قوتِ گویائی(Speaking Power)انسان کی وہ امتیازی قابلیت وصلاحیت
(Specific
Ability)ہے جس کی وجہ سے وہ تمام جانداروں میں سب سے
نمایاں وممتازہے ، اپنی اِ سی قوت کو کام میں لاکر انسان نے اُجڑے دیار(ویران شہر) بسائے ہیں اور بستے دیار اُجاڑے ہیں ،روتوں کو ہنسایا ہے اور
ہنستوں کو رُلایا ہے ، رنج و غم کے ماروں کومسرت و شادمانی کے لفظوں سے شاہراہ ِ حیات (زندگی کی راہ)پرنہ صرف چلنے بلکہ دوڑنے کا حوصلہ دیا ہے، انہی لفظوں سے شاہراہِ حیات پر دوڑنے
والوں کوگھیسٹ کا اُتارا ہے ، انسان کے لفظ پھول بن کربھی برس سکتے ہیں اور پتھر بن کر بھی اور جب الفاظ پتھر بن کر برستے ہیں تو لفظوں کی جنگ (Word War) آخرکار عالمی جنگ(World War) کی صورت اختیار کرجاتی ہے ۔ انسان کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا مختصر جائزہ آپ نے ملاحظہ کیاجس سے آپ کے ذہن
میں انسانی الفاظ(Human Wording) کےدرست استعمال کی قدر و
قیمت اور غلط استعمال کی صورت میں تباہی و بربادی کاخاکہ بیٹھ گیا ہو گا۔ آئیے! اب عظیم انسانوں کے الفاظ سے دنیا میں برپا ہونے والے انقلاب کا مختصر تاریخی جائزہ ملاحظہ کرتے ہیں ۔ جب انسان
کو اس کائنات پر اتارا گیا تو اِسے اپنا مطلوب و مقصودسمجھانے کے
لئے بامقصد آواز، پُر اثر لہجہ اور معنی خیز تاثُرات سے بھی نوازا
گیا۔انسان نے بارگاہ ِ الٰہی سے ملنے والے اِس انمول نعمت کا بھر پور استعمال کیا اور اس کا ئنات کو اپنے الفاظ سے محبت کے پھول کھلائے اورترقی و
کامیابی کے اُفق(آسمان) پر اُونچی اُڑان اُڑ کرخود کو قابل ِ حیرت بلندی پر پہنچادیا ،یہ تمام خصوصیات آپ کو انبیائے کرام عَلَیْہِمُ
السَّلَام کے مبارک، پاکیزہ اور دل نواز کلام میں نظرآئیں گی اور اُ ن کے وسیلے سے ان کے صحبت یافتہ پھر جلیلُ القدر اولیا اور معزز علما کے یہاں بدرجہ اتم ملاحظہ کی جاسکتیں ہیں ۔
ملفوظات :عہد بہ عہد(ابتداء سےعصر
حاضر تک کا اجمالی جائزہ)
نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمکے اِس دنیا سے پردہ فرمانے کے
بعد نورِ اسلام سےدنیا کو منوّر کرنے کی ذمہ داری صحابۂ کرام پر عائد ہوتی
تھی جسے ان حضرات نے اِس
خوبی سے نبھایاکہ اِس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔ صحابہ کرام عَلَیْہِمْ الرِّضْوَانُ نے اپنے شب و روز تربیت، کردار سازی اور علمی آبیاری میں صرف کیے،صحابہ کرام عَلَیْہِمْ الرِّضْوَانُ کی زیارت کرنے والے حضرات تابعین کے معزز اور محترم لقب سے پہچانے گئے ۔ان حضرات کے صحبت یافتہ جلیلُ
القدر علما اور باعظمت اولیا پر یہ ذمہ
داری عائد ہوتی تھی کہ وہ امتِ محبوب کی رہنمائی کریں لہٰذا اِن نفوسِ
قدسیہ نے اِس ذمہ داری کو احسن انداز میں پورا کیا اور وہ نقوش چھوڑے جو آنے والی نسلوں کے لئے نشانِ راہ کے طور پر اُبھرے اور روشن مینارے بن کر ہدایت و رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ۔
یہ
نفوسِ قدوسیہ میدانِ علم کے شہسوارتو تھے ہی ،باعمل ہونے میں بھی بے مثال تھے ،اِن حضرات کےملفوظات سےایسے خوشبوؤں کی لپٹیں آتیں جسے محسوس کرکے ان کو اہم ترین سمجھنے والا قلم کے ذریعے کاغذ میں محفوظ کردیتا یو ں گراں
قدراقوال کو محفوظ کرنے کا سلسلہ چل
نکلاجو آج تک جاری ہے۔ان ملفوظات
میں اپنے عہد کےتاریخی گوشے،لوگوں کے رجحانات اورعقائد و اعمال کے قابل ِ اصلاح پہلوؤں کو بخوبی سمودیا
گیا ہے۔یوں تو بالعموم تقریبا ہرموضوع کی کتب میں ہی بزرگان ِ دین کے اقوال مل جاتے ہیں مگرہماری معلومات کے مطابق عربی کتب میں بالخصوص کتب ِ تاریخ،کتب اعلام وطبقات،کتبِ و عظ ونصیحت اور
کتب خطبات و مکتوبات اِن اقوال سے مالامال ہیں۔
برعظیم میں ملفوظات کی روایت:
برِّعظیم پاک و ہند کولاتعداد اولیائےکرامرحمہم اللہ السلام نے شرفِ قیام سے نوازا،دعوت ِ اسلام کے ذریعے جہالت و گمراہی کے اندھیروں میں ڈو بتی اور سسکتی ہوئی انسانیت کونہ صرف سہارا دیابلکہ اس تنگ و
تاریک دلدل سے نکالا،شرعی احکامات سے آگاہی فراہم کی،مقصدِ
حیات(عبادتِ خدا) کی جانب رہنمائی فرمائی ،
شاہراہ زندگی کو طے کرنے کا سلیقہ
سکھایا،صبرو شکر،زہدو قناعت جیسےخوب صورت اسباق سےلوگوں کی شخصیت کو تراشا،شعور (ادب وآداب)کی اصلاح کی،ذہن کو بیدار
کیااسی لیےاس خطےمیں تشریف لانے والے اولیائےکرام رحمہم اللہ السلام کےملفوظات کو خوش نصیب لوگوں نے
سرآنکھوں پررکھااورحرزِ جاں بنایا۔چونکہ ملفوظات کا یہ قیمتی خزانہ ہدایت و رہنمائی ، تربیت و اصلاح اور اعلیٰ
اخلاق کے انمول ہیروں کوسمیٹے ہوئے تھااس
لیے اس خطےکے”ملفوظات“کو اصنافِ ادب(علم ادب کی قسموں) اور علوم تاریخ میں
بیش بہا اور گراں قدر سرمایہ سمجھا گیا اور برعظیم کےعہد بہ عہد مطالعے کے لیےاہم
ترین ماخذ میں شمار کیا گیا ۔یادرہے کہ بزرگان دین کےاقوال و ارشادات کو”ملفوظات“کانام برعظیم پاک ہند میں دیا گیاہے اسی لئےعربی میں لکھی جانے والی کتب(مثلاکتب
ِ تاریخ،کتب اعلام وطبقات،کتبِ و عظ
ونصیحت اور کتب خطبات و مکتوبات)میں بزرگوں کے
اقوال و ارشادات تو ملتے ہیں مگرانہیں” ملفوظات“ کا عنوان نہیں دیا جاتا ۔
از:مولاناناصرجمال
عطاری مدنی
اسکالر
المدینۃ العلمیہ( اسلامک ریسرچ سینٹردعوتِ اسلامی)
اسی جذبہ کے
تحت 15 صدی کی ایک عظیم شخصیت نے باقاعدہ ایک تحریک کی بنیاد ڈالی جو اللہ
پاک کے فضل و کرم اور پیارےرسول کی
خاص نظر عنایت سے نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھرمیں لوگوں کی اصلاح کاذریعہ بنی ، کئی لوگوں کو نماز، روزے اور دیگر ضروریاتِ دین پر عمل کرنے کا ذہن دیا،یقینا یہ پڑھ کر آپ کے ذہن میں 15 صدی کی علمی و روحانی
شخصیت قبلہ شیخ طریقت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا اور ان کی بنائی ہوئی تحریک دعوت اسلامی کا نام آیا
ہوگا ۔
اللہ
پاک کے فضل و کرم سے اس تحریک نے
دین متین کا اس قدر کام کیاکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی ان پر رشک کریں گی ،سال 2021 میں ان کے بنائے ہوئے جامعۃ المدینہ سے کم و بیش ایک ہزار نوجوان عالم ِ دین بنے، اس کےعلاوہ دعوت اسلا می کے مدرسۃ المدینہ سے سالانہ سینکڑوں بچے حفظ قرآن اور ہزاروں ناظرہ قرآن پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں مزید یہ کہ
دعوت اسلامی کے دیگر شعبہ جات مثلا ًالمدینۃ العلمیہ جس میں تحریروتصنیف کا کام ہوتا ہے اور مدنی چینل جو گھر گھر لوگوں
کی اصلاح کا سبب بن رہا ہے اور شعبہ خدّام المساجد جو سالانہ کئی مسجدوں کی تعمیراتی کام کروارہا ہے سب کی مثالیں اپنی جگہ ہیں ۔
ہرعقل مند انسان یہ
جانتاہے کہ فی زمانہ ایک چھوٹے ادارے اور
تحریک کو چلانے کے لئے کتنےاخراجات کی ضرورت پڑتی ہے توپھر یہ تحریک جو دنیا
بھر میں نیکی کی دعوت عام کر رہی ہے ، امت کو علماء ،حفاظ مہیاکر رہی ہے اس کے کتنے اخراجات ہوں گے
یقینا کروڑوں میں ہوں گے،ان اخراجات کو
پورا کرنے کے لئے ہم سب کی دعوت اسلامی 7 نومبر 2021 بروز اتوار ”ٹیلی تھون “مہم کرنے جارہی ہے، یعنی
دعوت اسلامی اپنے مدارس، جامعۃ المدینہ
اور کنزالمدارس بورڈ کے جملہ اخراجات کے لئے فنڈِنگ کرنے جارہی ہے۔
دین کا علم حاصل کرنے والوں کی خدمت کرنا اور ان کے لئے چندہ جمع کرنا ہمارے پیارے آقا صلّی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسَلّم کی سنّتِ مبارکہ
ہے ،کتبِ احادیث میں ایسی روایات ملتی ہیں،
جن میں پیارے آقا صلّی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسَلّم نے اصحابِ صُفّہ کی خیر خواہی کرنے اور صحابۂ کرام کو ان کی خدمت کرنے کی ترغیب دلائی ہے، ویسےبھی حدیثِ مبارکہ میں اللہ کریم کی راہ میں
صدقہ کرنے کے بے شمار فضائل وبرکات ہیں ، مثلاً صدقہ برائی کے 70 دروازے بند کرتا ہے۔ ([1])صدقہ
کرنے والوں کو صدقہ قبر کی گرمی سے بچاتا ہے۔ ([2]) صدقہ رب کے غضب کو بجھاتا
اوربُری موت کو دفع کرتا ہے۔ ([3]) مسلمان کا صدقہ عمر بڑھاتا اور بُری موت کو روکتا ہے۔ ([4]) لہٰذا آپ بھی
اپنے علاقے کےذمہ دار اسلامی بھائیوں کے
ذریعے دعوت اسلامی کے ساتھ تعاون کریں اور دنیا و آخرت کی بھلائیں حاصل کریں ۔اللہ کریم قبلہ شیخ طریقت ،امیر اہل سنت اور دعوت
اسلامی کو شادو آباد رکھے اور اس مہم میں
حصہ لینے والوں اور چندہ دینے والوں ، اکھٹا کرنے والوں، سب کواپنے پیارے حبیب کے روزے کے حاضری اور باادب حج کی سعادت عطا فرمائے ۔ آمین
از:مولانا
عبدالجبارعطاری مدنی
ذمہ دار :
شعبہ رسائل دعوت اسلامی
معروف بزرگ جامع شریعت و طریقت حضرتِ
مَعْرُوف کَرْخِی رحمۃُ اللہِ علیہ کےپاس ایک شخص آیااور کہا حضرت آج ایک عجیب
واقعہ ہوا ”میرے گھر والوں
نے مچھلی کھانے کی فرمائش کی۔میں نے بازار سے مچھلی خریدی اور اسے گھر پہنچانے کے
لئے ایک کم عمر مزدور بلایا، اس نے مچھلی
اٹھائی اور میرے پیچھے چل دیا۔راستے میں اذان کی آواز سنائی دی اس لڑکے نے کہا:”چچا
جان ! اذان ہو رہی ہے آئیے نماز پڑھ لیں؟”اس کی یہ بات سن کر مجھے ایسا لگا جیسے
وہ نو عمر لڑکا مجھےغفلت کی نیندسے جگارہا ہے۔ میں نے کہا” کیوں نہیں!آؤ پہلے نماز
پڑھ لیتے ہیں،اُس نے مچھلی وُضو خانےپر رکھی اور مسجد میں داخل ہو گیا۔ ہم نے
جماعت کے ساتھ نماز ادا کی اور گھر آگئے، میں نے گھر والوں کواس نیک اورکم عمر
مزدور کے بارے میں بتایا تو وہ کہنے لگے:”اِس سے کہو آج دوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ
کھالے۔”میں نے اسے دعوت دی تو اس نے کہا کہ میرا روزہ ہے، میں نے کہا،افطاری ہمارے
ساتھ کرلینا۔اُس نے کہاٹھیک ہے،آپ مجھے مسجد کا راستہ بتادیں، میں نے اُسے مسجد
پہنچا دیاوہ مغرب تک مسجد ہی میں رہا ۔ نماز کے بعدمیں نے کہا:”اللہ پاک تجھ پر
رَحَم فرمائے،آؤ گھر چلتے ہیں۔ اس نے کہا:” کیوں نہ ہم عشاء کی نماز پڑھ کر
چلیں؟میں نے اپنے دل میں کہا اس کی بات مان لینے ہی میں بھلائی ہے، اسی لئے مَیں
مسجد میں
رُک گیا،نمازِ عشاء کے بعد ہم گھر آئے، ہم سب نے کھاناکھایا اور اپنے اپنے کمروں میں
سوگئے نوعمر نیک لڑکے کو ہم نے مہمانوں والے کمرے میں سلادیا،میری ایک پیدائشی
معذور لڑکی تھی جو چلنے پھرنے سے معذور تھی اور اسی حالت میں 20 سال گزر چکے تھے۔
رات کے آخری پہر دروازے پر کسی نے دستک دی، میں نے کہا، کون ہے؟میری اُسی معذور بیٹی نے پکار کر کہا: میں
فلاں لڑکی ہوں، میں نے کہاوہ تو چلنے پھرنے سےمعذور ہے اور ہر وقت اپنے کمرے ہی
میں رہتی ہے تم وہ کیسے ہوسکتی ہو؟اس نے کہا:”میں وہی ہوں، ہم نے دروازہ کھولا تو
واقعی ہمارے سامنے وہی لڑکی موجود تھی،میں نے کہا”تم ٹھیک کیسے ہوگئی؟اس نے کہا :میں
نے آپ لوگوں کی آوازیں سنیں تھیں کہ آج ہمارے ہاں ایک نیک مہمان آیا ہے، میرے دل
میں خیال آیا کہ اس نیک مہمان کے وسیلے سے دعا کروں شاید اسی کے صدقے اللہ پاک
مجھے شفا عطا فرمادے، لہٰذامیں نےاللہ پاک کی بارگاہ میں دعا کی”اے میرے پاک رب،
اس مہمان کے صدقے میری بیماری ختم فرمادے اور مجھےصحت عطا فرما۔“یہ دعا کرتے ہی
میں فورا ٹھیک ہوگئی اوراللہ پاک کے حکم سے میرے ہاتھ پاؤں کام کرنے لگے اور میں
خود چل کر یہاں آئی ہوں، لڑکی کی یہ بات سُن
کر میں فوراً اُس کمرے کی طرف گیا جس میں وہ لڑکا تھا۔وہاں کوئی بھی نہیں تھا،میں
باہردروازے کی طرف گیا تو وہ بھی بند تھا، معلوم نہیں ہمارا نوعمر مہمان کہاں غائب
ہوگیا۔حضرتِ مَعْرُوف کَرْخِی رحمۃُ اللہِ علیہ نے یہ واقعہ سن کر
فرمایا: ”اللہ پاک کے اولیاء میں کم عمر بچے بھی ہوتے ہیں اور بڑی عمروالے بھی، وہ
لڑکا اللہ پاک کا ولی تھا۔ (عیون الحکایات، 2/ 34)
حکایت سے حاصل ہونے والے فوائد
معزز قارئین!اس چھوٹی سی حکایت میں ہمارے لئے بے انتہا قیمتی موتی پوشیدہ
ہیں آئیے انہیں ڈھونڈ کر ان کے ذریعے اپنے اخلاق و عادات کو مزین کرنے کی کوشش
کرتے ہیں :
(1) نماز انتہائی اہم ہے نماز کو اہم الفرائض یعنی اللہ کریم کے فرض کئے گئے کاموں میں سب سے اہم فرض، نماز کی اہمیت کا اندازہ اس
بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ قیامت کے دن سب سے پہلا سوال نماز ہی کے متعلق ہوگا، نماز پڑھنا
اولیائے کرام کا معمول رہا ہے اور حقیقی ولی وہی ہے جو اللہ پاک کے فرائض کی ادائیگی میں عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ کوشش
کرے نہ یہ کہ مختلف حیلے بہانوں سے اور اپنے آپ کو پہنچا ہوا ثابت کرنے کے لئے
فرائض و واجبات ترک کرتا پھرے، حضور غوث العالم شیخ بہاء الحق والدین ابو محمد زکریا
ملتانی رحمۃُ اللہِ علیہ تو یہاں تک
فرماتے ہیں: مجھے جو کچھ بھی حاصل ہوا نماز سے حاصل ہوا۔( فوائد الفواد ،ص63) (2) اللہ کا ولی ہونے کے لئے 50/ 60 سال
عمر اور داڑھی کا سفید ہونا ضروری نہیں بلکہ بزرگی اور ولایت کم عمری یہاں تک کہ
دودھ پینے کی عمر میں بھی مل سکتی ہے اور کئی اولیائے کرام تو مادر زاد ولی تھے
جیسے کہ غوث الاعظم،شیخ محی الدین ابومحمد عبدالقادر جیلانی رحمۃُ اللہِ علیہ پیدائشی طور پر ولایت کا شرف رکھتے تھے۔(3) چوتھی بات یہ پتا چلی کہ کسی کو
اچھے کاموں کی ترغیب دینا اور برے کاموں سے روکنا ایک اچھا کام ہے مگر یہ کام صرف
زبانی حد تک نہ ہو بلکہ جو کہہ رہے ہیں، جس کام کی دعوت آپ دے رہے ہیں، جس کام سے
