے والے کو اِنعام(حکایت)

غصہ پی جانے کی حقیقت یہ ہے کہ کسیغصہ دلانے والی بات پر خاموش ہوجائے اور غصے کے اظہار اور سزا دینے اور بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود صبر وسکون کے ساتھ رہے ۔ حضرت سیِّدُنا امام زین العابدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کو ان کی کنیزوضو کروا رہی تھی کہ اچانک اس کے ہاتھ سے لوٹا گرگیا جس سے وہ زخمی ہوگئے ، انہوں نے اس کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو اس نے عرض کی : اللہپاک ارشاد فرماتا ہے : وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ ’’اور غصّہ پینے والے ‘‘ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے فرمایا: قَدْ کَظَمْتُ غَیْظِیْ یعنی میں نے اپنا غصّہپی لیا ۔ اس نے پھر عرض کی: وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ- ’’ اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ‘‘ ارشاد فرمایا: قَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْکِیعنی اللہ پاک تجھے معاف کرے۔ پھر عرض گزار ہوئی: وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ’’ اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں ‘‘ ارشاد فرمایا: اِذْہَبِیْ فَاَنْتِ حُرَّۃٌ یعنی جا! تو آزاد ہے ۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۶ص۳۱۷حدیث۸۳۱۷ ملخّصاً)

کیوں میری خطاؤں کی طرف دیکھ رہے ہو!

جس کو ہے مِری لاج وہ لج پال بڑا ہے

ابوجان سے مَحَبَّت کا عالَم

حضرتِ سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اپنے ابوجان حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضٰی شیرِ خُدا رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے بے حد پیار کرتے تھے اوراِسی وجہ سے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے اپنے تمام شہزادوں (یعنی بیٹوں)کے نام ’’علی ‘‘رکھتے تھے۔ بڑے شہزادے (یعنی بڑے بیٹے ) کا نام ’’علی اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہ‘‘ہے۔ اُن سے چھوٹے جوکہ امام زین العابدین کے نام سے مشہور ہیں مگر اِن کا اَصل نام ’’علی اَوسط رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ‘‘ ہےاورسب سےچھوٹے شہزادے ، ننھے ننھے پیارے پیارے ’’علی اصغررَضِیَ اللہُ عَنْہُ ‘‘ہیں۔ (امام زین العابدین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے علاوہ دونوں شہزادےاپنے ابوجان کے ساتھ’’میدانِ کربلا‘‘میں شہید ہوگئے تھے۔ )

اس شہیدِ بَلا شاہِ گُلگُوں قَبا بیکسِ دَشتِ غربت پہ لاکھوں سلام

(حدائقِ بخشش)

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

جسم بیمار نہ ہو تو

حضرت سَیِّدُناامام زینُ العابدین علی بن حُسینرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیہ فرماتے ہیں:اگر جسم بیمار نہ ہو تو وہ اکڑ جاتا ہے اور اکڑنے والے جسم میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔(اللہ والوں کی باتیں،۳/۱۹۴)

تضمین بر نظم منسوب بہ زین العابدین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ:

