اللہ پاک نےاپنی مُقَدَّس کتاب قرآنِ پاک میں
عقل کی شرافت وبزرگی کابیان فرمایاہے،اہْلِ علم ومعرفت کہتے ہیں کہ عقل ایک روشن
وچمکدار جوہر ہےجسےاللہ پاک نےدماغ میں پیدا فرمایااوراس کا نوردل میں رکھااور دل
اس کے ذریعےواسطوں کے سہارے معلومات اور مشاہدے کی بدولت محسوسات کا علم حاصل کرتا
ہے۔قرآنِ کریم میں لفظ ”عقل
“ مختلف صیغوں کی صورت میں تقریبا49مرتبہ آیا ہےاورباربار’’لَعَلَّکُمْ
تَعْقِلُوْنَ،اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ،لِقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ،فَہُمْ لَایَعْقِلُوْنَ،اَکْثَرُہُمْ
لَایَعْقِلُوْن‘‘ سے عقل کے استعمال کی اہمیت بیان فرمائی ہے۔اسلام
عقل کے استعمال کی ترغیب دیتا ہے ، اس کی
تعریف بیان کرتا ہے ، اس کی طرف راغب کرتا ہے ، اللہ پاک نے ہر انسان
کو مختلف خوبیاں عطا فرمائی ہیں لیکن ان سب میں سے افضل خوبی عقل ہے۔(فیض القدیر، 5/566،
تحت الحدیث: 7901)
٭عقل انسان کی ہدایت کا ذریعہ بنتی اور
اُسے اچھائی اور بُرائی میں فرق کرنا سکھاتی ہے۔ آدمی جب تک کوئی بھی
نیا قدم اُٹھانے یا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنی عقل اور فہم وفراست سے کام لیتا ہے
کامیاب ہوتا ہے٭عقل وذہانت کے استعمال سے بڑی بڑی کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں
۔صحابی ابنِ صحابی حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہماکو افریقہ کے لشکرمیں
بھیجا گیا ،کامیابی نہیں ہورہی تھی، آپ نے امیرِلشکرکو مشورہ دیا کہ آدھے
لشکرکودوپہرکے بعد آرام کروایا جائے تاکہ
شام کو آرام کرنے والادستہ لشکرکشی کرکے کامیابی حاصل کرلے ،مشورہ قبول کیا گیا
اورفتح حاصل ہو گئی۔٭کسی کام کی رائے دینا اورپھر کرنے کا طریقہ بھی بتانا
اعلیٰ ذہانت کی علامت ہے٭عقل کے استعمال سے مشکلات کا مقابلہ کیا
جاسکتاہے۔مشکلات میں کامیابی زیادہ کوشش سےحاصل ہوتی ہے ۔٭اگرایک طریقے سے
کام نہ ہورہا ہو تو اس کا اندازاورڈھنگ
بدلنے سے کامیابی حاصل ہوجاتی ہے۔٭اپنی صلاحیت کو بہترکرنے کے لیے اپنی
مہارت کو بڑھانا ہوتاہے۔ ٭اچھے فیصلے اچھی عقل سے ہوتے ہیں ۔
عقل کی اقسام
عقل کی
دو قسمیں ہیں:پہلی قسم وہ ہے جو کمی زیادتی کو قبول نہیں کرتی جبکہ
دوسری قسم میں کمی اورزیادتی ہوسکتی ہے۔پہلی قسم فطری عقل کی ہے جو تمام عقل مندوں
کے درمیان مشترک (یکساں )ہے، اس میں کمی یا زیادتی نہیں ہوتی ۔ دوسری
قسم تجربے سے حاصل ہونے والی عقل ہے جو کہ کوشش سے حاصل ہوتی ہے، تجربات اور مشاہدات
کی کثرت سے اس میں اضافہ ہوتا ہے،اس اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ بوڑھےشخص کی عقل کامل اور واقفیت زیادہ ہوتی ہے
جبکہ تجربہ کارآدمی زیادہ معاملہ فہم اورمعرفت والا ہوتا ہے۔ زمانے کے واقعات نے جس کے بال سفید کردیےہوں،مختلف تجربات نےاس
کی جوانی کے لباس کوبوسیدہ کردیا ہواوراللہ پاک نے اس کےتجربات کی کثرت کی بدولت اسےاپنی قدرت کےعجائبات دکھائےہوں ،وہ عقل
کی پختگی اور درست رائے کا زیادہ حق دارہوتاہے۔ منقول ہےکہ تجربہ عقل کاآئینہ ہے،اسی
لئےبوڑھے اَفراد کی رائے کی تعریف کی جاتی ہے یہاں تک کہا جاتا ہےکہ بوڑھےاَفراد
وقارکادرخت ہوتے ہیں ،وہ نہ تو بھٹکتے ہیں اور نہ ہی بے عقلی کا شکار ہوتے ہیں۔
