آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نام : عبد القادر رضی اللہ عنہ ۔

کنیت: ابو محمد۔

القابات : محی الدین ، محبوبِ سبحانی، غوثُ الثقلین،غوثِ اعظم وغیرہ ہیں۔

ولادت باسعادت: 470 ھ کو قصبہ جیلان میں یکم رمضان المبارک بروز پیر صبح صادق کےوقت دنیا میں جلوہ گرہوئے اُس وقت ہونٹ آہستہ آہستہ حرکت کررہے تھے اور اللہ اللہ کی آواز آرہی تھی۔) الحقائق فی الحدائق:ص:139)

سِن انتقال :561 ھ میں آپ نے 91 سال کی عمر میں 11 ربیع الثانی کو دنیا سے پردہ فرمایا۔

حسب و نسب:آپ کے والد صاحب (ابو صالح موسیٰ جنگی دوست ) کی طرف سے حسنی سید ہیں اور والدہ ماجدہ (ام الخیر فاطمہ بنت سیدعبد اللہ صومعی ) کی طرف سے حُسینی سید ہیں۔

خاندان : آپ کا خاندان اولیاء اللہ کا گھرانہ تھا ۔آپ کے نانا،دادا جان،والدِ ماجد،والدہ محترمہ ، پھوپھی اور صاحبزادگان سب اللہ پاک کے نیک بندے تھے اسی وجہ سے لوگ آپ کے خاندان کو اَشراف کاخاندان کہتے تھے۔( سیرتِ غوث الثقلین،ص:50)

سیدِ عالی نسب دَر اولیاء است!

نورِ چشمِ مصطفی و مرتضی است!

آپ رحمۃ اللہ علیہ کاعلم وعمل

حضرت شیخ امام موقف الدین بن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’ہم 561ہجری میں بغداد شریف گئے تو ہم نے دیکھا کہ شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی اُن میں سے ہیں کہ جن کو وہاں پر علم، عمل اورحال وفتوی نویسی کی بادشاہت دی گئی ہے، کوئی طالب علم یہاں کے علاوہ کسی اور جگہ کا ارادہ اس لئے نہیں کرتا تھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ میں تمام عُلوم جمع ہیں اورجو آپ رحمۃ اللہ علیہ سے علم حاصل کرتے تھے آپ ان تمام طلبہ کو پڑھانے میں صبر فرماتے تھے، آپ کا سینہ فراخ تھا ، آپ سیر چشم (یعنی سخی )تھے، اللہ پاک نے آپ میں اوصاف جمیلہ اور احوالِ عزیزہ جمع فرمادیئے تھے اور میں نے آپ کے بعد آپ جیسی شخصیت کو نہیں دیکھا۔ ‘‘(بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہ رحمۃ اللہ علیہ، ص225)

علم کاسمندر:

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے علمی کمالات کے متعلق ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ ’’ایک روز کسی قاری صاحب نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس شریف میں قراٰن مجید کی ایک آیت تلاوت کی تو آپ نے اس آیت کی تفسیر میں پہلے ایک معنی پھر دو اس کے بعد تین یہاں تک کہ حاضرین کے علم کے مطابق آپ نے اس آیت کے گیارہ معانی بیان فرمادیئے اورپھر دیگر وجوہات بیان فرمائیں جن کی تعداد 40 تھی اور ہر وجہ کی تائید میں علمی دلائل بیان فرمائے اور ہر معنی کے ساتھ سند بیان فرمائی، آپ کے علمی دلائل کی تفصیل سے سب حاضرین متعجب ہوئے۔’’(اخبارالاخیار،ص11)‘‘

مفتی ِشرع بھی ہےقاضیِ ملت بھی ہے

علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر

واہ کیامرتبہ اے غوث ہے بالاتیرا:

حضرت شیخ ابو عبداللہ محمد بن خضر رحمۃ اللہ علیہ کے والدفرماتے ہیں کہ’’میں نے حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ میں خواب دیکھا کہ ایک بڑا وسیع مکان ہے اور اس میں صحراء اورسمندرکے مشائخ موجود ہیں اور حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ان کے صدر ہیں، ان میں بعض مشائخ تو وہ ہیں جن کے سر پر صرف عمامہ ہے اور بعض وہ ہیں جن کے عمامہ پر ایک طرہ ہے اور بعض کے دو طرے ہیں لیکن حضورغوث پاک شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کے عمامہ شریف پر تین طُرّے (یعنی عمامہ پر لگائے جانے والے مخصوص پھندنے) ہیں۔ میں ان تین طُرّوں کے بارے میں متفکر تھااوراسی حالت میں جب میں بیدارہواتو آپ رحمۃ اللہ علیہ میرے سرہانے کھڑے تھے ارشاد فرمانے لگے کہ ’’خضر!ایک طُرّہ علم شریعت کی شرافت کا اور دوسرا علم حقیقت کی شرافت کا اور تیسرا شرف ومرتبہ کا طُرّہ ہے۔‘‘ (بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہ رحمۃ اللہ علیہ،ص226)

