اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰنکا وِصالِ پُرملال 25 صفر المظفّر 1340ھ کو ہوا۔رواں سال 1440ھ میں آپ کے وصال کو 100 سال پورے ہوئے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّدنیا بھر کے عاشقانِ رضا نے 100سالہ عرسِ اعلیٰ حضرت دھوم دھام سے منایا۔ عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت بھی 100سالہ عرسِ اعلیٰ حضرت بڑی شان و شوکت سے منایا گیا جس کی کچھ جھلکیاں یہ ہیں: فاتحہ خوانی شیخِ طریقت امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے 25 صفرالمظفّر 1440ھ کو اپنے گھر(بیت البقیع) کے جنّت ہال میں اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ علیہ کے ایصالِ ثواب کے سلسلے میں فاتحہ خوانی کی اور دعا فرمائی جس میں کثیر عاشقانِ رسول نے شرکت کی،اختتام پر لنگرِ رضویہ کا سلسلہ بھی ہوا۔ مدنی مذاکرہ ٭صفر المظفّر کی 25 ویں رات عالَمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ کراچی میں مدنی مذاکرے سے قبل جلوسِ رضویہ کا سلسلہ ہوا جس میں عاشقِ اعلیٰ حضرت، امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے باادب انداز میں شرکت فرمائی بعد ازاں مدنی مذاکرے میں مدنی پھول عطا فرمائے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:٭اللہ کی رحمت سے جب سے اعلیٰ حضرت کا تذکرہ سنا،ان کی مَحَبّت کا بیج دل میں جڑ پکڑ کر تَناوَر درخت بن گیا،تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ آج ایک دنیا اس درخت کا پھل کھارہی ہے۔ ٭ عالم و مفتی تو بہت ہوئے ہیں لیکن میرے اعلیٰ حضرت جیسا کوئی ہو تو بتائیں۔مجھے نہیں لگتا کہ پچھلے دو چارسو سال میں اعلیٰ حضرت جیسا کوئی پیدا ہوا ہو۔ ٭دعوتِ اسلامی والوں کو سیّدوں کے ادب کا جو شعور ملا وہ فیضانِ رضا ہے۔٭اللہ کریم نے دنیا میں ہمیں اعلیٰ حضرت کے فیوض و برکات سے مالا مال فرمایا، آخرت میں بھی ہمیں محروم نہ فرمائے۔یاد رہے! عالَمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں ہونے والے اس مدنی مذاکرے میں 7000سے زائد اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔ مدنی چینل کی خصوصی نشریات فیضانِ اعلیٰ حضرت: مدنی چینل کی جانب سے یکم تا 23 صفرالمظفرّ 1440ھ براہِ راست سلسلہ (Live Program) ”فیضانِ اعلیٰ حضرت“ پیش کیا گیا جس میں مُبلّغینِ دعوتِ اسلامی نے سیرتِ اعلیٰ حضرت کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی۔ اس سلسلے (Program) میں مدرسۃ المدینہ کے حفّاظِ کرام کے درمیان مدنی مقابلہ ”ذوقِ قراٰن“ اور دعوتِ اسلامی کی مختلف مجالس کے درمیان مدنی مقابلہ ”ذوقِ نعت“ بھی ہوا۔مدنی مقابلے ذوقِ نعت کا فائنل 23 صفرالمظفّر 1440ھ کو عالَمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ کراچی کے وسیع و عریض صحن میں ہوا جس میں مجلس خصوصی اسلامی بھائی کامیاب رہی۔ فیضانِ امام اہلِ سنّت کی اشاعت اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ علیہ کے 100 سالہ عرس کے موقَع پر دعوتِ اسلامی کی مجلس ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ کی جانب سے امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ علیہ کی حیاتِ مبارَکہ کے کثیر پہلوؤں کو اجاگر کرتاہوا تقریباً 57 مضامین اور 252 صفحات پر مشتمل ایک خصوصی شمارہ بنام ”فیضانِ امامِ اہلِ سنّت“پاک و ہند میں بیک وقت کم و بیش 7100 کی تعداد میں شائع کیا گیا۔ سیرتِ اعلیٰ حضرت کے مختلف گوشوں پر مشتمل اس خصوصی شمارے کی اِشاعت پر اراکینِ شوریٰ، ملک و بیرونِ ملک سے عُلَما و مفتیانِ کرام اور دیگر ذِمّہ داران کی جانب سے مبارَک باد کے پیغامات موصول ہوئے جنہوں نے مجلس ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ کے لئے اپنی نیک دعاؤں کا اظہار کیا۔ یہ خصوصی شمارہ مزارِ اعلیٰ حضرت بریلی شریف ہند میں ہونے والی عرسِ رضوی کی مرکزی تقریب میں٭حضرت مولانا سبحان رضا خان سبحانی میاں صاحب (سجادہ نشین درگاہِ اعلیٰ حضرت بریلی شریف) ٭حضرت مولانا پروفیسر سیّد امین میاں برکاتی صاحب (سجادہ نشین خانقاہِ برکاتیہ مارہرہ شریف و بانی البرکات علی گڑھ) ٭حضرت مولانا منّان رضا خان منّانی میاں صاحب (برادرِ تاج ُ الشریعہ بریلی شریف، بانی و سرپرست جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف) ٭حضرت مولانا مفتی محمد عسجد رضا خان قادری رضوی صاحب (جانشین و شہزادۂ تاجُ الشّریعہ و سرپرستِ اعلیٰ جامعۃ الرضا بریلی شریف) سمیت کثیر عُلَمائے کرام، سجادہ نشین اور شخصیات کو پیش کیا گیا جس پر انہوں نے مَسرت کا اظہار کیا۔ سنّتوں بھرے اجتماعات ملک بھر کئی مساجد میں 25 صفرالمظفّر کو 100 سالہ عرسِ اعلیٰ حضرت کی مناسَبت سے محافل ہوئیں جبکہ موصول ہونے والی کارکردگی کے مطابق بڑی سطح پر 775 مقامات پر اجتماعاتِ ذکر و نعت ہوئے جن میں کم و بیش ایک لاکھ 17 ہزار 990 سے زائد عاشقانِ رسول شریک ہوئے۔ بیرون ِ ملک اجتماعاتِ عرسِ رضا وطنِ عزیز پاکستان کی طرح بیرونِ ممالک میں بھی عاشقانِ رضا نے 100 سالہ عرسِ اعلیٰ حضرت کے سلسلے میں محافل سجاکر اعلیٰ حضرت سے اپنی عقیدت و مَحبّت کا اظہار کیا۔مجلس بیرونِ ممالک کی جانب سے موصول ہونے والی کارکردگی کے مطابق عرب شریف، ہند، نیپال، بنگلہ دیش، بحرین،بیلجیئم، فرانس، اٹلی، اسپین، ناروے، سویڈن، ڈنمارک، آسٹریا، گریس، ہالینڈ، ساؤتھ افریقہ، موزمبیق، ماریشیس، یوکے، اسکاٹ لینڈ، ہانگ کانگ، تھائی لینڈ، سری لنکا، جاپان، امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، عمان، عرب امارات، ترکی، زامبیا، کینیا، تنزانیہ، ملاوی، قطر، کویت، ساؤتھ کوریا، ملائیشیا، سوڈان اور نیوزی لینڈ میں اجتماعات منعقد کئے گئے جن میں عاشقانِ رسول کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مجلس جامعۃ المدینہ مجلس جامعۃ المدینہ کے تحت 24 صفر المظفّر 1440ھ بروز جمعہ عالَمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ باب المدینہ کراچی کے وسیع و عریض صحن میں ایک عظیم الشّان اجتماع منعقد کیا گیا جس میں مقابلۂ حسنِ قرأت، حفظِ قرآن، حسنِ بیان، ذہنی آزمائش،حسنِ نعت،علمی مُباحَثہ، اساتِذۂ کرام کے بیانات، سامعین سے سوالات، عَرَبی سلسلہ، رضوی کمپیوٹر اور تعارفِ رسائلِ رضویہ کے مختلف مرحلے (Segments) ہوئے۔ اس اجتماع میں بھی عاشقانِ رسول کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مکتبۃ المدینہ کی خصوصی رعایتی آفر دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارہ مکتبۃ المدینہ نے 100 سالہ عرسِ اعلیٰ حضرت کے موقع پر عاشقانِ اعلیٰ حضرت کے لئے اپنی مطبوعات پر%20 ڈسکاؤنٹ رکھا ۔ یہ رعایتی پیشکش تین دن تک پاکستان بھر میں مکتبۃ المدینہ کی تمام شاخوں پر جاری رہی جس سے عُلَمائے کرام، طَلَبائے کرام اور دیگر اسلامی بھائیوں نے فائدہ اٹھایا۔ وقتِ وصال فاتحہ خوانی:اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا وصال 25 صفر المظفّر (پاکستان کے وقت کے مطابق)دوپہر 2 بج کر8 منٹ پر ہوا تھا۔ دعوتِ اسلامی کے عالَمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ کراچی میں اعلیٰ حضرت کے عَین وقتِ وصال پر فاتحہ خوانی کا سلسلہ ہوا ،نگرانِ شوریٰ حضرت مولانا محمد عمران عطّاری مَدَّظِلُّہُ الْعَالِی نے دعا کروائی اور مدنی پھول ارشاد فرمائے۔


قراٰنِ پاک آسمانی کتابوں میں سے آخری کتاب ہے جسے اللہ پاک نے سب سے آخری نبی، محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازِل فرمایا۔ اس کو پڑھنا، پڑھانا، دیکھنا اور چُھونا عبادت ہے۔ قراٰنِ پاک کو شایانِ شان طریقے سے شائع (Publish) کرنا، دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کا دُرُست ترجمہ اور تفسیر کرنا، مسلمانوں کو دُرُست قراٰن پڑھنا سکھانا، مساجد و مدارس،عوامی جگہوں مثلاً(ائیرپورٹ،ریلوے اسٹیشن و بس اسٹینڈ وغیرہ کی جائے نماز)میں قراٰنِ کریم پہنچانااور احکامِ قراٰن پر عمل کی ترغیب دلانا وغیرہ خدمتِ قراٰنِ پاک کی مختلف صورتیں ہیں۔ خدمتِ قراٰن کی تاریخ سب سے پہلے خدمتِ قراٰنِ مجید کی عظیم سعادت صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کو حاصل ہوئی جنہوں نے اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے قراٰنِ مقدّس کی تعلیم حاصل کی، دیگر مسلمانوں تک قراٰنِ مجید اور اس کے احکام پہنچائے، بعض حضرات نے حفظِ قراٰن کی سعادت پائی نیز سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصالِ ظاہری کے بعد قراٰنِ پاک کو جمع کرنے کا اِہتمام فرمایا چنانچہ جنگ یَمامہ میں بہت سے حُفّاظ صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کی شہادت کے بعد حضرتِ سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہنے حضرتِ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو جمعِ قرآن کا مشورہ دیا۔ حضرتِ سیدنا عمر فاروق کے مشورے کو قبول فرماتے ہوئے حضرتِ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو قراٰن مجید جمع کرنے کا حکم فرمایا (بخاری، 3/398، حدیث:4986) اور بعد میں حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اسی جمع شدہ نسخے کی نقول تیار کرواکے مختلف علاقوں میں روانہ فرمائیں۔(بخاری ،3/399،حدیث: 4987)صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کے بعد تابعین، تبع تابعین اور ہردور کے بزرگانِ دِین رضوان اللہ علیہم اَجْمعین نے خدمتِ قراٰنِ پاک کو اپنا معمول بنایا اور قراٰنِ کریم کے ترجمہ، تفسیر، احکامِ قراٰن کی وضاحت، علومِ قراٰن کی تفصیل، قراٰنِ پاک پر ہونے والے اِعتراضات کے جوابات، الغرض کثیر قراٰنی موضوعات پر بے شمار کتابیں تصنیف فرمائیں۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!بزرگانِ دِین کی قراٰنِ پاک سے لاجواب محبت اور خدمتِ قراٰن کے جذبے کے برعکس آج کا مسلمان قراٰنِ پاک سے دُور ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس عظیم کتاب کی تلاوت، ترجمہ و تفسیر کا مطالَعہ اور احکامِ قراٰن پر عمل کا جذبہ دن بدن کم ہوتا جارہا ہے۔ بدقسمتی سے اب ایسا لگتا ہے کہ قراٰنِ مجید صرف لڑائی جھگڑے کے موقع پر قسم اُٹھانے اور شادی کے موقع پر حصولِ برکت کے لئے دُلہن کے سر پر رکھنے کے لئے رہ گیا ہے۔ ان پُرفِتن حالات میں قراٰنِ پاک سے مسلمانوں کا رشتہ مضبوط کرنے اور فیضانِ قراٰن کو عام کرنے کے لئے عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک دعوتِ اسلامی مختلف انداز سے کوشاں ہے۔ دعوتِ اسلامی کس کس طرح خدمتِ قراٰن کررہی ہے اس کی چند جھلکیاں ملاحظہ کیجئے:تدریس(Teaching)کے ذریعے خدمتِ قراٰن دعوتِ اسلامی کے تحت ملک و بیرونِ ملک اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کو بِلا مُعاوضہ تَجوِید و مَخارِج کے ساتھ دُرُست تلاوتِ قراٰن سکھانے کے لئے مدرسۃ المدینہ بالِغان اور مدرسۃ المدینہ بالِغات جبکہ مدنی مُنّوں اور مدنی مُنّیوں کو حفظ و ناظرہ کی تعلیم دینے کے لئے مدرسۃ ُالمدینہ لِلْبَنِین اور مدرسۃ ُالمدینہ لِلْبَنَات قائم ہیں نیز جن مقامات پر قراٰن کریم پڑھانے والے بآسانی دستیاب نہیں ہوتے وہاں کے لئے مدرسۃ المدینہ آن لائن کا بھی سلسلہ ہے۔ متعدّد مدارسُ المدینہ میں مدنی مُنّوں کو قیام وطَعام کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ غیر رہائشی مدارسُ المدینہ میں 8 گھنٹے کا دورانیہ ہوتا ہے جبکہ ایک اور دو گھنٹے کے جُزْ وقتی(Part Time) مدارسُ المدینہ بھی اپنی مدنی بہاریں لُٹا رہے ہیں۔(اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ! اس وقت ملک و بیرونِ ملک کم و بیش 2734 مدارس المدینہ قائم ہیں،جن میں تقریباً 128737(ایک لاکھ اٹھائیس ہزارسات سو سینتیس)مدنی مُنّے اورمدنی مُنّیاں زیرِ تعلیم ہیں جبکہ اساتذہ سمیت کل مدنی عملے (اسٹاف) کی تعدادتقریباً 7268ہے۔ 2017ء میں تقریباً 5229 (پانچ ہزاردوسواُنتِیس) مدنی منّوں اور مدنی منّیوں نے حفظِ قراٰن اور تقریباً 20580 (بیس ہزارپانچ سو اسّی) نے ناظرہ قراٰنِ کریم پڑھنے کی سعادت حاصل کی،اب تک کم و بیش74329(چوہتّرہزارتین سو اُنتِیس)مدنی مُنّے اورمدنی مُنّیاں حفظِ قراٰن جبکہ تقریباً 215882(دولاکھ پندرہ ہزارآٹھ سو بیاسی) ناظرہ قراٰنِ پاک پڑھنے کی سعادت پاچکے ہیں۔ مدرسۃ المدینہ آن لائن میں دُنیا بھر سے تقریباً7ہزار طلبہ و طالبات پڑھ رہے ہیں۔ ان کو پڑھانے والوں کی تعدادتقریباً633جبکہ مدنی عملے(ناظمین،مُفتشین وغیرہ)کی تعدادتقریباً140ہے ۔ ملک و بیرونِ ملک تقریباً 13853مدرسۃ المدینہ بالغان اور ان میں پڑھنے والے تقریباً89043جبکہ مدرسۃ المدینہ بالغات میں پڑھنے والیوں کی تعدادتقریباً63 ہزار سے زائد ہے۔) اسی طرح اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّدعوتِ اسلامی کے تحت قائم جامعاتُ المدینہ کے نصاب میں بھی قراٰنِ پاک کی تعلیم شامل ہے، یہ نصاب اس انداز میں ترتیب دیا گیا ہے کہ درجہ مُتَوَسِّطَہ اوّل سے درجہ خامِسہ تک مدنی قاعدہ اورپورا قراٰنِ پاک ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھا دیا جاتاہے، جبکہ درجہ سابِعہ میں تجوید اور پارہ26تا30حَدرکی دُہرائی اور درجہ دورۂ حدیث میں حُسنِ قراءت کے حوالے سے تربیت کی جاتی ہے۔(اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ملک و بیرونِ ملک جامعۃ المدینہ کی 526شاخیں قائم ہیں جن میں 42770(بیالیس ہزار سات سو ستر)سے زائدطلبہ وطالبات درسِ نظامی (عالم کورس ) کی تعلیم حاصل کررہے ہیں اور 6871 طلبہ وطالبات درسِ نظامی مکمل کرچکے ہیں۔)طباعت کے ذریعے خدمتِ قراٰن (1)اشاعتِ قراٰنِ پاک:دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے ”مکتبۃ المدینہ“سے قراٰنِ پاک کے مختلف لائنوں اور سائزوں پر مشتمل متعدد نسخے شائع کئے گئے ہیں جبکہ معیار میں مزید بہتری لانے کیلئے مشہور اِشاعتی مرکزبیروت(لُبْنان)سے بھی قراٰنِ پاک کی اشاعت کا اِہتمام کیا گیا ہے۔ (اب تک تقریباً 2لاکھ89ہزار 769 نسخے شائع کئے جا چکے ہیں۔) (2)مدنی قاعدہ:تجوید و قرأت کے بنیادی قواعد کو آسان انداز میں سکھانے کے لئے ”مدنی قاعدہ“ مرتّب کیا گیا ہے۔ (اب تک دومختلف سائز میں مدنی قاعدے کے تقریباً 57لاکھ 94ہزار436 نسخے شائع ہوچکے ہیں) (3)کنزالایمان مع خزائن العرفان: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کا شاہکار ترجمۂ قراٰن ”کنز الایمان“ اور اس پر صدرُالافاضل مفتی نعیم الدین مُراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادِی کا تفسیری حاشیہ ”خزائن العرفان“ کسی تعارُف کا محتاج نہیں ہے۔ مکتبۃ المدینہ نے اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَہ کے تعاون سے کنزالایمان مع خزائن العرفان کا اَغلاط سے حتی المقدور پاک، تسہیل شدہ اور معیاری نسخہ شائع کیا ہے۔(اب تک اس کے 87 ہزار 107نسخے شائع ہو چکے ہیں) (4)مَعْرِفَۃُ القراٰن عَلٰی کَنْزِالْعِرْفَان: یہ 6جلدوں پر مشتمل قراٰنِ پاک کا جدیدانداز میں ”لفظی ترجمہ“ ہے جو حُسنِ صُوری و معنوی کا مجموعہ ہے، مختلف رنگوں کے استعمال کی وجہ سے ہر لفظ کا ترجمہ الگ معلوم کیا جاسکتا ہے، جبکہ بامحاورہ ترجمہ ”کنز العرفان“ بھی شامل ہے(جو الگ سے بھی شائع ہوگا) آیات کے عنوانات اور ضَروری حاشیے بھی دئیے گئے ہیں۔ (تادمِ تحریر 5جلدوں کے مجموعی طور پر تقریباً ایک لاکھ دو ہزار 119 نسخے شائع ہوچکے ہیں) (5)صِراطُ الْجِنَان:موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق اُردو زبان میں 10جلدوں پرمشتمل تفسیرصِراطُ الْجِنَاناُمّتِ مُسلمہ کے لئے ایک عظیم تحفہ ہے جس کو پڑھنے سے محبتِ قراٰن، ذوقِ تلاوت اور شوقِ عبادت بڑھتا اور دِینی معلومات کا خزانہ ہاتھ آتا ہے، یہ اردوزبان کی بہترین تفسیرہے۔(اب تک مجموعی طور پر اس کے 1 لاکھ 84ہزار567نسخے شائع ہو چکے ہیں) (6)جلالین مع حاشیہ اَنوارُالْحَرَمَیْن:تفسیرِ جلالین امام جلال الدّین محلی اور امام جلالُ الدِّین سیوطی شافعیرحمۃ اللہ تعالٰی علیھما کی مشترکہ تصنیف ہے جو کہ درسِ نظامی (عالِم کورس) میں پڑھائی جاتی ہے۔ اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَہ کا شعبہ درسی کتب اس عظیم تفسیر پر حاشیہ اَنوارُ الْحَرَمَیْن کے نام سے کام کررہا ہے۔ (مکتبۃ المدینہ اب تک 6جلدوں میں سے 2 جلدوں کے تقریباً 7167نسخے شائع کرچکا ہے، مزید پر کام جاری ہے۔) (7)بیضاوی مع حاشیہ مقصود الناوی: ”تفسیرِ بیضاوی“ علامہ ناصرُ الدین عبداللہ بن عمربَیْضَاویعلیہ رحمۃ اللہ القَوی کی مشہور تفسیر کا جتنا حصّہ درسِ نظامی میں شاملِ نصاب ہے، اس پر اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَہ کی طرف سے ”مقصودُ النّاوِی“ کے نام سے حاشیہ مُرَتَّب کیا گیا ہے(اب تک اس کے تقریباً 5000نسخے شائع ہوچکے ہیں) (8)تفسیر سُورۂ نور: اسلامی بہنوں کےجامعاتُ المدینہ میں درسِ نظامی کے علاوہ ”فیضانِ شریعت کورس“ بھی کروایا جاتا ہے۔ اس کی نصابی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ”تفسیر سورۂ نور“ نامی کتاب تیار کی گئی ہے جسے 18اَسباق میں تقسیم کیا گیا ہے۔(تادمِ تحریر یہ کتاب 5ہزار کی تعداد میں چھپ چکی ہے) (9)فیضانِ یٰسۤ شریف مع دعائے نصف شعبانُ المعظّم:شعبان المعظم کی پندرھویں (15) رات یعنی شبِ برأت میں بعد نمازِ مغرب 6 نوافل کا سلسلہ ہوتا ہے جن کے درمیان سورۂ یٰسٓ شریف اور دُعائے نصف شعبان پڑھی جاتی ہے۔ (اب تک اس کے تقریباً 2لاکھ 25ہزار نسخے شائع ہو چکے ہیں) (10)مدنی پنج سُورہ:یہ شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف ہے جس میں مشہور قراٰنی سورتوں کے فضائل اور ان کا مَتن و ترجمہ، درود شریف کے فضائل، مختلف وظائف اور رُوحانی علاج وغیرہ شاملِ تحریر ہیں۔(اب تک تقریباً13 لاکھ 85 ہزار نسخے شائع ہوچکے ہیں) (11)آیاتِ قراٰنی کے اَنوار: دعوتِ اسلامی کی طرف سے بالخصوص تعلیمی اداروں کے طلبہ و اساتذہ اور دیگر عملے نیز اسلامی بہنوں کے لئے ”فیضانِ قراٰن و حدیث کورس“ کا سلسلہ شروع کیاگیا ہے ۔’’ آیاتِ قراٰنی کے انوار“ نامی رسالہ اسی کورس کے لئے ترتیب دیا گیا ہے۔(اب تک تقریباً 37 ہزار 6سو کی تعداد میں چھپ چکا ہے) (12)عجائب القرآن مع غرائب القرآن: یہ کتاب شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی تالیف ہے جس میں قراٰنی واقعات کو دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہے، مکتبۃ المدینہ نے اس کا تخریج شدہ نسخہ شائع کیا ہے(اب تک اس کے تقریباً1 لاکھ نسخے شائع ہوچکے ہیں) (13)فیضانِ تجوید:علمِ تجوید کے اُصول و قوانین کو آسان انداز میں پیش کرنے کے لئے اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَہ کی طرف سے ”فیضانِ تجوید“ کے نام سے کتاب مُرَتَّب کی گئی ہے۔ (اب تک اس کے تقریباً 44ہزار850 نسخے شائع ہوچکے ہیں) (14)آئیے قراٰن سمجھتے ہیں: اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے لئے یہ ایک نصابی کتاب ہے جو اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ عنقریب منظرِ عام پر آجائے گی۔(نوٹ: مذکورہ بالا کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے یہاں جو تعداد ذ کر کی گئی وہ ہارڈ کاپی کی صورت (کتابی شکل) میں ہے، سافٹ کاپی (PDFوغیرہ) کی صورت میں بھی یہ کتابیں دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.net پر موجود ہیں جنہیں مفت ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے۔) بیانات کے ذریعے خدمتِ قراٰن خدمتِ قراٰنِ پاک کے لئے بیانات کے میدان میں بھی دعوتِ اسلامی کی کثیر کاوشیں ہیں، مدنی چینل پر فیضانِ قراٰن کو عام کرنے والے کئی سلسلے پیش کئے، بعض اب بھی جاری ہیں مثلاً: (1)فیضانِ قراٰن (2)تفسیرِ قراٰن (3)قراٰن کی روشنی میں (4)قراٰنی سورتوں کا تعارف (5)احکامِ قراٰن (6)شانِ نزول (7)صِرَاطُ الْجِنَان (8)قراٰنی واقعات (9)میرے ربّ کا کلام (10)فیضانِ کنزالایمان (11)کتابُ اللہ کی باتیں (12)قراٰنی قصّے (13)قراٰنی مثالیں اور اسباق (14)فیضانِ علم القراٰن (15)ایک قصّہ ہےقراٰن سے، (17)Blessing of Quran (16)Wonder of Quran(18)Summary of Tafseer ul Quran (19)In the light of Quran (20)Learn Quran (21)The Excellence of the Holy Quran عملی میدان میں خدمتِ قراٰن عملی میدان میں بھی دعوتِ اسلامی مسلمانوں میں قراٰنِ پاک کی محبت اور اس کے احکام پر عمل کا جذبہ بیدار کرنے میں مصروف ہے۔ نمازِ فجر کے بعد مدنی حلقے میں اجتماعی طور پر3 آیاتِ قراٰنی کی تلاوت اور ترجمہ و تفسیر پڑھنے سننے کا سلسلہ ہوتا ہے نیز مدنی انعامات میں روزانہ رات سورۂ ملک کی تلاوت کرنے، آخری 10 سورتیں زبانی یاد کرکے مہینے میں ایک بار پڑھنے اور مخارج کی درست ادائیگی کے ساتھ کم از کم ایک بار قراٰنِ پاک ختم کرکے سال میں دُہرانے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پانچ پانچ ماہ کے ”اِمامت کورس“اور ”مُدَ رِّس کورس“میں جبکہ 7 ماہ کے”قاعدہ ناظِرہ کورس “میں اور12 ماہ کے ”فیضان ِ تجوید وقِراءَت کورس“ میں دیگر مسائل و اَحکامات کے ساتھ ساتھ مَدَنی قاعدہ اور مکمل قراٰن پاک حَدرکے ساتھ پڑھایا جاتا ہےنیز”مُدَرِّس کورس “میں مخصوص سورتیں اور عَمَّ پارہ(پارہ 30) ترتیل کے ساتھ پڑھناسکھایا جاتا ہے ۔اللہ کریم دعوتِ اسلامی کی خدماتِ قراٰن قبول فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہی ہے آزو تعلیم ِ قراٰں عام ہو جائے ہر اِک پرچم سے اونچا پرچمِ اسلام ہو جائے


ہر دور میں اللہ پاک کے نیک بندوں نے وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر دینِ اسلام کے لئے اپنی خدمات انجام دیں چونکہ ان حضرات کی دینی خدمات کا دائرہ کار بڑھتے بڑھتے دنیا کے کئی خطّوں میں پھیلا اور خوش گوار اور مثبت معاشرتی تبدیلیوں کا سبب بنا اس لئے دنیا نے بھی ان حضرات کی بے مثال دینی خدمات کو ”انقلابی کارنامے“ کے عنوان سے یاد رکھا۔

پندرہویں صدی ہجری کی عظیم علمی و روحانی شخصیت شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ان ہستیوں میں سے ایک ہیں جنہیں اللہ کریم نے کئی کمالات عطا کئے جن میں سے اِصلاحِ امت کے جذبے سے سَرشار دل، چٹانوں سے زیادہ مضبوط حوصلہ، معاملہ فہمی کی حیرت انگیز صلاحیت، نیکی کی دعوت میں پیش آنے والے مسائل کو حل کرنے اور مشکلات کا سامنا کرنے کی ہمّت سرِ فہرست ہیں۔

امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے کثرتِ مطالعہ اور اَکابر علَمائے کرام کی صحبت کی بدولت شَرْعی احکام پر حیرت انگیز دسترس حاصل کی، یوں آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی شخصیّت اِردگِرد کو منوّر کرنے والا ہیرا بَن گئی۔ جوانی کے زمانے میں آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے ایک عرصے تک نور مسجد میٹھادر میں اِمامت کے فرائض سَرانجام دئیے۔ معاشرے میں بے عملی کو طوفان کی صورت اِخْتِیار کرتا ہوا دیکھ کر آپ نے بے عملی کے آسیب سے چھٹکارا دلانے کے لئے عملاً کوششیں فرمائیں۔ مسجد میں آنے والے نَمازیوں کی مدنی تربیَت اور مساجد سے دور مسلمانوں کا ناطہ مسجد سے جوڑنے کے لئے پُراثر نصیحت اور خیر خواہی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے خوشی غمی میں شرکت نے آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کو ہر دل عزیز بنا دیا۔ مقصد بڑا اور لگن سچی ہو تو منزل تک پہنچنے کے اسباب خود ہی پیدا ہوجاتے ہیں، چونکہ آپ پر امت کی اِصلاح کی دُھن سوار تھی، آپ کی لگن سچی اور مقصد نیک تھا اسی لئے آپ کی پُراثر دعوت کو بےپناہ مقبولیت ملی۔

آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے دعوتِ اسلامی بنانے سے لے کر عالمگیر سطح پر پھیلانے کے سلسلے میں جو اَن گنت دینی خدمات انجام دیں وہ تمام کی تمام ان دو پہلوؤں کے اِرد گِرد گھومتی ہیں:

انفرادی اصلاح آپ نے انسان کی شخصیت کو درست سمت کی جانب گامزن کرنے کے لئے عملی جد و جہد فرمائی، جھوٹ، غیبت، چغلی اور فحش گوئی جیسے کئی ظاہری و باطنی امراض سے نجات دلانے کا بیڑا اٹھایا، ذاتی اِحتساب (Self-Accountability) کے لئے اپنے گزشتہ اعمال پر غور کرنے کا ذہن دیا اور اس کے لئے مدنی انعامات“ کا مضبوط نظام متعارف (Introduce) کروایا۔ آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی صحبت دراصل ”کردار سازی کا وہ کارخانہ ہے کہ جہاں انسان کے ظاہر و باطن کے زنگ کو دور کرکے محبتِ الٰہی اور عشق مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رنگ سے مزین کیا جاتا ہے، اخلاق و کردار کی خوشبو اس میں رچائی جاتی ہے، حسنِ اعمال کے نگینوں سے آراستہ کرکے اُسے معاشرے کے لئے پُرکشش بنایا جاتا ہے اور دینِ اسلام کا ایسا درد اور سوز اس کے دل و دماغ میں بسایا جاتا ہے جو اسے ایک باکردار انسان، دینِ اسلام کا متحرک مبلغ اور معاشرے کا خیرخواہ بننے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ آپ کی اس جدو جہد کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ امیرِ اہلِ سُنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی ذاتِ گرامی عصرِ حاضر میں شخصی تعمیر (Self-Development) کا مُسْتَنَد اور مؤثر ذریعہ ہے۔ اِنفرادی اصلاح کے اس خوب صورت نظام سے فیض یاب ہونے والوں میں دولتِ اسلام سے سرفراز ہونے والے لاتعداد نَومسلم بھی شامل ہیں۔

اجتماعی اصلاح یقیناً فرد کی اصلاح سے معاشرے کی اِصلاح ہوتی ہے مگرفرد کے اخلاق و کردار میں نیکی کاعُنصر بر قرار اور دیرپا رکھنےلئے سازگار معاشرتی ماحول درکار ہوتا ہے۔ اسی لئے امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے معاشرتی اصلاح کی جانب خصوصی توجہ فرمائی۔ آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے نیکی کی دعوت عام کرنے اور معاشرے کی اِصلاح کے لئے خود مدنی قافلوں میں سفر کرکے اس کی اہمیت اور ضَرورت کو اجاگر کیا اور اس کارِ خیر کو خوش اسلوبی سے انجام دینے کے لئے ایسے تربیَت یافتہ مبلغین فراہم کئے جو غیر مسلموں کو ایمان کی دعوت دینے، فاسِقوں کو متقی بنانے، غافِلوں کو خوابِ غفلت سے جگانے، جہالت کے اندھیرے کا خاتمہ کرکے عِلم و مَعرِفَت کا نور پھیلانے میں مصروف ہیں اور مسلمانوں کو یہ مدنی مقصد اپنانے کی ترغیب دلا رہے ہیں کہ ”مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے۔“ یوں پاکستان سے اٹھنے والی عاشقانِ رسول کی مَدَنی تحریک دعوتِ اسلامی دنیا کے کثیر ممالک میں اپنی بہاریں لُٹا رہی ہے۔

آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے دعوتِ اسلامی کے انتظامی معاملات کو اپنی ذات تک محدود نہ رکھا بلکہ مبلغین دعوتِ اسلامی میں سے چن چن کر ہیرے جمع کئے اور اسے مجلسِ شوریٰ کی لَڑی میں پرویا اور دعوتِ اسلامی کا نظام مرکزی مجلسِ شوریٰ کے حوالے کردیا۔ معاشرے کو جس جس میدان میں اِصلاح کی ضرورت پیش آتی گئی دعوتِ اسلامی نے اس کیلئے شعبے قائم فرمائے اس سلسلے میں:

اشاعتِ علم کے لئے جامعاتُ المدینہ اور دارُالمدینہ جیسی عصرِ حاضر سے ہم آہنگ درس گاہیں، حفظِ قراٰن میں مصروف مدرسۃ المدینہ، المدینۃ العلمیہ جیسا علمی و تحقیقی شعبہ، مکتبۃ المدینہ جیسا اہلِ سنّت کا اشاعتی ادارہ، معاشرے کے مختلف طبقوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے دلچسپ اور معلوماتی مضامین پر مشتمل ماہنامہ فیضانِ مدینہ کا اجراء اور لوگوں کے روز مرہ پیش آنے والے مسائل کے بروقت شرعی حل کے لئے دارالافتا اہلِ سنّت کا قیام سرفہرست ہے۔ جبکہ عالَمِ اسلام کا 100فیصد اسلامی چینل ”مدنی چینل“ تو ایک نئی تاریخ رقم کررہا ہے۔ معاشرے میں دینِ متین کی ترویج و اشاعت ((Propagation and Publicationکیلئے امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی خدمات کا دائرہ کار 104سے زائد شعبہ جات پر مشتمل ہے۔ دعوتِ اسلامی جیسی فعال غیر سیاسی تحریک انقلابی کارناموں کی ایک ناقابلِ فراموش تاریخ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی دینی خدمات سورج کی طرح روشن ہیں جن کا اعتراف آج دنیا بھر میں کیا جارہا ہے۔ 26رمضان المبارک اس انقلابی شخصیت کا یومِ ولادت ہے جسے مختلف ممالک کے عاشقانِ رسول اسلام کی روشن تعلیمات کو عملی طور پراپنانے کے عزم اور شیطان کے خلاف اعلانِ جنگ کرکے مناتے ہیں۔

اےخُدا میرے عطار کوشادرکھ

ان کے سارے گھرانے کو آباد رکھ


تحریر: مولانا سید کریم الدین  عطاری مدنی

اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ، دعوتِ اسلامی

حضرتِ سیِّدُناامام زَین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہماکی وِلادت 38 میں مدینۃ المنورہ میں ہوئی ۔آپ کے والدِ بزرگوار حضرتِ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے والدِ ماجد حضرتِ سیِّدُنا علی رضی اللہ عنہ سے اظہارِ عقیدت کے لئے اپنے بچوں کے نام علی رکھتے تھے۔ اسی مناسبت سے امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا نام بھی علی ہے اور کنیت ابومحمد، ابوالحسن ، ابوالقاسم اور ابوبکر ہے،جبکہ کثرتِ عبادت کے سبب آپ کا لقب سجاد ،زین العابدین، سیدالعابدین اور امین ہے ۔آپ کی والدہ ماجدہ حضرتِ سیِّدَتُناشہر بانورضی اللہ عنہا فارس کے آخری بادشاہ یزدجرد کی بیٹی تھیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے 2سال تک اپنے دادا حضور حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی آغوشِ عاطفت میں پرورش پائی، پھر 10سال اپنے تایا جان حضرتِ سیِّدُناامام حسن رضی اللہ عنہ کے زیرِ سایہ رہے اور تقریباً 11سال اپنے والد ماجد حضرتِ سیِّدُنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی زیرِ نگرانی تربیت پاکر علوم معرفت کی منازل طے کیں ۔

چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا

آپ رضی اللہ عنہ اپنے اکابرین رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ زندگیوں کی چلتی پھرتی تصویر تھے اور خوفِ خدا میں یگانہ روزگار تھے ۔آپ رضی اللہ عنہ جب وضو کرتے تو خوف کے مارے آپ کے چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا۔ گھر والے دریافت کرتے ، ''یہ وضو کے وقت آپ کو کیا ہوجاتا ہے؟'' تو فرماتے : ''تمہیں معلوم ہے کہ میں کس کے سامنے کھڑے ہونے کا ارادہ کر رہا ہوں؟'' (احیاء العلوم ، کتاب الخوف والرجاء ج ۴، ص ۲۲۶)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

بے ہوش ہو گئے

ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے حج کا احرام باندھا تو تلبیہ (یعنی لبیک) نہیں پڑھی ۔ لوگوں نے عرض کی ،''حضور! آپ لبیک کیوں نہیں پڑھتے ؟'' آبدیدہ ہو کر ارشاد فرمایا،''مجھے ڈر لگتا ہے کہ میں لبیک کہوں اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ''لاَ لَبَّیْکْ''کی آواز نہ آجائے ، یعنی میں تو یہ کہوں کہ'' اے میرے مالک ! میں بار بار تیرے دربار میں حاضر ہوں ۔'' اور ادھر سے یہ آواز نہ آجائے کہ'' نہیں نہیں ! تیری حاضری قبول نہیں ۔''لوگوں نے کہا ، ''حضور! پھر لبیک کہے بغیر آپ کا احرام کیسے ہوگا؟'' یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے لَبَّیْکْ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ لَبَّیْکَ لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکْ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْک لاَشَرِیْکَ لَکْ پڑھا لیکن ایک دم خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ سے لرز کر اونٹ کی پشت سے زمین پر گر پڑے اور بے ہوش ہو گئے ۔ جب ہوش میں آتے تو ''لبیک'' پڑھتے اور پھر بے ہوش ہوجاتے ، اسی حالت میں آپ رضی اللہ عنہ نے حج ادا فرمایا۔(اولیائے رجال الحدیث ص۱۶۴ )

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

میدانِ کربلا کی طرف جانے والے حسینی قافلے کے شرکاء میں آپ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے

میدانِ کربلا کی طرف جانے والے حسینی قافلے کے شرکاء میں آپ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے مگر جب ۱۰ محرم الحرام کوبزمِ شہادت سجی تو آپ شدید بیمار تھے ۔ چُنانچہ آپ رضی اللہ عنہ حسینی قافلے کے واحد مرد تھے جو اس معرکہ حق وباطل کے بعد زندہ بچے تھے ۔ 58برس کی عمر میں ولید بن عبدالملک نے آپ کو زہر دیا جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ محرم الحرام ۹۴؁ھ میں شہادت کے منصب پر فائز ہوکر مدینہ شریف میں جنت البقیع میں آرام فرما ہوئے ۔

اللہ عَزّوَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت ہو

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

اونٹنی سُدھر گئی

ایک مرتبہ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی اونٹنی نے شوخی کرنا شروع کر دی۔ آپ نے اسے بٹھایا اور کوڑا دکھایا اور فرمایا : سیدھی ہو کر چلو ورنہ یہ دیکھ لو ! چنانچہ اس کے بعد اس نے شوخی چھوڑ دی۔ (جامع کرامات اولیاء ،ج۲،ص۳۱۱)

اللہ عَزّوَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت ہو

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

اسم اعظم

حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ اسمِ اعظم '' اَللہُ اَللہُ اَللہُ الَّذِيْ لَا إِلٰہَ إِلَّا ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ '' ہے۔ (''فتح الباري''، باب للہ مائۃ اسم غیر واحدۃ، ج۱۱، ص۱۸۹، (بحوالہ ابن ابی الدنیا).

حدیث پر عمل کا جذبہ اور سخاوت امام زین العایدین

صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حضوراقدس صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو شخص مسلمان غلام کو آزاد کریگا اسکے ہر عضو کے بدلے میں اﷲتعالیٰ اس کے ہر عضو کو جہنم سے آزاد فرمائے گا۔'' سعید بن مرجانہ کہتے ہیں میں نے یہ حدیث علی بن حسین (امام زین العابدین) رضی اﷲتعالیٰ عنہما کو سنائی اونھوں نے اپنا ایک ایسا غلام آزاد کیا جس کی قیمت عبداﷲ بن جعفر دس ۱۰ ہزار دیتے تھے۔ (صحیح البخاري''،کتاب العتق،باب فی العتق وفضلہ، الحدیث : ۲۵۱۷،ج۲،ص۱۵۰.)