ایسا کوئی محرم نہیں پہنچائے جو پیغامِ غم

تو ہی کرم کردے تجھے شاہِ مدینہ کی قسم

ہو جب کبھی تیرا گزر بادِ صبا سوئے حرم

پہنچا مری تسلیم اس جا ہیں جہاں خیر الامم

اِنْ نِّلْتِ یَا رِیْحَ الصَّبَا یَوْمًا اِلٰیٓ اَرْضِ الْحَرَم

بَلِّغْ سَلَامِیْ رَوْضَۃً فِیْھَا النَّبِیُّ الْمُحْتَشَم

میں دُوں تجھے ان کا پتہ گر نہ تو پہچانے صبا

حق نے انہی کے واسطے پیدا کیے اَرض و سما

رخسار سورج کی طرح ہے چہرہ ان کا چاند سا

ہے ذات عالم کی َپنہ اور ہاتھ دریا جود کا

مَنْ وَّجْھُہٗ شَمْسُ الضُّحٰی مَنْ خَدُّہٗ بَدْرُالدُّجٰی

مَنْ ذَا تُہٗ نُوْرُ الْھُدٰی مَنْ کَفُّہٗ بَحْرُ الْھِمَمْ

حق نے انہیں رحمت کہا اور شافعِ عصیاں کیا

رتبہ میں وہ سب سے سوا ہیں ختم ان سے انبیا

وہ مَہبِطِ قران ہیں ناسخ ہے جو اَدیان کا

پہنچا جو یہ حکم خدا سارے صحیفے تھے فنا

قُرْاٰ نُہٗ بُرْہَانُنَا نَسْخًا لِّاَدْیَانٍ مَّضَتْ

اِذْ جَائَ نَا اَحْکَامُہٗ لِکُلِّ الصُّحُفِ صَارَ الْعَدَم

یوں تو خلیلِ کبریا اور اَنبیائِ باصفا

مخلوق کے ہیں پیشوا سب کو بڑا رُتبہ ملا

لیکن ہیں ان سب سے سوا دُرِّیتیمِ آمنہ

وہ ہی جنہیں کہتے ہیں سب مشکل کشا حاجت رَوا

یَا مُصْطَفٰی یَا مُجْتَبٰی اِرْحَمْ عَلٰی عِصْیَانِنَا

مَجْبُوْرَۃٌ اَعْمَالُنَا طَمَعْنًا وَّ ذَنْبًا وَّ الظُّلَمِ

اے ماہِ خوبانِ جہاں اے اِفتخارِ مرسلیں

گو جلوہ گر آخر ہوئے لیکن ہو فخر الاولیں

فرقت کے یہ رَنج و عنا اب ہوگئے حد سے سوا

اس ہجر کی تلوار نے قلب و جگر زخمی کیا

وہ لوگ خوش تقدیر ہیں اور بخت ہے ان کا رَسا

رہتے ہیں جو اس شہر میں جس میں کہ تم ہو خسروا

سب اَولین و آخریں تارے ہیں تم مہر مبیں

یہ جگمگائے رات بھر چمکے جو تم کوئی نہیں

اَکْبَادُنَا مَجْرُوْحَۃٌ مِّنْ سَیْفِ ہِجْرِ الْمُصْطَفٰی

طُوْبٰی لِاَھْلِ بَلْدَۃٍ فِیْھَا النَّبِیُّ الْمُحْتَشَم

اے دو جہاں پر رحمِ حق تم ہو شفیع المجرمیں

ہے آپ ہی کا آسرا جب بولیں نَفْسِیْ مرسلیں

اس بیکسی کے وقت میں جب کوئی بھی اپنا نہیں

ہم بیکسوں پر ہو نظر اے رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن

یَا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ اَنْتَ شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْں

اَکْرِمْ لَنَا یَوْمَ الْحَزِیْنِ فَضْلًا وَّ جُوْدًا وَّ الْکَرَم

اس سالکِؔ بدکار کا گو حشر میں کوئی نہیں

لیکن اُسے کیا خوف ہو جب آپ ہیں اس کے ُمعیں

مجرم ہوں میں غفار رب اور تم شَفِیْعُ الْمُذْ نِبِیْں

پھر کیوں کہوں بیکس ہوں یَا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْں

یَا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْں اَدْ رِکْ لِزَیْنِ الْعَابِدِیْں

مَحْبُوْسُ اَیدِی الظَّالِمِیْنَ فِیْ مَرْکَبٍ وَّالْمُزْدَحِم

(دیوان سالک)