لوگوں کو روک رہے ہیں، اُس کا آغاز اپنی ذات سے کریں اور اپنے کردار کو ان برے
اعمال سے صاف رکھیں۔ (4) نیک لوگوں سے ملتے رہنا چاہئے اور ہو سکے تو ان کو اپنے ہاں مدعو کرنا چاہئے
کہ اصل دعوت کے حق دار نیک لوگ ہیں۔ (5)اگر
کوئی دعوت دے تو حتی الامکان اسے قبول
کرنا چاہئے ، دعوت قبول کرنا سنت رسول نبوی بھی ہے۔ (6)انبیائے کرام اور دیگر نیک و صالح افراد کے
وسیلے سے جو دعا مانگی جائے اللہ پاک اسے شرفِ قبولیت عطا فرماتا ہے لہٰذا جب بھی
دعا مانگیں تو کسی کا وسیلہ بارگاہِ الہی میں پیش کریں۔ (7) نیک لوگوں کے قرب میں
رحمت برستی ہے لہٰذا صالحین کے مزارات اور جو بزرگ علمائے کرام و مشائخ موجودہ ہیں
ان کی بارگاہ میں وقتاً فوقتاً حاضری کو اپنا معمول بنالیجئے۔(8)اگر آپ کسی کے اجیر (Employee)ہیں کسی
کے ماتحت کام کرتے ہیں تو کوئی بھی ایسا کام اس دوران کرنے سے گریز کریں جو اجارے
کے تقاضوں کے خلاف ہو حتی کہ نوافل ادا
کرنےکے لئے بھی مستاجر (Employer) کی اجازت لیں جیسا کہ حکایت میں مذکور ہوا کہ ان کم
سن ولی اللہ نے ادائیگی نماز کے لئے بھی اجازت طلب کی ۔
مضمون نگار:مولانا محمد حسین بشیر عطاری مدنی
دورِ حاضر میں نت نئی ایجادات کی وجہ سےانسان کئی مسائل سے دو چار ہے ، نفسیات، سماجی اور گھریلو تعلقات
اور روز مرہ کے معمولات پر ان کا اثر براہ
ِ راست ہورہا ہےجس کی وجہ سے غفلت بڑھتی
جارہی ہے،گناہوں کےطوفان نےتباہی مچارکھی ہے اور ایک بہت بڑی تعدادذہنی تناؤ،
بےچینی و اضطراب اور طرح طرح کی بیماریوں کے نرغے میں ہے،اِس طرح کی آزمائشوں سےانسانیت کو نکالنے کے لیے اللہ پاک نے جن ہستیوں کا منتخب فرمایا
ہے پندرہویں صدی
ہجری کی عظیم علمی و روحانی شخصیت شیخِ طریقت، امیر اہلِ سنت، بانیِ
دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہان میں
سے ایک ہیں۔ آپ دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکو اللہ تعالیٰ نے کئی کمالات عطاکئے جن میں سے اصلاحِ امت کے جذبے سے سرشاردل،چٹانوں سے زیادہ مضبوط حوصلہ، معاملہ فہمی کی حیرت
انگیز صلاحیت،نیکی کی دعوت میں پیش آنے والے مسائل کوحل کرنے اور مشکلات کاسامنا
کرنے کی ہمّت سرِ فہرست ہیں۔ امیر ِاہلِ سنت دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکو کثرتِ
مطالعہ اور اَکابر علَمائےکرام کی صحبت کی
بدولت شرعی احکام پرقابلِ رشک دسترس حاصل ہےجس کی وجہ سے آپدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی
شخصیّت (Personality) زمانے کومنوّر کرنےوالا
ہیرا بن چکی ہے۔آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ بزرگانِ دین کے نقشِ قدم پر چلےاور آپ نے اسلام
کی آفاقی تعلیمات کو اپنی عام فہم اور بلندپایہ تحریر،قرآن و سنّت سے معمور بیانات اورانفرادی کوشش اورملفوظات کے ذریعے دنیا بھر پھیلانے کی سعیٔ جمیل (اچھی کوشش)فرمائی۔مسلمانوں
کی فکری تربیت،انہیں کی جانے والی پُراثر نصیحت اورکثیر مصروفیات
کےباوجود خوشی غمی میں شرکت نے آپ دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکوعرب و عجم میں ہردل عزیز بنادیا ہے۔
امیرِ اہلسنّت دَامَتْ
بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنےملفوظات
کےذریعےلوگوں کوعقائدو اعمال،فضائل ومناقب، شریعت و طریقت، تاریخ و سیرت،سائنس و طب، اخلاقیات و
اسلامی معلومات،روزمرہ کےمعاملات کے متعلق سوالات کے حکمت آموز اور عشقِ رسول میں ڈوبے ہوئے جوابات عطافرماتے ہیں۔آپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کےملفوظات تجربات سے بھرپور ہوتے ہیں جسے سُن کر اخلاق و کردار کو
اسلامی احکامات سے مزیّن کرنےکاجذبہ
ملتاہے،زندگی کو مشکل بنانے والی خواہشات
سے چھٹکارا پانے کی راہیں نظر آتی ہیں اور نیک بننے بنانےکےنسخے ہاتھ
آتے ہیں ۔ چونکہ امیر اہل ِ سنّتمدظلہ العالی کا پُروقار لب و لہجہ ، مشفقانہ
اندازِ بیان، خیر خواہی اور بھلائی پر
مبنی درمندانہ نیکی کی دعوت براہِ
راست انسان کے دل کی دنیا بدل کررکھ دیتی ہے اسی طرح کی اَن گِنت خوبیوں کی
بناء پرآپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکےملفوظات کو دل کے کانوں سے
سنے جاتے ہیں۔ کچھ اہم موضوعات کےتحت منتخب ملفوظاتِ امیراہلسنتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ بطورِ مثال پیشِ خدمت ہیں ،ملاحظہ کیجئے:معاشرتی اُمور
کے بارے میں : (1)خوشی کے موقع جیسے شادی یا سالگرہ
وغیرہ پر تحفے میں شو پیس یا کوئی اور چیز دینے کے بجائے نقد پیسے دینا زیادہ مفید ہے کہ اس سے وہ اپنی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔(2) خُود داری اور صَبْر و
قناعت سے وقار بلند ہوتا ہے۔(3)لوگوں کے درمیان بیٹھو تو اپنی زبان قابو میں رکھو، کسی کے گھر جاؤ تو
اپنی آنکھوں کو قابو میں رکھو، نماز میں
اپنے دل کو قابو میں رکھو۔(4)اگر کسی
کو خوش نہیں کرسکتے تو ناراض بھی مت
کیجیے۔(5)جس سے بَن پڑے وہ اپنے سفیدپوش رشتےدار
یا یتیم بچوں کی
کفالت کا ذِمَّہ لے اور اُن کی مدد اس طرح کرے کہ انہیں بھی معلوم نہ ہو کہ
ہماری مدد کرنے والا کون ہے۔(6)اِسلام
میں کسى کو ناحق تکلىف دىنے کا تَصَوُّر ہی
نہىں۔(7)ہمارے ساتھ کوئی حُسنِ سُلوک کرے یا نہ کرے، ہمیں
ہر ایک کے ساتھ حُسنِ سُلوک کرنا چاہئے۔(8)یہ اُصول یاد رکھئے! کہ نَجاست کو نَجاست سے نہیں
پانی سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی آپ کے ساتھ نادانی بھرا سُلوک کرے تب
بھی آپ اُس کے ساتھ نرمی و محبَّت بھرا سُلوک کرنے کی کوشِش فرمائیے۔(9)گھر وغیرہ کی
چاردیواری میں رہ کر زبان، آنکھوں اور پیٹ وغیرہ کا قفلِ مدینہ لگانا اپنی جگہ مگر
مُعاشَرے (Society) میں لوگوں کے درمِیان رہ کر یہ سب کرنا کمال ہے۔ (10)سب کے ساتھ شفقت اور حُسنِ اَخلاق سے
پیش آئیں گے تو
لوگ آپ سے مَحبت کریں گے۔ مَحبت دو، مَحبت لو، نفرت کرو گے تو نفرت ملے گی۔(11)سکون، سنّتوں پر عمل کرنے اور
سادَگی کے ساتھ زندگی گزارنے میں
ہے۔(12)اسلامی معلومات کی کمی اور دین سے دُوری کی وجہ سے معاشرتی بُرائیاں بڑھتی جارہی
ہیں۔(13)مسلمان ہر معاملہ شریعت کے عین مطابق ہی کرنے کا پابند ہے۔(14)مسلمان ہر لحاظ سے
اسلام کا پابند ہے۔(15)مسلمان غیر مسلموں سے ایسا روّیہ نہ کریں، جس سے وہ
مسلمانوں سے بدظن ہوکر اسلام قبول نہ کریں۔(16)ہر اُس کا م سے بچیں جو تنفیرِ
عوام کا باعث ہو یعنی جس پرلوگ اُنگلی اُٹھائیں۔(17)خادمِ مسجد معاشرے کا مظلوم ترین
فرد ہے، اس کے ساتھ بھی مالی تعاون کریں۔(18)معاشرے کی غلط رُسومات میں
شامل ہوجانا مَردانگی نہیں بلکہ مَرد وہ ہے جو معاشرے کو اپنے پیچھے چلائے۔خاندان کےبارے میں:(1)والدین کو چاہیے کہ اولاد کی تَربیت کا ہُنر سیکھیں۔
(2)والدین
سے خدمت لینے کی بجا ئے اِن کی خدمت کریں۔(3)بھوت پری کی کہانیاں بچوں کوبُزدل
(ڈرپوک) بناتی ہیں۔ ہمارے بچے شیرکی طرح
بہادر ہونے چاہیں۔(4)اللّٰہ کرے ہم اپنے بچوں
کو کارٹون دیکھنے سے بچائیں۔(5)اولادٹوٹاہوابرتن نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ہرطرح کا
سلوک کیاجاسکے ،اگراولاد کی دل آزاری کی تواس سے بھی معافی مانگنا ہوگی۔ (6)والدین
اپنی اولا د پر یہ ظاہر نہ کریں کہ ہم اپنے فلاں بیٹے یا بیٹی سے زیادہ محبت کرتے
ہیں ورنہ وہ احساسِ کمتری کا شکار ہوں گے اوریہ اُن کیلئے باعثِ ہلاکت ہوگا۔(7)ماں
کو بچّے کے اَبّوکے سامنے بچّے کی غلطیاں نہیں بتانی چاہئیں اور نہ ہی والدین کو
اپنے بچّوں کے لیے بد دُعا کرنی چاہئے۔(8)بچوں
کو بار بار جھاڑنے سے وہ ڈھیٹ اورنافرمان ہوجاتے ہیں۔(9)اپنی اولادکو سمجھاتے ہوئے
ایسے جملے نہ بولیں، جس سے ان کے دل میں آپ کی نفرت جڑپکڑجائے۔(10)تنگدَستی کے اَسباب میں سے یہ بھی
ہے کہ ماں باپ کو نام لے کر پکارا جائے۔(11)اولاد کو چاہئے کہ ماں باپ کا علاج کروائےاگرچہ اپنا پیٹ
کاٹ کر (یعنی روکھی سوکھی
کھا کر اور تنگی سے گزارہ کرکے بھی) کروانا پڑے ۔(12)بیٹا عالِم
ہو اور باپ غیرِ عالِم، پھر بھی بیٹے پر اپنے باپ کا اِحترام لازم ہے، اِحترام کرے گا تو دونوں جہاں میں
سعید (یعنی خوش نصیب) ہوگا۔اِنْ شَآءَ اللہ (13)اللہ پاک کی رضا کے لئے شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے شوہر کو
خوش کرنا بہت بڑے ثواب کا کام ہے۔(14)صابرہ، شاکرہ، میٹھے بول بولنے اور خُلوصِ دل سے
سُسرال میں خدمت بجالانے والی کا گھر اَمْن کا گہوارہ بنا رہتا ہے۔(15)
سُسرال میں زبان چلانے والی، سُسرال کی کمزوریاں مَیکے میں بیان کرنے والی اور
سُسرال میں مَیکے کی تعریفیں کرنے والی کو شادی خانہ بربادی کا سامنا ہوسکتا
ہے۔(16) شوہر کوخوش کرنا، اللہ تعالیٰ کی رِضا کے لیے ہو
تو بہت بڑی عبادت ہے۔صحت اور علاج کے بارے میں: (1)کھانے میں نمک مناسب مقدار میں استعمال کرنا چاہئے کیونکہ اس کا زیادہ استعمال گُردوں کو ناکارہ کرسکتا
ہے۔(2)گندم میں جَو کا
آٹا مِلا کر پکائیں تو روٹی مُعْتدل اثر والی ہوجائے گی کیونکہ جَو کی تاثیر ٹھنڈی اور گندم کی تاثیر
گرم ہوتی ہے۔ (3)کولیسٹرول کے مریضوں کے لئے زیتون
شریف کا تیل استعمال کرنا فائدہ مند ہے۔(4)تھکاوٹ ہوجائے تو کىلا کھالیجئے۔ کہا جاتا
ہے کہ دوکىلے کھانے سے تقریباً ڈىڑھ گھنٹے کى توانائى حاصل ہوتى ہے۔ (5)روزانہ(Daily) 12گلاس، یعنی کم و بیش 3لیٹر پانی پئیں اِنْ شَآءَ اللہ گُردوں کے امراض سے محفوظ رہیں گے اور
قبض سے بھی بچیں گے۔(6)کھانے کے بعد ٹھنڈا پانی پینے سے باز نہیں رہ سکتے تو پتّے کی پتھری کے اِستقبال کے لیے تیار رہیے۔ (7)چھوٹی عمر والوں کو کثرت سے دودھ پینا چاہئے کہ دودھ پینے سے ہڈّیاں مضبوط
ہوتی ہیں۔(8)کولڈ ڈرنک خوش ذائقہ زہر ہے۔(9)جسمانی
بیماریوں سے جس طرح ڈر لگتا ہے کاش! اُسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ گناہوں کی بیماریوں سے ڈر لگا کرے۔ (10)آنکھوں اور کولیسٹرول کے مریضوں کو مچھلی کھانا مفیدہے۔(11)دواؤں (Medicine)کے نقصانات(Side
Effects) بھی ہوتے ہیں، حتی
الامکان دواؤں سے بچیں۔(12)کولیسٹرول ، شوگر اورہائی
بلڈ پریشر یہ تینوں اَمراض اپنے اندر جمع نہ ہونے دیں،اگر یہ تینوں کسی میں جمع
ہوجائیں اوروہ کھانے پینے میں پرہیز نہ کرے تو اُسے اچانک ہارٹ اٹیک(Heart
Attack) ہوسکتاہے۔(13)اگر نظر کے عینک استعمال کرتے ہیں تو کمپیوٹر پر کام
کرتے وقت بھی اسے پہنے رہئے۔(14) ہر 20 منٹ بعد اسکرین سے
نظریں ہٹا کر 20 فٹ دور رکھی چیز کو 23 سیکنڈ دیکھ لیجئے۔(15)چائے
زیادہ پینے سے بچنا چاہئے کہ اس سے گُردوں کو نقصان پہنچتا ہے۔(16)اگر کھانسی بہت زیادہ ہوتو ہر ایک گھنٹے بعدایک عدد لونگ
اچھی طرح چباکر لُعاب سمیت نِگلنا مفید ہے۔مبلغین کےبارے
میں:(1)بے
علم اندھیرے میں تِیر چلانے والے کی طرح ہے۔نیکی کی دعوت دینے کے لیے بھی علم ضروری
ہے۔(2)اگرآپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ذریعے دعوتِ اسلامی ترقی کی منزلیں طے کرے، تو
اپنے اَخلاق اور کردار کو اچھا بنائیے۔ (3)دین کا کام کرنا ہے تو خدمتِ دین کا مضبوط و مستحکم ارادہ کیجئے اور اس کے لئے عملی
اِقدام بھی کیجئے۔(4)اِصلاح ایک پھونک مارنے سے
نہیں ہو جاتی اس کے لیے حکمت وتَدَبُّر سے کام لینا پڑتا ہے۔ (5)دِل سَمُندر کی طرح وسیع ہونا چاہئے
جس کا دِل بار بار دُکھ
جاتا ہو اُس کے دوست بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور وہ دِین تو کیا دُنیا کا کام بھی نہیں
کرسکتا۔(6)گناہ کرنے والے کا گناہ قابلِ نفرت ہے مگر
وہ خود قابلِ ہمدردی ہے اور اُسے سمجھانے کی ضَرورت ہے۔(7)اپنے
اندر قوتِ برداشت پیدا کرنے کی کوشش کیجئے
کہ جب بھی آپ کے مزاج کے خلاف کوئی بات
ہو تو آپ اپنے غُصّے کو کنٹرول کرتے ہوئے صبرکرنے میں کامیاب ہوجائیں۔(8)کوئی کام کرنا ہو تو
سنجیدہ(Serious) لینا ہو گا، انسان
سنجیدگی سے کوئی کام کرے تو منزل پالیتا ہے۔(9)رَنگ باتوں سے
کم اور صحبت سے زیادہ چڑھتا ہے، لہٰذا اچّھوں کی صحبت اپنائیے۔(10)دعوتِ اسلامی شرم و حیا
اور حُسنِ اَخلاق کا دَرْس دیتی ہے۔(11) رِیاکاری
سے بچتے ہوئے اِخلاص کے ساتھ نیک اَعمال کرنے کی عادت بنائیے کہ مُخلص شخص 1000پردوں میں چُھپ
کر بھی نیک کام کرے، اللہ پاک اسے لوگوں میں مشہور فرما دیتا ہے۔(12)جو مدنی کام میں
مکمل طورپر مصروف ہوتاہے، اُس کو فضول کاموں کیلئے وقت نہیں ملتا۔ (13)ہر اس بات اور حرکت سے بچئے جس سے کسی مسلمان کی دل آزاری ہوسکتی ہو۔مال
و دولت کےبارے میں :(1)جس کے پاس جتنا حلال مال زیادہ ہوگا آخِرت
میں اُس کا حساب بھی اُتنا ہی زیادہ ہوگا کیونکہ حلال کا حساب ہے اور حرام پر
عذاب۔(2)دنیاوی مال و دولت کم
ہونے پر افسوس کرنے کے بجائے نیکیاں کم ہونے پر افسوس کیجئے۔ (3)مال کا
لُٹیرا چور ہے اور اس سے بچنے کے کئی ذریعے ہیں کیونکہ وہ نظر آتا ہے جبکہ نیکیوں کا لُٹیرا شیطان ہے اور یہ نظر نہیں آتا لہٰذا اس
سے نیکیاں بچانے کے لیے زیادہ کوشش کرنے کی ضَرورت ہے۔ (4)مالداروں کے پاس عموماً علمِ دین کم
ہوتا ہے، شاید اسی لئے وہ غریبوں کو حقیر جاننے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔(5)اے اپنے
مکان کی تعمیر کی تکمیل کے مُنْتَظِر! اِس بات کو یاد رکھ! مکان بننے
سے پہلے تیری قبر بھی بن سکتی ہے۔(6)یاد رکھئے!
