سوانح
حیات استاذالعلماء فقیہ العصر مفتی محمد
قاسم گڑھی یاسینی علیہ الرحمہ
استاذالاساتذه
فقیہ العصر علامہ مفتی محمد قاسم گڑھی یاسینی علیہ الرحمہ بن استاذالعلماء علامہ
مفتی محمد ہاشم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادتِ باسعادت 16 ربیع الآخر 1305ھ بروز
اتوار بوقت صبح گڑھی یاسین ضلع شکارپور سندھ میں ہوئی۔ ( مہران
سوانح نمبر صفحہ 118 )
تعلیم و تربيت:
استاذالاساتذه
فقیہ العصر علامہ مفتی محمد قاسم گڑھی یاسینی علیہ الرحمہ نے درس نظامی کی تمام
کتب اپنے والد گرامی استاذالعلماء علامہ مفتی محمد ہاشم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ
علیہ کے پاس پڑھیں اور ان کے وصال کے بعد آخری
دو تین کتب برصغیر کے فقیہِ اعظم رئیس العلماء سند الفقہاء علامہ عبدالغفور مفتون
ہمایونی رحمۃُ اللہِ
علیہ کے پاس ہمایوں شریف میں پڑھیں اور 1323ھ میں
انہیں کے پاس دستار فضیلت ہوئی۔ (
مختصر سوانح حیات مفتی محمد قاسم گڑہی یاسینی صفحہ 07 )
درس و تدريس:
مولانا
محمد حسین کہاوڑ رحمۃُ اللہِ
علیہ لکھتے ہیں کہ آپ کے پاس مکران، بلوچستان،
پنجاب اور سندھ کے دور دراز علاقوں سے طالب علم دینی تعلیم حاصل کرنے آتے اور فیضیاب
ہوکر لوٹتے، ( مختصر سوانح مفتی محمد قاسم گڑھی یاسینی صفحہ 7-8 ) مفتی
محمد قاسم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ علم و
ادب اور عربیت کے بہت بڑے عالم تھے ،سندھ میں ان کے ہمعصر علماء میں سے کوئی بھی ان
کا ہم پلہ نہ تھا ، انہیں فقہ کے مسائل حل کرنے اور فتوی نویسی میں مہارت حاصل تھی،
علامہ عبدالغفور مفتون ہمایونی رحمۃُ اللہِ علیہ کے وصال کے بعد بلوچستان اور جنوبی سندھ کے لوگ
فتوے کے لئے آپ کے پاس آتے تھے اس کے ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ ( تذکرہ مشاہیر سندھ صفحہ 257 )
تصنیف و تاليف:
مفتی
محمد قاسم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ کی تصانیف میں (01)فتاوی قاسمیہ (02) اہلسنت کے
عقائد کے متعلق تحریر کردہ رسالہ’’عقائد نامہ اہلسنت‘‘ (03)”عمدة الآثار فی تذکرة
الاخیار الکٹبار مشائخ درگاہ کٹبار شریف“ (4) دربارہ تقلید (05) الفاظ القرآن با معنی
فارسی (6) مجموعہ اشعار۔ (
انوار علمائے اہلسنت سندھ صفحہ 803 )
بیعت:
مفتی
محمد قاسم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ غوث
الزمان حضرت خواجہ عبدالرحمان
مجددی نقشبندی فاروقی رحمۃُ اللہِ علیہ سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت ہوئے ۔(
مہران سوانح نمبر صفحہ 120 )
تلامذہ:
مفتی
محمد قاسم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ کے تلامذہ کی فہرست میں کثیر علماء کے نام شامل ہیں جن میں سے چند
کے نام یہ ہیں: آپ کے چھوٹے بھائی استاذالعلماء مفتی محمد ابراھیم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ
علیہ ، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد
خان جمالی رحمۃُ اللہِ
علیہ،
مولانا احمد صاحب رحمۃُ اللہِ
علیہ قاضی مکران بلوچستان، مولانا نصير الدين
صاحب رحمۃُ اللہِ
علیہ شہدادکوٹ، مولانا محمد حسين کہاوڑ رحمۃُ اللہِ
علیہ جیکب
آباد، مولانا میاں فخر الدین رحمۃُ اللہِ علیہ کٹبار شریف بلوچستان، صاحبزادہ عبدالغفار جان
سرہندی رحمۃُ اللہِ
علیہ و
صاحبزادہ غلام احمد جان سرہندی رحمۃُ اللہِ علیہ ٹنڈو محمد خان وغیرہ ۔(انوار علماء
اہلسنت سندھ صفحہ 803-804 )
شعر و شاعری:
مفتی
محمد قاسم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ شاعری کا بھی ذوق رکھتے تھے، عارف کامل سیّد
احمد خالد شامی رحمۃُ اللہِ
علیہ جوخود
بلند پائے کے شاعر تھے وہ بھی آپ علی کی اشعار سن
کر آپ کو داد دیتے تھے، آپ عربی زبان فصاحت کے ساتھ بولتے تھے جس کے خود اہل عرب بھی
معترف تھے، ایک بار سید جمال الدین جیلانی سید عبدالرحمان ( سجاہ نشین خانقاہ عالیہ
حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ ) کے فرزند علامہ مفتی محمد قاسم
گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ
علیہ کی فصیح عربی زبان سن کر بے انتہا محظوظ
ہوئے اور حاضرین مجلس کو کہنے لگے میں نے قلات سے لیکر سو رت تک سارا ہندوستان دیکھا
ہے لیکن ان جیسا عالم کہیں نہیں دیکھا، شاعری میں آپ علیہ الرحمہ کا تخلص "
قاسم " تھا، آپ علیہ الرحمہ نے سندھی کے علاوہ عربی و فارسی زبان میں بھی
شاعری کی ہے، آپ رحمۃُ اللہِ
علیہ کی شاعری میں قصائد، قطعات، منظومات و
مناجات وغیرہ شامل ہیں۔(
مہران سوانح نمبر صفحہ 120 انوار علمائے اہلسنت سندھ صفحہ 804 )
وصال:
مفتی
محمد قاسم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ نے 44 برس کی عمر میں 18 ذوالقعد الحرام 1349ھ
بمطابق 1929ء کو اس عالم فانی سے وصال فرمایا، آپ کی نماز جنازہ آغا عبدالستار جان
سرہندی رحمۃُ اللہِ
علیہ نے پڑھائی جس میں کثیر تعداد میں آپ کے
تلامذہ و عقیدت مند شریک ہوئے۔ ( مختصر سوانح حیات مفتی محمد قاسم
گڑھی یاسینی صفحہ 25 )
صاحب تکبیر کا لقب:
علامہ
مفتی محمد قاسم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ کو صاحب تکبیر بھی کہا جاتا ہے وہ اس لئے کہ آپ
کی نماز جنازہ پڑھاتے ہوئے جیسے ہی امام
صاحب نے اللہ اکبر کی
آواز بلند کی اسی وقت آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کے کفن کے اندر سے بھی اللہ اکبر کی آواز بلند ہوئی۔ ( انوار
علمائے اہلسنت سندھ صفحہ 804 )
مزار شریف:
مفتی
محمد قاسم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ کا مزار شریف گڑھی یاسین ضلع شکارپور میں واقع
ہے۔ اللہ کریم ان کے
درجات بلند فرمائے اور ان کے صدقے ہماری مغفرت فرمائے۔ آمین یارب العالمین،
از:قمرالدين عطاری عفی عنہ
05 رمضان المبارک 1443ھ
06 اپریل 2022ع شب پنجشنبہ
آغاز ِدعوتِ اسلام
اور کفار مکہ کا رد عمل
جب سے اللہ پاک کے آخری نبی ، مکی مدنی
، محمد عربی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کفار مکہ کے سامنے اپنی نبوت اور رسالت کا
اعلان فرمایا۔ کفار مکہ کو بتوں کو پوجنے
سے منع کیا اور خدائے واحد کی عبادت کی
طرف بلانا شروع کیا تب سے کفر و شرک کی فضاؤں میں پروان چڑھنے والے لوگ حضور اقدس
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے۔ کل تک جو
لوگ آپ کو صادق اور امین کا لقب (Title)دیتے آج وہ آپ
کی جان کے دشمن بن گئے. حالانکہ آخری نبی
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زندگی بھر کا ہر ہر گوشہ ہر ہر لمحہ
ان کے سامنے تھا جو پھول سے زیادہ شگفتہ ، شبنم سے زیادہ پاکیزہ ، آفتاب سے زیادہ
روشن ، مہتاب سے زیادہ چمکدار ، ہر قسم کے ظاہری اور باطنی نقص سے پاک تھا. اس کے
باوجود کفار مکہ نے آخری نبی صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے ساتھیوں پر ظلم و ستم کی آندھیاں چلائی۔
درندہ صفت کفار جناب رحمت عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کے راہ میں کانٹے بچھاتے ، جسم نازنین پرپتھر برساتے ، گالیاں دیتے ،
سجدے کی حالت میں پیٹھ پراونٹ کی اوجڑی
ڈال دیتے ، دیوانہ ،مجنون اور شاعر ہونے
کا پروپیگنڈا کرتے ۔ نبوت کے روشن دلائل دیکھنے کے باوجود بھی ایمان نہ لائے ۔
معجزات دیکھ کر کفار مکہ جب لا جواب ہو جاتے تو بجائے ایمان لانے کے وہ کہتے کہ یہ
تو کاہن ، ساحر اور جادوگر ہیں ۔
اتنی سخت تکلیفیں اور ایذایتیں جھیلنے کے
بعد بھی سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے خلاف
کوئی جوابی کاروائی(Reply Action) نہ کرتے
بلکہ صبر و تحمل سے کام لیتے۔حسن اخلاق کے
پیکر پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا انداز کریمہ تو یہ
تھا کہ جو لوگ آپ کو اذیتیں پہنچاتے ہیں
آپ تو ان کے لیے بھی دعائیں کرتے تھے
سلام اس پر جس نے خون کے پیاسوں
کو قبائیں دیں
سلام اس پر جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں
صحابہ کرام عَلَيهِم
الرّضوَان پر مظالم
سنگ دل ، بے رحم کفار شمعِ نبوت کے جاں نثار پروانوں
حضرت بلال، حضرت صہیب، حضرت عمار، حضرت خباب رَضِیَ اللہ
عَنْہُم وغیرہ کو رسیوں سے باندھتے اور پھر کوڑے مار مار کرجلتی ہوئی ریتوں پر لٹاتے
، کسی کو آگ کے دہکتے ہوئے کوئلوں پر سلاتے ، کسی کو باندھ کر کوچے و
بازاروں میں گھسیٹتے ، کسی کو چٹائیوں
میں لپیٹ لپیٹ کر ناکوں میں دھوئیں دیتے ،کسی کی
پیٹھ پر لاٹھیاں برساتے ، کسی کا گلا
گھونٹتے ، الغرض کفار مکہ نے ان عظیم ہستیوں پر ظلم و زیادتیوں کے پہاڑ توڑے ۔مگر خدا کی قسم ! ان حضرات نے استقلال و استقامت کا وہ منظر پیش کیا کہ بلند و بالا چوٹیاں سر
اٹھا اٹھا کر حیرت کے ساتھ ان سچے جان نثاروں کے جذبہ استقامت کا نظارہ کرتی تھی۔
نبی کو اور مسلمانوں کو تکلیفیں
لگی ملنے
وہ تکلیفیں کہ جن سے عرش اعظم لگا ہلنے
لٹاتے تھے کسی کو تپتی تپتی ریت
کے اوپر
تو رکھتے تھے کسی کے سینہ بے کینہ پر
پتھر
محمد کی محبت میں ہزاروں ظلم
سہتے تھے
خدا پر تھی نظر ان کی زباں سے
کچھ نہ کہتے تھے
اے عاشقان رسول! دیکھا آپ نے ہمارے
پیارے صحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم نے دین اسلام کی خاطر کتنی
قربانیاں دیں کتنی تکلیفیں جھیلی لیکن نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کی غلامی سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے۔ گویا زبان حال سے وہ یہ کہہ رہے
تھے کہ "بھلے پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں یا ریزہ ریزہ ہو جائے. ہم موت کو تو گلے
لگا سکتے ہیں لیکن دامن مصطفی صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہیں چھوڑ سکتے. اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ صحابہ
کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم اپنے آقا اور مولا صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کتنے وفادار ساتھی تھے. مصائب و آلام کے ایسے زور
دار طوفان آئے کہ ایمان پر ثابت قدم
رہنا دشوار ہو جائے لیکن صحابہ کرام
رَضِیَ اللہ عَنْہُم کاایمان اور مضبوط ہوجاتا۔ صحابہ کرام رَضِیَ
اللہ عَنْہُم نے اپنے گھر بار
، بال بچے ، ماں باپ ، رشتے دار مال ودولت سب کچھ چھوڑدیا لیکن اپنے پیارے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کا دامن نہ چھوڑا۔ آج جو لوگ صحابہ کرام جیسی مبارک ہستیوں پر طعن وتشنیع کرتے ہیں ان کے لیے مقام فکر ہے ۔
اس میں مبلغین کیلئے بھی درس ہے کہ اگر نیکی کی دعوت دینے پر
کوئی تکلیف یا آزمائش آئے تو صحابہ کرام
رَضِیَ اللہ عَنْہم کی تکالیف کو یاد کرنا چاہیے کہ انہوں نے تو اتنی اذیتیں برداشت کی ہیں۔ ہماری تکلیفیں ان کی ایک تکلیف کے کروڑویں
حصے کے ایک ذرے کے برابر بھی نہیں ہے۔
(پہلا باب ) جنگ بدر کا
پس منظر
ہجرت اول =حبشہ کی طرف
ہجرت
کفار مکہ نے جب اپنے ظلم وستم
سےمسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا تو حضور رحمت عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسلمانوں کو حبشہ جا کر پناہ لینے کا حکم دیا۔صحابہ کرام
رَضِیَ اللہ عَنْہُم کا ایک گروہ ہجرت کر کے حبشہ میں امن و سکون
کی حالت میں رہنے لگا. لیکن کفار مکہ کو یہ کب گوار تھا کہ مسلمان امن اور چین کے
حالت میں رہے. چنانچہ انہوں نے اپنے کچھ شریر لوگ حبشم بھیجے تاکہ وہاں بھی
مسلمانوں کا جینا دو بھر(یعنی مشکل) کر دیں۔(سیرت مصطفی ص126 خلاصا)
ہجرت ثانی=مدینہ منورہ
کی طرف ہجرت
اعلان نبوت کے دس سال بعد تک مسلمان
اسی طرح کفار کے ظلم و ستم کو برداشت کرتے رہے. بالآخر اللہ کریم کےحکم سے
مسلمانوں نے اور خود پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مدینے کی طرف ہجرت فرمائی۔ اعلان
نبوت سے لے کر ہجرت کے پہلے سال تک مسلمانوں کو کفار سے جنگ کرنے کی اجازت نہ تھی ۔بلکہ کفار کی طرف سےپہنچنے
والی ایذیتوں اور تکلیفوں کو صبر وتحمل
سےبرداشت کر کے دلائل اور موعظہ حسنہ کے ذریعے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا حکم تھا ۔
جہاد کرنے کی اجازت
جب سارےکفارمکہ اور مدینہ کے یہودی ان مٹھی بھر مسلمانوں کے مخالف ہوگئے اور انہوں نے مسلمانوں کو سرے سے ختم کردینے کا عزم کرلیا تو اللہ پاک نے
مسلمانوں کو کفار سے جنگ کرنے کی اجازت دی۔
چنانچہ اللہ پاک پارہ 17 سورہ الحج کی
ایت نمبر 39 میں ارشاد فرماتاہے
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ
ظُلِمُوْاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْر
ترجمۂ کنز الایمان: پروانگی عطا ہوئی
انہیں جن سے کافر لڑتے ہیں اس بنا پر کہ ان پر ظلم ہوا اور بیشک اللہ اُن کی مدد
کرنے پر ضرور قادر ہے۔
اس آیت مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے
کہ کفار ِمکہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم کو ہاتھ اور زبان سے شدید
اِیذائیں دیتے اور تکلیفیں پہنچاتے رہتے تھے اورصحابۂ کرام رَضِیَ
اللہ عَنْہُم حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے
پاس اس حال میں پہنچتے تھے کہ کسی کا سر پھٹا ہے ،کسی کا ہاتھ ٹوٹا ہے
اورکسی کا پاؤں بندھا ہوا ہے۔ روزانہ اس قسم کی شکایتیں بارگاہِ اقدس
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں پہنچتی تھیں اورصحابہ کرام رَضِیَ
اللہ عَنْہُم رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار
میں کفار کے ظلم و ستم کی فریادیں کیا کرتے اور آپ یہ فرما دیا کرتے
کہ’’ صبر کرو، مجھے ابھی جہاد کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ جب حضور
اکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وسَلَّمَ نے مدینہ منورہ کی طرف
ہجرت فرمائی ،تب یہ آیت نازل ہوئی اور یہ وہ پہلی آیت ہے جس میں کفار کے
ساتھ جنگ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین کی طرف سے جن
مسلمانوں سے لڑائی کی جاتی ہے انہیں مشرکین کے ساتھ جہاد کرنے کی
اجازت دیدی گئی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور بیشک اللہ اِن مسلمانوں
کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے۔ (تفسیر روح البیان، الحج، تحت
الآیۃ ۳۹ )
١٢صفر المظفر ، ٢ہجری کو یہ آیت مبارکہ
نازل ہوئی(سیرت مصطفی ص 197) جس میں
مسلمانوں کو کفار سے جہاد کرنے کی اجاز ملی۔ اس آیت کریمہ کے نزول بعد سے غزوات اور سرایا کا آغاز
ہوا ۔
کفار مکہ کی سازشیں اور
لڑائیوں کا آغاز
اللہ پاک کے آخری نبی ، رسول ہاشمی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ اور آپ کے صحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم نے اپنا سب
مال و متاع مکے میں چھوڑ کر نہایت بیکسی کی حالت میں مدینے کو ہجرت کی۔ اب ہونا تو
یہ چاہیے تھا کہ کفار مکہ مسلمانوں کی
دشمنی کو چھوڑ دیتے کیونکہ مسلمان ان کے شہر یعنی مکہ سے چلے گئے لیکن ان دین
اسلام کے دشمنوں کے غضب کو اور زیادہ آگ لگ گئی. اب تو یہ مدینے والوں کے بھی دشمن بن گئے ۔انہیں بھی دھمکیاں دینے لگے. چنانچہ ہجرت
کے چند روز بعد کفار مکہ نے انصار کے امیر عبداللہ بن ابی کو ایک دھمکیوں بھرا خط
بھیجا جس میں لکھا تھا:
"تم نے ہمارے
بندے محمد(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی
ہے. ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو تم لوگ ان کو قتل کر دو یا مدینے سے
نکال دو. ورنہ ہم سب لوگ تم پر حملہ کر دیں گے تو میں تمام لڑنے والے جونوں کو قتل
کر کے تمہاری عورتوں پر تصرف کریں گے" (ابو داؤد ج2 باب فی خبر النفیر)
کفار مکہ مسلمانوں کی دشمنی میں اس قدر بڑھے کہ مدینے پر
حملہ کرنے کی تیاریاں کرنے لگے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ اور آپ کے پیارے صحابہ
کرام رَضِیَ
اللہ عَنْہُم راتیں جاگ جاگ کر بسر کرتے تھے ۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے اپنی اور صحابہ کرام رَضِیَ
اللہ عَنْہُم کی حفاظت کیلئے دو اقدامات کرنے کا فیصلہ فرمایا
1۔ کفار مکہ کی ملک شام سے ہونے والی تجارت کے راستے کو روکنا تاکہ وہ لوگ صلح پر راضی ہو ۔
2۔ مدینہ منورہ کے اطراف کے تمام قبائل سے صلح کے معاہدے کرنا تاکہ کفا مکہ
مدینے پر حملہ کی جرات نہ کرسکے۔
اس سلسلے میں کفار اور ان کے مختلف
حلیفوں سے ٹکراو شروع ہوا۔ پھر کفار کے
ساتھ چھوٹی بڑی کئی لڑائیاں ہوئی جنہیں
تاریخ اسلام میں غزوات اور سرایا کا نام دیا جاتا ہے۔
غزوہ اور سریۃ کسے کہتے
ہیں؟
غزوہ اور سریۃ دو مختلف اصطلاحات
(Terms) ہیں۔
ان کا فرق جاننا ضروری ہے چنانچہ جن جنگوں
میں اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود
شرکت کی انہیں محدثین کی اصطلاح میں اسے"مغازی" یا "غزوہ" کہتے ہیں۔
اور وہ لشکر جس میں نبی پاک صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خود
شریک نہ ہوئے بلکہ اپنے صحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم کو امیر بنا کر بھیجا اسے" سریہ" کہتے ہیں۔(مدارج
نبوت باب دوم 76/2) (سیرت سید الانبیاء ص176)
غزوہ کی جمع "غزوات" سریہ کی
جمع "سرایا" ہے۔
غزوہ اور سریۃ کی تعداد
غزوات اور سرایا کی تعداد کے بارے میں اختلاف. امام بخاری کی روایت کے مطابق
غزوات کی تعداد 19 ہے. جن میں سے صرف 9 ایسے غزوہ ہیں جن میں جنگ کی نوبت پیش
ہے.(بخاری ، کتاب المغازی ، باب غزوہ العشیرہ 3/3) جبکہ سریہ کی تعداد 47 یا 56 ہے۔(شرح الزرقانی علی المواھب 221/2)
جن 9 غزوات میں جنگ کی نوبت پیش آئی ان
کے نام یہ ہیں۔
1۔ جنگ بدر۔ 2۔ جنگ احد۔ 3۔ جنگ احزاب 4۔ جنگ بنو قریظہ 5۔ جنگ
بنو المصطلق 6۔جنگ
خیبر۔ 7۔ فتح مکہ۔ 8۔ جنگ حنین۔ 9۔ جنگ طائف(شرح الزرقانی علی المواھب 221/2)
علم المغازی( غزوات کے
علم )کی اہمیت
غزوات مصطفےصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا باب
(Chapter)بڑی
اہمیت کا حامل ہے ۔غزوات کا علم بڑی شان و شوکت والا علم ہے کیونکہ ان جنگوں کو
خود پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نسبت ہے اور جس چیز کو حضور سے نسبت ہو جائے تو وہ شان
والی ہوجاتی ہے ۔آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت کا بڑا حصہ غزوات پر مشتمل ہے اور اس میں ہمارے لیے سیکھنے اور سمجھنے کو
بہت کچھ ہے ۔ چنانچہ علم المغازی کی اہمیت
پر تین قول ملاحظہ ہو۔
1۔جنتی صحابی ، حضرت سیدنا سعد بن ابی
وقاص رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے پوتے حضرت
اسماعیل بن محمدرَحْمَۃُاللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ہمارے والد غزوات رسول
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تعلیم دیتے تھے اور فرماتے ہیں یَا بُنَیَّ ھَذِہٖ مَآثِرُابَائِکُمْ فَلَا
تُضِیْعُوْ ا ذِکْرَھَا" اے میرے بیٹے یہ تمہارے آباؤ
اجداد کا شرف لہذا ان کو ضائع مت کرنا"(سبل الہدی و الرشاد 10/4(
.2۔ امام حسین کے شہزادے ،تابعی بزرگ ، امام
زین العابدین رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں کُنَّا نَعْلَمُ مُغَازِی
االنَّبِيِ کَمَا نَعْلَمُ السُّوْرَةَ مِنَ الْقُرْآن
