20 نومبر کو دنیا بھر میں Children’s Day منایا جاتا ہے ،اس دن کا مقصد بچوں کی تعلیم و تربیت ، صحت و تفریح اور ذہنی نشوونما کے حوالے سے والدین یا سرپرستوں کو آگاہ کیا جائے تاکہ دنیا بھر کے بچے مستقبل میں معاشرے کے مفید شہری بن سکیں۔ اس بات میں کسی کو ذرہ برابر بھی شک وشبہ نہیں کہ بچے ہی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ بچے بڑے ہوکر ملک وملت کی ترقی کا سبب بنتے ہیں۔کسی بھی قوم اور وطن کی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اس قوم کے بچے اچھی تعلیم و تربیت ، بہترین اورعمدہ اخلاق والے نہ ہوں۔

رنگ ونسل اور ملک وقوم کے فرق کے بغیر دعوتِ اسلامی کی خدمات دنیا کے سامنے ہیں ۔دعوت اسلامی بچوں کے لئے کیا کررہی ہے ،آئیے! اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔

مدرسۃ المدینہ (Boys And Girls)

والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارے بچے قرآن کی تعلیم ایک اچھے ادارے سے حاصل کریں ، جس کا نظم و ضبط بہترین اور ماحول بچوں کے لئے خوشگوار ہو۔ انہیں ترجیحات کو دیکھتے ہوئے دعوت اسلامی نے مدرسۃ المدینہ قائم کیا ۔دعوت اسلامی کے مدارس میں ماحول انتہائی خوشگوار ہوتاہے۔یہاں بچوں کو نہایت پیارو محبت سے پڑھایا جاتا ہے ۔

اب تک تقریباً 3 لاکھ 65 ہزار بچے حفظ اور ناظرہ کى تعلىم حاصل کرچکے ہیں۔ دعوت اسلامی نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پرمزید 2600مدارس بنانے کا ٹارگیٹ رکھتی ہے۔

دارالمدینہ)School)

جیسے جیسے زمانہ بدلتا ہے ویسے ہی اس کے تقاضے بھی بدلتے ہیں ، آج کے دور میں ان اداروں کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے جہاں دینی و عصری تعلیم کا بہترین انتظام ہو ، تاکہ بچوں کے لئے ایک ہی جگہ سے دینی و دنیاوی تعلیم کا حصول ممکن ہو ۔ اسی بنا پر دعوت اسلامی نے دارالمدینہ انٹرنیشنل اسلامک اسکولنگ سسٹم قائم کیا ، یہاں  شریعہ کمپلائنٹ اکیڈمک ایجوکیشن دی جاتى ہے۔

”دارُالمدینہ“ میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے اہل، تجربہ کار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹیچرز کا انتخاب کیا جاتا ہے، وقتاً فوقتاً ٹیچرز کی ٹریننگ بھی کی جاتی ہے تاکہ اُنہیں جدید تعلیمی تکنیک سے آگاہی فراہم کی جاسکے۔ اس وقت ملک و بیرونِ ملک، ہند، برطانیہ(UK)اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ (USA) وغیرہ میں ”دارُالمدینہ“ کے  82 کیمپس(Campus) قائم ہوچکے ہیں،جن میں پڑھنے والے بچوں اوربچیوں کی تعداد تقریبا ً24 ہزار سے زائد ہے۔

کِڈز مدنی چینل)Kid’s Madani Channel)

آج کا دور میڈیا کا دور ہے ، بچوں کی تعلیم و تربیت میں میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے ، کیونکہ بچے کھیل کود اور کارٹونز کی طرف زیادہ Attract ہوتے ہیں ، بچوں کے اخلاق کو بہتر بنانے اور کھیل ہی کھیل میں انہیں علم دین سکھانے کے لئے دعوت اسلامی نے کڈز مدنی چینل قائم کیا ، جس میں بچوں کے لئے کارٹونز، ا سٹوریز اور تفریح سے بھرپور معلوماتی پروگرامز پیش کئے جاتے ہیں ۔”کڈز مدنی چینل“ کے پروگرامز صرف اردو زبان میں ہی نہیں بلکہ دیگر کئی زبانوں میں بھی نشر کئے جاتے ہیں ۔

ریہبلٹیشن سینٹر)Rehabilitation Center)

معذور بچے بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں ، ان کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینا بھی معاشرے کی ذمہ داری ہے، اس ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے دعوت اسلامی کے شعبہ فیضان گلوبل ریلیف فاؤنڈیشن (FGRFنے ریہبلٹیشن سینٹر“ قائم کیا ہے۔

مدنی ہوم)Orphanage(

دعوتِ اسلامی نے یتیم بچوں کی کفالت اور ان کی تعلیم و تربیت کے لئے ”مدنی ہوم “کے نام سے یتیم خانے(Orphanage(کے قیام کا اعلان بھی کیا ہے ، جس کے تحت کراچی میں پہلا ”مدنی ہوم “(یتیم خانہ)قائم کیا جائے گا، جہاں ان بچوں کی شاندار انداز میں تربیت کی جائے گی ۔

”مدنی ہوم“ میں بچوں کودینی و دنیاوی تعلیم سے آراستہ کیا جائے گا ،انہیں عالم دین بنایا جائے گا اور وہ ہنر سکھائے جائیں گے جو انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد گار ثابت ہوں۔

فیضان آن لائن اکیڈمی (Faizan Online Academy(

فیضان آن لائن اکیڈمی کے ذریعے دنیا بھر میں کہیں بھی گھر بیٹھے بچوں اور بڑوں کو اسلامک کورسز کروائے جاتے ہیں۔اللہ پاک کے کرم سےاب تک ملک و بیرون ملک میں فیضان آن لائن اکیڈمی کی 40 سے زائد برانچز قائم ہوچکی ہیں۔جن میں 2500 سے زائد ٹیچرز اور مینجمنٹ اسٹاف کے ذریعے 20ہزار اسٹوڈنٹ کو اردو اور انگلش زبان میں مختلف کورسز کروائے جاتے ہیں۔یہ ڈپارٹ 24گھنٹے قرآنِ پاک کی تعلیم سمیت 30کورسز کروانے میں مصرف ہے۔جن میں عالم کورس،فرض علوم کورس اورنیومسلم کورس شامل ہیں۔

بچوں کی دنیا (Children’s Literature Department(

اچھا لٹریچر بچوں کی اخلاقی اور معاشرتی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے ، اس خلا کو پُر کرنے کے لئے دعوت اسلامی نے ایک خصوصی شعبہ بچوں کی دنیا قائم کیا ہے ، جس کا مقصد بچوں کے لئے ایک مستند اور صحت مند مواد فراہم کرنا ہے ، بچوں کی تعلیم و تربیت،اخلاقیات ومعاشرت اورذہنی نشوونما میں اضافے کے لئے ایکٹیویٹز پر مشتمل 90سے زیادہ مضامین” ماہنامہ فیضان مدینہ میں آچکے ہیں، اس کے علا وہ الگ سے بھی یہ شعبہ بچوں کے لئے دلچسپ اور سبق آموز کہانیاں لکھ رہا ہے ۔جیسے:

(1)رہنمائی کرنے والا بھیڑیا(2)لالچی کبوتر(3)چالاک خرگوش(4)بے وقوف کی دوستی۔

Coming Soon

1۔پیارے نبیوں کی زندگی سیریز۔2۔بچوں کے لئے قرآنی واقعہ سیریز۔3۔بچوں کی 40دعائیں )تصویروں کے ساتھ(۔

4۔بچوں کی نماز) تصویروں کے ساتھ(۔

مذکورہ اقدامات کو دیکھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ دعوت اسلامی بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کے لئے کوشاں ہے ۔ آپ بھی دعوت اسلامی کے اس قافلے میں شامل ہو جائیے اور دنیا میں قرآن و سنت کی تعلیم عام کرنے میں دعوت اسلامی کا ساتھ دیجئے ۔

اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں

اے دعوت اسلامی تیری دھوم مچی ہو


قرآن اور مدحتِ مصطفیٰ

Wed, 17 Nov , 2021
2 years ago

قارئینِ کرام! دنیا کا دستور ہے کہ بادشاہ جب اپنے درباریوں میں سے کسی کو اپنی عنایتوں سے مخصوص کر  تا ہے تو اسے ایسے خاص انعامات عطا کر تا ہے ، جس سے اس کی قدرو منزلت ہر شخص پر ظاہر ہو جائے اور وہ دوسروں سے بالکل ہی ممتاز ہو جائے اور وہ کمالات اور مراتب جو کسی اور کو بھی ملے ہوئے ہوں تو بادشاہ اپنے خاص اور چُنے ہوئے درباریوں کو وہ مراتب دینے کے ساتھ دیگر بھی کئی بہتر مرتبوں سے سرفراز کرتا ہے،اسی طرح بادشاہِ حقیقی یعنی اللہ پاک نے ہمارے پیارے نبی، مکی مدنی، محمدِ عربی ﷺ کو تمام مخلوق سے زیادہ انعامات دے کر اپنی خاص مہربانیوں سے مشرف کیا اور قرآنِ کریم میں ربِّ کریم نے مختلف مقامات پر مختلف القابات کے ساتھ اپنے حبیب، حبیبِ لبیب ﷺ کی تعریف فرمائی ہے، چنانچہ

٭ اللہ پاک نے قرآن پاک میں نبی کریم ﷺ کو کئی القابات سے یادفرمایا ہے جن میں سے چند پیش خدمت ہیں ۔

(1)مُحَمَّدٌ رَّسُول اللہ (2)مصطفیٰ (3)مجتبیٰ (4)مرتضیٰ (5)نور (6)برہان(واضح دلیل ) (7) خَاتمُ النَّبِیِّیْن (8)یٰسٓ (9) مزمل (10)مدثر (11)طٰہ وغیرہ ۔۔۔

(1) سورۂ فتح کی آیت نمبر: 29،(2) سورۂ اٰلِ عِمْرَان کی آیت نمبر: 33،(3) سورۂ اٰلِ عِمْرَان کی آیت نمبر: 179، (4)سورۂ جنّ آیت نمبر: 27،(5) سورۂ مائِدَہ آیت نمبر: 15 ،(6)سورۂ نِسَاء آیت نمبر: 174 ،(7) سورۂ اَحْزَاب آیت نمبر: 40 ، (8)سورۂ یٰس آیت نمبر: 1 ،(9)سورہ مُزّمّل آیت نمبر: 1 ،(10) سورۂ مُدّثّر آیت نمبر: 1، (11)سورۂ طٰہٰ آیت نمبر: 1

اس کے علاوہ اللہ پاک نے نبی کریم ﷺ کےدیگر اوصاف بھی بیان فرمائے ۔

جیسا کہ سورۂ اَحْزَاب آیت نمبر 45 میں شاہد یعنی ”حاضر و ناظر“، ”سراجِ مُنیر“(یعنی چمکتا ہوا سورج) اورداعی اِلَی اللہ (یعنی اللہ پاک کی طرف بُلانےوالا) فرمایا گیا۔

دوسری جگہ سورۂ بقرہ آیت نمبر 119 میں بشیر (خوشخبری سنانے والا) اور ”نذیر“(ڈر سنانے والا) فرمایا گیا ہے۔

اسی طرح سورۂ قلم آیت نمبر 4 میں آپ کو ”صاحبِ خُلْقِ عظیم“ فرمایا۔اور سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 1 میں صاحبِ معراج فرمایا گیا ۔ اس موقع کی مناسبت سے اعلیٰ حضرت، امامِ اہل سنت رَحمۃ اللّٰہ علیہ کیا ہی خوب ارشاد فرماتے ہیں:

اللہ کی سر تا بقدم شان ہیں یہ

اِن سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ

قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں

اور ایمان یہ کہتا ہے مِری جان ہیں یہ

پیارے بھائیو! قرآن مجید کی آیاتِ مبارکہ،ان کے تفسیری نکات اور شانِ نزول کے واقعات پڑھے جائیں، جن سے سرکارِ دو عالم، نورِ مجسم ﷺ کی شان ظاہر ہو رہی ہے، اس میں شک نہیں کہ اگر قرآنِ کریم کو بنظرِ ایمان دیکھا جائے تو پورا قرآن حضور ﷺ کی مدحت کو بہت عالیشان انداز میں بیان کر رہا ہے ۔ آئیے! اس کی مزید کچھ جھلکیاں ملاحظہ کرتے ہیں۔

اللہ پاک پارہ 30 سورۂ کوثر آیت نمبر 1میں یوں ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَ ؕ 30، الکوثر:01)

ترجمۂ کنزُ الایمان: اے محبوب! بےشک ہم نے تمہیں بے شُمار خوبیاں عطا فرمائیں۔

حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اس آیت کریمہ کے تحت فرماتے ہیں :

(اے محبوب بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں) اور فضائلِ کثىرہ عنایت کر کے تمام خلق پر (تمہیں ) افضل کیا، حُسنِ ظاہر بھى دىا،حُسنِ باطن بھى (عطا فرمایا)، نسبِ عالى بھى (دیا)، نبوت (کا اعلیٰ مرتبہ) بھى، کتاب بھى ( عطا فرمائی اور)، حکمت بھى،(سب سے زیادہ) علم بھى (دیا اور ) (سب سے پہلے) شفاعت ( کرنے کا اختیار ) بھى دیا، حوضِ کوثر (جیسی عظیم نعمت) بھى (دی اور) مقامِ محمود بھى، کثرتِ اُمّت بھى(آپ کا حصہ ہے اور) اعدائےدِىن (دُشمنانِ اسلام) پر غلبہ بھى(آپ کو عطا کیا)کثرتِ فتوح (کثرتِ کے ساتھ فتوحات)بھى(آپ کے لیے ہیں) اور بے شمار نعمتىں اور فضىلتىں (آپ کو ایسی عطا فرمائی )جن کى نہاىت(انتہاء) نہىں۔(خزائن العرفان،ص:۱۱۲۲،ملخصاً)

اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امامِ اہلسنت،اِمام احمد رضا خان رحمۃُ اللّٰہِ علیہ فرماتے ہیں:

ربّ ہے مُعطِی یہ ہیں قاسِم رزق اُس کا ہے کِھلاتے یہ ہیں

اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَر ساری کثرت پاتے یہ ہیں

بارگاہِ مصطفیٰ کا آداب

پارہ 1،سُوْرۂ بقرۃ،آیت نمبر 104میں اِرشاد ہوتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ)پ۱، البقرۃ:104)

ترجمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سُنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔

اس آیتِ کریمہ کے تحت تفسیر صراطُ الجنان میں درج کچھ علمی فائدے پیشِ خدمت ہیں:

(1) انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔

(2) وہ الفاظ جن کے دو معنیٰ ہوں، اچھے اور بُرے اور لفظ بولنے میں اس بُرے معنیٰ کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ بھی اللہ پاک اور حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے استعمال نہ کئے جائیں۔

(3) یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورِ پُر نور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ کا ادب رَبُّ الْعَالَمِیْن خود سکھاتا ہے اور تعظیم کے متعلق احکام کو خود جاری فرماتا ہے۔

(4) اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جناب میں بے ادبی کفر ہے ۔

جبکہ مشہور مفسرِ قرآن،حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللّٰہ علیہ اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: سبحان اللہ! کیا عظمتِ محبوب ثابت ہوئی کہ پَروَرْدْگارِ عالم کو اپنے محبوب کی شان اس قدر بڑھانا منظور ہے کہ کسی کو ایسی بات کہنے کی اجازت نہیں دیتا کہ جس کلمہ سے دوسرے کو بدگمانی کرنے کا موقع ملے۔)شانِ حبیب الرحمان ، ص۳۶(

یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اُنظُرْ حَالَنَا طالبِ نظرِ کرم بدکار ہے

یَاحَبِیْبَ اللّٰہِ اِسمَعْ قَالَنَا التجاء یا سید الابرار ہے

اِنَّنِی فِی بَحرِْ ھَمِّ مُّغْرَقٌ ناؤ ڈانواں ڈَول دَر منجدھار ہے

خذْیَدِیْ سَھِّلْ لَّنَا اَشْکَالَنَا نا خُدا آؤ تو بیڑا پار ہے

اے عاشقانِ رسول! سنا آپ نے کہ قرآنِ کریم میں خود ربّ کریم اپنے محبوب کی تعریف فرما رہاہے، اپنے محبوب کے اوصاف ،شان و عظمت اور خصوصیات کو اپنے پاکیزہ کلام میں بیان فرما رہا ہے۔

جن کی تعریف خود ان کا ربّ فرمائے تو کسی انسان کے بس کی بات نہیں کہ اللہ پاک کے محبوب ﷺ کی تعریف کا حق ادا کرسکے۔ اعلیٰ حضرت نے کیا خوب فرمایا:

اے رضاؔ خود صاحبِ قرآں ہے مدّاحِ حضور

تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی

مختصر وضاحت:

اس شعر میں اعلیٰ حضرت اپنی ذات کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے احمد رضا ! تُو جتنی بھی اپنے آقا کی تعریف کر لے، لیکن تجھ سے اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ان کا ربّ ہی ان کی تعریف فرماتا ہے تو اور کوئی کس طرح ان کی ثناءخوانی کا حق ادا کر سکتا ہے۔

پیارے بھائیو! ہم پیارےآقا، مکی مدنی مُصطَفٰﷺ کی شانِ اقدس ،آپ ﷺ کےفضائل اور خصوصیات بزبانِ قرآن سُنے، یقیناً ہمارے پیارے آقا ﷺ کی شان تو بے مثال ہے ، یقیناًجس ذاتِ بابرکات پر اللہ پاک کافضلِ عظیم ہوان کی فضیلت کون شمارکرسکتاہے؟

حضرت امام قاضی عیاض مالکی رحمۃُ اللّٰہ علیہ ”شفاءشریف“ میں لکھتے ہیں: حَارَتِ الْعُقُولُ فِي تَقْدِيرِ فَضْلِہٖ عَلَيْهِ وَخَرِسَتِ الْأَلْسُنُ، یعنی اللہ کریم کا جو فضل حضور عَلَیْہِ السَّلَام پر ہے ، اس کا اندازہ کرنے سے عقلیں حیران ہیں اور زبانیں عاجز ہیں۔ (الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ،۱ /۱۰۳( اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

از:مولانا جہانزیب عطاری مدنی

المدینۃ العلمیہ ، اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی


آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نام : عبد القادر رضی اللہ عنہ ۔

کنیت: ابو محمد۔

القابات : محی الدین ، محبوبِ سبحانی، غوثُ الثقلین،غوثِ اعظم وغیرہ ہیں۔

ولادت باسعادت: 470 ھ کو قصبہ جیلان میں یکم رمضان المبارک بروز پیر صبح صادق کےوقت دنیا میں جلوہ گرہوئے اُس وقت ہونٹ آہستہ آہستہ حرکت کررہے تھے اور اللہ اللہ کی آواز آرہی تھی۔) الحقائق فی الحدائق:ص:139)

سِن انتقال :561 ھ میں آپ نے 91 سال کی عمر میں 11 ربیع الثانی کو دنیا سے پردہ فرمایا۔

حسب و نسب:آپ کے والد صاحب (ابو صالح موسیٰ جنگی دوست ) کی طرف سے حسنی سید ہیں اور والدہ ماجدہ (ام الخیر فاطمہ بنت سیدعبد اللہ صومعی ) کی طرف سے حُسینی سید ہیں۔

خاندان : آپ کا خاندان اولیاء اللہ کا گھرانہ تھا ۔آپ کے نانا،دادا جان،والدِ ماجد،والدہ محترمہ ، پھوپھی اور صاحبزادگان سب اللہ پاک کے نیک بندے تھے اسی وجہ سے لوگ آپ کے خاندان کو اَشراف کاخاندان کہتے تھے۔( سیرتِ غوث الثقلین،ص:50)

سیدِ عالی نسب دَر اولیاء است!