دنیا نہ کسی کے کام آئی ہے، نہ آئے گی اور نہ ہی قبر میں ساتھ جائے گی۔ (7)دنیاوی مال و دولت کم ہونے پر افسوس کرنے کے بجائے نیکیاں کم ہونے پر افسوس
کیجئے۔زبان کےبارے:(10)جب تک ہم
نےالفاظ نہ بولے، ہمارے ہیں، جب زَبان سے نکل گئے تو دوسروں کے ہوگئے، وہ جو چاہیں کریں۔(11) ایسے سُوالات نہ کیے جائیں جن کے باعِث کسی
کے جھوٹ میں مبتلا ہو کر گناہ میں پڑنے کا اَندیشہ ہو۔(12)تعزىت کرتے وقت اَلفاظ کے
چُناؤ مىں اِحتىاط بہت ضَرورى ہے ورنہ جھوٹ بھی ہو سکتا ہے۔ (13)مُحتاط اَلفاظ میں
ہی تعزیت کی جائے مثلاً”آپ کے والِد
صاحِب ىاآپ کى اَمّى کے اِنتقال پر آپ سے تعزىت کرتا ہوں! صَبر کىجئے گا!اللہ پاک آپ کے اَبو جان یا اَمّى جان کی بے حساب
مَغفرت فرمائے۔ آپ کو صَبر اور صَبر پر اَجر عطا فرمائے۔“(14) میں دُعا میں ایسے جامع اَلفاظ لاتا ہوں جن میں ہر
ایک خودبخود شامِل ہو جائے مثلاً یَااللہ ! میرے
تمام مُریدین ،تمام طالبین اور سارے دعوتِ اسلامی والوں اور والیوں کی بے حساب
مَغفرت فرما، یااللہ!پیارےمحبوب صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی ساری اُمَّت کی بخشش فرما۔(15):بے ضرورت گفتگو
سے دل سخت ہوجاتا ہے۔ جانوروں کے بارے میں:(1)جانور کی کٹائی ماہر گوشت
فروش سے کروانی چاہیے۔(2)جانور کو رکھنے کے لیے نرم زمین ہونی چاہئے ،بڑے شہروں میں
نرم زمین کی ترکیب نہ بنے تو جس جگہ جانوررکھنا
ہووہاں ’’بالو ریت‘‘ بچھالی جائے۔(3)بچوں کو جانوروں کے ساتھ حسنِ سلوک کا ذہن دینا
چاہیے۔(4)جانور پر ظلم کرنا مسلمان پر ظلم کرنے سے سخت ہے۔ (5)دینِ اسلام ہمیں
کتّے بلّی کو بھی بلا اجازتِ شرعی تکلیف دینے کی اجازت نہیں دیتا۔
ملفوظاتِ امیر اہلسنّت سےماخوذ ان مدنی پھولوں کی خوشبو نے آپ کے دل و دماغ کو
معطر کیا ہوگا،بلاشبہ ملفوظاتِ امیراہلسنّت کامطالعہ اسلام کی روشن تعلیمات
پھیلانے اور باعمل مسلمان بنانے حددرجہ معاون ثابت ہوگالہذا اس کتاب کا اول تاآخر
مطالعہ کرکے شیطان کےوار کو ناکام بنائیے، اللہ پاک
کی رحمت شاملِ حال رہی تو دین ودنیا کی بے
شمار بھلائیاں نصیب ہوں گی ۔ اِنْ شَآءَ اللہ
مولاناناصرجمال
عطاری مدنی
اسکالر
المدینۃ العلمیہ ( اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)
برھانِ ملّت کی عظمت وشان کا اندازہ اس بات سے
لگایا جاسکتا ہے کہ آپ اعلیٰ حضرت علیہ رحمہ کے چہیتے شاگرد اور منہ بولے بیٹے تھے۔ آپ عموماً سفید
عمامہ سر پر زیب فرماتے ،چہرہ نہایت خوبصورت اور نورانی تھا ،گفتگو فرماتے تو یوں
معلوم ہوتا گویا پھول جھڑ رہے ہوں گستاخانِ رسول کا معاملہ آتا تو مداہنت کو راہ
نہ دیتے، مسلکِ اہلسنت و جماعت کے نہایت معتبر اور مستند ترجمان کی حیثیت رکھتے تھے۔ تحریر و تقریر اوراجلاس ومحفل ہر جگہ
فکر ِرضا کے امین و پاسبان تھے۔
نام و نسب :
عبد الباقی محمد برھان الحق بن عید الاسلام
مولانا عبدالسلام بن مولانا عبدالکریم یوں ۔
آپ کا سلسلہ نسب اسلام کے پہلے خلیفہ حضرت سیدنا
ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ سے ملتا ہے یعنی آپ نسباً صدیقی ہیں ۔
القاب :
برھان
الملت ، برھان الاسلام ، برھان الطب و الحمکۃ ۔
امام اہلسنت کی جانب سے عطاکردہ
القاب و خطاب :
ناصر الدین المتین ، کاسر رؤس المفسرین ، قرۃ عینی
و درۃ زینی ،برھان السنہ ،یا وادی و راحتہ کبدی ۔
ولادتِ باسعادت :
بروز جمعرات 21 ربیع الاوّل 1310 ھ بمطابق 1894ء
بروز جمعرات کو بعد نمازِ فجر ہندوستان کے شہر جبل پور میں ہوئی، ہوا کچھ یوں کہ
آپ کے دادا جان فجر کے بعد تلاوتِ قراٰنِ پاک فرما رہے تھے تو دادی جان نے ولادت کی
خبر سنائی تو اس وقت آیۃ کریمہ ’’ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ
جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا‘‘ وردِ زبان تھی سنتے ہی فرمایا برھان آگیا ۔
تعلیم و تعلّم :
1315ھ میں رسمِ بسم اللّٰہ سے تعلیم کا آغاز ہوا
، آپ ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں " میری تعلیم صبح 12 بارہ بجے ظہر کے بعد
عصر تک اور عشا کے بعد سے 10 بجے رات تک ہوتی تھی، عربی والد ِماجد سے اورفارسی
چچا بشیر الدین صاحب سے پڑھی" 1329ھ میں آپ نے علوم ِعقلیہ و نقلیہ میں مہارت
پیدا کرلی ،9 سال کی کم عمری میں پہلی بار مرتبہ بارگاہ ِعزت مآب ﷺ میں نعتِ رسول
تحریر فرمائی جس مطلع کا مصرعہ یہ ہے:" نام تیرا یا نبی میرا مفرح جان ہے
"
آپ نے
1329ھ کو فتوی لکھنا شروع کیا پھر 1335ھ سے دارالافتاء عیدالاسلام کی پوری ذمہ داری
سنبھال لی ۔
بیعت و خلافت :
1335ھ میں ولیِ کامل، پیر ِطریقتِ، رہبرِ شریعت
امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے دستِ مبارک پر بیعت ہوئے پھر 26 جمادی الثانی
1337 ھ کو جبل پور میں جلسۂ عام میں امام ِاہلسنت نے 45 علوم اور گیارہ سلاسل طریقت
و احادیث
کی اجازت مرحمت فرمائی۔
ازواج و اولاد :
آپ کی اولاد میں 3 صاحبزادے اور 2 صاحبزادیاں تھیں
:
(1)مولانا محمد انور احمد صاحب ۔
(2)مولانا مفتی محمود احمد صاحب۔
(3)مولانا محمد حامد احمد صدیقی صاحب۔
نعت گوئی :
یوں تو شاعری کی ابتداآپ نے کم عمری سے کردی تھی
کما سبق جوانی میں ایسی ایسی نعتیں لکھیں جن کو بارگاہ ِامامِ علم و ادب میں قبولیت
سے نوازا گیا ،تعریف و مدح کی سند جاری کی گئی، بائیس 22 سال کی عمر میں آپ کا
لکھوا ہوا فارسی کلام جب بریلی شریف میں امام
اہل سنت کے سامنے پڑھا گیا تو امام اہل
سنت پاؤں سمیٹ کر باادب بیٹھ گئے پھر درج ذیل کلام کے اشعار پڑھے گئے:
حضور سیّد خیرُ
الورٰی سلام علیک
بارگاہِ شفیعُ
الورٰی سلام علیک
روم بسوئے تو بر
ہر قدم کنم سجدہ
نوائے قلب شود سیدا
سلام علیک الخ
کلام کے مکمل اشعار سن کراعلیٰ حضرت نے فرمایا :کہ
یہ اشعار برھان میاں نے لکھے ہیں ماشاءاللہ ،بارک اللہ پھر فرمایا میں غور کررہا تھا کہ جامی کے طرز پر کس نے
طبع آزمائی کی ہے، کہاں ہیں برھان میاں ۔حضرت برھان ملت دارالافتاءمیں بیٹھے تھے
حکم سن کر حاضرِ بارگاہ ہوئے، سرکار ِاعلیٰ حضرت نے ارشاد فرمایا :حضرت حسان بن
ثابت انصاری رضی
اللّہ عنہ نے حضور ﷺ سے نعت پیش
کرنے کی اجازت چاہی حضور نے منبر پر کھڑے ہوکر سنانے کی اجازت دی، ( آپ ﷺ نے) نعت
شریف کو بہت پسند فرمایا اورجسمِ اقدس پر شامی چادر تھی جوانہوں نےاتار کر حضرت
حسان رضی
اللّہ عنہ کے جسم پر اڑھادی، فقیر
کیا حاضر کرے؟ اتنا فرما یااوراپنا عمامہ اتار کر حضرت برھانِ ملت کے جھکے ہوئے
سرکو سرفراز فرما کر دعائے درازیِ عمر و ترقیِ علم و عمل و استقامت فرمائی ۔
امامِ اہلسنت کا عطاکردہ عمامہ شریف آج بھی
تبرکات میں محفوظ ہے اورعید میلاد النبی و جلوس ِغوثیہ قادریہ میں تقریر کے دوران
صاحب ِسجادہ اسے پہنتے ہیں۔
اشعار میں آپ کا تخلص ’’ برھان ‘‘ ہے آپ
کی بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں نذرانۂ عقیدت دیوان جس کا نام ’’جذبات برھان‘‘
ہے۔
اساتذہ کرام :
امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ۔
جدِّ امجد حضرت مولانا شاہ عبدالکریم رحمۃ اللّٰہ علیہ ۔
والد ِمحترم حضرت عید الاسلام مولانا عبدالسلام
قادری رحمۃ
اللّٰہ علیہ۔
عم محترم حضرت قاری بشیر الدین رحمۃ اللّٰہ علیہ۔
مولانا ظہور حسین مجددی رحمۃ اللّٰہ علیہ۔
مولانا جلال میر پیشاوری رحمۃ اللّٰہ علیہ۔
مولانا رحم الہی رحمۃ اللّٰہ علیہ ( مدرس اول منظر الاسلام
بریلی شریف )۔
صحبت امام اہلسنت :
علومِ ظاہری کے بعد باطنی علوم ( علوم شریعت و طریقت ) کے
حصول کے لئے آپ بریلی شریف روانہ ہوئے اورکم وبیش 3 سال 1333ھ سے 1335ھ تک امام ِاہلسنت
امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کی صحبت میں
رہے ۔
خاندانی امتیاز :
پروفیسر مسعود احمد صاحب جذباتِ برھان میں رقم
طراز ہیں : یہ امتیاز صرف آپ کے خاندان کو حاصل ہے کہ آپ کے خاندان کے تین جلیل
القدر شخصیات کو امام ِاہلسنت احمد رضا سے خلافت حاصل ہے۔
اسی طرح
آپ کے خاندان کو یہ بھی امتیاز حاصل ہوا کہ امام احمد رضا کے خاندان کے باہر آپ کے
پہلے خلیفہ حضرت عید الاسلام مولانا عبدالسلام قادری رضوی ہوئے اور حضرت مفتی محمد
برھان الحق قادری رضوی آخری خلیفہ ہوئے جبکہ خاندان کے اندر یہ امتیاز صرف حجۃالاسلام
مولانا حامد رضا خان قادری رضوی کو حاصل ہوا کہ وہ پہلے خلیفہ ہوئے اور حضرت مفتی ِاعظم
ہند محمد مصطفیٰ رضا خان قادری رضوی آخری خلیفہ ہوئے ۔
مزید یہ کہ آپ کے چچا جان کو بھی فاضل ِبریلوی
سے خلافت حاصل تھی بحمد اللہ خانوادہ اسلامیہ
برھانیہ کو خانوادہ رضویہ سے جو قرب و فضل حاصل ہوا کسی اور خانوادے یا فرد کو
حاصل نہ ہوا ۔
خلفا:
آپ کے خلفاکی فہرست طویل ہے جن میں چند
مشہورخلفایہ ہیں :
حضرت مولانا مفتی محمود احمد قادری رحمۃ اللّٰہ علیہ۔
حضرت مولانا محمد انور صاحب۔
تاجُ الشریعہ حضرت مولانا مفتی اختر رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ۔
توصیفِ ملت حضرت مولانا توصیف رضا خان دام ظلہ ۔
شمس العلماء حضرت مولانا مفتی نظام الدین ابن
حافظ مبارک صاحب۔
حضرت مولانا مفتی نظام الدین رضوی دام ظلہ ( مفتی جامعہ اشرفیہ
مبارک پور اعظم گڑھ ) ۔
حضرت مولانا شمس الھدٰی قادری رضوی دام ظلہ ( استاذ جامعہ اشرفیہ
مبارک پور اعظم گڑھ )
یوں ہی آپ کے مریدین و احباب کی فہرست بہت طویل
ہے ان میں سے پاکستان کا ایک بہت بڑا نام جانشینِ مفتی ِاعظم پاکستان ،مہتمم جامعہ
غوثیہ رضویہ، استاذ العلماء ، فقیہُ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ابراھیم
القادری دام
ظلہ بھی آپ کے مریدین میں سے ہیں۔
تقرر بحیثیتِ مفتی بریلی شریف :
1339ھ کو امامِ اہلسنت نے آپ کو بریلی شریف میں
مفتی ِشرح کے منصب کے لئے تقرری فرمائی، برھان ِملت ایک مقام پر فرماتے ہیں :کہ اعلیٰ حضرت کے چھوٹے صاحبزادے مولانا مصطفیٰ
رضا خان اور مولانا امجد علی صاحب ہم تینوں ساتھ کھانا کھاتے اور ہمارازیادہ وقت
دارالافتاء ہی میں گزرتاتھا۔
زیارتِ حرمینِ شریفین :
پہلی بار زیارتِ حرمین کے لئےحضرت عید الاسلام
مولانا عبدالسلام علیہ
الرحمہ کے ہمراہ تشریف لے گئے پھر
دوسری بار 1376ھ زیارت کے لئے روانہ ہوئے۔
تحریکِ پاکستان :
آپ آل انڈیا سنی جمیعت العلماء کے صدر بھی رہے،
1385ھ میں مسلم متحد محاذ چھتیس گڑھ کے صدر ہوئے، 1940ھ میں قرار داد پاکستان کی
منظوری کے بعد ملک کے عرض و طول میں دورے کئے جن میں سندھ ،پنجاب اورخیبر
پختونخواہ میں تقاریر فرمائیں۔ تحریکِ پاکستان کے لئے سخت جدو جہد کی ،قائد اعظم
محمد علی جناح نے آپ کی کوشش کو بہت سراہا اوراظہار ِتشکر کے لئے خط بھی لکھا ۔
تصانیف :
حضرت برھانِ ملت رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تصانیف کی تعداد 26 ہے اور 9 خطبے جو ملک کی
مختلف کانفرنسوں میں بحیثیت صدر و سرپرست بذاتِ خود تحریر فرمائے ۔خوش آئین بات یہ
بھی ہے کہ آپ کی مطبوع و غیر مطبوع کُتُب محفوظ ہیں جن میں سے چند یہ ہیں :
( 1 ) المواھب البرہانیہ بالفتاوی السلامیہ و البرہانیہ یہ
فتاوٰی 19 ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے جس کے ہزاروں صفحات ہیں بعض فتاوے تو اتنے اہم ہیں
اور تفصیلی ہیں کہ ایک ہی فتوٰ ےمیں ایک ضخیم کتاب تیار ہو جائے ۔
( 2 ) البرہان الاجلى فیما یجوز بی تقبیل امکان الصلحاء ۔
( 3 ) درۃ الفکر فی مسائل الصیام و عید الفطر ۔
(4 ) اجلال الیقین بتقدیس سید
المرسلین (
اس کتاب پر سید اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی تقریظ بھی موجود ہے ) ۔
( 5 )
اتمام حجۃ۔
( 6 ) روح الوردہ فی نفخ سوالات
ہردہ ۔
( 7 ) اسلام اور ولایتی کپڑا ۔
( 8 ) چہار فقہی فتوے ۔