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے پاس نبی کریم ﷺ کی تلوار

حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس تلوار ''ذوالفقار'' حضرت زین العابدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس تھی۔ جب حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد وہ مدینہ منورہ واپس آئے تو حضرت مسور بن مخرمہ صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا مجھے یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ بنو امیہ آپ سے اس تلوار کو چھین لیں گے۔ اس لئے آپ مجھے وہ تلوار دے دیجئے جب تک میرے جسم میں جان ہے کوئی اِس کو مجھ سے نہیں چھین سکتا۔ (بخاری جلد۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من درع النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی کرامت

حجاج ابن یوسف کے وقت میں جب دوبارہ حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ اسیر کئے گئے اور لوہے کی بھاری قید و بند کا بارِگراں ان کے تنِ نازنین پر ڈالا گیا اور پہرہ دارمتعین کردئیے گئے، زہری علیہ الرحمہ اس حالت کو دیکھ کر روپڑے اور کہا کہ مجھے تمنا تھی کہ میں آپ کی جگہ ہوتا کہ آپ پر یہ بارِمصائب دل پرگوارا نہیں ہے۔اس پر امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیاتجھے یہ گمان ہے کہ اس قیدو بند ش سے مجھے کرب و بے چینی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر میں چاہوں تو اس میں سے کچھ بھی نہ رہے مگر اس میں اجر ہے اور تَذَکُّرہے اور عذابِ الٰہی عزوجل کی یادہے۔ یہ فرماکر بیڑیوں میں سے پاؤں اور ہتھکڑیوں میں سے ہاتھ نکال دئیے۔

یہ اختیارات ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے کرامۃً انھیں عطا فرمائے گئے اور وہ صبر و رضا ہے کہ اپنے وجود اور آسایشِ وجود ، گھر بار،مال و متاع سب سے رضائے الٰہی عزوجل کیلئے ہاتھ اٹھالیتے ہیں اور اس میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے۔ اللہ تعا لیٰ ان کے ظاہری و باطنی برکات سے مسلمانوں کو متمتع اور فیض یاب فرمائے اور ان کی اخلاص مندانہ قربانیوں کی برکت سے اسلام کو ہمیشہ مظفرو منصور رکھے۔آمین۔وَصَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلیٰ خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ وَعِتْرَتِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔(المنتظم، سنۃ اربع وتسعین، ۵۳۰۔علی بن الحسین...الخ، ج۶، ص۳۳۰)

شجرے قادریہ عطاریہ شریف کا ایک شعر

سَیِّدِسجاد کے صدقے میں ساجد رکھ مجھے (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ )

عِلْمِ حَقْ دے باقِر علمِ ہُد یٰ کے واسِطے (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ )

مشکل الفاظ کے معانی:سجاد:کثرت سے سجدے کرنے والا ساجد:سجدہ کرنے والا

ہدی:ہدایت باقرِ علمِ ہُدٰی:علمِ ہدایت کے ماہِر عالم

دُعائیہ شعر کا مفہوم:

یا اللہ عَزَّوَجَلَّ! تجھے سَیِّدِسجاد یعنی حضرتِ سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما کا واسطہ مجھے سجدہ کرنے والا یعنی نَمازی بنااورباقرِ علمِ ہُدٰی یعنی امام حسین رضی اللہ عنہ کے پوتے امام باقر رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سےعِلْم ِدین کی دولت سے مالا مال فرما ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم

''سجاد '' اور ''ساجد''میں معنوی مناسبت یہ ہے کہ دونوں میں ''س، ج اورد ''کا معنی ایک ہے یعنی سجدہ کرنے والا۔ جبکہ'' عَلَمِ ہُدٰی ''اور'' عِلْمِ حق ''میں لفظی مناسبت پائی جارہی ہے کہ دونوں میں ایک ہی طرح کے حُرُوف ''ع، ل اور م'' کا استعمال ہوا ہے۔

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

اس شعر میں سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ عطّاریہ کے چوتھے اورپانچویں شیخِ طریقت یعنی حضرتِ سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما اوراِن کے فرزندِ ارجمندامام محمد باقر رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے دُعا کی گئی ہے۔ (شرح شجرہ شریف مکتبہ المدینہ)

انسان نُما کُتّوں کا سالن

حضرتِ سیِّدُنا امام زین العابِدین علیہ رَحمَۃُ اللہِ المبین نے کسی شخص کو غیبت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: غیبت سے بچو، کیونکہ یہ انسان نُما کُتّوں کا سالن ہے۔(ذَمُّ الْغِیبَۃلِابْنِ اَبِی الدُّنْیا ص۱۸۱رقم۱۶۱)

كُتّوں سے تشبیہ دینے كی وجہ

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!مظلوم کربلاحضرتِ سیِّدُنا امام زین العابدین علیہ رَحمَۃُ اللہِ المبین نے غیبت کرنے والوں کوانسان نُما کتّوں کے ساتھ اس لئے تشبیہ دی ہے کہ قراٰنِ مجید اور احادیثِ مبارَکہ میں غیبت کو مردار کا گوشت کھانے کی مثل بتایا گیا ہے اور مردار کاگوشت چبانا اور کھانا کتّوں کا کام ہے لہٰذا غیبت کرنے والے گویا کُتّوں کی مثل ہو کر آدمیوں کی اَقسام سے خارِج ہوئے کیونکہ اگر آدَمی ہوتے تو ان میں آدمی کی صفت ہوتی اور انسان کی خصلت ان میں پائی جاتی ،کسی کی غیبت نہ کرتے ،کسی کا گوشت کُتّوں کی طرح نہ چباتے۔

نبی کا صدقہ سدا غیبتوں سے دور رکھنا کبھی بھی چُغلی کروں میں نہ یا رب!

ترے حبیب اگر مسکراتے آ جائیں تو گورِتیرہ میں ہو جائے چاند نا یا رب!

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

(غیبت کی تباکاریاں ص 324 مکتبہ المدینہ)

(''لبیک''کیسے کہوں؟۔۔۔۔۔۔ )

حضرت سَیِّدُنا امام علی بن حسین زین العابدین رضي اللہ تعالي عنہ علمِ حدیث میں اپنے والد ِ ماجد حضرت سَیِّدُنا امام حسین ودیگر صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تعالٰی عَنہم کے وارث ہیں ۔ آپ بڑے خدا ترس تھے اور آپ کا سینۂ مبارک خشیتِ الٰہی کا سفینہ تھا ۔ ایک مرتبہ آپ نے حج کا احرام باندھا تو تلبیہ (یعنی لبیک)نہیں پڑھی ۔ لوگوں نے عرض کی ،''حضور! آپ لبیک کیوں نہیں پڑھتے ؟'' آبدیدہ ہو کر ارشاد فرمایا،''مجھے ڈر لگتا ہے کہ میں لبیک کہوں اور اللہ عزوجل کی طرف سے ''لاَ لَبَّیْکْ'' کی آواز نہ آجائے ، یعنی میں تو یہ کہوں کہ'' اے میرے مالک ! میں بار بار تیرے دربار میں حاضر ہوں ۔'' اور ادھر سے یہ آواز نہ آجائے کہ'' نہیں نہیں ! تیری حاضری قبول نہیں ۔''لوگوں نے کہا ، ''حضور! پھر لبیک کہے بغیر آپ کا احرام کیسے ہوگا؟'' یہ سن کر آپ نے بلند آواز سے لَبَّیْکْ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ لَبَّیْکَ لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکْ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْک لاَشَرِیْکَ لَکْ پڑھا لیکن ایک دم خوفِ خد ل سے لرز کر اونٹ کی پشت سے زمین پر گر پڑے اور بے ہوش ہو گئے ۔ جب ہوش میں آتے تو ''لبیک'' پڑھتے اور پھر بے ہوش ہوجاتے ، اسی حالت میں آپ نے حج ادا فرمایا۔(اولیائے رجال الحدیث ص۱۶۴ )

سیّدنا امام زین العابدین کا سفید عمامہ

حضرت سیّدنامحمد بن ہِلال رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :میں نے حضرت سیّدنا علی بن حسین (یعنی امام زین العابدین) کو سفید عمامہ شریف باندھتے دیکھا، آپ رضی اللہ عنہ عمامہ کا شملہ اپنی پیٹھ مبارک پر لٹکا تے تھے۔(تاریخ الاسلام، ۶/۴۳۲، تاریخ ابنِ عساکر، ۴۱/۳۶۵واللفظ لہ)

بعدِ وصال سخاوت کا پتا چلا

حضرت سیدنا امام زین العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ اپنا سارا مال راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں خیرات کیا اور آپ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ آپ بہت سے غرباءاہلِ مدینہ کے گھروں میں ایسے پوشیدہ طریقوں سے رقم بھیجا کرتے تھے کہ ان غرباء کو خبر ہی نہیں ہوتی تھی کہ یہ رقم کہاں سے آتی ہے؟مگر جب آپ کا وصال ہو گیاتو ان غریبوں کو پتا چلاکہ یہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی سخاوت تھی۔(سیر اعلام النبلاء،۵/۳۳۶)

گالی دینے والے کے ساتھ خیر خواہی

حضرتِ سَیِّدُنا امام زین العابدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو کسی نے گالی دی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے اسے اپنا مبارک کُرتا اور ایک ہزار درھم دینے کا حکم دیا۔ تو کسی نے کہا: آپ نے پانچ خصلتیں جمع کر لی ہیں :

(۱)بردباری(۲) تکلیف نہ دینا (۳) اس شخص کوایسی بات سے رہائی دینا جو اسے اللہ عزوجل سے دور کردیتی (۴) اسے توبہ وندامت کی طرف راغب کرنا (۵) برائی کے بعد تعریف کی طرف رجوع کرنا۔ آپ نے معمولی دنیا کے ساتھ یہ تمام عظیم چیزیں خرید لیں۔(احیاءالعلوم: ۳/۲۲۱)

حضرتِ سیِّدُنا زَیْنُ الْعابِدِیْن عَلِی بن حُسَیْن عَلَیْہِمَاالرَّحْمَہ

حضرتِ سیِّدُناامام زین العابدین علی بن حسین بن علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ تابعین مدینہ منورہ میں سے ہیں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ عابدین کی زینت، اطاعت گزاروں کے سردار، وفادار عبادت گزار اور مہربان سخی تھے۔(اللہ والوں کی باتیں۔۔۔جلد 3 /ص193)

دنیامیں پانچ حضرات بہت روئےہیں:

دنیامیں پانچ حضرات بہت روئےہیں:حضرتِ آدم عَلَیْہِ السَّلَامفراقِ جنت میں،حضرتِ نوح عَلَیْہِ السَّلام و(حضرتِ)یحیی عَلَیْہِ السَّلام مخوفِ خدامیں،حضرتِ فاطمہ زہرا(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا)فراقِ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم میں،حضرتِ امام زین العابدین (عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْن)واقعَۂ کربلاکےبعدحضرتِ حسین(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ)کی پیاس یادکرکے۔ (مراٰۃ المناجیح،۸/ ۲۹۱)

پانچ قسم کے لوگوں کی صحبت سے بچو:

حضرتِ سیِّدُنامحمدبن علی باقر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَافِرفرماتے ہیں:میرےوالدِماجدحضرتِ سیِّدُنااِمام زینُ العابدین علی بن حسین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَانے مجھے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:’’پانچ قسم کے لوگوں کی نہ تو صحبت اختیار کرنا، نہ ان سے گفتگو کرنا اورنہ ہی سفر میں ان کی رفاقت اختیار کرنا۔‘‘میں نے عرض کی:میں آپ پر قربان!وہ کون ہیں؟فرمایا: ’’فاسق کی صحبت اختیار نہ کرنا کیونکہ وہ تجھے ایک یا ایک سے کم لقمہ کے بدلے میں بیچ دے گا۔‘‘میں نے عرض کی:لقمے سے کم کیامراد ہے؟فرمایا:’’لقمے کا لالچ کرے گا لیکن اسے حاصل نہیں کر سکے گا۔‘‘میں نے عرض کی:دوسرا شخص؟ فرمایا:’’بخیل کی صحبت میں نہ بیٹھنا کیونکہ وہ ایسے وقت میں تجھ سے مال روک لے گا جب تجھے اس کی سخت حاجت وضرورت ہوگی۔‘‘میں نے عرض کی:تیسراکون ہے؟ فرمایا:’’جھوٹے کی صحبت میں نہ بیٹھنا کیونکہ وہ سَراب کی طرح ہے جو تجھ سے قریب کو دور اور دور کو قریب کر دےگا۔‘‘میں نے عرض کی:چوتھا شخص؟فرمایا:’’اَحمق(بےوقوف) کی صحبت اختیار کرنے سے بچنا کیونکہ وہ تجھےفائدہ پہنچانے کی کوشش میں نقصان پہنچادےگا۔‘‘میں نے عرض کی:پانچواں شخص کون ہے؟فرمایا: ’’رشتہ داروں سے قطع تعلُّق کرنے والے کی صحبت میں بیٹھنے سے بچنا کیونکہ میں نے کتابُاللہ میں تین مقامات پراسے ملعون پایا ہے۔‘‘

حضرت سیِّدُناامام زینُ العابدین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:سخی وہ نہیں جو مانگنے والوں کو دیتا ہے بلکہ سخی وہ ہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّکے فرمانبرداروں کے حقوق کی ادائیگی میں پہل کرتا ہےاور اپنی تعریف کا خواہشمند نہیں ہوتا بشرطیکہ بارگاہِ خداوندی سے کامل ثواب کا یقین رکھے۔(احیا العلوم ج3 /739)

فاروقِ اعظم سیِّدُنا امام زین العابدین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پھوپھا:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ حضرت سیِّدُنا امام زین العابدین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پھوپھاہیں ، کیونکہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بیٹے ہیں اور سیدتنا ام کلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بہن ہیں اور والدکی بہن پھوپھی ہوتی ہےاور پھوپھی کا شوہر پھوپھا ہوتا ہے ، چونکہ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سیدتنا اُمّ کلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے شوہر ہیں لہٰذاوہ آپ کےپھوپھا ہوئے۔(طبقات کبری، بقیۃ الطبقۃ الثانیۃ من التابعین، ج۵، ص۱۶۲۔)

علم مغازی (وہ علم جس میں غزوات کے بارے میں معلومات ہو)

حضرت سیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے صاحبزادے حضرت سیِّدُنا امام زین العابدین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں :

’’كُنَّا نَعْلَمُ مَغَازِي النَّبِيِّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا نُعَلِّمُ السُّوْرَةَ مِنَ الْقُرْآنِ

یعنی: ہم رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مغازی کا علم اس طرح حاصل کرتے جس طرح قرآن مجید کی سورتیں سیکھا کرتے تھے۔(البدایۃ والنھایۃ، ج۲، ص۶۴۲، سبل الھدی والرشاد، الباب الثانی، اختلاف الناس۔۔۔ الخ، ج۴، ص۱۰۔)

شان فاروقِ اعظم بزبان سیِّدُنا امام زین العابدین

عہدِ رسالت میں شیخین کا مقام:

حضرت سیِّدُنا ابو حازم رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت سیِّدُنا علی بن حسین امام زین العابدین رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ’’مَا کَانَ مَنْزِلَۃُ اَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ مِنْ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یعنی حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ وسیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانے میں کیا مقام ومرتبہ تھا؟‘‘ فرمایا: ’’کَمَنْزِلِھِمَا الْیَوْمَ ھُمَا ضَجِیْعَاہُ یعنی عہدِ رسالت میں ان کا مقام ومرتبہ وہی تھا جو آج ہے کہ دونوں اس وقت بھی رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دوست تھےا ور آج مزار میں بھی دونوں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دوست ہیں ۔‘‘(مناقب امیر المومنین عمر بن الخطاب،الباب العشرون،ص۴۳۔)

زخمی کرنے والے کو اِنعام(حکایت)

غصہ پی جانے کی حقیقت یہ ہے کہ کسیغصہ دلانے والی بات پر خاموش ہوجائے اور غصے کے اظہار اور سزا دینے اور بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود صبر وسکون کے ساتھ رہے ۔ حضرت سیِّدُنا امام زین العابدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کو ان کی کنیزوضو کروا رہی تھی کہ اچانک اس کے ہاتھ سے لوٹا گرگیا جس سے وہ زخمی ہوگئے ، انہوں نے اس کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو اس نے عرض کی : اللہپاک ارشاد فرماتا ہے : وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ ’’اور غصّہ پینے والے ‘‘ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے فرمایا: قَدْ کَظَمْتُ غَیْظِیْ یعنی میں نے اپنا غصّہپی لیا ۔ اس نے پھر عرض کی: وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ- ’’ اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ‘‘ ارشاد فرمایا: قَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْکِیعنی اللہ پاک تجھے معاف کرے۔ پھر عرض گزار ہوئی: وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ’’ اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں ‘‘ ارشاد فرمایا: اِذْہَبِیْ فَاَنْتِ حُرَّۃٌ یعنی جا! تو آزاد ہے ۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۶ص۳۱۷حدیث۸۳۱۷ ملخّصاً)

کیوں میری خطاؤں کی طرف دیکھ رہے ہو!

جس کو ہے مِری لاج وہ لج پال بڑا ہے

ابوجان سے مَحَبَّت کا عالَم

حضرتِ سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اپنے ابوجان حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضٰی شیرِ خُدا رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے بے حد پیار کرتے تھے اوراِسی وجہ سے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے اپنے تمام شہزادوں (یعنی بیٹوں)کے نام ’’علی ‘‘رکھتے تھے۔ بڑے شہزادے (یعنی بڑے بیٹے ) کا نام ’’علی اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہ‘‘ہے۔ اُن سے چھوٹے جوکہ امام زین العابدین کے نام سے مشہور ہیں مگر اِن کا اَصل نام ’’علی اَوسط رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ‘‘ ہےاورسب سےچھوٹے شہزادے ، ننھے ننھے پیارے پیارے ’’علی اصغررَضِیَ اللہُ عَنْہُ ‘‘ہیں۔ (امام زین العابدین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے علاوہ دونوں شہزادےاپنے ابوجان کے ساتھ’’میدانِ کربلا‘‘میں شہید ہوگئے تھے۔ )

اس شہیدِ بَلا شاہِ گُلگُوں قَبا بیکسِ دَشتِ غربت پہ لاکھوں سلام

(حدائقِ بخشش)

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

جسم بیمار نہ ہو تو

حضرت سَیِّدُناامام زینُ العابدین علی بن حُسینرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیہ فرماتے ہیں:اگر جسم بیمار نہ ہو تو وہ اکڑ جاتا ہے اور اکڑنے والے جسم میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔(اللہ والوں کی باتیں،۳/۱۹۴)

تضمین بر نظم منسوب بہ زین العابدین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ:

ایسا کوئی محرم نہیں پہنچائے جو پیغامِ غم

تو ہی کرم کردے تجھے شاہِ مدینہ کی قسم

ہو جب کبھی تیرا گزر بادِ صبا سوئے حرم

پہنچا مری تسلیم اس جا ہیں جہاں خیر الامم

اِنْ نِّلْتِ یَا رِیْحَ الصَّبَا یَوْمًا اِلٰیٓ اَرْضِ الْحَرَم

بَلِّغْ سَلَامِیْ رَوْضَۃً فِیْھَا النَّبِیُّ الْمُحْتَشَم

میں دُوں تجھے ان کا پتہ گر نہ تو پہچانے صبا

حق نے انہی کے واسطے پیدا کیے اَرض و سما

رخسار سورج کی طرح ہے چہرہ ان کا چاند سا

ہے ذات عالم کی َپنہ اور ہاتھ دریا جود کا

مَنْ وَّجْھُہٗ شَمْسُ الضُّحٰی مَنْ خَدُّہٗ بَدْرُالدُّجٰی

مَنْ ذَا تُہٗ نُوْرُ الْھُدٰی مَنْ کَفُّہٗ بَحْرُ الْھِمَمْ

حق نے انہیں رحمت کہا اور شافعِ عصیاں کیا

رتبہ میں وہ سب سے سوا ہیں ختم ان سے انبیا

وہ مَہبِطِ قران ہیں ناسخ ہے جو اَدیان کا

پہنچا جو یہ حکم خدا سارے صحیفے تھے فنا

قُرْاٰ نُہٗ بُرْہَانُنَا نَسْخًا لِّاَدْیَانٍ مَّضَتْ

اِذْ جَائَ نَا اَحْکَامُہٗ لِکُلِّ الصُّحُفِ صَارَ الْعَدَم

یوں تو خلیلِ کبریا اور اَنبیائِ باصفا

مخلوق کے ہیں پیشوا سب کو بڑا رُتبہ ملا

لیکن ہیں ان سب سے سوا دُرِّیتیمِ آمنہ

وہ ہی جنہیں کہتے ہیں سب مشکل کشا حاجت رَوا

یَا مُصْطَفٰی یَا مُجْتَبٰی اِرْحَمْ عَلٰی عِصْیَانِنَا

مَجْبُوْرَۃٌ اَعْمَالُنَا طَمَعْنًا وَّ ذَنْبًا وَّ الظُّلَمِ

اے ماہِ خوبانِ جہاں اے اِفتخارِ مرسلیں

گو جلوہ گر آخر ہوئے لیکن ہو فخر الاولیں

فرقت کے یہ رَنج و عنا اب ہوگئے حد سے سوا

اس ہجر کی تلوار نے قلب و جگر زخمی کیا

وہ لوگ خوش تقدیر ہیں اور بخت ہے ان کا رَسا

رہتے ہیں جو اس شہر میں جس میں کہ تم ہو خسروا

سب اَولین و آخریں تارے ہیں تم مہر مبیں

یہ جگمگائے رات بھر چمکے جو تم کوئی نہیں

اَکْبَادُنَا مَجْرُوْحَۃٌ مِّنْ سَیْفِ ہِجْرِ الْمُصْطَفٰی

طُوْبٰی لِاَھْلِ بَلْدَۃٍ فِیْھَا النَّبِیُّ الْمُحْتَشَم

اے دو جہاں پر رحمِ حق تم ہو شفیع المجرمیں

ہے آپ ہی کا آسرا جب بولیں نَفْسِیْ مرسلیں

اس بیکسی کے وقت میں جب کوئی بھی اپنا نہیں

ہم بیکسوں پر ہو نظر اے رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن

یَا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ اَنْتَ شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْں

اَکْرِمْ لَنَا یَوْمَ الْحَزِیْنِ فَضْلًا وَّ جُوْدًا وَّ الْکَرَم

اس سالکِؔ بدکار کا گو حشر میں کوئی نہیں

لیکن اُسے کیا خوف ہو جب آپ ہیں اس کے ُمعیں

مجرم ہوں میں غفار رب اور تم شَفِیْعُ الْمُذْ نِبِیْں

پھر کیوں کہوں بیکس ہوں یَا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْں

یَا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْں اَدْ رِکْ لِزَیْنِ الْعَابِدِیْں

مَحْبُوْسُ اَیدِی الظَّالِمِیْنَ فِیْ مَرْکَبٍ وَّالْمُزْدَحِم

(دیوان سالک)

نام کی وجہ تسمیہ

سوال: زینُ العابدین اورسجاد نام رکھنا کیسا؟

جواب :عام لوگوں کے جو یہ نام رکھے جاتے ہیں تو اس میں خود ستائى پائی جاتی ہے۔ پنچ وقتہ نماز تو پڑھتا نہیں اور کہلا رہا ہے : سَجَّاد یعنی بہت زیادہ سجدے کرنے والا ، جمعہ کی نماز تک پڑھتا نہیں اور نام ہے : زَیْنُ الْعَابِدِیْن یعنی عبادت گزاروں کی زینت۔غلام زَیْنُ الْعَابِدِیْن نام رکھىں تو چل جائے گا لیکن زَیْنُ الْعَابِدِیْن نام رکھنے میں خودستائی پائی جا رہی ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ حصولِ برکت کے لىے بزرگوں کے نام پر نام رکھے جائیں۔ اگر کوئی خود کو سَجَّاد ، شہزاد اور شہزادہ وغیرہ کہلواتا ہے تو اس سے اُلجھنا نہیں ۔ بعض لوگ اپنے بیٹے کا تعارف شہزادہ یا صاحب زادہ کہہ کر کرواتے ہیں ، گناہ اِس میں بھی نہیں ہے لیکن خودستائی سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ نہ کہا جائے۔ مىں تو اپنے بیٹے کو غرىب زادہ بولتا ہوں یعنی غرىب کا بىٹا۔(اجتماع کے فوائد ص23- 24مکتبۃ المدینہ)

تفسیرقرآن بزبان امام زین العابدین رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین کے بارے میں ۔

وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ ۱۴،الحجر:۴۷)

ترجمۂ کنزالایمان:’’اور ہم نے ان کے سینوں میں جو کچھ کینے تھے سب کھینچ لئے آپس میں بھائی ہیں تختوں پر روبرو بیٹھے۔‘‘

حضرت سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ’’ یہ آیت مبارکہ بنوہاشم، بنوتمیم، بنو عدی ، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ،حضرت سیدنا عمر فاروق اور حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘حضرت سیدنا ابوجعفرامام باقر رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے پوچھا گیا کہ حضرت سیدنا علی بن حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے جویہ بات منقول ہے کہ یہ آیت مبارکہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ،حضرت سیدنا عمر فاروق اور حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے بارے میں نازل ہوئی درست ہے؟انہوں نے فرمایا: ’’اللہ عَزَّ وَجَل َّکی قسم! یہ آیت انہیں کے بارے میں نازل ہوئی ہے اگران کے بارے میں نازل نہیں ہوئی توپھرکس کے بارےمیں نازل ہوئی ہے؟‘‘پوچھا گیا کہ اس میں توان کے کینے کا ذکر ہے حالانکہ ان کے دلوں میں توایک دوسرے کے لیے کوئی کینہ نہیں ہے؟فرمایا:’’اس کینے سے مراد زمانہ جاہلیت والا کینہ ہے جوان کے قبائل بنو عدی ، بنو تمیم، بنوہاشم میں پایاجاتاتھاجب یہ تمام لوگ اسلام لےآئے ،تو کینہ ختم ہوگیا اورآپس میں شیروشکر ہوگئے،نیزان کے مابین اس قدر الفت ومحبت پیداہوگئی کہ ایک بار حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پہلو میں درد ہوا توحضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اپنے ہاتھ کوگرم کرکے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پہلو کو ٹکور کرنے لگے۔ رب تعالٰی کو یہ ادا اتنی پسندآئی کہ اس پریہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔‘‘ (تفسیرالدرالمنثور،الحجر:۴۷، ج۵، ص۸۴۔۸۵)

سیدنا علی المرتضی وسیدنا صدیق اکبردونوں کی رشتہ داری

حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے صاحب زادے حضرت سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی زوجہ محترمہ حضرت سیدتنا شہر بانو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے بیٹے حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی زوجہ دونوں آپس میں سگی بہنیں تھی۔یعنی سیدنا علی المرتضی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اور سیدنا ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ دونوں کی بہوئیں آپس میں سگی بہنیں تھیں۔حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے دور خلافت میں حضرت سیدنا حریث بن جابرجعفی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے شاہ ایران یزد جردبن شہر یار کی دو بیٹیاں آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی خدمت میں بھیجی تو آپ نے ان میں سے بڑی بیٹی کا نکاح اپنے بیٹے حضرت سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے فرمادیا اور چھوٹی بیٹی کا نکاح حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے فرمادیا۔ان سے حضرت سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے بیٹے حضرت سیدنا امام زین العابدین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ پیدا ہوئے اور حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے بیٹے حضرت سیدنا قاسم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ پیداہوئے۔یوں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے بیٹے حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اور حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے بیٹے حضرت سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ہم زلف ہوئے۔(لباب الانساب والالقاب والاعقاب،ابناء علی ،العلویۃ الجعفریۃ و العقیلیۃ،ج۱، ص۲۲ )

قطع رحمی کرنے والے کے ساتھ دوستی نہ کرو

حضرت سیِّدُنا امام باقر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَافِر فرماتے ہیں : میرے والد ِ گرامی حضرت سیِّدُنا امام زین العابدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا: ’’قطع رحمی کرنے والے کے ساتھ دوستی نہ کرو کیونکہ میں نے قرآنِ پاک میں اسے 3 جگہوں پر ملعون پایا۔‘‘ اور پھر انہوں نے سابقہ 3 آیات پڑھیں یعنی قتال والی آیت ِ کریمہ میں صریح لعنت ہے، سورۂ رعد کی آیت ِ مبارکہ میں عمومی طور پر لعنت ہے کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم دیا اس میں رحم (یعنی رشتہ داری )وغیرہ بھی شامل ہیں اور سورۂ بقرہ کی آیت ِمقدسہ میں لازمی طور پرلعنت ثابت ہے کیونکہ یہ ان چیزوں میں سے ہے جو خسارے کو لازم ہیں۔ حضرت سیِّدُنا امام ابوعبداللہ محمد بن احمد قرطبیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی (متوفی۶۷۱ھ) نے اپنی تفسیر میں صلہ رحمی کے واجب اور قطع رحمی کے حرام ہونے پر امت کا اجماع نقل فرمایا ہے۔(جہنم میں لے جانے والے اعمال جلد 2 ص282)

ایک ہزار رکعت نفل

امام زین العابدین ہر شب ایک ہزار رکعت نفل پڑھتے تھے۔(مراۃ المناجیح جلد 6ص6)

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا اسم مبارک اور اولا مبارک کا تذکرہ خیر

زین العابدین: آپ کا نام عابد ہے،لقب علی اوسط،خطاب زین العابدین،آپ کی والدہ بی بی شہر بانو بنت یزد گرد شاہ ایران ہیں،شہر بانو ایران کی شاہزادی تھیں جو خلافت فاروقی میں گرفتار ہوکر مدینہ منورہ آئیں،حضرت عمر نے فرمایا کہ شاہزادی شاہزادے کو دی جاوے گی اور امام حسین سے آپ کا نکاح کردیا،ان کے شکم سے امام زین العابدین پیدا ہوئے،آپ کے بیٹے گیارہ اور بیٹیاں چھ۔ تفصیل یہ ہے بیٹے: محمد باقر،جعفر،ابو الحسن،زید،عبد اللہ،عبد الرحمن،سلیمان،عمر،اشرف،حسن اصغر،حسن اکبر علی۔بیٹیاں: خدیجہ،زینب،عالیہ،ام کلثوم،ملیکہ،ام الحسن،ام الحسین۔محمد،باقر،عبد اللہ،عمر،اشرف،زید شہید ہوئے۔(مراہ المناجیح جلد 8 ص 618)

علی ابن حسین ابن علی ابن ابی طالب: آپ کی کنیت ابو الحسن لقب امام زین العابدین سادات اہل بیت سے ہیں،جلیل القدر تابعی ہیں،امام زہری کہتے ہیں کہ میں نے ان سے افضل کوئی قرشی نہیں دیکھا آپ کی عمر ۵۸ اٹھاون سال ہوئی ۹۴ میں وفات ہوئی جنت بقیع میں اپنے تایا امام حسن کے ساتھ دفن ہیں،مترجم کہتا ہے کہ امام حسین کے تینوں بیٹوں کا نام علی ہے علی اکبر علی اوسط علی اصغر،حضرت علی اکبر اور علی اصغر تو کربلا میں شہید ہوئے علی اوسط یعنی امام زین العابدین وہاں سے بچ کر آئے بقیہ زندگی بغیر روئے ہوئے کبھی پانی نہ پیا آپ کی قبر زیارت گاہ خاص و عام ہے۔(مراہ المناجیح جلد 8 ص 583)

آپ تابعی ہیں

امام زین العابدین صحابی نہیں بلکہ تابعی ہیں(مراہ المناجیح جلد 8 ص217)

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے مروی روایت

روایت ہے حضرت علی ابن حسین سے(ارسالًا) ۱؎ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں جب جھکتے اور اٹھتے تو تکبیر کہتے حضور کی یہی نماز رہی حتی کہ اﷲ تعالٰی سے مل گئے۲؎(مالک)

شرح

۱؎ آپ کا لقب زین العابدین ہے،کنیت ابوالحسن،اہل بیت اطہار سے ہیں،۵۸ سال کی عمر ہوئی، ۹۴ھ؁ میں وفات،چونکہ آپ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو نہ دیکھ سکے اس لیے تابعین میں سے ہیں اور یہ روایت مرسل ہے۔

۲؎ یعنی یہ عمل شریف منسوخ نہیں۔(مراہ المناجیح جلد 2 ص37)

حسینی سادات کا سلسلہ آپ ہی سے چلا

آپ کا نام جعفر،لقب امام صادق ہے،والد کا نام محمد،لقب امام باقر،ان کے والدکا نام علی اوسط،لقب امام زین العابدین ہے،حادثہ کربلا سے صرف امام زین العابدین ہی بچ کر آئے تھے،حسینی سادات آپ ہی کی نسل پاک سے ہیں،امام حسین کے درمیانے صاحبزادے ہیں۔(مراہ المناجیح جلد2 ص907)

،امام زین العابدین تو نماز پنجگانہ کے لئے جوڑا رکھتے تھے۔

روایت ہے حضرت عبداﷲ ابن سلام سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تم میں سے کسی پر کیا دشوار ہے کہ اگر ممکن ہو تو جمعہ کے دن کے لیئے دو کپڑے کام کاج کے کپڑوں کے سوا بنالے ۱؎(ابن ماجہ)اور مالک نے یحیی ابن سعید سے روایت کی۔

شرح

۱؎ یہ بھی مستحب ہے کہ جمعہ کا جوڑا الگ رکھے جو بوقت نماز پہن لیا کرے اور بعد میں اتار دیا کرے،امام زین العابدین تو نماز پنجگانہ کے لئے جوڑا رکھتے تھے۔(مراہ المناجیح جلد2 ص617)

امام زین العابدین کے صاحبزادے کا مقام ومرتبہ

جب استاد کا یہ عالم ہے تو جو قرب زمانہ کے حضور ﷺ کے زمانے کے قریب ہیں اور نسب میں بھی حضورﷺ کے قریب اورجب امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا یہ عالم ہے کہ وہ حضور امام اعظم امام ابو حنیفہ کے استاد صاحب ہیں تو ۔۔۔۔۔ ان کے والد کا عالم کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔ جن کی تربیت کے عظیم شاہکارامام زین العابدین کے صاحبزادے ۔۔۔۔۔امام جعفرصادق رضی اللہ عنہ ۔۔۔۔

امام اعظم کے استاد

سَیِّدنا امام اعظم علیہ الرحمۃعلم دین کے حُصول کے باوُجود امام اعظم علیہ رَحمۃُاللہ المُعَظَّم جیسے علم کے بیکراں سَمُنْدر نے بھی علومِ طریقت، حضرت امامِ جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی صحبتِ بابَرَکت و مجالس سے حاصل کئے۔امامِ اعظم علیہ رَحمۃُاللہ المُعَظَّم نے فرمایا! اگر میری زندگی میں یہ دوسال (جو میں نے امام جعفر صادق علیہ الرحمۃ کی خدمت میں گزارے) نہ ہوتے تونعمان(علیہ الرحمۃ) ہلاک ہوگیا ہوتا۔(آداب مرشد کامل ص171 مکتبۃ المدینہ )

((الألوسي، محمود شكري، مختصر التحفة الاثني عشرية، ص 8 ، ألّف أصله باللغة الفارسية شاه عبد العزيز غلام حكيم الدهلوي، نقله من الفارسية إلى العربية: (سنة 1227 هـ) الشيخ الحافظ غلام محمد بن محيي الدين بن عمر الأسلمي، حققه وعلق حواشيه: محب الدين الخطيب، دارالنشر: المطبعة السلفية، القاهرة، الطبعة: 1373 هـ .

اور دیکھئے : القنوجي البخاري، أبو الطيب السيد محمد صديق خان بن السيد حسن خان (متوفاى1307هـ الحطة في ذكر الصحاح الستة ، ج 1 ص 264 ، ناشر : دار الكتب التعليمية - بيروت ، الطبعة : الأولى 1405/ 1985م ).

امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ بھی تابعی ہیں

امام جعفر صادق ہیں،آپ امام زین العابدین کے فرزند ہیں، تابعی ہیں،(مراۃ المناجیح جلد4 ص577)

امام زینُ العابدین ابوالحسن علی اوسط ہاشمی قرشی:

سجادِ اُمّت، حضرت سیّدنا امام زینُ العابدین ابوالحسن علی اوسط ہاشمی قرشی علیہ رحمۃ اللہ القَوی شعبان 38ھ کو مدینۂ منورہ میں پیدا ہوئے اور محرمُ الحرام 94ھ میں وصال فرمایا۔ آپ کا مزار جنتُ البقیع میں حضرت سیّدنا امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پہلو میں ہے۔ آپ عظیمُ المناقب تابعی، محدث، فقیہ، عابد، سخی، صاحبِ زہد و تقویٰ، جلیلُ القدر، عالی مرتبت اور سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ عطاریہ کے چوتھے شیخِ طریقت ہیں۔ (وفیات الاعیان،ج 2،ص127، شرح شجرۂ قادریہ، ص51،54)

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان بزبان امام زینُ العابدین رضی اللہ عنہ

اہلِ بیت کی خدمت اور حضرت امیر معاویہ سے محبت: شہادتِ امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بعد امام زینُ العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ جب یزید کے پاس سے لوٹ کر مدینَۂ مُنَوَّرہ پہنچے تو حضرت سیّدنا مِسْوَر بن مَخْرَمَہ رضی اللہ تعالٰی عنہما ان کے پاس گئے اور کہا: اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور حکم دیں۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ جب بھی حضرتِ سیِّدُنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا تذکرہ کرتے ان کے لئے دعائے رحمت ضرور کرتے تھے۔(سیر اعلام النبلاء،ج 4،ص480ملتقطاً)

امام زینُ العابدین رضی اللہ عنہ کو زین العابدین کہنے کی وجہ

آپ کی ولادت38سن ہجری کو مدینۂ منورہ میں ہوئی۔آپ کا نامعلیرکھا گیا اور کثرتِ عبادت کے سبب سجّاد اور زینُ العابِدِین (یعنی عبادت گزاروں کی زِینت) کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ کی کنیت ابوالحسن ہے۔ (الاعلام،ج4، ص277 ملتقطا)

نبی ﷺ کے سید البشر ہونے کے ساتھ نورانیت ہونے پر دلیل بزبان امام زینُ العابدین

حضرت سیّدناامام زینُ العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:میں آدم علیہ السَّلام کی تخلیق سے چودہ ہزار سال پہلے اللہ عَزَّوَجَل َّکے ہاں نور تھا۔(مواھب لدنیہ،ج1،ص39)

امام زینُ العابدین رضی اللہ عنہ کے زبانی شخین کریمین رضی اللہ عنھما کا مقام

امام احمد مسند ذی الیدین رضی اللہ تعالی عنہ میں ابن ابی حازم سے راوی : قال جاء رجل الی علی بن الحسین رضی اللہ تعالی عنہما فقال ماکان منزلۃ ابی بکر وعمر من النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال منزلتھما الساعۃ وھما ضجیعاہ ۱؂ یعنی ایک شخص نے حضر ت امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت انور میں حاضر ہوکر عرض کی حضور سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ابو بکر وعمر کا مرتبہ کیا تھا فرمایا جو مرتبہ ان کا اب ہے کہ حضور کے پہلو میں آرام کررہے ہیں ۔( مسند احمد بن حنبل حدیث ذی الیدین رضی اللہ تعالی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۷۷)(فتاوی رضویہ جلد 28ص 99)

امام علی اَوسط کو زَیْنُ الْعَابِدِیْن اور سَجَّاد کہنے کی وجہ

سُوال:حضرتِ سَیِّدُنا امام علی اَوسط رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو زَیْنُ الْعَابِدِیْناور سَجَّادکیوں کہتے ہیں؟

جواب: زَیْنُ الْعَابِدِیْن کے معنیٰ عبادت گزاروں کی زینتہے ، چونکہ حضرتِ سَیِّدُنا امام علی اَوسط رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بہت زیادہ عبادت گزار تھے اس لیے لوگوں نے انہیں زَیْنُ الْعَابِدِیْن کا لقب دیا ۔(1) اسی طرح آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بہت زیادہ نوافل پڑھتے تھے اور ظاہر ہے نوافل میں سجدے ہوتے ہیں تو یوں سجدوں کی کثرت کی وجہ سے لوگوں نے انہیں سَجَّاد یعنی بہت زیادہ سجدے کرنے والا کہنا شروع کر دیا۔(2) آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا نامِ نامی علیتھا اور پہچان کے لیےعلی اَوْسَطکہا جاتا تھا یعنی بیچ والے علی کیونکہ امامِ حسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے ایک بیٹے علی اکبر یعنی بڑے علی تھے اور ایک علی اصغر یعنی چھوٹے علی تھے جبکہ امام زَیْنُ الْعَابِدِیْنرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بیچ والے تھے اس لیے آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو علی اَوْسَط کہا جاتا ہے۔

امام زینُ العابدین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کی عمر مُبارَک

سُوال:حضرتِ سَیِّدُناامام زینُ العابدین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ واقعۂ کربلا کے بعد کتنا عرصہ حیات رہے؟

جواب:کَربلا کا واقعہ61 سنِ ہجری میں ہوا اور حضرتِ سَیِّدُناامام زینُ العابدین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے 94 سنِ ہجری میں وِصال فرمایا یعنی آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا وصال واقعۂ کربلا کے 33سال بعد ہوا۔ شرح شجرۂ قادریہ میں آپ کی عمر 58 سال لکھی ہے یعنی 58 بَرس کی عمر میں آپ کا اِنتقالِ باکمال ہوا۔

اللہ پاک کی ان پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مَغْفِرَت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم(طبقات ابن سعد، علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب، ۵/ ۱۷۱، رقم:۷۵۵۔)

اپنی زندگی میں دو مرتبہ اپنا سارا مال راہ خدا عَزَّ وَجَلَّ میں خیرات

حضرت سَیِّدُنا امام زَین العابدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ اپنا سارا مال راہ خدا عَزَّ وَجَلَّ میں خیرات کیا اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بہت سے مساکینِ مدینہ کے گھروں میں ایسے پوشیدہ طریقوں سے رقم بھیجا کرتے تھے کہ انہیں خبر ہی نہیں ہوتی تھی کہ یہ رقم کہاں سے آتی ہے؟ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا وصال ہو گیاتو ان غریبوں کو پتا چلاکہ یہ حضرت امام زین العابدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی سخاوت تھی۔(سیر اعلام النبلاء ، ج۵، ص336 )

امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا خصوصی علم :

امام غزالی اپنی زندگی کی آخری کتا ب "منھاج العابدین " جو کہ عظیم ترین تصوف کی اور مختصر کتاب ہے تو اس کی وجہ بیان کرنے کے ضمن میں فرماتے ہیں۔

جب ہم نے اس راہ کو اتنا مشکل پایا تو اسے پار کرنے کے لیے گہرا غوروخوض کیا اور دیکھاکہ بندہ اس میں کن چیزوں کامحتاج ہوتاہےمثلاً : قوت وطاقت، آلات اورعلم و عمل کی تدبیروغیرہ تواس امیدکے ساتھ کہ بندہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی توفیق سے سلامتی کے ساتھ اس راہ کو پار کر جائے اور اس کی ہلاکت خیز گھاٹیوں میں گر کر ہلاک ہونے والوں کےساتھ ہلاک نہ ہو، لہٰذاہم نےاس راہ پرچلنےاوراسےپارکرنےکےمتعلق چند کتابیں لکھیں جیسے : اِحْیَاءُ عُلُوْمِ الدِّیْن، اَسْرَارُالْمُعَامَلَات، اَلْغَایَۃُ الْقَصْوٰیاوراَلْقُرْبَۃُ اِلَی اللہ وغیرہ، یہ کتابیں باریک علمی نکات پرمشتمل ہیں جس کی وجہ سے عام لوگوں کی سمجھ سےبالاترہیں اوراسی کم فہمی کی وجہ سےلوگ ان میں عیب لگانےلگےاورجو باتیں پسند نہ آئیں ان میں سرگرمی دکھانے لگے، بھلا ربُّ الْعٰلَمِیْن جَلَّ جَلَالُہٗ کے کلام سے بڑھ کر بھی کوئی کلام فصیح وبلیغ ہو سکتا ہے، کہنے والوں نے تو اس کے بارےمیں بھی کہہ دیا کہیہ تو اگلوں کی داستانیں ہیں ۔ (1) کیا تم نے حضرت سیِّدُنا امام زین العابدین علی بن حسین بن علی عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا یہ فرمان نہیں سنا :

اِنِّیْ لَاَکْتُمُ مِنْ عِلْمِیْ جَوَاہِرَہٗ کَیْلَا یَرٰی ذَاکَ ذُوْ جَھْلٍ فَیَفْتَتِنَا

وَ قَدْ تَقدَّمَ فِیْ ھٰذَا اَبُوْ حَسَنٍ اِلَی الْحُسَیْنِ وَوَصّٰی قَبْلَہُ الْحَسَنَا

یَارُبَّ جَوْہَرِ عِلْمٍ لَوْ اَبُوْحُ بِہٖ لَقِیْلَ لِیْ اَنْتَ مِمَّنْ یَّعْبُدُ الْوَثَنَا

وَلَاسْتَحَلَّ رِجَالٌ مُّسْلِمُوْنَ دَمِیْ یَرَوْنَ اَقْبَحَ مَا یَاْتُوْنَہٗ حَسَنَا

ترجمہ : میں اپنے علمی جواہر پوشیدہ رکھتا ہوں تاکہ جہلا انہیں دیکھ کر فتنے میں مبتلا نہ ہوں ۔ (۲) اس کے متعلق اس سے پہلے حضرت سیِّدُنا ابوحسن علیُ المرتضٰیکَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم بھی حسنین کریمین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ مَا کو وصیت کر گئے کہ(۳) میرے ایسے کئی پوشیدہ علوم ہیں جنہیں میں ظاہر کر دوں تو مجھے کہا جائے گا تو توبتوں کی پوجا کرنے والا ہے اور(۴) مسلمان میرے خون کو حلال سمجھ بیٹھیں گے(یعنی مجھے قتل کر دیں گے) اور اس برے کام کو اچھا سمجھیں گے ۔

