راقم الحروف کچھ عرصے سے پاکستان سے تعلق رکھنے والے خلفا وتلامذۂ اعلیٰ حضرت پر کام کررہاہے ،اس سلسلے میں ان کے خاندان ومتوسلین سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی رہتاہے ،اٹھارہ انیس ماہ پہلےاستاذالعلماء مفتی تقدس علی خان صاحب اورشیخ الحدیث مفتی اعجاز ولی خان صاحب پر کام کرنے کے لیے کتب کا مطالعہ شروع کیا، اگرچہ یہ کتب پہلے بھی پڑھ چکا تھا ،بحرحال معلومات ہوئیں کہ مفتی اعجازولی خان صاحب کے بیٹے حاجی ظفرپاشاصاحب کراچی میں مقیم ہیں ،فون پر ان سے رابطہ کیا ،ملاقات کا بھی عرض کیا پھر دیگر مصروفیت کی وجہ سے ملاقات نہ کرسکا،مفتی تقدس علی خان صاحب پررسالہ بنام’’ تلمیذِ اعلیٰ حضرت مفتی تقدس علی خان ایک عہدسازشخصیت‘‘5جولائی 2021ءاور مفتی اعجازولی خان صاحب پررسالہ بنام’’ تذکرۂ تلمیذاعلیٰ حضرت مفتی محمداعجازولی خان‘‘29اگست 2021ءکومکمل کرنے کی سعادت پائی اورخلیفۂ اعلیٰ حضرت مفتی سیددیدارعلی شاہ صاحب اور’’الور‘‘کے مشائخ پر کام کا آغازکیا ۔

دودن پہلے برادرِ اسلامی فیصل عطاری (شعبہ حج وعمرہ دعوت اسلامی)سےعالمی مدنی مرکزفیضان مدینہ کراچی میں ملاقات ہوئی ،ان سے حاجی ظفرپاشاصاحب سےملاقات ارینج کرنے کا کہہ رکھا تھا کیونکہ یہ بھی کلفٹن میں ظفرپاشاصاحب کے قریب ہی رہتے ہیں ،انھوں نے دورا نِ ملاقات میری بات بھی کروائی اورآج مورخہ 12ستمبر2021ء ملاقات کا وقت بھی سیٹ کرلیا ،چنانچہ طے شدہ وقت بارہ بجے سے پہلے ہی ہم ان کے گھر پہنچ گئے ،ابتدائی تعارف کے بعد مفتی اعجازولی خان صاحب اوران کے خاندان کے بارے میں کافی بات چیت ہوئی، اس گفتگو میں حاجی ظفرپاشاصاحب سےجو نئی باتیں معلوم ہوئیں، وہ درج ذیل ہیں :

٭مفتی اعجازولی خان صاحب بریلی سے کراچی میں ہجرت کرکے آئے ۔ آپ درس وتدریس اور فتوی نویسی سے تعلق رکھتے تھے اور کراچی میں کوئی ایسامقام نہ ملاجہاں تدریس کا سلسلہ شروع کرسکیں لہٰذا شہزادۂ صدرالشریعہ مولانا عبدالمصطفیٰ الازہری صاحب (جو اس زمانے میں جامعہ محمدی بھوانہ چینوٹ ضلع جھنگ میں شیخ الحدیث تھے ) نےآپ کو وہاں بلالیا،جب مفتی صاحب کی بیٹی تحسین فاطمہ کی ولادت کا وقت قریب آیا تو آپ اپنی فیملی کولے کر کراچی گئے کیونکہ بھوانہ چینوٹ شہرسے دورایک قصبہ ہے جہاں اس زمانے میں بہتر طبی سہولیات موجودنہ تھیں ۔بیٹی تحسین فاطمہ کی پیدائش 26جنوری 1951ء مطابق 17 ربیع الاخر 1370ھ کو کراچی میں ہوئی، ان کی پیدائش کے بعد آپ نے وہاں جانے کا ارادہ کیا تو فیملی وہاں جانے کے لیے راضی نہ ہوئی۔ اس کے بعد جلدہی آپ نے راولپنڈی پھر جہلم میں تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب نے جامع مسجدداتادربارلاہورکے سامنے ایک مکان کرائے پرلیا ،اس میں جامعہ گنج بخش شروع فرمایا جب دارالعلوم نعمانیہ لاہورمیں آپ کی مصروفیت زیادہ ہوئیں تو اس جامعہ کا انتظام مولانا اول شاہ صاحب (برادرِ نسبتی بانی جامعہ نعیمیہ لاہورمفتی محمدحسین نعیمی رحمۃ اللہ علیہ)نے سنبھال لیا۔

٭بریلی شریف میں مفتی اعجازولی خان صاحب سے جن اہم علمانے ابتدائی درس نظامی کی کتب پڑھیں ان میں صدرالعلمامفتی تحسین رضا خان صاحب،شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری صاحب،مفتی محمدحسین رضوی (بانی جامعہ رضویہ سکھر) اور مولانا معین الدین شافعی رحمۃ اللہ علیہم بھی شامل ہیں ،لاہورکے اہم علمامیں مولانا عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا محمدصدیق ہزاروی صاحب دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا شمارآپ کے شاگردوں میں ہوتا ہے ۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب ہرماہِ رمضان میں عرصہ درازتک مختلف جامعات میں دورۂ قرآن بھی کرواتے رہے،جن میں جامعہ نعمانیہ لاہور،جامعہ نظامیہ غوثیہ وزیرآ بادضلع گوجرانوالہ ، جامعہ حنفیہ دار العلوم اشرف المدارس اوکاڑہ،جامعہ حامدیہ رضویہ لاہور شامل ہیں ،وزیرآبادمیں آپ نے دو تین سال یہ خدمت سرانجام دی ،ہرروز صبح وزیرآبادتشریف لے جاتے اورسہ پہروہاں سے لاہورآیا کرتے تھے ۔یہی معمول اوکاڑہ کے لئے بھی رہا۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کے وصال کے بعد اسلام پورہ جامعہ مسجدمیں شرفِ ملّت علامہ عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ خطابت اورنمازپڑھا تے تھے ۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کی کتب ، فتاوی وتصانیف وغیرہ لاہورسے کراچی لانے کے لیے ریل میں بیلٹی کروائی ،جب یہ سامان کراچی پہنچاتو یہاں شدیدبارش ہورہی تھی،اس بارش میں یہ علمی خزانہ ضائع ہوگیا جس کا افسوس ہے ۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کے فتاویٰ ماہنامہ رضائے مصطفی گجرانوالہ ، ماہنامہ سواداعظم لاہور،ماہنامہ گنج بخش لاہورمیں شائع ہوتے تھے ،حاجی شفیع محمدصاحب (خلیفۂ مفتی تقدس علی خان رحمۃ اللہ علیہ )کے چھوٹے بھائی نے کچھ فتاویٰ اور قرآن پاک اعلیٰ حضرت کے ترجمے کی تشریح اور تفسیر اعجازالقرآن شائع کرنے کا پروگرام بنایا تھا مگروہ اس میں کامیاب نہ ہوئے۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کے والدگرامی حاجی سردارولی خان صاحب پیشے کے اعتبارسے زمین دارتھے ۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کے کل چار بھائی اوردوبہنیں تھیں ،سب سے بڑے بھائی شیخ الحدیث مفتی تقدس علی خان رحمۃ اللہ علیہ تھے۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کے منجھلے بھائی عبدالعلی خان صاحب کاانتقال 1978ء میں دل کے عارضہ میں کراچی میں ہوا،آپ کی تدفین شہداقبرستان عزیزآباد میں کی گئی ۔ آپ کا ایک بیٹاجاویدعلی خان ہیں جس کی ایک بیٹی ہے ،عبدالعلی خان صاحب کی دوبیٹیاں ہیں غزالہ(ان کے دوبیٹے ہیں ) اور سیما (ان کا ایک بیٹااوردوبیٹیاں ہیں ) حیات ہیں اور امریکہ میں مقیم ہے۔ دو اور بیٹیاں نزہت ، نگہت صاحبہ کا انتقال ہو چکا ہے۔ نزہت صاحبہ کے دو بیٹے ہیں اور امریکہ میں مقیم ہیں۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کے بھائی حافظ مقدس علی خان صاحب شادی کے دس بارہ دن کے بعد روڈ ایکسیڈنٹ میں جون 1960ء میں وفات پاگئے ،ان کی تدفین طارق روڈ کراچی کے قبرستان میں کی گئی۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کی بہن محبوب فاطمہ کی شادی شریف محمدخان صاحب سے ہوئی ،ان کی رہائش لکھیم پور یوپی ہندمیں تھی،ان کے ایک بیٹے حنیف محمدخان تھے ،جن کے چاریاپانچ بیٹے ہیں ،اُن میں سے ایک اسدحنیف خان میرے رابطے میں ہیں۔ محبوب فاطمہ صاحبہ کا انتقال تقریباً 1986ء میں ہوا۔

٭مفتی اعجازولی خان صاحب کی دوسری چھوٹی بہن حمیدفاطمہ کی شادی آغاشوکت علی خان صاحب سے ہوئی ،یہ کراچی میں ہجرت کرکے آگئے تھے،ان کے چاربیٹے اورچاربیٹیاں ہیں،بیٹوں کے نام آغا شفقت علی خان ،آغاشاہ عالم خان،آغانورعالم خان اورآغا فیض عالم ہیں ۔ اس میں شفقت علی خان کا 2019 ءمیں اور فیض عالم کا 2006 ءمیں انتقال ہو چکا ہے۔ دو بیٹیاں بھی انتقال کر چکی ہیں اور سب کراچی کے سوسائٹی قبرستان میں مدفون ہیں۔ یہ (مفتی اعجازولی خان صاحب کی بہن حمیدفاطمہ)میری ساس صاحبہ بھی ہیں ان کی بیٹی فوزیہ خاتون کا نکاح مجھ سے 1988 ء میں ہو ا، نکاح شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری نے پڑھایا ۔

٭میرا نام والدہ نے محمدیوسف خان رکھا ، دَدْھیال کی طرف سے میرانام ظفرعلی خان رکھا گیا ،یوں میرا خاندانی نام ظفرعلی خان ہے،جب کہ میرے خاندان کے ایک فرد چھوٹے پھوپا اور خسر آغاشوکت علی خان صاحب نےمجھے پاشاکا لقب دیا۔(کیونکہ ان کا حیدرآباددکن بہت آنا جانا تھا اوروہاں لفظ پاشا کا استعمال کثرت سےہوتاہے) جب اسکول میں نام لکھوانے کی باری آئی تو میرا نام ظفرپاشالکھوایا گیا،اسی نام ظفرپاشا سے پہچان ہے۔میری پیدائش 6رمضان 1364 ھ مطابق 15اگست 1945ء کو بریلی میں ہوئی۔

مذکورہ گفتگوکے دوران انھوں نے پھل بھی پیش کئے اوراپنے ہاتھوں سے گرین ٹی بنا کرپلائی ۔اختتام پرراقم نے ان کی خدمت میں اپنے لکھے ہوئے دونوں رسائل٭تلمیذ اعلیٰ حضرت مفتی تقدس علی خان ایک عہدسازشخصیت اور٭تذکرۂ تلمیذاعلیٰ حضرت مفتی محمداعجازولی خان پیش کئے اوردرخواست کی کہ ان کامطالعہ فرمائیں اورکہیں تصحیح کرنی ہوتو اس کی نشاندہی فرمادیں ، حاجی ظفرپاشا صاحب نے اس کی حامی بھرلی،اس کے بعد بردارم فیصل عطاری صاحب نے پاشا صاحب کو عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی آنے کی دعوت دی اوریوں یہ ملاقات اختتام پذیرہوئی ،پاشاصاحب رخصت کرنے کےلیے فلیٹ سےباہربھی تشریف لائے،اللہ پاک انہیں صحت وسلامتی والی لمبی عمر عطافرمائے ۔

واپسی پر نمازظہردعوتِ اسلامی کے زیراہتمام تعمیرہونے والی خوبصورت مسجدفیضان جیلان کلفٹن میں پڑھی ،حسنِ اتفاق کہ یہاں دعوت اسلامی کے شعبے FGRF کے تحت بلڈکیمپ لگانے کا سلسلہ تھا ،جس کا افتتاح راقم کی دعا سے ہوا۔ اس کے بعد برادرم فیصل عطاری صاحب نے اپنے فلیٹ میں پُرتکلف کھانے کا اہتمام کررکھا تھا چنانچہ ان کے ہاں جانا ہوا،بعدطعام واپسی ہوئی، اللہ پاک فیصل بھائی کو دونوں جہاں کی بھلائیوں سے مالامال فرمائے ،یہ ملاقات انکے تعاون سے ہوئی ،راقم اس پر ان کا شکر گزار ہے، ان کی والدہ بیمارہیں، قارئین ان کی صحت کی دعافرمائیں ۔

از: ابوماجدمحمدشاہدعطاری مدنی

(رکنِ مرکزی مجلسِ شوریٰ،دعوتِ اسلامی)

12 ستمبر2021ء ، 10:15


سرزمینِ پاک و ہند کو یہ اعزاز حاصل  ہے کہ بہت سے اللہ والوں نے اس سرزمین کا رُخ کیا ہےاور شجرۂ اسلام کی آبیاری اور نورِ حق کی شمع ِ ہدایت روشن کرکے تبلیغِ اسلام کا فریضہ نہایت جانفشانی سے ادا کیا ہے۔ انہی روشن اور تابندہ ہستیوں میں ایک نابغۂ روزگار ہستی ”حضرت سیّدنا داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ “ کی ہے جنہوں نے شب و روز محنت شاقہ کی بدولت بندگانِ حق کو اللہ کی راہ پر چلایا،انہیں محبتِ رسول کے جام بھر بھر کر پلائے ۔ داتا صاحب نے اپنی نگاہِ فیض سے صراطِ مستقیم سے بھٹکے ہوئے افراد کو راہِ حق کا مسافر بنادیا۔آپ کا چشمۂ فیض کم و بیش دس صدیوں سے جاری ہے اوراب تک تشنگانِ علم و عرفان کو سیراب کرتا چلا آرہا ہے۔

پیدائش: آپ کی ولادت کم و بیش 400ھ میں غزنی افغانستان میں ہوئی۔ آپ کے خاندان نے غزنی شہر کے دو علاقوں جُلّاب اور ہجویر میں رہائش اختیار کی جبھی آپ کو ہجویری اور جُلّابی بھی کہا جاتا ہے۔ (مدینۃ الاولیاء، ص468)

ابتدائی تعلیم: ہوش سنبھالتے ہی آپ کو تعلیم کےلئے مکتب بھیج دیا گیا جہاں حروف شناسی کے بعد آپ نے قرآنِ پاک مکمل پڑھ لیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے بچپن سے ہی محنت اور جانفشانی کے ساتھ علمِ دین حاصل کرنا شروع کردیا تھا، آپ حصولِ علم میں اتنا مشغول رہتے کہ نہ تو کھانے پینے کا خیال رہتا اور نہ ہی گرد و پیش کی کوئی خبر۔ حضرت خواجہ مستان شاہ کابلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جن کا دل اللہ کی طرف مُتَوَجّہ ہو وہ دنیا کی نعمتوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ۔ حضرت سیدنا علی بن عثمان ہجویری سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ دینی مدرسہ میں تقریباً بارہ تیرہ سال کی عمر میں زیرِ تعلیم رہے۔حصولِ علم کے جَذبہ سے سَرشار تعلیم میں اتنا مشغول ہوتےکہ صبح سے شام ہو جاتی مگر پانی تک پینے کی فرصت نہ ملتی ۔ (اللہ کے خاص بندے ، ص459)

کہا جاتا ہے کہ حصولِ علم دین کی خاطر حضرت سیدنا داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے مختلف ممالک کا سفر اختیار کیا ہے ، صرف خراسان ہی کے تین سو مشائخ کی خدمت میں حاضری دی اور ان کے عِلم و حِکمت کے پُر بہار گلستانوں سے خوشہ چینی کر کے اپنا دامن بھرتے رہے، آپ کے اساتذہ کی فہرست بڑی طویل ہے۔ (کشف المحجوب، ص181)

حضور داتا علی ہجویری اور سلطان محمود غزنوی علیہما الرحمہ: جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ داتا صاحب سلطان محمود غزنوی کے قائم کردہ مدرسے میں زیرِ تعلیم رہے ہیں۔ ایک روز کا واقعہ ہے سلطان محمود غزنوی اس عظیم درس گاہ میں تشریف لائے تو تما م طلبا ء زیارت کے لیے دوڑے لیکن حضرت سیدنا داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ مطالعے میں اس قدر مشغول تھے کہ آپ کو سلطان کی آمد کی خبر ہی نہ ہوئی ۔ اُستاد صاحب نے پکارا:دیکھو علی! کون آیا ہے ؟ اب کیا تھا ایک طرف سلطان محمود غزنوی اور دوسری جانب ایک کمسن طالب علم۔عجیب منظر تھا ، سلطان محمود غزنوی نے اس نوعمر طالب علم (یعنی داتا صاحب) پر ایک نظر ڈالی لیکن تجلیات کی تاب نہ لاتے ہوئے فوراً نظریں جھکا دیں اور استاد صاحب سے کہا: ”اللہ کی قسم ! یہ بچہ خدا کی طرف راغب ہے، ایسے طالبِ علم اس مدرسے کی زینت ہیں “۔ (اللہ کے خاص بندے ، ص460)

داتا صاحب کی حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات: حضرت سیّدُنا علی خوّاص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :حضرت سیدنا خضر علیہ السلام سے ملاقات کی تین شرطیں ہیں ، جس میں یہ تین شرائط نہ ہوں وہ آپ سے ملاقات نہیں کرسکتا اگرچہ جن و انس میں سب سے زیادہ عبادت گزار ہو۔(1)وہ سنّت کا عامل ہو، بدعتی نہ ہو۔(2)دنیا پر حریص نہ ہو،اگر وہ ایک روٹی بھی دوسرے دن کے لیے بچا کر رکھے تب بھی حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات نہیں کر سکے گا۔(3)مسلمانوں کے لیے اس کا سینہ بالکل صاف ہو، نہ تو اس کے دل میں کینہ ہو نہ ہی حسد اورنہ ہی وہ کسی پرتکبر کرتا ہو ۔ حضرت سیدنا داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ عاملِ سنّت،حرص ِ دنیا سے کوسوں دور اور مسلمانوں کے خیرخوا ہ تھے اسی لیے آپ نے حضرت سیدنا خضر علیہ السلام سے نہ صر ف ملاقات فرمائی بلکہ آپ کی صحبت میں رہ کر ظاہر ی و باطنی علوم حاصل فرمائے ، آپ کی حضرت سیدنا خضر علیہ السلام سے بہت ہی گہری دوستی تھی۔ (المیزان الخضریہ ، ص15، کشف المحجوب، دیباچہ، ص16)

داتا صاحب کی لاہور آمد: حضرت سیدنا داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ حضرت احمد حماد سرخسی اور حضرت ابوسعید ہجویری علیہما الرحمۃ کو ساتھ لے کر تین افراد کے قافلے کی صورت میں لاہور تشریف لائے اور لاہور کے علاقے بیرون بھاٹی دروازہ میں قیام فرماکرکفر و شرک کے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے اس شہر کو نورِ اسلام سے روشن فرمادیا۔ (سیدِ ہجویر، ص118)

تصانیف: آپ نے مخلوقِ خدا کی خیر خواہی کے لىے کئی گراں قدرکتب تصنىف فرمائیں جن کے نام یہ ہیں: (1) منہاج الدین (2) دیوان (3) اسرار الخرق والمؤنات(4) کتاب البیان لاہل العیان(5) بحر القلوب(6) الرعایۃ بحقو ق اللہ (7) کتاب فنا و بقاء(8) شرح کلام ِ منصور حلاج(9) ایمان (10)کشف المحجوب ۔ افسوس!فی زمانہ آپ کی کتابوں میں سےصرف کَشفُ المحجوب ہی بآسانی دستیاب ہے ۔ (حیات و افکار حضرت داتا گنج بخش، ص52)

حضور داتا صاحب کے متعلق متفرق معلومات:

٭ حضرت داتا علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ خواجہ ابوالفضل محمد بن حسن خُتَّلی جنیدی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔ ٭حضرت سیّدُنا داتا علی ہجویر ی رحمۃ اللہ علیہ حنفی المذہب تھے۔ ٭آپ نجیب الطرفین تھے، یعنی والد حسنی سید اور والدہ حسینی سادات سے تھیں۔ ٭آپ کا شجرۂ طریقت 09واسطوں سے امیر المؤمین مولیٰ علی المرتضیٰ شیرِخدا رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے۔ ٭ داتاصاحب نے مؤذنِ رسول حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کے مزار پر بحالتِ خواب امام الانبیاء آنحضرت ﷺ اور امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ کی زیارت کی۔

وفات و مدفن: آپ رحمۃ اللہ علیہ کاوصالِ پُرملال اکثر تذکرہ نگاروں کے نزدیک 20صفرالمظفر ۴۶۵ ؁ ھ کوہوا۔ آپ کامزارمنبعِ انواروتجلیات لاہورپاکستان میں بھاٹی دروازے کے بیرونی حصے میں ہے،اسی مناسبت سے لاہور کو مرکز الالیاء اورداتا نگر بھی کہا جاتا ہے۔( سیّدِ ہجویر، ص143)

آپ کا مزار ، مرجعِ اولیا و علما: آپ کےمزار کو انوار و تجلیات کا مرکز ہونے کی وجہ سے خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے، اپنے وقت کے بڑے بڑے اولیاء کرام رحمہم اللہ السلام جیسےسلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ الاسلام بابافریدمسعود گنجِ شکر رحمۃ اللہ علیہ حاضر ہوتے رہے ہیں جبکہ متاخرین میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ، پیر مہر علی شاہ گولڑوی، شہزادۂ اعلی حضرت حامد رضا خان ،صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی اور خلیفۂ اعلی حضرت،محدثِ اعظم ہند ابوالمحامدمحمد محدث کچھوچھوی، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی،امام المحدثین حضرت علامہ مفتی سیّد دیدارعلی شاہ محدث اَلوَری رحمۃ اللہ علیہم نے حاضری بھی دی۔ (مدینۃ الاولیاء، ص475)

