عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کا آغاز انٹرنیشنل اسلامک اِسکالر شیخِ طریقت، امیر ِاَہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادِری رَضَوی دَامَتْ بَرْکَاتُہُمُ الْعَالِیَہْ نے کراچی میں ذُوالقعدۃِ الحرام 1401 ھ مطابق ستمبر1981ء میں اپنے چند رُفَقا کے ساتھ کیا۔ دعوتِ اسلامی نے کم و بیش 40سال کے سفر میں سیاست، احتجاج اور ہڑتال وغیرہ سے دُور رہ کر مُثبت انداز میں اللہ پاک کے فضل و کرم سے دین کا وہ کام کیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ شہرِ کراچی سے شروع ہونے والی دعوتِ اسلامی دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف پورے پاکستان بلکہ دنیا بھر میں جاپہنچی اور آج (2021ء میں) دعوتِ اسلامی کا دینی کام 80سے زائد شعبہ جات کے تحت تقریباً 313 ذیلی شعبوں میں پھیل چُکا ہے۔ دعوتِ اسلامی اب تک ہزاروں مساجد بنا چکی ہے اور مزید سلسلہ جاری ہے۔ بچّوں اور بچیوں (Boys & Girls) کو الگ الگ تعلیمِ قراٰن دینے کے لئے مدارِسُ المدینہ اور فروغِ علمِ دین (عالم و عالمہ کورس کروانے) کے لئے الگ الگ جامعاتُ المدینہ قائم کئے جارہے ہیں۔ لاکھوں حافظ، قاری، امام، مبلغ و معلّم، عالم اور مفتی تیار کرنے کے ساتھ ساتھ اصلاحِ امّت اور کردار سازی کا پروگرام منفرد اور شاندار انداز میں جاری ہے۔
5لاکھ سے زائد مرد و عورت رضا کارانہ، تقریباً 32ہزار سے
زائد اجیر (تنخواہ دار) اور کروڑوں چاہنے والے دعوتِ اسلامی کے دئیے ہوئے اہم ترین مدنی
مقصد (اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی
اصلاح کی کوشش) کی تکمیل میں کوشاں نظر آتے ہیں۔ مختلف
مقامات پر ”دارُالافتاء اہلِ سنّت“ قائم ہیں، جہاں دعوت ِاسلامی سے وابستہ مفتیانِ
کرام مسلمانوں کی تحریری، زبانی، موبائل، ای میل، واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعے شرعی راہنمائی
کرنے میں مصروف ہیں۔ دعوتِ اسلامی کے شعبے المدینۃُ العلمیہ
(Islamic Research Center)
میں تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت اور موٹیویشنل
موضوعات (Motivational Topics) اور تنظیمی تربیت پر مشتمل کُتب و رَسائل
لکھے جارہے ہیں، اس ڈیپارٹمنٹ میں اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃُ اللہِ
علیہ کی کتابوں پر مختلف نوعیت کے کام کرنے کے ساتھ ساتھ امیرِ اہلِ
سنّت دَامَتْ بَرْکَاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کی کتابوں اور رسائل کے لئے مواد وغیرہ
کے حصول میں معاونت بھی کی جاتی ہے۔ ان کُتب و رَسائل کو دعوتِ اسلامی کا اشاعتی
ادارہ مکتبۃُ المدینہ چھاپ کر عام کرتا ہے۔ انٹر نیٹ کے جدید ذرائع کو اپناتے ہوئے
دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.net کے ذریعے بھی مختلف زبانوں میں
نیکی کی دعوت عام کی جاتی ہے، اس کے علاوہ ”فیضان آن لائن اکیڈمی“ (بوائز، گرلز) قائم
ہے جس کے ذریعے آن لائن (بذریعہ انٹرنیٹ) عالم کورس، قراٰنِ پاک (حفظ و ناظرہ)
پڑھایا جاتا ہے،30 سے زائد کورسز (مثلاً
فیضانِ نماز، فیضانِ قراٰن و حدیث، سیرتِ مصطفیٰ، عقائد و فقہ، نکاح، نیو مسلم
وغیرہ) کے ذریعے لوگوں کو ان کے گھر پر علم
کی روشنی پہنچائی جاتی ہے۔ ایجوکیشن کے میدان میں انگلش میڈیم اسلامک اسکولنگ سسٹم
بنام ”دارُ المدینہ“ پری پرائمری سے میٹرک تک کام کر رہا ہے، اس سسٹم کو کالج
اور کالج سے یونیورسٹی تک لے جانے کے پروگرام جاری ہیں۔ بدلتی دُنیا میں میڈیا (Media)
کا کردار ایک حقیقت ہے چنانچہ دعوتِ
اسلامی اپنے ”مدنی چینل“ کے ذریعے 7بڑی سیٹلائٹس پر اُردو، انگلش اور
بنگلہ زبانوں میں دین کی خوب خدمت کررہی ہے، ”دعوتِ اسلامی“ سوشل میڈیا
کے پلیٹ فارم سے بھی اسلامی تعلیمات کو عام کرنے اور اصلاحِ امت کا کام کررہی ہے
اور اب تک تقریباً 3 کروڑ9 لاکھ 31ہزار430سے زائدUsers
ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے فوائد حاصل کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ شعبہ FGRF (فیضان
گلوبل ریلیف فاؤنڈیشن) کے ذریعے
فلاحی و سماجی خدمات کا سلسلہ بھی جاری ہے اور پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دُکھیاری اُمّت کی پریشانی کو دور
کرنے کے لئے لاک ڈاؤن، سیلاب وغیرہ میں نہ صرف 26لاکھ سے زائد گھرانوں کی مدد کی
گئی بلکہ ان حالات میں بالخصوص تھیلیسیمیا (Thalassemia)
اور بالعموم دیگر مریضوں کے لئے خون
کی بوتلیں (Blood Bags) جمع کرنے کا ایسا کارنامہ انجام دیا
گیا جس کی مثال نہیں ملتی، اب تک خون کی تقریباً46 ہزار بوتلیں مختلف اداروں کو
جمع کروائی جاچکیں مزید سلسلہ جاری ہے، نیز گرین ورلڈ پروگرام کے تحت گرین پاکستان
مہم میں اب تک لاکھوں لاکھ پودے لگائے جا چکے ہیں اور اس مُہم کو جاری رکھتے ہوئے
ہمارا یہ نعرہ ہے:”پودا لگانا ہے درخت بنانا ہے۔“ معذور بچّوں کی بحالی کے
لئے ادارہ بنام FRC (فیضان
ری ہیبلی ٹیشن سینٹر)قائم کیا
جا چکا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی دُکھیاری اُمت کی خدمت کا جذبہ
لئے FGRFعنقریب مدنی ہیلتھ کیئر سینٹر قائم کرنے جارہا ہے، یتیم
و نادار بچّوں کی کفالت و دینی تربیت کے لئے ”مدنی ہوم“ اولاً کراچی اور
پھر بتدریج دیگر شہروں اور ملکوں میں قائم کئے جائیں گے، اس کے علاوہ مَردوں اور
عورتوں کو ہنر مند بنانے کا ادارہ بھی عنقریب قائم کیا جائے گا، اِن شآءَ
اللہ الکریم
اللہ پاک کے فضل و کرم، فیضانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم اور فیضانِ صحابہ و اولیا (رضوانُ اللہ علیہم اجمعین) سے دعوتِ اسلامی مساجد کی آباد کاری
اور اصلاحِ اُمّت کے لئے 12دینی کام مثلاً مدنی قافلہ، نیک اعمال، ہفتہ وار اجتماع
و مدنی مذاکرہ وغیرہ کے ساتھ ساتھ فلاحی و سماجی کام بھی کررہی ہے۔
امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرْکَاتُہُمُ الْعَالِیَہْ کی دُور اندیشی کو سلام کہ آپ نے
دعوتِ اسلامی کے نظام کو اپنی ذات تک محدود رکھنے کے بجائے مرکزی مجلسِ شوریٰ قائم
کی اور سارا انتظام اس کے سپرد کردیا، امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرْکَاتُہُمُ
الْعَالِیَہْ کی خصوصی توجہ، شفقت و تربیت اور
راہنمائی سے مرکزی مجلسِ شوریٰ دعوتِ اسلامی کے تمام امور کی نگرانی اور نظام کو
بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے۔
2ستمبر2021ء
کو ”دعوتِ اسلامی“ کے قیام کو 40سال مکمل ہورہے ہیں، اس کے مبلغین و مبلغات اور متعلقین و محبین کو یومِ دعوتِ اسلامی مبارک
ہو۔ اللہ پاک دعوتِ اسلامی کومزید عُروج بخشے اور ہمیں اس کا تَن مَن دَھن (یعنی ہرطرح) سے
ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اَلحمدُ
لِلّٰہ!عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی دنیا بھر میں 79شعبہ جات میں دینِ متین کی خدمت کے لئے کوشاں ہے، جس کی مدنی
بہاریں بذریعہ مدنی چینل، ماہنامہ فیضانِ مدینہ اورمکتبۃُ المدینہ (دعوتِ اسلامی) کے
کتب و رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ گزشتہ ایک سال کی چند شعبوں کی مختصر
کارکردگی مُلاحَظہ کیجئے چنانچہ ملک و بیرونِ ملک میں:
٭جامعاتُ المدینہ(للبنین و للبنات) کی تعداد 845 سے بڑھ کر 891 ہوگئی
ہے جن میں فی سبیلِ اللہ درسِ نظامی اور فیضانِ شریعت کورس کرنے والے اسلامی
بھائیوں اور اسلامی بہنوں کی تعداد 60ہزار733سے بڑھ کر تقریباً 65 ہزار 866ہوگئی ہے، جبکہ فارغ التحصیل ہونے والوں
اور والیوں کی تعداد 10 ہزار841 سے بڑھ کر تقریباً 13 ہزار455 ہوگئی ہے۔
٭ فیضان آن لائن اکیڈمی
کی شاخیں(Branches) 37سے
بڑھ کر42ہوگئی ہیں جن میں قراٰنِ پاک کی
تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عالِم کورس اور دیگر تقریباً58دینی و اصلاحی آن لائن کورسز کرنے والوں کی تعداد 14ہزار104سے بڑھ کر تقریباً 18ہزار691ہوگئی
ہے جبکہ اس شعبے سے تقریباً 19ہزار سے
زائد طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔
٭بچوں اور بچیوں کے مدارسُ المدینہ کی تعداد 4ہزار41 سے بڑھ کر 4ہزار225 ہوگئی ہے جن میں قراٰنِ کریم کی
مفت تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد 1لاکھ 79 ہزار 550 سے بڑھ کرتقریباً1 لاکھ 7 9ہزار12 ہوگئی
ہے جبکہ حفظِ قراٰن مکمل کرنے والوں کی تعداد 87ہزار
321 سے بڑھ کرتقریباً 92ہزار47 اور ناظرہ قراٰن مکمل کرنے والوں کی تعداد 2لاکھ 72ہزار 248 سے
بڑھ کرتقریباً 2لاکھ94ہزار 307ہو
گئی ہے ۔
٭مدرسۃُ المدینہ (بالغان و بالغات) کی تعداد 26 ہزار717 سے
بڑھ کر تقریباً 34 ہزار441ہوگئی ہے، جن میں قراٰنِ پاک
کی فی سبیل ِ اللہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ دیگر احکامِ شرعیہ(وضو، غسل ،نماز وغیرہ)
سیکھنے والے بڑی عمر کےاسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کی تعدادتقریباً1لاکھ 83ہزار4 سے
بڑھ کر تقریباً 1لاکھ 96ہزار 935 ہوگئی ہے۔ اس
کے علاوہ اَلحمدُ لِلّٰہ!نابینا (Blind) بچّوں کے لئے الگ سے مدرسۃُ
المدینہ کا قِیام بھی عمل میں لایا جاچکاہے،جہاں دیکھنے کی نعمت سے محروم یعنی
نابینا (Blind)بچوں کوفی سبیلِ اللہ قراٰنِ
کریم حفظ کروایا جاتاہے۔
٭المدینۃُ العلمیہ(Islamic
Research Center): دعوتِ
اسلامی کے تحریروتالیف کے شعبے” المدینۃُالعلمیہ“ کی جانب سے 2020 میں 12ہزار399صفحات پر مشتمل 235 کُتب و رَسائل پر کام ہوا۔
٭مجلس ”ماہنامہ فیضان مدینہ “کے تحت جاری ہونے والے میگزین ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“میں قرآنیات پر60
مضامین، حدیث و سیرت پر200 مضامین، کم و بیش 800 صحابہ و اسلاف کا تذکرہ، 200علمی و تحقیقی
مضامین، 30سفرنامے، بچّوں کے لئے 270مضامین، خواتین کے لئے 150 مضامین،
طبّی و روحانی علاج پر 100مضامین، تاجروں کے لئے130 مضامین اور دیگر
کئی عنوانات پر سینکڑوں مضامین شائع کئے جاچکے ہیں۔
اس کے
علاوہ اَلحمدُ لِلّٰہ ٭ ٹرانسلیشن ڈیپارٹمنٹ(Translation
Department) کی
جانب سے کثیر
کتب و رسائل ،بیانات اورمختلف پمفلٹس کاانگلش ،چائنیز، بنگالی، تُرکی، فرنچ اور ہندی سمیت دنیا کی
38زبانوں (Languages) میں ترجمہ کیاجاچکاہے۔نیزیہ کتب ورسائل دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.net
پر بھی اپ لوڈ(Upload) کر دیئےگئےہیں۔ ٭ مدنی قافلے:دنیا بھر میں دینِ اسلام کا پیغام و تعلیمات
پہنچانے کے لئے اَلحمدُ لِلّٰہ 3دن، 12دن،1
ماہ اور 12 ماہ کے مدنی قافلے سفر کرتے رہتے ہیں۔
دینِ
اسلام کی خدمت میں آپ بھی دعوتِ اسلامی کا ساتھ دیجئے اور اپنی زکوٰۃ، صدقاتِ
واجبہ و نافلہ اور دیگر عطیات(Donation) کے ذریعے مالی تعاون
کیجئے! آپ کا چندہ کسی بھی جائز
دینی،اِصلاحی،فلاحی،روحانی ،خیرخواہی اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کیا جاسکتاہے۔
بینک کا نام:MCBاکاؤنٹ
ٹائٹل: DAWAT-E-ISLAMI TRUST
بینک برانچ:MCB AL-HILAL SOCIETY
، برانچ کوڈ:0037
اکاؤنٹ
نمبر:(صدقاتِ
نافلہ) 0859491901004196
اکاؤنٹ
نمبر:
(صدقاتِ واجبہ اور زکوٰۃ) 0859491901004197
شیخِ طریقت،
امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہسےمدنی مذاکرے (15 شعبانُ المعظم 1440 ھ بمطابق 20اپریل2019 ء) میں سوال ہوا کہ کچھ لوگ
کہتےہىں : جب تک آپ (یعنی امیرِ اہلِ سنّت) موجود ہىں تب تک دعوتِ اسلامى چلتى رہے گی، اس کے بعد نگران صاحبان اور اراکىنِ شورىٰ وغىرہ سب بکھر
جائىں گے اور پھرنہ جانے کىا ہوگا! اس کى کىا حقىقت ہے؟
آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے جواب میں فرمایا:بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میرے مرنے کے بعد دعوتِ اسلامی ختم ہوجائے گی، اِنْ شَآءَ اللہ ایسا نہیں ہوگا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ میں نے اپنی اولاد اور تمام دعوتِ اسلامی والوں کو مرکزی مجلسِ شوریٰ کی اطاعت کرنے کی تاکید کی ہے اور بارہا مدنی مذاکروں میں اور بڑی راتوں کے اجتماعات میں یہ اعلانات بھی کئے ہیں کہ ہم نے دعوتِ اسلامی میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے ماتحت رہ کر ہی مدنی کام کرنا ہے، مرکزی مجلسِ شوریٰ کی مخالفت نہیں کرنی۔ دعوتِ اسلامی کوئی دُکان یا تَرکہ(یعنی وِراثت) نہیں ہے جو میرے مرنے کے بعد میری اولاد میں تقسیم ہوگا بلکہ دعوتِ اسلامی میں جو کام کرے گا اس کو سلام ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے مرکزی مجلسِ شوریٰ کام کر رہی ہے اور یہ کرتی رہے گی۔مرنا سب کو ہے اگر کسی کے انتقال سے دین کا کام رُک جاتا تو کائنات کی سب سے بڑی ہستی کہ جن کی بدولت ہمیں اسلام ملِا یعنی ہمارے مکّی مَدَنی آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ظاہری پردہ فرمانے کے باوجود دین کا کام نہیں رُکا تو الیاس قادری کس حساب میں ہے! اس کے مرنے سے کیا ہوتا ہے!جو میرے لئے دین کا کام کرتا ہے آج سے ہی اس کو خدا حافظ! اور جو اللہ کے لئے دین کا کام کرتا ہے وہ آج بھی کرے اور میرے مرنے کے بعد بھی کرے، یہ نہ سوچے کہ الیاس قادری چلا جائے گا تو یوں ہوجائے گا یا الیاس قادری کے بعد کیا ہوگا؟ یہ سب شیطانی وسوسے ہیں ان سے ہم سب کو بچنا چاہئے۔ جیتے جی بھی توکچھ ہوسکتا ہے، ایسی کئی تحریکیں ہوتی ہیں کہ جن کے قائدین زندہ اور صحت مند ہوتے ہیں مگر ان کی تحریکیں ختم ہوجاتی ہیں۔ بہرحال یہ میری وصیت ہے کہ میرے مرنے کے بعد بھی آپ نے دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کو ہی فوقیت دینی ہے، یہ جس طرح چاہے اُسی طرح دعوتِ اسلامی کے ذریعے دین کی خدمت کرنی ہے، مرکزی مجلسِ شوریٰ سے کبھى بھى غدارى نہىں کرنی اور جو مرکزى مجلسِ شورىٰ کى مخالفت کرے اُس کا ساتھ بھی نہیں دىنا ہے۔ اللہ پاک خائنین کی نظرِبد سے میری دعوتِ اسلامی کو، میرے دعوتِ اسلامی والوں کو اور میری لاڈلی مرکزی مجلسِ شوریٰ کو محفوظ رکھے اور ان سب کو اخلاص کے ساتھ دین کی خوب خدمت کرنے کی سعادت بخشے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں اے دعوتِ اسلامی تِری دُھوم مچی
ہو
دعوتِ اسلامی(چند شعبےایک نظر میں)
رمضان المبارک 1438ھ/2017ءتا رجب المرجب1440 ھ/2019ء
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ!عاشقانِ رسول کی مَدَنی تحریک دعوتِ اسلامی دنیا
بھر میں107سے زائد شعبوں میں دینِ متین کی خدمت کے لئے کوشاں ہے، جس کی مدنی
بہاریں بذریعہ مدنی چینل، ماہنامہ فیضانِ مدینہ اور مکتبۃُ المدینہ (دعوتِ اسلامی) کے کتب و
رسائل میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔ رمضانُ المبارک1438ھ تا رجبُ المرجب1440ھ تک چند
شعبوں کی مختصر کارکردگی مُلاحَظہ ہو:
٭ملک و بیرونِ ملک میں جامعاتُ
المدینہ کی تعداد500سے بڑھ کر 616ہوگئی
ہے جن میں فِی
سَبِیلِ اللہ عالِم کورس کرنے والے اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں
کی تعداد 32000 سے بڑھ کر52574 ہوگئی ہے، اب
تک7688اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں عالم کورس مکمل کرچکے ہیں ٭ملک و بیرونِ ملک میں مدارسُ المدینہ کی تعداد 2600سے بڑھ کر 3287ہوگئی ہے جن میں قراٰنِ مجید کی مفت تعلیم حاصل
کرنے والے مدنی منّوں اور مدنی منّیوں کی تعداد1لاکھ 22ہزارسے بڑھ کر 1لاکھ 52 ہزار 340 ہوگئی ہے جبکہ تادمِ تحریر80731 طَلَبہ و طالبات قراٰنِ کریم حِفْظ اور 2لاکھ 41ہزار 28 طَلَبہ و طالبات ناظرہ مکمل کرچکے
ہیں ٭ملک و بیرونِ ملک میں جامعۃُ المدینہ و مدرسۃُ
المدینہ آن لائن کی شاخیں 15سے بڑھ کر29
ہوگئی ہیں جن میں 10ہزار سے زائد طَلَبہ
قراٰنِ پاک کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عالِم کورس اور دیگر فرض عُلوم کورس
وغیرہ کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں ٭مجلس خُدّامُ
المساجد کے تحت 1300سے زائد پلاٹس خریدنے اور مساجد بنانے کا سلسلہ ہوا، اس کے علاوہ ٭ملک و
بیرونِ ملک میں کم و بیش23ہزار200 مدرسۃُ المدینہ بالغان لگائے جارہے ہیں جن میں کم وبیش 1لاکھ 42ہزاربالغ اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں قراٰنِ
پاک کی فِی
سَبِیلِ اللہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ دیگر احکامِ شرعیہ (وضو، غسل ،نماز وغیرہ) بھی
سیکھنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں ٭المدینۃُ العلمیہ(اسلامک ریسرچ سینٹر) دعوتِ اسلامی کا تحریر و تصنیف کا علمی و تحقیقی اِدارہ ہے، جس کے تحت اَلْحَمْدُ لِلّٰہ گزشتہ دوسال میں80سےزائد
کُتُب و رَسائل اور اُردو تراجم، 360تحریری
بیانات منظرِ عام پر آچکے ہیں جبکہ المدینۃُ العلمیہ کے قیام سے اب تک550سے
زائد کُتُب و رَسائل شائع اور دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ (www.dawateislami.net) پر اپلوڈ (Upload) ہوچکے ہیں ٭مدنی کورسز:ملک و بیرونِ ملک میں اسلامی بھائیوں اور
اسلامی بہنوں کی فِی
سَبِیلِ
اللہ مختلف مدنی کورسز کے ذریعے
قراٰنِ پاک، نماز، وُضُو، غُسل، مدنی کام کرنے کا طریقہ اور اخلاقی و معاشرتی
حوالے سے مدنی تربیت کا سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے۔
دینِ اسلام کی خدمت میں آپ بھی دعوتِ اسلامی کا ساتھ
دیجئے اور اپنی زکوٰۃ، صدقاتِ واجبہ و نافلہ اور دیگر مدنی عطیات کے ذریعے مالی تعاون کیجئے!
