خاندانِ رضویت کے  وہ چشم و چراغ جنہوں نے گمنامی کی زندگی گزاردی، ایک ایسے فرد جو ممتاز عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ مفتی اسلام ، ماہر علم الفرائض اور ادیب بھی تھے ،ہماری مراد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کے سب سے چھوٹے بھائی حضرت علامہ مفتی محمد رضا خاں بریلوی رحمۃُ اللہِ علیہ ہیں۔ آئیے ان کی حیات خدمات پر کچھ معلومات ملاحظہ فرمائیے۔

نام :

محمد رضا عرف ننھے میاں

والد :

رئیس المتکلمین حضرت مولانا نقی علی خان رحمۃ اللّٰہ علیہ ۔ آپ رئیس المتکلمین کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں ۔

تعلیم :

رسمِ بسم اللہ والد محترم نے ادا کی ، ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی، کم سنی کے عالَم میں والد محترم کی وفات ہوگئی ، حالت یتیمی میں پروان چڑھے ، جب شعور آیا تو برادر محترم ( امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ ) کی درس گاہ اور شخصیت ساز تربیت گاہ سے وابستہ ہوئے ، برادر ِمکرم کی شفقت اور بہترین تعلیم و تربیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ ممتاز عالم ربانی ، بالغ نظر مفتی ، دور اندیش مفکر بن کر عالم اسلام پر ابھرے۔ ( مولانا نقی علی خان حیات علمی و ادبی کارنامے،46 )

اساتذہ :

۱۔ رئیس المتکلمین حضرت مولانا مفتی نقی علی خان رحمۃ اللّٰہ علیہ ( حضرت مولانا ظفر الدین بہاری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے رئیس المتکلمین کے تلامذہ میں محمد رضا خان کا نام اس وجہ سے لکھا کہ آپ نے ان کو رسم بسم اللّٰہ پڑھائی )

۲۔ امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ۔(مولانا نقی علی خان حیات علمی و ادبی کارنامے،67 )

فتویٰ نویسی :

علم معقول و منقول خصوصاً علم الفرائض میں آپ مہارت تامہ اور ید طولیٰ رکھتے تھے، دارالافتاء بریلی شریف کا جب شُہرہ ہوا اور کثرت سے استفتاء ( سوالات ) آنے شروع ہوگئے تو علم الفرائض و میراث کے متعلقہ مسائل کے فتوے حضرت مولانا محمد رضا رحمۃ اللّٰہ علیہ ہی لکھا کرتے تھے ۔( مولانا نقی علی خان حیات علمی و ادبی کارنامے،67 )

تقریب نکاح :

آپ کا عقد نکاح غلام علی خان کی صاحبزادی سکینہ بیگم کے ساتھ ہوا ۔ شادی خانہ آبادی کے موقع پر استاذ ِزمن مولانا حسن رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ نے سہرا لکھا ، پورا سہرا ثمر فصاحت میں موجود ہےجس کے چند اشعار درج ذیل ہیں:

”واہ کیا خوب سجا نوشہ کے سر پر سہرا

ہے مجھے تارِ رگِ جاں کے برابر سہرا“

(کلیات حسن،ثمر فصاحت، 698 ،اکبر بک سیلرز)

اولاد :

عین جوانی میں وفات کے سبب آپ کے یہاں ایک ہی بیٹی ہوئی جو اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ کے صاحبزادے مفتی اعظم ہند مفتی مصطفیٰ رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ کے نکاح میں آئیں، مفتی اعظم ہند رحمۃ اللّٰہ علیہ سے سات بیٹیاں اور ایک بیٹا انور رضا خان پیدا ہوئے مگر انور رضا خان کا کمسنی میں ہی انتقال ہوگیا۔ انوار رضا خان کو اپنے پردادا حضرت مولانا نقی علی خان رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پائنتی میں دفن کیا گیا ۔(حیاتِ اعلیحضرت ، 74 )

انتظامی و دینی مصروفیات :

آپ علم و فضل کے ساتھ ساتھ خاندان اور حسن انتظام میں اپنی مثال آپ تھے جب برادر مکرم کو علمی مشاغل اور فتاویٰ جات میں مستغرق دیکھا تو خانگی (خاندانی) اور جاگیری ( زمین کے معاملات ) ذمے داریوں کو اپنے کاندھوں پر لے لیا گویا کہ آپ اعلیٰ حضرت کے قوت بازو بن کر اپنی جاگیر کے علاوہ اعلیٰ حضرت کی جاگیر کا انتظام بھی کرنے لگے اعلیٰ حضرت کو بس خدمت دین اور فروغ علم دین کے لیے آزاد کردیا امام اہلسنت بھی آپ پر جملہ امور میں مکمل اعتماد کرتے۔ اس کے علاوہ آپ کی دینی دلچسپی بھی برقرار رہی، علمی معاملات میں مشغول رہے فتاوجات کے علاوہ امام اہلسنت کے مُسوَّدوں کو بھی دیکھتے رہے جس کا ثبوت ان کی لگائی ہوئی مہر سے ملتا ہے۔ (مولانا نقی علی خان حیات علمی و ادبی کارنامے،67 )

ایک اہم خاصیت :

آپ کو قریب سے دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ مصروف ترین زندگی گزارنے کے باوجود آپ سے کوئی نماز ترک نہ ہوئی زندگی بھر تمام نمازیں باجماعت ادا فرمائیں جب دنیا سے رخصت ہوئے تو کوئی نماز و روزہ قضا نہ تھا۔(حضرت مولانا محمد رضا خان بریلوی ،مصنف : مولانا افروز قادری چِڑیاکوٹی، 12 )

وفات :

عین جوانی کے عالم میں 21 شعبان المعظم 1358ھ بمطابق 15 اکتوبر 1939ء کو رات بعد نماز عشاء دنیا سے رخصت ہوئے ۔ نماز جنازہ حضرت مولانا عبدالعزیز خان رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پڑھائی۔ جنازہ میں حضرت صدر الافاضل مولانا نعیم الدین مرادآبادی، مفتی امجد علی اعظمی، مولانا سردار احمد خان ، مولانا احمد یار خاں نعیمی رحمہم اللہ جیسی ہستیوں نے شرکت کی۔ آپ کو اپنے آبائی قبرستان میں والدین کریمین کے پاس سپردِ خاک کیا گیا، مفتی اعظم ہند نے مزار تعمیر کروایا ۔( مولانا نقی علی خان حیات علمی و ادبی کارنامے، 67 )

از قلم : احمد رضا مغل

بروز منگل 23 جمادی الاولیٰ 1443، بمطابق28 دسمبر 2021ء


مکمل واقعۂ معراج 

Mon, 21 Feb , 2022
2 years ago

تاریخِ اسلام کے واقعات اور نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے معجزات میں سے ایک عظیم معجزہ معراج ہے۔ اسے ہم نے مختلف کتب و رسائل اور آرٹیکلز میں پڑھاہوگا، ہر ایک نے اپنے انداز میں اسے تحریر کیا، کسی نے مختصر تو کسی نے تفصیل کے ساتھ اور کسی نے اس کے مخصوص حصے کا ذکر کیا تو کسی نے اسے اشعار کی صورت میں بیان کیا۔

اس مضمون میں ہم تفصیل کے ساتھ واقعۂ معراج کا ذکر کریں گے تاکہ قاری ایک نظر میں مکمل واقعہ معراج پڑھ لے۔

معراج کے متعلق عقیدۂ اہل ِسنّت

حکیمُ الامّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بیتُ اللہ شریف سے بیتُ المقدس تک کی جسمانی معراج قطعی یقینی ہے،اس کا انکار کفر ہے۔بیت المقدس سے آسمان بلکہ لامکان تک کی معراج کا اگر اس لیے انکار کرتا ہے کہ آسمان کے پھٹنے کو ناممکن مانتا ہے تو بھی کافر ہے کہ اس میں آیاتِ قرآنیہ کا انکار ہے ورنہ گمراہ ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ آیۃ کریمہ“سُبْحانَ الَّذِیۡۤ سے بَارَکْنَا حَوْلَہ“ تک بیت المقدس تک کی معراج کا ذکر ہے اور”لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیاتِنَا“ میں آسمانی معراج کا ذکر ہے اور”اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ البَصِیۡرُ“میں لامکانی معراج کا ذکر ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 8/135)

واقعۂ معراج کب ہوا؟

مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:جسمانی معراج نبوت کے گیارہویں سال یعنی ہجرت سے دو سال پہلے اپنی (چچا زاد) ہمشیرہ امِّ ہانی کے گھر سے ستائیسویں رجب دوشنبہ کی شب کو ہوئی۔ (مواہب لدنیہ مع زرقانی، 2/70، 71، مراۃ المناجیح، 8/135)

امِّ ہانی کے گھر سے مسجد حرام تک

معراج کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ اس بارے میں شارح ِ بخاری علامہ محمود عینی حنفی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت اُمِّ ہانی رضی اللہُ عنہا کے گھر پر آرام فرمارہے تھے جوشعب ابی طالب کے پاس تھا، گھر کی چھت کھل گئی، فرشتہ اندر داخل ہوا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو گھر سے اٹھاکر مسجد حرام لائے جبکہ آپ پر اونگھ کا اثر تھا۔ (عمدۃ القاری، 11/600، تحت الحدیث:3887)

شقِّ صدر اور براق پر سواری

اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں حطیم میں آرام کررہا تھا کہ اچانک ایک آنے والا میرے پاس آیا اور میری ہنسلی کی ہڈّی سے لے کر پیٹ کے نیچے تک کا حصّہ چاک کیا۔ میرا دل نکالا، پھر سونے کا ایک طشت لایا گیا، اس میں میرا دل زم زم سے دھویا گیا، پھر اسے حکمت سے بھرا گیا، پھر اسے دوبارہ اس کی جگہ رکھا گیا۔ پھر میرے پاس سفید رنگ کا ایک جانور لایا گیا جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا میں اس پر سوار ہوا۔(بخاری، 2/584، حدیث:3887، مسلم،ص87، حدیث: 411ماخوذاً)

مسجد حرام سے نکلنے کے بعد تین مقامات پر نماز

براق پر سوار ہونے کے بعد بیتُ المقدس کی طرف آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سفر شروع ہوا، اس دوران آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مختلف مقامات پر نماز ادافرمائی اور مختلف مشاہدات کئے،ان میں سے چند کا ذکر کیاجاتاہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیتُ المقدس کی طرف جاتے ہوئے دورانِ سفر تین مقامات پر نمازیں پڑھیں۔ چنانچہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں کہ دورانِ سفر ایک مقام پر حضرت جبرائیل نے عرض کیا :اترئیے اور نماز پڑھ لیجئے! میں نے اُتر کرنماز پڑھی، پھر عرض کیا: معلوم ہے کہ آپ نےکس جگہ نماز پڑھی ہے؟ (پھر کہنے لگے)آپ نے طیبہ(یعنی مدینہ پاک) میں نماز پڑھی ہے، اسی کی طرف آپ کی ہجرت ہو گی۔ پھر ایک اور مقام پر عرض کیا کہ اتر کر نماز پڑھ لیجئے، میں نے اتر کر نماز پڑھ لی، جبریل علیہ السّلام نے عرض کیا: معلوم ہے کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟(پھر کہنے لگے) آپ نے طُورِ سیناپر نماز پڑھی ہے جہاں اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو ہَم کلامی کا شَرَف عطا فرمایا تھا۔ پھر ایک اور جگہ عرض کیاکہ اتر کر نماز پڑھ لیجئے، میں نے اتر کر نماز پڑھی، جبریل نے عرض کیا: معلوم ہے کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ (پھر کہنے لگے) آپ نے بیتِ لحم میں نماز پڑھی ہے جہاں حضرتِ عیسیٰ علیہ السّلام کی وِلادت ہوئی تھی۔(نسائی، ص81، حديث:448)

دورانِ سفر کے چندمشاہدات

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیتُ المقدس کی طرف جاتے ہوئے راستے کے کنارے ایک بوڑھی عورت دیکھی، حضرتِ جبرائیل سے دریافت فرمایا: یہ کون ہے؟ عرض کیا: حضور! بڑھے چلئے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آگے بڑھ گئے، پھر کسی نے آپ کو پُکار کر کہا: ہَلُمَّ یَامُحَمَّد یعنی اے محمد! اِدھر آئیے۔ حضرتِ جبرائیل نے پھر وہی عرض کیا کہ حُضُور! بڑھے چلئے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آگے بڑھ گئے۔ پھر ایک جماعَت پر گزر ہوا۔ انہوں نے آپ کو سلام عرض کرتے ہوئے کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَوَّلُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا آخِرُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا حَاشِرُ یعنی اے اوّل! آپ پر سلامتی ہو، اے آخر! آپ پر سلامتی ہو۔ اے حاشِر! آپ پر سلامتی ہو۔حضرتِ جبرائیل علیہ السّلام نے عرض کیا: حُضُور! ان کے سلام کا جواب مرحمت فرمائیے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سلام کا جواب ارشاد فرمایا۔ اس کے بعد مسلسل دو جماعتوں پر گزر ہوا تو وہاں بھی ایسا ہی ہوا۔(دلائل النبوة للبيهقى، 2/362)

بیتُ المقدس آمد

ا یک روایت میں ہے کہ حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیت المقدس میں بابِ ِیمانی سے داخِل ہوئے پھر مسجد کے پاس آئے اور وہاں اپنی سواری باند ھ دی۔(سیرت حلبیہ، 1/523) آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں: میں نے براق کو اسی حلقے میں باندھا جہاں انبیائے کرام اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے۔ پھر مسجد میں داخل ہوا اور دو رکعتیں پڑھیں، پھر باہر نکلا تو بُخاری شریف کی رِوَایَت کے مُطَابِق یہاں آپ کے پاس دودھ اور شراب کے دو پیالے لائے گئے، آپ نے انہیں مُلاحظہ فرمایا پھر دودھ کا پیالہ قبول فرما لیا۔ اس پر حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کہنے لگے : ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدَاکَ لِلْفِطْرَۃِ لَوْ اَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ اُمَّتُکَ یعنی تمام تعریفیں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے جس نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی فطرت کی جانب رہنمائی فرمائی، اگر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شراب کا پیالہ قبول فرماتے تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اُمَّت گمراہ ہو جاتی۔“( صحيح البخارى، ص۱۱۸۱، الحديث : ۴۷۰۹)

مشاہدات کی تفصیل

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بیتُ المقدس پہنچنے کے بعد حضرتِ جبرائیل نے عرض کیا: وہ بڑھیا جسے آپ نے راستے کے کنارے مُلاحَظہ فرمایا تھا، وہ دنیا تھی، اس کی صرف اتنی عمر باقی رہ گئی ہے جتنی اس بڑھیا کی ہے۔ جس نے آپ کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا تھا وہ اللہ کا دشمن ابلیس تھا، چاہتا تھا کہ آپ اس کی طرف مائل ہو جائیں۔ جنہوں نے آپ کو سلام عرض کیا تھا وہ حضرتِ ابراہیم، حضرتِ موسیٰ اور حضرتِ عیسیٰ علیہم السّلام تھے۔(دلائل النبوة للبيهقى،2/ 362)

انبیائے کرام کی امامت

یہ سفر کرتے کرتے ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیت ُالمقدس تشریف لائے جہاں مسجدِ اقصیٰ میں انبیائے کرام کی امامت فرمائی۔چنانچہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ جب میں بیتُ المقدس میں آیا تو انبیا ئے کرام جمع تھے، حضرت جبریل علیہ السّلام نے مجھے آگے کیا تو میں نے ان کی امامت کی۔(نسائى، ص81، حدیث:448)

انبیائے کِرام کے خطبے

مسجدِ اقصیٰ میں نماز کے بعد بعض انبیائے کرام علیہم السّلام نے خطبے دیئے۔ سب سے پہلے اللہ کے خلیل حضرت سیِّدنا ابراہیم علیہ السّلام نے کہا: تمام تعریفیں اللہ کے لئے جس نے مجھے خلیل بنایا، عظیم بادشاہت عطا فرمائی، امام اور اپنا فرمانبردار بندہ بنایا، میری اقتدا و پیروی کی جاتی ہے، مجھے آگ سے نجات عطا فرمائی اوراسے مجھ پر ٹھنڈی اور سلامتی والی کر دیا۔

ان کے بعد حضرت سیِّدنا موسیٰ علیہ السّلام کہنے لگے: تمام تعریفیں اللہ کے لئے جس نے مجھ سے کلام فرمایا، مجھے اپنی رِسالت اور کلمات کے لئے منتخب فرمایا، مجھے راز کہنے کو قریب کیا، مجھ پر تورات نازِل فرمائی، میرے ہاتھ پر فِرعون کو ہلاک فرمایا اور میرے ہی ہاتھ پر بنی اسرائیل کو نجات عطا فرمائی۔

ان کے بعد حضرتِ سیِّدنا داوٗد علیہ السّلام نے کہا: تمام تعریفیں اللہ کے لئے جس نے مجھے بادشاہت عطا فرمائی، مجھ پر زبور نازِل فرمائی، لوہے کو میرے لئے نرم فرما دیا، میرے لئے پرندوں اور پہاڑوں کو مسخر فرما دیا، مجھے حکمت اور فصل خِطاب عطا فرمایا۔

ان کے بعدحضرت سیِّدنا سلیمان علیہ السّلام کہنے لگے: تمام تعریفیں اللہ کے لئے جس نے میرے لئے ہواؤں، جنوں اور انسانوں کو مسخر فرما دیا، شیاطین کو بھی مسخر فرما دیا اور اب یہ وہ کام کرتے ہیں جو میں ان سے چاہتا ہوں مثلاً بلند وبالا مکانات تعمیر کرنا اور تصویریں بنانا، مجھے پرندوں کی بولی اور ہر چیز سکھائی، میرے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہایا اور مجھے ایسی بادشاہت عطا فرمائی جو میرے بعد کسی کے لئے نہیں۔