گنج بخش فیض عالم مظہرِ نورِ خدا

ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما


مشہور تابعی بزرگ ، کروڑوں لوگوں کے پیشوا ،  امام المعقول والمنقول، سراج الامۃ امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ اس امت پر ربّ کریم کا ایک عظیم احسان ہیں ۔آپ نے اپنی حیات مستعار کو خدمتِ اسلام کے لیے وقف کردیا،قرآن وسنت پر عمل کے لیے رہنما اصول مقرر کیے اور مسائل واحکام اخذ کرکے امت ِمرحومہ کے لیے شریعت پر عمل آسان بنایا۔آپ کے فقہی مذہب کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس وقت بھی دنیا میں سب سے زیادہ اسی کے پیروکار موجود ہیں ۔

فقہ حنفی کے مسائل کی تائیدوتوثیق کے لیے بہت سے اکابر علمائے کرام نے اپنی کتب میں وہ احادیثِ مبارکہ اور آثارِطیبہ یکجا کردئیے جو فقہِ حنفی کا ماخذومستدل ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فقہ حنفی پرعمل کرنے والے درحقیقت طریقہ نبوی اور سنتِ مصطفی کی اتباع کرتے ہیں۔حنفی فقہائےکرام اور علمائےعظام نے اسی عنوان پردرج ذیل کتب لکھی ہیں:

(1)کتاب الآثار: (شاگردِ امام اعظم ،امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃُ اللہِ علیہ وفات: 189ھ)

اس میں آپ نے امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ سے روایت کردہ احادیث وآثار ذکر فرمائی ہیں اور اس کتاب کی ترتیب میں فقہی منہج اختیار فرمایا ہے، اس کتاب کو آپ کی امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ سے مرویات کا مجموعہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔

(2)موطا امام محمد: (محررِ مذہب، امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃُ اللہِ علیہ وفات:189ھ)

یہ امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ سے سنی گئی روایات کا مجموعہ ہے لیکن اس میں روایتوں کے بعد زیادہ تر اپنے استاذ امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہکےفقہی مذہب کی بھی وضاحت فرمائی ہے ، اس کی کئی شروحات وحواشی موجود ہیں جس میں حضرت علی بن سلطان قاری حنفی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات:1014ھ) کی شرح ’’فتح المغطا شرح الموطا‘‘اور علامہ عبد الحی لکھنوی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات:1304 ھ) کا حاشیہ’’التعلیق الممجدعلی موطا الامام محمد‘‘ معروف ہیں ۔ 1431ھ مطابق 2010ء میں علامہ شمسُ الہدی مصباحی کی شرح ”منائح الفضل و المنن “ کےنام سے منظر عام پر آئی،یہ شرح اپنے طرزِ استدلال کے اعتبار سے اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے ۔

(3)شرح معانی الآثار: (امام ابوجعفر احمد بن محمد طحاوی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات:321ھ)

یہ فقہِ حنفی میں دلائل مذہبِ احناف کے حوالے سے بہت عمدہ تصنیف ہے جس میں آپ نے احکام اور فقہی مسائل کی احادیث ذکر فرمائی ہیں اور طریقہ یہ اختیار فرمایا ہے کہ سب سے پہلے اپنے فقہی مذہب کے خلاف والوں کی مستدل احادیث ذکر فرمائیں پھر احناف کا مؤقف اور اسکی تائید میں احادیث بیان فرماکر اس کی ترجیح بھی بیان فرمادی ہے، چونکہ یہ فقہی طور پر حنفی تھے اس لئے انہوں نے اکثر احناف کے مؤقف کو ہی دلائل سے راجح قرار دیا ہے البتہ کچھ مسائل میں ان کے تفردات بھی ہیں، اس عظیم کتاب کی بہت شروحات لکھی گئیں جن میں حافظ ابو محمد علی بن زکریا منبجی حنفی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 686ھ) کی’’اللباب فی الجمع بین السنۃ والکتاب‘‘ اور امام بدر الدین محمود بن محمدعینی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 855ھ) کی دو شروحات ’’نخب الافکار‘‘ اور ’’مبانی الاخیار‘‘ بھی ہیں نیز امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان قادری رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 1340 ھ) کی اس پر تعلیقات بھی موجود ہیں اور صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 1367ھ) کا شاندارمفصل حاشیہ”کشف الاستار“ اس کتاب کی شروح وحواشی میں خوبصورت اضافہ ہےنیز استاذ الاساتذہ ابن داودمولانا عبد الواحد عطاری مدنی دام ظلہ جو کئی درسی کتب کے محشی بھی ہیں، نے علامہ بدر الدین عینی کی ’’نخب الافکار‘‘، امام اہلسنّت ، مولانامحدث وصی احمد سورتی (وفات: 1334ھ)اور صدر الشریعہ کے حواشی وتعلیقات سے استفادہ کرتے ہوئے ’’مبانی الابرار‘‘ کے نام سے حاشیہ تحریر فرمایا ہے جو المدینۃ العلمیہ کے شعبہ درسی کتب کی کوششوں سے عنقریب مکتبۃ المدینہ سے منظرِ عام پر آئے گا۔ان شاء اللہ العزیز

(4)شرح مشکل الآثار: (امام ابوجعفر احمد بن محمد طحاوی رحمۃُ اللہِ علیہ ، وفات: 321ھ)

یہ کتاب اپنے اسلوب کے اعتبار سے فقہی تونہیں کہی جاسکتی لیکن امام یوسف بن موسی لمطی حنفی رحمۃُ اللہِ علیہ نے امام ابوالولیدباجی مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ’’مختصرشرح مشکل الآثار‘‘کی جو تلخیص کی ہے اس میں ’’شرح مشکل الآثار‘‘ کی روایتوں سے مذہبِ احناف کا اثبات کیا ہے ، یہ کتاب اس کیلئے اصل اور متن کا درجہ رکھتی ہے اس لئے اس کو بھی دلائلِ مذہبِ احناف میں شمار کیا گیاہے،امام ابوجعفر طحاوی رحمۃُ اللہِ علیہ نے ’’شرح مشکل الٓاثار‘‘میں بظاہر متعارض نظر آنے والی احادیثِ کریمہ میں تطبیق بیان فرمائی ہے اور طریقہ یہ اختیار فرمایا ہے کہ ہر باب میں جداجدا موقف کی تائید کرنے والی احادیث ذکر فرمائیں پھر ان کی ایسی توضیح بیان فرمائی کہ ان کا تعارض ختم ہو، 1,000سے زیادہ ابواب قائم کئے گئے ہیں البتہ فقہی ترتیب کا التزام نہیں کیا گیا یہی وجہ ہے کہ کتاب کے شروع میں وضو سے متعلقہ احادیث ہیں تو کتاب کے آخر میں بھی، اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ اس کتاب میں آپ کامقصد فقہی احکام کااستخراج نہیں تھا البتہ کہیں کہیں فقہی مسائل اختصار وخلاصہ کے ساتھ ملتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس کا شمار مذہبِ حنفی کی فقہی کتابوں میں نہیں کیا جاتا۔ ابو الولید سلیمان بن خلف باجی مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 474ھ) نے ’’شرح مشکل الآثار‘‘ کی احادیث کے طرق واسانید کو حذف کیں اور ایک باب کی احادیث ایک ساتھ جمع کرتے ہوئے اسے مرتب کیا پھر امام بدر الدین عینی (وفات: 855ھ) کے استاذ اور صاحبِ غایۃ البیان علامہ اتقانی (وفات: 758ھ ) کے شاگردابو المحاسن یوسف بن موسی لمطی حنفی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 803ھ )نے ابو الولید باجی (وفات: 474ھ) نے جو اختصار کیا تھا اس کی تلخیص’’المعتصر من المختصر من مشکل الاثار‘‘ نامی کتاب لکھ کر کی جس میں آپ نے اختلافِ ائمہ بالخصوص مذہب احناف کو ’’شرح مشکل الآثار‘‘ میں موجود روایتوں اور دیگر دلائل کی روشنی میں نہ صرف بیان فرمایا ہے بلکہ جہاں جہاں ابوالولید باجی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فقہی مسائل میں مذہبِ احناف پرشبہات وارد کئے تھے ان کے جوابات بھی دئیے ۔

(5)التجرید: (امام ابو الحسین احمد بن محمد جعفر بغدادی قدوری رحمۃُ اللہِ علیہ وفات: 428ھ)

یہ کتاب فقہی مسائل میں احناف وشوافع کے اختلاف کی وضاحت میں امام قدوریرحمۃُ اللہِ علیہ کا کئی جلدوں پر مشتمل زبردست فقہی شاہکار ہے جس میں اسلوب یہ اختیار کیا گیا ہے اس کہ کسی بھی مسئلہ میں پہلے امام اعظم ، صاحبین اور دیگر فقہائے احناف کا پھر امام شافعی اور ان کے مذہب کے فقہائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کامؤقف ذکر کیا گیاہے اس کے بعد احناف کے دلائل پھر شوافع کے دلائل اور ان پر شبہات اور احناف کے مؤقف ودلائل پر وارد ہونے والے شبہات کے جوابات بھی دیئے گئے ہیں ۔

(6)ہدایہ شرح بدایۃ المبتدی: (امام ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانی رحمۃُ اللہِ علیہ وفات: 593ھ)

یہ فقہِ حنفی کی بہت ہی معروف ومشہور کتاب ہے ، اس کی اہمیت وعظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ’’کشف الظنون‘‘ کے مصنف حاجی خلیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ متوفی: 1067ھ نے اس کی 60 سے زائدشروحات، حواشی تعلیقات گنوائی ہیں نیز امام اہلسنّت مولانا شاہ احمدرضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 1340ھ) کی ہدایہ اور اس کی شروحات پر تعلیقات جو’’التعلیقات الرضویۃ علی الہدایۃ وشروحہا‘‘کے نام سے راقمُ الحرف کی تحقیق کے ساتھ بیروت کے معروف عالمی اشاعتی ادارےدار الکتب العلمیہ سے شائع ہوئی ہے اس میں 71شروحات وحواشی وتعلیقات وغیرہ شمار کی گئی ہیں ۔

امام مرغینانی رحمۃُ اللہِ علیہ کا اس کتاب میں اسلوب یہ ہے کہ آپ نے پہلے اپنے مختار مذہب کو ذکر فرمایا ہے پھر اختلافِ ائمہ اور ان کے دلائل پھر آخر میں اپنی دلیل کے ساتھ مخالفین کے دلائل کے جوابات دئیے ہیں، جہاں آپ نے مذہبِ احناف کی تائید میں عقلی دلائل بیان فرمائے ہیں وہیں احادیث وآثار سے بھی دلائل ذکر فرمائے ہیں لیکن بعد میں کچھ مخالفین نے ان احادیث وآثار کے ثبوت وصحت پر اعتراضات کئے تو بہت سے علمائے کرام نے ان کی تخاریج وماخذ کے ثبوت پر کتابیں لکھیں جن میں امام علی بن عثمان ماردینی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 750ھ) کی ’’التنبیہ علی احادیث الہدایۃ والخلاصۃ‘‘،امام عبد اللہ بن یوسف زیلعی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات:762ھ) کی ’’نصب الرایۃ‘‘، امام محی الدین عبد القادر قرشی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 775ھ) کی ’’عنایہ‘‘ اور امام احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 852ھ )کی ’’الدرایۃفی تخریج احادیث الہدایۃ‘‘ شامل ہیں۔

(7)فتح القدیر: (امام کمال الدین محمد بن عبد الواحد سیواسی المعروف بابن الہمام رحمۃُ اللہِ علیہ وفات: 861ھ)

اسے ’’ہدایہ‘‘ کی سب سے بہترین شرح قرار دیا گیاہے جس میں ہدایہ کی عبارتوں کی تشریح کے ساتھ ساتھ، اختلافِ ائمہ بالخصوص فقۂ حنفی کے مسائل کو کتاب وسنت ودیگر دلائل سے نہ صرف ثابت کیا گیاہے بلکہ جہاں احناف احادیث وآثار سے دی گئی کسی دلیل پر جرح کی گئی ہے تو اس کا جواب بھی دیا گیاہےلیکن علامہ ابن ہمام رحمۃُ اللہِ علیہ کتاب الوکالۃ تک ہی لکھ پائے تھے کہ آپ کی وفات ہوگئی پھر آگے امام شمس الدین احمد قاضی زادہ رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 988ھ) نے ’’نتائج الافکار‘‘ کے نام سے اس بے مثال شرح کو مکمل کیا۔ یہ کتاب دنیا کے کئی مکتبوں نے کئی جلدوں میں تحقیق شدہ شائع کی ہے۔

(8)نصب الرایۃ فی تخریج احادیث الہدایۃ: (امام عبد اللہ بن یوسف زیلعی رحمۃُ اللہِ علیہ متوفی: 762ھ)

یہ دراصل فقہِ حنفی کی بہت ہی مشہور کتاب’’ہدایہ‘‘شرح ہے جس میں ہدایہ میں مذکور احادیث وآثار کی نہ صرف تخاریج بلکہ مزید روایتوں کااضافہ،ان کی سند، حدیث کا حکم اورجرح وتعدیل بھی بیان کی گئی ہےنیز احکام میں احناف کی مؤید روایتوں کا بھی اس طرح ذکر کہ منصف مزاج قاری اس نتیجہ پر پہنچے کہ احناف کے مذہب میں ہرفقہی باب کے مسائل کی دلیل احادیث وآثار سے موجود ہے۔یہ کتاب پاک وہند وعرب کے بیسیوں مکتبوں نے کئی جلدوں میں شائع کی ہے ۔

(9)فتح باب العنایۃ بشرح النقایۃ:(امام علی بن سلطان قاری رحمۃُ اللہِ علیہ وفات:1014ھ)

یہ صدر الشریعہ عبید اللہ بن مسعود رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 747ھ) کی کتاب ’’نقایہ‘‘ کی شرح ہے ، علامہ علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ نے اس کتاب کے مقدمہ میں فرمایا ہے کہ امام طحاوی، امام ابوبکر رازی اور امام قدوری وغیرہ متقدمین احناف نے مذہبِ احناف کے قرآن وسنت سے دلائل ذکر فرمائے، بعد میں آنے والوں نے انہی پر اعتمادر واقتصار کیا توکچھ مخالفین نے مذہبِ احناف پر اعتراضات کئے تو میں نے سوچا کہ ’’نقایہ‘‘ کی ایسی شرح لکھوں جس میں مسائل کی توضیح وتشریح اوراختلافِ ائمہ کے ساتھ ساتھ مذہبِ احناف کے دلائل قرآن وسنت کی روشنی میں ذکر کروں تو میں نے یہ کتاب لکھی۔یہ کتاب پاک وہند کے ساتھ ساتھ بیروت سے 3جلدوں میں تحقیق شدہ شائع ہوچکی ہے۔

(10) فتح المنان فی اثبات مذہب النعمان: (شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ وفات: 1052ھ)

یہ احادیث وآثار سے مذہبِ حنفی کے اثبات میں بہت لا جواب کتاب ہے جو اسی مقصد کیلئے ہی لکھی گئی ہے جیساکہ کتاب کے نام سے بھی ظاہر ہے ۔ شیخ محقق رحمۃُ اللہِ علیہ نےاس میں مذہبِ احناف کےفقہی احکام کی روایتوں کو ’’مشکوۃ المصابیح ‘‘کی طرز پر جمع فرمایا ہے اورساتھ ہی دیگر مذاہب (مالکی، شافعی اور حنبلی) کے مسائل کوبھی آسان اور مختصر انداز میں بیان فرمایا ہے اوراحناف کے مؤقف کو احادیث وروایات کے دلائل سے ثابت فرمایا ہے۔

(11) عقود الجواہر المنیفۃ فی ادلۃ الامام ابی حنیفۃ: (علامہ مرتضیٰ زَبیدی رحمۃُ اللہِ علیہ وفات: 1205 ھ)

مذہبِ احناف کے احادیث سے تائیدی دلائل میں لکھی گئی کتابوں میں یہ کتاب عمدہ اضافہ ہے جس میں فقہی ترتیب کے مطابق احکام کی وہ روایتیں جو امام اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ سے مروی ہیں اور وہ لفظی یا معنوی طور پر صحاح ستہ میں بھی موجود ہیں مصنف نے انہیں جمع کرتے ہوئے اس کی اسنادی حیثیت بھی واضح فرمائی ہے اور جہاں کسی روایت پر کلام تھا اس کی تائیدات ذکر فرماکر اس کا جواب بھی دیا ہے ۔

(12) آثار السنن: (امام ابو الخیرمحمد ظہیر احسن نیموی بہاری رحمۃُ اللہِ علیہ وفات: 1322ھ )

اس کتاب میں علامہ نیموی رحمۃُ اللہِ علیہ نے 1113 روایتوں کو راوی کے نام اور اس کے ماخذ کے ساتھ ذکرفرمایا ہے نیز ان روایتوں پر اصولِ حدیث کی روشنی میں فنی ابحاث بھی فرمائی ہیں لیکن کتاب کی تکمیل سے پہلے ہی آپ کا وصال ہوگیا۔ آپ کے بیٹے مولاناعبد الرشیدفوقانی اپنے والد کی تصانیف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’انہوں نے مختلف فنون پر بہت سی کتابیں لکھیں جن میں سے ایک یہ کتاب بھی ہے،اس کا دوسرا جزء 1314ھ میں لکھا اور اس بات کی وضاحت انہوں نے اپنی کتاب ’’التعلیق‘‘ کے پہلے صفحہ پر بھی لکھی ہے لیکن وہ اسے مکمل نہ کرسکے ، تیسرے جزء کی کتابُ الزکوۃ کا کچھ حصہ مصنف کے ہاتھ کا لکھا ہوا میرے پاس ہے لیکن نامکمل ہونے کی وجہ سے اس کو شائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘اس کتاب کو کئی مکتبوں نے شائع کیا ہے،المدینۃ العلمیہ(Islamic Research Center) کے شعبہ درسی کتب کے رکن استاذُ العلماء مولانا احمد رضا شامی صاحب زیدعلمہ نے اس کتاب پرتحقیق وتخریج کا عمدہ کام کیا ہے جو عنقریب شائع ہوکر اہلِ علم کی تشنگی دور کرے گا ان شاء اللہ الکریم ۔

(13) صحیح البہاری: (ماہرِ علم توقیت ، ملک العلماءمولانا ظفر الدین محدث بہاری رحمۃُ اللہِ علیہ وفات: 1382ھ)

اس کا نام ’’جامع الرضوی ‘‘بھی ہے یہ ملک العلماءکا 6 جلدوں پر مشتمل عمدہ علمی کارنامہ ہے جس کی پہلی جلد میں آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہ سے اہلِ سنّت وجماعت کے عقائد کو ثابت کیا گیا ہے بقیہ 5 جلدوں میں فقہی ترتیب کے مطابق فقہِ حنفی کی تائید پر مشتمل احادیث ذکر کی گئی ہیں جس میں عقائد ِاہلسنّت کےساتھ ساتھ احناف کے فقہی مسائل کو بھی دلائل احادیث سے ثابت کیا گیا ہے۔ پہلی جلد 1930ء اور بقیہ 3جلدیں 1937-1932ء کے دوران مطبع برقی، پٹنہ سے شائع ہوئی ، مولانامفتی ابوحمزہ محمدحسان عطاری مدنی دام ظلہ نے مکمل کتاب پر تحقیق وتخریج کے کام کا بیڑا اٹھایا اور الحمد للہ اس کی پہلی جلد شائع بھی ہوچکی ہے مزید بھی جلد منظرعام پر آئیں گی ، ان شاء اللہ الکریم۔

(14)زجاجۃ المصابیح: (علامہ ابو الحسنات عبد اللہ محدث حیدرآبادی رحمۃُ اللہِ علیہ وفات: 1384ھ )

یہ امام خطیب تبریزی رحمۃُ اللہِ علیہ (وفات: 737ھ) کی مشہورِ زمانہ کتاب ’’مشکوۃ المصابیح‘‘ کی طرز پر فقہِ حنفی کے مسائل کی احادیث سے تائید اوران کی تشریح پر مشتمل کتاب ہے جس کے بارے میں خود مصنف عبد اللہ محدث حیدرآبادی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ امام خطیب تبریزی رحمۃُ اللہِ علیہ نے جب ’’مشکوۃ المصابیح‘‘ میں وہ احادیث ذکر فرمائی ہیں جو امام شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ کے فقہی مذہب کی تائید میں ہیں تو اکثر میرے دل میں یہ خیال آتا تھا کہ میں بھی اسی طرح کی کتاب لکھوں جس میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ کے فقہی مذہب کی تائیدی روایتوں کو ذکر کروں لیکن میری بے سر وسامانی مانع رہی اسی دوران خواب میں خاتم النبیین رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی سلام وجوابِ سلام کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے علم وحکمت بھرے مبارک سینے سے لگالیاجس کی برکت سے میرا شرحِ صدر ہوا اور اس کام کی جملہ مشکلات آسان ہوگئیں تو میں نے یہ کتاب لکھنے کیلئے کمر باندھی اور بحمد اللہ اس کتاب میں ہر حدیث لکھتے وقت نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درودِ پاک پڑھنے کا التزام کیا اور اس کتاب کا نام ’’زجاجۃ المصابیح‘‘ رکھا۔‘‘کتاب کا اسلوب یہ ہےکہ اس میں احکام ومسائل سے متعلق احناف کے مستدلات جمع کیے گئے ہیں البتہ جس طرح ’’مشکوۃ‘‘ میں ہر باب کےتحت فصلیں قائم ہیں اس میں ایسا نہیں ہے بلکہ ہر باب کی ایک ہی فصل ہےاور اس کی ابتدا میں متعلقہ آیات واحادیث پھر ان سے مستنبط احکام، اختلافِ ائمہ،دلائلِ حنفیہ، ان کی وجوہ ترجیح اور دیگر احادیث وآثار سے ان کی تائید بیان کی گئی ہے،احادیث میں پہلےوہ احادیث جو ترجمۃ الباب سے مطابقت رکھتی ہیں وہ لائی گئی ہیں پھرضمنی اور التزامی دلائل ذکر کئے گئے ہیں، یہ کتاب پاک وہندسےمترجم شائع ہوئی ہے لیکن حال ہی میں ترکی کے ایک مکتبہ ’’دار السمان‘‘ نے اسے 5 جلدوں میں تحقیق وتخریج کے ساتھ عمدہ طباعت کے ساتھ شائع کیا ہے۔