بینک کا نام:MCB،
اکاؤنٹ ٹائٹل:دعوتِ اسلامی،
بینک برانچ:کلاتھ مارکیٹ
برانچ،کراچی پاکستان،
برانچ کوڈ:0063
اکاؤنٹ نمبر:(صدقاتِ نافلہ)0388841531000263
(صدقاتِ واجبہ
اور زکوٰۃ) 0388514411000260
مولانا ابومعاویہ محمد منعم عطاری مدنی
اسکالر
اسلامک ریسرچ سینٹر ، دعوتِ اسلامی
عموماً شخصیات فکر و نظر کو نئی
آگہی تو دیتی ہیں مگر عمل سے دور رہتی ہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ خود تو شیشے
کے بنے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے رہیں جبکہ ان کے نام لیوا گر می و سردی کی سختیاں
برداشت کریں،اورتصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ شخصیات ہی ہوتی ہیں جو کایہ پلٹ دیتی
ہیں، شخصیات ہی ہوتی ہیں جو انقلاب آفریں بھی ہوتی ہیں اور انقلاب انگیز
بھی، شخصیات ہی ہوتی ہیں جو وقت کا رخ
بدلتی ہیں، طوفانوں سے ٹکراتی ہیں اور ناقۂ بےزِمام کو سوئے قطار لے جاتی ہیں، مگر آج میں جس شخصیت پر لکھنے جا رہا
ہوں وہ بجا طور پر ایک انقلاب آفریں
شخصیت ہیں،وہ فکر کو تازگی بھی دیتے ہیں اور عمل کا نمونہ بھی ہیں ، وہ سمع و بصر کو جنت کا رستہ بھی دکھاتے ہیں اور مَن کی دنیا کو اُجلا
بھی کرتے ہیں، وہ نظریات کی ایک نئی دنیا بھی دکھاتے ہیں اور عمل کا خوبصورت نقش
بھی سامنے لاتے ہیں، وہ استقامت و جہدِ مسلسل کے کوہِ گراں ہیں، وہ حکمت و دانائی کے
پیکر ہیں، وہ بندہ نواز بھی ہیں بندہ پروربھی اور علم و عمل کے نیر اعظم بھی، وہ
شریعت و طریقت کے جامع بھی ہیں اور محبت و
مودت کے مخزن بھی۔ اُن کی حیات میں کمالات و محاسن کا ایک پورا جہان ہے۔ اُن کی زندگی کا گلستان
متنوع اور رنگارنگ پھولوں سے مزین ہے۔ اُن
کی حیات کا ہر ہر ورق یقینِ محکم اور جُہدِ مسلسل سے عبارت ہے۔اُن کا خاندان نہ کوئی سرکاری منصب رکھتا تھا نہ
رئیسانہ ٹھاٹ باٹ، نہ عالمانہ جاہ و جلال مگر آپ میں دین کی حکمرانی بھی ہے اور دین داری کا سچا
حسن و جمال بھی، جنہیں اپنا پیٹ بھی پالنا تھا گھروالوں کیلئے بھی کام کرنا تھا،
ان کی زندگی میں غربت کی آہیں بھی تھیں، مفلسی کی سسکیاں بھی تھیں ، ان سب چیزوں کے باوجود علما سے مراجعت اور
ذاتی شوق و لیاقت کی بنا پر آج وہ طریقت و شریعت کے آفتاب و ماہتاب ہیں۔ وہ امت کے
رہنما بھی ہیں،اوران کے سچے خیر خواہ بھی، جو حکمت و دانائی کے پیکر، عجز و انکسار
کے خوگر، تقویٰ و پرہیزگاری کے سنگم اور ملنساری و خودداری کی زندہ دلیل ہیں جو
منزل کی تلاش میں جادہ پیمائی کو نکلے تھے توخود ہی میرِ قافلہ بھی تھے اور اس
قافلے کے اکیلے مسافر بھی مگر آج ان کا کاروانِ رحمت دعوتِ اسلامی کی صورت میں
دنیا بھر میں دین کا پیغام عام کررہا ہے۔ اُن کی خدمتِ خلق، غم گساری و ہم دردی، رہ نمائی و
ہمت افزائی، مہربانی و سخاوت، رحمدلی و
نرمی، اکابر کی عظمت و اصاغر سے شفقت، خودداری و پامردی، پُرتاثیر مواعظ و نصائح
اور دیگر اخلاقِ عالیہ کا دورانیہ دعوتِ اسلامی کی ابتدا بلکہ اس سے بھی پہلے سے
لے کر اس کے ہر ہر لمحے، شہرِ کراچی کے چپے چپے بلکہ ملکِ پاکستان کے گوشے گوشے
میں پھیلا ہوا ہے۔ اُن کی خطابت میں عالمانہ نکات، فلسفیانہ گفتگو، فصیح و بلیغ عبارات، فی البدیہ
مقفی مسجع جملے نہ سہی مگر اُن کے سیدھے سادھے جملوں نے ہزاروں ، لاکھوں افراد کے
دلوں میں انقلاب برپا کر دیا اور انہیں سنتوں کی راہوں کا مسافر بنا دیا۔ اُن کے
تحریر بھی ایسی دلکش و دل پذیر ہوتی کہ قاری کا دل موہ لیتی اور اسے عمل پر آمادہ
کرتی ہے۔ اُن
کی شفقتیں اور عنایتیں ایسی ہیں کہ جو ایک بار ملتا ہے ایسا سرشار ہوتا ہے کہ
زندگی بھر کیلئے گرویدہ ہو جاتا ہے۔اُن کی راتیں بھی تبلیغِ دین کیلئے ہیں اور دن بھی تبلیغِ دین
کیلئے، اُن کی زندگی کا ایک ایک دن سنتوں کی خدمت میں گزرتا نظر آتا ہے۔ اُن کی ایک صدائے دل نواز نے
لاک ڈاؤن کے کٹھن ایام میں بلڈ کے امراض میں مبتلا حسرت و یاس کی تصویر بنے مریضوں
کے لبوں پر مسکراہٹیں بکھیر دیں۔ اُن کے چمنستانِ تربیت کی عطر بیز، رنگیں فضاؤں اور نشیلی
ہواؤں نے صرف دعوتِ اسلامی کے گلستان کو نہیں مہکایا بلکہ ہر طرف بادِ بہار کا
سماں باندھا ہے۔انہوں نے مسلمانوں کی پستیِ اخلاق، دنائتِ طبع، بغض و عناد، حسد
وکینہ، کذب و افترا، اختلاف و افتراق، بے حیائی و بےشرمی اور ان جیسی درجنوں برائیوں کے خلاف علمِ جہاد
بلند کیا اور اپنے دلنشیں اور من موہنے انداز میں سادہ و دلپذیر الفاظ کا سہارا لے
کر لوگوں کے قلوب میں اخلاقِ عالیہ کی عظمت، بزرگی اورفوائد کے ان مٹ نقوش مرتسم
کئے۔ آج جب دنیا بھر کا میڈیا و سوشل میڈیا مسلمانوں سے شرم و حیا کی دولتِ بے بہا چھین لینا چاہتا ہے تو اُس
مردِ کامل نے بے حیائی اور میوزک سے پاک خالص علمی و دینی چینل کا تحفہ امت کو
دیا۔
الغرض کون سے ایسے نیک اوصاف ہیں
جو ہمیں اپنے ممدوح کی شخصیت میں نظر نہیں آتے، دور اندیشی کا کوہِ گراں کہا جائے، عاجزی و انکساری کا پیکر کہا جائے یا جہدِ مسلسل
کا استعارہ قرار دیا جائے ، سادگی،عاجزی،تحمل،تدبر،تفکر،صبر،قناعت،مطانت،جراءت،ہمت،ذہانت،فطانت،فقاہت
علمیت،صداقت،حکمت،سخاوت،محبت،شفقت،رقت،عفو،درگزر،عیب پوشی،دلجوئی، غمخواری، خیرخواہی،دلجوئی،ہمدردی،حوصلہ
افزائی،خوش مزاجی،خوش اخلاقی،پرہیزگاری،تصلب فی الدین،تصلب فی المسلک، خوف خدا،حب
الٰہی،عشق رسول،الفت صحابہ،حب اہل بیت، عقیدتِ اسلاف،جذبۂ نیکی کی دعوت،فکر امت،شوق
مطالعہ،ذوق عبادت، وسعت نظری،اطاعتِ شریعت،اتباعِ سنت،اشاعت قرآن وسنت،فکررضا،ذکررضا،حب
رضا،ادب علماء،محبت صلحاء، اعلاء کلمۃالحق،احقاق حق، ابطال باطل،قیام مدارس و
مساجد،کثرت تصنیف و تالیف،شعر و سخن میں دلچسپی
اور اس کا صحیح استعمال، نورانیت، روحانیت
اور رضویت سمیت کئی ایسے اوصاف ہیں جن کو ملا کر اگر کسی شخصیت کا تصور باندھا
جائے تو ایک ہی شخصیت ذہن میں آتی ہے ۔
جنہیں
ہم شیخِ طریقت، امیر اہلسنت، پیرِطریقت،رہبرِ
شریعت، برہانِ شریعت، گنجینہ رموزِ شریعت، آفتاب ہدایت، منبع رشد وہدایت، واقفِ
اسرارِ حقیقت، آفتاب ولایت، منبعِ جود و سخا، کرامتِ غوثِ اعظم، ولیٔ کامِل، صوفیٔ
باصفا، پیکرِ علم و حیا، عالمِ ربانی، عارفِ صمدانی، عالی مرتبت،پروانۂ شمع
رسالت، یادگارِ اسلاف، نمونۂ اسلاف، بقیۃ السلف، عمدۃ الخلف، سرمایہ ملک و ملت، آفتابِ
علم و حکمت، مقبول عوام و خواص، مبلغِ فکر
رضا، پاسبانِ مسلک رضا، نباض قوم،امیر اہلسنت بانیِ دعوتِ اسلامی، الحاج ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت
برکاتہم القدسیہ کے نام سے جانتے ہیں۔ جو بانئ دعوت اسلامی ہیں،جو سلسلہ قادریہ کے
شیخ ہیں،جو دنیا میں مسلک اعلحضرت کی پہچان ہیں،جو رضویت کے پاسبان ہیں،جو ناموس
صحابہ واہل بیت کے علمبردار ہیں، اللہ کریم انہیں عافیتوں والی عمرخضری عطا فرمائے
آمین
امیرِ اہلِ سنّت کا پیغام مجلس دعوتِ اسلامی
ویلفیئر کے نام
ذوالحجۃ الحرام1441
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ وَنُسَلِّمُ عَلٰی رَسُوْلِہِ
النَّبِیِّ الْکَرِیْم
سگِ مدینہ محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی عُفِیَ عَنْہُ کی جانب سے میٹھے میٹھے مدنی بیٹے حاجی شفاعت علی عطّاری اور دعوتِ اسلامی ویلفیئر
ٹرسٹ کے تمام عاشقانِ رسول کی خدمتوں میں:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ
مَا شَآءَ اللّٰہ! آپ کے کارنامے اور کارکردگیاں، مرحبا!