ان کے بعد حضرت سیِّدنا عیسیٰ علیہ السّلام نے کہا: تمام تعریفیں اللہ کے لئے جس نے مجھے تورات اور انجیل سکھائی، مجھے پیدائشی اندھے اور کوڑھ کے مرض والے کو تندرست کرنے والا اور اپنے اِذْن سے مُردوں کو زندہ کرنے والا بنایا، مجھے آسمان پر اُٹھایا، مجھے کافِروں سے پاک کیا، مجھے اور میری ماں کو شیطان مردود سے پناہ عطا فرمائی جس کی وجہ سے اُسے میری ماں پر کوئی راہ نہیں۔

ان سب حضرات کے بعد اللہ کے حبیب، امام الانبیاء، صاحبِ معراج صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خطبہ دیا، خطبے سے پہلے آپ نے انبیائے کرام سے فرمایا کہ تم سب نے اپنے ربّ کی ثنا بیان کی ہے، اب میں رب کی تعریف وثنا بیان کرتا ہوں۔ پھر آپ نے اس طرح خطبہ پڑھا: تمام تعریفیں اللہ کے لئے جس نے مجھے تمام جہانوں کے لئے رحمت اور تمام انسانوں کے لئے خوش خبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا، مجھ پر حق وباطِل میں فرق کرنے والی کِتاب کو نازِل فرمایا جس میں ہر شے کا روشن بیان ہے، میری اُمَّت کو لوگوں میں ظاہِر ہونے والی سب اُمَّتوں میں بہترین اُمَّت بنایا، درمیانی اُمَّت بنایا اور انہیں اوّل بھی بنایا اور آخر بھی، میرے لئے میرا سینہ کُشادہ فرمایا، مجھ سے بوجھ کو دُور فرمایا، میرے ذِکْر کو بلند فرمایا اور مجھے فاتِح اور خاتِم بنایا۔ یہ سن کر حضرتِ سیِّدنا ابراہیم علیہ السّلام نے فرمایا: بِہٰذَا فَضَلَکُمْ مُحَمَّدٌ یعنی اسی وجہ سے محمد نے تم پر فضیلت پائی۔ (دلائل النبوة للبيهقى، 2/ 400، 401)

آسمانوں کی طرف سفر

یہاں مسجدِ اقصیٰ تک کے معاملات مکمل ہوئے ، اب آسمانوں کا سفر شروع ہوا۔

چنانچہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتےہیں: پھرمجھے سواری پر سوار کیا گیا، جبرئیل علیہ السّلام مجھے لیکر چلے حتّٰی کہ وہ دنیا کے آسمان پر پہنچے تو دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا: کون؟ فرمایا:جبریل، پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے، فرمایا: حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں، پوچھا گیا: کیا انہیں بلایا گیا ہے؟فرمایا:ہاں۔ تو کہا گیا: مَرْحَباً بِهِ فَنِعْمَ المَجِيءُ جَاءَ(یعنی ان کو خوش آمدید ہو وہ خوب آئے) پھر دروازہ کھولا گیا،جب میں داخل ہوا تو وہاں حضرت آدم علیہ السّلام تھے، جبریل نے کہا: یہ آپ کے والد آدم علیہ السّلام ہیں انہیں سلام کرو، میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا،پھر فرمایا: مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ (یعنی صالح فرزند، صالح نبی تم خوب تشریف لائے)، آپ نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر فرمائی۔

جنتی وجہنمی اَرواح

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کے دائیں بائیں کچھ لوگوں کو ملاحظہ فرمایا، جب آپ اپنی دائیں جانب دیکھتے تو ہنس پڑتے ہیں اور جب بائیں جانب دیکھتے تو رو پڑتے ہیں۔ حضرت جبریل نے عرض کیا: ان کے دائیں اور بائیں جانب جو صورتیں ہیں یہ ان کی اولاد ہیں، دائیں جانب والے جنتی ہیں اور بائیں جانِب والے جہنمی ہیں۔ (بخاری، 1/140، حديث:349)

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں:پھر مجھے جبریل علیہ السّلام اوپر لے گئے حتّٰی کہ دوسرے آسمان پر پہنچے دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا: کون؟ فرمایا: جبریل، پوچھا گیا تمہارے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، پوچھا گیا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ فرمایا: ہاں،کہا گیا: خوش آمدید تم بہت ہی اچھا آنا آئے،پھر دروازہ کھول دیا گیا، جب میں اندر پہنچا تو وہاں حضرت یحیی ٰعلیہ السّلام اور عیسیٰ علیہ السّلام تھے۔جبریل علیہ السّلام نے کہا:یہ یحیی ٰعلیہ السّلام ہیں اور یہ عیسیٰ علیہ السّلام ہیں، انہیں سلام کرو۔میں نے سلام کیا: ان دونوں نے جواب دیا۔پھر انہوں نے کہا: مَرْحَبًا بِالاَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ (صالح بھائی صالح نبی آپ خوب آئے)۔ انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر جبریل علیہ السّلام مجھے تیسرے آسمان کی طرف لے گئے، دروازہ کھلوایا، پو چھا گیا کون؟ فرمایا: جبریل، پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں، پوچھا گیا: انہیں بلایا گیا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ کہا گیا: خوش آمدید تم خوب ہی آئے۔ پھر دروازہ کھولا گیا، جب میں داخل ہوا تو وہاں حضرت یوسف علیہ السّلام تھے۔ جبریل علیہ السّلام نے کہا: یہ یوسف علیہ السّلام ہیں، انہیں سلام کرو۔ میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے جواب دیا۔ پھر کہا: مَرْحَبًا بِالاَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ(یعنی صالح بھائی صالح نبی آپ خوب آئے) انہیں حسن کا ایک حصّہ دیا گیا تھا، انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔پھر جبریل مجھے اوپر لے گئے حتّٰی کہ چوتھے آسمان پر پہنچے تو دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا: کون ہے؟ فرمایا: جبریل ہوں، پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، پوچھا گیا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ کہا گیا: خوش آمدید اچھا آنا، آپ آئے۔ تو دروازہ کھولا گیا، جب اندر گئے تو وہاں حضرت ادریس علیہ السّلام تھے۔ جبریل علیہ السّلام نے کہا:یہ ادریس علیہ السّلام ہیں، انہیں سلام کریں۔ میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا اور کہا: مَرْحَبًا بِالاَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ (یعنی خوش آمدید اے صالح بھائی صالح نبی)۔ انہوں نے مجھے بھی خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر مجھے اوپر لے گئے حتّٰی کہ پانچویں آسمان پر پہنچے تو دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا کون ہے؟ کہا: جبریل ہوں، پوچھا گیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں، پوچھا گیا کہ کیا انہیں بلایا گیا ہے؟ فرمایا: ہاں۔کہا گیا خوش آمدید آپ اچھا آنا آئے۔ دروازہ کھولا گیا تو وہاں حضرت ہارون علیہ السّلام تھے۔ جبریل علیہ السّلام نے کہا: یہ ہارون علیہ السّلام ہیں، انہیں سلام کیجئے۔ میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا۔ پھر کہا:مَرْحَبًا بِالاَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ (یعنی خوش آمدید اے صالح بھائی صالح نبی) انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی۔ پھر مجھے اوپر لے گئے حتّٰی کہ چھٹے آسمان پر پہنچے دروازہ کھلوایا، پوچھا گیا کون ہے؟ فرمایا: جبریل ہوں، پوچھاگیا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں، پوچھاگیا کیا انہیں بلایاگیا ہے؟ فرمایا: ہاں،کہاگیا: خوش آمدید آپ اچّھا آنا آئے۔ دروازہ کھولا گیا میں اندر پہنچا تو وہاں حضرت موسیٰ علیہ السّلام تھے۔ جبریل علیہ السّلام نے کہا: یہ موسیٰ علیہ السّلام ہیں انہیں سلام کیجئے۔ میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا۔ پھر کہا: بِالاَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ (یعنی خوش آمدید اے صالح بھائی صالح نبی)۔ انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا اور دعائے خیر کی جب وہاں سے آگے بڑھے تو موسیٰ علیہ السّلام رونے لگے۔ ان سے پوچھا گیا کیا چیز آپ کو رُلا رہی ہے؟ فرمایا: اس لئے کہ ایک فرزند میرے بعد نبی بنائے گئے، ان کی امّت میری امت سے زیادہ جنّت میں جائے گی۔پھر مجھے ساتویں آسمان کی طرف لے گئے، جبریل علیہ السّلام نے دروازہ کھلوایا، پوچھا: گیا کون ہے؟ فرمایا: جبریل ہوں، پوچھا گا: تمہارے ساتھ کون ہے؟ فرمایا: حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں، پوچھا گیا کیا انہیں بلایا گیا ہے؟فرمایا: ہاں۔ کہا گیا خوش آمدید آپ بہت اچھا آنا آئے، میں داخل ہوا تو وہاں حضرت ابراہیم علیہ السّلام تھے۔ آپ بیتُ المعمور کے ساتھ ٹیک لگا کر تشریف فرماتھے، جبریل علیہ السّلام نے کہا: یہ آپ کے والد ابراہیم علیہ السّلام ہیں انہیں سلام کریں، میں نے انہیں سلام کیا انہوں نے جواب دیا۔ پھر فرمایا:مَرْحَبًا بِالِابْنِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ۔(یعنی خوب آئے اے صالح فرزند صالح نبی)۔(بخاری، 2/584، حدیث:3887، مسلم،ص87، حدیث:411)

سدرۃ ُالمنتہی

آسمانوں کے بعد مزید قربِ ِخاص کی طرف سفر کا آغاز ہوا، اس بارے میں پیار ے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں:پھر میں سدرۃُ المنتہیٰ تک اٹھایا گیا۔(سدرۃُ المنتہیٰ بیری کا ایک نورانی درخت ہے) ا س کے پھل مٹکوں کی طرح اور پتے ہاتھی کے کانوں کی طر ح تھے۔ جب اسے اللہ کا کوئی حکم پہنچتا ہے تو متغیر ہوجاتاہے۔ اللہ کی مخلوق میں ایسا ایک بھی نہیں جو اس کے حسن کی تعریف کرسکے۔ تو اللہ نے مجھ پر وحی فرمائی جو وحی فرمائی۔ جبریل علیہ السّلام نے کہا:یہ سدرۃُ المنتہیٰ ہے۔ وہاں چار نہریں تھیں: دو نہریں خفیہ تھیں اور دو نہریں ظاہر۔ میں نے: پوچھا اے جبریل! یہ کیا ہے؟عرض کیا کہ خفیہ نہریں جنّت کی دو نہریں ہیں اور ظاہری نہریں وہ نیل اور فرات ہیں۔ پھر میرے سامنے بیتُ المعمور لایا گیا، اس کے بعد میرے پاس ایک برتن شراب کا، ایک برتن دودھ کا اور ایک برتن شہد کا لایا گیا، میں نے دودھ کا پیا لہ لیا تو جبریل علیہ السّلام نے کہا:یہ فطرت ہے، اسی پر آپ اور آپ کی امت ہوگی۔(بخاری، 2/584، حدیث:3887، مسلم،ص87، حدیث:411)

مقامِ استویٰ

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آسمانوں اور سدرۃُ المنتہی کے بعد سفر جاری رکھتے ہوئے ایک مقام پر پہنچےجسے مستوی کہاجاتاہے، وہاں آپ نے قلموں کے چلنے کی آوازیں سنیں۔اس کے بعد آپ براق پر سوار ہوئے تو اس حجاب کے پاس آئے جو اللہ کریم کے قربِ خاص میں ہے۔اچانک اس حجاب سے ایک فرشتہ نکلا، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت جبریل سےفرمایا: یہ کون ہے؟ حضرت جبریل نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق سے ساتھ مبعوث فرمایا، بطور مکان کے میں تمام مخلوق میں سب سے زیادہ قریب ہوں لیکن اس فرشتہ کو میں نے اپنی تخلیق سے لیکر اب تک دیکھا نہیں تھا۔(تاریخ الخمیس، 1/311)یوں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (سفر کو جاری رکھتے ہوئے) ایک مقام سے دوسرے مقام تک، ایک حجاب سے دوسرے حجاب تک گئے، حتّٰی کہ ایک ایسے مقام پر پہنچے جہاں حضرت جبریل رک گئے، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے جبریل! مجھ سے الگ نہ ہو، عرض کیا: اے میرے آقا! ہماری رسائی بس ایک معلوم مقام تک ہے۔ میں اگر ایک بال برابر بھی آگے جاؤں گا تو جل جاؤں گا۔ اس رات تو میں آپ کے احترام کی وجہ سے یہاں تک پہنچا ہوں ورنہ میراآخری ٹھکانہ سدرۃُ المنتہی ہے۔(تاریخ الخمیس، 1/311)

حضرت جبریل کی انتہا

حضرت جبریل صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود ہی فرمایا تھاکہ میرا آخری ٹھکانا سدرۃُ المنتہی ہے، لیکن شبِ معراج نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے انہیں سدرۃُ المنتہی سے آگے جانے کی اجازت مل گئی، حضرت جبریل کے رکنے کے بعد اب نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اکیلے چلے، آپ اندھیرے والے حجابات سے گزرتے گئے حتّٰی کہ سترّ ہزار(70000) ایسے موٹے حجابات سے بھی تجاوز کر گئے جن میں سے ہر ایک کی طوالت پانچ سو(500) سال کے برابر تھی، اور ہر حجاب کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ تھا، تو ایک مقام پر براق رک گیا، وہاں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رفرف نامی ایک سبز خیمہ ملاحظہ فرمایا جس کی روشنی سورج کی روشنی سے بھی زیادہ تھی، آپ اس خیمے پر چڑھے اور اس کے ذریعے عرش تک پہنچے۔ (تاریخ الخمیس، 1/311) اس کے بعد آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مزید قربِ خاص کی طرف بڑھے، آپ سے فرمایا گیا، میرے قریب ہوجائیے،میرے قریب ہوجایئے حتی کہ ہزار مرتبہ فرمایا گیا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہر بار پکارے جانے پر ترقی کرتے گئے حتّٰی کہ دنا کےمقام پر پہنچے، پھر مزید ترقی کرتے گئے تو فتدلی تک پہنچے۔ پھر مزید ترقی کرتے گئے حتی کہ اپنی منزل قاب قوسین او ادنی تک پہنچے جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰن ِکریم میں ارشاد فرمایا۔ پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے رب کے قریب ہوئے، یہ قرب مقام و مرتبے کے اعتبار سے تھا نہ کہ مکان کے اعتبار سے، کیونکہ اللہ پاک مکان سے پاک ہے۔(اب آپ وہاں پہنچے جہاں، نہ زماں تھا نہ مکاں، نہ اوپر تھا نہ نیچے، نہ شمال تھا نہ جنوب، نہ مشرق تھا اور نہ ہی مغرب، یہ سب نہ تھے، بس خدا کی ذات تھی اور اس کے حبیب تھے،جو قرآن و حدیث میں آیاہے اس پر ہمارا ایمان، مزید ہمیں سوچنے اور عقل دوڑانے کی ضرورت نہیں) اس کے بعد آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اللہ کریم کو سجدہ کیا، کیونکہ اس مرتبے کو آپ نے اللہ تعالی کی فرمانبرداری کےذریعے حاصل کیا، سجدے میں خاص قرب ملتاہے جیساکہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اپنے رب کے زیادہ قریب وہ بندہ ہوتاہے جو سجدہ کرتا ہے۔(تاریخ الخمیس، 1/311)

نمازوں کی فرضیت

اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ہر دِن رات 50 نمازوں کا تحفہ (بھی) عَطا فرمایا۔ واپس آتے ہوئے جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس پہنچے تو وہ عرض گُزَار ہوئے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ربّ نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اُمَّت پر کیا فرض فرمایا؟ ارشاد فرمایا : 50نمازیں۔ اس پر حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کیا : ”اِرْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَاسْأَلْہُ التَّخْفِیْفَ فَاِنَّ اُمَّتَکَ لَا یُطِیْقُوْنَ ذٰلِکَ فَاِنِّیْ قَدْ بَلَوْتُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ وَخَبَرْتُہُمْ یعنی واپس اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے پاس جائیےاور اُس سے کمی کا سوال کیجئے کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اُمَّت سے یہ نہیں ہو سکے گا، میں نے بنی اسرائیل کو آزما کر دیکھ لیا ہے اور ان کا تجربہ کر لیا ہے۔“ چنانچہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم واپس ربّ تَعَالٰی کی بارگاہ میں حاضِر ہوئے اور عرض کیا : ”یَارَبِّ خَفِّفْ عَلٰی اُمَّتِیْ یعنی اے میرے ربّ! میری اُمَّت پر تخفیف فرما۔“ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے پانچ نمازیں کم کر دیں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم واپس حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے پانچ نمازیں کم کر دی ہیں۔ حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پھر وہی عرض کیا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اُمَّت سے یہ نہ ہو سکے گا ، واپس اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے پاس جائیے اور اُس سے کمی کا سوال کیجئے۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، ربّ تَعَالٰی کی بارگاہ میں حاضِر ہوتے تو وہ پانچ نمازیں کم فرما دیتا پھر حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس تشریف لاتے تو وہ اور کمی کا عرض کر کے واپس ربّ تَعَالٰی کی بارگاہ میں بھیج دیتے، حتی کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرمایا : اے محمد (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)! دِن اور رات میں یہ پانچ نمازیں ہیں اور ہر نماز کا ثواب دس گُنا ہے، اِس طرح یہ 50نمازیں ہوئیں۔ جو نیکی کا ارادہ کرے پھر اسے نہ کرے تو اُس کے لئے ایک نیکی لکھ دی جائے گی اور اگر کر لے تو دس نیکیاں لکھی جائیں گی اور جو بُرائی کا ارادہ کرے پھر اس سے باز رہے تو اُس کے نامۂ اَعْمال میں کوئی بُرائی نہیں لکھی جائے گی اور اگر بُرا کام کر لیا تو ایک بُرائی لکھی جائے گی۔ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس تشریف لائےاور انہیں اس بارے میں بتایا تو حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پھر وہی عرض کیا کہ واپس اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے پاس جائیے اور اُ س سے کمی کا سوال کیجئے۔ اس پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : میں اپنے ربّ عَزَّ وَجَلَّ کے پاس اتنی بار گیا ہوں کہ اب مجھے حَیَا آتی ہے۔ (صحيح مسلم، كتاب الايمان، باب الاسراء الخ، ص۷۹ ، الحديث : ۱۶۲)