( 9 ) المسلک الأظہر فی تحقیق آزر ۔
( 10 ) فقہ الہلال الشہادات رویۃ الہلال ۔
( 11 ) المعجرۃ العظمی المحمدیہ ۔
( 12 ) تعلیم الاسلام فی تمییز الاحکام ۔
( 13 ) إکرامِ امام احمد رضا۔
( 14 ) صیانۃ الصلوات عن حیل البدعات ۔
( 15 ) حیات اعلی حضرت کا ایک ورق ۔
( 16 ) سوانح امام دین مجدِّد مأہ ِحاضرہ ۔
( 17 ) إکرامات ِمجدد اعظم ۔
( 18 ) نیر جلال مجدِّد اعظم ۔
( 19 ) حالات ارتقاء عیدالسلام۔
( 20 ) مسئلہ گائے قربانی ۔
( 21 ) چاند کی شرعی حیثیت۔
( 22 ) زبدۃ الاصفیاء صدرُ الشریعہ مولانا امجد
علی اعظمی ۔
( 23 ) حیات حضرت مولانا عبدالکریم صاحب۔
وصال :
26 ربیع الاول 1405 ھ بمطابق 20 دسمبر 1985ء شبِ
جمعہ 95 سال کی عمر میں دار ِفانی کو رخصت
کرتے ہوئے داعی
اجل کو لبیک کہا۔ نماز جنازہ وصیت
کے مطابق حضرت مولانا مفتی محمود احمد رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پڑھائی۔ آپ کامزارِ مبارک جبل پور شریف میں مرجعِ
خلائق ہے۔
عاقبتِ برھان کی
فیض رضا سے بن گئی
ہے یہی اپنا وسیلہ
بس خدا کے سامنے
اللہ عزوجل ان پر
کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے ،آمین۔
حوالہ جات :
تذکرہ ٔبرھانِ ملت ۔برھانِ ملت سے ایک انٹرویو۔حیاتِ
برھانِ ملت۔جذباتِ برھان۔
از قلم : احمد رضا
مغل مدنی
(متخصص فی الحدیث
، عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی)
25 اکتوبر 2021
بمطابق 18 ربیع الاول
1442
٭شراب نَجِس(ناپاک)اور شیطانی کام ہے، اس
سے بچنا فَلاح و کامیابی کی عَلامَت
ہے۔ (المائدۃ: 90،ملخصاً) ٭شراب باہمی بُغْض و عَدَاوَت پیدا کرتی اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذِکْر سے روکتی ہے۔ (المائدۃ: 91،ملخصاً) 5فرامینِ مصطفےٰﷺ:(1) ہر نشہ آور چیز
شراب ہے اور ہر شراب حَرام ہے۔ (مسلم، ص 1109، الحدیث: 2003)(2)اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے
شراب ،اس کے نِچوڑنے والے اور جس کیلئے نِچوڑی جائے اس پر، پینے والے اور پلانے
والے پر، لانے والے اور جس کیلئے لائی جائے اس پر، بیچنے و خریدنے والے پر اور اس
کی قیمت یعنی کمائی کھانے والے تمام اَفراد پر لعنت فرمائی ہے۔ (المستدرك، 5/199، الحدیث: 7310) (3)شراب کو دِیوار
پر دے مارو کیونکہ یہ اس شخص کا مَشروب ہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور یومِ آخِرَت پر ایمان نہیں رکھتا۔ (حلية
الاولیاء،6/ 159، الحدیث:8148)(4)شرابی جب شراب پیتا ہے تو اُس وَقْت وہ مومن نہیں ہوتا۔ (مسلم،
ص 48، الحدیث:
57)(5)شراب سب سے بڑا گناہ اور تمام برائیوں کی جڑہے، شراب پینے
والا نماز چھوڑ دیتا ہے اور (بعض اوقات) اپنی ماں، خالہ اورپھوپھی تک سے بدکاری کا مُرْتکِب
ہو جاتا ہے۔(مجمع
الزوائد،5/ 104، الحدیث:8174، مفھوماً)
شراب کے 21نقصانات:شراب کی وجہ سے اِنسان کے اَخلاق تو تباہ ہوتے ہی ہیں، ساتھ میں مُعَاشَرے
پر بھی اسکے گہرے اَثرات مُرَتَّب ہوتے ہیں: ٭شراب کی وجہ سے جرائم کی شرح حد سے بڑھ
جاتی ہے٭شرابی کو اپنے پرائے کی تمیز نہیں رہتی ٭شرابی والدین کے بچوں پر مَنْفی اَثرات
مُرَتَّب ہوتے ہیں٭شراب بندے کی عقل میں فُتور
ڈال دیتی ہے ٭شراب مال کو ضائع اور برباد کرتی اور
تنگدستی کا سَبَب بنتی ہے٭شراب کھانے کی لذّت اور
دُرُسْت کلام سے محروم کردیتی ہے٭شراب ہر بُرائی کی کنجی
ہے اور شرابی کو بَہُت سے
گناہوں میں مبتلاکر دیتی ہے ٭یہ شرابی کو بدکاروں کی مجلس میں لے جاتی ہے،
اپنی بد بو سے اس کے کاتِب فرشتوں کو اِیذا دیتی ہے ٭یہ شرابی پر آسمانوں
کے دروازے بند کردیتی ہے،40دن تک اس کا کوئی عَمَل اوپر پہنچتا ہے نہ دُعا ٭یہ
شرابی کی جان اور ایمان کو خطرے میں ڈال دیتی
ہے۔ اس لئے مرتے وَقْت
اِیمان
چھن جانے کا خدشہ رہتا ہے ٭اِبتدا میں بدنِ اِنسانی شراب کے نقصانات کا مُقَابَلہ کر لیتا
ہے اور شرابی کو خوشگوار کیفیت مل جاتی ہے مگر جلد ہی داخِلی(یعنی جسم کی اندرونی) قوّتِ برداشْتْ خَتْم ہو جاتی ہے اور
مُستقِل مُضِرّ اَثَرات مُرتَّب ہونے لگتے
ہیں مثلاً شراب کا سب سے زیادہ
اَثَر جگر (کلیجے) پر پڑتا ہے اور وہ سُکڑنے لگتا ہے٭گُردوں
پر اِضافی بوجھ پڑتا ہے جو نِڈھال ہو کر ناکارہ ہو جاتے ہیں٭شراب کی کثرت دِماغ کو مُتَوَرَّم (یعنی سُوجن میں مُبتَلا) کرتی ہے٭اَعصاب میں سَوزِش ہو جاتی ہے نتیجۃً اَعصاب کمزور اور
پھر تباہ ہو جاتے ہیں٭ مِعدےمیں سُوجن
ہو جاتی ہے٭ہڈّیاں نرم اور خَستہ (یعنی بَہُت ہی کمزور) ہو جاتی ہیں٭شراب جسم میں موجود وِٹامِنز کے ذخائر کو تباہ کردیتی ہے، وِٹامِن
B اورC اِس کی غار تگری کا بِالخصوص نشانہ بنتے ہیں٭شراب
کے ساتھ تمباکو نوشی کی جائے تو اِس کے نقصانات کئی گُنا بڑھ جاتے ہیں اور ہائی
بلڈ پریشر، سٹروک اور ہارٹ اٹیک کا شدید خطرہ
رہتا ہے ٭بکثرت شراب نوشی تھکن، سر درد، متلی
اور شدّتِ پیاس میں مبتَلا کردیتی ہے٭ بسااَوقات بَلا نوشی سے دل کی حرکت اور عَمَلِ تَنَفُّس رُک جاتا
جس سے فوری موت واقع ہوسکتی ہے۔
شرابی کی دنیا میں سزا:شراب نوشی،شرابی پر 80 کو ڑے واجِب کردیتی ہے لہٰذا اگر
وہ دنیا میں اس سزا سے بچ بھی گیا تو آخِرَت میں مخلوق کے سامنے اسے کوڑے مارے جائیں
گے۔
شرابی کی قَبْر
میں سزا:قَبْر میں شرابی کا
چہرہ قبلےسے پھِرجاتا ہے۔ (الکبائر ، شرب الخمر،ص96) اس پر دو سانپ مُقَرَّر کر دیئے جاتے ہیں جو اس کا
گوشت نوچ نوچ کر کھاتے رہتے ہیں۔ (شرح الصدور، ص 172)
شرابی کی آخرت میں سزا: ٭شرابی بروزِ قِیامَت
اس حال میں آئے گا کہ اس کا چہرہ سیاہ ہو
گا، زبان سینے پر لٹک رہی ہو گی، تھوک بہہ رہا ہو گا اور ہر دیکھنے والا اس سے
نفرت کرے گا۔(الکامل
فی ضعفاء الرجال، 2/ 502) ٭آگ
کی سُولی پر لٹکایا جائے گا، پیاس لگنے پر کبھی بدبودار پسینہ تو کبھی کھولتا پانی
پلایا جائے گا، کھانے کو کانٹے دار درخت ہوں گے، پاؤں میں آگ کی جوتیاں پہننے کی
وجہ سے دِماغ کھولنے لگے گایہاں تک کہ ناک اور کان کے راستے بہہ جائے گا۔ ٭شرابی جہنّم میں
فرعون و ہامان کا پڑوسی ہو گا۔ (نیکیوں کی
جزائیں اور گناہوں کی سزائیں، ص22تا
31،ملخصاً)
شراب اور دیگر گناہوں سے بچنے اور سنّتوں بھری زِنْدَگی گزارنے کے لئے دعوتِ اِسلامی کے مَدَنی ماحول سے
وابستہ ہو جائیے۔
دین ِاسلام وہ واحد مذہب ہے جس میں روحانیت کی بنیاد ایسے قوانین پر رکھی گئی ہے
جو انسانی جبلّت کے موافق اور اس کی دنیوی
اور اُخروی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تزکیۂ نفس اور تصفیۂ باطن کے ان روشن اُصولوں پر عمل پیرا
ہوکرمسلمانوں نےدلوں پر حکومت کی ۔ تزکیۂ نفس اور تصفیۂ باطن کے اسلامی اصولوں کو ”تصوف“کا عنوان دیا گیااور اس کے
ماہرین کو شیخ اور ولی کے معزز القاب سے جانا جانے لگا۔
ہند
میں تصوف کی آمد:
جب ہندوستان میں اسلام کا نور پہنچا،مسلمان یہاں دعوت ِ دین کا جذبہ لے کر آباد ہوئے، اپنے حسن ِ اخلاق
اور بلند کردار سے لوگوں کو اسلام کی جانب
مائل کیاتو دیکھتے ہی دیکھتے لوگ اسلام لانے لگے پھر ایک زمانہ وہ آیا جب مسلمانوں نے یہاں تقریباًسات سو سال حکومت کی ۔زمین پر حکومت کی تاریخ کو سات سو سال کی قید
میں مقید کیا جاسکتا ہے،تاریخی یادگار کے طور پر محفوظ کیا جاسکتا ہے اورزمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ذہنوں سے مٹایا
جاسکتا ہےلیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ دلچسپی کی حامل ہے کہ صوفیائے کرام رحہم اللہ تعالیٰ نے اپنے اعلیٰ اوصاف اور لازوال کردار کی بنا پر دلوں پر حکومت کی لہٰذا ان صوفیاء کے اخلاص ہی کا نتیجہ ہے کہ نہ
تو کبھی لوگوں کے دلوں سے محبت ِ اولیا کے
آثار کو کوئی جبر مٹا سکا ہے اور نہ کوئی قہر فراموش کرواسکا ہے۔ جاگتی آنکھوں سے یہ
ناقابل ِتردید حقیقت دیکھنے کے بعد یہ کہہ
سکتے ہیں کہ دلوں پر آج بھی اولیائے کرام کا راج ہے ،یہ حکومت نہ تو کبھی کمزور ہوئی نہ ہی ان سرکاروں کا بول بالا ہونے سے کوئی روک سکا ہے ۔
سرزمینِ دہلی کا پس منظر
توران قوم کے راجہ نے ایک شہر آباد کیا ،اس شہر کی مٹی بہت ہی نرم
تھی اس وجہ سے لوہے کی سلاخیں زمین میں مضبوطی کے ساتھ نصب ہوجاتی تھیں اس لیے اس نئے شہر کا
نام”دہلی“رکھا گیا۔آٹھ تورانی راجاؤں نے
اس شہر پر حکومت کی ،راجہ پتھوار کی حکومت آئی اور اس نے سلطان شہاب
الدین غوری سے شکست کھائی اوریوں دہلی پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی ۔(تاریخ
فرشتہ ،۱/۱۳۸)
جب منگولوں کی وجہ سے وسط ایشیامیں ایک طوفان اٹھا ہوا تھا تو اس وقت علما و مشائخ اور شعرا و ادبا کا رُخ دہلی کی جانب ہوااوراس طرح دہلی ایک بین الاقوامی شہر بن گیا۔دہلی اپنی علمی ،سماجی،ثقافتی ، علاقائی حیثیت کی بنا پر ہمیشہ توجہات کا مرکزبنااور اپنی اسی اہمیت کی
بنا پر تقریبا ہر دور ہی میں ”دارالحکومت “ رہا ہے ۔یوں تو ہندوستان کے کئی شہر وں میں بڑے بڑے جلیل القدر
اور عظیم المرتبت صوفیا آرام فرماہیں ، مگردہلی
کے مشائخ کی تاریخ کھنگالنے کے بعد یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ صوفیائے کرام کی آمد
اور سکونت کی بدولت دہلی ”دارالاولیا“
قرار پایا ۔
دارالاولیا دہلی کے نصیب کی بھی کیا بات ہے ،یہ وہ مبارک سرزمین ہے کہ جس نے سلطانُ الہند خواجہ معین الدین
سیّدحسن اجمیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے قدموں سے فیض
پایا ہے اور خواجہ ٔ خواجگان نے یہاں پرچم ِ اسلام نصب فرمایااس سلسلے میں یہ واقعہ ملاحظہ کیجیے چنانچہ جب حضرت معین الدین اجمیری رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ غزنی سے دہلی تشریف لائے تو آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کچھ لوگوں کو شر ک میں مبتلا دیکھ کر اسلام کی دعوت دی ،زبان ِ خواجہ
سے دعوتِ حق سُن کر ان کے دل حق قبول کرنے پر آمادہ ہوئے اور فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے ، اس گر وہ میں ایک سردار بھی موجود
تھاجسےلسانِ خواجہ سے حمید الدین کا لقب عطا ہوااور پھریہی حمید الدین ”حضرت حمید الدین دہلویرَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ“کے نام
سے معروف ہوئے ۔(تحفۃ الابرار،ص۹۴)
چونکہ مشائخِ کرام کا کردار خُلقِ محمدی کا آئینہ دار تھا اسی لیے لوگ ان کی جانب کھنچے چلے آتے ،لوگوں
کی وارفتگی جاننے کے لیے یہ دلچسپ واقعہ
ملاحظہ کیجیے چنانچہ جب سلطان شمس الدین التمش کے عہد میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےدہلی
کو اپنا مسکن بنا یا تو لوگوں کے ساتھ ساتھ بادشاہ بھی آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا گرویدہ ہو گیا ۔ جب خواجہ معین الدین رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت بختیار کاکی رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اپنے
ساتھ اجمیر لے جانا چا ہا تو اس خبر سے
دہلی میں کہُرام مچ گیا اور جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دہلی سے رخصت ہونے لگے توسلطان شمسُ الدین التمش سمیت تمام شہر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ کے پیچھے نکل کھڑا ہوا ،لوگوں کے شوق و وارفتگی کا عالَم یہ تھا کہ جہاں قطبُ الدین
بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ قدم رکھتے اس
جگہ کی خاک کو تبر ک سمجھ کر اٹھا لیاجاتا ،یہ تمام صورت ِ حال دیکھ کر خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے
فرمایا:بختیار! تم یہیں رہو کیوں کہ مخلوق خدا تمہارے جانے سے اضطراب کا شکار
ہےاورمیں ہرگزاس بات کو جائز نہیں رکھتا کہ بے شماردل خراب و کباب کروں ،جاؤ!
