مفتی محمداعجازولی خان رضوی رحمۃ اللہ علیہ

اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان(1) رحمۃ اللہ علیہ کےخاندان کے وہ افراد جنہو ں نے پاکستان ہجرت کی،ان میں سے ایک اہم شخصیت استاذالعلماء،مفتیِ اسلام،حضرت علامہ مفتی محمد اعجازولی خان رضوی صاحب بھی ہیں، انہوں نے پاکستان کے کئی شہروں میں درس وتدریس کی خدمات سرانجام دیں،ہزاروں طلبگارانِ علم کو علم ومعرفت سے سیراب کیا، ذیل میں ان کے کچھ حالات ذکرکئے جاتے ہیں :

اعلیٰ حضرت سے رشتہ

مفتی اعجازولی خان صاحب کا نسب اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے پڑداداحضرت حافظ کاظم علی خان صاحب (2) سے مل جاتا ہے۔نسب نامہ یہ ہے : مفتی محمداعجازولی خان بن مولانا سردارولی خان بن حکیم ہادی علی خان بن رئیس الحکماء حکیم تقی علی خان بن حافظ کاظم علی خان۔ (3) والدہ کی جانب سے اعلیٰ حضرت رشتے میں آپ کے نانا ہیں کیونکہ مفتی صاحب کی والدہ کنیز فاطمہ اعلیٰ حضرت کی ہمشیرہ حجاب بیگم کی بیٹی ہیں ۔(4)

والدین کا ذکرِخیر

مفتی اعجازولی خان صاحب کے والدِمحترم مولانا سردارولی خان صاحب کی پیدائش1302ھ مطابق 1885ء کو بریلی شریف میں ہوئی ،انھوں نےطویل عمرپائی اور 6صفر1395ھ مطابق18فروری 1975ء کو پیرجوگوٹھ میں انتقال فرمایا۔آپ سراج العارفین مولانا سیّدابوالحسین احمد نوری(5) (سجادہ نشین آستانہ عالیہ برکاتیہ مارہرہ شریف یوپی ہند) کے مرید تھے۔ مولانا سردارولی خان صاحب کی زوجہ ٔ محترمہ کنیزفاطمہ نیک صالحہ خاتون تھیں، انکی پیدائش1297ھ مطابق 1880ء کو بریلی میں ہوئی اور وصال 1377ھ مطابق1957ء کو پیرجوگوٹھ میں ہوا،دونوں کی قبورمفتی تقدس علی خان صاحب کے مزارکے قریب پیرجوگوٹھ قبرستان (ضلع خیرپورمیرس،سندھ)میں ہیں۔(6) مولانا سردارولی خان صاحب کے چاربیٹے مشہور عالم دین مفتی تقدس علی خان، مفتی اعجازولی خان،عبدالعلی خان،حافظ مقدس علی خان اوردوبیٹیاں محبوب فاطمہ زوجہ شریف محمدخان اورحمیدفاطمہ تھیں۔(7) مولانا سردارولی خان صاحب نے اپنی اہلیہ کے ساتھ 1330ھ مطابق 1912ء میں حج کی سعادت حاصل کی۔ مفتی اعجازولی صاحب بیان کرتے ہیں : 1330ھ میں میرے والدین کریمین حج کے عازِم ہوئے ، والدہ صاحبہ اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئیں(8) اور اجازت چاہی، اعلیٰ حضرت نے فرمایا:’’میں آتے جاتے تمہارے ساتھ ہوں‘‘ پھر فرمایا :’’ میں سچ کہتا ہوں کہ میں آتے جاتے تمہارے ساتھ ہوں ‘‘ والدہ صاحبہ اس کے بعد حج پر روانہ ہو گئیں۔حطیم شریف میں ایک شب والدہ صاحبہ نفل پڑھ رہی تھیں کہ لوگوں کا ہجوم ہوگیا اور ساتھ والے سب جدا ہو گئے ۔ والدہ صاحبہ بہت گھبرا ئیں اور خیال کیا کہ اعلیٰ حضرت نے فرمایا تھا کہ میں آتے جاتے تمہارے ساتھ ہوں ، اب اور کون سا وقت آئے گا جس میں مدد فرمائیں گے۔لوگوں کا ہجوم اس قدر تھا کہ راستہ ملنا دشوار تھا کہ اعلیٰ حضرت کو دیکھا ، آپ نے کچھ عربی میں فرمایا جس کا مطلب معلوم نہ ہو سکا لیکن اس قدر ہجوم کے باوجود راستہ ایسا مل گیا کہ والدہ صاحبہ بآسانی وہاں سے چلی آئیں اور دوسرے دروازہ سے جب حرم شریف کے باہر آئیں تو والدصاحب بھی مل گئے اوراعلیٰ حضرت غائب ہو گئے بریلی آکر عرض کیا تو اعلیٰ حضرت نے سکوت فرمایا۔(9)

پیدائش والقابات

مفتی صاحب 11 ربیع الآخر 1332ھ مطابق 20 مارچ 1914ء میں بریلی شریف میں پیدا ہوئے ۔(10) عقیقہ کی تقریب میں آپ کانام محمدرکھا گیا ،اعجازولی خان عرف قرارپایا ۔(11) آپ اپنا نام اس طرح لکھا کرتے تھے:فقیرقادری محمد اعجازالرضوی عفی عنہ۔(12) آپ کے القابات فخرالاساتذۃ الاعلام،فاضل جلیل،نامورمفتی ،فقیہ المفخم ،شیخ الفقہ ،شیخ الحدیث اوراستاذالعلماوغیرہ ہیں ۔

بچپن اوراعلیٰ حضرت سے تَلَمُّذ(شرفِ شاگردگی)

25شعبان المعظم 1336ھ مطابق 5جون 1918ء کورسم بسم اللہ میں اعلیٰ حضرت امام احمدرضا نےبسم اللہ شریف پڑھا کر باقاعدہ تعلیم کا آغازفرمایا ،قرآن مجید آپ نے حافظ عبدالکریم قادری صاحب(13) سے پڑھنے کی سعادت حاصل کی ، حفظ القرآن کی تکمیل حافظ عبدالقادر بریلوی صاحب(14) سے کی ۔(15) مفتی اعجازولی خان صاحب کو بچپن کے تقریبا ً آٹھ سال تک اعلیٰ حضرت کی قربت حاصل رہی ،آپ اعلیٰ حضرت سے اس قدرمانوس تھے کہ اعلیٰ حضرت کے وصال کے بعد بھی اعلیٰ حضرت کے مزارپر حاضرہوکر اپنی مشکلات بیان کردیا کرتے تھے ؛چنانچہ آپ کے بیان کردہ دوواقعات ملاحظہ فرمائیے : ٭ میرا چھوٹا بھائی(حافظ مقدس علی خان ) جومجھے بہت ہی زیادہ پیارا ہے چیچک میں مبتلا ہوا ۔ ایک شب میں استاذ ی مولانا امجدعلی اعظمی صاحب(16) کے مکان پر تھا اور مولوی عبدالمصطفیٰ صاحب(17 ) سے لپٹ کراسی غم میں رو رہا تھا کہ دل میں خیال آیا کیوں نہ اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کروں، آستانہ پر حاضر ہوا اور رو رو کر عرض کیا، خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں حکم ہوا ’’اچھا ہوجائے گا۔‘‘فوراً صحت ہو گئی ۔(18) ٭ 4مئی 1935ء(مطابق 30محرم 1354ھ) کو بدایون اور گاؤں کے درمیان دس آدمیوں نے والد صاحب قبلہ پر حملہ کیا اور بہت زیادہ چوٹیں آئیں ۔ صبح 5مئی کو مظفر حسین نے کچھ ایسے الفاظ میں والد صاحب کی حالت بیان کی کہ نہ صرف میں بلکہ تمام لوگ گھبراگئے ۔ فوراً آستانۂ رضویہ پر حاضر ہوا اور عرض کیا ۔ حکم ہوا کہ ’’ اچھے ہیں ‘‘ بدایون جا کر دیکھا تو جیسی حالت بتائی تھی اس سے بہت کم تھی ، 20،22دنوں میں صحت ہو گئی اگر چہ ضربات 18،19تھیں ،مگر صدقے اس کریم کے کہ جس نے صحیح و سالم کر دیا ۔ (19)

دارالعلوم منظراسلام میں داخلہ

مفتی اعجازولی خان صاحب جب کچھ بڑے ہوئے تو دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف(20) میں داخلہ لے لیا،ابتداًتا متوسطات کتب درس نظامیہ اپنے بڑے بھائی مفتی تقدس علی خان(21) ،حضرت مولانا مختاراحمدسلطانپوری ثم بریلوی(22) اور حکیم الاسلام مفتی محمدحسنین رضا خان بریلوی(23) سے پڑھیں،شرح جامی مفتی اعظم ہند محمدمصطفی رضا خان صاحب(24) اور تفسیرجلالین اپنے ماموں زادبھائی مولانا سردارعلی خان عزومیاں بریلوی ثم ملتانی (25) سے پڑھی۔(26)

مدرسہ عربیہ حافظیہ سعیدیہ دادوں میں داخلہ

درسیات کی تکمیل کے لیےصدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی(27) کے پاس مدرسہ عربیہ حافظیہ سعیدیہ دادوں ضلع علی گڑھ ،یوپی ہند (28) میں تخمیناً محرم 1356 ھ مطابق مارچ1937ء کو حاضرہوئے، شعبان1356ھ مطابق اکتوبر 1937ء کو سندتکمیل وسندحدیث حاصل کی۔یہاں آپ کو صدرالشریعہ کے شاگردحضرت مولاناحافظ قاری غلام محی الدین رضوی شیری صاحب سے شرفِ تلمذ(شاگردبننے کی سعادت )حاصل ہوا۔(29)

مفتیِ اعظم ہند اورحجۃ الاسلام سے حصولِ سندِحدیث

مدرسہ عربیہ حافظیہ سعیدیہ دادوں سے فارغ التحصیل ہوکربریلی شریف آئے تومفتی اعظم ہند مفتی محمدمصطفی رضا خان صاحب سے سندِ حدیث کی درخواست پیش کی، مفتی اعظم ہند نے آپ کو 1356ھ مطابق 1937ھ کو سندِ حدیث عطا فرمائی، بعدازاں حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب(30) نے تقریباً 8ذوالحجہ 1356ھ مطابق9فروری 1938ء کو سندِحدیث عطافرمائی ،اسی عرصے میں الہ آباد یونیورسٹی میں فاضل دینیات کا امتحان دیا اورکامیاب ہونے پرفاضلِ دینیات کی ڈگری حاصل کی ۔ (31)

علمِ جفراورفنِ استخراج میں مہارت

مفتی اعجازولی خان صاحب جیدعالم دین،بہترین مدرس،فقیہ جلیل اورمعقول ومنقول کے جامع تھے ۔اسلامی علوم بالخصوص فقہ وحدیث میں کامل دسترس رکھتے تھے ،آپ کو علم جفر(32) اورفنِ تاریخ گوئی(33) سے بھی دلچسپی تھی ۔مولانا محمدابراہیم خوشترقادری صاحب (34) تحریرفرماتے ہیں :امام احمدرضا کے خاندان میں آپ کو علم جفرسے قدرے مناسبت تھی۔اس کا مشاہدہ راقم الحروف نے خود کیا ہے۔ آپ نے چندسال پہلے ہی مجھے اپنے وصال کی خبردی،پھرمیں نے رمضان سے پہلے اس کی تصدیق چاہی کہ آپ کی پیشگوئی کے مطابق رحلت آپ کی رمضان میں ہوگی ،ہنوزبرقرارہے؟ آپ نے جواباًارشادفرمایا،اب قدرے تبدیلی واقع ہوگئی ہے۔اب یہ سانحہ شوال میں ہوگا ۔مزیدفرماتے ہیں :تحدیثِ نعمت کے طوپر لکھ رہاہوں کہ تاریخِ استخراج کے فن میں حضرت فقیہِ عصرسے میں نے استفادہ کیا ہے۔(35)