جنت و دوزخ کی سیر

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رب تعالیٰ کے دیدار کےبعد اپنی امت کےلئے نمازوں کا تحفہ لیکر واپسی کا سفر شروع فرمایا، جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم واپس لوٹے تو حضرت جبریل آپ کے ساتھ رہے۔ چنانچہ حضرت جبریل نے عرض کیا: یارسول اللہ!بے شک آپ اللہ کی مخلوق میں سب سے بہتر اور اس کے چنے ہوئے ہیں، اللہ پاک نے آپ کو اس رات وہ بلند مقام و مرتبہ عطا فرمایا جہاں تک مخلوق میں سے نہ کوئی مقرب فرشتہ پہنچا اور نہ ہی کوئی نبی، بس یہ عزت آپ ہی کے لئے ہے۔ اس کے بعد حضرت جبریل نے آپ کو جنت و دوز خ کی سیر کرائی، ان کے مناز ل آپ کو دکھائے۔ آپ نے جنت میں جن چیزوں کو ملاحظہ فرمایا ان میں حوریں، محلات، جنتی غلام/خادم، چھوٹے بچے، درخت، پھل، کلیاں، نہریں، باغیچے، پھول، باغات، حوض، کمرے اور گیلریاں وغیرہ۔ اور جہنم میں جوملاحظہ فرمایا وہ زنجیریں، ہتھکڑیاں یا طوق، بیڑیاں، سانپ، بچھو، گدھے کے رینگنے کی طرح کی آوازیں، کھولتا پانی، جلتے دھوئیں وغیرہ۔ (تاریخ الخمیس، 1/314، 315)

زمین پر تشریف آوری

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےواپسی میں جنت اور دوزخ کو ملاحظہ فرمایا، اس کے بعد آسمانوں سے ہوتے ہوئے بیتُ المقدس پھر مکہ شریف حضرت ام ہانی کے گھر تشریف لائے جہاں سے سفر کی ابتداہوئی تھی، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیت المقدس تک آئے، حضرت جبریل آپ کے ساتھ تھے، پھر آپ وہاں سے مکہ شریف حضرت ام ہانی کے گھر اپنے بستر پر تشریف لائے، جبکہ رات کا کچھ حصّہ باقی تھا۔ (تاریخ الخمیس، 1/315)

معراج کا اعلان

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رات گزارنے کےبعد یہ واقعہ لوگوں میں بیان کرنے کا ارادہ فرمایا، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فر مایا:مجھے اس رات بیت المقدس تک سیر کروائی گئی، پھر وہاں سے آسمانوں کی۔ ابو جہل نے کہا: آپ نے اس ایک رات میں بیت المقدس کا سفر کیا اور مکہ میں ہمارے ساتھ ہی صبح کررہے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں۔ابو جہل اس خوف سے انکار نہ کرسکا کہ آپ یہ بات اپنی قوم میں بیان کریں گے۔تو حضور ِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا کہ کیا یہ بات اپنی قوم کو بتائیں گے؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔یہ سن کر ابو جہل نے آواز لگائی کہ اے بنی کعب! یہاں آؤ۔ تو سب لوگ جمع ہوئے، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ابو جہل کےپاس بیٹھ گئے۔ ابوجہل نے کہا: جو بات بیان کرنی ہے اپنی قوم سے کریں، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مجھے اس رات سیر کرائی گئی تھی۔ لوگوں نے پوچھا: کہاں سے کہا ں تک؟فرمایا بیت المقدس تک۔پھر لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے یہاں آکر صبح کی ہے؟ فرمایا :ہاں۔ لوگوں نے کہا یہ تو عجیب بات ہے۔ ان میں بعض نے تالیاں بجائیں، بعض ہنسنے لگے، اور بعض نے اپنے سروں پر ہاتھ رکھا۔اس معاملے کو محال اور تعجب کی نگاہ سے دیکھا گیا، اس کی وجہ سے بعض ایمان والے مرتد ہوگئے جبکہ بعض نے تصدیق کی۔(تاریخ الخمیس، 1/315)

واقعۂ معراج اور صدیق اکبر

امُّ المؤمین حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہےکہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مسجد اقصیٰ تک کی سیر کرائی گئی، آپ نے صبح لوگوں کو خبر دی، مؤمنوں میں سے کچھ نے تصدیق کی اورکچھ نے نہیں کی، کچھ مشرکین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ کے پاس آ کر کہنے لگے: کیا آپ اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں جو آپ کے دوست نے کہی ہے کہ اُنہوں نے راتوں رات مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ کی سیر کی؟ حضرت ابو بکر نے فرمایا: اَوَ قَالَ ذٰلِکَ؟ کیا واقعی میرے آقا نے یہ فرمایا ہے؟ کہا: جی ہاں۔ ارشاد فرمایا: لَئِنْ کَانَ قَالَ ذٰلِکَ لَقَدْ صَدَقَ یعنی اگر آپ نے یہ فرمایا ہے تو یقیناً سچ فرمایا ہے۔ لوگوں نے کہا: کیا آپ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ رات کو بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس آ گئے؟ فرمایا: ”نَعَمْ! اِنِّیْ لَاُصَدِّقُہٗ فِیْمَا ہُوَ اَبْعَدُ مِنْ ذٰلِکَ اُصَدِّقُہٗ بِخَبْرِ السَّمَاءِ فِیْ غُدْوَۃٍ اَوْ رَوْحَۃٍ جی ہاں! میں تو ان کی آسمانی خبروں کی بھی صبح وشام تصدیق کرتا ہوں اور یقیناً وہ تو اِس بات سے بھی زِیادہ حیران کُن اور تَعَجُّب خیز ہے۔ واقعۂ معراج کی فوراً تصدیق کرنے کی وجہ سے آپ کو صدّیق کہا جاتاہے۔(المستدرك للحاكم، 4/ 25، حديث: 4515)


دعوتِ اسلامی کی جانب سے  عاشقانِ رسول کی شرعی رہنمائی کرنے کے لئے ایک شعبہ بنام دارالافتاء اہل سنت قائم کیا گیا ہے جس میں روانہ کی بنیاد پر سینکڑوں عاشقانِ رسول کی شرعی رہنمائی کی جاتی ہے۔ دارالافتاء اہل سنت کی جانب سے وقتاً فوقتاً مختلف کورسز کا انعقاد بھی کیا جاتا رہتا ہے تاکہ عاشقانِ رسول کو دینِ اسلام کی بنیادی باتوں سے آگاہی حاصل ہو ۔

اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے حالیہ دنوں میں دارالافتاء اہل سنت کی جانب سے عاشقانِ رسول کو قرآن و حدیث کے احکامات سے آگاہی فراہم کرنے کے لئے ایک کورس بنام”فیضانِ قرآن و حدیث کورس“لاؤنچ کردیا گیا ہے جس کی پہلی نشست گزشتہ روز 13 فروری کو جامع مسجد دارالحبیبیہ دھوراجی کالونی کراچی میں اڑھائی بجے سے چار بجے تک منعقد ہوئی۔

نشست کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک و نعتِ رسول ِ مقبولﷺ سے ہوا جس کے بعد استاذ الحدیث مفتی حسان عطاری مدنی مُدَّ ظِلُّہُ العالی نے ”مسلمانوں پر قرآن کے حقوق“ کے موضوع پر درسِ قرآن دیا جبکہ مفتی جمیل غوری عطاری مدنی مُدَّ ظِلُّہُ العالی نے ”حدیثِ جبرئیل کے مفاہیم“ کے عنوان سے درسِ حدیث دیا۔

دھوراجی کے علاوہ یہی کورس فیضانِ غوث پاک خیابانِ حافظ DHA فیز 6 میں بھی منعقد ہورہا ہے ۔ فیضانِ غوث پاک میں عصر کی نماز کے بعد منعقد ہونے والے اس کورس کی پہلی نشست میں استاذ الحدیث مفتی حسان عطاری مدنی مُدَّ ظِلُّہُ العالی نے سنتوں بھرا بیان فرمایا اور قرآن و حدیث کی روشنی میں عاشقانِ رسول کی رہنمائی کی۔

دارالافتاء اہلِ سنت کے ہیڈ مولانا ثاقب عطاری مدنی مُدَّ ظِلُّہُ العالی نےکورس کے متعلق دعوتِ اسلامی کے شب وروز کو بتایا کہ اس کورس کی کلاسز 13 فروری 2022ء بروز اتوار سے لے کر رمضان المبارک سے پہلے تک ہر اتوار کو جامع مسجد دارالحبیبیہ دھوراجی کالونی کراچی اور فیضانِ غوث پاک خیابانِ حافظ DHA فیز 6 میں ہوا کریں گی۔ سات کلاسز پر مشتمل ان کلاسز میں ہر کلاس کے دوران دو درس ہوا کریں گے، پہلا درسِ قرآن اور دوسرا درسِ حدیث ہوگا۔

عاشقانِ رسول سے التجا ہے کہ جن سے ممکن ہو وہ جامع مسجد دارالحبیبیہ دھوراجی کالونی کراچی یا فیضانِ غوث پاک خیابانِ حافظ DHA فیز 6 میں تشریف لاکر اس کورس میں شرکت فرمائیں اور علم دین کا ڈھیروں ڈھیر خزانہ حاصل فرمائیں۔

واضح رہے کہ یہ کورس جامعۃ المدینہ دارالحبیبیہ دھوراجی کراچی کے فیس بُک پیج پر براہِ راست نشر بھی کیا جارہا ہے۔

PAGE LINK

https://www.facebook.com/darulhabibya/


اپنےآپ کو وقت دیں

Mon, 14 Feb , 2022
2 years ago

رب کائنات نے انسان کو اَن گنت نعمتیں عطا فرمائی ہیں،جن میں سے ہر ایک کی خاص اہمیت و افادیت ہے۔ان نعمتوں میں سے کئی نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کا درست استعمال کئی دوسری نعمتوں کے حصول کا سبب بن سکتا ہے،اور ان کی قدر نہ کرتے ہوئے انہیں ضائع کردینا کئی   ناکامیوں اور محرومیوں کا باعث ہوسکتا ہے۔

ان نعمتوں میں سےایک قابل ذکر نعمت ”وقت“ بھی ہے۔ ”وقت “رب العالمین عزوجل کی عطا کردہ انمول نعمت ہے۔دنیا میں جن جن اشخاص نےبھی ” وقت“ کا اچھا استعمال کیا انہیں اپنی منزل پر پہنچنا اور اپنے مقاصد میں کامیاب ہونا نصیب ہوا۔

وقت کا استعمال تو ہر شخص ہی کرتا ہے،لیکن اس معاملے میں بعض افراد تو اپنی ذات کو یکسر فراموش کرکے یہ وقت صرف دوسروں کیلئے صرف کردیتے ہیں۔شب و روز دوسروں کی خواہشات کی تکمیل میں مصروف رہنا،ان کی ہر طرح کی توقعات پر پورا اترنے کی جستجو میں لگے رہنا اور سب کو خوش رکھنے کی فکر کرتے رہنا ، یہ تمام چیزیں انسان کو اپنی شخصیت سنوارنے،ذاتی صلاحیتیں بڑھانے اور دینی و دنیوی کامیابیاں اور منافع حاصل کرنے سے مشغول کئے رکھتا ہے۔

گھر اور معاشرے کے جن جن افراد کی ذمہ داریاں بندے پر ہیں،انہیں نبھانے اور جو جو حقوق لازم ہیں،ان کی ادائیگی کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کو اپنی ذات کیلئے بھی کچھ ، بلکہ بہت سا وقت نکالنا چاہیئے۔ جس میں خاص طور پر(فرائض و واجبات شرعیہ کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ) رب تعالیٰ کی(نفلی)عبادت کرکے ، اس کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو ادا کرکے دارین کی سعادتمندی کا حقدار بننا چاہئے۔(اگرچہ بندہ مومن کی زندگی کے اکثر لمحات کا انہیں کاموں میں گزرنا عین سعادتمندی ہے)۔

اسی طرح انسان کو ذاتی و شخصی اعتبار سے اپنی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو پہچان کر انہیں کام میں لانے اور بڑھانے کیلئے کوشاں رہنا چاہئے۔خدا داد صلاحیتوں کو تلاش کرکےانہیں مزید تراشنا اور ان کا درست و بر محل استعمال کرنا انسان کو ترقیوں اور کامیابیوں کی منازل طے کروا سکتا ہے اور سعادت دارین کا مستحق بنا سکتا ہے۔

اللہ کریم ہمیں اپنے محبوب اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں وقت کا اچھا استعمال کرنے،اپنے آپ کو وقت دینے اور اپنی صلاحیتوں کو تلاش کرکے ان کو درست انداز میں استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یوں ہمیں دینی و دنیوی کامیابیاں پانے کی سعادت دے۔

آمین بجاہِ طٰہ ویٰس

از: ابو الحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی


حضرت سیِّدُنا زُبَیر بِن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ حضورِ اکرم ﷺکے پھوپھی زاد بھائی، خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کے داماد ، ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہُ عنہا کے بھتیجے اور حضرت صفیہ بنت عبد المطلب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے فرزند ہیں۔

بچپن کے زمانے میں والد کا سایہ شفقت اٹھ جانے کے بعد آپ کی تربیت کی ساری ذمہ داری آپ کی والدہ حضرت صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے پوری کی ۔حضرت صفیہ نے ابتدا ء ہی سے ان کی ایسی تربیت کی تھی کہ وہ جوان ہوکر ایک عالی حوصلہ،بہادر،الوالعزم مرد ثابت ہوں، چنانچہ وہ بچپن میں عموماًانہیں سخت سے سخت محنت ومشقت کے کام کا عادی بناتی تھیں اور انکی سخت نگرانی کرتیں۔حضرت زبیر سابقین اسلام (سب سے پہلے ایمان لانے والوں) میں ممتاز اورنمایاں تقدم کا شرف رکھتے ہیں۔حضرت زبیر اگرچہ ابھی کمسن تھے،لیکن استقامت اورجان نثاری میں کسی سے پیچھے نہ تھے، قبول اسلام کے بعدمکہ میں یہ افواہ پھیل گئی کہ مشرکین نے آنحضرت ﷺ کو گرفتارکرلیاہے،یہ سن کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اسی وقت ننگی تلوارکھینچ کر مجمع کو چیرتے ہوئے آستانہ اقدس پر حاضر ہوئے جب رسول اللہ ﷺ نے دیکھا تو پوچھا زبیر !یہ کیا ہے؟ عرض کیا مجھے معلوم ہوا تھا کہ آپ گرفتار کرلئےگئے ہیں،سرورکائنات ﷺ نہایت خوش ہوئے اوران کے لیے دعائے خیر فرمائی، اور اپنی چادر عنایت کی۔ علمافر ماتے ہیں کہ یہ پہلی تلوار تھی جو راہ فدویت وجان نثاری میں ایک بچے کے ہاتھ سے برہنہ ہوئی۔(الریاض النضرۃ،4/ 274 ) مکہ کے باقی مسلمانوں کی طرح حضرت زبیر بھی مشرکین مکہ کےظلم و ستم سے محفوظ نہ تھے،ان کے چچانے ہر ممکن طریقہ سے ان کو اسلام سے برگشتہ کرنا چاہا،لیکن توحید کا نشہ ایسانہ تھا جو اترجاتا ،بالآخراس نے برہم ہوکر اوربھی سختی شروع کر دی ، غرض مظالم وشدائد سے اس قدر تنگ آئے کہ وطن چھوڑکرپہلے حبشہ کی راہ لی، پھر دوسری دفعہ سرور کائنات ﷺ کے ساتھ مدینہ کا قصد کیا۔ (اسد الغابہ،2/295 )۔

نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے، جنگ بدر میں بڑی جانبازی سے لڑے اور دیگر غزوات میں بھی بڑی شجاعت دکھائی۔ فتح مکہ کے روز رسول اللہ کے ذاتی دستے کے علمبردار تھے ۔ جنگ فسطاط میں حضرت عمرنے چار افسروں کی معیت میں چار ہزار مجاہدین کی کمک مصر روانہ کی۔ ان میں ایک افسر حضرت زبیر بھی تھے۔ اور اس جنگ کی فتح کا سہرا آپ کے سر ہے۔آپ رضی اللہ عنہ ان دس صحابہ کرام میں سے ہیں جن کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی۔(سنن الترمذی ،حدیث:3768 ،5/416 )آپ کا شمار ان چھ صحابہ کرام کی شوری ٰمیں بھی ہوتا ہے جو حضرت عمر نے اپنی دورِخلافت میں بنا یا تھا۔(اسد الغابہ ،2/296 )آپ کا لقب حواریِ رسول ہے۔ ( سنن الترمذی ،حدیث:3765 ،5/415)مدینہ ہجرت کرنے کے بعد سب سے پہلے آپ کے یہاں بیٹے (عبد اللہ بن زبیر) مولود ہوئے۔(البدایۃ والنہایۃ ، 2/ 633 )حضرت زبیر کا دامن اخلاقی زروجواہر سے مالا مال تھا، تقوی،پارسائی،حق پسندی،بے نیازی،سخاوت اورایثار آپ کا خاص شیوہ تھا،رقت قلب اورعبرت پذیری کا یہ عالم تھا کہ معمولی سے معمولی واقعہ پر دل کانپ اٹھتا تھا۔مساواتِ اسلامی کا اس قدر خیال تھا کہ دومسلمان لاشوں میں بھی کسی تفریق یا امتیاز کو جائز نہیں سمجھتے تھے، جنگ احد میں آپ کےماموں حضرت حمزہ شہید ہوئے تو حضرت صفیہ نے بھائی کی تجہیز و تکفین کے لیے دو کپڑے لاکر دئیے ،لیکن ماموں کے پہلو میں ایک انصاری کی لاش بھی بے گوروکفن پڑی تھی، دل نے گوارا نہ کیا کہ ایک کے لیے دودو کپڑے ہوں اوردوسرا بے کفن رہے،غرض تقسیم کرنے کے لیے دونوں ٹکڑوں کو ناپا،اتفاق سے چھوٹا بڑا نکلا قرعہ ڈال کر تقسیم کیا کہ اس میں بھی کسی طرح کی ترجیح نہ پائی جائے۔ (المسند للامام احمد،1/ 349 )