ترجمہ"ہمیں غزوات رسول صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے متعلق بھی
قرآن پاک کی سورتوں کی طرح معلومات دی جاتی)البدایة والنھایة ج2 ص 642
)(سبل الہدی و الرشاد 10/4(
3۔ سیدنا امام زہری رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ
فرماتے ہیں فِي عِلْمِ الْمُغَازِی عِلْمُ
الْآخِرَةِ وَالدُّنْیَاترجمہ علم المغازی میں دنیا واخرت کے علوم موجود ہیں۔(البدایة
والنھایة ج2 ص 642 دار الفکر ،بیروت(
کفار مکہ کے تجارتی
قافلہ کا پیچھا تعاقب
ماہ جُمَادَى الاُخرىٰ سن 2 ہجری کو کفار مکہ ایک قافلہ تجارت کا سامان
لے کر مکہ سے ملک شام جارہا تھا۔حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ 150 یا 200 مہاجرین صحابہ کو
ساتھ لے کر اس قافلے کا راستہ روکنے کے لیے مقام " ذی
العشیرہ" تک تشریف لے گئے۔ جو يَنْبُع کی بندرگاہ
کے قریب ہے. مگر یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ قافلہ بہت آگے بڑھ گیا ہے. اس میں کوئی
لڑائی وغیرہ واقعہ نہیں ہوئی۔ (المواھب اللدنیۃ والزرقانی ج2 ص 232 ۔234)
مقام " ذی العشیرہ "کی وجہ سے اس غزوہ کو" غزوہ ذ ی
العشیرہ" کہتے ہیں۔
مسلمانوں کے ہاتھوں قتل
ہونے والا پہلا کافر
ماہ رجب سن 2 ہجری میں سرکار مدینہ
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللہ بن حجش رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو امیر لشکر بنا کر 8 یا 12 مہاجرین کا ایک قافلہ مقام " نخلہ " کی طرف بھیجا جو طائف اور مکہ کے درمیان ایک جگہ ہے۔ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہے ہدایات فرمائی کہ تم نخلہ میں ٹھہر کر قریش کے قافلوں
پر نظر رکھوں اور ہمیں صورت حال کی خبر دیتے رہنا۔
عجیب اتفاق کہ جس دن یہ لوگ مقام نخلہ
پہنچے اسی دن کفار قریش کا ایک تجارتی قافلہ آیا جس میں عَمرو بن الحَضْرَمى اور
عبداللہ بن مغیرہ کے دو لڑکے عثمان اور
نوفل اور ان کے ساتھ کچھ دیگر لوگ بھی تھے۔ اس کے علاوہ اونٹوں پر کھجور
اور دوسرا مال تجارت لدا ہوا تھا۔ چنانچہ حضرت واقد بن تمیمی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے ایک ایسا تاک (نشانہ
بنا ) کر تیر مارا کہ عَمرو بن الحَضْرَمى کو لگا اور اسی تیر سے وہ قتل ہو گیا۔
عثمان کو ان لوگوں نے گرفتار کر لیا جبکہ نوفل بھاگ گیا۔ حضرت عبداللہ بن حجش رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اسیروں (قیدیوں ) اور مال
غنیمت لے کر رسول اللہ صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں
حاضر ہوئے۔(المواھب اللدنیة و شرح الزرقانی ج2 ص 238) سیرت کی کتابوں میں اس واقعے
کو۔ سریہ حضرت عبداللہ بن حجش رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے نام سے یاد کیا جاتا
ہے۔
عَمرو
بن الحَضْرَمى وہ پہلا کافر تھا جو مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا ۔یہ عبداللہ حضرمی کا بیٹا تھا۔سریہ حضرت عبداللہ بن حجش میں جو لوگ قتل یا گرفتار ہوئے وہ بہت رئیس خاندان کے لوگ شمار کیے جاتے تھے ۔ اس واقعے کی وجہ سے کفار
غصے سے آگ بگولہ ہوگئے۔ اور انہوں نے
مسلمانوں سے بدلہ لینے کی ٹھان لی۔ "خون کا بدلہ خون "کے نعرے لگانے لگے ۔
جنگ بدر کے اسباب
مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ جو پہلی سب سے بڑی جنگ
ہوئی اسے " غزوہ بدر " کہتے ہیں۔
غزوہ بدر کا اصلی سبب تو عَمرو بن
الحَضْرَمى کا فر کا قتل تھا۔ اس قتل کی وجہ سے کفار قریش میں انتقام کی آگ بھڑک
اٹھی۔جیسا کہ حضرت عروہ بن زبیر کا بیان کہ جنگ بدر اور تمام
لڑائیاں جو کفار قریش سے ہوئی. ان سب کا بنیادی سبب عَمرو بن الحَضْرَمى کا قتل ہے
جس کو. حضرت واقد بن عبداللہ تمیمی نے تیر مار کر قتل کر دیا تھا۔(تاریخ طبری، جزء2
، ص131)
مگر اچانک یہ صورت حال پیدا ہوئی کہ
قریش کا وہ قافلہ جس کی تلاش میں حضورپرنور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مقام ذی العشیرہ تک تشریف لے گئےلیکن قافلہ ہاتھ نہیں آیا تھا۔ بالکل اچانک مدینہ
میں خبر ملی کہ اب وہی قافلہ ملک شام سے لوٹ کر مکہ جانے والے اور یہ بھی پتہ چل
گیا کہ اس قافلے میں کل تیس یا چالیس افراد ہیں جن کی نگرانی ابو سفیان کررہا
ہےاور کفار قریش کا بہت زیادہ مال تجارت
اس قافلے میں موجود ہے ۔
سرکار دوجہاں صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے پیارے اصحاب سے فرمایا کافروں کی ٹولیاں ہماری تلاش میں بھی رہتی ہیں
اور ان کی ایک ٹولی تو شہر مدینہ میں ڈاکہ ڈال کر گئی ہے ایسا کیوں نہ ہم کفار
قریش کے اس قافلے پر حملہ کر دیں اس کی شامی تجارت کا راستہ رک جائے اور وہ مجبور
ہو کر ہم سے صلح کر لے۔
مسلمانوں کا سامان جنگ
جب یہ قافلہ مقام بدر کے قریب پہنچا تو
پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس قافلے کی خبر ملی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فورا مسلمانوں کو نکلنے کی دعوت دی ۔چنانچہ 12 رمضان المبارک سن 2 ہجری بروز ہفتہ کو مسلمانوں کا لشکر مدینے سے نکلا ۔ جو جس حالت میں تھا اسی
حال میں روانہ ہوگیا۔اس لشکر میں مسلمانوں کے پاس کوئی بڑی فوج بھی نہ تھی اور نہ ہی زیادہ ہتھیار تھے ۔ کیونکہ کسی کے
وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ بڑی جنگ
ہوگی۔ مسلمان تو صرف کفار قریش کے قافلے پر حملہ کرنے کیلئے نکلے تھے ۔
اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد 313 تھی
جن کے پاس صرف 2 گھوڑے ، 70 اونٹ ، 6زرہیں
(لوہے کا جنگی لباس۔ Body Armor) اور 8 تلوار یں تھی۔(معجم کبیر
133/11 حدیث 11377 زرقانی علی المواھب 260/2) ۔
مگر ان کا جذبہ ایمانی بے مثال تھا
۔انہیں سامان جنگ پر نہیں اللہ و رسول پر بھروسہ تھا۔اس چھوٹے سے قافلے
کے سپہ سالار اعظم (chief commander ) خود
سید عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تھے۔اس لشکر کی منظر کشی کرتے
کسی شاعر نے لکھا
تھے ان کے پاس دو گھوڑے ، چھ زرہیں ، آٹھ شمشیریں
پلٹنے آئے تھے یہ لوگ دنیا بھر
کی تقدیریں
سواری کے لیے تین تین مجاہدین کو ایک
ایک اونٹ ملا ہوا تھا۔چنانچہ حضور اقدس
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، حضرت علی اور حضرت مَرثَد غَنَوِى ایک اونٹ پر۔ ( مقام روحاء تک حضرت مرثد کی جگہ حضرت ابو لبابہ تھے )اور
حضرت ابوبکر, حضرت عمر, حضرت عبدالرحمن بن عوف دوسرے اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ جب پیارے اقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کی پیدل چلنے کی باری آتی۔حضرت
علی اور ابو لبابا عرض کرتےحضور آپ سوار ہو جائے آپ کی جگہ ہم پیدل چلتے
ہیں مگر رحم وکرم فرمانے والے آقا صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے "تم پیدل چلنے پر مجھ سے زیادہ قادر نہیں ہو اور نہ میں تمہاری
نسبت اجر کا کم خواہاں(چاہنے والا ) ہوں (طبقات ابن سعد ۔ غزوہ بدر)
بدر ایک کنواں کا
نام ہے
بدر مدینہ منورہ سے 80 میل کے فاصلے پر
ایک گاؤں کا نام ہے ۔جہاں زمانہ جاہلیت میں سالانہ میلہ لگتا تھا۔موجودہ روڈ کے
اعتبار سے یہ تقریبا 152 کلومیٹر کا سفر ہے۔ جہاں ایک کنواں بھی تھا۔ جس کے مالک
کا نام" بدر " تھا،اسی کے نام پر اس کا نام بدر رکھ دیا گیا. اسی مقام
پر جنگ بدر کا وہ عظیم معرکہ ہوا۔ جس میں کفار قریش اور مسلمانوں کے درمیان سخت
جنگ ہوئی اور مسلمانوں کو وہ عظیم الشان فتح مبین نصیب ہوئی جس کے بعد اسلام کی
عزت اور اقبال کا پرچم اتنا سر بلند ہو گیا کہ کفار قریش کی عظمت وشوکت بالکل ہی خاک میں مل گئے. اللہ پاک نے جنگ بدر
کے اس دن کا نام" یوم الفرقان " رکھا۔(المواھب اللدنیۃ و الزرقانی ج2
ص255)
انصار اور
مہاجرین کا جذبہ جہاد
کفارمکہ تک یہ خبر پہنچ گئی کہ مسلمان
ہمارے تجارتی قافلے پر حملہ کر رہے ہیں.
تو مکے والے مسلمانوں سے لڑنے کی تیاری
کرنے لگے۔ تو نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ کو جمع
فرما کر آگاہ فرمایا اور صحابہ کرام کو بتا دیا کہ ممکن ہے کہ سفر میں کفارقریش کے
قافلے سے ملاقات ہو جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کفار مکہ کے لشکر سے جنگ کی نوبت
آجائے۔
پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ فرمان سن کر ابوبکر صدیق ، عمر فاروق اور دوسرے مہاجرین نے بڑے جوش و خروش کا اظہار کیا۔ مگر
مصطفے جان رحمت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّ انصار کا منہ دیکھ رہے تھے کیونکہ انصار نے آپ کے دست مبارک پر
بیعت کرتے وقت اس بات کا عہد کیا تھا کہ اس وقت تلوار اٹھائیں گے جب کفار مدینہ پر چڑھ آئیں گے. اور اب مدینہ سے
باہر نکل کر جنگ کرنے کا معاملہ تھا۔
حضرت ابوبکر وحضرت عمر رضی اللہ عنہما نے عرض کی: اے ہادی دوراں
(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)ہمارے مال وجاں اولاد سب کچھ آپ پر
قرباں حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے کھڑے ہو کر عرض کی: یارسولَ اللہ !صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہماری رائے معلوم کرنا
چاہتے ہیں ، اس ذات کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اگر
آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیں سمندر میں
کود جانے کا حکم ارشاد فرمائیں تو ہم اس میں کود جائیں گے۔ (مسلم، کتاب
الجہاد والسیر، باب غزوۃ البدر، ص981 ،الحدیث :1779)
انصار کے ایک معزز سردار حضرت مقداد بن
اسود رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ
اللہ ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،ہم حضرت
موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ
آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کا
خدا عَزَّوَجَلَّ جا کر لڑیں بلکہ ہم لوگ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دائیں سے، بائیں سے،آگے سے، پیچھے سے لڑیں گے۔ یہ سن
کر نور والے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چہرۂ انور خوشی سے
چمک اٹھا۔ (بخاری، کتاب المغازی، 3/ 5 ، الحدیث: 3952)
حضرت موسی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
ساتھ بنی اسرائیل کا سلوک
اللہ پاک کی پیارے نبی حضرت موسی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی
قوم کے واقعے کا پس منظر یہ ہے کہ جب اللہ پاک نے فرعون کو دریائے نیل میں غرق کیا
۔فرعون کے غرق ہونے کے بعد بنی اسرائیل دوبارہ مصر میں آباد ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں حکمِ الہٰی سنایا کہ
ملک ِشام حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی اولاد کا
مدفن ہے اوراسی میں بیت المقدس ہے، اُسے عمالِقہ قبیلے سے آزاد کرانے کے لیے جہاد
کرو اور مصر چھوڑ کر وہیں وطن بناؤ ۔اللہ رب العزت کا حکم نازل ہوا
وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا
مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا۔ (البقرہ 1 آیت 58)
ترجمہ کنزالایمان:اور جب ہم نے فرمایا
اس بستی میں جاؤ پھر اس میں جہاں چاہو بے روک ٹوک کھاؤ
اس شہر سے مراد بیت المقدس ہے یا اس کے قریب شہر اریحا ہے جس میں عمالقہ قبیلے کے لوگ آباد تھے۔ قوم
عمالقہ کے لوگ بد ترین کافر اور بڑے طاقتور تھے۔ ان کے جسم بہت
بڑے تھے کہ ان کے بدن کی جسامت دیکھ کر
انسان خوفزدہ ہو جائے۔ یہ بڑے جفاکش اور جنگجو لوگ تھے. حضرت موسی بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر قوم عمالقہ سے
جہاد کرنے روانہ ہوئے. جب یہ لشکر بیت المقدس شہر کے قریب پہنچا تو بنی اسرائیل
ایک دم بزدل ہو گئے۔دو حضرات کالب بن
یوقنا اور یوشع بن نون رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا نے جرأت مندی کا مظاہرہ
کیا۔ یہ دونوں حضرات اُن سرداروں میں سے تھے جنہیں حضرت موسیٰ
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم عمالقہ کا حال دریافت کرنے کے لئے بھیجا اور انہوں نے حالات معلوم کرنے
کے بعد حکم کے مطابق جبارین کا حال صرف
حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کیا اور دوسروں کو
نہ بتایا ۔ ان دونوں حضرات نے قوم کو جوش دلانے کیلئے فرمایا
ادْخُلُوْا عَلَیْهِمُ الْبَابَۚ-فَاِذَا دَخَلْتُمُوْهُ
فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ وَ عَلَى اللّٰهِ
فَتَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ (پارہ 6 المائدہ 23)
ترجمہ کنزالایمان:دروازے میں ان پر
داخل ہو اگر تم دروازے میں داخل ہوگئے تو تمہارا ہی غلبہ ہے اور اللہ ہی پر بھروسہ
کرو اگر تمہیں ایمان ہے۔
حضرت کالب بن یوقنا اور یوشع بن نون
رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کی باتیں سن کر
قوم کو کوئی اثر نہ ہوا بلکہ انہوں نے
نہایت بزدلی کا ثبوت دیتے ہوئے حضرت موسی کے ساتھ جہاد میں جانے سے صاف
انکار کر دیا اور کہا
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا
مَّا دَامُوْا فِیْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا
قٰعِدُوْنَ
ترجمۂ کنز
الایمان:بولے اے موسیٰ ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں ہیں تو آپ جائیے
اور آپ کا رب تم دونوں لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں۔(پارہ6 المائدہ 24)
جو روتا ہے اس کا کام ہوتا ہے
مدینہ منورہ سے ایک میل دور چل کر سید الانبیاء صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے لشکر
کا جائزہ لیا جو صغیر السن (کم عمر) تھے۔
حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کو واپس کر دیا ۔جنتی صحابی رسول حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ
اللہُ عَنْہُ کے چھوٹے بھائی حضرت سیدنا
عمیر بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ عَنْہُ جو ابھی نو عمر ہی تھے ۔فوج کی تیاری کے وقت
ادھر ادھر چھپتے پھر رہے تھے۔ حضرت سید نا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ
عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے تعجب سے
پوچھا: کیوں چھپتے پھر رہے ہو؟ کہنے لگے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دیکھ لیں اور چھوٹا سمجھ کر جہاد پر جانے سے منع
فرمادیں ۔ بھیا! مجھے راہ خدا عزوجل میں لڑنے کا بڑا شوق ہے، کاش مجھے شہادت نصیب
ہوجائے ۔ آخر کار سرکار نامدار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی توجہ
شریف میں آہی گئے اوران کوکم عمری کی وجہ سے منع فرمادیا۔ حضرت سیدنا عمیر غلبہ شوق کے سبب رونے لگے ۔جو روتا ہے اس کا کام ہوتا ہے کے مصداق ان کا آرزوئے
شہادت میں رونا کام آ گیا اور تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے اجازت مرحمت فرمادی۔ جنگ میں
شریک ہو گئے اور دوسری آرزوبھی پوری ہوئی کہ اس جنگ میں شہادت کی سعادت بھی نصیب
ہوئی۔ آپ کے بڑے بھائی حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں : میرے بھائی عمیر چھوٹے تھے اورتلوار بڑی تھی لہذا میں اس کی حمائل
کے سموں میں گرہیں لگا کر اونچی کرتا تھا۔ (کتاب
المغازي للواقدی ج 1 ص21)
اے عاشقان رسول! سبحان اللہ ! دیکھا آپ
نے! چھوٹا ہو یا بڑا راہ خدا میں جان
قربان کرنا ہی ان کی زندگی کا مقصد عظیم تھا لہذا کامیابی خودآگے بڑھ کر ان کے قدم
چومتی تھی۔
لشکر کا جائزہ لینے کے بعد حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بدر کی طرف چل پڑے جدھر سے قافلے کے آنے کی خبر تھی ۔لشکر میں 313
صحابہ کرام تھے جن میں سے 60 مہاجرین اور بقیہ انصار تھے ۔ مقام۔ صفراء
پر جب لشکر پہنچا تو رسول اللہ صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دو آدمیوں کو روانہ فرمایا تاکہ وہ معلوم کر
کے آئے کہ قافلہ کدھر۔ ہے اور کہاں تک پہنچا ہے۔(شرح زرقا نی علی المواھب ج2 ص326)
قضا حق ہے مگر اس شوق کا اللہ
والی ہے
جو اُن کی راہ میں جائے وہ جان
اللہ والی ہے
(حدائق بخشش ،ص183)
بحکم سرکار دوجہاں
حضرت عثمان بن عفان مدینے میں رہے
جس وقت سرکار دوعالم صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینے سے روانہ ہورہے تھے ۔تو اس آپ صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیاری شہزادی حضرت رقیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہا سخت بیمار تھی ۔نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو ان کی دیکھ بھال اور تیمارداری کیلئے مدینہ ہی میں چھوڑا اور خود اسلامی لشکر کے ساتھ تشریف لے گئے۔(طبقات ابن سعد ،رقیہ بنت رسول
اللہ 30/8)
" جنت " کے تین حروف کی نسبت سے عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی تین خصوصیات
اے عاشقان صحابہ و اہل بیت! اسلام کے تیسرے خلیفہ، جنتی صحابی، جامع القران ، حضرت عثمان ابن عفان رَضِیَ اللہُ
عَنْہُ کی شان و عظمت کے کیا کہنے۔ چنانچہ
آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی تین
خصوصیات ملاحظہ ہو ۔
1۔ جنتی صحابی، سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کا ایک لقب ذُو النُّوْرَیْن (دونور والے ) بھی ہے
کیونکہ نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی دوشہزادیاں
یکے بعد دیگرے حضرت سید نا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے نکاح میں دی تھیں اور فرمایا " اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں ایک کے بعد دوسری سے
تمہارا نکاح کر دیتا
کیونکہ میں تم سے راضی ہوں ۔(معجم کبیر
ج22 ص436 حدیث 1061)
حضرت ملھب بن ابو صفرہ
رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ کی خدمت میں
سوال ہوا حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ عَنْہُ
کو " ذُو النُّوْرَیْن" کیوں
کہتے ہیں؟ فرمایا :کیونکہ آپ کے علاوہ دنیا میں کسی کے نکاح میں نبی کی دو بیٹیاں آنا
معلوم نہیں۔(ریاض النضرة ، باب الثالث ، ص
6 حدیث 977)
نور کی سرکار سے پایا دوشالہ
نور کا
ہو مبارک تم کو ذُو
النُّوْرَیْن جوڑا نور کا (حدائق بخشش 246)
2۔ بدر کے دن آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ کرام رَضِیَ
اللہُ عَنْہم سے بیعت لی تو فرمایا: اِنّ عُثمَانَ
اِنطَلَقَ فِي حَاجَةِالله و حَاجَة
رَسُولِ الله واِنّي اُبَايِعُ له ترجمہ:بے شک عثمان اللہ اور اس کے رسول کی خدمت میں یے ، اس کی
جانب سے میں بیعت کرتا ہو۔(ابو داؤد، کتاب الجہاد ص436 الحدیث 2726)
مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُاللہ
عَلَیْہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : حضور انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا بایاں (یعنی دل کی جانب والا )ہاتھ اٹھایا اور فرمایا
کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اپنے داہنے ہاتھ (Right Hand) کو فرمایا کہ ہمارا ہاتھ
ہے اور خود ہی حضرت عثمان کی طرف سے بیت کی۔ اس بیت عثمان کا واقعہ دو بار ہوا:
ایک تو غزوہ بدر میں ، دوسرے بیت رضوان کے وقت مقام حدیبیہ میں۔ یہ ہے حضرت عثمان
کی شان!!
