ایک باشعور معاشرہ بنانے کیلئے تعلیم بے حد ضروری ہے۔ اس کے حصول کیلئے عمر کی قید وشرط سے آزاد ہوکر ایک کم سِن بچے بلکہ سو سال کےبوڑھے کو بھی زیورِ علم سے آراستہ ہونا چاہیے۔ تعلیم کی ضرورت واہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ جب نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو اللہ پاک نے اس کے پہلے ہی لفظ میں حصولِ علم کا حکم دیتے ہوئے ارشادفرمایا : اقراء (پڑھو) یعنی علم حاصل کرو۔ اگر ہم اس حکمِ قرآنی پر عمل نہ کریں تو نتیجۃً ہمارے معاشرے میں جہالت وگمراہی اور بے راہ روی جیسی بُرائیاں جنم لیں گی، جس سے ہمارا خاندانی ، معاشی ، معاشرتی، دینی اور دنیوی نظام تباہ وبرباد ہوسکتا ہے۔
علم کی اہمیت وافادیت اس سے بھی ظاہر
ہوتی ہے کہ اللہ پاک نے اپنی ساری مخلوق میں سے انسان کو عزت و شرافت کا تاج
پہناکراسے ممتاز فرمایا اور ان میں بھی ایک دوسرے پر نمایاں فضیلت
دینے کیلئے ”علم“ کو معیار قرار دیا
ہے جیساکہ فرمانِ خُداوندی ہے :اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان
کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پارہ، 28المجادلہ:11) حضرت حسن بصری رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فرماتے
ہیں :حضرت عبداللّٰہ بن
مسعود رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے اس آیت کی تلاوت کرنے کے بعد فرمایا:اے لوگو!اس آیت
کو سمجھو اور علم حاصل کرنے کی طرف راغب ہو جاؤ کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا
ہے کہ وہ مومن عالِم کو اس مومن سے بلند درجات عطا فرمائے گاجو عالِم نہیں ہے۔( خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ: 11، 4/258)
دورِ نبوی میں تعلیم نسواں کا
اہتمام: فی زمانہ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں
کو بھی اپنی ضرورت کے مسائل سیکھنے چاہئیں۔ دورِ نبوی میں جہاں صحابۂ کرام اپنی علمی پیاس بجھانے
کیلئے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوتے وہیں صحابیات کا شوقِ علم بھی دیدنی ہوا کرتا
تھا، ایک عورت نے نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ
وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوکرعرض
کی:مرد حضرات تو آپ کی بارگا ہ میں حاضری دے کرآپ کے ارشادات سن لیتے ہیں،ہمیں بھی
ایک دن عطا فرمادیں جس میں آپ صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمیں
وہ کچھ سکھائیں جو اللہ
پاک نے آپ کو سکھایا ہے ۔ ارشاد فرمایا: تم فلاں دن فلاں مقام
پر جمع ہوجایا کرو۔ چنانچہ وہ عورتیں جمع ہوگئیں۔ رسول اﷲ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں
اللہ پاک کے
سکھائے ہوئے (احکامات) میں سے کچھ سکھایا۔ (بخاری،4/ 510، حدیث: 7310)اسی طرح ایک موقع پر آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے تعلیمِ نسواں کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد
فرمایا:جس کی ایک بیٹی ہو وہ اسے اچھے آداب
سکھائے ، اچھی تعلیم دلائے اور جونعمتیں اللہ پاک
نے اسے دی ہیں ان میں سے خوب خرچ کرے تو یہ بیٹی اس
کیلئےجہنم سے رُکاوٹ بن جائے گی ۔(معجم
کبیر،10/197، حدیث10447)
مسلمان خواتین کے علمی کارنامے:اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتینِ اسلام عبادت
وریاضت کے ساتھ ساتھ علمِ حدیث وتفسیر، درس وتدیس، وعظ وتقریر کے ذریعے اپنی
خدمات سرانجام دے کر علمی مقام میں کئی مردوں سے
ممتاز قرار پائیں۔
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیدہ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کا شمار بھی انہی خواتین میں ہوتاہے ۔ یوں تو تمام اَزواجِ