تیرہ علوم میں تقریرفرماتے :

امامِ ربانی شیخ عبدالوہاب شعرانی اورشیخ المحدثین عبدالحق محدث دہلوی اور علامہ محمد بن یحیی حلبی رحمۃ اللہ علیہم تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت سیدناشیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ علیہ 13 علوم میں تقریر فرمایا کرتے تھے۔‘‘

ایک جگہ علامہ شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ'’’حضورِغوثِ پاک رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ عالیہ میں لوگ آپ رحمۃ اللہ علیہ سے تفسیر، حدیث، فقہ اورعلم الکلام پڑھتے تھے، دوپہر سے پہلے اور بعد دونوں وقت لوگوں کوتفسیر، حدیث، فقہ، کلام ، اصول اور نحو پڑھاتے تھے اور ظہر کے بعد قرأتوں کے ساتھ قراٰن مجید پڑھاتے تھے۔“۔ (بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہ رحمۃ اللہ علیہ،ص225)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کو بچپن میں ہی اپنی وِلایت کاعلم ہوگیاتھا:

محبوبِ سبحانی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا:'’’آپ نے اپنے آپ کو ولی کب سے جانا؟ ’’ ارشاد فرمایا کہ’’میری عمر دس برس کی تھی، میں مکتب (یعنی مدرسے) میں پڑھنے جاتا تو فرشتے مجھ کو پہنچانے کے لئے میرے ساتھ جاتے اور جب میں مکتب میں پہنچتا تو وہ فرشتے لڑکوں سے فرماتے کہ'' اللہ عزوجل کے ولی کے بیٹھنے کے لیے جگہ کشادہ کر دو۔“(بہجۃالاسرار،ذکرکلمات اخبربھا۔۔۔۔۔۔الخ،ص48)‘‘

فرشتے مدرسے تک ساتھ پہنچانے کو جاتے تھے

یہ دربارِ الٰہی میں ہے رتبہ غوثِ اعظم کا

آپ رحمۃ اللہ علیہ بچپن ہی میں راہِ خداعزوجل کے مسافربن گئے:

شیخ محمد بن قائدا لأوانی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ'' حضرت محبوب سبحانی غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ہم سے فرمایا کہ’’حج کے دن بچپن میں مجھے ایک مرتبہ جنگل کی طرف جانے کا اتفاق ہوا اور میں ایک بیل کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا کہ اس بیل نے میری طرف دیکھ کر کہا: ‘‘ یَاعَبْدَالْقَادِرِمَا لِھٰذَا خُلِقْتَ یعنی اے عبدالقادررحمۃ اللہ علیہ ! تم کو اس قسم کے کاموں کے لئے تو پیدا نہیں کیا گیا ۔’’میں گھبرا کر گھر لوٹا اور اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیاتوکیادیکھتاہوں کہ میدان عرفات میں لوگ کھڑے ہیں،اس کے بعد میں نے اپنی والدہ ماجدہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا:’’آپ مجھے راہ ِخداعزوجل میں وقف فرمادیں اور مجھے بغداد جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں تا کہ میں وہاں جاکر علم دین حاصل کروں۔''

والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ علیہانے مجھ سے اس کا سبب دریافت کیا تو میں نے بیل والا واقعہ عرض کردیا یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ علیہاکی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ 80 دینار جو میرے والد ماجد کی وراثت تھے میرے پاس لے آئیں تو میں نے ان میں سے40دینار لے لئے اور 40دینار اپنے بھائی سید ابو احمد رحمۃ اللہ علیہ کے لئے چھوڑ دیئے،والدہ ماجدہ نے 40 دینار میری گدڑی میں سی دیئے اور مجھے بغداد جانے کی اجازت عنایت فرما دی۔