دست حبیب خدا ،
جو کہ ید اللہ تھا
ہاتھ بنا آپ کا آپ کو ذی شان ہیں
(مراة المناجیح 601/5 مختصرا)
3۔ کیونکہ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کے حکم پر مدینے میں رہے اور غزوہ بدر میں شریک نہ ہوسکے ۔ تو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ
عَنْہُ کو اجر وثواب کی خوشخبری سنائی اور
مال غنیمت میں سے حاصل بھی دیا ۔چنانچہ بخاری شریف میں ہے اِنَّ لَكَ اَجرَ
رَجُلِِ مِمَّن شَهِدَ بَدرََ اوَ سَهمَه
" بے شک تمہیں
غزوہ بدر میں شرکت کرنے والے کی مثل آجر بھی ملے گا اور مال غنیمت میں سے حصہ بھی
دیا جائے گا۔"(بخاری، کتاب فضائل
أصحاب، ص937،الحدیث 3698)
مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُاللہ
عَلَیْہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں "حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ غزوہ بدر سے غائب نہیں رہے،
وہ بدر میں تھے، جہاد کر رہے تھے ، مدینه منور ہ میں ان کا گھر ان کے لئے بدر کا
میدان تھا اور اپنی زوجہ یعنی رقیہ بنت رسول اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْھا کی خد مت ان کے لئے بدر کا جہاد تھا۔ (مراة المناجیح
405/8 مختصرا)
آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو بدر والوں کا صرف ثواب نہ ملا بلکہ غنیمت کا حصہ
بھی ملا، آپ صرف حکما غازی بدر نہ ہوئے بلکہ حقیقتا غازی مانے گئے۔ (مراة المناجیح 602/5 مختصرا)
معلوم ہوا الله پاک نے اپنے محبوب
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شرعی احکام میں بھی اختیار عطا فرمایا ہے۔ دیکھئے! اصل حکم میں جہاد کے
ثواب اور مال غنیمت کا حق دار وہی ہے جو جہاد میں شریک ہوا آپ رضی الله عنه بظاہر
غزوہ بدر میں شامل نہ تھے۔ مگر اللہ پاک
کی عطا سےمالک ومختار آخری نبی صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے غزوہ بدر
میں شرکت کے ثواب کا وعدہ بھی فرمایا اور مال غنیمت سے حصہ بھی عطا کی۔
کنجی تمہیں دی اپنے خزانوں کی
خدا نے
محبوب کیا مالک و مختار بنایا
مکے والوں کو مسلمانوں
کے حملے کی خبر پہنچ گئی
جب نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ سے روانہ ہوئے تو ابوسفیان کو اس کی خبرل گئی ۔ اس نے
فورا ہی ضمضم بن عمرو غفاری کومکہ بھیجا کہ وہ قریش کو اس کی خبر کر دے تا کہ وہ
اپنے قافلہ کی حفاظت کا انتظام کریں اور خودراستہ بدل کر قافلہ کو سمندر کی جانب
لےکر روانہ ہوگیا۔ ابوسفیان کا قاصد مضم بن عمرو غفاری جب مکہ پہنچا تو اس وقت کے
دستور کے مطابق کہ جب کوئی خوفناک خبر سنانی ہوتی تو خبر سنانے والا اپنے کپڑے
پھاڑ کر اور اونٹ کی پیٹھ پر کھڑا ہو کر چلا چلا کر خبر سناتا تھا
چنانچہ ضمضم بن عمرو غفاری نے
اپنا کرتا پھاڑ ڈالا اور اونٹ کی پیٹھ پر کھڑا ہو کر زور زور سے چلانے لگا کہ اے
اہل مکہ تمہارا سارا مال تجارت ابوسفیان کے قافلہ میں ہے اور مسلمانوں نے اس قافلہ
کا راستہ روک کر قافلہ کولوٹ لینے کا عزم کر لیا ہے لہذا جلدی کرو اور بہت جلد
اپنے اس قافلے کو بچانے کے لئے ہتھیار لے کر دوڑ پڑو۔ (مدارج النبوة، ج2، ص82)
لشکر کی تیاریاں اور کفار مکہ کا سامان جنگ
ضمضم بن عمرو کا یہ انداز دیکھ کر سارے
اہل مکہ کا امن وسکون غارت ہو گیا۔
تمام قبائل قریش اپنے گھروں سے نکل پڑے۔
سرداران مکہ میں سے صرف ابو لہب اپنی بیماری کی وجہ سے نہیں نکلا اس کے سوا تمام
روساء قریش پوری طرح مسلح ہوکر نکل پڑے اور چونکہ مقام نخلہ کا واقعہ بالکل ہی
تازہ تھا جس میں عمرو بن الحضرمی مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا گیا تھا اور اس کے
قافلہ کو مسلمانوں نے لوٹ لیا تھا اس لئے کفارقریش جوش انتقام میں آپے سے باہر
ہورہے تھے۔دشمن خدا و مصطفے ایک ہزار کا
لشکر جرار لے کر روانہ ہوئے۔ ان کے پاس 100 برق رفتار گھوڑے ہیں جن پر 100 زرہ پوش
جنگجو سوار ہیں، 700 اعلی نسل کے گھوڑے۔(معجم کبیر 133/11 حدیث 11377
زرقانی علی المواھب 260/2)
کھانے پینے کے ذخائر کے انبار اٹھانے
والے بار بردار جانور مزید برآں ۔ فوج کی
خوراک کا یہ انتظام تھا کہ قریش کےمالدار
لوگ یعنی عباس بن عبد المطلب ، عتبہ بن ربیہ، حارث بن عامر ، نضر بن الحارث،
ابوجہل، آمیہ وغیرہ باری باری سے روزانہ دس دس اونٹ نحر کرتے تھے اور پورے لشکر کو کھلاتے تھے۔ عتبہ بن ربیعہ جو قریش کا سب سے بڑا رئیس تھا اس پورے
لشکر کا سپہ سالار تھا۔
ابو سفیان کا تجارتی
قافلہ بچ کر نکل گیا
جب ابو سفیان بدر کے قریب پہنچا اور اس
کو کفار کی مدد نہ پہنچی تو وہ نہایت خوفزدہ ہوا کہ کہیں مسلمان قافلے پر حملہ نہ کر دے۔اس ڈر سے اس نے اپنے
اونٹوں کے منہ پھیر دئیے ۔ بالآخر ابوسفیان جب عام راستہ سے مڑ کر ساحل سمندر کے
راستہ پر چل پڑا اور خطرہ کے مقامات سے بہت دور بھاگ گیا اور اس کو اپنی حفاظت کا
پورا پورا اطمینان ہو گیا تو اس نے قریش کو ایک تیز رفتار قاصد کے ذریعے خط بھیج
دیا کہ تم لوگ اپنے مال اور آدمیوں کو بچانے کے لئے اپنے گھروں سے ہتھیار لے کر
نکل پڑے تھے اب تم لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاؤ کیونکہ ہم لوگ مسلمانوں کی
یلغار اور لوٹ مار سے بچ گئے ہیں اور جان و مال کی سلامتی کے ساتھ ہم مکہ پہنچ رہے
ہیں۔ (السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ بدر
الکبری ص255)
اسی شان کے ساتھ ہم بدر
میں جائیں گے
جب ابوسفیان کا یہ خط ملا اس وقت کفار مکہ مقام "جحفہ میں تھے۔
خط پڑھ کر قبیلہ بنوزہرہ اور قبیلہ بنوعدی کے سرداروں نے کہا کہ اب مسلمانوں سے
لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لہذا ہم لوگوں کو واپس لوٹ جانا چاہیے۔ یہ سن کر
ابوجہل بگڑ گیا اور کہنے لگا کہ ہم خدا کی قسم ! اسی شان کے ساتھ ہم بدر تک جائیں
گے، وہاں اونٹ نحرکریں گے اور خوب کھائیں گے، کھلائیں گے، شراب پئیں گے، ناچ رنگ
کی محفلیں جمائیں گے تا کہ تمام قبائل عرب پر ہماری عظمت اور شوکت کا سکہ بیٹھ
جائے اور وہ ہمیشہ ہم سے ڈرتے رہیں ۔ کفارقریش نے ابوجہل کی رائے پرعمل کیا لیکن بنوزہرہ اور بنوعدی کے دونوں قبائل واپس لوٹ گئے۔ ان دونوں
قبیلوں کے سوا باقی کفار قریش کے تمام قبائل جنگ بدر میں شامل ہوئے۔(سیرت ابن
ہشام، ج 2ص 418)
سورةالانفال پارہ 10 آیت نمبر 47 میں ابو جہل کے اسی قول کی طرف اشارہ
ہے چنانچہ ارشاد فرمایا
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ
دِیَارِهِمْ بَطَرًا وَّ رِئَآءَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-وَ
اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ
ترجمۂ کنز
الایمان
اور ان جیسے نہ ہونا جو اپنے گھر سے
نکلے اتراتے اور لوگوں کے دکھانے کو اور اللہ کی راہ سے روکتے اور ان کے سب کام
اللہ کے قابو میں ہیں۔
تفسیر صاوی
میں ہے کہ یہ آیت ان کفارِ قریش کے بارے میں نازل ہوئی جو بدر میں بہت
اتراتے اور تکبر کرتے ہوئے آئے تھے۔ جب یہ لوگ آئے توسر کارِ دوعالم صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا کی:
یارب! عَزَّوَجَلَّ، یہ قریش آگئے ،تکبر و غرور میں سرشار اور جنگ کے لئے تیار
ہیں ، تیرے رسول کو جھٹلاتے ہیں۔ یارب! عزَّوَجَلَّ، اب وہ مدد عنایت
ہو جس کا تو نے وعدہ کیا تھا۔ حضرت عبداللہ بن
عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا نے فرمایا کہ جب ابوسفیان نے دیکھا کہ
قافلہ کو کوئی خطرہ نہیں رہا تو انہوں نے قریش کے پاس پیغام بھیجا کہ تم قافلہ کی
مدد کے لئے آئے تھے، اب اس کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے لہٰذا واپس چلے جاؤ۔ اس
پر ابوجہل نے کہا کہ’’ خدا کی قسم! ہم واپس نہ ہوں گے یہاں تک کہ ہم
بدر میں اتریں ، تین دن قیام کریں ، اونٹ ذبح کریں ، بہت سے کھانے پکائیں ، شرابیں
پئیں ، کنیزوں کا گانا بجانا سنیں ، عرب میں ہماری شہرت ہو اور ہماری ہیبت
ہمیشہ باقی رہے۔ لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا جب وہ بدر میں پہنچے
تو شراب کے جام کی جگہ انہیں ساغرِموت پینا پڑا اور کنیزوں کے سازو نَوا کی جگہ
رونے والیاں انہیں روئیں اور اونٹوں کے ذبح کی جگہ ان کی گردنیں کٹیں۔(صاوی،
الانفال، تحت الآیۃ: 47)
(دوسرا باب ) میدان بدر
مکہ نے اپنے جگر کے
ٹکڑوں کو تمہاری طرف ڈال دیا ہے
پیارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ17 رمضان المبارک سن 2ہجری جمعہ کی رات کو بدر میں قریب کے
میدان میں اترے اور کفار قریش دوسری طرف پہلے پہنچ چکے تھے
۔رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت علی و زبیر وسعد بن ابی وقاص رَضِیَ
اللہُ عَنْہم کومشرکین کا حال دریافت کرنے کے لئے بھیجا۔وہ قریش کے دوغلام پکڑ لائے۔
اس وقت حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نماز پڑھ رہے تھے۔
صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم نے ان غلاموں سے پوچھا: کیاتم ابو سفیان کے ساتھی
ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو قریش کے سقے(پانی لانے والے ملازم )ہیں ۔ قریش نے ہمیں پانی پلانے کے لئے بھیجا ہے۔ اس پر صحابہ
کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم نے انہیں مارا۔
جب وہ درد سے بے چین ہوئے تو کہنے لگے کہ ہم ابوسفیان کے ساتھی ہیں۔ اتنے میں
پیارے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نماز سے فارغ ہوئے۔ حضور
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اصحاب سے فرمایا:” جب یہ تم سے
سچ بول رہے تھے تو تم نے ان کو مارا اور جب تم سے جھوٹ بولا تو تم نے ان کو چھوڑ دیا۔ اللہ کی قسم ! انہوں نے سچ کہا وہ قریش کے ساتھی ہیں"
۔ پھر حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان غلاموں سے قریش کا حال دریافت کیا۔ انہوں نے جواب دیا:
الله کی قسم !یہ جو ریت کا ٹیلہ نظر آرہا
ہے اس کے پیچھے ہیں۔ سرکار مدینہ صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دریافت فرمایا کہ قریش تعداد میں کتے ہیں؟
وہ بولےکہ ہمیں معلوم نہیں ۔ پھر تاجدار
انبیاء صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھا کہ وہ روزانہ کتنے اونٹ
ذبح کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک دن 10 اونٹ اور ایک دن 9 اونٹ ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ وہ ہزار اور نوسو کے درمیان ہیں۔ (واقعی وہ ہزار کے
قریب تھے اور ان کے پاس سوگھوڑے تھے)۔ پھر
نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھا: سرداران قریش میں سے
کون کون آئے ہیں؟ وہ بولے : عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ ، ابوجہل بن ہشام ،
ابوالبختری بن ہشام حکیم بن حزام ، نوفل بن خویلد، حارث بن عامر بن نوفل ، طعیمہ
بن علدی ابن نوفل ،نضر بن حارث ، زمعہ بن اسود ، امیہ بن خلف وغیرہم یہ سن کر آخری
نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اصحاب سے فرمایا " سن لو !مکہ نے اپنے جگر کے
ٹکڑوں کو تمہاری طرف ڈال دیا ہے
"(السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ بدر
الکبری ص254)
مسلمانوں
کی جنگی تدبیر
کفار قریش چونکہ مسلمانوں سے پہلے بدر میں پہنچ چکے تھے اس لئے مناسب
جگہوں پر ان لوگو ن نے قبضہ کرلیا۔جب
پیارے آقا ، مکی مدنی مصطفی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے لشکر
کو لے کر بدر میں پہنچے تو ایسی جگہ پڑاؤ ڈالا کہ جہاں نہ کوئی
کنواں تھانہ کوئی چشمہ اور وہاں کی زمین اتنی ریتلی تھی کہ گھوڑوں کے پاؤں زمین
میں دھنستے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت حباب بن منذ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے عرض کیا کہ
یارسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ نے پڑاؤ کے لئے جس جگہ کو منتخب فرمایا ہے
یہ وحی کی طرف سے ہے یا فوجی تدبیر ہے؟ آپ
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اس کے بارے میں کوئی وحی
نہیں اتری ہے۔ حضرت حباب بن منذ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے کہا کہ پھر میری رائے میں
جنگی تدابیر کی رو سے بہتر یہ ہے کہ ہم کچھ آگے بڑھ کر پانی کے چشموں پر قبضہ کر
لیں تا کہ کفارجن کنوؤں پر قابض ہیں وہ بیکار ہو جائیں کیونکہ انہی چشموں سے ان کے
کنویں میں پانی جاتا ہے۔ حضورصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی
رائے کو پسند فرمایا۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام آخری نبی ،مکی مدنی مصطفے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حباب بن منذ کی رائے درست ہے ۔
پھر اسی مشورے پرعمل کیا گیا۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ بدر الکبری ص254)
پیارے نبی صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مبارک سائبان
پیارے پیارے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ
عَنْہُ نے رحمة للعالمین، خاتم النّبیین
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نشست کیلئےاونچی جگہ پر کھجور کی شاخوں کا ایک سائبان (چھپر۔shade
)بنایا۔ اس مبارک سائبان کی مضبوط حفاظت یہ ایک اہم کام
تھا کیونکہ کفار قریش کے حملوں کا اصل مقصد ( Mission) پیارے آقا
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کی ذات تھی۔ کسی میں بھی ہمت نہ تھی
کہ اس مقدس سائبان کی حفاظت کرے۔ لیکن یہ سعادت اسلام کے پہلے خلیفہ ، صحابی ابن
صحابی، جنتی ابن جنتی ، امیرالمومنین
سیدنا صدیق اکبررَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی قسمت میں لکھی تھی۔چنانچہ ایک روایت ملاحظہ
ہو ۔
شان یار غار بزبان حیدر
کرار
چنانچہ کنزالعمال میں ہے، اسلام کے چوتھے خلیفہ ، جنتی صحابی،
امیر المومنین سیدنا علی المرتضی رَضِیَ
اللہُ عَنْہُ سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ
عَنْہُ کی بہادری کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں " غزوہ بدر کے دن ہم نے
سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت اور نگہداشت کیلئے ایک سائبان بنایا تاکہ کوئی کافر رسول اللہ
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر حملہ کر کے تکلیف نہ پہنچا سکے ۔ اللہ کی قسم ہم میں سے کوئی آگے نہ
بڑھا ۔ صرف صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ تلوار ہاتھ میں لیے آگے تشریف لائے اور
پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس کھڑے ہو گئے اور پھر کسی کافر کی یہ
جرات نہ ہو سکی کہ حضور
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب بھی پھٹکے۔ اس لیے ہم میں سے سب سے زیادہ بہادر ابو بکر صدیق
رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ہیں۔ .
(کنزالعمال حرف الفاء ، باب فصائل الصحابة
ج6 ص235)(فیضان صدیق اکبر، ص254)
مسجد
عريش
غزوہ بدر میں جس جگہ صحابہ کرام رَضِیَ
اللہُ عَنْہُم نے نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی
حفاطت کیلئے سائبان (چھپر) بنایا تھا۔ جنگ کے بعد عاشقان رسول نے وہی ایک اعلیٰ
شان مسجد تعمیر کی ۔آج بھی شہدائے بدر کے
مزارات کے پہلو میں وہ مبارک مسجد
موجود ہے ۔ سرکار دوعالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کے سائبان کی نسبت کی برکتیں
حاصل کرنے کیلئے عشاق مصطفے نے اس مسجد کا نام " مسجد عریش " رکھا
۔کیونکہ سائبان کو عربی زبان میں " عريش " کہتے ہیں اسی وجہ سے اس مسجد
کا نام مسجد عريش رکھا گیا۔
کہ
جنگ بدر کا نقشہ حضور جانتے ہیں
اللہ پاک کی عطا سے غیب بتانے والے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ رات کے وقت چند صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کے ساتھ میدان جنگ کا معائنہ فرمانے کیلئے تشریف لے گئے۔
اس وقت دست مبارک میں ایک چھڑی تھی۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
اسی چھڑی سے زمین پر لکیر بناتے تھے اور یہ فرماتے جاتے تھے کہ یہ فلاں کافر کے قتل ہونے کی جگہ ہے اور کل یہاں فلاں کافر کی لاش پڑی ہوئی ملے گی۔ چنانچہ
ایسا ہی ہوا کہ غیب دان نبی ،محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے جس جگہ جس کا فرکی قتل گاہ
بتائی تھی اس کافر کی لاش ٹھیک اسی جگہ پائی گئی ان میں سے کسی ایک نے لکیر سے بال
برابر بھی تجاوز نہیں کیا۔(مسلم ، کتاب الجھاد و السیر ،
باب غزوةبدر الحدیث 1778)
کہاں مریں گے ابو
جہل و عتبہ و شیبہ
کہ جنگ بدر کا نقشہ حضور جانتے ہیں
جنگ سے پہلے لشکر
اسلام پر دو انعام الہی
1۔ باران رحمت کا نزول جہاں کفار ٹھہرے ہوئے تھے انہوں نے وہاں کنوئیں کھودلئے تھے اور پانی جمع کرلیا تھا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم میں سے بعض کو وضو کی اور بعض کو غسل
کی ضرورت تھی اور اس کے ساتھ پیاس کی شدت بھی تھی۔ شیطان نے ان کے دل میں
وسوسہ ڈالا کہ تمہارا گمان ہے کہ تم حق پر ہو، تم میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے
نبی ہیں اورتم اللہ والے ہو جبکہ حال یہ ہے کہ مشرکین غالب ہو کر پانی پر پہنچ گئے
اور تم وضو اور غسل کئے بغیر نمازیں پڑھ رہے ہو تو تمہیں دشمن پر فتح یاب
ہونے کی کس طرح امید ہے ؟شیطان کا یہ وسوسہ یوں زائل ہوا
کہ اللہ تعالیٰ نے بارش بھیجی جس سے وادی سیراب ہوگئی اور
مسلمانوں نے اس سے پانی پیا، غسل اور وضو کئے، اپنی سواریوں کو پانی پلایا اور
اپنے برتنوں کو پانی سے بھر لیا، بارش کی وجہ سے غبار بھی بیٹھ گیا اور زمین اس
قابل ہوگئی کہ اس پر قدم جمنے لگے ، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ
عَنْہُم کے دل خوش ہو گئے ۔ ( تفسیر بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ 11)
بارش کی وجہ سے کفار کی زمین کیچڑ ہوگئی
جس پر چلنا دشوار ہوگیا ۔
2۔ امن والی نیند دوسرا انعام یہ ہوا کہ
جب مسلمانوں کو دشمنوں کی کثرت اور مسلمانوں
کی قلت ( یعنی کمی)سے جانوں کا خوف ہوا اور بہت زیادہ پیاس لگی تو ان پر غنودگی
ڈال دی گئی جس سے انہیں راحت حاصل ہوئی ، تھکاوٹ اور پیاس دور ہوئی اور وہ دشمن سے
جنگ کرنے پر قادر ہوئے۔ یہ اونگھ اُن کے حق میں نعمت تھی ۔ بعض علماء نے فرمایا
کہ’’ یہ اونگھ معجزہ کے حکم میں ہے کیونکہ یکبارگی (Altogether)سب کواونگھ
آئی اور کثیر جماعت کا شدید خوف کی حالت میں اِس طرح یکبارگی اونگھ جانا خلاف
ِعادت ہے۔(تفسیر خازن، الانفال، تحت الآیۃ:11، 2/ 182)
ان دونوں انعامات کا ذکر کرتے ہوئے
اللہ کریم پارہ 9 سورة الانفال آیت نمبر 11 میں ارشاد فرماتا ہے
اِذْ یُغَشِّیْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَ
یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَ یُذْهِبَ
عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَ لِیَرْبِطَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ وَ یُثَبِّتَ بِهِ
الْاَقْدَامَ
ترجمۂ کنز
الایمان:جب اس نے تمہیں اونگھ سے گھیر دیا تو اس کی طرف سے چین تھی اور آسمان سے
تم پر پانی اتارا کہ تمہیں اس سے ستھرا کردے اور شیطان کی ناپاکی تم سے دور فرما
وے اور تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھائے اور اس سے تمہارے قدم جمادے۔
آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی
شب بیداری
17 رمضان
المبارک سن 2 ھجری جمعہ کی رات تھی تمام
فوج تو آرام و چین کی نیند سو رہی تھی مگر ایک سرور کائنات صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات تھی جو ساری
رات خداوند عالم سے لو لگائے دعا میں مصروف تھی ۔ صبح نمودار ہوئی تو آپ صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
لوگوں کو نمازکے لئے بیدار فرمایا پھر نماز کے بعد قرآن کی آیات جہاد سنا کر ایسا
لرزہ خیز اور ولولہ انگیز وعظ(speech )فرمایا کہ
مجاہدین اسلام کی رگوں کے خون کا قطرہ قطرہ جوش وخروش کا سمندر بن کر طوفانی موجیں
مارنے لگا اور لوگ میدان جنگ کے لئے تیار ہونے لگے۔(سیرت مصطفی ص218 مکتبہ المدینہ)
غزوہ بدر اور خطبہ سیدالمبلغین، خاتم النّبیین صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
اس غزوہ میں نبی کریم صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جنگ سے پہلے
ایک تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جس میں ہمارے لئے بھی قیمتی مدنی پھول ہیں۔
چنانچہ پیارے آقا، مدینے والے مصطفےصَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا:
میں تمہیں اسی بات کی ترغیب دلاتا ہوں جس کی ترغیب اللہ
تعالی نے دی، ان کاموں سے منع کرتا ہوں جن سے اللہ تعالی نے منع فرمایا، وہ حق بات
کا حکم دیتا اور سچ کو پسند فرماتا، بھلائی پر نیکو کاروں کو اپنی بارگاہ میں بلند
مقام عطا فرماتا ہے، وہ اسی مرتبہ سے یاد رکھے جاتے اور فضیلت پاتے ہیں، آج تم حق
کی منزلوں میں سے ایک منزل پر کھڑے ہو، اس مقام پر الله تعالی وہی عمل قبول فرمائے
گا جو صرف اسی کی رضا کے لئے ہو۔ بے شک مصیبت کے وقت صبر ایسی چیز ہے جس سے اللہ
پاک رنج و غم دور کر تا ہے اور اسی کے ذریعے تم آخرت میں نجات پاؤ گے، تم میں اللہ
کا نبی موجود ہے جو تمہیں بعض چیزوں سے ڈراتا اور بعض کے کرنے کا حکم دیتا ہے، آج
تم حیا کرنا، کہیں ایسانہ ہو کہ اللہ رب العزت تم سے اپنی ناراضی والا عمل ہوتا
دیکھے کیونکہ وہ فرماتا ہے: الله کی بیزاری اس سے بہت زیادہ ہے جیسے تم اپنی جان
سے بیزار ہو ۔ (پ24، الومن 10) اس نے اپنی کتاب میں جن باتوں کا علم دیا ہے ان کو
دیکھو ، اس کی نشانیوں میں غور کرو کہ اس نے تمہیں ذلت کے بعد عزت بخشی ہے، اس کی
کتاب کو مضبوطی سے تھام لو وہ تم سے راضی ہو جائے گا، تم اس موقع پر آزما کر دیکھ
لو تم اس کی رحمت اور مغفرت کے مستحق ہو جاؤ گے جس کا اس نے تم سے وعدہ کیا ہے، بے
شک اس کا وعدہ حق، اس کا قول سچ اور اس کا عذاب سخت ہے، میں اور ہم اللہ سے مدد طلب کرتے ہیں جو حی و قیوم
ہے، وہی ہماری پشت پناہی کرنے والا ہے اور اسی کے کرم کو ہم نے تھام رکھا ہے، اسی
پر ہم بھروسا کرتے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں لوٹنا ہے، اللہ تعالی ہماری اور سارے
مسلمانوں کی مغفرت فرمائے۔(سبل البديل و الرشاد، 4 / 34)
آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خطبے کے مدنی پھول
پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے ایسی
حالت کہ جنگ ہونے والی ہے، خون کا پیاسا دشمن سامنے موجود ہے مگر مصطفے جان رحمت، شمع بزم ہدایت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس موقع پر بھی اپنے پروانوں کو حق بندگی ادا کرنے اور رضائے
الہی کے حصول کی دعوت دے رہے ہیں، یقینا یہ ثابت قدمی اور أولو العزم اخری نبی
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کے شایان شان ہے۔ اس مبارک خطبہ سے حاصل ہونے والے مدنی پھول ہمارے لئے
مشعل راہ اور ہر امتحان میں کامیابی کی ضمانت ہیں ۔ جیسے
1۔ ہر
حال میں خالق آسمان وزمین، رب العلمین عَزَّوَجَلَّ اور بعطائے پروردگار مالک
اسمان وزمین، رحمة للعالمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اطاعت کرنا۔
2۔ نیکیوں کی رغبت و حرص رکھنا ۔
3۔ ہر نیکی صرف اللہ کی رضا کے لئے کرنا۔
4۔ جان لیوا حالات میں بھی صبر کا دامن تھامے
رکھنا۔
5۔ مصیبت کے وقت کوئی ایسا کام نہ کرنا جس سے ہمارا رب ناراض ہو جائے۔
6۔ اللہ کے وعدوں کو یاد کرنا
7۔ ہر مصیبت و پریشانی میں اللہ کی طرف رجوع
کرنا اور اس سے دعامانگنا۔
صحابی رسول کا عشق بھرا
انداز
17 رمضان
المبارک جمعہ کے دن وعظ وخطبے کے بعد دوعالم کے مالک ومختار ، مکی
مدنی سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صف آرائی میں مشغول ہوئے۔ آپ صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دست مبارک
میں ایک تیر کی لکڑی تھی ۔جس سے کسی کو آپ
اشارہ فرماتے کہ آگے ہو جاؤ اور کسی سے ارشاد فرماتے تھے کہ پیچھے ہو جاؤ۔ چنانچہ
حضرت سؤاد بن غزیہ انصاری رَضِیَ اللہُ عَنْہُ جوصف سے آگے نکلے ہوئے تھے
حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نےاس لکڑی سے ان کے پیٹ پر ایک کونچا دے کر فرمایا تو اِستَوِ يَا سَوَاد یعنی اے سواد برابر ہوجاو ۔حضرت سواد رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے عرض کی یا رسول الله!