مطہرات ہی نبی کریم صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت بابرکت سے علم وفضل والی تھیں مگر حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ
اللّٰہُ عَنْہا کو ان تمام پر علمی برتری حاصل ہے ۔حضرت سیِّدُنا عُرْوَہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ فرماتے ہیں: میں نے لوگوں میں آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا سےبڑھ کرکسی کوقرآن،میراث،حلال و حرام، اشعار،
عربوں
کی رِوایات اورحسب ونسب کا عالِم نہیں دیکھا۔(حلیۃ
الاولیاء، 2/60، رقم:1482) آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا کا
شمار فقہی مسائل میں زبر دست مہارت رکھنے والے صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان میں
ہوتا ہے نیز جن چھ (6) صحابۂ کرام نے سب سے زیادہ
احادیثِ مُبارَکہ روایت کی ہیں اُن میں آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا بھی شامل ہیں کہ جن سے 2210 احادیثِ مُبارَکہ مروی ہیں۔(عمدۃ القاری، 1/72)اسی طرح اُمُّ المومنین حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ سلمہ رَضِیَ
اللّٰہُ عَنْہا کوبھی
علمِ فقہ میں خاصی مَہارت حاصل تھی،آپ کا شمار فقیہ صحابیات میں ہوتا تھا۔(سیر اعلام النبلاء،
3/475)نیز شرعی مُعاملات میں آپ کی طرف رُجو ع کیا جاتاتھا۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا عابِدہ،زاہدہ،نِہایت
عقلمنداورفَہْم وفِراست جیسی عمدہ صفات کی حامِل خاتون تھیں۔(الاصابہ،8/406، ملخصاً)
صحابیات اور تابعیات میں بھی ایسی کئی مثالیں موجود ہیں
جنہوں نے قرآن وحدیث کے علوم میں
بڑا مقام پایا اوراس کی نشر و اشاعت میں بڑھ
چڑھ کراپنا کردار ادا کیا ،ان عالی مرتبہ خواتین کے علمی فیضان
سےامتِ مسلمہ نے خوب استفادہ کیا۔
حضرتِ حفصہ بنت سیرین : امام حضرت محمد بن
سیرین رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی بہن اور مشہور
تابعیہ ہیں۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہَا نے بارہ سال کی عمر
میں قرآنِ مجید پڑھ لیا تھا۔(تہذیب التہذیب، 10/464)علمِ تجوید وقراء ت میں آپ کو وہ
مقام اور مہارت حاصل تھی کہ آپ کے بھائی حضرت محمد
بن سیرین رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کو جب قرآنِ پاک کی قراءت سے
متعلق کوئی مشکل پیش آتی تو اپنے شاگردوں سے
کہتے کہ جاؤ اور حفصہ سے پوچھ کر آؤ وہ کیسے پڑھتی ہیں ۔(صفۃ الصفوہ، 2/الجزء
الرابع21)اسی طرح آپ نے علمِ حدیث کی ترویج واشاعت میں بھی اپنا کردار
ادا کیا ۔ اور صحابہ وتابعینِ عظام
سےکئی احادیثِ مبارکہ روایت کیں جن میں حضرت سیدنا انس بن مالک اور حضرت سیدتنا اُمِّ
عطیہ انصاریہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُما وغیرہ شامل ہیں نیز ان سےجن افرادنے روایات
نقل فرمائیں ان میں حضرت اِبنِ عون، خالد، قتادہ، ہشام بن حسان رَحْمَۃُ
اللّٰہِ عَلَیْہِمْ وغیرہ شامل
ہیں۔حضرت
امام یحیٰ بن معین رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ جو احادیثِ مبارکہ کے صحیح اور
ضعیف ہونے کے علم میں ماہر تھے انہوں نے حضرت حفصہ کو ثقہ قرار دیا ہے۔حضرت ایاس بن
معاویہ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں: میں نےحفصہ سے افضل کسی کو نہیں پایا۔(تہذیب
التہذیب: 10/463،464)
فاطمہ بنت محمد بن احمدسمرقَنْدِیہ:خواتینِ اسلام کی ایک
اورممتاز شخصیت فاطمہ بنتِ محمد بھی ہیں جو
بہت بڑی عالمہ اور فقیہہ خاتون تھیں
۔آپ نے علمِ فقہ کی تعلیم اپنے والد حضرت امام محمد بن احمد سمرقندی رَحْمَۃُ
اللّٰہ عَلَیْہ سے حاصل کی جو مشہورمحدث اور فقیہ تھے۔ آپ رَحْمَۃُ
