اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ70سے زائد علوم وفنون میں
مہارت رکھتے تھے۔بہت ساری کتب علوم حدیث آپ کے زیر مطالعہ رہی تھیں ۔حدیث کی
تخریج،صحت،ضعف اور وضع پر گہری نظرتھی اور آپ کے سامنے علوم حدیث کی بے شمار جہتیں
تھیں۔ان ہی جہتوں میں سےحدیث کی تخریج اور اس کے اصول بھی ہیں۔ حدیث کی تخریج فن علم حدیث کا ایک اہم ترین حصہ ہےاور ہم محدثین کرام کی بڑی
تعداد کو اس فن کا اہتمام کرتے ہوئے
دیکھتے ہیں۔منقول ہے کہ امام ابوعبداللہحاکم (وفات405ہجری)،امام ابونعیم احمد بن
عبداللہ اصفہانی (وفات 430ہجری)،امام احمد بن حسین بیہقی(وفات458ہجری)،خطیب بغدادی (وفات 463 ہجری) رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْاس فن تخریج میں پیش رو تھے۔
امام ابن حجر عسقلانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ(وفات852ہجری)کی کتاب ”تلخيص الحبير فی احاديث الرافعي
الكبير“ اور امام جمال الدین زیلعی(وفات762ہجری) رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ کی کتاب ”نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ“فن
تخریج کی دو اہم اور بڑی کتابیں ہیں۔”اصول فن تخریج“ کی بات کریں تو اس فن کے موجد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان
رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہقرار پاتے ہیں۔اسی بات کو استاذ جامعۃ الکرم برطانیہ
علامہ ابو المحاسن محمد نوید جمیل القادری
نے”امام احمد رضا کی خدمات علوم حدیث کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ “کے پیش لفظ میں
بیان کیا ہے۔یہ صرف دعویٰ ہی نہیں بلکہ اس پردلائل بھی موجود ہیں۔
فن اصول تخریج کے موجد:
فن اصولِ تخریج میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی کتاب ”الروض البہیج فی آداب التخریج “ایک منفرد اور بے نظیر کتاب ہے۔مولوی رحمن علی خلیفہ
حاجی امداداللہ مہاجر مکی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ”تذکرۂ علمائے ہند“ میں جب امام
احمد رضا علیہ الرحمہ کی اس کتاب کا ذکر کیا تو ان الفاظ سے کیا:”اگر پیش ازیں
کتابے درین فن نافتہ شود پس مصنف را موجد تصینف ہذا می تواں گفت“ترجمہ: اگر اس سے
پہلےاس فن میں کسی نے کتاب نہ لکھی ہوتو مصنف (اعلیٰ حضرت)کو اس فن کا موجد کہا جاسکتا ہے۔(تذکرۂ علمائےہند،ص17،امام احمد رضا خان کی خدمات علوم حدیث کا تحقیقی اور
تنقیدی جائزہ،پیش لفظ،ص14)بعد
والوں میں فن اصول تخریج کے حوالے سے
نمایاں طور پر دو شخصیتوں کانام اور ان کی کتابوں کا ذکر آتا ہے:
(1) علامہ شیخ سید احمد بن محمد حسنی ادریسی غمازی مغربی اور ان کی کتاب ”حصول التفریج
باصول التخریج“ ہے اور(2)ڈاکٹر محمود طحان
اور ان کی کتاب”اصول التخریج ودراسات الاسانید“
یہ دونوں حضرات اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ
الرحمہ کے بعد کےہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں حضرات اپنی اپنی کتاب کو فن اصول تخریج میں پہلی کتاب گردانتے ہیں
