اللہ ربّ العزت کے کسی بھی سچے ولی کا جب تذکرہ ہوتاہے تو سطحِ
ذہن پر کشف و کرامت کا تصوّر اُبھرتاہے۔ لیکن کسی بھی ولیُ اللہ کے مقام ِ وِلایت
پر سرفراز ہونے اور صاحبِ کرامت بننے کا بنیادی سبب شریعتِ مطہرہ کے احکامات پر
استقامت اختیار کرنا ہوتاہے۔ علومِ شریعت کو جانے اور اِن پر عمل کئے بغیر بارگاہِ الٰہی میں قُرب پالینے کا خیال
محض جنون ہی جنون ہے۔ ربِّ علیم و خبیر عزوجل نے اپنے اَولیاء
کاذکر فرماتے ہوئے اُن کی دو بنیادی شرائط
اورعلامات بیان فرمائی ہیں: (1)ایمان والا ہونا(2) متّقی یعنی پرہیزگار ہونا۔ چنانچہ
ارشادِ ربانی ہوتاہے:
الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ(۶۳)
ترجمۂ
کنزالایمان:وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں۔ (پارہ11،یونس:63)
یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ ایمان کی حقیقت ،تفصیلات اور اس کے تقاضوں سے آگاہی
،نیز تقویٰ کےدرجات کا حُصول علمِ
دین کے ذریعے ہی ہوسکتاہے۔ علمِ دین سے
جاہل یا فاسق شخص ہرگز اللہ کا ولی نہیں ہوسکتا۔ علمِ شریعت
کے حصول اور اس پر عمل کا انعام طریقت میں کشف و کرامت کے ذریعے ظاہر ہوتاہے۔
ہاں اگر علمِ الٰہی میں کسی شخص کا وِلایت
کے مرتبے سے سرفراز ہونا طے ہو اور بظاہر اُس کے پاس علم نہ ہو تو اللہ تعالیٰ
اپنے فضل سےاُس شخص کو علمِ لدنی عطا فرماکر اپنا ولی بنا لیتاہے۔چنانچہ اعلیٰ
حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے اِسی حقیقت کا بیان فرماتے ہیں کہ:
" امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: وما اتخذ اللّٰہ ولیاً جاھلاً ۔ اللہ نے کبھی کسی جاہل کو اپنا ولی نہ بنایا۔ یعنی بنانا
چاہا تو پہلے اسے علم دے دیا اس کے بعد ولی کیا کہ جو علم ِظاہر نہیں رکھتا، علم
باطن کہ اس کا ثمرہ و نتیجہ ہے کیونکر(کس طرح ) پاسکتاہے۔"(فتاویٰ
رضویہ،21/530)
محقِّقِ اہلسنت علامہ شیخ علی بن سُلطان القاری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفیٰ1014ھ)بھی اِس حقیقت کو یوں تحریرفرماتے ہیں کہ :" ومااتخذ اللّٰہ ولیاً جاھلاً ولو اتخذہ لعلمہ۔" یعنی،اللہ تعالیٰ نے کسی جاہل کو ولی نہ بنایا، اور اگر ولی منتخب فرماناچاہا
تو اُسے علم عطا فرمادیا۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ
المصابیح ،1/427)
شیطان کا کھلونا :
اگر بندے کے پاس علمِ دین نہ
ہو تو شیطان عبادت اور مجاہدے کے نام پراُسے اپنا کھلونا بنائے رکھتاہے ۔جاہل صوفی
اورعابد اپنے کاموں کو عبادت اور طاعت سمجھ رہا ہوتاہے ،لیکن لاعلمی کی وجہ سے اوراعمال کی ادائیگی میں
احکاماتِ شرعیہ کی مخالفت ہونے کی بناء پر اُس کی ساری
محنتیں اَکارت و برباد ہوجاتی ہیں۔ علمِ دین پاس نہ ہونے کی صورت میں شیطان صوفی
وعابد کا کیا حال کرتاہے ،اس کا منظر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
یوں بیان فرماتے ہیں کہ: " بےعلم
مجاہدہ والوں کو شیطان اُنگلیوں پر نچاتاہے، منہ میں لگام ، ناک میں نکیل ڈال کر جدھر چاہے کھینچے
پھرتاہے ۔" (فتاویٰ رضویہ، 21/528)
ایک اورمقام پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ: " اَولیائے
کرام فرماتے ہیں: صوفی جاہل شیطان کا
مسخرہ ہے۔"(فتاویٰ رضویہ،21/528)
حضور پُرنور غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا علمی مقام:
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ ولی
کے لئے علومِ دینیہ سے واقف ہونا ضروری ہے
تو پھر کیا عالَم ہوگا اُس ہستی کے پایۂ علم کا ،جو کہ کِشورِ ولایت کے بادشاہ ہیں۔جی ہاں! ولیُ الاَولیاء ،امامُ