میں نے اس شہر کو تمہاری پناہ میں چھوڑا ۔ (سیر اولیا،ص۱۱۳)
چندمشائخ دہلی کے اسمائے گرامی
مشائخ کرام نے دہلی کو میدان ِ عمل بناکر خون ِ جگر سےاسلام کی آبیاری کی،اِن فلک پیما شخصیتوں
میں چند کے نام ملاحظہ کیجیے :
(1)قطب الاقطاب قطب الدین بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(2)حضرت قاضی حمید الدین ناگوری
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(3)حضرت خواجہ بد ر الدین غزنوی رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ
(4) حضرت خواجہ نجیب الدین متوکل
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(5)شیخ المشائخ حضرت نظام الدین اولیا
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(6)حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(7)حضرت خواجہ امیر خسرو رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(8)حضرت خواجہ شمس الدین محمد یحی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(9)حضرت خواجہ علاؤ الدین نیلی چشتی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(10)حضرت خواجہ محی الدین کاشانی رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(11)حضرت سیّدابراہیم ایرجی قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(12)حضرت مخدوم سماء الدین سہروردی
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(13) حضرت خواجہ باقی باللہ نقشبندی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(14)حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(15)حضرت شاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(16)محبّ النبی حضرت خواجہ فخرالدین دہلوی رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (17)حضرت
خواجہ مرزاجان مظہر شہید رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(18)حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(19)حضرت شاہ محمد فرہاد دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(20)حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(21)حضرت شاہ محمد آفاق مجددی دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ
(22)حضرت خواجہ ابو سعیدمجددی رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ
ان کے
علاوہ سینکڑوں مشائخ کرام ہیں جنہوں نے دہلی کی سرزمین کو اپنا مسکن بنایا ۔ دہلی میں آرام فرمامشائخ کرام کی حیات ِ مبارکہ کے جس گوشے کا بھی مطالعہ
کیجیےان میں”ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ “کی عملی تفسیر ملے گی۔مشائخ دہلی کی گفتگو کو فصاحت و بلاغت کی چاشنی شگفتہ بنا دیتی، تعبیر و تمثیل کی ندرت اور
ترغیب و ترہیب کی دھمک متلاشیان ِحق کے لیے رہنما بن جاتی۔ مشائخِ دہلی حق کی سربلندی کے لیے ہر دم کوشاں رہے اور اپنی پوری زندگی دعوت ِ دین میں بسر کی۔
اصلاح احوال کے سلسلے میں مشائخ دہلی
کی کوششیں
مشائخ دہلی دنیاکی ہر کشش سے بے نیاز ہوکر دنیا میں رہتے ۔نفس سے ہر دم نبرد
آزما رہتے ،بظاہر بے سر و سامان دِکھنے والوں کے پاس توکل کی دولت وافر مقدار میں موجود ہوتی ،جو بھی ان کے
در پر حاضر ہوتا اس کے دل میں خلوص کا نور بھر دیتے ،درس و تدریس کا اہتمام ہوتا
جس میں ملفوظات کے ذریعے اصلاحِ احوال کی قابل ِ قدرکوششیں کی جاتیں،ان حضرات نے
اپنی زندگی کو مخلوق ِ خدا کے لیے وقف کیا ،جہاں بھی تشریف لے گئےنورِ شریعت سے جہالت
کے اندھیروں کا خاتمہ کیا،ہر علاقے کے لیے مستقل بنیادوں پر تربیت کا انتظام کیااورلوگوں کو اپنا عقیدت مند پاکر دین ِ
اسلام کا خادم بنادیا ۔
مشائخ ِ دہلی نے دعوت ِ دین کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی اور دین ِ اسلام کی ترقی کے لیے جن جن شعبوں میں خصوصی توجہ دی ان
کا اجمالی تذکرہ ملاحظہ کیجیے :
تدریس
:
تدریس کا میدان نہایت وسیع اوراپنی افادیت کے اعتبار سے بہت ہی زیادہ اہمیت کاحامل ہے اسی لیے مشائخ
کرام نے تدریس پر خصوصی توجہ دی ،مشائخ کی تدریس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دہلی میں ایک ہزار مدرسے قائم ہوئے جس میں لاتعداد تشنگان ِ علم اپنی پیاس بجھانے کےلیےان کے در پر حاضری دیتے ۔(تاریخ مشائخ چشت ، ص۱۷۳)
مساجد
کی تعمیر
اسلامی معاشرے میں مسجد کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اسی لیے مشائخ کرام نے مساجد کی تعمیر
اور آباد کاری پر خصوصی توجہ دی ۔
دیگر
ارکان اسلام پر عمل
نماز کی طرح زکوٰۃ، روزہ اور حج بھی ارکانِ
اسلام ہیں ،مشائخ نے لوگوں کو ارکان ِ اسلام کا پابند بنانے کے لیے بھی کوشش فرمائی ۔
ہر
حال میں شریعت کی پیروی :
تصوف
کی بنیادی روح اپنی ذات میں اطاعتِ الہی کا جذبہ پیدا کرنا ہے اور اطاعتِ الہی کے لیے ضروری ہے کہ بندہ ہر حال میں احکامِ شریعہ کو حرزِ جاں بنائے اسی
لیے مشائخ کرام نے لوگوں کو شرعی احکام کا پابند بنانےکے لیےمستقل بنیادوں پر ذہن سازی کی ۔
اصلاح
نیت:
دعوت
ِ دین کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ”جذبہ ٔ خلوص“ریڑھ
کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہےاور جذبہ ٔخلوص کو کسی بھی قسم کی آمیزش سے پاک رکھنے کے لیے ”اصلاحِ نیت“بہت ضروری ہے اسی لیے مشائخ کرام نے نیت کی
درستی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
استقامت
:
سیدھا راستہ اپنا نا اور پھر اس پر ثابت قدم
رہنااللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خصوصی انعام ہے،
مشائخ کرام نے اپنے معمولات کے ذریعے خلفا اور مریدین کو استقامت کی اہمیت ذہن نشین کروائی ۔
عفو
و درگزر:
امر بالمعروف اور نھی عن المنکر وہ راہ ہے جس میں جگہ جگہ بداخلاقی کے کانٹے بچھائے جاتے ہیں اور طعن و تشنیع کے سنگریزے برسائے جاتے ہیں جس کا
مقابلہ کرنے کے لیے ”عفو و درگزرکی سنت“ ہی سب سے محفوظ پناہ گا ہ ثابت ہوتی ہے،مشائخِ
کرام کی دینی خدمات کا دائرہ کار جوں جوں وسیع ہوتا گیا دشمنان ِ دین اور
حاسدین کی طرف سے ایذا رسانی کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر انہوں نے عفو و درگزر کی عظیم ُالشان مثالیں قائم فرماکر دشمن کے منصوبے خاک میں ملادیے ۔
تصنیف
و تالیف:
کتاب کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے کتاب اپنے
مصنف کو لوگوں کے دلوں میں زندہ رکھتی ہے
اورصدیاں گزرنے کے بعدبھی کتاب ”مصنف کی
مجلس“میں لے جاتی ہے ،مشائخِ دہلی نے
تصنیف و تالیف کی جانب بھی توجہ دی اور کئی علوم پر گراں قدر کُتُب یادگار چھوڑیں ۔
مشائخِ دہلی بعض اوقات زیرِ مطالعہ کتاب کے پیچیدہ مسائل حل فرمادیتے جیساکہ سلسلۂ عالیہ قادریہ کے مشہور بزرگ حضرت سیّدابراہیم ایرجی قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ہر علم کی بے انتہا کتابیں مطالعہ کی تھیں اور اس کی تصحیح بھی فرمائی تھی، آپ کتابوں کے مشکل ترین مسائل کو اس طرح حل کردیتے کہ معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی آپ کے حل کردہ مشکلات کو بغیر استاد کی مدد کے بخوبی سمجھ جاتا ، آپ کے وصال کے بعد آپ کے کتب خانے سے اتنی زیادہ کتابیں برآمد ہوئیں جو ضبطِ تحریر سے باہر ہیں،ان میں سے اکثر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تھیں۔(تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ، ص۲۰۸)
مشائخ دہلی کی دعوت کے اثرات
مشائخِ دہلی کی آمد اور سکونت ساکنان ِدہلی کے
لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ، مشائخ کرام کی دعوت سے اُن کا
ظاہر سُدھر ا اور اُن کے باطن کو پُر رونق بنا گیا ۔ مشائخ ِدہلی کی دعوت کے اثرات کے مختلف پہلو ملاحظہ کیجیے :
(1)علم
کے اجالوں سے جہالت کی تاریکی کا خاتمہ :
انسان
کو اشرف المخلوقات کے لقب سے امتیازی
مقام دلانے والا وصف” علم “ہے۔علم کا نور
انسان کومعاشرے میں رہن سہن کا ڈھنگ
سکھلاتا ہے،طرز ِ معاشرت میں عمدگی پیداکرنے کا سلیقہ بتا تا ہے ، بڑوں کا
ادب اور چھوٹوں پر شفقت کرنے کی اچھی عادت اپنانے کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔صوفیائے کرام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن جہاں
بھی تشریف لے گئے علم کی شمع روشن کی اور جہالت کی تاریکی کا خاتمہ کیا ۔کبھی تو میدانِ تدریس میں اتر کر جہالت کو کیفرِ کردار تک پہنچایا اور
کبھی اپنے علمی فانوس کے ذریعے کسی بھٹکے ہوئے کو راہ دکھانے
کی سعیٔ پیہم فرمائی۔
حضرت
نظام الدین اولیا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ کی بارگاہ میں کسی بھی قسم کا کوئی اشکال پیش ہوتا تو آپ نو رِ باطن سے اس کا شافی جواب عطا فرماتے یہی وجہ تھی کہ شہر دہلی میں جو لوگ تصوف کا انکار کرتے تھے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے تبحر علمی نے
انہیں اس قدر متاثر کیا کہ وہ آپ کے حلقہ
ٔ ارادت میں شامل ہوگئے۔(محبوب الہی،ص۲۲۶ملخصا)
مشائخ کرام علیہم الرحمہ کے وجودِ مسعود
سے دہلی علم وعرفان کی مشکبار پُر رونق
اکیڈمی بن چکا تھاجس کی بناپردہلی کو” رشک بغداد“ قرار دیا گیا ۔
(2)اخلاقی پستی کا خاتمہ
جس
طرح دماغ کو معطر کرنے کے لیے ”پھو ل “میں ”خوشبو “ کا ہونا ضروری ہے بالکل اسی طرح ”علم “ کو انسانیت کے لیے قابل اِنتفاع
بنانے کے لیے ” حسن اخلاق کی خوشبو“کاہوناضروری ہے کیوں کہ جس”علم“میں”بداخلاقی“ کی بو ہو
اسے حاصل کرنے سے انسان پڑھا لکھا جاہل بن جاتا ہے ۔
دہلی
کےمشائخ کرام نے جہاں فروغ ِ علم کے سلسلے میں کوششیں فرمائیں وہیں انسان کو عمدہ اخلاق اپنانے سے متعلق
خصوصی تربیت دی اور اپنی بافیض صحبت سے معاشرے میں پیدا ہونے والی
اخلاقی برائیوں کا خاتمہ فرمایا۔
(3)شیر
و شکر کرنے کی کوشش:
افراد کے مجموعے کا نام معاشرہ ہے اوراس مجموعے کو توڑنے میں
باہمی رنجشوں،آپس کی ناچاقیوں اور تلخیوں
کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے ۔مشائخ کرام نے عمدہ نصیحت اور حسن ِ تدبیر کے
ذریعے بکھرے ہوئے خاندانوں کی رہنمائی کی اور ان میں صلح جوئی کے جذبات ابھارے،عفو و درگزر اپنانے کی ترغیب دلائی اورنفرت کاخاتمہ کرکے شیر و شکر ہوکر رہنے کی عملی تربیت دی جس کی بدولت اپنے بھائی کے لیے بھلائی چاہنے کے جذبے کو فروغ
ملا۔
(4)علم
نافع کے فروغ کے لیے کوشش
انسان کی ہلاکت و بربادی میں”علم غیرنافع“کا
کردار ہوتا ہے،اس کی بدولت معاشرے میں
فساد پھیلتا ہے اوربعض اوقات فاسد نظریات کے فروغ کی وجہ سے معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔دہلی میں جب علم کو عروج نصیب ہوا تو اس وقت ایسے عناصر نے بھی پرورش پائی جن کا
علم ”غیرِنافع“ ہونے کی وجہ سے ریت کا پہاڑ تھا اور اس غیرنافع علم کی وجہ
سے غلط نظریات پھیل رہے تھے تو ایسے وقت میں مشائخ کرام ہی نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ان عناصر کا سدِ باب کیا اور ان کے
مہلک اثرات سے معاشرے کو محفوظ رکھنے کے
لیے علم ِ نا فع کی اشاعت میں بھر پور کردارادا کیااور حق و باطل کے مابین
خطِ امتیاز کھینچ کرلوگوں کو گمراہی سے
بچایا۔
(5)اصلاح اعمال کے لیے کوشش
رب ِ
کریم کی بارگاہ سے ایمان لانےاور عملِ
صالح پر استقامت اختیار کرنے پر جنّت کی بشارت سے نوازا گیا ہے اور بے عملی پر عذابِِ نار سے ڈرایا گیا ہے لیکن جب بھی انسان بشارت و تخویف کو فراموش کرتا ہےتواس کا نامہ ٔ اعمال برائیوں سے پُر ہونے لگتا ہے اور پھر بدی کی کثافت نامۂ اعمال کی چمک دمک کو ختم کردیتی ہے ۔مشائخِ
دہلی نے ”اصلاحِ اعمال “پر بھر پور تو جہ
دی اور اپنی فراستِ ایمانی سے ایسے اقدامات کیے کہ جن کی بدولت
لاتعداد افراد تو بہ کرکے راہ راست پر آئے ۔
(6)مفادپرست کلچر کا خاتمہ اور خیر خواہی کو
فروغ
اپنا فائدہ سوچنے کی روش سے انسان کے اندر
بے شمار برائیاں پیدا ہوتی ہیں جس کی وجہ سے کبھی انسان حرص و لالچ کے جال میں پھنس جاتا ہے ، کبھی تکبرکا آسیب اس سے چمٹ جاتا ہے تو کبھی حسد کی آگ میں کود پڑتا ہےاور آخر کارمفادپرستی کی دیمک کے
سبب معاشرتی اقدار رفتہ رفتہ کھوکھلی ہوتی ہیں۔اسی لیےمشائخِ دہلی دوسروں کی تکلیف
کو اپنی تکلیف سمجھنےاور اس کے ازالے کے لیے کوشاں رہنے کی خصوصی تربیت فرماتے
جیساکہ خواجہ نظام الدین اولیاء رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ لوگوں
کے دکھ درد سے حددرجہ رنجیدہ ہوتےاورخلقِ خدا کی پریشانی سے پریشان ہوجاتے، ایک دن خانقاہ میں لوگوں کا ہجوم تھا،
سایہ نہ ملنے کی وجہ سے کچھ لوگ دھوپ میں بیٹھے ہوئےتھے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جب
یہ دیکھا تو لوگوں سے فرمایا:مل جل کر
بیٹھ جاؤ تاکہ دوسروں کے لیے بھی جگہ نکل
آئے۔دھوپ میں لوگ بیٹھے ہیں اور میں جل
رہا ہوں۔(محبوب الہی،ص۲۳۶)ایک موقعے آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا:جو شخص میرے پاس آتا ہے اپنا
حال مجھ سے بیان کرتاہے اس سے دو چند فکر و تردد اور غم و الم مجھے ہوتاہے ،بڑا سنگدل ہے وہ جس پر اپنے دینی
بھائی کا غم اثر نہ کرے۔(محبوب الہی،ص۲۳۷) ایک مرتبہ یہ ارشاد فرمایا: قیامت کے
بازار میں کسی سودے کی اتنی قیمت نہ ہوگی جتنی دل کا خیال رکھنےاور دل خوش کرنے کی
۔(محبوب الہی،ص۲۳۷)
مشائخ دہلی نے اپنے اپنے عہدِزریں میں مفاد پرستی کے کلچر کے خاتمے کے
لیے بھر پور کوشش فرمائی اور لوگوں کہ یہ ذہن دیا کہ
1۔
دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیں اور اپنے
اندر ایثار کا جذبہ پیدا کریں۔2۔مخلوق پر
رحم کرکے خالق کی رحمت کے حقدار
بنیں۔3۔کسی کو خود سے کم تر نہ سمجھیں بلکہ عاجزی اختیار کرتے ہوئے ہر ایک کو خود
سے برتر جانیں۔4۔مسلمان کی بروقت مدد کرکے اس کی قلبی طمانیت کا سبب بنیں ۔
الغرض یہ کہ مشائخ دہلی نے بھرپور کوشش
فرمائی کہ مسلمان ایک دوسرے کے خیرخواہ بنیں۔
(7)عبد و معبود کے مابین تعلق اُستوار کرنے کی کوشش
مشائخ کرام مخلوق کو خالق سے جوڑتے ہیں اوراپنی دعوت کے ذریعے انسان کو مقصد ِ تخلیق”عبادت “سے آشنا کرواکر
اُسےخالق ِ حقیقی کے در پر جھکا دیتے ہیں ،مشائخ دہلی نے بھی مخلوق کو خالق سے جوڑاجس کا یہ اثر ملاحظہ کرنے کے لیے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے عہد
