حدیث
مبارک میں ہے: اللہ پاک جس کے ساتھ
بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔(بخاری شریف،حدیث:71)دین
کی سمجھ میں بنیاد عقائدِ اسلام کی ہےجس
پراعمال کوشرفِ قبولیت والےاعمال کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ بنیاد میں خرابی ہو تو
عمارت چاہے کتنی ہی حسین وجمیل کیوں نہ ہو آخر کار زمین بوس ہو جاتی ہے۔ تعمیر
اپنے معمار کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہے، یہی صورت حال انسان خصوصاً مسلمان کے ساتھ بھی ہے کہ اس کی تعمیر
کس کے زیر سایہ ہوئی،اس کی بنیاد یعنی عقائد کس قدر مضبوط اور درست ہیں،اس میں
کوئی شک نہیں کہ تعمیر اپنے معمار، اولاد والدین کی تربیت اور شاگرد اپنےاستاد کی
قابلیت کا آئینہ و نمونہ ہوتے ہیں، اس تمہید کا مقصد ایک ایسی شخصیت کاتعارف ہے جواپنے والدین کےلیے آنکھوں کی ٹھنڈک
اور اپنے معماروں یعنی اساتذہ کے لیے قابل فخر نمونہ ہے۔ میری
مراد شمس العلماء حضرت مولانامفتی ابو المعالی شمس الدین احمد جعفری جونپوری رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ ہیں۔
شمس
العلماء موصوف نے ایک مذہبی گھرانے
میں آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم اپنے جد امجد اور نانا جان سے حاصل کی۔ ذہانت
وفطانت من جانب
اللہ ودیعت ہوئی مزید برآں مذکورہ
بزرگوں کی شفقتوں اور محبتوں نے آپ کو گونا گوں صفات کا حامل بنا دیا، حصول علم کی
پیاس اور شوق نے آپ کو متعدد بزرگوں کی بارگاہ تک پہنچایا جن میں صدر الافاضل، فخر
الاماثل حضرت علامہ مولاناسیدمحمد نعیم الدین مراد آبادی اور صدر الشریعہ، بدر
الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہمانمایاں مقام رکھتے ہیں۔بالخصوص حضرت صدر الشریعہ
کے بارے میں آپ فرماتے ہیں: میرے مخدوم حضور صدر الشریعہ رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ کو جملہ
علوم وفنون متداولہ میں کافی درک تھا،بالخصوص معقولات پڑھاتے وقت معقولات کو پانی
پانی کر دیتے تھے، یہ الگ بات ہے کہ قدرت کی فیاضیوں نے انہیں علم فقہ کا امین
وارث بنا دیا، لوگ دار الافتاء میں فتوے کی مشق کرتے کرتے زندگی تمام کر دیتے ہیں
تاہم اس منصب کو نہیں پہنچ پاتےہیں جو صدر الشریعہ کو قدرت کا عطیہ تھا۔
حضور شمس العلماء بھی اپنے اساتذہ
سے ایسے مستفیض ہوئے کہ معقولات ومنقولات میں ماہر اور فقہ پر گہری نظر رکھتے
تھے،ہر فن میں سیر حاصل گفتگو فرماتے اور معلومات کا دریا بہاتے،کلام کے تجزیے پر
عبور رکھتے اور جب تک اس کے دلائل ومقدمات کو پرکھ نہ لیتے قبول نہ فرماتے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ 20 سال کی عمر میں دار العلوم
منظر اسلام بریلی شریف سے فارغ التحصیل ہوئے۔ دس سال کی عمر میں امام اہل سنت،
مجدد دین وملت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے شرف بیعت حاصل کیا، حجۃ الاسلام مولانا حامد
رضا خان اور مفتی اعظم ہند مولانا مصطفٰے رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہما نے - خرقہ خلافت عطا فرمایا۔
محترم قارئین!اپنے عقائد ونظریات کی حفاظت اور افکار کی پختگی
کے لیے علمائے حق اور اصحابِ نظر شخصیات کے سائے کی ضرورت ہوتی ہے، جن کی صحبت
ونظر بندے کو کامل وپختہ بنا دیتی ہے،حضور شمس العلماء ایسوں ہی کی صحبت سے فیض یاب ہو کر ایک چمکتا
ستارہ بنے آپ کے مربیان میں آپ کے داد وناناجان کے علاوہ آپ کے اساتذہ پیر طریقت
نمایاں مقام رکھتے ہیں، مذکورہ بالا ہستیاں
کسی تعارف کی محتاج نہیں اور حضور شمس العلماء کی ذات میں ان ہستیوں کی جھلک واضح