نورِ چشمِ مصطفی و مرتضی است!

آپ رحمۃ اللہ علیہ کاعلم وعمل

حضرت شیخ امام موقف الدین بن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’ہم 561ہجری میں بغداد شریف گئے تو ہم نے دیکھا کہ شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی اُن میں سے ہیں کہ جن کو وہاں پر علم، عمل اورحال وفتوی نویسی کی بادشاہت دی گئی ہے، کوئی طالب علم یہاں کے علاوہ کسی اور جگہ کا ارادہ اس لئے نہیں کرتا تھا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ میں تمام عُلوم جمع ہیں اورجو آپ رحمۃ اللہ علیہ سے علم حاصل کرتے تھے آپ ان تمام طلبہ کو پڑھانے میں صبر فرماتے تھے، آپ کا سینہ فراخ تھا ، آپ سیر چشم (یعنی سخی )تھے، اللہ پاک نے آپ میں اوصاف جمیلہ اور احوالِ عزیزہ جمع فرمادیئے تھے اور میں نے آپ کے بعد آپ جیسی شخصیت کو نہیں دیکھا۔ ‘‘(بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہ رحمۃ اللہ علیہ، ص225)

علم کاسمندر:

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے علمی کمالات کے متعلق ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ ’’ایک روز کسی قاری صاحب نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس شریف میں قراٰن مجید کی ایک آیت تلاوت کی تو آپ نے اس آیت کی تفسیر میں پہلے ایک معنی پھر دو اس کے بعد تین یہاں تک کہ حاضرین کے علم کے مطابق آپ نے اس آیت کے گیارہ معانی بیان فرمادیئے اورپھر دیگر وجوہات بیان فرمائیں جن کی تعداد 40 تھی اور ہر وجہ کی تائید میں علمی دلائل بیان فرمائے اور ہر معنی کے ساتھ سند بیان فرمائی، آپ کے علمی دلائل کی تفصیل سے سب حاضرین متعجب ہوئے۔’’(اخبارالاخیار،ص11)‘‘

مفتی ِشرع بھی ہےقاضیِ ملت بھی ہے

علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر

واہ کیامرتبہ اے غوث ہے بالاتیرا:

حضرت شیخ ابو عبداللہ محمد بن خضر رحمۃ اللہ علیہ کے والدفرماتے ہیں کہ’’میں نے حضرت سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ میں خواب دیکھا کہ ایک بڑا وسیع مکان ہے اور اس میں صحراء اورسمندرکے مشائخ موجود ہیں اور حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ان کے صدر ہیں، ان میں بعض مشائخ تو وہ ہیں جن کے سر پر صرف عمامہ ہے اور بعض وہ ہیں جن کے عمامہ پر ایک طرہ ہے اور بعض کے دو طرے ہیں لیکن حضورغوث پاک شیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کے عمامہ شریف پر تین طُرّے (یعنی عمامہ پر لگائے جانے والے مخصوص پھندنے) ہیں۔ میں ان تین طُرّوں کے بارے میں متفکر تھااوراسی حالت میں جب میں بیدارہواتو آپ رحمۃ اللہ علیہ میرے سرہانے کھڑے تھے ارشاد فرمانے لگے کہ ’’خضر!ایک طُرّہ علم شریعت کی شرافت کا اور دوسرا علم حقیقت کی شرافت کا اور تیسرا شرف ومرتبہ کا طُرّہ ہے۔‘‘ (بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہ رحمۃ اللہ علیہ،ص226)

تیرہ علوم میں تقریرفرماتے :

امامِ ربانی شیخ عبدالوہاب شعرانی اورشیخ المحدثین عبدالحق محدث دہلوی اور علامہ محمد بن یحیی حلبی رحمۃ اللہ علیہم تحریر فرماتے ہیں کہ ’’حضرت سیدناشیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ علیہ 13 علوم میں تقریر فرمایا کرتے تھے۔‘‘

ایک جگہ علامہ شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ'’’حضورِغوثِ پاک رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ عالیہ میں لوگ آپ رحمۃ اللہ علیہ سے تفسیر، حدیث، فقہ اورعلم الکلام پڑھتے تھے، دوپہر سے پہلے اور بعد دونوں وقت لوگوں کوتفسیر، حدیث، فقہ، کلام ، اصول اور نحو پڑھاتے تھے اور ظہر کے بعد قرأتوں کے ساتھ قراٰن مجید پڑھاتے تھے۔“۔ (بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہ رحمۃ اللہ علیہ،ص225)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کو بچپن میں ہی اپنی وِلایت کاعلم ہوگیاتھا:

محبوبِ سبحانی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا:'’’آپ نے اپنے آپ کو ولی کب سے جانا؟ ’’ ارشاد فرمایا کہ’’میری عمر دس برس کی تھی، میں مکتب (یعنی مدرسے) میں پڑھنے جاتا تو فرشتے مجھ کو پہنچانے کے لئے میرے ساتھ جاتے اور جب میں مکتب میں پہنچتا تو وہ فرشتے لڑکوں سے فرماتے کہ'' اللہ عزوجل کے ولی کے بیٹھنے کے لیے جگہ کشادہ کر دو۔“(بہجۃالاسرار،ذکرکلمات اخبربھا۔۔۔۔۔۔الخ،ص48)‘‘

فرشتے مدرسے تک ساتھ پہنچانے کو جاتے تھے

یہ دربارِ الٰہی میں ہے رتبہ غوثِ اعظم کا

آپ رحمۃ اللہ علیہ بچپن ہی میں راہِ خداعزوجل کے مسافربن گئے:

شیخ محمد بن قائدا لأوانی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ'' حضرت محبوب سبحانی غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے ہم سے فرمایا کہ’’حج کے دن بچپن میں مجھے ایک مرتبہ جنگل کی طرف جانے کا اتفاق ہوا اور میں ایک بیل کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا کہ اس بیل نے میری طرف دیکھ کر کہا: ‘‘ یَاعَبْدَالْقَادِرِمَا لِھٰذَا خُلِقْتَ یعنی اے عبدالقادررحمۃ اللہ علیہ ! تم کو اس قسم کے کاموں کے لئے تو پیدا نہیں کیا گیا ۔’’میں گھبرا کر گھر لوٹا اور اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیاتوکیادیکھتاہوں کہ میدان عرفات میں لوگ کھڑے ہیں،اس کے بعد میں نے اپنی والدہ ماجدہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا:’’آپ مجھے راہ ِخداعزوجل میں وقف فرمادیں اور مجھے بغداد جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں تا کہ میں وہاں جاکر علم دین حاصل کروں۔''

والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ علیہانے مجھ سے اس کا سبب دریافت کیا تو میں نے بیل والا واقعہ عرض کردیا یہ سن کر آپ رحمۃ اللہ علیہاکی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ 80 دینار جو میرے والد ماجد کی وراثت تھے میرے پاس لے آئیں تو میں نے ان میں سے40دینار لے لئے اور 40دینار اپنے بھائی سید ابو احمد رحمۃ اللہ علیہ کے لئے چھوڑ دیئے،والدہ ماجدہ نے 40 دینار میری گدڑی میں سی دیئے اور مجھے بغداد جانے کی اجازت عنایت فرما دی۔

آپ رحمۃ اللہ علیہانے مجھے ہر حال میں راست گوئی اور سچائی کو اپنانے کی تاکید فرمائی اور جیلان کے باہر تک مجھے الوداع کہنے کے لئے تشریف لائیں اور فرمایا: ’’اے میرے پیارے بیٹے! میں تجھے اللہ عزوجل کی رضا اور خوشنودی کی خاطر اپنے پاس سے جدا کرتی ہوں اور اب مجھے تمہارا منہ قیامت کو ہی دیکھنا نصیب ہوگا۔’’ (بہجۃالاسرار،ذکرطریقہ رحمۃ اللہ علیہ،ص:167)‘‘

حضرت سَیِّدُناشیخ محمد بن یحیی ٰرَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ جب غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے عِلْمِ دِین سےفراغت حاصل کرلی توآپ درس و تدریس کی مَسْنَد اور اِفتاء کے منصب پر جلوہ افروز  ہوئے اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کو وعظ و نصیحت اور  علم و عمل کی  اشاعت کرنے میں مصروف ہو گئے،چُنانچہ دُنیا بھر سے  عُلما و صُلحا  آپ کی بارگاہ میں  علم سیکھنے کے لئے حاضر ہوتے، اس وقت بغداد میں آپ  کے پائے کا کوئی نہ تھا۔ آپ علم کےسمندرتھے ،آپ  کو عِلْمِ فقہ،  عِلْمِ حدیث،  عِلْمِ تفسیر،   عِلْمِ نَحْو  اور عِلْمِ ادب وغیرہ  عُلوم پر دسترس حاصل تھی ، جب آپ کو آپ کے اساتذہ  نے  عِلْمِ حدیث کی سَنَد دی تو فرمانے لگے، اے عبدُالقادر الفاظِ حدیث کی  سَنَد  تو  ہم  آپ کو دے رہے ہیں، لیکن  حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے معانی و مفہوم کا سمجھنا تو ہم  نے آپ ہی سے سیکھا ہے۔

قارئینِ کرام! حُضُورغوث ِپاک رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کو عِلْمِ دِین کے پھیلانے کا اِس قدر ذَوق و شوق تھا کہ آپ اپنا وقت علمی کاموں میں ہی اکثر مصروف رہتے، دوسرےشہروں کے طَلَبہ بھی آپ کی تعریفات اور عُلوم و فُنون میں مہارت کے چرچے سُن کرآپ  کی خدمت میں عِلْمِ  دین حاصل کرنے اورآپ  کے فیض سے برکتیں لُوٹنے کے لئےحاضر ہوتے رہے،آپ علم و عمل کےایسے  پیکر تھے کہ جو بھی آپ کےپاس علم حاصل کرنےکےلئےحاضرہوتا،وہ خا لی ہاتھ نہ لوٹتا تھا، آئیے!آپ کے علم و عمل اور درس و تدریس کی  خوبیوں اور علمی خدمات کے بارے میں سُنتے ہے۔

مَسْنَدِتَدْرِیْس

حضرت سَیِّدُنا قاضی ابو سعید مُبارَک رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کا بغداد میں ایک مدرسہ تھا، وہ اس میں وعظ و نصیحت اور علم حاصل کرنے والوں کو علم سکھایا کرتے تھے، جب قاضی صاحب کو آپ کے علمی و عملی فضل و کمالات اور فہم و فراست کا علم ہوا تو قاضی صاحب نے اپنا مدرسہ آپ کے حوالے کر دیا، پھر جب لوگوں نے آپ کے فضل وکمال اورعلمی مہارت کا چرچا سنا تو لوگوں کی کثیر تعداد آپ کی بارگاہ میں علمِ دِین حاصل کرنے کے لئے حاضر ہونے لگی۔ (سیرتِ غوثِ اعظم ص 58 ملخصاً)

فتوی نویسی کے بادشاہ

یوں تو حُضُورغوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ درس وتدریس، تصنیف وتالیف ،وعظ و نصیحت اور اس کے علاوہ مختلف علمی شعبوں میں انتہائی مہارت رکھتے تھے، مگر خاص طور پر فتویٰ نویسی میں تو آپ کو وہ کمال حاصل تھا کہ اُس دور کے بڑے بڑے عُلما، فقہاء اور مفتیانِ کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام بھی آپ کے لَاجواب فتووں سے حیران رہ جاتے تھے ۔

آپ کی عِلمی مہارت کا یہ عالم تھا کہ اگرآپ سے اِنتہائی مشکل مسائل بھی پوچھے جاتےتو آپ اُن مسائل کا نہایت آسان اور عُمدہ جواب دیتے، آپ نے درس و تدریس اور فتویٰ نویسی میں تقریباً (33) برس دینِ متین کی خدمت سرانجام دی، اس دوران جب آپ کے فتاویٰ علمائےعراق کے پاس لائے جاتے تو وه آپ کے جواب پر حيرت زدہ رہ جاتے۔

اما م ابُویَعلیٰ نجمُ الدِّین رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ حضرت شیخ عبدُ القادر جیلانی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ عراق میں فتوی ٰکے لحاظ سے بہت مشہور تھےاورلوگ فتاویٰ کے لئے آپ سے رابطہ کرتے تھے۔(بہجۃالاسرار ص ۲۲۵ملتقطا و ملخصاً)

ان واقعات سے حاصل ہونےوالے نکات

غوث پاک رحمۃ اللہ علیہ کے ان تمام واقعات سے ہمیں یہ درس ملا کہ ہمارے پیارے پیارے غوث پاک شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتداءً علم دین حاصل کرنے کے لئے بڑی محنت کی ۔اور خوب جانفشانی کے ساتھ علم دین حاصل کیا اور اس کے لئے بھر پور کوشش و جدوجہد سے کام لیا۔ راہِ علم میں آنےوالی مشکلات پر صبر کیا ۔مشائخ عاملین،محدثین اورفقہاء کی بارگاہ میں حاضر ہوتے اور ان کی بارگاہ میں زانوئے تلمذ طے کرتے تو اللہ پاک نےآپ کی اس کاوش کو رائیگا نہیں فرمایا ،بلکہ آپ کو ایسا بلند مرتبہ عطا فرمایا کہ آج دنیا رشک کرتی ہے اور آپ کے وسیلہ سے دعائیں مانگنے کو قبولیت کا معیار سمجھتی ہے۔ آج دنیا بھر میں آپ سے عقیدت مندوں کی تعداد بیشمار ہے۔ یاد رکھیں! اس میں آپ کی والدہ کا بھی بڑا اہم کردار ہے۔

تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب ! یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے

چونکہ آپ کی والدہ نے آپ کو ایسا ماحول دیا مدرسہ میں جانے کی اجازت دی،بچپن سے ہی نمازوں کا عادی بنایا وہ خود بھی نیک تھے اور اپنی اولاد کو بھی ایسا ماحول دیا بلکہ آپ کا سارا ہی گھرانہ اللہ والوں سے محبت کرنے والا تھا ۔دین سے محبت کرنے والا تھا ،بچہ کی تربیت میں ماں باپ کا بڑا دخل ہوتا ہے،آپ رحمۃ اللہ علیہ کی جب5 سال کی عمر میں پہلی بار رسم بسم اللہ ہوئی تو جو بزرگ بسم اللہ پڑھانے کے لئے تشریف لائے تو آپ نے انہیں اَعُوذ اور بسمِ اللہ پڑھ کرسورۂ فاتحہ اور المّ سے لے کر 18 پارے پڑھ کرسنادیئے تو ان بزرگ نے کہا : اور پڑھوتو آپ نے فرمایا: بس ،مجھے اتنا ہی یاد ہے کیوں کہ میری ماں 18 پاروں کی حافظہ تھی جب میں ان کے پیٹ میں تھا تو وہ تلاوت کرتی تھی ۔تو میں نے ان سے سن کر اسے یاد کرلیا۔اللہ اکبر ۔اللہ جلّ و علا کا آپ پر کیسا کر م ہوا۔پیدائش کے ساتھ ہی آپ کو ماں کی پیٹ میں ہی 18 پارے سکھادیئے۔ ( الحقائق فی الحدائق،ص: 140)

نبوی مینھ علوی فصل بتولی گلشن حَسنی پھول حُسینی ہے مہکنا تیرا

تو لہٰذا اس طرح کے واقعات سے آپ کی ولایت میں اور علم میں کسی طرح بھی شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی ،یاد رکھیں ولایت یہ وہبی ( یعنی عطائی /گِفٹڈ ) چیز ہے۔ایسا نہیں ہے کہ مشقت والے اعمال سے آدمی خود حاصل کرلے ، البتہ اعمال حسنہ اس عطیہ الٰہی کے لئے ذریعہ ہوتےہیں اور بعضوں کو ابتداءً مل جاتی ہے ۔ امام اہل سنت امام احمد رضا ضان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ ولایتِ کسبی( یعنی محنت کے ذریعے حاصل ہونے والی) نہیں ہے محض عطائی ہے،ہاں کوشش اور مجاہدہ کرنےوالوں کو اپنی راہ دکھاتے ہیں۔‘‘ ( فتاوی رضویہ ، ج:21، ص606، رضا فاؤنڈیشن ،لاہور)


اللہ ربّ العزت کے کسی بھی سچے ولی کا جب تذکرہ ہوتاہے تو سطحِ ذہن پر کشف و کرامت کا تصوّر اُبھرتاہے۔ لیکن کسی بھی ولیُ اللہ کے مقام ِ وِلایت پر سرفراز ہونے اور صاحبِ کرامت بننے کا بنیادی سبب شریعتِ مطہرہ کے احکامات پر استقامت اختیار کرنا ہوتاہے۔ علومِ شریعت کو جانے اور اِن پر عمل کئے بغیر بارگاہِ الٰہی میں قُرب پالینے کا خیال محض جنون ہی جنون ہے۔ ربِّ علیم و خبیر عزوجل نے اپنے اَولیاء کاذکر فرماتے ہوئے اُن کی دو بنیادی شرائط اورعلامات بیان فرمائی ہیں: (1)ایمان والا ہونا(2) متّقی یعنی پرہیزگار ہونا۔ چنانچہ ارشادِ ربانی ہوتاہے:

الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ(۶۳)

ترجمۂ کنزالایمان:وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں۔ (پارہ11،یونس:63)

یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ ایمان کی حقیقت ،تفصیلات اور اس کے تقاضوں سے آگاہی ،نیز تقویٰ کےدرجات کا حُصول علمِ دین کے ذریعے ہی ہوسکتاہے۔ علمِ دین سے جاہل یا فاسق شخص ہرگز اللہ کا ولی نہیں ہوسکتا۔ علمِ شریعت کے حصول اور اس پر عمل کا انعام طریقت میں کشف و کرامت کے ذریعے ظاہر ہوتاہے۔ ہاں اگر علمِ الٰہی میں کسی شخص کا وِلایت کے مرتبے سے سرفراز ہونا طے ہو اور بظاہر اُس کے پاس علم نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سےاُس شخص کو علمِ لدنی عطا فرماکر اپنا ولی بنا لیتاہے۔چنانچہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے اِسی حقیقت کا بیان فرماتے ہیں کہ:

" امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: وما اتخذ اللّٰہ ولیاً جاھلاً ۔ اللہ نے کبھی کسی جاہل کو اپنا ولی نہ بنایا۔ یعنی بنانا چاہا تو پہلے اسے علم دے دیا اس کے بعد ولی کیا کہ جو علم ِظاہر نہیں رکھتا، علم باطن کہ اس کا ثمرہ و نتیجہ ہے کیونکر(کس طرح ) پاسکتاہے۔"(فتاویٰ رضویہ،21/530)

محقِّقِ اہلسنت علامہ شیخ علی بن سُلطان القاری رحمۃ اللہ علیہ (المتوفیٰ1014ھ)بھی اِس حقیقت کو یوں تحریرفرماتے ہیں کہ :" ومااتخذ اللّٰہ ولیاً جاھلاً ولو اتخذہ لعلمہ۔" یعنی،اللہ تعالیٰ نے کسی جاہل کو ولی نہ بنایا، اور اگر ولی منتخب فرماناچاہا تو اُسے علم عطا فرمادیا۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ،1/427)

شیطان کا کھلونا :

اگر بندے کے پاس علمِ دین نہ ہو تو شیطان عبادت اور مجاہدے کے نام پراُسے اپنا کھلونا بنائے رکھتاہے ۔جاہل صوفی اورعابد اپنے کاموں کو عبادت اور طاعت سمجھ رہا ہوتاہے ،لیکن لاعلمی کی وجہ سے اوراعمال کی ادائیگی میں احکاماتِ شرعیہ کی مخالفت ہونے کی بناء پر اُس کی ساری محنتیں اَکارت و برباد ہوجاتی ہیں۔ علمِ دین پاس نہ ہونے کی صورت میں شیطان صوفی وعابد کا کیا حال کرتاہے ،اس کا منظر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ: " بےعلم مجاہدہ والوں کو شیطان اُنگلیوں پر نچاتاہے، منہ میں لگام ، ناک میں نکیل ڈال کر جدھر چاہے کھینچے پھرتاہے ۔" (فتاویٰ رضویہ، 21/528)

ایک اورمقام پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ: " اَولیائے کرام فرماتے ہیں: صوفی جاہل شیطان کا مسخرہ ہے۔"(فتاویٰ رضویہ،21/528)

حضور پُرنور غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا علمی مقام:

جب یہ بات واضح ہوگئی کہ ولی کے لئے علومِ دینیہ سے واقف ہونا ضروری ہے تو پھر کیا عالَم ہوگا اُس ہستی کے پایۂ علم کا ،جو کہ کِشورِ ولایت کے بادشاہ ہیں۔جی ہاں! ولیُ الاَولیاء ،امامُ الاَصفیاء،قُطب الاَقطاب، غوثُ الاَغواث ، تاجُ الاَوتاد،مرجع الاَبدال،غوثِ اعظم ابو محمد سیِّد شیخ عبدالقادر حَسنی حُسینی جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جس طرح آسمانِ طریقت کےروشن آفتاب ہیں،اِسی طرح چرخِ شریعت کے چمکتے دمکتے مہتاب بھی ہیں۔

چنانچہ اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ علامہ علی قاری حنفی مکی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی کتاب " نزھۃ الخاطرالفاتر" کے حوالے سےسیِّد کبیر قُطب شہیر سیِّدنا اَحمد رفاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ :" الشیخ عبدالقادر بحرُ الشریعۃ عن یمینہ و بحرُالحقیقۃ عن یسارہ ، مِنْ اَیِّھِما شاء اغترف السید عبدالقادر لاثانی لہ فی عصرنا ھذا رضی اللّٰہ تعالی عنہ۔ شیخ عبدالقادر وہ ہیں کہ شریعت کا سمندر اُن کے دہنے ہاتھ ہے اور حقیقت کا سمندر اُن کے بائیں ہاتھ، جس میں سے چاہیں پانی پی لیں۔ اس ہمارے وقت میں سیِّد عبدالقادر کا کوئی ثانی نہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔" (فتاویٰ رضویہ،28/396)

مقامِ قُطبیت تک رسائی:

غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہ کو اللہ تعالیٰ نے جو مقامِ قُطبیتِ کُبریٰ کا منصب عطا فرمایا ہے ،اس کی ایک وجہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے خود ظاہر فرمائی ہے اور وہ وجہ علمِ دین کو حاصل کرناہے۔ چنانچہ سیِّدنا غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف منسوب "قصیدۂ غوثیہ " کے ایک شعر میں اِس حقیقت کا انکشاف ہواہے۔ چنانچہ سلطانِ اَولیاء، غوثِ اعظمرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:

دَرَسْتُ الْعِلْمَ حَتّٰی صِرْتُ قُطْباً وَنِلْتُ السَّعْدَ مِنْ مَّوْلَی الْمَوَالِیْ

میں (ظاہری و باطنی) علم پڑھتے پڑھتے قُطب بن گیا اور میں نے مخلص دوستوں کے آقا و مولا عزوجل کی مدد سے سعادت کوپالیا۔

سیِّدنا غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی علمی مصروفیات:

قطبُ الاقطاب ، غوث الاَغواث، حضور پُرنور شیخ عبدالقادر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہ کی علمی مصروفیات کا اندازہ اِس بات سے بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تقریباً 13 علوم و فنون پر گفتگو فرمایاکرتے تھےا ور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مدرسہ میں مختلف اَوقات میں مختلف قسم کے مضامین اور علوم پر درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔چنانچہ حضرت ابو عبداللہ محمد بن خضر حسینی موصلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بیان فرمایا کہ میں نے اپنے والدِ محترم کو یہ فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ:" کان سیدی الشیخ محیی الدین عبدالقادر رضی اللّٰہ عنہ ،یتکلم فی ثلاثۃ عشر علماً، و کان یذکر فی مدرستہ درساً من التفسیر ، و درساً من الحدیث، و درساً من المذھب ، و درساً من الخلاف ، و کان یقرأ علیہ طرفی النھار التفسیر و علوم الحدیث ، والمذھب والخلاف ، والاُصول ، والنحو، کان یُقرئ القرآن بالقراءات بعد الظھر۔"یعنی ، میرے سردار حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تیرہ عُلوم میں کلام فرمایا کرتے تھے اور اپنے مدرسہ میں علمِ تفسیر ، حدیث ، مذہب ، خلافیات کا درس دیا کرتے تھے ۔اور صبح و شام لوگ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے علمِ تفسیر، علمِ حدیث، مذہب ،خلافیات، اُصول اور نحو پڑھاکرتے تھے۔ ظہر کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (ساتوں) قراءت میں قرآنِ مجید پڑھایا کرتے تھے۔ (بہجۃ الاسرار ومعدن الانوار،ذکر علمہ... الخ،ص225)

سیِّدنا غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی علم ِ فتاویٰ میں مہارت و امامت :

حضور پُرنور ابو محمدسیِّد شیخ عبدالقادر حَسنی حُسینی جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہکو اللہ تعالیٰ نے علمِ فقہ میں بھی بڑی مہارت عطا فرمائی تھی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بلامبالغہ اپنے زمانے کے مفتیِ اعظم تھےاور فنِ افتاء میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ چنانچہ امام ابوالفرج عبدالرحمن بن امام ابو العلی نجم الدین بن حنبلی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ میں نے اپنے والدِ ماجد کویہ کہتے ہوئے سُنا کہ:" کان الشیخ محیی الدین عبد القادر رضی اللّٰہ عنہ، ممن سلّم الیہ علم الفتاوی بالعراق فی وقتہ۔" یعنی ، شیخ محی الدین عبدالقادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن افراد میں سے تھے کہ عراق میں جن کی طرف علمِ فتاویٰ ان کے وقت میں سپرد کردیا گیا تھا۔ (بہجۃ الاسرار ومعدن الانوار،ذکر علمہ... الخ،ص225)

فتویٰ دینے کا حیران کُن انداز:

سلطان الاَولیاء سیِّدُنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس مختلف مقامات سے سوالات آتے اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بڑی مہارت او رسُرعت کے ساتھ بصورتِ فتویٰ اُن کے شرعی جوابات عطا فرمایا کرتے تھے، اس میں کبھی تاخیر نہ ہوا کرتی تھی۔ اُس وقت کے فقہاے کرام حضور پُرنور غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس قدر جَلد فتاویٰ دینے کو دیکھ کر حیران رہے جایا کرتے تھے۔چنانچہ "بہجۃ الاسرار و معدن الانوار" میں کئی علماء اور مشائخ کے حوالے سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ شان یوں نقل کی گئی ہے کہ:" کانت الفتاوی تأتی الشیخ محیی الدین عبدالقادر رضی اللّٰہ عنہ، من بلاد العراق ، وغیریہ ، وما ر أیناہ یبیت عندہ فتوی لیطالع علیھا ، أو یفکر فیھا ، بل یکتب علیھا عقیب قراءتھا ، وکان یفتی علی مذھبی الشافعی ، و أحمد، وکانت فتاواہ تعرض علی علماء العراق، فما کان یعجبھم صوابہ فیھا أشد من تعجبھم من سرعۃ جوابہ عنھا۔" یعنی، سیِّدنا شیخ محی الدین عبدالقادر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں بلادِ عراق وغیرہ سے فتاویٰ آیا کرتے تھے ۔ ہم نے کبھی نہ دیکھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے پاس رات کو فتویٰ رہتا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کے متعلق مطالعہ فرمائیں یا کچھ غور و فکر کریں ، بلکہ اسے پڑھنے کے فوراً بعد اس کا جواب تحریر فرما دیا کرتے تھے۔ اور سیِّدنا غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ حضرت سیِّدنا امام شافعی اور حضرت سیِّدنا امام اَحمد رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے مذہب کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے۔ اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے فتاویٰ عراق کے علماء کے سامنے پیش کئے جاتے تو انہیں حضور غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے درست جوابات دینے سے اتنا تعجب نہیں ہوتا تھا ، جس قدر کہ اس بات سے تعجب ہوتا تھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اتنا جلد جوابات عطا فرمادیا کرتے تھے۔ (بہجۃ الاسرار ومعدن الانوار،ذکر علمہ... الخ،ص225)

علم و عمل اور حال و فتاویٰ میں ریاست:

ربِّ علیم و خبیر عزوجل نے اپنے محبوب بندے سیِّدنا غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ کو علم و عمل اور فنِ افتاء میں وہ کمال عطا فرمایا تھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ان تمام میں بادشاہت حاصل تھی۔ تشنگانِ علم میں سے جو بھی اِس در پر آتا ، اتنا سیراب ہوجاتاکہ اُسے کہیں اور جانے کی حاجت ہی نہ رہتی تھی،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو علوم کا جامع بنا دیا تھا۔چنانچہ قاضی القُضاۃ ،شیخ الشیوخ،شمس الدین ابو عبداللہ محمد المقدسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ میں نے اپنے شیخ امام موفق الدین بن قدامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرماتے ہوئے سُنا ہے کہ" دخلنا بغداد سنۃ احدی و ستین و خمسمائۃ فاذا الشیخ الامام محیی الدین رضی اللّٰہ عنہ ، ممن انتھت الیہ الرئاسۃ بھا علماً وعملاً ، وحالاً و افتاءاً ، وکان یکفی طالب العلم عن قصد غیرہ من کثرۃ ما اجتمع فیہ العلم والصبر علی المشتغلین و سعۃ الصدر، وکان مِلْ ءَ العین۔" یعنی ،ہم 561 ھ میں بغداد شریف میں داخل ہوئے تو ہم نے ملاحظہ کیا کہ شیخ محی الدین (غوثِ اعظم ) ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن شخصیات میں سے ہیں کہ جنہیں وہاں پر علم، عمل ، حال اوراِفتاء( فتویٰ نویسی) کی ریاست دی گئی تھی۔ طلبۂ علمِ دین کسی اور کے پاس جانے کا ارادہ ہی نہیں کرتے تھے، کیونکہ غوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں (تمام)علم جمع تھے۔اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ (تحصیلِ علمِ دین میں مشغول) طلباء کو پڑھانے پر صبر فرماتے تھے ،فراخ سینہ اور سیر چشم تھے۔ (بہجۃ الاسرار ومعدن الانوار،ذکر علمہ... الخ،ص225)

مفتیِ شَرْع بھی ہے قاضیِ مِلّت بھی ہے علمِ اَسرار سے ماہر بھی ہے عبدالقادر

(حدائقِ بخشش،ص69)

ربِّ قدیر عزوجل کی بارگاہِ عالی میں دُعا ہے کہ حضور پُرنور غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے علوم و فیضان میں سے ہمیں بھی کچھ حصہ عطا ہوجائے۔ آمین بجاہ طہ ویٰس

کتبہ

از: ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی

اسکالر المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر ، دعوتِ اسلامی)

3ربیع الثانی 1443ھ،8 نومبر2021ء،شبِ منگل


قوتِ گویائی(Speaking Power)انسان کی وہ امتیازی قابلیت وصلاحیت (Specific Ability)ہے جس کی وجہ سے وہ تمام جانداروں میں سب سے نمایاں وممتازہے ، اپنی اِ سی قوت کو کام میں لاکر انسان نے اُجڑے دیار(ویران شہر) بسائے ہیں اور بستے دیار اُجاڑے ہیں ،روتوں کو ہنسایا ہے اور ہنستوں کو رُلایا ہے ، رنج و غم کے ماروں کومسرت و شادمانی کے لفظوں سے شاہراہ ِ حیات (زندگی کی راہ)پرنہ صرف چلنے بلکہ دوڑنے کا حوصلہ دیا ہے، انہی لفظوں سے شاہراہِ حیات پر دوڑنے والوں کوگھیسٹ کا اُتارا ہے ، انسان کے لفظ پھول بن کربھی برس سکتے ہیں اور پتھر بن کر بھی اور جب الفاظ پتھر بن کر برستے ہیں تو لفظوں کی جنگ (Word War) آخرکار عالمی جنگ(World War) کی صورت اختیار کرجاتی ہے ۔ انسان کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ کے مثبت اور منفی پہلوؤں کا مختصر جائزہ آپ نے ملاحظہ کیاجس سے آپ کے ذہن میں انسانی الفاظ(Human Wording) کےدرست استعمال کی قدر و قیمت اور غلط استعمال کی صورت میں تباہی و بربادی کاخاکہ بیٹھ گیا ہو گا۔ آئیے! اب عظیم انسانوں کے الفاظ سے دنیا میں برپا ہونے والے انقلاب کا مختصر تاریخی جائزہ ملاحظہ کرتے ہیں ۔ جب انسان کو اس کائنات پر اتارا گیا تو اِسے اپنا مطلوب و مقصودسمجھانے کے لئے بامقصد آواز، پُر اثر لہجہ اور معنی خیز تاثُرات سے بھی نوازا گیا۔انسان نے بارگاہ ِ الٰہی سے ملنے والے اِس انمول نعمت کا بھر پور استعمال کیا اور اس کا ئنات کو اپنے الفاظ سے محبت کے پھول کھلائے اورترقی و کامیابی کے اُفق(آسمان) پر اُونچی اُڑان اُڑ کرخود کو قابل ِ حیرت بلندی پر پہنچادیا ،یہ تمام خصوصیات آپ کو انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے مبارک، پاکیزہ اور دل نواز کلام میں نظرآئیں گی اور اُ ن کے وسیلے سے ان کے صحبت یافتہ پھر جلیلُ القدر اولیا اور معزز علما کے یہاں بدرجہ اتم ملاحظہ کی جاسکتیں ہیں ۔

ملفوظات :عہد بہ عہد(ابتداء سےعصر حاضر تک کا اجمالی جائزہ)

نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمکے اِس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد نورِ اسلام سےدنیا کو منوّر کرنے کی ذمہ داری صحابۂ کرام پر عائد ہوتی تھی جسے ان حضرات نے اِس خوبی سے نبھایاکہ اِس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔ صحابہ کرام عَلَیْہِمْ الرِّضْوَانُ نے اپنے شب و روز تربیت، کردار سازی اور علمی آبیاری میں صرف کیے،صحابہ کرام عَلَیْہِمْ الرِّضْوَانُ کی زیارت کرنے والے حضرات تابعین کے معزز اور محترم لقب سے پہچانے گئے ۔ان حضرات کے صحبت یافتہ جلیلُ القدر علما اور باعظمت اولیا پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ امتِ محبوب کی رہنمائی کریں لہٰذا اِن نفوسِ قدسیہ نے اِس ذمہ داری کو احسن انداز میں پورا کیا اور وہ نقوش چھوڑے جو آنے والی نسلوں کے لئے نشانِ راہ کے طور پر اُبھرے اور روشن مینارے بن کر ہدایت و رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ۔

یہ نفوسِ قدوسیہ میدانِ علم کے شہسوارتو تھے ہی ،باعمل ہونے میں بھی بے مثال تھے ،اِن حضرات کےملفوظات سےایسے خوشبوؤں کی لپٹیں آتیں جسے محسوس کرکے ان کو اہم ترین سمجھنے والا قلم کے ذریعے کاغذ میں محفوظ کردیتا یو ں گراں قدراقوال کو محفوظ کرنے کا سلسلہ چل نکلاجو آج تک جاری ہے۔ان ملفوظات میں اپنے عہد کےتاریخی گوشے،لوگوں کے رجحانات اورعقائد و اعمال کے قابل ِ اصلاح پہلوؤں کو بخوبی سمودیا گیا ہے۔یوں تو بالعموم تقریبا ہرموضوع کی کتب میں ہی بزرگان ِ دین کے اقوال مل جاتے ہیں مگرہماری معلومات کے مطابق عربی کتب میں بالخصوص کتب ِ تاریخ،کتب اعلام وطبقات،کتبِ و عظ ونصیحت اور کتب خطبات و مکتوبات اِن اقوال سے مالامال ہیں۔