اب اصل موضوع کی طرف آتے ہوئے ’’فتح المنان‘‘کا اسلوب اور اس پر المدینۃ العلمیہ(Islamic Research Center) کی طرف سے کیے گئے کام کاتعارفی جائزہ پیش کرتے ہیں :

اسلوب:

۞حضرت مصنف شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فقہی کتابوں کی طرح کتاب اور ابواب بندی کا قیام نیزابواب اور فصول میں باب الجنائز کے آخر تک’’مشکاۃ المصابیح‘‘ کی طرز کو اپنایا ہے۔

۞ باب الجنائز کے آخر تک ان کا یہ اسلوب ہے کہ پہلے احادیثِ مبارکہ ذکر فرماتے ہیں پھر اس فصل کے آخر میں اس مسئلہ میں فقہائے کرام کے اختلاف کو ذکرکردیتے ہیں۔

۞ مذاہبِ اربعہ (حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی) کا آسان انداز میں انہی کی فقہی کتابوں سے دلائل کے ساتھ بیان۔

۞ مذہبِ حنفی کا بیان اور اس کی تائید میں احادیث ِ کریمہ پیش کرتے ہیں۔

۞ احادیثِ کریمہ نقل کرنے کے دوران جہاں لفظ ’’اَخْرَجَ‘‘ استعمال فرمایا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ یہ روایت ’’جامع الاصول‘‘ سے لی گئی ہے ۔

۞ جہاں لفظ ’’رَوَی‘‘ استعمال کیا ہے اس سے مراد ہے کہ یہ روایت ’’کنز العمال‘‘ سے لی گئی ہے۔

احادیث میں ماخذ کتب:

”فتح المنان“ میں جن کتابوں سے احادیثِ مبارکہ لی گئی ہیں ان میں سے چند کے نام یہ ہیں:

(1) موطا امام محمد: امام محمد بن حسن شیبانی، (وفات: 189ھ( (2) سنن الدارمی: امام عبد اللہ بن عبد الرحمن دارمی، (وفات: 255ھ( (3)جامع الاصول: ابو سادات مبارک بن محمد ابن اثیرجزری، (وفات:606ھ((4) مشکاۃ المصابیح: امام محمد بن عبد اللہ خطیب تبریزی ، (وفات:741ھ((5) کنز العمال: امام علی متقی ہندی، (وفات: 975ھ(

فقہ میں ماخذ کتب:

فقہ حنفی : فتح القدیر: امام کمال الدین ابن ہمام حنفی، (وفات: 861ھ(

فقہ شافعی : الحاوی الکبیر : ابو الحسن علی بن محمد ماوردی بصری، (وفات: 450ھ(

فقہ مالکی : رسالۃ ابن ابی زید : ابو محمد عبد اللہ بن زید قیروانی ، (وفات: 386ھ(

فقہ حنبلی : کتاب الخرقی: ابو القاسم عمر بن حسین خرقی ، (وفات: 334ھ(

اس کے علاوہ شیخ محقق رحمۃُ اللہِ علیہ نے چاروں مذاہب کی مختلف کتب سے بھی حوالے دئیے ہیں۔

اس پر کام کرنے کی وجہ:

یہ کتاب لاہور اورملتان سے شائع ہوئی تھی لیکن تصحیح وتحقیق سے خالی تھی، کتاب کی عظمت اس پرمزید کام کی متقاضی تھی لہٰذا اس پر تصحیح،تخریج وتحقیق کاکام شروع کیا گیا، اس سلسلہ میں دومخطوطوں کو سامنے رکھاگیا کر کام شروع کیا گیا جن میں سے ایک سندھ کانسخہ تھا اور ایک ہند کا، سندھ والےمخطوطے کو معیار بناتے ہوئے نسخۂ ام بنایا گیا ہے۔

سندھی نسخہ کا عکس/ ہندی نسخہ کا عکس دیکھنے کے لئے نیچے لنک پر کیجئے

Aks-Sindhi -& -Hindi-Nuskha

المدینۃ العلمیہ کی طرف سے کئے جانے والے کام:

جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ (دعوتِ اسلامی) کے تخصص فی الحدیث کے طلبائے کرام سے ان کے اساتذۂ کرام مولانا مفتی محمد حسان رضاعطاری مدنی اور مولانا احمد رضا شامی دام ظلہما نے اس پر کام شروع کروایا اور گاہے گاہے ان کی سرپرستی ورہنمائی بھی فرماتے رہےپھر یہ کام المدینۃ العلمیہ(Islamic Research Center) منتقل ہوا اور قبلہ مفتی حسان صاحب زیدعلمہ کی سرپرستی میں راقمُ الحروف کی زیرِنگرانی یہ عظیم کام جاری ہے جو اسلامی بھائیوں کی کوششوں اور مفتی صاحب کی ذاتی دلچسپی سے بہت جلد مکمل ہوکر منظر عام پر آئے گا ان شاء اللہ الکریم ۔

اس کتاب پر تحقیق وتخریج وغیرہ کے حوالے سے جو کام جاری ہیں ان کی کچھ تفصیل حسب ِذیل ہے:

(1) تقدیم ومقدمہ: کتاب پر کئے جانے والے کاموں کی تفصیل، مخطوطات کے عکس، شیخِ محقق رحمۃُ اللہِ علیہ کے حالات اور کتاب میں استعمال ہونے والی اصطلاحات ورموز کا قیام ۔

(2) تشکیل اوراوقاف ورموز:جدید عربی رسمُ لخط کے التزام کے ساتھ ساتھ اوقاف ورموز کا اہتمام اورمشکل الفاظ پر اعراب ۔

(3)تخریج: قرآنی آیات، احادیث کریمہ اور عبارتوں کی تخریج نیزغیرمطبوعہ اور مخطوطات کی شکل میں موجود کتب سے بھی تخاریج کا اہتمام۔

(4) دراسۃ الاسانید: روایتوں اورراویوں کے اعتبار سے احادیث کی تحقیق۔

(5)تراجم:جہاں شیخ محقق رحمۃُ اللہِ علیہ نے کسی شخصیت یا کتاب کا نام ذکر کیا ہے وہاں ان کا مختصر تعارف ،اسی طرح کتاب کے مصنف کا نام اور موضوع وغیرہ کابیان ۔

(6)تقابل :پوری کتاب کا سندھی اور ہندی مخطوط کے نسخوں سے تقابل وتصحیح اور ضروری مقامات پر حاشیہ میں اختلافِ نسخ کی وضاحت۔

(7)پروف ریڈنگ: لفظی غلطی کا امکان کم کرنے کے لیے پوری کتاب کی ایک سے زیادہ مرتبہ پروف ریڈنگ ۔

(8)فہارس: آیات واحادیث،تراجم اعلام وکتب ، موضوعات ، اشاریات کی فہرستوں نیز مصادر التحقیق کا قیام۔

یہ تمام اور دیگر ضمنی کام مکمل کرکے حسنِ صوری ومعنوی کے ساتھ اس کتاب کو عرب دنیا سے شائع کروانے کا ارادہ ہے، دعاگو ہیں کہ اللہ کریم اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے طفیل اس کام کو بخیر وخوبی پایۂ تکمیل تک پہنچائے ،قبلہ مفتی حسان صاحب اور کتاب پرکام کرنے والے افراد مولانا اکرم عطاری مدنی، مولانا عاصم عطاری مدنی ، مولانا منصور عطاری اور مولانا احمد رضاعمر عطاری مدنی کے علم وعمل میں برکتیں عطافرمائے ، دعوتِ اسلامی اور المدینۃ العلمیہ(Islamic Research Center) کو مزید ترقی وعروج عطافرمائے اور ہمیں اخلاص کے ساتھ دینِ اسلام ومسلکِ اہلسنّت کی خوب خدمت کرنے کی توفیق بخشے۔ اٰمین بجاہ محمد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم۔


محدث سہارن پوری کا ترمذی پر حاشیہ:

یہ شروحات سے لیا گیا مختصر حاشیہ ہے جو پڑھنے والوں اور پڑھانے والوں کے لیے مفید ہے۔ اس کے متعلق محشی کے شاگردِ رشید الاسد الاشد حضرت مولانا وصی احمد محدثِ سورتی جو کہ امام احمد رضا خان قادری بریلوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمْ کے گہرے دوستوں میں سے ہیں، فرماتے ہیں:

میں نے جب درسی کتب کی تکمیل سے فراغت پائی تو وہ مبارک فن اور بلند وبالا علم جس کی باتیں سب سے بہترین ہوتی ہیں اس مبارک فن یعنی علم حدیث کی تحصیل کے لیے میں سید الفقہاء، علامۃ الدہر، ترجمانِ قرآن و حدیث ، حافظ الوقت شیخ احمد علی محدث سہارن پوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اللہ پاک آپ کو اپنی ظاہری ومعنوی مغفرت سے ڈھانپ لے۔میں نے آپ سے کتب صحاح ستہ اور مؤطا امام محمد پڑھیں اور سنیں، آپ مجھ سے راضی تھے اور میں آپ کی برکتوں سے مسرور تھا۔ آپ نے مجھے اپنی روایت کردہ اور سماعت کردہ روایات کی عام اجازت عطا فرمائی ، مجھے ان کی تدریس اور نشر واشاعت میں لگ جانے کا حکم دیا اور مجھے برکت کی دعاؤں سے نواز کر رخصت فرمایا۔ (مقدمہ شرح معانی الآثار،1/5)

محدث سہارن پوری کے نظریات:

میں نے صحیح بخاری شریف اور جامع ترمذی شریف پر آپ کے حواشی کا چیدہ چیدہ مطالعہ کیا تو جن باتوں میں آپ نے اہل سنت وجماعت کی موافقت فرمائی اور جن عقائد وفقہی فروعی مسائل میں اہل سنت کی مخالفت کی انہیں میں نے الگ کرلیا۔جن عقیدوں میں آپ نے اہل سنت کی موافقت کی ہے ان میں سے یہ ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم غیب جانتے ہیں اور یہ کہ قیامت میں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کبیرہ گناہ والوں کی شفاعت فرمائیں گے اور یوں ہی جن فروعی مسائل میں آپ نے اہل سنت کی موافقت کی ہے ان میں سے یہ ہے کہ صالحین کے مزارات پر حاضری کے لیے سفر کرکے جانا جائز ہے اوریہ کہ صالحین کی قبروں کے پاس مسجدیں بنانا جائز ہے۔ ہم ذیل میں ان کا تذکرہ کرتے ہیں۔

حضورِ اقدس کے علم غیب کا عقیدہ:

(1)باب ”غریب مہاجرین جنت میں امیر مہاجرین سے پہلے جائیں گے“ میں حدیث ہے: ”غریب لوگ امیروں سے پانچ سو سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔“ اس کے تحت فرماتے ہیں: یہ ہرگز گمان نہ کرنا کہ تقدیر کی یہ بات اور اس جیسی دیگر باتیں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مبارک زبان پر کسی اندازے یا اتفاق سے جاری ہوتی ہیں، نہیں بلکہ یہ اس راز کی وجہ سے ہیں جس سے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم واقف ہیں اور اس نسبت کی وجہ سے ہیں جس کا احاطہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علم شریف نے کررکھا ہے کیونکہ آپ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے۔جیسا کہ شرح طیبی میں ہے۔ (حاشیہ جامع ترمذی،2/58)

(2)باب”کسی کو انتقال کے بعد جب کفن پہنادیا جائے تب اس کے پاس جانا“ میں حدیث کے جزء ”میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا“ کے تحت فرماتے ہیں: ”مَا“ یا تو موصولہ ہے یا استفہامیہ ہے۔ داؤدی کہتے ہیں: ”میرے ساتھ کیا کیا جائے گا“ یہ الفاظ (راوی کا) وہم ہیں درست یوں ہے کہ ”اس کے ساتھ کیا کیا جائےگا“ یعنی عثمان رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے ساتھ۔ ایک قول یہ ہے کہ حضورپاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے اس فرمان ”میرے ساتھ کیا کیا جائے گا“ میں احتمال ہے کہ یہ آپ کو اپنی مغفرت کا علم دیئے جانے سے پہلے کی بات ہو یا یہ مراد ہو سکتا ہے کہ ”میرے ساتھ دنیا میں کیا معاملہ ہوگا“ یا تفصیلی علم کی نفی مراد ہوسکتی ہے۔ (حاشیہ صحیح بخاری، 1/166)

(3)باب ”دنیا کی چمک دمک سے اور اس میں باہم فخر کرنے سے ڈراوا“ میں حدیث ہے: ”خدا کی قسم! میں ابھی اپنے حوض کی طرف دیکھ رہا ہوں۔“ اس کے تحت فرماتے ہیں: اس سے وہ حوض ثابت ہوتا ہے جس پرپیاسے امتی آکر سیراب ہوں گے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ حوض پیدا ہوچکا ہے اور اس فرمان میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے معجزے کے طور پر غیب کی خبر ارشاد فرمائی ہے۔ (حاشیہ صحیح بخاری،2/951)

(4)باب ”فرمانِ الٰہی ﴿m:"E'vâu[U"O اور فرمانِ الٰہی ﴿½²ï©"s2 ›z¡"“ کے تحت فرماتے ہیں: اس باب کا مقصد ربِّ کریم کے لیے صفتِ علم کو ثابت کرنا ہے اور اس میں معتزلہ کا رد بھی ہے کیونکہ معتزلہ کہتے ہیں کہ خدا بغیر علم کے عالم ہے۔ چنانچہ امام بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے یہاں پانچ آیتوں کے پانچ اجزاء ذِکْر فرمائے۔ فرمانِ باری تعالی میں ﴿ c“ocƒ¿"p کا مطلب ہے پسندیدہ رسول۔ رسول سے یا تو سارے رسول عَلَیْہِمُ السَّلَام مراد ہیں یا جبریلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام مراد ہیں کیونکہ وہ رسولوں عَلَیْہِمُ السَّلَام کی بارگاہ میں پیغامِ الٰہی لاتے تھے۔ غیب سے کیا مراد ہے اس میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ اپنے عمومی معنی پر ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ خاص وحی سے متعلق غیبی باتیں مراد ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ علمِ قیامت سے متعلق غیبی باتیں مراد ہیں لیکن یہ قول ضعیف ہے کیونکہ قیامت کا علم ان علوم میں سے ہے جنہیں اللہ پاک نے اپنے علم کے لیے خاص فرمایا ہے۔ ہاں یہ صورت ہوسکتی ہے کہ اس قول کے قائل نے یہ بات اختیار کی ہو کہ استثناء منقطع ہے۔ یعنی اس صورت میں یہ قول ضعیف نہیں ہوگا۔ (حاشیہ صحیح بخاری،2/1097)

حضور کے بلانے پردوران نماز بھی حکم ماننا واجب ہے:

(1)باب ”بیٹا نماز میں ہو اور ماں بُلائے“ کے تحت فرماتے ہیں: صاحب توضیح رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا: ہمارے اصحاب تصریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حضورنبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خصائص میں سے ہے کہ اگرا ٓپ کسی شخص کو بُلائیں اور وہ نماز میں ہو تب بھی اسے حکم ماننا واجب ہوگا (کہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوجائے) اور اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی ۔ یہ امام عینی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا فرمان ہے۔ (صحیح بخاری،1/161)

(2)باب ”سورۃ الفاتحہ کے متعلق جو وارد ہوا“ میں فرمانِ باری تعالی ﴿q§³"º2»“[6)"Z" کے تحت فرماتے ہیں: یہ آیتِ مبارکہ دلیل ہے کہ حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بلانے پر حاضر ہونا واجب ہے، اگر حاضر نہ ہوا تو گنہگار ہوگا۔ (صحیح بخاری،2/642)

کبیرہ گناہ والوں کو حضورِ اقدس ﷺ کی شفاعت ملنے کا عقیدہ:

(1)باب ”حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اپنی قوم کو عذاب سے ڈرانا“ میں حدیث ہے: ”اے فاطمہ! اے اولادِ عبد المطلب! میں تمہارے لیے اللہ پاک کی کسی چیز کا (بذات خود) مالک نہیں ہوں، ہاں! میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے مانگ لو۔“ اس کے تحت فرماتے ہیں: یعنی بغیر اذنِ الٰہی کے(میں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں) ، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ ڈرانے اور خوف دلانے کے لیے ارشاد فرمایا ہے۔ (لمعات) (جامع ترمذی،2/55)

(2)سورۃ الشعراء کی تفسیر میں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا جو فرمان آیا ہے: ”اے اولادِ عبد المطلب! میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں، میرے مال میں سے جو چاہو مجھ سے مانگ لو۔“ اس کے تحت فرماتے ہیں: مطلب یہ ہے اللہ پاک کے اِذن کے بغیر (میں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں)۔ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یہ خوف دِلانے اورڈراوے کے لیےفرمایا،ورنہ ان (اولادِ عبد المطلب) میں سے بعض کے فضائل ثابت ہیں اور ان کا جنت میں داخل ہونا، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اپنے اہلِ بیت کی اور عمومی طور پر اہلِ عرب اور اپنی امت کی شفاعت فرمانا اور ان کے حق میں آپ کی شفاعت قبول ہونا بھی احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ احادیث مبارکہ اس معاملے کے بعد وارد ہوئی ہوں۔ طیبی۔ (حاشیہ جامع ترمذی،2/149)

(3)باب ”شفاعت کے متعلق جو وارد ہوا“ میں حدیث ہے: ”میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لیے ہے۔“ اس کے تحت فرماتے ہیں: یعنی گناہ مٹانے کے لیے شفاعت۔ رہی درجات کی بلندی کے لیے شفاعت تو وہ ہر متقی و پرہیز گاراور اولیائے کرام کے لیے ہے اوراس پراہلِ اسلام کا اتفاق ہے۔ لمعات میں ایسا ہی ہے۔ (حاشیہ جامع ترمذی،2/66)

(4)دعوتوں کے باب میں حدیث ہے: ”ہر نبی کی ایک مقبول دعا ہوتی ہے۔“ اس کے تحت فرماتے ہیں: حدیث کے سیاق سے یہ سمجھ آتا ہے کہ عادتِ الٰہی ہے کہ ہر نبی کو ان کی امت کے لیے ایک دعا کی اجازت دی جاتی ہے جسے اللہ پاک قبول فرماتا ہے، ( گویایہ فرمایا کہ ) ہر نبی نے دنیا میں دُعا فرمالی اور ان کی دعا قبول کرلی گئی لیکن میں نے اپنی دعا کو مؤخر کیا اور بچائے رکھا تاکہ قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کروں پس روز محشر میری دعا ہر اس بندے کو پہنچےگی جس کا ایمان پر خاتمہ ہوا ہوگا۔ لمعات (حاشیہ جامع ترمذی،2/200)

ہاں حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لیے علوم خمسہ بشمول قیامت کے علم کے بارے میں جو عقیدہ ہے اس میں محشی نے اس حدیث پاک ”پانچ چیزیں اللہ پاک ہی جانتا ہے“ کے ظاہر پر عمل کیا اور اہل سنت و جماعت کے اختیارکردہ موقف کی مخالفت کی ہے اوریہ اس تحقیق کے خلاف ہے جو محقق علمائے کرام نے آیات واحادیث کے درمیان تطبیق دیتے ہوئے بیان فرمائی ہے جیسا کہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنی کتابِ مستطاب ”الدولۃ المکیۃ“ اور اس کے حاشیہ ”الفیوض الملکیۃ“ میں اس کی بہترین تفصیل فرمائی ہے۔

یاد رکھو! یہ اختلاف محض راجح اور مختار نظریہ متعین کرنے میں ہے،اس لیے نہیں کہ اس کے قائل کو کافر و مشرک قرار دے دیا جائے جیسا کہ وہابیہ کا طریقہ ہے۔ یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے جب کہ محشی خود کہہ چکے ہیں: یہ قول ضعیف ہے کیونکہ قیامت کا علم ان علوم میں سے ہے جنہیں اللہ پاک نے اپنے علم کے لیے خاص فرمایا ہے ہاں یہ صورت ہوسکتی ہے کہ اس قول کے قائل نے یہ بات اختیار کی ہو کہ استثناء منقطع ہے۔ (حاشیہ صحیح بخاری،2/1097)یعنی اگر ان قائلین کا مؤقف یہ ہو کہ حدیث شریف میں جو استثناء وارد ہوا ہے وہ استثناء منقطع ہے تو اس صورت میں یہ قول ضعیف نہیں ہوگا۔

اہلِ حق اور وہابیہ کے درمیان جن اختلافی فروعی مسائل میں محشی نے اہلِ سنت وجماعت کی موافقت کی ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

مزارات صالحین پر حاضری کے لیے سفر کاجائز ہونا:

باب ”مسجدِ مکہ ومسجدِ مدینہ میں نماز کی فضیلت“ میں حدیث ”کجاوے نہ باندھے جائیں“ کے تحت فرماتے ہیں: کجاوے باندھنا سفر سے کنایہ ہے یعنی قربِ الٰہی پانے کی نیت سے ان تین جگہوں کے علاوہ کسی جگہ کا رُخ نہ کیا جائے اور اس کی وجہ ان جگہوں کی تعظیم ہے۔ صالحین کے مزارات اور دیگر فضیلت والی جگہوں کے لیے سفر کرنے کے بارے میں اختلاف ہے۔ کوئی حرام کہتا ہے اور کسی کے نزدیک جائز کہتا ہے۔ یہ مجمع البحار میں فرمایا گیا۔ فتح الباری میں ہے کہ شیخ ابو محمد جوینی اس حدیث کے ظاہر پر عمل کرتے ہوئے حرام کہتے ہیں اور قاضی حسین نے اسی کواختیار کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ امام الحرمین اور دیگر شافعی علما کے نزدیک درست یہ ہے کہ یہ حرام نہیں ہے اوراس حدیثِ مبارکہ کے متعلق انہوں نے کئی جوابات دئیے ہیں: ایک یہ ہے کہ حدیث کا مطلب ہے کہ سفر کرنے میں کامل فضیلت تب ہے جب ان مسجدوں کی طرف سفر کیا جائے ورنہ دیگر مسجدوں کی طرف سفر کرنا محض جائز ہے ۔ ایک جواب یہ ہے کہ حدیث کا مطلب ہے کہ خاص نماز کے لیے کسی مسجد کا سفر کرنا ہو تو انہیں مساجد کی طرف سفر کیا جائے اوررہا کسی نیک بندے (یا اُس کے مزار) کی زیارت وغیرہ کے ارادے سے سفر تو وہ اس ممانعت میں داخل نہیں ۔اس کی تائید مسند احمد کی یہ حدیث پاک کرتی ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:” نمازی کے لیے روا نہیں کہ مسجدِ حرام، مسجدِ اقصی اور میری مسجد (نبوی) کے علاوہ کسی مسجد کی طرف نماز کے لیے کجاوہ باندھے۔“ امام ابن حجر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا کلام ختم ہوا اور عینی (عمدۃ القاری)میں بھی ایسا ہی ہے۔ (صحیح بخاری،1/158،رقم الحاشیہ:6)