اور خود کو اس فن کا موجد قرار دیتے ہیں۔اسی بات کومحقق علامہ ابو المحاسن محمد نوید جمیل القادری بیان کرکے لکھتے ہیں:دونوں حضرات کے تصور میں یہ
دعویٰ خالی از دلیل نہیں بلکہ استقصاءِ
تام،تلاش وجستجو،تفتیش کے بعد بحث وفحص سے بھی اس فن اصول تخریج کےلئے کتاب تو کُجا کسی کتاب کا نام تک نہیں ملتا۔سید غمازی
صاحب کی عبارت میں تو اس فن کے اصول کے اشارات تک نہ ملنے کی تحقیق ہے۔اب دونوں
حضرات کی عبارات ملاحظہ فرمایئے:
ڈاکٹر محمود طحان کی عبارت:
رہی بات”اصول تخریج“کی تو میرے علم میں نہیں ہےکہ کسی
شخص نے ان ابحاث کا ذکر کیا ہویا اس فن میں کوئی تصنیف موجود ہو، نہ زمانہ قدیم
میں اور نہ ہی زمانہ حال میں ۔( اصول التخریج ودراسات الاسانید،صفحہ5)
سید غمازی کی عبارت:
اس فن اصول تخریج کی اصل اور بنیادوں کو کوئی شخص نہیں
پہنچا اور نہ کوئی اس طرف متنبہ ہوا کہ اس فن میں کچھ تالیف کرے اور اس کی فصلوں
کو ترتیب دے۔میرے علم میں نہیں کسی نے اس
فن میں کوئی مستقل تصنیف کی ہواور نہ مجھے
کسی ایسے شخص کے بارے میں علم ہے جس نے اس فن کے اصول کو علیحدہ سے جمع کیا ہوبلکہ
اس کے قواعد کی طرف اشارہ بھی نہیں ملتا۔( حصول التفریج باصول
التخریج ،صفحہ11)(امام احمد رضا
خان کی خدمات علوم حدیث کا تحقیقی اور تنقیدی جائزہ،پیش لفظ،ص15تا16 مع تصرف)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان
علیہ الرحمہ ہی اس فن اصول تخریج کے موجد ہیں کیونکہ آپ کی تصنیف ”الروض البہیج فی آداب
التخریج “ان دونوں حضرات کی تصانیف
سے پہلے کی ہے۔
فن اصول تخریج میں مہارت:
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی فن اصول تخریج سے واقفیت اور
مہارت کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں
کہ علامہ ابن عابدین شامی (وفات
1252ہجری)علیہ الرحمہ نے اپنی شہرہ
آفاق کتاب”رد المحتار “ کے باب الاذان میں ایک حدیث پاک ذکر فرمائی اور اس کے بعد
فرمایا:قَدْ
اَخْرَجَ السُّيُوطِيیعنی اس حدیث
پاک کی تخریج امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے فرمائی۔اعلیٰ حضرت امام احمد
رضا خان علیہ الرحمہ نے اس پر تنبیہ کرتے ہوئے ”جد الممتار علی رد المحتار“ میں
فرمایا:لفظ ”
اَخْرَجَ“غیرمحل میں ہےکیونکہ یہ محدثین
کے ہاں روایت کے معنیٰ میں ہے جس کے ساتھ سند ہوتی ہے۔یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ سند کے
ساتھ روایت ذکر نہیں کرتے لہٰذااولیٰ یہی
تھا کہ علامہ شامی علیہ الرحمہ” اَخْرَجَ“کی
جگہ ”نَقَلَ“یا ”ذَکَرَ“یا
”اَوْرَدَ“یا اس سے ملتے جلتے الفاظ ذکر کرتے۔(جد الممتار،جلد3،ص72مکتبۃ المدینہ)
تخریج اور فن اصول تخریج سے آگاہی
رکھنے والے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کتابوں اور ان کے مصنفین اور مؤلفین کے
بارے میں آگاہی رکھےتاکہ حوالہ دینے میں غلطی نہ کربیٹھے۔اس میدان میں بھی اعلیٰ
حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ اپنی مثال آپ تھے۔چنانچہ امام طحطاوی علیہ الرحمہ نے