زریں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں مرد و عورت،غلام ونوکر سب ہی عبادت و ریاضت کے شائق نظر
آتےہیں،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ کی برکت سےاس دور کے مسلمانوں کی کیفیت یہ ہوچکی تھی کہ شرم کی وجہ سے دنیوی عیش وعشرت کا تذکرہ کرنے سے بھی شرماتے تھے ۔(مراۃ
الاسرار،ص۷۹۲)
جس
عہد میں ہم سانس لے رہے ہیں اگر اپنے شب و روز ان مشائخ کرام کی سیرت کےسانچے میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کریں، اپنی داعیانہ ذمہ
دار ی کو محسوس کرتے ہوئے اسلام کا پیام ِ
امن دنیا کے سامنے پیش کریں،عجب نہیں کہ
ایک مرتبہ پھر پرچم ِ اسلام اپنی عظمت و جلالت کے ساتھ دنیا بھر میں لہرانے لگے۔
از:مولاناناصر جمال عطاری مدنی
اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی
حدیث
مبارک میں ہے: اللہ پاک جس کے ساتھ
بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔(بخاری شریف،حدیث:71)دین
کی سمجھ میں بنیاد عقائدِ اسلام کی ہےجس
پراعمال کوشرفِ قبولیت والےاعمال کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ بنیاد میں خرابی ہو تو
عمارت چاہے کتنی ہی حسین وجمیل کیوں نہ ہو آخر کار زمین بوس ہو جاتی ہے۔ تعمیر
اپنے معمار کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہے، یہی صورت حال انسان خصوصاً مسلمان کے ساتھ بھی ہے کہ اس کی تعمیر
کس کے زیر سایہ ہوئی،اس کی بنیاد یعنی عقائد کس قدر مضبوط اور درست ہیں،اس میں
کوئی شک نہیں کہ تعمیر اپنے معمار، اولاد والدین کی تربیت اور شاگرد اپنےاستاد کی
قابلیت کا آئینہ و نمونہ ہوتے ہیں، اس تمہید کا مقصد ایک ایسی شخصیت کاتعارف ہے جواپنے والدین کےلیے آنکھوں کی ٹھنڈک
اور اپنے معماروں یعنی اساتذہ کے لیے قابل فخر نمونہ ہے۔ میری
مراد شمس العلماء حضرت مولانامفتی ابو المعالی شمس الدین احمد جعفری جونپوری رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ ہیں۔
شمس
العلماء موصوف نے ایک مذہبی گھرانے
میں آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم اپنے جد امجد اور نانا جان سے حاصل کی۔ ذہانت
وفطانت من جانب
اللہ ودیعت ہوئی مزید برآں مذکورہ
بزرگوں کی شفقتوں اور محبتوں نے آپ کو گونا گوں صفات کا حامل بنا دیا، حصول علم کی
پیاس اور شوق نے آپ کو متعدد بزرگوں کی بارگاہ تک پہنچایا جن میں صدر الافاضل، فخر
الاماثل حضرت علامہ مولاناسیدمحمد نعیم الدین مراد آبادی اور صدر الشریعہ، بدر
الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہمانمایاں مقام رکھتے ہیں۔بالخصوص حضرت صدر الشریعہ
کے بارے میں آپ فرماتے ہیں: میرے مخدوم حضور صدر الشریعہ رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ کو جملہ
علوم وفنون متداولہ میں کافی درک تھا،بالخصوص معقولات پڑھاتے وقت معقولات کو پانی
پانی کر دیتے تھے، یہ الگ بات ہے کہ قدرت کی فیاضیوں نے انہیں علم فقہ کا امین
وارث بنا دیا، لوگ دار الافتاء میں فتوے کی مشق کرتے کرتے زندگی تمام کر دیتے ہیں
تاہم اس منصب کو نہیں پہنچ پاتےہیں جو صدر الشریعہ کو قدرت کا عطیہ تھا۔
حضور شمس العلماء بھی اپنے اساتذہ
سے ایسے مستفیض ہوئے کہ معقولات ومنقولات میں ماہر اور فقہ پر گہری نظر رکھتے
تھے،ہر فن میں سیر حاصل گفتگو فرماتے اور معلومات کا دریا بہاتے،کلام کے تجزیے پر
عبور رکھتے اور جب تک اس کے دلائل ومقدمات کو پرکھ نہ لیتے قبول نہ فرماتے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ 20 سال کی عمر میں دار العلوم
منظر اسلام بریلی شریف سے فارغ التحصیل ہوئے۔ دس سال کی عمر میں امام اہل سنت،
مجدد دین وملت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے شرف بیعت حاصل کیا، حجۃ الاسلام مولانا حامد
رضا خان اور مفتی اعظم ہند مولانا مصطفٰے رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہما نے - خرقہ خلافت عطا فرمایا۔
محترم قارئین!اپنے عقائد ونظریات کی حفاظت اور افکار کی پختگی
کے لیے علمائے حق اور اصحابِ نظر شخصیات کے سائے کی ضرورت ہوتی ہے، جن کی صحبت
ونظر بندے کو کامل وپختہ بنا دیتی ہے،حضور شمس العلماء ایسوں ہی کی صحبت سے فیض یاب ہو کر ایک چمکتا
ستارہ بنے آپ کے مربیان میں آپ کے داد وناناجان کے علاوہ آپ کے اساتذہ پیر طریقت
نمایاں مقام رکھتے ہیں، مذکورہ بالا ہستیاں
کسی تعارف کی محتاج نہیں اور حضور شمس العلماء کی ذات میں ان ہستیوں کی جھلک واضح
نظر آتی ہے۔خصوصاً عقائد کے معاملے میں جہاں کئی ٹھوکر کھا گئے وہاں بھی آپ نے اسلاف کے دامن کو مضبوطی سےتھامےرکھااوراپنی
سیرت وکردارکویادِگار اسلاف بنادیا، ۔
صحابہ کرام کے متعلق نظریہ:
صحابہ کرام کے متعلق آپ کی
تحریر کردہ چند مثالیں پیش خدمت ہیں:٭ انبیاء ومرسلین کے
بعد تمام مخلوقاتِ الٰہی جن وانس وملک سے افضل صدیق اکبر ہیں۔ (قانونِ شریعت، ص۷۱)٭کسی
صحابی کے ساتھ بد عقیدگی گمراہی وبدمذہبی ہے، حضرت امیر معاویہ،حضرت عمرو بن
عاص،حضرت وحشیرَضِیَ اللہُ عَنْہم وغیرہ
کسی صحابی کی شان میں بے ادبی تبراہے اور اس کا قائل رافضی ہے۔ (قانونِ شریعت، ص۷۱)٭حضرات شیخین کی توہین بلکہ ان کی خلافت سے انکار ہی
فقہاء کے نزدیک کفر ہے۔(قانونِ
شریعت، ص۷۲)حضور شمس العلماء رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ مزیدتحریر
فرماتےہیں:جو صحابہ واہل بیت سےمحبت نہ رکھے وہ گمراہ وبد مذہب ہے۔ (قانون شریعت: ص۷۳) کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبہ کا ہو کسی صحابی کے رتبہ کو
نہیں پہنچتا، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت امیر معاویہ کی جنگ خطائے اجتہادی ہے
جو گناہ نہیں اس لیے حضرت امیر معاویہ کو ظالم، باغی سرکش یا کوئی برا کلمہ کہنا
حرام و ناجائز بلکہ تبرا ورفض ہے۔(قانون
شریعت: ص۷۲)
امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہ اور یزید کے متعلق نظریہ:
یونہی کچھ لوگ نواسہ رسول، جگر گوشہ بتول حضرت
سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی شان میں گستاخی کرتے اور معاذ اللہ انہیں
باغی کہتے نظر آتے ہیں، اگر یہ لوگ اپنے آپ کو اہل سنت کہلواتے ہیں تو سن لیں کہ
یہ اہل سنت کا نظریہ نہیں بلکہ جہلاء کا نظریہ ہے اہل سنت کے نظریے کو بالکل واضح
طور پر لکھتے ہوئے حضرت شمس العلماء فرماتے ہیں: جو امام حسین (رَضِیَ اللہُ عَنْہ ) کو باغی کہے یا یزید کو حق پر بتائےوہ مردود
خارجی مستحق جہنم ہے۔ (قانون
شریعت: ص۷۳)اس مضمون کی وساطت سے
ہم یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ یزید کے بارے میں اسلاف کا کیا عقیدہ تھا تاکہ کسی
گمراہ کی باتیں ہمیں گمراہ نہ کر سکتیں، حضرت علامہ موصوف یزید کے متعلق مسلمانوں
کا عقیدہ واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’یزید کے ناحق ہونے میں کیا شبہ ہے البتہ
یزید کو نہ کافر کہیں نہ مسلمان کہیں بلکہ سکوت کریں۔‘‘اس جزئیے سے یزید کو
امیرالمؤمنین کہنے والے ذرا غور فرما لیں کہ علمائے اہل سنت کے نزدیک یزید کی کیا
حیثیت ہے۔
عملی میدان میں یادگارِ اسلاف:
اعتقادیات کے ساتھ عملی میدان میں بھی آپ یادگارِ اسلاف
تھے،تاریخ کےاوراق نے آپ کی سیرت کےجن
واقعات کو محفوظ کررکھا ہے اس میں سے
مختصر یہ چند پہلو پیش خدمت ہے:(1) آپ کا ذوق
ِتلاوت قابل رشک تھا، ہفتے میں ایک قرآن پاک ختم فرماتے ۔(2)فقہی عبارات جلد و صفحہ کے ساتھ آپ کومستحضر رہتیں اور
بوقتِ ضرورت نوکِ زبان پرآجاتیں۔(3)اندازِ تدریس ایسا دلنشین تھاکہ طلبہ کے دل و دماغ میں وہ چیزنقش ہوجاتی ۔(4)آپ کا زہد
و تقویٰ بے مثال تھا ۔(5)اپنےجگرپاروں کی تربیت کاخصوصی اہتمام کررکھا تھا۔
دعا ہے اللہ پاک حضرت کے فیوض سے ہمیں بھی حصہ عطا فرمائے اور حضرت
کے مرقد پر تاقیامت رحمت ونور کی برسات فرمائے۔ (آمین بجاہ
النبی الکریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)
از:مولانا محمد
امجد خان عطاری مدنی
اسکالر المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر
،دعوتِ اسلامی )
اللہ تعالیٰ
نے اپنی تخلیق”انسان“ کوشرفِ علم
سے نوازا اوراسے وہ کچھ سکھایا جسے وہ نہ
جانتا تھا۔نبی اکرم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو معلم بناکر مبعوث فرمایا،آپ صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے” کتاب“ اور ”حکمت“ کی تعلیم دی
جس کا ذکر سورۂ جمعہ آیت2 اور 3 میں موجود ہے ۔ تعلیماتِ نبوی ”کتاب“اور
”حکمت“پرمشتمل تھی اور یہ دونوں ہی وحی الٰہی کےذریعے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حاصل ہوئے لہٰذا یہ دونوں”غایت،مقصود اور
منزل“ ہیں جب کہ دیگر علوم(لغت،فقہ واصولِ فقہ، بلاغت وغیرہ)ان دونوں تک پہنچنے کےوسائل اور ذرائع ہیں۔
علم وہ نعمت ہے جس میں اضافہ طلب کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نےنبی اکرم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیا ہے اسی نعمت کا سوال نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمنےربِِّ کریم سے کیا اور
ہمیں بھی اس کا سوال کرنے کی تعلیم
دی۔نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نمازِ
فجر کے بعد یوں دعا فرماتے:
اے اللہ! میں تجھ سےعلمِ نافع،پاک رزق اورمقبول
عمل کا سوال کرتا ہوں۔(مصنف ابن ابی شیبہ،7/39، حدیث:14)
اس دعائے نبوی میں دو پہلو قابلِ توجہ ہیں :
(1)اس طرح دعا مانگنے کی ہر مسلمان کوضرورت ہے،اگر وہ طالبِ علم ہے تو
علمِ نافع مانگے،اگرطالبِ رزق ہے تو حلال رزق مانگےاور جو دن بھرنیک عمل کررہا ہے وہ بارگاہِ الہی میں قبولیتِ عمل کا
سوال کرے ۔
(2)اس روایت میں نبی کریم صَلَّی
اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے علم کو ”نافع“سے موصوف کرکے سوال کیا اور غیر نافع
علم سے پناہ مانگی ہےاس سے ہمیں
معلوم ہوا کہ علم کی دو قسمیں ہیں:(1)علمِ نافع(2)علمِ غیر نافع۔
اِس تمہید ی گفتگو سے علم وحکمت اور علم نافع کی ضرورت واہمیت خوب واضح ہوگئی۔ہمارےاسلاف
کوعلم و حکمت کا فہم ملا اور ان نفوس نے اس نعمتِ خداوندی کو کئی ذرائع سے نسلوں میں منتقل کرنے کا بھی انتظام فرمایا۔ ہرزمانے میں دنیا کودانائے علم وحکمت سے نوازا گیا، شمسُ
العلماء ، حضرت علامہ مولانامفتی قاضی ابو المعالی شمس الدین
احمد جعفری رضوی جونپوریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ کی ذاتِ گرامی بھی
انہی میں سے ایک ہے ۔
(2) جونپورداناعلما و حکما کی سرزمین:
۱۳۶۱ء میں فیروز شاہ تغلق نےایک شہر آباد کیا اور اِ س کا نام اپنےچچا زادبھائی
جونا شاہ کےنام پر” جونپور“رکھااور شہرکو باوقاراوربا رونق بنانے کے لئےعلماء،دانشور
اور صنعت کاروں کواس شہر میں بسادیا۔ دنیا
نے ایک بار پھر وہ زمانہ دیکھا کہ جونپور نے بغداد و قرطبہ کی یادیں تازہ کردیں ،لوگ مصر،عراق،ایران وغیرہ
سے جونپور کی طرف کھنچے چلے آئے۔کچھ
عرصہ گزرنے کے بعد جونپور کو دار السرور،دارالعلم اور شیرازِ ہند کے بلند
پایہ القاب سےشہرت ملنے لگی اوریہ شہرشائقین ِ علم و حکمت کی طلب پوری کرنےاورشوق کی تسکین کا عظیمُ الشان مرکزاوردانائے علم و حکمت کا مسکن بن گیا۔
اللہ تعالیٰ نے٢٨ ذی الحجہ ١٣٢٢ھ مطابق٥ مارچ
١٩٠٥ءکوشمسُ العلماء ، حضرت مولانا مفتی قاضی ابو المعالی شمسُ الدِّین احمد جعفری
رضوی جونپوریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی صورت میں ایک اور دانائے علم وحکمت سے نواز
کر کرم فرمایا۔
شمس ُ العلماء کا سفرِ علم: علم ،معلم و طالب علم اور ان دونوں کے مابین تعلیم دراصل ارکان اربعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علم،معلم اورمتعلم کاشرف ”معلوم“ سے ظاہر ہوتاہے اور ”معلوم “یہاں کتاب و سنّت ہیں جس کی تعلیم نےان تینوں(یعنی علم ،معلم اور طالب وعلم)کو شرف سے نوازا ہے ،ان ارکان کی اہمیت
کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حدیثِ پاک
میں بھی عالم ،طالب علم،علم کے سامع اور
محب بننے کاحکم دیا گیا ہےجب کہ بغضِ علم کو ہلاکت اور بربادی کاسبب قرار دیا
گیا ہے۔ (معجم صغیر،حدیث:786) اگر طالبِ علم کوبلند پایہ اساتذہ میسرآجائیں تو
یہ اُس کی کامیابی میں کلیدکردار ادا کرنےاورطالبِ
علم کی حکمت و دانائی کو قابل ِ رشک بنانےمیں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔شمس ُالعلماء کو قابل ِ رشک مقام ومرتبہ آپ کے اساتذہ کی بدولت ملا تھا،قارئین کےسامنے ابتداء سےعروج تک پہنچنے کی مختصرداستان حاضر ہے،ملاحظہ
کیجیے:
آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ کی ابتدائی تعلیم و تربیت جدِّامجداورناناجان سے جونپور میں ہوئی ، اس کے
بعدجامعہ نعیمیہ مرادآبادمیں صدرُالافاضل حضرت مولانا سیدمحمدنعیم الدین مراد آبادی
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی خدمت میں حاضر ہوئےاور کسبِ فیض کیا پھردارُالعلوم
معینیہ عثمانیہ میں داخلہ لیااورصدرُالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی
اوردیگراساتذہ سے علوم وفنون حاصل کرنے
میں مصروف رہے ۔١٣٥٢ھ میں جب صدرالشریعہ دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف آگئے تو
آپ بھی ان کے ہمراہ تھے ۔اسی سال آپ دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف سے فارغ
التحصیل ہوئے۔
اساتذہ کی صحبت ،ان کے چشمہ
ٔ علم سے سیرابی نہ صرف علم اور عقیدہ کی پختگی کا سبب بنی بلکہ اس کا براہِ راست اثر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے روز مرہ کے معمولات پر ہوا،پر چم اسلام کو بلند کرنے کے لئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا جذبہ بیدار کرنے میں اساتذہ کی تربیت کا اہم حصہ ہے۔اساتذہ کی شفقتوں اور
عنایتوں نے آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی با برکت ذات کو مسلمانوں کے لیے عظیم محسن اور زبردست خیر خواہ بنا دیا ۔
شمسُ العلماء میدان ِ عمل میں: شمسُ العلماء رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ جب میدان ِ عمل میں اُترےتو آپ کے طرز عمل سے علمِ نافع کی کرنیں پھوٹنے لگیں۔ آپرَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےتدریس کا
آغازدار العلوم منظرِ اسلام بریلی شریف سے کیا۔جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں بھی