کسی ولی کی قبرکے پاس مسجد بنانے کا جواز:

باب ”حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی علالت اور وصالِ ظاہری“ میں حدیث ہے: ”یہودونصاری پر خدا کی لعنت ہو، انہوں نے اپنے انبیائے کرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔“ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی امت کو اس عمل سے ڈرایا اور تنبیہ فرمائی ۔ امام بیضاوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: یہودی اورعیسائی انبیائے کرام کی تعظیم کے لیے ان کی قبروں کو سجدہ کرتے تھے، ان قبروں کو قبلہ بناکر نماز میں ان کی طرف منہ کرتے تھے اور ان قبروں کو اپنا معبود بنا رکھا تھا، تو حضور نبی کریمصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان پر لعنت فرمائی اور اپنی امت کو ایسا کرنے سے منع فرمایا۔ البتہ جو کسی نیک وصالح کی قبر کے پاس مسجد بنائے اور اس سے قبر کی تعظیم یا اس کی طرف توجہ مقصود نہ ہو بلکہ اس نیک وصالح کے قرب کی برکت حاصل کرنا مقصد ہو تو وہ اس وعید میں داخل نہ ہوگا۔ لمعات میں ہے: امام نووی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا کہ احادیث صحیحہ کے مطابق تبرک اور تعظیم کےطور پر قبر کی طرف یا قبر کے پاس نماز نہ پڑھی جائے اور اسے یقینی حرام سمجھنا ضروری ہے، میں نہیں سمجھتا کہ اس میں یعنی از روئے تبرک وتعظیم انبیا واولیا کی قبروں کی طرف نماز پڑھنے کی حرمت میں کسی کو اختلاف ہوگا۔ امام نووی کا کلام ختم ہوا۔ امام تورپشتی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:اگر بندے کو قبروں کے پاس ایسی جگہ مل جائے جو نماز کے لیے بنائی گئی ہو یا اس جگہ میں قبروں کی طرف توجہ (رُخ کرنے)سے نمازی محفوظ ہوجائے تو اسےکوئی ممانعت نہیں ۔ لمعات کا کلام ختم ہوا۔شرح طیبی اور مرقاۃ کے کلام کا حاصل بھی یہی ہے۔ (صحیح بخاری،2/639)

حدیث میں مذکورحکم ”قبروں کو برابر کردو“ کا معنی ومفہوم:

محدث سہارن پوری نے اس حدیث شریف لاَتَدْعُ قَبْرًا مُشْرِفًا اِلَّا سَوَّیْتَہُ یعنی کوئی اٹھی ہوئی قبر برابر کیے بغیر نہ چھوڑنا“کی شرح وہابی نظریہ کے خلاف وبرعکس کی ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں: ”قبرا مشرفا“ کا مطلب ہے اونچی قبر یعنی جس قبر پرعمارت بنائی گئی جس سے وہ اونچی ہوگئی ۔وہ قبر مراد نہیں جسے مٹی پتھر ریت اور کنکریوں سے اونچا کیا گیا ہوحتی کہ وہ زمین سے الگ نظر آنے لگے۔ ” برابر کرنے“ کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہموار کردیا جائے، نہ یہ کہ اسے زمین کے ساتھ برابر کردیا جائے،یوں روایتوں کے درمیان تطبیق ہوجائے گی۔ شرح الشیخ میں ایسا ہی ہے۔ امام ابن ہمام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: یہ حدیث اس پر محمول ہے کہ وہ لوگ عمارت بناکر قبریں اونچی کردیتے تھے(اس سے منع کیا گیا)۔ قبر کو کوہان نما بنانایا زمین سے اس قدر اونچی کردینا کہ زمین سے بالکل الگ نظر آئے ہم حدیث پاک سے یہ مراد نہیں لیتے۔وَاللہُ اَعْلَم اور اللہ بہتر جانتا ہے۔ آپ کا کلام ختم ہوا۔ ایک قول کے مطابق سنت یہ ہے کہ قبر کو ایک بالشت اونچا کیا جائے۔ امام ابنِ حبان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ روایت کرتے ہیں کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی قبرِ انوراسی طرح ہے۔ یہ بات شیخ محدثِ دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے لمعات میں ارشاد فرمائی ہے۔ (جامع ترمذی،1/125)اس سب کے برعکس وہابیہ کے نزدیک قبرکو برابر کردینے سے مراد اُسے زمین کے برابر کردینا ہے اور وہ لوگ اسے لازم وواجب سمجھتے ہیں اور مسلمانوں اور قابل احترام شخصیات کی قبروں کی توہین کی بھی پروا نہیں کرتے۔

امامت میں خلیفہ کرنے کی ضرورت نہ بھی ہو تب حضور اکرمﷺ امام ہوسکتے ہیں اور آپ چاہیں تو آپ کی تشریف آوری پر پہلے سے امامت کروانے والا مقتدی بن جاتا ہے:

حدیث شریف میں ہے: ”جب لوگوں نےبہت زیادہ تصفیق(یعنی ہاتھ کی پشت پرزورسے ہاتھ مارکر آواز پیدا) کی تو حضرت ابو بکرصدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ متوجہ ہوئے۔۔۔ پھر حضرت ابو بکر رَضِیَ اللہُ عَنْہ پیچھے ہوئے یہاں تک کہ صف میں برابر ہوگئے اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آگے بڑھے اور نماز پڑھائی“ اس کے تحت کہتے ہیں: علامہ عینی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا کہ حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا پیچھے ہونا اور حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا آگےبڑھ جاناآپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خصائص سے ہے۔ امام ابن عبد البر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اس بات پر اجماع کا دعوی کیا ہے کہ یہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علاوہ کسی اور کے لیے جائز نہیں۔ (حاشیہ صحیح بخاری،1/94) باب ”جو لوگوں کی امامت کے لیے آیا“

یہ بالکل وہی نظریہ ہے جسے سیدی حافظِ ملت ودین مولانا شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنی کتاب ”العذاب الشدید“ میں اختیار فرمایا ہے۔

فروعی مسائل میں محشی کا اہل سنت سے اختلاف:

وہ فروعی مسائل جن میں محشی نے اہل سنت سے اختلاف کیا ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

”قبرپرکھجور کی ٹہنی رکھنے“ کے باب میں فرماتے ہیں: اس عنوان سے مؤلف کی غرض اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ قبر پر ٹہنی رکھنا میت کو فائدہ نہیں دیتا جس طرح قبر پر خیمے سے سایہ کرنا میت کو فائدہ نہیں دیتا بلکہ نیک عمل اسے فائدہ دیتا ہے اور یوں ہی قبر پر بیٹھنے، اُس پراونچی عمارت بنانے اور قبر پھلانگنے سے میت کو کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ میت کو نفع نقصان اس کے اپنے عمل سے ہوتا ہے کسی اور چیز سے نہیں اور جو قبر پر کھجورکی ٹہنی رکھنے کے متعلق حضورِنبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کاعمل حدیث پاک میں آیا ہے وہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ خاص ہے۔ (صحیح بخاری،1/182،رقم الحاشیہ:1)

یوں ہی”کھجور کی ٹہنی رکھنے“ کے باب ہی میں کہتے ہیں: امام ابن ہمام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا کہ قبر پر بیٹھنا اور قبر کوپیروں سے روندنا مکروہ ہے۔ کلام ختم ہوا۔ اس سے مراد مکروہِ تنزیہی ہے جس کی حقیقت خلافِ اولیٰ ہے جیسا کہ امام ابنِ ملک نے ”المبارق شرح المشارق“ میں یہ بات صاف طور پر بیان کی ہے۔ چنانچہ ”قبروں پر نہ بیٹھو“ کے بیان میں فرماتے ہیں:یہ ممانعت تنزیہی ہے کیونکہ اس میں میت کی بے قدری ہے اور بعض علما نے اسے مکروہ قرار نہیں دیا ہے کیونکہ حضرت عبْدُ اللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہ کے بارے میں مروی ہے کہ آپ قبروں پر بیٹھتے تھے اور یہ کہ حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ قبروں پر لیٹ جاتے تھے اور یہ علماممانعت والی حدیث کو ”قبرپر پیشاب کے لیے بیٹھنے “ پر محمول کرتے ہیں۔ کلام ختم ہوا۔ حضرت ملا علی قاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ شرح موطأ میں فرماتے ہیں: ممانعت تنزیہی ہے اور حضرت علی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا عمل توہین نہ ہونے کی صورت میں اجازت و رخصت پر محمول ہے ۔ کلام ختم ہوا۔ اور بہتر یہ ہے کہ اختلاف سے بچنے کے لیے اجتناب ہی کیا جائے۔ (صحیح بخاری،1/182)

حواشی میں محشی کی عادت:

محشی کی عمومی عادت ہے کہ وہ حدیث کی شرح میں بزرگوں کا کلام نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں منقول کلام کے علاوہ اپنی طرف سے کم ہی کچھ کہتے ہیں، شروحات سے جو نقل فرماتے ہیں وہ یا تو بعینہ لفظوں کے ساتھ نقل فرماتے ہیں یا اس کا خلاصہ ذِکْر کرتے ہیں اور میں انہیں نقل کرنے میں قابلِ اعتماد ہی سمجھتا ہوں ہاں لیکن اچھے اور معمولی میں کچھ فرق نہیں کرتے ہیں بلکہ حدیث سے کیا کچھ ثابت ہوتا ہے یا کیا استنباط ہوتا ہے اس کے متعلق جو مختلف آراء ہوتی ہیں ان میں سے مضبوط اور کمزور بات، صحیح اور ہلکی بات میں فرق کیے بغیر محدث سہارن پوری اپنے حواشی میں ذِکْر کردیتے ہیں پس ان مختلف صورتوں اور الگ الگ آراء میں حق چھپ کر رہ جاتا ہے،پھر ہر کوئی اپنی پسند کی رائے لے لیتا ہے اور اس شرح سے ہر کوئی راضی ہوجاتا ہے۔کتنی ایسی جگہیں ہیں جہاں حق وباطل میں فرق کرنے کے لیے وضاحت کی ضرورت تھی لیکن وہاں یہ خاموش رہتے ہیں یا صرف لفظ وغیرہ کی شرح پر اکتفا کرتے ہیں اور اس کے سوا کچھ نہیں کہتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ عبارتوں کی طرح ان کی شخصیت بھی مبہم ہوگئی ہے، لیکن ہم ان کے بارے میں بد گمانی نہیں کرتے اور نہ ہی شریعت اس کی اجازت دیتی ہے، میرے نزدیک فیصلہ کن بات یہ ہے کہ وہ علمائے اہل سنت میں سے ہیں لیکن ہمارے لیے سند اور حجت نہیں ہیں کیونکہ اختلافی معاملات میں حق وراجح موقف بیان کرنے میں وہ تساہل سے کام لیتے ہیں لہذا جو ان کے حواشی سے استفادہ کرتا ہے اسے چاہیے کہ ان حواشی کا مطالعہ گہری نظر اور کامل غور وفکر کے ساتھ کرے تاکہ صاف باتوں کو میلی باتوں سے جدا کرسکے اور ان پر ایسا بھروسا نہ کرے جیسا لمعات، عینی اور مرقاۃ پر کیا جاتا ہے۔ یہ ہر معاملے میں نہیں ہے بلکہ انہی معاملات میں دھیان رکھنے کی ضرورت ہے جن میں خاص کرآج کے زمانے میں اہل حق اور اہل باطل کے درمیان اختلاف ہے۔ یہ میری رائے ہے اور امید ہے کہ ہمارے علمائے کرام کے نزدیک بھی یہ بات درست ہوگی۔

نزہۃ الخواطر سے محشی کا تعارف:

نزہۃ الخواطر میں محدث سہارن پوری کے تعارف میں لکھا ہے:

سہارن پور میں پیدائش وپرورش ہوئی۔ کچھ ابتدائی تعلیم اپنے شہر کے اساتذہ سے حاصل کی۔ پھر دہلی کی طرف سفر کیا اور شیخ مملوک علی نانوتوی سے تعلیم حاصل کی اور حدیث کی سند میں اس سلسلہ سے وابستہ ہوئے: محدث سہارن پوری کے استاد شیخ وجیہ الدین سہارن پوری، ان کے استاد شیخ عبد الحق بن ہبۃ اللہ برہانوی اور ان کے استاد شیخ عبد القادر بن ولی اللہ دہلوی ہیں۔ پھر مکہ شریف کا سفر کیاحج بَیْتُ اللہ شریف کی سعادت سے مشرف ہوئے، صحاح ستہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی بن شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے پوتے شیخ اسحاق بن محمد افضل دہلوی مہاجر مکی سے پڑھیں اور ان سے اجازتِ حدیث بھی حاصل کی۔ مدینہ منورہ کا سفر کیا اور درِ حضور کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنایا۔ پھر ہندوستان لوٹ آئے اور مسندِ تدریس پر براجمان ہوئے اور حصول رزق کے لیے تجارت کو ذریعۂ معاش بنایا۔ وہ سچے، امانت دار اور حدیث پر گہری نظر رکھنے والے عالم تھے۔ اپنی زندگی صحاح ستہ بالخصوص بخاری شریف کی تدریس وتصحیح میں لگادی ۔ دس سال تک بخاری شریف پڑھائی،اس کی تصحیح کی اور اس پر تفصیلی حاشیہ لکھا۔6 جمادی الاولی 1297 سن ہجری کو سہارن پور شہر میں فالج سے انتقال ہوا اور وہیں سپردِ خاک ہوئے۔

محمد نظام الدین رضوی مصباحی

مدرس ومفتی جامعہ اشرفیہ مبارک پور۱۵-۰۵-۱۴۲۳

27-7-2002

عربی سے ترجمہ: محمد عباس مدنی عطاری

تقابل ونظرثانی: محمد آصف اقبال عطاری مدنی 


تحریر: مولانا سید کریم الدین عطاری مدنی

اسکالر المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر ،دعوتِ اسلامی)

قراٰنی آیات ،کثیر احادیث ، تمام صحابہ و اہلبیت ،تمام امت ،سارے مجتہدین، سب مفسرین، محدیثین، تمام فقہا و متکلمین اور پوری امتِ محمد یہ کا 1400 سوسال سے حتمی اور یقینی فیصلہ ہے جس میں دو رائے بالکل نہیں کہ” حضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ عزوجل کے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا جو کہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی ہوا یا ہوسکتا ہے وہ کافر ہے کیونکہ وہ قرآنی آیات اور کثیر متواتر احادیث اور صحابہ کرام سے لیکر اب تک جو صحیح اور یقینی مفہوم جو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ملا اور ہم تک پہنچا اس کا انکار کرنے والا ہے ۔

7 ستمبرکو یوم تحفظ ختم نبوت ہے اس میں کیا بل پاس کیا گیا ؟

07ستمبر 1974کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس میں ختمِ نبوت کا تاریخی بل پیش کیاگیا۔آخرکار قومی اسمبلی نے اپنے فیصلےکا اعلان کیا کہ "مرزا قادیانی کے ماننے والے ہر دو گروپ غیر مسلم ہیں اور اس شق کو باقاعدہ آئین کا حصہ بنادیا گیا۔ قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے بعد وعدہ کیا گیا تھا کہ اس سلسلے میں باقاعدہ قانون سازی کی جائے گی، تاکہ قادیانی اپنے لئے اسلام اور مسلمان کا لفظ اور دیگر اسلامی اصطلاحات استعمال نہ کرسکیں، مگر اس سلسلے میں ٹال مٹول سے کام لیا گیا اور قانون سازی نہ کی جاسکی تا آنکہ۱۹۸۴ء میں ایک بار پھر تحریک کو منظم کیا گیا جس کے نتیجے میں امتناع قادیانیت "آرڈیننس منظور ہوا جس کی رو سے قادیانیوں کے لئے اپنے آپ کو مسلمان کہنا یا کہلوانا، اپنی عبادت گاہ کو مسجد قرار دینا ، اذان دینا، کلمہ طیبہ کا بیج لگانا، مرزا غلام احمد کو نبی کہنا، اس کے ساتھیوں کو صحابی اور اس کی بیویوں کو امہات المؤمنین کہنا وغیرہ الفاظ کا استعمال قابلِ تعزیر جرم قرار دیا گیا۔" (روزنامہ جنگ)

اللہ رب العزت قرآنِ مجید میں فرماتا ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجمۂ کنزُالایمان:محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے

تفسیر خزائن العرفان میں اس آیت کے تحت تفسیر میں ہے : (محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ) کی تفسیر میں فرماتے ہیں ۔تو حضرت زید کے بھی آپ حقیقت میں باپ نہیں کہ ان کی منکوحہ آپ کے لئے حلال نہ ہوتی ، قاسم و طیّب و طاہر و ابراہیم حضور کے فرزند تھے مگر وہ اس عمر کو نہ پہنچے کہ انہیں مرد کہا جائے ، انہوں نے بچپن میں وفات پائی ۔

(ہاں اللہ کے رسول ہیں) کی تفسیر میں فرماتے ہیں ۔۔

اور سب رسول ناصح شفیق اور واجب التوقیر و لازم الطاعۃ ہونے کے لحاظ سے اپنی اُمّت کے باپ کہلاتے ہیں بلکہ ان کے حقوق حقیقی باپ کے حقوق سے بہت زیادہ ہیں لیکن اس سے اُمّت حقیقی اولاد نہیں ہو جاتی اور حقیقی اولاد کے تمام احکام وراثت وغیرہ اس کے لئے ثابت نہیں ہوتے ۔

(اور سب نبیوں کے پچھلے) کی تفسیر میں فرماتے ہیں ۔۔

یعنی آخر الانبیاء کہ نبوّت آپ پر ختم ہو گئی آپ کی نبوّت کے بعد کسی کو نبوّت نہیں مل سکتی حتّٰی کہ جب حضرت عیسٰی علیہ السلام نازل ہو ں گے تو اگرچہ نبوّت پہلے پا چکے ہیں مگر نُزول کے بعد شریعتِ محمّدیہ پر عامل ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظّمہ کی طرف نماز پڑھیں گے ، حضور کا آخر الانبیاء ہونا قطعی ہے ، نصِّ قرآنی بھی اس میں وارد ہے اور صحاح کی بکثرت احادیثِ تو حدِّ تواتر تک پہنچتی ہیں ۔ ان سب سے ثابت ہے کہ حضور سب سے پچھلے نبی ہیں آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں جو حضور کی نبوّت کے بعد کسی اور کو نبوّت ملنا ممکن جانے ، وہ ختمِ نبوّت کا منکِر اور کافِر خارج از اسلام ہے ۔(پ:22،الاحزاب:40) (خزائن العرفان ص:783 مکتبۃ المدینۃ)

عقیدہ ختم نبوتکے متعلق جتنے مضامین ماہنامہ فیضان مدینہ میں شائع ہوئے ہیں ان کو ایک جگہ جمع کیا گیا ہے۔ اس کو ملاحظہ فرمانے کے لئے لنک حاضر ہے۔۔ https://data2.dawateislami.net/Data/Books/Download/ur/pdf/2020/2145-1.pdf?fn=aqeeda-khatam-e-nabuwat

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰)

ترجمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے

ترجمۂ کنزُالعِرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والاہے۔

{ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں ۔} جب سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے نکاح فرمالیاتوکفاراورمنافقین یہ کہنے لگے کہ آپ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا ہے !اس پریہ آیت نازل ہوئی اورارشادفرمایاگیاکہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تم میں سے کسی کے باپ نہیں تو حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے بھی آپ حقیقت میں باپ نہیں کہ ان کی مَنکوحہ آپ کے لئے حلال نہ ہوتی ۔یاد رہے کہ حضرت قاسم ، طیب ، طاہر اور ابراہیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حقیقی فرزند تھے مگر وہ اس عمر کو نہ پہنچے کہ انہیں رجال یعنی مرد کہا جائے کیونکہ وہ بچپن میں ہی وفات پاگئے تھے۔ (آیت میں مذکراولاد کی نفی نہیں بلکہ رجال یعنی بڑی عمر کے مردوں میں سے کسی کے باپ ہونے کی نفی ہے۔) (خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۵۰۳، جلالین، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۳۵۵، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۹۴۳، ملتقطاً)

{ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ: لیکن اللہ کے رسول ہیں ۔} آیت کے شروع کے حصہ میں فرمایا کہ محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن جیسے جسمانی باپ ہوتا ہے ایسے ہی روحانی باپ بھی ہوتا ہے تو فرمادیا کہ اگرچہ یہ مردوں میں سے کسی کے جسمانی باپ نہیں ہیں لیکن روحانی باپ ہیں یعنی اللہ کے رسول ہیں توآیت کے اِس حصے سے مراد یہ ہوا کہ تما م رسول امت کو نصیحت کرنے ،ان پر شفقت فرمانے، یونہی امت پر ان کی تعظیم و توقیر اور اطاعت لازم ہونے کے اعتبار سے اُمت کے باپ کہلاتے ہیں بلکہ اُن کے حقوق حقیقی باپ کے حقوق سے بہت زیادہ ہوتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ امت ان کی حقیقی اولاد بن گئی اور حقیقی اولاد کے تمام احکام اس کے لئے ثابت ہوگئے بلکہ وہ صرف ان ہی چیزوں کے اعتبار سے امت کے باپ ہیں جن کا ذکر ہوا اورنبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی چونکہ اللہ کے رسول ہیں اور حضرت زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ ان کی حقیقی اولاد نہیں ،تو ان کے بارے میں بھی وہی حکم ہے جو دوسرے لوگوں کے بارے میں ہے ۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۵۰۳، مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۰، ص۹۴۳، ملتقطاً)