الاَصفیاء،قُطب الاَقطاب، غوثُ الاَغواث ، تاجُ الاَوتاد،مرجع الاَبدال،غوثِ اعظم
ابو محمد سیِّد شیخ عبدالقادر حَسنی حُسینی جیلانی رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ جس
طرح آسمانِ طریقت کےروشن آفتاب ہیں،اِسی
طرح چرخِ شریعت کے چمکتے دمکتے مہتاب بھی ہیں۔
چنانچہ اعلیٰ حضرت ،امامِ
اہلسنت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ علامہ
علی قاری حنفی مکی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی کتاب " نزھۃ الخاطرالفاتر" کے حوالے سےسیِّد کبیر قُطب شہیر سیِّدنا اَحمد
رفاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا
یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ :" الشیخ عبدالقادر بحرُ الشریعۃ عن یمینہ و بحرُالحقیقۃ عن یسارہ ،
مِنْ اَیِّھِما شاء اغترف السید عبدالقادر لاثانی لہ فی عصرنا ھذا رضی اللّٰہ
تعالی عنہ۔ شیخ عبدالقادر وہ
ہیں کہ شریعت کا سمندر اُن کے دہنے ہاتھ ہے اور حقیقت کا سمندر اُن کے بائیں ہاتھ،
جس میں سے چاہیں پانی پی لیں۔ اس ہمارے وقت میں سیِّد عبدالقادر کا کوئی ثانی نہیں
رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔" (فتاویٰ رضویہ،28/396)
مقامِ قُطبیت تک رسائی:
غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہ کو
اللہ تعالیٰ نے جو مقامِ قُطبیتِ کُبریٰ کا منصب عطا فرمایا ہے ،اس کی ایک وجہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے خود ظاہر فرمائی ہے اور
وہ وجہ علمِ دین کو حاصل کرناہے۔ چنانچہ
سیِّدنا غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی
طرف منسوب "قصیدۂ غوثیہ " کے ایک شعر میں اِس حقیقت کا انکشاف ہواہے۔
چنانچہ سلطانِ اَولیاء، غوثِ اعظمرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:
دَرَسْتُ الْعِلْمَ
حَتّٰی صِرْتُ قُطْباً وَنِلْتُ السَّعْدَ مِنْ مَّوْلَی
الْمَوَالِیْ
میں (ظاہری
و باطنی) علم پڑھتے پڑھتے قُطب بن گیا اور میں نے مخلص دوستوں کے
آقا و مولا عزوجل کی مدد سے سعادت کوپالیا۔
سیِّدنا غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی علمی مصروفیات:
قطبُ الاقطاب ، غوث
الاَغواث، حضور پُرنور شیخ عبدالقادر
جیلانی قُدِّسَ سِرُّہ کی علمی مصروفیات کا اندازہ اِس بات سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تقریباً 13 علوم و فنون پر
گفتگو فرمایاکرتے تھےا ور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مدرسہ میں مختلف اَوقات میں مختلف قسم کے مضامین اور علوم پر درس و تدریس
کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔چنانچہ حضرت ابو
عبداللہ محمد بن خضر حسینی موصلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بیان فرمایا کہ میں نے اپنے والدِ
محترم کو یہ فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ:" کان سیدی
الشیخ محیی الدین عبدالقادر رضی اللّٰہ
عنہ ،یتکلم فی ثلاثۃ عشر علماً، و کان یذکر فی مدرستہ درساً من التفسیر ، و درساً
من الحدیث، و درساً من المذھب ، و درساً من الخلاف ، و کان یقرأ علیہ
طرفی النھار التفسیر و علوم الحدیث ، والمذھب والخلاف ، والاُصول ، والنحو، کان
یُقرئ القرآن بالقراءات بعد الظھر۔"یعنی ، میرے سردار
حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تیرہ عُلوم میں کلام فرمایا کرتے تھے اور اپنے مدرسہ میں علمِ تفسیر ، حدیث ،
مذہب ، خلافیات کا درس دیا کرتے تھے ۔اور صبح و شام لوگ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