درمختار کے حاشیہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی ایک روایت نقل کرتے ہوئے فرمایاکہ بزار اور
طیالسی نے بھی اسے روایت کیا اور طبرانی نے بھی حلیۃ الاولیاء میں حضرت ابن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے ذکر میں اسے بیان کیا،یہ بات المقاصد الحسنہ
میں ہے۔اس حاشیہ پر اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں:علامہ شامی علیہ
الرحمہ نے بھی (رد
المحتارمیں )اسی
طرح” المقاصد الحسنہ“کے حوالے سے بلاتبصرہ نقل فرمایا حالانکہ حلیۃ الاولیاء حافظ
ابو نعیم کی تصنیف ہے ،حافظ ابو قاسم سلیمان طبرانی اس کے مؤلف نہیں ہیں۔ (تعلیقات رضا،ص162کرماں
والا بک شاپ لاہور)
حوالہ جات کے رموز اوراشارات سے واقفیت:
تخریج اور فن اصول تخریج جاننے والے کو عبارت کے حوالے
کے لئے استعمال ہونے والے رموزاور اشارات سے واقف ہونا بہت اہم اور ضروری ہے۔اس حوالے سے بھی اعلیٰ حضرت امام احمد
رضا خان علیہ الرحمہ بے مثال ہیں۔صاحب
قنیہ ایک مسئلہ ذکر کرتے ہوئے ”کص“،”مت“ اور ”قع“کے حوالے
دیتے ہیں۔اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ان رموز کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”کص“سے مراد رکن الائمہ صباغی ہیں، ”مت“سے مراد مجد الائمہ ترجمانی ہیں اور ”قع“
سے مراد قاضی عبد الجبار ہیں۔(جد
الممتار،جلد3، ص53 مکتبۃ المدینہ)
مدارج کتب سے واقفیت:
فنِ اصول تخریج سے واقفیت رکھنے والے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مدارج کتب کو جانتا ہو یعنی یہ جانتا ہو کہ فلاں کتاب کس درجہ کی ہے اور اس کا
کیا مرتبہ ہے۔کتب فقہ میں ہے تو کیا وہ
متن ہے ،شرح ہے یا فتاوی میں سے ہے اور کتب حدیث میں سے ہے تو
کیا وہ صحاح میں سے یا سنن میں سے یا پھر مسانید وغیرہ میں سے ہے۔ان میں سے پہلے
کسے فوقیت حاصل ہےاور پھر کسے۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ اس حوالے سے بھی اپنی الگ
پہچان رکھتے ہیں چنانچہ آپ خودفرماتے ہیں:میرے نزدیک فقہ میں (کُتبِ)متون،شرح اور فتاوی کا حال وہی ہے جو حدیث میں (کُتبِ)صحاح
،سنن اور مسانید کا حال ہے۔(فتاوی رضویہ،4/208تا211)یعنی جس طرح کتب احادیث میں پہلا درجہ صحاح پھر سنن کا
اور پھر مسانید کا ہے یونہی کتب فقہ میں پہلا درجہ کُتبِ متون پھر کُتب شروح اور
پھر کتب فتاوی کا ہے۔اسی مقام پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے متون ،شروح اور
فتاوی کی بہت سی کتابیں گنوائی یوں ہی
صحاح ،سنن اور مسانید کی بہت سی کتابوں کا
تذکرہ بھی کیا ہے۔ساتھ یہ بھی بیان فرمایا کہ کون سی کتب متون شامل ہیں اور کون سی
نہیں،کن کتب کا درجہ شرح کا ہے اور کن کا فتاوی کا۔کون سی کتب ضعیف ہیں اور کون سی
مستند ، صحاح میں کون سی کتب شامل ہیں اور
کون سی نہیں اور اسی طریقے سے کتب سنن اور مسانید کا تذکرہ فرمایا ۔اتنا کچھ ذکر
کرنے کے بعد بھی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:اس سے متعلق پوری بحث کا جسے
شوق ہو وہ میرا رسالہ ”مدارج طبقات الحدیث“ملاحظہ کرے۔ (فتاوی رضویہ، 4/208)