نظر آتی ہے۔خصوصاً عقائد کے معاملے میں جہاں کئی ٹھوکر کھا گئے وہاں بھی آپ نے اسلاف کے دامن کو مضبوطی سےتھامےرکھااوراپنی
سیرت وکردارکویادِگار اسلاف بنادیا، ۔
صحابہ کرام کے متعلق نظریہ:
صحابہ کرام کے متعلق آپ کی
تحریر کردہ چند مثالیں پیش خدمت ہیں:٭ انبیاء ومرسلین کے
بعد تمام مخلوقاتِ الٰہی جن وانس وملک سے افضل صدیق اکبر ہیں۔ (قانونِ شریعت، ص۷۱)٭کسی
صحابی کے ساتھ بد عقیدگی گمراہی وبدمذہبی ہے، حضرت امیر معاویہ،حضرت عمرو بن
عاص،حضرت وحشیرَضِیَ اللہُ عَنْہم وغیرہ
کسی صحابی کی شان میں بے ادبی تبراہے اور اس کا قائل رافضی ہے۔ (قانونِ شریعت، ص۷۱)٭حضرات شیخین کی توہین بلکہ ان کی خلافت سے انکار ہی
فقہاء کے نزدیک کفر ہے۔(قانونِ
شریعت، ص۷۲)حضور شمس العلماء رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ مزیدتحریر
فرماتےہیں:جو صحابہ واہل بیت سےمحبت نہ رکھے وہ گمراہ وبد مذہب ہے۔ (قانون شریعت: ص۷۳) کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبہ کا ہو کسی صحابی کے رتبہ کو
نہیں پہنچتا، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت امیر معاویہ کی جنگ خطائے اجتہادی ہے
جو گناہ نہیں اس لیے حضرت امیر معاویہ کو ظالم، باغی سرکش یا کوئی برا کلمہ کہنا
حرام و ناجائز بلکہ تبرا ورفض ہے۔(قانون
شریعت: ص۷۲)
امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہ اور یزید کے متعلق نظریہ:
یونہی کچھ لوگ نواسہ رسول، جگر گوشہ بتول حضرت
سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی شان میں گستاخی کرتے اور معاذ اللہ انہیں
باغی کہتے نظر آتے ہیں، اگر یہ لوگ اپنے آپ کو اہل سنت کہلواتے ہیں تو سن لیں کہ
یہ اہل سنت کا نظریہ نہیں بلکہ جہلاء کا نظریہ ہے اہل سنت کے نظریے کو بالکل واضح
طور پر لکھتے ہوئے حضرت شمس العلماء فرماتے ہیں: جو امام حسین (رَضِیَ اللہُ عَنْہ ) کو باغی کہے یا یزید کو حق پر بتائےوہ مردود
خارجی مستحق جہنم ہے۔ (قانون
شریعت: ص۷۳)اس مضمون کی وساطت سے
ہم یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ یزید کے بارے میں اسلاف کا کیا عقیدہ تھا تاکہ کسی
گمراہ کی باتیں ہمیں گمراہ نہ کر سکتیں، حضرت علامہ موصوف یزید کے متعلق مسلمانوں
کا عقیدہ واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’یزید کے ناحق ہونے میں کیا شبہ ہے البتہ
یزید کو نہ کافر کہیں نہ مسلمان کہیں بلکہ سکوت کریں۔‘‘اس جزئیے سے یزید کو
امیرالمؤمنین کہنے والے ذرا غور فرما لیں کہ علمائے اہل سنت کے نزدیک یزید کی کیا
حیثیت ہے۔
عملی میدان میں یادگارِ اسلاف:
اعتقادیات کے ساتھ عملی میدان میں بھی آپ یادگارِ اسلاف
تھے،تاریخ کےاوراق نے آپ کی سیرت کےجن
واقعات کو محفوظ کررکھا ہے اس میں سے
مختصر یہ چند پہلو پیش خدمت ہے:(1) آپ کا ذوق
ِتلاوت قابل رشک تھا، ہفتے میں ایک قرآن پاک ختم فرماتے ۔(2)فقہی عبارات جلد و صفحہ کے ساتھ آپ کومستحضر رہتیں اور
بوقتِ ضرورت نوکِ زبان پرآجاتیں۔(3)اندازِ تدریس ایسا دلنشین تھاکہ طلبہ کے دل و دماغ میں وہ چیزنقش ہوجاتی ۔(4)آپ کا زہد
و تقویٰ بے مثال تھا ۔(5)اپنےجگرپاروں کی تربیت کاخصوصی اہتمام کررکھا تھا۔
دعا ہے اللہ پاک حضرت کے فیوض سے ہمیں بھی حصہ عطا فرمائے اور حضرت
کے مرقد پر تاقیامت رحمت ونور کی برسات فرمائے۔ (آمین بجاہ
النبی الکریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)
از:مولانا محمد
امجد خان عطاری مدنی
اسکالر المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر
،دعوتِ اسلامی )