نام کی وجہ تسمیہ

سوال: زینُ العابدین اورسجاد نام رکھنا کیسا؟

جواب :عام لوگوں کے جو یہ نام رکھے جاتے ہیں تو اس میں خود ستائى پائی جاتی ہے۔ پنچ وقتہ نماز تو پڑھتا نہیں اور کہلا رہا ہے : سَجَّاد یعنی بہت زیادہ سجدے کرنے والا ، جمعہ کی نماز تک پڑھتا نہیں اور نام ہے : زَیْنُ الْعَابِدِیْن یعنی عبادت گزاروں کی زینت۔غلام زَیْنُ الْعَابِدِیْن نام رکھىں تو چل جائے گا لیکن زَیْنُ الْعَابِدِیْن نام رکھنے میں خودستائی پائی جا رہی ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ حصولِ برکت کے لىے بزرگوں کے نام پر نام رکھے جائیں۔ اگر کوئی خود کو سَجَّاد ، شہزاد اور شہزادہ وغیرہ کہلواتا ہے تو اس سے اُلجھنا نہیں ۔ بعض لوگ اپنے بیٹے کا تعارف شہزادہ یا صاحب زادہ کہہ کر کرواتے ہیں ، گناہ اِس میں بھی نہیں ہے لیکن خودستائی سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ نہ کہا جائے۔ مىں تو اپنے بیٹے کو غرىب زادہ بولتا ہوں یعنی غرىب کا بىٹا۔(اجتماع کے فوائد ص23- 24مکتبۃ المدینہ)

تفسیرقرآن بزبان امام زین العابدین رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین کے بارے میں ۔

وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ ۱۴،الحجر:۴۷)

ترجمۂ کنزالایمان:’’اور ہم نے ان کے سینوں میں جو کچھ کینے تھے سب کھینچ لئے آپس میں بھائی ہیں تختوں پر روبرو بیٹھے۔‘‘

حضرت سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ’’ یہ آیت مبارکہ بنوہاشم، بنوتمیم، بنو عدی ، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ،حضرت سیدنا عمر فاروق اور حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘حضرت سیدنا ابوجعفرامام باقر رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے پوچھا گیا کہ حضرت سیدنا علی بن حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے جویہ بات منقول ہے کہ یہ آیت مبارکہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ،حضرت سیدنا عمر فاروق اور حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے بارے میں نازل ہوئی درست ہے؟انہوں نے فرمایا: ’’اللہ عَزَّ وَجَل َّکی قسم! یہ آیت انہیں کے بارے میں نازل ہوئی ہے اگران کے بارے میں نازل نہیں ہوئی توپھرکس کے بارےمیں نازل ہوئی ہے؟‘‘پوچھا گیا کہ اس میں توان کے کینے کا ذکر ہے حالانکہ ان کے دلوں میں توایک دوسرے کے لیے کوئی کینہ نہیں ہے؟فرمایا:’’اس کینے سے مراد زمانہ جاہلیت والا کینہ ہے جوان کے قبائل بنو عدی ، بنو تمیم، بنوہاشم میں پایاجاتاتھاجب یہ تمام لوگ اسلام لےآئے ،تو کینہ ختم ہوگیا اورآپس میں شیروشکر ہوگئے،نیزان کے مابین اس قدر الفت ومحبت پیداہوگئی کہ ایک بار حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پہلو میں درد ہوا توحضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اپنے ہاتھ کوگرم کرکے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پہلو کو ٹکور کرنے لگے۔ رب تعالٰی کو یہ ادا اتنی پسندآئی کہ اس پریہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔‘‘ (تفسیرالدرالمنثور،الحجر:۴۷، ج۵، ص۸۴۔۸۵)

سیدنا علی المرتضی وسیدنا صدیق اکبردونوں کی رشتہ داری

حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے صاحب زادے حضرت سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی زوجہ محترمہ حضرت سیدتنا شہر بانو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے بیٹے حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی زوجہ دونوں آپس میں سگی بہنیں تھی۔یعنی سیدنا علی المرتضی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اور سیدنا ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ دونوں کی بہوئیں آپس میں سگی بہنیں تھیں۔حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے دور خلافت میں حضرت سیدنا حریث بن جابرجعفی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے شاہ ایران یزد جردبن شہر یار کی دو بیٹیاں آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی خدمت میں بھیجی تو آپ نے ان میں سے بڑی بیٹی کا نکاح اپنے بیٹے حضرت سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے فرمادیا اور چھوٹی بیٹی کا نکاح حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے فرمادیا۔ان سے حضرت سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے بیٹے حضرت سیدنا امام زین العابدین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ پیدا ہوئے اور حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے بیٹے حضرت سیدنا قاسم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ پیداہوئے۔یوں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے بیٹے حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اور حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے بیٹے حضرت سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہم زلف ہوئے۔(لباب الانساب والالقاب والاعقاب،ابناء علی ،العلویۃ الجعفریۃ و العقیلیۃ،ج۱، ص۲۲ )