مگر اب حالات کااربابِ دین سے تقاضا ہے کہ وہ ساری خلق خدا کو نظر رحمت سے دیکھیں اور بحث ومباحثہ ترک کردیں ۔ میں نے اُس کی بارگاہ میں التجاکی جس کے قبضہ میں تمام مخلوق اور ہر معاملہ ہے کہ وہ مجھے ایسی کتاب لکھنے کی توفیق عطا فرمائے جس پر سب کااتفاق ہو اور اسے پڑھ کر لوگ فائدہ اٹھائیں پس اس نے میری التجا قبول فرما ئی کیونکہ جب کوئی بے چین ومُضْطَر اسے پکارے تو وہ اس کی پکار سنتا ہے، اس نے اپنے فضل سے مجھ پر اس تصنیف کے راز آشکار فرمائے اور ایک ایسی منفرد ترتیب الہام فرمائی جوعلومِ دینیہ کے حقائق پر مشتمل میری سابقہ کتب میں نہیں تھی، یہ میری وہ تصنیف ہے جس کی تعریف میں خود کرتا ہوں ۔ توفیق دینے والا اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی ہے ۔(منھاج العابدین ص 13-14 مکتبہ المدینہ)

اہلِ سنّت کی علامت

سوال: امام زین العابدین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کس چیز کو اَہلِ سنّت کی علامت قرار دیا؟

جواب: امام زین العابدین حضرت سَیِّدُنا ابوالحسن علی بن حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ارشاد فرمایا : رسولِ پاک ، صاحبِ لولاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کثرت سے درود پڑھنا اہلِ سنّت کی علامت ہے ۔(القول البدیع ، الباب الاول ، قول علی زین العابدین علامة ۔ ۔ ۔ الخ ، ص۱۳۱ ، رقم : ۵


پردے کی اہمیت

Tue, 24 Aug , 2021
2 years ago

٭اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مسلمان مردوں اور عورتوں کو نگاہ نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے (پ۱۸،النور:۳۱)Xبے پردگی سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ناراض ہوتا ہے اور بے پردگی تباہی وبربادی کا سبب بنتی ہے(نور العرفان،پ۱۸،النور،ص۵۲۲،تحت الایۃ:۳۱ماخوذا)4احاديث مبارکہ: حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ خَلادرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا بیٹا جنگ میں شہید ہو گیاتو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے چہرے پرنِقاب ڈالے باپردہ بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں حاضِر ہوئیں ، اِس پر کسی نے حیرت سے کہا :اِس وقْت بھی آپ نے مُنہ پر نِقاب ڈال رکھا ہے؟ کہنے لگیں : میں نے بیٹاضَرور کھویا ہے، حیا نہیں کھوئی۔ (سُنَنُ اَبِی دَاود،کتاب الجھاد،باب فضل قتال الخ،۳ /۹،حدیث :۲۴۸۸) ٭ معراج کی رات سروَرِ کائنات، شاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جو بعض عورَتوں کے عذابات کے ہولناک مَناظرمُلاحَظہ فرمائے، اُن میں یہ بھی تھا کہ ایک عورت بالوں سے لٹکی ہوئی تھی اور اُس کا دماغ کھول رہا تھا۔سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں عرض کی گئی کہ یہ عورت اپنے بالوں کو غیر مردوں سے نہیں چُھپاتی تھی۔ (اَلزَّوَاجِر، الکبیرۃ الثمانون بعد المائتین،۲/۹۷) ٭نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے اِستفسار فرمایا:”عورت کے لیے کون سی چیزسب سے بہتر ہے “سبھی خاموش رہے ،حضرت سیّدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اپنے گھر آئے اور خاتونِ جنّت حضرت سیِّدہ فاطمۃ الزہرا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے یہی سوال پوچھا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے ارشاد فرمایا:”(عورتوں کے لیےسب سے بہتر یہ ہے کہ )مرد انہیں نہ دیکھیں اور نہ عورتیں غیر مردوں کو دیکھیں ۔“جب واپس آکرآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے یہ جواب بارگاہِ رسالت میں پیش کیا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے ۔(مسند البزار،ماروی علی بن زید الخ،۲/۱۵۹،حدیث:۵۲۶) ٭سرکارِ دو عالم،نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا :جب قیامت کا دن ہوگاتوایک مُنادی ندا کریگا۔اے اَہلِ مَجمع! اپنے سر جُھکاؤ آنکھیں بند کر لو ،تاکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شہزادی حضرت فاطِمہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا صِراط سے گزریں۔ (اَ لْجامِعُ الصَّغِیر،حرف الھمزۃ، ص۵۷، حدیث:۸۲۲ ) ایک وسوسے کا علاج :حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :جن احادیث میں عورتوں کا باہر نکلنا آتا ہے وہ یا تو پردہ فرض ہونے سے پہلے تھایا کسی ضرورت کی وجہ سے پردہ کے ساتھ تھا۔ان احادیث کو بغیر سوچے سمجھے بے پردگی کیلئے آڑ بنانا محض نادانی ہے۔(اسلامی زندگی ،ص۱۰)پردے کے 10فوائد: ٭ پردہ عزت کا محافظ ہے ٭پردے کی برکت سے دل کو پاکیزگی اور تقویٰ جیسی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں ٭پردے سے حیا وغیرت جیسے اوصاف پیدا ہوتے ہیں ٭پردہ عفت و پاکدامنی کی نشانی ہے ۔٭پر دے کی برکت سے شیطانی وسوسے دور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے تہمت ،بہتان اور بدگمانی سے حفاظت رہتی ہے ٭پردہ حیا پیدا کرنے کا ذریعہ ہے اور حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے ٭پردہ ایک ایسے قلعے کی طرح ہے جس میں ہر ایک کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی ٭پردہ دراصل پرہیزگاری کی علامت ہے٭ پردے کی برکت سےمعاشرے کو بدکاری کی آفت سے نجات ملتی ہے ٭پردے کی برکت سے عبادت میں لذت حاصل ہوتی ہے ۔4سائنسی فوائد:٭حجاب پہننے سے منہ اور ناک کے ذریعے لگنے والی بیماریوں مثلاً ڈسٹ الرجی فلواور دیگروائرل ڈیزیززوغیرہ سے خواتین کو تحفظ حاصل ہو جاتا ہے۔٭ پردہ کرنے سے جِلد کے کینسر سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ ٭سر کو ڈھانپ کر رہنے والے افراد پیشانی کے امراض کا شکار کم ہوتے ہیں۔ ٭ برقعہ پہننے والی خواتین کی نہ صرف جلدچہرہ ناک منہ اوربالوں کو تحفظ حاصل ہوتا ہے بلکہ وہ مضرِ صحت آلودگیوں وائرس اورنظامِ تنفس نیز اس سے متعلقہ دیگر اعضا کے امراض سے بھی محفوظ رہتی ہیں ۔بے پر دگی کے3 دنیوی نقصانات : ٭بے پر دگی سے بدنگاہی میں اضافہ ہوتا ہے اور بدنگاہی حافظے کی کمزوری اور محتاجی وتنگدستی کا سب سے بڑا سبب ہے ٭بے پر دگی جھگڑوں اور بعض اوقات قتل و غارت کا سبب بن جاتی ہے ٭بے پر دگی کی وجہ سے انسان بدکاری جیسے بدترین گنا ہ میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔بے پردگی کے 2اخروی نقصانات: ٭جس نے نامحرم سے آنکھ کی حفاظت نہ کی اس کی آنکھ میں آ گ کی سلائی پھیری جائے گی (بحرالدموع،ص۱۷۲) ٭ جو کوئی اپنی آنکھوں کو حرام نظر سے پُر کرے گا اللہ عَزَّ وَجَلَّ قیامت کے روز اُس کی آنکھوں کو آ گ سے بھردے گا ۔(مکاشفۃ القلوب،الباب الاول فی بیان الخوف،ص۱۰) مزید معلومات کے لیےشیخِ طریقت امیرِ اہل سنّت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس قادری رضوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی کتاب”پردے کے بارے میں سوال جواب“ کا مطالعہ فرمائیے۔

سنّتوں بھری زِنْدَگی گزارنے کے لئے دعوتِ اِسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے۔


تذکرۂ داداجی میاں صاحب

Fri, 20 Aug , 2021
2 years ago

تذکرۂ داداجی میاں صاحب

حضرت سیدمبارک شاہ محدثِ الوری رحمۃ اللہ علیہ بنام

الورکے پہلے محدث

حضرت علامہ سید مبارک شاہ محدثِ الوری رحمۃ اللہ علیہ دسویں سن ہجری کے عظیم عالم،محدث،فقیہ ،شیخ طریقت اور صاحب ِکرامت ولی اللہ تھے ،اہل الور(صوبہ راجستھان ،ہند)کو آپ سے علم وعرفان حاصل ہوا،چونکہ بادشاہانِ وقت آپ کے عقیدت مندتھے اس لیے آپ کی برکت سے انہوں نے اس علاقے پر توجہ دی، جس کی وجہ سے اس خطے نے بہت ترقی کی،اس مضمون میں محدث الوری کا ذکرخیرکیا جاتاہے ۔

پیدائش

حضرت علامہ سیدمبارک شاہ محدثِ الوری المعروف داداجی میاں صاحب کی پیدائش ایک سادات گھرانے میں تقریباً 897ھ مطابق 1491ء میں ہوئی ،آپ کے والدِگرامی حضرت علامہ ابوالمبارک حنفی رحمۃ اللہ علیہ خاندانِ سادات کے چشم و چراغ تھے ۔(1)

دہلی سے راجستھان کی جانب ہجرت

داداجی میاں صاحب کی رہائش دہلی میں تھی ،اس زمانے میں بادشاہانِ ہند کا دارالحکومت دہلی تھا اوراللہ والے دربارِ شاہی سے عموماً دور رہتے ہیں، آپ نے وہاں سے ہجرت کرکے دہلی سے جنوب مغرب کی جانب راجستھان(2) جانے کا فیصلہ کیا۔ جب آپ جے پور(3) کے جنگل قلعہ آمیر(4) میں پہنچے تو جے پورکے راجہ نے آپ کا استقبال کیا اوراپنے ہاں رُکنے کی درخواست کی، آپ نے درخواست قبول کرلی ،اس نے آپ کی خدمت میں تحفے تحائف پیش کئے مگرآپ نے قبول نہ فرمائے ،پھراس نے اپنا مسئلہ بیان کیا کہ بادشاہِ وقت مجھ سے ناراض ہے آپ سفارش کردیں ،آپ نے سفارش کرنے سے بھی انکارکردیا اورجے پورسے الورتشریف لے آئے ۔ (5)

الورکی صورت حال

الور(6) اس زمانے میں علاقۂ میوات(7) کا مرکزی مقام تھا ،خان ِخاناں عبدالرحیم،ترسون محمدعادل اورحسن خان میواتی وغیرہ یہاں کے والی میوات تھے۔(8)انھوں نے اپنے اپنے دورِحکومت میں الورمیں کافی ترقیاتی کام کروائے، مساجد اور مزاراتِ بزرگانِ دین تعمیرکروائےگئے، الور کے مشہور قلعے کی تعمیربھی حسن خان میواتی نے کروائی، الور شہر کے جنوب میں کوہِ اراولی پربت (کالاپہاڑ)ہے ،الورشہراس سے جانبِ شمال میدانی علاقے پر مشتمل ہے ، یہ پہاڑی سلسلہ اگرچہ خشک ہے مگراس میں جابجاچشمے نکلتے اورموسم برسات میں آبشاریں(9) بہتی ہیں جس کی وجہ سے اس کے بہت سے مقامات سرسبزوشاداب ہونے کی وجہ سے قابلِ دیدہیں ،برسات کے موسم میں اس کی دلکشی میں اضافہ ہوجاتاتھا،داداجی میاں حضرت سید مبارک شاہ محدثِ الوری کو یہ مقام پسندآیا اورآپ الورکے باہر کوہ اراولی پربت کے دامن میں قیام پذیرہوئے اورعبادت میں مصروف ہوگئے ۔ (10)

بادشاہ ِہند سلیم سوری کی عقیدت

داداجی میاں صاحب کے قیام الورکے ایام میں بادشاہِ ہند سلیم سوری(11) الورآیا ،مسلم ہوں یا غیرمسلم سب حضرت سیدمبارک شاہ الوری رحمۃ اللہ علیہ کی بزرگی کے قائل تھے ،بادشاہ کو بھی آپ سے بہت عقیدت ہوگئی ، وہ آپ کی خدمت میں حاضرہوتا اوراپنے ہاتھ سے جوتے سیدھے کرنا اپنے لیے سعادت سمجھتا ۔(12)جیساکہ مرقع الورمیں ہے :سلیم شاہ کے دل میں ان کی ولایت کا عقیدہ آیا اورسب سے زیادہ ان پر اعتقادلایا ،حتی کہ روزانہ خدمتِ شیخ میں جاتاتھا اورآپ کے قدموں میں سرجھکاتاتھا ،کئی بارجوتاآپ کا بادشاہ نے خودصاف کیا اورغلاموں کی طرح بے تکلف کام خدمت ِگاری کی ۔(13) یہی وجہ ہے کہ افغان قوم کے ہاں آپ بہت مقبول اوراثرورسوخ رکھتے تھے ۔(14)

یادگارواقعہ

963ھ مطابق1556ء میں مشہورولی اللہ حضرت شیخ محمدسلیم(15) فتح پوری چشتی(16) افغانوں کے ہاتھوں آزمائش میں مبتلا ہوئے ،واقعہ کچھ یوں ہے کہ جب سوری سلطنت کے افغانوں کوسلطنت مغلیہ سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا تو انہوں نےحضرت شیخ محمدسلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کوفتح پورسیکری (17)سے اس غلط فہمی میں پکڑکر رن تھمبور قلعے (18) میں قید کرلیا کہ ان کے پاس مال ودولت کاخزانہ ہوگا، جب داداجی میاں صاحب کو معلوم ہواتو آپ بُساور(موجودہ نام بُھساور(Bhusawar)نزدبھرتپور،راجستھان)کے راستے سے رن تھمبورقلعے پہنچے اورافغانوں سے آپ کو آزادکروایا۔(19)

حج بیت اللہ کی سعادت

داداجی میاں صاحب نے دوحج کئے ،چنانچہ مرقع الورمیں ہے :شیخ مبارک صاحب نے دوبارحج بیت اللہ کا شرف پایا۔ (20)

مشہورمؤرخ ملاعبدالقادرآپ کی خدمت میں

مشہورمؤرخ ملا عبدالقادربدایونی نے دوبارشیخ مبارک کی زیارت کی ،پہلی مرتبہ یہ اپنے والدملاملوک شاہ حنفی بدایونی صاحب کے ہمراہ 963ھ مطابق1556ء میں زیارت سے مشرف ہوااوردوسری مرتبہ 987ھ مطابق 1579ء میں زیارت کی ۔چنانچہ منتخب التواریخ میں ہے :میری سولہ سال عمرتھی (21)،اپنے والدکے ساتھ بساورمیں ان کی ملازمت میں حاضرہواتھا ،بعدازاں جب 987ھ میں اکبراجمیرسے فتح پورکے راستہ سے ہوکرآتاتھا تومیں دوبارہ ان کی خدمت میں حاضرہواتھا۔(22)

کثیرالفیض مؤثرشخصیت

داداجی میاں صاحب کے الورمیں مقیم ہونے سے خوب اسلام پھیلا،غیرمسلم جوق درجوق اسلام میں داخل ہوئے، لوگوں کو ظاہری وباطنی اور دینی ودنیاوی فوائدحاصل ہونے لگے ،چونکہ آپ بہترین عالمِ دین ،صاحبِ کرامت ولی اللہ اور کثیرالفیض تھے اس لیے لوگوں کا آپ کی طرف بہت رجوع تھا۔ (23) آپ صاحبِ کمال بزرگ تھے،آپ کی ذات میں سخاوت اور ایثارپسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،مخلوقِ خدا پر کثیر مال خرچ کیا کرتے تھے،حاجت مندوں کی مددکرتے اورامراءبھی خالی ہاتھ نہ جاتے ۔(24)

شیخ مبارک اوراکبربادشاہ

داداجی میاں صاحب کی ولایت اوراثرپذیری کی خبریں اکبربادشاہ تک بھی پہنچی، اسے ان سے ملنے کا شوق پیداہوا۔ 987ھ مطابق 1579ء کوبادشاہ ایک مہم کے لیے اس علاقے کی طرف آیا ،اس کا گزر الورسے ہواتو اس نے آپ کی زیارت کا قصد(ارادہ)کیا، پیغام دینے والے نے سیدمبارک شاہ صاحب کو اطلاع دی ،آپ نے فرمایا کہ بادشاہ کس طرح آنا چاہتاہے؟بتایا گیا ہاتھی پر بیٹھ کر ،آپ ایسے مکان میں تھے جس کا دروازہ اتنا چھوٹاتھا کہ ہاتھی سوارتوکیا ،گھڑسواربھی داخل نہیں ہوسکتاتھا ،بحرحال آپ نے بادشاہ کوآنے کی اجازت دی ،آپ کی کرامت سے وہ دروازہ اتنا کشادہ ہوگیا کہ بادشاہ ہاتھی پر سوارہوکر اس مکان میں حاضرہوا،ملاقات ہوئی ، جب وہ واپس جانے لگاتو دروازہ اپنی اصلی حالت میں آگیا، آپ نے فرمایا: فقیروں کا امتحان لینے آیا ہے ،اب خود بھی کچھ کرکے دِکھا،بادشاہ مکان کی دیوارتوڑکر باہرآیا ،پھراس نے آپ کی بہترین رہائش اوروسیع وعریض مسجداورپختہ باؤنڈری تعمیرکروادی ۔(25) یہ وہی مقام ہے جو محلہ دائرہ کہلاتاہے۔ بادشاہ اس کرامت سے مزید متاثرہوا،اس نے دوگاؤں جو سلیم شاہ سوری نے آپ کے آستانے کے اخراجات کے لیے وقف کئےتھے وہ بحال کردئیے اورمزیدسات سوبیگہ زمین پر مشتمل الورکاچنبیلی باغ بھی پیش کیا۔(26)

وفات ومدفن

داداجی میاں صاحب حضرت سیدمبارک شاہ محدثِ الوری رحمۃ اللہ علیہ کاوصال 22محرم 987ھ مطابق 21مارچ 1579ء کو نوے (90)سال کی عمرمیں الورمیں ہوا۔ تدفین الورشہرسے باہر ہوئی،بعدمیں مرقدپر عالیشان مزار تعمیرکروایاگیا ۔(27)

عرس ومحفل

خلیفۂ اعلیٰ حضرت، امام المحدثین حضر ت علامہ مفتی سید دیدارعلی شاہ الوری (28) کے چچاجان صوفی کامل، مرشد دوراں، عالم باعمل حضرت سیدنثارعلی شاہ رضوی مشہدی قادری چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ (29)آپ کے مزارپر مراقبہ کرتے اورہرسال عرس کروایا کرتے تھے ،عرس کی ایک نشست میں علمائے اہل سنت کے بیانات ہوتے تھے ۔(30)

اللہ پاک کی داداجی میاں حضرت سید مبارک شاہ محدثِ الوری پر رحمت ہو اورانکے صدقے ہماری مغفرت ہو۔

حواشی ومراجع

(1)مستفاد، منتخب التواریخ فارسی،563 ، روشن تحریریں ،130 ،نزھۃ الخواطر،4/251۔مقام ولادت معلوم نہ ہوسکا۔

(2)راجستھان کے لغوی معنی  راجاؤں کی جگہ ہے۔ تقسیمِ ہند سے پہلے اسے راجپوتانہ بھی کہا جاتا تھا۔ راجستھان بھارت کی ایک شمالی ریاست ہے۔ یہ بلحاظ رقبہ بھارت کی سب سے بڑی ریاست ہے ۔ راجستھان بھارت کے شمالِ مغربی حصےمیں واقع ہے ،اس کی زیادہ ترسرزمین بنجر اور بے آب و گیاہ(بغیرپانی ودرخت ) صحرائے تھار پر مشتمل ہے۔ راجستھان کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر جے پور ہے۔ دیگر اہم شہروں میں الور،جودھ پور، اودے پور ، کوٹہ، بیکانیر اور سوائی مادھوپور ہیں۔راجستھان کو ایک عظیم شرف یہ حاصل ہے کے اس کے شہراجمیرشریف میں سلطان الہند،خواجہ غریب نواز،معین الدین حضرت خواجہ سیدحسن سنجری اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا مزارپرانوارہے ، جس کی زیارت کرنے کے لیے ہند بلکہ دنیا بھرسے سالانہ کروڑوں لوگ آتے اورآپ کے فیوض وبرکات سے مالامال ہوتے ہیں ، راجستھان میں دنیا کے قدیم ترین پہاڑی سلسلوں میں مشہور سلسلہ کوہ اراولی پربت(کالاپہاڑ) بھی ہے۔ ان کے علاوہ بھرت پور، راجستھان میں پرندوں کے لئے مشہور یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل کیولاڈیو نیشنل پارک ہے اور تین نیشنل ٹائیگر ریزور ٭ سوائی مادھوپور میں رنتھمبور نیشنل پارک، ٭الورمیں سرسکا ٹائیگر ریزرو اور ٭کوٹہ میں مکندر ہل ٹائیگر ریزرو ہیں ۔

(3)جے پور جسے گلابی شہرکے نام سے بھی جانا جاتا ہے، بھارت میں راجستھان ریاست کا دار الحکومت ہے۔جے پور سیاحوں کے لیے بے پناہ کشش رکھتا ہے۔ 2008ء میں اسے ایشیا کا ساتواں بڑا سیاحتی مرکز قرار دیا گیا تھا۔

(4)آمیر قلعہ  ہند کی ریاست راجستھان کے آمیر شہر میں واقع ہے۔ اس کا کل رَقبہ 4 کلومْربع میٹر پر محیط ہے۔ آمیر قلعہ مغل راجپوت تعمیر کا ایک عمدہ شاہکار ہے،جو راجستھان کے دار الحکومت جے پور سے 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

(5)روشن تحریریں ،128۔

(6)الور(Alwar)ہند کے صوبے راجستھان کا ایک اہم شہرہے کوہ ِاراولی پربت کے دامن میں میدانی علاقے پر مشتمل ہے ، جو دہلی سے 150 کلومیڑکے فاصلے پر جانب جنوبِ مشرق ہے ۔ ( اردودائرہ معارف اسلامیہ ،3/203،میوقوم اورمیوات ،94،95)

(7)مختلف ادوارمیں میوات کے علاقے کا حدودواربعہ بدلتارہا ہے اس وقت علاقۂ میوات جسے کہا جاتاہے اس کی تفصیل یہ ہے:٭ریاست راجستھان: الور، لچھمن گڑھ، تجارہ، رام گڑھ،کشن گڑھ،گوبندگڑھ،کٹھومرکا کچھ حصہ، بھرت پور،کامس،پہاری اورنگرکا کچھ حصہ٭ریاستِ ہریانہ:سہنہ بلاک، نوح،فیروزپور،جھرکا،بلب گڑھ کا مغربی حصہ٭ریاست اْترپردیش: چھانہ ضلع متھرا کے مغربی دیہات۔ )میوقوم اورمیوات ،34 وغیرہ)

(8) 1372ء تا 1527ء خان زادہ راجپوت خاندان نے ریاست میوات پر حکومت کی اور اس وقت میوات ایک آزاد ریاست تھی۔ یہاں کے بادشاہ کو والی میوات کہا جاتا تھا۔

(9)جب پانی کے بہاؤ کے راستے میں نرم و سخت چٹانوں کی افقی(زمین سے آسمان کی جانب) تہیں یکے بعد دیگرے واقع ہوں، چٹانوں کی موٹائی زیادہ ہو اور نرم چٹانیں کٹ جائیں اور سخت چٹانیں اپنی جگہ باقی رہیں تو پانی ایک چادر کی شکل میں بلندی سے گرتا ہے، اسے آبشار (Waterfalls )یا جھرنا کہا جاتا ہے۔

(10)روشن تحریریں ،128،129۔

(11)سلیم شاہ کا اصل نام اسلام خان سوری تھا،یہ بانی سوری سلطنتِ شیرشاہ سوری کا دوسرابیٹااورسلطنتِ سوری کا دوسراحکمران تھا ،اس کا انتقال 961 ھ مطابق 1554ء میں ہوا۔

(12)تذکرہ اولیائے راجستھان ،2/39۔

(13)مرقع الور،49۔

(14)تذکرہ صوفیائے میوات ،292۔

(15)یہ واقعہ کس شخصیت کے بارے میں ہے ؟منتخب التورایخ فارسی میں ایک لائن میں شیخ اسلام فتح پوری اوردوسری لائن میں نام شیخ اسلیم لکھا ہے ،(منتخب التواریخ فارسی،۵۷۳،مرکزتحقیقات ،رایانہ ای قائمیہ اصفحان،ایران)البتہ منتخب التواریخ کے سب سے پہلےترجمے (جومولانا احتشام الدین مراد آبادی نے کیا ہے جسے مطبع نولکشور، لکھنؤ سے 1889ء میں شائع کیا گیا)میں شیخ سلیم فتحپوری لکھا ہے۔(منتخب التواریخ ،۴۴۶) یہی درست معلوم ہوتاہے ۔کیونکہ شیخ سلیم فتحپوری چشتی اورشیخ سیدمبارک شاہ الوری کا ایک ہی زمانہ ہے نیز اس زمانے میں شیخ اسلام فتح پوری نام سے کوئی مشہورشخصیت کا تذکرہ نہیں ملا۔

(16)شیخ الہند حضرت سیدنا شیخ محمدسلیم چشتی فاروقی کی ولا دت 884 ھ مطابق 1480ءمیں سرائے علاء الدین زندہ پیرمحل دہلی ہند میں ہوئی۔آپ نے 29 رمضان المبارک979ھ مطابق 14فروری 1572ءکو وصال فرمایا،آپ کاعالی شان روضہ فتح پور سیکری(ضلع آگرہ، یوپی) ہندمیں ہے۔آپ اکابراولیائےہندسے ہیں۔(تحفۃ الابرار،ص251،اخبار الاخیارمترجم، ص566، خزینۃ الاصفیاء، 2/363،361)

(17)فتح پور سیکری بھارت کے صوبہ اْتر پردیش میں واقع ایک شہر ہے۔ یہ آگرہ شہرسے 35 کلو میٹر دورواقع ہے۔ اس کی تعمیر مغل شہنشاہِ اکبر نے 1570ء میں شروع کی اور شہر 1571ء سے 1585ء تک مغل سلطنت کا دار الحکومت رہا۔ شہر کی باقیات میں سے مسجد اور محل عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیے جا چکے ہیں اور سیاحت کے لیے مشہور ہیں۔

(18)تاریخی رَن تھمبور قلعہ جنوبِ مشرقی راجستھان کے سوائی مادھو پور ضلع میں واقع ہے ، یہ کوٹہ کے شمال مشرق میں تقریبا 110 کلومیٹر اور جے پور سے 140 کلومیٹر جنوبِ مشرق میں ہے ، سوائی مادھو پورشہراس قلعے سے 11کلومیٹرکے فاصلے پرموجودہے ،جس میں ائیرپورٹ بھی ہے ۔اس قلعے کے آس پاس کے علاقے کو 1980ء میں حکومت ہند نے رَن تھمبور نیشنل پارک  کا نام دیاگیا ہے جس کا احاطہ 282 کلومیٹر ہے ۔ اس کا نام تاریخی رَن تھمبور قلعے کے نام پر رکھا گیا ہے ، جو پارک میں واقع ہے۔جہاں جنگلی جانورچیتے،ریچھ اورنیل گائے وغیرہ کثرت سے پائے جاتے ہیں۔اس تفریحی مقام میں لوگ ملک بھرسے آتے ہیں ۔

(19) مرقع الور ،49،50۔

(20)مرقع الور،57۔

(21)ملاعبدالقادر بدایونی کی پیدائش 947ھ مطابق 1541ء کی ہے ،اس اعتبارسے یہ سال963ھ ہے۔

(22) منتخب التواریخ مترجم ،446۔

(23)روشن تحریریں ،128 ۔

(24) تذکرہ اولیائے راجستھان ،2/39۔

(25) تذکرہ صوفیائے میوات ،294۔ روشن تحریریں صفحہ 129میں یہ واقعہ شاہ جہاں کی طرف منسوب کیا ہے مگریہ بات درست نہیں ،دیگرتمام کتب میں اکبربادشاہ کانام لکھا ہے ۔

(26) تذکرہ صوفیائے میوات ،295۔

(27)نزھۃ الخواطر،4/251،روشن تحریریں ،130۔

(28) امامُ الْمُحدِّثین حضرت مولانا سیِّد محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ ، جَیِّد عالِم، اُستاذُالعُلَما اورمفتیِ اسلام تھے۔ آپ اکابرینِ اہل سنّت سے تھے۔ 1273ھ مطابق 1856 ءکو اَلْوَر (راجِسْتھان) ہِند میں پیدا ہوئے اور لاہور میں 22رجب 1345ھ مطابق 26جنوری 1927ءمیں وِصال فرمایا۔ دارُالعُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہوراور فتاویٰ دِیداریہ آپ کی یادگار ہیں۔ آپ کا مزارِ مُبارَک اَندرونِ دہلی گیٹ محمدی محلّہ ،اندرون لاہور میں ہے۔(فتاویٰ دیداریہ، ص2)

(29)صوفی کامل،مرشدِدوراں،عالمِ باعمل حضرت سیدنثارعلی شاہ قادری چشتی صابری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت تقریباً 1840ء میں قصبہ موج پور( لچھمن گڑھ،راجستھان)میں ہوئی اور6شوال 1328ھ مطابق 11اکتوبر 1910ء کوالورمیں وصال فرمایا ،آپ عالمِ باعمل، سلسلہ قادریہ چشتیہ کے شیخِ طریقت اورالورکی مؤثرشخصیت تھے ۔(روشن تحریریں،۱۳۲تا۱۳۹)

(30)سیدی ابوالبرکات ،118۔



[1]…… معجم کبیر،حسن بن حسن بن علی عن ابیہ،۳/۸۲ ،حدیث:۲۷۲۹ ۔


مولاناسردارعلی خان عزومیاں  رحمۃ اللہ علیہ

سرپرستِ اعلیٰ اول ادارۂ تحقیقاتِ امام احمدرضا انٹرنیشنل کراچی (1) شیخ الحدیث حضرت مفتی تقدس علی خان صاحب (2) کے برادرِ اصغر شیخ الحدیث مفتی اعجاز ولی خان صاحب (3) کے حالاتِ زندگی جمع کرنے کے دوران معلومات ہوئیں کہ مفتی اعجاز ولی خان صاحب کے ایک استاذ مولانا الحاج سردارعلی خان عزومیاں صاحب بھی ہیں جن کی تدفین ملتان شریف میں ہوئی ،راقم کو کچھ تنظیمی کاموں کے لئےدودن کراچی سے ملتان جانا تھااس لئے وہاں کے احباب مولانا حافظ محمد افضل مدنی صاحب اورحافظ ریحان احمدعطاری صاحب (مؤلف کتاب فیضان اعلیٰ حضرت،ناشرشبیربرادرز لاہور )سے ان کےخاندان سےرابطہ اور مزارکو تلاش کرنے کا کہا۔ راقم بذریعہ عادل کوچ 18شوال 1442ھ مطابق 30مئی 2021ء ملتان پہنچا، بعدِعصر طے ہواکہ ہمیں مزارشریف واقع شاہ شمس قبرستان (قدیم خانیوال روڈ) جانا ہے۔بتایا گیا برادرِ اسلامی محمدکاشف عطاری صاحب ملتان میں موجودخانوادۂ اعلیٰ حضرت سے رابطے میں ہیں ،مولانا سردارعلی خان صاحب کے پوتے جودت علی خان صاحب خودقبرستان آئیں گے،بعدِعصر حاجی ندیم احمدعطاری صاحب کی گاڑی پر ہم قبرستان پہنچے ، تھوڑی دیربعدجودت علی خان صاحب بھی اپنے صاحبزادے سردارعلی خان ثانی صاحب کے ہمراہ تشریف لے آئے ، مولانا سردارعلی خان عزومیاں اورخانوادہ اعلیٰ حضرت کے چنداورافراد کی قبورشاہ شمس قبرستان برلب سڑک پر واقع ہیں، وہاں جاکر فاتحہ خوانی کی، اس کے بعد کا شف صاحب کے والدین کی قبورپر فاتحہ کرنےکے بعد برادرِ اسلامی محمداویس عطاری صاحب کی دکان پر آئے، وہاں جودت علی خان صاحب سے کچھ حالات معلوم کئے نیز حافظ ریحان صاحب نے بتایا کہ میری کتاب فیضانِ اعلیٰ حضرت میں دو مقامات پر مولاناسردارعلی خان صاحب کا تذکرہ موجودہے، ان اور دیگرتمام معلومات کی روشنی میں یہ مضمون تیارکیا گیاہے :

اعلیٰ حضرت سے رشتہ

مولانا الحاج سردار علی خان عزومیاں رشتے میں اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ(4) کے پوتے ہیں۔ اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیے: اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے پڑدادا حافظ کاظم علی خان صاحب (5) کے تین بیٹے ٭امام العلماءمولانا رضا علی خاں(6) ٭رئیس الحکماء حکیم تقی علی خان (7)٭جعفرعلی خان اورچاربیٹیاں تھیں، ان میں سے ایک بیٹی زینت موتی بیگم تھیں جن کا نکاح محمدحیات خان یوسف زئی سے ہوا، ان کے دوبیٹے نعمت (عرف بزرگ) علی خان اورکوچک خان تھے،نعمت (عرف بزرگ ) علی خان کے ایک بیٹے حاجی وارث علی خان تھے جن کی شادی اعلیٰ حضرت کی ہمشیرہ حجاب بیگم سے ہوئی۔(8) حجاب بیگم مولانا سردارعلی خان صاحب کی دادی صاحبہ ہیں ،(9) یوں اعلیٰ حضرت رشتے میں مولانا سردارعلی خان صاحب کے داداہوئے۔

مفتی تقدس علی خان صاحب سے رشتہ

مذکورہ حاجی وارث علی خان صاحب کے دوبیٹے ٭حاجی واجدعلی خان ٭حاجی شاہدعلی خان اور تین بیٹیاں ٭کنیز خدیجہ زوجہ علی احمدخان٭کنیزعائشہ زوجۂ حجۃ الاسلام علامہ حامدرضاخان٭کنیز فاطمہ زوجہ مولانا سردارولی خان (مفتی تقدس علی خان صاحب کی والدہ)تھیں۔یوں مفسرِ ہند مولانا ابراہیم رضا خان جیلانی میاں(10)، مولانا حماد رضا خان نعمانی میاں (11) اور مفتی تقدس علی خان صاحب ،مولانا سردارعلی خان عزومیاں کے پھوپھی زادبھائی ہیں اورحجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب(12) آپ کے پھوپھا ہیں ۔حاجی وارث علی خان صاحب کےبیٹے حاجی واجدعلی خان صاحب کی شادی مستجاب بیگم سے ہوئی، ان کی ایک بیٹی کنیز رسول زوجہ مظفرحسین بدایونی اور تین بیٹے ٭مولانا سردارعلی خان عزومیاں ٭ماجدعلی خان ٭اورحاجی ساجدعلی خان تھے۔

پیدائش

مولانا الحاج سردارعلی خان عزومیاں کی ولادت بریلی میں تخمیناً1320ھ مطابق1902ء کو ہوئی ۔ملک العلما مولانا ظفرالدین محدث بہاری رحمۃ اللہ علیہ (13) نے آپ کے بچپن کے دوواقعات تحریرکئے گئے ہیں : (1)مولوی سردار علی خان صاحب عرف عزومیاں کی اوائلِ عمری میں ایک شب عشاء کی نماز کے وقت دروازہ سے کسی نے اُن کی نسبت پوچھا ’’ وہ بچہ اچھا ہے ؟‘‘مکان میں سے کسی نے جا کر دیکھا تو کوئی نہ تھا دوسری شب پھر آواز آئی ’’وہ بچہ اچھا ہے ؟‘‘ یونہی تیسری شب پھرآواز آئی ’’وہ بچہ اچھا ہے؟ ‘‘۔ اب فکر لاحق ہوئی اور لو گ وقت ِمقر رہ پر چھپ کر جا بجا کھڑے ہو گئے، سب نے آواز بدستور سنی مگر آواز دینے والا نظر نہ آیا۔ بالآخر چار پانچ روزیونہی گزر جانے کے بعد عزو میاں کی دادی صاحبہ (حجاب بیگم)نے جو سیدی اعلیٰ حضرت کی بڑی ہمشیرہ تھیں ارشادفرمایا کہ ’’امَّن میاں‘‘کو بلاؤ۔ (اعلیٰ حضرت کی والدہ انہیں اَمّن میاں کے نام سے پکارا کرتی تھیں) چنانچہ اعلیٰ حضرت حسبِ طلب وہاں پہنچے اور بہن کی کرسی کے برابر والی کرسی پر صحن میں بیٹھ گئے اور آواز کا انتظار کرنے لگے ، آواز آنے کا وقت گزرے ہوئے کچھ دیر ہوئی اور آواز نہ آئی تو اعلیٰ حضرت نے ارشاد فرمایا : بنو میا ں کو شبہ ہوا ہو گا کہاں آواز آئی؟ انہوں نے کہا ’’ نہیں ایسا نہیں ،کئی دن سے سب لوگ برابر سن رہے ہیں ‘‘ فرمایا :خیر میں بیٹھا ہوں اورپھر باتیں کرنے لگے ۔ غرض نصف گھنٹے سے زائد قیام فرمایا مگر آواز نہ آئی ،آخرِ کا ر کاشانۂ اقدس تشریف لے گئے ،ابھی قریب پھاٹک کے تھے کہ آپ کے جاتے ہی آواز آئی ’’وہ بچہ اچھا ہے؟‘‘ اعلیٰ حضرت واپس تشریف لے آئے اور صبح نمازِ فجر پڑھ کر ایک تعویذ لکھ کر عزومیاں کے گلے میں ڈلوادیا اور فرمایا ’’ اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اب آواز نہ آئے گی‘‘۔چنانچہ اس روزکے بعد سے آج تک وہ آواز نہیں سنی گئی ۔ (14)

(2) رمضان المبارک کا مہینہ ہے سحری کے وقت عزومیاں بیدار ہوتے ہیں، دیکھتے ہیں کہ جس برتن میں دودھ رکھا تھا ، ایک بلی منہ ڈالے ہوئے پی رہی ہے، انہوں نے لکڑی اٹھا کر ایک ایسی ضرب لگائی کہ وہ فوراً مر گئی، حضرت مخدومہ محترمہ دادی صاحبہ (حجاب بیگم)یہ کیفیت دیکھ کر ان پر بہت ناراض ہوئیں اور زعفران خادمہ سے فرمایا کہ اس بلی کو باہر پھینک دے، وہ پیش مسجد (سامنے کے حصے میں )افتادہ (ناکارہ)زمین پر بیری کے درخت کے نیچے ڈال دیتی ہے، اب نمازِ فجر کے وقت دادی صاحبہ ملاحظہ فرماتی ہیں کہ وہی بلی عزو میاں کی چار پائی کے پاس مردہ پڑی ہے اور اگلے دنوں پاؤں غائب ہیں، غرض فورا ًاعلیٰ حضرت کو مسجد سےبلایا گیا ،حضور تشریف لائے اور فرمایا اس کو نظر بد تھی، اسی لیے بلی کےدونوں ہاتھ قلم کردیئے گئے اور عزو میاں کو سوتا ہوا دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ اس کے ا ٹھنے سے پہلے اس بلی کو فوراً چھپا دیا جائے چنانچہ بتعجیل(جلدی سے) اسی جگہ دفن کرادیا اورحضور نے ایک تعویذ ارقام (تحریر)فرما کر عزومیاں کے گلے میں ڈلوا دیا۔(15)

تعلیم وتربیت

آپ نے ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی پھر دارالعلوم منظراسلام (16) میں داخلہ لے لیا ۔ابتدائی تعلیم میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی ،پھر اعلیٰ حضرت کی شفقت ونظرکرم سے کُتُب بینی کا ایسا شوق پید ہواکہ اپنے ساتھیوں سے سبقت لے گئے چنانچہ آپ خود بیان کرتے ہیں: مدرسے کے اوقات میں مولوی صاحب طلبہ کو درس دے رہے ہوتے ،مگر میرے کان بالکل ان کی تقریر سے نا آشنا رہتے تھے ،میں نہ کبھی کتاب کا مطالعہ کر تا، نہ کبھی سبق یاد کرتا، فقط مدرسہ کے وقت کتاب ہاتھ میں لیتا اور پھر کتاب سے کوئی غرض مطلب نہیں ہوتی، اور اسی وجہ سے ڈر کے مارے اعلیٰ حضرت کے سامنے نہ آتا ، نمازوں کے اوقات میں جب نماز قائم ہو جاتی تو اخیر میں آکر شریک ہو جاتا اور سب سے پہلے ہی پڑھ کرمسجد سے نکل جاتا ۔

ایک روز نمازِ عشاء کے لئے یہ سوچ کر جاتا ہوں کہ پہلے ہی پڑھ کر چلا آؤں گا۔ بیرونی درجہ کی شمالی فصیل کے در میں بیٹھا ہی تھا کہ دفعتاً حضور (اعلیٰ حضرت) اندرونی درجہ سے نکل کر میرے قریب آکر کھڑے ہو گئے، اب قدم نہ آگے بڑھتا ہے نہ پیچھے ہٹتا ہے ۔اعلیٰ حضرت دریافت فرماتے ہیں کیا پڑھتے ہو ؟عرض کی’’ہدایہ آخرین و عقائدِ نسفی‘‘ حضور کو یہ سن کر بہت مسرت ہوئی ، ما شآء اللہ فرماتے ہوئے دست ِشفقت میرے سر پر پھیرا ، جس سے بالکل کایا پلٹ گئی ۔ مجھے کتب بینی کا شوق پیدا ہو جاتا ہے کہ کتاب ہاتھ سے چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا ، ذہن بھی ایسا رَسا(تیز) ہو گیا کہ اپنے ہم سبقوں میں ممتا ز ہو گیا ،بلکہ جس شب کا یہ واقعہ ہے اس کی صبح ہی کو جس وقت درجے میں جا کر بیٹھتا ہوں اور سبق شروع ہوتا ہے تو میرے استاد حضرت مولانا رحم الہٰی صاحب(17) مجھ میں فرق محسو س فرماتے ہیں۔ ان کی حیرت و استعجاب (حیرانی) پر میں نے سارا واقعہ بیان کر دیا کہ جس وقت سے حضور سید ی اعلیٰ حضرت نے میرے سر پر ہاتھ رکھا ہے میں خود اپنے آپ میں یہ تبدیلی محسوس کر رہا ہوں۔(18) آپ نے اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان، حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خان، حضرت مولانا رحم الہیٰ منگلوری ،حضرت علامہ مولانا ظہورالحسین فاروقی نقشبندی (19) اورمولانا حسنین رضا خان(20) رحمۃ اللہ علیہم سے شاگردی کا شرف پایا۔

فراغت اوردستاربندی

آپ دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف سےغالباً 1340ھ مطابق 1922ء کو فارغ التحصیل ہوئے ۔دستاربندی دارالعلوم منظراسلام کے اٹھارہویں سالانہ جلسے (بتاریخ 22تا24شعبان1340ھ مطابق 21تا23،اپریل 1922ء،جمعہ تااتوار بمقام خانقاہ رضویہ محلہ سوداگران) میں جیدعلماومشائخ کی موجودگی میں ہوئی۔(21)

سلسلۂ قادریہ میں بیعت وخلافت

مولانا سردارعلی خان عزومیاں نے سیدی اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان صاحب سے بیعت کا شرف حاصل کیا۔ آپ کو اعلیٰ حضرت سے بہت عقیدت تھی، آپ کا معمول تھا کہ دارالعلوم منظراسلام میں تدریس کے لئے کتب کا مطالعہ اعلیٰ حضرت کے مزارکے اس حصے میں کیا کرتے تھے جس جانب اعلیٰ حضرت کاچہرہ مبارک ہے یعنی جانبِ قبلہ اور اگر کوئی الجھن واقع ہوتی ہے تواعلیٰ حضرت کی نظر ِ کرم سے فوراً حل ہو جاتی تھی۔ (22)صاحبزادۂ اعلیٰ حضرت ،حجۃ الاسلام علامہ حامد رضا خان صاحب نے آپ کو سلسلہ قادریہ رضویہ کی خلافت واجازت سے نوازا۔(23)