برعظیم میں ملفوظات کی روایت:

برِّعظیم پاک و ہند کولاتعداد اولیائےکرامرحمہم اللہ السلام نے شرفِ قیام سے نوازا،دعوت ِ اسلام کے ذریعے جہالت و گمراہی کے اندھیروں میں ڈو بتی اور سسکتی ہوئی انسانیت کونہ صرف سہارا دیابلکہ اس تنگ و تاریک دلدل سے نکالا،شرعی احکامات سے آگاہی فراہم کی،مقصدِ حیات(عبادتِ خدا) کی جانب رہنمائی فرمائی ، شاہراہ زندگی کو طے کرنے کا سلیقہ سکھایا،صبرو شکر،زہدو قناعت جیسےخوب صورت اسباق سےلوگوں کی شخصیت کو تراشا،شعور (ادب وآداب)کی اصلاح کی،ذہن کو بیدار کیااسی لیےاس خطےمیں تشریف لانے والے اولیائےکرام رحمہم اللہ السلام کےملفوظات کو خوش نصیب لوگوں نے سرآنکھوں پررکھااورحرزِ جاں بنایا۔چونکہ ملفوظات کا یہ قیمتی خزانہ ہدایت و رہنمائی ، تربیت و اصلاح اور اعلیٰ اخلاق کے انمول ہیروں کوسمیٹے ہوئے تھااس لیے اس خطےکے”ملفوظات“کو اصنافِ ادب(علم ادب کی قسموں) اور علوم تاریخ میں بیش بہا اور گراں قدر سرمایہ سمجھا گیا اور برعظیم کےعہد بہ عہد مطالعے کے لیےاہم ترین ماخذ میں شمار کیا گیا ۔یادرہے کہ بزرگان دین کےاقوال و ارشادات کو”ملفوظات“کانام برعظیم پاک ہند میں دیا گیاہے اسی لئےعربی میں لکھی جانے والی کتب(مثلاکتب ِ تاریخ،کتب اعلام وطبقات،کتبِ و عظ ونصیحت اور کتب خطبات و مکتوبات)میں بزرگوں کے اقوال و ارشادات تو ملتے ہیں مگرانہیں” ملفوظات“ کا عنوان نہیں دیا جاتا ۔

از:مولاناناصرجمال عطاری مدنی

اسکالر المدینۃ العلمیہ( اسلامک ریسرچ سینٹردعوتِ اسلامی)


دنیا میں ہر انقلاب کے پیچھےکوئی نہ کوئی شخصیت ہوتی ہےاور وہ اس  انقلاب کے بارے میں غوروفکر کے بعد اس کے لئےعملی اقدام اٹھاتی اور ایک منظم تحریک وتنظیم بنانے کی کوشش کرتی ہے جس کے ذریعے وہ دنیا میں ایک انقلابی شخصیت کے لقب سےمشہور ہوجاتی ہےایسے ہی 15 صدی کی ایک شخصیت جس نےمسلمانوں کی اصلاح،ان کے دل میں خوف خدا و عشق مصطفے کی شمع بیدا رکرنے اور نیکی کی دعوت کے ذریعے لوگوں کے اعمال وکردار کو سنوارنے کے انقلاب کے بارے میں سوچا ،کیونکہ یہ اس امت کا وصف ہے کہ ان میں لوگوں کو نیک بنا نے اور گناہوں سے بچانے کا جذبہ ہےاوریہ قدرت خداوندی کا خاص عطیہ ہے رب کریم نے اپنے پاکیزہ کلام میں اسی وصف کے ذریعے اس امت کو بہترین امت قرار دیا۔

اسی جذبہ کے تحت 15 صدی کی ایک عظیم شخصیت نے باقاعدہ ایک تحریک کی بنیاد ڈالی جو اللہ پاک کے فضل و کرم اور پیارےرسول کی خاص نظر عنایت سے نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھرمیں لوگوں کی اصلاح کاذریعہ بنی ، کئی لوگوں کو نماز، روزے اور دیگر ضروریاتِ دین پر عمل کرنے کا ذہن دیا،یقینا یہ پڑھ کر آپ کے ذہن میں 15 صدی کی علمی و روحانی شخصیت قبلہ شیخ طریقت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا اور ان کی بنائی ہوئی تحریک دعوت اسلامی کا نام آیا ہوگا ۔

اللہ پاک کے فضل و کرم سے اس تحریک نے دین متین کا اس قدر کام کیاکہ ہماری آنے والی نسلیں بھی ان پر رشک کریں گی ،سال 2021 میں ان کے بنائے ہوئے جامعۃ المدینہ سے کم و بیش ایک ہزار نوجوان عالم ِ دین بنے، اس کےعلاوہ دعوت اسلا می کے مدرسۃ المدینہ سے سالانہ سینکڑوں بچے حفظ قرآن اور ہزاروں ناظرہ قرآن پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں مزید یہ کہ دعوت اسلامی کے دیگر شعبہ جات مثلا ًالمدینۃ العلمیہ جس میں تحریروتصنیف کا کام ہوتا ہے اور مدنی چینل جو گھر گھر لوگوں کی اصلاح کا سبب بن رہا ہے اور شعبہ خدّام المساجد جو سالانہ کئی مسجدوں کی تعمیراتی کام کروارہا ہے سب کی مثالیں اپنی جگہ ہیں ۔

ہرعقل مند انسان یہ جانتاہے کہ فی زمانہ ایک چھوٹے ادارے اور تحریک کو چلانے کے لئے کتنےاخراجات کی ضرورت پڑتی ہے توپھر یہ تحریک جو دنیا بھر میں نیکی کی دعوت عام کر رہی ہے ، امت کو علماء ،حفاظ مہیاکر رہی ہے اس کے کتنے اخراجات ہوں گے یقینا کروڑوں میں ہوں گے،ان اخراجات کو پورا کرنے کے لئے ہم سب کی دعوت اسلامی 7 نومبر 2021 بروز اتوار ”ٹیلی تھون “مہم کرنے جارہی ہے، یعنی دعوت اسلامی اپنے مدارس، جامعۃ المدینہ اور کنزالمدارس بورڈ کے جملہ اخراجات کے لئے فنڈِنگ کرنے جارہی ہے۔

دین کا علم حاصل کرنے والوں کی خدمت کرنا اور ان کے لئے چندہ جمع کرنا ہمارے پیارے آقا صلّی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسَلّم کی سنّتِ مبارکہ ہے ،کتبِ احادیث میں ایسی روایات ملتی ہیں، جن میں پیارے آقا صلّی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسَلّم نے اصحابِ صُفّہ کی خیر خواہی کرنے اور صحابۂ کرام کو ان کی خدمت کرنے کی ترغیب دلائی ہے، ویسےبھی حدیثِ مبارکہ میں اللہ کریم کی راہ میں صدقہ کرنے کے بے شمار فضائل وبرکات ہیں ، مثلاً صدقہ برائی کے 70 دروازے بند کرتا ہے۔ ([1])صدقہ کرنے والوں کو صدقہ قبر کی گرمی سے بچاتا ہے۔ ([2]) صدقہ رب کے غضب کو بجھاتا اوربُری موت کو دفع کرتا ہے۔ ([3]) مسلمان کا صدقہ عمر بڑھاتا اور بُری موت کو روکتا ہے۔ ([4]) لہٰذا آپ بھی اپنے علاقے کےذمہ دار اسلامی بھائیوں کے ذریعے دعوت اسلامی کے ساتھ تعاون کریں اور دنیا و آخرت کی بھلائیں حاصل کریں ۔اللہ کریم قبلہ شیخ طریقت ،امیر اہل سنت اور دعوت اسلامی کو شادو آباد رکھے اور اس مہم میں حصہ لینے والوں اور چندہ دینے والوں ، اکھٹا کرنے والوں، سب کواپنے پیارے حبیب کے روزے کے حاضری اور باادب حج کی سعادت عطا فرمائے ۔ آمین

از:مولانا عبدالجبارعطاری مدنی

ذمہ دار : شعبہ رسائل دعوت اسلامی



[1]معجم کبير ، 4/274، حديث:4406

[2] شعب الايمان ،3/212، حديث:3347

[3] ترمذی، 2/ 146، حديث:664

[4] معجم کبير ،17/22، حديث:31


ایک حکایت آٹھ سبق

Tue, 2 Nov , 2021
2 years ago

معروف بزرگ جامع شریعت و طریقت حضرتِ مَعْرُوف کَرْخِی رحمۃُ اللہِ علیہ کےپاس ایک شخص آیااور کہا حضرت آج ایک عجیب واقعہ ہوا ”میرے گھر والوں نے مچھلی کھانے کی فرمائش کی۔میں نے بازار سے مچھلی خریدی اور اسے گھر پہنچانے کے لئے ایک کم عمر مزدور بلایا، اس نے مچھلی اٹھائی اور میرے پیچھے چل دیا۔راستے میں اذان کی آواز سنائی دی اس لڑکے نے کہا:”چچا جان ! اذان ہو رہی ہے آئیے نماز پڑھ لیں؟”اس کی یہ بات سن کر مجھے ایسا لگا جیسے وہ نو عمر لڑکا مجھےغفلت کی نیندسے جگارہا ہے۔ میں نے کہا” کیوں نہیں!آؤ پہلے نماز پڑھ لیتے ہیں،اُس نے مچھلی وُضو خانےپر رکھی اور مسجد میں داخل ہو گیا۔ ہم نے جماعت کے ساتھ نماز ادا کی اور گھر آگئے، میں نے گھر والوں کواس نیک اورکم عمر مزدور کے بارے میں بتایا تو وہ کہنے لگے:”اِس سے کہو آج دوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ کھالے۔”میں نے اسے دعوت دی تو اس نے کہا کہ میرا روزہ ہے، میں نے کہا،افطاری ہمارے ساتھ کرلینا۔اُس نے کہاٹھیک ہے،آپ مجھے مسجد کا راستہ بتادیں، میں نے اُسے مسجد پہنچا دیاوہ مغرب تک مسجد ہی میں رہا ۔ نماز کے بعدمیں نے کہا:”اللہ پاک تجھ پر رَحَم فرمائے،آؤ گھر چلتے ہیں۔ اس نے کہا:” کیوں نہ ہم عشاء کی نماز پڑھ کر چلیں؟میں نے اپنے دل میں کہا اس کی بات مان لینے ہی میں بھلائی ہے، اسی لئے مَیں مسجد میں رُک گیا،نمازِ عشاء کے بعد ہم گھر آئے، ہم سب نے کھاناکھایا اور اپنے اپنے کمروں میں سوگئے نوعمر نیک لڑکے کو ہم نے مہمانوں والے کمرے میں سلادیا،میری ایک پیدائشی معذور لڑکی تھی جو چلنے پھرنے سے معذور تھی اور اسی حالت میں 20 سال گزر چکے تھے۔ رات کے آخری پہر دروازے پر کسی نے دستک دی، میں نے کہا، کون ہے؟میری اُسی معذور بیٹی نے پکار کر کہا: میں فلاں لڑکی ہوں، میں نے کہاوہ تو چلنے پھرنے سےمعذور ہے اور ہر وقت اپنے کمرے ہی میں رہتی ہے تم وہ کیسے ہوسکتی ہو؟اس نے کہا:”میں وہی ہوں، ہم نے دروازہ کھولا تو واقعی ہمارے سامنے وہی لڑکی موجود تھی،میں نے کہا”تم ٹھیک کیسے ہوگئی؟اس نے کہا :میں نے آپ لوگوں کی آوازیں سنیں تھیں کہ آج ہمارے ہاں ایک نیک مہمان آیا ہے، میرے دل میں خیال آیا کہ اس نیک مہمان کے وسیلے سے دعا کروں شاید اسی کے صدقے اللہ پاک مجھے شفا عطا فرمادے، لہٰذامیں نےاللہ پاک کی بارگاہ میں دعا کی”اے میرے پاک رب، اس مہمان کے صدقے میری بیماری ختم فرمادے اور مجھےصحت عطا فرما۔“یہ دعا کرتے ہی میں فورا ٹھیک ہوگئی اوراللہ پاک کے حکم سے میرے ہاتھ پاؤں کام کرنے لگے اور میں خود چل کر یہاں آئی ہوں، لڑکی کی یہ بات سُن کر میں فوراً اُس کمرے کی طرف گیا جس میں وہ لڑکا تھا۔وہاں کوئی بھی نہیں تھا،میں باہردروازے کی طرف گیا تو وہ بھی بند تھا، معلوم نہیں ہمارا نوعمر مہمان کہاں غائب ہوگیا۔حضرتِ مَعْرُوف کَرْخِی رحمۃُ اللہِ علیہ نے یہ واقعہ سن کر فرمایا: ”اللہ پاک کے اولیاء میں کم عمر بچے بھی ہوتے ہیں اور بڑی عمروالے بھی، وہ لڑکا اللہ پاک کا ولی تھا۔ (عیون الحکایات، 2/ 34)

حکایت سے حاصل ہونے والے فوائد

معزز قارئین!اس چھوٹی سی حکایت میں ہمارے لئے بے انتہا قیمتی موتی پوشیدہ ہیں آئیے انہیں ڈھونڈ کر ان کے ذریعے اپنے اخلاق و عادات کو مزین کرنے کی کوشش کرتے ہیں :

(1) نماز انتہائی اہم ہے نماز کو اہم الفرائض یعنی اللہ کریم کے فرض کئے گئے کاموں میں سب سے اہم فرض، نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ قیامت کے دن سب سے پہلا سوال نماز ہی کے متعلق ہوگا، نماز پڑھنا اولیائے کرام کا معمول رہا ہے اور حقیقی ولی وہی ہے جو اللہ پاک کے فرائض کی ادائیگی میں عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ کوشش کرے نہ یہ کہ مختلف حیلے بہانوں سے اور اپنے آپ کو پہنچا ہوا ثابت کرنے کے لئے فرائض و واجبات ترک کرتا پھرے، حضور غوث العالم شیخ بہاء الحق والدین ابو محمد زکریا ملتانی رحمۃُ اللہِ علیہ تو یہاں تک فرماتے ہیں: مجھے جو کچھ بھی حاصل ہوا نماز سے حاصل ہوا۔( فوائد الفواد ،ص63) (2) اللہ کا ولی ہونے کے لئے 50/ 60 سال عمر اور داڑھی کا سفید ہونا ضروری نہیں بلکہ بزرگی اور ولایت کم عمری یہاں تک کہ دودھ پینے کی عمر میں بھی مل سکتی ہے اور کئی اولیائے کرام تو مادر زاد ولی تھے جیسے کہ غوث الاعظم،شیخ محی الدین ابومحمد عبدالقادر جیلانی رحمۃُ اللہِ علیہ پیدائشی طور پر ولایت کا شرف رکھتے تھے۔(3) چوتھی بات یہ پتا چلی کہ کسی کو اچھے کاموں کی ترغیب دینا اور برے کاموں سے روکنا ایک اچھا کام ہے مگر یہ کام صرف زبانی حد تک نہ ہو بلکہ جو کہہ رہے ہیں، جس کام کی دعوت آپ دے رہے ہیں، جس کام سے لوگوں کو روک رہے ہیں، اُس کا آغاز اپنی ذات سے کریں اور اپنے کردار کو ان برے اعمال سے صاف رکھیں۔ (4) نیک لوگوں سے ملتے رہنا چاہئے اور ہو سکے تو ان کو اپنے ہاں مدعو کرنا چاہئے کہ اصل دعوت کے حق دار نیک لوگ ہیں۔ (5)اگر کوئی دعوت دے تو حتی الامکان اسے قبول کرنا چاہئے ، دعوت قبول کرنا سنت رسول نبوی بھی ہے۔ (6)انبیائے کرام اور دیگر نیک و صالح افراد کے وسیلے سے جو دعا مانگی جائے اللہ پاک اسے شرفِ قبولیت عطا فرماتا ہے لہٰذا جب بھی دعا مانگیں تو کسی کا وسیلہ بارگاہِ الہی میں پیش کریں۔ (7) نیک لوگوں کے قرب میں رحمت برستی ہے لہٰذا صالحین کے مزارات اور جو بزرگ علمائے کرام و مشائخ موجودہ ہیں ان کی بارگاہ میں وقتاً فوقتاً حاضری کو اپنا معمول بنالیجئے۔(8)اگر آپ کسی کے اجیر (Employee)ہیں کسی کے ماتحت کام کرتے ہیں تو کوئی بھی ایسا کام اس دوران کرنے سے گریز کریں جو اجارے کے تقاضوں کے خلاف ہو حتی کہ نوافل ادا کرنےکے لئے بھی مستاجر (Employer) کی اجازت لیں جیسا کہ حکایت میں مذکور ہوا کہ ان کم سن ولی اللہ نے ادائیگی نماز کے لئے بھی اجازت طلب کی ۔

مضمون نگار:مولانا محمد حسین بشیر عطاری مدنی

اسکالر المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی )

دورِ حاضر میں نت نئی  ایجادات کی وجہ سےانسان کئی مسائل سے دو چار ہے ، نفسیات، سماجی اور گھریلو تعلقات اور روز مرہ کے معمولات پر ان کا اثر براہ ِ راست ہورہا ہےجس کی وجہ سے غفلت بڑھتی جارہی ہے،گناہوں کےطوفان نےتباہی مچارکھی ہے اور ایک بہت بڑی تعدادذہنی تناؤ، بےچینی و اضطراب اور طرح طرح کی بیماریوں کے نرغے میں ہے،اِس طرح کی آزمائشوں سےانسانیت کو نکالنے کے لیے اللہ پاک نے جن ہستیوں کا منتخب فرمایا ہے پندرہویں صدی ہجری کی عظیم علمی و روحانی شخصیت شیخِ طریقت، امیر اہلِ سنت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہان میں سے ایک ہیں۔ آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکو اللہ تعالیٰ نے کئی کمالات عطاکئے جن میں سے اصلاحِ امت کے جذبے سے سرشاردل،چٹانوں سے زیادہ مضبوط حوصلہ، معاملہ فہمی کی حیرت انگیز صلاحیت،نیکی کی دعوت میں پیش آنے والے مسائل کوحل کرنے اور مشکلات کاسامنا کرنے کی ہمّت سرِ فہرست ہیں۔ امیر ِاہلِ سنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکو کثرتِ مطالعہ اور اَکابر علَمائےکرام کی صحبت کی بدولت شرعی احکام پرقابلِ رشک دسترس حاصل ہےجس کی وجہ سے آپدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی شخصیّت (Personality) زمانے کومنوّر کرنےوالا ہیرا بن چکی ہے۔آپ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ بزرگانِ دین کے نقشِ قدم پر چلےاور آپ نے اسلام کی آفاقی تعلیمات کو اپنی عام فہم اور بلندپایہ تحریر،قرآن و سنّت سے معمور بیانات اورانفرادی کوشش اورملفوظات کے ذریعے دنیا بھر پھیلانے کی سعیٔ جمیل (اچھی کوشش)فرمائی۔مسلمانوں کی فکری تربیت،انہیں کی جانے والی پُراثر نصیحت اورکثیر مصروفیات کےباوجود خوشی غمی میں شرکت نے آپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکوعرب و عجم میں ہردل عزیز بنادیا ہے۔

امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنےملفوظات کےذریعےلوگوں کوعقائدو اعمال،فضائل ومناقب، شریعت و طریقت، تاریخ و سیرت،سائنس و طب، اخلاقیات و اسلامی معلومات،روزمرہ کےمعاملات کے متعلق سوالات کے حکمت آموز اور عشقِ رسول میں ڈوبے ہوئے جوابات عطافرماتے ہیں۔آپدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کےملفوظات تجربات سے بھرپور ہوتے ہیں جسے سُن کر اخلاق و کردار کو اسلامی احکامات سے مزیّن کرنےکاجذبہ ملتاہے،زندگی کو مشکل بنانے والی خواہشات سے چھٹکارا پانے کی راہیں نظر آتی ہیں اور نیک بننے بنانےکےنسخے ہاتھ آتے ہیں ۔ چونکہ امیر اہل ِ سنّتمدظلہ العالی کا پُروقار لب و  لہجہ ، مشفقانہ اندازِ بیان، خیر خواہی اور بھلائی پر مبنی درمندانہ نیکی کی دعوت براہِ راست انسان کے دل کی دنیا بدل کررکھ دیتی ہے اسی طرح کی اَن گِنت خوبیوں کی بناء پرآپ دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہکےملفوظات کو دل کے کانوں سے سنے جاتے ہیں۔ کچھ اہم موضوعات کےتحت منتخب ملفوظاتِ امیراہلسنتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ بطورِ مثال پیشِ خدمت ہیں ،ملاحظہ کیجئے:معاشرتی اُمور کے بارے میں : (1)خوشی کے موقع جیسے شادی یا سالگرہ وغیرہ پر تحفے میں شو پیس یا کوئی اور چیز دینے کے بجائے نقد پیسے دینا زیادہ مفید ہے کہ اس سے وہ اپنی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔(2) خُود داری اور صَبْر و قناعت سے وقار بلند ہوتا ہے۔(3)لوگوں کے درمیان بیٹھو تو اپنی زبان قابو میں رکھو، کسی کے گھر جاؤ تو اپنی آنکھوں کو قابو میں رکھو، نماز میں اپنے دل کو قابو میں رکھو۔(4)اگر کسی کو خوش نہیں کرسکتے تو ناراض بھی مت کیجیے۔(5)جس سے بَن پڑے وہ اپنے سفیدپوش رشتےدار یا یتیم بچوں کی کفالت کا ذِمَّہ لے اور اُن کی مدد اس طرح کرے کہ انہیں بھی معلوم نہ ہو کہ ہماری مدد کرنے والا کون ہے۔(6)اِسلام میں کسى کو ناحق تکلىف دىنے کا تَصَوُّر ہی نہىں۔(7)ہمارے ساتھ کوئی حُسنِ سُلوک کرے یا نہ کرے، ہمیں ہر ایک کے ساتھ حُسنِ سُلوک کرنا چاہئے۔(8)یہ اُصول یاد رکھئے! کہ نَجاست کو نَجاست سے نہیں پانی سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی آپ کے ساتھ نادانی بھرا سُلوک کرے تب بھی آپ اُس کے ساتھ نرمی و محبَّت بھرا سُلوک کرنے کی کوشِش فرمائیے۔(9)گھر وغیرہ کی چاردیواری میں رہ کر زبان، آنکھوں اور پیٹ وغیرہ کا قفلِ مدینہ لگانا اپنی جگہ مگر مُعاشَرے (Society) میں لوگوں کے درمِیان رہ کر یہ سب کرنا کمال ہے۔ (10)سب کے ساتھ شفقت اور حُسنِ اَخلاق سے پیش آئیں گے تو لوگ آپ سے مَحبت کریں گے۔ مَحبت دو، مَحبت لو، نفرت کرو گے تو نفرت ملے گی۔(11)سکون، سنّتوں پر عمل کرنے اور سادَگی کے ساتھ زندگی گزارنے میں ہے۔(12)اسلامی معلومات کی کمی اور دین سے دُوری کی وجہ سے معاشرتی بُرائیاں بڑھتی جارہی ہیں۔(13)مسلمان ہر معاملہ شریعت کے عین مطابق ہی کرنے کا پابند ہے۔(14)مسلمان ہر لحاظ سے اسلام کا پابند ہے۔(15)مسلمان غیر مسلموں سے ایسا روّیہ نہ کریں، جس سے وہ مسلمانوں سے بدظن ہوکر اسلام قبول نہ کریں۔(16)ہر اُس کا م سے بچیں جو تنفیرِ عوام کا باعث ہو یعنی جس پرلوگ اُنگلی اُٹھائیں۔(17)خادمِ مسجد معاشرے کا مظلوم ترین فرد ہے، اس کے ساتھ بھی مالی تعاون کریں۔(18)معاشرے کی غلط رُسومات میں شامل ہوجانا مَردانگی نہیں بلکہ مَرد وہ ہے جو معاشرے کو اپنے پیچھے چلائے۔خاندان کےبارے میں:(1)والدین کو چاہیے کہ اولاد کی تَربیت کا ہُنر سیکھیں۔ (2)والدین سے خدمت لینے کی بجا ئے اِن کی خدمت کریں۔(3)بھوت پری کی کہانیاں بچوں کوبُزدل (ڈرپوک) بناتی ہیں۔ ہمارے بچے شیرکی طرح بہادر ہونے چاہیں۔(4)اللّٰہ کرے ہم اپنے بچوں کو کارٹون دیکھنے سے بچائیں۔(5)اولادٹوٹاہوابرتن نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ہرطرح کا سلوک کیاجاسکے ،اگراولاد کی دل آزاری کی تواس سے بھی معافی مانگنا ہوگی۔ (6)والدین اپنی اولا د پر یہ ظاہر نہ کریں کہ ہم اپنے فلاں بیٹے یا بیٹی سے زیادہ محبت کرتے ہیں ورنہ وہ احساسِ کمتری کا شکار ہوں گے اوریہ اُن کیلئے باعثِ ہلاکت ہوگا۔(7)ماں کو بچّے کے اَبّوکے سامنے بچّے کی غلطیاں نہیں بتانی چاہئیں اور نہ ہی والدین کو اپنے بچّوں کے لیے بد دُعا کرنی چاہئے۔(8)بچوں کو بار بار جھاڑنے سے وہ ڈھیٹ اورنافرمان ہوجاتے ہیں۔(9)اپنی اولادکو سمجھاتے ہوئے ایسے جملے نہ بولیں، جس سے ان کے دل میں آپ کی نفرت جڑپکڑجائے۔(10)تنگدَستی کے اَسباب میں سے یہ بھی ہے کہ ماں باپ کو نام لے کر پکارا جائے۔(11)اولاد کو چاہئے کہ ماں باپ کا علاج کروائےاگرچہ اپنا پیٹ کاٹ کر (یعنی روکھی سوکھی کھا کر اور تنگی سے گزارہ کرکے بھی) کروانا پڑے ۔(12)بیٹا عالِم ہو اور باپ غیرِ عالِم، پھر بھی بیٹے پر اپنے باپ کا اِحترام لازم ہے، اِحترام کرے گا تو دونوں جہاں میں سعید (یعنی خوش نصیب) ہوگا۔اِنْ شَآءَ اللہ (13)اللہ پاک کی رضا کے لئے شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے شوہر کو خوش کرنا بہت بڑے ثواب کا کام ہے۔(14)صابرہ، شاکرہ، میٹھے بول بولنے اور خُلوصِ دل سے سُسرال میں خدمت بجالانے والی کا گھر اَمْن کا گہوارہ بنا رہتا ہے۔(15) سُسرال میں زبان چلانے والی، سُسرال کی کمزوریاں مَیکے میں بیان کرنے والی اور سُسرال میں مَیکے کی تعریفیں کرنے والی کو شادی خانہ بربادی کا سامنا ہوسکتا ہے۔(16) شوہر کوخوش کرنا، اللہ تعالیٰ کی رِضا کے لیے ہو تو بہت بڑی عبادت ہے۔صحت اور علاج کے بارے میں: (1)کھانے میں نمک مناسب مقدار میں استعمال کرنا چاہئے کیونکہ اس کا زیادہ استعمال گُردوں کو ناکارہ کرسکتا ہے۔(2)گندم میں جَو کا آٹا مِلا کر پکائیں تو روٹی مُعْتدل اثر والی ہوجائے گی کیونکہ جَو کی تاثیر ٹھنڈی اور گندم کی تاثیر گرم ہوتی ہے۔ (3)کولیسٹرول کے مریضوں کے لئے زیتون شریف کا تیل استعمال کرنا فائدہ مند ہے۔(4)تھکاوٹ ہوجائے تو کىلا کھالیجئے۔ کہا جاتا ہے کہ دوکىلے کھانے سے تقریباً ڈىڑھ گھنٹے کى توانائى حاصل ہوتى ہے۔ (5)روزانہ(Daily) 12گلاس، یعنی کم و بیش 3لیٹر پانی پئیں اِنْ شَآءَ اللہ گُردوں کے امراض سے محفوظ رہیں گے اور قبض سے بھی بچیں گے۔(6)کھانے کے بعد ٹھنڈا پانی پینے سے باز نہیں رہ سکتے تو پتّے کی پتھری کے اِستقبال کے لیے تیار رہیے۔ (7)چھوٹی عمر والوں کو کثرت سے دودھ پینا چاہئے کہ دودھ پینے سے ہڈّیاں مضبوط ہوتی ہیں۔(8)کولڈ ڈرنک خوش ذائقہ زہر ہے۔(9)جسمانی بیماریوں سے جس طرح ڈر لگتا ہے کاش! اُسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ گناہوں کی بیماریوں سے ڈر لگا کرے۔ (10)آنکھوں اور کولیسٹرول کے مریضوں کو مچھلی کھانا مفیدہے۔(11)دواؤں (Medicine)کے نقصانات(Side Effects) بھی ہوتے ہیں، حتی الامکان دواؤں سے بچیں۔(12)کولیسٹرول ، شوگر اورہائی بلڈ پریشر یہ تینوں اَمراض اپنے اندر جمع نہ ہونے دیں،اگر یہ تینوں کسی میں جمع ہوجائیں اوروہ کھانے پینے میں پرہیز نہ کرے تو اُسے اچانک ہارٹ اٹیک(Heart Attack) ہوسکتاہے۔(13)اگر نظر کے عینک استعمال کرتے ہیں تو کمپیوٹر پر کام کرتے وقت بھی اسے پہنے رہئے۔(14) ہر 20 منٹ بعد اسکرین سے نظریں ہٹا کر 20 فٹ دور رکھی چیز کو 23 سیکنڈ دیکھ لیجئے۔(15)چائے زیادہ پینے سے بچنا چاہئے کہ اس سے گُردوں کو نقصان پہنچتا ہے۔(16)اگر کھانسی بہت زیادہ ہوتو ہر ایک گھنٹے بعدایک عدد لونگ اچھی طرح چباکر لُعاب سمیت نِگلنا مفید ہے۔مبلغین کےبارے میں:(1)بے علم اندھیرے میں تِیر چلانے والے کی طرح ہے۔نیکی کی دعوت دینے کے لیے بھی علم ضروری ہے۔(2)اگرآپ چاہتے ہیں کہ آپ کے ذریعے دعوتِ اسلامی ترقی کی منزلیں طے کرے، تو اپنے اَخلاق اور کردار کو اچھا بنائیے۔ (3)دین کا کام کرنا ہے تو خدمتِ دین کا مضبوط و مستحکم ارادہ کیجئے اور اس کے لئے عملی اِقدام بھی کیجئے۔(4)اِصلاح ایک پھونک مارنے سے نہیں ہو جاتی اس کے لیے حکمت وتَدَبُّر سے کام لینا پڑتا ہے۔ (5)دِل سَمُندر کی طرح وسیع ہونا چاہئے جس کا دِل بار بار دُکھ جاتا ہو اُس کے دوست بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور وہ دِین تو کیا دُنیا کا کام بھی نہیں کرسکتا۔(6)گناہ کرنے والے کا گناہ قابلِ نفرت ہے مگر وہ خود قابلِ ہمدردی ہے اور اُسے سمجھانے کی ضَرورت ہے۔(7)اپنے اندر قوتِ برداشت پیدا کرنے کی کوشش کیجئے کہ جب بھی آپ کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہو تو آپ اپنے غُصّے کو کنٹرول کرتے ہوئے صبرکرنے میں کامیاب ہوجائیں۔(8)کوئی کام کرنا ہو تو سنجیدہ(Serious) لینا ہو گا، انسان سنجیدگی سے کوئی کام کرے تو منزل پالیتا ہے۔(9)رَنگ باتوں سے کم اور صحبت سے زیادہ چڑھتا ہے، لہٰذا اچّھوں کی صحبت اپنائیے۔(10)دعوتِ اسلامی شرم و حیا اور حُسنِ اَخلاق کا دَرْس دیتی ہے۔(11) رِیاکاری سے بچتے ہوئے اِخلاص کے ساتھ نیک اَعمال کرنے کی عادت بنائیے کہ مُخلص شخص 1000پردوں میں چُھپ کر بھی نیک کام کرے، اللہ پاک اسے لوگوں میں مشہور فرما دیتا ہے۔(12)جو مدنی کام میں مکمل طورپر مصروف ہوتاہے، اُس کو فضول کاموں کیلئے وقت نہیں ملتا۔ (13)ہر اس بات اور حرکت سے بچئے جس سے کسی مسلمان کی دل آزاری ہوسکتی ہو۔مال و دولت کےبارے میں :(1)جس کے پاس جتنا حلال مال زیادہ ہوگا آخِرت میں اُس کا حساب بھی اُتنا ہی زیادہ ہوگا کیونکہ حلال کا حساب ہے اور حرام پر عذاب۔(2)دنیاوی مال و دولت کم ہونے پر افسوس کرنے کے بجائے نیکیاں کم ہونے پر افسوس کیجئے۔ (3)مال کا لُٹیرا چور ہے اور اس سے بچنے کے کئی ذریعے ہیں کیونکہ وہ نظر آتا ہے جبکہ نیکیوں کا لُٹیرا شیطان ہے اور یہ نظر نہیں آتا لہٰذا اس سے نیکیاں بچانے کے لیے زیادہ کوشش کرنے کی ضَرورت ہے۔ (4)مالداروں کے پاس عموماً علمِ دین کم ہوتا ہے، شاید اسی لئے وہ غریبوں کو حقیر جاننے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔(5)اے اپنے مکان کی تعمیر کی تکمیل کے مُنْتَظِر! اِس بات کو یاد رکھ! مکان بننے سے پہلے تیری قبر بھی بن سکتی ہے۔(6)یاد رکھئے! دنیا نہ کسی کے کام آئی ہے، نہ آئے گی اور نہ ہی قبر میں ساتھ جائے گی۔ (7)دنیاوی مال و دولت کم ہونے پر افسوس کرنے کے بجائے نیکیاں کم ہونے پر افسوس کیجئے۔زبان کےبارے:(10)جب تک ہم نےالفاظ نہ بولے، ہمارے ہیں، جب زَبان سے نکل گئے تو دوسروں کے ہوگئے، وہ جو چاہیں کریں۔(11) ایسے سُوالات نہ کیے جائیں جن کے باعِث کسی کے جھوٹ میں مبتلا ہو کر گناہ میں پڑنے کا اَندیشہ ہو۔(12)تعزىت کرتے وقت اَلفاظ کے چُناؤ مىں اِحتىاط بہت ضَرورى ہے ورنہ جھوٹ بھی ہو سکتا ہے۔ (13)مُحتاط اَلفاظ میں ہی تعزیت کی جائے مثلاً”آپ کے والِد صاحِب ىاآپ کى اَمّى کے اِنتقال پر آپ سے تعزىت کرتا ہوں! صَبر کىجئے گا!اللہ پاک آپ کے اَبو جان یا اَمّى جان کی بے حساب مَغفرت فرمائے۔ آپ کو صَبر اور صَبر پر اَجر عطا فرمائے۔“(14) میں دُعا میں ایسے جامع اَلفاظ لاتا ہوں جن میں ہر ایک خودبخود شامِل ہو جائے مثلاً یَااللہ ! میرے تمام مُریدین ،تمام طالبین اور سارے دعوتِ اسلامی والوں اور والیوں کی بے حساب مَغفرت فرما، یااللہ!پیارےمحبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی ساری اُمَّت کی بخشش فرما۔(15):بے ضرورت گفتگو سے دل سخت ہوجاتا ہے۔ جانوروں کے بارے میں:(1)جانور کی کٹائی ماہر گوشت فروش سے کروانی چاہیے۔(2)جانور کو رکھنے کے لیے نرم زمین ہونی چاہئے ،بڑے شہروں میں نرم زمین کی ترکیب نہ بنے تو جس جگہ جانوررکھنا ہووہاں ’’بالو ریت‘‘ بچھالی جائے۔(3)بچوں کو جانوروں کے ساتھ حسنِ سلوک کا ذہن دینا چاہیے۔(4)جانور پر ظلم کرنا مسلمان پر ظلم کرنے سے سخت ہے۔ (5)دینِ اسلام ہمیں کتّے بلّی کو بھی بلا اجازتِ شرعی تکلیف دینے کی اجازت نہیں دیتا۔

ملفوظاتِ امیر اہلسنّت سےماخوذ ان مدنی پھولوں کی خوشبو نے آپ کے دل و دماغ کو معطر کیا ہوگا،بلاشبہ ملفوظاتِ امیراہلسنّت کامطالعہ اسلام کی روشن تعلیمات پھیلانے اور باعمل مسلمان بنانے حددرجہ معاون ثابت ہوگالہذا اس کتاب کا اول تاآخر مطالعہ کرکے شیطان کےوار کو ناکام بنائیے، اللہ پاک کی رحمت شاملِ حال رہی تو دین ودنیا کی بے شمار بھلائیاں نصیب ہوں گی ۔ اِنْ شَآءَ اللہ