بیعت و خلافت

اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان صاحب نے آپ کو رسم بسم اللہ کے موقع پر 25شعبان 1336ھ مطابق 5جون 1918ء کوسلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ میں داخل فرمایا،حجۃ الاسلام مولانا حامدرضا خان صاحب نے آپ کو 8ذوالحجہ 1356ھ مطابق9فروری 1938ء کو سلسلہ قادریہ رضویہ حامدیہ کی خلافت عطافرمائی۔(36) 7رجب1383ھ مطابق 24نومبر1963ءکو سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نوازسیدحسن سنجری(37) کے دربارِگہربارمیں مفتی اعظم ہندعلامہ محمد مصطفی رضا خان نوری صاحب نے آپ کو سلسلہ قادریہ رضویہ نوریہ کی خلافت عطافرمائی ، آپ جیدعالم دین ،صوفی کامل اوراورادووظائف کے پابندتھے ،پیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب تحریرفرماتے ہیں :

مفتی صاحب قبلہ علمی مصروفیت کے ساتھ ساتھ خانقاہِ بریلی کے ان تعویذات اوروظائف کے مجازتھے جوشمع شبستان رضا میں درج ہیں ۔ان کی وفات کے بعد دارالعلوم نعمانیہ لاہور(38) میں آج تک ان حضرات کے خطوط آتے ہیں، جو ان سے اپنے مصائب کا روحانی علاج تلاش کرتے تھے ،مزیدتحریرفرماتے ہیں ،مفتی اعجازولی خان 1965ء کی جنگ کے دوران میرے ساتھ اگلے مورچوں پر گئے۔دوسرے لفظوں میں مَیں ان کے ساتھ اگلے مورچوں پر گیا۔ہمارے ساتھ بڑے نامورعلماء اہل سنت کا ایک وفدتھا ۔اگرچہ ہرعالم دین نے اپنے اپنے اندازمیں غازیانِ صف شکن کے سامنے اسلامی جہاد کی فضیلت پرگفتگوکی مگرمفتی اعجازولی خاں مرحوم کا اندازروحانی تھا ،جسے موت وحیات کے درمیان کھڑے جوانوں نے بے حدپسندکیا۔آپ نے بعض نوجوانوں کوایسے وظائف بھی بتائے ،جسے سپاہی سے لے کرکمانڈرتک،ہرایک نے حاصل کرنے میں دلچسپی لی۔(39) جب آپ جامعہ محمدی شریف ،بھوانہ ،ضلع چنیوٹ،(40) میں شیخ الحدیث تھے تو اس دورمیں آپ نے شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمدقمرالدین سیالوی (41) رحمۃ اللہ علیہ سے سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں خلافت کا شرف حاصل کیا ۔ (42)

ہند میں تدریس

مفتی اعجازولی خان صاحب نےاسلامی علوم کی تحصیل کے بعد پاکستان ہجرت تک آپ نے تقریبا دس سال ہند میں گزارے ٭آپ نے تخمینا ً 1357ھ مطابق 1938ء تا 1362ھ مطابق 1943ء تک تقریبا چارسال این بی ہائی اسکول بریلی شریف میں ٹیچنگ کی ۔٭اس کے بعد دارالعلوم مظہراسلام بریلی شریف (43) اوردارالعلوم منظراسلام بریلی شریف میں معقولات کی تدریس میں دوسال مدرس رہے ٭اس کے ساتھ مفتی اعظم ہند کی سرپرستی میں رضوی دارالافتا ء بریلی شریف میں فتاویٰ نویسی کرنے لگے ٭ (غالباشوال)1364ھ مطابق (ستمبر)1945ء کو آپ مدرسہ منہاج العلوم پانی پت (44) تشریف لے گئے وہاں آپ نے ایک سال فرائض تدریس سرانجام دینے کے بعدآپ دارالعلوم منظراسلام واپس تشریف لے آئے اور پڑھانے کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا۔ ٭ہند میں اس دورِ خدمت دین کا اختتام 6صفر 1367ھ مطابق 20دسمبر1945ء کو پاکستان ہجرت کی صورت میں ہوا،اس چھ سالہ تدریسِ درسِ نظامی میں کثیر طلبۂ کرام نےآپ سے استفادہ کیا ۔(45)

جمیعت خدّام الرضا ،بریلی کی رکنیت

مفتی اعجازولی خان صاحب نے قیام بریلی کے دوران جمیعت خدام الرضا میں شمولیت اختیارکی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ محدث اعظم پاکستان مولانا سرداراحمدقادری چشتی صاحب(46) نے 1352ھ مطابق 1933ء کو دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف سے فارغ التحصیل ہوکراس میں تدریس شروع فرمائی۔ تواس زمانے میں آپ نے دیگرعلماسے مل کر جمیعت خدام الرضا بریلی بنائی ،جس کا مقصدبذریعہ تحریروتقریرمذہب حقہ اہل سنت وجماعت کی تبلیغ واشاعت اورجلسے جلوسوں کا انتطام کرناتھا ،علامہ سرداراحمدصاحب اس کے صدر،مفتی اعجازولی خان،مفتی وقارالدین قادری اوردیگرعلمااس کے اراکین منتخب ہوئے، اس کے تحت مفتی اعجازولی خان صاحب نے اپنا ایک اشتہار بنام’’ احقاقِ حق وابطال باطل‘‘ 29رجب1355ھ مطابق 16اکتوبر1936ء کو شائع کروایا جو محدث اعظم پاکستان کے کتب خانے میں موجودہے ۔(47)

جماعت رضائے مصطفیٰ میں حصہ

مفتی اعجازولی خان صاحب کل ہندجماعت رضائے مصطفی (48) کے’’ شعبہ اشاعتِ کتب‘‘ سے منسلک تھے چنانچہ مولانا شہاب الدین رضوی صاحب (49) تحریرفرماتے ہیں :مولانا اعجازولی خاں بریلوی نے بھی اشاعتِ کتب میں حصہ لیا اور جماعت کا کچھ باراپنے سرپرلیا۔پوسٹروغیرہ انہیں کے اہتمام سے شائع ہوتے تھے۔(50)

تحریکِ پاکستان میں فعال کردار

مفتی اعجازولی خان صاحب مسلمانوں کے حالات پر بھی گہری نظررکھتے ،حالات حاضرہ سے باخبررہتے اورمسلمانوں کی خیرخواہی کے لیے اہم اقدامات میں بھرپورحصہ لیتےتھے ٭ 1356ھ مطابق1937ء میں آپ مسلمانوں کےحقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت ونصرت کے لیے بیانات کرنے لگے ٭اہل سنت کی عظیم تنظیم ’’آل انڈیا کانفرنس‘‘(51) کاعظیم الشان اجلاس جمادی الاولیٰ 1365ھ مطابق اپریل1946 ء کو اترپردیش کے شہر بنارس میں ہوا جس میں تقریباپانچ سومشائخ عظام،سات ہزارعلمائے اعلام اوردولاکھ سے زائدسنی عوام نے شرکت کی ، اس اجلاس میں مفتی اعجازولی خان صاحب بھی اپنے رفقاکے ساتھ بھرپوراندازمیں شریک ہوئے۔اس میں پاکستان کے حق میں ایک تاریخ فتویٰ بعنوان’’آل انڈیا سنی کانفرنس کے مشاہیرعلماء ومشائخین کا متفقہ فیصلہ ‘‘شائع ہوا،آپ نے اس کی بھرپورحمایت کی۔(52) ٭جب 13صفر1359ھ مطابق23مارچ 1940ء کو لاہور(53) میں قراردادِ پاکستان(54) منظور ہوئی تو آپ اس سے نہ صرف متفق تھے بلکہ اس کی تائیدمیں رضوی دارالافتاء بریلی شریف سےایک فتاویٰ جاری فرمایا ٭جب تحریک پاکستان اپنے جوبن پرتھی تو آپ نے 1945 ء اور1946ء میں مشرقی پنجاب کا دورہ کرکے پاکستان کے حق میں جلسے کئے، لوگوں کو تحریک پاکستان میں حصہ لینے کے لیے تیارکیا ،اس سلسلے میں پیداکئے جانے والے شکوک و شبہات کودورکیا،مخالفین کے دلائل کا بہترین جواب دیا ۔چنانچہ اکابرِتحریک پاکستان میں ہے:

(آل انڈیا کانفرنس میں شرکت کے بعدمفتی صاحب )حصول پاکستان کی منزل کوپانے کے لیے سربکف ِ میدان میں کودے،جگہ جگہ مسلم لیگ کی حمایت میں دورے کئے۔ پنجاب کے اکثراضلاع میں مسلم لیگ کا پیغام پہنچایا۔(55)

٭23تا25صفرالمظفر 1365ھ مطابق27تا29جنوری 1946ء کو آپ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے پچیسویں عرس کےموقع پر بریلی شریف میں پاکستان کےحق میں قراردادمنظورکی گئی،(56) اس میں آپ موجودتھے اورآپ نے اس قراردادکی مکمل حمایت کی ، علمائے اہل سنت کی کوششوں اورعوام اہل سنت کی حمایت سے ہی ہمیں وطن عزیز پاکستان جیسی عظیم نعمت حاصل ہوئی ہے۔

بعدِہجرت تدریس

مفتی اعجازولی خان بہترین مدرس تھے آپ نے تدریسی دنیا میں بڑانام پیداکیا۔بریلی شریف،جھنگ،جہلم،لاہورمیں کتبِ معقول ومنقول کی تدریس میں بڑی شہرت حاصل کی۔شیخ الحدیث والفقہ کی حیثیت سے تو آپ کی ذات مُسلَّم تھی،پاکستان میں آپ کی تدریس زندگی کی کچھ تفصیل ملاحظہ کیجئے:

٭ 6صفر1367 ھ مطابق 20دسمبر1947ء کو آپ نے پاکستان ہجرت کی اورجامعہ محمدی شریف (57) بھوانہ (ضلع چنیوٹ،پنجاب) میں تدریس کا آغازکیا ، 1370 ھ مطابق 1951ء تک آپ یہاں رہے ،بطورمدرس ونائب شیخ الحدیث آپ نے وہاں تین چارسال پڑھایا ۔ (58) آپ کے ایام تدریس میں وہاں فاضل عربی اور دورۂ حدیث کا آغازہوا۔(59)

٭پھرآپ نے 1370 ھ مطابق 1951ء تا1373ھ مطابق 1954ء کی درمیانی مدت میں دارالعلوم اہل سنت و جماعت جہلم (60) میں تدریس فرمائی۔ اس مدرسے میں استاذالحفاظ حافظ محمدسعید کاشمیری صاحب (61) اور استاذالعلما ء مفتی قاضی غلام محمودہزاروی صاحب(62) بھی مدرس رہے ہیں ۔(63)

٭شوال1373ھ مطابق جون 1954ء میں آپ جامعہ نعیمیہ لاہور(64) میں بطورشیخ الحدیث و الفقہ تشریف لے آئے، تقریباً چھ سال بحسن وخوبی یہ ذمہ داری نبھاتے رہے۔٭اسی دوران آپ نے1373ھ مطابق 1954ء میں حضرت داتاگنج بخش سیدعلی ہجویری کے دربارگہربارکے قریب جامعہ گنج بخش (65) قائم فرمایا،اس جامعہ کے قیام میں حضرت سیدمحمدمعصوم شاہ مالک نوری کتب خانہ(66) نے دل کھول کرامداددی ۔حضرت مفتی اعجازولی خاں رضوی رحمۃ اللہ علیہ صبح کو داتاصاحب کی مسجدمیں درسِ قرآن دیتے اور جامعہ گنج بخش کے طلبہ کو پڑھاتے ۔اس مدرسہ نے آہستہ آہستہ اپنا نام پیداکرلیا ۔آپ نے یہاں سے ایک ماہنامہ رسالہ گنج بخش جاری کیا جوکچھ عرصہ چل کردم توڑگیا ۔(67) ٭1375ھ مطابق 1956ء میں مرکزی جامع مسجدمحلہ اسلام پورہ لاہور(68) میں خطیب مقررہوئے ،وہاں آپ نے مدرسہ حامدیہ رضویہ (69) کی بنیادرکھی ،اسے مدرسے اورجامعہ گنج بخش کے مہتمم آپ خود تھے۔