اللّٰہ عَلَیْہا کو اپنے والدِ گرامی کی لکھی ہوئی کتاب ”تحفۃ الفقہاء“مکمل یادتھی۔ان کی فقہی مہارت کا
اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ جب
ان کے شوہر صاحبِ بدائع الصنائع
،ملکُ العلماء حضرت علامہ علاؤ الدین ابوبکر بن مسعود کاسانی رَحْمَۃُ
اللّٰہ عَلَیْہ کوفتویٰ دیتے وقت کسی علمی مسئلے میں دشواری پیش آتی توحضرت فاطمہ اس مسئلے کاحل پیش
کردیتیں اور وہ ان کی بات مان لیا کرتے تھے ،اسی
وجہ سے ان کے شوہر احترام وتعظیم کرتے تھے ۔(الجوہر
المضیہ، 2/278)
حضرت نفیسہ بنت حسن: یہ حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہُ عَنۡہُ کی اولاد سے ہیںآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہا پرہیزگاراورصالحہ ہونےکے ساتھ ساتھ قرآنِ پاک کی حافظہ اورتفسیر
وحدیث کی عالمہ بھی تھیں۔ آپ کی بھتیجی حضرت زینبرَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہا فرماتی
ہیں کہ میری پھوپھی جان قرآن کی تلاوت کرتے وقت رویا
کرتی تھیں، آپ کی علمی شہرت کی وجہ سے ایک بہت
بڑی تعداد آپ سے علم دین حاصل کرتی تھی۔( الاعلام،8/ 44،
نورالابصار، ص207)
اسلامی تاریخ میں ایسی کئی عظیم خواتین کےعلمی کارناموں کا ذکر ملتاہے
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس دور میں
خواتین کی دینی تعلیم و تربیت کے حوالے سے بہت اہتمام کیا جاتاتھا۔
لڑکیوں کو کیا سکھائیں ؟:اولاد بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم وتربیت والدین کی
اہم ذمہ داری ہے ،اگر انہیں بچپن ہی سے دینی
ماحول فراہم کیا جائے تو ایسی بیٹیاں نیک
پرہیز گار ،والدین کی فرمانبردار اور پاکیزہ کردار کی حامل بن کر خاندان اور شادی
کے بعد سسرال میں ماں باپ کی عزت رکھتی
ہیں اور اگراس نازک دور میں اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت نہ کی جائے توجوانی
میں یہی بیٹیاں ماں باپ کیلئے باعثِ عار
بن سکتی ہیں۔ لہٰذا والدین کو چاہیے کہ اس انتظار میں نہ بیٹھیں کہ ابھی تو
میری بیٹی بہت چھوٹی ہے کچھ سمجھدار ہوجائے تو تربیت کریں گے۔ یادرکھئے! بچوں کی زندگی کے ابتدائی سال بقیہ زندگی کو بہتر بنانے کیلئے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں
،جواچھی یا بری بات چھوٹی عمر میں بچہ سیکھ لیتا ہے وہ اس کے ذہن میں زندگی بھر کیلئے راسخ ہوجاتی ہےجیساکہ حدیثِ پاک میں ہے:بچپن میں علم حاصل کرنا پتھر پر لکیر کی طرح (پختہ)ہوتا ہے۔(مجمع
الزوائد،1/333، حدیث:515)
یادرکھئے! ایک دن کی بچی سے لے کرجوانی تک ماں باپ کی تربیت کی ضرورت رہتی ہے۔آئیے!اس
بارے میں چند کارآمد مدنی پھول ملاحظہ
فرمائیے :
(1) نومولودبچی کے سامنے بار بار ذِکْرُ اللہ کیجئے تاکہ جب وہ بولے تواس کی زبان سے ادا ہونے والاپہلا
لفظ ”اللہ “ ہو اور پھر آہستہ آہستہ کلمہ طیبہ سکھائیے۔حضرتِ
سیدنا ابنِ عباس رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُماسے مروی ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ
نے
ارشادفرمایا:اپنے بچوں کی زبان سے سب سے پہلے لَا
اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہلواؤ۔( شعب الایمان ،6/397، حدیث: 8649)
(2)جب بچی روئے تو اسے چپ کروانے کیلئے میوزک یا موبائل پر کہانیاں
وغیرہ سنا کربہلانے کے بجائے قرآنِ پاک کی تلاوت اور حمد ونعت سنائیے تاکہ بچی کے
دل میں ان چیزوں سے انسیت پیدا ہو اور بڑی ہوکر بھی ان میں رغبت باقی رہے
۔
(3)
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے شرعی احکام کی پاسداری ویسے بھی ہم پر
لازم ہے مگربچی کوسکھانے کی نیت سے شرعی احکامات کی ادائیگی کرتے رہیے ،نماز وروزے