سے علمِ تفسیر، علمِ حدیث، مذہب ،خلافیات، اُصول اور نحو پڑھاکرتے تھے۔ ظہر کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (ساتوں) قراءت میں قرآنِ مجید پڑھایا کرتے تھے۔ (بہجۃ الاسرار ومعدن الانوار،ذکر
علمہ... الخ،ص225)
سیِّدنا غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی علم ِ فتاویٰ میں مہارت و امامت :
حضور پُرنور ابو محمدسیِّد شیخ عبدالقادر حَسنی حُسینی
جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہکو
اللہ تعالیٰ نے علمِ فقہ میں بھی بڑی مہارت عطا فرمائی تھی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بلامبالغہ اپنے زمانے کے
مفتیِ اعظم تھےاور فنِ افتاء میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ چنانچہ امام ابوالفرج عبدالرحمن بن امام ابو العلی
نجم الدین بن حنبلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ میں نے اپنے والدِ ماجد کویہ کہتے ہوئے سُنا کہ:" کان الشیخ محیی الدین عبد القادر رضی اللّٰہ عنہ، ممن سلّم الیہ علم الفتاوی
بالعراق فی وقتہ۔" یعنی ، شیخ محی الدین عبدالقادر رضی
اللہ تعالیٰ عنہ اُن افراد میں سے تھے کہ عراق میں جن کی طرف علمِ فتاویٰ ان کے وقت میں سپرد کردیا گیا تھا۔ (بہجۃ الاسرار ومعدن الانوار،ذکر
علمہ... الخ،ص225)
فتویٰ دینے کا حیران کُن انداز:
سلطان الاَولیاء سیِّدُنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس مختلف مقامات سے سوالات آتے اور آپ رحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ بڑی مہارت او رسُرعت کے ساتھ بصورتِ فتویٰ اُن کے شرعی جوابات عطا فرمایا کرتے تھے، اس میں
کبھی تاخیر نہ ہوا کرتی تھی۔ اُس وقت کے فقہاے کرام حضور پُرنور غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس قدر جَلد فتاویٰ دینے کو دیکھ کر حیران رہے جایا کرتے
تھے۔چنانچہ "بہجۃ الاسرار و معدن الانوار"
میں کئی علماء اور مشائخ کے حوالے سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ شان یوں نقل کی گئی ہے
کہ:" کانت الفتاوی تأتی
الشیخ محیی الدین عبدالقادر رضی اللّٰہ عنہ، من بلاد العراق ، وغیریہ ، وما ر أیناہ
یبیت عندہ فتوی لیطالع علیھا ، أو یفکر فیھا ، بل یکتب علیھا عقیب قراءتھا ، وکان
یفتی علی مذھبی الشافعی ، و أحمد، وکانت فتاواہ تعرض علی علماء العراق، فما کان
یعجبھم صوابہ فیھا أشد من تعجبھم من سرعۃ جوابہ عنھا۔"
یعنی، سیِّدنا شیخ محی الدین عبدالقادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں بلادِ عراق وغیرہ سے فتاویٰ آیا کرتے تھے ۔ ہم نے کبھی نہ دیکھا
کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے
پاس رات کو فتویٰ رہتا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
اس کے متعلق مطالعہ فرمائیں یا کچھ غور و فکر کریں ، بلکہ اسے پڑھنے کے فوراً بعد اس کا جواب تحریر
فرما دیا کرتے تھے۔ اور سیِّدنا غوثِ اعظم
رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت سیِّدنا امام شافعی اور
حضرت سیِّدنا امام اَحمد رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے مذہب کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے۔ اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے
فتاویٰ عراق کے علماء کے سامنے پیش کئے جاتے تو انہیں حضور غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے درست جوابات دینے سے اتنا
تعجب نہیں ہوتا تھا ، جس قدر کہ اس بات سے تعجب ہوتا تھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
اتنا جلد جوابات
عطا فرمادیا کرتے تھے۔ (بہجۃ الاسرار ومعدن الانوار،ذکر علمہ...