امانت و دیانت اورانتظامی قابلیت کا عام شہرہ تھا،یہاں تک کہ لوگ عموماًاپنی وفات کے وقت ان کو اپنے آل واولاد اورمال ومتاع کے محافظ بنانے کی تمنا ظاہر کرتے تھے،مطیع بن الاسود نے ان کو وصی بنانا چاہا، انہوں نے انکار کیا تو لجاجت کے ساتھ کہنے لگےمیں آپ کو خدا و رسول ﷺ اورقرابت داری کا واسطہ دیتا ہوں، میں نے فاروق اعظم کو کہتے سنا ہے کہ زبیر دین کے ایک رکن ہیں، حضرت عثمان ، مقداد ،عبد اللہ بن مسعود اورعبدالرحمان بن عوف وغیرہ نے بھی ان کو اپنا وصی بنایا تھا، (الاصابۃ،2/460 )چنانچہ یہ دیانتداری کے ساتھ ان کے مال ومتاع کی حفاظت کرکے ان کے اہل و عیال پر صرف کرتے تھے۔

فیاضی،سخاوت اورخداکی راہ میں خرچ کرنے میں بھی پیش پیش رہتے تھے، حضرت زبیر کے پاس ایک ہزار غلام تھے،روزانہ اجرت پر کام کرکے ایک بیش قرار رقم لاتے تھے، لیکن انہوں نے اس میں سے ایک حبہ بھی کبھی اپنی ذات یا اپنے اہل و عیال پر صرف کرنا پسند نہ کیا بلکہ جو کچھ آیا اسی وقت صدقہ کر دیا،غرض ایک پیغمبر کے حواری میں جو خوبیاں ہوسکتی ہیں،حضرت زبیر کی ذات والا صفات میں ایک ایک کرکے وہ سب موجود تھیں۔

آپ کا ذریعہ معاش تجارت تھا، انہوں نےجس کام میں ہاتھ لگایا، کبھی گھاٹا نہیں ہوا۔تجارت کے علاوہ مالِ غنیمت سے بھی گراں قدررقم حاصل کی،حضرت زبیر کی ملکیت کا صرف اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ان کے تمام مال کا تخمینہ پانچ کروڑدولاکھ درہم کیا گیا تھا، لیکن یہ سب نقد نہیں؛ بلکہ جائداد غیر منقولہ کی صورت میں تھا، اطراف مدینہ میں ایک جھاڑی تھی، اس کے علاوہ مختلف مقامات میں مکانات تھے،چنانچہ خاص مدینہ میں گیارہ ،بصرہ میں دو اورمصروکوفہ میں ایک ایک مکان تھا۔

دولت وثروت کے باوجود طرز معاشرت نہایت سادہ تھا،غذا بھی پرتکلف نہ تھی ،لباس عموماً معمولی اورسادہ زیب تن فرماتے ،البتہ جنگ میں ریشمی کپڑے استعمال کرتے تھے؛ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خاص طور پران کو اجازت دی تھی،آلاتِ حرب کا نہایت شوق تھا اوراس میں تکلف جائز سمجھتے تھے،چنانچہ ان کی تلوار کا قبضہ نقرئی تھا۔

رسول اللہ سے قربت رکھنے کے باعث بے شمار احادیث جانتے تھے۔ لیکن بہت کم حدیث بیان کی۔حضرت سیِّدُنا زُبَیربن عَوَام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے مختلف اوقات میں کل نو شادیاں کیں مگر اولاد صرف چھ ازواج سے ہوئی چنانچہ، (1) حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق سے عبد اللہ، عروہ ، منذر ، عاصم، مہاجر، خدیجۃ الكبرى، ام حسن، عائشہ (2)بنو اُمیہ کی أم خالد بنت خالد بن سعيد بن العاص سے خالد ، عمرو، حبیبۃ، سودة، ہند (3) بنی کلب کی رباب بنت اُنَيْف سے مصعب ، حمزہ، رملہ (4) بنو ثعلب کی ام جعفر زينب بنت مرثد سے عبيدہ ، جعفر (5) ام كلثوم بنت عقبۃ بن ابی معيط سے زينب (6)بنو اسد کی حلال بنت قيس بن نوفل سے خدیجۃ الصغرى رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن ہیں۔ (طبقات الکبریٰ ،3/74)

حضرت سیِّدُنا زُبَیر بن عَوَّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ جب جنگ جمل چھوڑ کر واپس جا رہے تھے، تو ابن جرموز نے تعاقب کر کے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو دھوکےسےشہیدکردیا۔ یہ جنگ بروز جمعرات ۱۱جمادی الاخریٰ ۳۶ ھ؁ میں ہوئی۔ (الاصابۃ، 2/460) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا مزار مبارک عراق کی سر زمین پر جس شہر میں واقع ہے اس کا نام ہی مَدِیْنَۃُ الزُّبَیْر ہے۔

روایت میں ہے کہ جب حضرت سیِّدُنا زُبَیْربن عَوَام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جامِ شہادت نوش فرمایا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کوئی درہم و دینارنہ چھوڑا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ترکہ میں صرف غابہ کی چند زمینیں اور کچھ (تقریباً پندرہ) گھر تھے اور قرضے کا عالم یہ تھا کہ جب کوئی شخص ان کے پاس امانت رکھنے کے لئے آتا تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے: ’’امانت نہیں ، قرض ہے کیونکہ مجھے اس کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔‘‘ لہٰذا جب میں نے حساب لگایا تو وہ بیس لاکھ (20,00,000) بنا، پس میں نے وہ قرض ادا کر دیا۔


عقل کی فضیلت

Fri, 11 Feb , 2022
2 years ago

اللہ پاک نےاپنی مُقَدَّس کتاب قرآنِ پاک میں عقل کی شرافت وبزرگی کابیان فرمایاہے،اہْلِ علم ومعرفت کہتے ہیں کہ عقل ایک روشن وچمکدار جوہر ہےجسےاللہ پاک نےدماغ میں پیدا فرمایااوراس کا نوردل میں رکھااور دل اس کے ذریعےواسطوں کے سہارے معلومات اور مشاہدے کی بدولت محسوسات کا علم حاصل کرتا ہے۔قرآنِ کریم میں لفظ ”عقل “ مختلف صیغوں کی صورت میں تقریبا49مرتبہ آیا ہےاورباربار’’لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ،اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ،لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ،فَہُمْ لَایَعْقِلُوْنَ،اَکْثَرُہُمْ لَایَعْقِلُوْن‘‘ سے عقل کے استعمال کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔اسلام عقل کے استعمال کی ترغیب دیتا ہے ، اس کی تعریف بیان کرتا ہے ، اس کی طرف راغب کرتا ہے ، اللہ پاک نے ہر  انسان کو مختلف خوبیاں عطا فرمائی ہیں لیکن  ان سب میں سے افضل خوبی عقل ہے۔(فیض القدیر، 5/566،  تحت الحدیث: 7901)

٭عقل انسان کی  ہدایت کا ذریعہ بنتی اور اُسے اچھائی اور بُرائی میں فرق کرنا سکھاتی ہے۔ آدمی جب تک کوئی بھی نیا قدم اُٹھانے یا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنی عقل اور فہم وفراست سے کام لیتا ہے کامیاب ہوتا ہے٭عقل وذہانت کے استعمال سے بڑی بڑی کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں ۔صحابی ابنِ صحابی حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہماکو افریقہ کے لشکرمیں بھیجا گیا ،کامیابی نہیں ہورہی تھی، آپ نے امیرِلشکرکو مشورہ دیا کہ آدھے لشکرکودوپہرکے بعد آرام کروایا جائے تاکہ شام کو آرام کرنے والادستہ لشکرکشی کرکے کامیابی حاصل کرلے ،مشورہ قبول کیا گیا اورفتح حاصل ہو گئی۔٭کسی کام کی رائے دینا اورپھر کرنے کا طریقہ بھی بتانا اعلیٰ ذہانت کی علامت ہے٭عقل کے استعمال سے مشکلات کا مقابلہ کیا جاسکتاہے۔مشکلات میں کامیابی زیادہ کوشش سےحاصل ہوتی ہے ۔٭اگرایک طریقے سے کام نہ ہورہا ہو تو اس کا اندازاورڈھنگ بدلنے سے کامیابی حاصل ہوجاتی ہے۔٭اپنی صلاحیت کو بہترکرنے کے لیے اپنی مہارت کو بڑھانا ہوتاہے۔ ٭اچھے فیصلے اچھی عقل سے ہوتے ہیں ۔

عقل کی اقسام

عقل کی دو قسمیں ہیں:پہلی قسم وہ ہے جو کمی زیادتی کو قبول نہیں کرتی جبکہ دوسری قسم میں کمی اورزیادتی ہوسکتی ہے۔پہلی قسم فطری عقل کی ہے جو تمام عقل مندوں کے درمیان مشترک (یکساں )ہے، اس میں کمی یا زیادتی نہیں ہوتی ۔ دوسری قسم تجربے سے حاصل ہونے والی عقل ہے جو کہ کوشش سے حاصل ہوتی ہے، تجربات اور مشاہدات کی کثرت سے اس میں اضافہ ہوتا ہے،اس اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ بوڑھےشخص کی عقل کامل اور واقفیت زیادہ ہوتی ہے جبکہ تجربہ کارآدمی زیادہ معاملہ فہم اورمعرفت والا ہوتا ہے۔ زمانے کے واقعات نے جس کے بال سفید کردیےہوں،مختلف تجربات نےاس کی جوانی کے لباس کوبوسیدہ کردیا ہواوراللہ پاک نے اس کےتجربات کی کثرت کی بدولت اسےاپنی قدرت کےعجائبات دکھائےہوں ،وہ عقل کی پختگی اور درست رائے کا زیادہ حق دارہوتاہے۔ منقول ہےکہ تجربہ عقل کاآئینہ ہے،اسی لئےبوڑھے اَفراد کی رائے کی تعریف کی جاتی ہے یہاں تک کہا جاتا ہےکہ بوڑھےاَفراد وقارکادرخت ہوتے ہیں ،وہ نہ تو بھٹکتے ہیں اور نہ ہی بے عقلی کا شکار ہوتے ہیں۔ بوڑھے افراد کی رائے کو اختیار کرو کیونکہ اگران کے پاس عقل و دانائی نہ بھی ہوتوزندگی بھرکے تجربات کی بدولت ان کی رائے دوسروں سے اچھی ہوتی ہے۔ البتہ اللہ پاک اپنےلطف و کرم سےجسےچاہتا ہے خاص فرماکر عقل کی ایسی پختگی اورمعرفت کی زیادتی عطا فرماتا ہے جو کوشش سے حاصل نہیں ہوپاتی اور اس کی بدولت بندہ تجربہ کاراورسیکھے ہوئے لوگوں سے بھی سبقت لےجاتا ہے۔ اللہ پاک اپنے بندوں میں سے کسی کو منتخب فرماکر اس کے دل کو انوارِربّانی سےمنورفرماتا ہے تو وہ بندہ درستی کی طرف ہدایت پاتا ہے اوربہت سارے معاملات میں تجربہ کارافراد سے بھی فائق ہوجاتا ہے۔

عقلمندی کی علامتیں

٭کسی شخص کی عقل کے کامل ہونے پر اس سے صادر ہونے والے اَقوال واَفعال سے استدلال کیا جاتا ہے،جیسےاچھے اخلاق وعادات کی طرف مائل ہونا،گھٹیااعمال سے کنارہ کش ہونا ،بھلائی کے کاموں کی طرف راغب ہونا اور ایسی باتوں سے دُور ہونا ہے جو شرمندگی کا باعث بنیں اور جن کے سبب لوگ باتیں بنائیں۔ ٭ایک دانا(عقلمند)سےپوچھاگیا: کسی شخص کی عقل کی پہچان کیسےہوتی ہے؟جواب دیا: گفتگومیں غلطی کم اوردرستی زیادہ ہونے سے٭کسی شخص کی عقل پر سب سے بڑی گواہی اس کا لوگوں سے اچھا سلوک کرنا ہے۔منقول ہےکہ عقل مند شخص وہ ہے جو اپنے زمانے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔٭عقل بادشاہ جبکہ عادات واطوار اس کی رعایا ہیں،جب عقل اپنی رعایا کی دیکھ بھال میں ناکام ہوجائے تو ان میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔٭منقول ہےکہ عقلمند بلند مرتبہ حاصل ہونے پر اِتراتا نہیں ،غرورنہیں کرتا جیسا کہ پہاڑ پر کتنی ہی تیز ہوائیں چلیں لیکن اسے ہِلا نہیں سکتیں جبکہ جاہل آدمی معمولی مقام ومرتبے پر پُھول جاتا ہے جیسا کہ گھاس معمولی ہوا سے بھی ہِلنے لگتی ہے۔٭اسلام کے چوتھے خلیفہ امیرالمؤمنین حضرت علیُّ المرتضی ٰکَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ الْکَرِیْم سےعرض کی گئی:ہمارے سامنے عاقل کی صفات بیان فرمادیجیے۔فرمایا:عاقل وہ ہےجو ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھے۔پھرعرض کی گئی:جاہل کی پہچان بھی بتادیجیے۔فرمایا:وہ تو میں بتاچکاہوں،یعنی جو ہر چیز کو اس کے مقام ومرتبے پر نہ رکھے وہ جاہل ہے٭منقول ہےکہ3 چیزیں عقل کی بنیادہیں:لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا،اخراجات میں میانہ روی اور لوگوں کے نزدیک محبوب وپسندیدہ ہونا۔

عقل میں اضافے کا نسخہ

حضرت سیِّدُناابودرداءرَضِیَ اللہُ عَنْہ بیان کرتےہیں کہ حضور پُرنور، شافِعِ یومُ النُّشُورصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اےعُوَیْمَر!اپنی عقل میں اضافہ کرو تمہارےقُربِ الٰہی میں بھی اضافہ ہوگا۔میں نےعرض کی:میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں!میں اپنی عقل میں کیسےاضافہ کرسکتا ہوں؟ ارشادفرمایا:اللہ پاک کی حرام کردہ باتوں سے اجتناب کرو اوراس کے فرائض کو ادا کرو، تم عقل مند بن جاؤ گے،پھراعمالِ صالحہ کواپنامعمول بنالودنیامیں تمہاری عقل بڑھےگی اور اللہ پاک کےہاں تمہیں جو قُرب اورعزت حاصل ہے اس میں بھی اضافہ ہوگا۔(بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث، 2/ 808،حدیث: 829)

(اس مضمون کا زیادہ مواد المدینۃ العلمیہ کی کتاب ’’دین ودنیا کی انوکھی باتیں‘‘ صفحہ 46تا56سے لیا گیا ہے ،اس موضوع سے متعلق مزیدتفصیل وہاں دیکھئے۔)


اسلام دینِ فطرت ہے، جس نے عورت کو شیطان کی مکروہ چالوں سے محفوظ کیا اور اسے ذلّت و بے حیائی کے دلدل سے نکال کر عزّت و احترام کے اعلیٰ مقام پر بٹھایا۔نیز، اسے خُوب صورت، نازک آبگینہ قرار دیا۔ عورت اَنمول موتی کی طرح ہے، جس میں شرم و حیا مَردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے اور یہ ہی شرم و حیا، دینِ اسلام کی پہلی ترجیح ہے، جس کے بارے میں نبی کریم نے فرمایا ’’جب تم حیا نہ کرو، تو پھر جو چاہے کرو۔ ( سنن ابی داؤد)۔‘‘ اسلام نے مَرد اور عورت کے فطری تقاضوں کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے ان کے دائرۂ کار متعیّن کیے ہیں۔ عورت کو ” گھر کی ملکہ” قرار دیتے ہوئے اُسے آنے والی نسلوں کی تربیت جیسی اہم ذمّے داری سونپی، تو معاش اور دیگر بیرونی معاملات کا ذمّہ دار مرد کو قرار دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی عورت کو ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دیتے ہوئے پردے و حجاب میں رہنے کا حکم دیا تاکہ ازلی دشمن شیطان اور اس کے چیلوں کی ہَوس ناک نگاہیں اُس کی پاکیزگی کو میلا نہ کر سکیں۔

پردہ و حجاب کیا ہے؟

قارئینِ کرام!حِجاب کے متعلق علّامہ شریف جُرجانی رحمۃ اللہ علیہ  کتاب التعریفات میں فرماتے ہیں کہ حِجاب سے مُراد ہر وہ شے ہے جو آپ سے آپ کا مقصود چھپا دے۔(کتاب التعریفات، حرف الحاء، ص 145) یعنی آپ ایک شے کو دیکھنا چاہیں مگر وہ شے کسی آڑ یا پردے میں ہو تو اس آڑ یا پردے کو  حجاب کہتے ہیں۔حجاب کا یہ مفہوم قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر مذکور ہے، جیسا کہ پارہ 23 سورہ ص کی آیت نمبر 32 میں ارشادہوتا ہے:

حَتّٰى تَوَارَتْ بِالْحِجَابِٙ(۳۲)

ترجمۂ کنزُ الایمان:یہاں تک کہ نگاہ سے پردے میں چُھپ گئے۔

نیز عورتوں کے حجاب سے کیا مراد ہے اس کے متعلق حضرت سیدنا امام ابن حَجَر عَسْقَلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عورتوں کے حجاب سے مراد یہ ہے (کہ وہ اس طرح پردہ کریں)کہ مَرد انہیں کسی طرح دیکھ نہ سکیں۔ (فتح الباری، ٨/٥٨١، تحت الحدیث:٤٧٥٠)

پردے کا حکم کب نازِل ہوا؟

اس بارے میں علامہ مخدوم ہاشم ٹھٹھوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سیرت سید الانبیاء میں فرماتے ہیں: 4ہجری ذو القعدۃ الحرام کے مہینےمیں اُمُّ المومنین حضرت زینب بنت جحش  رضی اللہ عنہا کی کاشانَۂ نبوّت میں رخصتی کے دن مسلمان عورتوں کے لیے پردہ کا حکم نازل ہوا۔