آپ نے مجھے ضرب شدید لگائی ہے حالانکہ آپ کو الله کریم نےحق و انصاف کے ساتھ بھیجا
ہے آپ مجھے قصاص دیں۔ یہ سن کر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی شکم مبارک ننگا کر دیا
اور فرمایا : اپنا قصاص لے لو، اس پر حضرت سواد رَضِیَ اللہُ عَنْہُ صاحب جود وکرم ، دافع رنج
والم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گلے لپٹ گئے اور آپ کے شکم
مبارک کو بوسہ دیا۔ پیارے مصطفے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
پوچھا: اے سواد! تو نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت سواد رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے عرض کی یا رسول الله !موت حاضر ہے میں نے چاہا کہ
آخرعمر میں میرا بدن آپ کے بدن اطہر سے مس کر جائے ، یہ سن کر آپ صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کے لئے
دعائے خیر و برکت فرمائی اور حضرت سواد رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے
بارگاہ رسالت میں معذرت کرتے ہوئے اپنا
قصاص معاف فرما دیا۔ تمام صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم سيدنا سواد
رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی اس عاشقانہ ادا کو
حیرت سے دیکھتے ہوئے ان کا منہ تکتے رہ گئے۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ بدر الکبری ص258۔ 259)
اے عاشقان رسول! سبحان اللہ سبحان اللہ! حضرت سؤاد رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی سعادت وقسمت پر قربان
جایئے۔ اپ کے عشق رسول کی کیا بات
ہے۔صحابہ کرام پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے
والہانہ عشق رکھتے تھے۔یقینا صحابہ کرام یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ جو چیز مالک جنت۔ ،قاسم نعمت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جسم منور سے مس
(Touch) ہو
جاتی ہے اسے جہنم کی اگ کیا یہ دنیا کی اگ بھی نہیں جلا سکتی ۔ اللہ پاک ان مبارک ہستیوں کے صدقے ہمیں پکا سچا عاشق رسول بنائے اور نبی
پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے والہانہ عقیدت ومحبت عطا فرمائے۔ اللہ پاک ہمیں مصطفے جان رحمت صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے
مباک قدموں سے لگی ہوئی خاک سے چمٹنا نصیب فرمائے۔
اے عشق تِرے صَدقے جلنے سے
چُھٹے سَستے
جو آگ بجھا دے گی وہ آگ لگائی
ہے
(حدائق بخشش ص193)
شرح کلام رضا : اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ عشق
مصطفے کو مخاطب کر کے فرما رہے ہیں کہ اے عشق تجھ میں رونے ، تڑپنے سے ہم قیامت میں نجات پائیں گے کیونکہ ہم نے تو
نبی پاک کے عشق وہ آگ لگائی ہوئی ہے جو اخرت میں دوزخ کی آگ کو بجھا دے گی یعنی اس
عشق کے صدقے سے دوزخ سے چھٹکارا ملے گا۔
آخری نبی صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دو صحابہ کو صفوں سے الگ کردیا
جنتی صحابی
سیدنا حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں اور حضرت
حُسَیل رَضِیَ اللہ عَنْہُ کہیں سے آرہے تھے کہ راستے میں
کفار نے ہم دونوں کو روک کر کہا ’’ تم دونوں بدر کے میدان میں حضرت محمد ( صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کی مدد کرنے کے لئے جا رہے ہو۔ ہم
نے جواب دیا: ہمارا بدر جانے کا ارادہ نہیں ہم تو مدینے جا رہے ہیں ۔ کفار نے ہم
سے یہ عہد لیا کہ ہم صرف مدینے جائیں گے اور جنگ میں رسولُ اللہ صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ شریک نہ ہوں گے ۔ اس کے بعد
جب ہم دونوں(بدر کے میدان میں ) بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئے اور اپنا واقعہ بیان کیا تو
حضورِ اقدس صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تم دونوں واپس چلے جاؤ، ہم ہر حال
میں کفار سے کئے ہوئے عہد کی پابندی کریں گے اور ہمیں کفار کے مقابلے
میں صرف اللہ پاک کی مدد درکار ہے۔ (مسلم، کتاب الجہادوالسیر، باب الوفاء
بالعہد، ص988 )
سچے نبی سے محبت کرنے والے اسلامی
بھائیو! اس واقعے سے بخوبی اندازہ لگایا
جا سکتا ہے کہ دین اسلام میں وعدے
پوار کرنے کی کتنی اہمیت ہے کہ ایسی سنگین حالت( situation )کہ پہلی جنگ
ہے اور اوپر سے صرف 313 مجاہدین جن کے پاس چند گھوڑے، تلواریں ،زریں اور تیر ہیں اور سامنے کیل کانٹے سے لیس ایک ہزار کا لشکر ہے اب ایسی حالت کہ ایک ایک سپاہی کتنا قیمتی اور اہمیت کا حامل ہوتا ہے
۔لیکن قربان جائے جناب صادق وامین نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
پر کہ کفار سے کیے ہوئے وعدہ کو بھی
پورا کیا۔مگر آہ آج ہمارا کیا حال ہے
افسوس! صد کروڑ افسوس ہمارے آقا صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو وہ
ہیں جو کفار سے کیے ہوئے وعدے کو پورا کریں اور ان سے محبت کرنے والا اپنے مسلمان
بھائی کے ساتھ وعدہ خلافی کرے،کسی سے قرض لے تو مقرر تاریخ پر بلاعذر شرعی ادا نہ
کرے،کسی کو وقت (Time)دئے تو مقررہ
وقت پر نہ پہنچ کر اگلے کو تکلیف وازمائش میں مبتلا کرے۔ یقینا فکر آخرت رکھنے والے اسلامی بھائیوں
کیلئے اس میں لمحہ فکریہ ہے۔
الہٰی !اگر یہ چند نفوس
ہلاک ہوگئے تو ۔۔۔
صفیں درست کرنے کے بعد آخری نبی صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سائبان میں تشریف لے گئے ۔ سائبان میں یار غار سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ
عَنْہُ کے علاوہ کوئی نہ تھا ۔ اس وقت اللہ پاک کی رحمت والے آخری نبی صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بارگاہ
الہی میں یوں دعا مانگ رہے تھے
" اے اللہ !تو نے مجھ سے جو وعدہ
فرمایا آج اسے پورا کردے"
پیارے پیارے غَمزُده آقا(غموں کو دور
کرنے والے)صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اس قدر رقت اور محویت طاری تھی کہ جوش گریہ میں چادر مبارک دوش انور سے گر پڑتی تھی مگرآپ کو خبر نہیں ہوتی تھی کبھی آپ سجدہ میں سر رکھ کر اس طرح دعا مانگے کہ "الہی!
اگر یہ چند نفوس ہلاک ہو گئے تو پھر قیامت تک روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والے
نہ رہیں گے۔“( المواھب اللدنیة و الزرقانی ج2ص
278)
سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہُ آپ کے یارغار تھے۔ آپ کو اس طرح
بے قرار دیکھ کر ان کے دل کا سکون وقرار جاتا رہا اور ان پر رقت طاری ہوگئی اور
انہوں نے چادر مبارک کو اٹھا کر آپ کے مقدس کندھے پر ڈال دی اور آپ کا دست مبارک
تھام کر بھرائی ہوئی آواز میں بڑے ادب کے ساتھ عرض کیا کہ حضور ! اب بس کیجئے خدا
ضرور اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔
اپنے یار غار صدیق جاں نثار کی بات
مانتے ہوئے نبی رحمت صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا ختم
کر دی اور آپ کی زبان مبارک پر اس آیت کا ورد جاری ہو گیا۔
سَیُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۔
(پارہ 27 ،القمر 45)
ترجمہ کنزالایمان :اب
بھگائی جاتی ہے یہ جماعت اور پیٹھیں پھیر دیں گے۔
آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ اس آیت کو بار بار پڑھتے رہے جس میں فتح مبین کی بشارت کی طرف اشارہ
تھا۔اللہ کریم نے اپنے پیارے اور اخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کی دعا کو قبولیت کا تاج پہنایا
اور مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب ہوئی۔
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت دعائے مصطفے کے بارے میں کیا خوب فرماتے ہیں۔
اِجابت کا سہرا عنایت کا
جوڑا دُلہن بن کے نِکلی دُعائے مُحَمَّد
اِجابت نے جُھک کر گلے سے
لگایا بڑھی ناز سے جب دُعائے
مُحَمَّد
(حدائق بخشش ص66)
پیارے پیارے اسلامی بھائیوں! اس سے پتا
چلتا ہے کہ کیسے ہی کٹھن حالات پیدا ہو جائیں ہمیں نظر اسباب نہیں بلکہ مسبب
الأسباب جل جلالہ پررکھنی چاہئے اور دعا سے ہرگز غفلت نہیں کرنی چاہئے ۔ کہ فرمان
آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہےاَلدُّعَاءُ سِلَاحُ المُؤْ مِن یعنی دعا
مومن کا ہتھیار ہے۔(مسند ابی یعلی ج 1ص 215 حدیث435) غزوة بدر میں دشمنوں کو اپنی
بھاری تعداد اور کثرت اسلحہ (weapon)پر ناز تھا
اور مسلمانوں کو الله رب العزت اور اس کے
پیارے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر بھروسا۔ مجاہد ین میں جذبہ شہادت کوٹ کوٹ کر
بھرا ہوا تھا اور مسلمانوں کا بچہ بچہ شوق شہادت سے سرشار تھا۔ (ابو جہل کی
موت ص17)
مسلمانوں کا لشکر دوگنا
ہوگیا
بدر کے میدان میں اللہ نے مسلمانوں پر
کئی طرح کے انعامات فرمائے ،ان میں سے ایک یہ ہے
کہ اللہ پاک نے مسلمانوں کو کفار بہت تھوڑے کر
کے دکھائے ۔سیدنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ
وہ کافر ہماری نگاہوں میں اتنے کم لگے کہ میں نے اپنے برابر والے ایک شخص سے کہا
کہ تمہارے گمان میں کافر ستر (70) ہوں گے اس نے کہا کہ میرے خیال
میں سو ہیں حالانکہ وہ ایک ہزار تھے۔ اور کافروں کی نظروں میں مسلمانوں کو بہت
تھوڑا کر کے دکھایایہاں تک کہ ابوجہل نے کہا کہ’’
انہیں رسیوں میں باندھ لو،گویا کہ وہ مسلمانوں کی جماعت کو اتنا قلیل دیکھ رہا تھا
کہ مقابلہ کرنے اور جنگ آزما ہونے کے لائق بھی خیال نہیں کرتا تھا ۔
مسلمانوں کو مشرکین تھوڑے دکھانے میں حکمت یہ تھی کہ مسلمانوں کے دل مضبوط ہو
جائیں اورکفار پر ان کی جرأت بڑھ جائے جبکہ مشرکین کو مسلمانوں کی تعداد
تھوڑی دکھانے میں یہ حکمت تھی کہ مشرکین مقابلہ پر جم جائیں ، بھاگ نہ پڑیں
اور یہ بات ابتداء میں تھی، مقابلہ ہونے کے بعد انہیں مسلمان بہت زیادہ نظر آنے
لگے۔ ( تفسیر کبیر، الانفال، تحت
الآیۃ: 44 ،488/5)
چنانچہ اللہ کریم پارہ 10 سورةالانفال
آیت نمبر 44 میں فرماتا ہے
وَ اِذْ یُرِیْكُمُوْهُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْۤ
اَعْیُنِكُمْ قَلِیْلًا وَّ یُقَلِّلُكُمْ فِیْۤ اَعْیُنِهِمْ لِیَقْضِیَ اللّٰهُ
اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًاؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۠
ترجمۂ کنز الایمان:او ر جب لڑتے وقت
تمہیں کا فر تھوڑے کرکے دکھائے اور تمہیں ان کی نگاہوں میں تھوڑا کیا کہ اللہ پورا
کرے جو کام ہونا ہے اور اللہ کی طرف سب کاموں کی رجوع ہے۔
بدر کے سب سے پہلے شہید
لڑائی کا آغاز اس طرح ہوا کہ عامر بن
الحضرمی جو اپنے مقتول بھائی عمرو بن
الحضرمی کے خون کا بدلہ لینے کیلئے بے
قرار تھا جنگ کیلئے آگے بڑھا اس کے مقابلے کیلئے جنتی صحابی حضرت مِهْجَعْ رَضِیَ اللہ عَنْہُ میدان
میں نکلے اور لڑتے لڑتے شہادت سے سرفراز
ہو گئے۔مسلمانوں کی طرف سے جس صحابی نے سب سے پہلے جام شہادت نوش کیا وہ سیدنا
فاروق اعظم کے غلام" مِهْجَعْ
"تھے۔ حضرت علامہ امام محی الدین شرف نووی فرماتے ہیں: مِهْجَع رَضِیَ
اللہ عَنْہُ ہیں جو اسلام کے دوسرے خلیفہ سید نا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہ عَنْہُ کے غلام
ہیں اور مسلمانوں میں سے یہ وہ پہلے صحابی ہیں جو بدر کے دن شہید ہوئے۔ پھر حارثہ بن سراقہ انصاری رَضِیَ اللہ
عَنْہُ حوض سے پانی پی رہے
تھے کہ ناگہاں ان کو کفار ایک تیر لگا اور
وہ شہید ہو گئے۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔
غزوہ بدر الکبری ص259)
غزوہ بدر کے پہلے شہید حضرت سیدنا
مِهْجَعْ رَضِیَ اللہ
عَنْہُ کی فضیلت مرحبا چنانچہ نبی محترم، شاہ بنی آدم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا سَيِّدُ الشُّهَدَاءِ مِهجَع
وَهُوَ اوَّلُ مَن يٌُدعٰي الٰى بَابِ الجَنَّةِ مِن هٰذِهِ الامَّة
ترجمہ :مِهْجَعْ شہدا کے سردار ہیں اور
میری امت میں قیامت کے دن جسے سب سے پہلے جنت کے دروازے کی طرف بلایا جائے گا وہ
یہی ہیں
(روح المعانی، پ20 ،ج20 ،ص457،، تحت
الآیۃ 6)(تفسیر خازن، پ 20، ج 3 ،ص445، تحت الآیۃ 6)
اس جنت کی طرف بڑھو جس
کی چوڑائی اسمان وزمین کے برابر ہے
سیدالمبلغین ،خاتم النّبیین صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دیتے ہوئے
ارشاد فرمایا کہ مسلمانو !اس جنت کی طرف بڑھے چلو جس کی چوڑائی آسمان و زمین کے
برابر ہے ۔تو حضرت عمیر بن الحمام انصاری رَضِیَ اللہ عَنْہُ بول اٹھے
کہ یا رسول اللہ! کیا جنت کی چوڑائی زمین
و آسمان کے برابر ہے؟ ارشاد فر مایا کہ ”ہاں“ یہ سن کر حضرت عمیر رَضِیَ اللہ
عَنْہُ نے کہا: ”واہ وا‘‘ آپ نے دریافت فرمایا کہ کیوں اے عمیر تم نے ”واہ وا‘‘ کس لئے کہا ؟ عرض کیا کہ یا
رسول اللہ فقط اس امید پر کہ میں بھی جنت
میں داخل ہو جاؤں ۔ مالک جنت ،قاسم نعمت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خوشخبری سناتے ہوئے ارشادفرمایا کہ اے عمیر
تو بے شک جنتی ہے۔ حضرت عمیر رَضِیَ اللہ عَنْہُ اس وقت کھجوریں کھا رہے تھے۔ یہ بشارت سنی تو
مارے خوشی سے کھجوریں پھینک کر کھڑےہو گئے اور ایک دم کفار کے لشکر پر تلوار لے کر
ٹوٹ پڑے اور جانبازی کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔(صحیح مسلم، کتاب الامارة، باب ثبوت الجنةللشھید ،ص 1053،الحدیث 1901)
مرنے والوں کو یہاں ملتی ہے عمر
جاوید
زندہ چھوڑے گی کسی کو نہ
مسیحائی دوست
(حدائق بخشش ص62)
حضرت حمزہ ، حضرت علی المرتضی اور حضرت عبیدہ رَضِیَ اللہ عَنْہم کی شجاعت
1۔دوسری جانب صف أعدا میں سے اسود بن عبدالاسد
مخزومی جو بد خلق تھا، آگے بڑھا اور کہنے
لگا "میں الله سے عہد کرتا ہوں کہ مسلمانوں کے حوض سے پانی پیوں گا یا اسے
ویران کر دوں گا یا اس کے پاس مر جاؤں
گا"۔ ادھر سے جنتی صحابی سیدنا حمزہ
بن عبد المطلب رَضِیَ اللہ عَنْہُ نکلے ۔ اسود حوض تک پہنچنے نہ پایا کہ حضرت حمزہ رَضِیَ
اللہ عَنْہُ نے اس کا پاؤں نصف ساق(پنڈلیShin) تک کاٹ دیا
اور وہ پیٹھ کے بل گر پڑا پھر وہ حوض کے
قریب پہنچا یہاں تک کہ اس میں گر پڑا تاکہ اس کی قسم پوری ہوجائے ۔ حضرت
حمزہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے اس کا تعاقب کیا اور خوش ہی میں اس کا کام
تمام کر دیا ۔( دلائل النبوةللبیھقی، باب سیاق قصةبدر عن مغازی،
ج3 ص113) (السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ
بدر الکبری ص258)
اس کے بعد کفار قریش کی صفوں سےشیبہ بن ربیعہ اور عتبہ بن
ربیعہ اور ولید بن ربیعہ نکلے۔ مشرکین نے چلا کر کہا:”اے محمد! ہماری طرف اپنی قوم
میں سے ہمارے جوڑ کے آدمی بھیجئے ‘‘ یہ سن کر اللہ پاک کے پیارے اور سچے نبی
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اے بنی ہاشم ! اٹھو اور اس حق کی حمایت میں لڑو جس کے ساتھ الله پاک نے تمہارےنبی کو بھیجا ہے کیونکہ وہ باطل لائے
ہیں تا کہ الله کے نور کو بجھا دیں ۔‘‘ پس حضرت حمزہ ،علی بن ابی طالب اور عبیدہ بن مطلب بن عبد
مناف رَضِیَ اللہ عَنْہم دشمن کی طرف بڑھے اور ان کے سروں پر خود تھے جس وجہ
سے ان کے چہرے چھپے ہوئے تھے ۔ عتبہ نے کہا: تم بولوتا کہ ہم تمہیں پہچان لیں۔‘‘نبی کریم کے پیارے چچا سیدناحمزہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے کہا:
میں حمزہ بن عبد المطلب شیر خدا اور شیر رسول ہوں اس پر عتبہ بولا:” اچھا جوڑ ہے، میں حلیفوں کا شیر
ہوں ۔ پھر اس نے اپنے بیٹے سے کہا: ولید اٹھ ۔ پس سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ عَنْہُ کی طرف
بڑھے اور ایک نے دوسرے پر وار کیا مگر سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے اس کو قتل کر دیا، پھر عتبہ
اٹھاحضرت حمزہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ اس کی طرف بڑھے اور سیدنا حمزہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے
عتبہ کو قتل کر دیا پھر شیبہ اٹھاحضرت
عبیدہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ کی طرف بڑھا۔ حضرت عبیدہ رَضِیَ
اللہ عَنْہُ صحابہ کرام میں سے سب سے بڑی
عمر والے(old Age)تھے۔ شیبہ نے
تلوار کی دھار حضرت عبیدہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ کے پاوں پر ماری جو پنڈلی کے
گوشت پر گئی اور اسے کاٹ دیا پھر حضرت حمزہ اور حضرت علی رَضِیَ اللہ
عَنْہُماشیبہ پر حملہ آور ہوئے اور اسے قتل کر دیا اور حضرت عبیدہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ کو اٹھا کر سرکار دوجہاں
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں لائے۔ حضرت عبیدہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے عرض کیا: یا رسول
الله!صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیا میں شہید ہو؟ رحمت عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
فرمایا: ”ہاں“ پھر حضرت عبیدہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے کہا: اگر ابوطالب اس
حالت میں مجھے دیکھتا تومان جا تا کہ میں اس کی نسبت اس کے شعر ذیل کا زیادہ حق
ہوں۔(الطبقات الکبری لابن سعد ،غزوہ
بدر ج 2 ص 12)( شرح الزرقانی علی المواھب
اللدنیة، باب غزوہ بدر الکبری ج2 ص276)
و نسلمه حتی نصرع حوله ونذهل عن ابنائنا والحلائل
ہم محمد( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کو حوالہ نہ کریں گے یہاں تک کہ ان کے گرد لڑ کر مر جائیں اور اپنے بیٹوں اور بیویوں کو
بھول جائیں۔
حُسنِ یوسُف پہ کٹیں مِصْر میں
اَنگُشتِ زَناں
سَر کٹاتے ہیں تِرے نام پہ
مردانِ عرب
(حدائق بخشش ص58)
ابو جہل کی موت
حضرت سید نا عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ
اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں: غزوہ بدر کے دن جب میں مجاہدین کی صف میں کھڑا تھا،
میں نے اپنے دائیں بائیں دوکم سن انصاری لڑکے دیکھے۔ اتنے میں ایک نے آہستہ سے مجھ
سے کہا: (يَا
عَمُّ هَل تَعرِفُ ابَا جَهل )
اےچچا جان! آپ ابوجہل کو پہنچانے
ہیں؟ میں نے جواب دیا ہے ہاں لیکن تمہیں اس سے کیا کام ہے۔ اس نے کہا: مجھے معلوم ہوا ہے وہ گستاخ رسول ہے، خدا کی
قسم! اگر میں اس کو دیکھ لوں تو اس پرٹوٹ پڑوں یا تو اس کو مار ڈالوں یا خودمر
جاؤں ۔ دوسرے لڑکے نے بھی مجھ سے اسی طرح کی گفتگو کی ۔ (ان حقیقی مدنی منوں کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے
شاعر نے لکھا ) ۔
قسم کھائی ہے مر جائیں گے یا ماریں
گے ناری کو
سنا ہے گالیاں دیتا ہے یہ محبوب باری کو
حضرت سید نا عبد الرحمن بن عوف
رَضِیَ اللہ عَنْہُ مزید فرماتے ہیں: اچانک میں نے دیکھا کہ ابوجہل اپنے
سپاہیوں کے درمیان کھڑا ہے۔ میں نے ان لڑکوں کو ابو جہل کی طرف اشارہ کر دیا۔ وہ
تلوار میں لہراتے ہوئے اس پر ٹوٹ پڑے اور پے درپے وار کر کے اسے پچھاڑ دیا۔ پھر
دونوں حضورِاقدس خدمت میں حاضر ہو گئے اور
عرض کیا: یا رسول الله ہم نے ابوجہل کو
ٹھکانے لگا دیا ہے۔ سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھا فرمایا: تم میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے؟ دونوں ہی کہنے لگے: میں نے ۔ نبی
پاکصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: کیا تم نے اپنی خون آلود تلواریں صاف کر لی ہیں؟ دونوں نے عرض
کی جی نہیں ۔ میٹھے میٹھے مصطفےصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان تلواروں کو ملاحظہ کر کے فرمایا:كِلَا
كُمَا قَتَلَه تم دونوں نے اسے قتل کیا
ہے۔(بخاری ج2 ص 306 حدیث 3161)
دونوں منوں کا بھی حملہ خوب تھا
بو جبل پر
بدر کے ان دونوں ننھے جاں نثاروں کو سلام
اے عاشقان رسول ! یہ اسلام کے شاہیں
صفت کم سن مجاہدین جنہوں نے لشکر قریش کے سپہ سالار دشمن خدا و مصطفے اور اس امت
کے سنگ دل و سرکش فرعون ابو جہل کو موت کے گھاٹ اتارا ۔ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
معاذ اور معوذ رَضِیَ اللہ عَنْہُما یہ دونوں سگے بھائی تھے۔ ان کے عشق رسول
پر صد ہزارحسین و آفرین اور ان کے ولولۂ جہاد پرلاکھوں سلام کہ اس لڑکپن اور
کھیلنے کودنے کے ایام میں ہی انہوں نے اپنی زندگیوں کو مد نی رنگ میں رنگ لیا اور
راہ خدا میں سفر کر کے لشکر کفار کے سپہ سال لار ابو جہل جفا کار سے ٹکر لے لی اور