قطع رحمی کرنے والے کے ساتھ دوستی نہ کرو

حضرت سیِّدُنا امام باقر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَافِر فرماتے ہیں : میرے والد ِ گرامی حضرت سیِّدُنا امام زین العابدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا: ’’قطع رحمی کرنے والے کے ساتھ دوستی نہ کرو کیونکہ میں نے قرآنِ پاک میں اسے 3 جگہوں پر ملعون پایا۔‘‘ اور پھر انہوں نے سابقہ 3 آیات پڑھیں یعنی قتال والی آیت ِ کریمہ میں صریح لعنت ہے، سورۂ رعد کی آیت ِ مبارکہ میں عمومی طور پر لعنت ہے کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم دیا اس میں رحم (یعنی رشتہ داری )وغیرہ بھی شامل ہیں اور سورۂ بقرہ کی آیت ِمقدسہ میں لازمی طور پرلعنت ثابت ہے کیونکہ یہ ان چیزوں میں سے ہے جو خسارے کو لازم ہیں۔ حضرت سیِّدُنا امام ابوعبداللہ محمد بن احمد قرطبیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی (متوفی۶۷۱ھ) نے اپنی تفسیر میں صلہ رحمی کے واجب اور قطع رحمی کے حرام ہونے پر امت کا اجماع نقل فرمایا ہے۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال جلد 2 ص282)

ایک ہزار رکعت نفل

امام زین العابدین ہر شب ایک ہزار رکعت نفل پڑھتے تھے۔(مراۃ المناجیح جلد 6ص6)

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا اسم مبارک اور اولا مبارک کا تذکرہ خیر

زین العابدین: آپ کا نام عابد ہے،لقب علی اوسط،خطاب زین العابدین،آپ کی والدہ بی بی شہر بانو بنت یزد گرد شاہ ایران ہیں،شہر بانو ایران کی شاہزادی تھیں جو خلافت فاروقی میں گرفتار ہوکر مدینہ منورہ آئیں،حضرت عمر نے فرمایا کہ شاہزادی شاہزادے کو دی جاوے گی اور امام حسین سے آپ کا نکاح کردیا،ان کے شکم سے امام زین العابدین پیدا ہوئے،آپ کے بیٹے گیارہ اور بیٹیاں چھ۔ تفصیل یہ ہے بیٹے: محمد باقر،جعفر،ابو الحسن،زید،عبد اللہ،عبد الرحمن،سلیمان،عمر،اشرف،حسن اصغر،حسن اکبر علی۔بیٹیاں: خدیجہ،زینب،عالیہ،ام کلثوم،ملیکہ،ام الحسن،ام الحسین۔محمد،باقر،عبد اللہ،عمر،اشرف،زید شہید ہوئے۔(مراہ المناجیح جلد 8 ص 618)

علی ابن حسین ابن علی ابن ابی طالب: آپ کی کنیت ابو الحسن لقب امام زین العابدین سادات اہل بیت سے ہیں،جلیل القدر تابعی ہیں،امام زہری کہتے ہیں کہ میں نے ان سے افضل کوئی قرشی نہیں دیکھا آپ کی عمر ۵۸ اٹھاون سال ہوئی ۹۴ میں وفات ہوئی جنت بقیع میں اپنے تایا امام حسن کے ساتھ دفن ہیں،مترجم کہتا ہے کہ امام حسین کے تینوں بیٹوں کا نام علی ہے علی اکبر علی اوسط علی اصغر،حضرت علی اکبر اور علی اصغر تو کربلا میں شہید ہوئے علی اوسط یعنی امام زین العابدین وہاں سے بچ کر آئے بقیہ زندگی بغیر روئے ہوئے کبھی پانی نہ پیا آپ کی قبر زیارت گاہ خاص و عام ہے۔(مراہ المناجیح جلد 8 ص 583)

آپ تابعی ہیں

امام زین العابدین صحابی نہیں بلکہ تابعی ہیں(مراہ المناجیح جلد 8 ص217)

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے مروی روایت

روایت ہے حضرت علی ابن حسین سے(ارسالًا) ۱؎ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں جب جھکتے اور اٹھتے تو تکبیر کہتے حضور کی یہی نماز رہی حتی کہ اﷲ تعالٰی سے مل گئے۲؎(مالک)