بوڑھے افراد کی رائے کو اختیار کرو کیونکہ اگران کے پاس عقل و دانائی نہ بھی
ہوتوزندگی بھرکے تجربات کی بدولت ان کی رائے دوسروں سے اچھی ہوتی ہے۔ البتہ اللہ
پاک اپنےلطف و کرم سےجسےچاہتا ہے خاص
فرماکر عقل کی ایسی پختگی اورمعرفت کی زیادتی عطا فرماتا ہے جو کوشش سے حاصل نہیں
ہوپاتی اور اس کی بدولت بندہ تجربہ کاراورسیکھے ہوئے لوگوں سے بھی سبقت لےجاتا ہے۔
اللہ پاک اپنے بندوں میں سے کسی کو منتخب فرماکر اس کے دل کو انوارِربّانی
سےمنورفرماتا ہے تو وہ بندہ درستی کی طرف
ہدایت پاتا ہے اوربہت سارے معاملات میں
تجربہ کارافراد سے بھی فائق ہوجاتا ہے۔
عقلمندی کی علامتیں
٭کسی شخص کی عقل کے کامل ہونے پر اس سے صادر ہونے والے اَقوال
واَفعال سے استدلال کیا جاتا ہے،جیسےاچھے اخلاق وعادات کی طرف مائل
ہونا،گھٹیااعمال سے کنارہ کش ہونا ،بھلائی کے کاموں کی طرف راغب ہونا اور ایسی باتوں سے دُور ہونا ہے جو شرمندگی کا
باعث بنیں اور جن کے سبب لوگ باتیں بنائیں۔ ٭ایک دانا(عقلمند)سےپوچھاگیا:
کسی شخص کی عقل کی پہچان کیسےہوتی ہے؟جواب دیا: گفتگومیں غلطی کم اوردرستی زیادہ
ہونے سے٭کسی شخص کی عقل پر سب سے بڑی گواہی اس کا لوگوں سے اچھا سلوک کرنا
ہے۔منقول ہےکہ عقل مند شخص وہ ہے جو اپنے زمانے والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔٭عقل
بادشاہ جبکہ عادات واطوار اس کی رعایا ہیں،جب عقل اپنی رعایا کی دیکھ بھال میں
ناکام ہوجائے تو ان میں بگاڑ پیدا ہوجاتا ہے۔٭منقول ہےکہ عقلمند بلند مرتبہ
حاصل ہونے پر اِتراتا نہیں ،غرورنہیں کرتا جیسا کہ پہاڑ پر کتنی ہی تیز ہوائیں
چلیں لیکن اسے ہِلا نہیں سکتیں جبکہ جاہل آدمی معمولی مقام ومرتبے پر پُھول جاتا
ہے جیسا کہ گھاس معمولی ہوا سے بھی ہِلنے لگتی ہے۔٭اسلام کے چوتھے خلیفہ
امیرالمؤمنین حضرت علیُّ المرتضی ٰکَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ
الْکَرِیْم سےعرض کی گئی:ہمارے سامنے عاقل کی صفات بیان
فرمادیجیے۔فرمایا:عاقل وہ ہےجو ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھے۔پھرعرض کی گئی:جاہل
کی پہچان بھی بتادیجیے۔فرمایا:وہ تو میں بتاچکاہوں،یعنی جو ہر چیز کو اس کے مقام
ومرتبے پر نہ رکھے وہ جاہل ہے٭منقول ہےکہ3 چیزیں عقل کی بنیادہیں:لوگوں کے
ساتھ اچھا سلوک کرنا،اخراجات میں میانہ روی اور لوگوں کے نزدیک محبوب وپسندیدہ
ہونا۔
عقل میں اضافے کا نسخہ
حضرت سیِّدُناابودرداءرَضِیَ
اللہُ عَنْہ بیان کرتےہیں کہ حضور پُرنور، شافِعِ یومُ
النُّشُورصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اےعُوَیْمَر!اپنی عقل میں
اضافہ کرو تمہارےقُربِ الٰہی میں بھی اضافہ ہوگا۔میں نےعرض کی:میرے ماں باپ آپ
پرقربان ہوں!میں اپنی عقل میں کیسےاضافہ کرسکتا ہوں؟ ارشادفرمایا:اللہ پاک کی حرام کردہ باتوں سے اجتناب کرو اوراس کے فرائض
کو ادا کرو، تم عقل مند بن جاؤ گے،پھراعمالِ صالحہ کواپنامعمول بنالودنیامیں
تمہاری عقل بڑھےگی اور اللہ پاک کےہاں تمہیں جو قُرب اورعزت حاصل ہے
اس میں بھی اضافہ ہوگا۔(بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث، 2/ 808،حدیث:
829)
(اس مضمون کا
زیادہ مواد المدینۃ العلمیہ کی کتاب ’’دین ودنیا کی انوکھی باتیں‘‘ صفحہ 46تا56سے لیا گیا ہے ،اس موضوع
سے متعلق مزیدتفصیل وہاں دیکھئے۔)