اس کو خاک وخون میں کوٹتا کردیا۔ (ابو جہل کی موت ص4)
جوانو ! قابل تقلید ہے اقدام دونوں کا ؛جبین لوح غیرت پہ لکھا ہے نام دونوں کا
وہ غازی تھےمئےحب نبی کاجوش
تھاان کو ؛لب کوثر پہنچ کر شوق نوشا
نوش تھا ان کو
اس امت کا فرعون کون ہے؟
جب جنگ کا زور تھوڑا کم ہوا تو اللہ
پاک کے آخری نبی ، مکی مدنی ،محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے فرمایا کون ہے جو ابو جہل کو
دیکھ کر اس کا حال بتائے؟ تو حضرت سیدناعبدالله بن مسعود رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے جا کر لاشوں میں دیکھا
تو ابو جہل زخمی پڑا ہوا دم توڑ رہا تھا۔ اس کا سارا بدان فولاد میں چھپا ہوا تھا،
اس کے ہاتھ میں تلوار تھی جو رانوں پر رکھی ہوئی تھی ۔زخموں کی شدت کے باعث اپنے
کسی عضو کو جنبش (Movement) نہیں دے سکتا
تھا۔ سیدنا عبدالله بن مسعود رَضِیَ اللہ
عَنْہُ نے اس کی گردن پر پاوں رکھا، اس عالم میں بھی اس کے تکبر کا عالم یہ تھا کہ
حقارت سے بول اٹھا:اے بکریوں کے چرواہے تو بڑی اونچی اور دشوار جگہ پر چڑھ گیا۔ (
السيرة النبوية لابن هشام ،غزوہ بدر الکبری ص262) حضرت سید نا عبدالله ابن
مسعود رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : میں اپنی کند تلوار سے ابوجہل کے سر
پر ضربیں لگانے لگا جس سے تلوار پر اس کے ہاتھ کی گرفت (Grip)ڈھیلی پڑگئی،
میں نے اس سے تلوار کھینچ لی۔ جانکنی کے عالم میں اس نے اپنا سراٹھایا اور پوچھا
فتح کس کی ہوئی ؟ میں نے کہا: الله و رسول
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیلئے ہی فتح ہے۔ پھر میں نے اس کی داڑھی کو پکڑ کر جھنجھوڑا کہا
اَلْحَمْدُ للهِ الَّذِي اَ خْزَاكَ يَا عَدُوَّاللهِ "اس اللہ پاک کا شکر ہے کہ جس نے اے دشمن خدا ! تجھے ذلیل کیا"۔ میں نے اس
کا خول اس کی گدی سے ہٹایا اور اسی کی
تلوار سے اس کی گردن پر زور دار وار کیا اس کی گردن کٹ کر سامنے جا گری۔ پھر میں
نے اس کے ہتھیار، زرہ و غیرہ
اتار لئے اور اس کا سراٹھا کر بارگاہ
رسالت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو گیا اور عرض کیا: یا
رسول اللہ ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہ دشمن خدا ابو جہل کا سر ہے۔ آخری نبی صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
تین بار فرمایا: اَلْحَمْدُ للهِ الَّذِي أَعَزَّ
الْإسْلَامَ وَأَهْلَه " الله رب العزت کا شکر ہے جس نے اسلام اور اہل اسلام کو عزت
بخشی" ۔ پھر سرکار عالی وقار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
سجدہ شکر ادا کیا ۔ پھر فرمایا "ہر امت میں ایک فرعون ہوتا ہے اس امت کا فرعون
ابو جہل تھا"۔(سبل الهدى والرشادج 4 ص 51 ۔54)
ابو جہل کا عناد اور عداوت رسول تو
دیکھئے کہ ٹانگیں کٹ چکی ہیں ، سارا جسم زخموں سے چور چور ہے، موت سر پر منڈلا رہی
ہےاس حالت میں بھی اس شقی ازلی (یعنی ہمیشہ ہی سے بد بخت) کی شقاوت ( یعنی بد بختی
) کا عالم یہ ہے کہ اس نے حضرت سید نا ابن مسعود کو کہا اپنے نبی(صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کو میرا یہ پیغام پہنچا دینا کہ میں عمر بھر اس کا
دشمن رہا ہوں اور اس وقت بھی میرا جذبہ عداوت شدید تر ہے۔ سیدنا عبد الله بن مسعود
نے جب نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں اس ازلی بد
بخت کا یہ جملہ عرض کیا تو الله پاک کے آخری نبی، مکی مدنی مصطفے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میری
امت کا فرعون تمام امتوں کے فرعونوں سے
زیادہ سنگدل اور کینہ پرور ہے۔ حضرت موسیٰ
کے فرعون کو جب(بحر احمر کی)موجوں نے نرغے میں لےلیاتو پکاراٹھا
قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْۤ
اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِیْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ
ترجمۂ کنز
الایمان : بولا میں
ایمان لایا کہ کوئی سچا معبود نہیں سوا اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور
میں مسلمان ہوں۔
گر اس امت کا فرعون مرنے لگا تو اس کی اسلام دشمنی اور سرکشی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوگیا۔ (
تفسیر کبیر ج 11 ص224 )
سید الشاکرین صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سجدہ شکر ادا فرمایا
ابو جہل اسلام کا بہت بڑا دشمن تھا۔اس
ازلی بد بخت نے ہر وقت مسلمانوں کو
تکلیفیں دی ۔جب حضورِاقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کی موت کی خبر پہنچی تو اللہ کریم کے
پیارے محبوب نے اللہ پاک کا شکر ادا کرتے ہوئےسجدہ شکر کیا۔اس سےمعلوم ہوا کہ جب
بھی کوئی نعمت یا خوشی کی خبر ملے تو اللہ پاک کا شکر ادا کرنا چاہئے یا سجدہ شکر
کر لینا چاہئے۔ دینی یا دنیاوی خوشی کی خبرسن سجدے میں گر جانا "سجدہ شکر" کہلاتا
ہے(مراةالمناجیح 388/2)، بهارشریت میں ہے: "سجدہ شکر مثلاً اولاد پیدا ہوئی
یامال پایا یا گم ہوئی چیزمل گئی یا مریض نے شفا پائی یا مسافر واپس آیا غرض کسی
نعمت پر سجدہ کرنا مستحب ہے۔(بہارشریت ج1 ص738)
سجدہ شکر کا طریقہ :
سجدہ شکر کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ کھڑا ہوکر اللّٰہ اَكْبَرکہتاہوا سجدے میں جائے
اور کم سے کم تین بار سُبْحَانَ رَبِّى الاَعْلٰى کہے،
پھر کہتا ہواکھڑا ہو جائے، پہلے پیچھے
دونوں بار کہناسنت ہے اور کھڑے ہو کر سجدے
میں جانا اور سجدے کے بعد کھڑا ہوتا یہ دونوں قیام مستحب۔(عالمگیر ی ج1 ص135 ،
درمیان ج2 ص699)
سجدہ شکر اور سجدہ تلاوت دونوں کا ایک ہی طریقہ
ہے۔یار رہے کہ سجدہ شکر میں وضو لازم ہے۔
شجاعت مصطفے صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
اسلام کے تیسرے خلیفہ، جنتی صحابی سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ
عَنْہُ سے روایت ہے کہ جب غزوہ بدر کے دن ہم رسول اللہ کی پناہ میں اپنا بچاؤ کرتے تھے ۔حضور ہم سب سے
زیادہ دشمن کے قریب ہوتے تھے ۔اس دن آپ لڑائی میں سب سے زیادہ مضبوط اور طاقتور
تھے۔(شرح السنة ،ج7،ص47 حدیث 3592)
ابُو
البَخْتَرى کو قتل نہ کرنا
اللہ پاک کی عطا سے غیب جاننے والے
اخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لڑائی شروع ہونے سے پہلے ارشادفرمایا تھا
کہ مجھے معلوم ہے کہ بنو ہاشم وغیرہ میں سے چند لوگ جبر واکراہ(مجبوراً )کفار کے
ساتھ شامل ہو کر آئے ہیں جو ہم سے لڑنانہیں چاہتے۔ اگر ان میں سے کوئی تمہارے
مقابل آجائے تو تم اسے قتل نہ کرو۔ غیب دان نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نےان لوگوں کے نام بھی بتادیئے
تھے۔ ان میں سے ایک ابُو البَخْتَرى عاص بن ہشام تھا جو کہ مکہ میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کو کسی قسم کی اذیت نہ دیا کرتا تھا۔ ابُو البَخْتَرى کے ساتھ جنادہ بن
ملیحہ اس کا رفیق بھی تھا ۔ صحابی رسول
حضرت سیدنامجذر بن زیاد رَضِیَ اللہ عَنْہُ کی نظر جو ابُو البَخْتَرى پر پڑی تو کہا کہ حضور نے تیرے قتل سے منع فرمایا ہے اس لئے تجھے
چھوڑتا ہوں ۔‘ ابُو البَخْتَرى نے کہا: میرے رفیق کوبھی حضرت مجذر رَضِیَ اللہ
عَنْہُ نے کہا: الله کی قسم ! ہم تیرے رفیق کو نہیں چھوڑے گے۔ہمیں رسول الله نے
فقط تیرے چھوڑنے کا حکم دیا ہے ۔ ابُو البَخْتَرى نے کہا تب اللہ کی قسم میں اور
وہ دونوں جان دیں گے، میں مکہ کی عورتوں کا یہ طعن نہیں سن سکتا کہ ابُو
البَخْتَرى نے اپنی جان بچانے کے لئے اپنے رفیق کا ساتھ چھوڑ دیا۔ جب حضرت مجذر
رَضِیَ اللہ عَنْہ ُنے حملہ کیا تو ابُو البَخْتَرى یہ شعر پڑھتا ہوا حملہ آور ہوا
اور مارا گیا۔
لن يسلم ابن حرة زميله حتى يموت او يرى سبيله
شریف زادہ اپنے رفیق کو نہیں چھوڑ سکتا
جب تک مر نہ جائے یا اپنے رفیق کے بچاؤ کی راہ نہ دیکھ لے۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ بدر الکبری ص260)
امیہ بن خلف کی موت
دوعالم کے مالک ومختار، مکی مدنی سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بڑا دشمن امیہ بن خلف بھی جنگ بدر میں شریک تھا اور اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا۔
حضرت بلال رَضِیَ اللہ
عَنْہُ پہلے اسی امیہ کے غلام تھے۔ امیہ ان کو اذیت دیا کرتا تھا تا کہ اسلام چھوڑ دیں۔
مکہ کی گرم ریت پر پیٹھ کے بل لٹا کر ایک بھاری پتھر (stone)ان کے سینے پر
رکھ دیا کرتا تھا پھر کہا کرتا تھا تمہیں یہ حالت
پسند ہے یا ترک اسلام؟ حضرت بلال رَضِیَ اللہ
عَنْہُاس
حالت میں بھی احد ! أحد !“ پکارا کرتے تھے ۔حضرت عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللہ
عَنْہ
نے کسی زمانہ میں مکہ میں امیہ سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ مدینہ میں آئے گا تو یہ اس
کی جان کے ضامن ہوں گے۔ عہد کی پابندی
کو ملحوظ ر کھ کر حضرت عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے چاہا کہ وہ میدان جنگ سے لے کر نکل جائے ۔ اس لئے اس
کو اور اس کے بیٹے کو لے کر ایک پہاڑ پر چڑھے۔ اتفاق یہ کہ حضرت بلال رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے دیکھ لیا اور انصار
کوخبر کر دی۔ لوگ دفع ٹوٹ پڑے۔ حضرت عبدالرحمن رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے امیہ کے بیٹے کو آگے کر دیا
لوگوں نے اسے قتل کر دی لیکن اس پر بھی قناعت نہ کی اور امیہ کی طرف بڑھے۔ یہ
چونکہ جسیم وثقيل تھا اس لئے حضرت عبد الرحمن رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے کہا تم زمین
پر لیٹ جاؤ۔ وہ لیٹ گیا تو آپ اس پر چھا گئے تا کہ لوگ اس کو مارنے نہ پائیں مگر
لوگوں نے حضرت عبدالرحمن رَضِیَ اللہ
عَنْہُ کی ٹانگوں کے اندر سے ہاتھ ڈال کر اس کوقتل کر دیا۔ حضرت عبد الرحمن رَضِیَ اللہ عَنْہُ کی بھی ایک ٹانگ زخمی ہوئی
اور اس زخم کا نشان مدتوں باقی رہا۔(صحیح
بخاری، کتاب الوكالة ،باب اذا وکل المسلم حریبا۔ج2 ، ص78 ، الحدیث
2301)(السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ بدر
الکبری ص260)
تاریخی برچھی (Historical Javelin)
اس کے بعد سعید بن العاص کا بیٹا
"عبیدہ " سر سے پاؤں تک لوہے کے لباس اور ہتھیاروں سے چھپا ہواصف سے
باہر نکلا اور یہ کہ کر اسلامی لشکر کوللکارنے لگا کہ "میں ابوکرش ہوں‘‘ اس
کی یہ مغرورانہ للکار سن کر رحمةللعلمین،
خاتم النّبیین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پھوپھی زاد بھائی جبتی صحابی حضرت سیدنا
زبیر بن العوام رَضِیَ اللہ عَنْہُ جوش
میں بھرے ہوئے اپنی بر چھی(نیزہJavelin) لےکر مقابلہ
کے لئے نکلے مگر یہ دیکھا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے سوا اس کے بدن کاکوئی حصہ بھی
ایسا نہیں ہے جو لوہے سے چھپا ہوا نہ ہو۔ حضرت زبیر رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے تاک کر اس کی آنکھ میں اس زور سے برچھی ماری
کہ وہ زمین پر گرا اور مر گیا۔ برچھی اس کی آنکھ کو چھید تی ہوئی کھوپڑی کی ہڈی
میں چبھ گئی تھی۔ حضرت زبیر رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے جب اس کی لاش پر پاؤں رکھ کر
پوری طاقت سے کھینچا تو بڑی مشکل سے برچھی نکلی لیکن اس کا سر مڑ کرخم (یعنی مڑ
Bend )ہو
گیا۔ یہ برچھی ایک تاریخی یادگار بن کر برسوں تبرک بنی رہی۔لطف وکرم فرمانے والے
آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت زبیر رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے یہ برچھی طلب فرمالی اور اس کو ہمیشہ اپنے پاس رکھا پھر آخری نبی، مکی مدنی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کے بعد چاروں خلفاء راشدین رَضِیَ اللہ عَنْہُم کے پاس منتقل ہوتی رہی۔
پھر حضرت سیدنا زبیر رَضِیَ اللہ عَنْہُ کے فرزند حضرت عبدالله بن زبیر رَضِیَ اللہ عَنْہُ کے پاس آئی یہاں تک کہ 73ھ میں جب بنوامیہ کے
ظالم گورنر حجاج بن یوسف ثقفی نے ان کو شہید کر دیا تو یہ برچھی بنوامیہ کے قبضہ
میں چلی گئی پھر اس کے بعد لاپتہ ہوگئی۔ (صحیح بخاری ، کتاب المغازی ج3 ص 18 الحدیث 3998)
(تیسرا باب)جنگ بدر میں
فرشتوں کا نزول
The Descent of Angels in War of Badar
غزوہ بدر میں جہاں اللہ کریم نے
مسلمانوں کے لشکر پر کئی انعامات فرمائے تاکہ مسلمان میدان جنگ میں ثابت قدم رہے
۔مسلمان کفار کو شکست دے اور کفار کی قوت وطاقت ختم ہو جائے ۔ان انعامات میں ایک بڑا انعام جس کی وجہ سے
مسلمانوں کو اتنے بڑے لشکر سے فتح حاصل ہوئی وہ اللہ پاک کا فرشتوں کے ذریعے مسلمانوں کی مدد کرنا ہے۔ اور قران مجید
میں بھی اس کا ذکر فرمایا چنانچہ پارہ 3
سورہ ال عمران ایت نمبر۔ 123 تا 125 میں
فرماتا ہے۔
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۱۲۳)
اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ اَلَنْ یَّكْفِیَكُمْ اَنْ یُّمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰثَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئكَةِ مُنْزَلِیْنَؕ(۱۲۴)بَلٰۤىۙ-
اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا وَ یَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِهِمْ هٰذَا یُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئكَةِ مُسَوِّمِیْنَ(۱۲۵)
ترجمۂ کنز
الایمان:اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے تو
اللہ سے ڈرو کہ کہیں تم شکر گزار ہو۔جب اے محبوب تم مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا
تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتے اتار کر۔ ہا ں
کیوں نہیں اگر تم صبرو تقویٰ کرو اور کافر اسی دم تم پر آپڑیں تو تمہارا رب تمہاری
مدد کو پانچ ہزار فرشتے نشان والے بھیجے گا۔
صراط الجنان جلدی، ص 47 پر اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھاہے۔
شَہَنْشاہِ مدینہ صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُم کو حوصلہ دیتے ہوئے اور ان کی ہمت بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ’’تم اپنی
ہمت بلند رکھو ، کیا تمہیں یہ کافی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تین ہزار فرشتے اتار کر
تمہاری مدد فرمائے ۔ اس کے بعد فرمان ہے کہ تین ہزار فرشتوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ
اگرتم صبر و تقویٰ اختیار کرو اور اس وقت دشمن تم پر حملہ آور ہوجائیں
تو اللہ تعالیٰ پانچ ہزار ممتاز فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد فرمائے گا۔
یہ ایک غیبی خبر تھی جو بعد میں پوری ہوئی اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُم کےصبر و تقویٰ کی بدولت اللہ تعالیٰ نے پانچ ہزار فرشتوں کو نازل
فرمایا جنہوں نے میدانِ بدر میں مسلمانوں کی مدد کی۔
اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا مدد کرنا
درحقیقت اللہ تعالیٰ کا مدد کرنا ہے:
اس آیتِ مبارکہ(سورہ ال عمران آیت
نمبر :123)سے اہلسنّت کا ایک عظیم عقیدہ واضح طور پر ثابت ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ جنگِ
بدر میں مسلمانوں کی مدد کیلئے فرشتے نازل ہوئے جنگ میں فرشتے لڑے، انہوں نے مسلمانوں کی مدد کی لیکن ان کی مدد
کواللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد فرمائی۔ اس
سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے پیارے جب اللہ تعالیٰ
کی اجازت سے مدد فرماتے ہیں تو وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی مدد ہوتی ہے۔
لہٰذا انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
اولیاءرَحْمَۃُاللہِ عَلَیْہِمْ جو مدد فرمائیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کی مدد
قرار پائے گی اور اسے کفر و شرک نہیں کہا جائے گا۔ (صراط الجنان ،ج 2 ،ص46)
اعلی حضرت رَحْمَۃُاللہِ عَلَیْہِ
فرماتے ہیں
حاکم حکیم داد و دَوا دیں یہ
کچھ نہ دیں
مَردُود یہ مُراد کِس آیت، خبر
کی ہے
(حدائق بخشش ص206)
اسی طرح سور ةالانفال آیت نمبر 12 میں ارشاد ہوتا ہے
اِذْ یُوْحِیْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰٓئكَةِ اَنِّیْ
مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ
ترجمہ کنزالایمان :جب
اے محبوب تمہارا رب فرشتوں کو وحی بھیجتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم مسلمانوں
کو ثابت رکھو ۔
یعنی اللہ رب العزت نے فرشتوں کی طرف وحی فرمائی کہ میں
مسلمانوں کے ساتھ ہوں تم ان کی مدد کرو اور انہیں ثابت قدم رکھو۔ فرشتوں کے ثابت
قدم رکھنے کا معنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ فرشتوں نے نور والے آقا، مکی مدنی مصطفے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کو خبر دی کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد فرمائے گا اور نبی
کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسلمانوں کو یہ خبر
دے دی ( جس سے مسلمانوں کے دل مطمئن ہو گئے اور وہ اس جنگ میں ثابت قدم
رہے۔(تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: 12 ، 463/5)
بدر میں قتال
ملائکہ کے متعلق روایات
مفسرین کی ایک تعداد کے مطابق جنگ بدر
میں فرشتوں نے باقاعدہ لڑائی میں حصہ لیا تھا۔پہلے ایک ہزار فرشتے آئے پھر تین
ہزار ،پھر پانچ ہزار ۔
1۔چنانچہ جنتی ابن جنتی، صحابی ابن صحابی عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ
عَنْہُمَانے فرمایا کہ مسلمان اس دن کافروں کا تعاقب کرتے تھے اور کافر مسلمانوں
کے آگے آگے بھاگتا جاتا تھا کہ اچانک اُوپر سے کوڑے کی آواز آتی اور سوار کا یہ
کلمہ سنا جاتا تھا ’’ اَقْدِمْ حَیْزومُ ‘‘ یعنی آگے بڑھ اے حیزوم
(حیزوم حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے گھوڑے کا نام ہے) اور
نظر آتا تھا کہ کافر گر کر مر گیا اور اس کی ناک تلوار سے اڑا دی گئی اور چہرہ
زخمی ہوگیا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم نے اللہ پاک کی عطا سےدو
جہاں سے باخبر پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اپنے یہ
معائنے بیان کئے تو رسول اکرم، نور مجسم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
نے فرمایا کہ یہ تیسرے آسمان کی مدد ہے۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب
الامداد بالملائکۃ فی غزوۃبدرالخ،ص969،الحدیث: 58(1763)
2۔حضرت
ابو داؤد مازنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ’’میں مشرک کی گردن مارنے
کے لئے اس کے درپے ہوا لیکن اس کا سر میری تلوار پہنچنے سے پہلے ہی کٹ کر گر گیا
تو میں نے جان لیا کہ اسے کسی اور نے قتل کیا ہے۔ (مسند امام احمد، مسند
الانصار، حدیث ابی داود المازنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ، 9/ 202،
الحدیث: 23839)
3۔ علامہ ابو جعفر محمد بن جریر طبری روایت کرتے ہیں عبداللہ ابن عباس رَضِیَ اللہ
عَنْہُما نے بیان کیا کہ جنگ بدر کے بعد ابو سفیان مکے کے لوگوں میں جنگ کے احوال
بیان کر رہا تھا۔ اس نے کہا ہم نے آسمان اور زمینوں کے درمیان سفید رنگ کے سوار دیکھے
جو چتکبرے گھوڑوں پر سوار تھے وہ ہم کو قتل کرنے تھے اور ہم وہ قید کر رہے تھے ابو
رافع نے فرمایا وہ فرشتے تھے۔(تبیان القرآن، ج۔4 ص۔ 560 فرید بک سٹال)
4۔ بدر کے دن حضرت سیدنا ابوالیسر رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے حضرت عباس کو قید
کیا۔ ابو الیسر رَضِیَ اللہ عَنْہُ نہایت دبلے پتلے آدمی تھے اور حضرت عباس بہت
جسیم تھے. رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ابوالیسر رَضِیَ
اللہ عَنْہُ سے پوچھا تم نے عباس پر کیسے قابو پایا؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک شخص نے میری مدد کی تھی۔ میں نے اس
کو اس سے پہلے نہ دیکھا نہ اس بعد دیکھا۔اللہ پاک کے پیارے غیب دان نبی صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ایک معزز فرشتہ نے تمہاری مدد کی
تھی۔(تبیان القرآن، ج۔4 ص۔ 560 فرید بک سٹال )