کورونا وائرس کی آئی ہوئی اس آفت میں راشن کی خریداری کرنا، پیکنگ کرنا، تقسیم
کرنا، نقد رقم بانٹنا، پکا ہوا کھانا پہنچانا، تقسیم کرنے کے لئے دور دراز کا سفر
کرنا، رَمَضانُ المبارَک میں سحری و افطاری کے
اوقات بھی وہیں گزارنا، عید کے دنوں میں بھی مجلس دعوتِ اسلامی ویلفیئر
ٹرسٹ کے کارنامے مدینہ مدینہ! اسپتال میں خیرخواہی ہو رہی ہے تو اولڈ ہاؤس میں بھی
بزرگوں کے ساتھ وقت گزررہا ہے تو یتیم خانے میں یتیموں کی بھی دل جوئی کی جارہی
ہے، کیا بات ہے مدینے کی! اللہ کریم آپ کی ان کاوشوں کو قبول فرمائے اور اجرِ عظیم عطا فرمائے، آپ کو استِقامت
دے، مدنی چینل پر مدنی خبروں میں بارہا آپ
حضرات کی زیارتیں کرتا ہوں اور آپ حضرات کی مَساعی (کوششیں)
دیکھتا ہوں، میرے پیارے پیارےمدنی بیٹو! اب پیچھے نہیں
ہٹنا، دعوتِ اسلامی جب سے بنی ہے اس کی آگے کُوچ جاری ہے تو آپ کی مجلس کا بھی آگے
کُوچ جاری رہے۔ زوردار آندھی چلی اور لانڈھی (کراچی) میں باڑوں میں آگ لگ گئی تو ان مواقع پر بھی آپ نے خدمات
پیش کیں، پھر نیاآباد (کراچی) میں سات منزلہ
عمارت گِرگئی تو وہاں بھی آپ لوگ پہنچے، اس میں بھی مَا شَآءَ اللّٰہ آپ نے غالباً لیبر ورک بھی کیا ہوگا، اللہ برکت دے، ہمّت دے، مدد کرے اور مددگار پیدا کرے، خوب
آگے بڑھتے جائیے اور اللہ کی رضا کا
خزانہ لُوٹتے رہئے۔ میں آپ کو ایک حدیثِ پاک تحفے میں سناتا ہوں: فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو شخص مسلمان کی ضرورت پوری
کرنے کے لئے جائے، اللہ پاک 75ہزار فرشتوں کے ذریعے اُس پر سایہ فرماتا ہے جو اُس کے لئے دُعا کرتے
ہیں، وہ فارغ ہونے تک رحمت میں چھپا رہتا ہے اور جب فارغ ہوتا ہے تو اللہ پاک اُس کے لئے حج و عمرہ کا ثواب لکھتا ہے۔(مجمع الزوائد، 8/354،
حدیث:13725)
مزید عرض ہے کہ دعوتِ اسلامی کے 12مدنی کام پر بھی توجّہ رکھیں، ”آقا کی دُکھیاری
اُمّت“ کی خدمت کریں اور اس کے ساتھ ساتھ
دعوتِ اسلامی کے 12مدنی کام میں بھی حصّہ لیتے رہیں، اللہ کرے کورونا وائرس دُور ہوجائے اور لاک ڈاؤن ختم
ہوجائے، مساجد کی رونقیں بحال ہوں تو ہفتہ وار
سنّتوں بھرے اجتماع میں مع رات اعتکاف شرکت کیجئے اور ہر مہینے تین دن کے مدنی
قافلے میں سفر کے ذریعے سنّتیں سیکھنے سکھانے
کی ترکیبیں بھی رکھنی ہے، علاقائی دورہ کے ذریعے نیکی کی دعوت بھی دیتے
رہنا ہے، درس دینا، سننا اور مدنی انعامات پر عمل کرکے روزانہ اپنا مُحاسَبہ کرکے
اس کے خانے بھرنے ہیں اور اسلامی مہینے کی پہلی تاریخ کو اپنے یہاں کے ذمّہ دار کو
جمع کروانا ہے، اِنْ شَآءَ اللہ۔ اللہ پاک آپ کو خوش رکھے۔
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صلَّی
اللہُ علٰی محمَّد
عید میلادُ
النبی کے موقع پر خُوشی کا اظہار کرنا اور محافل و جلوسِ میلاد کا اِنعِقاد کرنا
رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
سے مَحبت کی علامت ہے۔ ہر سال ربیعُ الاوّل کے مقدّس مہینے میں عاشقانِ رسول
اپنے پیارے مُصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے
عشق و مَحبت کا اظہار کرتے ہوئے جلوسِ میلاد اور محافلِ میلاد کا اہتمام کرتے ہیں۔
عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت بھی دنیا بھر میں عید میلادُ
النبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم بڑی عَقیدت و اِحترام سے منائی جاتی
ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی یکم (1st) ربیعُ الاوّل سے قبل ہی دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی
مرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ کو نہایت
خوبصورت برقی قُمقُمے لگا کرسجادیا گیا تھا۔ جلوسِ میلاد عالمی مدنی مرکز
فیضانِ مدینہ میں یکم تا13ربیعُ الاوّل 1440 ہجری روزانہ مدنی مذاکرے سے پہلے جلوسِ
میلاد کا اِہتمام کیا جاتا رہا جس میں شیخِ طریقت، امیرِ اَہلِ سنّت حضرت علّامہ
مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ سمیت کثیر عاشقانِ رسول نے شرکت کی۔ کشتیوں میں جلوسِ میلاد دعوتِ
اسلامی کی مجلس ماہی گیر کے تحت مختلف بندرگاہوں پر کشتیوں اور لانچوں میں بھی
جلوسِ میلاد کا سلسلہ ہوا جن میں اراکینِ شوریٰ حاجی عبدُالحبیب عطّاری، حاجی ابوماجد
محمد شاہد عطّاری مدنی، محمد فاروق جیلانی سمیت بڑی تعداد میں ماہی گیر و دیگر
اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔ مدنی
مذاکرے امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّاؔر
قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے 29صفرُ المظفر 1440ھ تا 13ربیعُ
الاوّل1440ھ مدنی مذاکرے فرمائے جن میں جانشین و صاحبزادۂ امیرِ اہلِ سنّت مولانا
عبید رضا عطّاری مدنی مُدَّظِلُّہُ الْعَالِی اور نگرانِ شوریٰ مولانا محمد عمران عطّاری
مُدَّظِلُّہُ الْعَالِی نیز بیرونِ ملک (عرب شریف، یوکے، اسپین،
اٹلی، ناروے، ہالینڈ، سری لنکا، ساؤتھ افریقہ، یو اے ای) اور پاکستان
کے مختلف شہروں سے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ آئے ہوئے 9145 اسلامی بھائیوں کے علاوہ ہزاروں عاشقانِ رسول نے شرکت کی۔ اجتماعاتِ میلاد دعوتِ اسلامی
کے تحت ربیعُ الاوّل کی بارھویں شب ملک بھر میں تقریباً 869مقامات پر اجتماعاتِ
میلاد مُنعقِد ہوئے جن میں2لاکھ 59ہزار 401 سے زائد اسلامی بھائیوں نے شرکت کی،
عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ کراچی میں بھی عظیمُ الشّان اجتماعِ میلاد
ہواجس میں مدنی مذاکرے کا بھی سلسلہ ہوا، اس پُر نور اجتماع میں بلا شبہ ہزاروں
عاشقانِ رسول نے شرکت کی جبکہ میئر کراچی وسیم اختر، صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی،
آئی جی جیل خانہ جات مظفر عالم صدیقی،ایڈیشنل آئی جی امیر شیخ، ایم پی اے بلال
غضنفر، ایم این اے عالمگیر خان اور ڈی ایس پی، ایس ایس پی، ایس پی، ایس ایچ او، آئی
جی ٹریفک، ڈی ایس پی ٹریفک، کے ایم سی، ڈی ایم سی انتظامیہ کے عہدیداران نے عالمی
مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کا وزٹ کیا۔ بیرونِ ملک میں ہونے والے اجتماعاتِ میلاد دعوتِ اسلامی کے تحت ٭عرب
شریف ٭ہند ٭یوکے ٭بنگلا دیش ٭یونان (Greece) ٭یو ایس اے ٭کینیڈا ٭یو اے ای
٭عمان ٭کینیا ٭یوگنڈا ٭تنزانیہ ٭نیپال ٭ترکی ٭ماریشس ٭آسٹریلیا ٭زامبیا ٭ملائیشیا ٭تھائی
لینڈ ٭ساؤتھ کوریا ٭سری لنکا ٭ہانگ کانگ ٭ہالینڈ ٭ڈنمارک ٭اٹلی ٭فرانس ٭جرمنی ٭بلجئیم
٭ناروے ٭سویڈن ٭قطر ٭کویت ٭بحرین ٭اسپین ٭موزمبیق ٭جارڈن ٭سویڈن ٭ملاوی کے علاوہ دنیا کے سینکڑوں شہروں میں اجتماعاتِ
میلاد مُنعقد ہوئے جن میں ہزاروں اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔ میڈیا کوریج دعوتِ اسلامی کے تحت
مختلف مقامات پر ہونے والے اجتماعاتِ میلاد کو الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا (نیوز چینلز اور
اخبارات) نے نمایاں کوریج دی۔ چند چینلز کے نام یہ ہیں: ٭92 نیوز ٭سماء
نیوز ٭جیو نیوز ٭A.R.Y نیوز ٭بول
نیوز ٭ایکسپریس نیوز ٭نیو نیوز ٭نیوز ون ٭ڈان نیوز ٭میٹرو نیوز ٭دنیا نیوز ٭24
نیوز ٭K.21 نیوز ٭اب تک
نیوز ٭7 نیوز ٭K.T.N نیوز و دیگر۔
فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلَّم ہے:مَنِ
اعْتَکَفَ اِیْمانًا وَّاِحْتِسَابًا غُفِرَلَہ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ یعنی:جس
شخص نے ایمان کے ساتھ ثواب حاصل کرنے کی نیَّت
سے اعتکاف کیا اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دئیے جائیں گے۔(جامع
صغیر، ص516 ،حدیث:8480)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! رمضانُ المبارک کا چاند نظرآنے سے
پہلے ہی اسلامی بھائیوں کی ایک بڑی تعداد عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں پہنچ
جاتی ہے، جن کا مقصد عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک
دعوتِ اسلامی کے اسلامی بھائیوں کے ساتھ اجتماعی اعتکاف کرنا ہوتا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ! ہر سال کی طرح اس سال (1439ھ/ 2018ءمیں) بھی عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ
اور دنیا بھر میں دعوتِ اسلامی کے تحت پورے
ماہِ رمضان اور آخری عشرے کا سنّت اعتکاف اجتماعی طور پر ہوا۔ عالمی مدنی مرکز میں
تو عجب بہار آئی ہوئی تھی، ہرطرف معتکفین ہی نظر آرہے تھے، اس رونق میں مزید اضافہ
یوں ہوا کہ شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت حضرت
علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادریدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہنے
پورا ماہ نمازِ عصر اور تراویح کے بعد
مدنی مذاکرہ فرمایا اور عقائد و اعمال، فضائل
و مناقِب، شریعت و طریقت، تاریخ اور سیرت وغیرہ کے متعلق ہونے
والے مختلف سوالات کے حکمت بھرے جوابات ارشاد فرمائے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق رمضان المبارک کے آخری عشرے میں صرف عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ کراچی میں مدنی
مذاکروں میں روزانہ کم و بیش نو ہزار 9000 اسلامی بھائی شریک ہوتے رہے، جبکہ دیگر
مختلف مقامات اور گھروں میں بذریعہ مدنی چینل شریک ہونے والوں کی تعداد اس کے
علاوہ ہے۔ پورے رمضان المبارک کا اعتکاف
رواں سال (1439ھ/ 2018ء میں) دعوتِ
اسلامی کے تحت ہونے والے پورے ماہِ رمضان کے اجتماعی
اعتکاف میں پاکستان میں 73مقامات پر تقریباً نو ہزار چار سو ستتّر9477 اور دیگر مختلف ممالک میں 76 مقامات پر تقریباً دو
ہزار آٹھ سو سینتیس 2837 عاشقانِ رسول شریک ہوئے۔ بیرونِ ممالک میں ہند، نیپال، اٹلی،
یوگینڈا اور بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک شامل ہیں۔ عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ باب
المدینہ کراچی میں اعتکاف کرنے کے لئے کم
و بیش600اسلامی بھائی رمضان ایکسپریس اور داتا ایکسپریس کے ذریعے آئے۔ آخری عشرے کا اعتکاف پاکستان
میں دعوتِ اسلامی کے تحت بابُ
المدینہ کراچی، زم زم نگر حیدرآباد، مرکزُالاولیاء (لاہور)، سردارآباد (فیصل آباد)، مدینۃُ
الاولیا ملتان، بہاولپور، راولپنڈی، اسلام آباد، واہ کینٹ، پشاور، کوئٹہ، کشمیر
سمیت(
کم و بیش) 5175مقامات پر رمضانُ المبارک کے آخری عشرے کا اجتماعی
اعتکاف ہوا جس میں تقریباً ایک لاکھ گیارہ ہزار دو سو ننانوے 111299 اسلامی بھائی
شریک ہوئے، جن میں سے تقریباً آٹھ ہزار
پانچ سو نو 8509 اسلامی بھائیوں نے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ باب المدینہ (کراچی) میں
اعتکاف کرنے کی سعادت پائی۔ عالمی مدنی مرکز میں عرب شریف،عرب امارات، کویت، یوکے،
عمان، آسٹریا، یونان، فرانس، ناروے، جرمنی، ہانگ کانگ، سری لنکا، ملائشیا، تھائی لینڈ،
ہند، نیپال، یوایس اے، کینیڈا اور موذمبیق وغیرہ سے آنے والے کئی معتکف اسلامی
بھائی بھی شامل تھے۔ پاکستان کے علاوہ عمان، عرب
امارات، امریکہ، کینڈا، یوکے، کینیا، یوگینڈا، تنزانیہ، زامبیا، انڈونیشیا، ملائشیا،
ساؤتھ کوریا، سری لنکا، اٹلی، یونان، جرمنی، بیلجئم، ہند، نیپال، بنگلہ دیش، ایرانوغیرہ میں
بھی تقریباً 474 مقامات پر آخری عشرے کا اجتماعی اعتکاف ہوا جس میں 9703 اسلامی
بھائی شریک ہوئے۔ اعتکاف کے دوران متعدد اسلامی بھائیوں نے مدنی چینل کو تأثرات
دیے کہ ہمیں یہاں نمازوں کی پابندی نصیب
ہوئی، توبہ کرنےاور گناہوں سے بچنے کا ذہن بنا ،یہاں ہمیں محبت بھرا مدنی ماحول
نصیب ہوا، بہت سے اسلامی بھائیوں نے نمازیں اور دیگر فرائض ادا کرنے، داڑھی و عمامہ
کی سنّت سجانے، فرض علوم سیکھنے اورجامعۃ المدینہ میں داخلہ لینے، مدنی قافلوں میں سفر کرنے اور اپنے
علاقوں میں مدنی کام کرنے کی نیتوں
کا بھی اظہار کیا۔
اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں
اے دعوتِ اسلامی تری دھوم مچی ہو
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰنکا وِصالِ پُرملال 25 صفر المظفّر 1340ھ کو ہوا۔رواں سال 1440ھ میں آپ کے وصال کو 100 سال پورے ہوئے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّدنیا بھر کے عاشقانِ رضا نے 100سالہ عرسِ اعلیٰ حضرت
دھوم دھام سے منایا۔ عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت بھی 100سالہ
عرسِ اعلیٰ حضرت بڑی شان و شوکت سے منایا گیا جس کی کچھ جھلکیاں یہ ہیں: فاتحہ خوانی شیخِ طریقت
امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے 25 صفرالمظفّر 1440ھ کو اپنے گھر(بیت البقیع) کے
جنّت ہال میں اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ علیہ کے ایصالِ ثواب کے سلسلے میں
فاتحہ خوانی کی اور دعا فرمائی جس میں کثیر عاشقانِ رسول نے شرکت کی،اختتام پر
لنگرِ رضویہ کا سلسلہ بھی ہوا۔ مدنی مذاکرہ ٭صفر المظفّر
کی 25 ویں رات عالَمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ کراچی میں
مدنی مذاکرے سے قبل جلوسِ رضویہ کا سلسلہ ہوا جس میں عاشقِ اعلیٰ حضرت، امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے باادب انداز میں شرکت فرمائی بعد ازاں مدنی مذاکرے میں مدنی پھول عطا
فرمائے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:٭اللہ کی رحمت سے جب سے اعلیٰ حضرت کا تذکرہ
سنا،ان کی مَحَبّت کا بیج دل میں جڑ پکڑ کر تَناوَر درخت بن گیا،تحدیثِ نعمت کے
طور پر عرض کرتا ہوں کہ آج ایک دنیا اس درخت کا پھل کھارہی ہے۔ ٭ عالم و مفتی تو
بہت ہوئے ہیں لیکن میرے اعلیٰ حضرت جیسا کوئی ہو تو بتائیں۔مجھے نہیں لگتا کہ
پچھلے دو چارسو سال میں اعلیٰ حضرت جیسا کوئی پیدا ہوا ہو۔ ٭دعوتِ اسلامی والوں کو
سیّدوں کے ادب کا جو شعور ملا وہ فیضانِ رضا ہے۔٭اللہ کریم نے دنیا
میں ہمیں اعلیٰ حضرت کے فیوض و برکات سے مالا مال فرمایا، آخرت میں بھی ہمیں محروم
نہ فرمائے۔یاد رہے! عالَمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں ہونے والے اس مدنی مذاکرے
میں 7000سے زائد اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔ مدنی چینل کی خصوصی نشریات فیضانِ
اعلیٰ حضرت: مدنی چینل کی جانب سے یکم تا 23 صفرالمظفرّ 1440ھ براہِ راست سلسلہ (Live Program) ”فیضانِ اعلیٰ حضرت“ پیش کیا گیا جس میں مُبلّغینِ دعوتِ اسلامی نے سیرتِ اعلیٰ حضرت کے مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی۔ اس
سلسلے (Program) میں مدرسۃ المدینہ کے حفّاظِ کرام کے درمیان مدنی
مقابلہ ”ذوقِ قراٰن“ اور دعوتِ اسلامی
کی مختلف مجالس کے درمیان مدنی مقابلہ ”ذوقِ نعت“ بھی ہوا۔مدنی مقابلے ذوقِ نعت کا
فائنل 23 صفرالمظفّر 1440ھ کو عالَمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ کراچی
کے وسیع و عریض صحن میں ہوا جس میں مجلس خصوصی اسلامی بھائی کامیاب رہی۔ فیضانِ امام
اہلِ سنّت کی اشاعت اعلیٰ حضرت، امامِ
اہلِ سنّت رحمۃ اللہ
علیہ کے 100 سالہ عرس
کے موقَع پر دعوتِ اسلامی کی مجلس ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“ کی جانب سے امامِ اہلِ
سنّت رحمۃ اللہ علیہ