تدریس فرمائی۔مدرسہ منظرحق ٹانڈہ ،مدرسہ حنفی جونپور ہ اورجامعہ رضویہ حمیدیہ بنارس میں آپ صدرُالْمُدَرِّسین
رہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عملی
زندگی کےچند واقعات ملاحظہ کیجیے:
میدان فقہ کے شہسوار:آپ کےفقہ وحدیث کی عبارات کا استحضارورطۂ حیرت
میں ڈال دیتا،کوئی زبانی مسئلہ پوچھتا تو
عربی عبارات پڑھ کرکے حل عطافرماتے، نہ
صرف کتاب کی نشان دہی فرماتے بلکہ جلد و صفحہ متعین فرمادیتےاگر کتاب سامنے
آتی تو جھٹ پٹ مقرر ہ مقام بھی نکال دیتے ۔عمر کے آخری حصے میں شدید علالت کے سبب کئی چیزوں میں دقت کا سامنا ہوتا مگرجب بھی کوئی
دینی مسئلہ پوچھا جاتا تو ذرہ برابر غلطی کے بغیرحل عطافرمادیتے ۔
اللہ تعالیٰ نے شمس العلما کو تفہیم کی غیرمعمولی
صلاحیت سےنوازا تھا، منقولات کی طرح دیگر علوم کے بھی شہ سوار تھے ، آپ کی سیرت کےاس گوشے سے چند
واقعات پیش کرتے ہیں :
ایک
مرتبہ حضرت علامہ قاضی شمس الدین جونپوری رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بریلی شریف سے جون پور بذریعہ ٹرین آرہے تھے،دوران ِ سفرچندلوگ انگریزی زبان میں معرَّف کی تعریف پر بحث ومباحثہ کررہے تھے مگرکوئی نتیجہ
نہیں نکل پارہاتھا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ابتداء میں توملاحظہ فرماتے رہے پھر اُ ن کی دستگیری فرماتے ہوئے گفتگو میں شامل ہوکرانگریزی میں ہی ایسی جامع مانع تعریف کی کہ اُن کی مشکل دور ہوگئی اور وہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سےمتاثر ہوئے ۔ (حیات شمسی ،ص78)
قوسِ قزح کاتجرباتی مشاہدہ:
برسات
کے بعدآسمان کے مشرقی اور مغربی کنارے پرقوس ِ قزح ظاہر ہوتی ہے،قوسِ قزح کے ان
رنگوں کے لئے آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ایسے وقت میں پانی اوپر کی جانب پھینکنے کا فرماتے کہ جب سورج کی کرنیں بارش کے قطروں پر براہ راست پڑتی ہوں ،چنانچہ ایسا کرنے سےقوسِ قزح کے رنگ دِکھنے لگتے ۔ (حیات
شمسی،ص76)
شمسُ العلما
رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جامعہ رضویہ بریلی شریف میں مسندِ تدریس پر رونق افروز تھے ، اس
دوران چند طلبہ نے آپ کی خدمت عرض کی کہ مرقات و شرح تہذیب کے
مسائل یاد نہیں رہتے جس کی وجہ سے اس فن میں خاطر خواہ
فائدہ نہیں اُٹھا پاتے ،آپ اردو میں ایک رسالہ تحریر فرمادیجئے تاکہ اس فن سےفائدہ اٹھانا آسان ہو۔چنانچہ اس پیہم
اصرارکی وجہ سے آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےطلبہ کی خیرخواہی کےلئےاردومیں منطق
کارسالہ”قواعدُالنظرفی مجالی الفکر“تحریرفرمایا۔(قواعدُ
النظر، وجہ تصنیف)آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ علومِ عقلیہ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے
کہ ان علوم کو ہم دین کےخادم کی حیثیت سے پڑھاتے
ہیں نہ اصل بالذات کی حیثیت سے ۔(حیات شمسی، ص76) آپ کی
تصنیف کردہ کتب میں قانون شریعت کوشہرت آفاق مقبولیت حاصل ہوئی۔
امراضِ جسمانی کے ماہر طبیب: علم و حکمت میں
مہارت کے نظارے تو آپ کرہی چکے ہیں ،اب آپ کوشمس العلماء کی علم ِ طب میں
رسوخ کی ایک جھلک دکھاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں مخلوق ِخدا کی خیرخواہی کاحیرت
انگیز جذبہ عطا فرمایا تھا حاجت مندوں کی
خیر خواہی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی
عادات ِ مبارکہ میں شامل تھی، اسی جذبے کے
تحت آپ اپنی طبیّ مہارت کوخلقِ خدا کے جسمانی امراض
کے علاج میں وقف کرچکے تھے ،آپ کے تجویز کردہ نسخوں کااستعمال مریضوں کی شفا
یابی کا بہترین سبب بن چکا تھا۔طبیہ کالج
لکھنو کےسندیافتہ ٹانڈہ کے واحد شہرت
یافتہ حکیم اشفاق احمد شمسُ العلمارَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی نبض
شناسی کے بڑے مدّاح تھے،ان کا کہناتھا کہ
ہمارےگھر میں استعمال ہونے والے تقریبا نسخے شمس العلماء ہی کے لکھے ہوئے ہیں۔ افسوس!میں اِس فن میں حضرت سے کچھ حاصل نہ کرسکا،صرف میزان الطّب کے کچھ اسباق پڑھے تھے۔(حیات شمسی، ص77) آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی یہ فیاضی اس بات کی روشن دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علم و حکمت کےبے شمار خزانوں سے مالامال فرمایا تھا ۔
شمس العلماء کا ذوق تلاوت:قرآنِ مجید، فرقانِ حمید کی تلاوت کی بھی کیاخوب
فضیلت ہے کہ اللہ پاک خُودتلاوت کرنے والوں
کی مَدح سَرائی (یعنی تعریف) فرمارہا ہے، نیز احادیثِ کریمہ میں بھی ان کےکثیر فضائل وارِد ہوئے ہیں کہ قرآنِ کریم کی
تلاوت کرنے والوں کو اللہ پاک کے خاص بندے فرمایا گیا،نیز جس شخص
نے رِضائے الٰہی کے لئے قرآنِ کریم کی تلاوت کی ہوگی، بروزِ قیامت اسے نہ تو کسی قسم کی گھبراہٹ ہو گی اور نہ ہی ان سے حساب لیا جائے گا۔
شمسُ العلماءرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو
دورِ طالبِ علمی ہی سے ذوقِ تلاوت قابل
رشک تھا،اندازِ تلاوت میں قوانینِ تجوید
کی بھرپور رعایت فرماتے۔
ہفتے میں ایک مرتبہ ختمِ قرآن:شمسُ العلماء عمر کی منزلیں جیسےجیسے طےکرتےگئے ویسے ہی ذوق تلاوت پروان چڑھتا گیا اوراکثر
ہفتے میں ایک قرآن پاک ختم کرنااورجمعرات
کو قرآن ختم کرکےفاتحہ کا اہتمام کرنا زندگی کے اہم ترین معمولات میں شامل ہوگیا۔ عمدگی سےقرآن پاک پڑھنے کا ذوق اپنے نسلوں میں منتقل کرنے کے لئے آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے
بچوں کو تجوید کے ساتھ قرآن پاک پڑھوانے کا انتظام فرمایا۔
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے چھوٹے صاحبزادے کو حفظ کروایا کرتے ،ایک مرتبہ صاحب زادے نے
سبق یاد نہ ہونے کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا :کیسے یاد نہیں؟میں تمہیں یاد کرکے دِکھاتاہوں،چنانچہ ایک گھنٹے میں یاد کرکے سنادیا اورارشاد فرمایا: اگر مجھ پر دیگر ذمہ داریاں نہ ہوتیں تو ایک
ماہ میں پورا قرآن ِ پاک حفظ کرلیتا ۔
علم و حکمت کا عملی اظہار:علم
و حکمت کے موتی زبان سے بکھیرنے بھی اچھی بات ہے مگر کمال یہ ہے کہ علم و حکمت کی خوشبو عمل کے
ذریعے بھی پھیلائی جائے ، شمس العلما کی سیرت سے علم و حکمت کا عملی اظہار ہوا کرتا، چنانچہ ایک مرتبہ آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے گھر میں طلبہ کے لئے کھاناتیار ہوا،کھانے میں گوشت تھا جو
پکنے کے بعد تمام کا تمام مدرسے میں بھیج
دیا گیا ،مدرسے میں صدقے کا گوشت آیا ہوا تھاجس سےایک طالبِ علم پیالہ بھر کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ کی غیرموجودگی میں گھر پر دے گیا ،گھر والوں نے
بھی اُسے پکالیا، ،دسترخوان سجاتوگوشت والے سالن کا پیالہ رکھ دیا،جب آپ تشریف
لائے تو گوشت کا سالن ملاحظہ فرماکرپوچھا:”یہ کہاں سے آیا۔“اس کی ساری تفصیل عرض کردی گئی جسے سننے کے بعد آپ کو جلال آگیا ، ارشاد فرمایا:مدرسے کا کھانا کس نے
قبول کیا؟کیا یہ ”پکانے “کی اجرت میں نہیں آئے گا؟یہ تو صدقے کا ہےاور مدرسے کے
طلبہ کے لیے ہے ؟آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ نے اِ
س واقعے کے ذریعے اپنے گھر والوں کو ایک مسئلہ بھی ذہن
نشین کرادیا ۔مالِ وقف کے معاملے میں
یہ احتیاط ہمارے لئےبھی راہِ عمل کو واضح کررہی ہے ۔
حکمت و
دانائی کا تقاضا یہی ہے کہ جہاں بندہ دوسروں کو نفع پہنچائے وہیں خود بھی دنیا و آخرت میں کامیاب ہونے کی کوشش جاری رکھےشمسُ العلماء کی سیرت کا
بنیادی سبق بھی یہی ہے۔ آج بھی غیرنافع علم کےجال میں پھنس جاتی ہے لہٰذاعلم و
حکمت کے طالب کو اس جال سے خود کوبچانے کی شدید ضرورت رہتی ہےاس کےلئےضروری ہے کہ بندہ”امراضِ
علم“(مثلاحسد،تکبر وغیرہ)سےخود کو آزاد کرے ،اپنامحاسبہ کرتا رہے بالخصوص نیت کی چھان بین بھی کرےتاکہ اپنے وقت کو برباد ہونے سے بچاسکے۔اس سلسلے میں امام ذہبی کا رسالہ”بیانُ
زَغَلِ الْعِلْمِ وَّ الْطَلَب“ کا مطالعہ نہایت مفید ہے ۔کاش!آج کے طلبہ کے
لئے کوئی اس طرز پررسالہ لکھے،یقینایہ موجودہ دور کے طلبہ کے ساتھ بہت بڑی خیر خواہی
ہوگی ۔
شمسُ العلماء ، حضرت مولانامفتی قاضی ابو
المعالی شمس الدین احمد جعفری رضوی جونپوری رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہنے یکم محرم
الحرام ١٤٠١ھ مطابق ٩نومبر١٩٨٠ء وصال فرمایا، محلہ میر مست جونپور (یوپی، ہند) میں آپ کا مزارِ پرانوارہے۔
از: مولاناناصر
جمال عطاری مدنی
اسکالر المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر ،دعوتِ
اسلامی )
کرہ ارض پر بڑی تعداد میں بیکٹیریا رہتے ہیں جن کی بہت
سی اقسام اور شکلیں ہیں اور چھوٹے سائز جو ہماری آنکھ سے نظر نہیں آتےلیکن ان کا
اثر بڑا اور اہم ہے۔ بیکٹیریا کی عظیم دنیا کو ان کی افادیت کے مطابق دو اہم حصوں
میں تقسیم کیا گیا ہے: فائدہ مند بیکٹیریا اور نقصان دہ بیکٹیریا:فائدہ مند
بیکٹیریا اس سیارے پر زندگی کے تسلسل کے لئے ضروری اور ضروری ہیں۔
بڑی تعداد میں بیکٹیریا انسانی جلد اور اس کے کھوکھلے
اعضا میں رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر معدے میں رہنے والے فائدہ مند بیکٹیریا نقصان
دہ بیکٹیریا کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو کہ گیس کا باعث بنتے ہیں
اور کھانے کے ہضم ہونے میں ان کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ ایک ہی وقت میں بہت سے قسم
کے بیکٹیریا ہیں جو انسانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور ان کی صحت کو متاثر کرتے
ہیں۔
بیکٹیریل گیسٹرائٹس کی بیماری:
پیٹ کے درد اور بیکٹیریل انفیکشن کے درمیان گہرا تعلق
ہےاس لئے کوئی بھی ڈاکٹر بیکٹیریل انفیکشن ڈالنے میں کوتاہی نہیں کرتا کیونکہ اگر
کوئی مریض پیٹ میں درد کی شکایت لے کر اس کے پاس آتا ہے تو اس کے امکانات میں پہلی
تشخیص ہوتی ہے۔ بیکٹیریل انفیکشن کی وجہ سے پیٹ کا درد دنیا بھر میں سب سے زیادہ
عام دردوں میں سے ایک ہے، جب معدہ ان بیکٹیریا سے متاثر ہوتا ہے تو اس کے اندر
موجود ٹشوز سوج جاتےاور کمزور ہو جاتے ہیں اور ان کا کام معدے کو تیزابیت والے
ہاضمہ رس سے بچانا ہے۔ گیسٹرائٹس اچانک آ سکتا ہےیا یہ وقت کے ساتھ بڑھ کر دائمی
بن سکتا ہے۔
متعدی بیکٹیریل انفیکشن کی منتقلی کے
طریقے:
نقصان دہ اور متعدی بیکٹیریا معدے میں کئی طریقوں سے
منتقل ہوتے ہیں۔ یہ آلودہ یا بغیر پکے ہوئے کھانے کے ذریعے یا آلودہ پانی پینے یا
دھونے سے کسی شخص کے معدے میں منتقل ہوسکتے ہیں کیونکہ پانی کے ذریعے ان بیکٹیریا
کی منتقلی بیکٹیریل گیسٹرو اینٹرائٹس پھیلانے کے سب سے عام طریقوں میں سے ایک ہے۔
یہ جانوروں کے ذریعے یا بعض ممالک کے سفر سے بھی پھیل سکتے
ہیں جہاں یہ بیکٹیریا مقامی ہیں۔
بیکٹیریل گیسٹرائٹس کی علامات:
متاثرہ شخص جب پیٹ میں جلن کے نتیجے میں بیکٹیریل
انفیکشن سے متاثر ہوتا ہے تو اس میں کئی علامات ظاہر ہوتی ہیں جن کی شدت ہر شخص کی
قوتِ مدافعت، صحت، عمر، طاقت اور متاثرہ بیکٹیریا کی قسم کے مطابق مختلف ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ بیکٹیریل گیسٹرائٹس کی سب سے عام علامات میں سے کچھ اس طرح کی کیفیت
ہوگی۔
پیٹ میں دردخاص طور پر اوپری حصے کے وسط میں،قبض یا
اسہال بعض اوقات خون کے ساتھ ہوتا ہے ، متلی کے ساتھ الٹی بھی ہو سکتی ہے، بھوک نہ
لگنا اور بیمار محسوس ہونا۔
دائمی گیسٹرائٹس:
ان میں پیٹ پھولنے کا احساس، کھانے کے بعد گیس میں
اضافہ، سینے میں درداور غذائی نالی میں بار بار جلن کا محسوس ہونا شامل ہے جس کے
نتیجے میں معدے میں تیزابیت کی واپسی کے نتیجے میں کھانا آہستہ آہستہ خالی ہونے سے
ہاضمہ ہوتا ہےاور مریض کو تکلیف ہو سکتی ہے۔ درجۂ حرارت میں اضافے، سردی لگنے اور
خون کے ساتھ الٹی ہونے سے شخص کو چکر اور
تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔مریض میں پانی کی کمی کی علامات ظاہر ہو سکتی ہیں جو الٹی
اور اسہال سے مائعات کی کمی کی وجہ سے ہوتی ہیں اور مریض کو درج ذیل علامات کا
سامنا کرنا پڑتا ہے۔منہ اورجھلیوں کا خشک ہونا، پیشاب کی مقدار میں کمی،بار بار
پیاس کا احساس، پٹھوں میں درد ، وزن میں کمی اورمعدے میں خون بہنا جس کی وجہ سے
خون کے ساتھ الٹی بھی آتی ہے۔
بیکٹیریا گیسٹرائٹس کا سبب بنتے ہیں:
بشمول خون اور پاخانہ کے نمونے کا تجزیہ اسی طرح خون اور
پاخانہ کی ثقافتوں کا پتہ لگانے کے لئے بیکٹیریا کی قسم جو سوزش کا سبب بنتے ہیں
یا خون میں زہر کی موجودگی کا پتہ لگاتے ہیں۔ ان اینٹی بائیوٹکس کی ان اقسام کا
پتہ لگانے کے لئے (جن کے خلاف مریض مناسب علاج کرنے کے لئے مزاحم نہیں کرتا) ڈاکٹر
سانس کا ٹیسٹ کرتا ہےاور پیٹ کے ایکسرے کا
بھی کہہ سکتا ہے، بعض اوقات گیسٹروسکوپی
بھی کی جاتی ہے جہاں ڈاکٹر علامات کی بنیاد پر ضروری لیبارٹری ٹیسٹ کا انتخاب کرتا
ہے۔
قارئین کے لئے چند مفید مشورے :
()کھانا تیار کرنے اور اسے اچھی طرح پکانے میں صفائی کا
خاص خیال رکھیں۔
()پانی کی کمی یا مریض کی ناقص غذائیت سے پرہیز کریں کیونکہ
اس سے بیماری مزید بڑھ جاتی ہے۔
()کھانے سے پہلے ہمیشہ صابن اور پانی سے ہاتھ دھوئیں اور
دوسرے لوگوں کے تولیوں کے بجائے سینیٹری ٹوائلٹ پیپر کا استعمال کریں تاکہ ہاتھ دھونے
کے بعد خشک ہوجائیں۔ ضروری لیبارٹری ٹیسٹ اور علاج کے لئےجلد از جلد ڈاکٹر سے رجوع
کریں۔
امید ہے کہ میڈیکل کی یہ معلومات آپ کے لئےمفید ثابت ہوں
گی ۔ضرور اس معلومات کو اپنی زندگی میں نافذ کیجئے لیکن ایک بات یاد رکھیں کسی
تکلیف کی صورت میں ماہر معالج سے ضرور رابطہ کریں ۔معلومات سے فائدہ ہوتو اسے نیکی
سمجھ کر دوسروں تک ضرور پہنچائیں ۔ہمارے حق میں دعا کردیجئے گا۔
نام و نسب : سفیان بن عیینہ بن ابی عمران الھِلالی الکوفی ثُم المکّی
کنیت : ابو محمد
القاب : محدثِ حرم ، امام الکبیر ، حافظُ العصر ، شیخ الاسلام
ولادت : آپ کی ولادت 107 ھ کو کوفہ میں ہوئی آپ کے والد
اس وقت کے والیِ کوفہ یوسف بن عمر ثقفی کے عتاب کی وجہ سے گھربار چھوڑ کر مکہ
منتقل ہوگئے اور حرم مکہ کے جوار میں مستقل سکونت اختیار فرمالی اس وقت آپ کی عمر
13 سال تھی اور آپ کے نو (9) بھائی تھے جن میں پانچ (5) بھائی
اہل علم و علماء میں شمار ہوتے تھے ۔
تحصیل علم : چار سال کی عمر میں مکمل حفظ کرلیا اور سات سال کی عمر میں حدیث کی کتابت