دینی خدمات

مولانا سردار علی خان عزومیاں نے دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اسی میں تدریس کا آغازفرمایا، اولاً درجۂ اوّل اوردوم کے طلبہ کو درس دیا کرتے تھے۔(24) پھر دیگرکتابیں بھی پڑھانے لگے ،مفتی اعجاز ولی خان صاحب نے آپ سے تفسیر جلالین پڑھی۔(25) دارالعلوم منظراسلام میں تدریس کا سلسلہ شوال 1340ھ مطابق جون 1922ءتا شعبان1366ھ مطابق جون 1947ء تک 26سال جاری رہا، پاکستان بننے کے بعدمولانا سردار علی خان عزومیاں نےاپنی فیملی کے ہمراہ پاکستان ہجرت کی اورملتان کے علاقے جمال پورہ میں رہائش اختیارفرمالی ،یہاں انھوں نے ایک جائے نمازقائم فرمائی اوراپنی وفات تک تقریباً 7سال اس میں امامت وخطابت اورمحلے کے بچوں کو قراٰن مجید پڑھانے کاسلسلہ جاری رکھا ،آپ رات کا اکثرحصہ عبادت میں گزاراکرتے تھے۔

شادی واولاد

مولانا سردار علی خان عزومیاں کا نکاح مسنون اپنے چچا حاجی شاہدعلی خان کی بیٹی کنیز زہرہ عزوصاحبہ سے تقریباً 1345ھ مطابق1927ء کو ہوا،عزوصاحبہ کی والدہ مصطفائی بیگم اعلیٰ حضرت کی سب سے بڑی بیٹی تھیں جن کا انتقال اعلیٰ حضرت کی حیات میں ہی ہوگیا تھا ۔(26) یوں عزوصاحبہ اعلیٰ حضرت کی سگی نواسی تھیں، عزوصاحبہ کی ولادت تخمیناً 1325ھ مطابق 1907ء کوبریلی میں ہوئی اور آپ نے ملتان میں6جمادی الاولیٰ 1406ھ مطابق 17جنوری 1986ء کو 81سال کی عمرمیں وصال فرمایا ۔ مولانا سردارعلی خان صاحب کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں :

(1)افتخارعلی خان:ان کی پیدائش تقریباً 1354ھ مطابق 1936ء کو بریلی میں اور وفات 16صفر1416ھ مطابق 15جولائی 1995ء کو ملتان میں ہوئی ،شاہ شمس قبرستان میں والدصاحب کے قدموں میں مدفون ہوئے، افتخارعلی خان صاحب کی چاربیٹیاں اورتین بیٹے تھے۔ افتخارعلی خان صاحب کی بیٹیاں ٭زوجہ سید نوید احمد(ان کےدوبیٹے سیدجنید احمد، سید حماد احمد اورایک بیٹی ہیں) ٭زوجہ محمودعلی خان(انکی دوبیٹیاں ہیں) ٭بنت افتخار(انکی ایک بیٹی اورایک بیٹےہیں) اور٭زوجہ شاہ رخ سہیل(ان کے دوبیٹے اورایک بیٹی ہیں)ہیں۔ جبکہ افتخارعلی خان صاحب کےبیٹے ٭ذوالفقارعلی خان(ان کی دوبیٹیاں ہیں) ٭وجاہت علی خان(ان کے بیٹے شیزر علی خان ہیں) اور ٭جودت علی خان ہیں۔ جودت علی خان صاحب کے تین بیٹے سردار علی خان ،شرحبیل علی خان اورشہروزعلی خان ہیں ۔

(2)مختارعلی خان:ان کی پیدائش تقریباً 1360ھ مطابق 1941ءمیں ہوئی اورآپ نےاسلام آباد میں21 ربیع الآخر 1427 ھ مطابق 20مئی 2006ء کو وفات پائی اورگلشن کالونی ٹیکسلا (ضلع راولپنڈی )میں تدفین ہوئی ۔ آپ کی شادی مولانا حمادرضا خان نعمانی میاں کی بیٹی عترت بیگم سے ہوئی، عترت بیگم کی پیدائش1365ھ مطابق 1946ء کو بریلی میں ہوئی اوروصال22ربیع الاول 1426ھ مطابق یکم مئی 2005ء کو ملتان میں ہوا،شاہ شمس قبرستان میں تدفین ہوئی۔ان کے ایک بیٹےفوادعلی خان صاحب اورتین بیٹیاں سطوت عاطف،صباحت مرزا اورشازیہ ارشدہیں،فوادعلی خان صاحب کے ایک بیٹے مصطفی علی خان ہیں۔ (3)سرشارعلی خان سجادبریلوی: ان کی پیدائش تقریباً 1363ھ مطابق 1944ء کو بریلی میں اور وفات1423ھ مطابق2002 ء کو ملتان میں ہوئی ،انھوں نے شادی نہیں کی ۔ (4)انیس بیگم :ان کی پیدائش 1346ھ مطابق 1928ء کو بریلی شریف میں ہوئی ،یہ 1366ھ مطابق 1947ءکو دوران ہجرت 19سال کی عمرمیں وفات پاگئیں۔ (5)زاہدہ بیگم:ان کی چھ بیٹیاں اورتین بیٹے ،وسیم،ندیم اورکلیم ہیں ۔ (6)نجمہ بیگم: ان کی شادی محمدفاروق صدیقی صاحب سے ہوئی ، ان کےایک بیٹے جوادصدیقی اورایک بیٹی کنول ناز ہیں، جوادصدیقی صاحب کی ایک بیٹی کنیز فاطمہ اورتین بیٹےمحمدطلحہ صدیقی ،محمدبلال صدیقی اورمحمدفاروق صدیقی ہیں ۔جبکہ کنول ناز صاحبہ کی بیٹی خدیجہ کاشف شیروانی ہیں۔(27) اللہ پاک مولانا سردارعلی خان عزومیاں کے سارےگھرانے کو سلامت رکھے، انہیں اور ہم سب کو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے نقشِ قدم پر چلنے کی سعادت نصیب فرمائے ۔

وفات ومدفن

آپ نے صفرالمظفر 1374ھ مطابق اکتوبر1954ءکو مدینۃ الاولیا ملتان میں وصال فرمایا ،تدفین شاہ شمس قبرستان برلب سٹرک میں ہوئی ،آپ کی قبرایک چاردیواری میں ہے،اس چاردیواری میں جانب جنوب تین قبورہیں مولانا سردارعلی خان صاحب کی قبردرمیان میں ہے جبکہ جانبِ مشرق آپ کی اہلیہ کنیززہرہ بیگم عزوصاحبہ اورجانبِ مغرب عترت بیگم (زوجہ مختارعلی خان وبنت مولانا حمادرضا خان) کی قبرہے، قدموں کی جانب مولانا سردارعلی خان عزومیاں کی ہمشیرہ کنیزرسول اور بیٹے افتخارعلی خان مدفون ہیں ۔

حواشی ومراجع

(1)ادارۂ تحقیقاتِ امام احمدرضا انٹرنیشنل کراچی کومولانا سیدمحمدریاست علی قادری نوری صاحب نے 1400ھ مطابق1980ء میں قائم فرمایا ، جس کا مقصدتعلیماتِ رضا کا فروغ ہے۔ اس کی 40سالہ کارکردگی کےلئے دیکھئے:کتاب ’’ادارۂ تحقیقاتِ امام احمدرضا کی چالیس سالہ خدمات کا جائزہ۔‘‘

(2)تِلْمیذِ اعلیٰ حضرت، مفتی تَقدُّس علی خان رَضَوی رحمۃ اللہ علیہ عالِمِ باعمل، شیخُ الحدیث،خلیفۂ حجۃ الاسلام،شیخ طریقت ،سابق مہتمم دارالعلوم منظراسلام بریلی ،سابق شیخ الجامعہ جامعہ راشدیہ پیرجوگوٹھ سندھ اور استاذُ العلماء ہیں۔ رجب المرجب 1325ھ مطابق اگست 1907ءکو بریلی شریف ہند میں پیدا ہوئے اور 03رجب 1408ھ /22فروری 1988ءکو کراچی میں وصال فرمایا اور پیرجو گوٹھ ضلع خیرپور میرس سندھ کے قبرستان میں تدفین ہوئی ۔ (مفتیِ اعظم اور ان کے خلفاء، ص 268، 273)

(3)تلمیذِ اعلیٰ حضرت مفتی محمد اعجاز ولی خان قادری رَضَوی، شیخ الحدیث، استاذُ العلماء،جید مدرس درسِ نظامی ، فقیہِ عصر، مصنّف، مترجم، واعِظ اور مجازِ طریقت تھے۔11ربیع الآخر 1332ھ مطابق 20مارچ 1914ء کو بریلی شریف ہند میں پیدا ہوئے اور لاہور میں 24 شوال 1393ھ مطابق 20نومبر1973ءکو وصال فرمایا، مزار مبارک میانی صاحب قبرستان لاہور میں ہے۔( تذکرہ اکابرِ اہلِ سنت، ص 63-65)

(4)اعلیٰ حضرت، مجدِّدِدین و ملّت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت10شوال 1272ھ /6جون 1856ءکو بریلی شریف(یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340 ھ مطابق28،اکتوبر1921ءکو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجعِ خاص وعام ہے۔آپ حافظ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے ماہر،فقیہِ اسلام، محدثِ وقت، مصلحِ اُمَّت، نعت گوشاعر، سلسلۂ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریباً ایک ہزارکتب کے مصنف، مرجعِ علمائے عرب وعجم، استاذالفقہاومحدثین،شیخ الاسلام والمسلمین، مجتہد فی المسائل اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن،فتاویٰ رضویہ (33جلدیں)، جد الممتارعلی ردالمحتار(7 جلدیں،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی) اور حدائقِ بخشش آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ،282، 301)

(5)حافظ کاظم علی خان ،دربارِاودھ کی طرف سے بدایون کے تحصیل دار(سٹی مجسٹریٹ)تھے ،دوسوفوجیوں کی بٹالین آپ کی خدمت میں رہتی تھی ،آپ کو آٹھ گاؤں معافی جاگیرمیں ملےتھے ، مال ومنصب کے باوجودآپ کا میلان دین کی جانب تھا،آپ حافظِ قرآن اورحضرت علامہ شاہ نورالحق قادری رازقی فرنگی محلی (متوفی 1237ھ مطابق1882ء)کے مریدوخلیفہ تھے ،ہرسال بارہ ربیع الاول کو محفلِ میلادکیا کرتے تھے جوخانوادۂ رضویہ میں اب بھی ہوتی ہے۔(تجلیاتِ تاج الشریعہ ،83،84)

(6)جدِّ اعلیٰ حضرت، امام العلماء مفتی رضا علی خان صاحب عالمِ دین، اسلامی شاعر، مفتیِ اسلام، استاذالعلماء، علامہ فضل رحمن گنج مرادآبادی کے مرید، شیخِ طریقت اورصاحبِ کرامت ولی کامل تھے۔1224ھ/1809ء کو بریلی شریف کے صاحبِ حیثیت دینی گھرانے میں پیدا ہوئے اور 2جمادی الاولیٰ1286ھ/10اگست 1869 ءکویہیں وصال فرمایا، مزار قبرستان بہاری پورنزدپولیس لائن سٹی اسٹیشن بریلی شریف (یوپی، ہند) میں ہے۔ (معارفِ رئیس اتقیا،ص17)

(7) رئیس الحکماء حکیم تقی علی خان صاحب مولانا رضا علی خان صاحب کے حقیقی بھائی تھے، یہ بہت بہادر ، قومی ہیکل، فنِ طِب میں خاص مہارت رکھتے تھے،یہ حکیم محمد اجمل خان دہلوی کےشاگردتھے، ان کی شادی حکیم اجمل صاحب کے منجھلے بھائی حکیم محمد واصل خان صاحب کی بیٹی سے ہوئی، یہ ریاست جے پور کے شاہی طبیب تھے ، ا ن کے4 بیٹے تھے:(1)مہدی علی خان(2)حکیم ہادی علی خان(3) فتح علی خان(4)فدا علی خان، ان میں سے حکیم ہادی علی خان مفتی تقدس علی خان کے داداہیں۔ ( حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبۃ رضویہ کراچی،15)

(8)حیاتِ اعلیٰ حضرت،14تا17۔

(9) فیضانِ اعلیٰ حضرت،ص435۔

(10)مُفسرِ اعظم حضرتِ مولانا محمد ابراہیم رضا خان رضوی جیلانی میاں رحمۃ اللہ علیہ حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب کے بڑے صاحبزادے ہیں، آپ کی ولادت 10ربیع الآخر1325ھ/23مئی1907ء کو بریلی شریف (یوپی) ہند میں ہوئی۔ آپ عالمِ دین، مصنف، سجادہ نشین آستانہ عالیہ قادریہ رضویہ بریلی شریف، مہتمم دار العلوم منظرِ اسلام اور شیخ الحدیث تھے۔11 صَفَرُالْمُظَفَّر 1385ھ مطابق 11جون 1965ء کو وصال فرمایا، آپ کا مزار مبارک بریلی شریف (یوپی) ہند میں روضۂ اعلیٰ حضرت کے دائیں جانب مرجعِ خلائق ہے۔ (تجلیاتِ تاج الشریعہ، ص93،مفتی اعظم اوران کے خلفاء، ص110، تذکرۂ جمیل ، 204)

(11)مولانا حمادرضا خان نعمانی میاں حجۃ الاسلام کے چھوٹے فرزندہیں ،آپ کی ولادت 1334ھ/1915ء کو بریلی شریف میں ہوئی ، اعلیٰ حضرت کی زیارت سے مشرف ہوئے ،اعلیٰ حضرت نے اپنے ایک مکتوب میں آپ کو ’’چھوٹانبیرہ ‘‘تحریرفرمایاہے ،آپ نے علمِ دین حجۃ الاسلام سے حاصل کیا ،1357ھ/1937ءکوآپ کی شادی بریلی کے ایک سادات گھرانے میں ہوئی ،3بیٹے اور4بیٹیاں ہیں ،آپ نے پاکستان ہجرت فرمائی اور 1375ھ/1956ءکو کراچی میں وصال فرمایا۔ تدفین فردوس قبرستان کراچی میں ہوئی۔ (تجلیات تاج الشریعہ، ص94 ، ضیائے طیبہ ویب سائٹ)

(12) شہزادۂ اعلیٰ حضرت،حجۃ الاسلام مفتی حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ علامۂ دہر، مفتیِ اسلام ،نعت گوشاعر،اردو،ہندی ،فارسی اورعربی زبانوں میں عبوررکھنے والےعالمِ دین ، ظاہری وباطنی حسن سےمالامال ،شیخِ طریقت ،جانشینِ اعلیٰ حضرت اوراکابرین اہل سنت سے تھے۔ بریلی شریف میں ربیعُ الاول1292ھ/اپریل1875ء میں پیداہوئے اور17جمادی الاولیٰ 1362ھ /22مئی 1943ءمیں وصال فرمایا ، مزار شریف خانقاہِ رضویہ بریلی شریف ہند میں ہے، تصانیف میں فتاویٰ حامدیہ مشہورہے۔( فتاویٰ حامدیہ،ص48،79)

(13)مَلِکُ العُلَماء حضرت مولانا مفتی سیّدمحمد ظفَرُ الدّین رضوی محدِّث بِہاری رحمۃ اللہ علیہ عالمِ باعمل، مناظرِ اہلِ سنّت، مفتیِ اسلام، ماہرِ علمِ توقیت، استاذُ العلما ءاور صاحبِ تصانیف ہیں، حیاتِ اعلیٰ حضرت اور صحیح البہاری کی تالیف آپ کا تاریخی کارنامہ ہے، 23 اکتوبر 1885 ء مطابق 14محرم 1303ھ میں پیدا ہوئے اور 19 جُمادی الاُخریٰ 1382ھ مطابق 17نومبر1962ءمیں وصال فرمایا، قبرستان شاہ گنج پٹنہ (بہار) ہند میں دفن کئے گئے۔ ( حیاتِ ملک العلما،ص 9،16،20،34 )

(14) فیضانِ اعلیٰ حضرت،ص435۔

(15)حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہار ی مکتبہ نبویہ لاہور ص 953 ۔

(16) دارالعلوم(مدرسہ اہل سنت وجماعت) منظر اسلام بریلی کی بنیاد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ نے شہر بریلی(یوپی ہند) میں غالباً ماہ ِشعبان المعظم 1322ھ/ اکتوبر1904ء کو رکھی، اس مدرسے کے بانی اعلیٰ حضرت امام احمدرضا ،سربراہ حجۃ الاسلام مولانا حامدرضا قادری اورپہلے مہتمم برادرِاعلیٰ حضرت مولانا حسن رضا خان رحمۃ اللہ علیہم مقررہوئے ، ہر سال اس ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والے حفاظِ قرآن، قراء اور علماء کی ایک بڑی تعداد ہے۔ (صدسالہ منظراسلام نمبرماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،ماہ مئی 2001ء،قسط 1ص28،132)

(17)استاذُ العلما، حضرت مولانا رحم الٰہی منگلوری مظفر نگری قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت منگلور (ضلع مظفر نگر، یو پی) ہند میں ہوئی۔ آپ ماہرِ معقولات عالم دین، صدر مدرس، مجازِ طریقت اور دارلعلوم منظراسلام کےاولین( ابتدائی) اساتذہ میں سے ہیں ۔ آپ نے بحالتِ سفر آخر (غالباً28) صَفر 1363ھ /23فروری 1944ءکو وصال فرمایا۔( تذکرہ خلفائے اعلی حضرت، ص138 )

(18)حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہار ی مکتبہ نبویہ لاہور ص951۔

(19)شمسُ العلماء حضرت علّامہ ظہور الحسین فاروقی مجددی رامپوری علیہ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1274ھ/1857 ءمیں ہوئی اور 12جُمادَی الاُخریٰ 1342ھ/20جنوری 1944ء کو رامپور (یوپی، ضلع لکھنؤ) ہند میں آپ نے وفات پائی۔ آپ علامہ عبدالحق خیرآبادی، علامہ مفتی ارشادحسین مجددی رامپوری کے شاگرداورعلامہ فضل رحمن گنج مرادآبادی سے بیعت وسندحدیث کی سعادت پانے والے ہیں ، علومِ عقلیہ و نقلیہ میں ماہرترین،استاذالعلما، صدر مدرس دارُالعلوم منظراسلام بریلی شریف،مہتمم ِثانی ارشادالعلوم، بشمول مفتیِ اعظم ہند سینکڑوں علما کے استاذ اور کئی دَرسی کتب کے مُحَشِّی ہیں۔مدرسہ عالیہ رامپورمیں بیس سال تدریس فرمائی ،یہاں کے اکثرمدرسین آپ کے شاگرد تھے ،اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ آپ پرکامل اعتمادفرماتےتھے ،اہم وضاحت : بعض کتابوں میں آپ کا نام ظہورالحسن فاروقی رامپوری لکھا گیا ہے جو کہ درست نہیں ،علامہ ظہورالحسن رامپوری ایک اورعالم دین تھے جن کے آباواجدادکاتعلق بخارا پھر رامپور سے تھا اور یہ فاروقی نہیں تھے ۔ ( تذکرہ کاملان رامپور،184تا188،ممتاز علمائے فرنگی محل، ص417تا419)

(20)صاحبزادۂ استاذِ زمن،استاذُ العلما حضرتِ مولانا محمد حسنین رضا خان رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1310 ھ کو بریلی شریف (یوپی) ہند میں ہوئی۔ آپ اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت کے بھتیجے، داماد، شاگرد و خلیفہ، جامع معقول و منقول، کئی کُتُب کے مصنف، مدرسِ دارالعلوم منظرِ اسلام، صاحبِ دیوان شاعر، بانیِ حسنی پریس و ماہنامہ الرضا و جماعت انصار الاسلام تھے۔ وصال5 صَفَرُالْمُظَفَّر 1401ھ میں فرمایا اور مزار بریلی شریف میں ہے۔ (تجلیات تاج الشریعہ، ص95، صدر العلما محدث بریلوی نمبر، ص77تا81)

(21) ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،صدسالہ منظراسلام نمبر1/ 242،243۔

(22)حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہار ی مکتبہ نبویہ لاہور ص951۔

(23)تذکرۂ جمیل ،183۔

(24) حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہار ی مکتبہ نبویہ لاہور ص951۔

(25)تذکرہ اکابر اہل سنت: محمد عبد‌الحکیم شرف قادری:ص63۔

(26)حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبہ رضویہ ،ص18۔

(27)حیاتِ اعلیٰ حضرت ،مکتبہ رضویہ کراچی،۱۷،جودت علی خان صاحب سے انٹرویو۔


تحریر:مولاناراشدنورمدنی

بارش اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے اگر بارش نہ ہو تونظامِ کائنات میں فسادِعظیم پیداہوجائے ،اسی سے کروڑوں انسانوں کا رزق اور روزگاروابستہ ہے عام طورپرسائنس کی کتابوں میں طلباء کوفقط اتنابتایاجاتاہے کہ سمندرسے اُٹھنے والے بُخارات آسمان کی طرف اُٹھتے ہیں اوربادل میں جذب ہوکرزمین پربارش کی صورت میں برستے ہیں لیکن تفسیردُرِّمنثورمیں علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرّحمہ نے محدّثین ومفسّرین کے بارش سے متعلق جن تحقیقات کوجمع فرمایا اُن کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ بارش کے نزول کاسبب فقط سمندری پانی نہیں بلکہ جنّت کابابرکت پانی بھی ہے جس کے ذریعے اللہ پاک زمین میں مختلف اقسام کے پھل، سبزیاں، گھاس اور انسانوں وجانوروں کی خوراک پیدافرماتاہے جیساکہ قرآنِ پاک میں ارشادہوتاہے۔وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآء ِ مَآء ً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّکُمْ٭ ترجمہ:اور(اللہ نے) آسمان سے پانی اتارا تو اُس (آسمانی پانی کے ذریعے زمین)سے کچھ پھل نکالے تمہارے کھانے کو۔(البقرہ آیت22)آئیے اب تفسیردُرِّمنثورجلداول میں موجود بارش سے متعلق ہمارے اسلاف کی تحقیقاتِ جلیلہ کامطالعہ کرتے ہیں تاکہ مغربی افکارسے متاثرہونے کی بجائے اسلامی وشرعی تحقیقات سے اپنے قلوب کی تسکین کاسامان کرسکیں۔امام حسن بصری علیہ الرّحمہ سے پوچھاگیاکہ بارش آسمان سے نازل ہوتی ہے یابادل سے۔؟فرمایا: بارش آسمان سے بادل پر نازل ہوتی ہے بادل توفقط نشانی ہے۔سیدناوہب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: میں نہیں جانتاکہ بارش آسمان سے بادل میں نازل ہوتی ہے یا اللہ تعالیٰ بادل میں بارش پیدا فرماتا ہے پھر وہ نیچے برساتاہے۔سیدناکعب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: بادل بارش کیلئے چھاننی ہے اگربادل نہ ہوتاتوپانی ایک جگہ گِرتا اور اس کوخراب کردیتااوربیج آسمان سے اُترتاہے۔ سیدناخالدبن معدان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بارش ایک پانی ہے جوعرش کے نیچے سے نکلتا ہے پِھر پہ درپہ ہرآسمان پر اُترتا ہے حتّٰی کہ پہلے آسمان میں جمع ہوجاتاہے اورجس جگہ جمع ہوتاہے اُسے ا َلاِیرَم کہاجاتاہے پِھرکالے بادل آتے ہیں اور آسمان میں داخل ہوکراُس بارش کوپیتے ہیں پِھراللہ پاک جہاں چاہتا ہے اُنہیں لے جاتاہے۔ حضرت عکرمہ علیہ الرّحمہ فرماتے ہیں: پانی ساتویں آسمان سے نازل ہوتاہے پِھر اِس سے ایک قطرہ بادل پر اُونٹ کی طرح گرتاہے۔سیدناخالدبن یزید رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ بادل سے ہونے والی بارش میں آسمانی پانی اور سمندر سے اُٹھنے والے بُخارات ہوتے ہیں جوبادل اُٹھا کرلاتے ہیں پَس کڑک اور آسمانی بجلی اِس کومیٹھاکرتے ہیں لہٰذا جوپانی سمندروں سے ہوتاہے اُس سے پودے نہیں اُگتے بلکہ آسمان سے اُترنے والے پانی کے سبب زمین میں پودے اُگتے ہیں۔سیدناعکرمہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ آسمان سے اُترنے والاپانی ضائع نہیں ہوتابلکہ اِس کے ذریعے زمین میں گھاس اُگتی ہے یاسمندرمیں موتی بنتاہے۔ سیدناعبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ بارش کے ذریعے صدف کے مُنہ میں موتی پیدا فرماتاہے اِس طرح کہ جب بارش برستی ہے تودریاؤں میں صدف اپنے مُنہ کھول لیتے ہیں جوقطرہ ان کے مُنہ میں گِرتاہے وہ موتی بن جاتاہے پس بڑاموتی بڑے قطرے سے اورچھوٹاموتی چھوٹے قطرے کے باعث ہوتاہے۔امام شافعی علیہ الرّحمہ کتاب الاُم میں سیدنامُطلب بن حنطب رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ سیّدِعالم ﷺ نے ارشادفرمایا: دن اوررات میں کوئی وقت ایسانہیں جب بارش نہ برس رہی ہواللہ تعالیٰ جہاں چاہتاہے اِسکوپھیردیتاہے۔ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آسمان سے جب بارش نازل ہوتی ہے تواس کے ساتھ بیج بھی نازل ہوتاہے اگرتُم چمڑے کادسترخوان بچھاؤ تواسے دیکھ لواور بارش کی آمیزش جنّت سے ہے، جنّت کی آمیزش زیادہ ہوتی ہے توبرکت زیادہ ہوتی ہے اگرچہ بارش کم ہواورجب جنّت کی آمیزش کم ہوتی ہے توبرکت کم ہوتی ہے اگرچہ بارش زیادہ ہو۔امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ کوئی سال دوسر ے سال سے بارش کے اعتبار سے زیادہ نہیں ہوتا لیکن اللہ عزّوجل جہاں چاہتاہے اسے پھیردیتاہے اور بارش کے قطروں کے ساتھ آسمان سے فرشتے اُترتے ہیں جوتین باتیں لکھتے ہیں 1 ) بارش کامقام 2 ) بارش کیوجہ سے لوگوں کومِلنے والارزق 3 )اوراس بارش سے زمین میں کیاپیداہوگا۔ (ماخوذازتفسیردُرِّمنثورمترجم جلد1صفحہ100مکتبہ ضیاء القرآن)

الحاصل: ان تمام روایات میں اس طرح مطابقت دی جاسکتی ہے کہ عرشِ اعظم  کے نیچے سے پانی نکلتا ہے اورساتوں آسمانوں سے ہوتاہوا آسمانِ دُنیا (یعنی پہلے آسمان)سے بادلوں میں گرتاہے اوربادل اس آسمانی پانی اوردریاؤں سے اُٹھنے والے بخارات  کواپنے اندرجذب کرکے جہاں اللہ تعالیٰ چاہتاہے وہاں برساتےہیں۔


تلمیذ ِاعلیٰ حضرت مفتی تقدس علی خان رحمۃ اللہ علیہ

خاندانِ اعلیٰ حضرت کے عظیم فرد،یادگارِ اسلاف ،شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا مفتی تقدس علی خان صاحب، اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان(1) رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و شاگرد اور حجۃا لاسلام علامہ مفتی حامدرضا خان (2) رحمۃ اللہ علیہ کے داماد و خلیفہ تھے ،والدکی جانب سے یہ رشتے میں اعلیٰ حضرت کے بھتیجے اور والدہ کی جانب سے نواسے تھے،انھوں نے ساری زندگی علمِ دین کی اشاعت،دارالعلوم منظرِاسلام بریلی شریف ہند(3) اورجامعہ راشدیہ پیرجوگوٹھ سندھ پاکستان (4) کی آبیاری وترقی کے وقف کئے رکھی،پاک وہندکے سینکڑوں علمانے آپ سےشرفِ تلمذحاصل کیااورچاردانگ عالم میں دینِ اسلام کی سربلندی کے لئے کوشاں ہوئے۔آپ کے حالاتِ زندگی میں سمجھنے، سیکھنے اورعمل کرنے کے کئی پہلو موجودہیں،آئیے آپ بھی ان کے حالات کا مطالعہ کیجئےاور ان سے حاصل ہونے والے دروس کو اپنی عملی زندگی میں نافذکیجئے:

اعلیٰ حضرت سےوالدکی جانب سے رشتہ

خاندانِ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا کا تعلق افغانستان(5) کے صوبےقندھار (6) کے پٹھان قبیلے بڑھیچ سے ہے،اس قبیلے کے ایک فردشجاعت جنگ بہادر سعیداللہ خان(7) مغلیہ دورمیں لاہور(8) اورپھردہلی(9) آئے اورکئی حکومتی عہدوں پر فائز رہے ،ان کے بیٹے سعادت یارخان(10) اورپوتے محمداعظم خان(11) تھے ، اللہ پاک نےانہیں ایک بیٹے حافظ کاظم علی خان اور چار بیٹیوں سے نوازا، حافظ کاظم علی خان، دربار اودھ کی طرف سے بدایون کے تحصیل دار (سٹی مجسٹریٹ) تھے، دوسو فوجیوں کی بٹالین آپ کی خدمت میں رہتی تھی،آپ کو آٹھ گاؤں معافی جاگیر میں ملےتھے، مال ومنصب کے باوجود آپ کا میلان دین کی جانب تھا،آپ حافظِ قرآن اورحضرت علامہ شاہ نورالحق قادری رازقی فرنگی محلی (12)کے مرید و خلیفہ تھے ،ہرسال بارہ ربیع الاول کو محفلِ میلادکیا کرتےتھے جوخانوادہ رضویہ میں اب بھی ہوتی ہے۔(13) آپ کے تین بیٹے (1)امام العلماء مولانا رضا علی خاں (2)رئیس الحکماء حکیم تقی علی خان (3)جعفرعلی خان اورچاربیٹیاں تھیں۔ امام العلماء مولانا رضا علی خاں(14) اعلیٰ حضرت کے دادا تھے اور رئیس الحکماء حکیم تقی علی خان مفتی تقدس علی خان صاحب کے پڑدادا ہیں ۔ (15)حکیم تقی علی خان صاحب بہت بہادر ، قومی ہیکل، فنِ طِبّ میں خاص مہارت رکھتے تھے،یہ حکیم محمد اجمل خان دہلوی (16) کےشاگردتھے، ان کی شادی حکیم اجمل صاحب کے منجھلے بھائی حکیم محمد واصل خان صاحب(17) کی بیٹی سے ہوئی، یہ ریاست جے پور کے شاہی طبیب تھے، انہیں ریاست کی طرف سے اتنی جائیداد ملی جس کی سالانہ آمدن 3 لاکھ تھی، ا ن کے4 بیٹے تھے:(1)مہدی علی خان(2)حکیم ہادی علی خان(3) فتح علی خان(4) فدا علی خان،ان میں سے حکیم ہادی علی خان مفتی تقدس علی خان کے داداہیں،(18) حکیم ہادی علی خان کی شادی ریاست ٹونک کے عبدالعلیم خان صاحب کی بیٹی سے ہوئی جن سے 3 بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی:(1)ہدایت علی خان (2)مولاناسردار ولی خان (3)محبوب علی خان۔ان میں سےمولانا سردارولی خان صاحب مفتی تقدس علی خاں صاحب کے والدمحترم ہیں ۔ (19) مولانا سردارولی خان صاحب کی پیدائش1302ھ مطابق 1885ء کو بریلی شریف میں ہوئی،انھوں نےطویل عمرپائی اور 1970ء /1390 ھ کو پیرجوگوٹھ میں انتقال فرمایا۔مفتی صاحب کے ایک مکتوب میں ہے:میرے والدصاحب کو اعلیٰ حضرت قبلہ سےخلافت نہیں تھی،وہ(سراج العارفین مولانا سیّدابوالحسین احمد) نوری میاں(20) سے بیعت تھے۔(21)

والدہ کی جانب سے رشتہ

اعلیٰ حضرت کے پڑداداحافظ کاظم علی خان صاحب کے دوبیٹے اورچاربیٹیاں تھیں،ان میں سے ایک بیٹی زینت موتی بیگم تھیں جن کا نکاح محمدحیات خان یوسف زئی سے ہوا،ان کے دوبیٹے نعمت (عرف بزرگ) علی خان اورکوچک خان تھے، نعمت (عرف بزرگ ) علی خان کے ایک بیٹے حاجی وارث علی خان تھے جن کی شادی اعلیٰ حضرت کی ہمشیرہ حجاب بیگم سے ہوئی۔ حجاب بیگم مفتی تقدس علی خان صاحب کی نانی صاحبہ ہیں، یوں اعلیٰ حضرت رشتے میں مفتی صاحب کے نانا ہوئے۔(22) حاجی وارث علی خان صاحب کے دوبیٹے اورتین بیٹیاں تھیں،ایک بیٹی کنیزفاطمہ کا نکاح مولاناسردارولی خان صاحب سے ہوا،ان کے چاربیٹے (1)مفتی تقدس علی خان(2)مفتی اعجازولی خان(3)عبدالعلی خان(4)مقدس علی خان اور 2بیٹیاں تھیں۔(23) مفتی صاحب کی والدہ محترمہ کنیز فاطمہ کی پیدائش1297ھ/ 1880ء کو بریلی میں ہوئی اور وصال 1377ھ /1957ء کو پیرجوگوٹھ میں ہوا۔(24) مفتی تقدس علی خان صاحب کی والدہ کی بہن(یعنی خالہ) کنیزعائشہ کا نکاح حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب سے ہوا،یوں حجۃ الاسلام آپ کےخالواوررشتے کےماموں ہیں،انہیں کی بیٹی کنیز صغریٰ بیگم سے آپ کا نکاح ہوا،اس لئے حجۃ الاسلام آپ کے سسربھی تھے ۔(25) حجۃ الاسلام کے بیٹے مفسرِاعظم ہند مولانا ابراہیم رضا خان(26) اور مولانا حماد رضا خان نعمانی میاں (27) آپ کے برادرِ نسبتی تھے، اس لئے آپ خاندان رضوی میں پھوپھا صاحب کے لقب سے مشہور تھے۔(28) بقول خوشترِملّت حضرت مولانا محمدابراہیم خوشترصدیقی رضوی: آپ (مفتی تقدس علی خان)حسب نسب کے اعتبارسے کاظمی اوربیعت کے اعتبارسے رضوی اوراجازت وخلافت کے اعتبارسے حامدی ہیں ۔(29)

پیدائش

مفتی تقدس علی خان صاحب کی ولادت رجب المرجب 1325ھ/اگست 1907ءکو آستانہ عالیہ قادریہ رضویہ محلہ سوداگران بریلی شریف (یوپی، ہند)میں ہوئی،(30) شہنشاہِ سخن حضرت مولانا حسن رضا خان صاحب(31) نے آپ کا تاریخی نام ’’تقدس علی خان‘‘رکھا۔(32) آپ اپنے بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں ۔(33)

تعلیم وتربیت

آپ نے پانچ سال کی عمرمیں 1330ھ/1912ء کو ناظرہ قرآن مکمل کیا۔(34) ٭ابتدائی کتب درسِ نظامی دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف(35) کے مدرس حضرت مولانا محمدخلیل الرحمٰن بہاری (36) سے پڑھیں ۔(37)٭درسِ نظامی کی متوسط کتب صاحبزادہ ٔ شہنشاہِ سخن اور داماد وخلیفۂ اعلیٰ حضرت علامہ حسنین رضا خان(38) اور مولانا عبدالمنان خان شہباز گڑھی(39) سےپڑھیں۔ شرح جامی(40) کا خطبہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان صاحب سے پڑھنے کی سعادت پائی۔ مفتی تقدس علی خان صاحب فرماتے ہیں : ’’میری عمر12یا 13سال کی تھی ،جب میں نے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے شرح جامی کا درس لیا۔اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی عام نشست ایک مسہری تھی،جس پر آپ جلوہ فرماتے تھے۔ اس کے سامنے کرسیاں بچھی ہوتی تھیں جس پر لوگ آکربیٹھتے تھے۔ادب واحترام کا یہ عالم تھا کہ اعلیٰ حضرت کی مسہری پر کوئی نہیں بیٹھتاتھا۔‘‘(41) ٭آپ کے منتہی کتب کے اساتذہ صدرالمدرسین علامہ ظہورالحسین رامپوری (42) اور ان کے وصال کے بعد ان کے صاحبزادے علامہ نورالحسین رامپوری(43)، استاذالعلماءمولانا عبدالعزیز خان محدث بجنوری(44) [مفتی تقدس علی خان صاحب نےعلامہ عبدالعزیزصاحب کا ذکراپنے ایک مکتوب میں ان الفاظ سےکیاہے: مولانا عبدالعزیز خان صاحب نے دارالعلوم منظراسلام میں تقریبا بیس سال پڑھایا،اعلیٰ حضرت قبلہ سے انہیں خلافت حاصل تھی،جامع مسجدبریلی میں خطیب وامام رہے، پھر مدرسہ مظہرِاسلام مسجدبی بی جی بریلی میں اعلیٰ کتابیں پڑھاتے رہے اور منظرِاسلام میں بھی حدیث پڑھاتے رہے،انہیں بدرالطریقہ لقب سے یادکیا جاتاہے ، شام کوروزانہ مثنوی شریف کا درس ان کا معمول تھا،اپنے وطن مولوف میں وصال فرمایا۔(45)] شیخ الحدیث علامہ رحم الہی منگلور ی(46) اورصدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ علیہم ہیں۔(47) مفتی تقدس علی خان صاحب نے اپنے ان دونوں آخرالذکر اساتذہ کا ذکراپنے مکتوب میں اس طرح کیا ہے: مولانا رحم الہیٰ اور صدرالشریعہ مولانا امجدعلی[مدرسے کے صدرمدرس ہونےکے] اُمیدوار ہوئے، اعلیٰ حضرت [ان میں سے]کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتےتھے،لہٰذا لکھا کہ ایک میرادل، دوسرا میرا جگر ہے اور دونوں میری آنکھیں ہیں، ایک ماہ ایک کو مدرّسِ اول لکھا جائے اور دوسرے ماہ دوسرے کو مدرّس اول لکھا جائے اور تنخواہیں دونوں کی برابررکھی جائیں ۔(48) ٭مفتی تقدس علی خان صاحب نے دورۂ حدیث حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان سے کیا ،انہیں سے ردالمحتارکا مقدمہ پڑھا اورفتاویٰ نویسی کی مشق بھی کرتے رہے ۔آپ کی صلاحیت،اطاعت ،حجۃ الاسلام سے محبت اورحجۃ الاسلام کی شفقت وکرم نوازی کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ زمانہ طالب علمی میں ہی آپ حجۃ الاسلام کے نائب مشہورہوگئے۔آپ سفر و حضرمیں حجۃ الاسلام کے رفیق وخادم اور اعزا میں سب سے قریب تھے۔(49) ٭۱۳۴۵ھ /1927ء کوتقریبابیس سال کی عمرمیں آپ نے دارالعلوم منظراسلام بریلی سے درسِ نظامی سے فارغ التحصیل ہوکر سندِ فراغت حاصل کی ۔(50)

سلسلہ قادریہ کی خلافت

٭ مفتی تقدس علی خان سات سال کی عمرمیں 1332ھ/1914ء کو اعلیٰ حضرت سےسلسلہ قادریہ رضویہ میں بیعت ہوئے، چنانچہ آپ کے ایک مکتوب میں ہے :مجھے اعلیٰ حضرت قبلہ سے 1332ھ میں ارادت حاصل ہوئی ۔ان کا دستخط شدہ شجرہ میرےپاس محفوظ ہے۔(51) بعدمیں شرح جامی کا خطبہ پڑھ کرشرفِ تلمذبھی حاصل کیا ، جب اعلیٰ حضرت کا وصال ہوا تو آپ پندرہ سال کے تھے،خاندان کے دیگرافراد کے ساتھ مل کرتجہیز وتکفین میں شریک ہوئے۔ بعض کتب میں آپ کو خلیفۂ اعلیٰ حضرت لکھا گیاہے لیکن یہ بات درست نہیں ، آپ مریدوتلمیذِاعلیٰ حضرت ضرورہیں مگر خلیفہ اعلیٰ حضرت نہیں ،صاحبِ فوز المقال فی خلفائے پیر سیال حاجی مریداحمدچشتی صاحب(52) نےخلفائے اعلیٰ حضرت پر کام کے دوران مفتی تقدس علی خان صاحب کو کئی مکتوب بھیجے ،ان کی معلومات میں جوجوخلفائے اعلیٰ حضرت تھے ان کے نام مفتی صاحب کوروانہ کئے،اس فہرست میں آپ کا نام100نمبرمیں تحریرتھا،آپ نے جن ناموں کے بارے میں فرمایا کہ مندرجہ ذیل افرادکو (اعلیٰ حضرت قبلہ سے)خلافت نہیں ملی ،اس میں اپنا نام بھی شامل فرمایا۔(53) ٭حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب نےآپ کو خاندانِ قادریہ کے اوراد و وظائف کی اجازت دے کر خلافت سے نوازا۔ اپنے ہاتھوں سے مصافحہ فرماتے ہوئے’’حدیثِ مصافحہ ‘‘سنائی جوکہ سات واسطوں سے حضورسیّدِکائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک پہنچتی ہے، آپ کو حجۃ الاسلام سے کتنا قرب تھا ،علامہ محمدابراہیم خوشترصدیقی قادری رضوی صاحب(54) تحریر فرماتے ہیں: (مفتی صاحب)حضرت حجۃ الاسلام کے سفروحضرمیں ساتھی،معاملات میں امین،دینی اوردنیوی ذمہ داریوں میں شریک و معین رہے، آپ فرزندنسبتی (داماد)تھے، مگر زندگی بھرحقِ فرزندی اداکرتے رہے۔ جامعہ منظراسلام کے انتظام و انصرام میں اور سلسلہ حامدیہ رضویہ کی ترویج واشاعت میں آپ حضرت حجۃ الاسلام کے مازون ومجاز اورخلیفہ ٔ برحق تھے۔(55) مزیدفرماتے ہیں:(فارغت کے بعد)اگرچہ آپ نائب مہتمم تھے مگردارالعلوم(منظراسلام )،عرس قادری وغیرہ کا ساراہتمام آپ سے متعلق تھا۔(56) حجۃ الاسلام کے علاوہ آپ کو قطب مدینہ ،شیخ العرب والعجم مولانا ضیاءالدین احمدمدنی صاحب سے بھی خلافت حاصل ہے، قطبِ مدینہ رحمۃاللہ علیہ آپ کا ذکرخیرکرتے ہوئے فرمایا کرتے : (مفتی تقدس علیٰ خان )سادہ لوح،بے تکلف،بس دین کی خدمت سے غرض رکھنے والے عالِم ہیں ۔ (57)مفتیِ اعظم ہند مفتی محمدمصطفیٰ رضا خان(58) نے بھی آپ کو خلافت سے نوازا،اسی محبت وعقیدت کی بناء پرمفتی تقدس علی رضوی صاحب نے مکاشفۃ القلوب مترجم کا انتساب مفتیِ اعظم کے نام کیا،چنانچہ آپ تحریرفرماتےہیں :مُعنون باسمِ گرامی،آقائے نعمت حضرت مفتیِ اعظم ہند محمدمصطفیٰ رضاخاں دامت برکاتہم القدسیہ سجادہ نشین آستانہ عالیہ بریلی شریف ،جن کی عمدہ تربیت وشفقت سے ہیچمدان فقیراس درجہ پرفائزہوا،فقیرتقدس علی خان بریلوی۔(59)