بعض علمائے کرام کا کہنا ہے کہ یہ حکم 2ہجری کو نازِل ہوا، مگر پہلا قول ہی راجِح ہے۔(سیرت سید الانبیا، حصہ دوم، ص ۳۵۱)

پردہ صرف عورتوں کے لیے ہی کیوں؟

سوال پیدا ہوتا ہے کہ صرف عورتوں کو ہی پردے و حجاب کا حکم کیوں دیا گیا؟اس بارے میں دعوتِ اسلامی کی بڑی پیاری کتاب اسلامی زندگی صفحہ نمبر 105پر عورتوں کے پردہ کرنے کے پانچ (05) اسباب کچھ یوں تحریر ہیں:

)1(…عورت گھر کی دولت ہے اور دولت کو چھپا کر گھر میں رکھا جاتا ہے، ہر ایک کودِکھانے سے خطرہ ہے کہ کوئی چوری کرلے۔اسی طرح عورت کو چھپانا اور غیروں کو نہ دِکھانا ضروری ہے۔

(2)…عورت گھر میں ایسی ہے جیسے چَمَن میں پھول اور پھول چَمَن میں ہی ہَرا بھرا رہتا ہے، اگر توڑ کر باہر لایا گیا تو مُرجھا جائے گا۔اسی طرح عورت کا چَمَن اس کا گھر اور اسکے بال بچے ہیں،اس کو بلاوجہ باہر نہ لاؤ ورنہ مُرجھا جائے گی۔عورت کا دِل نہایت نازُک ہے، بہت جلد ہر طرح کا اثر قبول کرلیتا ہے، اس لیے اس کو کچی شیشیاں فرمایا گیا۔

(3)…ہمارے یہاں بھی عورت کو صنف نازُک کہتے ہیں اور نازُک چیز وں کو پتھروں سے دُور رکھتے ہیں کہ ٹوٹ نہ جائیں۔غیروں کی نگاہیں اس کے لیے مضبوط پتھر ہیں، اس لیے اس کو غیروں سے بچاؤ۔

(4)…عورت اپنے شوہر اور اپنے باپ دادا بلکہ سارے خاندان کی عزّت اور آبرو ہے اور اس کی مِثال سفید کپڑے کی سی ہے،سفید کپڑے پر معمولی سا داغ دھبہ دور سے چمکتا ہے اور غیروں کی نگاہیں اس کے لیے ایک بدنُما داغ ہیں،اس لیے اس کو ان دھبوں سے دُور رکھو۔

(5)…عورت کی سب سے بڑی تعریف یہ ہے کہ اس کی نِگاہ اپنے شوہر کے سِوا کسی پر نہ ہو، اس لیے قرآنِ کریم نے حوروں کی تعریف میں فرمایا: قٰصِرٰتُ الطَّرْفِۙ-۔ ترجمہ: شوہر کے سوا کسی کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتیں۔ (پ٢٧،الرحمٰن:٥٦) اگر اس کی نگاہ میں چند مرد آگئے تو یوں سمجھو کہ عورت اپنے جوہر کھوچکی ،پھر اس کا دِل اپنے گھر بار میں نہ لگے گا جس سے یہ گھر آخر تباہ ہوجائے گا۔

کیا عورتوں کا گھروں میں رہنا ظلم ہے؟

بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ عورتوں کا گھروں میں قید رکھنا ان پر ظلم ہے جب ہم باہر کی ہوا کھاتے ہیں تو ان کو اس نعمت سے کیوں محروم رکھا جائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ گھر عورت کیلئے قید خانہ نہیں بلکہ اس کا چَمَن ہے گھر کے کاروبار اور اپنے بال بچّوں کودیکھ کر وہ ایسی خوش رہتی ہیں جیسے چَمَن میں بُلبل۔ گھر میں رکھنا اس پر ظلم نہیں،بلکہ عزّت و عِصْمَت کی حفاظت ہے اس کو قدرت نےاسی لیے بنایا ہے۔بکری اسی لیے ہے کہ رات کو گھر رکھی جائے اور شیر، چیتا اور مُحافِظ کتا اس لیے ہے کہ ان کو آزاد پھرایا جائے، اگر بکری کو آزاد کیا تو اس کی جان خطرے میں ہے اس کو شِکاری جانور پھاڑ ڈالیں گے۔(اسلامی زندگی، ص ۱۰۶، ملتقطاً)

پردہ و حجاب اسلامی شعار ہے

پردہ و حجاب گویا اِسلامی شعار کی حیثیت رکھتا ہے،کیونکہ اسلام سے قبل عورت بے پردہ تھی اور اِسلام نے اسے پردہ و حجاب کے زیور سے آراستہ کر کے عظمت و کردار کی بلندی عطا فرمائی ، جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى (پ ٢،الاحزاب:٣٣)

ترجمۂ کنزُ الایمان:اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہِلیَّت کی بے پردگی۔

علامہ نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں فرماتے ہیں:اگلی جاہِلیَّت سے مُراد قبلِ اسلام کا زمانہ ہے، اُس زمانہ میں عورتیں اِتراتی نکلتی تھیں، اپنی زینت ومَحَاسِن (یعنی بناؤ سنگھار اور جسم کی خوبیاں مَثَلا ًسینے کے اُبھار وغیرہ) کا اظہار کرتی تھیں کہ غیر مرد دیکھیں۔لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم کے اعضا اچھّی طرح نہ ڈھکیں۔(خزائن العرفان، پ۲۲، الاحزاب،:۳۳، ص ۷۸۰) افسوس! موجودہ دور میں بھی زمانۂ جاہِلیَّت والی بے پردگی پائی جارہی ہے۔ یقیناً جیسے اُس زمانہ میں پردہ ضَروری تھا ویسا ہی اب بھی ہے۔ 

صحابیات کس قدر پردہ کرتی تھیں؟

٭ایک بار ام المؤمنین حضرت سیدتنا سَودہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی گئی: آپ کو کیا ہو گیا ہے کہ آپ  باقی ازواج کی طرح  حج کرتی ہیں نہ عمرہ؟تو آپ رضی اللہ عنہا  نے فرمایا:میں نے حج و عمرہ  کر لیا ہے،چونکہ میرے ربّ نے مجھے گھر میں رہنے کا حکم فرمایا ہے۔ لہٰذا خدا کی قسم! اب میں موت آنے تک گھر سے باہر نہ نکلوں گی۔ راوی فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! آپ رضی اللہ عنہا  گھر کے دروازے سے باہر نہ نکلیں یہاں تک کہ آپ کا جنازہ ہی گھر سے نکالا گیا۔( در منثور،پ ٢٢، الاحزاب، تحت الآية:٣٣، ٦/٥٩٩)

٭اسی طرح حضرت سیدتنا فاطمۃ الزّہرا رضی اللہ عنہانے موت کے وقت یہ وصیت فرمائی کہ بعدِ انتقال مجھے رات کے وقت دفن کرنا تاکہ میرے جنازے پر کسی غیر کی نظر نہ پڑے۔( مدارج النبوت، الجزء الثانی، ص۴۶۱)

٭ اُمّ المومنین حضرتِ سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب قرآنِ مجید کی یہ آیتِ مبارکہ نازِل ہوئی:

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَ بَنٰتِكَ وَ نِسَآءِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّؕ- (پ٢٢، الاحزاب:٥٩)

ترجمۂ کنزُالایمان:اے نبی اپنی بیبیوں اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دو کہ اپنی چادروں کا ایک حصّہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں۔

تو انصار کی خواتین  سیاہ چادر اوڑھ کر گھروں سے نکلتیں ، ان کو  دور سے دیکھ کر یوں لگتا  کہ ان کے سروں پر کوّے بیٹھے ہیں۔(ابو داود، ص٦٤٥، حدیث : ٤١٠١، مفہوماً)

٭ابو داود شریف میں ہے کہ حضرت سیدتنا اُمِّ خلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہو گیا۔ آپ  ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نقاب ڈالے بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہو ئیں تو  اس پر کسی نے حیرت سے کہا: اِس وقت بھی باپردہ ہیں ! کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے، حَیا نہیں کھوئی۔( ابو داود ، ص٣۹٧، حدیث:٢٤٨٨ ملتقطاً)

٭حضرت سیِّدُنا عطا بن ابو رَباح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے فرمایا: میں تمہیں جنَّتی عورت  نہ دِکھاؤں؟ میں نے عرض کی:کیوں نہیں۔ فرمایا: یہ حبشی عورت(جنتی ہے)۔ اس نے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں آ کر عرض کی:یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! مرگی کے مرض کی وجہ سے میرا سِتْر (پردہ )کھل جاتا ہے آپ میرے لیے دُعا فرمائیے۔تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: چاہو تو صبر کرو تمہارے لیے جنّت ہے اور اگر چاہو تو  میں اللہ پاک سے تمہارے لیے دُعا کروں کہ وہ تجھے عافیت عطافرما ئے۔ اس نے عرض کی: میں صبر کروں گی۔ پھر عرض کی: دُعا کیجئے بوقت مِرگی میرا پردہ  نہ کُھلا کرے۔چنانچہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اس کے لیے دعا فرمادی۔ (بخاری، حدیث:٥٦٥٢)

پردہ کرنے والی خواتین کے لیے آزمائشیں

آج کل پردہ کرنے والیوں کا  مذاق اُڑایا جاتا ہے،کبھی خاتون عورتوں کی کسی تقریب میں مدنی بُرقع اوڑھ کر چلی جائے تو!!! ٭… کوئی کہتی ہے: ارے ! یہ کیا اَوڑھ رکھا ہے اُتارواِس کو! ٭…کوئی بولتی ہے: بس ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ تم بَہُت پردہ دار ہو اب چھوڑو بھی یہ پردہ وَردہ! ٭…کوئی کہتی ہے، دنیابَہُت ترقّی کر چکی ہے اور تم نے یہ کیا دَقْیا نُوسی انداز اپنا رکھا ہے! وغیرہ ۔

اِس طرح کی دل دُکھانے والی باتوں سے شرعی پردہ کرنے والی کا دل ٹوٹ پھوٹ کر چکناچُور ہو جاتا ہے۔ اگرچہ واقعی یہ حالات نہایت ہی نازُک ہیں  اور شَرعی پردہ کرنے والی اسلامی بہن سخت آزمائش میں مبتلا رَہتی ہے مگر اسے ہمّت نہیں ہارنی چاہیے۔ مذاق اُڑانے یا اعتراض کرنے والیوں سے زور دار بحث شُروع کر دینا یا غصّے میں آ کر لڑ پڑنا سخت نقصان دِہ ہے کہ اس طرح مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید اُلجھ سکتا ہے۔

ایسے موقع پر یہ یاد کر کے اپنے دل کو تسلّی دینی چاہیے کہ جب تک تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے عام اِعلانِ نبوّت نہیں فرمایا تھا اُس وقت تک کفارِ بد انجام آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو اِحتِرام کی نظر سے دیکھتے تھے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو امین اور صادِق کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ مگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جُونہی علی الاعلان اسلام کا ڈنکا بجانا شروع کیا وہی کفارِ بداَطوار طرح طرح سے ستانے، مذاق اُڑانے اور گالیاں سنانے لگے، صرف یہی نہیں بلکہ جان کے در پے ہو گئے، مگر قربان جائیے ! سرکارِ نامدار ، اُمّت کے غم خوار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر کہ آپ نے بالکل ہمت نہ ہاری، ہمیشہ صبر ہی سے کام لیا ۔اب اسلامی بہن صبرکرتے ہوئے غور کرے کہ میں جب تک فیشن ایبل اور بے پردہ تھی میرا کوئی مذاق نہیں اُڑاتا تھا، جُونہی میں نے شَرعی پردہ اپنایا، ستائی جانے لگی۔ اللہ پاک کا شکر ہے کہ مجھ سے ظلم پر صبر کرنے کی سنّت اَدا ہو رہی ہے ۔

مدنی اِلتجا ہے کہ کیسا ہی صَدمہ پہنچے صبر کا دامن ہاتھ سے مَت چھوڑئیے، نیز بلا اجازتِ شَرعی ہرگز زبان سے کچھ مت بولئے۔ حدیثِ قُدسی میں ہے، اللہ پاک فرماتا ہے:اے ابنِ آدم ! اگرتُو اوّل صَدمے کے وقت صبر کرے اور ثواب کا طالِب ہو تو میں تیرے لیے جنَّت کے سِوا کسی ثواب پر راضی نہیں۔( ابن ماجہ، ص٢٥٦، حدیث: ١٥٩٧)

نوٹ: پردے کے بارے میں مزید معلومات اور شرعی احکامات تفصیل سے پڑھنے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ”پردے کے بارے میں سوال “ اور رسالہ” صحابیات اور پردہ“ حاصل فرمائیں۔

از: مولانا عمر فیاض عطاری مدنی

اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی

09-02-2022


اس دنیا میں لاتعداد  انسانوں نے جنم لیااور بالا آخر موت نے انہیں اپنی آغوش میں لے کر ان کا نام ونشان تک مٹادیا لیکن جنہوں نے دین اسلام کی بقاوسربلندی کے لیے اپنی جان ،مال اور اولاد کی قربانیاں دیں اورجن کے دلی جذبات اسلام کے نام پر مر مٹنے کے لیے ہمہ وقت پختہ تھے، تاریخ کے اوراق پر ان کے تذکرے سنہرے حروف سے کُندہ ہیں۔ ان اکابرین کے کارناموں کا جب جب ذکر کیا جاتاہے، دلوں پر رقت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ان کے پُرسوز واقعات آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں،بالخصوص امیر المؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہکا نام رقت وسوز کے ساتھ جذبہ ایثار وقربانی کوابھارتاہے ۔ صدیق اکبر نے جس شان کے ساتھ اپنی جانی اور مالی قربانی کے نذرانے پیش کیے ،تاریخ ان کی مثال بیان کرنے سے قاصر ہے۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ وہ ہیں جنہوں نے رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔

ابن اسحق نے ایک حدیث روایت کی کہ حضور اقدس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ سوائے ابوبکر کے اور کوئی ایسا شخص نہیں جو میری دعوت پر بے توقف و تامل ایمان لایا ہو۔ (تاریخ الخلفاء،ابوبکر الصدیق ،فصل فی اسلامہ،ص۲۷)

یوں تو تمام صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ہی مقتدیٰ بہ (یعنی جن کی اقتداء کی جائے)، ستاروں کی مانند اور شمع رسالت کے پروانے ہیں لیکن صدیق اکبر وہ ہیں جو انبیاء کرام اور رسولوں کے بعد تمام مخلوق میں افضل ہیں۔ جو محبوبِ حبیب خدا ہیں، جوعتیق بھی ہیں،صدیق بھی ہیں،صادق بھی ہیں، صدیق اکبر بھی ہیں۔حلیم یعنی بردبار بھی ہیں، بچپن وجوانی دونوں میں بت پرستی سے دوررہنے والے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے دوست، رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی خاطر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کرنے والے،مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے، سب سے پہلے دعوتِ اسلام دینے والے، جن کے والدین صحابی،اولاد صحابی، اولاد کی اولاد بھی صحابی، جو رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے رشتہ دار، جن کی عبادت وریاضت دیکھ کر لوگ اسلام قبول کریں، شراب سے نفرت کرنے والے، عزت وغیرت کی حفاظت کرنے والے، خلیفہ ہونے کے باوجود انکساری کرنے والے، مشرکین سے رسول خدا کا دفاع کرنے والے، غلاموں کو آزاد کرنے والے،سیدنا بلال حبشی رَضِیَ اللہُ عَنْہکو خریدکربادشاہ حقیقی یعنی اللہ عَزَّوَجَلّ َسے بہت بڑے متقی کا خطاب پانے والے،جوقرآن وحدیث کے بہت بڑے عالم، علم تعبیر وعلم انساب کے ماہر،رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے براہ راست درس کتاب وحکمت لینے والے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مشیرووزیر، جن کی تائید خود رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکریں، جو خوف خدا سے گریہ وزاری کرنے والے،جو دکھیاری امت کی خیر خواہی کرنے والے، مریضوں کی عیادت کرنے والے، لواحقین سے تعزیت کرنے والے ، جو رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے سفر ہجرت کے دوست اوریار غار، ہجرت کی رات معراج کے دولہا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکو اپنے کندھوں پر اٹھانے والے،ایسے یار غار کہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خاطراپنی جان کی بھی پرواہ نہ کریں، جن کا صاحب ویارغار ہونا خود اللہ عَزَّوَجَلَّ بیان کرے، جو رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے ساتھ تمام غزوات میں شرکت کرنے والے، رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی نگہبانی کرنے والے ہیں،جن کو رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے امیر الحج بنایا،جنہیں رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے امام بنایا، جنہوں نے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی موجودگی میں نمازوں کی امامت کی۔جوخلیفۂ اول ہیں، جن کی خلافت پر اجماع امت ہے، جنہوں نے منکرین زکوۃ ومرتدین کے خلاف جہاد فرمایا، جن کے اوصاف واحسانات کو رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمخود بیان فرمائیں۔ جن کے فضائل کو خود صحابہ کرام واسلاف کرام بیان کریں۔جو رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی حیات میں بھی ان کے رفیق ہیں اور مزار میں بھی ان کے رفیق ہیں۔’’صدیق کے لیے ہے خدا کا رسول بس‘‘ یہ ان کی کتاب زندگی کا عنوان تھا۔

عموماً کسی بھی شخص کی مزاجی کیفیات اوراس کی ذات میں پائی جانے والی خصوصیات کا اندازہ اس کے نسب کاتذکرہ کرنے سے ہوتا ہے،یوں سمجھئے کہ کسی شخصیت کے ذاتی اور اندرونی کوائف جاننے کے لیے اس کا نسب ایک آئینے کی حیثیت رکھتاہے جہاں اس کے نسب کا ذکر کیاوہیں اس کی شخصیت اپنے تمام اطوار کے ساتھ نکھر کرسامنے آگئی۔برصغیر پاک وہند کے علاوہ آج تک عربوں میں اس بات کا رواج ہے کہ کسی شخص کی عادات سے آگاہ ہونے کے لیے اس کے قبیلے کاتذکرہ ضرور کرتے ہیں لہٰذا اَوّلاً نسب کا ذکر کرنا ناگزیر ہے۔