٭1379ھ مطابق1960ء میں انتظامیہ کے اصرارپر آپ اہل سنت کے قدیم دارالعلوم جامعہ نعمانیہ لاہور (70) میں شیخ الحدیث مقررہوئے، آپ نےیہاں تیرہ سال پڑھایا ، جامعہ نعمانیہ کے اس دورمیں وہ عروج نہیں تھا جوپہلے سالوں میں اسے حاصل ہواتھا بحرحال چندباتیں پیش خدمت ہیں: ٭شوال 1384ھ مطابق فروری 1965ءمیں مفتی اعجاز ولی خان صاحب جامعہ نعمانیہ کے شیخ الحدیث اورمولاناسیدمحمداشرف کاظمی صاحب(71) صدرمدرس تھے ۔(72) ٭1389ھ مطابق 1969ء میں مفتی اعجازولی خان (صدرمدرس)انجمن نعمانیہ کی گیارہ رکنی مجلس شوریٰ کے رکن بھی تھے (73) ٭ 1390ھ مطابق 1970ء میں بھی مفتی اعجازولی صاحب صدرمدرس تھے اس سال دورۂ حدیث کے 6،درجہ عربیہ کے15 اوردرجہ حفظ کے 21طلبہ مستقل مدرسے میں تھے ۔(74)٭رمضان 1390ھ مطابق نومبر 1970ء میں مفتی اعجازولی صاحب نے ماہ رمضان میں دورۂ تفسیرقرآن کروانے کا اعلان کیا گیا ،مختلف مدارس کے 28طلبہ نے داخلہ لیا، اسی سال دستارِ فضیلت کا جلسہ بھی ہواجو بوجوہ کئی سالوں سے نہیں ہواتھا،اس جلسے میں ان تمام سالوں میں فارغ التحصیل ہونے ان طلبہ کی دستاربندی ہوئی ۔(75) ٭صفر1392ھ مطابق 2اپریل 1972ء میں انجمن نعمانیہ کا اجلاس ہوا جس میں اراکین انجمن،اساتذہ اورشہرکے دیگرعلمانے شرکت کی، جامعہ نعمانیہ کی حالتِ زارپرغورہوا،مفتی اعجازولی خاں صاحب نے اپنی جیبِ خاص سےجامعہ نعمانیہ کو رقم دی ،مولاناسید غلام یسین شاہ صاحب(76) نے چندہ جمع کرکےجامعہ نعمانیہ کو دیا اوراس اجلاس میں مولانا عبدالستارخاں نیازی صاحب(77) نے بھی بیان کیا ۔(78) ٭رجب 1393ھ مطابق ۲۶اگست ۱۹۷۳ء میں مفتی صاحب نے بطور شیخ الحدیث یہاں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔(79) ٭17رمضان 1393ھ مطابق 14اکتوبر1973ء کو انجمن نعمانیہ کی مجلس شوریٰ کا مشورہ ہوا،اس میں مفتی اعجازولی صاحب کی جمیعت علمائے پاکستان کی مصروفیت کا ذکرآیا جس کی وجہ سے آپ کی دارالعلوم کی جانب توجہ کم ہوگئی تھی چنانچہ فیصلہ ہواکہ مفتی صاحب کو تدریسی فرائض سے سبکدوش کردیا جائے ،مفتی صاحب اس اجلاس میں موجودتھے چنانچہ آپ نے شوریٰ کے اس فیصلے کوتسلیم کرلیا اور 19شوال 1393ھ مطابق 15نومبر1973ء کو مستعفی ہوگئے ۔(80)

٭اس کے بعدجامعہ نظامیہ رضویہ (81)کے شیخ الحدیث بنائے گئے، صرف دودن تشریف لائے اورمرض الموت میں مبتلاہوگئے اوریہاں کے طلبہ آپ سے مستفیض نہ ہوسکے ۔(82)

پاکستان میں مختلف تحاریک میں حصہ

مفتی اعجازولی خان بہترین عالم دین،جید مدرس درس نظامی،صوفی باصفااورپرچوش مجاہدتھے ٭آپ نے 1953ء میں ہونے والی تحریکِ ختمِ نبوت میں بھرپورحصہ لیا ،جس کی وجہ سے(غالباجمادی الاخریٰ 1372ھ مطابق مارچ1953ء سے) تقریباساڑھے تین ماہ سیفٹی ایکٹ کے تحت نظربندرہے ٭پاکستان میں آل انڈیاسنی کانفرنس کو جمیعت علمائے پاکستان کا نام دیاگیا ،شروع سے آپ اس کے معاون رہے،علامہ ابوالحسنات سیدمحمداحمدقادری صاحب کے دورِ صدارت میں مجلس عاملہ کے رکن ،دورِصدارتِ علامہ عبدالحامدبدیونی میں مغربی پاکستان کے صدر،دورِصدارتِ خواجہ قمرالدین سیالوی میں خازن بنائے گئے ،ربیع الاول1391ھ مطابق مئی 1971ءمیں صوبہ پنجاب کے صدرمنتخب کئے گئے ۔(83) پیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب(84) تحریرفرماتے ہیں: مفتی اعجازولی خاں مرحوم اپنی تدریسی مصروفیات کے ساتھ ساتھ جمیعت علماء پاکستان کے ساتھ سیاسی وابستگی رکھتے تھے۔آپ جمیعت کے مختلف عہدوں پر منتخب ہوئے اورزندگی بھراس دینی وسیاسی جمیعت میں کام کرتے رہے۔انہیں اس سیاسی وابستگی کی وجہ سے کئی باراپنی ملازمت، امامت اورتدریسی فرائض سے محروم ہوناپڑامگروہ مستقل مزاجی سے اپنی راہ پرگامزن رہے ۔(85)

سیرت کے چندپہلو

مفتی اعجازولی صاحب علم وعمل کے جامع اورحسن اخلاق کے پیکرتھے، عوام وعلماسب سے تعلقات رکھتے،ان کی دینی ودنیاوی رہنمائی فرماتے، نیک اعمال پرابھارتے اور ان کی دنیاوآخرت بہتربنانے کی کوشش کرتے،آپ کے حسن اخلاق کے بارے میں پیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب تحریرفرماتے ہیں :

مفتی اعجازولی خاں مرحوم ایک مقتدرعالم دین ہونے کے باوجودبڑے ملنسار،غمگساراوردوست نوازبزرگ تھے ۔وہ نہ کسی پرتنقیدفرماتے اورنہ کسی کی حرف گیری کرتے۔ عقیدہ کے پکے،دل کے سچے اورلوگوں سے پیارومحبت کے خوگرتھے ۔ مزیدتحریرفرماتے ہیں :مفتی اعجازولی خاں مرحوم بڑے خلیق انسان تھے۔مَیں ان کی انکساری اورحسن اخلاق سے اتنا متاثرتھا کہ ایک دن میں نے ازراہ ِتفنن کہہ دیا ،مفتی صاحب !مجھے ڈرہے کہ آپ کو راستہ میں ابلیس کھڑاکرکے سلام کرے تو آپ اسے بھی وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ کہہ دیں گے ۔فرمانے لگے ،’’نہیں !اتنا بھی خلیق نہیں ہوں ،لاحول ولاقوۃ الاباللہ کا کوڑا مارکراسے بھگادوں گا۔‘‘ مفتی صاحب مرحوم علماء اہل سنت کی محبوب ومرغوب شخصیت تھے ۔تمام علماء کرام ان سے محبت کرتے تھے۔ ان علماء کرام کی علمی مجالس کے علاوہ انہیں حضرت علامہ سید ابوالبرکات(86) صدر نشین انجمن حزب الاحناف لاہورسے بڑی عقیدت تھی، وہ اپنا زیادہ وقت حضرت کی خدمت گزراتے۔(87) علامہ عبدالحکیم شرف قادری صاحب(88) تحریرفرماتے ہیں :مفتی اعجازولی خان رحمہ اللہ تعالیٰ حسنِ اخلاق،ایثاروقربانی،حق گوئی، صاف دلی،بے نفسی ،حلم وبردباری ،قوتِ حافظہ ،مسائل فقہیہ کے استحضار،صلابتِ رائےاورتاریخ گوئی میں اپنی مثال آپ تھے ۔(89)

حضرت مولاناقاضی محمد مظفر اقبال رضوی صاحب(90)تحریرفرماتے ہیں :مفتی صاحب سلف کی زندگی کا بہترین نمونہ تھے۔ جو وہ کہتے تھے وہ کرتے بھی تھے۔ وہ منفی طرزِعمل سے ہمیشہ کنارہ کش رہے اور حکمت و تدبر و مثبت طریق کار کی تلقین کرتے تھے۔ وہ ایک معتبر عالم دین، ماہر فقہی اور مبلغ ہونے کے ساتھ ساتھ حُسن اخلاق، ایثار و قربانی، حق گوئی، بے باکی، صاف دلی، سادگی، بے نفسی، علم و بردباری اور قوی الحافظہ جیسی علی صفات سے متصف تھے جوکہ ایک عالم کی عظمت کو چار چاند لگا دیتی ہیں۔ فتویٰ نویسی میں فیاض ازل نے اس قدر حصہ وافر عطا فرمایا تھا کہ مشکل سے مشکل جزئیات آپ کے نوک زباں رہتے اور قلم برداشتہ صفحۂ قرطاس پر منتقل فرما دیتے۔ فقہ میں آپ کو وہ بلند مقام حاصل تھا کہ علمائے وقت آپ کو فقیہہ العصر کے نام سے یاد کرتے۔ آپ فتویٰ نویسی میں سند کا درجہ رکھتے تھے۔ قوی الحافظہ اس قدر کہ قرآن و احادیث اور فقہا کی عبارات گویا آپ کے صفحات پر لکھی ہوئی تھیں۔ فی البدیہہ تاریخ گوئی میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا۔ تالیف و تصنیف میں بھی آپ مہارت نامہ رکھتے تھے۔(91)

بزرگانِ دین سے عقیدت

مفتی اعجازولی خان صاحب کی تربیت جس خاندان اورماحول میں ہوئی ،وہ خوفِ خدا،عشقِ مصطفی ،محبتِ صحابہ واہل بیت اورعقیدتِ بزرگانِ دین سے مملوتھا ،یہی وجہ ہے کہ آپ ان خصوصیت سے مالامال تھے چنانچہ اکابرتحریک پاکستان میں ہے :بزرگان ِ دین سے بہت عقیدت تھی، یہی وجہ تھی کہ صوفیائے کرام کے حالات بیان کرنے میں انہیں خاصہ عبورحاصل تھا۔آپ کا دل عشق رسول سے سرشارتھا۔بےحدذہین،محنتی،صالح، خوش اخلاق، ملنسار،غیّورخوددار اور جسمانی طورپرتندرست وتواناتھے ۔اپنے تواپنے بیگانے بھی ان کے کمالات کے معترفت تھے:جُداجُداجواوصاف دیگرعلماء میں تھے،وہ سب کے سب اس عاشقِ خدامیں تھے ۔ (92)

تصنیف وتالیف

آپ میدانِ تدریس کے شاہسوارتھے، لیکن اس کے ساتھ آپ نے میدانِ تحریرمیں بھی قدم رکھا، آپ نے کثیرفتاویٰ اورکئی کتب پر مقدمےلکھے ،(93) آپ کی تصانیف یہ ہیں:

(1)تنویرالقرآن علیٰ کنزالایمان؛اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان رحمۃ اللہ علیہ شہرہ آفاق ترجمہ قرآن کنزالایمان پر حاشیہ ہے ،جس کاسن تصنیف 1368ھ مطابق 1949ءہے ،تیرہ پارے مکمل ہیں جن میں سے کئی طبع شدہ ہیں ۔(94)

(2)تکمیل الحسنات؛یہ پندرہ صفحات پرمشتمل رسالہ ہے جو علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کےفارسی رسالے تحصیل البرکات ببیان معنیٔ التحیات کا اردوترجمہ ہے ،اس کا موضوع فقہ ہے ،اسے نوری کتب خانہ لاہورنے شائع کیا ہے ،سن اشاعت معلوم نہ ہوسکا۔(95)

(3)سلوک المختارترجمہ کشف الاسرار ؛حضرت داتاگنج بخش سیدعلی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے فارسی رسالہ کشف الاسرارکا اردوترجمہ ہے جوچالیس صفحات پر مشتمل ہے اسے لاہوراستقلال پریس نے 1388ھ مطابق1969ء میں شائع کیا ہے ،اس کا موضوع بھی تصوف ہے ۔ (96)

(4)ترجمہ مکتوبات شیخ عبدالحق محدث دہلوی؛یہ مکتوبات فارسی میں ہیں ،انہیں اردوکے قالب میں ڈھالا گیا ہے، ان کا موضوع تصوف ہے۔(97)

(5)قانونِ میراث(6)تسہیل الواضح خلاصہ النحواضح۔ (98)

کتب کی ترویج واشاعت کی کوشش

مفتی اعجازولی خان صاحب صاحبِ مطالعہ ا ورصاحبِ تصنیف وتالیف تھے،یہی وجہ ہے کہ آپ مصنفین وناشرین کی اہمیت سے واقف اوران کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے چنانچہ پیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب تحریرفرماتے ہیں : مَیں نے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی(99) کی کتاب ’’تکمیل الایمان ‘‘کا اردوترجمہ کیاتو کتاب چھپتے ہی سب سے پہلے (مفتی اعجازولی صاحب)آگےبڑھےاوربیس کتابیں خریدکرلوگوں میں تقسیم کرتے گئے ۔جب مجھے ’’مرج البحرین ‘‘کے ترجمہ کی سعادت حاصل ہوئی تو ابھی کتاب کی جِلدکی تزئین نہیں ہوئی تھی کہ بیس نسخے خریدکرلے گئے اوراسی رات ماڈل ٹاؤن میں حضرت محدث دہلوی کے سالانہ عرس کی تقریب میں لے جاکرعلماء میں تقسیم کرنے لگے۔یہ بات ان کی علم دوستی اورحضرت شیخ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے علمی کمالات کا اعتراف تھا ۔(100)مفتی اعجازولی صاحب کے مشورے سے ہی مولانا انوارالاسلام رضوی صاحب (101) نے1387ھ مطابق 1967ء میں گنج بخش روڈپر مکتبہ حامدیہ بنایا،اس مکتبہ حامدیہ نے علمائے اہل سنت کی کثیرکتب شائع کیں ۔(102)

تلامذہ (شاگرد)

ہند میں آپ کا زمانۂ تدریس 7 سال اورپاکستان میں تقریبا 26 سال پرمحیط ہے ،ان 33سالوں میں بلاشبہ کثیر علما نے آپ سےاستفادہ کیا چنانچہ اکابرتحریک پاکستان میں ہے: آپ کے شاگردوں کی تعدادتقریباً 5 ہزارہے جواس وقت آزاد کشمیر، مشرقی پنجاب،بھارت،انڈونیشیا،افریقہ،ماریشش،ایران،افغانستان ،امریکہ،کویت،دبئی،اورانگلینڈ میں دین اسلام کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ ان میں سےحضرت مولانامحمدابراہیم خوشترقادری (103)مفتی زمن حضرت مفتی سید محمد ریاض الحسن جیلانی رضوی حامدی(104)مولانا حکیم محمدمطیع الرضا قادری (105)،مولانا شاہ محمدنشتر(106) وغیرہ شامل ہیں ۔

شادی واولاد

آپ کی شادی اندازاً ربیع الاول 1357ھ مطابق اپریل 1938ء کواپنی چچازادبہن زہرہ بیگم بنت ابوالحسن خان بن احمدحسن خان بن مہدی علی خان سے ہوئی،آپ کی زوجہ کے پڑدادمہدی علی خان ،مفتی اعجازولی خان صاحب کے دادا حکیم ہادی علی خان کے بھائی تھے ،مہدی علی خان صاحب کی شادی اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان صاحب کی سگی پھوپھی (یعنی امام العلماء مولانا رضاعلی خان صاحب(107) کی بیٹی اوررئیس الاتقیاءمولانانقی علی خان صاحب (108) کی سگی بہن)سے ہوئی، ان کے ایک بیٹےاحمدحسن خان تھےان کے دوبیٹے نورالحسن خان اورابوالحسن خان ہوئے ،یہ ابوالحسن خان صاحب مفتی اعجازولی خان صاحب کے سسر اوررشتے میں آپ کے چچالگتے ہیں۔(109) مفتی صاحب کو اللہ پاک نے ایک بیٹے محمد یوسف ظفر پاشا رضوی اورایک بیٹی تحسین فاطمہ سے نوازا،جو کراچی میں رہائش پذیرہیں۔ محمدیوسف ظفرپاشارضوی صاحب کی ولادت 17رمضان1365ھ مطابق 15اگست 1946ء کو بریلی میں ہوئی ،آپ بی ایس سی انجینئرلاہور، ماسٹر آف سائنس انجینئرنگ، یونیورسٹی پیٹرولیم، رومانیہ اورماسٹرآف بزنس ایڈمنسٹریشن، امریکن یونیورسٹی اینڈ لندن ہیں۔ کراچی میں آئل انڈسٹری کے ایگزیکٹو کے عہدے پرملازمت کرتے ہیں ،آپ کی شادی فوزیہ خاتون سے 2جون 1988ء کو ہوئی ۔ مفتی صاحب کی بیٹی تحسین فاطمہ کی ولادت جمادی الاخریٰ 1372 ھ مطابق مارچ 1953ء میں ہوئی، آپ ایم ایس سی فزکس گولڈ میڈلیسٹ ہیں ۔(110)

وفات ومدفن

شوال المکرم 1393ھ مطابق نومبر 1973ءکو آپ بیمارہوگئے ،آپ کو لاہورکے میوہسپتال میں داخل کروادیا گیا، علاج شروع ہوامگرمرض بڑھتا گیا، دوا کی مگر افاقہ نہ ہوااورمفتی صاحب اسی بیماری میں24 شوال 1393ھ/ 20 نومبر 1973ءکو میوہسپتال لاہور میں رات اڑھائی بجے وِصال فرماگئے، نمازجنازہ مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ سیدابوالبرکات احمدقادری صاحب نے پڑھائی ۔(111) تقریبا ًپچاس ہزارافرادنے آپ کےجنازے میں شرکت کی۔(112) آپ کی خواہش کے مطابق میانی قبرستان لاہور میں دفن کیا گیا ۔(113)

مفتی اعجازولی صاحب کا مزار

راقم الحروف برادرِ اسلامی حاجی محمد ارشدعطاری صاحب (114)کے ہمراہ مفتی صاحب کے مزارپر حاضری کا شرف حاصل کرچکا ہے ۔لاہورمیں ملتان روڈ اورفیروزپورروڈ کے درمیان بہاولپورروڈ ہے جوچوبرجی سے مزنگ جاتے ہوئے میانی قبرستان کے اندرسے گزرتی ہے،اگرہم چوبرجی ملتان روڈ کی جانب سے آئیں تو بائیں طرف غازی علم الدین شہید(115) کے مزارکا بورڈ نظرآتاہے اس سےآگے بہاولپورروڈ پر ہی آئیں تو واصف علی واصف کے مزارسے پہلے بائیں جانب برلب روڈ بالمقابل مزار مہر محمد صوبہ(116) مولانا غلام محمدترنم (117) اورمولانامفتی سید غلام معین الدین نعیمی (118) کے مزارات ہیں ان دونوں کے سرہانے یعنی جانبِ شمال چندقدم چلنے کے بعدمفتی اعجازولی خان صاحب کا مزار ہے ۔(119) مزارکے کتبے پرآپ کا نام ان الفاظ کے ساتھ ہے : استاذالعلمافقیہ العصرحضرت مفتی محمداعجازولی خان رحمۃ اللہ علیہ،شیخ الحدیث دارالعلوم انجمن نعمانیہ لاہوروجامعہ نظامیہ رضویہ لاہورومہتمم مدرسہ حامدیہ رضویہ وخطیب جامعہ حامدیہ رضویہ عمرروڈ اسلام پورہ ۔ اس کے بعد مفتی محمدابراہیم خوشترقادری صاحب کے لکھے ہوئے شعرکنداہیں:

رخصت ہواجہان سے یہ کوئی باکمال

بوجھل ہوئی زمین توفلک غم سے ہے نڈھال

عقبیٰ کی فکردین کا جس کو رہا ملال

"بادابخیرعاقبت"اس کا سن ِ وصال (120)

سب سے نیچے لکھا ہے منجانب بیٹا:ظفرپاشارضوی

حواشی ومراجع

(1) اعلیٰ حضرت ،مجدددین وملت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت10شوال 1272ھ مطابق6جون 1856ءکو بریلی شریف (یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340 ھ مطابق28،اکتوبر1921ءکو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجع خاص وعام ہے۔آپ حافظ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے ماہر،فقیہ اسلام ،محدث وقت ،مصلح امت، نعت گوشاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریبا ایک ہزارکتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب وعجم،استاذالفقہاومحدثین ،شیخ الاسلام والمسلمین ،مجتہدفی المسائل اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن،فتاویٰ رضویہ (33جلدیں)، جد الممتارعلی ردالمحتار(7 جلدیں،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی) اور حدائق بخشش آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔( حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ،282، 301)

(2)حافظ کاظم علی خان ،درباراودھ کی طرف سے بدایون کے تحصیل دار(سٹی مجسٹریٹ)تھے ،دوسوفوجیوں کی بٹالین آپ کی خدمت میں رہتی تھی ،آپ کو آٹھ گاؤں معافی جاگیرمیں ملےتھے ، مال ومنصب کے باوجودآپ کا میلان دین کی جانب تھا،آپ حافظ قرآن اورحضرت علامہ شاہ نورالحق قادری رازقی فرنگی محلی (متوفی 1237ھ مطابق1882ء)کے مریدوخلیفہ تھے ،ہرسال بارہ ربیع الاول کو محفل میلادکیا کرتےتھے جوخانوادہ رضویہ میں اب بھی ہوتی ہے۔(تجلیات تاج الشریعہ ،83،84)

(3)مفتی اعجازولی خان کا تذکرہ جن کتابوں میں ہے ان میں سے بعض میں اعلیٰ حضرت کے دادامولانا رضا علی خان کوحکیم ہادی علی خان کاوالدلکھا گیا ہے جوکہ درست نہیں ،مفتی اعجازولی خان صاحب کے دادا حکیم ہادی علی خان ،امام العلما مولانا رضا علی خان صاحب کے بھائی رائیس الحکماءحکیم تقی علی خان کے بیٹے ہیں ۔

(4) حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبہ رضویہ کراچی،16۔مزیدمعلومات کے لیے راقم کا مقالہ تلمیذ اعلیٰ حضرت مفتی تقدس علی خان ایک عہدسازشخصیت کا مطالعہ فرمائیں ۔