شادی واولاد

آپ کی شادی حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب کی بیٹی کنیز صغریٰ بیگم سے ہوئی،آپ کے چاربیٹے تھے: (1)مصدق علی خان(2)حاجی محمد اختر حامد خان[1364ھ تا 1384ھ،بیس سال کی عمر میں وصال فرماگئے] (3)اعزاز ولی خان (4)منورعلی خان (1365ھ تا1367ھ) اورچاربیٹیاں تھیں:(1)حلیمہ بی بی(1362ھ تا1364ھ) (2)کنیز ریحانہ (3)کنیز عذرہ(4) کنیز فاطمہ۔تمام اولادکا انتقال بچپن یا لڑکپن میں ہوا۔آپ کی زوجہ محترمہ کاوصال 1388ھ/1969 ء کو کراچی میں ہوا،تدفین فردوس کالونی کراچی کے قبرستان میں اپنے بھائی مولانا حماد رضا خان نعمانی میاں کی قبرکے پہلومیں ہوئی۔(60) اتنی صبر آزما زندگی کے باوجودآپ کے چہرے پرہمیشہ تبسم دیکھا گیا ،آپ اِنَّ اللہَ مَعَ الصَّاْبِرِیْن کی جاگتی تصویرو تفسیرتھے ۔(61) حضرت مولاناحکیم مفتی قاری محبوب رضا خان صاحب(62) آپ کے بارے میں تحریرفرماتے ہیں :(مفتی تقدس علی خان صاحب )صبروقناعت اورتوکل علی اللہ کا ایک ایسانمونہ تھے کہ ان کو دیکھ کر اسلاف کی یادتازہ ہوجاتی تھی،بڑے سے بڑےغم کو ہنس کر برداشت کرتے تھے ،ان کے چہرے پرایک مخصوص تبسم جوہروقت رہتا تھا، محبت کا ایک نورتھا جوہروقت جھلکتا تھا اور غمزدہ دلوں کے لئے وجہِ تسکین تھا۔(63) شرفِ ملّت حضرت علامہ عبدالحکیم شرف قادری صاحب(64) تحریرفرماتے ہیں: باوجودیکہ بیوی، بچے، بھائی اور والدصاحب سب وصال فرماگئے اور آپ تنِ تنہارہ گئےتھے،لیکن ہروقت ہشاش بشاش رہتے،بلکہ ان کی خدمت میں حاضرہونے والاغم وآلام کو بھول کردل شاداورخوش وقت ہوجاتا،چہرے پر وہ ملاحت اوردلکشی کہ صرف بچوں کے چہرے پرہی دیکھی جاسکتی ہے ۔ کوئی تکلیف ہوتی توفرماتے :آبِ زم زم مل جائے تو مجھے افاقہ ہوجائےگا۔ (65) آخری عمرمیں آپ کئی بیماریوں میں مبتلا ہوئے، اس کے باوجود صابر و شاکر رہے چنانچہ ذیقعدہ 1395ھ/نومبر1975ء میں آپ کو نمونیہ ہوگیا، صفر1396ھ /فروری 1976ء میں آپ کوضعیفِ نفس کاعارضہ ہوا،اوائل 1406ھ/نومبر1981ء میں بہت بیمارہوگئے اس لئے مفتی اعظم ہند کی وفات پر بریلی شریف نہ جاسکے،1986ء/1407ھ کے ایک مکتوب میں ہے: بلڈپریشراورشوگرکا مریض ہوں آنکھوں میں موتیااتررہا ہے ،خداکرم کرے ۔ (66)

بریلی شریف کا دورِ تدریس ونظامت

فراغت کے بعدآپ نے دارالعلوم منظراسلام میں تدریس کا آغاز کیا جبکہ نائب مہتمم کے عہدے پر تو آپ زمانہ طالبِ علمی میں ہی فائزہوگئے تھے (67)مکاشفۃ القلوب مترجم میں ہے :جس طرح شیخ الحدیث کانامِ نامی (تقدس علی خان)تاریخی ہے اسی طرح آپ کی شخصیت اورآپ کا کرداربھی تاریخی ہے ،اعلیٰ حضرت سے فنِ نحوکی کتاب شرح جامی کا خطبہ پڑھنے کا فیضان تھا کہ دیگرمدارس کے منتہی طلبہ بھی آپ سے آخرشرح جامی یا ا س کا خطبہ پڑھا کرتے تھے، حضرت کے اس درس کا مادہ استخراج ’’تدریس تقدس علی‘‘ 1348ھ استخراج کیاگیا ہے۔(68) آپ اپنے تدریس کے ابتدائی ایام کے بارےمیں دوواقعات بیان فرمائے ہیں : (1)میں دیگراساتذہ کے مقابلے میں جونیئرتھا مگرہرکتاب کے لئے اچھی طرح تیاری کرکے پڑھانے بیٹھتاتھا،کلاس کے طلبہ کی تعداد 70سے 80 ہوتی تھی ،نظم وضبط مثالی تھا ،طلبہ کاپیاں لے کراہم باتیں نوٹ کرتے ،ایک شخص نے ایک طالبِ علم کو میرے خلاف تیارکیا ،وہ بے جااورغلط سوالات کرکے مجھے پریشان کرنے کی کوشش کرتا،ایک دن حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب میرے درجے میں آکر بیٹھ گئے،اس طالب علم نے مجھ سے سوالات کئے،میں جوابات دیتاگیا ،ایک سوال میں مَیں نے ٹوکا تووہ مجھ سے بحث کرنے لگا،اس پر حجۃ الاسلام نے اس سے فرمایا کہ تمہارا تو سوال ہی درست نہیں ہے ،اِس پر اُس نے معافی مانگی ،وہ تین سال مدرسے میں رہا مگرکتاب پڑھنےکی صلاحیت نہ پاسکا،بالاخرمدرسہ چھوڑکرچلاگیا ۔(69) (2)ایک مرتبہ شرح تہذیب(70) کا ایک مقام سمجھ نہ آتا تھا، شرح دیکھی مگرویسے کا ویسارہا،طلبہ پڑھنے کے لئے آبیٹھے اورمطالعہ کی عبارت بھی پڑھ لی ،اس وقت میں نے اپنے استاذ کا تصورکرکے مددچاہی،پھرپڑھانا شروع کیا ،آخرمَیں نے دیکھاکہ سبق بالکل صحیح پڑھا چکا تھا ۔(71) تدریس کا یہ سلسلہ حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب کی وفات ( 17جمادی الاولیٰ 1362ھ /22مئی 1943ء)تک جاری رہا پھر آپ منظراسلام کے تیسرے مہتمم اور ناظم ہوگئے۔(72) اس دورمیں ہونے والے اعلیٰ حضرت اورحجۃ الاسلام کے اعراس اورمشاہروں کا اہتمام کرنا بھی آپ کے ذمے ہوتاتھا۔(73) نظامت کے دوران تدریس کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ تقریباً پچیس سال پر محیط یہ دورِتدریس ونظامت غالباً محرم الحرام 1371ھ/ اکتوبر 1951ءکو فیملی سمیت آپ کے پاکستان ہجرت فرمانےپراختتام پذیرہوا۔(74) آپ کے دورِ نظامت کے بارے میں مفتی یورپ مفتی عبدالواجدنیّرقادری صاحب(75) تحریرفرماتے ہیں :آپ کے(9سالہ ) دورِ نظامت میں مدرسہ کے اندر(تعمیراتی طورپر)کوئی قابل ذکراضافہ تو نہیں ہواالبتہ آپ نے نہایت حوصلہ مندی اورجرأت کے ساتھ مدرسہ کو اس معیارسے گرنے نہیں دیا۔آپ نے حسبِ سابق اہتمام کے علاوہ درس وتدریس کا شغل جاری رکھا،آپ کے دورِ نظامت میں دارالعلوم کی آمدنی نسبتاً محدود ہوتی گئی،جس کااثراگرچہ دارالعلوم کے اخراجات پر پڑا اور بعض مدرسین مستعفی ہوئے پھربھی دارالعلوم اپنی پرانی آن بان اور شان کے ساتھ چلتارہا ۔ (76)

بریلی شریف کےدورِ تدریس میں تلامذہ

بریلی شریف کے دورِ تدریس میں جن علمائے کرام نے آپ سے تلمذ کا شرف حاصل کیا، ان میں سے چند یہ ہیں: (1)محدثِ اعظم پاکستان مولاناسرداراحمدچشی قادری(77) (2)مولانا ابرہیم خوشترقادری(78) (3)مفتی رجب علی نانپوری رضوی(79) (4)مولانا مفتی اشفاق حسین نعیمی(80) (5)مفتی اعجاز ولی خان رضوی(81) (6)رئیس التحریر علامہ ارشدالقادری(82) (7)مصنفِ کتبِ کثیرہ علامہ عبدالمصطفی اعظمی(83) (8)مولانا مفتی سیدمحمدافضل حسین رضوی مونگیری (84) (9)بلبلِ سندھ مولاناقاضی دوست محمد صدیقی(85) (10)مفتی عبدالحمیدقادری نواب شاہ۔(86)

حیدرآباددکن اورالہ آبادمیں خدمات

بریلی شریف کے پچیس سالہ دورِ تدریس کے دوران آپ جامعہ نظامیہ حیدرآباددکن(87) اورالہٰ آبادیونیورسٹی کے ممتحن بھی رہے اور الہ آباد یونیورسٹی میں آپ نے علوم شرقیہ (88) کے امتحانات کا سلسلہ بھی شروع فرمایا۔ جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ جب میں نے باقاعدہ امتحانات کا سلسلہ شروع کیا تو اگلے سال مختلف مدارس کے تین ہزارطلبہ امتحان دینے حیدرآباددکن آئے،جمعہ کا دن تھا ،نمازجمعہ کے لئے ایک بڑے باغ میں اہتمام کیا گیا ،حاکمِ وقت (نظام حیدرآباد دکن،نواب میر)عثمان علی خان (89) وہاں آئے، لوگوں کی بھیڑدیکھ کر پوچھا کہ خلافِ معمول بھیڑکیوں ہے ؟ بتایا گیا طلبہ امتحان دینے آئے ہیں ،پوچھا کہاں ٹھہرے ہیں ؟بتایاگیا مختلف مقامات پر،(یہ سن کر)نظام ِ دکن نے اس وقت ایک یونیورسٹی اورہاسٹل کی تعمیرکا حکم دیا۔ اسطرح حیدرآباد دکن یونیورسٹی وجودمیں آئی۔(90) حیدرآباد دکن کے علماسے مفتی تقدس علی خان صاحب کا گہراتعلق رہاجس کی تائیدآپ کے مکتوبات سے ہوتی ہےجیساکہ آپ تحریرفرماتے ہیں: اعلیٰ حضرت قبلہ کو جناب محمد عمر صاحب قادری حیدرآبادی (91) سے تعلق تھا،جوبادشاہ حسینی قادری کے والد تھے جو کہ مکہ مسجدحیدرآبادمیں سرکاری خطیب تھے،ویسے وہاں مشائخ میں وحید پاشا حسینی (92) اور مولانا عبدالقدیر صاحب صدیقی (93) (اعلیٰ حضرت سے)بہت متاثرتھے ،(اسی طرح )مفتی محمدرحیم الدین صاحب(94) (شیخ الاسلام،امام) مولانا(محمد) انواراللہ(فاروقی) صاحب(95) کے شاگردتھے،اعلیٰ حضرت قبلہ سے بہت متاثرتھے، انھوں نے اعلیٰ حضرت کی کتب کی اشاعت کی بہت کوشش کی ،مگرسقوط حیدرآبادکی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکے۔ (96)

پاکستان میں ہجرت اورکراچی میں گزارے گئے ایام

مفتی تقدس علی خان صاحب نے خاندانی وملکی حالات کی وجہ سے تخمیناً محرم الحرام 1371ھ/ اکتوبر 1951ءکو فیملی سمیت پاکستان ہجرت فرمائی اوردارالعلوم امجدیہ عالمگیرروڈکراچی(97) رہائش پذیرہوئے ، (98) اس دوران مختصر مدت کے لئے مختلف مضامین کی کتابوں کی تیاری سےمتعلق کمیٹی میں خدمت سرانجام دی،(99) ان دِنوں آپ کی ملاقات اپنے پرانے دوست مفتی اعظم سندھ مفتی محمدصاحبدادخان جمالی صاحب (100) سے ہوئی جواس زمانےمیں سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی (101) میں شیخ الفقہ اوراسلامیات کے استاذ کےعہدےپرکام کررہے تھے ،مفتی جمالی صاحب نے آپ کو بتایا کہ سندھ کا ایک عظیم خاندان پیرپگاراتحریک آزادی میں مجاہدانہ اورگوریلاسرگرمیوں کےپاداش میں فرنگیوں کے ستم کا خصوصی نشانہ بناہے،اِن کے لاکھوں مریدین سفاکانہ طورپر شہید کردئیے گئے ،ان کی درگاہ،حویلیوں اور فصلوں کو بموں کے ذریعے مسمارکردیاگیا ہے،مجاہدِاعظم شہیدآزادی حضرت سیّدصبغۃ اللہ شاہ راشدی ثانی ،سوریہ بادشاہ (102) کوشہیدکرکے ان کی میّت کو نامعلوم مقام پردفن کیا گیا ہے اوران کے دوصاحبزادوں (سیدسکندرعلی مردان شاہ اور سید نادر علی شاہ) کوجلاوطن کرکے دیارِ غیر(لندن)میں رکھا گیا ہے ،اب جب کہ پاکستان بن چکا ہے اورپیرانِ پگاراکی گدی بحال ہونے والی ہے ،اس لئے میرامشورہ اورتاکیدی گزارش ہے کہ آپ مع اہل وعیال پیرجوگوٹھ(103) چلے جائیں کیونکہ اس وقت آپ جیسی باعلم،پُرعزم اورتجربہ کارشخصیت کی وہاں پر اشدضرورت ہے ۔یہ سن کر مفتی تقدس علی خان صاحب نے پیرجوگوٹھ میں رہائش اختیارکرنے کا فیصلہ کرلیا ۔(104)

پیرجوگوٹھ میں قیام اورتدریس کاآغاز

مفتی تقدس علی خان صاحب نے تخمیناً ربیع الاخر1371ھ/جنوری 1952ء کو اپنی فیملی کے ساتھ پیرجوگوٹھ کا سفرکیا اور وہاں مقیم ہوگئے،یہاں آتے ہی حکیم فقیراللہ جتوئی اورحاجی صالح علی میمن کے تعاون سے شہرمیں مدرسہ قادریہ قائم فرمایا،شہرکےچھوٹے بڑے لوگ اس میں علم دین حاصل کرنے لگے۔کچھ ہی دنوں بعدرأس الافاضل حضرت مولانا محمدصالح مہرقادری (105) اوردیگرحضرات کی کوششوں سے پیرصاحب پگاراکی گدی بحال ہوئی۔ (106) 8جمادی الاولیٰ 1371ھ/4فروری 1952ء کو حرجماعت کے خلفانے پیرسیدسکندرعلی مردان شاہ ثانی چھٹ دھنی (107) کی بطور پیرپگارا ہفتم تاج پوشی کی، یوں آپ حروں کے ساتویں روحانی پیشوا قرارپائے۔10شعبان 1371ھ/5مئی 1952ء کو درگاہ قادریہ راشدیہ پیرجوگوٹھ میں جامعہ راشدیہ کاافتتاح ہوا۔ (108) مفتی تقدس علی خان صاحب نے مولانا محمدصالح مہرقادری صاحب کے اصراراوراحباب کے فیصلے سے مدرسہ قادریہ کوجامعہ راشدیہ میں منتقل کردیا ۔(109) جامعہ راشدیہ میں طلبہ کی تعدادبڑھنے لگی تومفتی تقدس علی خان صاحب کی معاونت کے لئے مولانا عبدالصمدمیتلوصاحب(110) کو لاڑکانہ سے بلایا گیا ،اساتذہ کرام کی مزیدکمی پوری کرنے کے لئے مفتی تقدس علی خان صاحب کی کوشش سے مفتی اعظم سندھ مفتی صاحبدادخان جمالی صاحب کا بطورمدرس تقررہوا،مفتی تقدس علی خان صاحب فرماتے ہیں :محترم مفتی (صاحبدادخان جمالی)صاحب کے مشورےسے مَیں جامعہ راشدیہ آیااورمیرے مشورے سے مفتی صاحب کو جامعہ راشدیہ لایا گیا۔(111) ان حضرت کی کوششوں سے جامعہ راشدیہ ترقی کی منزلیں طے کرنے لگا۔(112) مفتی تقدس علی خان صاحب کوشیخ الجامعہ بنایاگیا،یہاں آپ نے37سال تدریس کے فرائض سرانجام دئیے اورایک عالَم کو علم دین سے سیراب فرمایا ۔(113)

پیرجوگوٹھ کےدورِ تدریس میں تلامذہ

مفتی تقدس علی خان صاحب جامعہ راشدیہ کی نشاۃ ثانیہ (9شعبان 1371ھ/4مئی 1952ء)سے لے کراپنی وفات (3رجب 1408ھ/21فروری1988ء) تک یہاں تدریس میں مصروف رہے ، کم وبیش 37سالوں میں سینکڑوں علمانے آپ سے درسِ نظامی پڑھنےکی سعادت حاصل کی، یہ علمامختلف مساجدمیں امامت وخطابت ،مدارس بالخصوص جامعہ راشدیہ کی مختلف شاخوں میں تدریس کرکے دین متین کی خدمت میں مصروف ہیں ۔ آپ کے اس دور کے مشہور تلامذہ یہ ہیں :(1)سلطان الواعظین مفتی عبدالرحیم سکندری شاہ پورچاکر(114) (2)شیخ الحدیث مفتی محمدرحیم کھوسہ سکندری مہتمم جامعہ راشدیہ(115) (3) رأس الافاضل مولانا محمدصالح قادری جامعہ راشدیہ (116) (4)مفتی درمحمد سکندری سانگھڑ(117) (5)مولاناسیدغوث محمدشاہ جیلانی دوڑضلع نواب شاہ(118)(6)استاذالعلماءمفتی غلام قادر سکندری جامعہ راشدیہ(7)استاذالعلماء مولاناصوفی علی شیرسکندری تلوبھانڈو(8)شارحِ بخاری مولانا عبدالرزاق سکندری سانگھڑ (9)مناظرِ اسلام مولانامحمدقاسم مصطفائی میرپورماتھیلو۔(119)

مفتی تقدس علی علیہ الرحمہ اورپیرپگاراصاحب کا آپسی تعلق

1371ھ/ 1952ء میں مفتی تقدس علی خان صاحب کو پیرپگاراصاحب کا اتالیق اوراستاذمقررکیا گیا،اس لئے آپ پیرجوگوٹھ میں ’’استاذسائیں ‘‘کے لقب سے مشہور تھے۔(120) آپ نے پیرصاحب کی ان کے مزاج کے مطابق حکمت و دانائی سےتربیت فرمائی،آپ کی کوششوں سے پیرصاحب کے اسلامی عقیدے میں مضبوطی آئی،پیرصاحب نے آپ کی حکمت عملی کی برکت سے داڑھی بھی رکھ لی، جب مفتی صاحب اورپیرصاحب کےباہمی تعلقات میں اضافہ ہوتا گیا تو پیر صاحب نے مفتی صاحب سے عہد لیا کہ آپ ہمیں چھوڑکرنہیں جائیں گے۔(121) مفتی صاحب نے یہ عہدزندگی بھر نبھایا،آپ کوکراچی اوردیگرمقامات سے اپنے پاس آنے کی پُرکشش دعوتیں بھی آئیں لیکن آپ نے منع فرمادیااوراپنی زندگی اس آستانے اورجامعہ راشدیہ کے استحکام کےلئے وقف کردی۔پیرپگاراآپ کی بات کواہمیت دیتے،دینی رہنمائی لیتے، ذہن میں پیداہونے والے سوالات پوچھتے اور آپ حکمت بھرے جوابات دیتے، ایک واقعہ ملاحظہ کیجئے: پیرپگارا صاحب کےپاس ہرطبقہ ہائے زندگی کے لوگ آتےتھے ،ایک مرتبہ لوگوں میں سے ایک شخص نے اس طرح گفتگوکی جیسے وہ اپنے آپ کو اللہ کا ولی ہونے کاتاثردے رہا تھا ،وہاں مفتی صاحب بھی تشریف فرماتھے ، پیرصاحب نےآپ سے پوچھا کہ کیایہ شخص ولی ہےیا نہیں ؟مفتی صاحب نےفی الفورجواب دیا کہ پیرصاحب!مجھ سمیت جوبھی آپ کےپاس آتاہے وہ ولی نہیں ہے،ولی وہ ہے جس کے پاس آپ جائیں ۔ آپ کے کہنے کامطلب یہ تھا کہ جو صاحب ِ غرض ہوکر آپ کے پاس آئے وہ ولی کیسے ہوسکتاہے ؟اسطرح پیرصاحب آپ سے گاہے بگاہے استفادہ کرتے رہتےتھے ، پیرصاحب نے ایک مرتبہ (غالباً شکریہ اداکرنے کے اندازمیں)آپ سے کہا:مفتی صاحب !آپ ایک پیرکی تعلیم کا اہتمام کرکے ہزاروں لاکھوں لوگوں کی تعلیم سے فارغ ہوسکتے ہیں ۔چونکہ مفتی صاحب پیرصاحب کےبہت قریب تھے،اس لئے جن لوگوں کو پیرصاحب سے کوئی حاجت ہوتی یا جامعہ راشدیہ کےاساتذہ نے پیرصاحب سےبات کرنا ہوتی ،کسی مسئلے کوحل کروانا ہوتا تو وہ آپ سے کہتے ،مفتی صاحب پیرصاحب کے مزاج شناس تھے ، جب آپ پیرصاحب کےپاس جاتےتو پہلے دلچسپ باتیں کرتے، جب دیکھتے کہ پیرصاحب کا موڈ اچھا ہوگیا ہے تو آپ لوگوں کی حاجات پیرصاحب سے بیان کرتے، پیرصاحب فوراً مان جاتے اور اپنے متعلقہ ذمہ داران کو ان حاجات کو پوراکرنے کاحکم دے دیتے۔ اسی وجہ سے جامعہ راشدیہ کے اساتذہ آپ کو ’’حل المشکلات ‘‘کہتے تھے۔(122)

مفتی تقدس علی خان اورحرجماعت

پیرانِ پگاراکے مریدوں پرمشتمل حُر جماعت ہے جوبارہ چونکیوں پرمشتمل ہے ہرچونکی کا نگران خلیفہ ہوتاہے جسے مکھ کہاجاتاہے۔ حرجماعت کی سترہ رکنی کونسل (مرکزی مجلس شوریٰ)ہے جس کے سولہ مکُھ یعنی خلیفے ہیں اور ایک چیف خلیفہ ہیں۔ کونسل جو فیصلہ کرتی ہے وہ حتمی تصور کیا جاتا ہے، پیر کا انتخاب بھی یہی کونسل کرتی ہے ، اب بھی پیر پیرپگاراکے خلفاء اور درگاہ کی فیصلہ کمیٹی حُروں کے معاملات نمٹاتی اور فیصلوں پر عمل درآمد یقینی بناتی ہے،مفتی تقدس علی خان صاحب کےحرجماعت، کونسل اوردرگاہ کی فیصلہ کمیٹی سے خوشگوارتعلقات تھے،یہ لوگ مفتی صاحب کی بہت عزت کرتے اوران کی کہی ہوئی بات کوردنہیں کرتےتھے ،اس کی تائیدمفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی صاحب کے ایک مکتوب سے بھی ہوتی ہے جس میں انھوں نے مفتی تقدس علی خان کو لکھا کہ کونسل اوردرگاہ کی فیصلہ کمیٹی سے فرمادیں کہ وہ جامعہ راشدیہ کے مہتمم،جامع مسجددرگاہ شریف کےامام اورحرجماعت کےشرعی فیصلہ جات کے اعزازی ذمہ دارمولانامحمدصالح مہرقادری صاحب کی تنخواہ بڑھائیں کہ وہ کثیرالعیال ہیں اورشرم ومصالح وقت کی وجہ سےوہ خود تقاضا نہیں کررہےہیں ۔(123)

پیرجو گوٹھ میں دیگر خدمات

مفتی تقدس علی خان صاحب نے پیرجوگوٹھ کی مدینہ مسجدعیدگاہ میں پچیس سال تک امامت وخطابت فرمائی،اس کے بعدآپ نےاپنی جیب خاص سے پیرجوگوٹھ بازارمیں جگہ خریدکر جامع مسجدرضا تعمیرکروائی، مسجدکے ساتھ دکانیں بھی تعمیر کروائیں تاکہ ان کے کرائے سے مسجدکا خرچ چلتارہے۔ مسجد کی تعمیرکے بعد پھر عمربھراسی میں امامت وخطابت کی ذمہ داری نبھاتے رہے ۔ اب بھی یہ مسجدموجودہے اوراس کی تعمیرجدید ہوئی ہے۔ (124)

خاندانی وقار اوراستغنا

مفتی تقدس علی خان صاحب میں خاندانی وقار،شرافت ،عزتِ نفس اوردنیاوی مال ودولت سے استغنابدرجہ اتم موجودتھا ٭جامعہ راشدیہ میں دیگراساتذہ کےمشاہرےآپ کےمشورے سےطے ہوتے تھےمگرآپ نے کبھی بھی اپنے مشاہرےمیں صراحتاًیااشارۃً اضافے کا مطالبہ نہ فرمایا۔ ٭پیرصاحب کی جانب سے آپ کو قیمتی تحائف آتے مگرآپ فرمایا کرتے کہ میں فقیرآدمی ہوں مجھےان تحائف کی ضرورت نہیں ۔٭ایک دفعہ پیرصاحب نے ایک بھینس بطورِتحفہ بھیجوائی،آپ نےفرمایاکہ میں بھینس رکھ کرکیا کرونگا،پھریہ کہتے ہوئے پیرصاحب کو واپس کردی کہ آپ نے مجھے بھینس عنایت فرمائی ، میں نے قبول کرلی ،اب اسے واپس لےلیجئے۔٭جامعہ کی طرف سے ایک سیر(تقریباایک لیٹر) دودھ آتاتھا ،آپ فرمایا کرتے تھے اتنا دودھ ہمارے گھرکےلئے کافی ہے مزیدکی حاجت نہیں ،زندگی بھرایک سیردودھ لینے کا ہی سلسلہ جاری رہا۔(125)

لوگوں سے گھل مل کررہنے والی شخصیت

مفتی تقدس علی خان صاحب ایک صاحبِ حیثیت علمی خاندان کے چشم وچراغ تھے،علم وتقویٰ کے کوہِ گراں تھے، ہزاروں لوگ آپ کے شاگرد،مریداور مُحِبّ تھے ،اس کے باوجودآپ عام لوگو ں میں گھل مل کررہتےتھے،آپ کی دینی عظمت اورعلمیت کو فقیرانہ انداز نے ڈھانپ رکھا تھا ،لوگ آپ کے پاس آتے،آپ ان کےمقام ومرتبہ کےمطابق گفتگو فرماتے ،چھوٹوں پر نہایت شفقت کرتےتھے ، آپ نے مخاطَب کو کبھی اپنے بڑا ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا،آپ پیر جوگوٹھ کے لوگوں سے محبت کرتے اورلوگ بھی آپ کے گرویدہ تھے،مفتی صاحب ان کے دُکھ دردمیں شریک ہوتے ، جولوگ آپ کے گھر تعویذات اورروحانی علاج کےلئے آتے، آپ ان کی ہرطرح دلجوئی فرماتے ، آپ لوگوں کی مالی مددبھی کردیا کرتے تھے، پیرجوگوٹھ میں آپ کے مریدبھی تھے،آپ نے وصیت کی کہ مرنے کے بعد مجھے پیرجوگوٹھ میں ہی دفن کیا جائے ،مجھے یہاں سے جدائی گوارانہیں۔مفتی صاحب کی محفل کی کشش اور روحانیت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ حاضری دینے والا ہمیشہ متمنی رہتا کہ زیادہ سے زیادہ آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھائے، جامعہ راشدیہ کے اساتذہ اگرچہ دورانِ تدریس آپ کے ساتھ چارپانچ گھنٹے گزارچکے ہوتے تھے لیکن اس کے باوجودشام کو آپ کے پاس پہنچ جاتے اور آپس میں بات چیت ہوتی ، آپ جس محفل میں ہوتے جانِ محفل ہوتے، اعلام و اسماء میں نئے نئے معنی پیدا کرنا، علمی معنویت کے ساتھ مزاح کا رنگ پیدا کرناآپ کا طرۂ امتیاز تھا۔(126)

تحمل مزاج اوربلندی ہمتی کے واقعات

مفتی صاحب تحمل مزاج اورعالی ہمت تھے ،کسی کی طرف سے تکلیف پہنچ جاتی ،طبیعت کے خلاف کوئی کام یا بات ہوجاتی تو برداشت کرلیتے ،چند واقعات ملاحظہ کیجئے :

(1)ایک مرتبہ آپ ایک شادی میں شریک تھے،مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے اہل خانہ مہمانوں کوکھانا کھلانے میں تاخیر کا شکارہوگئے، سہ پہرتین بجے تک کھانا نہ کھلایا جاسکا،لیکن مفتی صاحب نے میزبانوں کو کچھ نہ کہابلکہ مجلسِ علمامیں خوشی طبعی کرکے سب کے دل خوش کرتے رہے ۔(127)

(2)ایک مرتبہ جب آپ پیرجو گوٹھ سے کراچی تشریف لائے ہوئے تھے،آپ کے ایک عزیز محمد حنیف والا (ایڈوکیٹ ) کی والدہ کے گھرآپ کی دعوت تھی،مکان چوتھی منزل پر تھا، سیڑھیاں چڑھتےچڑھتے آپ کی سانس اُکھڑ گئی ، آپ جلال میں نہ آئے بلکہ مسکرا کر فرمایا۔’’یہ دعوت ہے یا عداوت‘‘۔(128)

(3)رمضان 1407ھ/مئی 1987ءمیں آپ بیمارہوگئے ،کراچی میں ہی آپ کا ہرنیا کا آپریشن ہوا،ادارۂ تحقیقاتِ امام احمدرضا کے ذمہ داران آپ کی عیادت کے لئے ہسپتال گئے،آپ کو آگاہ کیا کہ الحمدللہ ادارےکے دفترکے لوازمات پورے ہوچکے ہیں،آپ ادارے کے سرپرستِ اعلیٰ ہیں ، دفتر کاافتتاح آپ ہی فرمائیں،آپ نے فرمایا کہ ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کےبعد مجھے لے جائیے گا، دودن کےبعدآپ کو ڈسچارج کردیاگیا، ڈاکٹرپروفیسرمجیداللہ قادری صاحب(129) اورمولاناحاجی شفیع محمدقادری حامدی صاحب (130) گاڑی لےکرپہنچے، مفتی صاحب ان کےساتھ پرنس روڈ پر واقع آفس تشریف لے آئے ،دفترچونکہ پرنشیمن بلڈنگ (اسٹری چن روڈ بالمقابل سندھ مسلم آرٹس کالج) کےتیسرے فلورپر تھا ،لفٹ بھی نہیں تھی اس لئے ذمہ داران نے ایک کرسی کا انتظام کیا ہواتھا تاکہ تین چارآدمی مل کر مفتی صاحب کو اٹھا کر دفتر تک پہنچادیں گے، اسی لئے مفتی صاحب سے کرسی پر بیٹھنے کے لئے کہا گیا مگرمفتی صاحب نےکہا کہ میں سڑھیوں پرچڑھ جاؤں گا،احباب نے عرض کیا حضورآپ کا ہرنیئے کا آپریشن ہواہے ،زخم کچاہے ،سڑھیاں چڑھنے سے تکلیف میں کہیں اضافہ نہ ہوجائے،آپ مسکرائے اورفرمایا کہ میں چڑھ جاؤں گا،مزیدفرمایا کہ دفتربھی تو اعلیٰ حضرت کا ہے ،دیکھنے والوں نے دیکھا کہ مفتی صاحب نےکچھ پڑھا ،ہاتھ پیچھے باندھ لئے اورسڑھیاں چڑھنے لگے ،دیکھتے ہی دیکھتے آپ تیسرے فلورپر پہنچ گئے ،کمال یہ تھا کہ نہ سانس پھولی،نہ تھکاوٹ کا اظہارکیااورزخم میں تکلیف کی بھی کوئی شکایت نہ کی، آپ نے دفترکا افتتاح فرمایا، دعادی،آپ کے رفقا آپ کی ہمت پر حیران بھی ہوئے اورآئندہ کے لئے انہیں کام کاحوصلہ بھی ملا ،ادارہ ترقی کے زینےپڑھتاگیا ،الحمدللہ برسوں سےیہ انٹرنیشنل سطح پرشہرت حاصل کرچکا ہے ۔(131)

(4) ڈاکٹرپروفیسرمولانا مسعوداحمدمجددی صاحب (132) تحریرفرماتے ہیں: حضرت علامہ مفتی تقدس علی خان رحمہ اللہ علیہ سے پہلی ملاقات کی تقر یب یہ ہوئی کہ 1973ء کے لگ بھگ فقیر کو امام احمد رضا رحمہ اللہ علیہ کے آثارِ علمیہ پر مشتمل حضرت علامہ محمد ظفر الدین بہاری۔(133) رحمہ اللہ علیہ کی تالیف ’’المجمل المعدد لِتالیفات المجدد‘‘ (134) کی سخت ضر ورت تھی، معلوم ہوا کہ ایک مطبوعہ پرانا نسخہ حضرت علامہ صاحب کے پاس ہے ۔ فقیر نے خط لکھا، چند روز کے بعد غریب خانے پرایک سادہ لباس بزرگ تشریف لائے ، ایک گھنٹے مکان تلاش کرتے رہے، پسینہ پسینہ ہوگئے، ان بزرگ نے جب اپنا تعارف کروایا تو معلوم ہوا کہ یہی بزرگ حضرت علامہ تقدس علی خان تھے، فقیر نادم و شرمسار ہوا کہ حضرت علامہ کتاب لے کر خود غریب خانے پر تشریف لائے اور فقیر کو سرفراز فرمایا، یہ تھی ان کی بے مثال شفقت اور علم پروری۔(135)

(5)شرفِ ملّت علامہ عبدالحکیم شرف قادری صاحب تحریرفرماتے ہیں : راولپنڈی میں ایک ملاقات کے موقع پر(مفتی تقدس علی خان صاحب)نے فرمایا، ہمارا خیال تھا کہ المحجتہ المؤتمنہ(136) اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی آخری تصنیف ہے، لیکن ر دِّ مرزائیت میں اعلیٰ حضرت کا ایک رسالہ الجراز الدّیانی (137) دیکھنے سے اندازہ ہوا کہ وہ آخری رسالہ ہے، لیکن افسوس کہ میں مدینہ منورہ سے اپنے ساتھ لا نہیں سکا، پھر بر یلی شریف تشریف لے گئے اور واپسی پر وہ رسالہ راقم کو دے گئےاور فرمایا کہ صرف یہ رسالہ حاصل کرنے کے لئے مجھے پیلی بھیت جانا پڑا، ایسے عظیم انسان اور سراپا شفقت و محبت پھر کہاں ملیں گے۔

(6) بلندہمت اتنے تھے کہ کبرسنی(طویل عمری) کے باوجود کئی طویل سفراکیلے کرلیا کرتے تھے اورفرمایاکرتے تھے کہ فرشتے میرے ساتھ چلاکرتے ہیں ۔ (138)

(7) مفتی صاحب کے آخری سفرمکہ ومدینہ اورسفربغداد (ربیع الاول ،ربیع الاخر1408ھ/نومبر1987ء)سے پانچ چھ ماہ قبل آپ کا غدودکاآپریشن ہوا،سفرمیں غدودکی تکلیف تونہ ہوئی مگرآپ کمزوری محسوس فرماتے تھے،مگرآپ کی عالی ہمتی کہ کبھی یہ نہ فرمایا کہ میں تھک گیا ہوں ،رفیقِ سفرجس مزارکی حاضری کا کہتے ،آپ تیار ہوجاتے۔(139)

مفتی صاحب کا حلیہ اورکچھ عادات

آپ ہردلعزیز شخصیت کے مالک تھے ،کئی خوبیوں کے جامع تھے ،قاری محبوب رضا خان صاحب نے چندسطروں میں آپ کا تعارف کچھ یوں بیان کیا ہے : دہرے بدن کا چھوٹا قد، گھنی داڑ ھی، بڑا سر ، گول گردن، جلدی جلدی معصومانہ انداز میں گفتگو فرماتے، مسکراتا ہوا چہرہ ،گندمی رنگ، نیچی نظریں، نہایت ذہین، روشن آنکھیں، قوی الحافظہ ، متین ، حلیم الطبع، چھوٹوں پر شفیق، دوستوں کے رفیق، بزرگوں کی خدمت میں نہایت متواضع، منکسر المزاج ، اخلاقِ مجسم، دوستوں کی محفل میں بذلہ سنج ،عادتاً مرنجامرنج ، پُروقار، بُرد بار، سادہ لوح، عفوودرگزر کے عادی، بہترین انسان، ان کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، میں نے ایک مرتبہ اُن کی بذلہ سنجی سے متاثر ہو کر عرض کیا۔تو بھولنے کی چیز نہیں ہے یہ یاد رکھ!

دل سے ترا خیال بھلایا نہ جائے گا

مسکرا کرفرمانے لگے ، آپ دوستوں سے یہی اُمید ہے، مسلک(اعلیٰ حضرت) میں نہایت پختہ ،اورادو وَظائف کے شاغل، نہایت متبع سنت، حجۃ الاسلام حضرت مولانا الشاہ حامد رضا خان صاحب علیہ الرحمہ کے نہایت معتمد علیہ ، منظر اسلام کے مشہور مہتمم، نہایت عمدہ منتظم، بزرگوں کی یادگار، سراپا عجز و انکساری، غریب نواز و غمگسار، نہایت ملنسار، یاروں کے یار، عقل تیز طرار، نرم گفتار،پختہ کردار، میدان تدریسی کے شہسوار، حضرت سادگی کا مجسمہ تھے۔(140)

علامہ محمدصدیق ہزاروی صاحب(141) تحریرفرماتے ہیں :بظاہران کا قدچھوٹاتھا لیکن قد آورشخصیت تھی کہ بڑے بڑے سر و قد اِن کے سامنے سرنیاز خم کردیتے تھے،علم وفضل،زہدوتقویٰ اورخوش خلقی ،ملنساری ،سادہ مزاج اورسادگی پسند جیسی صفات عالیہ سے ان کی زندگی مزین تھی۔ (142) مفتی صاحب بہت نرم مزاج مگردوربین عالم ومفتی تھے ،آپ فتویٰ نویسی میں حتی الامکان احتیاط برتتےاورکبھی جلدبازی نہ کرتے ۔(143)

پروفیسرڈاکٹرمسعود احمد صاحب تحریرفرماتےہیں : آپ کے فضائل وخصائل کیا بیان کیے جائیں، آپ بلند پایۂ مفسر، محدث اور فقیہ تھے، شہرت و ناموری اور صلہ و ستائش سے بے نیاز، دین کی خدمت میں سرشار، سادہ گفتار، سادہ لباس، شگفتہ مزاج ،سراپا شفقت وکرم، علم دوست، محبت نواز ،بے نفس ، بے تکلف، سراپا اخلاص ، مرنجاں مرنج، صاف دل، صاف گو، کن کن خوبیوں کا ذکر کیا جائے؟ وہ صفات ِ حسنہ کا ایک حسین گلدستہ تھے، ان کی صحبت میں بیٹھنے والا کبھی نہ اکتاتا، خوش رہتے اور خوش رکھتے، مصائب کو خندہ پیشانی سے سنہا کوئی اُن سے سیکھے۔(144)

آپ کا لباس بھی سادہ ہوتاتھا،محقق ومصنف سید محمد عبداللہ قادری(واہ کینٹ،ضلع راولپنڈی) (145) تحریر فرماتے ہیں : راقم السطور کو بھی حضرت مفتی تقدس علی خان قادری رحمہ اللہ علیہ کی زیارت و ملاقات کاشرف نصیب ہوا، ایک بار جامعہ نظامیہ(رضویہ) اندرون لوہاری دروازہ لاہور(146) میں حضرت شیخ الحدیث علامہ محمد عبدالحکیم شرف قادری علیہ الرحمہ کے ہاں ملاقات ہوئی تھی، مکتبہ قادریہ(147) کے کمرہ برآمدہ میں مفتی صاحب چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے، وہیں سلام و دعا ہوئی آپ نے خانوں والی دھوتی اور ململ کا کرتا پہنا ہوا تھا، درمیانہ قدچہرے پر موزوں داڑھی گندمی گوں رنگ۔(148)

تصنیف وتالیف

مفتی تقدس علی خان صاحب کی زیادہ توجہ درس وتدریس کی جانب تھی اس کے باوجود آپ نے تصوف کی اہم کتاب مکاشفۃ القلوب(149) کا بامحاورہ اورسہل ترجمہ کیا ،جسے دعوتِ اسلامی کے ادارۂ تصنیف وتالیف المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر)کراچی نے تخریج اورحواشی کےساتھ جمادی الاخریٰ 1436ھ/اپریل 2015ء کوخوبصورت انداز، بہترین کاغذاوراعلیٰ میعارکی پرنٹنگ کے ساتھ شائع کیا ہے،اس اشاعت کی قبولیت عامہ کا اندازہ اس بات سےلگایا جاسکتا ہے کہ 2015ءسےاب تک چارایڈیشنزمیں سترہ ہزار(17000)کی تعدادمیں پرنٹ ہوچکی ہے ، دیگرکئی مطابع نے بھی اسے شائع کیا ہے ۔مفتی صاحب نے کچھ کتابوں پر تقاریظ وتصدیقات تحریرفرمائیں۔آپ کی بعض تصانیف ہندوستان میں رہ گئیں یا ضائع ہوگئیں۔

تحریکوں میں حصہ

مفتی تقدس علی خان دیگرخوبیوں کے ساتھ ساتھ دردِ امت سے مالامال تھے ،جب بھی کسی اہم تحریک کا آغازہوا،مفتی صاحب نے اس میں اپنا حصہ ضرورشامل کیا ٭تحریک پاکستان کے سلسلے میں اہل سنت کی اہم جماعت آل انڈیا سُنّی کانفرنس (150) نے ہند بھرمیں اپنے اجلاسات کا آغازکیا ،مفتی صاحب بھی ان میں شریک ہوتے تھے ،مثلا مرادآباد میں 19،20شعبان1358ھ/3، 4،اکتوبر1939ء کوہونے والی کانفرس میں آپ شریک ہوئے،اس میں حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب اورخلیفہ اعلیٰ حضرت علامہ پیرسیدفتح علی شاہ نقوی قادری صاحب(151) نے دوقومی نظریہ کی اہمیت وافادیت پر بیانات فرمائے۔ (152) اسی کانفرنس میں آپ کی ملاقات مفتی اعظم سندھ مفتی صاحبدادخان جمالی صاحب سے ہوئی تھی۔

٭آل انڈیا کانفرنس کاعدیم النظیراجلاس جمادی الاولیٰ 1365ھ /اپریل1946 ء کو اترپردیش کے شہربنارس میں ہوا جس میں تقریباً پانچ سومشائخ عظام،سات ہزارعلمائے اعلام اور دو لاکھ سے زائدسنی عوام نے شرکت کی ،(153) اس اجلاس میں مفتی تقدس علی خان صاحب بھی اپنے رفقاکے ساتھ بھرپوراندازمیں شریک ہوئے،اس میں پاکستان کے حق میں ایک تاریخ فتویٰ بعنوان’’آل انڈیا سنی کانفرنس کے مشاہیرعلماء ومشائخین کا متفقہ فیصلہ ‘‘شائع ہوا۔ اس میں مفتی صاحب کانام گیارہویں نمبرپر یوں درج ہے ٭(مولانا)تقدس علی خاں رضوی مہتمم دارالعلوم منظراسلام بریلی۔(154) وہ علمائے کرام جنہوں نے آل انڈیا کانفرنس میں شامل ہوکر تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔ ان کی فہرست مفسرِقرآن علامہ محمد جلال الدین قادری صاحب (155) نے مرتب کی، ساتھ حوالہ بھی نقل فرمایا ،اس میں مفتی تقدس علی خان صاحب کا نام دبدبہ سکندری(156) 29مارچ 1946ء کے حوالے سے درج کیا ۔(157)