کی حیاتِ مبارَکہ کے کثیر پہلوؤں کو اجاگر کرتاہوا تقریباً 57 مضامین اور 252
صفحات پر مشتمل ایک خصوصی شمارہ بنام ”فیضانِ امامِ اہلِ سنّت“پاک
و ہند میں بیک وقت کم و بیش 7100 کی تعداد میں شائع کیا گیا۔ سیرتِ اعلیٰ حضرت کے
مختلف گوشوں پر مشتمل اس خصوصی شمارے کی اِشاعت پر اراکینِ شوریٰ، ملک و بیرونِ
ملک سے عُلَما و مفتیانِ کرام اور دیگر ذِمّہ داران کی جانب سے مبارَک باد کے پیغامات
موصول ہوئے جنہوں نے مجلس ”ماہنامہ فیضانِ
مدینہ“ کے لئے اپنی نیک دعاؤں کا اظہار کیا۔ یہ خصوصی شمارہ مزارِ اعلیٰ حضرت
بریلی شریف ہند میں ہونے والی عرسِ رضوی کی مرکزی تقریب میں٭حضرت مولانا
سبحان رضا خان سبحانی میاں صاحب (سجادہ
نشین درگاہِ اعلیٰ حضرت بریلی شریف) ٭حضرت مولانا پروفیسر سیّد امین میاں برکاتی صاحب (سجادہ نشین خانقاہِ برکاتیہ مارہرہ شریف و
بانی البرکات علی گڑھ) ٭حضرت مولانا منّان رضا خان منّانی میاں صاحب (برادرِ تاج ُ الشریعہ بریلی شریف، بانی و سرپرست
جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف) ٭حضرت مولانا مفتی محمد عسجد رضا خان قادری رضوی صاحب (جانشین و شہزادۂ تاجُ الشّریعہ و سرپرستِ
اعلیٰ جامعۃ الرضا بریلی شریف) سمیت
کثیر عُلَمائے کرام، سجادہ نشین اور شخصیات کو پیش کیا گیا جس پر انہوں نے مَسرت
کا اظہار کیا۔ سنّتوں
بھرے اجتماعات ملک بھر کئی مساجد میں 25 صفرالمظفّر کو
100 سالہ عرسِ اعلیٰ حضرت کی مناسَبت سے محافل ہوئیں جبکہ موصول ہونے والی
کارکردگی کے مطابق بڑی سطح پر 775 مقامات پر اجتماعاتِ ذکر و نعت ہوئے جن میں کم و بیش ایک لاکھ 17
ہزار 990 سے زائد عاشقانِ رسول شریک ہوئے۔ بیرون ِ ملک اجتماعاتِ عرسِ رضا وطنِ
عزیز پاکستان کی طرح بیرونِ ممالک میں بھی عاشقانِ رضا نے 100 سالہ عرسِ اعلیٰ
حضرت کے سلسلے میں محافل سجاکر اعلیٰ حضرت سے اپنی عقیدت و مَحبّت کا اظہار کیا۔مجلس
بیرونِ ممالک کی جانب سے موصول ہونے والی کارکردگی کے مطابق عرب شریف، ہند، نیپال،
بنگلہ دیش، بحرین،بیلجیئم، فرانس، اٹلی، اسپین، ناروے، سویڈن، ڈنمارک، آسٹریا،
گریس، ہالینڈ، ساؤتھ افریقہ، موزمبیق، ماریشیس، یوکے، اسکاٹ لینڈ، ہانگ کانگ، تھائی
لینڈ، سری لنکا، جاپان، امریکا، کینیڈا،
آسٹریلیا، عمان، عرب امارات، ترکی، زامبیا، کینیا، تنزانیہ، ملاوی، قطر، کویت، ساؤتھ
کوریا، ملائیشیا، سوڈان اور نیوزی لینڈ میں اجتماعات منعقد کئے گئے جن میں عاشقانِ
رسول کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مجلس
جامعۃ المدینہ مجلس جامعۃ المدینہ کے تحت 24 صفر المظفّر 1440ھ بروز جمعہ عالَمی
مدنی مرکز فیضانِ مدینہ باب المدینہ کراچی کے وسیع و عریض صحن میں ایک عظیم الشّان
اجتماع منعقد کیا گیا جس میں مقابلۂ حسنِ قرأت، حفظِ
قرآن، حسنِ بیان، ذہنی آزمائش،حسنِ
نعت،علمی مُباحَثہ، اساتِذۂ کرام کے بیانات، سامعین سے سوالات، عَرَبی سلسلہ، رضوی
کمپیوٹر اور تعارفِ رسائلِ رضویہ کے مختلف مرحلے (Segments) ہوئے۔
اس اجتماع میں بھی عاشقانِ رسول کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مکتبۃ المدینہ کی خصوصی رعایتی آفر دعوتِ اسلامی
کے اشاعتی ادارہ مکتبۃ المدینہ نے 100 سالہ عرسِ اعلیٰ حضرت کے موقع پر عاشقانِ
اعلیٰ حضرت کے لئے اپنی مطبوعات پر%20
ڈسکاؤنٹ رکھا ۔ یہ رعایتی پیشکش تین دن تک پاکستان بھر میں مکتبۃ المدینہ کی تمام
شاخوں پر
جاری رہی جس سے عُلَمائے کرام، طَلَبائے کرام اور دیگر اسلامی بھائیوں نے فائدہ
اٹھایا۔ وقتِ وصال فاتحہ خوانی:اعلیٰ حضرت رحمۃ
اللہ علیہ کا وصال 25 صفر المظفّر (پاکستان کے وقت کے
مطابق)دوپہر 2
بج کر8
منٹ پر ہوا تھا۔ دعوتِ اسلامی کے عالَمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ بابُ المدینہ
کراچی میں اعلیٰ حضرت کے عَین وقتِ وصال پر فاتحہ خوانی کا سلسلہ ہوا ،نگرانِ
شوریٰ حضرت مولانا محمد عمران عطّاری مَدَّظِلُّہُ
الْعَالِی نے دعا کروائی اور مدنی پھول ارشاد فرمائے۔
قراٰنِ پاک آسمانی
کتابوں میں سے آخری کتاب ہے جسے اللہ پاک نے سب سے آخری نبی، محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم پر نازِل فرمایا۔ اس کو پڑھنا، پڑھانا، دیکھنا اور چُھونا
عبادت ہے۔ قراٰنِ پاک کو شایانِ شان طریقے سے شائع (Publish) کرنا، دنیا کی
مختلف زبانوں میں اس کا دُرُست ترجمہ اور تفسیر کرنا، مسلمانوں کو دُرُست قراٰن
پڑھنا سکھانا، مساجد و
مدارس،عوامی جگہوں مثلاً(ائیرپورٹ،ریلوے اسٹیشن و بس اسٹینڈ وغیرہ کی جائے نماز)میں قراٰنِ
کریم پہنچانااور احکامِ قراٰن پر عمل کی ترغیب دلانا وغیرہ خدمتِ قراٰنِ پاک کی
مختلف صورتیں ہیں۔ خدمتِ
قراٰن کی تاریخ سب سے پہلے خدمتِ قراٰنِ مجید کی عظیم سعادت صحابۂ
کرام علیہمُ الرِّضوان کو حاصل ہوئی جنہوں
نے اللہ کے حبیب صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے قراٰنِ مقدّس کی تعلیم حاصل کی، دیگر مسلمانوں تک
قراٰنِ مجید اور اس کے احکام پہنچائے، بعض حضرات نے حفظِ قراٰن کی سعادت پائی نیز
سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصالِ ظاہری
کے بعد قراٰنِ پاک کو جمع کرنے کا اِہتمام فرمایا چنانچہ جنگ یَمامہ میں بہت سے حُفّاظ صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کی شہادت کے بعد حضرتِ سیدنا عمر فاروق
اعظم رضی اللہ عنہنے حضرتِ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو جمعِ قرآن کا مشورہ دیا۔ حضرتِ سیدنا عمر فاروق کے مشورے کو قبول فرماتے ہوئے حضرتِ سیدنا زید
بن ثابت رضی اللہ عنہ کو قراٰن
مجید جمع کرنے کا حکم فرمایا (بخاری، 3/398، حدیث:4986) اور بعد میں
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اسی جمع شدہ نسخے کی نقول
تیار کرواکے مختلف علاقوں میں روانہ فرمائیں۔(بخاری ،3/399،حدیث:
4987)صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کے بعد تابعین، تبع تابعین اور ہردور کے بزرگانِ دِین رضوان اللہ علیہم اَجْمعین نے خدمتِ قراٰنِ پاک کو اپنا
معمول بنایا اور قراٰنِ کریم کے ترجمہ، تفسیر، احکامِ قراٰن کی وضاحت، علومِ قراٰن
کی تفصیل، قراٰنِ پاک پر ہونے والے اِعتراضات کے جوابات، الغرض کثیر قراٰنی موضوعات
پر بے شمار کتابیں تصنیف فرمائیں۔
میٹھے
میٹھے اسلامی بھائیو!بزرگانِ دِین کی قراٰنِ پاک سے لاجواب محبت اور خدمتِ قراٰن کے جذبے کے
برعکس آج کا مسلمان قراٰنِ پاک سے دُور ہوتا چلا جارہا ہے۔ اس عظیم کتاب کی تلاوت،
ترجمہ و تفسیر کا مطالَعہ اور احکامِ قراٰن پر عمل کا جذبہ دن بدن کم ہوتا جارہا
ہے۔ بدقسمتی سے اب ایسا لگتا ہے کہ قراٰنِ مجید صرف لڑائی جھگڑے کے موقع پر قسم اُٹھانے
اور شادی کے موقع پر حصولِ برکت کے لئے دُلہن کے سر پر رکھنے کے لئے رہ گیا ہے۔ ان پُرفِتن حالات میں قراٰنِ پاک سے مسلمانوں کا رشتہ
مضبوط کرنے اور فیضانِ قراٰن کو عام کرنے کے لئے عاشقانِ رسول کی مدنی تحریک دعوتِ
اسلامی مختلف انداز سے کوشاں ہے۔ دعوتِ اسلامی کس کس طرح خدمتِ قراٰن کررہی ہے
اس کی چند جھلکیاں ملاحظہ کیجئے:تدریس(Teaching)کے ذریعے خدمتِ قراٰن ❀دعوتِ اسلامی
کے تحت ملک و بیرونِ ملک اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کو بِلا مُعاوضہ تَجوِید
و مَخارِج کے ساتھ دُرُست تلاوتِ قراٰن سکھانے کے لئے مدرسۃ المدینہ بالِغان اور
مدرسۃ المدینہ بالِغات جبکہ مدنی مُنّوں اور مدنی مُنّیوں کو حفظ و ناظرہ کی تعلیم
دینے کے لئے مدرسۃ ُالمدینہ لِلْبَنِین اور مدرسۃ ُالمدینہ لِلْبَنَات قائم ہیں
نیز جن مقامات پر قراٰن کریم پڑھانے والے
بآسانی دستیاب نہیں ہوتے وہاں کے لئے مدرسۃ المدینہ آن لائن کا بھی سلسلہ ہے۔ متعدّد
مدارسُ المدینہ میں مدنی مُنّوں کو قیام وطَعام کی سہولت بھی دستیاب ہے۔ غیر
رہائشی مدارسُ المدینہ میں 8 گھنٹے کا
دورانیہ ہوتا ہے جبکہ ایک اور دو گھنٹے کے جُزْ وقتی(Part Time) مدارسُ
المدینہ بھی اپنی مدنی بہاریں لُٹا رہے ہیں۔(اَلْحَمْدُلِلّٰہِ
عَزَّوَجَلَّ! اس وقت ملک و بیرونِ ملک کم و بیش 2734 مدارس المدینہ قائم ہیں،جن میں تقریباً 128737(ایک لاکھ اٹھائیس ہزارسات سو سینتیس)مدنی مُنّے اورمدنی
مُنّیاں زیرِ تعلیم ہیں جبکہ اساتذہ سمیت کل مدنی عملے (اسٹاف) کی تعدادتقریباً 7268ہے۔ 2017ء میں تقریباً 5229 (پانچ
ہزاردوسواُنتِیس) مدنی منّوں اور
مدنی منّیوں نے حفظِ قراٰن اور تقریباً 20580 (بیس ہزارپانچ سو اسّی) نے ناظرہ
قراٰنِ کریم پڑھنے کی سعادت حاصل کی،اب تک کم و بیش74329(چوہتّرہزارتین سو اُنتِیس)مدنی مُنّے اورمدنی مُنّیاں حفظِ
قراٰن جبکہ تقریباً 215882(دولاکھ
پندرہ ہزارآٹھ سو بیاسی) ناظرہ قراٰنِ پاک پڑھنے کی سعادت پاچکے ہیں۔ مدرسۃ المدینہ
آن لائن
میں دُنیا بھر سے تقریباً7ہزار طلبہ و طالبات پڑھ رہے ہیں۔ ان کو پڑھانے والوں کی تعدادتقریباً633جبکہ
مدنی عملے(ناظمین،مُفتشین وغیرہ)کی تعدادتقریباً140ہے
۔ ملک و بیرونِ ملک تقریباً 13853مدرسۃ
المدینہ بالغان اور ان میں پڑھنے والے تقریباً89043جبکہ مدرسۃ المدینہ بالغات میں پڑھنے
والیوں کی تعدادتقریباً63 ہزار سے زائد ہے۔) ❀اسی طرح اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّدعوتِ اسلامی
کے تحت قائم جامعاتُ المدینہ کے نصاب میں
بھی قراٰنِ پاک کی تعلیم شامل ہے، یہ نصاب اس انداز میں ترتیب دیا گیا ہے کہ درجہ مُتَوَسِّطَہ
اوّل سے درجہ خامِسہ تک مدنی قاعدہ اورپورا قراٰنِ پاک ترجمہ و تفسیر کے ساتھ پڑھا
دیا جاتاہے، جبکہ درجہ سابِعہ میں تجوید اور پارہ26تا30حَدرکی دُہرائی اور درجہ دورۂ حدیث میں حُسنِ قراءت
کے حوالے سے تربیت کی جاتی ہے۔(اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ملک
و بیرونِ ملک جامعۃ المدینہ کی 526شاخیں قائم ہیں جن میں 42770(بیالیس
ہزار سات سو ستر)سے
زائدطلبہ وطالبات درسِ نظامی (عالم کورس ) کی تعلیم حاصل
کررہے ہیں اور 6871 طلبہ
وطالبات درسِ نظامی مکمل کرچکے ہیں۔)طباعت کے
ذریعے خدمتِ قراٰن (1)اشاعتِ قراٰنِ پاک:دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے ”مکتبۃ
المدینہ“سے قراٰنِ پاک کے مختلف لائنوں اور سائزوں پر مشتمل متعدد نسخے شائع کئے
گئے ہیں جبکہ معیار میں مزید بہتری لانے کیلئے مشہور اِشاعتی مرکزبیروت(لُبْنان)سے بھی قراٰنِ پاک کی اشاعت کا اِہتمام کیا گیا ہے۔ (اب تک تقریباً 2لاکھ89ہزار 769 نسخے شائع کئے جا چکے ہیں۔) (2)مدنی قاعدہ:تجوید و قرأت کے بنیادی قواعد کو آسان انداز میں سکھانے
کے لئے ”مدنی قاعدہ“ مرتّب کیا گیا ہے۔ (اب تک دومختلف سائز میں مدنی قاعدے کے تقریباً 57لاکھ 94ہزار436 نسخے شائع ہوچکے ہیں) (3)کنزالایمان
مع خزائن العرفان: اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کا شاہکار ترجمۂ قراٰن ”کنز الایمان“ اور اس پر صدرُالافاضل مفتی
نعیم الدین مُراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ
الہادِی کا تفسیری حاشیہ ”خزائن العرفان“ کسی تعارُف کا محتاج نہیں ہے۔ مکتبۃ
المدینہ نے اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَہ کے تعاون سے کنزالایمان مع خزائن العرفان کا اَغلاط سے حتی المقدور
پاک، تسہیل شدہ اور معیاری نسخہ شائع کیا ہے۔(اب تک اس کے 87 ہزار 107نسخے شائع ہو چکے ہیں) (4)مَعْرِفَۃُ
القراٰن عَلٰی کَنْزِالْعِرْفَان:
یہ 6جلدوں پر مشتمل قراٰنِ پاک کا جدیدانداز میں
”لفظی ترجمہ“ ہے جو حُسنِ صُوری و معنوی کا مجموعہ ہے، مختلف رنگوں کے
استعمال کی وجہ سے ہر لفظ کا ترجمہ الگ معلوم کیا جاسکتا ہے، جبکہ بامحاورہ ترجمہ ”کنز
العرفان“ بھی شامل ہے(جو الگ سے بھی
شائع ہوگا) آیات کے عنوانات اور ضَروری حاشیے بھی دئیے گئے ہیں۔ (تادمِ
تحریر 5جلدوں کے مجموعی طور پر تقریباً ایک لاکھ دو ہزار 119 نسخے شائع ہوچکے ہیں) (5)صِراطُ
الْجِنَان:موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق اُردو زبان میں 10جلدوں پرمشتمل تفسیر”صِراطُ الْجِنَان“اُمّتِ مُسلمہ
کے لئے ایک عظیم تحفہ ہے جس کو پڑھنے سے محبتِ قراٰن، ذوقِ تلاوت اور شوقِ عبادت
بڑھتا اور دِینی معلومات کا خزانہ ہاتھ آتا ہے، یہ اردوزبان کی بہترین تفسیرہے۔(اب تک مجموعی طور پر اس کے 1 لاکھ 84ہزار567نسخے شائع ہو چکے ہیں) (6)جلالین مع حاشیہ اَنوارُالْحَرَمَیْن:تفسیرِ جلالین امام جلال الدّین محلی اور امام جلالُ الدِّین سیوطی شافعیرحمۃ اللہ تعالٰی علیھما کی مشترکہ
تصنیف ہے جو کہ درسِ نظامی (عالِم کورس) میں پڑھائی جاتی
ہے۔ اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَہ کا شعبہ درسی کتب اس عظیم تفسیر پر حاشیہ ”اَنوارُ الْحَرَمَیْن“ کے نام سے کام کررہا ہے۔ (مکتبۃ المدینہ اب تک 6جلدوں میں سے 2 جلدوں کے تقریباً 7167نسخے
شائع کرچکا ہے، مزید پر کام جاری ہے۔) (7)بیضاوی
مع حاشیہ مقصود الناوی: ”تفسیرِ بیضاوی“ علامہ ناصرُ الدین عبداللہ بن عمربَیْضَاویعلیہ رحمۃ اللہ
القَوی کی مشہور تفسیر کا جتنا حصّہ درسِ نظامی میں شاملِ نصاب
ہے، اس پر اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَہ کی طرف سے ”مقصودُ النّاوِی“ کے نام سے حاشیہ مُرَتَّب کیا گیا ہے(اب تک اس کے تقریباً 5000نسخے شائع ہوچکے ہیں) (8)تفسیر سُورۂ نور: اسلامی بہنوں کےجامعاتُ المدینہ میں درسِ نظامی کے
علاوہ ”فیضانِ شریعت کورس“ بھی کروایا جاتا ہے۔ اس کی نصابی ضرورت کو پورا
کرنے کے لئے ”تفسیر سورۂ نور“ نامی کتاب تیار کی گئی ہے جسے 18اَسباق میں تقسیم کیا گیا ہے۔(تادمِ تحریر یہ کتاب 5ہزار کی تعداد میں چھپ چکی ہے) (9)فیضانِ یٰسۤ شریف مع دعائے نصف
شعبانُ المعظّم:شعبان
المعظم کی پندرھویں (15) رات یعنی شبِ برأت میں بعد نمازِ
مغرب 6 نوافل کا سلسلہ ہوتا ہے جن کے درمیان سورۂ یٰسٓ شریف اور دُعائے نصف
شعبان پڑھی جاتی ہے۔ (اب تک اس کے تقریباً 2لاکھ 25ہزار نسخے شائع ہو چکے ہیں) (10)مدنی پنج سُورہ:یہ شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا
محمد الیاس عطّاؔر قادری دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تالیف ہے
جس میں مشہور قراٰنی سورتوں کے فضائل اور ان کا مَتن و ترجمہ، درود شریف کے فضائل،
مختلف وظائف اور رُوحانی علاج وغیرہ شاملِ تحریر ہیں۔(اب تک تقریباً13 لاکھ 85 ہزار نسخے شائع ہوچکے ہیں) (11)آیاتِ قراٰنی کے اَنوار: دعوتِ اسلامی کی طرف سے بالخصوص تعلیمی اداروں کے طلبہ
و اساتذہ اور دیگر عملے نیز اسلامی بہنوں کے لئے ”فیضانِ قراٰن و حدیث کورس“ کا
سلسلہ شروع کیاگیا ہے ۔’’ آیاتِ قراٰنی کے انوار“ نامی رسالہ اسی کورس کے
لئے ترتیب دیا گیا ہے۔(اب تک
تقریباً 37 ہزار 6سو کی تعداد میں چھپ چکا ہے) (12)عجائب
القرآن مع غرائب القرآن: یہ کتاب شیخ
الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی تالیف ہے جس میں قراٰنی واقعات کو دلچسپ انداز میں
بیان کیا گیا ہے، مکتبۃ المدینہ نے اس کا تخریج شدہ نسخہ شائع کیا ہے(اب تک اس کے تقریباً1 لاکھ نسخے شائع ہوچکے ہیں)
(13)فیضانِ تجوید:علمِ تجوید کے اُصول و قوانین کو آسان انداز میں پیش
