معاشرے میں پائی جانے والی بعض خرابیاں تو ایسی ہوتی ہیں،جن پر معمولی سی
توجہ کرنےسےان کی پہچان اور نشاندہی ہوجاتی ہے۔لیکن کچھ امور ایسے بھی ہیں جن کی
طرف بسا اوقات اچھوں اچھوں کی توجہ نہیں ہوتی۔
معاشرے کے راہ و رسم ہوں یا کسی انسان کا زاویہ نظر اور مزاج ،جب تک یہ(شریعت
کے دائرے میں رہتے ہوئے) اعتدال میں ہوں تو محمود و خوب ہوتے ہیں،ورنہ افراط و تفریط
کی روش اختیار کرنا انہیں مذموم اور باعث عیب بنا دیتا ہے۔
کسی بھی فن اور فیلڈ میں باصلاحیت اور اہل افراد کی پہچان کرنا بڑا اہم اور
دشوار کام ہے۔ معاشرے کی فلاح وبہبود اور ترقی کیلئے یہ معاملہ انتہائی اہمیت کا
حامل ہے کہ قابل اور اہل افراد ہی کو آگے بڑھایا جائے اور ان سے ان کی استعداد و
قابلیت کے مطابق کام لیا جائے۔
مگر افسوس! معاشرے میں پائے جانے
والےافراد کی ایک تعداد ہے جو بھیڑ چال (اندھی تقلید) کو اپنے مزاج کا حصہ بنائے
ہوئی نظر آتی ہے اور " چڑھتے سورج کو سلام " والی روش کو اپنائے ہوئے
دکھائی دیتی ہے۔
جو
شخص بھی(کسے باشد) عوام الناس کی نظر میں
کسی بھی فن یا فیلڈ کے اعتبار سے مشہور ہوگیا،بس پھر (اس کے نااہل ہونے کے
باوجود)اسی کے گیت گائے جانا،اسی کو پروموٹ کئے جانا اور قابل افراد کو یکسر
فراموش کردینا بعض لوگوں کی طبیعت کا حصہ بنتا چلا جا رہا ہے۔
خدارا ! ملک و ملت کی فلاح و ترقی کے وسیع تر مفاد میں معتدل رویہ و مزاج
اختیار کرتے ہوئے ہر ہر معاملے اور فلیڈ میں صرف اہل اور قابل افراد ہی کی حوصلہ
افزائی کیجئے اور انہیں ہی میدان عمل میں اپنی کارکردگی پیش کرنے کا موقع دیا
جائے۔
اللہ کرے
دل میں اتر جائے میری بات...!
از: ابو الحقائق راشد
علی رضوی عطاری مدنی
4جنوری2021,بروز پیر۔