٭بریلی شریف اورمضافات میں تحریکی پروگرام ہوتےرہے،یہاں تک کہ آپ نے بریلی شریف میں پاکستان کے حق میں جلوس بھی نکالا۔(158) اس تاریخی واقعہ کومفتی صاحب نے اپنے ایک خط میں یوں تحریرفرمایا ہے:حضرت مفتی اعظم ہند (مفتی محمدمصطفی رضا خان ) قدس سرہ العزیز غالباً 1946ء کے الیکشن میں جس میں کانگریس اورمسلم لیگ کا سخت مقابلہ تھا اور یہ فیصلہ ہونا تھا کہ پاکستان بنے یا نہیں ؟ اس میں اول ووٹ حضرت کا ہوا ، امیدوار عزیز احمد خان ایڈووکیٹ تھے ، عزیز احمد خان مسلم لیگ کی طرف سے تھے اور ووٹ ڈالنے کے بعد حضرت کو جلوس کی شکل میں مسلم لیگ کےرضا کار ’’مفتی اعظم پاکستان‘‘کے نعروں کے ساتھ آستانہ شریف پر واپس لائے‘‘۔(159)

٭پاکستان آنے کے بعدتحریک ختم نبوت میں علمائے اہل سنت کے شابہ بشانہ کام کیا ٭ 8،9ربیع الاخر1390ھ/ 13، 14جون  1970ء  کوسنی کانفرنس ٹوبہ دارالسلام (پنجاب)میں مفتی صاحب نے پیرصاحب پگارہ کی نمائندگی کی اور ان کا پیغام پڑھ کرسنایا ٭کل پاکستان سنی کانفرنس14،15، ذیقعد1398ھ/ ملتان16،17،اکتوبر1978ءمیں آپ نے پہلے اجلاس کی صدارت فرمائی ٭زندگی بھرجمعیت علماء پاکستان پیرجوگوٹھ کے صدررہے،1390 ھ/1960ء میں ہونے والے بنیادی جمہوریت کے انتخابات میں کامیاب ہوئےاورچھ سال تک یونین کمیٹی کے چیئرمین رہ کرقوم و وطن کی خدمت کی۔(160)

اسفارحرمین طیبین

مفتی تقدس علی خان صاحب نے تین حج اورکثیرعمرےکرنےکی سعادت حاصل کی،چنانچہ آپ کے3جمادی الاولی 1406 ھ / 14جنوری 1986ءکےلکھے گئےمکتوب میں ہے :اب ان شاء اللہ بشرط زندگی پندرھواں پھیراہوگا۔ (161) کچھ تفصیل ملاحظہ فرمائیے :

٭آپ نےپہلاحج تو اس وقت کیا جب آپ ہندوستان میں رہائش پذیرتھے،آپ کا یہ سفر1368ھ/1945ءمیں بحری جہازکے ذریعے ہوا،اس سفرکی اہم بات یہ ہے کہ بریلی شریف کےمحمد افضل خان صاحب اپنی زوجہ کےساتھ آپ کےساتھ حرمین طیبین جاناچاہتے تھے،اس زمانےمیں ویزے کے بغیرہی سفرہوتےتھے،مسئلہ یہ تھا کہ جس سفینے میں مفتی صاحب کوسفرکرناتھااس میں کوئی نشست خالی نہیں تھی،اس فیملی کا بہت زیادہ اصرارتھاکہ مفتی صاحب کے ساتھ ہی سفرکرنا ہے،مفتی صاحب نے کہاکہ واقعی آپ کا پختہ ارادہ ہے تو انھوں نے اپنے پختگیٔ ارادہ کوظاہرکرنےکے لیے کہاکہ اگرہمیں نشست نہ ملی تو ہم سمندرمیں چھلانگ لگادیں گے ،ہمیں اپنے ساتھ لے جانا آپ کی ذمہ داری ہے ۔مفتی صاحب نےیہ سن کرارشادفرمایاکہ ٹھیک ہے آپ میرے ساتھ سفرکی تیاری کریں ،جب آپ ان کےہمراہ بندرگاہ پہنچے توآپ نے جہازی کمپنی کے ذمہ دار افسر کو ان دونوں کانام لکھ کردیااورکہاکہ اسےاپنی جیب میں رکھ لیں،جب مفتی صاحب جہازمیں سوارہوگئے اورسیٹی بج گئی تو اچانک اعلان ہواکہ محمد افضل خان اورانکی بیوی جہازمیں سوارہوجائیں ،یہ دونوں سوارہوگئے ۔اصل میں ہوا یوں کہ آخری وقت میں پتاچلاکہ دومسافرجنہوں نے نشست بک کروائی ہوئی تھی وہ کسی وجہ سے وقت پرنہیں پہنچے اورانکی نشستیں خالی تھیں۔مفتی صاحب حج کرکے واپس آگئے مگرمحمدافضل خان صاحب مدینہ منورہ میں رہائش پذیرہوگئے ،ان کا انتقال مدینہ شریف میں ہی ہوااورجنت البقیع میں تدفین ہوئی۔جب آپ حج سے واپس آئے تودارالعلوم منظراسلام بریلی شریف میں جلسۂ تہنیت منعقدکیا گیا ،اس دورمیں خوشترملت علامہ محمدابراہیم خوشتررضوی صاحب دارالعلوم کےطالب علم تھے،انھوں نے یہ قطعہ پڑھا:

جھولیاں نعمت ِ دارین سےبھرکراپنی۔۔۔۔۔۔۔۔پھروطن کومیرے مخدوم ومکرم آئے

شادومسرورہیں کس درجہ وہ اللہ اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔کتنے انعام خدا جانے وہاں سے پائے

ہوئی تاریخ یہ خوشترزسرکیف دوام۔۔۔۔۔۔۔۔’’دل کوپُرنورتجلی سے بنا کر لائے‘‘

1945ء

٭دوسراحج آپ نے پاکستان ہجرت کے بعد1388ھ/1969ءکو کیا،اس سفرکی اہم بات یہ ہے کہ اس میں علامہ محمدابراہیم خوشتررضوی صاحب اپنی فیملی سمیت موریشس سے حج کرنے آئے ہوئےتھےانہیں مفتی صاحب کی معیت میں ہی حج کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ٭تیسرا حج آپ نے 1392ھ/1968 ءمیں کرنےکی سعادت پائی۔ ٭1395ھ /1975ء سے آپ ہرسال مسلسل ماہ رمضان میں عمرہ وزیارت مدینہ کےلیے حرمین طیبین کاسفرفرمایا کرتے تھے ،ماہ رمضان وہاں گزارکرعیدکےبعدواپس آتے تھے،یہاں تک کہ آپ نے وصال فرمایا۔(162)

حرمین طیبین میں آپ کے معمولات

حرمین طیبین کی حاضری کسی بھی عاشق صادق کی معراج ہوتی ہے ، وہ اپنے نیک اعمال میں اضافہ کرتااورخوشنودی خداومصطفی میں مستعدہوجاتاہے ،یہی کیفیت مفتی صاحب کی ہوتی تھی ٭آپ یہاں حاضرہوکرذکروفکر،تلاوت قرآن،صلوۃ وسلام کی کثرت فرماتے ٭اپنے خاندان،مریدوں،خدام واحباب کےلیے فردا فردا دعافرماتے ، ملک و بیرون جب بھی کوئی آپ کو دعایا بارگاہ رسالت میں سلام کے لیے عرض کرتاہے تو آپ اس کا نام اپنی ڈائری میں نوٹ فرمالیتے ،ہرشہروالوں کا نام الگ صفحے پر ہوتا،جب آپ مدینہ شریف میں بارگاہِ رسالت میں حاضرہوتے تو اس ڈائری سے دیکھ کرایک ایک کانام لے کر نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں سلام عرض کرتے اوراس کے لیےدعافرماتے ٭حرمین طیبین میں ملاقات کرنےوالوں پر خصوصی شفقت فرماتے٭مدینہ شریف میں حاجی حنیف اللہ والاکے ہاں شارع رومیہ میں قیام فرماتےکیونکہ ان کا گھرقطب مدینہ ،شیخ العرب والعجم علامہ ضیا ء الدین احمدمدنی رحمۃ اللہ علیہ کے آستانےکے قریب تھا،روزانہ شام کو قطب مدینہ کے ہاں ہونے والی محفل نعت میں شرکت فرماتے اورشام کاکھانا وہیں تناول فرماتے ،ماہ رمضان میں قطب مدینہ کے انتہائی اصرارپرسحری وافطاری آستانےپرکرتے ،جب قطب مدینہ وصال فرماگئے تو جانشین قطب مدینہ ،حضرت مولانا حافظ فضل الرحمن مدنی صاحب (163) کی موجودگی میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا ۔ اَب حاجی حنیف اللہ والا کا مکان اورقطب مدینہ کا آستانہ جیدتعمیرکی وجہ سے مسجدنبوی میں شامل ہوگیا ہے ۔

اسفارعراق

مفتی صاحب نےبغدادشریف،نجف اشرف،کربلامعلیٰ وغیرہ میں صحابہ عظام واولیاکرام کےمزارات پرحاضری کےلیے دومرتبہ سفرکیا۔٭آپ کا پہلا سفرِ عراق (غالبامحرم )1367ھ/دسمبر1947ءمیں ہوا، اس کا انتظام نظام حیدرآباد دکن میرعثمان علی خان نے کیا ،آپ نے بغدادشریف ،نجف اشرف اورکربلا معلیٰ میں حاضری کا شرف حاصل کیا ، آپ ہندوستان سے عراق روانہ ہوئے،بغدادشریف پہنچ کر نقیب الاشراف(164) کےمہمان ہوئے ،اس وقت سقوط حیدرآباد دکن نہیں ہواتھا،چنانچہ مفتی صاحب نے نقیب الاشراف سے درخواست کی کہ جب آپ دربارغوث الاعظم میں جانب قدم حاضرہوکر ختم قرآن شریف کرتے ہیں تو دعافرمائیےکہ حیدرآباددکن پاکستان میں شامل ہوجائے،نقیب الاشراف نے حامی بھرلی،مگریہ دعاکرنابھول گئے،دوبارہ اورپھرسہ باردعاکی درخواست کی تو فرمانے لگے :مولانا،میں بھُلادیاجاتاہو۔اس لیے دعانہ ہوسکی اور17ستمبر1948ءکوسقوطِ حیدرآبادہوگیا۔(165)

٭آپ کا دوسراسفرزندگی کے آخری سال میں (غالباربیع الاول کے آخریا ربیع الاخرکےابتدامیں ) 1408ھ/نومبر 1987ء کوجدہ سے بغدادشریف ہوا،دربارِغوثُ الاعظم میں نقیب الاشراف حضرت شیخ سیّدیوسف بن عبداللہ جیلانی رحمۃ اللہ علیہ(166) نےآپ کا استقبال کیا، خصوصی کمرہ عنایت فرمایا، دربارکےخادم بابافقیرمحمدصاحب کوایک دینار دیتے ہوئے کھاناکھلانے کی تاکیدکی،مفتی صاحب نےخادم کوبتایاکہ یہ میری چالیس سال کےبعددوسری حاضرہے،خادم صاحب نےکہاکہ گویا آپ الوداع کہنے آئے ہیں ۔آپ نے یہاں دیگر مزارات پربھی حاضری شرف حاصل کیا۔(167)

اہلسنت کے اداروں کےساتھ تعاون

آپ مسلک اعلیٰ حضرت کے سچے اورپکے داعی تھے ،جہاں کہیں آپ کے علم میں کوئی ادارہ یا انجمن بلکہ کوئی فردبھی آتاتو آپ اس کے ساتھ بھرپورتعاون فرماتے ،اس تعاون کی صورت نہ صرف علمی اورمالی ہوتی بلکہ حتی الامکان بنفس نفیس اس میں حصہ لیتے ،مثلا کسی کو کتاب کی ضرورت ہوتی اوروہ آپ کے پاس ہوتی تو اسے بھیج دیتے ،کسی اورکے پاس ہوتی اور آپ کے علم میں ہوتاتو اس سےلے کرروانہ کردیتے،بعض اوقات تو اس کتاب کے لیے سفربھی فرماتے ،اسی طرح آپ اداروں کے ساتھ بھی بھرپورتعاون فرماتے ،آپ نے ادارہ تحقیقات امام احمدرضا کراچی اورمرکزی مجلس رضا لاہور کے ساتھ جو تعاون فرمایا اس کا مختصرذکر کیا جاتاہے :

(1)ادارہ تحقیقات امام احمدرضا کا قیام1400ھ/ 1980ء کوکراچی میں ہوا،مفتی تقدس علی خان بانیان ادارہ میں سے ہیں ، آپ نے تن من دھن سے اسکی معاونت فرمائی ،1406ھ/ 1986ء میں یہ ادارہ رجسٹرہوااوراس کی مجلس عاملہ بنائی گئی ،آپ اس کے اول سرپرست اعلیٰ منتخب ہوئے اورتادم ِوصال اس عہدے پرفائزرہے۔ادارہ رجسٹرہونےکے بعداس کے دفترکی ضرورت تھی،مفتی صاحب نےاراکین مجلس عاملہ کا حوصلہ بڑھایا،حضرت حاجی شفیع محمدقادری صاحب کے گھرآفس کا تذکرہ ہواتو آ پ نے فرمایاکہ یہ مسئلہ حل ہوجائے گا اوراپنی جیب سے سوروپے کانوٹ نکال کر مولانا سیدریاست علی قادری صاحب (168) کے ہاتھ میں رکھ دیا اورفرمایاکہ آفس کے لیے جگہ تلاش کرو،الحمدللہ جلدہی جگہ مل گئی اورمفتی صاحب نے11رمضان 1407ھ/ 10مئی 1987ء کو اپنے ہاتھوں سے اس کا افتتاح فرمایا۔ادارہ میں آپ کی خدمات تادم وصال جاری رہیں ،آپ کا دورِ خدمت 1980 ءتا 1988ءتک ہے ۔مفتی صاحب نے ادارہ کی سالانہ ساتویں کانفرنس( 24،اکتوبر1987ء)کی صدارت بھی فرمائی ۔(169)

(2)مرکزی مجلس رضا لاہورکا قیام1388ھ/ 1968ء کو حکیم اہل سنت حضرت حکیم محمدموسیٰ امرتسری (170) نے اپنے چند رفقاکےساتھ لاہورمیں کیا ، جس کا بنیادی مقصد امام احمد رضا، فکر رضا کا تعارف اور مسلکِ اعلیٰ حضرت کو عام کرنا تھا۔ مفتی تقدس علی خان صاحب اس مجلس کے بھی سرپرست اورمالی معاون تھے اوراس حیثیت سے چودہ پندرہ سال یوم رضا کے موقع پر ہونے والے جلسے کی صدارت فرمانے کے لیے لاہورتشریف لےجاتے رہے اگرچہ آخری عمرمیں آپ بہت کمزورہوگئے تھے پھربھی یوم رضا میں شرکت ضرورفرماتے تھےچنانچہ16محرم1406ھ/ یکم اکتوبر1985ء کے اپنے مکتوب میں اس طرح ذکر فرماتے ہیں :اب میں بتقاضہ ٔ عمربہت کمزورہوگیا ہوں ۔چلنے پھرنے میں دشواری ہوتی ہے اور نگاہ بھی کمزورہوگئی ہے پھربھی 20صفرکویوم رضا(لاہور) میں شرکت کا ارادہ ہے ۔ (171) مصنف ومحقق سید محمد عبداللہ قادری(واہ کینٹ،ضلع راولپنڈی)تحریرفرماتے ہیں : مرکز ی مجلس رضا نے 1968ء تا 1999 بڑا زور دار کام کیا، بہت سی کتب بھی شائع کیں، جن سے تعلیمات امام احمد رضا کو روشناس کروایا۔ بہت سی نایاب اور غیر مطبوعہ کتب کے مسودات بغرض اشاعت مفتی تقدس علی خان بریلوی قادری بریلی شریف جا کر خود لاتے تھے۔ 22 فروری 1988ء کو حضرت مفتی تقدس علی خان علیہ الرحمہ کی رحلت کے بعد، مرکزی مجلس رضا رجسٹرڈ لاہور کے بانی اور مجلس کے دیگر متعلقین ایک عظیم نعمت سے محروم ہوگئے، مفتی تقدس علی خان، مرکزی مجلس رضا رجسٹرڈ کو علمی و دینی مشوروں سے نوازتے اور ہر قسم کا مالی تعاون بھی کرتے تھے۔مرکزی مجلس رضا کے تحت مسجدرضا چاہ میرں لاہورتعمیرکی گئی اس کا افتتاح بھی مفتی تقدس علی خان صاحب نےاپنےہاتھوں سےکیا۔ افتتاحی تقریب کے بعد نماز ظہر حضرت مفتی تقد س علی خان صاحب نے پڑھائی۔(172)

سلسلہ قادریہ رضویہ کی اشاعت

مفتی تقدس علی خان صاحب کا اصل میدان درس وتدریس تھا ،اس کے ساتھ ساتھ آپ شیخ طریقت ، اورادووَظائف کے پابنداورپیرکامل بھی تھے ،کئی لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر توبہ وبیعت کی سعادت حاصل کی ،روحانی فیوض وبرکات سے مالامال ہوئے ، آپ نے کئی حضرات کو سلسلہ قادریہ رضویہ حامدیہ کی خلافت سے بھی نوازا،مثلا (1)استاذالعلما مولانامحمد اطہرعلی نعیمی (173) (2)مولانا شمس الحسن شمس بریلوی (174) (3)مولانا سیدریاست علی قادری (175) (4)صاحبزادہ وجاہت رسول قادری (176) (5)الحاج شفیع محمدقادری حامدی (177) (6)مولانا ابوالقاسم ضیائی (178) (7)مولانا محمدعباس مدنی (179)وغیرہ۔ (180)

وفات ومدفن

آخری تقریب جس میں آپ نے شرکت کی وہ جمادی الاخریٰ1408ھ میں مصلحِ اُمّت قاری مصلح الدین صدیقی (181) رحمۃ اللہ علیہ کا عرس تھا ،اس میں بنفس نفیس تشریف لائے ،آپ بہت کمزورہوچکے تھے ،احباب سے اس طرح گفتگوکی جیسے وصیت کررہے ہیں، جن لوگوں کے پاس آپ نے کچھ امانتیں رکھی ہوئیں تھیں ان کاذکرفرمایا، اس کے بعد پیرجوگوٹھ تشریف لے گئے اور وہاں بیمارہوگئے ،3رجب 1408ھ /22فروری 1988ءکو آپ کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی، اس لیے بغرض علاج کراچی تشریف لے آئے، اپنی ہمشیرہ کے گھر نرسری میں قیام فرمایا، حاجی شفیع محمد حامدی، حاجی حنیف اللہ والااورحاجی عبدالغفارپردیسی (182) صاحب آپ کو سول ہسپتال لے گئے ،آپ کو اسڑیچرپرلٹاکر دل وارڈ میں منتقل کردیا گیا،آپ نے چوتھے کلمے کاورد شروع کردیا اور قریب موجوداحباب کو بھی پڑھنے کافرمایا،مسلسل یہ ورد جاری رہا ،پھرآپ کی سانس اکھڑنے لگی،دوپہرپونے بارہ بجے آپ کو آبِ زم زم اورکھجوردی گئی،بارہ بجے آپ کے خادم و شاگردحافظ امتیاز(183) صاحب نے سورۂ یسین کی تلاوت شروع کی ،12بج کر10 منٹ پر جیسے ہی سورہ یسین شریف مکمل ہوئی آپ کاوصال ہوگیا۔وفات کی خبرچاردانگ عالم میں عام ہوگئی ،آپ کی جسدمبارک کو نرسری لایا گیا جہاں احباب نے غسل وکفن دیا ، آپ کا نمازجنازہ آرام باغ مسجدکےباہر مفتی اعظم پاکستان مفتی وقارالدین قادری(184) نےپڑھایا ،نمازجنازہ میں لوگوں کی کثر ت تھی ، آپ کی تدفین آپ کی وصیت کے مطابق پیرجوگوٹھ میں ہونی تھی اس لیےآپ کا جسدمبارک المصطفی ایمبولینس میں رکھا گیا ،احباب بسوں میں تھے ،یہ قافلہ صبح پیرجوگوٹھ پہنچ گیا ،شہرمیں کاروبار اوردکانیں بند ہوگئیں ،لوگ نمازجنازہ کے لیے امنڈپڑے، صبح دس بجےاستاذالعلما مفتی محمد رحیم کھوسہ سکندری صاحب نے نمازجنازہ پڑھائی۔ (185) ڈاکٹرپروفیسرمجیداللہ قادری صاحب تحریرفرماتے ہیں: فقیرنے اپنی آنکھوں سےدیکھا کہ 24گھنٹے گزرنے کے باوجودآپ کےجسم مبارک پر تازگی رہی،اورچہرہ مبارک چمکتارہااورمسکراتارہا۔(186) تدفین پیرجوگوٹھ قبرستان میں اپنے والد،بیٹےاور بیٹیوں کی قبورسے متصل کی گئی ،ہرسال 3رجب کو آپ کا عرس ہوتا ہے ۔(187)

حواشی ومراجع

(1) اعلیٰ حضرت ،مجدددین وملت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت10شوال 1272ھ /6جون 1856ءکو بریلی شریف (یو پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340 ھ /28،اکتوبر1921ءکو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجع خاص وعام ہے۔آپ حافظ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے ماہر،فقیہ اسلام ،محدث وقت ،مصلح امت، نعت گوشاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریبا ایک ہزارکتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب وعجم،استاذالفقہاومحدثین ،شیخ الاسلام والمسلمین ،مجتہدفی المسائل اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن،فتاویٰ رضویہ (33جلدیں)، جد الممتارعلی ردالمحتار (7 جلدیں،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی) اور حدائق بخشش آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ،282، 301)

(2) شہزادۂ اعلیٰ حضرت،حُجّۃُ الاسلام مفتی حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ علامۂ دہر، مفتی اسلام ،نعت گوشاعر،اردو،ہندی ،فارسی اورعربی زبانوں میں عبوررکھنے والےعالم دین ، ظاہری وباطنی حسن سےمالامال ،شیخ طریقت ،جانشینِ اعلیٰ حضرت اوراکابرین اہل سنت سے تھے ۔ بریلی شریف میں ربیعُ الاول1292ھ/اپریل1875ء میں پیداہوئے اور17جمادی الاولیٰ 1362ھ /22مئی 1943ءمیں وصال فرمایا ، مزار شریف خانقاہِ رضویہ بریلی شریف ہند میں ہے، تصانیف میں فتاویٰ حامدیہ مشہورہے۔(فتاویٰ حامدیہ،ص48،79)

(3)اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ نے شہر بریلی(یوپی ہند) میں غالباماہ شعبان المعظم 1322ھ/ اکتوبر1904ء میں دارالعلوم(مدرسہ اہل سنت وجماعت) منظر اسلام بریلی کی بنیاد رکھی، اس مدرسے کے بانی اعلیٰ حضرت امام احمدرضا ،سربراہ حجۃ الاسلام مولانا حامدرضا قادری اورپہلے مہتمم برادراعلیٰ حضرت مولانا حسن رضا خان رحمۃ اللہ علیہم مقررہوئے ، ہر سال اس ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والے حفاظ قرآن، قراء اور علماء کی ایک بڑی تعداد ہے۔(صدسالہ منظراسلام نمبرماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،ماہ مئی 2001ء،قسط 1ص28،132)

(4) جامعہ راشدیہ پیرجوگوٹھ ضلع خیرپورمیرس میں واقع ہے ،یہ اہل سنت وجماعت کا شمالی سندھ کابڑادینی مدرسہ ہے ، سلسلہ قادریہ راشدیہ کےعظیم بزرگ حضرت سیدمحمدراشدشاہ روزہ دھنی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا آغازتخمینا1195ھ/1781ء میں کیا ، 9شعبان 1371ھ/4مئی 1952ء کواس کی نشاۃ ثانیہ ہوئی،اس کے پہلے شیخ الجامعہ مفتی تقدس علی خان،شیخ الحدیث مفتی صاحبدادخان صاحب اور مہتمم رائس الافاضل حضرت مولانا محمدصالح مہرقادری رحمۃ اللہ علیہم مقررہوئے،اس سےہزاروں علما فارغ التحصیل ہوچکےہیں ،اوراسکی ذیلی شاخیں تین سوسےزائدہیں جس میں سے دوسودرسِ نظامی اورسوحفظ قرآن کی ہیں۔(انوارعلمائے اہل سنت سندھ،735 ،146،369)

(5)افغانستان وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا میں واقع ایک زمین بند ملک ہے یہ پاکستان سے جنوب مشرق میں واقع ہے۔اسکو یکم ربیع الآخر1121ھ/ 10جون1709ء کو احمدشاہ بابادرانی ابدالی نے قائم کیا،افغانستان چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے جس کا کوئی ساحلِ سمندر نہیں۔ اس کی سمندری تجارت پاکستان کے ذریعے ہوتی ہے۔ زیادہ علاقہ پہاڑی ہے جو زیادہ تر کوہ ہندوکش پر مشتمل ہے۔ افغانستان میں پانی کی شدید کمی ہے اگرچہ چار دریا ہیں جن کے نام دریائے آمو، دریائے کابل، دریائے ہلمند اور دریائےھریرود ہیں،اس کا رقبہ 652230 مربع کلومیٹر ہے ۔اسلامی جموریہ افغانستان کادارالحکومت کابل ہے،اکثرآبادی پشتواوردری(فارسی)زبان بولتی ہے، 2020ء میں اس کی آبادی ساڑھے تین کروڑسےزیادتھی۔اس کے34صوبے ہیں ۔معاشرتی سسٹم قبائلی ہے ،تقریبا60 فیصدپشتون،20 فیصدتاجک،10 فیصدہزارہ اوربقیہ 10 فیصد دیگرقبائل ہیں ۔ افغانستان کے %99 لوگ مسلمان ہیں جن میں سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔

(6)قندھارجنوبی افغانستان کا ایک شہر اور صوبہ قندھار کا دار الحکومت ہے، در یائے ارغنداب کے کنار ے واقع اس شہر کی آبادی تقریبا تین لاکھ 16 ہزار ہے۔ یہ افغانستان کا دوسرا سب سے بڑا شہر اور ایک اہم تجارتی مرکز ہے۔ بین الاقوامی ہوائی اڈے اور شاہراہوں کے وسیع جال کے ذریعے یہ شہر دنیا بھر سے منسلک ہے۔ پشاور کے بعد یہ پشتون عوام کا سب سے بڑا مرکز ہے۔

(7)شجاعت جنگ بہادرسعیداللہ خان افغانستان سے ہندمیں آئے،شاہ دہلی محمدشاہ ان کی صلاحیتوں سےبہت متاثرہوااورانہیں لاہور کا شیش محل بطور جاگیردیا،پھردہلی میں بلاکرریاست رامپورمیں جاگیر دی،آخری عمرمیں آپ بریلی شریف میں مستقل رہائش پذیرہوگئے، یہیں انتقال ہوااور شہزادہ کا تکیہ محلہ معماران بریلی میں تدفین ہوئی۔)تجلیات تاج الشریعہ، (82

(8)لاہورایک قدیم وتاریخی شہرہےمغلیہ عہدمیں لاہورکے اردگردفصیل اورتیرہ دروازے بنائےگئے، 372ھ/982ء کویہ ملتان سلطنت کا حصہ تھا،اب یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا دار الحکومت اور پاکستان کادوسرا بڑا شہر ہے۔ یہ پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکز ہے،اسےپاکستان کا دل اور باغوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی تقریباایک کروڑ 11لاکھ ہے۔

(9)دہلی یا دلی  بھارت کے شمال میں واقع ہے۔ دہلی شہربھارت کا ممبئی کے بعد دوسرااوردنیابھرکا تیسراسب سے بڑاشہری علاقہ ہے ، اس کی آبادی اڑھائی کروڑسے زائدہے ، اس کا رقبہ 1،484 مربع کلومیٹر (573 مربع میل) ہےدریائے جمنا کے کنارے یہ شہر چھٹی صدی قبل مسیح سے آباد ہے۔1338ھ/ 1920ء کی دہائی میں قدیم شہر کے جنوب میں ایک نیا شہر "نئی دہلی" بسایا گیا جوکہ موجودہ بھارت کا دارالحکومت ہے ، فی زمانہ دہلی بھارت کا اہم ثقافتی، سیاسی و تجارتی مرکز سمجھا جاتا ہے۔

(10) سعادت یارخان دربارِ دہلی میں وزیرمالیات مقرر ہوئے،انہوں نے دہلی میں بازارسعادت گنج اورنہرسعادت خاں قائم کی ،انکی وفات وتدفین کےبارےمیں معلومات نہ ہوسکیں۔(تجلیات تاج الشریعہ،82)

(11)محمداعظم خان بریلی تشریف لے آئے ،یہ حکومت کے عہدہ وزارت پر فائزتھےپھر وزرات کے عہدے سے علیحدہ ہوکرزہد و عبادات پر مصروف ہوگئے ،شہزادہ کا تکیہ محلہ معماران بریلی میں مقیم ہوئے ،یہیں آپ کا مزارہے آپ کا شماربریلی کے باکرامت اولیائے کرام میں ہوتاہے ۔(امام احمدرضا خان قادری ،ازعلامہ بدرالدین رضوی ،92)

(12)حضرت شاہ نورالحق قادری رزاقی فرنگی محلی،بحرالعلوم علامہ عبدالعلی لکھنوی کےشاگرد،والدگرامی ملااحمدانوارالحق فرنگی محلی کے مرید و خلیفہ اورمدرس درسِ نظامی تھے، 23ربیع الاول1237ھ/17 دسمبر1821ءوصال فرمایا۔آپ عاجزی وانکساری میں مشہور تھے۔ )تذکرہ علمائےہند،452 (

(13)تجلیات تاج الشریعہ،83۔

(14)جدِّ اعلیٰ حضرت ،امام العلماءمفتی رضا علی خان صاحب عالم دین،اسلامی شاعر،مفتی اسلام،استاذالعلماء،علامہ فضل رحمن گنج مرادآبادی کے مرید، شیخِ طریقت اورصاحبِ کرامت ولی کامل تھے۔1224ھ/1809ء کو بریلی شریف کے صاحبِ حیثیت دینی گھرانے میں پیداہوئے اور 2جمادی الاولیٰ1286ھ/10،اگست 1869 ءکویہیں وصال فرمایا، مزار قبرستان بہاری پورنزدپولیس لائن سٹی اسٹیشن بریلی شریف (یوپی، ہند) میں ہے۔ (معارف رئیس اتقیا،ص17)

(15)رئیس الحکماء حکیم تقی علی خان صاحب مفتی تقدس علی خان اورمفتی اعجازولی خاں رحمۃ اللہ علیہما کے پڑداداہیں ۔

(16)حکیم محمداجمل خان کی پیدائش 1284ھ/1864ءکو دہلی میں ہوئی ،آپ بھائیوں میں سب سے چھوٹےتھے ،طب کےساتھ دیگراسلامی علوم پربھی نظرتھی،صاحب دیوان شاعربھی تھے،حافظ اورپھرشیداتخلص رکھا، اولیائے کرام اورتصوف کے محب تھے، تحریک خلافت میں حصہ لیا اورجیل بھی گئے ،زنانہ مدرسہ طیبہ شفاخانہ دہلی آپ نے ہی بنایا ،تقریبا سات سال جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چانسلر رہے، 25جمادی الاخریٰ 1346ھ/20دسمبر1927ء کو انتقال ہوا۔(مسیح الملک حکیم اجمل خاں،18تا21،289،540)

(17) حکیم محمدواصل خان ثانی، مشہوردہلوی حکیم خاندان کے اہم فردتھے ،آپ مشہورحکیم محمودخاں کے منجھلے بیٹےاورحکیم اجمل کے بڑے بھائی تھے،پیدائش1277ھ/ 1861ء کوہوئی ،اپنے بڑے بھائی حکیم عبدالمجید خان کے ساتھ مل کر1883ءمیں علم طب کی ترویج کے لیے مدرسہ طیبہ دہلی کا آغازکیا ،بڑے بھائی کے انتقال(وفات:1901ء) کے وفات کے بعد خاندان مطب اوراس درسگاہ کی ترقی میں تادم وفات مصروف رہے ،درس گاہ کے اخراجات کے لیے ایک دواسازادارہ بنایا جو بعدمیں ہندوستانی دواخانہ کے نام سے مشہورہوا،تقریبا 4سال یہ خدمات سرانجام دے کر صرف43سال کی عمرمیں1322ھ/ 1904ء کو انتقال کرگئے ،تدفین درگاہِ سیدحسن رسول نمانئی دہلی میں بڑے بھائی کی قبرکے قریب ہوئی۔(مسیح الملک حکیم اجمل خاں،17،18)

(18)مفتی تقدس علی خان کا تذکرہ جن کتابوں میں ہے ان میں سے اکثر میں اعلیٰ حضرت کے دادامولانا رضا علی خان کوحکیم ہادی علی خان کاوالدلکھا گیا ہے جوکہ درست نہیں ،مفتی تقدس علی خان صاحب کے دادا حکیم ہادی علی خان ،امام العلما مولانا رضا علی خان صاحب کے بھائی رئیس الحکماءحکیم تقی علی خان کے بیٹے ہیں ۔

(19)حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبۃ رضویہ کراچی،13تا18۔

(20)سِراجُ العَارِفِین حضرت مولانا سیّد ابوالْحُسَین احمد نُوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ عالِمِ دین،شیخِ طریقت اورصاحِبِ تصانیف ہیں۔1255ھ /1840 ءمیں پیدا ہوئے اور 11رجب 1324ھ /31اگست 1906ءمیں وِصال فرمایا۔ مزارِ پُراَنوار مارہرہ شریف (ضلع ایٹہ یو پی) ہِند میں ہے۔ ”سِرَاجُ الْعَوَارِفِ فِیْ الْوَصَایَا وَالْمَعَارِفِ“ آپ کی اہم کتاب ہے۔(تذکرۂ نوری، ص 146،275،218)

(21)حیات مفتی تقدس علی خان ،تحریک اہل سنت کراچی،5 ، ماہنامہ معارف رضا کراچی،جولائی 2013ء،ص57۔

(22)مفتی تقدس علی خان کا تذکرہ جن کتابوں میں ہے ان میں یہ لکھا گیا ہے کہ ’’آپ(یعنی مفتی تقدس علی خان صاحب) کی نانی صاحبہ کی بہن اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی زوجہ محترمہ تھیں۔‘‘یہ درست نہیں ہے ، درست یہ کہ مفتی تقدس علی خان صاحب کی نانی حجاب بیگم اعلیٰ حضرت کی بہن تھیں ،دیکھئے : حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبۃ رضویہ کراچی، 17 ۔

(23)حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبۃ رضویہ کراچی،16،17۔

(24)حیات مفتی تقدس علی خان ،تحریک اہل سنت کراچی،5 ۔

(25)حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبۃ رضویہ کراچی، 17،18۔

(26) مُفسرِ اعظم حضرتِ مولانا محمد ابراہیم رضا خان رضوی جیلانی میاں رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت10ربیع الاخر1325ھ/ 23مئی 1907ء کو بریلی شریف (یوپی) ہند میں ہوئی۔ آپ عالمِ دین، مصنف، مہتمم دار العلوم منظرِ اسلام اور شیخ الحدیث تھے۔11 صفرالمظفر 1385ھ/11جون 1965ء کو وصال فرمایا، آپ کا مزار مبارک بریلی شریف (یوپی) ہند میں روضۂ اعلیٰ حضرت کے دائیں جانب ہے۔ (تجلیات تاج الشریعہ،ص93، تذکرہ جمیل ،205)

(27)مولانا حمادرضا خان نعمانی میاں حجۃ الاسلام کے دوسرے فرزندہیں ،آپ کی ولادت 1334ھ/1915ء کو بریلی شریف میں ہوئی ، اعلیٰ حضرت کی زیارت سے مشرف ہوئے ،اعلیٰ حضرت نے اپنے ایک مکتوب میں آپ کو ’’چھوٹانبیرہ ‘‘تحریرفرمایاہے ،آپ نے علم دین حجۃ الاسلام سے حاصل کیا ،1357ھ/1937ءکوآپ کی شادی بریلی کے ایک سادات گھرانے میں ہوئی ،3بیٹے اور4بیٹیاں ہیں ،آپ نے پاکستان ہجرت فرمائی اور1375ھ/1956ءکو کراچی میں وصال فرمایا تدفین فردوس قبرستان کراچی میں ہوئی۔(تجلیات تاج الشریعہ،ص94 )

(28)حیات مفتی تقدس علی خان ،7۔

(29)ذکرجمیل،237۔

(30) حسن اتفاق آپ کی ولادت سے چنددن پہلے10ربیع الاخر1325ھ/23مئی1907ء کو حجۃ الاسلام علامہ رضا خان صاحب کے ہاں کئی بچیوں کی پیدائش کے بعدعلامہ ابراہیم رضا جیلانی میاں کی ولادت ہوئی ،جس سےخاندان بھرمیں خوشی کی لہردوڑگئی۔(تذکرہ جمیل ، 204

(31) صاحبِ ذوقِ نعت، استاذِ زمن ،شہنشاہ سخن حضرت مولانا حسن رضا خان، اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان کےمنجھلے بھائی، قادِرُالکلام شاعر ، کئی کتب کے مصنف اور دارُالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف کےمہتممِ اوّل ہیں،22ربیع الاول 1276ھ/19،اکتوبر1859ءکو محلہ سوداگران بریلی میں پیدا ہوئے، 3شوال 1326ھ/29،اکتوبر1908ءکوبریلی شریف میں وصال فرمایا، مزارمبارک قبرستان بہاری پور نزد پولیس لائن سٹی اسٹیشن بریلی شریف (یوپی، ہند) میں ہے۔ (ماہنامہ سنی دنیابریلی،صفر1408ھ/اگست1994ء،ص205تا208)

(32)ایک کتاب میں لکھاہے کہ یہ نام(اعلیٰ حضرت کے بھتیجے) مولانا حسنین رضا خان صاحب(پیدائش: 1310 ھ) نے رکھا مگریہ بات درست نہیں کیونکہ اس وقت ان کی عمرپندرہ سال تھی ، مولاناحسن رضا خان (وفات3شوال 1326ھ)بھی حیات تھے ، مفتی تقدس علی خان صاحب کا نام مولانا حسن رضا خان صاحب نے رکھا ہوگا،اس کی تائیدمفتی تقدس علی خان صاحب کے ایک مکتوب سے بھی ہوتی ہے چنانچہ آپ علامہ حسن رضا خان صاحب کا تذکرہ کرتےہوئے تحریرفرماتے ہیں :میری پیدائش 1325ھ کی ہے،میراتاریخ نام ’تقدس علی خاں‘(1325ھ)انہیں کا استخراج کردہ ہے۔ (ماہنامہ معارف رضا کراچی،جولائی 2013ء،ص51 )

(33)حیات مفتی تقدس علی خان ،5

(34)حیات مفتی تقدس علی خان ،7۔

(35)مفتی تقدس علی خان صاحب کی تمام تعلیم دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف میں ہوئی،بعض حضرات نے لکھا ہے کہ آپ نے مدرسہ عالیہ رام پور میں بھی تعلیم حاصل کی مگریہ بات درست معلوم نہیں ہوتی ، کیونکہ آپ کے رامپوری اساتذہ یعنی علامہ ظہورالحسین صاحب آپ کےزمانہ طالب علمی میں دارالعلوم منظراسلام کے مدرس تھے ان کا وصال 22جُمادَی الاُخریٰ 1342ھ/30جنوری 1924ء کو ہواتو حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب نے تاریخ وصلہ کےعنوان سے منظوم تعزیت رقم فرمائی (تذکرہ جمیل ،28،64) اس کے بعدان کے بیٹے علامہ نورالحسین رامپوری صاحب دارالعلوم منظراسلام بریلی کے مدرس مقررہوئے۔الحاصل مفتی تقدس علی خان صاحب نے ان دونوں مدرسین سے بریلی شریف میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کی ۔واللہ اعلم بالصواب۔

(36)واعظ دلپزیرحضرت علامہ مولانا محمدخلیل الرحمٰن بہاری کا تعلق ہندکےصوبہ بہارسے ہے ،جب اعلی حضرت امام احمدرضاخان صاحب مدرسہ حنفیہ پٹنہ کےسالانہ اجلاس(15تا17رجب 1317ھ/19تا21نومبر1899ء) میں تشریف لائے تو اِنہوں نے جیسے ہی اعلیٰ حضرت کی زیارت کی تو بہت متاثرہوئے ،اجلاس کے اختتام پر بریلی شریف حاضر ہوئے ،اعلیٰ حضرت سے بیعت کی اورپھر خلافت سے نوازے گئے، آپ استاذدرس نظامی مدرسہ عربیہ متیال مٹھ مدراس (نیانام ،چینائی،ریاست تمل ناڈو،ہند)،جیدعالم دین،بہترین واعظ، مجاز طریقت ، جماعت رضائے مصطفیٰ اورجماعت انصارالاسلام کے ہمدردورکن تھے۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت،415تا417)

(37)حیات مفتی تقدس علی خان ،۵۔

(38)شہزادۂ استاذِ زمن، استاذُ العلما حضرتِ مولانا محمد حسنین رضا خان رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1310 ھ/1893 ء کو بریلی شریف (یوپی) ہند میں ہوئی۔ آپ اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان صاحب کے بھتیجے، داماد، شاگرد و خلیفہ، جامع معقول و منقول،ذہین و فطین ومحنتی، کئی کُتُب کے مصنف، مدرسِ دار العلوم منظرِ اسلام، صاحبِ دیوان شاعر، بانیِ حسنی پریس و ماہنامہ الرضا و جماعت انصار الاسلام تھے۔ وصال5 صَفَر 1401ھ /14ستمبر1980ء میں فرمایا اور مزار بریلی شریف میں ہے۔ (تجلیات تاج الشریعہ، ص95، صدر العلما محدث بریلوی نمبر، ص77تا81)

(39) صاحبِ حق استاذالعلماعلامہ عبد المنان شہبازگڑھی،1895ء/ 1313ھ کو شہباز گڑھ ضلع مردان کے علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اپنے علاقے کے علماسے علوم عقلیہ ونقلیہ سے فارغت کے بعد مدرسہ اندرکوٹ میرٹھ (یوپی ہند)سے دورہ حدیث کیا ،مدرسہ نصرۃ الاسلام سے تدریس کا آغازکیا ،پھر دارالعلوم منظراسلام میں پڑھایا ،پھرپاکستان میں آکر دار العلوم حزب الاحناف لاہورمیں تدریس کی، پھراپنےگاؤں میں آخرزندگی تک سلسلہ تدریس جاری رکھا اورمسجدبہران خیل کے امام وخطیب مقررہوئے۔ ( تعارف علماء اہل سنت ص 210)مفتی تقدس علی خان صاحب کےبعض تذکروں میں آپ کی منتہی کتب کے اساتذہ میں علامہ عبدالمنان خان صاحب کا نام بھی لکھاگیا ہے لیکن یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ علامہ عبدالمنان صاحب کی فراغت کا سال 1341ھ /1923ءہے اورمنظراسلام میں آپ کی تدریس غالبا 1342ھ/1924ءکے بعدشروع ہوئی،قرین قیاس یہی ہے کہ آپ علامہ تقدس صاحب کے متوسط کتب کے استاذہیں،واللہ اعلم۔