کرنے کے لئے اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَہ کی طرف سے ”فیضانِ تجوید“ کے نام سے کتاب مُرَتَّب کی گئی ہے۔ (اب تک اس کے تقریباً 44ہزار850 نسخے شائع ہوچکے
ہیں) (14)آئیے قراٰن سمجھتے ہیں: اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے لئے یہ
ایک نصابی کتاب ہے جو اِنْ شَآءَ اللہ
عَزَّوَجَلَّ عنقریب منظرِ عام پر آجائے گی۔(نوٹ: مذکورہ بالا کتابوں کی اشاعت کے
حوالے سے یہاں جو تعداد ذ کر کی گئی وہ
ہارڈ کاپی کی صورت (کتابی شکل) میں ہے، سافٹ کاپی (PDFوغیرہ) کی صورت
میں بھی یہ کتابیں دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.net پر
موجود ہیں جنہیں مفت ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا
ہے۔) بیانات کے
ذریعے خدمتِ قراٰن خدمتِ قراٰنِ پاک کے لئے بیانات کے میدان میں بھی دعوتِ
اسلامی کی کثیر کاوشیں ہیں، مدنی چینل پر فیضانِ قراٰن کو عام کرنے والے کئی سلسلے
پیش کئے، بعض اب بھی جاری ہیں مثلاً: (1)فیضانِ قراٰن (2)تفسیرِ قراٰن (3)قراٰن کی
روشنی میں (4)قراٰنی سورتوں کا تعارف (5)احکامِ قراٰن (6)شانِ نزول (7)صِرَاطُ الْجِنَان (8)قراٰنی واقعات (9)میرے ربّ
کا کلام (10)فیضانِ کنزالایمان (11)کتابُ اللہ کی باتیں (12)قراٰنی
قصّے (13)قراٰنی مثالیں اور اسباق (14)فیضانِ علم القراٰن (15)ایک قصّہ ہےقراٰن سے، (17)Blessing of Quran (16)Wonder of
Quran(18)Summary of
Tafseer ul Quran (19)In the light of Quran (20)Learn Quran (21)The Excellence of the Holy
Quran عملی میدان میں
خدمتِ قراٰن عملی میدان میں
بھی دعوتِ اسلامی مسلمانوں میں قراٰنِ پاک کی محبت اور اس کے احکام پر عمل کا جذبہ
بیدار کرنے میں مصروف ہے۔ نمازِ فجر کے بعد مدنی حلقے میں اجتماعی طور پر3 آیاتِ قراٰنی
کی تلاوت اور ترجمہ و تفسیر پڑھنے سننے کا سلسلہ ہوتا ہے نیز مدنی انعامات میں روزانہ رات سورۂ ملک کی
تلاوت کرنے، آخری 10 سورتیں زبانی یاد کرکے مہینے میں ایک بار پڑھنے اور مخارج کی
درست ادائیگی کے ساتھ کم از کم ایک بار قراٰنِ پاک ختم کرکے سال میں دُہرانے کی
ترغیب دلائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ پانچ پانچ ماہ کے ”اِمامت کورس“اور ”مُدَ رِّس
کورس“میں جبکہ 7 ماہ کے”قاعدہ ناظِرہ
کورس “میں اور12 ماہ کے ”فیضان ِ تجوید وقِراءَت کورس“ میں دیگر مسائل و اَحکامات کے ساتھ ساتھ مَدَنی قاعدہ اور مکمل
قراٰن پاک حَدرکے ساتھ پڑھایا جاتا ہےنیز”مُدَرِّس کورس “میں مخصوص سورتیں
اور عَمَّ پارہ(پارہ 30)
ترتیل کے ساتھ پڑھناسکھایا جاتا ہے ۔اللہ کریم دعوتِ
اسلامی کی خدماتِ قراٰن قبول فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
یہی ہے آزو
تعلیم ِ قراٰں عام ہو جائے ہر اِک پرچم سے اونچا پرچمِ اسلام ہو
جائے
ہر دور میں اللہ پاک کے نیک بندوں نے وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر دینِ اسلام کے لئے اپنی خدمات انجام دیں چونکہ ان حضرات کی دینی خدمات کا دائرہ کار بڑھتے بڑھتے دنیا کے کئی خطّوں میں پھیلا اور خوش گوار اور مثبت معاشرتی تبدیلیوں کا سبب بنا اس لئے دنیا نے بھی ان حضرات کی بے مثال دینی خدمات کو ”انقلابی کارنامے“ کے عنوان سے یاد رکھا۔
پندرہویں صدی ہجری کی
عظیم علمی و روحانی شخصیت شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی
حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر
قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ان
ہستیوں میں سے ایک ہیں جنہیں اللہ کریم نے کئی کمالات عطا کئے
جن میں سے اِصلاحِ امت کے جذبے سے سَرشار دل، چٹانوں
سے زیادہ مضبوط حوصلہ، معاملہ فہمی کی
حیرت انگیز صلاحیت، نیکی کی دعوت میں
پیش آنے والے مسائل کو حل کرنے اور مشکلات کا سامنا کرنے کی ہمّت سرِ فہرست
ہیں۔
امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ
الْعَالِیَہ نے کثرتِ
مطالعہ اور اَکابر علَمائے کرام کی صحبت کی بدولت شَرْعی احکام پر حیرت
انگیز دسترس حاصل کی، یوں آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی شخصیّت اِردگِرد کو منوّر کرنے والا ہیرا بَن گئی۔ جوانی
کے زمانے میں آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے ایک عرصے تک نور مسجد میٹھادر میں
اِمامت کے فرائض سَرانجام دئیے۔ معاشرے میں بے عملی کو طوفان کی صورت اِخْتِیار
کرتا ہوا دیکھ کر آپ نے بے عملی کے آسیب سے چھٹکارا دلانے کے لئے عملاً کوششیں
فرمائیں۔ مسجد میں آنے والے نَمازیوں کی مدنی تربیَت اور مساجد سے دور مسلمانوں
کا ناطہ مسجد سے جوڑنے کے لئے پُراثر
نصیحت اور خیر خواہی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے خوشی غمی میں شرکت نے آپ
دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کو ہر دل عزیز بنا دیا۔ مقصد بڑا اور
لگن سچی ہو تو منزل تک پہنچنے کے اسباب خود ہی پیدا ہوجاتے ہیں، چونکہ آپ پر امت کی
اِصلاح کی دُھن سوار تھی، آپ کی لگن سچی اور مقصد نیک تھا اسی لئے آپ کی پُراثر
دعوت کو بےپناہ مقبولیت ملی۔
آپ دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے دعوتِ اسلامی بنانے سے لے کر
عالمگیر سطح پر پھیلانے کے سلسلے میں جو اَن گنت دینی خدمات انجام دیں وہ تمام کی
تمام ان دو پہلوؤں کے اِرد گِرد گھومتی ہیں:
انفرادی اصلاح آپ نے انسان کی شخصیت کو درست سمت کی جانب گامزن کرنے کے
لئے عملی جد و جہد فرمائی، جھوٹ، غیبت، چغلی اور فحش گوئی جیسے کئی ظاہری و باطنی امراض
سے نجات دلانے کا بیڑا اٹھایا، ذاتی اِحتساب (Self-Accountability) کے لئے اپنے گزشتہ اعمال
پر غور کرنے کا ذہن دیا اور اس کے لئے مدنی
انعامات“ کا مضبوط نظام متعارف (Introduce) کروایا۔ آپ دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی صحبت دراصل ”کردار سازی کا وہ کارخانہ ہے کہ جہاں انسان کے ظاہر و باطن
کے زنگ کو دور کرکے محبتِ الٰہی اور عشق مصطفےٰ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رنگ سے مزین کیا جاتا
ہے، اخلاق و کردار کی خوشبو اس میں رچائی جاتی ہے، حسنِ اعمال کے نگینوں سے آراستہ
کرکے اُسے معاشرے کے لئے پُرکشش بنایا جاتا ہے اور دینِ اسلام کا ایسا درد اور سوز
اس کے دل و دماغ میں بسایا جاتا ہے جو اسے ایک باکردار انسان، دینِ اسلام کا متحرک
مبلغ اور معاشرے کا خیرخواہ بننے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ آپ کی اس جدو جہد کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ
امیرِ اہلِ سُنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی ذاتِ گرامی عصرِ حاضر میں شخصی تعمیر (Self-Development)
کا مُسْتَنَد
اور مؤثر ذریعہ ہے۔ اِنفرادی اصلاح کے اس خوب صورت نظام سے فیض یاب ہونے والوں میں
دولتِ اسلام سے سرفراز ہونے والے لاتعداد نَومسلم بھی شامل ہیں۔
اجتماعی اصلاح یقیناً فرد
کی اصلاح سے معاشرے کی اِصلاح ہوتی ہے مگرفرد کے اخلاق و کردار میں نیکی کاعُنصر
بر قرار اور دیرپا رکھنےلئے سازگار معاشرتی ماحول درکار ہوتا ہے۔ اسی لئے امیرِ
اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے معاشرتی اصلاح کی جانب خصوصی توجہ
فرمائی۔ آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے نیکی کی دعوت عام کرنے اور معاشرے
کی اِصلاح کے لئے خود مدنی قافلوں میں سفر کرکے اس کی اہمیت اور ضَرورت کو اجاگر
کیا اور اس کارِ خیر کو خوش اسلوبی سے انجام دینے کے لئے ایسے تربیَت یافتہ مبلغین
فراہم کئے جو غیر مسلموں کو ایمان کی دعوت دینے، فاسِقوں کو متقی بنانے، غافِلوں کو
خوابِ غفلت سے جگانے، جہالت کے اندھیرے کا خاتمہ کرکے عِلم و
مَعرِفَت کا نور پھیلانے میں مصروف ہیں اور مسلمانوں کو یہ مدنی مقصد اپنانے کی
ترغیب دلا رہے ہیں کہ ”مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی
کوشش کرنی ہے۔“ یوں پاکستان سے اٹھنے والی عاشقانِ رسول کی مَدَنی تحریک دعوتِ
اسلامی دنیا کے کثیر ممالک میں اپنی بہاریں لُٹا رہی ہے۔
آپ دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے دعوتِ اسلامی کے انتظامی معاملات کو
اپنی ذات تک محدود نہ رکھا بلکہ مبلغین دعوتِ اسلامی میں سے چن چن کر ہیرے جمع کئے
اور اسے مجلسِ شوریٰ کی لَڑی میں پرویا اور دعوتِ اسلامی کا نظام مرکزی مجلسِ
شوریٰ کے حوالے کردیا۔ معاشرے کو جس جس میدان میں اِصلاح کی ضرورت پیش آتی گئی دعوتِ
اسلامی نے اس کیلئے شعبے قائم فرمائے اس سلسلے میں:
❀اشاعتِ علم
کے لئے جامعاتُ المدینہ اور دارُالمدینہ جیسی عصرِ حاضر سے ہم آہنگ درس گاہیں، ❀حفظِ قراٰن
میں مصروف مدرسۃ المدینہ، ❀المدینۃ
العلمیہ جیسا علمی و تحقیقی شعبہ، ❀مکتبۃ
المدینہ جیسا اہلِ سنّت کا اشاعتی ادارہ، ❀معاشرے کے مختلف
طبقوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے دلچسپ اور معلوماتی مضامین پر مشتمل ماہنامہ
فیضانِ مدینہ کا اجراء اور ❀لوگوں کے روز مرہ پیش آنے والے مسائل
کے بروقت شرعی حل کے لئے دارالافتا اہلِ سنّت کا قیام سرفہرست ہے۔ جبکہ عالَمِ
اسلام کا 100فیصد اسلامی چینل ”مدنی چینل“ تو ایک نئی تاریخ رقم کررہا ہے۔ معاشرے میں
دینِ متین کی ترویج و اشاعت ((Propagation and Publicationکیلئے امیرِ
اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی خدمات کا دائرہ کار 104سے زائد
شعبہ جات پر مشتمل ہے۔ دعوتِ اسلامی جیسی فعال غیر سیاسی تحریک انقلابی کارناموں
کی ایک ناقابلِ فراموش تاریخ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ آپ دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی دینی خدمات سورج کی طرح روشن ہیں
جن کا اعتراف آج دنیا بھر میں کیا جارہا ہے۔ 26رمضان المبارک اس انقلابی شخصیت کا
یومِ ولادت ہے جسے مختلف ممالک کے عاشقانِ رسول اسلام کی روشن تعلیمات کو عملی طور
پراپنانے کے عزم اور شیطان کے خلاف اعلانِ جنگ کرکے مناتے ہیں۔
اےخُدا میرے عطار کوشادرکھ
ان کے سارے گھرانے کو آباد
رکھ
تحریر: مولانا سید کریم الدین عطاری مدنی
اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ، دعوتِ اسلامی
حضرتِ
سیِّدُناامام زَین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہماکی وِلادت 38
میں مدینۃ المنورہ میں ہوئی ۔آپ کے والدِ بزرگوار حضرتِ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے والدِ ماجد حضرتِ سیِّدُنا علی رضی
اللہ عنہ سے اظہارِ عقیدت کے لئے اپنے بچوں کے نام علی رکھتے تھے۔ اسی مناسبت سے
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا نام بھی علی ہے اور
کنیت ابومحمد، ابوالحسن ، ابوالقاسم اور ابوبکر ہے،جبکہ کثرتِ عبادت کے سبب آپ کا
لقب سجاد ،زین العابدین، سیدالعابدین اور امین ہے ۔آپ کی والدہ ماجدہ حضرتِ سیِّدَتُناشہر
بانورضی اللہ عنہا فارس کے آخری بادشاہ
یزدجرد کی بیٹی تھیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے 2سال تک اپنے
دادا حضور حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی آغوشِ
عاطفت میں پرورش پائی، پھر 10سال اپنے تایا جان حضرتِ سیِّدُناامام حسن رضی اللہ عنہ کے زیرِ سایہ رہے اور تقریباً 11سال اپنے والد ماجد حضرتِ
سیِّدُنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی زیرِ نگرانی تربیت
پاکر علوم معرفت کی منازل طے کیں ۔
چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا
آپ رضی اللہ عنہ اپنے اکابرین رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ
زندگیوں کی چلتی پھرتی تصویر تھے اور خوفِ خدا میں یگانہ روزگار تھے ۔آپ رضی اللہ عنہ جب وضو کرتے تو خوف کے مارے آپ کے چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا۔
گھر والے دریافت کرتے ، ''یہ وضو کے وقت آپ کو کیا ہوجاتا ہے؟'' تو فرماتے :
''تمہیں معلوم ہے کہ میں کس کے سامنے کھڑے ہونے کا ارادہ کر رہا ہوں؟'' (احیاء العلوم ، کتاب الخوف والرجاء ج ۴، ص ۲۲۶)
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی
علٰی محمَّد
بے ہوش ہو گئے
ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے حج کا احرام باندھا تو تلبیہ (یعنی لبیک) نہیں پڑھی ۔
لوگوں نے عرض کی ،''حضور! آپ لبیک کیوں نہیں پڑھتے ؟'' آبدیدہ ہو کر ارشاد
فرمایا،''مجھے ڈر لگتا ہے کہ میں لبیک کہوں اوراللہ
عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ''لاَ لَبَّیْکْ''کی آواز نہ آجائے ، یعنی میں تو
یہ کہوں کہ'' اے میرے مالک ! میں بار بار تیرے دربار میں حاضر ہوں ۔'' اور ادھر سے
یہ آواز نہ آجائے کہ'' نہیں نہیں ! تیری حاضری قبول نہیں ۔''لوگوں نے کہا ،
''حضور! پھر لبیک کہے بغیر آپ کا احرام کیسے ہوگا؟'' یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے لَبَّیْکْ
اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ لَبَّیْکَ لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکْ اِنَّ الْحَمْدَ
وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْک لاَشَرِیْکَ لَکْ پڑھا لیکن ایک دم خوفِ خدا
عَزَّوَجَلَّ سے لرز کر اونٹ کی پشت سے زمین پر گر پڑے اور بے ہوش ہو گئے ۔ جب ہوش
میں آتے تو ''لبیک'' پڑھتے اور پھر بے ہوش ہوجاتے ، اسی حالت میں آپ رضی اللہ عنہ نے حج ادا فرمایا۔(اولیائے رجال الحدیث ص۱۶۴ )
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی
علٰی محمَّد
میدانِ کربلا کی طرف جانے والے حسینی
قافلے کے شرکاء میں آپ رضی اللہ عنہ
بھی شامل تھے
میدانِ کربلا
کی طرف جانے والے حسینی قافلے کے شرکاء میں آپ رضی
اللہ عنہ بھی شامل تھے مگر جب ۱۰ محرم الحرام کوبزمِ
شہادت سجی تو آپ شدید بیمار تھے ۔ چُنانچہ آپ رضی
اللہ عنہ حسینی قافلے کے واحد مرد تھے جو اس معرکہ حق وباطل کے بعد زندہ بچے تھے ۔
58برس کی عمر میں ولید بن عبدالملک نے آپ کو زہر دیا جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ محرم الحرام ۹۴ھ میں شہادت کے منصب
پر فائز ہوکر مدینہ شریف میں جنت البقیع میں آرام فرما ہوئے ۔
اللہ عَزّوَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری
مغفِرت ہو
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی
علٰی محمَّد
اونٹنی سُدھر گئی
ایک مرتبہ
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی اونٹنی نے شوخی
کرنا شروع کر دی۔ آپ نے اسے بٹھایا اور کوڑا دکھایا اور فرمایا : سیدھی
ہو کر چلو ورنہ یہ دیکھ لو ! چنانچہ اس کے بعد اس نے شوخی چھوڑ دی۔ (جامع کرامات
اولیاء ،ج۲،ص۳۱۱)
اللہ عَزّوَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری
مغفِرت ہو
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی
علٰی محمَّد
اسم اعظم
حضرت امام زین
العابدین رضی اللہ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ
اسمِ اعظم '' اَللہُ اَللہُ اَللہُ الَّذِيْ لَا إِلٰہَ
إِلَّا ھُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ '' ہے۔ (''فتح الباري''، باب للہ مائۃ
اسم غیر واحدۃ، ج۱۱، ص۱۸۹، (بحوالہ ابن ابی الدنیا).