آپ رحمۃ اللہ علیہانے مجھے ہر حال میں راست گوئی اور سچائی کو اپنانے کی تاکید فرمائی اور جیلان کے باہر تک مجھے الوداع کہنے کے لئے تشریف لائیں اور فرمایا: ’’اے میرے پیارے بیٹے! میں تجھے اللہ عزوجل کی رضا اور خوشنودی کی خاطر اپنے پاس سے جدا کرتی ہوں اور اب مجھے تمہارا منہ قیامت کو ہی دیکھنا نصیب ہوگا۔’’ (بہجۃالاسرار،ذکرطریقہ رحمۃ اللہ علیہ،ص:167)‘‘

حضرت سَیِّدُناشیخ محمد بن یحیی ٰرَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ جب غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے عِلْمِ دِین سےفراغت حاصل کرلی توآپ درس و تدریس کی مَسْنَد اور اِفتاء کے منصب پر جلوہ افروز  ہوئے اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو وعظ و نصیحت اور  علم و عمل کی  اشاعت کرنے میں مصروف ہو گئے،چُنانچہ دُنیا بھر سے  عُلما و صُلحا  آپ کی بارگاہ میں  علم سیکھنے کے لئے حاضر ہوتے، اس وقت بغداد میں آپ  کے پائے کا کوئی نہ تھا۔ آپ علم کےسمندرتھے ،آپ  کو عِلْمِ فقہ،  عِلْمِ حدیث،  عِلْمِ تفسیر،   عِلْمِ نَحْو  اور عِلْمِ ادب وغیرہ  عُلوم پر دسترس حاصل تھی ، جب آپ کو آپ کے اساتذہ  نے  عِلْمِ حدیث کی سَنَد دی تو فرمانے لگے، اے عبدُالقادر الفاظِ حدیث کی  سَنَد  تو  ہم  آپ کو دے رہے ہیں، لیکن  حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے معانی و مفہوم کا سمجھنا تو ہم  نے آپ ہی سے سیکھا ہے۔

قارئینِ کرام! حُضُورغوث ِپاک رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کو عِلْمِ دِین کے پھیلانے کا اِس قدر ذَوق و شوق تھا کہ آپ اپنا وقت علمی کاموں میں ہی اکثر مصروف رہتے، دوسرےشہروں کے طَلَبہ بھی آپ کی تعریفات اور عُلوم و فُنون میں مہارت کے چرچے سُن کرآپ  کی خدمت میں عِلْمِ  دین حاصل کرنے اورآپ  کے فیض سے برکتیں لُوٹنے کے لئےحاضر ہوتے رہے،آپ علم و عمل کےایسے  پیکر تھے کہ جو بھی آپ کےپاس علم حاصل کرنےکےلئےحاضرہوتا،وہ خا لی ہاتھ نہ لوٹتا تھا، آئیے!آپ کے علم و عمل اور درس و تدریس کی  خوبیوں اور علمی خدمات کے بارے میں سُنتے ہے۔

مَسْنَدِتَدْرِیْس

حضرت سَیِّدُنا قاضی ابو سعید مُبارَک رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کا بغداد میں ایک مدرسہ تھا، وہ اس میں وعظ و نصیحت اور علم حاصل کرنے والوں کو علم سکھایا کرتے تھے، جب قاضی صاحب کو آپ کے علمی و عملی فضل و کمالات اور فہم و فراست کا علم ہوا تو قاضی صاحب نے اپنا مدرسہ آپ کے حوالے کر دیا، پھر جب لوگوں نے آپ کے فضل وکمال اورعلمی مہارت کا چرچا سنا تو لوگوں کی کثیر تعداد آپ کی بارگاہ میں علمِ دِین حاصل کرنے کے لئے حاضر ہونے لگی۔ (سیرتِ غوثِ اعظم ص 58 ملخصاً)

فتوی نویسی کے بادشاہ

یوں تو حُضُورغوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ درس وتدریس، تصنیف وتالیف ،وعظ و نصیحت اور اس کے علاوہ مختلف علمی شعبوں میں انتہائی مہارت رکھتے تھے، مگر خاص طور پر فتویٰ نویسی میں تو آپ کو وہ کمال حاصل تھا کہ اُس دور کے بڑے بڑے عُلما، فقہاء اور مفتیانِ کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام بھی آپ کے لَاجواب فتووں سے حیران رہ جاتے تھے ۔

آپ کی عِلمی مہارت کا یہ عالم تھا کہ اگرآپ سے اِنتہائی مشکل مسائل بھی پوچھے جاتےتو آپ اُن مسائل کا نہایت آسان اور عُمدہ جواب دیتے، آپ نے درس و تدریس اور فتویٰ نویسی میں تقریباً (33) برس دینِ متین کی خدمت سرانجام دی، اس دوران جب آپ کے فتاویٰ علمائےعراق کے پاس لائے جاتے تو وه آپ کے جواب پر حيرت زدہ رہ جاتے۔

