عرب میں  ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات معروف ہے کہ جس ذات کے جتنے کثیر اسماء ہوں گے وہ اتنی ہی زیادہ معظم و مکرم ہے ، ان زائد اسماء کو لقب یا صفت کہا جاتا ہے، اللہ پاک کا ذاتی نام ”اللہ“ ہے مگر صفاتی نام بہت ہیں۔ پاک و ہند میں اللہ پاک کے 99 نام معروف ہیں۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےذاتی نام ”محمد و احمد“ ہیں جبکہ صفاتی نام کثیر ہیں۔ ان موضوعات پر علمائے اسلام نے کئی کتب و رسائل لکھے ہیں جن میں اسمائے صفاتیہ کی وجوہات و حکمتوں پر کلام کیا گیا ہے۔ زیر نظر مضمون میں بھی ہم رسول اللہ ﷺکے ایک ایسے ہی اسم صفت کے معانی اور اس میں موجود حکمت کے بارے میں پڑھے گئے۔

لفظ ’’اُمّی ‘‘ کا لغوی معنی:

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے صفاتیہ میں سے ایک صفت ”اُمّی“ بھی ہے ۔

چونکہ یہ ایک عربی لفظ ہے اس لئے سب سے پہلے لغت عرب سے اس کا معنی دیکھتے ہیں :

اُمّی ، اُم سے نکلا ہے اس کا ایک معنیٰ ہے اصل ،

اُمّی کا ایک معنیٰ ہے جو اپنی جبلتِ اولیٰ پر ہو یعنی جیسا پیدا ہوا ویسا ہی رہے یعنی لکھنے پڑھنے والا نہ ہو،

اُمّی کا ایک معنیٰ ام القریٰ جو کہ مکہ معظمہ ہی کا ایک نام ہے ۔

اُمّی کا ایک معنیٰ ہے جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو ۔ (قاموس، تاج العروس و صحاح وغیرہم)

قرآن کریم میں لفظ ’’امی ‘‘ کا استعمال

قرآن کریم میں بھی لفظ اُمی مختلف مقامات پر حسب حال مختلف معانی میں مستعمل ہے مثلاً:

سورہ بقرہ آیت نمبر 78 میں ارشاد ہوا: وَ مِنْهُمْ اُمِّیُّوْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْكِتٰبَ اِلَّاۤ اَمَانِیَّ

اور ان میں کچھ اَن پڑھ ہیں کہ جو کتاب کو نہیں جانتے مگر زبانی پڑھ لینا یا کچھ اپنی من گھڑت اور وہ نرے گمان میں ہیں

اسی طرح سورہ جمعہ کی آیت نمبر 2 میں فرمایا:

هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ

وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے ہیں

قرآن کریم میں سورۂ اعراف کے 2 مقامات پر رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’امی ‘‘ کے لقب سے ملقب فرمایا گیا

ایک آیت نمبر 157 میں:

اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘

وہ جو غلامی کریں گے اس رسول بے پڑھے غیب کی خبریں دینے والے کی جسے لکھا ہوا پائیں گے اپنے پاس توریت اور انجیل میں

اور دوسرا مقام اسی سے اگلی آیت نمبر 158 میں :

فَآمِنُواْ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُون

تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر جونبی ہیں ، ( کسی سے) پڑھے ہوئے نہیں ہیں ،اللہ اور اس کی تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پالو۔

حدیث پاک میں لفظ ’’امی ‘‘ کا استعمال

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اپنی زبان مبارک سے لفظ امی کے معنیٰ کی وضاحت فرمائی امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن عمر سے حدیث نقل فرمائی حضور انور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ارشاد فرمایا:

إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ ، لاَ نَكْتُبُ وَلاَ نَحْسُبُ “ یعنی ہم اہل عرب امی قوم ہیں ہم نہ لکھتے ہیں نہ حساب کرتے ہیں (بخاری، 1/ 631، حدیث: 1913، دارالکتب العلمیہ بیروت)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: ” إِنِّي بُعِثْتُ إِلَى أُمَّةٍ أُمَيَّةٍ “ یعنی مجھے امی قوم کی طرف (نبی بنا کر) بھیجاگیا۔ (صحیح ابن حبان، 3/ 14 حدیث: 739موسسۃ الرسالہ بیروت)

شارحین کا بیان کردہ معنیٰ

ان دونوں احادیث پر امام ابوالسعادات مبارك بن محمد جزری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

آپ علیہ السلام کی مراد یہ تھی کہ ہماری طرح اپنی پہلی جبلت پر ہیں جس پر پیدا ہوئے تھے، اور (اُمّی کا) ایک معنیٰ یہ بھی بیان کیا گیا کہ اُمّی وہ ہوتا ہے جو لکھتا نہ ہو مزید فرماتے ہیں یہاں امی سے اہلِ عرب مراد ہیں کیونکہ ان کے ہاں لکھنے لکھانے کا رواج بہت ہی کم تھا یا بالکل ہی نہیں تھا۔ (النہایۃ فی غریب الاثر، 1/ 69، دارالکتب العلمیہ بیروت)

شیخ امام عبدالرحمٰن جوزی رحمہ اللہ آخری حدیث کے تحت فرماتے ہیں: لفظ امیۃ سے مراد وہ قوم ہے جو لکھنا نہ جانتی ہو (غریب الحدیث لابن جوزی ، 1/ 41، دار الکتب العلمیہ بیروت)

معنیٰ عشق و محبت

لفظ اُمّی کا ایک معنیٰ ہے ”اصل“۔ اس معنیٰ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کائنات کی اصل بنا کر بھیجے گئے، باقی سب تو آپ کی فروعات (یعنی اولاد/امتی /آپ ہی کے دم قدم سے ہے) ہیں ۔