حدیث پر عمل کا جذبہ اور سخاوت امام
زین العایدین
صحیحین میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حضوراقدس صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو
شخص مسلمان غلام کو آزاد کریگا اسکے ہر عضو کے بدلے میں اﷲتعالیٰ اس کے ہر عضو کو
جہنم سے آزاد فرمائے گا۔'' سعید بن مرجانہ کہتے ہیں میں نے یہ حدیث علی بن حسین
(امام زین العابدین) رضی اﷲتعالیٰ عنہما کو سنائی
اونھوں نے اپنا ایک ایسا غلام آزاد کیا جس کی قیمت عبداﷲ بن جعفر دس ۱۰ ہزار دیتے تھے۔ (صحیح البخاري''،کتاب العتق،باب فی العتق وفضلہ، الحدیث : ۲۵۱۷،ج۲،ص۱۵۰.)
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کے پاس نبی کریم ﷺ کی تلوار
حضور اقدس صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس تلوار ''ذوالفقار'' حضرت زین العابدین رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کے پاس تھی۔ جب حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد وہ مدینہ
منورہ واپس آئے تو حضرت مسور بن مخرمہ صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا مجھے
یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ بنو امیہ آپ سے اس تلوار کو چھین لیں گے۔ اس لئے آپ
مجھے وہ تلوار دے دیجئے جب تک میرے جسم میں جان ہے کوئی اِس کو مجھ سے نہیں چھین
سکتا۔ (بخاری جلد۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من درع النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی کرامت
حجاج ابن یوسف
کے وقت میں جب دوبارہ حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہ اسیر کئے گئے
اور لوہے کی بھاری قید و بند کا بارِگراں ان کے تنِ نازنین پر ڈالا گیا اور پہرہ
دارمتعین کردئیے گئے، زہری علیہ الرحمہ اس حالت کو دیکھ کر روپڑے اور کہا کہ مجھے
تمنا تھی کہ میں آپ کی جگہ ہوتا کہ آپ پر یہ بارِمصائب دل پرگوارا نہیں ہے۔اس پر
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیاتجھے یہ گمان ہے کہ اس قیدو بند ش سے مجھے
کرب و بے چینی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر میں چاہوں تو اس میں سے کچھ بھی نہ رہے مگر
اس میں اجر ہے اور تَذَکُّرہے اور عذابِ الٰہی عزوجل کی یادہے۔ یہ فرماکر بیڑیوں
میں سے پاؤں اور ہتھکڑیوں میں سے ہاتھ نکال دئیے۔
یہ اختیارات
ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے کرامۃً انھیں عطا فرمائے گئے اور وہ صبر و
رضا ہے کہ اپنے وجود اور آسایشِ وجود ، گھر بار،مال و متاع سب سے رضائے الٰہی
عزوجل کیلئے ہاتھ اٹھالیتے ہیں اور اس میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے۔ اللہ تعا
لیٰ ان کے ظاہری و باطنی برکات سے مسلمانوں کو متمتع اور فیض یاب فرمائے اور ان کی
اخلاص مندانہ قربانیوں کی برکت سے اسلام کو ہمیشہ مظفرو منصور رکھے۔آمین۔وَصَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلیٰ خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ
وَعِتْرَتِہٖ اَجْمَعِیْنَ۔(المنتظم، سنۃ اربع وتسعین، ۵۳۰۔علی بن الحسین...الخ، ج۶، ص۳۳۰)
شجرے قادریہ عطاریہ شریف کا ایک شعر
سَیِّدِسجاد
کے صدقے میں ساجد رکھ مجھے (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ )
عِلْمِ حَقْ
دے باقِر علمِ ہُد یٰ کے واسِطے (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ )
مشکل الفاظ کے
معانی:سجاد:کثرت سے سجدے کرنے والا ساجد:سجدہ کرنے والا
ہدی:ہدایت
باقرِ علمِ ہُدٰی:علمِ ہدایت کے ماہِر عالم
دُعائیہ شعر کا مفہوم:
یا اللہ
عَزَّوَجَلَّ! تجھے سَیِّدِسجاد یعنی
حضرتِ سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رضی
اللہ عنہما کا واسطہ مجھے سجدہ
کرنے والا یعنی نَمازی بنااورباقرِ علمِ ہُدٰی یعنی امام حسین رضی اللہ عنہ کے پوتے امام باقر رضی اللہ عنہ کے وسیلہ
سےعِلْم ِدین کی دولت سے مالا مال فرما ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ
علیہ واٰلہ وسلم
''سجاد '' اور
''ساجد''میں معنوی مناسبت یہ ہے کہ دونوں میں ''س، ج اورد ''کا معنی ایک ہے یعنی
سجدہ کرنے والا۔ جبکہ'' عَلَمِ ہُدٰی ''اور'' عِلْمِ حق ''میں لفظی مناسبت پائی
جارہی ہے کہ دونوں میں ایک ہی طرح کے حُرُوف ''ع، ل اور م'' کا استعمال ہوا ہے۔
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی
علٰی محمَّد
اس شعر میں
سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ عطّاریہ کے
چوتھے اورپانچویں شیخِ طریقت یعنی حضرتِ سیدنا امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہما اوراِن کے
فرزندِ ارجمندامام محمد باقر رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے
دُعا کی گئی ہے۔ (شرح شجرہ شریف مکتبہ المدینہ)
انسان نُما کُتّوں کا سالن
حضرتِ
سیِّدُنا امام زین العابِدین علیہ رَحمَۃُ اللہِ المبین نے کسی شخص کو غیبت کرتے
ہوئے سنا تو فرمایا: غیبت سے بچو، کیونکہ یہ انسان نُما کُتّوں کا سالن ہے۔(ذَمُّ
الْغِیبَۃلِابْنِ اَبِی الدُّنْیا ص۱۸۱رقم۱۶۱)
كُتّوں سے تشبیہ دینے كی وجہ
میٹھے میٹھے
اسلامی بھائیو!مظلوم کربلاحضرتِ سیِّدُنا امام زین العابدین علیہ رَحمَۃُ اللہِ
المبین نے غیبت کرنے والوں کوانسان نُما کتّوں کے ساتھ اس لئے تشبیہ دی ہے کہ
قراٰنِ مجید اور احادیثِ مبارَکہ میں غیبت کو مردار کا گوشت کھانے کی مثل بتایا
گیا ہے اور مردار کاگوشت چبانا اور کھانا کتّوں کا کام ہے لہٰذا غیبت کرنے والے
گویا کُتّوں کی مثل ہو کر آدمیوں کی اَقسام سے خارِج ہوئے کیونکہ اگر آدَمی ہوتے
تو ان میں آدمی کی صفت ہوتی اور انسان کی خصلت ان میں پائی جاتی ،کسی کی غیبت نہ
کرتے ،کسی کا گوشت کُتّوں کی طرح نہ چباتے۔
نبی کا صدقہ
سدا غیبتوں سے دور رکھنا کبھی
بھی چُغلی کروں میں نہ یا رب!
ترے حبیب اگر مسکراتے آ جائیں تو گورِتیرہ
میں ہو جائے چاند نا یا رب!
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی
اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
(غیبت کی
تباکاریاں ص 324 مکتبہ المدینہ)
(''لبیک''کیسے کہوں؟۔۔۔۔۔۔ )
حضرت
سَیِّدُنا امام علی بن حسین زین العابدین رضي اللہ تعالي عنہ علمِ حدیث میں اپنے والد ِ ماجد حضرت سَیِّدُنا
امام حسین ودیگر صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تعالٰی عَنہم کے وارث ہیں ۔ آپ بڑے خدا
ترس تھے اور آپ کا سینۂ مبارک خشیتِ الٰہی کا سفینہ تھا ۔ ایک مرتبہ آپ نے حج کا
احرام باندھا تو تلبیہ (یعنی لبیک)نہیں پڑھی ۔ لوگوں نے عرض کی ،''حضور! آپ لبیک
کیوں نہیں پڑھتے ؟'' آبدیدہ ہو کر ارشاد فرمایا،''مجھے ڈر لگتا ہے کہ میں لبیک
کہوں اور اللہ عزوجل کی طرف سے ''لاَ لَبَّیْکْ'' کی آواز نہ آجائے ، یعنی میں تو
یہ کہوں کہ'' اے میرے مالک ! میں بار بار تیرے دربار میں حاضر ہوں ۔'' اور ادھر سے
یہ آواز نہ آجائے کہ'' نہیں نہیں ! تیری حاضری قبول نہیں ۔''لوگوں نے کہا ،
''حضور! پھر لبیک کہے بغیر آپ کا احرام کیسے ہوگا؟'' یہ سن کر آپ نے بلند آواز سے لَبَّیْکْ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکْ لَبَّیْکَ لاَشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکْ
اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْک لاَشَرِیْکَ لَکْ پڑھا لیکن
ایک دم خوفِ خد ل سے لرز کر اونٹ کی پشت سے زمین پر گر پڑے اور بے ہوش ہو گئے ۔ جب
ہوش میں آتے تو ''لبیک'' پڑھتے اور پھر بے ہوش ہوجاتے ، اسی حالت میں آپ نے حج ادا
فرمایا۔(اولیائے رجال الحدیث ص۱۶۴ )
سیّدنا امام زین العابدین کا سفید
عمامہ
حضرت سیّدنامحمد بن
ہِلال رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں
:میں نے حضرت سیّدنا علی بن حسین (یعنی امام زین العابدین) کو سفید عمامہ شریف
باندھتے دیکھا، آپ رضی اللہ عنہ عمامہ کا
شملہ اپنی پیٹھ مبارک پر لٹکا تے تھے۔(تاریخ الاسلام، ۶/۴۳۲، تاریخ ابنِ عساکر، ۴۱/۳۶۵واللفظ لہ)
بعدِ وصال سخاوت کا پتا چلا
حضرت سیدنا امام
زین العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی زندگی میں دو مرتبہ اپنا سارا مال راہِ
خدا عَزَّوَجَلَّ میں خیرات کیا اور آپ کی سخاوت کا یہ عالم تھا کہ آپ بہت سے
غرباءاہلِ مدینہ کے گھروں میں ایسے پوشیدہ طریقوں سے رقم بھیجا کرتے تھے کہ
ان غرباء کو خبر ہی نہیں ہوتی تھی کہ یہ رقم کہاں سے آتی ہے؟مگر جب آپ کا
وصال ہو گیاتو ان غریبوں کو پتا چلاکہ یہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ تعالٰی
عنہ کی سخاوت تھی۔(سیر اعلام النبلاء،۵/۳۳۶)
گالی دینے والے کے ساتھ خیر خواہی
حضرتِ سَیِّدُنا
امام زین العابدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو کسی نے گالی دی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے اسے اپنا مبارک کُرتا اور ایک ہزار درھم
دینے کا حکم دیا۔ تو کسی نے کہا: آپ نے پانچ خصلتیں جمع کر لی ہیں :
(۱)بردباری(۲) تکلیف نہ دینا (۳) اس شخص کوایسی بات سے رہائی دینا جو اسے اللہ عزوجل سے دور کردیتی (۴) اسے توبہ وندامت کی طرف راغب کرنا (۵) برائی کے بعد
تعریف کی طرف رجوع کرنا۔ آپ نے معمولی دنیا کے ساتھ یہ تمام عظیم چیزیں خرید
لیں۔(احیاءالعلوم: ۳/۲۲۱)
حضرتِ سیِّدُنا زَیْنُ الْعابِدِیْن
عَلِی بن حُسَیْن عَلَیْہِمَاالرَّحْمَہ
حضرتِ سیِّدُناامام زین العابدین علی بن حسین بن علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُمْ تابعین مدینہ منورہ میں سے
ہیں۔ آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ عابدین کی
زینت، اطاعت گزاروں کے سردار، وفادار عبادت گزار
اور مہربان سخی تھے۔(اللہ والوں کی
باتیں۔۔۔جلد 3 /ص193)
دنیامیں پانچ حضرات بہت روئےہیں:
دنیامیں پانچ حضرات بہت روئےہیں:حضرتِ آدم عَلَیْہِ السَّلَامفراقِ
جنت میں،حضرتِ نوح عَلَیْہِ السَّلام و(حضرتِ)یحیی عَلَیْہِ السَّلام مخوفِ خدامیں،حضرتِ
فاطمہ زہرا(رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا)فراقِ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم میں،حضرتِ
امام زین العابدین (عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْن)واقعَۂ کربلاکےبعدحضرتِ حسین(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہ)کی پیاس یادکرکے۔ (مراٰۃ المناجیح،۸/ ۲۹۱)
پانچ قسم کے لوگوں کی صحبت سے بچو:
حضرتِ سیِّدُنامحمدبن علی
باقر عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الْغَافِرفرماتے ہیں:میرےوالدِماجدحضرتِ سیِّدُنااِمام زینُ
العابدین علی بن حسین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمَانے مجھے نصیحت کرتے ہوئے
فرمایا:’’پانچ قسم کے لوگوں کی نہ
تو صحبت اختیار کرنا، نہ ان سے گفتگو کرنا اورنہ ہی سفر میں ان کی رفاقت اختیار
کرنا۔‘‘میں نے عرض کی:میں آپ پر
قربان!وہ کون ہیں؟فرمایا: ’’فاسق
کی صحبت اختیار نہ کرنا کیونکہ وہ تجھے ایک یا ایک سے کم لقمہ کے بدلے میں بیچ دے
گا۔‘‘میں نے عرض کی:لقمے سے کم
کیامراد ہے؟فرمایا:’’لقمے
کا لالچ کرے گا لیکن اسے حاصل نہیں کر سکے گا۔‘‘میں نے عرض کی:دوسرا شخص؟ فرمایا:’’بخیل کی صحبت میں نہ
بیٹھنا کیونکہ وہ ایسے وقت میں تجھ سے مال روک لے گا جب تجھے اس کی سخت حاجت
وضرورت ہوگی۔‘‘میں نے عرض کی:تیسراکون
ہے؟ فرمایا:’’جھوٹے کی صحبت میں نہ
بیٹھنا کیونکہ وہ سَراب کی طرح ہے جو تجھ سے قریب کو دور اور دور کو قریب کر دےگا۔‘‘میں نے عرض کی:چوتھا
شخص؟فرمایا:’’اَحمق(بےوقوف) کی صحبت
اختیار کرنے سے بچنا کیونکہ وہ تجھےفائدہ پہنچانے کی کوشش میں نقصان پہنچادےگا۔‘‘میں نے عرض کی:پانچواں
شخص کون ہے؟فرمایا: ’’رشتہ
داروں سے قطع تعلُّق کرنے والے کی صحبت میں بیٹھنے سے بچنا کیونکہ میں نے
کتابُاللہ میں تین مقامات پراسے ملعون پایا ہے۔‘‘
حضرت سیِّدُناامام زینُ العابدین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے
ہیں:سخی وہ نہیں جو مانگنے والوں کو دیتا
ہے بلکہ سخی وہ ہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّکے فرمانبرداروں کے حقوق کی ادائیگی
میں پہل کرتا ہےاور اپنی تعریف کا
خواہشمند نہیں ہوتا بشرطیکہ بارگاہِ
خداوندی سے کامل ثواب کا یقین رکھے۔(احیا العلوم ج3 /739)
فاروقِ اعظم سیِّدُنا امام زین
العابدین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پھوپھا:
امیر
المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ حضرت
سیِّدُنا امام زین العابدین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پھوپھاہیں ، کیونکہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ
سیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بیٹے ہیں اور سیدتنا ام کلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہَا سیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بہن ہیں اور والدکی بہن پھوپھی ہوتی ہےاور پھوپھی کا
شوہر پھوپھا ہوتا ہے ، چونکہ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ
سیدتنا اُمّ کلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے شوہر ہیں لہٰذاوہ آپ کےپھوپھا ہوئے۔(طبقات کبری، بقیۃ
الطبقۃ الثانیۃ من التابعین، ج۵، ص۱۶۲۔)
علم مغازی (وہ علم جس میں غزوات کے بارے میں معلومات ہو)
حضرت سیِّدُنا
امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے صاحبزادے حضرت سیِّدُنا امام زین
العابدین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں :
’’كُنَّا نَعْلَمُ مَغَازِي النَّبِيِّ
صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا نُعَلِّمُ السُّوْرَةَ مِنَ الْقُرْآنِ
یعنی: ہم رسول
اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مغازی کا علم اس طرح
حاصل کرتے جس طرح قرآن مجید کی سورتیں سیکھا کرتے تھے۔(البدایۃ والنھایۃ، ج۲، ص۶۴۲، سبل الھدی
والرشاد، الباب الثانی، اختلاف الناس۔۔۔ الخ، ج۴، ص۱۰۔)
شان فاروقِ اعظم بزبان سیِّدُنا امام
زین العابدین
عہدِ رسالت میں شیخین کا مقام:
حضرت سیِّدُنا
ابو حازم رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ
ایک شخص حضرت سیِّدُنا علی بن حسین امام زین العابدین رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ’’مَا کَانَ مَنْزِلَۃُ اَبِیْ بَکْرٍ
وَعُمَرَ مِنْ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یعنی حضرت سیِّدُنا
ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ وسیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ
تَعَالٰی عَنْہ کا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کے زمانے میں کیا مقام ومرتبہ تھا؟‘‘ فرمایا: ’’کَمَنْزِلِھِمَا
الْیَوْمَ ھُمَا ضَجِیْعَاہُ یعنی عہدِ رسالت میں ان کا مقام ومرتبہ وہی تھا جو آج ہے کہ
دونوں اس وقت بھی رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ
تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دوست تھےا ور آج مزار میں بھی دونوں رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دوست
ہیں ۔‘‘(مناقب امیر المومنین عمر بن
الخطاب،الباب العشرون،ص۴۳۔)
زخمی کرنے والے کو اِنعام(حکایت)
غصہ پی جانے کی
حقیقت یہ ہے کہ کسیغصہ دلانے والی بات پر خاموش ہوجائے اور غصے کے
اظہار اور سزا دینے اور بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود صبر وسکون کے ساتھ رہے ۔ حضرت
سیِّدُنا امام زین العابدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کو ان کی کنیزوضو کروا رہی
تھی کہ اچانک اس کے ہاتھ سے لوٹا گرگیا جس سے وہ زخمی ہوگئے ، انہوں نے اس کی طرف
سر اٹھا کر دیکھا تو اس نے عرض کی : اللہپاک ارشاد فرماتا ہے : وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ ’’اور غصّہ پینے والے ‘‘
آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے فرمایا: قَدْ کَظَمْتُ غَیْظِیْ یعنی میں
نے اپنا غصّہپی لیا ۔ اس نے پھر عرض کی: وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ- ’’ اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ‘‘ ارشاد
فرمایا: قَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْکِیعنی
اللہ پاک تجھے معاف کرے۔ پھر عرض گزار
ہوئی: وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ’’ اور نیک لوگ
اللہ کے محبوب ہیں ‘‘ ارشاد فرمایا: اِذْہَبِیْ
فَاَنْتِ حُرَّۃٌ یعنی جا! تو آزاد ہے ۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۶ص۳۱۷حدیث۸۳۱۷ ملخّصاً)
کیوں میری خطاؤں کی طرف دیکھ رہے ہو!