اما م ابُویَعلیٰ نجمُ الدِّین رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ عبدُ القادر جیلانی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ عراق میں فتوی ٰکے لحاظ سے بہت مشہور تھےاورلوگ فتاویٰ کے لئے آپ سے رابطہ کرتے تھے۔(بہجۃالاسرار ص ۲۲۵ملتقطا و ملخصاً)

ان واقعات سے حاصل ہونےوالے نکات

غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کے ان تمام واقعات سے ہمیں یہ درس ملا کہ ہمارے پیارے پیارے غوث پاک شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتداءً علم دین حاصل کرنے کے لئے بڑی محنت کی ۔اور خوب جانفشانی کے ساتھ علم دین حاصل کیا اور اس کے لئے بھر پور کوشش و جدوجہد سے کام لیا۔ راہِ علم میں آنےوالی مشکلات پر صبر کیا ۔مشائخ عاملین،محدثین اورفقہاء کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور ان کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ طے کرتے تو اللہ پاک نےآپ کی اس کاوش کو رائیگا نہیں فرمایا ،بلکہ آپ کو ایسا بلند مرتبہ عطا فرمایا کہ آج دنیا رشک کرتی ہے اور آپ کے وسیلہ سے دعائیں مانگنے کو قبولیت کا معیار سمجھتی ہے۔ آج دنیا بھر میں آپ سے عقیدت مندوں کی تعداد بیشمار ہے۔ یاد رکھیں! اس میں آپ کی والدہ کا بھی بڑا اہم کردار ہے۔

تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب ! یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

چونکہ آپ کی والدہ نے آپ کو ایسا ماحول دیا مدرسہ میں جانے کی اجازت دی،بچپن سے ہی نمازوں کا عادی بنایا وہ خود بھی نیک تھے اور اپنی اولاد کو بھی ایسا ماحول دیا بلکہ آپ کا سارا ہی گھرانہ اللہ والوں سے محبت کرنے والا تھا ۔دین سے محبت کرنے والا تھا ،بچہ کی تربیت میں ماں باپ کا بڑا دخل ہوتا ہے،آپ رحمۃ اللہ علیہ کی جب5 سال کی عمر میں پہلی بار رسم بسم اللہ ہوئی تو جو بزرگ بسم اللہ پڑھانے کے لئے تشریف لائے تو آپ نے انہیں اَعُوذ اور بسمِ اللہ پڑھ کرسورۂ فاتحہ اور المّ سے لے کر 18 پارے پڑھ کرسنادیئے تو ان بزرگ نے کہا : اور پڑھوتو آپ نے فرمایا: بس ،مجھے اتنا ہی یاد ہے کیوں کہ میری ماں 18 پاروں کی حافظہ تھی جب میں ان کے پیٹ میں تھا تو وہ تلاوت کرتی تھی ۔تو میں نے ان سے سن کر اسے یاد کرلیا۔اللہ اکبر ۔اللہ جلّ و علا کا آپ پر کیسا کر م ہوا۔پیدائش کے ساتھ ہی آپ کو ماں کی پیٹ میں ہی 18 پارے سکھادیئے۔ ( الحقائق فی الحدائق،ص: 140)

نبوی مینھ علوی فصل بتولی گلشن حَسنی پھول حُسینی ہے مہکنا تیرا

تو لہٰذا اس طرح کے واقعات سے آپ کی ولایت میں اور علم میں کسی طرح بھی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی ،یاد رکھیں ولایت یہ وہبی ( یعنی عطائی /گِفٹڈ ) چیز ہے۔ایسا نہیں ہے کہ مشقت والے اعمال سے آدمی خود حاصل کرلے ، البتہ اعمال حسنہ اس عطیہ الٰہی کے لئے ذریعہ ہوتےہیں اور بعضوں کو ابتداءً مل جاتی ہے ۔ امام اہل سنت امام احمد رضا ضان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ ولایتِ کسبی( یعنی محنت کے ذریعے حاصل ہونے والی) نہیں ہے محض عطائی ہے،ہاں کوشش اور مجاہدہ کرنےوالوں کو اپنی راہ دکھاتے ہیں۔‘‘ ( فتاوی رضویہ ، ج:21، ص606، رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)