{ َ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ: اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں ۔} یعنی محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آخری نبی ہیں کہ اب آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعدکوئی نبی نہیں آئے گا اورنبوت آپ پر ختم ہوگئی ہے اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی حتّٰی کہ جب حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نازل ہو ں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پاچکے ہیں مگر نزول کے بعد نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شریعت پر عمل پیرا ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز پڑھیں گے۔( خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ: ۴۰، ۳ / ۵۰۳)

نبیٔ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا آخری نبی ہو نا قطعی ہے:

یاد رہے کہ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا آخری نبی ہونا قطعی ہے اور یہ قطعیَّت قرآن و حدیث و اِجماعِ امت سے ثابت ہے ۔ قرآن مجید کی صریح آیت بھی موجود ہے اور اَحادیث تَواتُر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور امت کا اِجماعِ قطعی بھی ہے، ان سب سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سب سے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں ۔ جو حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے وہ ختمِ نبوت کا منکر، کافر اور اسلام سے خارج ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اللہ عَزَّوَجَلَّ سچا اور اس کا کلام سچا، مسلمان پر جس طرح لَا ٓاِلٰـہَ اِلَّا اللہ ماننا، اللہ سُبْحٰنَہٗ وَتَعَالٰی کو اَحد، صَمد، لَا شَرِیْکَ لَہ (یعنی ایک، بے نیاز اور اس کا کوئی شریک نہ ہونا) جاننا فرضِ اوّل ومَناطِ ایمان ہے، یونہی مُحَمَّدٌ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ماننا ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی ٔجدید کی بِعثَت کو یقیناً محال وباطل جاننا فرضِ اَجل وجزئِ اِیقان ہے۔ ’’وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ‘‘ نص ِقطعی قرآن ہے، اس کا منکر نہ منکر بلکہ شبہ کرنے والا، نہ شاک کہ ادنیٰ ضعیف احتمال خفیف سے توہّم خلاف رکھنے والا، قطعاً اجماعاً کافر ملعون مُخَلَّد فِی النِّیْرَان (یعنی ہمیشہ کے لئے جہنمی) ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کے عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، جو اس کے کافر ہونے میں شک و تَرَدُّد کو راہ دے وہ بھی کافر بَیِّنُ الْکَافِرْ جَلِیُّ الْکُفْرَانْ (یعنی واضح کافر اور اس کا کفر روشن) ہے۔( فتاویٰ رضویہ، رسالہ: جزاء اللّٰہ عدوہ باباۂ ختم النبوۃ، ۱۵ / ۶۳۰)

ختمِ نبوت سے متعلق10اَحادیث:

یہاں نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آخری نبی ہونے سے متعلق10اَحادیث ملاحظہ ہوں :

(1)حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میری مثال اورمجھ سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے بہت حسین وجمیل ایک گھربنایا،مگراس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ،لوگ اس کے گردگھومنے لگے اورتعجب سے یہ کہنے لگے کہ اس نے یہ اینٹ کیوں نہ رکھی؟پھرآپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا میں (قصر ِنبوت کی) وہ اینٹ ہوں اورمیں خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ہوں ۔( مسلم، کتاب الفضائل، باب ذکر کونہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خاتم النبیین، ص۱۲۵۵، الحدیث: ۲۲(۲۲۸۶))

(2)حضرت ثوبان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ نے میرے لیے تمام روئے زمین کولپیٹ دیااورمیں نے اس کے مشرقوں اورمغربوں کودیکھ لیا۔ (اور اس حدیث کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ) عنقریب میری امت میں تیس کذّاب ہوں گے، ان میں سے ہرایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خَاتَمَ النَّبِیّٖن ہوں اورمیرے بعدکوئی نبی نہیں ہے ۔( ابوداؤد، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلہا، ۴ / ۱۳۲، الحدیث: ۴۲۵۲)

(3)حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے چھ وجوہ سے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر فضیلت دی گئی ہے ۔(1)مجھے جامع کلمات عطاکیے گئے ہیں ۔ (2)رعب سے میری مددکی گئی ہے۔ (3)میرے لیے غنیمتوں کوحلال کر دیا گیا ہے۔ (4)تمام روئے زمین کومیرے لیے طہارت اورنمازکی جگہ بنادیاگیاہے ۔(5)مجھے تمام مخلوق کی طرف (نبی بنا کر) بھیجاگیاہے۔ (6)اورمجھ پرنبیوں (کے سلسلے) کوختم کیاگیاہے۔( مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، ص۲۶۶، الحدیث: ۵(۵۲۳))

(4)حضرت جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک میرے متعدد نام ہیں ، میں محمد ہوں ، میں احمد ہوں ، میں ماحی ہوں کہ اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے، میں حاشر ہوں میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں ۔( ترمذی، کتاب الادب، باب ما جاء فی اسماء النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ۴ / ۳۸۲، الحدیث: ۲۸۴۹)

(5)حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’میں تمام رسولوں کا قائد ہوں اور یہ بات بطورِ فخرنہیں کہتا، میں تمام پیغمبروں کا خاتَم ہوں اور یہ بات بطورِ فخر نہیں کہتا اور میں سب سے پہلی شفاعت کرنے والا اور سب سے پہلا شفاعت قبول کیا گیا ہوں اور یہ بات فخر کے طور پر ارشاد نہیں فرماتا ۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، ۱ / ۶۳، الحدیث: ۱۷۰)

(6)حضرت عرباض بن ساریہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک میں اللہ تعالیٰ کے حضور لوحِ محفوظ میں خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ (لکھا) تھا جب حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔(مسند امام احمد، مسند الشامیین، حدیث العرباض بن ساریۃ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم،۶ / ۸۷، الحدیث:۱۷۱۶۳)

(7)حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی ،اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی۔( ترمذی،کتاب الرؤیا عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،باب ذہبت النبوّۃ وبقیت المبشَّرات،۴ / ۱۲۱،الحدیث:۲۲۷۹)

(8)حضرت سعدبن ابی وقاص رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے ارشاد فرمایا: ’’اَمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ہَارُوْنَ مِنْ مُوسٰی غَیْرَ اَنَّہٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ ‘‘(مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علیّ بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ، ص۱۳۱۰، الحدیث: ۳۱(۲۴۰۴)) یعنی کیا تم اس پر راضی نہیں کہ تم یہاں میری نیابت میں ایسے رہو جیسے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام جب اپنے رب سے کلام کے لئے حاضر ہوئے تو حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنی نیابت میں چھوڑ گئے تھے، ہاں یہ فرق ہے کہ حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نبی تھے جبکہ میری تشریف آوری کے بعد دوسرے کے لئے نبوت نہیں اس لئے تم نبی نہیں ہو۔

(9)حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے شَمائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دو کندھوں کے درمیان مہر ِنبوت تھی اور آپ خاتَمُ النَّبِیِّیْن تھے۔(ترمذی،کتاب الرؤیا عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،باب ذہبت النبوّۃ وبقیت المبشَّرات،۴ / ۱۲۱، الحدیث: ۲۲۷۹)

(10)حضرت ابو امامہ باہلی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اے لوگو!بے شک میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمہارے بعد کوئی امت نہیں ،لہٰذا تم اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ نمازیں پڑھو،اپنے مہینے کے روزے رکھو،اپنے مالوں کی خوش دلی کے ساتھ زکوٰۃ ادا کرو ،اپنے حُکّام کی اطاعت کرو (اور) اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ۔(معجم الکبیر، صدی بن العجلان ابو امامۃ الباہلی۔۔۔ الخ، محمد بن زیاد الالہانی عن ابی امامۃ، ۸ / ۱۱۵، الحدیث: ۷۵۳۵)

کثیر دلائل جاننے کے لئے:

نوٹ: حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ختمِ نبوت کے دلائل اور مُنکروں کے رد کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے فتاویٰ رضویہ کی14ویں جلد میں موجود رسالہ ’’اَلْمُبِیْن خَتْمُ النَّبِیِّیْن‘‘ (حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے آخری نبی ہونے کے دلائل) اور15ویں جلد میں موجود رسالہ ’’جَزَاءُ اللہِ عَدُوَّہٗ بِاِبَائِہٖ خَتْمَ النُّبُوَّۃِ‘‘ (ختم نبوت کا انکار کرنے والوں کا رد) اور مطالعہ فرمائیں ۔(صراط الجنان جلد8 صفحہ 46-50 مکتبۃ المدینہ)

اگر اس کے لحاظ سے مزید مطالعہ فرمانا چاہیں تو پرفیسر محمد امین آسی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "تحفظ ختم نبوت جلد دوم" کے صفحے 1007 سے لیکر 1023 تک جو کتا ب ختم نبوت پر لکھی گئیں اس میں اُن مختلف رسائل کا نام ا ور تعارف لکھا گیا ہے اور اس رسائل میں جو بڑا کام کیا گیا اور وہ کئی جلدوں پر مشتمل ہے اور وہ مفتی امین صاحب کا ایک انسائیکلوپیڈیا کتاب بنام "عقیدہ ختم نبوت" جو کہ تقریبا 13 سے 14 جلدوں پر مشتمل ہے اس کوبھی مطالعہ فرماسکتے ہیں۔آپ کو کافی معلومات حاصل ہوسکتی ہے۔جزاک اللہ عزوجل ۔

اللہ عزوجل ہمارے اور ہمارے موجودہ اور آئندہ آنے والی نسلوں کے ایمان و عقیدےکی حفاظت فرمائے اور ہمیں ہمیشہ مرتے دم تک دین اسلام پر قائم ودائم رکھے اوراسی کے ساتھ عمر درازی بالخیر فرمائے اور جب خاتمہ ہو تو ۔ایمان پر، دین اسلام پر خاتمہ فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین


شکریہ  امیر اہل سنت ، شکریہ دعوت اسلامی

اللہ کریم نے دنیا میں انسانوں کی فلاح و بہبود ، ان کی اصلاح اور کردار کو سنوارنے کے لئے وقتا فوقتا انبیاءکرام کواس دنیا میں بھیجا، ہر نبی نے لوگوں کواللہ کریم کی وحدانیت اور اس کے آگے سربسجود ہونےکی دعوت دی اور اپنے افعال و کردار کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کی ۔ سب نبیوں کے آخر میں اللہ کریم نے انسانوں کو اپنا پیارا محبوب عطافرمایااور قیامت تک کے لیے نبوت کا دروازہ بند کردیااور انبیاء کی بعثت کے اس مقصد کو اپنے محبوب کی امت کے ذمہ لگا دیا، جیساکہ قرآن مجید ،فرقان حمید کےپارہ 4 سورۂ ال عمران میں اس بات کو یوں بیان کیا:

وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔

ترجمہ :اور تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری بات سے منع کریں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (سورہ اٰل عمران، آیت 104)

قرآن کریم کی اس آیت سے معلوم ہوا کہ مجموعی طور پر تبلیغِ دین فرضِ کفایہ ہے۔ اس کی بہت سی صورتیں ہیں جیسے مصنفین کا تصنیف کرنا، مقررین کا تقریر کرنا، مبلغین کا بیان کرنا، انفرادی طور پر لوگوں کو نیکی کی دعوت دینا وغیرہ، یہ سب کام تبلیغِ دین کے زمرے میں آتے ہیں اور بقدرِ اخلاص ہر ایک کو اس کی فضیلت ملتی ہے۔

تبلیغ قَولی بھی ہوتی ہے اور عملی بھی اور بسااوقات عملی تبلیغ قولی تبلیغ سے زیادہ مُؤثّر ہوتی ہے۔یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام ،تابعین و تبع تابعین اور دیگر بزرگان دین نے بھی لوگوں کی اصلاح کے لئے مختلف طریقے اپنائے اور کثیر لوگوں کے ایمان و عقائد کو محفوظ کرکے انہیں خالق کائنات کے مقرب و محبوب بندوں میں شامل کروانے کی کوششیں کی ۔ نبی کریم کی سنتوں کے پیکر،صحابہ کرام وتابعیناور بزرگان دین کی سچی محبت سےلبریز اللہ کےایک نیک بندےاور کراچی کے ایک چھوٹے سے علاقے کی ایک مسجد کے ایک امام نے 2ستمبر1981 میں مسلمانوں کی اصلاح کرنے اور ان کے کردار کو سنوارنے کے لئے ایک تحریک بنام ”دعوتِ اسلامی “ بنائی اور اس تحریک کا ایک مقصد رکھا کہ ”مجھےاپنی اور ساری دنیاکے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے “

اور یہ بات مشہور ہےکہ ترغیب کے لئے سراپائے ترغیب بننا پڑتاہے ،اللہ کےاس نیک بندے نے اپنے کردار سے اس بات کو سچ کردکھایا اور لوگ ان کے قول و فعل سے متاثر ہونے لگےاسلام کی بہاریں نظر آناشروع ہوگئیں۔ مسلمانوں کے عقائد و نظریات اور ان کے کردار کو سنوارنے کے لئے مساجد کی تعمیر ات شروع ہو گئیں ۔ بچوں اور نو جوانوں کو قرآن و حدیث کی تعلیمات سے آشنا کرنے کے لئے ہر طرف مدارس کی تعمیرات شروع ہو گئیں ۔ان مدارس کی کامیابی اس طرح روز روشن کی طرح واضح ہو رہی ہیں کہ ان سے فارغ التحصیل مدنی علماء سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں دین متین کی خدمت اور لوگوں کو نبی کریم کی سنتوں اور اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آشنا کررہے ہیں۔

اسلام کی تعلیمات پر عمل پیراامیر اہل سنت کےتربیت یافتہ مریدین کو دیکھ کر آج لوگ یہ بات کہنے پرمجبور ہوگئے کہ یہی لوگ اسلام پرعمل کرنے والےلوگ ہیں،جنہوں نے دین اسلام کی تعلیمات کو دیکھنا ہوتو ان کے کردار کو دیکھ لیں ۔

آج دنیا میں اگر کسی بھی شخصیت کی کامیابی اور نا کامی کا فیصلہ کرناہوتو اس کی دو چیزوں کو دیکھا جاتاہے ۔ (1) اس نے کہا کیا تھا؟ (2) اور کیا کیاہے ؟

اللہ پاک کےفضل و کرم سے قبلہ شیخ طر یقت، امیر اہل سنت نے آج تک جو جو باتیں کیں الحمدللہ! ان کو کرکےدیکھایا ۔ لاکھوں لوگ ان کے دامن سے وابستہ ہوکر نیک ، نمازی بن گئے، کئی غیرمسلمانوں کو دامن اسلام سے وابستہ ہونےکی سعادت نصیب ہو گئی ۔ 2ستمبر 2021 کو اس تحریک کو 40سال مکمل ہونے جارہے ہیں اور ان چالیس سالوں کے اندر اللہ پاک کے فضل و کرم ،نبی کریم کی نظر عنایت اور بزرگان ِ دین کے فیضان سے مالامال اس تحریک نے جس شعبے میں بھی قدم رکھا وہ اپنی مثال آپ ہے ، حالات زمانہ کےحساب سے امتِ مسلمہ کو جس جس شعبے کی ضرورت پیش آتی رہی یہ تحریک اس شعبے میں امت مسلمہ کی خدمت کرتی نظر آئی اور تاریخ میں سنہری حروف سے لکھاجائے گا کہ

جب کرونا جیسی مہلک وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تو اس وقت تھلیسیمیا کےمریضوں کو خون دینے سے لے کر لاک ڈاون کی وجہ سے تقریبا 25لاکھ غریب مسلمانوں کے گھروں میں راشن پہنچا کر خیر خواہی امت کا حق ادا کیا۔

اسی طرح جب صحابہ کرام کی شان میں نازیبا کلمات کہے جانے لگےتو اس مرد قلندر نے ہرصحابی نبی جنتی جنتی کانعرہ دے کر مسلمانوں کے عقائد ونظریات کو محفوظ کیا۔

قبلہ شیخ طریقت امیر اہل سنت اور آپ کی تحریک دعوت اسلا می کا شکریہ ادا کریں تو کس کس پہلو سے کریں؟ دعوت اسلامی ا ب تک80 سے زائد شعبہ جات میں اسلام کی تعلیمات کو عام کرتی نظرآ رہی ہے۔ بندۂ ناچیز ترمذی شریف کی اس حدیثِ مبارکہ پر عمل کی نیت سے کہ جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہ کیا اس نے اللہ کا بھی شکرادا نہ کیا۔(ترمذی ،3/384،حدیث:1962 )

قبلہ امیر اہل سنت اور تمام اراکین شوری کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہے ” شکریہ امیراہل سنت ، شکریہ دعوت اسلامی “ اور ساتھ ہی دعوت اسلامی کو 40 سال دین متین کی خدمت کرنے پرحضرت علامہ مولانا محمد الیا س عطار قادری اور اراکین شوری اور تمام دعوت اسلامی والوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔

اللہ کریم قبلہ شیخ طریقت ، امیراہل سنت ، تمام اراکین شوری ( جو اپنی زندگی کے قیمتی لمحات دین کی خدمت کے لئے صرف کر رہے ہیں ان سب )کو اور تمام دعوت اسلامی والوں کو بے شمار برکتیں عطافرمائے اور اس تحریک کو مزید دنیا بھر میں دین اسلام کی حقیقی تعلیمات کو عام کرنے کے توفیق عطافرمائے۔

آمین

عبدالجبار عطاری مدنی

المدینۃ العلمیہ (شعبہ ذمہ دار رسائل دعوت اسلامی )

1/9/2021

الحمد اللہ علی احسانہ امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ کےاخلاص ،لگن اور شب و روز کی مسلسل کاوشوں کےنتیجے میں اَب2021ءبمطابق 1443ھ میں دعوت اسلامی کو 40 سال مکمل ہونے جارہے ہیں۔

اس سلسلے میں رواں سال 2 ستمبر2021ء بروز جمعرات کو عالمی مدنی مزکز فیضان مدینہ میں 40 واں یومِ دعوت اسلامی منایا جائے گا جس میں امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے اور نگرانِ شوریٰ مولانا حاجی محمد عمران عطاری دعوتِ اسلامی کی اصلاح معاشرہ کےحوالےسے کی جانےوالی دینی خدمات سے آگاہی دیں گے۔اس موقع پر امیر ِدعوت اسلامی مولانا محمدالیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ نےاسلامی بھائیوں کو شکرانے کے 2 رکعت نفل ادا کرنےکی ترغیب بھی دلائی ہے۔

یومِ دعوت اسلامی کا بنیادی مقصد اللہ پاک کی اس نعمت کا شکر ادا کرنا ہےکہ اس نے ہمیں اس پُر فتن دور میں ایسا دینی ماحول عطا کیا جس نے معاشرے کےکتنے ہی بگڑےہوئے لوگوں کو سنوارا۔ بزرگان دین علیہ الرحمہ نےہر دور میں امت مسلمہ کی اصلاح کےلئےشریعت کےاندر رہتےہوئےاصلاح کےمختلف انداز اپنائے تاکہ مسلمان خواب غفلت سےبیدار ہوں اور غیر مسلم اسلام کی طرف مائل ہوں ۔ دعوت اسلامی نےبھی اپنے بزرگوں کےنقش قدم پر چلتےہوئےکتنےہی بےنمازیوں کو نمازی بنادیا اور ان میں سےکتنوں کو امامت کورس کرواکرمنصب امامت پر فائزکردیا ۔پاکستان انتظامی امور کے نگران رکن شوریٰ حاجی شاھد عطاری دعوت اسلامی کاتعارف پیش کرتےہوئے فرماتے ہیں کہ کیا بعید ایسے افراد ہی امامت کورس بھی کرواتےہوں، بدکردار لوگوں کو باکردار مسلمان بنادیا،سنت سےدور کتنےہی افراد کوشارع سنت کے رستےپر گامزن کردیا ،اسی طرح فیشن پَرست اوربےپردہ عورتوں کو چادر و چار دیوار ی کا درس دیگر انہیں شرعی پردہ کرنےوالا بنادیا ۔مزیدامیر اہل سنت کےتربیت یافتہ مبلغین کی انفرادی کوشش اور مدنی چینل دیکھ کر کتنےہی غیر مسلم ایمان کی دولت سےمالامال ہوگئے۔مسلمانوں کو نصیحت کرنےکاحکم رب کریم عزوجل نے دیا ہے۔جیساکہ ارشاد خداوندی ہے:

وَّ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ ترجمہ: اور سمجھاؤکہ سمجھانامسلمانوں کوفائدہ دیتاہے۔(الذاریات:51/55)

اسی طرح دعوت اسلامی کادینی کام جیل خانہ جات میں بھی ہے،جیل میں ایسے لوگوں کی کثرت ہوتی ہے جو عموماًقراٰن و سنت کی تعلیم سے بے بہرہ ہوتے ہیں، اسی وجہ سے نفس وشیطان کے بہکاوے میں آکر قتل و غارت ، فائرنگ، دہشت گردی، توڑ پھوڑ، چوری، ڈکیتی، زناکاری، منشیات فروشی، جوا اور نہ جانے کیسے کیسے جرائم میں مبتلا ہوکربالآخر جیل کی چار دیواری میں مقیّد ہوجاتے ہیں ۔ الحمد للّٰہ عَزَّوَجَلَّ قَیدیوں کی تعلیم وتربیت کے لیے جیل خانوں میں بھی دعوتِ اسلامی کےشعبہ فیضانِ قراٰن کے ذریعے دینی کام کا سلسلہ جاری ہے ۔ کراچی سینٹرل جیل میں قیدیوں کو عالم بنانے کےلئے جامعۃ ُالْمدینہ کا بھی سلسلہ ہے ۔ کئی ڈاکواور جَرائم پیشہ افراد جیل کے اند ر ہونے والے دینی کاموں سے مُتأَثِّر ہوکر تائب ہونے کے بعدرِہا ئی پاکر عاشِقانِ رسول کے ساتھ مَدَنی قافلوں کے مسافر بننے اور سُنّتوں بھری زندگی گزارنے کی سعادت پارہے ہیں۔