5۔ حضرت سہل بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ عَنْہُ
فرماتے ہیں کہ’’ غزوۂ بدر کے دن ہم میں سے کوئی تلوار سے مشرک کی طرف اشارہ کرتا
تھا تو اس کی تلوار پہنچنے سے پہلے ہی مشرک کا سر جسم سے جدا ہو کر گر جاتا تھا۔(معرفۃ
الصحابہ، سہل بن حنیف بن واہب بن العکیم،2 / 441، رقم:3299 )
6۔ صدیق اکبر اور فاروق اعظم رَضِیَ اللہ
عَنْہُما کی کیا شان ہے کہ الله پاک کی طرف سے مدد کے لیے آنے والے ملائکہ کی آپ
حضرات کو رفاقت حاصل ہوئی ۔ چنانچہ حضرت سید ناعلی المرتضی شیر خدا رَضِیَ اللہ
عَنْہُ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے موقعے پر خاتم المرسلين رحمةللعلمین صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سیدنا ابو بکر صدیق وسید نا عمر فاروق رَضِیَ اللہ
عَنْہُما سے ارشاد فرمایا: تم میں سے ایک کے ساتھ جبریل اور ایک کے ساتھ میکائیل ہیں۔( مصنف ابن ابی
شیبہ ، کتاب الفضائل، ماذکر فی ابی بکر ج7
ص475، فیضان فاروق اعظم ج1 ص 483)
فرشتوں کی فوج دیکھ کر
شیطان میدان جنگ سے بھاگ کھڑا ہوا
شیطان لعین جوجنگ بدر میں بصورت سراقہ
کفار کے ساتھ آیا تھا جب اس نے یہ اسمانی
مدد دیکھی تو اپنی جان کے ڈرسے بھاگ کھڑا ہوا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا
فَلَمَّا تَرَآءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰى عَقِبَیْهِ
وَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْكُمْ اِنِّیْۤ اَرٰى مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّیْۤ
اَخَافُ اللّٰهَؕ-وَ اللّٰهُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠ (سورةالانفال
:48)
ترجمۂ کنز الایمان: تو جب دونوں لشکر
آمنے سامنے ہوئے الٹے پاؤں بھاگا اور بولا میں تم سے الگ ہوں میں وہ دیکھتا ہوں جو
تمہیں نظر نہیں آتا میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ کا عذاب سخت ہے۔
اس واقعے کا پس منظر (Back ground) کچھ اس طرح
ہےکہ جب کفار قریش بدر میں جانے کیلئے تیار ہوگئے تو شیطان(ابلیس لعین) ایک
جھنڈا ساتھ لے کرمشرکین سے آملا اور ان سے کہنے لگا کہ میں تمہارا ذمہ دار
ہوں آج تم پر کوئی غالب آنے والا نہیں جب مسلمانوں اور کافروں کے دونوں لشکر صف
آراء ہوئے اور سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےایک مشت
خاک مشرکین کے منہ پر ماری تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے اور حضرت جبریل عَلَیْہِ
السَّلَام ابلیس لعین کی طرف بڑھے جوسراقہ کی شکل میں حارث بن
ہشام کا ہاتھ پکڑ ے ہوئے تھا، ابلیس ہاتھ چھڑا کر اپنے گروہ کے ساتھ بھاگا۔ حارث
پکارتا رہ گیا سراقہ !سراقہ! تم نے تو ہماری ضمانت لی تھی اب کہا ں جاتے ہو
؟ابلیس کہنے لگا : بےشک میں تم سے بیزار ہوں اور امن کی جو ذمہ داری لی تھی اس
سے سبک دوش ہوتا ہوں۔ اس پر حار ث بن ہشام نے کہا کہ ہم تیرے
بھروسے پر آئے تھے کیا تو اس حالت میں ہمیں رسوا کرے گا؟ کہنے
لگا: میں وہ دیکھ رہاہوں جو تم نہیں دیکھ رہے،بیشک میں اللہ
عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتا ہوں کہیں وہ مجھے ہلاک نہ کردے۔(خازن، الانفال، تحت
الآیۃ: 48 ، 201/2 )
جبل ملائکہ
پیارےپیارے اسلامی بھائیوں!میدان بدر
کے قریب ایک پہاڑ(Mountain ) واقع ہے ۔جس
کا نام جبل ملائکہ ہے۔ یہ وہی مبارک پہاڑ اہے جہاں جنگ بدرکےدن مسلمانوں کی نصرت
کیلئے فرشتوں کا نزول ہوا تھا ۔حیران کن بات یہ ہے کہ عموما پہاڑ پتھر وغیرہ سخت
قسم کے ہوتے ہیں مگر قدرت الہی دیکھیئےکہ یہ اتنا بڑا پہاڑ (جبل ملائکہ) سارے کا ساراریت کا ہے۔ اس مقدس
پہاڑ کی ریت بھی اتنی نرم و ملائم نرالی ہے کہ اگر اس پر پاؤں رکھا جائے یا کپڑوں
پر لگ جائے تو کسی قسم کی آلودگی(یعنی میل کچیل) نہیں ہوتی اورعجب بات یہ ہے کہ یہ
مبارک مٹی فورا جھڑ جاتی کوئی ذرہ بھی جسم پر باقی نہیں رہتا ہے گویا کہ عشق کی زبان میں کہا جاسکتا ہےکہ مٹی بھی اس مبارک جگہ کو چھوڑنا
نہیں چاہتی۔
کفار ہتھیار ڈال کر بھاگ
کھڑے ہوئے
کفار قریش کے سرداروں عتبہ، شیبہ، ابو
جہل وغیرہ کی ہلاکت سے کفار مکہ کی کمرٹوٹ
گئی اور ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ ہتھیارڈال کر بھاگ کھڑے ہوئے اور مسلمانوں نے
ان لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔اس جنگ میں کفار کے ستر آدمی قتل اور ستر
آدمی گرفتار ہوئے۔ باقی اپنا سامان چھوڑ کر فرار ہو گئے اس جنگ میں کفار مکہ کو
ایک زبردست شکست ہوئی کہ ان کی عسکری طاقت( جنگی طاقت-Military power)ہی فوت ہوگئی
۔ کفارقریش کے بڑے بڑے نامور سردار جو بہادری اورفن سپہ گری میں یکتائے روزگار تھے
ایک ایک کر کے سب موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ۔ ان ناموروں میں عتبہ، شیبہ ابوجہل،
ابوابتری، زمعہ، عاص بن ہشام، امیہ بن خلف، منبه بن الحجاج، عقبہ بن ابی معیط نضر
بن الحارث وغیرہ قریش کے سرتاج تھے یہ سب مارے گئے۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ بدر الکبری ص267)
صبر اور تقویٰ کی اہمیت
اے عاشقان رسول! دیکھا آپ نے کہ جنگ
بدر میں مسلمانوں کی تعداد اور سامان جنگ کی قلت کے باوجود فتح مبین نے مسلمانوں
کے قدموں کا بوسہ لیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ کثرت تعداد اور سامان جنگ کی
فراوانی پر موقوف نہیں ۔ بلکہ فتح کا دارومدار نصرت خداوندی پر ہے کہ وہ جب چاہتا
ہے تو فرشتوں کی فوج آسمان سے میدان جنگ میں اتار کر مسلمانوں کی امداد و نصرت
فرما دیتا ہے اور مسلمان قلت تعداد اور سامان جنگ نہ ہونے کے باوجود فتح مند ہو کر
کفار کےلشکروں کو تہس نہس کر کے فنا کے گھاٹ اتار دیتا ہے، مگر اللہ تعالٰی اس
کیلئے دو شرطیں رکھی ہیں۔ ایک صبر اور دوسرا تقویٰ (بَلٰۤی اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا ترجمہ کنزالایمان ہا ں کیوں نہیں اگر تم صبرو تقویٰ کرو(ال عمران
:ایت نمبر 125)) ۔اگر مسلمان صبر اور تقویٰ کے دامن کو تھامے ہوئے خدا کی مدد
پر بھروسہ کر کے جنگ میں اڑ جائیں تو ان
شاء اللہ ہمیشہ اور ہر محاذ پر فتح مبین مسلمانوں کے قدموں چومے گی اور کفار شکست کھا کر راہ فرار اختیار کریں گے یا مسلمانوں کی مار سے
فنا ہوکر فی النار ہو جائیں گے۔ بس ضرورت
ہے کہ مسلمان صبر وتقوی کے ہتھیار سے لیس
ہو کر خدا کی مدد کا بھروسہ کرکے کفار کے
حملوں کا مقابلہ کرنے کیلئے میدان جنگ
میں استقامت کا پہاڑ بن کر کھڑے رہیں اور ہرگز ہرگز تعداد کی کمی اور سامان جنگ کی قلت
وکثرت کی پرواہ نہ کریں۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن ص 84 -85)
مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو ابھارتے ہوئے کسی نے کیا خوب کہا؛
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری
نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار
اندر قطار اب بھی
بدر کا گڑھا (Pit of Baddar)
رحمة للعالمین ، خاتم النّبیین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کاہمیشہ یہ طریقہ رہا کہ جہاں بھی کوئی
لاش نظر آتی تھی اخری نبی صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کو فون کروادیتے تھے لیکن جنگ بدر میں قتل ہونے
والے کفار چونکہ تعداد میں بہت زیادہ تھے، سب کو الگ الگ دفن کرنا ایک دشوار کام
تھا اس لئے تمام لاشوں کو سرور کار دوعالم
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بدر کے ایک گڑھے میں ڈال دینے کا حکم
فرمایا۔ چنانچہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم نے تمام لاشوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر
گڑھے میں ڈال دیا۔ امیہ بن خلف کی لاش پھول گئی تھی ،صحابہ کرام نے اس کو گھسیٹنا
چاہا تو اس کے اعضاءالگ الگ ہونے لگے اس لئے اس کی لاش وہیں مٹی میں دبا دی گئی۔
(المواھب اللدنیة والزرقانی ،غزوہ بدر الکبری ج2 ص 303)
تم ان سے زیادہ نہیں
سنتے
اللہ پاک کے پیارے اور آخری نبی صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عادت کریمہ تھی جب کسی مقام کو فرماتے تو
وہاں تین دن قیام فرماتے۔ بدر سے واپس
تشریف لے جاتے وقت اس کنوئیں پر تشریف لے گئے جس میں کافروں کی لاشیں پڑی تھیں اور
انہیں ان کے نام، ان کے والد کے نام کے ساتھ آواز دے کر ارشاد فرمایا:'' یَا فَلَانُ بْنَ
فَلَانِِ وَیَا فَلَانُ بْنَ فَلَانِِ اَیَسُرُّکُمْ اَنَّکُمْ اَطَعْتُمُ اللہَ
وَرَسُولَهُ فَاِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدْنَا رَبُّنَا حَقًّا فَھَلْ
وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا ترجمہ اے فلاں بن فلاں! اور اے فلاں بن فلاں! کیا اب
تمہیں یہ پسند ہے کہ تم نے الله اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی ۔ بہر حال ہم نے
اس وعدے کو سچا پایا جو ہمارے رب نے ہم سے فرمایا تھا، کیا تم نے بھی اس وعدے کو
سچا پایا جو تمہارے رب نے تم سے کیا تھا؟ اسلام کے تیسرے خلیفہ، جنتی صحابی سید نا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہ
عَنْہُ نے یہ سن کر عرض کی : یَارَسُوْلَ اللہِ مَا
تُکَلِّمُ مِنْ اِجْسَادِِ لَا اَرْوَاحَ لَھَا یارسول الله!صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ کیا
ان بےجان جسموں سے کلام فرمارہے ہیں؟ ارشادفرمایا: وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِہٰ مَا اَنْتُمْ
بِاَسْمَعَ لِمَا أَقُوْلُ مِنْھُم اے عمر! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! جو کچھ میں کہہ
رہا ہوں اسے تم کچھ ان سے زیادہ نہیں سنتے ‘‘ ( مگر انہیں طاقت نہیں کہ مجھے لوٹ
کر جواب دیں )(بخاری، کتاب
المغازی، باب قتل ابی جھل ،ج3 ص11 الحدیث 3976)
اے عاشقان رسول! اس سے معلوم ہوا کہ جب
کفار کے مردے زندوں کی گفتگو سنتے ہیں تو پھر صالح مؤمنین خصوصا انبیاء کرام
عَلَیْھُم الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور
اولیاء عظام رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہم کی کیا شان ہوگی یقینا اللہ پاک کے نیک بندے
زندوں کی فریاد کو سنتے بھی ہیں اور باذن الہی ان کی دستگیری(مدد) بھی فرماتے ہیں۔
نیک مومنین سے مدد مانگنا باقاعدہ قران وحديث و صحابہ
وتابعین سے ثابت ہے جیسے پارہ
28سورةالتحریم کی آیت نمبر 4 میں ارشاد ہوتا ہے۔
فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلىٰهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ
الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ(۴)
ترجمۂ کنز
الایمان
تو بیشک اللہ
ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں ۔
یَا عِبَادَاللہِ اَعْیِنُونِی
جنتی صحابی حضرت عتبہ بن غزوان رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے
روایت ہے کہ شہنشاہ مدینہ منورہ صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز گم ہوجائے اور مدد چاہے۔ اور ایسی جگہ ہو کہ
کوئی ہمدم نہیں تو اسے چاہئے یوں پکارے:یَا عِبَادَاللہِ اَعْیِنُونِی، یَا عِبَادَاللہِ
اَعْیِنُونِی، یَا عِبَادَاللہِ اَعْیِنُونِی اے اللہ
کےبندو! میری مدد کرو، اے اللہ کےبندو! میری مدد کرو، اے اللہ کےبندو! میری مدد
کرو، کہ اللہ کے کچھ بندے ہیں جنہیں یہ نہیں دیکھتا۔(معجم کبیر ،ج 15 ص 117 ،
الحدیث 290)
واللہ وہ سُن لیں گے فریاد کو
پہنچیں گے
اِتنا بھی تو ہو کوئی جو آہ کرے
دل سے
(حدائق بخشش ص143)
ممکن نہیں کہ خیرِ بشَر
کو خبر نہ ہو
یقینا اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے کہ اللہ پاک کے نیک بندے اللہ
پاک کی دی ہوئی طاقت کے ذریعے مدد فرماتے ہیں ورنہ حقیقی مددگار تو اللہ رب العزت
ہی ہے۔چنانچہ سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دستگیری کا ایک ایمان افروز واقعہ سنیئے ۔ امام طبرانی ، علامہ ابن المقری
اور امام ابو الشیخ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہم
یہ تینوں حدیث کے بہت بڑے امام گزرے ہیں
۔اور یہ تینوں ہستیاں ایک ہی زمانے میں مدینہ منورہ کی ایک درسگاہ میں حدیث کا علم
حاصل کرتےتھے ۔ ایک بار ان تینوں طلباء علم حدیث پر ایسا وقت گزرا کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا۔ روزے پر
دوزے رکھتے رہے، مگر جب بھوک سے
نڈھال ہو گئے اور ہمت جواب دےگئی تو تینوں
نے صاحب جودوکرم ، دافع رنج والم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے
روضہ اطہر پر حاضر ہو کر فریاد کی یا رسول
اللہ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَہم لوگ بھوک سے بے تاب ہیں ۔یہ
عرض کرکے امام طبری رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ
تو آستانہ مبارکہ ہی پر بیٹھ گئے اور کہا
: اس ڈر پر موت آئے گیا روزی ، اب یہاں سے نہیں اٹھوں گا۔ علامہ ابن المقری اور
امام ابو الشیخ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہما
اپنی قیام گاہ پر لوٹ آئے ۔ تھوڑی دیر بعد کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، دونوں نے
دروازہ کھول کر دیکھا تو علوی خاندان کے ایک بزرگ دو غلاموں کے ساتھ کھانا لے کر
تشریف فرماہیں۔ اور یہ فرمارہے ہیں کہ نور والے آقا، مکی مدنی مصطفے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ابھی ابھی مجھے خواب میں
اپنی زیارت سے مشرف فرماکر حکم
فرمایا کہ میں آپ لوگوں کے پاس کھانا پہنچا دوں چنانچہ جو کچھ مجھ سے فی الوقت ہو سکا حاضر ہے ۔(تذکرہ الحفاظ ،121/3 ، رقم 913 مخلصا)
شہدائے بدر
جنگ بدر میں کل چودہ مسلمان شہادت سے
سر فراز ہوئے ۔جن میں سے چھ مہاجر صحابہ
کرام تھے اور آٹھ انصار صحابہ تھے ۔ مہاجرین شہدا بدر کے نام یہ ہیں۔1۔ حضرت عبیدہ
بن الحارث رَضِیَ اللہ عَنْہُ ۔ 2۔حضرت عمیر بن ابی وقاص رَضِیَ اللہ عَنْہُ 3۔
حضرت ذوالشمالین عمیر بن عبد عمرو رَضِیَ
اللہ عَنْہُ 4۔حضرت عاقل بن ابی
بکیررَضِیَ اللہ عَنْہُ 5۔ حضرت مِهجَع
بن صالح رَضِیَ اللہ عَنْہُ 6۔ حضرت صفوان بن بیضاءرَضِیَ اللہ عَنْہُ
انصار شہدا بدر کے نام یہ ہیں 7۔ حضرت سعد بن خیثمہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ 8۔ حضرت مبشر بن عبد المنذر رَضِیَ اللہ عَنْہُ 9۔ حضرت حارثہ بن سراقہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ 10۔ حضرت معوذ بن عفراء رَضِیَ اللہ عَنْہُ ۔ 11۔ حضرت عمیر بن حُمَام رَضِیَ اللہ عَنْہُ
12۔حضرت رافع بن معلیٰ رَضِیَ اللہ عَنْہُ 13۔ حضرت عوف بن عفراءرَضِیَ اللہ عَنْہُ 14۔ حضرت یزید بن حارث رَضِیَ اللہ عَنْہُ (المواھب
اللدنیة والزرقانی ،غزوہ بدر الکبری ج2 ص 325 )
ان شہداء بدر میں سے تیرہ(13)حضرات
تو میدان بدر میں ہی مدفون ہوئے مگر حضرت
عبیدہ بن حارث رَضِیَ اللہ عَنْہُ نےچونکہ بدر سے واپسی پر منزل "صفراء " میں وفات پائی اس لئے ان کی
قبر مبارک صفراء کے مقام میں ہے۔ (شرح
الزرقانی علی المواھب، غزوہ بدر الکبری ،ج
2 ،ص325)
جاں نثارانِ بدر و اُحد پر درود
حق گزارانِ بیعت پہ لاکھوں سلام
(حدائق بخشش ص311)
اہل مدینہ کا جوش
استقبال
نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فتح کے بعد حضرت
زید بن حارثہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ کو فتح مبین کی خوشخبری سنانے کے لئے مدینہ بھیج
دیا تھا۔ چنانچہ حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ یہ خوشخبری لے کر جب مدینہ
پہنے تو تمام اہل مدینہ جوش مسرت کے ساتھ اپنے آقاو مولا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آمد آمد کے انتظار میں برقرار رہنے لگے اور جب تشریف آوری
کی خبر پیچی تو اہل مدینہ نے آگے بڑھ کر مقام "روحاء "میں آپ کا پرجوش
استقبال کیا۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔
غزوہ بدر الکبری ص265)
حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ جب فتح کی خوشخبری لے کر
مدینے پہنچے اسی دن نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیاری
شہزادی سیدہ رقیہ رَضِیَ اللہ عَنْھا کا انتقال ہوا۔جن کی عیادت کیلئے نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہ عَنْہُ کو مدینے میں رکنے کا ارشاد
فرمایا تھا۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ
بدر الکبری ص282)
انعامات الہیہ کا تذکرہ
مکتبہ
المدینہ کی کتاب" عجائب القرآن مع
غرائب القرآن " (کل صفحات: 420)کے صفحہ 302 پر ہے :جنگ بدر میں مسلمانوں کو
جن مشکل حالات کا سامنا تھاظاہر ہے کہ عقل انسانی عالم اسباب پر نظر کرتے ہوئے اس
کے سوا اور کیا فیصلہ کرسکتی ہےکہ وہ اس جنگ کو ٹال دیں۔ مگر صادق الایمان
مسلمانوں نے اپنے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مرضی پاکر ہر قسم کی بے سروسامانی کے باوجود حق وباطل کی معرکہ آرائی کیلئے والہانہ
اور فدا کارانہ جذبات کے ساتھ خود کو پیش
کردیا اور نہایت قدمی اور اولوالعزمی کے ساتھ میدان جنگ میں کود پڑے تو اللہ پاک نے
ان مسلمانون کی کس کس طرح امداد ونصرت
فرمائی، اس پر ایک نظر ڈال کر خداوند
قدوس کے فضل عظیم کی جلوہ سامانیوں کا نظارہ کیجئے اور یہ دیکھئے کہ
الله تعالی نے اس جنگ میں کس کس طرح مسلمانوں کی مدد فرمائی۔
1۔ مسلمانوں کی نگاہ میں دشمنوں کی تعداد اصل
تعداد سے کم نظر آئی تا کہ مسلمان مرعوب نہ ہوں اور مشرکین کی نظروں میں مسلمان
مٹھی بھر نظر آئیں تا کہ وہ جنگ سے ہی نہ چرائیں اور حق و باطل کی جنگ ٹل نہ جائے۔
2۔ اور ایک وقت میں مسلمان مشرکین کی نظر میں
دگنے نظر آئے تا کہ مشرکین مسلمانوں سے شکست کھا جائیں۔
3۔پہلے مسلمانوں کی مدد کے لئے ایک ہزار فرشتے
بھیجے گئے۔ پھر فرشتوں کی تعداد بڑھا کر تین ہزار کر دی گئی ۔ پھر فرشتوں کی تعداد
پانچ ہزار ہوگئی ۔
4۔ مسلمانوں پرعین معرکہ کے وقت تھوڑی دیر کے
لئے غنودگی اور نیند طاری کر دی گئی جس کے چند منٹ بعد ان کی بیداری نے ان میں ایک
نئی تازگی اور نئی روح پیدا کر دی ۔
5۔ آسمان سے پانی برسا کر مسلمانوں کے لئے
ریتلی زمین کو پختہ زمین کی طرح بنادیا اور مشرکین کے محاذجنگ کی زمین کو کیچھڑ
اورپھسلن والی دلدل بنادیا۔
6۔ نتیجہ جنگ یہ ہوا کہ ذرا دیر میں مشرکین کے
بڑے بڑے نامی گرامی پہلوان اور جنگجو شہسوار مارے گئے ۔ چنانچہ ستر(70) مشرکین قتل
ہوئے اور ستر(70)گرفتار ہو کر قیدی بنائے گئے اور مشرکین کا لشکر اپنا سارا سامان
چھوڑ کر میدان جنگ سے بھاگ نکلا اور یہ سارا سامان مسلمانوں کو مال غنیمت میں مل
گیا۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن ص 302
۔303)
انہی انعامات الہیہ کی طرف اشارہ کرتے
ہوئے امام اہلسنت رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں
کثرتِ بعدِ قِلّت پہ اکثر درود
عزّتِ بعدِ ذِلّت پہ لاکھوں
سلام
(حدائق بخشش ص298)
یہ واقعہ ہمیں متنبہ کر رہا ہے کہ اگر
مسلمان خدا پر بھروسہ کر کے حق و باطل کی جنگ میں ثابت قدمی اور پامردی کے ساتھ
ڈٹے رہیں تو تعداد کی کمی اور بے سروسامانی کے باوجود ضرور خدا کی مدد اتر پڑے گی
اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگی۔ یہ رب العزت کے فضل و کرم کا وہ دستور ہے۔کہ جس
میں ان شاء الله تعالی قیامت تک کوئی تبدیلی نہیں ہوگی ۔ بس شرط یہ ہے کہ مسلمان
نہ بدل جائیں، اور ان کے اسلامی خصائل و کردار میں کوئی تبدیلی نہ ہو۔ ورنہ خدا کا
دستور تو نہ بدلا ہے نہ کبھی بدلے گا اس کا وعدہ ہے کہ
فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ
تَبْدِیْلًا (پارہ 22 سورةالفاطر :43)
ترجمہ کنزالایمان: تو تم ہرگز اللہ کے
دستور کو بدلتا نہ پاؤ گے والله تعالی
اعلم
(عجائب القرآن مع غرائب القرآن ص 304)
قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم
سردار انبیاء، حبیب کبریا صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مدینہ شریف پہنچنے کے ایک دن بعد اسیران جنگ (یعنی
قیدی-Prisoners) مدینے پہنچے۔