آپ کاسلسلہ نسب:

حضرت سیدناعروہ بن زبیررَضِیَ اللہ عَنْہُمَاسے روایت ہے کہ’’ امیر المؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہکا نام عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مُرّۃ بن کعب ہے۔‘‘مرہ بن کعب تک آپ کے سلسلہ نسب میں کل چھ واسطے ہیں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب میں بھی مرہ بن کعب تک چھ ہی واسطے ہیں اور مرہ بن کعب پرجاکر آپ رَضِیَ اللہ عَنْہکا سلسلہ سرکارصَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب سے جا ملتا ہے۔ آپ کے والد حضرت عثمان کی کنیت ابو قحافہ ہے، آپ رَضِیَ اللہ عَنْہکی والدہ ماجدہ کا نام اُمُّ الخیر سلمیٰ بنت صخر بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تيم بن مرۃ بن کعب ہے۔ ام الخیر سلمیٰ کی والدہ (یعنی امیرالمؤمنین حضرت سیدناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہکی نانی) کا نام دلاف ہے اور یہی امیمہ بنت عبید بن ناقد خزاعی ہیں۔ امیرالمؤمنین حضرت سیدناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہکی دادی (یعنی حضرت سیدناابو قحافہ رَضِیَ اللہ عَنْہ کی والدہ)کا نام امینہ بنت عبد العزیٰ بن حرثان بن عوف بن عبید بن عُویج بن عدی بن کعب ہے۔ (المعجم الکبیر، نسبۃ ابی بکر الصدیق واسمہ، الحدیث:۱،ج۱،ص۵۱،الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج۴، ص۱۴۴)

عشق ووفا کی امتحان گاہ میں حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کا حال:

ابتدائے اسلام میں جو شخص مسلمان ہوتا تھا وہ اپنے اسلام کو حتی الوسع مخفی رکھتا تھا۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی طرف سے بھی، اس خیال سے کہ ان کو کافروں سے اذیت نہ پہنچے، اخفا کی تلقین ہوتی تھی۔ جب مسلمانوں کی تعداد انتالیس تک پہنچی توحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اظہار کی درخواست کی اور چاہا کہ کھلم کھلا علی الاعلان تبلیغ اسلام کی جائے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے اول انکار فرمایا مگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اصرار پر قبول فرمالیا ،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ساتھ لیکر مسجدحرام شریف میں تشریف لے گئے۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خطبہ شروع کیا، یہ سب سے پہلا خطبہ ہے جو اسلام میں پڑھا گیا اور حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کے چچا سیدالشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اسی دن اسلام لائے ہیں اور اس کے تین دن بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں۔ خطبہ کا شروع ہونا تھا کہ چاروں طرف سے کفار و مشرکین مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بھی باوجودیکہ مکہ مکرمہ میں عام طورپر ان کی عظمت و شرافت مسلّم تھی ،اس قدر مارا کہ تمام چہرہ مبارک خون میں بھر گیا ، ناک کان سب لہولہان ہوگئے۔ پہچانے نہ جاتے تھے، جوتوں سے مارا پاؤں میں روندا جونہ کرنا تھا سب کچھ ہی کیا، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بے ہوش ہوگئے، بنو تیم یعنی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قبیلے کے لوگوں کو خبر ہوئی تو وہاں سے اٹھا کر لائے۔سب کو یقین ہو چلا تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس وحشیانہ حملہ سے زندہ نہ بچ سکیں گے بنو تیم مسجد میں آئے اور اعلان کیا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اگر حادثہ میں وفات ہوگئی تو ہم لوگ ان کے بدلہ میں عتبہ بن ربیعہ کو قتل کریں گے عتبہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مارنے میں بہت زیادہ بدبختی کا اظہار کیا تھا۔ شام تک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بے ہوشی رہی باوجود آوازیں دینے کے بولنے یا بات کرنے کی نوبت نہ آتی تھی۔ شام کو آوازیں دینے پر وہ بولے تو سب سے پہلے الفاظ یہ تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا کیا حال ہے؟ لوگوں کی طرف سے اس پر بہت ملامت ہوئی کہ ان ہی کے ساتھ کی بدولت یہ مصیبت آئی اوردن بھر موت کے منہ میں رہنے پر بات کی تو وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم ہی کا جذبہ اور ان ہی کے ليے۔

لوگ آپ کے پاس سے اٹھ کر چلے گئے ،بددلی بھی تھی اور یہ بھی کہ آخر کچھ جان ہے کہ بولنے کی نوبت آئی اور آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ ام خیر سے کہہ گئے کہ ان کے کھانے پینے کیلئے کسی چیز کا انتظام کردیں۔ وہ کچھ تیار کرکے لائیں اور کھانے پر اصرار کیا مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وہی ایک صد ا تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا کیا حال ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم پر کیا گزری؟ انکی والدہ نے کہاکہ مجھے تو خبر نہیں کیا حال ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ام جمیل (حضرت عمر کی بہن رضی اللہ عنہما)کے پاس جاکر دریافت کر لو کہ کیا حال ہے؟ وہ بیچاری بیٹے کی اس مظلومانہ حالت کی بیتا بانہ درخواست پوری کرنے کیلئے ام جمیل رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں اور محمد صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا حال دریافت کیا۔ و ہ بھی عام دستور کے مطابق اس وقت اپنے اسلام کو چھپائے ہوئے تھیں۔ فرمانے لگیں میں کیا جانوں کون محمد( صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم) اور کون ابوبکرصدیق (رضی اللہ عنہ) تیرے بیٹے کی حالت سن کر رنج ہو ا اگر تو کہے تو میں چل کر اسکی حالت دیکھوں ام خیر نے قبول کر لیا ان کے ساتھ گئیں اور حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی حالت دیکھ کر تحمل نہ کر سکیں بے تحاشا رونا شروع کر دیا کہ بد کرداروں نے کیا حال کردیا۔ اللہ ان کو ان کے کئے کی سزا دے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے پھر پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کا کیا حال ہے؟ ام جمیل رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی والدہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ وہ سُن رہی ہیں، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ان سے خوف نہ کرو ۔ ام جمیل رضی اللہ عنہا نے خیریت سنائی اور عرض کیا کہ بالکل صحیح سالم ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس وقت کہاں ہیں انہوں نے عرض کیا کہ ار قم کے گھر تشریف رکھتے ہیں۔

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ کو خد اعزوجل کی قسم ہے کہ اس وقت تک کوئی چیز نہ کھاؤں گانہ پیٔوں گا جب تک کہ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی زیارت نہ کرلوں۔ ان کی والدہ کو تو بیقراری تھی کہ وہ کچھ کھا لیں اور انہوں نے قسم کھا لی کہ جب تک حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی زیارت نہ کرلوں کچھ نہ کھاؤں گا۔ اس لئے والدہ نے اس کا انتظار کیا کہ لوگوں کی آمدورفت بند ہوجائے۔ مبادا کوئی دیکھ لے اور کچھ اذیت پہنچائے۔ جب رات کا بہت سا حصہ گزر گیا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لیکرحضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت میں ارقم کے گھر پہنچیں۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم سے لپٹ گئے حضور صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم بھی لپٹ کر روئے۔ اَور مسلمان بھی رونے لگے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ اس کے بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے درخواست کی یہ میری والدہ ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کے لئے ہدایت کی دعا فرمادیں اور ان کو اسلام کی تبلیغ بھی فرمادیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم نے ان کو اسلام کی ترغیب دی وہ بھی اسی وقت مسلمان ہوگئیں۔ (البدایہ والنہایہ،ج۳،ص۳۰)

یہ شہادت کہ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ سمجھتے ہیں کہ آسان ہے مسلمان ہونا

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے اپنی وفاؤں کے مہکتے پھول جو سرور دوعالم، نور مجسم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہ میں نچھاور کیے اس کا ایک عظیم مظاہرہ جنگ اُحد کے دن دیکھا گیا جب خارا شگاف تلواریں میدان کارزار میں چل رہی تھیں ،ہر طرف جنگی نعروں کا شوربرپاتھا ان ہوش ربا مناظر میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ ایک کوہ بے ستون نظر آرہے تھے اور حضور نبی ٔکریم رؤفٌ رَّحیم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہ میں اپنی جان کو طشت اخلاص میں رکھ کر پیش کررہے تھے ، وہ اُحد کی جنگ جس میں صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی جانی قربانیاں دیکھ کر شیروں کاپِتّاا بھی پانی ہورہا تھاحضرت سیدنامصعب بن عمیررَضِیَ اللہُ عَنْہ مدینہ طیبہ کے پہلے معلم علمبردار اسلام نیزحضرت سیدناحمزہ رَضِیَ اللہُ عَنْہبھی جام شہادت نوش کرچکے تھے ،یقینا ان جان کاہ وجگر فرسا مناظر کو دیکھ کر جگر کو تھامنا مشکل ہو جاتا ہے ایسے میں صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان جنگ میں اس طرح مصروف ہوئے کہ لڑتے لڑتے بہت دور نکل گئے اگرکوئی محبوب خدا کے قریب تھاتووہ صرف حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہہی تھے۔چنانچہ اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَاسے روایت ہے فرماتی ہیں: ’’اُحدکےدن جب تمام صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَان خَاتَمُ الْمُرْسَلِیْن،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے جدا ہوگئے تھے توسب سے پہلے سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس آپ کی حفاظت کے لیے حضرت سیدناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ واپس پلٹے۔‘‘(تاریخ مدینۃ دمشق، ج۲۵،ص۷۵)

صدیق اکبر کی مالی قربانی:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے ارشاد فرمایاکہ’’ اپنا مال راہ خدا میں جہاد کے لیے صدقہ کرو۔‘‘ اس فرمان عالیشان کی تعمیل میں صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَاننے حسب توفیق اپنا مال راہِ خدا میں جہاد کے لیے تصدق کیا ۔حضرت سیدناعثمان ذوالنورین رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے دس ہزار مجاہدین کاسازوسامان تصدق کیااور دس ہزار دینار خرچ کیے اس کے علاوہ نوسو اونٹ اور سوگھوڑے معہ سازوسامان فرمانِ رسول پرلَبَّیْک کہتے ہوئے پیش کردیے۔چنانچہ

حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں کہ’’ میرے پاس بھی مال تھامیں نے سوچا حضرت سیدناابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ ہر دفعہ ان معاملات میں مجھ سے سبقت لےجاتے ہیں اس بار زیادہ سے زیادہ مال صدقہ کرکے ان سے سبقت لے جاؤں گا۔‘‘چنانچہ وہ گھر گئے اورگھر کا سارا مال اکٹھا کیا اس کے دو حصے کیے ایک گھروالوں کے لیے چھوڑا اور دوسرا حصہ لے کر بارگاہ رسالت میں پیش کردیا۔سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے استفسار فرمایا:’’اے عمر! گھروالوں کے لیے کیا چھوڑ کے آئے ہو؟‘‘ عرض کیا: ’’یارسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!آدھا مال گھروالوں کے لیے چھوڑ آیاہوں۔‘‘ اتنے میں عاشقِ اکبر،یارغار مصطفےٰ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہ اپنا مال لے کر بارگاہ رسالت میں اس طرح حاضر ہوئے کہ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے ایک بالکل سادہ سی قباپہنی ہوئی ہے جس پر ببول کے کانٹوں کے بٹن لگائے ہوئے ہیں۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمآپ کو دیکھ کربہت خوش ہوئے اور استفسار فرمایا:’’اے ابوبکر! گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ کرآئے ہو؟‘‘ بس! محبوب کا یہ پوچھناتھا کہ گویاعاشقِ صادق کا دل عشق ومحبت کی مہک سے جھوم اٹھا، فوراً ہی سمجھ گئے کہ بات کچھ اورہے، کیونکہ محبوب توجانتاہے کہ میرے عاشق صادق نے تواس وقت بھی اپنی جان ، مال، آل، اولاد سب کچھ قربان کردیاتھا جب مکۂ مکرمہ میں حمایت کرنے والے نہ ہونے کے برابر تھےبلکہ اکثر لوگ جانی دشمن بن گئے تھے اور محبوب کے کلام کو کیوں نہ سمجھتے کہ یہ تو وہ عاشق تھے جو ہروقت اس موقع کی تلاش میں رہتے تھے کہ بس محبوب کچھ مانگے تو سہی !سب کچھ قدموں میں لاکر قربان کردیں:

کیا پیش کریں جاناں کیا چیز ہماری ہے

یہ دل بھی تمہارا ہے یہ جاں بھی تمہاری ہے

یہ تو وہ عاشق صادق تھے جنہوں نے کبھی اپنے مال کو اپنا سمجھا ہی نہیں ، بلکہ جو کچھ ان کے پاس ہوتااسے محبوب کی عطاسمجھتے اور کیوں نہ سمجھتے کہ:

میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب

یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا

فوراًسمجھ گئے کہ محبوب کی چاہت کچھ اورہے غالباًمحبوب یہ کہناچاہتے ہیں کہ اے میرے عاشق! میں تو تیرے عشق کو جانتاہوں، آج دنیاکو بتادے کہ عشق کسے کہتے ہیں،بس آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہنے محبت بھرے لہجے میں یوں عرض کیا: ’’یَارَسُوْلَ اللہ! اَبْقَیْتُ لَھُمُ اللہَ وَرَسُوْلَہ یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں اپنے گھر کا سارا مال لے کر آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوگیا ہوں اور گھروالوں کے لیے اللہ اور اس کا رسول ہی کافی ہے۔‘‘حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے اورکہنے لگے کہ ’’میں کبھی بھی ابوبکر صدیق سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔‘‘

تینوں آرزوئیں بر آئیں:

اللہ عَزَّ وَجَلّ َنے حضرتِ سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہ عَنْہ کی یہ تینوں خواہشیں حُب رسولِ انور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے صدقے پوری فرما دیں (۱) آپ رَضِیَ اللہ عَنْہ کو سفروحضر میں رفاقت حبیب صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نصیب رہی،یہاں تک کہ غارثور کی تنہائی میں آپ رَضِیَ اللہ عَنْہکے سوا کوئی اور زِیارت سے مشرف ہونے والا نہ تھا (۲) اسی طرح مالی قربانی کی سعادت اِس کثرت سے نصیب ہوئی کہ اپنا سارا مال وسامان سرکارِ دو جہاں صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قدموں پرقربان کر دیا اور(۳)مزارپرانوارمیں بھی اپنی دائمی رفاقت وقُربت عنایت فرمائی۔

محمد ہے متاعِ عالمِ اِیجاد سے پیارا

پِدر مادر سے مال و جان سے اولاد سے پیارا

ہجرت کے موقع پر یار غار حضرت ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جو جاں نثاری کی مثال قائم کی ہے وہ بھی اپنی جگہ بے مثال ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اور صدیق اکبررضی اللہ عنہ دونوں غار کے قریب پہنچے تو پہلے صدیق اکبررضی اللہ عنہ اترے صفائی کی ، غار کے تمام سوراخوں کو بند کیا، ایک سوراخ کو بند کرنے کے لئے کوئی چیز نہ ملی تو آپ نے اپنے پاؤں کا انگوٹھا ڈال کر اسکو بند کیا، پھر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بلایا حضور تشریف لے گئے اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زانو پر سر رکھ کر آرام فرمانے لگے، اتنے میں سانپ نے صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے پاؤں کو کاٹ لیا، مگر صدیق اکبر، شدتِ الم کے باوجود محض اس خیال سے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آرام میں خلل نہ واقع ہو، بدستور ساکن وصامت رہے، آخر جب پیمانہ صبر لبریز ہوگیا تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، جب آنسو کے قطرے چہرہ اقدس پر گرے تو حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بیدار ہوئے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے واقعہ عرض کیا، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ڈسے ہوئے حصے پر اپنا لعاب دہن لگادیا فوراً آرام مل گیا۔ایک روایت میں ہے کہ سانپ کا یہ زہر ہر سال عود کرتا بارہ سال تک حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اس میں مبتلا رہے پھر آخر اس زہر کے اثر سے آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔(مدارج النبوت،ج۲،ص۵۸)

عاشق اکبررَضِیَ اللہ عَنْہ کے عشق ومحبت بھرے واقعات ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ راہ عشق میں عاشق اپنی ذات کی پرواہ نہیں کرتابلکہ اس کی دلی تمنّایہی ہوتی ہے کہ رضائے محبوب کی خاطر اپنا سب کچھ لٹادے۔

کاش!ہمارے اندر بھی ایسا جذبۂ صادقہ پیدا ہوجائے کہ خدا و مصطفےٰ عَزَّ وَجَلَّ وَصَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا کی خاطراپنا سب کچھ قربان کر دیں۔

جان دی، دی ہوئی اُسی کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

از: مولانا شعیب عطاری ،المدینۃ العلمیہ 


سلام کیسے لکھتے ہیں؟

Mon, 17 Jan , 2022
2 years ago

سلام دینِ اسلام کی روشن تعلیمات میں ایک عظیم صفت اور بہترین عادت ہے۔ سلام کی اَہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتاہے کہ اللہ قُدوس و سَلام عَزَّشَانُہ نے اپنے پاک کلام میں سلام سے متعلق اپنے بندوں کی راہنمائی بھی فرمائی ہے کہ: "وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ حَسِیْبًا(۸۶) ([1])"

ترجمۂ کنز الایمان : اور جب تمہیں کوئی کسی لفظ سے سلام کرے تو تم اس سے بہتر لفظ جواب میں کہو یا وہی کہہ دو بے شک اللہ ہر چیز پر حساب لینے والا ہے۔