اسی طرح لفظ امام کی اصل بھی یہی مادہ ہے امام کہتے ہیں اس ذات کو جس کی طرف مقتدی جھکیں، جو وہ اشارہ کریں اس کی پابندی کریں غرض ہر معاملے میں وہی رہبر و رہنما ہے ۔

امام عشق و محبت ، امام اہل سنت سیدی امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ اس تخیل کو کیسے خوبصورت انداز میں بصورت شعری فرماتے ہیں:

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں

اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

(حدائقِ بخشش، ص 206، مکتبۃ المدینۃ)

توجہ طلب بات

اب تک کی گفتگو سے اتنا ثابت ہوا کہ امی اسے کہتے ہیں جو لکھنا پڑھنا نہ جانتا ہو، اس معنی کے عموم کو لے کر ایک غلط فہمی یہ پیدا ہوئی معاذ اللہ رسول مکرم علیہ السلام پوری زندگی ایسے ہی رہے جو کہ سراسر خلافِ واقعہ بات ہے، ان لوگوں کو لفظِ امی کا معنیٰ سمجھنے میں غلطی ہوئی وہ لفظ جسے صفتِ محمودہ کے طور پر قرآنِ کریم نے بیان کیا اس سے لوگ ایک مذموم معنیٰ نکال کر حضور کے لئے ثابت کرتے ہیں، حالانکہ حضور کے امی لقب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کسی سکھانے والے کے سکھائے سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھے یہ معنیٰ نہیں کہ ربِ تعالیٰ نے آپ کو ایسا ہی رہنے دیا بلکہ وہ رب اپنے محبوب کی شان میں فرماتا ہے :

وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا (۱۱۳)

اور اللہ نے تم پر کتاب اور حکمت اُتاری اور تمہیں سکھادیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے (النساء ، آیت:4)

صدرالافاضل مفتی سید محمد نعیم الدین مرادآبادی اس آیت کے تحت خزائن العرفان میں لکھتے ہیں:

اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام کائنات کے علوم عطا فرمائے اور کتاب و حکمت کے اَسرارو حقائق پر مطلع کیا اوریہ مسئلہ قرآن کریم کی بہت آیات اور احادیث کثیرہ سے ثابت ہے۔

وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ بِیَمِیْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ(۴۸)

اور اس (نزولِ قرآن) سے پہلے تم کوئی کتاب نہ پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے یوں ہوتا تو باطل والے ضرور شک لاتے (العنکبوت، آیت:48)

ان آیات سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ پاک نے نزولِ قرآن سے قبل ہی تمام علوم عطا فرمادئے

نزول قرآن سے قبل امی ہونے کی حکمتیں

ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ نزولِ قرآن سے قبل آپ کو صفتِ امِیَّت پر رکھنے میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں ، اب وہ حکمتیں بیان کی جاتی ہیں:

(01)ابھی جو آیت کریمہ گزری اس میں ہی ایک حکمت موجود ہے کہ رسول اللہ اگر آپ لکھتے پڑھتے تو یہود آپ کی ضرور تکذیب کرتے اس لئے کہ ان کی کتب میں آخری نبی کی ایک نشانی اُمی ہونا بیان کی گئی تھی، مگر انہیں شک کا موقع اس لئے نہ مل سکا کہ حضور انور علیہ السلام میں یہ نشانی موجود تھی۔

(02)ایک حکمت یہ تھی کہ رسول اللہ کی رسالت، آپ پر وحی کا نزول اور قرآن پاک کے کلام اللہ ہونے پر کسی کو کوئی اعتراض نہ رہے چونکہ یہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلےسے لکھنا پڑھنا جانتے ہیں تو یہ جسے قرآن اور وحی کہتے ہیں وہ خود ان کا اپنا کلام ہے، آپ کے بڑے بڑے دشمنوں تک نے تکذیبِ وحی کے سلسلے میں یہ اعتراض نہ کیا گویا دل سے وہ بھی مانتے تھے کہ یہ جو قرآن پیش کرتے ہیں وہ واقعی کلام اللہ ہے کسی بشر کا کلام نہیں ہوسکتا۔

ہاں مگر کچھ مستشرقین نے تعصب میں آکر رسول اللہ کے اساتذہ کو ثابت کرنے کی سعی لاحاصل ضرور کی مگر ان کا یہ اعتراض اور ان کی یہ تحقیقات کسی قابل نہیں، جب وہ لوگ کہ جو نبی پاک ﷺکو لوگوں کی نظر میں غلط ثابت کرنے کے لئے کسی بھی قسم کا الزام لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے انہوں نے بھی ایسا کوئی اعتراض ذاتِ گرامی پر نہیں کیا تو صدیوں بعد آنے والے محققین کی تحقیقات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔

خلاصہ کلام

پورے مضمون کا خلاصہ یہ نکلا کہ رسول اللہ امی تھے مگر اس معنیٰ میں کہ آپ کا کوئی دنیاوی استاد نہ تھا آپ کو تمام علوم آپ کے رب کریم نے عطا فرمائے۔

دوسری بات یہ معلوم ہوئی لقبِ اُمّی میں بہت حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

تیسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اُمّی ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتِ محمودہ ہے۔

امام اہل السنۃ مجد د المائۃ الحاضرۃ والسابقہ سیدی امام احمد رضا خان قادری رحمہ اللہ کیا خوب فرماتے ہیں:

ایسا اُمّی کس لئے منت کشِ استاد ہو

کیا کفایت اس کو اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمْ نہیں

(حدائق بخشش، ص 106)

از:محمد حسین بشیر حنفی فریدی

ریسرچ اسکالر المدینۃ العلمیۃ (اسلامک ریسرچ سینٹر)