جس کو ہے مِری لاج وہ لج پال بڑا ہے
ابوجان سے مَحَبَّت کا عالَم
حضرتِ سیدنا
امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اپنے ابوجان حضرتِ سیِّدُنا علی المرتضٰی شیرِ خُدا رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے بے حد پیار کرتے تھے اوراِسی
وجہ سے آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے اپنے تمام شہزادوں (یعنی بیٹوں)کے نام ’’علی ‘‘رکھتے تھے۔
بڑے شہزادے (یعنی بڑے بیٹے ) کا نام ’’علی اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہ‘‘ہے۔ اُن سے چھوٹے جوکہ امام زین العابدین کے نام سے مشہور
ہیں مگر اِن کا اَصل نام ’’علی
اَوسط رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ‘‘ ہےاورسب
سےچھوٹے شہزادے ، ننھے ننھے پیارے پیارے ’’علی اصغررَضِیَ اللہُ عَنْہُ ‘‘ہیں۔ (امام زین العابدین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے علاوہ دونوں شہزادےاپنے ابوجان
کے ساتھ’’میدانِ کربلا‘‘میں شہید ہوگئے تھے۔ )
اس شہیدِ بَلا شاہِ
گُلگُوں قَبا بیکسِ دَشتِ غربت پہ لاکھوں سلام
(حدائقِ بخشش)
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد
جسم بیمار نہ ہو تو
حضرت سَیِّدُناامام زینُ العابدین علی بن حُسینرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیہ فرماتے
ہیں:اگر جسم بیمار نہ ہو تو وہ اکڑ
جاتا ہے اور اکڑنے والے جسم میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔(اللہ والوں کی باتیں،۳/۱۹۴)
تضمین بر نظم منسوب بہ زین
العابدین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ:
ایسا کوئی محرم نہیں پہنچائے جو پیغامِ
غم
تو ہی کرم کردے تجھے شاہِ مدینہ کی قسم
ہو جب کبھی تیرا گزر بادِ صبا سوئے حرم
پہنچا مری تسلیم اس جا ہیں جہاں خیر
الامم
اِنْ نِّلْتِ یَا رِیْحَ الصَّبَا یَوْمًا اِلٰیٓ اَرْضِ الْحَرَم
بَلِّغْ سَلَامِیْ رَوْضَۃً فِیْھَا النَّبِیُّ الْمُحْتَشَم
میں دُوں تجھے ان کا پتہ گر نہ تو
پہچانے صبا
حق نے انہی کے واسطے پیدا کیے اَرض و
سما
رخسار سورج کی طرح ہے چہرہ ان کا چاند
سا
ہے ذات عالم کی َپنہ اور ہاتھ دریا جود کا
مَنْ وَّجْھُہٗ شَمْسُ الضُّحٰی مَنْ
خَدُّہٗ بَدْرُالدُّجٰی
مَنْ ذَا تُہٗ نُوْرُ الْھُدٰی مَنْ کَفُّہٗ بَحْرُ الْھِمَمْ
حق نے انہیں رحمت کہا اور شافعِ عصیاں
کیا
رتبہ میں وہ سب سے سوا ہیں ختم ان سے
انبیا
وہ مَہبِطِ قران ہیں ناسخ ہے جو اَدیان کا
پہنچا جو یہ حکم خدا سارے صحیفے تھے فنا
قُرْاٰ نُہٗ بُرْہَانُنَا نَسْخًا لِّاَدْیَانٍ مَّضَتْ
اِذْ جَائَ نَا اَحْکَامُہٗ لِکُلِّ الصُّحُفِ صَارَ
الْعَدَم
یوں تو خلیلِ کبریا اور اَنبیائِ باصفا
مخلوق کے ہیں پیشوا سب کو بڑا رُتبہ ملا
لیکن ہیں ان سب سے سوا دُرِّیتیمِ آمنہ
وہ ہی جنہیں کہتے ہیں سب مشکل کشا حاجت رَوا
یَا مُصْطَفٰی یَا
مُجْتَبٰی اِرْحَمْ عَلٰی عِصْیَانِنَا
مَجْبُوْرَۃٌ اَعْمَالُنَا طَمَعْنًا وَّ ذَنْبًا وَّ الظُّلَمِ
اے ماہِ خوبانِ جہاں اے اِفتخارِ مرسلیں
گو جلوہ گر آخر ہوئے لیکن ہو فخر الاولیں
فرقت کے یہ رَنج و عنا اب ہوگئے حد سے سوا
اس ہجر کی تلوار نے قلب و جگر زخمی کیا
وہ لوگ خوش تقدیر ہیں اور بخت ہے ان کا رَسا
رہتے ہیں جو اس شہر میں جس میں کہ تم ہو خسروا
سب اَولین و آخریں تارے ہیں تم مہر مبیں
یہ جگمگائے رات بھر چمکے جو تم کوئی نہیں
اَکْبَادُنَا مَجْرُوْحَۃٌ مِّنْ سَیْفِ ہِجْرِ الْمُصْطَفٰی
طُوْبٰی لِاَھْلِ بَلْدَۃٍ فِیْھَا النَّبِیُّ الْمُحْتَشَم
اے دو جہاں پر رحمِ حق تم ہو شفیع المجرمیں
ہے آپ ہی کا آسرا جب بولیں نَفْسِیْ مرسلیں
اس بیکسی کے وقت میں جب کوئی بھی اپنا نہیں
ہم بیکسوں پر ہو نظر اے رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْن
یَا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ اَنْتَ شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْں
اَکْرِمْ لَنَا یَوْمَ الْحَزِیْنِ فَضْلًا وَّ جُوْدًا وَّ الْکَرَم
اس سالکِؔ بدکار کا گو حشر میں کوئی نہیں
لیکن اُسے کیا خوف ہو جب آپ ہیں اس کے ُمعیں
مجرم ہوں میں غفار رب اور تم شَفِیْعُ الْمُذْ نِبِیْں
پھر کیوں کہوں بیکس ہوں یَا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْں
یَا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْں اَدْ رِکْ لِزَیْنِ الْعَابِدِیْں
مَحْبُوْسُ اَیدِی الظَّالِمِیْنَ فِیْ مَرْکَبٍ وَّالْمُزْدَحِم
(دیوان سالک)
نام کی وجہ تسمیہ
سوال: زینُ العابدین اورسجاد نام رکھنا کیسا؟
جواب :عام لوگوں کے جو یہ نام رکھے جاتے ہیں تو
اس میں خود ستائى پائی جاتی ہے۔ پنچ وقتہ نماز تو پڑھتا نہیں اور کہلا رہا ہے : “ سَجَّاد یعنی بہت زیادہ سجدے کرنے والا
“ ، جمعہ کی
نماز تک پڑھتا نہیں اور نام ہے : “ زَیْنُ
الْعَابِدِیْن یعنی عبادت گزاروں کی زینت۔ “ غلام زَیْنُ الْعَابِدِیْن “ نام
رکھىں تو چل جائے گا لیکن زَیْنُ الْعَابِدِیْن نام رکھنے میں خودستائی پائی جا
رہی ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ حصولِ برکت کے لىے بزرگوں کے نام پر نام رکھے جائیں۔
اگر کوئی خود کو سَجَّاد ، شہزاد اور شہزادہ وغیرہ کہلواتا ہے تو اس سے اُلجھنا
نہیں ۔ بعض لوگ اپنے بیٹے کا تعارف شہزادہ یا صاحب زادہ کہہ کر کرواتے ہیں ، گناہ
اِس میں بھی نہیں ہے لیکن خودستائی سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ نہ کہا جائے۔ مىں تو
اپنے بیٹے کو غرىب زادہ بولتا ہوں یعنی غرىب کا بىٹا۔(اجتماع کے فوائد ص23- 24مکتبۃ
المدینہ)
تفسیرقرآن بزبان امام زین العابدین
رضی اللہ عنہ خلفائے راشدین کے بارے
میں ۔
وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ
غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ (پ۱۴،الحجر:۴۷)
ترجمۂ
کنزالایمان:’’اور ہم نے ان کے سینوں میں جو کچھ کینے تھے سب کھینچ لئے
آپس میں بھائی ہیں تختوں پر روبرو بیٹھے۔‘‘
حضرت سیدنا
امام زین العابدین علی بن حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ’’ یہ آیت
مبارکہ بنوہاشم، بنوتمیم، بنو عدی ، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ،حضرت سیدنا عمر فاروق
اور حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم
کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘حضرت سیدنا ابوجعفرامام باقر رَحْمَۃُ
اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے پوچھا گیا کہ
حضرت سیدنا علی بن حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے جویہ بات منقول ہے کہ یہ
آیت مبارکہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ،حضرت سیدنا عمر فاروق اور حضرت سیدنا علی
المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے بارے میں نازل
ہوئی درست ہے؟انہوں نے فرمایا: ’’اللہ عَزَّ وَجَل َّکی قسم! یہ آیت
انہیں کے بارے میں نازل ہوئی ہے اگران کے بارے میں نازل نہیں ہوئی توپھرکس کے
بارےمیں نازل ہوئی ہے؟‘‘پوچھا گیا کہ اس میں توان کے کینے کا
ذکر ہے حالانکہ ان کے دلوں میں توایک دوسرے کے لیے کوئی کینہ نہیں ہے؟فرمایا:’’اس کینے سے
مراد زمانہ جاہلیت والا کینہ ہے جوان کے قبائل بنو عدی ، بنو تمیم، بنوہاشم میں
پایاجاتاتھاجب یہ تمام لوگ اسلام لےآئے ،تو کینہ ختم ہوگیا اورآپس میں شیروشکر
ہوگئے،نیزان کے مابین اس قدر الفت ومحبت پیداہوگئی کہ ایک بار حضرت سیدنا ابوبکر
صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پہلو میں درد ہوا توحضرت سیدنا علی المرتضی
شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اپنے ہاتھ کوگرم کرکے آپ
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پہلو کو ٹکور کرنے لگے۔ رب تعالٰی کو یہ ادا اتنی
پسندآئی کہ اس پریہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔‘‘ (تفسیرالدرالمنثور،الحجر:۴۷، ج۵، ص۸۴۔۸۵)
سیدنا علی المرتضی وسیدنا صدیق
اکبردونوں کی رشتہ داری
حضرت سیدنا
علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے صاحب زادے
حضرت سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی زوجہ محترمہ حضرت سیدتنا شہر
بانو رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہ کے بیٹے حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی
زوجہ دونوں آپس میں سگی بہنیں تھی۔یعنی سیدنا علی المرتضی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی
وَجْہَہُ الْکَرِیْم اور سیدنا ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ دونوں کی
بہوئیں آپس میں سگی بہنیں تھیں۔حضرت سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہ کے دور خلافت میں حضرت سیدنا حریث بن جابرجعفی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ
نے شاہ ایران یزد جردبن شہر یار کی دو بیٹیاں آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی
خدمت میں بھیجی تو آپ نے ان میں سے بڑی بیٹی کا نکاح اپنے بیٹے حضرت سیدنا امام
حسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے فرمادیا اور چھوٹی بیٹی کا نکاح حضرت سیدنا
محمد بن ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے فرمادیا۔ان سے حضرت سیدنا امام حسین
رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے بیٹے حضرت سیدنا امام زین العابدین رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہ پیدا ہوئے اور حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہ کے بیٹے حضرت سیدنا قاسم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ پیداہوئے۔یوں حضرت
سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے بیٹے حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر
صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ اور حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کَرَّمَ
اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے بیٹے حضرت سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہ
تَعَالٰی عَنْہ ہم زلف ہوئے۔(لباب الانساب والالقاب والاعقاب،ابناء علی ،العلویۃ
الجعفریۃ و العقیلیۃ،ج۱، ص۲۲ )
قطع رحمی کرنے والے کے ساتھ دوستی نہ
کرو
حضرت سیِّدُنا
امام باقر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَافِر فرماتے ہیں : میرے والد ِ گرامی حضرت
سیِّدُنا امام زین العابدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا: ’’قطع رحمی کرنے والے کے
ساتھ دوستی نہ کرو کیونکہ میں نے قرآنِ پاک میں اسے 3 جگہوں پر ملعون پایا۔‘‘ اور پھر انہوں
نے سابقہ 3 آیات پڑھیں یعنی قتال والی آیت ِ کریمہ میں صریح لعنت ہے، سورۂ رعد
کی آیت ِ مبارکہ میں عمومی طور پر لعنت ہے کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جن چیزوں
کے جوڑنے کا حکم دیا اس میں رحم (یعنی رشتہ داری )وغیرہ بھی شامل ہیں اور سورۂ
بقرہ کی آیت ِمقدسہ میں لازمی طور پرلعنت ثابت ہے کیونکہ یہ ان چیزوں میں سے ہے
جو خسارے کو لازم ہیں۔ حضرت سیِّدُنا امام ابوعبداللہ محمد بن احمد قرطبیعَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی (متوفی۶۷۱ھ) نے اپنی تفسیر میں صلہ رحمی کے واجب اور قطع رحمی
کے حرام ہونے پر امت کا اجماع نقل فرمایا ہے۔(جہنم
میں لے جانے والے اعمال جلد 2 ص282)
ایک ہزار رکعت نفل
امام زین العابدین ہر
شب ایک ہزار رکعت نفل پڑھتے تھے۔(مراۃ المناجیح
جلد 6ص6)
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا
اسم مبارک اور اولا مبارک کا تذکرہ خیر
زین العابدین:
آپ کا نام عابد ہے،لقب علی اوسط،خطاب زین العابدین،آپ کی والدہ بی بی شہر بانو
بنت یزد گرد شاہ ایران ہیں،شہر بانو ایران
کی شاہزادی تھیں جو خلافت فاروقی میں گرفتار ہوکر مدینہ منورہ آئیں،حضرت عمر نے
فرمایا کہ شاہزادی شاہزادے کو دی جاوے گی اور امام حسین سے آپ کا نکاح کردیا،ان
کے شکم سے امام زین العابدین پیدا ہوئے،آپ کے بیٹے گیارہ اور بیٹیاں چھ۔ تفصیل یہ
ہے بیٹے: محمد باقر،جعفر،ابو الحسن،زید،عبد اللہ،عبد الرحمن،سلیمان،عمر،اشرف،حسن
اصغر،حسن اکبر علی۔بیٹیاں: خدیجہ،زینب،عالیہ،ام کلثوم،ملیکہ،ام الحسن،ام الحسین۔محمد،باقر،عبد
اللہ،عمر،اشرف،زید شہید ہوئے۔(مراہ المناجیح
جلد 8 ص 618)
علی ابن حسین
ابن علی ابن ابی طالب: آپ کی کنیت ابو الحسن لقب امام زین العابدین سادات اہل بیت
سے ہیں،جلیل القدر تابعی ہیں،امام زہری کہتے ہیں کہ میں نے ان سے افضل کوئی قرشی
نہیں دیکھا آپ کی عمر ۵۸ اٹھاون سال ہوئی ۹۴ میں وفات ہوئی جنت بقیع میں اپنے تایا امام حسن کے ساتھ دفن ہیں،مترجم
کہتا ہے کہ امام حسین کے تینوں بیٹوں کا نام علی ہے علی اکبر علی اوسط علی
اصغر،حضرت علی اکبر اور علی اصغر تو کربلا میں شہید ہوئے علی اوسط یعنی امام زین
العابدین وہاں سے بچ کر آئے بقیہ زندگی بغیر روئے ہوئے کبھی پانی نہ پیا آپ کی
قبر زیارت گاہ خاص و عام ہے۔(مراہ المناجیح جلد
8 ص 583)
آپ تابعی ہیں
امام زین العابدین
صحابی نہیں بلکہ تابعی ہیں(مراہ المناجیح جلد 8
ص217)
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے
مروی روایت
روایت ہے حضرت
علی ابن حسین سے(ارسالًا) ۱؎ فرماتے ہیں کہ نبی
صلی اللہ علیہ و سلم نماز میں جب جھکتے اور اٹھتے تو تکبیر کہتے حضور کی یہی نماز
رہی حتی کہ اﷲ تعالٰی سے مل گئے۲؎(مالک)
شرح
۱؎ آپ کا لقب زین العابدین ہے،کنیت ابوالحسن،اہل بیت اطہار سے ہیں،۵۸ سال کی عمر ہوئی، ۹۴ھ میں وفات،چونکہ آپ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو نہ دیکھ سکے اس لیے
تابعین میں سے ہیں اور یہ روایت مرسل ہے۔
۲؎ یعنی یہ عمل شریف منسوخ نہیں۔(مراہ
المناجیح جلد 2 ص37)
حسینی سادات کا سلسلہ آپ ہی سے چلا
آپ کا نام جعفر،لقب امام صادق ہے،والد کا نام محمد،لقب
امام باقر،ان کے والدکا نام علی اوسط،لقب امام زین العابدین ہے،حادثہ کربلا سے صرف
امام زین العابدین ہی بچ کر آئے تھے،حسینی سادات آپ ہی کی نسل پاک سے ہیں،امام
حسین کے درمیانے صاحبزادے ہیں۔(مراہ المناجیح
جلد2 ص907)
،امام زین العابدین تو نماز پنجگانہ
کے لئے جوڑا رکھتے تھے۔
روایت ہے حضرت
عبداﷲ ابن سلام سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ تم میں سے
کسی پر کیا دشوار ہے کہ اگر ممکن ہو تو جمعہ کے دن کے لیئے دو کپڑے کام کاج کے
کپڑوں کے سوا بنالے ۱؎(ابن ماجہ)اور مالک
نے یحیی ابن سعید سے روایت کی۔
شرح
۱؎ یہ بھی مستحب ہے کہ جمعہ کا جوڑا
الگ رکھے جو بوقت نماز پہن لیا کرے اور بعد میں اتار دیا کرے،امام زین العابدین تو
نماز پنجگانہ کے لئے جوڑا رکھتے تھے۔(مراہ
المناجیح جلد2 ص617)
امام زین العابدین کے صاحبزادے کا
مقام ومرتبہ
جب استاد کا یہ عالم ہے تو
جو قرب زمانہ کے حضور ﷺ کے زمانے کے قریب ہیں اور نسب میں بھی حضورﷺ کے قریب
اورجب امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا یہ
عالم ہے کہ وہ حضور امام اعظم امام ابو حنیفہ کے استاد صاحب ہیں تو ۔۔۔۔۔ ان کے
والد کا عالم کیا ہوگا۔۔۔۔۔۔ جن کی تربیت کے عظیم شاہکارامام زین العابدین کے
صاحبزادے ۔۔۔۔۔امام جعفرصادق رضی اللہ عنہ ۔۔۔۔
امام اعظم کے استاد
سَیِّدنا امام
اعظم علیہ الرحمۃعلم دین کے حُصول کے باوُجود امام اعظم علیہ رَحمۃُاللہ
المُعَظَّم جیسے علم کے بیکراں سَمُنْدر نے بھی علومِ طریقت، حضرت امامِ جعفر صادق
رضی اللہ عنہ کی صحبتِ بابَرَکت و مجالس سے حاصل کئے۔امامِ
اعظم علیہ رَحمۃُاللہ المُعَظَّم نے فرمایا! اگر میری زندگی میں یہ دوسال (جو میں
نے امام جعفر صادق علیہ الرحمۃ کی خدمت میں گزارے) نہ ہوتے تونعمان(علیہ الرحمۃ)
ہلاک ہوگیا ہوتا۔(آداب مرشد کامل ص171 مکتبۃ المدینہ )
((الألوسي، محمود شكري،
مختصر التحفة الاثني عشرية، ص 8 ، ألّف أصله باللغة الفارسية شاه
عبد العزيز غلام حكيم الدهلوي، نقله من الفارسية إلى العربية: (سنة 1227 هـ) الشيخ الحافظ غلام محمد
بن محيي الدين بن عمر الأسلمي، حققه وعلق حواشيه: محب الدين الخطيب، دارالنشر:
المطبعة السلفية، القاهرة، الطبعة: 1373 هـ .