مولاناناصرجمال عطاری مدنی

اسکالر المدینۃ العلمیہ ( اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)


برھانِ ملّت کی عظمت وشان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ اعلیٰ حضرت علیہ رحمہ کے چہیتے شاگرد اور منہ بولے بیٹے تھے۔ آپ عموماً سفید عمامہ سر پر زیب فرماتے ،چہرہ نہایت خوبصورت اور نورانی تھا ،گفتگو فرماتے تو یوں معلوم ہوتا گویا پھول جھڑ رہے ہوں گستاخانِ رسول کا معاملہ آتا تو مداہنت کو راہ نہ دیتے، مسلکِ اہلسنت و جماعت کے نہایت معتبر اور مستند ترجمان کی حیثیت رکھتے تھے۔ تحریر و تقریر اوراجلاس ومحفل ہر جگہ فکر ِرضا کے امین و پاسبان تھے۔

نام و نسب :

عبد الباقی محمد برھان الحق بن عید الاسلام مولانا عبدالسلام بن مولانا عبدالکریم یوں ۔

آپ کا سلسلہ نسب اسلام کے پہلے خلیفہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ سے ملتا ہے یعنی آپ نسباً صدیقی ہیں ۔

القاب :

برھان الملت ، برھان الاسلام ، برھان الطب و الحمکۃ ۔

امام اہلسنت کی جانب سے عطاکردہ القاب و خطاب :

ناصر الدین المتین ، کاسر رؤس المفسرین ، قرۃ عینی و درۃ زینی ،برھان السنہ ،یا وادی و راحتہ کبدی ۔

ولادتِ باسعادت :

بروز جمعرات 21 ربیع الاوّل 1310 ھ بمطابق 1894ء بروز جمعرات کو بعد نمازِ فجر ہندوستان کے شہر جبل پور میں ہوئی، ہوا کچھ یوں کہ آپ کے دادا جان فجر کے بعد تلاوتِ قراٰنِ پاک فرما رہے تھے تو دادی جان نے ولادت کی خبر سنائی تو اس وقت آیۃ کریمہ ’’ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا‘‘ وردِ زبان تھی سنتے ہی فرمایا برھان آگیا ۔

تعلیم و تعلّم :

1315ھ میں رسمِ بسم اللّٰہ سے تعلیم کا آغاز ہوا ، آپ ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں " میری تعلیم صبح 12 بارہ بجے ظہر کے بعد عصر تک اور عشا کے بعد سے 10 بجے رات تک ہوتی تھی، عربی والد ِماجد سے اورفارسی چچا بشیر الدین صاحب سے پڑھی" 1329ھ میں آپ نے علوم ِعقلیہ و نقلیہ میں مہارت پیدا کرلی ،9 سال کی کم عمری میں پہلی بار مرتبہ بارگاہ ِعزت مآب ﷺ میں نعتِ رسول تحریر فرمائی جس مطلع کا مصرعہ یہ ہے:" نام تیرا یا نبی میرا مفرح جان ہے "

آپ نے 1329ھ کو فتوی لکھنا شروع کیا پھر 1335ھ سے دارالافتاء عیدالاسلام کی پوری ذمہ داری سنبھال لی ۔

بیعت و خلافت :

1335ھ میں ولیِ کامل، پیر ِطریقتِ، رہبرِ شریعت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے دستِ مبارک پر بیعت ہوئے پھر 26 جمادی الثانی 1337 ھ کو جبل پور میں جلسۂ عام میں امام ِاہلسنت نے 45 علوم اور گیارہ سلاسل طریقت و احادیث کی اجازت مرحمت فرمائی۔

ازواج و اولاد :

آپ کی اولاد میں 3 صاحبزادے اور 2 صاحبزادیاں تھیں :

(1)مولانا محمد انور احمد صاحب ۔

(2)مولانا مفتی محمود احمد صاحب۔

(3)مولانا محمد حامد احمد صدیقی صاحب۔

نعت گوئی :

یوں تو شاعری کی ابتداآپ نے کم عمری سے کردی تھی کما سبق جوانی میں ایسی ایسی نعتیں لکھیں جن کو بارگاہ ِامامِ علم و ادب میں قبولیت سے نوازا گیا ،تعریف و مدح کی سند جاری کی گئی، بائیس 22 سال کی عمر میں آپ کا لکھوا ہوا فارسی کلام جب بریلی شریف میں امام اہل سنت کے سامنے پڑھا گیا تو امام اہل سنت پاؤں سمیٹ کر باادب بیٹھ گئے پھر درج ذیل کلام کے اشعار پڑھے گئے:

حضور سیّد خیرُ الورٰی سلام علیک

بارگاہِ شفیعُ الورٰی سلام علیک

روم بسوئے تو بر ہر قدم کنم سجدہ

نوائے قلب شود سیدا سلام علیک الخ

کلام کے مکمل اشعار سن کراعلیٰ حضرت نے فرمایا :کہ یہ اشعار برھان میاں نے لکھے ہیں ماشاءاللہ ،بارک اللہ پھر فرمایا میں غور کررہا تھا کہ جامی کے طرز پر کس نے طبع آزمائی کی ہے، کہاں ہیں برھان میاں ۔حضرت برھان ملت دارالافتاءمیں بیٹھے تھے حکم سن کر حاضرِ بارگاہ ہوئے، سرکار ِاعلیٰ حضرت نے ارشاد فرمایا :حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللّہ عنہ نے حضور ﷺ سے نعت پیش کرنے کی اجازت چاہی حضور نے منبر پر کھڑے ہوکر سنانے کی اجازت دی، ( آپ ﷺ نے) نعت شریف کو بہت پسند فرمایا اورجسمِ اقدس پر شامی چادر تھی جوانہوں نےاتار کر حضرت حسان رضی اللّہ عنہ کے جسم پر اڑھادی، فقیر کیا حاضر کرے؟ اتنا فرما یااوراپنا عمامہ اتار کر حضرت برھانِ ملت کے جھکے ہوئے سرکو سرفراز فرما کر دعائے درازیِ عمر و ترقیِ علم و عمل و استقامت فرمائی ۔

امامِ اہلسنت کا عطاکردہ عمامہ شریف آج بھی تبرکات میں محفوظ ہے اورعید میلاد النبی و جلوس ِغوثیہ قادریہ میں تقریر کے دوران صاحب ِسجادہ اسے پہنتے ہیں۔

اشعار میں آپ کا تخلص ’’ برھان ‘‘ ہے آپ کی بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں نذرانۂ عقیدت دیوان جس کا نام ’’جذبات برھان‘‘ ہے۔

اساتذہ کرام :

امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ۔

جدِّ امجد حضرت مولانا شاہ عبدالکریم رحمۃ اللّٰہ علیہ ۔

والد ِمحترم حضرت عید الاسلام مولانا عبدالسلام قادری رحمۃ اللّٰہ علیہ۔

عم محترم حضرت قاری بشیر الدین رحمۃ اللّٰہ علیہ۔

مولانا ظہور حسین مجددی رحمۃ اللّٰہ علیہ۔

مولانا جلال میر پیشاوری رحمۃ اللّٰہ علیہ۔

مولانا رحم الہی رحمۃ اللّٰہ علیہ ( مدرس اول منظر الاسلام بریلی شریف )۔

صحبت امام اہلسنت :

علومِ ظاہری کے بعد باطنی علوم ( علوم شریعت و طریقت ) کے حصول کے لئے آپ بریلی شریف روانہ ہوئے اورکم وبیش 3 سال 1333ھ سے 1335ھ تک امام ِاہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کی صحبت میں رہے ۔

خاندانی امتیاز :

پروفیسر مسعود احمد صاحب جذباتِ برھان میں رقم طراز ہیں : یہ امتیاز صرف آپ کے خاندان کو حاصل ہے کہ آپ کے خاندان کے تین جلیل القدر شخصیات کو امام ِاہلسنت احمد رضا سے خلافت حاصل ہے۔

اسی طرح آپ کے خاندان کو یہ بھی امتیاز حاصل ہوا کہ امام احمد رضا کے خاندان کے باہر آپ کے پہلے خلیفہ حضرت عید الاسلام مولانا عبدالسلام قادری رضوی ہوئے اور حضرت مفتی محمد برھان الحق قادری رضوی آخری خلیفہ ہوئے جبکہ خاندان کے اندر یہ امتیاز صرف حجۃالاسلام مولانا حامد رضا خان قادری رضوی کو حاصل ہوا کہ وہ پہلے خلیفہ ہوئے اور حضرت مفتی ِاعظم ہند محمد مصطفیٰ رضا خان قادری رضوی آخری خلیفہ ہوئے ۔

مزید یہ کہ آپ کے چچا جان کو بھی فاضل ِبریلوی سے خلافت حاصل تھی بحمد اللہ خانوادہ اسلامیہ برھانیہ کو خانوادہ رضویہ سے جو قرب و فضل حاصل ہوا کسی اور خانوادے یا فرد کو حاصل نہ ہوا ۔

خلفا:

آپ کے خلفاکی فہرست طویل ہے جن میں چند مشہورخلفایہ ہیں :

حضرت مولانا مفتی محمود احمد قادری رحمۃ اللّٰہ علیہ۔

حضرت مولانا محمد انور صاحب۔

تاجُ الشریعہ حضرت مولانا مفتی اختر رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ۔

توصیفِ ملت حضرت مولانا توصیف رضا خان دام ظلہ ۔

شمس العلماء حضرت مولانا مفتی نظام الدین ابن حافظ مبارک صاحب۔

حضرت مولانا مفتی نظام الدین رضوی دام ظلہ ( مفتی جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ ) ۔

حضرت مولانا شمس الھدٰی قادری رضوی دام ظلہ ( استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ )

یوں ہی آپ کے مریدین و احباب کی فہرست بہت طویل ہے ان میں سے پاکستان کا ایک بہت بڑا نام جانشینِ مفتی ِاعظم پاکستان ،مہتمم جامعہ غوثیہ رضویہ، استاذ العلماء ، فقیہُ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ابراھیم القادری دام ظلہ بھی آپ کے مریدین میں سے ہیں۔

تقرر بحیثیتِ مفتی بریلی شریف :

1339ھ کو امامِ اہلسنت نے آپ کو بریلی شریف میں مفتی ِشرح کے منصب کے لئے تقرری فرمائی، برھان ِملت ایک مقام پر فرماتے ہیں :کہ اعلیٰ حضرت کے چھوٹے صاحبزادے مولانا مصطفیٰ رضا خان اور مولانا امجد علی صاحب ہم تینوں ساتھ کھانا کھاتے اور ہمارازیادہ وقت دارالافتاء ہی میں گزرتاتھا۔

زیارتِ حرمینِ شریفین :

پہلی بار زیارتِ حرمین کے لئےحضرت عید الاسلام مولانا عبدالسلام علیہ الرحمہ کے ہمراہ تشریف لے گئے پھر دوسری بار 1376ھ زیارت کے لئے روانہ ہوئے۔

تحریکِ پاکستان :

آپ آل انڈیا سنی جمیعت العلماء کے صدر بھی رہے، 1385ھ میں مسلم متحد محاذ چھتیس گڑھ کے صدر ہوئے، 1940ھ میں قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد ملک کے عرض و طول میں دورے کئے جن میں سندھ ،پنجاب اورخیبر پختونخواہ میں تقاریر فرمائیں۔ تحریکِ پاکستان کے لئے سخت جدو جہد کی ،قائد اعظم محمد علی جناح نے آپ کی کوشش کو بہت سراہا اوراظہار ِتشکر کے لئے خط بھی لکھا ۔

تصانیف :

حضرت برھانِ ملت رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تصانیف کی تعداد 26 ہے اور 9 خطبے جو ملک کی مختلف کانفرنسوں میں بحیثیت صدر و سرپرست بذاتِ خود تحریر فرمائے ۔خوش آئین بات یہ بھی ہے کہ آپ کی مطبوع و غیر مطبوع کُتُب محفوظ ہیں جن میں سے چند یہ ہیں :

( 1 ) المواھب البرہانیہ بالفتاوی السلامیہ و البرہانیہ یہ فتاوٰی 19 ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے جس کے ہزاروں صفحات ہیں بعض فتاوے تو اتنے اہم ہیں اور تفصیلی ہیں کہ ایک ہی فتوٰ ےمیں ایک ضخیم کتاب تیار ہو جائے ۔

( 2 ) البرہان الاجلى فیما یجوز بی تقبیل امکان الصلحاء ۔

( 3 ) درۃ الفکر فی مسائل الصیام و عید الفطر ۔

(4 ) اجلال الیقین بتقدیس سید المرسلین ( اس کتاب پر سید اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی تقریظ بھی موجود ہے ) ۔

( 5 ) اتمام حجۃ۔

( 6 ) روح الوردہ فی نفخ سوالات ہردہ ۔

( 7 ) اسلام اور ولایتی کپڑا ۔

( 8 ) چہار فقہی فتوے ۔

( 9 ) المسلک الأظہر فی تحقیق آزر ۔

( 10 ) فقہ الہلال الشہادات رویۃ الہلال ۔

( 11 ) المعجرۃ العظمی المحمدیہ ۔

( 12 ) تعلیم الاسلام فی تمییز الاحکام ۔

( 13 ) إکرامِ امام احمد رضا۔

( 14 ) صیانۃ الصلوات عن حیل البدعات ۔

( 15 ) حیات اعلی حضرت کا ایک ورق ۔

( 16 ) سوانح امام دین مجدِّد مأہ ِحاضرہ ۔

( 17 ) إکرامات ِمجدد اعظم ۔

( 18 ) نیر جلال مجدِّد اعظم ۔

( 19 ) حالات ارتقاء عیدالسلام۔

( 20 ) مسئلہ گائے قربانی ۔

( 21 ) چاند کی شرعی حیثیت۔

( 22 ) زبدۃ الاصفیاء صدرُ الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی ۔

( 23 ) حیات حضرت مولانا عبدالکریم صاحب۔

وصال :

26 ربیع الاول 1405 ھ بمطابق 20 دسمبر 1985ء شبِ جمعہ 95 سال کی عمر میں دار ِفانی کو رخصت کرتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہا۔ نماز جنازہ وصیت کے مطابق حضرت مولانا مفتی محمود احمد رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پڑھائی۔ آپ کامزارِ مبارک جبل پور شریف میں مرجعِ خلائق ہے۔

عاقبتِ برھان کی فیض رضا سے بن گئی

ہے یہی اپنا وسیلہ بس خدا کے سامنے

اللہ عزوجل ان پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے ،آمین۔

حوالہ جات :

تذکرہ ٔبرھانِ ملت ۔برھانِ ملت سے ایک انٹرویو۔حیاتِ برھانِ ملت۔جذباتِ برھان۔

از قلم : احمد رضا مغل مدنی

(متخصص فی الحدیث ، عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی)

25 اکتوبر 2021

بمطابق 18 ربیع الاول 1442


شراب کی تباہ کاریاں

Tue, 2 Nov , 2021
2 years ago

٭شراب نَجِس(ناپاک)اور شیطانی کام ہے، اس سے بچنا فَلاح و کامیابی کی عَلامَت ہے۔ (المائدۃ: 90،ملخصاً) ٭شراب باہمی بُغْض و عَدَاوَت پیدا کرتی اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذِکْر سے روکتی ہے۔ (المائدۃ: 91،ملخصاً) 5فرامینِ مصطفےٰﷺ:(1) ہر نشہ آور چیز شراب ہے اور ہر شراب حَرام ہے۔ (مسلم، ص 1109، الحدیث: 2003)(2)اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے شراب ،اس کے نِچوڑنے والے اور جس کیلئے نِچوڑی جائے اس پر، پینے والے اور پلانے والے پر، لانے والے اور جس کیلئے لائی جائے اس پر، بیچنے و خریدنے والے پر اور اس کی قیمت یعنی کمائی کھانے والے تمام اَفراد پر لعنت فرمائی ہے۔ (المستدرك، 5/199، الحدیث: 7310) (3)شراب کو دِیوار پر دے مارو کیونکہ یہ اس شخص کا مَشروب ہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور یومِ آخِرَت پر ایمان نہیں رکھتا۔ (حلية الاولیاء،6/ 159، الحدیث:8148)(4)شرابی جب شراب پیتا ہے تو اُس وَقْت وہ مومن نہیں ہوتا۔ (مسلم، ص 48، الحدیث: 57)(5)شراب سب سے بڑا گناہ اور تمام برائیوں کی جڑہے، شراب پینے والا نماز چھوڑ دیتا ہے اور (بعض اوقات) اپنی ماں، خالہ اورپھوپھی تک سے بدکاری کا مُرْتکِب ہو جاتا ہے۔(مجمع الزوائد،5/ 104، الحدیث:8174، مفھوماً)