شرح

۱؎ آپ کا لقب زین العابدین ہے،کنیت ابوالحسن،اہل بیت اطہار سے ہیں،۵۸ سال کی عمر ہوئی، ۹۴ھ؁ میں وفات،چونکہ آپ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو نہ دیکھ سکے اس لیے تابعین میں سے ہیں اور یہ روایت مرسل ہے۔

۲؎ یعنی یہ عمل شریف منسوخ نہیں۔(مراہ المناجیح جلد 2 ص37)

حسینی سادات کا سلسلہ آپ ہی سے چلا

آپ کا نام جعفر،لقب امام صادق ہے،والد کا نام محمد،لقب امام باقر،ان کے والدکا نام علی اوسط،لقب امام زین العابدین ہے،حادثہ کربلا سے صرف امام زین العابدین ہی بچ کر آئے تھے،حسینی سادات آپ ہی کی نسل پاک سے ہیں،امام حسین کے درمیانے صاحبزادے ہیں۔(مراہ المناجیح جلد2 ص907)

،امام زین العابدین تو نماز پنجگانہ کے لئے جوڑا رکھتے تھے۔

روایت ہے حضرت عبداﷲ ابن سلام سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تم میں سے کسی پر کیا دشوار ہے کہ اگر ممکن ہو تو جمعہ کے دن کے لیئے دو کپڑے کام کاج کے کپڑوں کے سوا بنالے ۱؎(ابن ماجہ)اور مالک نے یحیی ابن سعید سے روایت کی۔

شرح

۱؎ یہ بھی مستحب ہے کہ جمعہ کا جوڑا الگ رکھے جو بوقت نماز پہن لیا کرے اور بعد میں اتار دیا کرے،امام زین العابدین تو نماز پنجگانہ کے لئے جوڑا رکھتے تھے۔(مراہ المناجیح جلد2 ص617)

امام زین العابدین کے صاحبزادے کا مقام ومرتبہ

جب استاد کا یہ عالم ہے تو جو قرب زمانہ کے حضور ﷺ کے زمانے کے قریب ہیں اور نسب میں بھی حضورﷺ کے قریب اورجب امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا یہ عالم ہے کہ وہ حضور امام اعظم امام ابو حنیفہ کے استاد صاحب ہیں تو ۔۔۔۔۔ ان کے والد کا عالم کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔ جن کی تربیت کے عظیم شاہکارامام زین العابدین کے صاحبزادے ۔۔۔۔۔امام جعفرصادق رضی اللہ عنہ ۔۔۔۔

امام اعظم کے استاد

سَیِّدنا امام اعظم علیہ الرحمۃعلم دین کے حُصول کے باوُجود امام اعظم علیہ رَحمۃُاللہ المُعَظَّم جیسے علم کے بیکراں سَمُنْدر نے بھی علومِ طریقت، حضرت امامِ جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی صحبتِ بابَرَکت و مجالس سے حاصل کئے۔امامِ اعظم علیہ رَحمۃُاللہ المُعَظَّم نے فرمایا! اگر میری زندگی میں یہ دوسال (جو میں نے امام جعفر صادق علیہ الرحمۃ کی خدمت میں گزارے) نہ ہوتے تونعمان(علیہ الرحمۃ) ہلاک ہوگیا ہوتا۔(آداب مرشد کامل ص171 مکتبۃ المدینہ )

((الألوسي، محمود شكري، مختصر التحفة الاثني عشرية، ص 8 ، ألّف أصله باللغة الفارسية شاه عبد العزيز غلام حكيم الدهلوي، نقله من الفارسية إلى العربية: (سنة 1227 هـ) الشيخ الحافظ غلام محمد بن محيي الدين بن عمر الأسلمي، حققه وعلق حواشيه: محب الدين الخطيب، دارالنشر: المطبعة السلفية، القاهرة، الطبعة: 1373 هـ .

اور دیکھئے : القنوجي البخاري، أبو الطيب السيد محمد صديق خان بن السيد حسن خان (متوفاى1307هـ الحطة في ذكر الصحاح الستة ، ج 1 ص 264 ، ناشر : دار الكتب التعليمية - بيروت ، الطبعة : الأولى 1405/ 1985م ).

امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ بھی تابعی ہیں

امام جعفر صادق ہیں،آپ امام زین العابدین کے فرزند ہیں، تابعی ہیں،(مراۃ المناجیح جلد4 ص577)

امام زینُ العابدین ابوالحسن علی اوسط ہاشمی قرشی:

سجادِ اُمّت، حضرت سیّدنا امام زینُ العابدین ابوالحسن علی اوسط ہاشمی قرشی علیہ رحمۃ اللہ القَوی شعبان 38ھ کو مدینۂ منورہ میں پیدا ہوئے اور محرمُ الحرام 94ھ میں وصال فرمایا۔ آپ کا مزار جنتُ البقیع میں حضرت سیّدنا امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پہلو میں ہے۔ آپ عظیمُ المناقب تابعی، محدث، فقیہ، عابد، سخی، صاحبِ زہد و تقویٰ، جلیلُ القدر، عالی مرتبت اور سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ عطاریہ کے چوتھے شیخِ طریقت ہیں۔ (وفیات الاعیان،ج 2،ص127، شرح شجرۂ قادریہ، ص51،54)

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان بزبان امام زینُ العابدین رضی اللہ عنہ

اہلِ بیت کی خدمت اور حضرت امیر معاویہ سے محبت: شہادتِ امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بعد امام زینُ العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ جب یزید کے پاس سے لوٹ کر مدینَۂ مُنَوَّرہ پہنچے تو حضرت سیّدنا مِسْوَر بن مَخْرَمَہ رضی اللہ تعالٰی عنہما ان کے پاس گئے اور کہا: اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور حکم دیں۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ جب بھی حضرتِ سیِّدُنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا تذکرہ کرتے ان کے لئے دعائے رحمت ضرور کرتے تھے۔(سیر اعلام النبلاء،ج 4،ص480ملتقطاً)

امام زینُ العابدین رضی اللہ عنہ کو زین العابدین کہنے کی وجہ

آپ کی ولادت38سن ہجری کو مدینۂ منورہ میں ہوئی۔آپ کا نامعلیرکھا گیا اور کثرتِ عبادت کے سبب سجّاد اور زینُ العابِدِین (یعنی عبادت گزاروں کی زِینت) کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ کی کنیت ابوالحسن ہے۔ (الاعلام،ج4، ص277 ملتقطا)

نبی ﷺ کے سید البشر ہونے کے ساتھ نورانیت ہونے پر دلیل بزبان امام زینُ العابدین

حضرت سیّدناامام زینُ العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:میں آدم علیہ السَّلام کی تخلیق سے چودہ ہزار سال پہلے اللہ عَزَّوَجَل َّکے ہاں نور تھا۔(مواھب لدنیہ،ج1،ص39)

امام زینُ العابدین رضی اللہ عنہ کے زبانی شخین کریمین رضی اللہ عنھما کا مقام

امام احمد مسند ذی الیدین رضی اللہ تعالی عنہ میں ابن ابی حازم سے راوی : قال جاء رجل الی علی بن الحسین رضی اللہ تعالی عنہما فقال ماکان منزلۃ ابی بکر وعمر من النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال منزلتھما الساعۃ وھما ضجیعاہ ۱؂ یعنی ایک شخص نے حضر ت امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت انور میں حاضر ہوکر عرض کی حضور سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ابو بکر وعمر کا مرتبہ کیا تھا فرمایا جو مرتبہ ان کا اب ہے کہ حضور کے پہلو میں آرام کررہے ہیں ۔( مسند احمد بن حنبل حدیث ذی الیدین رضی اللہ تعالی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۷۷)(فتاوی رضویہ جلد 28ص 99)

امام علی اَوسط کو زَیْنُ الْعَابِدِیْن اور سَجَّاد کہنے کی وجہ

سُوال:حضرتِ سَیِّدُنا امام علی اَوسط رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو زَیْنُ الْعَابِدِیْناور سَجَّادکیوں کہتے ہیں؟