(5)سِراجُ العَارِفِین حضرت مولانا سیّد ابوالْحُسَین احمد نُوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ عالِمِ دین،شیخِ طریقت اورصاحِبِ تصانیف ہیں۔1255ھ مطابق1840 ءمیں پیدا ہوئے اور 11رجب 1324ھ مطابق31اگست 1906ءمیں وِصال فرمایا۔ مزارِ پُراَنوار مارہرہ شریف (ضلع ایٹہ یو پی) ہِند میں ہے۔ ”سِرَاجُ الْعَوَارِفِ فِیْ الْوَصَایَا وَالْمَعَارِفِ“ آپ کی اہم کتاب ہے۔(تذکرۂ نوری، ص 146،275،218)

(6) حیات مفتی تقدس علی خان ،تحریک اہل سنت کراچی،5 ۔

(7)حیات مفتی تقدس علی خان ،تحریک اہل سنت کراچی،5 ، ماہنامہ معارف رضا کراچی،جولائی 2013ء،ص57،حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبہ رضویہ کراچی،16۔

(8)اعلیٰ حضرت آپ کے سگے ماموں یعنی محرم تھے کیونکہ آپ اعلیٰ حضرت کی ہمشیرہ حجاب بیگم کی بیٹی تھیں ۔ حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبہ رضویہ کراچی،16۔

(9)حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہار ی مکتبہ نبویہ لاہور ص885 ۔

(10)تذکرہ اکابرِ اہلِ سنت، ص 63-65

(11)تذکرہ جمیل ،240

(12)مقالات رضا ،1/72

(13)یہ بریلی شریف کے رہنے والے اوراعلیٰ حضرت کے مرید تھے ،مزید حالات نہ مل سکے ۔

(14)ان کے حالات سے بھی آگاہی نہ ہوسکی ۔

(15)تجلیات تاج الشریعہ ،96

(16)صاحب ِ بہارِ شریعت صدرُالشّریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ولادت 1300ھ مطابق 1883ء کو مدینۃ العُلَماءگھوسی (ضلع مؤ،یوپی)ہند میں ہوئی اور 2 ذیقعدہ1376ھ مطابق31مئی 1957ء کووصال فرمایا،مزارمبارک گھوسی میں ہے۔ آپ جیّدعالم ،بہترین مفتی ،مثالی مدرّس،متقی وپرہیزگار ،استاذالعُلَماء،مصنفِ کتب وفتاویٰ ، مؤثرشخصیت کے مالک اوراکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔اسلامی معلومات کا انسائکلوپیڈیا بہارِ شریعت آپ کی ہی تصنیف ہے۔(تذکرہ صدرالشریعہ،5، 41وغیرہ)

(17)شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفی الازہری بن مفتی امجدعلی اعظمی کی ولادت محرم 1334ھ مطابق1918ءکو بریلی شریف میں ہوئی اورکراچی میں 16ربیع الاول 1410ھ مطابق 18،اکتوبر1989ءکو وصال فرمایا ،دارالعلوم امجدیہ کے مشرقی جانب مزارہے ۔آپ جیدعالم دین ،فاضل جامعۃ الازہرمصر،نائب شیخ الحدیث جامعۃ الاشرفیہ مبارکپور،شیخ الحدیث دارارالعلوم کراچی اورسابقہ ممبرقومی اسمبلی پاکستان تھے ۔(سیرت صدرالشریعہ ،224تا226)

(18)حیاتِ اعلیٰ حضرت از مولانا ظفر الدین بہاری مکتبہ نبویہ مطبوعہ لاہور ص883۔

(19)حیات اعلیٰ حضرت از مولانا ظفرالدین بہاری مکتبہ نبویہ لاہور ص 884۔

(20) دارالعلوم (مدرسہ اہل سنت وجماعت) منظراسلام بریلی شریف عالمی شہرت یافتہ اسلامی درس گا ہ ہے جسے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ نے شہر بریلی(یوپی ہند) میں(غالباماہ شعبان المعظم) 1322ھ مطابق اکتوبر1904ء میں اسے قائم فرمایا ، اس مدرسے کے بانی اعلیٰ حضرت ، سربراہ حجۃ الاسلام مولانا حامدرضا قادری اورپہلے مہتمم برادراعلیٰ حضرت مولانا حسن رضا خان مقررہوئے ، ہر سال اس ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والے حفاظ قرآن، قراء، عالم اور فاضل گریجویٹ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد ہے۔(صدسالہ منظراسلام نمبرماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،ماہ مئی 2001ء،قسط 1ص28،132)

(21) تِلْمیذِ اعلیٰ حضرت، مفتی تَقدُّس علی خان رَضَوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی، عالِمِ باعمل، شیخُ الحدیث اور اُستاذُ العُلَما ہیں۔ رجب المرجب 1325ھ مطابق اگست 1907ء میں بریلی شریف میں پیدا ہوئے اور 3رجب 1408ھ مطابق22فروری 1988ءمیں پیرجو گوٹھ ضلع خیرپور میرس سندھ میں وِصال فرمایا، مزار یہاں کے قبرستان میں ہے۔(مفتیِ اعظم اور ان کے خلفاء، ص 268، 273)

(22)ان کے حالات سے آگاہی نہ ہوسکی ۔

(23)شہزادۂ استاذِ زمن، استاذُ العلما حضرتِ مولانا محمد حسنین رضا خان رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1310 ھ مطابق1893 ء کو بریلی شریف (یوپی) ہند میں ہوئی۔ آپ اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان صاحب کے بھتیجے، داماد، شاگرد و خلیفہ، جامع معقول و منقول،ذہین وفطین ومحنتی، کئی کُتُب کے مصنف، مدرسِ دار العلوم منظرِ اسلام، صاحبِ دیوان شاعر، بانیِ حسنی پریس و ماہنامہ الرضا و جماعت انصار الاسلام تھے۔ وصال5 صَفَر 1401ھ مطابق14ستمبر1980ء میں فرمایا اور مزار بریلی شریف میں ہے۔ (تجلیات تاج الشریعہ، ص95، صدر العلما محدث بریلوی نمبر، ص77تا81)

(24) شہزادۂِ اعلیٰ حضرت، مفتیِ اعظم ہند، حضرت علّامہ مولانا مفتی محمدمصطفےٰ رضا خان نوری رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 22ذوالحجہ 1310ھ مطابق 7جولائی 1893ء کورضا نگر محلّہ سوداگران بریلی (یوپی،ہند) میں ہوئی۔ آپ فاضل دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف، جملہ علوم و فنون کے ماہر، جید عالِم، مصنفِ کتب، مفتی و شاعرِ اسلام، شہرۂ آفاق شیخِ طریقت، مرجعِ علما و مشائخ و عوامِ اہلِ سنّت تھے۔ 35سے زائد تصانیف و تالیفات میں سامانِ بخشش اور المکرمۃ النبویۃ فی الفتاوی المصطفویۃ المعروف فتاویٰ مفتی اعظم (یہ چھ جلدوں پرمشتمل ہے اس میں پانچ سوفتاویٰ اور22رسائل ہیں )مشہور ہیں۔ 14 محرّمُ الحرام 1402ھ /13نومبر1981ءمیں وصال فرمایا اور بریلی شریف میں والدِ گرامی امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں دفن ہوئے۔(جہانِ مفتی اعظم، ص64تا130)

(25)مولاناالحاج سردارعلی خان عزومیاں کی ولادت بریلی میں تخمینا1320ھ مطابق1902ء کو ہوئی اور صفرالمظفر 1374ھ مطابق اکتوبر1954ءکو مدینۃ الاولیا ملتان میں وصال فرمایا ، شاہ شمس قبرستان(قدیم خانیوال روڈ،ملتان) میں برلب سٹرک دفن کیاگیا ۔ آپ تلمیذومرید اعلیٰ حضرت ، عالم دین ،فاضل ومدرس دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف ،خلیفہ حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا ،استاذالعلمااورعبادت گزارتھے ۔

(26)الیواقیت المہریہ فی شرح الثورۃ الہندیہ،115۔ اکابرتحریک پاکستان صفحہ 340 میں لکھا ہے:’’ مفتی اعجازولی خان صاحب نے تفسیر جلالین حضرت محدثِ پاکستان مولانا سرداراحمدلائل پوری رحمۃ اللہ علیہ سے پڑھیں ۔‘‘یہ بات درست نہیں ۔

(27) صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی کے مختصرحالات حاشیہ 16 میں دیکھئے۔

(28)مدرسہ عربیہ حافظیہ سعیدیہ دادوں ضلع علی گڑھ کے بانی نواب ابوبکرخان شیروانی ہیں ،جورئیس،دین دار،حافظ محمد علی خیرآبادی کے مریدتھے ،ان کے انتقال کےبعدبانی مدرسہ کے حقیقی بھائی حاجی محمدخان شیروانی (جوکہ حافظ خیرآبادی کے مرید، پابندصوم وصلوۃ اوراسلامی شاعرتھے ،ان کا مجموعہ کلام دیوانِ حافظی ہے ۔)متولی ہوئے ۔اس مدرسے کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ اساتذہ طلبہ کی تمام ضروریات احسن اندازسے پوری کی جاتی تھی ۔مفتی امجدعلی اعظمی ثانی الذکرکے اصرارپر یہاں بطورصدرالمدرسین وشیخ الحدیث 1355ھ مطابق 1936ء کوتشریف لائے اور1362ھ مطابق 1943ء تک یہاں سات سال رہے ۔(ماہنامہ اشرفیہ، صدرالشریعہ نمبر،اکتوبر،نومبر1995ء،80۔سیرت صدرالشریعہ ،50تا53)

(29)تذکرہ جمیل ،240۔استاذالعلما،زینت القراء حضرت مولاناغلام محی الدین رضوی شیری صاحب حضرت شاہ جی محمدشیرمیاں رحمۃ اللہ علیہ کےپوتے اور نواسے تھے ،آپ کی پیدائش پیلی بھیت میں ہوئی اور7رجب 1405ھ مطابق 28فروری 1985ء کو ہوا، مزارہلدوانی نینی تال ہند میں ہے ،آپ حافظ قرآن ،بہترین قاری،علامہ وصی احمدمحدث سورتی،حجۃ الاسلام مفتی حامدرضا خان اور صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی کے شاگرد،حضرت شاہ جی کے مرید اورمفتی اعظم ہندمفتی مصطفی رضا خان کے خلیفہ ہیں ،کئی مدارس میں تدریس بعد ہلدوانی (ضلع نینی تال ،یوپی ہند)میں مدرسہ اشاعت الحق بنایا،آستانہ شیریہ کے نظام کو بھی دیکھا۔آپ استاذالعلما،شیخ الحدیث، صاحب دیوان شاعراورصاحب تصنیف ہیں ۔(مفتی اعظم ہنداوران کے خلفا،530تا535)

(30) شہزادۂ اعلیٰ حضرت،حُجّۃُ الاسلام مفتی حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ علامۂ دہر، مفتی اسلام ،نعت گوشاعر،اردو،ہندی ،فارسی اور عربی زبانوں میں عبوررکھنے والےعالم دین ، ظاہری وباطنی حسن سےمالامال ،شیخ طریقت ،جانشینِ اعلیٰ حضرت اوراکابرین اہل سنت سے تھے۔ بریلی شریف میں ربیعُ الاول1292ھ مطابق اپریل1875ء میں پیداہوئے اور17جمادی الاولیٰ 1362ھ مطابق 22مئی 1943ء میں وصال فرمایا ، مراز شریف خانقاہِ رضویہ بریلی شریف ہند میں ہے، تصانیف میں فتاویٰ حامدیہ مشہورہے۔(فتاویٰ حامدیہ،ص48،79)