و روایت کرنے لگے۔ یہ سلسلہ 15 سال تک جاری
رہا، مگر طبیعت اس طرف مائل نہ ہوئی
چنانچہ والد نے ارشاد فرمایا کہ پیارے آپ کے بچپن کا زمانہ ختم ہوا اب چونکہ آپ
باشعور ہو گئے ہو۔ لہذا مکمل طور پر تحصیل علم میں لگ جاؤ مگر اس راہ میں سب سے زیادہ
ضروری یہ ہےکہ اہل علم کی اطاعت و خدمت کی جائے اگر تم اہل علم کی اطاعت و خدمت
کرتے ہو تو ان کے علم و فضل کی دولت سے فیض یاب ہوگے۔ آپ پوری عمر اس نصیحت پر عمل
کرتے رہے مکہ اس وقت آئمہ تابعین کا مرکز تھا حضرات امام زہری ابن جریج علیہ الرحمہ اور بہت سے آئمہ کی مجالس قائم ہوتی تھیں جب
باضابطہ تحصیل علم کے لیے آمادہ ہوئے تو تمام علماء مکہ بالخصوص حضرت ابن شہاب زہری اور عمرو بن دینار علیہما الرحمہ کی مجلس درس میں شریک ہونے لگے جب تک یہاں آپ
کا قیام رہا۔ پھر کوفہ آگئے اور وہاں کے
اہل علم سے استفادہ کیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ ستاسی (87) تابعین کی زیارت سے
مشرف ہوئے۔
قوت حافظہ :
اللہ
پاک نے ابن عیینہ رحمۃ
اللّٰہ علیہ کو کمال کا حافظہ اور فہم عطاء فرمایا تھا آپ کے خود کا بیان ہے کہ ”ما کتبت شیئا قط الا شیئا
حفظتہ قبل ان اکتبہ “ میں کسی بھی چیز کولکھنے سے قبل اس کو یاد
کرلیتاتھا۔
اساتذہ و شیوخ :
آپ کے
شیوخ حدیث اور اساتذہ کی فہرست طویل ہے چند معروف و مشہور کے نام یہ ہیں :
٭امام ہشام بن
عروہ ٭امام
یحییٰ بن سعید انصاری ٭امام سلیمان اعمش ٭امام سفیان ثوری ٭امام
ابن جریج ٭امام
شعبہ ٭امام
حمید طویل ٭امام ابو الزناد ٭امام شہاب زہری ٭امام سلیمان احول رحمھم اللہ
تلامذہ:
٭امام سلیمان
اعمش ٭امام
ابن جریج ٭امام
شعبہ۔ یہ تینوں حضرات آپ کے اساتذہ ہیں جن کا شمار آپ کے تلامذہ میں بھی ہوتا ہے۔
ان کے
علاوہ ٭امام
شافعی ٭امام
یحییٰ القطان ٭امام یحییٰ بن معین ٭امام عبد اللہ بن مبارک ٭امام علی بن مدینی ٭امام
احمد بن حنبل ٭امام عبد الرازق ٭امام اسحاق بن راہویہ رحمھم اللہ جیسے نامور
ہستی آپ کے تلامذہ میں شامل ہیں۔
عبادت و ریاضت :
آپ
علم کے ساتھ ساتھ عبادت وریاضت میں بھی بلند مقام رکھتے تھے آپ قائم اللیل اور زہد
و قناعت میں اپنے معاصرین میں خاصی شہرت رکھتے تھے ساٹھ (60) سال
تک جو کی روٹی بغیر سالن کے تناول فرمائی عمر بھر ستر (70) حج
فرمائے۔
آپ کے
متعلق حضرت علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”ما فی اصحاب الزہری اتقی
من ابن عیینہ “ امام زہری کے شاگردوں میں ابن عیینہ
سے بڑا متقی کوئ نہیں۔
امام ابن عیینہ بحیثیت محدث :
آپ کے
علم حدیث وفہم حدیث میں تمام آئمہ حدیث کا اتفاق ہے اور فن حدیث اور مہارت میں
تمام محدثین کے نزدیک مسلم الثبوت ہیں ابن عیینہ علمی جلالت اور کثرت روایت کے
لحاظ سے دوسرے بہت سے اتباع تابعین پر آپ فوقیت رکھتے ہیں چنانچہ
٭امام
احمد بن عبداللہ رحمۃ
اللّٰہ علیہ
فرماتے ہیں کہ آپ کا شمار حکماء حدیث میں ہوتا ہے۔
٭امام
عبد الرحمن بن مہدی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابن عیینہ کو حدیث کی
تفسیر اور حدیث کے متفرق الفاظ جمع کرنے میں مہارت حاصل تھی ۔
٭امام
شعبہ اپنے شاگردوں سے کہتے جس کو عمرو بن دینار کی مرویات معلوم نہ ہوں اسے ابنِ
عیینہ کے پاس جانا چاہیے۔
ابن
عیینہ کا درس حدیث کا حلقہ بہت وسیع تھا مگر ایام حج میں جب عالم اسلام کے محدثین
و علماء حرمین طیبین حاضر ہوتے تو ان کے
حلقہ درس میں بڑا ازدحام ہوتا تھا۔
امام ابن عیینہ بحیثیت مفسر و
فقیہہ :
امام ابن عیینہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی
حدیث کے ساتھ ساتھ تفسیر اور فقہ میں بھی ید طولیٰ رکھتے تھے۔
چنانچہ
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”ما رأیت احدا من الفقہاء اعلم
بالقرآن و السنن منہ “ میں نے فقہاء میں سے کسی کو ابن عیینہ سے زیادہ
قرآن وسنت کا عالم نہیں دیکھا ۔
امام اعظم اور ابن عیینہ :
آپ جب
کوفہ پہنچے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے اصحاب درس سے فرمایا
تمہارے پاس عمرو بن دینار کی مرویات کا حافظ آگیا چنانچہ ان کی مرویات سے استفادہ
کے لیے آنے لگے۔ چنانچہ آپ (یعنی سفیان بن عیینہ رحمۃ اللّٰہ علیہ) کا
بیان ہے کہ جس نے مجھے سب سے پہلے محدث بنایا وہ ابوحنیفہ ہیں ۔
امام ابن عیینہ رحمۃ
اللّٰہ علیہ
کے علم وفضل کے متعلق اقوال علماء :
آپ کے
ذوق علم و وسعت مندی کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ علم تفسیر وحدیث کے بڑے امام بن گئے۔ اکابر آئمہ آپ کی عظمت کے معترف ہوگئے ۔
٭امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ
فرماتے ہیں کہ ”لولا
مالک و سفیان لذھب علم الحجاز“ اگر امام مالک و سفیان بن عیینہ نہ
ہوتے تو حجاز کا علم ختم ہوجاتا ۔
٭امام عبد
الرحمن بن مہدی رحمۃ
اللّٰہ علیہ
فرماتے ہیں ”کان
اعلم الناس بحدیث اھل الحجاز“ وہ اہل حجاز کے حدیثوں کے سب سے بڑے عالم تھے۔
٭امام بخاری رحمۃ اللّٰہ علیہ
فرماتے ہیں ”ھو
احفظ من حماد بن زید ابن عیینہ“ حماد بن زید سے بڑے حافظ الحدیث تھے۔
٭امام ابن حبان
رحمۃ اللّٰہ
علیہ
فرماتے ہیں ”کان
من الحفاظ المتقنین و اھل الورع و الدین ابن عیینہ“ متقن حفاظ
حدیث میں سے تھے و صاحب تقوی اور دیندار تھے ۔
٭امام احمد بن
حنبل رحمۃ
اللّٰہ علیہ
فرماتے ہیں ”ما
رأیت اعلم بالسنن منہ“ میں نے ان سے زیادہ حدیث کا جاننے والا کوئی نہیں
دیکھا ۔
ملفوظات سفیان بن عیینہ رحمۃ
اللّٰہ علیہ
:
آپ
علم و عمل کے پیکر اور کم گو تھے مگر جب بھی گفتگو فرماتے زبان اقدس سے علم و حکمت
کے موتی جھڑتے تھے چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
٭زہد دراصل صبر
اور موت کے انتظار کا نام ہے۔
٭علم نفع نہ دے
تو ضرر پہنچائے گا۔
٭جب کوئی عالم لا ادری کہنا
چھوڑ دیتا ہے تو وہ اپنی ہلاکت کا سامان کرتا ہے ۔
وفات :
حسن
بن عمران رحمۃ
اللّٰہ علیہ
کا بیان ہے کہ میں سفیان بن عیینہ کے آخری حج میں ان کے ساتھ تھا مزدلفہ میں آپ نے یہ دعا مانگی کہ ”اے اللہ مزدلفہ
کی اس زیارت کو میری آخری زیارت مت بنا“ پھر ہم لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا کہ میں
ستر سال سے برابر یہ دعا کرتا رہا ہوں مگر اب مجھے اللہ پاک سے شرم آرہی ہے کہ کس
قدر زیادہ میں نے خدا سے اس کا سوال کیا چنانچہ آپ اس حج سے واپسی ہوئے تو پھر حج
کا موقع نہ ملا اور اسی سال یکم رجب
المرجب 198 ھ کو دار فانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کیا اور مکۃ المکرمہ کے قبرستان
جنت المعلیٰ میں دفن ہوئے ۔ اللہ پاک کی ان پر رحمت نازل فرمائے ۔ آمین
حوالہ جات :
٭سیر
اعلام النبلاء ٭تہذیب الاسماء ٭تاریخ بغداد ٭تہذیب
التہذیب ٭تذکرۃ الحفاظ ٭وفیات الاعیان ٭
صفوةالصفوة ٭اولیاء رجال حدیث
از: احمد رضا مغل
عطاری مدنی
متخصص فی الحدیث ،
عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی
سرکارِ دو عالم نورِ مُجَسم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا جب بھی تذکرہ کیا جائے یا ان کی سیرت
کو پڑھا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک
کااپنا ہی مقام ہے چاہے وہ صحابی ہوں یا صحابیہ ہوں ہر ایک کی زندگی مسلمانوں کے لئے ایسا نمونہ ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ہر
ایک کے لئے دین اسلام پر چلنا آسان اور ہر ایک اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنا
سکتا ہے۔
جس طرح صحابۂ کرام علیہم الرضوان سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے اور ان کے فرمان پر عمل کرنے کو ہر چیز
پر فوقیت دیتے تھے اسی طرح صحابیات کا بھی یہ معمول تھا کہ وہ اپنی جان و مال اور اولاد
سے بڑھ کر آپ صلی
اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتی تھیں جیسا کہ حدیثِ مبارکہ ہے تم میں سے کوئی اس
وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اُس کی اولاد،ماں باپ اور تمام لوگوں
سے محبوب نہ ہو جاؤں ۔ یہاں تک کہ بعض روایتوں
میں آتا ہے کہ جو چیزیں عورتوں کو عام طور
پر بہت پسند ہوا کرتی ہیں اگر اس کے متعلق
آپ علیہ السلام منع فرمادیتے تو
وہ اسے بھی قربان کردیا کرتی تھیں ۔ اسی طرح اگر سرکار علیہ السلام جنگ کا
اعلان کردیں تو وہ اپنے شوہروں اور اپنے بیٹوں کو بلا جھجک جنگ میں بھیج دیا کرتی
تھیں۔
آج ہم انہیں میں سے ایک صحابیہ کے بارے میں بات
کریں گے جنہیں صحابیہ ہونے کے ساتھ ساتھ آپ علیہ السلام کی زوجہ ہونے کا بھی شرف حاصل ہے ۔ ہماری مراد اُمُّ
المؤمنین حضرت سیدتنا جُوَیریہ بنت حارث رضی اللہ عنھا ہیں ۔
نام اور قبیلہ: اسلام
لانے سے پہلے آپ کا نام برّہ بنتِ حارث تھا۔آپ رضی اللہ عنھا کا تعلق قبیلہ بنی مصطلق سے تھا ،حضور علیہ السلام سے نکاح سے پہلے آپ مسافع بن صفوان کے نکاح میں تھیں ۔
حسن وجمال:اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: کَانَتْ جویریۃ
امْرَأَۃً حُلْوَۃً مُّلَاحَۃً لَّا یَکَادُ یَرَاھَا اَحَدٌ اِلَّا اَخَذَتْ
بِنَفْسِہ یعنی حضرت
جُوَیریہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا نِہَایَت شِیریں
و ملیح حسن والی عورت تھی جو بھی انہیں دیکھتا گَرْوِیدہ ہوئے بغیر نہ رہتا۔( السيرة الحلبية، باب ذكر مغازيه، غزوة بنى المصطلق،ج2ص380)
آپ رضی اللہ عنھاقبیلہ
بنی مصطلق کے سردارحارِث بن ضِرَار کی
بیٹی تھی ،حارث بن ضرار( جو کہ بعدمیں ایمان لے آئے تھے) نے اہلِ مکہ کے ساتھ مل کرمسلمانوں سے جنگ کرنے کامنصوبہ بنا یا تو یہ خبر حضور ﷺتک
پہنچ گئی۔ آپ ﷺنے تصدیق کے لئے حضرت بریدہ
رضی اللہ
عنہ کو قبیلہ مصطلق میں بھیجا جنہوں
نے اس قبیلے میں جا کر احوال معلوم کئے اور واپس آکر اُن کے تمام ناپاک ارادوں کے
متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کر دیا ،آپ
صلی اللہ
علیہ وسلم نے لوگوں کو جنگ کے لئے بلا یا تو صحابۂ کرام
لبیک کہتے ہوئے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو گئےپھر آپ علیہ السلام نے جنگ میں پیش قدمی کی اور کفار کے ساتھ جنگ کی۔ اللہ تبارک وتعالٰی نے مسلمانوں کواس جنگ میں فتح عطا کی،جنگ کے بعد700سے زائد کفار کو قیدی
بنا لیا گیا ان ہی میں قبیلہ بنی مصطلق کے سردار حارِث بن ضِرَار کی بیٹی حضرت برّہ رضی اللہ عنھابھی شامل
تھیں۔جب مالِ غنیمت تقسیم ہوا تو آپ رضی اللہ عنھا
، حضرت سیِّدُنا ثابِت بن قیس رَضِیَ اللہُ
عَنۡہُ اور ان کے ایک چچا زاد بھائی کےحصّے میں آئیں، حضرتِ سیِّدُنا ثابِت رَضِیَ اللہُ
عَنۡہُ نے ان کے حصّے کے بدلے مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا
اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا کے اپنے
کھجوروں کے دَرَخْت انہیں دے دیئےکیوں کہ آپ رضی
اللہ عنھاایک سردار کی بیٹی تھی تو انہیں غلام بن کر رہنا گوارہ نہ ہوا، اس لئے انہوں نے حضرتِ سیِّدُنا ثابِت رَضِیَ اللہُ
عَنۡہُ سے آزادی
کا مطالبہ کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے
9
اُوْقِیَہ سونے پر انہیں مُکَاتَبہ کر دیا۔ (آقا اپنے غُلام سے مال کی
ایک مقدار مُقَرَّر کر کے یہ کہہ دے کہ اتنا ادا کر دے تو آزاد ہے اور غُلام اسے
قبول بھی کر لے اب یہ مُکَاتَب ہو گیا)۔
حضورﷺسے نکاح: آپ
رضی اللہ عنھا
کا اتنی بڑی رقم ادا کرنا مشکل تھا اس لئے آپ حضورﷺکی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئیں
اور اپنی پریشانی بیان کرتے ہوئے مدد کی درخواست کی توآپﷺنے فرمایا:کیا یہ مناسب نہ
ہو گا کہ میں تمہارا زرِمکاتبت ادا کر کے تم سے نکاح کر لوں ،آپ رضی اللہ عنھا
نے بخوشی اس پیش کش کو قبول کر لیا تو آپ ﷺنے حضرتِ
سیِّدُنا ثابِت رَضِیَ اللہُ عَنۡہُ سے حضرت
برّہ رَضِیَ اللہُ
عَنۡھا کو خریدا اور آزاد کر کے آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡھا سے نکاح کر لیا۔( السيرة الحلبية، باب ذكر مغازيه، غزوة بنى المصطلق،ج2
ص377تا379)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم برّہ
نام رکھنے کو ناپسند فرماتے تھےاور اگر یہ
نام کسی کا ہوتا تو تبدیل فرمادیتے، اس لئے آپ
نےان کا نام برّہ سے تبدیل کر کے جویریہ
رکھ دیا۔(المستدرک علی الصحیحن ،ج5،ص36،الحدیث6861)
کثرتِ عبادت: آپ رَضِیَ اللہُ
عَنۡھا بااخلاق ہونے کے ساتھ
ساتھ کثرت سے عبادت کرنے والی بھی تھیں۔ روایات
میں آتا ہے : ایک مرتبہ حضور ﷺان کے پاس سے فجر کی نماز کےبعد تشریف لے گئےحضرت
جویریہ اس وقت اپنی سجدہ گاہ میں تھیں پھر سرکارﷺ چاشت کے وقت واپس تشریف آئے تو
حضرت جویریہ اسی جگہ بیٹھی ہوئی تھیں ،آپ ﷺنے پوچھاکہ تم تب سے یہیں بیٹھی ہو جیسا میں
تمہیں چھوڑ کر گیا تھا؟ آپ رَضِیَ اللہُ
عَنۡھا نےعرض کی:جی ہاں! تو حضور
ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں نے تمہارے بعد (یعنی تمہارے پاس سے جانے
کے بعد)4ایسے کلمات تین بار پڑھے ہیں کہ تم نے دن بھر میں جو کچھ بھی پڑھا اگر اس سے ان 4 کلمات کا وزن کیا جائے تو وہ 4 کلمات بھاری ہو جائیں گے۔ (وہ کلمات یہ ہیں)سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہِ عَدَدَ خَلْقِہِ وَ
رِضَا نَفْسِہِ وَزِنَۃَ عَرْشِہِ وَمِدَادَ کَلِمَاتِہِ۔(صحيح مسلم،ص: 1119،حدیث:2726)
جنہوں نے آپ سے روایات لیں: حضرتِ سیِّدُنا عبد الله بن عبّاس، حضرتِ سیِّدُنا جابِر بن عبد الله ، حضرتِ
سیِّدُنا عبد
الله بن عُمَر ، حضرتِ سیِّدُنا عبید بن سبّاق اور
حضرت جویریہ کے بھائی کے بیٹے حضرت طفیل رَضِیَ
اللہُ عَنۡہُم نے آپ رَضِیَ
اللہُ عَنۡہَا سے
روایات لی ہیں۔(شرح علامۃالزرقانی،ج4،ص428)
وصالِ پُرملال: آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا ماہِ ربیع الاول بمطابق50ھ کو65 سال کی عمر میں
اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگئیں،ایک قول کے مطابق آپ کی وفات 56سال کی عمر میں ہوئی۔مروان
بن حکم جوکہ اس وقت مدینہ منورہ کا حاکم تھا اُس نے آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کا
جنازہ پڑھایا اور جنت البقیع میں آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کی
تدفین کی گئی۔(ایضاً)
تحریر:
غیاث الدین عطاری مدنی
اسکالراسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃ العلمیہ(دعوتِ اسلامی)