اِسی طرح کائنات میں اَمن و سلامتی کے سب سے بڑے اور عظیم علمبردار ،تمام نبیوں کے تاجدار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی روشن و تابناک تعلیمات میں بھی ہمیں سلام کی اَہمیت و فضیلت کا بیان ملتاہے۔چنانچہ حضرت سیِّدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بانیِ اسلام صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے سوال کیا:أَىُّ الإِسْلاَمِ خَيْرٌ؟ اِسلام کا کونسا عمل بہتر ہے؟ تو رسولِ کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((تُطْعِمُ الطَّعَامَ ، وَتَقْرَأُ السَّلاَمَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ)) کھانا کِھلانا اور ہر مسلمان کو سلام کرنا، خواہ اُسے پہچانو یا نہ پہچانو۔([2])

فقہائے اِسلام نے بھی فقہ کی کتابوں میں سلام سے متعلق شرعی اَحکامات بڑی تفصیل کے ساتھ تحریر فرمائے ہیں۔مثلاً اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں کہ : "سلام جب مسنون طریقہ سے کیا گیا ہو اور سلام کرنے والا سُنّی مسلمان صحیح العقیدہ ہو تو جواب دینا واجب ہے اور اُس کا ترک گناہ۔" ([3])

لیکن یہاں سلام کے فقہی اَحکام کو بیان کرنا موضوعِ سُخن نہیں ہے ،بلکہ مقصود ایک اَہم مسئلے کی طرف توجہ دِلانا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

سلام لکھنے کا دُرست طریقہ:

سلام کو تحریر ی صورت میں یوں لکھا جاتاہے: "اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم"۔لیکن عوام الناس کی ایک تعداد ایسی بھی ہے جو سلام کے یہ کلمات لکھنے میں عموماً دو غلطیاں کرجاتی ہے۔ ذیل میں اُن اَغلاط کی نشاندہی اور غلطی کرنے کی وجہ تحریر کی گئی ہے۔

پہلی غلطی:

" اَلسَّلَامُ " کو بعض لوگ (الف کے بعد لام کے بغیر ہی) "اسلام" لکھ دیتے ہیں(اسلام علیکم

غلطی کی وجہ:

لفظِ" اَلسَّلَامُ "کے شروع میں موجود حرفِ تعریف (ال) کا "لام" پڑھنے میں نہیں آتا؛کیونکہ یہاں حرفِ تعریف (ال) کے بعدحرف "سین" آرہا ہے ،جو کہ حُروفِ شمسیہ ([4])میں سے ہے اور قاعدہ ہے کہ اگر حرفِ تعریف کے بعد حروفِ شمسیہ میں سے کوئی حرف آجائے تو ایسی صورت میں حرفِ تعریف کا "لام" لکھنے میں تو آتاہے، لیکن Silentہونے کی وجہ سے پڑھا نہیں جاتا؛کیونکہ اِس صورت میں حرفِ تعریف کے" الف" کو "لام" کے بعد والے حرفِ شمسی سے ملاکر پڑھتے ہیں۔ چونکہ "اَلسَّلَامُ " کا تلفظ کرنے میں "لام" نہیں پڑھا جاتا تو بعض لوگ اِس کو لکھنے میں بھی ترک کردیتے ہیں۔

دوسری غلطی:

"اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم" لکھنے میں بعض لوگ "عَلَیْکُم " سے پہلے واؤ لکھ دیتے ہیں(وعَلَیْکُم ) ۔

غلطی کی وجہ:

لفظِ"اَلسَّلَامُ " پڑھنے میں "میم" پر موجود پیش کی آواز سے بعض لوگوں کو یہ مغالطہ ہوجاتاہے کہ یہاں واؤ ہے اور تحریر کرتے وقت بھی وہ "میم" کے بعد واؤ لکھ دیتے ہیں(اَلسَّلَامُ و عَلَیْکُم)۔حالانکہ یہاں واؤ نہیں لکھاجائے گا۔

اللہ کریم ہمیں "سلام "کو عام کرنے، اِس کی برکات سے حصّہ پانے اورتما م ہی اُمور میں اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِین بِجَاہِ خَاتمِ النَّبِیِّن وخَاتمِ الْمَعْصُوْمِیْنصلی اللّٰہ تعالی علیہ وسلم

از: ابوالحقائق راشدعلی رضوی عطاری مدنی

اسکالر المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)



[1] : سورۃ النساء:86۔

[2] : صحیح بخاری، کتاب الایمان،باب اطعام الطعام من الاسلام،ج1،ص6۔

[3] : فتاوی رضویہ،22/408۔

[4] : وہ حُروف جن سے پہلے لامِ تعریف نہ پڑھا جائے بلکہ وہ اپنے بعد والے حُروف میں مُدغَم ہوجائے ان کو "حُروفِ شمسیہ " کہتے ہیں جیسے: اَلنَّجْمُ۔ (فیضانِ تجوید،ص122) حروفِ شمسیہ چودہ(14) ہیں: ص،ذ،ث،د،ت،ز،س،ر،ش،ض،ط،ظ،ل،ن


کمفرٹ زون کیا ہے؟ 

Mon, 17 Jan , 2022
2 years ago

کمفرٹ زون کا مطلب ہے کہ آپ اپنے گرد ایسا دائرہ  کھینچ لیتے ہیں جس میں رہتے ہوئے آپ بے حد سکون محسوس کرتے ہیں۔ اس میں آپ کے لئے کوئی نئی چیز،نیا چیلنج یا مشکل نہیں ہوتی اور ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی خواہشات اور آسانیوں کو دیکھتے ہوئےاپنے گرد وہ دائرہ کھینچا ہوتا ہے اور اس سے باہر نہیں آنا چاہتے کہ باہر آنے پر چیلنجز،مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ساری سہولتوں کو چھوڑنا پڑتا ہے اسی لئے اکثر لوگ اپنے پرانے تعلقات،پرانی جاب یا پرانی روٹین کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں انہیں نئی اور انجان چیزوں سے واسطہ پڑنے کا ڈر ہوتا ہے جسے وہ اپنے لئےنقصان دہ خیال کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آگے بڑہنے اور کسی بھی طرح کی ترقی پانے کے لئے کمفرٹ زون چھوڑنا بہت ضروری ہے کیونکہ اسے چھوڑنے سے ہی آپ کو اپنی صلاحیتوں کا صحیح طرح علم ہوگا کہ آپ میں مزیدکیا کیا صلاحیتیں ہیں؟ اور آپ ان کے ذریعے کیا حاصل کرسکتے ہیں؟

جیسا کہ ڈیل کارنیگی کا کہنا ہے کہ عدم فعالیت شک اور خوف کو جنم دیتی ہے اور عمل سے اعتماد اور ہمت پیدا ہوتی ہے اگر آپ خوف پر قابو پانا چاہتے ہیں تو گھر میں بیٹھ کر اس کے بارے میں نہ سوچیں بلکہ باہر جاکر کسی کام میں مصروف ہوجائیں ۔

یاد رکھیے! کہ آپ حقیقتا اسی وقت کامیاب ہوں گے جب آپ اپنا سیفٹی اور کمفرٹ زون چھوڑدیں گے۔اور یہ تب ہوگا جب آپ لوگوں کی باتیں سننے کے بجائے خودکچھ کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ ایسا کرنے کی صورت میں آپ ترقی کی راہ پر چل پڑیں گے اور یہ ایسی راہ ہے جو آپ کو اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ اپنے موجودہ مقام سے بڑا کوئی مقام حاصل کریں اپنے سرکل کو بڑا کریں نئے چیلنجز کا سامنا کریں اور نئی مشکلات کو فیس کریں۔

اس کے لئےآپ کو کچھ ایکسٹرا یا غیر معمولی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ موجودہ صلاحیتوں کو درست طریقے سے استعمال کرنا ہوتا ہے۔

اس کو یوں سمجھیں کہ اسکول میں نیا سبجیکٹ منتخب کرنے سے یانئی زبان سیکھتے وقت شروع میں پریشانی ہوتی ہے لیکن جلد ہی آپ ان چیزوں کو سیکھنا اور سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور یوں آپ کمفرٹ زون سے باہر نکل جاتےہیں۔

کمفرٹ زون سے باہر نکلنا ایک دشوار کام ہے اس کےلئے آپ کو بہت ہمت اور محنت کرنی ہوگی۔اس دوران آپ اسٹریس سے بھی گزرسکتے ہیں لیکن اگر آپ اس سے باہر آجاتے ہیں تو ترقی اور کامیابی آپ کے سامنے ہے۔

کمفرٹ زون سے باہر کیسے نکلیں؟

یہاں کچھ طریقے بیان کئے جائیں گے جن پر عمل کرکے آپ کمفرٹ زون سے باہر آسکتے ہیں۔

1۔اپنی پرانی روٹین کو چھوڑ کر ایک نئی روٹین بنائیں ۔

2۔اگر آپ کی مصروفیت ایسی ہے جس میں بیٹھنے کا کام ہے تو اس سے ہٹ کر ایسی چیز میں مصروف ہوجائیں جس سے جسمانی مشقت ہو اور اس میں حصہ لے کر آپ لطف اندوز ہوں جیسے چہل قدمی کریں یا سیڑھیاں اترنا چڑھنا کریں اور ریلکس کریں اور اگر پہلے ہی آپ کی مصروفیات میں بھاگ دوڑ اور چلنا پھرنا شامل ہے تو پھر کوئی نئی کتاب پڑھ لیں عشق رسول میں اضافہ کرنے کے لئے نعت شریف سن لیں یا کوئی اچھی تحریر لکھ لیں۔

3 ۔اگر آپ شرمیلےہیں اور لوگوں کے سامنے بولنے سےججھکتے ہیں تو ایسی جگہ جائیں جہاں آپ کو لوگوں سے بات کرنے کا زیادہ موقع ملے اور لوگوں سے ڈیلنگ کرنی پڑے۔جیسے پبلک اسپیکنگ یا تقریری مواقع۔

4 ۔اگر آپ کو مخصوص کھانا کھانے کی عادت ہے تو اس کی جگہ کوئی نئی ڈش بنالیں اور نیا ذائقہ چکھیں۔

5۔ایک دن کسی فلاحی ادارے میں گزاریں اور وہاں مختلف فلاحی کام کریں جیسےغریبوں کو کھانا کھلادیں،مجبور اور بے سہارا لوگوں کی دلجوئی کریں یا کوئی بھی نیک کام کریں ایسا کرتے ہوئےآپ کو زندگی کی اصل خوبصورتی کا احساس ہوگا اور دل و دماغ کو فرحت ملے گی۔

کمفرٹ زون کو وسیع کرنے کے فوائد

1۔زندگی کا مزہ دوبالا ہوگا اور بہتر تجربہ ملے گا۔

2 ۔اس سے آپ کا دماغ متحرک اور بہتر ہوگا جس سے ذہنی صحت کو بھی تقویت ملے گی۔

3 ۔خود اعتمادی میں اضافہ ہوگا۔

4 ۔آپ کے مزاج میں لچک (flexibility)پیدا ہوگی جس سے بہتر ین انداز میں مشکل حالات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔

5۔افسردگی اور ناامیدی سے بچنا آسان ہوگا۔

6۔ کمفرٹ زون آپ کو خود کی بہتری کا چیلنج کرتا ہے۔

7۔ خود کو آگے بڑھانے میں معاونت ہوتی ہے اور آگے نہ بڑھنے کی سوچ ختم ہوتی ہے۔

لہذا ہمت کرکے اس سے باہر آئیں ، باہر ایک نئی اور شاندار دنیا آپ کی منتظر ہے۔

از قلم۔۔۔۔۔حافظ نعمان حسین

Email.shaikhnoman290@gmail.com


احساس کمتری

Mon, 17 Jan , 2022
2 years ago

خود پر اعتماد نہ ہونا،دوسروں سے اپنا موازنہ کرکے انہیں بہتر اور خود کو کمتر اور حقیر سمجھنا،دوسروں میں عیب تلاش کرنا،کسی امتحان یا مقابلے سے گھبرانا،شدید توجہ کا بھوکا ہونا احساس کمتری ہے۔احساس کمتری کو دور کرنا اور خود اعتمادی حاصل کرنا بے حد ضروری ہے کیونکہ اعتماد ایک قیمتی شے ہے جس کی کمی یا نہ ہونا زندگی کو مشکل بنادیتا ہے اور اس بنا پر کئی اہم امور انجام نہیں پاتے لہذا امور زندگی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے  اعتماد اور کانفیڈینس ہونا از حد ضروری ہے۔

اعتماد دو طرح کا ہوتا ہے:اندرونی اعتماد،بیرونی اعتماد۔

بیرونی اعتماد تو دولت کماکر،اچھا لباس پہن کر یا بہترین گاڑی رکھ کر آجاتا ہے لیکن چونکہ اس کی بنیاد دنیاوی اور عارضی چیزوں پر ہے اس لئے یہ چیزیں نہ ہونے پر یہ اعتماد ختم ہوجاتا ہےجبکہ اندرونی اعتماد کا تعلق ان چیزوں سے نہیں ہوتا اس لئے دولت،خوبصورتی وغیرہ کے ہونے یا نہ ہونے سے اس پر اثر نہیں پڑتا۔اور کامیابی کے حصول کے لئے درحقیقت یہی اعتماد حاصل کرنا ضروری ہے۔

اعتماد حاصل کرکے احساس کمتری سے نجات پانا اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ احساس کمتری آپ کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لئے نقصان دہ ہے ۔

احساس کمتری کی علامات و نقصانات

اس احساس کے ساتھ آدمی چڑچڑے پن اور غصیلے مزاج کا شکار ہوجاتا ہے،ضرورت سے زیادہ حساس،تنہائی پسند،خوشامد پسند اور لوگوں کی طرف سے اچھے یا برے کے سرٹیفیکٹ کا محتاج ہوتا ہے۔ایسے لوگ دوسرے لوگوں کو خوش رکھنے کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں،خود کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں،بے یقینی اور بے بسی کی کیفیت میں مبتلا ہوتے ہیں،چھوٹی چھوٹی باتوں پر بے عزتی محسوس کرتے ہیں تعصب پسند اور حسد میں مبتلا ہوتے ہیں۔ان کے نزدیک تعلق قائم کرنے کا کوئی معیار نہیں ہوتا۔اگر یہ لوگ کسی زہریلے اور تکلیف دہ تعلق میں پھنس جائیں تو سامنے والا ان سے جیسا چاہے سلوک کرے یہ تعلق ختم نہیں کرتے۔کیونکہ انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ چونکہ کمتر ہیں،تو ترک تعلق کے بعد انہیں کوئی اور نہیں ملے گا۔اس لئے وہ اسی تکلیف دہ تعلق کو نبھاتے رہتے ہیں۔

اس کی وجوہات

احساس کمتری کسی بھی عمر میں پیدا ہوسکتی ہے لیکن عموما اس کا تعلق بچپن سے ہوتا ہے۔بچپن میں والدین کی طرف سے نامناسب رویہ، حوصلہ شکنی،دوسرے بچوں سے موازنہ اور بچوں کی کیفیت اور احساسات کو نہ سمجھنا بچوں میں احساس کمتری پیدا کردیتا ہے۔یوں ہی بعض رشتہ داروں یا استادوں کی سخت گیری بھی اس کا سبب بنتی ہے۔اگر اس احساس کو ختم نہ کیا جائے تو اس کے اثرات پوری زندگی رہتے ہیں اور بچے کی شخصیت کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔بعض اوقات والدین بچوں کی حد سے زیادہ فکر کرتے ہیں،انہیں ہر چیز کی سہولت پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ان کے سارے کام خود کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بچہ سہولت پسند ہوجاتا ہے اور اس کے لئے کسی کام کو از خود کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔پھر جب بھی وہ کوئی کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو کام کا عادی نہ ہونے کی بنا پر وہ اس کام کا حوصلہ نہیں رکھتا اور یوں وہ آہستہ آہستہ احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے۔لہذا والدین کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو اپنے کام خود کرنے کا عادی بنائیں اور کوئی بھی ایسا کام نہ کریں جس سے بچے کی خود اعتمادی متاثر ہو۔

یاد رکھیے! اگر آپ زندگی میں کوئی قابل ذکر کام کرنا چاہتے ہیں تو احساس کمتری کی کیفیت سے باہر آکر اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کرنی ہوگی کہ جب آپ خود اپنے بارے میں متذبذب ہوں گے تو پھر دیگر لوگ آپ کو کس طرح قابل یقین اور پر اعتماد سمجھیں گے؟ لہذا سب سے پہلے آپ کا خود پر اعتماد اور یقین ہونا ضروری ہے۔

احساس کمتری کو دور کرنے کے طریقے۔

خود اعتمادی حاصل کرنے کے لئے درج ذیل باتوں پر عمل کریں۔

1 جہاں تک ممکن ہو صاف ستھرا لباس پہنیں اور اچھی ڈریسنگ کریں۔

2 کوئی زبان سیکھ لیں۔

3 روزانہ ایک ایسا کام ضرور کریں جس سے آپ خوف محسوس کرتے ہیں۔

4 جن لوگوں کو آپ کانفیڈینٹ(پراعتماد) سمجھتے ہیں ان کا مشاہدہ کرکے ان کی باڈی لینگویج اور عادات کو اپنائیں۔

5 ہر چیز کے بارے میں معلومات حاصل کرنےکاشوق بھی احساس کمتری کی وجہ بنتاہےکیونکہ ساری چیزوں کے متعلق مکمل تفصیلات کبھی معلوم نہیں ہوسکتیں۔اس لئے ہر چیز کا ایکسپرٹ بننے کی بجائے کسی ایک پسندیدہ چیز کو منتخب کرکے اس کے متعلق زیادہ معلومات حاصل کریں اور اس میں ایکسپرٹ بن جائیں۔ایسا کرنے سے دوسری چیزوں کے بارے میں معلومات کی کمی کا احساس ختم ہوجائے گا اور یوں احساس کمتری بھی نہیں ہوگا۔

6 اپنے ذہن میں یہ تصور کریں کہ آپ کانفیڈینٹ (پر اعتماد) ہیں پھر اس تصور کو فالو کریں۔