اللہ کی رحمت ہےیہ دعوت اسلامی اللہ کی نعمت ہے یہ دعوت اسلامی

آقا کی عنایت ہے یہ دعوت اسلامی امت کی خیرخواہی یہ دعوت اسلامی

دعوت اسلامی نےمعاشرے کی اصلاح میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی

بزرگانِ دِین کا مُعاشرے کی اصلاح  کا جذبہ مرحبا! اَلْحَمْدُلِلّٰہ!بُزرگانِ دِین کی صحبت سےتربیتِ یافتہ شیخِ طریقت،امیراہل سنّت بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانامحمدالیاس عطارقادِری رضوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ بھی مُعاشرےکی اصلاح کرنےکےمعاملےمیں بےحد ایکٹو (Active) ہیں۔آپ اِصلاحِ مُعاشرہ کے لئے کئی اہم کاموں میں مصروف ہیں،آپ لوگوں کو نرمی ومحبت سےنیکی کی دعوت دےکرگناہوں سےروکنے کےلئےہردم کوشاں ہیں۔اَمیراہل سنتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ جہاں انفرادی کوشش کے ذریعے مُعاشرے کی اصلاح کررہےہیں،وہیں آپ اپنے بیانات اورمدنی مذاکروں کے ذریعےبھی مُعاشرے کی اصلاح میں اہم کردار ادا کررہے ہیں،آپ کےبیانات اورمدنی مذاکرے تاثیرکاتیربن کراثراندازہورہےہیں۔

آپ کے سنّتوں بھرے اِصلاحی بیانات اور مدنی مذاکروں  کوسننےوالوں کی توجہ کاعَالَم دیکھنے کے قابل ہوتاہے۔ عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کےسُنّتوں بھرے اجتماعات ہوں یاہرہفتےکوہونےوالامدنی مذاکرہ کثیر عاشقانِ رسول آپ کےبیان اوررنگ برنگے مدنی پھولوں سے فائدہ حاصل کرتے ہیں،بذریعہ مدنی چینل،اِنٹرنیٹ دیکھنےاور سننے والوں کی تعداد اس کےعلاوہ ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ آپ کےبیانات و مدنی مذاکرے بذریعہ مدنی چینل گھروں،دکانوں(Shops) ،جامعات وغیرہ میں بھی نہایت شوق سےسُنےجاتےہیں۔ان بیانات کومکتبۃ المدینہ شائع کرتاہے۔

آپ کااندازِبیان بےحد سادہ اور عام فہم اور سمجھانے کاطریقہ ایساہمدردانہ ہوتاہےکہ سننےوالےکےدل میں اُترتا چلا جاتا ہے ۔ لاکھوں مسلمان آپ کے بیانات کی برکت سے تائب ہوکر راہِ راست پرآچکےہیں اِسی طرح دعوتِ اسلامی نےکتنوں کوقراٰن مجید کی تعلیم دی اور کتنےہی دنیادار لوگوں کو درس نظامی کرواکر عالم اورمفتی بنادیا جواَب دینِ اسلام کی خدمت سر انجام دے رہے،اور کتنے ہی لوگوں کو دعوت اسلامی نےمدینے اور مدینے والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کےعشق ومحبت کےجام گھول کر پلادیئےجو کہ ایمان کاحصہ ہے۔ اس لئے معاشرے میں جب دعوت اسلامی کا نام لیا جاتا ہےتو ذہن میں ایسے افراد کاتصور آتا ہےجو مدینہ کی محبت سےسرشار ،پیارےآقا صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنےوالے،دین پر چلنے والے،اور دوسروں کو نیکی کی دعوت دیکر انہیں بھی دین پر عمل کروانےوالےہے۔

”یوم دعوت اسلامی پر دعوت اسلامی نے اب تک جتنے بھی دینی، اصلاحی و فلاحی کاموں کے مراحل طے کرلئے ہیں ان کے بارےمیں ایک تفصیلی خاکہ پیش کیا جائیگا جس سے اسلامی بھائیوں اور اسلامی بہنوں کو مزید دینی کام کرنے میں رغبت ملے گی۔

اللہ پاک کےفضل و کرم اور مصطفیٰ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نظر عنایت سے دعوت اسلامی دن بہ دن ترقی کی منازل طے کررہی ہے۔ شیخِ طریقت امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں جب سے دعوت اسلامی بنی ہے جب سے اَب تک ا یک پل کےلئے بھی پیچھے نہیں ہوئی، ترقی کےمنازل ہی طے کررہی ہے ۔اللہ پاک آپ دامت برکاتہم العالیہ کےاس باغ کو سدا پھلتا پھولتا رکھے ۔ امین

آپ دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے چند رُفقاء کےساتھ ملکر 1981ء میں اس عظیم کاروان کاآغاز اس مدنی مقصد کےتحت فرمایا کہ ’’مجھےاپنی اور ساری دنیا کےلوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے‘‘۔آپ فرماتے ہیں کہ میں اکیلا ہی چلاتھا جانب منزل ایک ایک آتا رہا کارواں بنتا رہا ۔

دعوتِ اسلامی کے بنیادی مقصد پر امیر اہل سنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اپنے شب روز کو وقف کردیا ، یہی وجہ ہے کہ آپ کی مسلسل کوشش و جد وجہد کے نتیجے میں اللہ پاک نے آپ کو کامیابی عطا فرمائی ہے۔ عربی کا مشہورمقولہ ہے مَنْ جَدَّ وَجَدَ یعنی ’’جس نے کوشِش کی اُس نے پا لیا‘‘۔

مزید آپ کو علمائے اہل سنت مدظلہم العالی کی تائید بھی حاصل ہوتی رہی۔ دینی کاموں کے لئے حضرت علامہ مولاناشفیع اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسجد ”گلزار حبیب“ جو کہ سولجر بازار میں واقع ہے امیر اہلسنت دَامَت بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اسے پیش کردیا ،اسی وجہ سے گلزار حبیب مسجد کو دعوت اسلامی کااولین مدنی مرکز بھی کہا جاتاہے۔

گلزار حبیب مسجد سے شروع ہونےوالا یہ دینی کام آج دنیا کےتقریبا200 ممالک تک پہنچ چکا ہے۔اس کےعلاوہ دعوت اسلامی 100 سےزائد شعبہ جات میں اصلاح معاشرہ کے لئے دینی متین کی سنتوں کی خدمت سرانجام دےرہی ہے۔ دعوت اسلامی نے اصلاح معاشرہ کے حوالے سے اپنےمدنی مقصد کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے۔

(1) اپنی اصلاح کےلئے رسالہ بنام ’’نیک اعمال ‘‘

(2)ساری دنیا کی اصلاح کےلئے ”مدنی قافلہ“

رسالہ بنام ’’نیک اعمال ‘‘ کےبارے میں امیر اہل سنت فرماتے ہیں یہ اسلامی زندگی کاگزارنے کاآسان طریقہ ہے۔اسں میں موجود سوالات پر عمل کرنے کی برکت سےآپ اپنی زندگی کےشب وروز کو دین اسلام کی تعلیمات کےمطابق گزار سکتےہے اور مدنی قافلہ کےبارےمیں آپ فرماتے ہیں مدنی قافلہ دعوت اسلامی کےلئے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔اور آج مدنی قافلوں کی برکت سےدنیا بھر میں دعوت اسلامی کےدینی کاموں کی دھوم دھام ہے۔

لحد میں عشقِ رُخِ شہ کا داغ لے کے چلے اندھیری رات سُنی تھی چراغ لے کے چلے

ترے غلاموں کا نقشِ قدم ہے راہِ خدا وہ کیا بہک سکے جو یہ سراغ لے کے چلے

(حدائق بخش،ص:369)


اقوامِ عالم کی تاریخ پڑھ کر جہاں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کے علاوہ دیگر تمام مذاہب نے عورت کے خانگی ،ملی  اور معاشرتی حقوق پامال کرکے اسے زوال و انحطاط کے تحت الثری تک پہنچایا ہے وہیں یہ حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے کہ اسلام ہی نے عورت کے تمام حقوق کی اولین علم برداری کرکے اسے ثریا جیسی رفعت و بلندی عطا کی ہے لہٰذا مَردوں کے علاوہ خواتین کو بھی اسلام کا نہ صرف احسان مند رہنا چاہئے بلکہ اسی کی تعلیمات کا بھی پابند رہنا چاہئے کیونکہ اسلام نے عورتوں کے حقوق کی صرف رسمی آواز ہی بلند نہیں کی بلکہ حقوق بھی متعین کئے” وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ(پ2،البقرۃ:228) (ترجمہ کنز الایمان: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق)اور مردوں کو ان حقوق کی ادائیگی کا پابند بھی کیا،حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نےفرمایا،خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَہْلِہٖ وَ اَنَا خَیْرُکُمْ لِاَھْلِیْ یعنی تم میں بہتر وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے لئے بہتر ہو اور میں تم سب سے زیادہ اپنے اہلِ خانہ کے لئے بہتر ہوں۔(ابنِ ماجہ، 2/ 478، حدیث: 1977)نیز عورت کی قدر و اہمیت یوں اجاگر کی کہ فرمایا: الدنیا متاع و خیر متاع الدنیا المراۃ الصالحۃ، دنیا متاع ہے دنیا کی بہترین متاع نیک بیوی ہے۔(مسلم،ص595، حدیث:3643) بہرحال اسلام نے ہر معاملے میں عورتوں کی رعایت و حمایت کی ،قرآنِ کریم میں جابجا مردوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام کیا گیا ،اللہ پاک نے”یٰۤاَیُّهَا النَّاس “اور ” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا “فرما کر ہر جگہ مردوں اور عورتوں سے ایک ساتھ خطاب فرمایا اس کے علاوہ متعدد مقامات پر عورتوں کے لئے خصوصی احکامات بھی بیان فرمائے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بھی مسلمان خواتین کی درخواست پر ان کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک دن مخصوص فرما دیا تھا جس میں خواتینِ اسلام طے شدہ مقام پر اجتماعی طور پر رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے دینی احکامات سیکھا کرتی تھیں۔(بخاری ،4 / 510، حدیث: 7310) بلا شبہ حالات کی نزاکت، مسلمان کی عملی حالت اور دینی معلومات کی قلّت کی وجہ سے آج بھی اس بات کی بہت ضرورت ہے کہ قرآن و سنت کے مطابق یہ سلسلہ جاری رکھا جائے ۔الحمد للہ ! دنیا کی سب سے بڑی مذہبی اور عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی نے یہ بیڑا اٹھایا اور اسلامی بھائیوں کو نیکی کی راہ پر چلانے کے علاوہ اس خیر و بھلائی میں اسلامی بہنوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا ،یہی وجہ ہے کہ شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کے مدنی مذاکروں ، نگرانِ شوری کے مدنی مکالموں اور دعوتِ اسلامی کے سنتوں بھرے اجتماعات میں ان کی بھی دینی تربیت کی جاتی ہے، نیز امیرِ اہلسنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ اور المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر)کی تحریر کردہ خصوصی تالیفات بھی اسی سلسلے کی کَڑیاں ہیں۔الحمد للہ! اب اسلامی بہنوں کے لئے ایک زبردست خوشخبری یہ ہے کہ دعوتِ اسلامی کے علمی و تحقیقی ادارے المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر)میں ”فیضانِ صحابیات و صالحات “کے نام سے خصوصی شعبے کا قیام کردیا گیا ہے ،آئندہ اسلامی بہنوں سے متعلق جو بھی دینی لیٹریچر المدینۃُ العلمیہ کی طرف سے منظرِ عام پر آئے گا اس کا تحریری کام اسی شعبے ”فیضانِ صحابیات و صالحات “کے تحت ہی کیا جائے گا۔ اب تک الحمدُ للہ اس شعبے سے درج ذیل 17کتب و رسائل منظرِ عام پر آچکے ہیں:(1) فیضانِ امہاتُ المؤمنین(2)فیضانِ عائشہ صدیقہ (3) فیضانِ خدیجۃ الکبریٰ (4)فیضانِ حضرت آسیہ (5)فیضانِ بی بی ام سلیم (6)فیضانِ بی بی مریم(7) ازواجِ انبیاء کی حکایات (8) صحابیات اورپردہ (9) صحابیات اورعشقِ رسول (10) بارگاہِ رسالت میں صحابیات کےنذرانے (11) صحابیات اورنصیحتوں کےمدنی پھول(12) صحابیات اورشوقِ علمِ دین(13) صحابیات اور شوقِ عبادت (14) صحابیات وصالحات اور صبر (15) صحابیات وصالحات اورراہِ خدا میں خرچ کرنا (16) صحابیات اوردین کی خاطر قربانیاں (17) اسلامی بہنوں کے 8 دینی کام۔

مندرجہ ذیل3 کتب زیر طبع ہیں:

(1) علاقائی دورہ اسلامی بہنیں (2) ہفتہ وار مدنی مذاکرہ اسلامی بہنیں(3)آقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے شہزادے و شہزادیاں۔

آئندہ کے اہداف: آئندہ کے اہداف میں 2 کتابیں ”صحابیات و صالحات کی 123 حکایات“ اور ”8 دینی کام (مجلّد) “ شامل ہیں جو تکمیل کے مراحل میں پہنچ چکی ہیں اور عنقریب منظرِ عام پر ہوں گی۔

نیزسیرت نگاری کے علاوہ ایک اضافی اور اہم کام کا ہدف بھی شعبہ ” فیضان صحابیات و صالحات“کے سپرد کیا گیا ہے اور وہ کام ہے ”ماہنامہ خواتین (ویب ایڈیشن)“الحمد للہ یہ بھی بہت جلد اس شعبہ کی عظیم کاوش کی صورت میں منظرِ عام پر آکر اسلامی بہنوں کی دلی مسرّت کا سامان اور دینی معلومات و تربیت کا بہترین ذریعہ بننے والا ہے۔


تبلیغ وقرآن سنت کی عالمگیر تحریک دعوتِ اسلامی 2 ستمبر 2021 کو چالیسواں (40)”یومِ دعوت اسلامی“ منا رہی ہے۔ 2 ستمبر 1981 مطابق 3 ذوالقعدۃ الحرام ۱۴۰۱ ھ ؁ بروز بدھ جس تنظیم کا آغاز ہوا الحمدللہ آج وہ عالمِ اسلام کی امیدوں کا محور ومرکز بن چکی ہے۔امت کی دینی و دنیوی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دعوتِ اسلامی کے 80 سے زائد شعبہ جات معرض وجود میں آچکے ہیں۔ ہر شعبہ کی اہمیت و ضرورت اپنی جگہ لیکن ”شعبہ اوقات الصلاۃ “دعوتِ اسلامی نے قائم کرکے امت پر احسانِ عظیم کیا ہے اور اس کا اعتراف خود علمائے کرام بھی گاہے گاہے فرماتے رہتے ہیں۔ چند جید علمائے کرام کے تاثرات آپ کے پیشِ خدمت ہیں جو انہوں نے ”شعبہ اوقات الصلاۃ “کی عنقریب شائع ہونے والی کتاب ”نصابِ توقیت “ پر تقریظ لکھتے ہوئے تحریر فرمائے ۔چنانچہ

استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث علامہ حافظ عبدالستار سعیدی مُدَّظِلُّہُ العَالِی

(شیخ الحدیث و ناظم تعلیمات جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور):

گزشتہ ادوار میں نمازوں کے اوقات جاننے کے لیے سورج کے طلوع وغروب اور اُس کی رفتار پر نظر رکھی جاتی تھی، مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ نئی نئی ایجادات رونما ہوتی گئیں اور اوقاتِ نماز جاننے کے طریقوں میں بھی جدّت آتی گئی۔ علمائے کرام نے نماز اورروزہ کے اوقات جاننے کے لیے تجربات ومشاہدات کی روشنی میں اوقات کا استخراج کرنے کے لیے کچھ اصول و قواعد ایجاد کیے، جن کے مجموعہ کا نام ”علمِ توقيت “رکھا۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بر یلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی تحقیقات کا غازہ بخش کر اِس علم شریف کے حسن کو بامِ عروج تک پہنچایااور پھر علامہ مفتی ظفر الدین بہاری اور حضرت مفتی افضل حسین مونگیری رحمة الله تعالیٰ علیہما نے اس فن میں تصنیفات فرما کراِسے جلوۂ عروسی عطا فرمایا۔اِس علم کے قواعد کوسمجھنے کے لیے اعلیٰ درجہ کا ریاضی دان ہونا ضروری تھا، مگر کیلکولیٹر کی ایجاد نے ریاضی کی دشوار گزار راہوں کو بالکل آسان کر دیا ۔ ہم کیلکولیٹر کی مدد سے اس فن کے قواعد کا بآسانی اجرا کرسکتے ہیں۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ ”دعوتِ اسلامی “شیخِ طریقت مولانا محمد الیاس عطار قادری مدظلہٗ کے زیرِ سایہ دیگر دسیوں شعبہ جات کے ساتھ ساتھ ”توقیت “پر بھی کام کررہی ہے اور اِس کے لیے باقاعدہ طور پر ایک مجلس قائم ہے۔

ماہر علم توقیت ،شیخ الحدیث مفتی شمس الہدیٰ مصباحی مُدَّظِلُّہُ العَالِی

(استاذ الجامعۃ الاشرفیہ ،مبارک پور یو پی انڈیا-مسئول دار الافتا کنز الایمان ،ہیک منڈ وائک U.K)

فن ہیئت و توقیت جو کئی احکامِ شریعت کے لیے موقوف علیہ کا درجہ رکھتا ہے جس کے واقف کار اور شہسوار دن بدن عنقاءِ مغرب کی حیثیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ ایسے دور قحط الرجال میں محب مکرم حضرت مولانا الفلکی وسیم احمد عطاری دام ظلہ العالی نے اس عظیم فن کے حصول کے میدان میں انتھک جدوجہد فرمائی اور کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہوئے۔ اور ”مَنْ جَدَّ وَجَدَ “کے صحیح مصداق بن کر عالمی پیمانہ پر اس عظیم فن کی ترویج واشاعت میں سرگرم عمل ہیں۔ سیکڑوں علما و فضلا کو اس سے روشناس کرایا اور لاکھوں افراد کی مشکلات کو حل فرمایا۔ کتاب و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ”دعوتِ اسلامی “کی پرخلوص سعی بلیغ کی برکت سے بے شمار لوگوں کی عبادتیں فساد و ضیاع سے محفوظ ہوئیں۔

شیخ الحدیث حضرت مفتی محمد ابراہیم قادری زید شرفہ

(جامعہ غوثیہ رضویہ ،سکھر پاکستان)

عزیزِ محترم حضرت مولانا محمد وسیم توقیتی صاحب زیدہ مجدہ سالہا سال سے علمِ توقیت کی خدمت انجام دے رہے ہیں اور بیشتر ممالک اور خاص کر پاکستان کے سینکڑوں مقامات کے نماز روزہ کے اوقاتِ صحیحہ کے نقشہ جات تیار کرکے امتِ مسلمہ کی نفع رسانی کا کام کر رہے ہیں ۔ فیضانِ مدینہ کراچی قدیم سبزی منڈی میں باقاعدہ اس علم کی تدریس فرما رہے ہیں۔

مصنف ”نوادر التوقیت “اشرف الصلحا حضرت مفتی محمد نظام الدین مصباحی زید شرفہ

(جامعہ غوثیہ رضویہ ،بلیک برن برطانیہ )

برصغیر میں امام اہل سنت قدس سرہ کو یہ شرف حاصل رہا کہ آپ نے اس نایاب علم کو مردہ ہونے سے بچا لیا ۔پھر اس کو ضبطِ تحریر کرکے حضرت ملک العلما قدس سرہ نے اگلی نسلوں تک پہنچایا اور حضرت بحر العلوم سید مفتی افضل حسین قدس سرہ اور خواجۂ علم وفن قدس سرہ ان شخصیتوں نے اپنی اپنی درسگاہ میں کسی طرح زندہ رکھا اور جب کمپیوٹر کا زمانہ آیا تو ضرورت تھی کہ کوئی شخص اٹھے اور اس فن کو بھی اس جہت سے روشناس کرائے تو اللہ عزوجل نے اخی الکریم الشیخ مولانا وسیم احمد عطاری حفظہ کو چنا اور انہوں نے ہمارے بزرگوں کے اس فیضان کو خوب سے خوب عام کیا ۔

الدکتور محمد منور عتیق زید شرفہ

(صدر المدرسین وخادم العلوم الاسلامیة بالجامعة الاسلامیة سلطان باہو برمنگھم برطانیہ)

آج ہمارے ہاتھوں میں کمپوٹر ، سائنسی کلکولیٹر ،المنک، جی پی ایس اورگوگل ارتھ (Goolge Earth)جیسے اسباب آچکے ہیں اور دنیا کی جدید ترین آلات سے مزین رصدگاہیں بھی موجود ہیں۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود اگر فنِ توقیت پھر بھی یادِ ماضی رہ جاتا تو کتنی افسوس کی بات ہوتی۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ عربی و اردو کے ان قواعد کو جدید انداز میں پیش کیا جائے تاکہ کالج اور یونیورسٹی سطح کے طلبہ بھی اس فن کو سمجھ سکیں۔

عالمِ اسلام کی عالم گیر تحریک دعوتِ اسلامی نے فنِ توقیت کی اہمیت اور ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ایک مستقل مجلس تشکیل دی جو جدید ذرائع کے استعمال کے ساتھ اس فن کی حفاظت اور تسہیل و تدریس کے لئے مستعد ہوئی اور اساتذۂ فن کے بکھرے موتیوں کے جمع کرنے میں مصروف ہوگئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے ذریعے مسلمانانِ عالم کو لاکھوں مقامات کے درست اوقاتِ نماز وروزہ وسمتِ قبلہ وغیرہ جاننے کی بہترین سہولتیں میسر ہوئیں اور تشنگانِ توقیت کے لئے ایک بازارِ فن سج گیا جہاں وہ سیراب ہونے کو اکنافِ ارض سے پہنچنا شروع ہوگئے۔