(31)تذکرہ جمیل ،240، تذکرہ اکابرِ اہلِ سنت، ص 63،الیواقیت المہریہ فی شرح الثورۃ الہندیہ،115،116،اکابرتحریک پاکستان،340۔آپ کا تذکرہ جب کتابوں میں ہے ،ان میں آپ کے تعلیمی ایام کے بارے میں مختلف سنین درج ہیں ،راقم نے دیگرکتب سے استفادہ کرتے ہوئے اس مضمون میں تواریخ درج کیں ہیں ۔

(32)عِلْمِ جَفْر [عِلمے + جَفْر[وہ علم جس میں حروف و اعداد کے ذریعے سےمختلف احوال کرتے ہیں۔

(33)وہ علم جس میں تاریخ گوئی کے اصول وقواعد اور استخراج کے طریقے سیکھائے جاتے ہیں ۔اعدادشمس اوراعدادقمری کی مدد سے تاریخ بیان کی جاتی ہے ۔

(34)عالمی مبلغِ اسلام علّامہ محمد ابراہیم خَوشْتر صِدّیقی رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1348ھ/1930ء کو بنڈیل (ضلع چوبیس پرگنہ، مغربی بنگال) ہند میں ہوئی۔آپ حافظ قرآن، تَلمیذِ محدّثِ اعظم پاکستان، خلیفہ حجۃ الاسلام و قُطبِ مدینہ، مُصنّف و شاعر، بہترین مدرّس، باعمل مبلغ، بانی سنّی رضوی سوسائٹی انٹرنیشنل اور امام و خطیب جامع مسجد پورٹ لوئس ماریشس تھے۔تصانیف میں ”تذکِرَۂ جمِیل“ اہم ہے۔5جُمادَی الاُخریٰ 1423ھ/24،اگست2002ء کو ماریشس میں وِصال فرمایا مَزارمُبارک سنّی رضوی جا مع مسجد عیدگاہ پورٹ لوئس ماریشس میں ہے۔(ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی شریف، رجب 1435ہجری،ص 56،57،مفتیِ اعظم اور ان کے خلفاء، ص 125تا 129)

(35) تذکرہ جمیل ،240،241۔

(36) تذکرہ جمیل ، 183۔

(37)سلطانُ الہند ، حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین سیّد حَسن سَنْجَری رحمۃ اللہ علیہکی ولادت537ھ میں سجستان (موضع سنجر) ایران میں ہوئی۔ سلسلۂ عالیہ چشتیہ کے عظیم المَرْتَبَت شیخ، نجیبُ الطرفین سیّد، صاحبِ دیوان شاعراورمشہورترین ولی اللہ ہیں۔ لاکھوں کفّار آپ کے دستِ اقدس پر اسلام لائے۔ 6رجب627ھ کووصال فرمایا، مزارمبارَک اجمیر شریف (راجستھان) ہند میں دُعاؤں کی قبولیت کا مقام ہے۔ (اخبار الاخیار، ص 23، اقتباس الانوار، ص 344 ،385)

(38)دار العلوم نعمانیہ لاہور کی ایک قدیم اور دینی تعلیم کی معیاری درسگاہ ہے۔یہ امام ابو حنیفہ کی نسبت نعمانیہ کہلاتا ہے، موجودہ عمارت بالمقابل ٹبی تھانہ اندرون ٹیکسالی گیٹ لاہور میں ہے،اس کا آغاز1306ھ مطابق1888ءکو مسجدبوکن خان موچی گیٹ میں ہوا،اس کا عربی حصہ13شوال 1314ھ مطابق 17مارچ1897 ء کو بادشاہی مسجدمیں منتقل کیا گیا،جب اندرون ٹکسالی گیٹ میں دارالعلوم نعمانیہ کادارالاقامہ تعمیرہوگیا تو اس کے پانچ سال بعد اس کا عربی حصہ بادشاہی مسجدسےیہاں منتقل ہوگیا،اس کے 43ویں جلسے کی روئیدادسے معلوم ہوتاہے شعبان1349ھ/دسمبر1930ءتک اس سےچارہزاردوسوتین(4203 ) علمافارغ التحصیل ہوچکے تھے۔ ( امام احمدرضا اورعلمائےلاہور ،26،صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور306،73)

(39)مجالس علما،118،119

(40)جامعہ محمدی شریف پنجاب کے شہرچنیوٹ کے ایک قصبے بھوانہ میں وسیع وعریض اراضی پر قائم ایک اسلامی درس گاہ ہے جس میں دینی ودنیاوی تعلیم دی جاتی ہے ،اس دارالعلوم کاتعلق ونسبت آستانہ عالیہ سیال شریف (ضلع سرگودھا )سے ہے۔

(41)شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد قمرالدین سیالوی چشتی کی ولادت 1324ھ مطابق1906ء سیال شریف ضلع سرگودھا، پنچاب میں ہوئی آپ کا وصال 17رمضان1401ھ مطابق 19جولائی1981ء سیال کو ہوا،آپ کا مزارسیال شریف ضلع سرگودھا میں ہے۔ آپ خانقاہ سیال شریف کے چشم وچراغ،جیدعالم دین، مصنف کتب،مجاہدتحریک پاکستان،مرجع علمااورفعال شخصیت کے مالک تھے۔ ( نور نور چہرے، 333تا347)

(42)فوزالمقال فی خلفاء پیرسیال ،6/575۔

(43)دارالعلوم مظہراسلام بریلی شریف مرکزی جامع مسجدبی بی جی صاحبہ ،بریلی شریف کے محلہ بہاری پور کےبزریہ (یعنی چھوٹےبازار) میں واقع ایک اسلامی درس گا ہ ہے ،یہ 1356ھ مطابق1937ء میں مفتی اعظم ہندمفتی محمدمصطفی رضا خان قادری کی سرپرستی میں قائم ہوئی،بدرالطریقہ حضرت مولانا عبدالعزیز خان بجنوری اس کے پہلے صدرالمدرسین اورمحدث اعظم پاکستان علامہ سرداراحمدقادری چشتی صاحب اس کے منتظم اورشیخ الحدیث مقررہوئے،اس زمانے میں دارالعلوم کی مستقل عمارت نہیں تھی، مسجد کے حجروں اورصحن میں پڑھائی کا سلسلہ ہوتاتھا۔( حیات محدث اعظم ،45)

(44)یہ مدرسہ حضرت مولانا سید غوث علی شاہ پانی پتی رحمۃاللہ علیہ کے مزار(بمقام پانی پت،صوبہ ہریانہ ،ہند)کے ساتھ قائم تھا ۔

(45)تذکرہ علماء اہل سنت وجماعت لاہور،367۔

(46) محدثِ اعظم پاکستان حضرت علّامہ مولانا محمد سردار احمد قادری چشتی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1323ھ مطابق 1905ء میں ضلع گورداسپور (موضع دیال گڑھ مشرقی پنجاب) ہند میں ہوئی اور یکم شعبان 1382ھ مطابق 28دسمبر1962ءکو وصال فرمایا،آپ کا مزار مبارک فیصل آباد (پنجاب) پاکستان میں ہے۔آپ استاذالعلماء، محدثِ جلیل، شیخِ طریقت، بانیِ سنّی رضوی جامع مسجد و جامعہ رضویہ مظہرِ اسلام سردارآباد اور اکابرینِ اہلِ سنّت میں سے تھے۔(حیاتِ محدثِ اعظم، ص334،27)

(47)تذکرہ محدث اعظم پاکستان ،88تا90۔

(48)کل ہند جماعت رضائے مصطفی کےبانی وسرپرست اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان تھے ، یہ 7ربیع الاخر1339ھ مطابق 17دسمبر1920 ء کو بنائی گئی،اعلیٰ حضرت کے وصال کے بعد یکے بعددیگرے آپ کے صاحبزادگان حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان اور مفتی اعظم ہند علامہ محمدمصطفی رضا خان سرپرستی وقیادت فرمائی ، اس کا مقصد تقریروتحریرکے ذریعے اسلام کی حفاظت کرنا ،عوام اہل سنت کے دین وایمان کی حفاظت کے لیے جدوجہدکرناتھا، اس کا اہم ترین کارنامہ مسلمانوں کو مرتدبنانے ولہ شدھی تحریک کے اثرات سے بچاکر باعمل وپانندصوم وصلوۃ بناناتھا ، اس کے کئی شعبے تھے مثلا شعبہ ٔ اشاعت کتب،شعبہ ٔ تبلیغ وارشاد،شعبہ ٔ صحافت ،شعبہ دارالافتاء وغیرہ۔ (تاریخ جماعت رضائے مصطفی ،7،42،48 ،49)

(49)مولانا شہاب الدین رضوی صاحب کی تاریخ ولادت 19ربیع الاول 1394ھ مطابق 12،اپریل 1974ء ہے ،آپ عالم دین، فاضل دارالعلوم مظہراسلام بریلی شریف ،مدیر ماہنامہ سنی دنیا ،رکن رضا اکیڈمی بمبئی ،بارہ کتب ورسائل کے مصنف اورمحقق اسکالر ہیں، مشہور کتابوں میں مفتی اعظم اوران کے خلفاہے جو دوجلدوں پر محیط ہے ۔(تاریخ جماعت رضائے مصطفی ،12تا15)

(50)تاریخ جماعت رضائے مصطفی ، 48 ،49۔

(51)آل انڈیا سنی کانفرنس،قیام پاکستان سے پہلے  اہل سنت وجماعت کی ایک سیاسی جماعت تھی جس کےبانی صدرالافاضل حضرت علامہ سیدمحمدنعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ ہیں 20تا23شعبان1343ھ/ 16 تا 19 مارچ 1925کو مراد آباد میں پہلی آل انڈیا سنی کانفرنس کا انعقاد کیا گیااور آل انڈیا مسلم لیگ کے مطالبۂ پاکستان کی مکمل حمایت کی گئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس پارٹی کا نام جمعیت علمائے پاکستان رکھ دیا گیا ۔(مزیددیکھئے علامہ جلال الدین قادردی صاحب کی کتاب ’’تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس 1925ءتا 1947ء‘‘)

(52)تاریخ آل انڈیا سنی کانفرنس ،225،282۔

(53)لاہورایک قدیم وتاریخی شہرہےمغلیہ عہدمیں لاہورکے اردگردفصیل اورتیرہ دروازے بنائےگئے ، 372ھ کویہ ملتان سلطنت کا حصہ تھا،اب یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا دار الحکومت اور پاکستان کادوسرا بڑا شہر ہے۔یہ پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکزہے،اسےپاکستان کا دل اور باغوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی تقریباایک کروڑ 11لاکھ ہے۔

(54)22 مارچ سے 24 مارچ، 1940ء کو لاہور کے منٹو(موجودہ اقبال باغ ) پارک(جہاں آج مینارِ پاکستان ہے) میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرارداد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے عليحدہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔

(55)اکابرتحریک پاکستان 340،341،تذکرہ اکابراہل سنت ،64۔

(56) البریلویۃ کا تحقیقی اورتنقیدی جائزہ،294۔

(57)جامعہ محمدی شریف کے بارے میں حاشیہ نمبر40 دیکھئے ۔

(58)اس زمانے میں یہاں کے شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفی الازہری رحمۃ اللہ علیہ تھے،چنانچہ سیرت صدرالشریعہ میں ہے : (علامہ عبدالمصطفی الازہری)1948ء میں جامعہ محمدی شریف ضلع جھنگ پنجاب میں شیخ الحدیث کی حیثیت سے تشریف لائے۔ (سیرت صدرالشریعہ،225)