اللہ پاک کےپیارے پیارے رحم فرمانے والےنبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے صحابہ کرام رَضِیَ اللہ
عَنْہُم کو تاکید فرمائی کہ ان کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے۔جن قیدیوں کے پاس کپڑے
نہ تھے ان کو کپڑے دلوائے گئے۔صحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم ان لوگوں کو گوشت روٹی وغیرہ حسب طاقت بہترین کھانا
کھلاتے اور خود کھجوریں کھا
لیتےتھے۔چنانچہ ابو عزیز بن عمیر کا بیان
ہےکہ جب مجھے بدر سے لائے تو میں انصار کی
ایک جماعت میں تھاتو وہ صبح یا شام کا
کھانا لاتے تو روٹی مجھے دیتے اور خود کھجوریں کھاتے ۔ان میں سے جس کے ہاتھ روٹی
کا ٹکڑا آتا وہ میرے آگے رکھ دیتا۔مجھے شرم آتی میں اسے واپس کرتا مگر وہ مجھ ہی
کو واپس دیتا اور ہاتھ نہ لگاتا۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ بدر الکبری ص265)
پیارےپیارے اسلامی بھائیو!اے کاش ہمارے
اندر بھی مسلمان بھائیوں سےخیر خواہی
کرنےکا جذبہ پیدا ہوجاتا! کاش! ضرورت مند مسلمانوں کی ضروریات پوری کرنے کا ذوق
نصیب ہوجاتا ۔ مذکورہ واقعہ میں
یقیناہمارے لیے سیکھنے کے بے شمار مدنی
پھول موجود ہیں لیکن افسوس اب معاملہ برعکس نظر آتا ہے ایسا لگتا ہےکہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کا دشمن بنا ہوا ہے ، کسی مسلمان بھائی
کی بےعزتی کرنا ، اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا ،اس کا مال دبا لینا، دوسرے کو نیچا
دیکھانا ، دھوکہ دینا ،آپس میں لڑنا جھگڑنا زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ اپنے مسلمان
بھائیوں کا خیال رکھنا بہت بڑی سعادت ہے
اور ان کو اذیت دینا تو دور کی بات حتّٰی کہ کسی مسلمان کو ڈرانا ، گھورنا یا ایسا
اشارہ کرنا جو باعث تکلیف ہو وہ بھی جائز نہیں چنانچہ رحمةللعلمین، خاتم النّبیین
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ
دوسرے مسلمان کی طرف آنکھ سے اس طرح اشارہ کرے جس سے تکلیف ہو
(اتحاف السادة للزیدی ج7 ص177)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: کسی
مسلمان کو جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو خوفزدہ کرے۔(سنن ابی داؤد ج4، ص 391 ،الحدیث 5004)
قیدیوں کے بارے میں
مشورہ
قیدیوں کے بارے میں سرکار مدینہ صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرات صحابہ رَضِیَ اللہ عَنْہُم سے مشورہ
فرمایا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ اسلام کے دوسرے خلیفہ سیدنا فاروق اعظم
رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے یہ رائے دی کہ ان سب دشمنان اسلام کوقتل کر دینا چاہے اور
ہم میں سے ہرشخص اپنے اپنے قریبی رشتہ دارکواپنی تلوار سےقتل کرےمگراسلام کے پہلے
خلیفہ،سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے یہ مشورہ دیا کہ آخر یہ سب لوگ اپنے
عزیز واقارب ہی ہیں لہذا انہیں قتل نہ کیا جائے بلکہ ان لوگوں سے بطور فدیہ کچھ
رقم لے کر ان سب کو رہا کردیا جائے۔ اس وقت مسلمانوں کی مالی حالت بہت کمزور ہے
فدیہ کی رقم سے مسلمانوں کی مالی امداد کا سامان بھی ہو جائے گا اور شاید آئندہ
الله ان لوگوں کو اسلام کی توفیق نصیب
فرمائے۔ سرکار دوجہاں صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابو بکر
صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہُ کی سنجیدہ رائے
کو پسند فرمایا اور ان قیدیوں سے چار چار ہزار در ہم فدیہ لے کر ان لوگوں کو چھوڑ
دیا۔ جولوگ مفلسی کی وجہ سے فدیہ نہیں دے سکتے تھے وہ یوں ہی بلا فدیہ چھوڑ دیئے
گئے۔ ان قیدیوں میں سے جو لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے ان میں سے ہر ایک کا فدیہ یہ
تھا کہ وہ انصارکے دس لڑکوں کو لکھنا سکھادیں۔( المواھب اللدنیة والزرقانی، غزوہ
بدر الکبری ج2 ص 320،322)
دلوں کی بھی رکھتے ہیں خبر حبیب کبریاصَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
بدر کے ان قیدیوں میں سے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے
پیارے چچا ،جنتی صحابی حضرت سیدنا
عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُ بھی تھے (جو ابھی
تک مسلمان نہ ہوئے تھے )۔انصار نے پیارے
آقا صلی الله تعالی علیہ وسلم سے یہ عرض
کیا کہ یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت عباس ہمارے
بھانجے ہیں لہذا ہم ان کا فدیہ معاف کرتے ہیں لیکن حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
یہ عرض منظور نہیں فرمائی۔ حضرت عباس قریش کے ان دس دولت مند رئیسوں میں سے تھے
جنہوں نے لشکر کفار کے راشن کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی، اس غرض کے لئے حضرت عباس
کے پاس بیس اوقیہ(تقريبا 2450 گرام )سونا
تھا۔ چونکہ فوج کو کھانا کھلانے میں ابھی حضرت عباس کی باری نہیں آئی تھی اس لئے
وہ سونا ابھی تک ان کے پاس محفوظ(Save) تھا۔ اس سونے
کو آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مال غنیمت میں شامل فرما
لیا اور حضرت عباس سے مطالبہ فرمایا کہ وہ اپنی اور اپنے دونوں بھتیجوں عقیل بن
ابی طالب اور نوفل بن حارث اور اپنے حلیف عقبہ بن عمرو چار شخصوں کا فدیہ ادا کر یں۔ حضرت عباس نے کہا
کہ میرے پاس کوئی مال ہی نہیں ہے، میں کہاں سے فدیہ ادا کروں؟ یہ سن کر اللہ کی عطا سے غیب جاننے والا آخری
نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ چچا جان! آپ کا وہ
مال کہاں ہے؟ جوآپ نے جنگ بدر کے لئے روانہ ہوتے وقت اپنی بیوی" ام افضل
"کو دیا تھا اور یہ کہا تھا اگر میں اس لڑائی میں مارا جاؤں تو اس میں سے
اتنا مال میرے لڑکوں کو دے دینا۔ یہ سن کر حضرت عباس نے کہا قسم ہے اس خدا کی جس
نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجاہے کہ یقینا آپ
اللہ پاک کے رسول ہیں کیونکہ اس مال کا
علم میرے اور میری بیوی ام الفضل کے سوا کسی کو نہیں تھا۔ چنانچہ حضرت عباس نے
اپنا اور اپنے دونوں بھتیجوں اور اپنے حلیف کا فدیہ ادا کر کے رہائی حاصل کی پھر
اس کے بعد حضرت عباس اور حضرت عقیل اورحضرت نوفل تینوں مشرف بہ اسلام ہو گئے ۔(مدارج
النبوۃ ، باب چہارم ،قسم دوم ج 2ص 97)
جنگ بدر کے قیدیوں میں جناب رسالت مآب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کے داماد ابوالعاص بن الربیع بھی تھے۔ یہ ہالہ بنت خویلد کے لڑکے تھے
اور ہالی حضرت بی بی خدیجہ رَضِیَ اللہ عَنْھا کی حقیقی بہن تھیں اس لئے حضرت بی
بی خدیجہ رَضِیَ اللہ عَنْھا نے آخری نبی، رسول ہاشمی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مشورہ لے کر اپنی
لڑ کی حضرت زینب رَضِیَ اللہ عَنْھا کا ابو العاص بن الرب سے نکاح کر دیا تھا۔
اللہ پاک کے پیارے اور آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نےجب اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رَضِیَ
اللہ عَنْھا نے تو اسلام قبول کر لیا مگر ان کے شوہر ابوالعاص مسلمان نہیں ہوئے
اور نہ حضرت زینب رَضِیَ اللہ عَنْھا کو اپنے سے جدا کیا۔ ابو العاص بن الربیع نے
حضرت زینب رَضِیَ اللہ عَنْھا کے پاس قاصد بھیجا کہ فدیہ کی رقم بھیج دیں ۔ حضرت
زینب رَضِیَ اللہ عَنْھا کو ان کی والدہ حضرت بی بی خدیجہ رَضِیَ اللہ عَنْھا نے
جہیز میں ایک قیمتی ہار(Necklace) بھی دیا تھا۔
سیدہ زینب رَضِیَ اللہ عَنْھا نے فدیہ کی رقم کےساتھ وہ ہار بھی اپنے گلے سے اتار
کر مد ینہ بیچ دیا۔ جب بیٹیوں سے محبت فرمانے والےاقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نظراس ہار پر پڑی تو حضرت بی بی خدیجہ رَضِیَ اللہ عَنْھا
اور ان کی محبت کی یاد نے قلب مبارک پر ایسارقت انگیز اثر ڈالا کہ آپ رو پڑے
اورصحابہ سے فرمایا کہ" اگر تم لوگوں کی مرضی ہو تو بیٹی کو اس کی ماں کی
یادگارواپس کر دو " یہ سن کر تمام
صحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم نے سر تسلیم کر دیا اور یہ ہار سیدہ زینب رَضِیَ
اللہ عَنْھاکے پاس مکہ بھیج دیا گیا۔
ابو العاص رِہا ہو کر مدینہ سے مکہ آئے
اور حضرت بی بی زینب رَضِیَ اللہ عَنْھا کو مدینے بھیج دیا۔ ابوالعاص بہت بڑے تاجر
(Business man)تھے ۔یہ مکہ
سے اپنا سامان تجارت لے کر شام گئے اور وہاں سے خوب نفع کما کر مکہ آ رہے تھے کہ
مسلمان مجاہدین نے ان کے قافلہ پر حملہ کر کے ان کا سارا مال و اسباب لوٹ لیا اور
یہ مال غنیمت تمام سپاہیوں پرتقسیم بھی ہو گیا۔ ابوالعاص چھپ کر مدینہ پہنچے اور
حضرت زینب رضی الله تعالی عنہا نے ان کو پناہ دےکر اپنے گھر میں اتارا۔ رحمت عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے صحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم سے فرمایا کہ اگر تم لوگوں کی خوشی
ہوتو ابوالعاص کا مال و سامان واپس کر دو فرمان رسالت کا اشارہ پاتے ہی تمام مجاہدین نے سارا مال و سامان ابوالعاص
کے سامنے رکھ دیا۔ ابو العاص اپنا سارامال و اسباب لے کر مکہ آئے اور اپنے تمام
تجارت کے شریکوں (Partners) کو پائی پائی
کا حساب سمجھا کر اور سب کو اس کے حصہ کی رقم ادا کر کے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان
کر دیا اور اہل مکہ سے کہہ دیا کہ میں یہاں آ کر اور سب کا پورا پورا حساب ادا کر
کے مدینہ جاتا ہوں تا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ابو العاص ہمارارو پیہ لے کر تقاضا
کے ڈر سے مسلمان ہو کر مدینے بھاگ گیا۔ اس کے بعد حضرت ابوالعاص رَضِیَ اللہ
عَنْہُ مدینہ آ کر حضرت بی بی زینبرَضِیَ
اللہ عَنْھا کے ساتھ رہنے لگے۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔ اسلام ابی العاص بن الربیع ، ص282)
مقتولین بدر کا ماتم
بدر میں کفار قریش کی شکست کی خبر جب
مکہ میں بھی پہنچی توایسا کہرام مچ گیا کہ گھر گھر ماتم کدہ بن گیا مگر اس خیال سے
کہ مسلمان ہم پرہنسیں گے ابوسفیان نے تمام شہر میں اعلان کر دیا کہ خبر دار کوئی
شخص رونے نہ پائے ۔ اس لڑائی میں اسود بن المطلب کے دولڑ کے عقیل اور زمعہ اور ایک
پوتا حارث بن زمعہ قتل ہوئے تھے۔ اس
شدید صدمہ سے اسود کا دل پھٹ گیا تھا وہ
چاہتا تھا کہ اپنے ان مقتولوں پر خوب پھوٹ پھوٹ کر روئے تا کہ دل کی بھڑاس نکل
جائے لیکن قومی غیرت کے خیال سے رو نہیں سکتا تھا مگر دل ہی دل میں گھٹتا اور
کڑھتا رہتا تھا اور آنسو بہاتے بہاتے اندھا ہو گیا تھا، ایک دن شہر میں کسی عورت
کے رونے کی آواز آئی تو اس نے اپنے غلام کو بھیجا کہ دیکھو کون رو رہا ہے؟ کیا بدر
کے مقتولوں پر رونے کی اجازت ہوگئی ہے؟ میرے سینے میں رنج وغم کی آگ سلگ رہی ہے،
میں بھی رونےکے لیے بے قرار ہوں ۔ غلام نے بتایا کہ ایک عورت کا اونٹ گم ہو گیا ہے
وہ اسی غم میں رورہی ہے ۔ اسود چانکہ شاعرتھا، یہ سن کر بے اختیار اس کی زبان سے
یہ دردناک اشعار نکل پڑے ۔ (جن کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے)
کیا وہ عورت ایک اونٹ کے گم ہو جانے پر
رورہی ہے؟ اور بے خوابی نے اس کی نیند کوروک دیا ہے۔تو وہ ایک اونٹ پر نہ روئے
لیکن بد روئے جہاں قسمتوں نے کوتاہی کی ہے۔
اگر تجھ کو رونا ہے تو عقیل پر رویا کر اور شیروں کے شیر حارث پر۔ اور ان
سب پر رو اور نام مت لے اور ابو
حکیمہ(زمعہ )کا تو کوئی ہمسر نہیں۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔ اسلام ابی العاص بن الربیع ، ص268)
کس کا کیا ہے ارادہ حضور
جانتے ہیں
ایک دن عمیر اور صفوان دونوں حطیم کعبہ
میں بیٹھےمقتولین بدر پر آنسو بہارہے تھے ۔ ایک دم صفوان بول اٹھا کہ اےعمیر میرا باپ اور دوسرے روسائے مکہ کہ جس طرح بدر
میں قتل ہوئے ان کو یاد کر کے سینے میں دل پاش پاش ہور ہا ہے اور اب زندگی میں
کوئی مزہ باقی نہیں رہ گیا ہے۔ عمیر نے کہا کہ اے صفوان!تم جو کہتے ہو میرے سینے
میں بھی انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے ، میرے عزیز واقرباء بھی بدر میں بے دردی کے
ساتھ قتل کئے گئے ہیں اور میرا بیٹا مسلمانوں کی قید میں ہے۔ خدا کی قسم! اگر میں
قرضدار(Debtors)نہ ہوتا اور
بال بچوں کی فکر سے دو چار نہ ہوتا تومیں ابھی ابھی تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر
مدینہ جاتا اور دم زدن میں دھوکہ سے(معاذاللہ )محمد (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کو قتل کر کے فرار ہو جاتا۔ یہ سن کرصفوان نے کہا کہ اےعمیر تم اپنے قرض اور بچوں کی ذرا بھی فکر نہ کرو ۔
میں خدا کے گھر میں عہد(Promise )کرتا ہوں کہ
تمہارا سارا قرض ادا کر دوں گا اور میں تمہارے بچوں کی پرورش کا بھی ذمہ دار ہوں ۔
اس معاہدہ کے بعد میں سیدھا گھر آیا اور زہر میں بجھائی ہوئی تلوار لے کر گھوڑے پر
سوار ہو گیا۔ جب عمیر مدینہ میں مسجد نبوی کے قریب پہنچا تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ
اللہ عَنْہُ نے اس کو پکڑ لیا اور اس کا گلہ دبائے اورگردن پکڑے ہوئے دربار رسالت
میں لے گئے۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھا کہ کیوں عمیر
کس ارادہ سے آئے ہو؟ جواب دیا کہ اپنے بیٹے کو چھڑانے کے لیے۔باذن الہی دلوں کے
ارادہ سے واقف آخری نبی نے فرمایا کہ کیا
تم نے اور صفوان نے حطیم کعبہ میں بیٹھ کر میرے قتل کی سازش نہیں کی ہے؟ عمیر یہ
راز کی بات سن کر سناٹے میں آ گیا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ اللہ
پاک کے رسول ہیں کیونکہ خدا کی قسم ! میرے اور صفوان کے سوا اس راز کی کسی کو بھی
خبر نتھی۔ ادھر مکہ میں صفوان(معاذاللہ )پیارے آقا، مکی مدنی مصطفے صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کےقتل کی خبر سنے کے لیے انتہائی بے قرار تھا اور دن
گن گن کر عمیر کے آنے کا انتظار کر رہا تھا مگر جب اس نے ناگہاں یہ سنا کہ عمیر
مسلمان ہو گیا تو حیرت کے مارے اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور وہ بوکھلا
گیا۔حضرت عمیر مسلمان ہو کر مکہ آئے اور جس طرح وہ پہلے مسلمانوں کے خون کے پیاسے
تھے اب وہ کافروں کی جان کے دشمن بن گئے اور انتہائی بے خوفی اور بہادری کے ساتھ
مکہ میں اسلام کی دعوت دینے لگے یہاں تک کہ ان کی دعوت اسلام سے بڑے بڑے کافروں کے
اندھیرے دلوں میں نور ایمان کی روشنی سے آجالا ہو گیا اور یہی عمیر اب صحابی رسول
حضرت عمیر رَضِیَ اللہ عَنْہُ کہلانے لگے۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔ اسلام ابی العاص بن الربیع ، ص274)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! جہاں اس
واقعہ سے یہ پتہ چلا کہ صحابی رسول حضرت عمیر کس طرح ایمان لائے وہی یہ بات بھی اَظْہَرُ مِن الشَّمْس( سورج سے زیادہ روشن ) ہے کہ اللہ کے
محبوب، دانائے غیوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ رب العزت کی عطا
سے دلوں کے ارادوں کو بھی جانتے ہیں۔ امام اہلسنت رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ کیا خوب
فرماتے ہیں کہ
کہنا نہ کہنے والے تھے جب سے تو
اطلاع
مولیٰ کو قول و قائل و ہر خشک و
تر کی ہے
پر کتاب اُتری بَیَانًا لِّکُلِّ شَیْء
تفصیل جس میں مَا عَبَرو مَا
غَبَر کی ہے
(حدائق بخشش ص213)
شرح کلام رضا : اللہ پاک کے عطا سے غیب
دان نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان یہ ہے کہ بات کرنے
والےنے بات نہیں کہی تھی مگر آقا ومولا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کو اس بات کی بھی پہلے سے خبر تھی اور جو اس کا ارادہ تھا وہ بھی آپ جانتےتھے،
حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان تو یہ ہے کہ آپ بعطائے
الہی کائنات کے ہر خشک و تر کو جانتے ہیں۔ اور اللہ پاک نے انہیں قرآن پاک کی صورت
میں ایسی عظیم کتاب عطا فرمائی ہے کہ جس میں ہر شے کا واضح بیان موجود ہے۔
گستاخ رسول کی عبرتناک
موت
گستاخ مصطفے ابولہب کسی سبب جنگ بدر
میں شریک نہیں ہوسکا تھا۔ جب کفارقریش شکست کھا کر مکہ واپس آئے تو لوگوں کی زبانی
جنگ بدر کے حالات سن کر ابولہب کو انتہائی رنج وملال ہوا۔ اس کے بعد ہی وہ بڑی
چیچک(Smallpox)کی بیماری میں
مبتلا ہو گیا جس سے اس کا تمام بدن سڑگیا اور آٹھ دن بعد موت کے گھاٹ اترگیا۔ عرب کے لوگ چیچک سے بہت
ڈرتے تھے اور اس بیماری میں مرنے والے کو بہت ہی منحوس سمجھتے تھے اس لیے اس کے
بیٹوں نے بھی تین دن تک اس کی لاش(Dead Body) کو ہاتھ نہیں
لگایامگر اس خیال سے کہ لوگ طعنہ ماریں گے ایک گڑھاکھودکر لکڑیوں سے دھکیلتے ہوئے
لے گئے اور اس گڑھے میں لاش کو گرا کر اوپر سے مٹی ڈال دی اور بعض روایات میں یوں
بھی ہے کہ دور سے لوگوں نے اس گڑھے میں اس قدر پتھر چھینکے کہ ان پتھروں سے اس کی
لاش چھپ گئی۔(المواھب اللدنیة والزرقانی
،غزوہ بدر الکبری ج2 ص 340)
جو کوئی گستاخ ہے سرکار( صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )کا
وہ ہمیشہ کے لئے فِی النّار ہے
(وسائل بخشش )
(چوتھا باب) بدر میں
معجزات مصطفےصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ظہور
وہ عجیب وغریب کام جو عام طور پر یعنی
عادة ناممکن ہوں اور ایسی باتیں اگر نبوت کا دعوی کرنے والے سے اس کی تائید
میں ظاہر ہوں تو ان کو معجزہ کہتے ہیں
۔(کتاب العقائد ص19) قران وحديث میں
انبیاء والمرسلين کے کثیر معجزات کا ذکر
ہے ۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اونٹنی جو پہاڑ سے نکلی تھی۔ حضرت موسی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے
عصا کا سانپ بن جانا ،ہاتھ کا روشن ہو
جانا ، پتھر پر عصا مارنے سے پانی کے چشمے جاری ہوجانا اس طرح حضرت عیسٰی عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دودھ پینے کے
دنوں میں کلام کرنا ، مردوں کو زندہ کرنا ، کوڑھ کے مریضوں کو شفا دینا اور ہمارے آقا محمد مصطفے صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات بے شمار ہیں مثلا چاند کو دو ٹکڑے کرنا، سفر معراج ، انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کردینا، جانوروں اور لکڑی کے ستون کا کلام کرنا ، پرندوں کا
فریاد کرنا اور درختوں، پتھروں کا سجدہ
کرنا وغیرہ الغرض اللہ کے پیارےپیارے رحمت
والے آخری نبی سراپامعجزہ ہیں۔
اسی طرح غزوہ بدر میں بھی کئی معجزات
کا ظہور ہوا جن میں سے کچھ روایت ملاحظہ ہو
1۔ایک مٹھی خاک
جب کفار اور مسلمانوں کی فوجیں ایک
دوسرے کے سامنے ہوئیں تو اللہ پاک کی عطا سے اشیاء عالم پر با اختیار آخری نبی
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک مٹھی خاک کافروں کے چہرے
پر ماری اور فرمایا ’’ شَاہَتِ الْوُجُوْہ ‘‘ یعنی ان لوگوں کے چہرے بگڑ
جائیں۔ وہ خاک تمام کافروں کی آنکھوں میں پڑی اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ
عَنْہُم بڑھ کر انہیں قتل اور گرفتار کرنے لگے۔ مفسرین نے فرمایا کفارِ قریش کی شکست کا اصل
سبب خاک کی وہ مٹھی تھی جو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے پھینکی تھی۔ اسی معجزے
کے بارے میں اللہ پاک پارہ 9 سورةالانفال آیت نمبر 17 میں فرماتا ہے :
وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى “ ترجمہ کنزالایمان:اور اے محبوب وہ خاک جو تم نے
پھینکی تم نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللہ نے
پھینکی۔
(تفسیر طبری ،الانفال، تحت الآیۃ 17 ،203/6)(قرطبی، الانفال، تحت الآیۃ: 17 ،276/4 ،
الجزء السابع )
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ
عَلَیْہِ اس واقعےکی منظرکشی کرتے ہوئے کیا خوب فرماتے ہیں :
میں ترے ہاتھوں کے صدقے کیسی
کنکریاں تھیں وہ
جن سے اتنے کافروں کا دفعتاً منھ پھر گیا
(حدائق بخشش ص53)
2۔حضرت عکاشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی تلوار
جنگ بدر کے دوران جنتی صحابی سیدنا عکاشہ بن محصن رَضِیَ
اللہ عَنْہُ کی تلوار ٹوٹ گئی تو نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ان کو درخت کی ایک ٹہنی دے
کر فرمایا " تم اس سے جنگ کرو" وہ ٹہنی ان کے ہاتھ میں آتے ہی ایک نہایت
نفیس اور بہترین تلوار بن گئی جس سے وہ