اس مجلس کے روحِ رواں محترم المقام حاجی وسیم احمد عطاری نفع اللہ بہ العباد والبلاد نے فنِ توقیت کی تحصیل پھر تدریس میں جہدِ مسلسل کی اور آج اس کا نتیجہ دنیا کے سامنے ہے۔ تنِ تنہا صحرائے تحقیق میں نکلنے والا شخص جب بزرگوں کی عنایات ونوازشات سے بہرہ مند ہوتا ہے تو اُفقِ قبول اس کے طلوع کا خیر مقدم کرتا ہے۔ بلاشبہ جوہرِ قابل کو جوہر شناسوں نے خوب نوازا۔

پیشکش :شعبہ اوقات الصلاۃ

31.08.21


کسی بھی معاشرے کی تعمیر وترقی کے لیے شخصی تعمیر انتہائی ضروری ہے ۔ شخصی تعمیرمیں انسان کی اپنی سوچ اور فکر کا بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ جب تک انسان کی ذہنی تربیت نہ ہو اس وقت تک اس کی اصلاح مشکل ہے ،اور ذہنی تربیت کے ذرائع میں سے یہ بھی ہے کہ انسان کو دینی کتابوں کے مطالعے کی طرف راغب کیا جائے کیونکہ انسان جو کچھ پڑھتا ہے وہ اس کے دل ودماغ میں رچ بس جاتا ہے،اور اس کا اثر اس کے عمل کی صورت میں ظاہر ہونے لگتا ہے۔ اس وقت معاشرے میں پھیلی تباہ کاریوں کی ایک بڑی وجہ جہالت ہے جب تک معاشرہ علم کے زیور سے آراستہ نہیں ہوگا تب تک اس میں موجود برائیوں کا خاتمہ نہیں ہوسکے گا۔ اصلاحِ معاشرہ کے لئے ”علم “ کی اسی ضرورت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دعوتِ اسلامی نے  پانچ ہفتہ وار دینی کام دیئے ہیں :

(1) ہفتہ وار اجتماع (2) ہفتہ وار مدنی مذاکرہ (3) علاقائی دورہ (4)یومِ تعطیل اعتکاف (5) ہفتہ وار رسالہ

یہ پانچوں کام جہالت کے خاتمے اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔ بالخصوص ہفتہ وار رسالہ شخصی تعمیر اور علم میں اضافے کے ساتھ ساتھ اپنے قاری کے اندر مطالعے کا شوق بھی بیدار کرتا ہے ۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ امیر ِدعوت اسلامی حضرتِ علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ اپنے مریدین اور محبین کو ہر ہفتے دعوت اسلامی کی طرف سے جاری ہونے والے اس رسالے کو پڑھنے ، سننے کی نہ صرف ترغیب دلاتے ہیں بلکہ انہیں دعاؤں سے بھی نوازتے ہیں۔

ہفتہ وار رسالہ دعوتِ اسلامی کے اسلامک ریسرچ سینٹر ”المدینۃ العلمیہ “ کی طرف سے جاری کیا جاتا ہے جس میں عقائد ومسائل ، اسلامی اخلاق وآداب ، بزرگانِ دین کی سیرت، فضائل وحکایات اور معاشرتی مسائل جیسے مختلف موضوعات کے ساتھ ساتھ شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کے ملفوظات اور آپ کی کتب سے مخصوص اور منتخب مضامین شائع کئے جاتے ہیں ۔اب تک211 رسائل شائع ہوچکے ہیں ۔ آئیے! چند رسائل کے موضوعات کے انفرادی پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں:

(1) رشتے داروں سے اچھا سلوک : اس رسالے میں آپ ملاحظہ کریں گے: جہاں رشتہ توڑنے والا ہوتا ہے وہاں رحمتِ الٰہی نہیں اُترتی،کس کس رشتہ دار سے کب کب ملیں،دشمنی چھپانے والے رشتے دار کو صدقہ دینا افضل ترین ہے، اس کے علاوہ قَسَم اور اس کے کفارے کے احکام بھی اس رسالے میں پڑھنے کو ملیں گے۔

(2) میٹھی عید اور میٹھی باتیں: اس رسالے میں آپ پڑھ سکتے ہیں: عید کی خوشیوں میں یتیموں کو شامل کرنے کی برکتیں ،یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنے کی فضیلت،اور یتیموں کا مال ناحق کھانے کے وبال سے متعلق سخت وعیدیں ۔

(3) کام کے اوراد: یہ رسالہ بیماریوں ،پریشانیوں اور رنج والم سے نجات حاصل کرنے کے لیے بزرگوں سے منقول وظائف، سورۃ الکافرون،سورۃ الاخلاص ،سورۃ الفلق اور سورۃ النّاس کے فضائل پر مشتمل ہے۔

(4) مولیٰ علی کے 72 ارشادات: اس رسالے میں آپ پڑھ سکیں گے : دنیا و آخرت میں کامیابی سے ہمکنار کرنے والے 72 فرامینِ مولیٰ علی۔

(5) ہر صحابیِ نبی جنتی جنتی: اس رسالے میں آپ پڑھ سکیں گے:سب صحابہ سے جنّت کا وعدہ،فضیلت کے اعتبار سے صحابۂ کرام کی ترتیب، کسی صحابی سے کوئی بھی ولی افضل نہیں ہو سکتا، اورفضائلِ صحابہ کے بارے میں 40 حدیثیں اور بہت کچھ۔

(6) ڈرائیور کی موت: اس رسالے میں آپ ملاحظہ فرمائیں گے: کھانا کھانے کے آداب ، کھانے کا وضو کرنے کی برکتیں ،کھانا کھانے کی نیتیں اور بہت ساری معلومات۔

(7) جوئے میں جیتا ہوا مال : اس رسالے میں آپ حرام مال کی تباہ کاریاں بالخصوص جوئے کی مذمت اور موجودہ کاروباری معاملات میں پیش آنے والی جوئے کی 6 مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں ۔ اس کے علاوہ مسلمان کی عزت وحُرمت کی اہمیت کا بیان بھی اس رسالے میں موجود ہے ۔

(8) کام کی باتیں: اس رسالے میں آپ پڑھیں گے: عمومی زندگی میں کام آنے والی مختلف کار آمد باتیں ، 30 غلطیوں کی نشاندہی، سانپ،بچھو،کنکھجورا اور چیونٹیوں سے نجات کے طریقے،معدے کی خرابی،مختلف امراض اور معدے کی بیماریوں کا گھریلو علاج۔

(9) قرآنی سورتوں کے فضائل: اس رسالے میں ملاحظہ کیجئے: تلاوتِ قرآن کے فضائل اور مختلف سورتوں کی برکات۔

(10) درود شریف کی برکتیں: اس رسالے میں آپ پڑھ سکیں گے:درود شریف کےفضائل کے متعلق فرامینِ مصطفےٰ اور فرامینِ صحابہ اور بزرگانِ دین سے منقول درودِ پاک اور ان کے فضائل۔

محترم قارئین! اِن 10رسائل کے موضوعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دعوتِ اسلامی کی طرف سے جاری کردہ یہ ہفتہ وار رسالہ پڑھنا کس قدر مفید ثابت ہوسکتا ہے ۔ یقیناً اچھا مطالعہ انسان کو جہالت کی اندھیریوں سے نکال کر علم کی روشنی کی طرف لے جاتا ہے۔ آئیے ہم آپ کو مطالعہ کے چند ایسے فائدے بتاتے ہیں جن سے آپ کو مطالعے کی بے پناہ اہمیت کا اندازہ ہو گا ۔

مطالعہ کے فوائد:

٭دینی کتب کا مطالعہ حصولِ علم کا ایک اہم ذریعہ ہے۔(آنسوؤں کا دریا، ص7) ٭مطالعہ انسان کوعمل پر اُبھارنےمیں معاون ثابت ہوتا ہے اوریہی علم کا تقاضاہے جیسا کہ حضرت سیّدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ کا فرمان ہے : اے لوگو! علم حاصل کرو ، پس جو علم حاصل کرے اسے چاہئے کہ (علم پر)عمل بھی کرے۔ (معجم کبیر،9/152، حدیث:8760) ٭ مطالعے سے حافظہ مضبوط ہوتا ہے۔ امام بخاری رحمۃُ اللہِ علیہ سے کسی نے پوچھا : کیا حافظے کو قوی کرنے کے لئے بھی کوئی دوا ہے؟ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا : دوا کا تو مجھے معلوم نہیں ، البتہ آدمی کے اِنْہِماک اوردائمی مطالعے کو میں نے قوّتِ حافظہ کے لئے مفید ترین پایا ہے۔ (فتح الباری ،1/460) ٭مطالعہ علم میں اضافے اور پریشانیوں سے چھٹکارے کے لیے نہایت موثر نسخہ ہے۔٭ مطالعہ ذہنی تناو ختم کر کے پُرسکون فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو جلا بخشتا ہے۔٭مطالعہ کرنے سے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ اور سوچنے کی صلاحیت میں بہتری آتی ہے۔ ٭جتنی دیر بندہ مطالعے میں مصروف رہتا ہے اتنی دیر تک جھوٹ بولنے ، فریب کرنے، کسی کی برائی کرنے اورگالی گلوچ کرنےجیسی بہت سی بُرائیوں سے بچا رہتا ہے۔ ٭مطالعے کی عادت رکھنے والا کتاب میں اتنا منہمک رہتا ہے کہ سستی اور کاہلی سے مغلوب نہیں ہوتا۔٭ مطالعے کی وجہ سے اچھے انداز میں گفتگو کرنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔ ٭مطالعے سے ذہن کھلتا ہے اور خیالات میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے۔ ٭مطالعے سے یادداشت میں وسعت اور معاملہ فہمی میں تیزی آتی ہے۔ ٭مطالعہ کرنے والا اوقات کے ضیاع سے محفوظ رہتا ہے۔

ہفتہ وار رسالہ پڑھنے سے کیا فائدہ ہوگا ؟

ہفتہ وار رسالہ عام طور پر 17 صفحات پر مشتمل ہوتا ہے ۔ایک شخص اگر 2 منٹ میں ایک صفحہ مطالعہ کرتا ہے تو 34 منٹ میں 17 صفحات مطالعہ کرلے گا۔اگر کوئی پابندی سےہفتہ وار رسالے کا مطالعہ کرے تو ہفتے میں 34 منٹ اور پورے مہینے میں صرف 136 منٹ کے مختصر وقت میں 68 صفحات اور ایک سال میں 816 صفحات کا مطالعہ کرلے گا ،اگر ایک رسالے میں مجموعی طور پر2 آیاتِ قرآنی مع ترجمہ اور 5 احادیث ہوں تو ایک سال میں 96 آیات اور ان کا ترجمہ پڑھنے اور 240 احادیث پڑھنےکی سعادت حاصل ہوگی، یہ تو صرف آیات و احادیث کا حساب ہے دیگر جو مختلف موضوعات پر معلومات کا خزانہ ملے گا وہ الگ ہے۔ ذرا اندازہ کیجیے! ایک سال میں اتنے صفحات کا مطالعہ کرنے والے کے علم اور نالج کی کیفیت کیا ہو گی؟ اور اس علم کا اس کی اپنی ذات کو اور اس کے بچوں کو کس قدر فائدہ ہو گا۔

ہفتہ وار رسالہ کئی مراحل سے گزر کر قارئین تک پہنچتا ہے ، یہ مراحل تحریری مواد کو مستند ، معیاری اور عام فہم بناتے ہیں ۔ ہفتہ وار رسالے کی تیاری کے مراحل کا ایک سرسری جائزہ پیشِ خدمت ہے :

موضوع / عنوان کے انتخاب کامرحلہ

(1)ابتدائی مرحلے میں ہفتہ وار رسالے کے موضوع / عنوان کا انتخاب کیا جاتا ہے ، کوشش کی جاتی ہے کہ مخصوص ایام اور مہینوں میں اس کی مناسبت سے رسالہ لایا جائے ۔

جمعِ مواد اور ترتیب کا مرحلہ

(2) رسالے کا مواد حتّی الامکان ان کتابوں سے لیا جاتا ہے جو شرعی تفتیش کے مرحلے سے گزرچکی ہوتی ہیں ۔ اگر کہیں اور سے مواد سے شامل کیا جائے تو اس مواد کی شرعی تفتیش کروائی جاتی ہے ۔

(3)جمعِ مواد کے بعد مواد کو ترتیب دیا جاتا ہے ۔اس دوران جہاں ضرورت ہو وہاں محرر (Writer) موضوع کے اعتبار سے اپنی درایت کے مطابق تحریر لکھتا ہے اور ضروری ترمیم واضافہ کرتا ہے ۔

مرتب شدہ مواد کےجائزے کا مرحلہ

(4)رسالے کی ترتیب کااوّل تا آخرجائزہ لیا جاتا ہے اور رہ جانے والی کمی کو پورا کیا جاتا ہے ۔

(5)پروف ریڈنگ کی جاتی ہے اور تحریر کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جاتا ہے ۔

پروف ریڈنگ مراحل مرحلہ

اس رسالے کی مرحلہ وار تقریباً 5 مرتبہ پروف ریڈنگ کی جاتی ہے ، اس دوران درج ذیل کام کیئے جاتے ہیں ۔

(6)نامکمل عبارت یاجملے کو مکمل کیا جاتا ہے ۔

(7) تسہیل کی جاتی ہے ۔

(8) مشکل الفاظ، ناموں اور عربی الاصل الفاظ پر اعراب لگائے جاتے ہیں ۔

(9)ہرقسم کی نمبرنگ کو چیک کیا جاتا ہے۔

(10)فارمیشن کی غلطیوں کو ہائی لائٹ کیا جاتا ہے۔

(11) دعوتِ اسلامی کی تنظیمی اصولوں کے مطابق بھی تحریر کی تفتیش کی جاتی ہے ۔

شرعی تفتیش ، تصحیح لگانے اور فائنل کرنے کا مرحلہ

(12)دوسری پروف ریڈنگ میں آنے والی غلطیوں کی تصحیح کی جاتی ہے۔

(13) تمام مراحل کی تکمیل کے بعد رسالہ شرعی تفتیش کے لیے بھیج دیا جاتا ہے اور شرعی تفتیش کے بعد کریکشن لگا کرفائنل فارمیشن اور پیج سیٹ اپ کرکے ڈیزائنر کے پاس بھیج دیا جاتا ہے ۔

ڈیزائننگ کے بعد کا مرحلہ

(14) ڈیزائننگ کے بعد رسالے کی فائنل پروف ریڈنگ کی جاتی ہے، ٹائٹل بنوایا جاتا ہے اور پھر اسے شائع ہونے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے ۔

کارکردگی

دعوتِ اسلامی کے اِس دینی کام میں امیر اہل سنّت حضرت علامہ مولانامحمد الیاس قادری دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کی ذاتی دل چسپی اور اشاعتِ علمِ دین کے قابل رشک جذبے کی بدولت بلا مبالغہ لاکھوں لوگ ہفتہ وار رسالے کا مطالعہ کرتے /سنتے ہیں اور ہر ہفتے اس تعداد میں اضافہ ہی ہو رہا ہے،اس حوصلہ افزا پذیرائی اورہرہفتےبڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر یہ کہاجاسکتا ہے کہ چار زبانوں میں شائع ہونے والا دنیا کا یہ واحدہفت روزہ رسالہ(Weekly Booklet)ہے جو لاکھوں لوگوں تک اسلام کی روشن تعلیمات پہنچانے کاذریعہ بن رہاہے۔آئیے! گزشتہ تین ماہ کے رسائل کا مطالعہ کرنے / سننے والوں کی تعدادملاحظہ کیجئے اور آپ بھی اس نیک کام میں شامل ہونے کی نیت فرما لیجئے۔

جولائی 2021

کراماتِ خواجہ :29 لاکھ 90 ہزار 131 اسلامی بھائیوں نے اور 7 لاکھ 93 ہزار 615 اسلامی بہنوں نے یہ رسالہ پڑھنے /سننے کی سعادت حاصل کی۔

ہر صحابیِ نبی جنّتی جنّتی : 31 لاکھ 44 ہزار 808 اسلامی بھائیوں نے اور 7 لاکھ 90 ہزار 447 اسلامی بہنوں نے یہ رسالہ پڑھنے /سننے کی سعادت حاصل کی۔

فیضانِ شعبان: 31 لاکھ 6 ہزار 296 اسلامی بھائیوں نے اور 8 لاکھ 15ہزار 548 اسلامی بہنوں نے یہ رسالہ پڑھنے /سننے کی سعادت حاصل کی۔

ڈرائیور کی موت: 32 لاکھ 85 ہزار 54 اسلامی بھائیوں نے اور 7 لاکھ 93 ہزار 615 اسلامی بہنوں نے یہ رسالہ پڑھنے /سننے کی سعادت حاصل کی۔

اگست 2021

درود شریف کی برکتیں: 25 لاکھ 33 ہزار 828 اسلامی بھائیوں نے اور 8 لاکھ 48 ہزار 534 اسلامی بہنوں نے یہ رسالہ پڑھنے /سننے کی سعادت حاصل کی۔

قبر کی پہلی رات: 22لاکھ 87 ہزار 35 اسلامی بھائیوں نے اور 8 لاکھ 49 ہزار 467 اسلامی بہنوں نے یہ رسالہ پڑھنے /سننے کی سعادت حاصل کی۔

رشتے داروں بھلائی: 23 لاکھ 25 ہزار 571 اسلامی بھائیوں نے اور8 لاکھ 11ہزار 90 اسلامی بہنوں نے یہ رسالہ پڑھنے /سننے کی سعادت حاصل کی۔

ماہِ رمضان اور امیرِاہلِ سنّت : 20 لاکھ 70 ہزار 146 اسلامی بھائیوں نے اور 8 لاکھ 11 ہزار 814 اسلامی بہنوں نے یہ رسالہ پڑھنے /سننے کی سعادت حاصل کی۔


گزشتہ کئی دہائیوں سے  ماہرین کا دلچسپ موضوع”بچوں کی تربیت“ رہا ہے،ہر ایک نے اپنی ریسرچ ،تجربات اور مشاہدے بیان کئے،طویل ریسرچ کے بعد یہ معلوم ہوا کہ غلطیاں والدین میں تھی ناکہ بچوں میں، اس لئے انہوں نے ”والدین کی تربیت“ شروع کی۔ کیونکہ والدین ”معمار “،بچے ”عمارت“اور ان کا بچپن ان کی ”بنیاد“ ہوتا ہے۔ اگر عمارت کی بنیاد ہی خراب ہوجائے تو پوری عمارت بیکار ہوجاتی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں ”والدین کی تربیت“پر بہت تحقیقات ہورہی ہیں،آئے دن ٹریننگ سیشنز کا انعقاد کیا جا رہا ہے ، ہر شخص اپنی تحقیق ، مطالعے اور تجربات کی روشنی میں والدین کی تربیت کر رہا ہے۔ جس کا جتنا مطالعہ ، مشاہدہ اور تجربہ ہوگا اس کا انداز ِتربیت اتنا ہی بہترین ہو گا ۔

امیرِ اہلِ سنّت مولانا الیاس قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں،آپ ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں، آپ کے تجربات کوہ ہمالہ سے اونچے، مشاہدات سمندر سے زیادہ گہرے ہیں۔آپ کی ذات ہر طبقے کے لئے مشعل راہ ہے۔ آپ نے ہر طبقے کی رہنمائی کی ہے چاہے وہ علماء ،ہوں یا طلبا،مبلغین یا مقررین ،اولاد ہو یا والدین ۔

والدین کی تربیت سے متعلق آپ کے ملفوظات کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نہ صرف دینِ اسلام کے عظیم مبلغ ہیں بلکہ آپ والدین کی تربیت کرنے والے ایک اچھے ،ماہر اورتجربہ کار راہنما بھی ہیں ۔ والدین کی تربیت کے متعلق آپ کے چند باتیں سنیئے:

ماہرین کہتے ہیں اگر آپ بچے کی عادت پختہ کرنا چاہتے ہیں تو پہلے وہ کام کئی بار بچے کے سامنے سرانجام دینا ہوگا،تب بچے کی عادت پختہ ہوگی۔

(1) آپ فرماتے ہیں:

بچہ بڑوں کے نقشِ قدم پر چلتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب گھر میں کوئی بڑا نمازپڑھتا ہے تو بچہ برابر مىں جا کر کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنے اَنداز میں رُکوع اور سجدے کرتا ہے پھراُٹھ کر بھاگ جاتا ہے۔بچوں کو نماز کا عادی بنانے سے پہلے والدین کو نمازی بننا پڑے گا تاکہ وہ اپنے بچوں کو بھی نماز کا عادی بنا سکیں ۔

(2) مار پیٹ سے بچوں کی شخصیت متاثر ہو تی ہے، ان میں منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں ، لیکن کئی والدین کو یہ بات سمجھانی کافی مشکل ہو جاتی ہے۔ اس حوالے امیر اہل سنت کا انداز سب سے زیادہ منفرد ہے :

مار پٹائی سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ جو والدین بھی بچوں کو مارتے ہیں ان کے بچے ڈھیٹ ہو جاتے ہیں۔

(3)جس طرح والدین کے حقوق ہوتے ہیں اسی طرح اولاد کےبھی حقوق ہوتے ہیں، اگر والدین کی کسی بات سے اولاد کی دل آزاری ہو تو والدین کو معافی مانگنی پڑے گی۔ لیکن اس پہلو کی طرف شاید ہی کسی کی توجہ جاتی ہو ، امیر اہل سنت نے اس پہلو کی طرف راہنمائی کرتے ہوئے فرمایا :

اَولادٹوٹاہوا بَرتن نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ہرطرح کا سلوک کیاجا سکے،اگر اَولاد کی دِل آزاری کی تواس سے بھی

مُعافی مانگنا ہوگی۔

(4)والدین کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اکثر بچوں کو بات بات پر روکتے ٹوکتے ہیں ، جھاڑتے ہیں اور بعض اوقات تو مار پیٹ بھی کر دیتے ہیں ایسے والدین کو امیرِ اہلِ سنّت نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