(40)شرح جامی ،مشہورعاشق رسول علامہ عبدالرحمن جامی رحمۃ اللہ علیہ (پیدائش:23شعبان817ھ۔وفات:18محرم898ھ)کی کتاب ہے جس کا اصل نام الفوائدالضیائیہ ہے جوکہ علامہ ابن حاجب عثمان بن عمردوینی (پیدائش:اواخر570ھ۔ وفات:16شوال 646ھ) کی علم النحومیں کتاب الکافیہ کی شرح ہے ، یہ بہت اعلیٰ ،مشہور،معروف شرح ہے ،یہ کئی شروحات کافیہ کا خلاصہ ہے ،اس میں نحوی مباحث کو عقلیت کا رنگ دیا گیا تاہم ٹھوس استعداد پیداکرنے کے لیے بہت عمدہ کتاب ہے۔یہ اب بھی درسِ نظامی کےچوتھے سال (درجہ رابعہ)میں پڑھائی جاتی ہے۔ دعوتِ اسلامی کےادارۂ تصنیف وتالیف المدینۃ العلمیہ(اسلامک ریسرچ سینٹر)کےعالم دین، استاذالعلماء علامہ عبدالواحدعطاری مدنی صاحب نےشرح جامی کا عربی حاشیہ بنام الفرح النامی تحریرفرمایا ہے جسے مکتبۃ المدینہ نے بہت خوبصورت اندازمیں شائع کیا ہے ۔

(41)سیدی ابوالبرکات ،75۔

(42)شمسُ العلماء حضرت علّامہ ظہور الحسین فاروقی مجددی رامپوری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1274ھ/1857ء میں ہوئی اور وصال 12جُمادَی الاُخریٰ 1342ھ/20جنوری 1924ء کو رامپور (یوپی، ضلع لکھنؤ) ہند میں ہوا۔ آپ علومِ عقلیہ و نقلیہ میں ماہر،مدرس مدرسہ عالیہ رامپورو صدر مدرس دارُالعلوم منظراسلام بریلی ، بشمول مفتیِ اعظم ہند سینکڑوں علما کے استاذ اور کئی دَرسی کتب کے مُحَشِّی ہیں۔ ( تذکرہ کاملان رامپور،184تا186)

(43)علامہ نورالحسین رامپوری اپنےوالدصاحب علامہ ظہورالحسین رامپوری کے علمی جانشین،مدرس درسِ نظامی،استاذالعلماء اورکئی کتب کے مصنف ہیں۔(تذکرہ کاملان رامپور،186

(44)بدرالطریقہ حضرت مولانا حافظ عبد العزیز خان محدث بجنوری رضوی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ کی ولادت بجنور(یوپی،ہند)میں ہوئی، آپ عالم، مدرس،صوفی باصفا اور خلیفہ اعلیٰ حضرت تھے،پہلے مدرسہ جامع مسجدپیلی بھیت کے مدرس مقررہوئے،پھر جامعہ منظر ِاسلام بریلی میں تقریباً 20 سال تدریس کی،اس دوران مدرسہ مظہراسلام مسجدبی بی جی بریلی میں بھی پڑھایا ،8جمادی الاولیٰ 1369ھ/26فروری1950ء میں بریلی شریف میں وصال فرمایا ۔تدفین انجمن اسلامیہ بریلی قبرستان میں ہوئی۔(تذکرہ خلفائے اعلی حضرت، ص181)

(45)ماہنامہ معارف رضا کراچی،جولائی 2013ء،ص54،تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت ،185)

(46)استاذُ العلما، حضرت مولانا رحم الٰہی منگلوری مظفر نگری قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت منگلور (ضلع مظفر نگر، یو پی) ہند میں ہوئی۔ آپ ماہرِ معقولات عالم دین، صدر مدرس، مجازِ طریقت اور دارالعلوم منظراسلام کےاولین( ابتدائی) اساتذہ میں سے ہیں ۔ آپ نے بحالتِ سفر آخر (غالباً28) صَفر 1363ھ /23فروری 1944ءکو وصال فرمایا۔ (تذکرہ خلفائے اعلی حضرت، ص138)

(47)صاحب ِ بہارِ شریعت صدرُالشّریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ولادت 1300ھ/1883ء کو مدینۃ العُلَماء گھوسی (ضلع مؤ،یوپی)ہند میں ہوئی اور 2 ذیقعدہ1376ھ/31مئی 1957ء کووصال فرمایا،مزارمبارک گھوسی میں ہے۔ آپ جیّدعالم، بہترین مفتی ،مثالی مدرّس،متقی وپرہیزگار ،استاذالعُلَماء،مصنفِ کتب وفتاویٰ ، مؤثرشخصیت کے مالک اوراکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔اسلامی معلومات کا انسائیکلوپیڈیا بہارِ شریعت آپ کی ہی تصنیف ہے۔ (تذکرہ صدرالشریعہ،5، 41وغیرہ) (48)ماہنامہ معارف رضا کراچی،جولائی 2013ء، ص56)

(49)جہان مفتی اعظم ہند ،1060۔

(50)انوارعلمائے اہل سنت سندھ،145۔

( 51)ماہنامہ معارف رضا کراچی،جولائی 2013ء،ص56)

(52)حاجی مریداحمدچشتی صاحب کی پیدائش ذوالحجہ1371ھ/ ستمبر1952ء کو چک جانی(تحصیل پنڈدادنخان ضلع جہلم)میں ہوئی اور قریبی علاقے پنڈی سیدپورمیں 10ذیعقدہ1435ھ/ 6ستمبر2014ء کو وصال فرمایا،آپ اسکول ٹیچر،پابندصوم و صلوۃ،مصنف کتب کثیرہ اورشیخ الاسلام خواجہ قمرالدین سیالوی صاحب کے مریدتھے،آپ کی تصانیف میں خیابان رضا،فوزالمقال(نوجلدیں)وغیرہ ہیں۔ (فوزالمقال، 3/874)

(53) ماہنامہ معارف رضا کراچی،جولائی 2013ء،ص58،تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت ،186۔

(54)عالمی مبلغِ اسلام علّامہ محمد ابراہیم خَوشْتر صِدّیقی رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1348ھ/1930ء کو بنڈیل (ضلع چوبیس پرگنہ،مغربی بنگال) ہند میں ہوئی۔آپ حافظ قرآن، تَلمیذِ محدّثِ اعظم پاکستان، خلیفۂ حجۃُ الاسلام و قُطبِ مدینہ، مُصنّف و شاعر، بہترین مدرّس، باعمل مبلغ، بانی سنّی رضوی سوسائٹی انٹرنیشنل اور امام و خطیب جامع مسجد پورٹ لوئس ماریشس تھے۔تصانیف میں ”تذکِرَۂ جمِیل“ اہم ہے۔5جُمادَی الاُخریٰ 1423ھ/24،اگست2002ء کو ماریشس میں وِصال فرمایا، مَزارمُبارک سنّی رضوی جا مع مسجد عیدگاہ پورٹ لوئس ماریشس میں ہے۔(ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی شریف، رجب 1435ہجری،ص 56،57،مفتیِ اعظم اور ان کے خلفاء، ص 125تا 129)

(55)ذکرجمیل،278۔

(56)ذکرجمیل،238۔

(57) قُطْبِ مدینہ،شیخُ العَرَبِ والعَجَم، حضرت مولانا ضیاء الدین احمدقادری مدنیرحمۃ اللہ علیہکی ولادت1294ھ 1877ء کلاس والاضلع سیالکوٹ میں ہوئی اوروصال 4 ذوالحجہ 1401ھ/2 اکتوبر 1981ءکو مدینہ منورہ میں ہوا۔ تدفین جنت البقیع میں کی گئی ۔آپ عالم ِباعمل ،ولیِ کامل ، حسنِ اخلاق کے پیکراوردنیا بھرکے علماومشائخ کے مرجع تھے ۔آپ نے تقریبا75سال مدینۂِ منوّرہ میں قیام کرنے کی سعادت حاصل کی، اپنے مکان ِعالی شان پرروزانہ محفل میلادکا انعقادفرماتے تھے۔امیراہل سنت علامہ محمدالیاس عطارقادری صاحب آپ کے مریدہیں ۔ (سیدی قطب مدینہ،17،11،8،7)

(58)شہزادۂِ اعلیٰ حضرت، مفتیِ اعظم ہند، حضرت علّامہ مولانا مفتی محمدمصطفےٰ رضا خان نوری رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 22ذوالحجہ 1310ھ مطابق 7جولائی 1893ء کورضا نگر محلّہ سوداگران بریلی (یوپی،ہند) میں ہوئی۔ آپ فاضل دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف، جملہ علوم و فنون کے ماہر، جید عالِم، مصنفِ کتب، مفتی و شاعرِ اسلام، شہرۂ آفاق شیخِ طریقت، مرجعِ علما و مشائخ و عوامِ اہلِ سنّت تھے۔ 35سے زائد تصانیف و تالیفات میں سامانِ بخشش اور المکرمۃ النبویۃ فی الفتاوی المصطفویۃ المعروف فتاویٰ مفتی اعظم (یہ چھ جلدوں پرمشتمل ہے اس میں پانچ سوفتاویٰ اور22 رسائل ہیں )مشہور ہیں۔ 14 محرّمُ الحرام 1402ھ /13نومبر1981ءمیں وصال فرمایا اور بریلی شریف میں والدِ گرامی امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں دفن ہوئے۔(جہانِ مفتی اعظم، ص64تا130)

(59)مکاشفۃ القلوب اردو،بزم تقدس کراچی، 688۔

(60)حیات مفتی تقدس علی خان ،6۔

(61)تذکرہ اراکین ادارہ تحقیقات امام احمدرضا ،113۔

(62)حضرت مولاناحکیم مفتی قاری محبوب رضا خان رضوی صاحب،کی پیدائش20محرم1335ھ/ 16نومبر1916ءکو بریلی شریف میں ہوئی اوروصال کراچی میں 2جمادی الاخریٰ 1412ھ/9دسمبر1991ءکو ہوا،عالیشان مزارمیوہ شاہ قبرستان میں ہے ،آپ فاضل دارالعلوم منظراسلام،شاگردصدرالشریعہ،حازق طبیب،بانی مدرسہ حنفیہ رضویہ کراچی،مدرس ومفتی دارلعلوم امجدیہ کراچی،مبلغ اسلام،خلیفہ مفتی اعظم ہند،مفتی امام وخطیب جامع مسجدمصلح الدین گارڈن اورصاحب تصنیف تھے۔(انوارعلمائےاہل سنت سندھ، 887 تا 889)

(63)حیات مفتی تقدس علی خان ،14۔

(64)شرفِ ملت حضرت علّامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت23شعبان 1363ھ  13/ اگست 1944ء مزار پور (ضلع ہوشیار پور پنچاب) ہند میں ہوئی۔ آپ استاذالعلماء، شیخ الحدیث و التفسیر جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ، مصنف و مترجم کتب، پیرِ طریقت اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔ 18شعبان 1428ھ/یکم ستمبر2007ء کو وصال فرمایا، مزار مبارک جوڈیشنل کالونی لالہ زار فیز-2 لاہور پاکستان میں ہے۔آپ کاترجمہ قرآن ’’انوارالفرقان فی ترجمۃ معانی القرآن ‘‘یادگارہے۔راقم کوکئی مرتبہ آپ کی بارگاہ میں حاضری کاشرف حاصل ہوا۔(شرفِ ملت نمبر لاہور، ص 126)

(65)عظمتوں کے پاسباں،384،385۔

(66)ماہنامہ معارف رضا کراچی،جولائی 2013ء،ص،50،52،57۔

(67)مفتی اعظم اورانکے خلفاء،269۔

(68)مکاشفۃ القلوب اردو،بزم تقدس کراچی، 18۔

(69)حیات مفتی تقدس علی خان ،8۔

(70)شرح تہذیب ،علامہ امام سعدالدین مسعودبن عمرتفتازانی رحمۃ اللہ علیہ(پیدائش:صفر712ھ،وفات:792ھ) کی علم منطق کی کتاب ’’تہذیب المنطق والکلام ‘‘کی شرح ہے ،جسے درسِ نظامی کے تیسرےسال(درجہ ثالثہ )میں پڑھایا جاتاہے ، شارح کانام علامہ عبداللہ بن حسین یزدی اصفہانی ہے ،شارح کا انتقال 1015ھ میں ہوا۔(شرح التہذیب،ص8تا10) دعوتِ اسلامی کےادارۂ تصنیف وتالیف المدینۃ العلمیہ(اسلامک ریسرچ سینٹر)کےرکن ،استاذالعلماء علامہ کامران احمد عطاری مدنی صاحب نےشرح تہذیب کا عربی حاشیہ بنام فرح التقریب تحریرفرمایا ہے جسے مکتبۃ المدینہ نے بہت خوبصورت اندازمیں شائع کیا ہے ۔

(71)مکاشفۃ القلوب اردو،بزم تقدس کراچی، 19۔

(72)دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف کے پہلے مہتمم شہنشاہ سخن حضرت مولانا حسن رضا خان(دورِ نظامت ،1322ھ تا1326ھ) دوسرے مہتمم حجۃ الاسلام مولانا حامدرضا خان (دورِنظامت :1326ھ تا1362ھ)تھے۔ (صدسالہ منظراسلام نمبرماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،ماہ مئی 2001ء،قسط 1ص 132تا135) ۔

(73)مفتی اعظم اورانکے خلفاء،269۔

(74)ایک کتاب میں آپ کے ہجرت کا سال1368ھ/ 1948ء لکھا ہے مگرآپ کے حالات زندگی اس کی تائیدنہیں کرتے ۔

(75)مفتی عبدالواجدنیّرقادری صاحب کی پیدائش 5ذیقعدہ1352 ھ/ 19فروری 1934ء میں اپنے نانیہالی گاؤں ’’دوگھرا جالے‘‘ ضلع در بھنگہ بہار ہندمیں ہوئی اور13ذیعدہ1439ھ/26 جولائی 2018کو ایمسٹرڈیم ہالینڈ یورپ میں وصال فرمایا۔آپ شہزادگان اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام اورمفتی اعظم ہندکے تلمیذومریدوخلیفہ،جیدمفتی اسلام،صاحب ِدیوان شاعر،بہترین مدرس ومقرر،پچاس سے زائدکتب کے مصنف،16 مساجد،مدارس اوراداروں کے بانی یا سرپرست،ہالینڈکے قاضی القضاۃ اور مفتیٔ اعظم تھے ۔آپ کی کتاب فتاویٰ یورپ کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔

(76)صدسالہ منظراسلام نمبرماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،ماہ مئی 2001ء،قسط 1ص تا135۔

(77) محدثِ اعظم پاکستان حضرت علّامہ مولانا محمد سردار احمد قادری چشتی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1323ھ/1906ء میں ضلع گورداسپور (موضع دیال گڑھ مشرقی پنجاب) ہند میں ہوئی اور یکم شعبان 1382ھ/28دسمبر1962ء کو وصال فرمایا،آپ کا مزار مبارک فیصل آباد پنجاب،پاکستان میں ہے۔آپ استاذالعلماء، محدثِ جلیل، شیخِ طریقت، بانیِ سنّی رضوی جامع مسجد و جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام سردارآباد اور اکابرینِ اہلِ سنّت میں سے تھے۔(حیاتِ محدثِ اعظم، ص334،27)

(78)ان کا ذکرہوچکا ۔

(79) بلبل ہندمفتی رجب علی نانپاری قادری کی ولادت13جمادی الاولیٰ 1341ھ/ یکم جنوری1923ء کو ضلع بہرائچ کے قصبہ نانپارہ میں اور وفات 3ذوالحجہ 1418ھ/یکم اپریل 1998ء کو کانپورمیں ہوئی،آپ کو مدرسہ عزیز العلوم نانپارہ کے قریب دفن کیاگیا ،جس پرمزاربنایاگیاہے۔آپ فاضل دارالعلوم منظراسلام ،بانی مدرسہ عزیزالعلوم نانپارہ،صاحبِ دیوان صوفی شاعر،بہترین واعظ ،مریدبدرالطریقہ علامہ علامہ عبدالعزیزخاں ،خلیفہ مفتی اعظم ہنداورشیخ طریقت تھے،ریاض عقیدت آپ کا شعری مجموعہ مطبوع ہے۔

(80)مفتی اعظم راجستھان الشاہ مفتی محمد اشفاق حسین نعیمی کی ولادت18ربیع الاخر1340ھ/ 19دسمبر 1921ءکوموضع شیونولی (ضلع امروہہ،یوپی)ہند میں ہوئی اور9ذی الحجہ 1434ھ/15اکتوبر 2013 ء کو وصال فرمایا،مزارمبارک چوکھا شریف (ضلع جودھپور راجستھان)ہندمیں ہے۔آپ فاضل مدرسہ اجمل العلوم سنبھل(نزد مرادآباد،یوپی)،مریدوخلیفہ اجمل العلما، صدرالمدرسین دارالعلوم اسحاقیہ جودھپوراورراجستھان کی کئی مساجدومدارس نیزاداروں کےبانی یا سرپرست تھے،آپ کو مفتی اعظم ہند اورقطب مدینہ سے بھی خلافت حاصل تھی ۔

(81)تلمیذِ اعلیٰ حضرت،بردارِ مفتی تقدس علی خان ،حضرت مولانا مفتی محمد اعجاز ولی خان قادری رَضَوی رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث، استاذُ العلماء، مدرس، فقیہِ عصر، مصنّف، مترجم، واعِظ اور مجازِ طریقت تھے۔ 11 ربیع الثانی 1332ھ/20 مارچ 1914ء میں بریلی شریف میں پیدا ہوئے اور لاہور میں 24 شوال 1393ھ/ 20 نومبر 1973ء میں وِصال فرمایا، مزار مبارک میانی صاحب قبرستان میں ہے۔(تذکرہ اکابرِ اہلِ سنت، ص 63-65)

(82)رئیس القلم، ملک التحریر حضرت علامہ غلام رشید ارشد القادری مصباحی علیہ رحمۃ اللہ الوَالی کی پیدائش 09 شعبان1343ھ / 5 مارچ 1925ء میں سید پور (ضلع بَلیا یوپی ہند) میں ہوئی اور 15صفر 1423ھ/ 29 اپریل 2002ء کو وصال فرمایا، مزار دارالعلوم فیض العلوم جمشید پور(جھار کھنڈ، ہند) میں ہے۔ آپ مریدِصدر الشریعہ، شاگردِ حافظِ ملت، خلیفۂ مفتیِ اعظم ہند، استاذ العلماء، مناظرِ اہل سنت، مفکرِ اسلام، ملک و بیرونِ ملک کئی تنظیمات و مدارس کے بانی، مصنفِ کتب اور اکابر علمائے اہل سنت سے تھے۔(رئیس القلم علامہ ارشد القادری، ص1تا36،سیرتِ صدرالشریعہ، ص251)

(83)خلیفۂ حجۃُ الاسلام،شیخُ الحدیث حضرت علّامہ عبدالمصطفےٰ اعظمی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ 1333ھ/1915ء میں ہند کے قصبہ گھوسی ضلع مؤ میں پیدا ہوئے اور وِصال 5رمضان 1406ھ/14مئی1986ء کو فرمایا۔ آپ تلمیذِ صدرُالشریعہ و محدثِ اعظم پاکستان، عالمِ باعمل، بہترین واعظ و مدرس، استاذالعلماء، مجازِ طریقت اور کثیر کُتب کے مصنف ہیں۔ سیرتِ مصطفیٰ اور عجائبُ القرآن آپ کی مشہور کُتب ہیں۔ (جنتی زیور،ص28،30، سیرتِ صدرُالشریعہ، ص235، 233)

(84)بحرالعلوم حضرت علّامہ مفتی سیّد محمد افضل حسین مونگیری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1337ھ/1919ء کو بوانا (ضلع مونگیر صوبہ بہار) ہند میں ہوئی اور 21 رجب 1402ھ/15مئی1982ء کو سکھر سندھ میں وصال فرمایا۔ آپ فاضل دار العلوم منظر اسلام بریلی شریف، استاذُالعلماء، شیخ الحدیث، ماہرِ علم توقیت و منطق و حساب، خلیفہ مفتیِ اعظم ہند، مصنّفِ کتب اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔آپ کی 40 کتب میں زبدۃ التوقیت، عمدۃ الفرائض بھی ہیں۔ (تجلیات تاج الشریعہ، ص122، مفتیِ اعظم ہند اور ان کے خلفاء، ص193، 198)۔

(85) بلبل سندھ حضرت مولاناقاضی دوست محمد صدیقی1336ھ/1918ء کوموضع گوٹھ ترائی (تحصیل گڑھی یاسین،ضلع شکارپور)کے علمی صدیقی قاضی خاندان میں ہوئی اور یکم رجب المرجب 1407ھ/2،مارچ 1987ء کو کندھ کوٹ میں وفات پائی اوردرگاہ شریف مخدوم محمد عثمان قریشی ( لاڑکانہ ، سندھ )میں دفن کئے گئے۔ آپ فیض یافتہ دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف ،فارغ التحصیل جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد، سلسلہ قادریہ راشدیہ میں مرید، رسالہ گلدستہ عشق کے مصنف اورمسلک اعلیٰ حضرت کے سحرالبیان خطیب تھے ،آپ حاضر جوابی ، فن خطابت ، خوش الحانی ، طرز بیانی ، گوہر روانی اور فصیح لسانی میں کامل قوت و حافظہ سے مالامال تھے۔ (انوارِ علماِ اہلسنت سندھ صفحہ 246)

(86)شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا مفتی عبدالحمیدقادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1319ھ /1901ءکو قصبہ آنولہ (ضلع بریلی یوپی) ہند میں ہوئی اور وصال 2ربیعُ الآخر1393ھ/5مئی1973ء کو نواب شاہ (سندھ) پاکستان میں ہوا، آپ حافظِ قراٰن، جید عالمِ دین، فاضل دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف، اچھے مقرر و مدرس اور امام و خطیب جامع مسجد نواب شاہ تھے۔(تذکرہ اکابرِ اہلِ سنّت پاکستان، ص215)

(87)جامعہ نظامیہ (  حیدرآباددکن،ریاست تلنگانہ،ہند) درس نظامی کا منفرد و معتبر اور قدیم و عظیم ادارہ ہے،اس کا قیام شیخ الاسلام والمسلمین، امام حافظ محمد انواراللہ چشتی فاروقی صاحب نے1292ھ/ 1876ء میں رکھا ،یہ اپنے قیام سے اب تک ترقی کی منزلیں طے کررہا ہے ،تقریباتمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگ اس سے مستفیض ہوچکے ہیں ، جہاں سے ہزاروں علماء،حفاظ، محدثین، مفسرین، محققین، مفکرین پیدا ہوئے اور جنہوں نے ساری دنیا میں دین اسلام کی تعلیمات کی نشر و اشاعت اور تبلیغ دین میں اپنی زندگیاں وقف کردیں۔جامعہ کی دیگرشاخوں کی تعداد263ہے ،جامعہ اوراس کی شاخوں میں طلبہ کی تعدادتقریبا50 ہزارہے۔اس کے کئی ذیلی ادارے ہیں ،مثلا کلیۃ البنات(گرلزکالج)،مجلس اشاعت العلوم وغیرہ۔

(88)وہ علوم جو مشرقی یعنی ایشیائی ممالک میں مروج ہیں مثلاً عربی،فارسی یا اردو وغیرہ زبانوں میں جن ایشیائی علوم کا ذکر ہے وہ علوم شرقیہ کہلاتے ہیں ۔

(89)نظام المُلک نواب میر عثمان علی خان صدیقی (پیدائش:6 اپریل 1886ء،وفات:24 فروری 1967ء)، حیدرآباد دکن ریاست کے آخری بادشاہ تھے۔نظام ایک مؤثر منتظم اور ایک رعایا پرور بادشاہ کے طور پر جانے جاتے تھے۔ان کا دورِ حکمرانی 1911 ء تا 17ستمبر 1948ء کوسقوطِ حیدرآباد تک 37سالوں پر محیط ہے ،ان کے زمانے میں حیدرآبادشہرکی ازسرنوتعمیرہوئی،عثمانیہ جنرل ہاسپٹل اورعثمانیہ یونیورسٹی قائم ہوئی، انھوں نے کئی اہم عمارتیں، جیسے، حیدرآباد ہائی کورٹ،  آصفیہ لائبریری، عثمانیہ جنرل ہاسپٹل، نظام کالج وغیرہ کی تعمیر کی، نظام کے بجٹ کا تقریبا 11 فیصد حصہ تعلیمی اداروں پر خرچ کیا جاتاتھا، انکی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ تقریبا 10 ملین افراد نے انکی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ 

(90)حیات مفتی تقدس علی خان ،8۔

(91)مفسّرِقراٰن حضرت ِ علامہ سیّدمحمد عمر خلیق حسینی قادری حنبلی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1282 ھ/1865ء کو محلہ قاضی پورہ (حیدرآباددکن ) ہندمیں علمی سادات خاندان میں ہوئی اوروصال20 صفر 1330 ھ/9فروری1912ء کو فرمایا،مزار قادری چمن،مضافاتِ محلہ فلک نما حیدرآباد دکن ہندمیں ہے۔آپ بہترین واعظ ،مفسر ،قاری،مصنف ،شاعر،اُستاذالعُلَماء اورشیخِ طریقت تھے۔اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی وفات پر منظوم عربی قصیدہ قلمبندفرمایا۔ (مرقع انوار،ص929،تذکرہ علمائے اہلسنت ص186)

(92) ان کے حالات نہ مل سکے۔

(93)بحر العلوم،مفسرِقرآن حضرت مولانامحمد عبد القدیر حسرت صدیقی کی ولادت 27رجب 1288ھ /12اکتوبر1871ء اور وفات 18شوال 1388ھ/8جنوری1969ء کو حیدرآباد دکن (تلیگانہ ،ہند)میں ہوئی ، آخری آرامگاہ ’’صدیق گلشن‘‘ بہادر پورہ میں ہے۔آپ علوم جدیدہ وقدیمہ کے ماہر،علوم کے سمندر،خوف خداکے پیکراورمجازطریقت تھے ۔تصانیف میں تفسیرصدیقی(6جلدیں)اہل علم میں معروف ہے۔ آپ عثمانیہ یونیورسٹی میں حدیث کے پروفیسراورشعبہ دینیات کے سربراہ تھے ،جامعہ نظامیہ کے اعزازی ناظم بھی رہے ۔

(94)مفتی حیدرآباددکن حضرت علامہ مفتی محمدرحیم الدین صاحب کی ولادت 7ربیع الآ خر 1311ھ/18،اکتوبر1893ء اوروفات 1389ھ مطابق 1970ء میں ہوئی،آپ فاضل جامعہ نظامیہ ،فقیہ ومحدث،استاذالعلما،مرید وخلیفہ شیخ الاسلام علامہ انواراللہ فاروقی،رکن مجلس منتظمہ جامعہ نظامیہ ومجلس علمائے دکن ، شیخ الجامعہ اور معتمد جامعہ اورحکومت آصفیہ کے محکمہ دینیہ ’’صدارت العالیہ‘‘ کے مفتی تھے ۔آپ کے فتاوٰی کا مجموعہ’’ فتاوی صدارت العالیہ ‘‘مطبوع ہے ۔

(95)شیخُ الاسلام حضرت علّامہ محمد انوارُاللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ جیّد عالمِ دین، سلسلۂ چِشتیہ صابریہ کے شیخِ طریقت، صاحبِ تصنیف، بانیِ جامعہ نِظامیہ حیدرآباد دکن اور عالمی شہرت یافتہ بزرگ تھے۔ انواراحمدی،افادۃُ الافہام اورمقاصدُ الاسلام آپ کی مشہور کُتُب ہیں،اسلامی ریاست حیدرآباد دکن میں آپ صدرُالصّدور اور وزیرِ مذہبی اُمور کے مَنصب پر بھی فائز رہے۔ریاست کی جانب سے آپ کو نواب فضیلت جنگ بہادرکا لقب دیا گیا ،آپ کی پیدائش 1264ھ/1848ء کوناندیڑ (مہاراشٹر) ہند میں ہوئی اور 29 جمادی الاولیٰ 1336ھ/12مارچ1918ء کو حیدرآباد دکن میں وفات پائی، مزار جامعہ نظامیہ میں مرجعِ اَنام ہے۔ (مرقعِ انوار، ص25، 27)

(96) ماہنامہ معارف رضا کراچی،جولائی 2013ء،ص54۔

(97)مفتی ظفرعلی نعمانی صاحب(پیدائش:1330ھ/1921ء،وفات:20رمضان1424ھ/16نومبر2003ء) نے1367ھ مطابق 1948ء کو گاڑی کھاتہ فیروزاسٹریٹ آرام باغ کراچی کے ایک کرائے کے مکان میں دارالعلوم امجدیہ کاآغازکیا ،جب وہ جگہ تنگ ہوگئی تو عالمگیرروڈپر جگہ حاصل کی گئی اورپھرآہستہ آہستہ اس کی تعمیرہوتی رہی ،حتی کہ اب عالیشان عمارت بن چکی ہے،یہ کراچی کے تمام مدارس اہل سنت کی اصل اور ماں ہے۔ اسی لیے اسے ام المدارس کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ (انوارعلمائے اہل سنت سندھ،295تا298)

(98)انوارعلمائے اہل سنت سندھ،146۔

(99)حیات مفتی تقدس علی خان ،9۔

(100)مفتی تقدس علی خان صاحب فرماتے ہیں کہ مفتی صاحبدادخان جمالی مرحوم سےمیری ملاقات اوردوستی مرادآبادسنی کانفرنس ( یہ کانفرنس مدرسہ اہل سنت[دارالعلوم نعیمیہ] مرادآبادکے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر19،20شعبان1358ھ/3، 4،اکتوبر1939ء کوہوئی،تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس ،58)میں ہوئی جس میں آپ سندھ سے علمائے اہل سنت کا ایک وفدلے کرشریک ہوئے تھے۔ ( مکاشفۃ القلوب اردو،بزم تقدس کراچی، 20)

(101)سندھ مدرسۃ الاسلام یکم ستمبر 1885ء میں قائم کیا گیا،اس کے بانی حسن علی آفندی (پیدائش: 1830ء وفات: 30اگست 1895ء)ہیں ،اس میں دنیاوی تعلیم دی جاتی تھی،ابتدائی اسلامی تعلیم کاسلسلہ بھی تھا،بانیِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے بھی اس میں تعلیم حاصل کی ، 21 جون 1943ء میں اسے کالج کادرجہ دیا گیا ،قیام پاکستان سے لے کر1371ھ/ 1952ءتک مفتی صاحبدادخان صاحب اس میں بطورِشیخ الفقہ اوراستاذِ اسلامیات خدمت سرانجام دیتےرہے۔

(102)امام انقلاب حضرت سیّدصبغۃ اللہ شاہ راشدی ثانی کی ولادت13صفر1327ھ/ 1908ءکو پیرجوگوٹھ میں ہوئی اورآپ کو 14ربیع الاول 1362ھ/20مارچ 1943ھ کو شہید کیا گیا ،آپ درگاہِ قادریہ راشدیہ کے چھٹے سجادہ نشین تھے۔ (انوارعلمائے اہلسنت سندھ،1042،1049)

(103) پیرجوگوٹھ (سابق نام کنگری)پاکستان کے صوبہ سندھ کے خیرپورمیرس شہرسےجانب شمال مغرب 16کلومیٹرفاصلے پرواقع ایک تاریخی قصبہ ہے، اس کے محلے،سالار،میمن،ڈینل اورہندو وغیرہ ہیں ،اس کی شہرت کی وجہ سلسلہ قادریہ راشدیہ کے عظیم درگاہ اورجامعہ راشدیہ ہے، جہاں قطب الاقطاب حضرت پیر سید محمد راشد روزہ دھنی کا مزارمبارک ہے۔

(104) مکاشفۃ القلوب اردو،بزم تقدس کراچی،20۔

(105)رأس الافاضل حضرت مولانا محمدصالح مہرقادری کی ولادت احمد فقیر مہر گوٹھ ضلع گھوٹکی میں1331ھ/1913ءکو ہوئی اورآپ کا وصال 6ذیقعد1396ھ/30،اکتوبر1972ءکوپیرجوگوٹھ میں ہوا،مزارمقامی قبرستان میں ہے۔آپ عالم دین ،مجاہدحرجماعت، خوددار طبیعت کے مالک، مسجددرگاہ راشدیہ کے امام وخطیب،جامعہ راشدیہ کے مدرس ومہتمم اورتاریخ ساز شخصیت تھے،آپ امام انقلاب حضرت سیّدصبغۃ اللہ شاہ راشدی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تحریک آزادی میں شریک ہوئے اورپیرجوگوٹھ کی گدی بحال کرنےمیں بھرپورکرداراداکیا۔(انوارِعلمائےاہل سنت سندھ،839تا842)

(106)انوارعلمائے اہل سنت سندھ،839۔

(107)پیر پگارا ہفتم حضرت سیدسکندرعلی مردان شاہ ثانی چھٹ دھنی حُر قبیلہ کے روحانی پیشواتھے۔ 7 جمادی الاخری1347ھ مطابق 22نومبر 1928ء ، پیر جو گوٹھ ضلع خیرپور میرس سندھ میں پیدا ہوئے اور 16 صفر المظفر 1433ھ10 جنوری 2012ء کو لندن کے ہسپتال میں وفات پائی۔ پیر جو گوٹھ خیرپورسندھ میں اپنے بزرگوں کی پہلو میں مدفون ہوئے۔سندھ حکومت نے جمعرات کو ان کی تدفین کے موقع پر عام تعطیل کا اعلان کیا،آپ سلسلہ قادریہ راشدیہ کے ساتویں سجادہ نشین تھے ، احمد فقیر مہر گوٹھ (گھوٹکی) کے ایک بزرگ اور حافظ امام بخش باقرانی والے نے ابتدائی اسلامی تعلیم دی،والدصاحب کی شہادت کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی اورپھرانگلینڈمیں دنیاوی تعلیم پائی ،آزادی کےبعدشیخ الحدیث مفتی تقدس علی خان صاحب اتالیق مقررہوئے ،ان سے دینی تعلیم کا سلسلہ ہوا۔

(108)انوارعلمائے اہل سنت سندھ، 369۔

(109) مکاشفۃ القلوب اردو،بزم تقدس کراچی،20۔

(110)استاذالعلماحضرت مولاناعبدالصمدمیتلوکی ولادت گوٹھ بڈوواہن(تحصیل ڈوکری،ضلع لاڑکانہ )میں تقریبا1336ھ/ 1918ء کو ہوئی اوروصال ۴ربیع الاول 1393ھ/اپریل 1973ء کو سول ہسپتال لاڑکانہ میں فرمایا،آپ جیدعالم دین،صرف ونحو،فن ترکیب،فارسی اورکتابت میں ماہرتھے۔23سال جامعہ راشدیہ میں پڑھایا،کچھ سال دیگرمدارس میں پڑھانے کی سعادت بھی پائی،کثیرطلبہ یادگارہیں، آپ سلسلہ نقشبندیہ میں بیعت تھے ۔(انوارعلمائے اہل سنت سندھ۔471تا473)

(111)سوانح حیات مفتی محمدصاحبدادجمالی ،ص23،غیرمطبوعہ۔

(112)حیات مفتی تقدس علی خان ،10،11۔

(113)انوارعلمائے اہل سنت سندھ،147۔

(114)سلطان الواعظین مفتی عبد الرحیم سکندری کی ولادت 27رمضان 1365ھ/ یکم ستمبر 1944ء کو گوٹھ سیبانو خان شر(تعلقہ ٹھری میر واہ، ضلع خیرپور میرس)سندھ میں ہوئی اور11 رجب المرجب 1429ھ / 29 مارچ 2018ء لیاقت نیشنل ہسپتال کراچی میں کلمہ ٔشہادت پڑھ کر وصال فرمایا۔آپ محرم 1377ھ/ اگست 1957 ء میں جامعہ راشدیہ پیر جو گوٹھ میں داخل ہوئےاور27 رجب 1386ھ /11نومبر 1966ء کو فارغ التحصیل ہوئے۔آپ نے یکم محرم 1387 ھ /11،اپریل 1967ء میں مدرسہ صبغۃ الہدیٰ شاہ پورچاکر(ضلع نواب شاہ)سندھ قائم فرمایا اور چالیس سال سے یہاں درس و تدریس، وعظ و نصیحت، تصنیف و تالیف اورفتویٰ نویسی میں مصروف رہے،اس مدرسے کی خدمات کی وجہ سے 2011 ء میں مدرسہ صبغۃ الہدیٰ کا جامعہ ازہر مصر کے ساتھ الحاق ہوا۔آپ کے سندھی زبان کے بہترین واعظ بھی تھے۔

(115)شیخ الحدیث مفتی محمد رحیم کھوسہ سکندری قادری 4ذوالحجہ1359ھ/ 3جنوری1941ء کو گوٹھ قادرپوربیلو تحصیل ٹھل ضلع جیکب آباد میں پیداہوئے ،آپ نے جامعہ راشدیہ میں داخلہ لیا اور1960ھ/1379 ء میں فارغ التحصیل ہوئے،آپ جامعہ راشدیہ کے پرنسپل وشیخ الحدیث،خطیب جامع مسجددرگاہ شریف ،چیف اڈیٹرماہنامہ الراشد،شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کے اعزازی رکن،صوبائی نائب ناظم تنظیم المدارس،سابق صدرجمیعت علمائے سکندریہ اورنوکتب کے مصنف ومؤلف ہیں ،آپ نے کنزالایمان کا سندھی میں ترجمہ بھی کیا ہے ۔

(116) حضرت مولانا محمدصالح مہرقادری صاحب کا تعارف حاشیہ 105میں ہے۔

(117)مفتی درمحمدسکندری کی ولادت1357ھ/1939ءکو گوٹھ وروائی(نزداسلام کوٹ ضلع تھرپارکر،سندھ)میں اور وفات 12محرم 1442ھ /17 ،اپریل2001ءکوہوئی، قبرستان گوٹھ وروائی میں دفن کئے گئے ۔مفتی صاحب انتہائی ذہین ومحنتی،عربی،فارسی اورسندھی میں ماہر،فاضل جامعہ راشدیہ،جیدعالم دین ومفتی،مدرس ومہتمم مدرسہ صبغۃ الا سلام سانگھڑ تھے،ملفوظات شریف روضے دھنی کی دوسری جلد کاسندھی ترجمہ یادگارہے ۔(انوارعلمائے اہل سنت سندھ ،254،256)

(118)حضرت مولاناسیدغوث محمدشاہ جیلانی قادری کی ولادت گوٹھ پرھیار(نزددوڑ،ضلع نوابشاہ)میں ہوئی اور9رجب1403ھ /30 اپریل 1983ءکووصال فرمایا،تدفین قبرستان جیلانی محلہ دوڑ(ضلع نوبشاہ)میں ہوئی،آپ حسن ظاہری باطنی سے مالامال،فاضل جامعہ راشدیہ،مریدپیرپگاراہفتم، امام وخطیب جامع مسجدفاروق اعظم وجامع مسجدطیبہ لیاقت آبادکراچی،اہم رہنماجمیعت علماءپاکستان، صدر جمیعت علماءسکندریہ،فعال ومتحرک سنی رہنمااورکئی خوبیوں کے جامع تھے ۔(انوارعلمائے اہل سنت سندھ ،648،650)

(119)انوارعلمائے اہل سنت سندھ،147،6 تا9علمائے کرام کاتعارف معلوم نہ ہوسکا۔

(120)حیات مفتی تقدس علی خان ،11۔

(121)حیات مفتی تقدس علی خان ،11۔

(122)حیات مفتی تقدس علی خان ،11،12۔

(123)حیات مفتی محمدصاحبدادجمالی ،111،غیرمطبوعہ۔

(124)حیات مفتی تقدس علی خان ،15، انوارعلمائے اہل سنت سندھ،147۔

(125)حیات مفتی تقدس علی خان ،11۔

(126)حیات مفتی تقدس علی خان ،13۔

(127) انوارعلمائے اہل سنت سندھ،149۔

(128)حیات مفتی تقدس علی خان ،13۔

(129) ڈاکٹرپروفیسرمجیداللہ قادری صاحب کی پیدائش10شعبان1374ھ/ 3،اپریل 1955ء کو ملیرگوٹھ کے مذہبی کانپوری گھرانے میں ہوئی،بچپن والدصاحب کے ساتھ عرب شریف میں گزارا،قطب مدینہ علامہ ضیاء الدین احمدمدنی کی زیارت وصحبت بھی حاصل ہوئی، وطن آکرباقاعدہ تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا،آپ شروع سے ہی محنتی اورذہن ہیں،1972ء میں ایم ایس سی اعلیٰ نمبروں میں پاس کرکے گولڈ میڈل حاصل کیا ، یکم جنوری 1978ءمیں جامعہ کراچی میں لیکچرارہوئے اوراس وقت شعبہ پڑولیم ٹیکنالوجی کے صدرہیں،آپ مفتی اعظم ہند کے مرید اورسلسلہ قادریہ رضویہ حامدیہ کے شیخ طریقت ہیں ،1982ء میں ادارہ تحقیقات امام احمدرضا سےوابستگی ہوئی عرصہ درازتک اس کے جنرل  سیکریٹری رہے ،ابھی ادارے کے صدرہیں ،آپ کئی کتب کے مصنف ہیں ،اللہ پاک آپ کا سایہ عوام اہلسنت پرطویل فرمائے۔ (تذکرہ اراکین ادارہ تحقیقات امام احمدرضا ،72تا74)

(130)حاجی شفیع محمدقادری حامدی صاحب کی ولادت17ذوالحجہ1344ھ/ 28جون 1926ء کو چتوڑگڑھ(راجستھان)ہند میں ہوئی،6رجب1376ھ/6فروری 1957ء کو حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب سےبیعت کاشرف پایا،ابتدائی تعلیم کے بعد تجارت میں مصروف ہوگئے،آپ والدین کے ہمراہ 1949ء میں پاکستان تشریف لےآئے،یہاں آپ نے المکتبۃ کے نام سےایک اشاعتی ادارہ بنایا جس سے تقریباسوکتب شائع کروائیں ،آپ ادارہ تحقیقات امام احمدرضا کے بانیان اورمالی طورمعاونت کرنے والوں سے تھے ،کافی عرصہ نائب صدربھی رہے،آپ ادارہ میں ریڑھ کی ہڈی کی مانندتھے،آپ کو مفتی تقدس علی خان صاحب نے1407ھ /1987ء کے حج میں سلسلہ قادریہ رضویہ حامدیہ کی خلافت عطافرمائی،(شفیع صاحب نے1993 ء میں پروفیسرمجیداللہ قادری صاحب کو اس سلسلے کی خلافت عطافرمائی)آپ مفتی صاحب کو ہرسال عرس حامدیہ کے موقع پر گھربلاتےاوربااہتمام عرس حامدی مناتےتھے،آپ کو کراچی میں میزبان ِ خاندان اعلیٰ حضرت کاشرف حاصل رہتاتھا،آپ نے مسلک اعلیٰ حضرت کے مطابق زندگی گزارکویکم ذیقعد1425ھ /12جنوری 2005ءکووصال فرمایا،علامہ شاہ تراب الحق قادری قبلہ نے نمازجنازہ پرھائی،فردوس کالونی میں اپنےمرشدزادے، صاحبزادۂ حجۃ الاسلام مولاناحمادرضا نعمانی میاں کے سرہانےکی جانب دفن کئے گئے۔میرے اس مضمون کا اہم ماخذ’’حیات ِ مفتی تقدس علی خان صاحب‘‘(ناشر:تحریک اتحاداہل سنت پاکستان)غالبا انہیں کی تحریرکردہ کتاب ہے۔(تذکرہ اراکین ادارہ تحقیقات امام احمدرضا ،158تا162) (131)تذکرہ اراکین ادارہ تحقیقات امام احمدرضا ،40،41 ۔