7 کوئی بھی انسان غلطی سے پاک نہیں ہوتا لہذا غلطی کرنے سے نہ گھبرائیں۔

8 اپنے سے خوشحال لوگوں کو دیکھ کر ان سے اپنا موازنہ کرنے کی بجائے ان لوگوں کو دیکھئے جو خوشحالی اور مالداری میں آپ سے کم ہیں۔پھر پروردگار کا شکر گزار بنیے کہ اس نے آپ کو بہت سے لوگوں سے اچھی حالت میں رکھا ہے۔جیسا کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:جس شخص میں دو عادتیں ہوں تو اللہ اسے صابر و شاکر لکھتا ہے۔1 جو اپنے دین میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھے تو اس کی پیروی کرے۔2 جو اپنی دنیا میں اپنے سے نیچے والے کو دیکھے تو اللہ کا شکر کرے کہ اللہ نے اسے اس شخص پر بزرگی دی۔(ترمذی)

9 اگر احساس کمتری کی وجہ رنگ گورا نہ ہونا ہے تو ذہن نشین کرلیں کہ رنگ کا صاف یا گورا نہ ہونا ایک ضمنی اور عارضی چیز ہے جو آپ کے اختیار میں نہیں۔جبکہ حقیقی اعتبار سے تمام انسان تخلیق کا حسین شاہکار ہیں جیساکہ خالق کائنات ارشاد فرماتا ہے"بیشک یقینا ہم نے آدمی کو سب سے اچھی صورت میں پیدا کیا"(التین۔4)لہذا اس وجہ سے خود کو کسی سے کم تر نہ سمجھیں۔

10 بعض اوقات ماضی کی کسی غلطی کو سوچ سوچ کر انسان احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے اس معاملے میں بھی قرآن مجید میں خالق کائنات نے ہماری رہنمائی فرمائی اور اس کا حل بھی ارشاد فرمایا"جو چلا گیا اس پر افسوس نہ کرو"(الحدید:23) خود اعتمادی کے حصول کے لئے یہ قرآنی نسخہ بہت ہی مفید ہے۔

11 کریٹیکل(مشکل)صورتحال میں جانے سے پہلے پریکٹس کریں۔

12 ذہن جن چیزوں کے بارے میں خوف دلا کر ان سے بچنے کا کہتا ہے وہ کام ضرور کریں۔

13 اپنی خوبیوں کو سوچیں اور روزانہ ان کاموں کا تصور کریں جنہیں آپ اچھی طرح کرسکتے ہیں۔

14 مثبت خود کلامی کریں۔جیسے میں ایک خوبیوں والا انسان ہوں جو کسی خوبیوں والے انسان کو پسند ہوں۔

15 زیادہ پر اعتماد لوگ اپنی زندگی میں زیادہ بڑے گولز پر کام کرتے ہیں لہذا اپنی زندگی میں بڑے گولز اور مقاصد متعین کریں جن پرعمل کرکے اپ کی خود اعتمادی میں اضافہ ہو۔

16 دوسرے لوگ آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اسے نظر انداز کیجئے۔

17 مثبت لوگوں کی صحبت اختیار کیجئیے ان لوگوں کے ساتھ تعلقات بنائیے جو آپ کی خوبیاں بیان کریں اور آپ کو بہتر بننے میں مدد دیں۔

18 انکار کرنا سیکھیے۔اگر آپ کوئی کام نہیں کرسکتے تو مخاطب سے کسی خوف کے بغیر اچھے انداز سے معذرت کرلیجئے۔

19 قانون قدرت یاد رکھیں کہ آپ کے بی لیوز(belives) اور یقین ہی آپ کی حقیقت بنتے ہیں،آپ اس پر یقین نہیں رکھتے جو آپ دیکھتے ہیں بلکہ اسے دیکھتے ہیں جس پر آپ یقین رکھتے ہیں۔آپ کے یقین آپ کی زندگی کی حقیقت تخلیق کرتے ہیں۔اپنے تمام بی لیوز کا جائزہ لیجئے جو یقین آپ کی خود اعتمادی میں رکاوٹ ہیں انہیں چھوڑدیجئے اور جو یقین آپ کی خود اعتمادی میں اضافہ کرتے ہیں انہیں اختیار کیجئے اور انہیں قوی سے قوی تر کرتے رہیے۔

20 اپنے اہداف کے حصول کے لئے ہر ممکنہ قدم اٹھائیں۔ایک دفعہ کا اقدام کافی نہیں ہوتا کیونکہ پہلی مرتبہ کی کوشش اکثر ناکام ہوتی ہے لیکن جوں جوں عمل کرتے ہیں ناکامی کا امکان کم ہوتا جاتا ہےجیسا کہ نپولین ہل کا کہنا ہے"زندگی میں کامیابی ملنے سے پہلے عارضی شکستوں اور ناکامیوں سے ملاقات ضروری ہے"۔یہ حقیقت قبول کیجئے کہ مسائل ضروری ہیں ان سے بچا نہیں جاسکتا لیکن انہیں حل ضرور کیا جاسکتا ہے۔لہذا آپ نے کبھی نہیں رکنا کیونکہ آپ بھرپور سیلف کانفیڈینس کے مالک ہیں۔

از قلم۔حافظ نعمان حسین

shaikhnoman290@gmail.com


خوف اورخشیت کاایک ہی معنی ہےوہ ہےڈرنا،گھبراہٹ میں مبتلا ہونا۔جبکہ خشیتِ الٰہی کامطلب ہے کہ  اللہ کریم کی بے نیازی ،اس کی ناراضگی،اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبرا ہٹ میں مبتلا رہے ۔ ([1]) اللہ کےآخری نبی،محمدِعربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس مومن کی آنکھ سے اللہ کریم کے خوف سےآنسو بہہ جائےاگر چہ وہ مکھی کےسر کے برابر ہواور پھر وہ آنسواس کےرخسارپرپہنچ جائےتواللہ کریم اس پرجہنم حرام فرمادے گا۔([2])

یادرکھئے!خشیت الٰہی،تقوی و پرہیزگاری ایک لازوال نعمت ہے،جس انسان کو اس نعمت سے نواز دیا جاتاہےاس کاظاہرو باطن ہمہ وقت یادِالٰہی میں مگن رہتاہے،اس کےطرزعمل اورکردار میں تبدیلی آ جاتی ہے، خشیتِ الٰہی کی یہ مقدس چادر بندےکو دنیا کی زیب و زینت اور حیوانیت میں ملوث ہونے سے بچا لیتی ہےاور انسان کوحقیقی انسان بننےمیں مدد فراہم کرتی ہے۔

اگرہم صحابَۂ کرام کی سیرت طیبہ کامطالعہ کریں اور ان کےاحوالِ زندگی سےآشنائی حاصل کریں تو یہ بات ہم پر روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گی کہ اس مقدس جماعت کی زندگیاں،ان کےشب و روز ،خشیتِ الہی ،زہدو تقویٰ کے بے مثال نمونوں سے بھری پڑی ہیں ،بس فی زمانہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان کی زندگیوں کامطالعہ کریں اور ان کےنقوشِ قدم پرچل کر اُخروی سعادت سےسرفراز ہوجائیں ۔

ہدایت کےانہی روشن ستاروں میں سب سے پہلےاسلام قبول کرنے والےقریش کے خوش نصیب شخص جنہیں افضل البشربعد الانبیاء، مسلمانوں کے پہلےخلیفہ ،صدیق وعتیق اور یا ر غا ر ویا ر مزار جیسی فضیلتوں سےشہرت حاصل ہے،ویسے توحضرت سیدناصدیقِ اکبر رضی اللہُ عنہکےجس وصف کو دیکھیں ، آپ بےمثل و بےمثال اور ہراعتبارسےاشرف و اعلی ہیں،عبادت ہویاتلاوت،امامت ہویاخِلافت، کرامت ہویا شرافت، صداقت ہو یا شجاعت۔ آپ اتنی با برکت اور برگزیدہ شخصیت ہیں کہ آپ کی مبارک زندگی کےجس پہلو پر بات کی جائے اور آپ کے فضائلِ جمیلہ اور خصائصِ حمیدہ پر جتنا لکھاجائے کم ہے اوروقت اس کااحاطہ نہ کرسکےگامگرآج اس تحریرکاموضوع ”صدّیقِ اکبراورخشیت ِ الٰہی“ ہے۔آپرضی اللہُ عنہ تقوی و پرہیزگاری اورخشیتِ الٰہی کے وصف میں بھی اپنی مثال آپ تھے ،آپ کے خوفِ خدا اور خشیت الٰہی کےبارے میں جاننے سے پہلےمختصر تعارف ملاحظہ کیجئے:چنانچہ

٭حضرت صدیقِ اکبر کا نام عبداللہ اور والد کا نام(ابوقحافہ) عثمان ہے۔ ([3]) ٭ آپ کی کنیت ابوبکر ہے اور آپ اپنے نام سے زیادہ کنیت سے مشہور ہیں، آپ کی یہ کنیت اتنی مشہور ہےکہ لوگ اسے آپ کا اصل نام سمجھتے ہیں ۔([4]) ٭آپ کے دو لقب زیادہ مشہور ہیں ”عتیق“ اور ”صدیق“ اور اسلام میں سب سے پہلے عتیق کے لقب سے آپ ہی مشہور ہوئے ۔([5]) ٭عامُ الفیل کے اَڑھائی سال بعداور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی وِلادت کے دو سال اور چند ماہ بعد پیداہوئے۔([6]) ٭ آپ کی ولادت مکۃ المکرمہ میں ہوئی ۔ ٭آپ اپنی قوم میں مالدار، بامروت، حُسنِ اخلاق کےمالک اور نہایت ہی عزّت و شرف والے تھے۔([7]) ٭آپ وہ خوش نصیب ہیں کہ جو خود بھی صحابی،والدبھی صحابی، بیٹےبھی صحابی،پوتےبھی صحابی، نواسے بھی صحابی اور بیٹیوں کوبھی صحابیات ہونےکاشرف نصیب ہوا۔٭آپ وہ عظیم صحابی ہیں،جنہوں نے آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکی حیاتِ ظاہری میں صحابۂ کرام کو سترہ (17)نمازیں پڑھائیں، آپ کےعلاوہ کسی اور صحابی کو یہ سعادت نہیں ملی۔([8]) ٭ آپ 2 سال7 ماہ مسندِخِلافت پر رونق اَفروز رہ کر 22جمادَی الاُخریٰ 13ہجری کواس دنیا سےپردہ فرماکر ہمیشہ کے لئے اپنے آقا کےیارِ مزار بن گئے ۔

بیاں ہو کس زباں سے مرتَبہ صدیقِ اَکبر کا

ہے یارِ غار،محبوبِ خُدا صدیقِ اَکبر کا

اِلٰہی! رَحم فرما! خادمِ صدیقِ اَکبَر ہوں

تِری رَحمت کے صدقے واسِطہ صدیقِ اَکبر کا

(ذوقِ نعت ،ص76)

حضرتِ سیدناابوبکرصدیق رضی اللہُ عنہخشیتِ الٰہی اور تقوی و پرہیزگاری کاایسا عملی نمونے تھے کہ خودخالقِ کائنات نے اپنے پاکیزہ کلام میں ان کے خوفِ خُدا اور متقی ہونےکو ان الفاظ کےساتھ بیان فرمایا:وَ سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ(۱۷)

تَرْجَمَۂ کنز العرفان:اور بہت جلداس سے دور رکھا جائے گا جو سب سے بڑا پرہیزگار۔

امام علی بن محمدخازنرحمۃُ اللہِ علیہفرماتے ہیں :تما م مفسرین کے نزدیک اس آیت میں سب سے بڑے پرہیزگار سے مراد حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہُ عنہہیں ۔( [9])

نہایت متّقی و پارسا صدیقِ اَکبر ہیں

تَقِیْ ہیں بلکہ شاہِ اَتقیا صدیقِ اَکبر ہیں

1. صحابی رسول،حضرتِ سیدنا زَید بن ارقمرضی اللہُ عنہفرماتے ہیں کہ ایک بار ہم حضرتِ سیدناابوبکر صدّیقرضی اللہُ عنہکی بارگاہ میں بیٹھے تھے کہ پانی اورشہد لایا گیااورجیسے ہی آپ کےقریب کیا گیا، تو آپ نے زاروقطار رونا شروع کردیا اور روتے رہے،یہاں تک کہ تمام صحابَۂ کرام بھی رونے لگ گئے،صحابَۂ کرام روروکے چُپ ہوگئے ،لیکن آپ روتے رہے،صحابَۂ کرام آپ کو دیکھ کر پھر رونے لگ گئے۔ بالآخرحضرت ابوبکرصدّیقرضی اللہُ عنہنےاپنی آنکھیں صاف کیں توصحابَۂ کرام نے عرض کی: اے رَسُوْلَ اللہ کےخلیفہ! آپ کوکس چیز نے رُلایا؟فرمایا:ایک بارمیں اللہ کےمحبوب کی خدمت میں بیٹھا تھا ۔اچانک میں نے دیکھا کہ آپ اپنی ذات سے کوئی شےہٹا رہے ہیں، حالانکہ اُس وقت مجھے کوئی شے نظر نہیں آرہی تھی، میں نےعرض کی: یَارَسُوْلَ اللہ!آپ کس شے کو ہٹا رہے ہیں؟ فرمایا: دُنیا نے میرا ارادہ کیا تھا میں نے اُس سے کہاکہ دُور ہوجا۔ تو اُس نے مجھےکہا:آپ نے اپنےآپ کو تومجھ سے بچالیا،لیکن آپ کےبعد والے مجھ سے نہیں بچ پائیں گے۔([10])

2. حضرت مُعاذبن جبلرضی اللہُ عنہسےروایت ہےکہ حضرتِ سیدناابوبکرصدّیقرضی اللہُ عنہایک باغ میں داخل ہوئے، درخت کےسائے میں ایک چِڑیاکو بیٹھے ہوئے دیکھا،تو ایک درد بھری آہ کھینچ کر ارشادفرمایا: اےپرندے!تو کتناخوش نصیب ہے کہ ایک درخت سے کھاتاہے اور دوسرے کے نیچے بیٹھ جاتاہے،پھرتوبغیرحساب کتاب کےاپنی منزل پہ پہنچ جائےگا۔ اے کاش! ابوبکربھی تیری طرح ہوتا۔ ([11])

3. حضرتِ سیدنا ابُوعمران جَوْنِیرحمۃُ اللہِ علیہسےروایت ہےکہ حضرت سیدناابوبکرصدّیقرضی اللہُ عنہ نے ارشادفرمایا: کاش! میں ایک مومنِ صالح کے پہلو کا کوئی بال ہوتا۔([12])

4. حضرتِ سیدناحَسَن رحمۃُ اللہِ علیہ سے روایت ہےکہ حضرت سیدنا ابوبکرصدّیقرضی اللہُ عنہنے فرمایا:خدا کی قسم میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میں یہ درخت ہوتاجسے کھایااور کاٹاجاتا۔([13])

5. حضرتِ سیدناقتادہ رضی اللہُ عنہسےمروی ہےفرماتے ہیں کہ مجھےیہ خبرملی ہےکہ ایک بارحضرتِ سیدناابوبکر صدّیق رضی اللہُ عنہ نے یوں فرمایا:اے کاش! میں سبزہ ہوتا جسے جانور کھاجاتے۔([14])

6. حضرت ِسیدناابُودَرْدَاءرضی اللہُ عنہسےروایت ہےکہ آقاکریمصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمنےارشادفرمایا: جو زُہد وتقویٰ میں حضرت عیسیٰ کی مثل کسی کو دیکھنا چاہے تو وہ ابوبکر کو دیکھ لے۔ ([15])

7. حضرت سیدنامطرف بن عبداللہرحمۃُ اللہِ علیہسے روایت ہےکہ حضرت سیدناابوبکرصدّیقرضی اللہُ عنہ نےفرمایا: اگرآسمان سے کوئی باآواز بلند صدا دے کہ جنت میں صرف ایک آدمی داخل ہوگا تو مجھےامید ہےکہ ایسا میں ہی ہوں گا اور اگرآسمان سے یہ آواز آئے کہ دوزخ میں صرف ایک ہی شخص داخل ہوگا تو مجھے خوف ہےکہ کہیں وہ بھی میں ہی نہ ہوں۔یہ روایت نقل کرنے کےبعد مطرف بن عبداللہرحمۃُ اللہِ علیہفرماتے ہیں:یہی خشیت ِالٰہی اور رضائےالٰہی کی سب سے بڑی کیفیت ہے جو حضرت سیدنا صدّیقِ اکبررضی اللہُ عنہ کو حاصل تھی۔([16])

یقیناً منبعِ خوفِ خُدا صدیقِ اکبر ہیں

حقیقی عاشقِ خیرالوریٰ صدیقِ اکبر ہیں

22 جُمادَی الاُخْری آپ رضی اللہُ عنہ کا یوم ِعرس ہے،تمام مسلمان اپنے اپنے گھروں میں حضرت صدیق رضی اللہُ عنہ کی نیاز وفاتحہ کرکے برکتیں حاصل کیجئے ۔اے اللہ!حضرت صدّیقِ اکبر رضی اللہُ عنہ کا صدقہ ہمیں بھی اپناحقیقی خوف نصیب فرما۔اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

از:مولانا عبدالجبار عطاری مدنی

اسکالر المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر ،دعوت اسلامی )

شعبہ ذمہ دار:رسائل دعوت اسلامی



[1] احیاء العلوممترجم ، 4 /451 ماخوذا

[2]ابن ماجہ ،4/ 467، حدیث: 4197

[3] صحیح ابن حبان، 9/6،حدیث: 6825

[4] سیرت حلبیہ ، 1/390

[5] ریاض النضرۃ ،1/77

[6] الاصابہ ، 4/145

[7] اسد الغابۃ ، 3/316، تاریخ الخلفاء، ص24

[8] سیرت سیدالانبیا ء، ص601ملخصا

[9] تفسیرخازن، واللیل، 4/384

[10] شعب الایمان ،7 /343، حدیث:10518

[11] کنز العمال، 6/237، حدیث:35696

[12] کتاب الزہد ، ص138،رقم: 560

[13] کتاب الزہد ، ص141، رقم: 581

[14] جمع الجوامع، 11/41، حدیث: 147

[15] ریاض النضرۃ، ، 1/ 82

[16] اللمع فی التصوف ، ص168