جواب: زَیْنُ الْعَابِدِیْن کے معنیٰ عبادت گزاروں کی زینتہے ، چونکہ حضرتِ سَیِّدُنا امام علی اَوسط رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بہت زیادہ عبادت گزار تھے اس لیے لوگوں نے انہیں زَیْنُ الْعَابِدِیْن کا لقب دیا ۔(1) اسی طرح آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بہت زیادہ نوافل پڑھتے تھے اور ظاہر ہے نوافل میں سجدے ہوتے ہیں تو یوں سجدوں کی کثرت کی وجہ سے لوگوں نے انہیں سَجَّاد یعنی بہت زیادہ سجدے کرنے والا کہنا شروع کر دیا۔(2) آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا نامِ نامی علیتھا اور پہچان کے لیےعلی اَوْسَطکہا جاتا تھا یعنی بیچ والے علی کیونکہ امامِ حسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے ایک بیٹے علی اکبر یعنی بڑے علی تھے اور ایک علی اصغر یعنی چھوٹے علی تھے جبکہ امام زَیْنُ الْعَابِدِیْنرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بیچ والے تھے اس لیے آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو علی اَوْسَط کہا جاتا ہے۔

امام زینُ العابدین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کی عمر مُبارَک

سُوال:حضرتِ سَیِّدُناامام زینُ العابدین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ واقعۂ کربلا کے بعد کتنا عرصہ حیات رہے؟

جواب:کَربلا کا واقعہ61 سنِ ہجری میں ہوا اور حضرتِ سَیِّدُناامام زینُ العابدین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے 94 سنِ ہجری میں وِصال فرمایا یعنی آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا وصال واقعۂ کربلا کے 33سال بعد ہوا۔ شرح شجرۂ قادریہ میں آپ کی عمر 58 سال لکھی ہے یعنی 58 بَرس کی عمر میں آپ کا اِنتقالِ باکمال ہوا۔

اللہ پاک کی ان پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مَغْفِرَت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم(طبقات ابن سعد، علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب، ۵/ ۱۷۱، رقم:۷۵۵۔)

اپنی زندگی میں دو مرتبہ اپنا سارا مال راہ خدا عَزَّ وَجَلَّ میں خیرات

حضرت سَیِّدُنا امام زَین العابدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ اپنا سارا مال راہ خدا عَزَّ وَجَلَّ میں خیرات کیا اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بہت سے مساکینِ مدینہ کے گھروں میں ایسے پوشیدہ طریقوں سے رقم بھیجا کرتے تھے کہ انہیں خبر ہی نہیں ہوتی تھی کہ یہ رقم کہاں سے آتی ہے؟ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا وصال ہو گیاتو ان غریبوں کو پتا چلاکہ یہ حضرت امام زین العابدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی سخاوت تھی۔(سیر اعلام النبلاء ، ج۵، ص336 )

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا خصوصی علم :

امام غزالی اپنی زندگی کی آخری کتا ب "منھاج العابدین " جو کہ عظیم ترین تصوف کی اور مختصر کتاب ہے تو اس کی وجہ بیان کرنے کے ضمن میں فرماتے ہیں۔

جب ہم نے اس راہ کو اتنا مشکل پایا تو اسے پار کرنے کے لیے گہرا غوروخوض کیا اور دیکھاکہ بندہ اس میں کن چیزوں کامحتاج ہوتاہےمثلاً : قوت وطاقت، آلات اورعلم و عمل کی تدبیروغیرہ تواس امیدکے ساتھ کہ بندہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی توفیق سے سلامتی کے ساتھ اس راہ کو پار کر جائے اور اس کی ہلاکت خیز گھاٹیوں میں گر کر ہلاک ہونے والوں کےساتھ ہلاک نہ ہو، لہٰذاہم نےاس راہ پرچلنےاوراسےپارکرنےکےمتعلق چند کتابیں لکھیں جیسے : اِحْیَاءُ عُلُوْمِ الدِّیْن، اَسْرَارُالْمُعَامَلَات، اَلْغَایَۃُ الْقَصْوٰیاوراَلْقُرْبَۃُ اِلَی اللہ وغیرہ، یہ کتابیں باریک علمی نکات پرمشتمل ہیں جس کی وجہ سے عام لوگوں کی سمجھ سےبالاترہیں اوراسی کم فہمی کی وجہ سےلوگ ان میں عیب لگانےلگےاورجو باتیں پسند نہ آئیں ان میں سرگرمی دکھانے لگے، بھلا ربُّ الْعٰلَمِیْن جَلَّ جَلَالُہٗ کے کلام سے بڑھ کر بھی کوئی کلام فصیح وبلیغ ہو سکتا ہے، کہنے والوں نے تو اس کے بارےمیں بھی کہہ دیا کہیہ تو اگلوں کی داستانیں ہیں ۔ (1) کیا تم نے حضرت سیِّدُنا امام زین العابدین علی بن حسین بن علی عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا یہ فرمان نہیں سنا :