اور ذکرو درود کی کثرت کیجئے،اچھے اخلاق وعادات اپنائیے کہ ماں باپ کی دیکھا دیکھی بچی کے دل میں بھی ان کاموں کاشوق پیدا ہوگا ۔
(4)بچی کے سامنے منفی باتوں اور کاموں سے بھی پرہیز کیجئے مثلاً گانے
سننے،جھوٹ بولنے،گالی گلوچ کرنے،غصہ کرنے سے بچوں میں بھی یہ بری عادات منتقل ہوسکتی ہیں ۔
(5)جب بچی پڑھنے لکھنےکے قابل ہوجائے تو کسی
اچھے تعلیمی ادارے کا انتخاب کیجئے جس میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی اور
اخلاقی تربیت بھی کی جاتی ہو۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ فی زمانہ دعوتِ اسلامی نے ملک وبیرون ملک میں
دارالمدینہ قائم کرکے ہماری اس مشکل کو آسان کردیاہے۔آپ
بھی اچھی تعلیم وتربیت کیلئے اپنے بچوں کو دارالمدینہ میں داخل کروا دیجئےاِنْ
شَآءَ اللہ یہ
بچے آپ کیلئے دنیا میں باعثِ فخراورآخرت میں
عذابِقبر وحشر سے نجات کا ذریعہ بنیں
گے ۔
(6)دورانِ تعلیم بچی کی نگہداشت ونگرانی بھی کرتے رہیے، فضول کاموں اوربے کار
کھیلوں کے بجائے اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بیدار کرنے کیلئے اسلامی معلومات پر مشتمل سوالات پوچھئے اورجواب نہ دینے
پر مختصر جوابات دیجئے تاکہ ہمیشہ کیلئے وہ
باتیں اس کے ذہن میں راسخ ہوجائیں۔
(7) غلطی پر جھڑکنے یا سختی کرنے کے بجائے پیار
محبت سے سمجھائیے،اچھے کارناموں پر دلجوئی اورحوصلہ افزائی کیجئے، بچوں کو بات کرنے پر بار بار ٹوکنے کے بجائے انہیں بولنے
کا موقع دیجئے ورنہ دوسروں کے سامنے بات
کرنے کاحوصلہ ماند پڑسکتا ہے ۔
(8)لڑکی جب بڑی ہوجائے تو
اسے سلیقہ شعار اور ہنر مند بنانے کیلئے کھانے پکانے ،صفائی کرنے وغیرہ جیسے
کاموں میں ماں کا ہاتھ بٹانے،اپنا کام خود کرنےاورسلائی کڑاہی کرنے کےمواقع فراہم کریں،ایسی بیٹیاں ماں باپ
کیلئے باعثِ فخر ہوتی ہیں ۔
(9)بڑی عمر کی بچیوں
کی تعلیم کیلئے بھی ایسا ادارہ منتخب کیجئے کہ جس
میں ان کی عفت وعصمت محفوظ رہےاورشرعی حدود کی پامالی نہ کی جاتی ہو۔اس
کیلئے بھی دعوتِ اسلامی کے زیرِاہتمام ملک
وبیرون ملک میں جامعات المدینہ (للبنات) قائم ہیں جن میں عقائد واعمال، شریعت وسنت اورظاہر وباطن کی اصلاح وتربیت کی جاتی ہے ۔
فی زمانہ تعلیم ایک
لڑکی کیلئے اس کی زندگی کےمختلف گوشوں میں
کام آتی ہے مگر یہ بھی یادرہے کہ صرف عصری علوم پر اکتفا کرنا اور ان میں
اپنی مہارت وصلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئےکسی اچھے عہدے پر فائز ہونا ہی روشن مستقبل کی ضمانت
نہیں بلکہ عورت اگر بیٹی کی حیثیت سےکسی
کی لختِ جگر ہے تو کل اسی نے کسی کی شریک
حیات بھی بننا ہے، بیوی کے بعد ماں کاکردار نبھاکر اولاد کی تربیت بھی کرنی ہے، پھر اچھی بہو اور ایک اچھی ساس کی حیثیت
سے بھی زندگی بسر کرنی ہے تو صرف عصری علوم کے حصول سے ہی ایک عورت اپنی یہ ذمہ داریاں اچھی طرح نہیں نبھا سکتی ہے بلکہ اس کو ایک اطاعت گزار بیوی ،خدمت گزار بہواور ایک سلیقہ شعار ماں بننے کیلئے دینی تعلیمات سے آشنا ہونا بے حد ضروری
ہے ۔ کیونکہ ایک دینی تعلیم یافتہ عورت
اپنی اور اپنی اولاد،خاندان اور رفتہ روفتہ اصلاحِ معاشرہ کیلئے اہم کردار ادا کرسکتی ہے، ماضی میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ خواتین اسلام نے ماں ،بہن ،بیٹی اور بیوی کی
حیثیت سے افراد کی اصلاح کیلئے اہم کردار ادا کیا۔بالخصوص اگر ایک ماں دینی تعلیم یافتہ ہو، شریعت وسنت کی عالمہ ہو،اچھے اخلاق وکردار کی جامع ہو تو اولاد کی اچھی تربیت کرکے انہیں
معاشرے کی ہردلعزیز شخصیت بنانے میں معاون
ومددگار ثابت ہوگی۔
از: مولانا فرمان علی عطاری مدنی
( اسکالر اسلامک
ریسرچ سینٹر ، دعوتِ اسلامی )