الخ،ص225)
علم و عمل اور حال و فتاویٰ میں ریاست:
ربِّ علیم و خبیر عزوجل
نے اپنے محبوب بندے سیِّدنا غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی
رحمۃ اللہ تعالیٰ کو علم و عمل اور فنِ
افتاء میں وہ کمال عطا فرمایا تھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
کو ان تمام میں بادشاہت حاصل تھی۔ تشنگانِ علم میں سے جو بھی اِس در پر آتا ، اتنا سیراب ہوجاتاکہ
اُسے کہیں اور جانے کی حاجت ہی نہ رہتی تھی،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو علوم کا جامع بنا دیا تھا۔چنانچہ قاضی القُضاۃ ،شیخ الشیوخ،شمس الدین ابو
عبداللہ محمد المقدسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ میں نے اپنے شیخ
امام موفق الدین بن قدامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ" دخلنا
بغداد سنۃ احدی و ستین و خمسمائۃ فاذا الشیخ الامام محیی الدین رضی اللّٰہ عنہ ، ممن
انتھت الیہ الرئاسۃ بھا علماً وعملاً ، وحالاً و افتاءاً ، وکان یکفی طالب العلم
عن قصد غیرہ من کثرۃ ما اجتمع فیہ العلم والصبر علی المشتغلین و سعۃ الصدر، وکان مِلْ ءَ العین۔" یعنی ،ہم 561 ھ میں بغداد شریف میں داخل ہوئے تو ہم نے ملاحظہ کیا کہ شیخ محی الدین (غوثِ اعظم ) ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن شخصیات میں سے ہیں کہ جنہیں وہاں پر علم، عمل ، حال اوراِفتاء( فتویٰ نویسی) کی ریاست دی گئی تھی۔ طلبۂ علمِ دین کسی اور کے پاس جانے کا ارادہ ہی نہیں کرتے تھے، کیونکہ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں (تمام)علم جمع تھے۔اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ (تحصیلِ علمِ دین میں مشغول) طلباء
کو پڑھانے پر صبر فرماتے تھے ،فراخ سینہ اور سیر چشم تھے۔ (بہجۃ
الاسرار ومعدن الانوار،ذکر علمہ... الخ،ص225)
مفتیِ شَرْع بھی ہے قاضیِ مِلّت بھی ہے علمِ
اَسرار سے ماہر بھی ہے عبدالقادر
(حدائقِ بخشش،ص69)
ربِّ قدیر عزوجل کی بارگاہِ عالی میں دُعا ہے کہ حضور پُرنور غوثِ
اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے علوم و فیضان میں سے ہمیں
بھی کچھ حصہ عطا ہوجائے۔ آمین بجاہ طہ ویٰس
کتبہ
از: ابوالحقائق راشد علی رضوی
عطاری مدنی
اسکالر المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر ، دعوتِ
اسلامی)
3ربیع الثانی 1443ھ،8 نومبر2021ء،شبِ
منگل