اِنِّیْ لَاَکْتُمُ مِنْ عِلْمِیْ جَوَاہِرَہٗ کَیْلَا یَرٰی ذَاکَ ذُوْ جَھْلٍ فَیَفْتَتِنَا

وَ قَدْ تَقدَّمَ فِیْ ھٰذَا اَبُوْ حَسَنٍ اِلَی الْحُسَیْنِ وَوَصّٰی قَبْلَہُ الْحَسَنَا

یَارُبَّ جَوْہَرِ عِلْمٍ لَوْ اَبُوْحُ بِہٖ لَقِیْلَ لِیْ اَنْتَ مِمَّنْ یَّعْبُدُ الْوَثَنَا

وَلَاسْتَحَلَّ رِجَالٌ مُّسْلِمُوْنَ دَمِیْ یَرَوْنَ اَقْبَحَ مَا یَاْتُوْنَہٗ حَسَنَا

ترجمہ : میں اپنے علمی جواہر پوشیدہ رکھتا ہوں تاکہ جہلا انہیں دیکھ کر فتنے میں مبتلا نہ ہوں ۔ (۲) اس کے متعلق اس سے پہلے حضرت سیِّدُنا ابوحسن علیُ المرتضٰیکَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم بھی حسنین کریمین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ مَا کو وصیت کر گئے کہ(۳) میرے ایسے کئی پوشیدہ علوم ہیں جنہیں میں ظاہر کر دوں تو مجھے کہا جائے گا تو توبتوں کی پوجا کرنے والا ہے اور(۴) مسلمان میرے خون کو حلال سمجھ بیٹھیں گے(یعنی مجھے قتل کر دیں گے) اور اس برے کام کو اچھا سمجھیں گے ۔

مگر اب حالات کااربابِ دین سے تقاضا ہے کہ وہ ساری خلق خدا کو نظر رحمت سے دیکھیں اور بحث ومباحثہ ترک کردیں ۔ میں نے اُس کی بارگاہ میں التجاکی جس کے قبضہ میں تمام مخلوق اور ہر معاملہ ہے کہ وہ مجھے ایسی کتاب لکھنے کی توفیق عطا فرمائے جس پر سب کااتفاق ہو اور اسے پڑھ کر لوگ فائدہ اٹھائیں پس اس نے میری التجا قبول فرما ئی کیونکہ جب کوئی بے چین ومُضْطَر اسے پکارے تو وہ اس کی پکار سنتا ہے، اس نے اپنے فضل سے مجھ پر اس تصنیف کے راز آشکار فرمائے اور ایک ایسی منفرد ترتیب الہام فرمائی جوعلومِ دینیہ کے حقائق پر مشتمل میری سابقہ کتب میں نہیں تھی، یہ میری وہ تصنیف ہے جس کی تعریف میں خود کرتا ہوں ۔ توفیق دینے والا اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی ہے ۔(منھاج العابدین ص 13-14 مکتبہ المدینہ)

اہلِ سنّت کی علامت

سوال: امام زین العابدین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کس چیز کو اَہلِ سنّت کی علامت قرار دیا؟

جواب: امام زین العابدین حضرت سَیِّدُنا ابوالحسن علی بن حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ارشاد فرمایا : رسولِ پاک ، صاحبِ لولاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کثرت سے درود پڑھنا اہلِ سنّت کی علامت ہے ۔(القول البدیع ، الباب الاول ، قول علی زین العابدین علامة ۔ ۔ ۔ الخ ، ص۱۳۱ ، رقم : ۵