(59)فوزالمقال فی خلفاء پیرسیال ،6/432 ۔

(60)دارالعلوم اہل سنت وجماعت جہلم کےبارے میں مزیدتفصیلات حاصل نہ ہوسکیں ۔

(61)حافظ محمدسعید کاشمیری صاحب میرپورکشمیرکے رہنے والے ہیں ،قیام پاکستان کے بعد جہلم شہرمیں تشریف لے آئے اور دارالعلوم اہل سنت وجماعت کے شعبہ حفظ وقرأت سے منسلک ہوگئے ،آپ کی تقریبا تمام زندگی اشاعت تعلیم قرآن میں گزری ،آپ کے کثیرشاگردوں میں آپ کے بیٹے مبلغ یورپ حضرت مولانا حافظ عبدالقیوم نقشبندی صاحب،ڈاکٹرپیرفضیل عیاض قاسمی ،صاحبزادہ ٔ پیراولیا بادشاہ مولانافاروق احمدوغیرہ شامل ہیں ۔(برطانیہ کے علمااہل سنت ومشائخ ،2/546)

(62)باب ِ علوم ،استاذالعلما مفتی غلام محمودہزاروی صاحب کی ولادت سلطان المناظرین علامہ قاضی محمد عبدالسبحان قادری کے گھر تقریباً 1920ء میں بمقام کھلابٹ(ہزارہ) میں پیدا ہوئےاور16ربیع الاخر1412ھ مطابق 24،اکتوبر1991ءکووصال فرمایا، تدفین جامعہ صدیقہ فیض العلوم خانپورروڈبالمقابل ٹیلی کم سٹاف کالج ہری پورہزارہ کے ایک گوشے میں ہوئی ۔آپ جیدعالم دین ،جامع معقول ومنقول،فارضل مدرسہ خیرآبادیہ دہلی،مدرس درس نظامی ،شیخ القرآن ولتفسیر،تقریبا136کتب ورسائل کے مصنف،شیخ طریقت سلسلہ نقشبندیہ وقادریہ اورمناظراہل سنت تھے ،آپ نے10 سال دارالعلوم اہل سنت وجماعت جہلم میں پڑھایاپھرجہلم میں ہی ایک ادارہ جامعہ اشاعت الاسلام عربیہ غوثیہ قائم فرمایا،اس میں8 سال مدرس وناظم رہے۔ (تذکرہ بابِ علوم رئیس العلماغلام محمود ہزاروی،10 تا30)

(63)برطانیہ کے علمااہل سنت ومشائخ ،2/546۔

(64)دارالعلوم جامعہ نعیمیہ لاہور ایک عظیم و تاریخی دینی درسگا ہ ہے جس کی بنیاد شیخ الحدیث مفتی محمدحسین نعیمی (ولادت: 1342ھ مطابق1923ء۔وفات :14ذیقعدہ 1418ھ مطابق 13مارچ 1998ء )نے تقریبا1372ھ مطابق 1953ء کو مسجدچوک دالگراں میں رکھی تھی،1378ھ مطابق 1959ء کو اسے عید گاہ گڑھی شاہومنتقل کردیا یہ علامہ اقبال روڈ پرواقع ہے ،اس نے دینی علوم کی ترویج میں اہم خدمات سر انجام دیں۔شعبان 1422ھ مطابق مارچ 2021ءمیں ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان نے اسے ڈگری ایوارڈنگ دینی انسٹیٹیوٹ کا درجہ دے دیاگیا ہے۔

(65)مرکزی جامعہ گنج بخش داتادر بارلاہورکے بارے میں مزیدمعلومات نہ مل سکیں ۔

(66)عارف ربانی حضرت پیرسیدمحمدمعصوم شاہ نوری قادری نوشاہی کی ولادت 1315ھ کو ایک صوفی گھرانےمیں ہوئی اور29 شوال1388ھ مطابق19جنوری 1969ءکووصال فرمایا ،مزارخانقاہ قادریہ چک سادہ (ضلع گجرات ،پنجاب)میں دفن کئے گئے۔آپ عالم دین،مصنف کتب،شیخ طریقت،حضرت داتاگنج بخش کےعاشق صادق،بانی نوری کتب خانہ،مرجع علماومشائخ ،نوری مسجد(ریلوے اسٹیشن لاہور)سمیت 20مساجد کےبانی اورکئی مدارس کے معاون تھے۔حکیم الامت مفتی احمدیارخان نے آپ کی ترغیب پرکئی کتب تصنیف فرمائیں۔(تذکرہ علمائے اہل سنت، ص247) آپ نے 1945ء میں نوری کتب خانہ کا آغازکیا ،شاید داتادربارمارکیٹ میں یہ پہلا اشا عتی ادارہ تھا،راقم الحروف بچپن میں والدگرامی حاجی محمدصادق چشتی مرحوم کے ساتھ جمعرات کو داتادربارحاضری کے لیے جاتاتو اس کتب خانہ کو دیکھا کرتاتھا ،اس زمانے(1982ء) میں دربارشریف کے قریب جانب مشرق قائم مین گیٹ کے سامنے تھا ،اب یہ حصہ مسجدداتادربارمیں شامل ہوچکا ہے ۔

(67)تذکرہ علمائے اہل سنت وجماعت،367تا369۔

(68)مرکزی جامع مسجدمحلہ اسلام پورعمرروڈلاہور واقع ایک مسجد ہے جس میں عرصہ دارازتک مفتی اعجازولی صاحب امام وخطیب رہے ۔

(69)مدرسہ حامدیہ رضویہ متصل مرکزی جامع مسجداسلام پورہ لاہورکے بارے میں معلومات نہ مل سکیں ۔

(70)جامعہ نعمانیہ لاہورکے بارے میں جاننے کے لیے حاشیہ نمبر 38 کا مطالعہ کیجئے ۔

(71)ان کےحالات نہ ملے سکے ۔

(72)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،301۔

(73)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،284۔

(74)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،286۔

(75)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،286۔

(76)ان کےحالات نہ ملے سکے ۔

(77) مجاہدملت حضرت مولانا محمدعبدالستارخان نیازی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 22ذیقعد1333ھ مطابق یکم اکتوبر1915ء کو موضع اٹک پنیالہ(تحصیل عیسیٰ خیل)ضلع میانوالی میں ہوئی،7صفر1422ھ مطابق یکم مئی2001ء کو میانوالی میں انتقال فرمایا، مزار’’مجاہدملت کمپلیکس‘‘ روکھڑی موڑمیانوالی میں ہے ۔آپ عالم دین،پرچوش مبلغ ،باہمت رہبرورہنما،اخبارخلافت پاکستان کے مدیر ، مجلس اصلاح قوم ،دی پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن،آل پاکستان عوامی تحریک کے بانی،تحریک پاکستان کے متحرک کارکن،تحریک نفاذِ شریعت،تحریک ختم نبوت،تحریک نفاذِ نظام مصطفیٰ میں بھرپورحصہ لیا، قومی اسمبلی اورسینٹ کے رکن بھی رہے۔آپ کا شماراکابرین اہل سنت میں ہوتاہے ۔آپ آستانہ عالیہ میبل شریف ضلع بھکر میں مریداورقطب مدینہ حضرت مولانا ضیاء الدین احمدمدنی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔آپ نے اٹھارہ سے زیادہ مقالات وکتب ورسائل تحریرفرمائے۔(تحریک پاکستان میں علماء ومشائخ کا کردار،427)

(78)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،288۔

(79)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،289۔

(80)صدسالہ تاریخ انجمن نعمانیہ لاہور،290،291۔

(81)جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور لوہاری گیٹ کے اندرونی حصے میں ایک دینی درس گاہ ہے۔ اس کا افتتاح شوال المکرم 1376ھ مطابق مئی1956 ء کو محدث اعظم پاکستان علامہ محمدسرداراحمدچشتی قادری صاحب نے قدیم تاریخی مسجد خراسیاں اندرون لوہاری دروازہ میں فرمایا،ان کے شاگرد استاذالعلماء شیخ الحدیث علامہ غلام رسول رضوی نے1381ھ مطابق 1962 ء تک اس کی نگرانی اور آبیاری کی۔ اس کے بعدعلامہ غلام رسول رضوی صاحب نے اسے اپنے ذہین اور محنتی تلمیذ استاذ العلماء حضرت علامہ مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی صاحب کے سپردکیا ۔

(82)تذکرۂ اکابراہل سنت ،64۔

(83)تذکرۂ اکابراہل سنت ،64۔

(84) حضرت مولانا پیرزادہ اقبال احمدفاروقی صاحب ضلع گجرات (پنجاب پاکستان)کےایک موضع شہاب دیوال کےایک علمی فاروقی گھرانے میں 1346ھ مطابق 1928 ءکو پیداہوئے اورتقریبا89سال کی عمرمیں16 ؍صفرالمظفر1435ھ مطابق 20دسمبر 2013 کو لاہور میں وصال فرمایا،ان کی تدفین میانی صاحب قبرستان میں خواجہ محمد طاہر بندگی کے مزار اقدس کےمتصل ہوئی۔ آپ ایک متحرک عالم دین،دینی ودنیاوی تعلیم سے مرصع،مکتبہ نبویہ کےبانی ،ناشر ِ رضویات، مدیر ماہنامہ جہان رضا لاہوراور روح رواں مجلس رضااوراکابر علمائے اہل سنت لاہورسےتھے۔ آپ خوش اخلاق،مہمان نوازاورہردل عزیزشخصیت کےمالک تھے ، چھوٹےبڑےسب کو اہمیت دیتے اور علمی کاموں پر حوصلہ افزائی فرمایاکرتےتھے،راقم کئی مرتبہ ان سے ملا،یہ مجھ پرخصوصی شفقت فرماتے اورمجھےاپنا کراچی والادوست کہاکرتےتھے۔

(85)مجالس علما،118۔

(86)مفتیِ اعظم پاکستان، سیّدُ المحدّثین حضرت علامہ ابوالبرکات سیّد احمد قادری رضوی اشرفی استاذُ العُلَماء، شیخ الحدیث، مناظرِ اسلام، بانی و امیر مرکزی دارُالعلوم حِزبُ الاحناف اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔ 1319 ہجری مطابق1901ء کو محلہ نواب پور اَلْوَر (راجستھان) ہند میں پیدا ہوئے اور مرکز الاولیا لاہور میں 20شوّال 1398ھ مطابق ۲۳،ستمبر 1978ءمیں وِصال فرمایا، مزار مبارک دارُالعلوم حِزب الاحناف داتا دربار مارکیٹ مرکز الاولیاء لاہور میں ہے۔(تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ، ص314-318)

(87)مجالس علماء،117تا119۔

(88)شرفِ ملت حضرت علّامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت23شعبان 1363ھ  13 مطابق اگست  1944ء مزار پور (ضلع ہوشیار پور پنچاب) ہند میں ہوئی۔ آپ استاذالعلماء، شیخ الحدیث و التفسیر جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ، مصنف و مترجم کتب، پیرِ طریقت اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔ 18شعبان 1428ھ مطابق یکم ستمبر2007ء کو وصال فرمایا، مزار مبارک جوڈیشنل کالونی لالہ زار فیز-2 لاہور پاکستان میں ہے۔آپ کاترجمہ قرآن ’’انوارالفرقان فی ترجمۃ معانی القرآن ‘‘یادگارہے۔راقم کوکئی مرتبہ آپ کی بارگاہ میں حاضری کاشرف حاصل ہوا۔(شرفِ ملت نمبر لاہور، ص 126)

(89)تذکرۂ اکابراہل سنت ،65۔

(90)حضرت مولانا قاضی محمد مظفراقبال رضوی صاحب کی ولادت 9جمادی الاولیٰ1354ھ مطابق 8،اگست 1936ء کو ہوئی اور24 ذوالحجہ 1440ھ مطابق26،اگست 2019ء کو وصال فرمایا ،میانی صاحب قبرستان میں والدگرامی خلیفہ اعلیٰ حضرت مفتی غلام جان ہزاروی کے قریب تدفین ہوئی ۔آپ عالم دین ،فارغ التحصیل دارالعلوم حزب الاحناف لاہور،مدرس درسِ نظامی،خطیب اونچی مسجدجامع شاہ عنایت قادری ،مریدوخلیفہ مفتی اعظم ہنداورچیئرمین سنی ایکشن کمیٹی تھے ۔( حیات فقیہ زماں ،138تا144)