شراب کے 21نقصانات:شراب کی وجہ سے اِنسان کے اَخلاق تو تباہ ہوتے ہی ہیں، ساتھ میں مُعَاشَرے پر بھی اسکے گہرے اَثرات مُرَتَّب ہوتے ہیں: ٭شراب کی وجہ سے جرائم کی شرح حد سے بڑھ جاتی ہے٭شرابی کو اپنے پرائے کی تمیز نہیں رہتی ٭شرابی والدین کے بچوں پر مَنْفی اَثرات مُرَتَّب ہوتے ہیں٭شراب بندے کی عقل میں فُتور ڈال دیتی ہے ٭شراب مال کو ضائع اور برباد کرتی اور تنگدستی کا سَبَب بنتی ہے٭شراب کھانے کی لذّت اور دُرُسْت کلام سے محروم کردیتی ہے٭شراب ہر بُرائی کی کنجی ہے اور شرابی کو بَہُت سے گناہوں میں مبتلاکر دیتی ہے ٭یہ شرابی کو بدکاروں کی مجلس میں لے جاتی ہے، اپنی بد بو سے اس کے کاتِب فرشتوں کو اِیذا دیتی ہے ٭یہ شرابی پر آسمانوں کے دروازے بند کردیتی ہے،40دن تک اس کا کوئی عَمَل اوپر پہنچتا ہے نہ دُعا ٭یہ شرابی کی جان اور ایمان کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ اس لئے مرتے وَقْت اِیمان چھن جانے کا خدشہ رہتا ہے ٭اِبتدا میں بدنِ اِنسانی شراب کے نقصانات کا مُقَابَلہ کر لیتا ہے اور شرابی کو خوشگوار کیفیت مل جاتی ہے مگر جلد ہی داخِلی(یعنی جسم کی اندرونی) قوّتِ برداشْتْ خَتْم ہو جاتی ہے اور مُستقِل مُضِرّ اَثَرات مُرتَّب ہونے لگتے ہیں مثلاً شراب کا سب سے زیادہ اَثَر جگر (کلیجے) پر پڑتا ہے اور وہ سُکڑنے لگتا ہے٭گُردوں پر اِضافی بوجھ پڑتا ہے جو نِڈھال ہو کر ناکارہ ہو جاتے ہیں٭شراب کی کثرت دِماغ کو مُتَوَرَّم (یعنی سُوجن میں مُبتَلا) کرتی ہے٭اَعصاب میں سَوزِش ہو جاتی ہے نتیجۃً اَعصاب کمزور اور پھر تباہ ہو جاتے ہیں٭ مِعدےمیں سُوجن ہو جاتی ہے٭ہڈّیاں نرم اور خَستہ (یعنی بَہُت ہی کمزور) ہو جاتی ہیں٭شراب جسم میں موجود وِٹامِنز کے ذخائر کو تباہ کردیتی ہے، وِٹامِن B اورC اِس کی غار تگری کا بِالخصوص نشانہ بنتے ہیں٭شراب کے ساتھ تمباکو نوشی کی جائے تو اِس کے نقصانات کئی گُنا بڑھ جاتے ہیں اور ہائی بلڈ پریشر، سٹروک اور ہارٹ اٹیک کا شدید خطرہ رہتا ہے ٭بکثرت شراب نوشی تھکن، سر درد، متلی اور شدّتِ پیاس میں مبتَلا کردیتی ہے٭ بسااَوقات بَلا نوشی سے دل کی حرکت اور عَمَلِ تَنَفُّس رُک جاتا جس سے فوری موت واقع ہوسکتی ہے۔

شرابی کی دنیا میں سزا:شراب نوشی،شرابی پر 80 کو ڑے واجِب کردیتی ہے لہٰذا اگر وہ دنیا میں اس سزا سے بچ بھی گیا تو آخِرَت میں مخلوق کے سامنے اسے کوڑے مارے جائیں گے۔

شرابی کی قَبْر میں سزا:قَبْر میں شرابی کا چہرہ قبلےسے پھِرجاتا ہے۔ (الکبائر ، شرب الخمر،ص96) اس پر دو سانپ مُقَرَّر کر دیئے جاتے ہیں جو اس کا گوشت نوچ نوچ کر کھاتے رہتے ہیں۔ (شرح الصدور، ص 172)

شرابی کی آخرت میں سزا: ٭شرابی بروزِ قِیامَت اس حال میں آئے گا کہ اس کا چہرہ سیاہ ہو گا، زبان سینے پر لٹک رہی ہو گی، تھوک بہہ رہا ہو گا اور ہر دیکھنے والا اس سے نفرت کرے گا۔(الکامل فی ضعفاء الرجال، 2/ 502) ٭آگ کی سُولی پر لٹکایا جائے گا، پیاس لگنے پر کبھی بدبودار پسینہ تو کبھی کھولتا پانی پلایا جائے گا، کھانے کو کانٹے دار درخت ہوں گے، پاؤں میں آگ کی جوتیاں پہننے کی وجہ سے دِماغ کھولنے لگے گایہاں تک کہ ناک اور کان کے راستے بہہ جائے گا۔ ٭شرابی جہنّم میں فرعون و ہامان کا پڑوسی ہو گا۔ (نیکیوں کی جزائیں اور گناہوں کی سزائیں، ص22تا 31،ملخصاً)

شراب اور دیگر گناہوں  سے بچنے اور سنّتوں بھری زِنْدَگی گزارنے کے لئے دعوتِ اِسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے۔


دین ِاسلام  وہ واحد مذہب ہے جس میں روحانیت کی بنیاد ایسے قوانین پر رکھی گئی ہے جو انسانی جبلّت کے موافق اور اس کی دنیوی اور اُخروی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تزکیۂ نفس اور تصفیۂ باطن کے ان روشن اُصولوں پر عمل پیرا ہوکرمسلمانوں نےدلوں پر حکومت کی ۔ تزکیۂ نفس اور تصفیۂ باطن کے اسلامی اصولوں کو ”تصوف“کا عنوان دیا گیااور اس کے ماہرین کو شیخ اور ولی کے معزز القاب سے جانا جانے لگا۔

ہند میں تصوف کی آمد:

جب ہندوستان میں اسلام کا نور پہنچا،مسلمان یہاں دعوت ِ دین کا جذبہ لے کر آباد ہوئے، اپنے حسن ِ اخلاق اور بلند کردار سے لوگوں کو اسلام کی جانب مائل کیاتو دیکھتے ہی دیکھتے لوگ اسلام لانے لگے پھر ایک زمانہ وہ آیا جب مسلمانوں نے یہاں تقریباًسات سو سال حکومت کی ۔زمین پر حکومت کی تاریخ کو سات سو سال کی قید میں مقید کیا جاسکتا ہے،تاریخی یادگار کے طور پر محفوظ کیا جاسکتا ہے اورزمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ذہنوں سے مٹایا جاسکتا ہےلیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ دلچسپی کی حامل ہے کہ صوفیائے کرام رحہم اللہ تعالیٰ نے اپنے اعلیٰ اوصاف اور لازوال کردار کی بنا پر دلوں پر حکومت کی لہٰذا ان صوفیاء کے اخلاص ہی کا نتیجہ ہے کہ نہ تو کبھی لوگوں کے دلوں سے محبت ِ اولیا کے آثار کو کوئی جبر مٹا سکا ہے اور نہ کوئی قہر فراموش کرواسکا ہے۔ جاگتی آنکھوں سے یہ ناقابل ِتردید حقیقت دیکھنے کے بعد یہ کہہ سکتے ہیں کہ دلوں پر آج بھی اولیائے کرام کا راج ہے ،یہ حکومت نہ تو کبھی کمزور ہوئی نہ ہی ان سرکاروں کا بول بالا ہونے سے کوئی روک سکا ہے ۔

سرزمینِ دہلی کا پس منظر

توران قوم کے راجہ نے ایک شہر آباد کیا ،اس شہر کی مٹی بہت ہی نرم تھی اس وجہ سے لوہے کی سلاخیں زمین میں مضبوطی کے ساتھ نصب ہوجاتی تھیں اس لیے اس نئے شہر کا نام”دہلی“رکھا گیا۔آٹھ تورانی راجاؤں نے اس شہر پر حکومت کی ،راجہ پتھوار کی حکومت آئی اور اس نے سلطان شہاب الدین غوری سے شکست کھائی اوریوں دہلی پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی ۔(تاریخ فرشتہ ،۱/۱۳۸)

جب منگولوں کی وجہ سے وسط ایشیامیں ایک طوفان اٹھا ہوا تھا تو اس وقت علما و مشائخ اور شعرا و ادبا کا رُخ دہلی کی جانب ہوااوراس طرح دہلی ایک بین الاقوامی شہر بن گیا۔دہلی اپنی علمی ،سماجی،ثقافتی ، علاقائی حیثیت کی بنا پر ہمیشہ توجہات کا مرکزبنااور اپنی اسی اہمیت کی بنا پر تقریبا ہر دور ہی میں ”دارالحکومت “ رہا ہے ۔یوں تو ہندوستان کے کئی شہر وں میں بڑے بڑے جلیل القدر اور عظیم المرتبت صوفیا آرام فرماہیں ، مگردہلی کے مشائخ کی تاریخ کھنگالنے کے بعد یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ صوفیائے کرام کی آمد اور سکونت کی بدولت دہلی ”دارالاولیا“ قرار پایا ۔

دارالاولیا دہلی کے نصیب کی بھی کیا بات ہے ،یہ وہ مبارک سرزمین ہے کہ جس نے سلطانُ الہند خواجہ معین الدین سیّدحسن اجمیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے قدموں سے فیض پایا ہے اور خواجہ ٔ خواجگان نے یہاں پرچم ِ اسلام نصب فرمایااس سلسلے میں یہ واقعہ ملاحظہ کیجیے چنانچہ جب حضرت معین الدین اجمیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ غزنی سے دہلی تشریف لائے تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کچھ لوگوں کو شر ک میں مبتلا دیکھ کر اسلام کی دعوت دی ،زبان ِ خواجہ سے دعوتِ حق سُن کر ان کے دل حق قبول کرنے پر آمادہ ہوئے اور فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے ، اس گر وہ میں ایک سردار بھی موجود تھاجسےلسانِ خواجہ سے حمید الدین کا لقب عطا ہوااور پھریہی حمید الدین ”حضرت حمید الدین دہلویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ“کے نام سے معروف ہوئے ۔(تحفۃ الابرار،ص۹۴)

چونکہ مشائخِ کرام کا کردار خُلقِ محمدی کا آئینہ دار تھا اسی لیے لوگ ان کی جانب کھنچے چلے آتے ،لوگوں کی وارفتگی جاننے کے لیے یہ دلچسپ واقعہ ملاحظہ کیجیے چنانچہ جب سلطان شمس الدین التمش کے عہد میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےدہلی کو اپنا مسکن بنا یا تو لوگوں کے ساتھ ساتھ بادشاہ بھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا گرویدہ ہو گیا ۔ جب خواجہ معین الدین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اپنے ساتھ اجمیر لے جانا چا ہا تو اس خبر سے دہلی میں کہُرام مچ گیا اور جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دہلی سے رخصت ہونے لگے توسلطان شمسُ الدین التمش سمیت تمام شہر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پیچھے نکل کھڑا ہوا ،لوگوں کے شوق و وارفتگی کا عالَم یہ تھا کہ جہاں قطبُ الدین بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ قدم رکھتے اس جگہ کی خاک کو تبر ک سمجھ کر اٹھا لیاجاتا ،یہ تمام صورت ِ حال دیکھ کر خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:بختیار! تم یہیں رہو کیوں کہ مخلوق خدا تمہارے جانے سے اضطراب کا شکار ہےاورمیں ہرگزاس بات کو جائز نہیں رکھتا کہ بے شماردل خراب و کباب کروں ،جاؤ! میں نے اس شہر کو تمہاری پناہ میں چھوڑا ۔ (سیر اولیا،ص۱۱۳)

چندمشائخ دہلی کے اسمائے گرامی

مشائخ کرام نے دہلی کو میدان ِ عمل بناکر خون ِ جگر سےاسلام کی آبیاری کی،اِن فلک پیما شخصیتوں میں چند کے نام ملاحظہ کیجیے :

(1)قطب الاقطاب قطب الدین بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(2)حضرت قاضی حمید الدین ناگوری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(3)حضرت خواجہ بد ر الدین غزنوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(4) حضرت خواجہ نجیب الدین متوکل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(5)شیخ المشائخ حضرت نظام الدین اولیا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(6)حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(7)حضرت خواجہ امیر خسرو رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(8)حضرت خواجہ شمس الدین محمد یحی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(9)حضرت خواجہ علاؤ الدین نیلی چشتی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(10)حضرت خواجہ محی الدین کاشانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(11)حضرت سیّدابراہیم ایرجی قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(12)حضرت مخدوم سماء الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(13) حضرت خواجہ باقی باللہ نقشبندی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(14)حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(15)حضرت شاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(16)محبّ النبی حضرت خواجہ فخرالدین دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (17)حضرت خواجہ مرزاجان مظہر شہید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(18)حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(19)حضرت شاہ محمد فرہاد دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(20)حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(21)حضرت شاہ محمد آفاق مجددی دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(22)حضرت خواجہ ابو سعیدمجددی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

ان کے علاوہ سینکڑوں مشائخ کرام ہیں جنہوں نے دہلی کی سرزمین کو اپنا مسکن بنایا ۔ دہلی میں آرام فرمامشائخ کرام کی حیات ِ مبارکہ کے جس گوشے کا بھی مطالعہ کیجیےان میں”ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ “کی عملی تفسیر ملے گی۔مشائخ دہلی کی گفتگو کو فصاحت و بلاغت کی چاشنی شگفتہ بنا دیتی، تعبیر و تمثیل کی ندرت اور ترغیب و ترہیب کی دھمک متلاشیان ِحق کے لیے رہنما بن جاتی۔ مشائخِ دہلی حق کی سربلندی کے لیے ہر دم کوشاں رہے اور اپنی پوری زندگی دعوت ِ دین میں بسر کی۔

اصلاح احوال کے سلسلے میں مشائخ دہلی کی کوششیں

مشائخ دہلی دنیاکی ہر کشش سے بے نیاز ہوکر دنیا میں رہتے ۔نفس سے ہر دم نبرد آزما رہتے ،بظاہر بے سر و سامان دِکھنے والوں کے پاس توکل کی دولت وافر مقدار میں موجود ہوتی ،جو بھی ان کے در پر حاضر ہوتا اس کے دل میں خلوص کا نور بھر دیتے ،درس و تدریس کا اہتمام ہوتا جس میں ملفوظات کے ذریعے اصلاحِ احوال کی قابل ِ قدرکوششیں کی جاتیں،ان حضرات نے اپنی زندگی کو مخلوق ِ خدا کے لیے وقف کیا ،جہاں بھی تشریف لے گئےنورِ شریعت سے جہالت کے اندھیروں کا خاتمہ کیا،ہر علاقے کے لیے مستقل بنیادوں پر تربیت کا انتظام کیااورلوگوں کو اپنا عقیدت مند پاکر دین ِ اسلام کا خادم بنادیا ۔

مشائخ ِ دہلی نے دعوت ِ دین کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی اور دین ِ اسلام کی ترقی کے لیے جن جن شعبوں میں خصوصی توجہ دی ان کا اجمالی تذکرہ ملاحظہ کیجیے :

تدریس :

تدریس کا میدان نہایت وسیع اوراپنی افادیت کے اعتبار سے بہت ہی زیادہ اہمیت کاحامل ہے اسی لیے مشائخ کرام نے تدریس پر خصوصی توجہ دی ،مشائخ کی تدریس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دہلی میں ایک ہزار مدرسے قائم ہوئے جس میں لاتعداد تشنگان ِ علم اپنی پیاس بجھانے کےلیےان کے در پر حاضری دیتے ۔(تاریخ مشائخ چشت ، ص۱۷۳)

مساجد کی تعمیر

اسلامی معاشرے میں مسجد کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اسی لیے مشائخ کرام نے مساجد کی تعمیر اور آباد کاری پر خصوصی توجہ دی ۔

دیگر ارکان اسلام پر عمل

نماز کی طرح زکوٰۃ، روزہ اور حج بھی ارکانِ اسلام ہیں ،مشائخ نے لوگوں کو ارکان ِ اسلام کا پابند بنانے کے لیے بھی کوشش فرمائی ۔

ہر حال میں شریعت کی پیروی :

تصوف کی بنیادی روح اپنی ذات میں اطاعتِ الہی کا جذبہ پیدا کرنا ہے اور اطاعتِ الہی کے لیے ضروری ہے کہ بندہ ہر حال میں احکامِ شریعہ کو حرزِ جاں بنائے اسی لیے مشائخ کرام نے لوگوں کو شرعی احکام کا پابند بنانےکے لیےمستقل بنیادوں پر ذہن سازی کی ۔

اصلاح نیت:

دعوت ِ دین کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ”جذبہ ٔ خلوص“ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہےاور جذبہ ٔخلوص کو کسی بھی قسم کی آمیزش سے پاک رکھنے کے لیے ”اصلاحِ نیت“بہت ضروری ہے اسی لیے مشائخ کرام نے نیت کی درستی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

استقامت :

سیدھا راستہ اپنا نا اور پھر اس پر ثابت قدم رہنااللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خصوصی انعام ہے، مشائخ کرام نے اپنے معمولات کے ذریعے خلفا اور مریدین کو استقامت کی اہمیت ذہن نشین کروائی ۔

عفو و درگزر:

امر بالمعروف اور نھی عن المنکر وہ راہ ہے جس میں جگہ جگہ بداخلاقی کے کانٹے بچھائے جاتے ہیں اور طعن و تشنیع کے سنگریزے برسائے جاتے ہیں جس کا مقابلہ کرنے کے لیے ”عفو و درگزرکی سنت“ ہی سب سے محفوظ پناہ گا ہ ثابت ہوتی ہے،مشائخِ کرام کی دینی خدمات کا دائرہ کار جوں جوں وسیع ہوتا گیا دشمنان ِ دین اور حاسدین کی طرف سے ایذا رسانی کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر انہوں نے عفو و درگزر کی عظیم ُالشان مثالیں قائم فرماکر دشمن کے منصوبے خاک میں ملادیے ۔

تصنیف و تالیف:

کتاب کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے کتاب اپنے مصنف کو لوگوں کے دلوں میں زندہ رکھتی ہے اورصدیاں گزرنے کے بعدبھی کتاب ”مصنف کی مجلس“میں لے جاتی ہے ،مشائخِ دہلی نے تصنیف و تالیف کی جانب بھی توجہ دی اور کئی علوم پر گراں قدر کُتُب یادگار چھوڑیں ۔

مشائخِ دہلی بعض اوقات زیرِ مطالعہ کتاب کے پیچیدہ مسائل حل فرمادیتے جیساکہ سلسلۂ عالیہ قادریہ کے مشہور بزرگ حضرت سیّدابراہیم ایرجی قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ہر علم کی بے انتہا کتابیں مطالعہ کی تھیں اور اس کی تصحیح بھی فرمائی تھی، آپ کتابوں کے مشکل ترین مسائل کو اس طرح حل کردیتے کہ معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی آپ کے حل کردہ مشکلات کو بغیر استاد کی مدد کے بخوبی سمجھ جاتا ، آپ کے وصال کے بعد آپ کے کتب خانے سے اتنی زیادہ کتابیں برآمد ہوئیں جو ضبطِ تحریر سے باہر ہیں،ان میں سے اکثر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تھیں۔(تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ، ص۲۰۸)

مشائخ دہلی کی دعوت کے اثرات

مشائخِ دہلی کی آمد اور سکونت ساکنان ِدہلی کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ، مشائخ کرام کی دعوت سے اُن کا ظاہر سُدھر ا اور اُن کے باطن کو پُر رونق بنا گیا ۔ مشائخ ِدہلی کی دعوت کے اثرات کے مختلف پہلو ملاحظہ کیجیے :

(1)علم کے اجالوں سے جہالت کی تاریکی کا خاتمہ :