بار بار روک ٹوک کرنا بھی بچے کو باغی بنا دیتا ہے۔موجودہ دور میں اَولاد کے باغی ہونے کے پیچھے خود والدین کا اپنا بھی کِردار ہوتا ہے۔والدین بات بات پر جھاڑتےاور مارتے ہىں جس کے سبب بچے ضِدى اور باغی ہوجاتے ہیں، پھر نہ مار اَثر کرتی ہے اور نہ دَھاڑ لہٰذا اَدب سکھانے کے لئے ضَرورت سے زیادہ اور سب کے سامنے روک ٹوک نہ کی جائے۔والدین کو چاہیے کہ اَولاد کی تَربیت کا ہُنر سیکھیں۔

(5)بچوں سے بعض اوقات گھر کی چیزیں ٹوٹ جاتی ہیں، کبھی برتن تو کبھی اور کچھ، ایسے میں والدین خود پر قابو نہیں رکھ پاتے اور بچوں کوبہت ڈانٹا جاتاہے،اوربچے یہی سمجھتے ہیں شاید اس برتن کی مجھ سے زیادہ اہمیت تھی۔اس طرح بچوں کا دل میں عجیب سا خوف بیٹھ جاتا ہے، اگر کبھی ایسا ہو جائے تو کس طرح کا برتاؤ کرنا چاہئے؟ امیر ِاہلِ سنّت فرماتے ہیں:

بعض اَوقات گھر میں کسی بچّے سے برتن ٹُوٹ جائے تو اُسے جھاڑا یا مارا جاتا ہے، ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ میں نے کسی سے سُنا تھا کہ ’’اگر بچّے سے برتن ٹُوٹ جائے تو اُسے ڈانٹ ڈَپَٹ نہ کی جائے، کیونکہ برتن کی عُمر پُوری ہوگئی تھی، اِس لئے وہ ٹُوٹ گیا۔‘‘ یہ بات واقعی سمجھ میں آنے والی ہے۔ اگر ہم مار دھاڑ کریں گے تو برتن کونسا دوبارہ جُڑجائے گا! ٹُوٹنا تھا، ٹُوٹ گیا۔ اب زِیادہ سے زِیادہ یہ کرلیں کہ بچّے ہی کے ہاتھ اُسے ڈسٹ بن میں ڈالوا دیں ۔

(6)بچہ ہنسنا جانتا ہے یا رونا ،اس کے علاوہ ڈر خوف نام کی کوئی چیز اس میں نہیں ہو تی،خوف اور ڈر اس میں ڈالا جاتا ہے نتیجہ کیا نکلتا ہے بچہ ڈرپوک بن جانتا اورڈرپوک کون بناتا ہے؟”ہم“

آپ فرماتے ہیں: بھوت پَری کی کہانیاں بچوں کوبُزدل (ڈرپوک) بناتی ہیں۔بچوں کو صحابہ کرام کے بہادری کے قصے سنانے چاہئے ،ہمارے بچے شیرکی طرح بہادر ہونے بنیں۔

(7)کہتے ہیں تلوار کا زخم تو بھر جاتاہے لیکن زبان کا زخم نہیں بھرتا ۔کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آپ کو ڈانٹتے ہوئے کیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔والدین کی اس طرف توجہ دلاتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:

اپنی اَولاد کو سمجھاتے ہوئے ایسے جملے نہ بولیں،جس سے ان کے دِل میں آپ کی نفرت جڑ پکڑ جائے۔

(8)آئے دن خبروں اورسوشل میڈیا پر بچوں کے اغوا ہوجانے کے بہت سے واقعات گردش کرتے ہیں ۔آپ فرماتے ہیں:

بچوں کو یہ تَربیت دینی چاہئے کہ انہیں جب کوئی پکڑنا چاہے تو وہ رونا دھونا اور چیخ و پکار شروع کر دیں۔نیز فرماتے ہیں۔ بچوں کا یہ ذہن بھی بنایا جائے کہ کوئی کتنا ہی لالچ دے، ٹافیاں اور کھلونے دِکھائے مگر وہ اُس کے ساتھ نہ جائیں۔

(9)بچہ ہو اور ضد نہ کرے ایسا ممکن ہی نہیں کیوں؟ کیونکہ بچہ اگر ضِد،شرارتیں ،چھیڑ خانیاں اور مىٹھى مىٹھی باتىں نہ کریں اور نہ بڑوں سے اُلجھیں اور نہ ہی بات بات پر رُوٹھیں تو پھر اُن کے بچے ہونے کا لُطف نہىں آئے گا ۔والدین کی پریشانی اس وقت بڑھ جاتی ہے جب بچہ ضد پر اڑ جائے ۔بچوں کی ضد سے متعلق آپ فرماتے ہیں:

بچوں کی بعض ضِدیں بے ضَرر(یعنی کسی نقصان کے بغیر) ہوتی ہیں انہیں پورا کر دیا جائے مگر ان کی ہر ضِد کو پورا نہ کیا جائے کیونکہ اگر والدین ان کی ہر ضِد پوری کریں گے تو وہ اس کے عادى ہو جائیں گے اور ان کا یہ ذِہن بن جائے گا کہ اگر ہم شرافت سے بولتے ہیں تو ہمارا کام نہیں ہوتا اور اگر ہم یُوں

یُوں کرتے ہیں تو ہمارا کام ہو جاتا ہے۔

(10)بچوں سے غلطی ہوجاتی ہے اورجب ان سے پوچھا جاتا ہے تو سچ سچ بول دیتے ہیں ۔اب والدین غصے میں آکر بچوں کو مارتے ہیں ۔آپ فرماتے ہیں:

جب بچہ سچ بیان کردے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ مگر بعض اوقات بچہ ایسی حرکت کردیتا ہے کہ اس کو سبق سکھانا پڑتا ہے تو موقع کی مناسبت سے معاملہ نمٹایاجائے۔ پھر بھی اکثر باتیں ایسی ہوتی ہوں گی کہ والد اگر انہیں نظر اندازکردے تو کوئی حرج نہیں ہوگا۔یاد رکھئے! ہر بات پر ڈانٹنا جھاڑنا یاٹوکنا بھی مناسب نہیں ہوتا اس سے اولاد متنفر ہوسکتی ہے۔

(11)عام طور پر والدین بچوں سے مشورہ نہیں کرتے ،انہیں پاس نہیں بٹھاتے اوران سے صلح مشورہ نہیں کرتے۔والدین کو ایسا نہیں کرنا چاہئے،بلکہ یہ ان کی تربیت کے مراحل ہوتے ہیں تاکہ وہ فیصلہ سازی کرسکیں۔

آپ فرماتے ہیں: بچہ مشورہ دینے کا اہل نہیں ہوتا مگر میرے مشورہ کرنے سے اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے کہ باپا نے مجھ سے مشورہ کیا ہے۔بعض اوقات بچہ ایسی بات کر دیتا ہے کہ اپنی ساری کی ساری حکمتِ عملی دَھری کی دَھری رہ جاتی ہے کہ یار اس بچے نے واقعی کام کی بات کی ہے۔بچوں کی دِل جوئی کی نیت سے میں نے بارہا ان کے مشوروں پر عمل بھی کیا ہے۔ میرے ذہن میں ایک حدیث پاک بیٹھ گئی ہے کہ جَنَّت میں ایک مکان ہے جس کو دَارُ الفرح کہا جاتا ہے یہ اس کے لیے ہے جو بچوں کا دِل خوش کرتا ہے۔(الکامل لابن عدی،1/328،رقم:45)


1۔مدرسہ المدینہ: کا آغاز کب ہوا موجودا تعداد ؟

جواب:8دسمبر 1990ء میں آغاز ہوا موجودہ تعداد مدارس 4650اورمفت تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد 2لاکھ 16ہزار841 ہے جبکہ حفظِ قرآن مکمل کرنے والوں کی تعدادتقریباً90ہزار اورناظرہ قرآن مکمل کرنے والوں کی تعداد 3 لاکھ کے قریب ہے

2۔جامعہ المدینہ:کا آغاز کب ہوا موجودا تعداد؟

جواب:1995 ء میں آغاز ہوا ۔موجودہ تعداد 1127 جامعات ہیں جس میں 88ہزار835طلبہ وطالبات تعلیم حاصل کررہے ہیں اورفارغ التحصیل کی کل تعداد 13ہزار455 ہے

3۔مساجد :کی تعمیرات کا آغاز کب ہوا موجودا تعداد؟

جواب:2003 میں آغاز ہوا اب تک کم وبیش 3091مساجد کی تعمیرات ہوچکی

4۔دار المدینہ : کا آغاز کب ہوا موجودا تعداد؟

جواب:2011ء میں آغاز ہوا موجودہ تعداد 98 ہے اسٹوڈنٹس کی تعداد 25ہزار سے زائد ہے

5۔انٹر نیشلی دار المدینہ اسکولنگ سسٹم کب سے شروع ہوا؟

جواب:2012ء میں آغاز ہوا

6۔مدنی چینل: کا آغاز کب ہوا موجودا تعداد؟

جواب:10رمضان 2008ء میں آغاز ہوا اوراب دنیا کی 7 سیٹلائٹس پر اردو،انگلش اوربنگلہ زبان میں چل رہا ہے

7۔سوشل میڈیا: کا آغاز کب ہوا موجودا تعداد؟

جواب:24نومبر 2015میں آغاز ہوا۔سوشل میڈیا کے مختلف پیجز کے ذریعے 3کروڑ 9 لاکھ 31ہزار 430سے زائد فالورز دینی فوائد حاصل کررہے ہیں

8۔آئی ٹی : کا آغاز کب ہوا موجودا تعداد؟

جواب:1995سے قبل آغاز ہوا ۔دعوت اسلامی کی ویب سائیٹ سے 1کروڑ 52لاکھ 66ہزار 260سے زائد لوگوں نے مختلف کتب ورسائل ڈاؤن لوڈ کئے

آئی ٹی پراڈیکٹ :بزنس ایپلیکیشن 45/موبائل ایپلیکیشن(اینڈرائڈ)36/موبائل ایپلیکیشن (آئی او ایس)22/ویب سائیٹ 44

9۔دار الافتاء : کا آغاز کب ہوا موجودا تعداد ؟

جواب:2000ء میں آغاز ہوا موجودہ 14 برانچز ہیں جس میں تحریری 9881زبانی 82915ای میل کے زریعے 30254واٹس ایپ کے ذریعے 14452سوالات کے جوابات دئیے جا چکے ہیں

10۔المدینۃ العلمیہ کا آغاز کب ہوا۔ اب تک کے اعداد وشمار کیا ہیں

جواب:جولائی 2003ء میں آغاز ہوا جس میں اب تک 23شعبہ جات کام کررہے ہیں اورکل 622کتب ورسائل پر کام مکمل ہوچکا ہے

11۔2005 میں زلزلہ کے امدادی کاموں کی تفصیلات

جواب:کم وبیش 17کروڑ روپے کی اجناس تقسیم کی گئی۔

12۔ FGRF کی خدمات ، اب تک کتنے لوگو ں کی مدد کی ؟

جواب:40لاکھ سے زائد عاشقان ِ رسول کی مدد کی ہے

13۔انٹر نیشنل سطح پر کب دینی کام شروع ہوا اب تک کتنے ممالک میں کام ہو چکا؟

جواب:1983میں ہند میں کام شروع ہوا اورپہلا مدنی قافلہ 1986میں پہنچا۔

14۔پاکستان کے بعد پہلا ملک کونسا تھا جہاں دعوت اسلامی کا کام شروع کیا؟

جواب:ہند

15۔پرنٹ میڈیا پر دعوت اسلامی کی خدمات ؟ کتنے کتابیں رسائل ، اور درسی کتب شائع کرچکے ہیں ؟
جواب:1986میں آغاز ہوا۔قرآن پاک ،کتب و رسائل کم وبیش 2000شائع ہوچکے ہیں جس میں عربی کتب جوبیروت ،مصراورشام سے آئی تھیں وہ بھی شامل ہیں اورہرسال کم وبیش 40 سے 50 نئی کتب ورسائل شائع ہوتی ہیں ،پاکستان کے مختلف شہروں میں 36برانچز اور70 سے زائد سے فرنچائز موجود ہیں اسی طرح بیرون ملک میں کم وبیش 48 برانچز موجود ہیں

2014سے اب تک قرآن پاک ،مدنی پنج سورہ،مدنی قاعدہ کم وبیش 21کروڑ10 لاکھ46ہزار276 نسخہ پرنٹ کرکے مساجد اورگھروں کی زینت بن چکا ہے

16۔اب تک ہم نے کتنے ممالک میں دعوت اسلامی کا پیغام پہنچ چکا ؟

جواب:دنیا بھر میں

17۔جیل خانہ جات : کا آغاز کب ہوا موجودا تعداداصلاح شدہ قیدیوں کی تعداد ؟ یا کتنی جیلوں میں ملک بیرون ملک کام ہورہا ہے ۔

جواب:2005 ء میں آغاز ہوا۔کم وبیش 10ہزار سے زائد قیدیوں کی اصلاح کی تعداد کل جیلیں 93 ہیں جب پنجاب میں کام کی اجازت تھی تب کام 62جیلوں میں تھا اوراب 32 جیلوں میں کام ہورہا ہے بیرون ملک کی معلومات 6 ماہ پرانی ہیں اس وقت 18سے 20 جیلوں میں کام تھا

18۔اسپیشل پرسن: اب تک ہم سے کتنی اسپیشل پرسن وابستہ ہو چکے ہیں ، کون کون سی سہولیات اور کون کون سے کورسز ہم ان کو کراتے ہیں ،

جواب:69شہروں میں ہفتہ وار اجتماعات ہورہے ہیں ۔الحمدللہ اب تک 100سے زائد قُفلِ مدینہ کورس (اشاروں کی زبان سیکھانے والا کورس)ہوچکے ہیں ،انکےپاکستان کے مختلف شہروں میں مدارس قائم ہیں جس میں انکو حفظ و ناظرہ کی تعلیم دی جاتی ہے اس کے علاوہ انکا مدنی قافلوں میں سفر،ماہانہ اجتماعات اور سالانہ اجتماعات ہوتے ہیں اوررمضان میں اعتکاف کا بھی سلسلہ ہوتا ہے عنقریب جامعہ و دارالمدینہ کا بھی آغاز ہوگا

19۔ ری ہیبلیٹیشن سینٹر کا کیا کردار ہے ،

جواب:معذور بچوں کی بحالی کےلئے ادارہ بنام FRC(فیضان ری ہیبلیٹیشن سنٹر) قائم کیا جا چکا ہے ۔عنقریب آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والیہ وسلم کی دکھیاری اُمت کی خدم کا جذبہ لئے FGRF مدنی کئیر سنٹر قائم کرنے جارہا ہے مزید یتیم و ناداربچوں کی کفالت ودینی تربیت کےلئے مدنی ہوم قائم کیئے جائیں گے

20۔دعوت اسلامی کے ایمپلائز میں ان کی تعداد کتنی ہے

جواب:دعوتِ اسلامی کے یمپلائز کی تعداد کم وبیش 32 ہزارسے زائد ہے

21۔اسلامی بہنوں کے مختلف دینی کاموں کی ایک جھلک

جواب:اسلامی بھائیوں کی طرح الحمدللہ اسلامی بہنوں میں بھی خوب دینی کام جاری ہے

گھر درس 97ہزار468تعدادمدرستہ المدینہ اسلامی بہنوں کےلئے8ہزار756 جس میں پڑھنے والیوں کی تعداد 74ہزار335 ہے

ہفتہ وارسنتوں بھرے اجتماعات کی تعداد 12ہزار306ہے ان میں شرکت کرنے والیوں کی تعدادکم وبیش 3لاکھ 20ہزار216ہے

مدنی مذاکرہ دیکھنے سُننے والیوں کی تعداد کم وبیش 1لاکھ 13ہزار708ہے

22۔دعوت اسلامی کا اپنا تعلیمی بورڈ کب اپروف ہوا اور کون کون سے شعبہ جات اس بورڈ کے تحت آتے ہیں ،مدرسہ المدینہ ،جامعہ المدینہ ، یا قرات کورس وغیرہ ؟اس بورڈ کو دعوت اسلامی میں کون لیڈ کر رہا ہے؟

جواب:27اپریل2021ء میں وفاقی تعلیمی بورڈ کنزالمدارس کی منظوری دی ہے اس کے تحت مدرسۃ المدینہ،جامعۃ المدینہ ،فیضان آن لائن اکیڈمی ملک وبیرون ملک اسناد(حفظ قرآن،درس نظامی، تخصصات) جاری ہوں گی ۔ رُکنِ شوریٰ حاجی جنید عطاری مدنی پورڈ کے چیئر مین منتخب ہوئے ہیں۔

23۔ مدنی چینل دنیا کی کتنی بڑی سٹلائٹس پر ہیں اور کون کون سی لینگویج میں چل رہاہے ؟

جواب: سات بڑی سیٹلائٹس پر اردو،انگلش اوربنگلہ زبانوں میں دیکھا جارہا ہے۔

24۔وزارت مذہبی اُمور پاکستان کی طرف سے جو ہمیں سیٹفیکیٹ ملتا ہے ہر تین چار سال بعد اس بار کا وہ بھی چاہیے ہوگا ۔مزید جو حکومتی اور دیگر اداروں کی طرف سے جو ایپریسیشن ملی ہے وہ ڈاکومنٹ یا ان کی تفصیلات ۔

جواب۔19مئی 2019ء کو وزارتِ مذہبی اُمور پاکستان کی طرف سے جاری ہوا۔مزید تمام لیٹرز جو مختلف حکومتی اداروں کی طرف سےملےہیں وہ عبدالواحد بھائی کو سینڈ کردئیے ہیں

25۔دار المدینہ انٹر نیشنل ا سکول کا جو اپنا نصاب ہے ، وہ گورٹمنٹ سے اپرو ف ہے اس کی ڈیٹیل چاہیے ہوگی یہ وفاق کے تحت رجسٹر ہے یا صوبائی ایجو کیشن بورڈ کے تحت ہے؟

جواب:یہ وفاق کے تحت رجسٹر تھا اب جو نظام بنا ہے اس پر وقت لگے گا

26۔دعوت اسلامی دنیا کے کن ممالک میں ہے موجود ہے اور ویہاں کن اپرول ملی کے دارالمدینہ کھولنے کی۔

جواب:دعوت اسلامی کا پیغام دنیا بھر میں پہنچ چکا ہے اورتنظیم ترکیب 63 ممالک میں موجود ہے جہاں باقاعدہ دینی کام ہورہا ہے اس کے علاوہ 90 ممالک میں مدنی قاقلوں میں سفر ہوچکا ہے 12 ممالک میں دارالمدینہ اوپننگ کی اپرول مل چکی ہےان میں یہ ممالک ہند،انگلینڈ،امریکہ ،ساؤتھ افریقہ،نیپال،بنگلہ دیش،آسٹریلیاء،موزمبیق،کینیا،یوگینڈا،تنزانیہ،موریشس شامل ہیں

27۔اب تک کتنے پودے لگ چکے ہیں، اور کتنوں کا ٹارگٹ ہے ؟

جواب:اب تک 12 لاکھ پودے لگ چکے ٹارگٹ 2 ملین پودے لگانے کا ہے

28۔اب تک کتنے بلڈ بیگ جمع ہو چکے ہیں ؟

جواب:کم وبیش 46 ہزار بیگ جمع ہوچکے

29۔قبول اسلام کتنی لوگ کرچکے ہیں ، جو تعداد موجود ہوں وہ عطا فرمائیں۔

جواب:دینی کاموں کی برکت سے اورمبلغین کی انفرادی کوشش سے اب تک ہزاروں غیر مسلم اسلام قبول کرچکے ہیں مگر کنفرم فگر موجود نہیں

30۔اب تک کتنے علمائے کرام فارغ ہو چکے ہیں ؟ جامعات المدینہ اور جامعۃ کالمدینہ آن لائن سے ۔

جواب:جامعۃ المدینہ سے کل فارغ التحصیل 13455

31۔اب تک کتنے حفاظ فارغ ہوچکے ؟ مدرسۃ المدینہ ، آن لائن وغیرہ سے جواب:25ہزار380 سے زائد طلبہ وطالبات فارغ ہوچکے

32۔کن کن ممالک میں کام کرنے کی سرکاری اجازت ہے ۔

جواب:دعوت اسلامی 36 ممالک میں آرگنائزیشن کے طورپر رجسٹرڈ ہے دیگر ممالک میں ملکی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے کام ہورہا ہے

33۔دنیا میں کہاں کہاں دعوت اسلامی بڑے سالانہ اجتماعات کرتی ہے جیسے ہر سال بنگلہ دیش میں سالانہ اجتما ع ہوتا ہے 3 دن کا ۔

جواب:ہند ،بنگلہ دیش

34۔دعوت اسلامی کے بڑے کارنامے کیا ہیں ؟مثلا بچوں کے لئے چینل کا آغاز،مدنی چینل ،اردو انگلش اور بنگلہ،ویلفئیر ٹرسٹ کا رجسٹرڈ ہونا ،وغیرہ

جواب:وہ سب تو already اس میں شامل ہوچکے

35۔روہنگا مسلم ، شامی پناگیزروں،اور مزید رفیزیس میں جو کام ہوا اس کی فیکٹس اینڈ فیگر ز۔

جواب:سومالیہ:گھانا،موذمبیق،

ترکی ، انگلینڈ،کینیا،ساؤتھ افریقہ،نائجریہ،کریگستان،ملاوی،

ہنداورتنزانیہ ان ممالک میں FGRF کے تحت مسلمانوں کی درج ذیل اجناس کے ذریعے امداد کی گئی ۔

سوٹ:450،راشن بیگ:25015،ماہِ رمضان سحری وافطاری:140،واٹر پروجیکٹس:29،کوویڈ کفن دفن :650،لنگرِ رضوئیہ:67928،جنک فوڈ ڈیلز:60.4 ٹن

36۔شعبہ روحانی علاج کا آغاز کب ہوا۔ اب تک کے اعداد وشمار کیا ہیں

جواب:2003 میں آغاز ہوا ۔ اسلامی بھائیوں کے بستوں کی تعداد پاکستان1157

مریضوں کی تعداد194000 تقریبا اسلامی بہنوں کے بستوں کی تعداد132

مریضوں کی تعدادتقریبا 40000اوورسیز بستوں کی تعداد270 تقریبا ہے مجموعی بستوں کی تعداد 1559 ہے اورمریضوں کی تعداد کم وبیش 2لاکھ 34ہزار ہے۔