(132)ماہر رضویات حضرت علامہ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد مجددی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت یکم جمادی الاخریٰ 1349ھ مطابق 24،اکتوبر1930ء کو دہلی ہندمیں ہوئی اور23ربیع الاخر1429ھ /29،اپریل 2008ء کو کراچی میں وصال فرمایا ،تدفین احاطہ ِ خانوادۂ مجددیہ ماڈل کالونی قبرستان،ملیرکراچی میں ہوئی ۔آپ عالم دین،سلسلہ نقشبندیہ مظہریہ کے مرشدکریم،جدیدوقدیم علوم سے مالامال،عالم باعمل ،مصنف کتب کثیرہ اوراکابرین اہلسنت سے تھے،اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات پر آپ کی 40سے زائدکتب ورسائل اورمقالات یادگارہیں ،امام ربانی حضرت مجددالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کےحالات وخدمات اورمقامات پر مشتمل مقالات کاعظیم انسائیکلوپیڈیا’’جہان امام ربانی‘‘ (12جلدیں)آپ کی زیرسرپرستی شائع ہوا۔ آپ نہایت ملنسار، اعلی اخلاق کے مالک اور محبت و شفقت فرمانے والے بزرگ تھے۔(پروفیسرڈاکٹرمحمدمسعوداحمد حیات ،علمی اورادبی خدمات،77تا108)راقم زمانہ ٔطالب علمی میں آپ کی خدمت میں حاضرا،بہت شفقت اورحوصلہ افزائی فرمائی نیزدعاؤں سے نوازا۔

(133)مَلِکُ العُلَماء حضرت مولانا مفتی سیّدمحمد ظفَرُ الدّین رضوی محدِّث بِہاری رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ عالمِ باعمل، مناظرِ اہلِ سنّت مفتیِ اسلام، ماہرِ علمِ توقیت، استاذُ العلما ءاور صاحبِ تصانیف ہیں، حیاتِ اعلیٰ حضرت اور صَحِیْحُ الْبِہَارِی کی تالیف آپ کا تاریخی کارنامہ ہے،14 محرم 1303ھ/23 اکتوبر 1885 ء میں پیدا ہوئے اور 19 جُمادی الاُخریٰ 1382ھ/17نومبر962 1ءمیں وصال فرمایا، قبرستان شاہ گنج پٹنہ (بہار) ہند میں دفن کئے گئے۔(حیاتِ ملک العلما،ص 9،16،20،34 )

(134)المجمل المعدد لتالیفات المجدد ،ملک العلماء علامہ ظفرالدین بہاری رحمۃ اللہ علیہ کی تالیف ہے، آپ نے اعلیٰ حضرت کی وفات سے13سال پہلے 1327ھ/1909ء کومرتب فرمایا ،اس کتاب میں اعلیٰ حضرت کی ساڑھے تین سوتصانیف کاذکرہے ،اس کا پہلاایڈیشن مطبع حنفیہ پٹنہ سے اسی سال شائع ہوا،اسی کے دوایڈیشن مرکزی مجلس رضا لاہورنےبھی شائع کئے ۔ 1363ھ/1944ء میں ملک العلما نےبریلی شریف میں رہ کرتین ماہ کام کیا اورالمجمل المعددمیں ترمیم واضافہ کیا اوراعلی حضرت کی 760تصانیف کا ذکرکیا مگریہ ایڈیشن شائع نہ ہوسکا ۔

(135) انوارعلمائے اہل سنت سندھ،149۔

(136) المحجتہ المؤتمنہ اعلیٰ حضرت کی تاریخی تصنیف ہے،اس کا مکمل نام المجحتہ المؤتمنہ فی آیتہ الممتحنتہ ہے جو فتاویٰ رضویہ کی جلد14پرصفحہ 419تا544میں موجودہے ،یہ دوفتاویٰ پر مشتمل ہے ،اس میں غیرمسلموں سے موالات وترک موالات ،معاملات وترک معاملات وغیرہ پرمدلل تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔یہ تصنیف صفر1339ھ/اکتوبر 1920ء میں اُس وقت لکھی گئی ،جب بعض مسلمانوں نے ہندوؤں اوربرطانوی حکومت کےساتھ تعلقات کے سلسلے میں توازن کھودیا تھا،وہ ایک طرف برطانوی حکومت سے پورے طورپررشتۂ تعلقات منقطع کرناچاہتے تھے اوردوسروں طرف ہندوؤں کےساتھ قریبی تعلقات قائم کرنےکے خواہاں تھے ۔(فاضل بریلوی اورترک موالات،ص59،عقیدت پر مبنی اسلام اورسیاست،316)

(137)اس کا مکمل نام ’’ الجراز الدیانی علی المرتد القادیانی‘‘ ہے یہ فتاوی رضویہ کی جلد15پرصفحہ611تا628 میں ہے ،یہ اعلیٰ حضرت نےاپنی وفات کےتقریباڈیڑھ مہینہ پہلے تحریرفرمایا ،سوال کی تاریخ 3محرم الحرام 1340ھ درج ہے ۔

(138)عظمتوں کے پاسباں، 385۔

(139) حیات مفتی تقدس علی خاں ،21۔

(140)حیات مفتی تقدس علی خان ،14۔

(141)شیخ الحدیث حضرت علامہ محمدصدیق ہزاروی سعیدی صاحب کی ولادت29شوال1366ھ/ 15ستمبر1947ء کوموضع چہڑھ (نزدچٹہ بٹہ،ضلع مانسہرہ،ہزارہ،K.P.K)میں ہوئی، آپ فاضل جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور،مریدغزالی دوراں علامہ کاظمی ،سابق مدرس (1975ء تا2007) جامعہ نظامیہ رضویہ، موجودمدرس جامعہ ہجویریہ لاہور،1970ء سےخطیب جامع مسجدخراسیاں،سابقہ ممبراسلامی نطریاتی کونسل ،مصنف ومترجم کتب کثیرہ اوراستاذالعلماہیں ،حال ہی میں ان کا فتاوی قاضی خان(5 جلدیں )مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہورنے شانداراندازمیں شائع کیاہے ۔( فتاوی قاضی خان،1/57،58)

(142)انوارعلمائے اہل سنت سندھ،147۔

(143)تذکرہ اراکین ادارہ تحقیقات ِ امام احمدرضا ،120۔

(144)مجلہ امام احمدرضاکانفرنس1988ء،ص64۔

(145)محقق ومصنف سید محمد عبداللہ قادری کا تعلق منڈی بہاؤالدین (چک 15شمالی،ڈاکخانہ چک5)کے ایک علمی گھرانے سے ہے عرصہ درازبسلسلہ ٔملازمت واہ کینٹ(ضلع راولپنڈی) میں رہے ۔

(146)جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور لوہاری گیٹ کے اندرونی حصے میں ایک دینی درس گاہ ہے۔ اس کا افتتاح شوال المکرم 1376ھ /مئی 1956 ء کو محدث اعظم پاکستان علامہ محمدسرداراحمدچشتی قادری صاحب نے قدیم تاریخی مسجد خراسیاں اندرون لوہاری دروازہ میں فرمایا، ان کے شاگرد استاذالعلماء شیخ الحدیث علامہ غلام رسول رضوی نے1381ھ/ 1962 ء تک اس کی نگرانی اور آبیاری کی۔اس کے بعدعلامہ غلام رسول رضوی صاحب نے اسے اپنے ذہین اور محنتی تلمیذ استاذ العلماء حضرت علامہ مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی صاحب کے سپردکیا ۔آپ نے 2003 ء تک نہ صرف اس ادارے کو ترقی و عروج کی منازل سے آشنا کیا بلکہ جامعہ نظامیہ رضویہ شیخوپورہ کی فلک بوس عمارتوں کی صورت میں امت مسلمہ کو مژدہ جانفرا بھی سنایا۔ جامعہ نظامیہ رضویہ شیخوپورہ تین کنال سے زیادہ جگہ پرمشتمل ہے اس میں 115کمر ے،5ہال،لائبریری وغیرہ تعمیرہوچکے ہیں ،حفظ وتجویداوردرسِ نظامی کے تقریبا 12سوسے زائدطلبہ مصروف تعلیم ہیں ۔

(147) مکتبہ قادریہ لاہورایک اشاعتی ادارہ ہے اس کے بانی شرف ملت شیخ الحدیث علامہ محمدعبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ ہیں، اب ان کےبیٹے حافظ قاری نثاراحمدقادری صاحب اس کے مہتمم ہیں ،پہلے یہ جامعہ نظامیہ رضویہ اندرون لوہاری گیٹ میں شرف ملت کے کمرے میں تھا ،پھرداتادربارمارکیٹ میں منتقل ہوگیا ،راقم کو دونوں جگہوں میں شرف ملت کی زیارت کے لیے حاضرہونے کا شرف حاصل ہے ۔

(148) ماہنامہ معارف رضا کراچی،مارچ 2012ء،ص46۔

(149)مکاشفۃ القلوب تصوف پر مشتمل کتاب ہے جو امام غزالی کی کتاب المکاشفۃ الکبریٰ کا اختصارہے مزید چندکتابوں مثلا منیۃ المصلی، زہرالریاض وغیرہ سے مواد بھی شامل کیا گیا ہے ،یہ پندونصائح،ترغیب وترہیب کے حوالے سے پُراثرکتاب ہے ،(پیش لفظ مکاشفۃ القلوب،18،مطبوعہ مکتبۃالمدینہ)راقم کا تجربہ ہے کہ اگرکوئی اس کا بالاستیعاب مطالعہ کرے تو اس کا دل نرم،مذموم دنیا کی محبت سے بیزاراوراشک بارہوجائے گا،ان شاء اللہ ۔

(150)آل انڈیا سنی کانفرنس،قیام پاکستان سے پہلے  اہل سنت وجماعت کی ایک سیاسی جماعت تھی جس کے زیرِ اہتمام کئی اجتماعات منعقد کیے گئے۔20تا23شعبان1343ھ/ 16 تا 19 مارچ 1925کو مراد آباد میں پہلی آل انڈیا سنی کانفرنس کا انعقاد کیا گیااور آل انڈیا مسلم لیگ کے مطالبۂ پاکستان کی مکمل حمایت کی گئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس پارٹی کا نام جمعیت علمائے پاکستان رکھ دیا گیا ۔(مزیددیکھئے علامہ جلال الدین قادردی صاحب کی کتاب ’’تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس 1925ءتا 1947ء‘‘)

(151) سیِّدُ السادات حضرت مولانا پیر سیِّد فتح علی شاہ نقوی قادِری رحمۃ اللہ علیہ ، عالِمِ دین، واعِظ، شاعِر اور صاحِبِ تصنیف تھے، 1296ھ/1879 ءمیں پیدا ہوئے اور 9رجب 1378ھ/19جنوری1959 ء کو وِصال فرمایا، آپ کا مزار جامِع مسجد سیِّد فتح علی شاہ سے متصل محلّہ کھراسیاں جیرامپور ،کھروٹہ سیداں( ضلع سیالکوٹ، پنجاب) میں ہے۔(تذکرہ اکابرینِ اَہْلِ سنّت، ص 367 )

(152)انوارعلمائے اہل سنت سندھ،148،تاریخ آل انڈیاسنی کانفرنس،58۔

(153)تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس ،225۔

(154)تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس ،208،282۔

(155) مفسر قرآن ، محقق اہلسنت علامہ محمد جلال الدین قادری موضع چوہدو(تحصیل کھاریاں ،ضلع گجرات) میں یکم جمادی الاخریٰ 1357ھ/ 29 جولائی 1938ء کو پیدا ہوئےاور2محرم الحرام 1429/بمطابق 12جنوری 2008 ء کو وصال فرمایا،مزار جامعہ اسلامیہ کھاریاں (ضلع گجرات )کے پہلومیں ہے ،آپ عالم باعمل، تلمیذومرید محدث اعظم پاکستان،خلیفہ مفتی اعظم ہند،مؤرخ اورمحقق اہلسنت، مفسرقرآن اوربانی جامعہ اسلامیہ کھاریاں ہیں ،14تصانیف میں اہم ترین تفسیراحکام القرآن ہے جو سات جلدوں پرمشتمل ہے۔(ماہنامہ احکام القرآن،کھاریاں، صفر1429ھ،ص13،26)

(156)ہفت روزہ ’’دبدبہ سکندری‘‘ 1283 ھ /1866ء میں جاری ہوااور 1364ھ/1945ء تک کامیابی کے ساتھ قریب ایک صدی جاری رہا ۔ اس نے حمایتِ دین کی غرض سے مخلصانہ خدمت انجام دی، جماعت رضائے مصطفی کی روداد اور ارکان کی داعیانہ سرگرمیوں کی پل پل کی رپورٹ دبدبۂ سکندری میں شائع ہوتی تھی اس کے مدیر دوستِ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ محمد فاروق حسن خاں صابرؔی صاحب اورنائب مدیران کے بیٹے مولانافضل حسن خاں صاحب تھے۔

(157)تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس ،407۔

(158)حیات مفتی تقدس علی خان ،9۔

(159)ماہنامہ ضیائے حرم ، لاہور ، اگست 1997ء ص 67،68۔

(160)مفتی اعظم اوران کے خلفا،270۔

(161) ماہنامہ معارف رضا کراچی،جولائی 2013ء،ص57۔

(162)حیات مفتی تقدس علی خان ،15،16،مفتی اعظم اوران کے خلفا،271،ذکرجمیل،9۔

(163)صاحبزادۂ قطب مدینہ، حضرت مولانا حافظ فضل الرحمن قادری مدنی صاحب کی ولادت ربیع الاخر 1344ھ/دسمبر1925ء کو محلہ باب السلام زقاق الزرندی مدینہ منورہ میں ہوئی اور 27شوال 1423ھ/30دسمبر2002ھ کو وصال فرمایا۔ تدفین جنۃ البقیع میں ہوئی۔ آپ عالمِ دین، بہترین حافظ وقاری، شیخ طریقت اورجانشین قطب مدینہ تھے۔ امیر اہل سنت علامہ محمدالیاس عطارقادری صاحب کو آپ سے سلاسل کثیرہ کی خلافت حاصل ہے۔(سیدی ضیا ء الدین احمد القادری، 2/406تا 417،انوارِ قطبِ مدینہ، ص 576، تعارف امیر اہل سنت،ص73)

(164)دربارغوث الاعظم حضرت شیخ سیدعبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے جوبھی سجادہ نشین ہیں انھیں نقیب الاشراف کہاجاتاہے ۔

(165)حیات مفتی تقدس علی خان ،18۔

(166)نقیب الاشراف شیخ سید یوسف بن عبداللہ جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت یکم محرم1325ھ/ 14فروری1907ء میں ہوئی اور18ربیع الاخر1417ھ/2 ستمبر 1996 کو بغداد شریف عراق میں وصال فرمایا ۔خانقاہِ قادریہ کے دوسرے حجرہ میں آپ کودفن کیاگیا،آپ بلند قامت اورخوبصورت و دلکش شخصیت کے مالک تھے۔دینی ودنیوی دونوں علوم کےجامع اوروزارت خارجہ عراق کے اہم رکن تھے1371ھ/ 1952ء میں آپ خانقاہِ قادریہ کے نقیب اور متولی مقرر ہوئے،قادریہ لائبریری کو وسعت دی اورکتب کی تعداد65ہزارتک لے گئے، حضرت نقیب الاشراف نے اپنی حیات مبارکہ کے 44 سال خانقاہ عالیہ اور مسجد قادریہ کی تعمیر و ترقی نیز سلسلۂ عالیہ کی ترویج و اشاعت میں صَرف فرمائے۔(نوائے وقت،30،اگست ، 2019 حیات مفتی تقدس علی خان، صفحہ 20پر نقیب الاشراف کا نام سیدابراہیم بن عبداللہ لکھا گیا ہے جبکہ درست سیدیوسف بن عبداللہ ہے ۔

(167)حیات مفتی تقدس علی خان ،20۔

(168)بانی ادارہ مولاناسید ریاست علی قادری صاحب کی پیدائش22صفر1351ھ/27جون 1932ء کو محلہ شاہ آباد بریلی شریف کے علمی خانوادے میں ہوئی اور3جنوری 1992ء/18رجب 1412ھ میں اسلام آباد میں وفات پائی،آپ اہل سنت کے متحرک رہنما،کئی کتب کے مصنف، اردو، فارسی، عربی ، انگلش، جرمنی وغیرہ زبانوں کے ماہر، محکمہ ٹیلی فون پاکستان کے آفیسر،مسجد الحسین اسلام آباد کے خطیب،مرید مفتی اعظم ہند اورعظیم الشان ادارے تحقیقات امام احمد رضاکے بانی وصدرتھے،آپ نے اسے ادارے کے ذریعے کتب کی اشاعت اورامام احمدکانفرنس کاآغازفرمایا،آپ کی خدمات قابل تحسین ہیں ۔ مفتی تقدس علی خان صاحب نے آپ کو 10 صفر 1408ھ مطابق28فروری 1988ءکو خلافت عطافرمائی۔ ( انوار علمائے اہل سنت سندھ،ص269،تذکرہ اراکین ادارہ تحقیقات امام احمدرضا ،57)

(169)تذکرہ اراکین ادارہ تحقیقات ِ امام احمدرضا ،8،115،116۔

(170)حکیم اہل سنت حکیم محمدموسیٰ امرتسری کی ولادت 28 صفر 1346ھ/27 اگست 1927ءامرتسرمشرقی پنجاب ہند میں ہوئی اور 8 شعبان 1420ھ/17 نومبر 1999ءکووفات پائی، مقابر چشتیاں، قبرستان نتھے شاہ، جواردربار میاں میر قادری(لاہورکینٹ) میں مدفون ہیں،آپ طبیب حازق،دینی ودنیاوی تعلیم کے جامع، صاحب تصنیف ،درد امت سے سرشار،سلسلہ چشتیہ صابریہ میں مرید اور قطب مدینہ کے خلیفہ تھے۔آپ نے زندگی بھرطبابت کی ،آپ کامطب 55ریلوے روڈ لاہورمیں تھا، یہ مریضوں کےلیے مقام دوااور معرفت وعلم کے طالبوں کے لیے سرچشمہ علم وحکمت تھا، آپ کی دس ہزارسےزائدکتب پرمشتمل شاندار لائبریری بھی اہل علم کے یہاں آنےکا سبب بنتی تھی،حکیم صاحب مفتی تقدس علی خان صاحب کےمداح ومعترف تھے ، آپ نے 1388ھ/1968ء میں ’’مرکزی مجلس رضا‘‘ کی بنیاد رکھ دی۔(حکیم محمدموسیٰ امرتسری،ایک ادارہ ایک تحریک،13،25،41،26 )

(171) ماہنامہ معارف رضا کراچی،جولائی 2013ء،ص56۔

(172) مخلصاماہنامہ معارف رضا کراچی،مارچ 2012ء،ص45۔

(173)صاحبزادۂ تاج العلماء حضرت مولانا محمداطہرعلی نعیمی صاحب کی ولادت 27شعبان 1345ھ/2مارچ 1927ءکو مرادآباد (یوپی) ہند میں ہوئی،جامعہ نعیمیہ مرادآباد سے28رجب1366ھ/17جون1947ء کو فارغ التحصیل ہوئے،پاکستان آکرجرنل پوسٹ آفس (GPO) میں ملازمت اختیارکرلی،1393ھ/1973 ء میں جامعہ نعیمیہ کراچی کےٹرسٹی بنے،آپ اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن اور رویت ہلال کمیٹی کےچیئرمین بھی رہے،آپ شیخ المشائخ سیدعلی حسین اشرفی کچھوچھوی کے مرید،صدرالافاضل ،پیرسیدطاہرعلاؤ الدین گیلانی اورمفتی تقدس علی خان صاحب کے خلیفہ تھے ،آپ کئی عربی کتابوں کے مترجم ہیں ، عرصہ درازسےفی سبیل اللہ جامع مسجدآرام باغ میں خطابت بھی فرمارہے ہیں ۔(تاج العلمامفتی محمدعمرنعیمی حیات وخدمات،24،انٹرویوسے ماخوذ)

(174)ادیب شہیرحضرت مولانا شمس الحسن شمس صدیقی بریلوی صاحب کی ولادت محلہ ذخیرہ نیاشہربریلی(یوپی)ہند میں 1337ھ /1919ء کو ہوئی،آپ فاضل دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف،منشی وادیب کامل(الہ آبادبورڈ)، صدرمدرس شعبہ ٔ فارسی منظراسلام، استاذاسلامیہ کالج بریلی،اسکول ٹیچرگورنمنٹ اسکول ائیرپورٹ کراچی،اردو،فارسی اورعربی نعت گوشاعر،کئی کتب کےمصنف ومترجم اور صدارتی ایوارڈیافتہ تھے،آپ کاوصال3ذیقعدہ1417ھ/12مارچ1997ء کوکراچی میں ہوا۔سخی حسن قبرستان میں تدفین ہوئی۔ (تذکرہ اراکین ِ ادارۂ تحقیقات امام احمدرضا،124تا130)

(175) مولانا سیدریاست علی قادری صاحب کا تعارف حاشیہ نمبر168میں دیکھئے۔

(176) صاحبزادہ وجاہت رسول قادری صاحب کی پیدائش1358ھ/ 1939ء کو بنارس (یوپی،ہند)میں ہوئی،آپ خلیفہ اعلیٰ حضرت مولاناہدایت رسول قادری لکھنوی صاحب کے پوتے ہیں ،ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کرکے1365ھ/1946ء میں مدرسہ حمیدیہ بنارس میں داخلہ لیا،ایک سال بعد والدین کےساتھ راجشاہی بنگلادیش میں ہجرت کرگئے،وہاں ایم اے معاشیات کیا1384ھ/1964ء میں کراچی منتقل ہوگئے ،درس نظامی کی بعض کتب اوربخاری شریف کے ابتدائی اسبا ق استاذالعلماءعلامہ نصراللہ خان افغانی صاحب سے پڑھے ،روزگارلیےملازمت اختیارکی، آپ ادارہ تحقیقات امام احمدرضا کےبانی اراکین سے ہیں ،1986ءمیں رکن مجلس عاملہ منتخب ہوئے،اگلے سال نائب صدراور1992ءمیں صدربنائے گئے،آپ مفتی اعظم ہندکےمرید اورمفتی تقدس علی خان صاحب کےخلیفہ تھے، مفتی صاحب نے آپ کو 10صفر1408ھ/28فروری 1988ءکو خلافت عطافرمائی،30جمادی الاولیٰ 1441ھ/27جنوری 2020ء کو کراچی میں فوت ہوئے،نمازجنازہ مرکز دعوت اسلامی ڈیفنس جامع مسجد فیضان جیلان کلفٹن کےباہر علامہ سید شاہ عبد الحق قادری(امیر جما عت اہلسنّت کراچی) نے پڑھائی۔تدفین نیوقبرستان،فیز8ڈیفنس میں کی گئی۔ (ماہنامہ معارف رضا2020ء ،وجاہت رسول نمبر، ص7،8)

(177) ان کا تعارف حاشیہ نمبر۔۔۔میں دیکھئے۔

(178) مولانا ابوالقاسم ضیائی صاحب کا تعلق کراچی سے ہے ،آپ فارغ التحصیل عالم دین ہیں ،آپ نےکافی عرصہ قطب مدینہ علامہ ضیاءالدین احمدمدنی صاحب کی صحبت میں گزاراہے ۔

(179) مولانا محمدعباس مدنی صاحب کی معلومات نہ مل سکیں ۔

(180)حیات مفتی تقدس علی خان ،23۔

(181) مصلحِ اہلِ سنّت،حضرت مولانا قاری مُصلح الدّین صدیقی قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت11 ربیع الاول 1336ھ/27 دسمبر 1918ء کو قندھار شریف (ضلع نانڈیر، حیدر آباد دَکّن) ہند میں ہوئی۔ 7جُمادَی الاُخریٰ1403ھ/23 مارچ 1983 ءکو وِصال فرمایا، مَزار مُبارک مُصلح الدّین گارڈن باب المدینہ کراچی پاکستان میں ہے۔آپ عالمِ باعمل، خوش الحان قاری، اُستاذالعلماء اور شیخِ طریقت تھے۔ (حیاتِ حافظِ ملّت،ص139تا142) امیراہل سنت علامہ محمدالیاس عطارقادری صاحب کو انکی کثیرصحبت ورہنمائی حاصل ہوئی ،ان سے ابتدائی صرف ونحوکے اسباق بھی پڑھے۔

(182) حاجی عبدالغفارپردیسی صاحب کراچی شہرکی مشہورمذہبی شخصیت اوربرکاتی فاؤنڈیشن کےچیئر مین ہیں ۔

(183) حافظ امتیازصاحب کے بارے میں معلومات نہ مل سکیں ۔

(184) مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی کی ولادت14صفر 1333ھ/ یکم جنوری 1915ء کو پیلی بھیت (ہند) میں ہوئی اورکراچی میں 20 ربیعُ الاول 1413 ھ /19 ستمبر 1993 ءکو وِصال فرمایا، آپ کا مزار دارالعلو م امجدیہ عالمگیرروڈ کراچی میں ہے۔ آپ فاضل دارُالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف، مریدِ حجۃُ الاسلام، خلیفۂ مفتیِ اعظم ہند، جید عالم و مدرس، مفتیِ اسلام اور شیخُ الحدیث ہیں۔ وقارُالفتاویٰ (3 جلدیں) آپ کے فتاویٰ کا مجموعہ ہے۔ امیرِ اہلِ سنّت علّامہ محمد الیاس عطّار قادری صاحب 22سال تک آپ کی صحبت سے فیض یاب رہے حتی کہ مفتی صاحب نے آپ کو خلافت سے بھی نوازا۔(وقارالفتاویٰ،1/1، 38، شوقِ علم دین، ص25)

(185)حیات مفتی تقدس علی خان ،22،21۔ نماز جنازہ کی تکرار مطلقًا ناجائز ونامشروع ہے، مگر جب کوئی ایسا شخص جسے  جنازہ پڑھانے کا حق حاصل نہیں،ولی کی اجازت کے بغیر نماز جنازہ پڑھا دے اور کسی ولی نے نماز جنازہ ادا نہ کی ہو تو میت کا ولی دوبارہ نماز  ادا کرسکتاہےکیونکہ یہ اس کا حق ہے  اور دوسرے جنازے میں فقط وہی افراد شریک ہوں گے  جو پہلے جنازے  میں شریک نہ تھے۔ بہار شریعت جلد 1 صفحہ 838 میں ہے کہ ولی کے سوا کسی ایسے نے نماز پڑھائی جو ولی پر مقدم نہ ہو اورولی نے اُسے اجازت بھی نہ دی تھی تو ا گر ولی نماز میں شریک نہ ہوا تو نماز(جنازہ) کا اعادہ کر سکتا ہے۔

(186)تذکرہ اراکین ادارہ تحقیقات امام احمدرضا ،113۔

(187)حیات مفتی تقدس علی خان ،22 ۔


نبی مکرم، معلم اعظم ﷺ کے جس جس اندازِتربیت میں سامعین و مخاطبین کو سوال کرنے کی تحریک و تحریص ملتی تھی ان میں سے چند کا ذکر گزشتہ مضامین میں ہوا، مزید یہاں ملاحظہ کیجئے چنانچہ

کوئی غیر معروف عمل کرنا اور ناظرین کا سوال کرنا

سنن ابوداؤد میں حضرت سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ

کہ رسولِ مکرم ﷺ نے موزوں پر مسح فرمایا۔

محترم قارئین! حدیث پاک کے راوی حضرت مغیرہ بن شعبہ نے اس سے پہلے کبھی موزوں پر مسح کرتے نہ دیکھا تھا، چنانچہ یہ ایک غیرمعروف عمل دیکھ کر کچھ متجسس ہوئے اور عرض کیا:

يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَسِيتَ؟

یارسول اللہ! کیا آپ بھول گئے؟

کریم و رحیم معلم عظیم ﷺ نے فرمایا:

بَلْ أَنْتَ نَسِيتَ، بِهَذَا أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ

بلکہ تم بھول گئے مجھے میرے رب عزوجل نے اسی کا حکم دیا ہے۔(سنن ابو داؤد، کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، جلد1، صفحہ86، حدیث:156)

اسی طرح حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ سے بھی ایک روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ

نبی مکرم ﷺدو قبروں کے پاس سے گزرےتو فرمایا : یہ دونوں( قَبْر والے) عذاب دیئے جارہے ہیں اور کسی بڑی چیزمیں (جس سے بچنا دشوار ہو) عذاب نہیں دیئے جارہے بلکہ ایک تو پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔ اور دوسرا چُغل خوری کیا کرتا تھا پھر آپ ﷺ نے کھجور کی تازہ ٹہنی منگوائی اوراسے آدھوں آدھ چِیرا اور ہر ایک کی قَبْر پر ایک ایک حصّہ گاڑ دیا۔

یوں سبز ٹہنی قبر پر گاڑنا ایک غیر معروف عمل تھا، چنانچہ صحابہ کرام نے عرض کیا:

يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ فَعَلْتَ هَذَا؟

یارسول اللہ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟

تو ارشاد فرمایا :

لَعَلَّهُ يُخَفِّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا

جب تک یہ خشک نہ ہوں تب تک ان دونوں کے عذاب میں تَخفِیف ہوگی۔(صحیح بخاری، کتاب الوضوء، باب ماجاء فی غسل البول، جلد1، صفحہ96، حدیث:218)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بڑا ہی ایمان افروز منظر بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسولِ کریم ﷺکے ساتھ تھے کہ بارش برسی، رسولِ کریم ﷺ نے اپنا کپڑا شریف ہٹادیا یہاں تک کہ آپ پر کچھ بارش پڑگئی ۔

ہم نے عرض کیا :

يَا رَسُولَ اللَّهِ لِمَ صَنَعْتَ هَذَا؟

یارسول اﷲ !آپ نے یہ کیوں کیا؟

ارشاد فرمایا: یہ بارش ابھی اپنے رب کے پاس سے آئی ہے۔(صحیح مسلم، کتاب صلاۃ الاستسقاء، باب الدعا فی الاستسقاء، صفحہ348، حدیث:2083)

اس حديث پاک کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

(رسول اللہ ﷺ نے ) اپنا سر اور سینہ مبارک کھول کر کچھ قطرے ان اعضاء پرلیئے اور وجہ یہ بیان فرمائی کہ یہ پانی ابھی عالَم قدس سے آیا ہے،جس میں اِس عالَم کے اجزاء ابھی تک نہیں ملے،لہذا برکت والا ہے اس سے برکت حاصل کرو۔بعض حضرات حج سے آنے والوں کے ہاتھ پاؤں چومتے ہیں اور انکے بدن سے اپنے کپڑے لگاتے ہیں،بعض صوفیاء بیماروں کےلیئے نقش لکھ کر بارش کے پانی سے دھلواکر پلواتے ہیں،ان سب کی اصل یہ حدیث ہے،بارش کے وقت اور کعبہ کو دیکھ کر دعا مانگنا سنت ہے۔(مراٰۃ المناجیح، جلد2، صفحہ392)

قارئین کرام!ان تمام امثلہ احادیث پر غور کرنے سے واضح ہوتاہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے بات سمجھانے اور تربیت کرنے کے لئے کیسے کیسے دلنشین انداز اختیار فرمائے ہیں، اللہ کریم پیارے مصطفےٰ ﷺ کے ان مبارک طریقوں کو ہمیں بھی اپنی عملی زندگی کا حصہ بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین


18 ذوالحج کو خلیفہ سوم، دامادِ رسولﷺ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا یومِ شہادت ہے۔ آپ کا نام عثمان، کنیت ابو عمر اور لقب ذوالنورین تھا۔ سلسلہ نسب پانچویں پشت میں نبی کریم ﷺ سے جا کر ملتا ہے ( عثمان بن عفان بن ابوالعاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف) ۔ آپ کی نانی جان’’ام حکیم البیضاء‘‘ جناب عبدالمطلب کی بیٹی تھیں جو حضورﷺ کے والد ماجد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی سگی بہن تھیں۔ اس رشتہ کے لحاظ سے آپ کی والدہ حضورﷺ کی پھوپھی کی بیٹی تھیں۔

پیدائش و قبولِ اسلام: آپ کی ولادت عام الفیل کے چھ سال بعد ہوئی۔آپ ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے ابتداء میں اسلام قبول کیا۔ ابن اسحاق کے قول کے مطابق آپ نے حضرت ابوبکر صدیق کی دعوت پر اسلام قبول کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بعد مردوں میں چوتھے آپ ہیں جو مشرف بہ اسلام ہوئے۔

نکاح:آپ سخاوت، محاسنِ اخلاق، حلم و وقار، تقوی وطہارت اور حسنِ معاشرت میں اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔تاریخِ انسانیت میں ایک منفرد مقام اللہ تعالی نے حضرت عثمان غنی کو عطا فرمایا کہ سوائے آپ کے کسی نبی کی دو بیٹیاں کسی امتی کے نکاح میں یکے بعد دیگرے نہیں آئیں۔ غزوہ بدر کے فوراً بعد جب حضورﷺ کی پیاری صاحبزادی اور حضرت عثمان غنی کی اہلیہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا وصال ہو گیا تو حضرت عثمان ان کی جدائی میں بہت غمگین رہا کرتے تھے۔ حضورﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ کے ساتھ کر دیا۔

خدماتِ دینیہ: آپ امت مسلمہ کے عظیم محسن ہیں۔ ہجرت کے بعد مسلمانوں کیلئے پینے کے پانی کی سخت تکلیف تھی۔ آپ نے ایک یہودی سے منہ مانگی قیمت ادا کر کے صاف شفاف پانی کاکنواں خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا۔ اس موقع پر آپ کو زبانِ رسالتِ مآبﷺ سے جنت الفروس کی خوشخبری ملی۔ مسجد نبوی شریف کی توسیع کیلئے پچیس ہزار درہم کی ملحقہ زمین خرید کر وقف کر دی۔ غزوہ تبوک کے موقع پر مدینہ طیبہ میں مسلمان تنگدستی کا شکار تھے۔ حضورﷺ نے صحابہ کرام کو بڑھ چڑھ کر مالی تعاون کی تلقین فرمائی تو حضرت عثمان غنی نے تین سو اونٹ مع ساز و سامان کے پیش کئے۔ اس موقع پر حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’آج کے بعد کوئی عمل عثمان کو نقصان نہیں دے گا‘‘ تفسیر خازن اور تفسیر معالم التنزیل کی روایات کے مطابق آپ نے ایک ہزار اونٹ مع ساز و سامان حضورﷺ کی خدمت میں پیش کئے۔ اسی غزوہ کے موقع پر آپ نے ایک ہزار نقد دینار پیش کئے تو نبی کریم ﷺ نے ہاتھ اٹھا کر تین دفعہ دعا کی ’’اے اللہ میں عثمان سے راضی ہوں تو بھی راضی ہو جا‘‘۔ دورصدیقی میں جب قحط سالی کی صورت پیدا ہوئی تو آپ نے ایک ہزار اونٹوں پر آنے والا غلہ محتاجوں میں تقسیم فرمادیا حالانکہ تاجر کئی گنا زیادہ قیمت پر خریدنے کیلئے تیارتھے۔

غزوہ بدر کے موقع پر آپ کی اہلیہ حضرت رقیہ سخت بیمار تھیں۔ ان کی تیمار داری کی وجہ سے آپ شریک نہ ہو سکے لیکن حضورﷺ نے آپ کو بدری صحابہ میں شمار کرتے ہوئے مال غنیمت میں سے حصہ عطا فرمایا۔ اسی طرح بیعت رضوان کے موقع پر مقام حدیبیہ میں حضورﷺ نے دوران بیعت اپنے ایک ہاتھ کو حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دیا۔آپ کا شمار ان دس جلیل القدر صحابہ کرام میں ہوتا ہے جنہیں نبی کریمﷺ نے دنیا میں جنت کی بشارت دے دی تھی۔

فتوحات: آپ نے پوری امت کو ایک قرأتِ قرآن پر جمع کیا۔ حضرت عمر کے دورِ خلافت میں شروع ہونے والے فتوحات کے سلسلے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ آپ کے دور میں طرابلس، شام، افریقہ، جزیرہ قبرص، جزیرہ روڈس، قسطنطنیہ، آرمینیا، خراسان، طبرستان اور کئی ایک مزید علاقے فتح ہوئے۔ آپ نے مدینہ پاک میں نہری نظام کو مضبوط کیا۔ سیلاب سے بچاؤ کیلئے ڈیم تعمیر کئے۔ کنویں کھدوائے۔ آپ حد درجہ شرم و حیا کرنے والے تھے۔ ترمذی اور ابن ماجہ میں حضرت مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ آنے والے وقت کے فتنوں کا ذکر فرمارہے تھے۔ ایک شخص سر پر کپڑا ڈالے ہوئے پاس سے گزرا تو آپ نے اس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ’’فتنوں کے دور میں یہ شخص راہ ہدایت پر ہوگا‘‘ حضرت مرہ فرماتے ہیں کہ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہ حضرت عثمان غنی تھے۔ حضرت مرہ فرماتے ہیں کہ میں نے پھر پوچھا: یا رسول اللہ:کیا یہ شخص اس وقت راہ ہدایت پر ہو گا تو آپ نے فرمایا’’ہاں یہی‘‘۔ ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے حضرت عثمان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ فتنوں کے دور میں اس شخص کوشہید کر دیا جائے گا‘‘حضرت عمر نے قاتلانہ حملے میں زخمی ہو نے کے بعد اور اپنی شہادت سے پہلے خلیفہ کے انتخاب کیلئے چھ افراد کی کمیٹی بنائی تھی۔ ان میں حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمان بن عوف اورحضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد تین دنوں میں گفت و شنید اور افہام و تفہیم کے بعد حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کوخلیفہ سوم منتخب کیا گیا۔

آپ نے تقریباًبارہ سال تک امورِ خلافت سر انجام دیئے۔ آخری دور میں ایک یہودی النسل عبداللہ بن سبا نے کوفہ، بصرہ اور مصر کے فسادی گروہوں کو جمع کیا اور اسلام کے خلاف ایک گہری سازش کی۔ آپ پر طرح طرح کے الزامات کی بوچھاڑ کی گئی۔ آپ نے ہر سوال کا معقول جواب دیا۔

وصال: ذوالحج کے مہینہ میں اکثر صحابہ کرام حج کی ادائیگی کیلئے مکہ شریف چلے گئے تھے۔ سازشیوں کو موقع مل گیا اور آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ کئی دنوں تک آپ اور آپ کے اہل خانہ کو بھوکا پیاسا رکھا گیا۔ ساتھیوں نے مقابلے کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا کہ’’میں اپنے نبی کے شہر مدینے کو خون سے رنگین نہیں کرنا چاہتا‘‘ آپ نے تمام مصائب و آلام کے باوجود حضورﷺ کی وصیت کے مطابق خلعت خلافت نہیں اتاری۔ اس طرح بروز جمعۃ المبارک بمطابق 18 ذو الحج 35 ؁ ہجری میں قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے انتہائی درد ناک انداز میں آپ کو شہید کر دیا گیا۔ آپ کی قبر مبارک مسجد نبوی شریف کے پاس جنت البقیع میں ہے۔

اللہ پاک ان کی قبر پر کروڑ کروڑ رحمتیں نازل فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


بریل لینگویج کا موجدکون؟

از:محمد گل فراز مدنی (اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)

ایک زمانے تک تحریر کو پڑھنا صرف آنکھ والوں کا ہی کام تھااور نابینا افراد کےلئے کوئی ایسا طرز تحریر نہ تھا جس کی بدولت وہ تحریر کو پڑھ سکیں۔پھروہ وقت آیا کہ نابینا افراد کے لئے بھی ایک خاص قسم کے طرز تحریر سے پڑھنا اور لکھنا ممکن ہوا جسے بریل کا نام دیا گیا۔بریل ایک ایسے طرز تحریر کا نام ہے جو ابھرے ہوئے چھ(6)نقطوں(Dots)پر مشتمل ہوتا ہےاور جس کی مدد سے نابینا افراد بآسانی پڑھ اور لکھ سکتے ہیں چونکہ اس طرز تحریر کو فرانس کے ایک نابینا شخص لوئی بریل (Louis Braille)نے طویل اور صبر آزما لیکن کامیاب جدوجہد کے بعد 1835ء میں دنیا کے سامنے پیش کیا ۔اسی لئے اس کے نام پر اس طرز تحریر کو بریل سے موسوم کیا جاتا ہے۔جس طرح مسلم سائنسدانوں اور مفکرین کی دیگر بہت ساری ایجادات کو یہودونصاری نے مغربی مفکرین وسائنسدانوں کے کھاتے میں ڈال دیااور اُن کی ایجاد کا سہرا بجائے مسلمانوں کے سرسجانے کے اپنوں کے سرباندھ دیا یوں ہی عام طور پر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ بریل پہلی بار1835ء میں وجود میں آئی لیکن حقیقت میں اس کی ایجاد کا سہراحنبلی عالم دین علامہ زین الدین آمدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکے سر ہے ۔چنانچہ مشہور مصری ادیب احمد زکی پاشا کہتے ہیں:”سب سے پہلے جنہوں نے بریل طرز تحریر کی طرف سبقت کی وہ زین الدین آمدی ہیں،آپ نے ساتویں صدی ہجری (سن عیسوی کے مطابق چودہویں صدی)میں اسے ایجاد کیاجبکہ بریل فرانسیسی نےانیسویں صدی عیسوی میں اسے لوگوں کے سامنے پیش کیا۔“(المجلد السادس من ”مجلۃ المقتبس“،بحث احمد زکی باشا)معلوم ہوا کہ یہ طرز تحریر ایک مسلمان عالم دین کی ایجاد ہےاور موجودہ بریل اس کی ہی ترقی یافتہ شکل ہےلہٰذا یہاں موجد کا کچھ تعارف پیش کیا جاتا ہےتاکہ بریل کے بارے میں جاننے والے اس کے موجد کے بارے میں بھی آگاہی حاصل کریں ۔

زین الدین آمدی

زین الدین کنیت اورنام علی بن احمد بن یوسف بن خضر ہے۔ آبائی تعلق چونکہ دیاربکر کے علاقے آمد سے تھا اسی نسبت کی وجہ سے انہیں آمدی کہتے ہیں۔عمر کا اکثر حصہ بغداد میں گزرا اور وہیں وفات پائی۔خیر الدین زرکلی کہتے ہیں:”یہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے ابھرے ہوئے حروف کے ذریعے پڑھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔“یہ حنبلیوں کے بہت بڑے عالم،مصلح اورسچے کردار کے حامل بزرگ تھے۔چھوٹی عمر میں نابینا ہوگئے تھے۔بہت ذہین اور تیز دماغ کے حامل تھے ۔ خوابوں کی تعبیر وں کے ماہر اورفارسی ،ترکی ،رومی وغیرہ کئی زبانوں کے جاننے والے تھے۔کتب کی تجارت کو اپنا پیشہ بنایا اور کثیر کتابوں کو جمع کیا۔آپ چونکہ نابینا تھے اس لئے جو بھی کتاب خریدتے کاغذ لپیٹ کر اس سے ایک یا چند حروف بنالیتےجن سے بحساب جمل اس کی قیمت ظاہر کرتے۔پھر کاغذ کو آپ کتاب کے سرورق پر چپکادیتے اور اگر کتاب کی قیمت بھول جاتے تو اسے چھوکر معلوم کرلیتے۔آپ بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سے ”جَوَاہِرُالتَّبْصِیْر فِی عِلْمِ التَّعْبِیْر“بھی ہے۔ (الدرر الکامنۃ،۳/۲۱،الاعلام للزرکلی،۴/۲۵۷)

بریل میں دعوت اسلامی کے رسائل:

پاکستان مىں انگرىزى کے علاوہ عربى اور اُردو برىل بھى رائج ہے۔قرآن وسنت کی عالمگیر تحریک دعوت اسلامی جہاں دیگر شعبہ جات میں عام مسلمانوں کی رہنمائی کررہی ہے وہیں اس شعبہ میں بھی اپنی خدمات پیش کررہی ہے ۔چنانچہ دعوتِ اسلامی کی ”مجلس اسپیشل افراد“ کے تحت نابینا اسلامی بھائیوں کے لیے چار رسائل:(1)انمول ہیرے(2)بڈھا پجاری (3)غسل کا طریقہ اور (4) پراسرار خزانہ بریل(Braille) میں شائع کئے جاچکے ہیں جبکہ مزید رسائل پر کام جاری ہے، اسی طرح مدنی قاعدہ بھی بریل میں شائع ہوچکا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ بولتا رسالہ کی صورت میں مکتبۃ المدینہ کے کئی رسائل آڈیو (Audio)میں موجود ہیں جن کو سن کر نابینا اسلامی بھائی بآسانی علم دین حاصل کرسکتے ہیں۔