انسان کو اشرف المخلوقات کے لقب سے امتیازی مقام دلانے والا وصف” علم “ہے۔علم کا نور انسان کومعاشرے میں رہن سہن کا ڈھنگ سکھلاتا ہے،طرز ِ معاشرت میں عمدگی پیداکرنے کا سلیقہ بتا تا ہے ، بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت کرنے کی اچھی عادت اپنانے کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔صوفیائے کرام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن جہاں بھی تشریف لے گئے علم کی شمع روشن کی اور جہالت کی تاریکی کا خاتمہ کیا ۔کبھی تو میدانِ تدریس میں اتر کر جہالت کو کیفرِ کردار تک پہنچایا اور کبھی اپنے علمی فانوس کے ذریعے کسی بھٹکے ہوئے کو راہ دکھانے کی سعیٔ پیہم فرمائی۔

حضرت نظام الدین اولیا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں کسی بھی قسم کا کوئی اشکال پیش ہوتا تو آپ نو رِ باطن سے اس کا شافی جواب عطا فرماتے یہی وجہ تھی کہ شہر دہلی میں جو لوگ تصوف کا انکار کرتے تھے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے تبحر علمی نے انہیں اس قدر متاثر کیا کہ وہ آپ کے حلقہ ٔ ارادت میں شامل ہوگئے۔(محبوب الہی،ص۲۲۶ملخصا)

مشائخ کرام علیہم الرحمہ کے وجودِ مسعود سے دہلی علم وعرفان کی مشکبار پُر رونق اکیڈمی بن چکا تھاجس کی بناپردہلی کو” رشک بغداد“ قرار دیا گیا ۔

(2)اخلاقی پستی کا خاتمہ

جس طرح دماغ کو معطر کرنے کے لیے ”پھو ل “میں ”خوشبو “ کا ہونا ضروری ہے بالکل اسی طرح ”علم “ کو انسانیت کے لیے قابل اِنتفاع بنانے کے لیے ” حسن اخلاق کی خوشبو“کاہوناضروری ہے کیوں کہ جس”علم“میں”بداخلاقی“ کی بو ہو اسے حاصل کرنے سے انسان پڑھا لکھا جاہل بن جاتا ہے ۔

دہلی کےمشائخ کرام نے جہاں فروغ ِ علم کے سلسلے میں کوششیں فرمائیں وہیں انسان کو عمدہ اخلاق اپنانے سے متعلق خصوصی تربیت دی اور اپنی بافیض صحبت سے معاشرے میں پیدا ہونے والی اخلاقی برائیوں کا خاتمہ فرمایا۔

(3)شیر و شکر کرنے کی کوشش:

افراد کے مجموعے کا نام معاشرہ ہے اوراس مجموعے کو توڑنے میں باہمی رنجشوں،آپس کی ناچاقیوں اور تلخیوں کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے ۔مشائخ کرام نے عمدہ نصیحت اور حسن ِ تدبیر کے ذریعے بکھرے ہوئے خاندانوں کی رہنمائی کی اور ان میں صلح جوئی کے جذبات ابھارے،عفو و درگزر اپنانے کی ترغیب دلائی اورنفرت کاخاتمہ کرکے شیر و شکر ہوکر رہنے کی عملی تربیت دی جس کی بدولت اپنے بھائی کے لیے بھلائی چاہنے کے جذبے کو فروغ ملا۔

(4)علم نافع کے فروغ کے لیے کوشش

انسان کی ہلاکت و بربادی میں”علم غیرنافع“کا کردار ہوتا ہے،اس کی بدولت معاشرے میں فساد پھیلتا ہے اوربعض اوقات فاسد نظریات کے فروغ کی وجہ سے معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔دہلی میں جب علم کو عروج نصیب ہوا تو اس وقت ایسے عناصر نے بھی پرورش پائی جن کا علم ”غیرِنافع“ ہونے کی وجہ سے ریت کا پہاڑ تھا اور اس غیرنافع علم کی وجہ سے غلط نظریات پھیل رہے تھے تو ایسے وقت میں مشائخ کرام ہی نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ان عناصر کا سدِ باب کیا اور ان کے مہلک اثرات سے معاشرے کو محفوظ رکھنے کے لیے علم ِ نا فع کی اشاعت میں بھر پور کردارادا کیااور حق و باطل کے مابین خطِ امتیاز کھینچ کرلوگوں کو گمراہی سے بچایا۔

(5)اصلاح اعمال کے لیے کوشش

رب ِ کریم کی بارگاہ سے ایمان لانےاور عملِ صالح پر استقامت اختیار کرنے پر جنّت کی بشارت سے نوازا گیا ہے اور بے عملی پر عذابِِ نار سے ڈرایا گیا ہے لیکن جب بھی انسان بشارت و تخویف کو فراموش کرتا ہےتواس کا نامہ ٔ اعمال برائیوں سے پُر ہونے لگتا ہے اور پھر بدی کی کثافت نامۂ اعمال کی چمک دمک کو ختم کردیتی ہے ۔مشائخِ دہلی نے ”اصلاحِ اعمال “پر بھر پور تو جہ دی اور اپنی فراستِ ایمانی سے ایسے اقدامات کیے کہ جن کی بدولت لاتعداد افراد تو بہ کرکے راہ راست پر آئے ۔

(6)مفادپرست کلچر کا خاتمہ اور خیر خواہی کو فروغ

اپنا فائدہ سوچنے کی روش سے انسان کے اندر بے شمار برائیاں پیدا ہوتی ہیں جس کی وجہ سے کبھی انسان حرص و لالچ کے جال میں پھنس جاتا ہے ، کبھی تکبرکا آسیب اس سے چمٹ جاتا ہے تو کبھی حسد کی آگ میں کود پڑتا ہےاور آخر کارمفادپرستی کی دیمک کے سبب معاشرتی اقدار رفتہ رفتہ کھوکھلی ہوتی ہیں۔اسی لیےمشائخِ دہلی دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنےاور اس کے ازالے کے لیے کوشاں رہنے کی خصوصی تربیت فرماتے جیساکہ خواجہ نظام الدین اولیاء رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ لوگوں کے دکھ درد سے حددرجہ رنجیدہ ہوتےاورخلقِ خدا کی پریشانی سے پریشان ہوجاتے، ایک دن خانقاہ میں لوگوں کا ہجوم تھا، سایہ نہ ملنے کی وجہ سے کچھ لوگ دھوپ میں بیٹھے ہوئےتھے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جب یہ دیکھا تو لوگوں سے فرمایا:مل جل کر بیٹھ جاؤ تاکہ دوسروں کے لیے بھی جگہ نکل آئے۔دھوپ میں لوگ بیٹھے ہیں اور میں جل رہا ہوں۔(محبوب الہی،ص۲۳۶)ایک موقعے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا:جو شخص میرے پاس آتا ہے اپنا حال مجھ سے بیان کرتاہے اس سے دو چند فکر و تردد اور غم و الم مجھے ہوتاہے ،بڑا سنگدل ہے وہ جس پر اپنے دینی بھائی کا غم اثر نہ کرے۔(محبوب الہی،ص۲۳۷) ایک مرتبہ یہ ارشاد فرمایا: قیامت کے بازار میں کسی سودے کی اتنی قیمت نہ ہوگی جتنی دل کا خیال رکھنےاور دل خوش کرنے کی ۔(محبوب الہی،ص۲۳۷)

مشائخ دہلی نے اپنے اپنے عہدِزریں میں مفاد پرستی کے کلچر کے خاتمے کے لیے بھر پور کوشش فرمائی اور لوگوں کہ یہ ذہن دیا کہ

1۔ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیں اور اپنے اندر ایثار کا جذبہ پیدا کریں۔2۔مخلوق پر رحم کرکے خالق کی رحمت کے حقدار بنیں۔3۔کسی کو خود سے کم تر نہ سمجھیں بلکہ عاجزی اختیار کرتے ہوئے ہر ایک کو خود سے برتر جانیں۔4۔مسلمان کی بروقت مدد کرکے اس کی قلبی طمانیت کا سبب بنیں ۔

الغرض یہ کہ مشائخ دہلی نے بھرپور کوشش فرمائی کہ مسلمان ایک دوسرے کے خیرخواہ بنیں۔

(7)عبد و معبود کے مابین تعلق اُستوار کرنے کی کوشش

مشائخ کرام مخلوق کو خالق سے جوڑتے ہیں اوراپنی دعوت کے ذریعے انسان کو مقصد ِ تخلیق”عبادت “سے آشنا کرواکر اُسےخالق ِ حقیقی کے در پر جھکا دیتے ہیں ،مشائخ دہلی نے بھی مخلوق کو خالق سے جوڑاجس کا یہ اثر ملاحظہ کرنے کے لیے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے عہد زریں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں مرد و عورت،غلام ونوکر سب ہی عبادت و ریاضت کے شائق نظر آتےہیں،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی برکت سےاس دور کے مسلمانوں کی کیفیت یہ ہوچکی تھی کہ شرم کی وجہ سے دنیوی عیش وعشرت کا تذکرہ کرنے سے بھی شرماتے تھے ۔(مراۃ الاسرار،ص۷۹۲)

جس عہد میں ہم سانس لے رہے ہیں اگر اپنے شب و روز ان مشائخ کرام کی سیرت کےسانچے میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کریں، اپنی داعیانہ ذمہ دار ی کو محسوس کرتے ہوئے اسلام کا پیام ِ امن دنیا کے سامنے پیش کریں،عجب نہیں کہ ایک مرتبہ پھر پرچم ِ اسلام اپنی عظمت و جلالت کے ساتھ دنیا بھر میں لہرانے لگے۔

از:مولاناناصر جمال عطاری مدنی

اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی


حدیث مبارک میں ہے: اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔(بخاری شریف،حدیث:71)دین کی سمجھ میں بنیاد عقائدِ اسلام کی ہےجس پراعمال کوشرفِ قبولیت والےاعمال کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ بنیاد میں خرابی ہو تو عمارت چاہے کتنی ہی حسین وجمیل کیوں نہ ہو آخر کار زمین بوس ہو جاتی ہے۔ تعمیر اپنے معمار کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہے، یہی صورت حال انسان خصوصاً مسلمان کے ساتھ بھی ہے کہ اس کی تعمیر کس کے زیر سایہ ہوئی،اس کی بنیاد یعنی عقائد کس قدر مضبوط اور درست ہیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ تعمیر اپنے معمار، اولاد والدین کی تربیت اور شاگرد اپنےاستاد کی قابلیت کا آئینہ و نمونہ ہوتے ہیں، اس تمہید کا مقصد ایک ایسی شخصیت کاتعارف ہے جواپنے والدین کےلیے آنکھوں کی ٹھنڈک اور اپنے معماروں یعنی اساتذہ کے لیے قابل فخر نمونہ ہے۔ میری مراد شمس العلماء حضرت مولانامفتی ابو المعالی شمس الدین احمد جعفری جونپوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہیں۔

شمس العلماء موصوف نے ایک مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم اپنے جد امجد اور نانا جان سے حاصل کی۔ ذہانت وفطانت من جانب اللہ ودیعت ہوئی مزید برآں مذکورہ بزرگوں کی شفقتوں اور محبتوں نے آپ کو گونا گوں صفات کا حامل بنا دیا، حصول علم کی پیاس اور شوق نے آپ کو متعدد بزرگوں کی بارگاہ تک پہنچایا جن میں صدر الافاضل، فخر الاماثل حضرت علامہ مولاناسیدمحمد نعیم الدین مراد آبادی اور صدر الشریعہ، بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہمانمایاں مقام رکھتے ہیں۔بالخصوص حضرت صدر الشریعہ کے بارے میں آپ فرماتے ہیں: میرے مخدوم حضور صدر الشریعہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو جملہ علوم وفنون متداولہ میں کافی درک تھا،بالخصوص معقولات پڑھاتے وقت معقولات کو پانی پانی کر دیتے تھے، یہ الگ بات ہے کہ قدرت کی فیاضیوں نے انہیں علم فقہ کا امین وارث بنا دیا، لوگ دار الافتاء میں فتوے کی مشق کرتے کرتے زندگی تمام کر دیتے ہیں تاہم اس منصب کو نہیں پہنچ پاتےہیں جو صدر الشریعہ کو قدرت کا عطیہ تھا۔

حضور شمس العلماء بھی اپنے اساتذہ سے ایسے مستفیض ہوئے کہ معقولات ومنقولات میں ماہر اور فقہ پر گہری نظر رکھتے تھے،ہر فن میں سیر حاصل گفتگو فرماتے اور معلومات کا دریا بہاتے،کلام کے تجزیے پر عبور رکھتے اور جب تک اس کے دلائل ومقدمات کو پرکھ نہ لیتے قبول نہ فرماتے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ 20 سال کی عمر میں دار العلوم منظر اسلام بریلی شریف سے فارغ التحصیل ہوئے۔ دس سال کی عمر میں امام اہل سنت، مجدد دین وملت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے شرف بیعت حاصل کیا، حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان اور مفتی اعظم ہند مولانا مصطفٰے رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہما نے - خرقہ خلافت عطا فرمایا۔

محترم قارئین!اپنے عقائد ونظریات کی حفاظت اور افکار کی پختگی کے لیے علمائے حق اور اصحابِ نظر شخصیات کے سائے کی ضرورت ہوتی ہے، جن کی صحبت ونظر بندے کو کامل وپختہ بنا دیتی ہے،حضور شمس العلماء ایسوں ہی کی صحبت سے فیض یاب ہو کر ایک چمکتا ستارہ بنے آپ کے مربیان میں آپ کے داد وناناجان کے علاوہ آپ کے اساتذہ پیر طریقت نمایاں مقام رکھتے ہیں، مذکورہ بالا ہستیاں کسی تعارف کی محتاج نہیں اور حضور شمس العلماء کی ذات میں ان ہستیوں کی جھلک واضح نظر آتی ہے۔خصوصاً عقائد کے معاملے میں جہاں کئی ٹھوکر کھا گئے وہاں بھی آپ نے اسلاف کے دامن کو مضبوطی سےتھامےرکھااوراپنی سیرت وکردارکویادِگار اسلاف بنادیا، ۔

صحابہ کرام کے متعلق نظریہ:

صحابہ کرام کے متعلق آپ کی تحریر کردہ چند مثالیں پیش خدمت ہیں:٭ انبیاء ومرسلین کے بعد تمام مخلوقاتِ الٰہی جن وانس وملک سے افضل صدیق اکبر ہیں۔ (قانونِ شریعت، ص۷۱)٭کسی صحابی کے ساتھ بد عقیدگی گمراہی وبدمذہبی ہے، حضرت امیر معاویہ،حضرت عمرو بن عاص،حضرت وحشیرَضِیَ اللہُ عَنْہم وغیرہ کسی صحابی کی شان میں بے ادبی تبراہے اور اس کا قائل رافضی ہے۔ (قانونِ شریعت، ص۷۱)٭حضرات شیخین کی توہین بلکہ ان کی خلافت سے انکار ہی فقہاء کے نزدیک کفر ہے۔(قانونِ شریعت، ص۷۲)حضور شمس العلماء رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مزیدتحریر فرماتےہیں:جو صحابہ واہل بیت سےمحبت نہ رکھے وہ گمراہ وبد مذہب ہے۔ (قانون شریعت: ص۷۳) کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبہ کا ہو کسی صحابی کے رتبہ کو نہیں پہنچتا، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت امیر معاویہ کی جنگ خطائے اجتہادی ہے جو گناہ نہیں اس لیے حضرت امیر معاویہ کو ظالم، باغی سرکش یا کوئی برا کلمہ کہنا حرام و ناجائز بلکہ تبرا ورفض ہے۔(قانون شریعت: ص۷۲)

امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور یزید کے متعلق نظریہ:

یونہی کچھ لوگ نواسہ رسول، جگر گوشہ بتول حضرت سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی شان میں گستاخی کرتے اور معاذ اللہ انہیں باغی کہتے نظر آتے ہیں، اگر یہ لوگ اپنے آپ کو اہل سنت کہلواتے ہیں تو سن لیں کہ یہ اہل سنت کا نظریہ نہیں بلکہ جہلاء کا نظریہ ہے اہل سنت کے نظریے کو بالکل واضح طور پر لکھتے ہوئے حضرت شمس العلماء فرماتے ہیں: جو امام حسین (رَضِیَ اللہُ عَنْہ ) کو باغی کہے یا یزید کو حق پر بتائےوہ مردود خارجی مستحق جہنم ہے۔ (قانون شریعت: ص۷۳)اس مضمون کی وساطت سے ہم یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ یزید کے بارے میں اسلاف کا کیا عقیدہ تھا تاکہ کسی گمراہ کی باتیں ہمیں گمراہ نہ کر سکتیں، حضرت علامہ موصوف یزید کے متعلق مسلمانوں کا عقیدہ واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’یزید کے ناحق ہونے میں کیا شبہ ہے البتہ یزید کو نہ کافر کہیں نہ مسلمان کہیں بلکہ سکوت کریں۔‘‘اس جزئیے سے یزید کو امیرالمؤمنین کہنے والے ذرا غور فرما لیں کہ علمائے اہل سنت کے نزدیک یزید کی کیا حیثیت ہے۔

عملی میدان میں یادگارِ اسلاف:

اعتقادیات کے ساتھ عملی میدان میں بھی آپ یادگارِ اسلاف تھے،تاریخ کےاوراق نے آپ کی سیرت کےجن واقعات کو محفوظ کررکھا ہے اس میں سے مختصر یہ چند پہلو پیش خدمت ہے:(1) آپ کا ذوق ِتلاوت قابل رشک تھا، ہفتے میں ایک قرآن پاک ختم فرماتے ۔(2)فقہی عبارات جلد و صفحہ کے ساتھ آپ کومستحضر رہتیں اور بوقتِ ضرورت نوکِ زبان پرآجاتیں۔(3)اندازِ تدریس ایسا دلنشین تھاکہ طلبہ کے دل و دماغ میں وہ چیزنقش ہوجاتی ۔(4)آپ کا زہد و تقویٰ بے مثال تھا ۔(5)اپنےجگرپاروں کی تربیت کاخصوصی اہتمام کررکھا تھا۔

دعا ہے اللہ پاک حضرت کے فیوض سے ہمیں بھی حصہ عطا فرمائے اور حضرت کے مرقد پر تاقیامت رحمت ونور کی برسات فرمائے۔ (آمین بجاہ النبی الکریم صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)

از:مولانا محمد امجد خان عطاری مدنی

اسکالر المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر ،دعوتِ اسلامی )