اور دیکھئے : القنوجي
البخاري، أبو الطيب السيد محمد صديق خان بن السيد حسن خان (متوفاى1307هـ)، الحطة
في ذكر الصحاح الستة ، ج 1 ص 264 ، ناشر : دار الكتب التعليمية - بيروت ، الطبعة :
الأولى 1405/ 1985م ).
امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ بھی
تابعی ہیں
امام جعفر صادق ہیں،آپ امام زین العابدین کے فرزند ہیں،
تابعی ہیں،(مراۃ المناجیح جلد4 ص577)
امام زینُ العابدین ابوالحسن علی اوسط
ہاشمی قرشی:
سجادِ اُمّت، حضرت سیّدنا امام زینُ العابدین
ابوالحسن علی اوسط ہاشمی قرشی علیہ رحمۃ اللہ القَوی شعبان 38ھ کو مدینۂ منورہ
میں پیدا ہوئے اور محرمُ الحرام 94ھ میں وصال فرمایا۔ آپ کا مزار جنتُ البقیع میں
حضرت سیّدنا امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پہلو میں ہے۔ آپ
عظیمُ المناقب تابعی، محدث، فقیہ، عابد، سخی، صاحبِ زہد و تقویٰ، جلیلُ القدر، عالی مرتبت
اور سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ عطاریہ کے چوتھے شیخِ طریقت ہیں۔ (وفیات الاعیان،ج 2،ص127، شرح شجرۂ قادریہ، ص51،54)
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان
بزبان امام زینُ العابدین رضی اللہ عنہ
اہلِ بیت کی
خدمت اور حضرت امیر معاویہ سے محبت: شہادتِ
امام حسین رضی
اللہ تعالٰی عنہ کے بعد امام زینُ
العابدین رضی
اللہ تعالٰی عنہ جب یزید کے پاس سے
لوٹ کر مدینَۂ مُنَوَّرہ پہنچے تو حضرت سیّدنا مِسْوَر بن مَخْرَمَہ رضی اللہ تعالٰی عنہما ان کے پاس گئے اور کہا: اگر میرے لائق کوئی خدمت
ہو تو ضرور حکم دیں۔ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ جب بھی حضرتِ سیِّدُنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا تذکرہ کرتے ان کے
لئے دعائے رحمت ضرور کرتے تھے۔(سیر اعلام النبلاء،ج 4،ص480ملتقطاً)
امام زینُ العابدین رضی اللہ عنہ کو زین العابدین کہنے کی وجہ
آپ کی ولادت38سن ہجری کو مدینۂ منورہ میں ہوئی۔آپ کا نام”علی“ رکھا گیا اور کثرتِ عبادت کے سبب سجّاد اور زینُ العابِدِین (یعنی عبادت گزاروں کی زِینت) کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ کی کنیت ابوالحسن ہے۔ (الاعلام،ج4، ص277 ملتقطا)
نبی ﷺ کے سید البشر ہونے کے ساتھ
نورانیت ہونے پر دلیل بزبان امام زینُ العابدین
حضرت سیّدناامام زینُ العابدین رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:میں آدم علیہ السَّلام کی تخلیق سے چودہ ہزار سال پہلے اللہ عَزَّوَجَل َّکے
ہاں نور تھا۔(مواھب لدنیہ،ج1،ص39)
امام زینُ العابدین رضی اللہ عنہ کے
زبانی شخین کریمین رضی اللہ عنھما کا مقام
امام احمد
مسند ذی الیدین رضی اللہ تعالی عنہ میں ابن ابی حازم سے راوی : قال جاء رجل الی علی بن الحسین رضی اللہ تعالی
عنہما فقال ماکان منزلۃ ابی بکر وعمر من النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال منزلتھما
الساعۃ وھما ضجیعاہ ۱ یعنی ایک شخص نے حضر
ت امام زین العابدین رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت انور میں حاضر ہوکر عرض کی حضور سیدعالم صلی اللہ علیہ
وسلم کی بارگاہ میں ابو بکر وعمر کا مرتبہ کیا تھا فرمایا جو مرتبہ ان کا اب ہے کہ
حضور کے پہلو میں آرام کررہے ہیں ۔( مسند
احمد بن حنبل حدیث ذی الیدین رضی اللہ تعالی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۷۷)(فتاوی
رضویہ جلد 28ص
99)
امام علی اَوسط کو زَیْنُ الْعَابِدِیْن اور سَجَّاد کہنے کی وجہ
سُوال:حضرتِ سَیِّدُنا
امام علی اَوسط رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو ” زَیْنُ
الْعَابِدِیْن“اور ”سَجَّاد“کیوں کہتے ہیں؟
جواب: زَیْنُ الْعَابِدِیْن کے معنیٰ ”عبادت گزاروں کی زینت“ہے
، چونکہ حضرتِ سَیِّدُنا امام علی اَوسط رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بہت زیادہ عبادت گزار تھے اس لیے لوگوں
نے انہیں زَیْنُ الْعَابِدِیْن کا لقب دیا ۔(1) اسی طرح آپ
رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بہت زیادہ نوافل
پڑھتے تھے اور ظاہر ہے نوافل میں سجدے
ہوتے ہیں تو یوں سجدوں کی کثرت کی
وجہ سے لوگوں نے انہیں سَجَّاد یعنی بہت زیادہ سجدے کرنے والا کہنا شروع کر دیا۔(2)
آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا
نامِ نامی ”علی“تھا اور پہچان کے لیے” علی اَوْسَط“ کہا جاتا تھا یعنی بیچ والے علی
کیونکہ امامِ حسین رَضِیَ
اللّٰہُ عَنْہُ کے ایک بیٹے علی اکبر یعنی
بڑے علی تھے اور ایک علی اصغر یعنی چھوٹے علی تھے جبکہ امام زَیْنُ
الْعَابِدِیْنرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بیچ
والے تھے اس لیے آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ
کو ”علی اَوْسَط “کہا جاتا ہے۔
امام زینُ العابدین رَضِیَ
اللّٰہُ عَنْہُ کی عمر مُبارَک
سُوال:حضرتِ
سَیِّدُناامام زینُ العابدین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ واقعۂ کربلا کے بعد کتنا
عرصہ حیات رہے؟
جواب:کَربلا
کا واقعہ61 سنِ ہجری میں ہوا اور حضرتِ
سَیِّدُناامام زینُ العابدین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے 94 سنِ ہجری میں وِصال فرمایا یعنی آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا وصال واقعۂ کربلا کے 33سال بعد ہوا۔
شرح شجرۂ قادریہ میں آپ کی عمر 58 سال
لکھی ہے یعنی 58 بَرس کی عمر میں آپ کا اِنتقالِ باکمال ہوا۔
اللہ پاک کی
ان پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری بے حساب مَغْفِرَت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ
عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم(طبقات ابن سعد، علی بن
الحسین بن علی بن ابی طالب، ۵/ ۱۷۱، رقم:۷۵۵۔)
اپنی زندگی میں دو مرتبہ اپنا سارا
مال راہ خدا عَزَّ وَجَلَّ میں خیرات
حضرت
سَیِّدُنا امام زَین العابدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی زندگی میں دو
مرتبہ اپنا سارا مال راہ خدا عَزَّ وَجَلَّ میں خیرات کیا اور آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بہت سے مساکینِ مدینہ
کے گھروں میں ایسے پوشیدہ طریقوں سے رقم بھیجا کرتے تھے کہ انہیں خبر ہی نہیں ہوتی
تھی کہ یہ رقم کہاں سے آتی ہے؟ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا وصال ہو
گیاتو ان غریبوں کو پتا چلاکہ یہ حضرت امام زین العابدین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ کی سخاوت تھی۔(سیر اعلام النبلاء ، ج۵، ص336 )
امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کا خصوصی علم :
امام غزالی
اپنی زندگی کی آخری کتا ب "منھاج العابدین " جو کہ عظیم ترین تصوف کی اور مختصر کتاب ہے تو اس کی وجہ بیان کرنے کے
ضمن میں فرماتے ہیں۔
جب ہم نے اس راہ کو اتنا مشکل پایا تو اسے پار کرنے کے لیے گہرا غوروخوض کیا اور دیکھاکہ بندہ اس میں
کن چیزوں کامحتاج ہوتاہےمثلاً : قوت وطاقت، آلات اورعلم و عمل کی تدبیروغیرہ تواس امیدکے
ساتھ کہ بندہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی توفیق سے سلامتی کے ساتھ
اس راہ کو پار کر جائے اور اس کی ہلاکت خیز گھاٹیوں میں گر کر ہلاک ہونے والوں کےساتھ
ہلاک نہ ہو، لہٰذاہم نےاس راہ پرچلنےاوراسےپارکرنےکےمتعلق چند کتابیں لکھیں جیسے : اِحْیَاءُ عُلُوْمِ الدِّیْن، اَسْرَارُالْمُعَامَلَات،
اَلْغَایَۃُ الْقَصْوٰیاوراَلْقُرْبَۃُ اِلَی اللہ وغیرہ، یہ کتابیں باریک علمی نکات پرمشتمل
ہیں جس کی وجہ سے عام لوگوں کی سمجھ سےبالاترہیں اوراسی کم فہمی کی وجہ سےلوگ ان
میں عیب لگانےلگےاورجو باتیں پسند نہ آئیں ان میں سرگرمی دکھانے لگے، بھلا ربُّ
الْعٰلَمِیْن جَلَّ
جَلَالُہٗ کے کلام سے بڑھ کر
بھی کوئی کلام فصیح وبلیغ ہو سکتا ہے،
کہنے والوں نے تو اس کے بارےمیں بھی کہہ دیا کہ”یہ تو اگلوں کی داستانیں ہیں ۔ “(1) کیا تم نے حضرت سیِّدُنا امام زین العابدین علی بن حسین بن علی عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کا یہ فرمان نہیں سنا :
اِنِّیْ لَاَکْتُمُ مِنْ عِلْمِیْ جَوَاہِرَہٗ کَیْلَا یَرٰی ذَاکَ ذُوْ جَھْلٍ فَیَفْتَتِنَا
وَ قَدْ تَقدَّمَ فِیْ ھٰذَا اَبُوْ حَسَنٍ اِلَی الْحُسَیْنِ وَوَصّٰی قَبْلَہُ الْحَسَنَا
یَارُبَّ جَوْہَرِ عِلْمٍ لَوْ اَبُوْحُ بِہٖ لَقِیْلَ لِیْ اَنْتَ مِمَّنْ یَّعْبُدُ
الْوَثَنَا
وَلَاسْتَحَلَّ رِجَالٌ مُّسْلِمُوْنَ دَمِیْ یَرَوْنَ اَقْبَحَ مَا یَاْتُوْنَہٗ حَسَنَا
ترجمہ : … میں اپنے علمی
جواہر پوشیدہ رکھتا ہوں تاکہ جہلا انہیں دیکھ کر فتنے میں مبتلا نہ ہوں ۔ (۲) …اس کے متعلق
اس سے پہلے حضرت سیِّدُنا ابوحسن علیُ المرتضٰیکَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم بھی حسنین کریمین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ مَا کو وصیت کر گئے کہ(۳) … میرے ایسے کئی پوشیدہ
علوم ہیں جنہیں میں ظاہر کر دوں تو مجھے کہا جائے گا تو توبتوں کی پوجا کرنے والا
ہے اور(۴) … مسلمان میرے
خون کو حلال سمجھ بیٹھیں گے(یعنی مجھے قتل کر دیں گے) اور اس برے کام کو اچھا
سمجھیں گے ۔
مگر اب
حالات کااربابِ دین سے تقاضا ہے کہ وہ ساری خلق خدا کو نظر رحمت سے دیکھیں اور بحث
ومباحثہ ترک کردیں ۔ میں نے اُس کی بارگاہ میں التجاکی جس کے قبضہ میں تمام مخلوق
اور ہر معاملہ ہے کہ وہ مجھے ایسی کتاب لکھنے کی توفیق عطا فرمائے جس پر سب کااتفاق
ہو اور اسے پڑھ کر لوگ فائدہ اٹھائیں پس
اس نے میری التجا قبول فرما ئی کیونکہ جب کوئی بے چین ومُضْطَر اسے پکارے تو وہ اس کی پکار سنتا ہے، اس نے اپنے فضل سے
مجھ پر اس تصنیف کے راز آشکار فرمائے اور ایک ایسی منفرد ترتیب الہام فرمائی
جوعلومِ دینیہ کے حقائق پر مشتمل میری سابقہ کتب میں نہیں تھی، یہ میری وہ تصنیف
ہے جس کی تعریف میں خود کرتا ہوں ۔ توفیق
دینے والا اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہی ہے ۔(منھاج العابدین ص
13-14 مکتبہ المدینہ)
اہلِ سنّت کی علامت
سوال: امام زین العابدین رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کس چیز کو اَہلِ سنّت کی علامت قرار دیا؟
جواب: امام زین العابدین حضرت
سَیِّدُنا ابوالحسن علی بن حسین رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُمَا نے ارشاد فرمایا :
رسولِ پاک ، صاحبِ لولاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر
کثرت سے درود پڑھنا اہلِ سنّت کی علامت ہے ۔(القول البدیع ، الباب
الاول ، قول علی زین العابدین علامة ۔ ۔ ۔ الخ ، ص۱۳۱ ، رقم : ۵ )