(91)روزنامہ نوائے وقت لاہور29،اگست ، 2013ء۔

(92)اکابرِ تحریک پاکستان ،342۔

(93) تذکرۂ اکابراہل سنت ،65۔

(94)مرآۃ التصانیف ،21۔

(95)مرآۃ التصانیف ،62۔

(96)مرآۃ التصانیف ،117۔

(97)مرآۃ التصانیف ،112۔

(98)تذکرۂ اکابراہل سنت ،65۔

(99) شیخ محقق حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالحق مُحَدِّثِ دہلوی قادری علیہ رحمۃ اللہ الہادِی کی ولادت 958ھ مطابق1551ء کو دہلی (ہند) میں ہوئی اوریہیں 21ربیعُ الاوّل 1052ھ مطابق 19جون1642ء کو وِصال فرمایا، مَزارمُبارک خانقاہِ قادریہ (نزد باغ مہدیاں بالمقابل قلعہ کہنہ) دہلی ہند میں ہے۔ آپ حافظِ قراٰن،امامُ الْمُحَدِّثِین فِی الْہند، علامۂ دَہر، قطبِ زَماں، کئی کُتُب کے مُصَنِّف اور شارِحِ اَحادیث ہیں۔ دَرجَن(12)سے زائد کُتُب میں مِشْکوٰۃ شریف کی دوشُرُوحات اَشِعَّۃُ اللَّمْعَات (فارسی)اور لَمْعَاتُ التَّنْقِیْح(عربی) بھی شامل ہیں۔ (اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ مترجم،ص93،67، اخبار الاخیار مترجم، ص18،13، شیخ عبد الحق محدثِ دہلوی، ص90)

(100) مجالس علماء،117تا118۔

(101)مولانا انوارالاسلام رضوی1355ھ مطابق 1936ء کو شمس آباد ضلع اٹک میں پیداہوئے ،شیخ الحدیث علامہ غلام رسول رضوی صاحب اوردیگرعلما سے علم دین حاصل کیا ،دارالعلوم منظراسلام فیصل آباد سے فارغ التحصیل ہوئے ،جامع مسجد محمدجان صدر لاہورکینٹ میں خطیب مقررہوئے ،جامعہ نظامیہ رضویہ کے مدرس وناظم بنائے گئے ۔پھر مکتبہ حامدیہ میں مصروف ہوئے اورساتھ ساتھ جامعہ شیرازیہ میں اعزازی مدرس ہوئے ۔(تذکرہ علماء اہل سنت وجماعت لاہور،399 )

(102)مجالس علما256۔

(103)مبلغ اسلام مولانا محمد ابراہیم خوشتررضوی صاحب کا مختصرتعارف حاشیہ نمبر34 میں دیکھئے۔

(104) مفتی زمن حضرت مفتی سیدمحمد ریاض الحسن جیلانی رضوی حامدی صاحب کی ولادت شوال1340ھ مطانق 1914ء کو جودھ پور(راجستھان،ہند)میں ہوئی اور28رمضان 1388ھ مطابق 19دسمبر1968ء کو بحالت سجدہ حیدرآبادسندھ پاکستان میں ہوئی، مزار مبارک ٹنڈویوسف قبرستان میں ہے ،گنبددورسے دکھائی دیتاہے،آپ خاندان غوث الوریٰ کے چشم چراغ،آپ جامعہ منظراسلام بریلی کے فاضل ،مریدوخلیفہ حجۃ اسلام ،مفتی اسلام،صاحب دیوان شاعر،جامع مسجداہل سنت وجماعت (امریکن کوارٹرحیدرآباد)سمیت کئی مساجدکے بانی اورفعال شخصیت کے مالک تھے ،آپ کی 29تصانیف میں ریاض الفتاویٰ (3 جلدیں)یادگارہے ۔(ریاض الفتاویٰ، 1/37 تا62)

(105)حضرت مولانا حکیم مطیع الرضاخاں قادری صاحب کی ولادت موضع چندوس ضلع سنبھل (سابقہ ضلع مرادآباد)یوپی ہندمیں 2ربیع الاخر1346ھ مطابق 29ستمبر1927ءکو ہوئی اوروصال راولپنڈی پاکستان میں6جمادی الاولیٰ 1399ھ مطابق4،اپریل 1979ءکو فرمایا، مدرسہ رضویہ راولپنڈی سے متصل تدفین ہوئی۔آپ فاضل بریلی شریف،شاگردصدرالشریعہ ومفتی اعجازولی خان، مریدحجۃ اسلام علامہ حامدرضا ،خلیفہ مفتی اعظم ہند،سندیافتہ حازق طبیب ،بانی قادری دواخانہ راولپنڈی ،اسلامی شاعر، خطیب جامع مسجدلال کڑتی اوربانی مدرسہ رضویہ راولپنڈی ہیں ۔(تحریک پاکستان میں علماء ومشائخ کا کردار،368،369)

(106)خطیب اسلام حضرت مولانا شاہ محمد نشتر صاحب کی ولادت 4شعبان 1359ھ مطابق 7ستمبر1940ء کو موضع کلاں رقبہ چھاترہ (عباس پور،ضلع پونچھ کشمیر)میں ہوئی آپ عالم دین ،دینی ودنیاوی علوم کے جامع ،مرید بابوجی سرکارگولڑہ شریف، فاضل جامعہ رضویہ منظراسلام فیصل آباداورمفکراسلام ہیں ،مفتی اعجازولی صاحب سے آپ نے جامعہ نعیمیہ لاہورمیں شرف تلمذپایا ۔آپ کافی عرصہ جامع مسجدتبلیغ اسلام بریڈ فورڈ میں امام وخطیب رہے۔(برطانیہ میں علماءاہل سنت اورمشائخ 3/514تا517)

(107) جدِّ اعلیٰ حضرت ،مفتی رضا علی خان نقشبندی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ عالم، شاعر،مفتی اورشیخ طریقت تھے۔1224ھ مطابق1880ء میں پیدا ہوئے اور 2جمادی الاولیٰ1286ھ مطابق 10،اگست 1869ءمیں وصال فرمایا، مزار قبرستان بہاری پورنزدپولیس لائن سٹی اسٹیشن بریلی شریف (یوپی، ہند) میں ہے۔ (معارف رئیس اتقیا،ص17، مطبوعہ دہلی)

(108)والدِ اعلیٰ حضرت، رئیس المتکلمین مفتی نقی علی خان قادری رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ باعمل عالمِ دین، مفتیِ اسلام، پچیس سے زائد کتب کے مصنّف اور بہترین مدرّس تھے۔ 1246ھ مطابق1831ھ میں بریلی شریف(ہند) میں پیدا ہوئے اور یہیں 30 ذیقعدہ 1297ھ مطابق 3نومبر1880ءمیں وصال فرمایا، مزار مُبارک قبرستان بہاری پور نزد پولیس لائن سٹی اسٹیشن بریلی شریف (یو پی) ہند میں ہے۔( مولانا نقی علی خان حیات اور علمی و ادبی کارنامے، ص5تا6)

(109)حیات اعلیٰ حضرت مکتبہ رضویہ کراچی،15،16۔

(110)تذکرہ ٔ جمیل ،241۔

(111)تذکرۂ اکابراہل سنت ،65۔

(112)ماہنامہ عرفات ،خاص نمبرامام اہل سنت ،ستمبر،اکتوبر1975،ص10۔

(113)تذکرہ ٔ جمیل ،241۔

(114)حاجی محمد ارشدعطاری صاحب ایک متشرع ،صالح اورمؤدب شخصیت کے مالک ہیں ،ان کی پیدائش 5ربیع الاخر 1399ھ مطابق 5مارچ 1979 ء کو بلال (بھٹہ)چوک بیدیاں روڈلاہورکینٹ کے علاقے میں ہوئی ،میٹرک کے بعد دعوت اسلامی سے وابستہ ہوئے ، بوجوہ درسِ نظامی نہ کر سکے ،ایم کام کرنے کے بعد مختلف مقامات پر ملازمت کی، آجکل شیخوپورہ کی تین کمپنیز میں ہیڈ آف ٹیکس ڈیپارٹمنٹ ہیں،درس نظامی کرنے کے لیے جامعۃ المدینہ نائیٹ میں داخلہ لے چکے ہیں،بڑی محنت سے مصروف تعلیم ہیں ،انھوں نے درجہ اولیٰ کے سالانہ امتحان میں تیسری پوزیشن حاصل کی ہے ،درسِ نظامی مکمل کرنے کے بعد تخصص فی الفقہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔

(115) غازی علم الدین شہید 8 ذیقعد 1366ھ مطابق 3 دسمبر 1908ء کو لاہور کے ایک علاقے محلہ سرفروشاں میں پیدا ہوئے اور31 اکتوبر 1929ء کوجام شہادت نوش فرمایا۔ کم و بیش چھ لاکھ عشاق رسول نے آپ کے نمازجنازہ میں شرکت کی،مزارمیانی صاحب قبرستان میں ہے ۔

(116)حضرت الحاج مہر محمد صوبہ نقشبندی سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ مرتضائیہ لاہور کے عظیم بزرگ ہیں۔ آپ کا سنِ ولادت 1250ھ مطابق1835ءقیاس کیا جاتا ہے جبکہ آپ کی وفات 20صفر1364ھ مطابق 4 فروری 1945ءکو ہوئی۔ آپ پیر صاحب قلعہ شریف والے حضرت الحاج خواجہ غلام مرتضیٰ فنا فی الرسول صاحب کے خلیفہ اول ،پیشے کے اعتبارسے کاشتکار اورصاحب کرامت ولی اللہ تھے ۔ آپ کا مزارمیانی قبرستان میں ہے ۔(خواجگان مرتضائیہ، 460تا467)

(117)سحرالبیان خطیب حضرت مولانا غلام محمد ترنم جماعتی صاحب کی ولادت 1320ھ مطابق 1900ء کو امرتسرکے ایک کاشمیری گھرانے میں ہوئی اورلاہورمیں 17محرم 1379ھ مطابق 24جولائی 1959ء کو وصال فرمایا ،آپ عالم دین ،دینی ودنیاوی علوم سے مالامال، اسلامی صاحب دیوان شاعر،بہترین خطیب ،تحریک پاکستان کارکن ،جمعیت علماپاکستان کے مرکزی نائب صدر،خظیب جامع مسجدسول سیکرٹریٹ ،محبوب العلمامؤثرشخصیت کے مالک تھے، تصانیف میں مقدمہ وحوشی بطل نبوت اہم ہے ۔(تحریک پاکستان کے سات ستارے،96تا105،یادرفتگان،2/40)

(118)حضرت مولانامفتی سید غلام معین الدین نعیمی صاحب کی ولادت 14جمادی الاولیٰ 1342ھ مطابق 23دسمبر 1923ءکو مرادآباد ہند میں ہوئی اوروصال لاہورمیں 12جمادی الاخریٰ 1391ھ مطابق4،اگست 1971ء کو ہوا،نمازجنازہ مفتی اعجازولی صاحب نے پڑھائی ،تدفین میانی قبرستان میں کی گئی ،آپ فاضل جامعہ نعیمیہ مرادآباد،صدرالافاضل کے تلمیذوخاص خدمت گار،50 کتب کے مترجم، ہفت روزہ سواداعظم کے اڈیٹراورفعال عالم دین تھے ۔(سیدغلام معین الدین نعیمی حیات وخدمات ،51،153،138،113)

(119)اکابرتحریک پاکستان صفحہ 343میں ہے کہ مفتی اعجازولی خان صاحب کو مولانا غلام محمد ترنم رحمۃ اللہ علیہ کے پہلومیں دفن کیاگیا جوکہ درست نہیں ۔

(120)تذکرہ ٔ جمیل ،241۔