عمر بھر تمام لڑائیوں میں جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ اسلام کے پہلے خلیفہ ،جنتی
صحابی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہُ کے دور خلافت میں وہ شہادت
سے سرفراز ہوئے۔(مدارج النبوة، قسم سوم ج2
ص123)
3۔ مبارک لعاب کی برکتیں
علامہ قاضی عیاض مالکی
رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ اپنے مقبول زمانہ کتاب "الشِّفَاءُ بِتَعْرِیْفِ حُقُوْقِ
الْمُصْطَفٰے"میں
لکھتے ہیں کہ جنگ کے دوران جنتی صحابی سیدنا حبیب بن یساف رَضِیَ اللہ
عَنْہُ کے مونڈھے پر ایسی ضرب لگی کہ جس سے مونڈھا کٹ کر الگ ہوگیا
تو دکھیاروں کے حامی و یاور آخری نبی
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس مونڈھے کو اس جگہ پر رکھا اور اس
پر مبارک لعاب( یعنی تھوک لگایا تو وہ مینڈھا بالکل درست ہوگیا (شفاشریف ج1 ص213)
4۔لٹکتا ہوا بازو
جن دو مدنی منوں حضرت معوذ اور معاذ رَضِیَ اللہ عَنْہُما نے ابو
جہل کو واصل جہنم کیا ان دونوں میں سے حضرت معاذ بن عفراء رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا
فرمان ہےکہ میں اپنی تلوار لہراتا ہوا
ابوجہل پرٹوٹ پڑا میرے پہلے وارسے اس کی ٹانگ کی پنڈلی کٹ کر دور جا گری۔ اس کے
بیٹے عکرمہ (جو بعد میں مسلمان ہوئے) نے میری گردن پروار کیا مگر اس سے میرابازو
کٹ گیا اور کھال کے ایک تسمے کے ساتھ لٹکنےکگا۔ سارا دن لٹکتے ہوئے باز کو سنبھالے
میں دوسرے ہاتھ سے دشمن پرتلوار چلاتا رہا۔ لٹکتا باز لڑنے میں رکاوٹ بن رہا تھا۔
میں نے اسے پاؤں کے نیچے دبا کر کھینچا جسم سے جلد (یعنی کھال ) کا تسمہ ٹوٹ گیا
اور میں اس سے آزاد ہو کر پھر کفار کے ساتھ مصروف جنگ ہو گیا۔ علامہ قاضی عیاض
مالکی رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ نے ابن وہب رضی الله تعالی عنہ سے روایت کی ہےکہ
جنگ ختم ہونے کے بعد سیدنا معاذرضی الله
تعالی عنہ اپنا کٹا ہوا بازو لے کر بارگاہ رسالت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئے ۔ الله پاک کے حبیب ، طبیبوں کے طبیب صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
لعاب دہن (یعنی مبارک منہ کا تھوک شریف) لگا کر وہ کٹا ہوا بازو پھر کندھے کیساتھ
جوڑ دیا۔حضرت معاذ کا زخم ٹھیک ہو گیا اور
حضرت معاذ اسلام کے تیسرے خلیفہ، ،سیدنا عثمان غنی رضی الله تعالی عنہ کے عہد
خلافت تک زندہ رہے۔(مدارج النبوة ج 2ص 87)
5۔ آنکھ بالکل درست ہوگئی
جنگ کے دوران ایک صحابی رسول حضرت
قتادہ بن نعمان رَضِیَ اللہ عَنْہُ کی
آنکھ زخمی ہوگئی ،چوٹ لگنے کے باعث وہ
اپنی جگہ سے نکل کر رخسار پر ڈھلکنے لگی لوگوں نے چاہا کہ اسےکاٹ ڈالے لیکن وہ بارگاہ رسالت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئے اور
شکایت کی تو شافع روز جزا ، دافع جملہ
بلا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے اپنی جگہ دبا کر اپنا مبارک لعاب لگایا تو وہ انکھ فی الفور اس طرح
ٹھیک ہو گئی کہ دیکھنے والے دیکھ کر حیران رہے جاتے اور نہ پہچان پاتے کہ دونوں میں سے صحیح آنکھ
کون سی ہے؟ اور زخمی آنکھ کونسی ہے؟(عمدةالقاری، کتاب المغازی، ج12 ،ص46 الحدیث3997)(الخصائص الکبری ص328۔
ممتاز اکیڈمی لاہور )
6۔ کھجور کی شاخ تلوار بن گئی
صحابی رسول، سیدنا سلمہ بن اسلم بن
حریش رَضِیَ اللہ عَنْہُ کی تلوار بدر کے
دن ٹوٹ گئی اور وہ بغیر ہتھیار کے رہے گئے تو اللہ پاک کی عطا سے مالک ومختار نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہ شاخ انہیں عطا فرمائی جو اس
وقت آپ کے ہاتھ میں تھی۔ اور کھجور کی ٹہنی تھی ۔حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا۔ اس سے لڑو تو لڑتے وقت وہ تلوار بن گئی اور وہ تلوار بدستور ان کے پاس رہی حتی کہ وہ
شہید ہوگئے ۔(الخصائص الکبری ص 331۔ ممتاز اکیڈمی لاہور )
(پانچواں باب )فضائل أصحاب بدر
آخری نبی ، مکی مدنی ، محمد عربی
صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم
کائنات کی وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہیں رب کائنات
عَزَّوَجَلَّ نے خود اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی
صحبت کیلئے چنا (Select)ہے۔ اللہ پاک
کے شان و عظمت والے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے
پیارےصحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم کی
شان تویہ ہےکہ ان کی عزت کر نےکا خود آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نےحکم دیا،انہے امت میں سب سے زیادہ عزت والا فرمایا،انہے دیکھنے والوں
کو آگ نہیں چھوئے گی ،ان سے محبت کرنا
حضور سے محبت کرنا ہے، صحابہ اس امت کے بہترین افراد ہیں،ان کا دفاع کرنے والا
قیامت کے دن اللہ پاک کے آخری نبی کی
حفاظت میں ہوگا، ہر صحابی امت کیلئے امان ہے، جو صحابی جس جگہ وفات پائے
بروز قیامت وہاں کے رہنے والوں کا پیش
روا(یعنی رہنما-Leader)اور ان کیلئے
نور ہوگا۔ تمام صحابہ کرام جنتی ہیں۔ اور وہ جہنم کی ہلکی سی آواز بھی نہیں سنے
گے۔(احادیث مبارکہ کی روشنی سے لیے گئے
مدنی پھول)
صحابہ وہ صحابہ جن کی ہردن عید ہوتی تھی
خدا کا قرب حاصل تھا نبی کی دید ہوتی تھی
خود اللہ پاک نے قرآن کریم میں پارہ 27
سورةالحدید ایت 10 میں صحابہ کرام کی شان
بیان کرتے ہوئےارشاد فرمایا
وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا
تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠
ترجمۂ کنز الایمان:اور ان سب سے اللہ
جنت کا وعدہ فرماچکا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔
اسی طرح پارہ 19 سورةالنمل آیت 59 میں
فرمایا :قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ
الَّذِیْنَ اصْطَفٰى
ترجمۂ کنز الایمان:تم کہو سب خوبیاں
اللہ کو اور سلام اس کے چنے ہوئے بندوں پر
صحابی ابن صحابی، جنتی ابن جنتی سیدنا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ
عَنْہُما ایت مبارکہ کے اس حصے سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰى (
ترجمہ کنزالایمان: سلام اس کے چنے ہوئے بندوں پر)کی تفسیر میں فرماتے ہیں "
چنے ہوئے بندوں سے نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب
رَضِیَ اللہ عَنْہُم مراد ہیں "(تفسیر طبری جلد 10 ص 4 رقم 27060)(ہر صحابی نبی جنتی جنتی ص9)
محمد مصطفے، احمد مجتبٰی صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : میرے اصحاب کو برا نہ کہو اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی
احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو وہ ان کے ایک مد (ایک کلو میں 40 گرام کم)
کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس مد کے آدھے ۔(بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی،جلد 5 صفحہ 461 الحدیث 3673)
نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اَصْحَابِی کَالنُّجُوْمِ فَبِا یِّھِمْ
اِقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم
ان میں سے جس کسی کی اقتدار کروگے فلاح وہدایت پاجاؤگے(مشکاة المصابیح ، کتاب المناقب ،باب مناقب الاصحابة)
تمہارے لیے جنت واجب ہو
چکی :
غزوہ بدر میں شرکت کر نے والے صحابہ
کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم جنہیں دوسرے پر
فضیلت حاصل ہے۔خاص ان کے حق میں جو احادیث آئی ہیں وہ بہت زیادہ ہیں ۔ سید عالم
،نور مجسم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے بارے میں خبر دی کہ
اللہ نے ان کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دیے ہیں نیز مالک جنت ، قاسم نعمت صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
اصحاب بدر رَضِیَ اللہ عَنْہُم کو جنت کی
بشارت دی. چنانچہ سید المرسلین ، خاتم النّبیین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کا فرمان مغفرت نشان ہے لَعَلَّ اللہَ
اطَّلَعَ اِلٰی اَھْلِ بَدْرِِ فَقَالَ : اِعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ
لَکُمٌ الجَنَّةُ اَوْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُم
ترجمہ بے شک الله کریم اہل بدر سے واقف ہے اور اس نے یہ فرما دیا ہے
تم اب جو عمل چاہو کرو بلاشبہ تمہارے لیے جنت واجب ہو چکی ہے یا (یہ فرمایا )میں
نے تمہیں بخش دیا( بخاری ، کتاب المغازی، باب فضل من شهد بدرا ،ج3 ،ص12 ، الحدیث 3983)
جہنم میں نہیں جائیں گے
بعطائے پروردگار دو عالم کے مالک ومختار آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا
فرمان بخشش نشان ہے۔اِنِّی لَارْجُو
اَلَّا یَدْخُلَ النَّارَ اِنْ شَاءَاللہُ مِمَّنْ شَھِدَ بَدْرََا وَ
الْحُدَيْبِيَةَ ترجمہ مجھے امید ہے کہ جو لوگ بدر اور حدیبیہ میں شریک تھے ، ان میں سے کوئی بھی ان شاء
اللہ جہنم میں نہیں جائے گا۔(ابن ماجہ ، ج 4 ،ص508 ،الحدیث
4281)
غزوہ بدر میں شریک ہونے
والے ملائکہ کی فضیلت
بدر میں تشریف لانے والے فرشتے دوسرے
فرشتوں سے افضل ہیں کہ اللہ پاک نےان پر خاص نشان لگا دئیے تھے جن سے وہ
دوسروں سے ممتاز ہوگئے اور احادیث میں اس کی صراحت بھی موجود ہے کہ بدر میں اترنے
والے فرشتے دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں۔چنانچہ
حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے آخری نبی صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں عرض کیا" مَا تَعُدُّوْنَ اَھْلَ
بَدْرِِفِیْکُم یعنی آپ حضرات اپنوں میں بدر والوں کو کیسے
شمار کرتے ہیں؟" فرمایا حضور صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا "مِنْ أَفْضَلِ الْمُسْلِمِیْن
یعنی مسلمانوں میں افضل یا اس طرح کی اور
بات فرمائی"۔ حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی یوں ہی فرشتوں میں وہ فرشتے جو بدر
میں حاضر ہوئے (یعنی ہم انہیں فرشتوں میں افضل شمار کرتے ہیں)۔(بخاری، کتاب المغازی، باب شھود الملائكة بدرا )
فاروق اعظم رَضِیَ اللہ
عَنْہُ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے
بدری صحابہ کی فضیلت کے بارے میں ایک واقعہ ملاحظہ ہو۔ جب
نبی پاکِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ فتح مکہ کی تیاری فرمارہے تھے ۔تو جنتی صحابی سیدنا حاطب بن ابی بلتعہ رَضِیَ اللّٰہُ
عَنْہُ نے کسی عورت کو ایک خط دے کر مکہ
بھیج دیا۔ اس خط کے ذریعے حضرت حاطب رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے مکے والوں کو اس حملے
کی خبر دینا چاہی ۔ لیکن غیب دان آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے صحابہ کرام کو بھیج کر راستے
سے اس خط کو واپس منگوالیا ۔ سرکار دوعالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے حضرت حاطب بن بلتعہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ کو بلوایا اور ان سے اس کی وجہ دریافت فرمائی سیدنا حاطب بن
بلتعہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے عرض کی: یارسول
اللہ ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،
میں جب سے اسلام لایا ہوں تب سے کبھی میں نے کفر نہیں کیا اور جب سے حضور کی
نیاز مندی مُیَسَّر آئی ہے تب سے کبھی آپ کے ساتھ خیانت نہ کی اور جب سے اہلِ مکہ
کو چھوڑا ہے تب سے کبھی اُن کی محبت دل میں نہ آئی ،لیکن واقعہ یہ ہے کہ
میں قریش میں رہتا تھا اور اُن کی قوم میں سے نہ تھا، میرے سوادوسرے مہاجرین
کے مکہ مکرمہ میں رشتہ دار(Relatives)ہیں جو ان کے
گھر بار کی نگرانی کرتے ہیں(لیکن میرا وہاں کوئی رشتہ دار نہیں )مجھے اپنے گھر
والوں کے بارے اندیشہ تھا اس لئے میں نے یہ چاہا کہ میں اہلِ مکہ پر کچھ
احسان رکھ دوں تاکہ وہ میرے گھر والوں کو نہ ستائیں اور یہ بات میں یقین سے جانتا
ہوں کہ اللہ پاک اہلِ مکہ پر عذاب نازل فرمانے والا
ہے،میرا خط انہیں بچا نہ سکے گا۔اللہ پاک کے محبوب، دانائے غیوب صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُن کا یہ عذر قبول فرمایا
اور ان کی تصدیق کی۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے عرض
کی:یارسول اللہ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،
مجھے اجازت دیجئے تاکہ اس منافق کی گردن ماردوں ۔ حضور
پُرنور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےفاروق اعظم رَضِیَ
اللہ عَنْہُ سے فرمایا۔اِنَّهُ شَھِدَ بَدْراً ،وَمَا یُدْرِيكَ لَعَلَّ اللہَ
اطَّلَعَ اِلٰی اَھْلِ بَدْرٍ فَقَالَ : اِعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ
لَکُمٌ الجَنَّةُ اَوْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُم۔ ترجمہ یہ
(یعنی حضرت حاطب بن بلتعہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ)بدر میں شریک ہوئے ہیں تمہیں کیا خبر
اللہ پاک نے بدر والوں پر توجہ فرمائی پس فرمایا کہ جو چاہو کرو تمہارے لیے جنت واجب ہوچکی ہے۔ فَدَمِعَتْ عَیْنَا عُمَر یعنی یہ سن کر فاروق اعظم رَضِیَ اللہ عَنْہُ
کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر ، باب الجاسوس۔
اور۔ کتاب المغازی ، باب غزوة فتح مختصرا)(مسلم شریف، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل اھل بدر مختصر )(تفصیلی واقعہ
جاننے کیلئے صراط الجنان ج10 ص 99-100 کا مطالعہ کیجئے)
فضیلت صحابہ میں اہل بدر
کا مرتبہ
بہاد شریعت میں ہے:خلفائے اربعہ راشدین
کے بعد بقیہ عشرۂ مبشَّرہ و حضرات حسنین و اصحابِ بدر و اصحابِ بیعۃ الرضوان کے
لیے افضلیت ہے اور یہ سب قطعی جنتی ہیں ۔(بہار شریعت ،ج1(الف) ، ص249)
مجلس مصطفے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
میں بدری صحابہ کی تعظیم
مصطفے جان رحمت، شمع بزم ہدایت صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غزوہِ بدر میں حاضر ہونے والے صحابہ
ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کی عزت کرتے تھے۔ چنانچہ ایک روز چند بدری
صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ایسے وقت پہنچے جب کہ مجلس
شریف بھر چکی تھی ،اُنہوں نے پیارے پیارے
آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے کھڑے ہو کر سلام عرض کیا۔
نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سلام کاجواب دیا، پھر اُنہوں نےحاضرین کو سلام
کیا تواُنہوں نے جواب دیا، پھروہ اس انتظار میں کھڑے رہے کہ اُن کیلئے مجلس شریف
میں جگہ بنائی جائے مگر کسی نے جگہ نہ دی ،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ چیزگراں گزری تو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے قریب والوں کو اُٹھا کر اُن کیلئے جگہ بنا دی، اُٹھنے
والوں کو اُٹھنا شاق ہوا تو اس پرسورةالمجادلة کی ایت نمبر 11 نازل ہوئی چنانچہ ارشاد فرمایا
یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قِیْلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجٰلِسِ
فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللّٰهُ لَكُمْۚ-وَ اِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا
یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْۙ-وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا
الْعِلْمَ دَرَجٰتٍؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(۱۱)
ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو جب
تم سے کہا جائے مجلسوں میں جگہ دو تو جگہ دو اللہ تمہیں جگہ دے گا اور جب کہا جائے
اٹھ کھڑے ہو تو اُٹھ کھڑے ہو اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا
گیا درجے بلند فرمائے گا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔ (تفسیر
خازن، ج4 ، ص 240 )
بزرگانِ دین کی تعظیم
کرنا سنت ہے
اے عاشقان صحابہ واہل بیت! جہاں اس آیت سے بدری صحابہ کی
فضیلت واضح طور پر ظاہر ہے وہی اس آیت کے شانِ نزول سے یہ بھی معلوم ہورہا ہے بزرگانِ دین کے لئے جگہ چھوڑنا اور ان کی تعظیم (Respect)کر نا جائز
بلکہ سنت ہے حتّٰی کہ مسجد میں بھی ان کی تعظیم کر سکتے ہیں کیونکہ اس ایت مبارکہ
کے شان بزول میں مذکورہ واقعہ مسجد ِنبوی شریف میں پیش آیا تھا۔ احادیث مبارکہ میں بھی
بزرگان دین اور دینی پیشواؤں کی تعظیم و توقیر کا حکم دیا گیا
چنانچہ جنتی صحابی، حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، اسلام کے سب سے بڑے مبلغ ، رسول اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جن سے تم علم حاصل کرتے ہوان کے لئے
عاجزی اختیار کرو اور جن کو تم علم سکھاتے ہو ان کے لئے تواضع اختیار کرو اور
سرکَش عالِم نہ بنو۔ (الجامع لاخلاق الراوی، باب توقیر المحدّث طلبۃ العلم۔۔۔
الخ، تواضعہ لہم، ص230 ، الحدیث: 804 )
حارثہ (رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہ) جنت الفردوس میں ہے
شہداء بدر ہی کی فضیلت پر ضمناً دلالت
کرنے والی یہ حدیث بھی ملاحظہ ہو۔چنانچہ جنتی صحابی حضرت انس رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں
’’غزوۂ بدر کے دن حضرت حارثہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ شہید ہو گئے تو ان کی
والدہ نے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر
ہو کر عرض کی : یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ مجھے حارثہ کتنا پیارا تھا،
اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کروں اور ثواب کی امید رکھوں اور اگر خدانخواستہ
معاملہ برعکس ہے تو آپ دیکھیں گے کہ میں کیا کرتی ہوں۔ اللہ پاک کے عطا سے غیب
دان آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد
فرمایا ’’تجھ پر افسوس ہے ،کیا تو پگلی ہو گئی ہے ؟کیا خدا کی ایک ہی جنت ہے؟ اس
کی جنتیں تو بہت ساری ہیں اور بے شک حارثہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہُ) جنت الفردوس میں ہے۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب فضل
من شہد بدرًا، 12/3 ،الحدیث:3942)
اہل بدر کے ناموں کی وجہ
سے دعاؤں کا قبول ہونا
جن نفوس قدسیہ نے اللہ پاک ، اس کے
آخری رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت اور دین اسلام کی سر بلندی کیلئے اپنی
جانوں کی پرواہ کیے بغیر دشمن کا مقابلہ
کیا اور صبر واستقلال کے ساتھ ڈٹے رہے آخر
کار کفار کا دبدبہ اور عزت فنا کردی تو اللہ پاک نے ان ہستیوں کو وہ مرتبہ عطا
فرمایا کہ جن کے مقدس ناموں سے لوگوں کی مشکلات دور ہوتی اور حاجتیں بر آتی ہیں چنانچہ بعض صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ بہت سے
اولیاء کو ولایت کا مرتبہ اہل بدر کے نام پڑھنے کی وجہ عطا ہوا اور بہت سے بیماروں
نے بیماری سے شفا پانے کیلئے اللہ پاک کی
بارگاہ میں ان کے ناموں کو وسیلہ پیش کیا تو اللہ کریم نے انہیں عافیت عطا فرمائی۔
ایک بزرگ کا بیان ہے کہ میں نے جس بیمار
کے بھی سر پر ہاتھ رکھ کر خلوص نیت کے
ساتھ اہل بدر کے نام پڑھے اللہ پاک نے اسے عافیت اور شفا سےنوازا اور اگر کسی کی
موت کا وقت اچکا ہوتا تو اللہ کریم نے اس
پر نزع کی سختیوں میں تخفیف فرمائی ۔
(اسماء اھل بدر ، للبقاعی۔ ورقه6۔ اور سیف النصر ، للسنوسی۔ ص29)( تلخیص
فضائل سادتنا البدریة بنام اہل بدر کے فضائل ،ص55 ، جمعیت اشاعت اہلسنّت، کراچی)
چنانچہ مرآة المناجیح میں ہے کہ اصحاب بدر رَضِیَ اللہ
عَنْہُم کے نام پڑھ کر دعائیں کی
جائیں ان شاء اللہ قبول ہوں ( مرآة المناجیح ،ج 8 ، ص 567)
گھر کی حفاظت کا نسخہ
کتابوں میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں
کہ بدری صحابہ کے نام پڑھنے سے بڑی بڑی
مشکلات ٹل گئی چنانچہ اسی ضمن میں ایک
حکایت ملاحظہ ہو ایک بزرگ حج کے ارادے سے
بیت اللہ شریف کی طرف نکلے تو انہوں نے
اصحاب بدر کے نام ایک کاغذ (paper) میں لکھے اور
وہ کاغذ دروازے کی پٹن میں رکھ دیا ۔چور اس کے گھر آئے تاکہ جو کچھ گھر می۔ ہے
نکال لیں۔جب چھت پر چڑھے تو باتوں اور چھنچھناہٹ کی آوازیں سنی تو واپس چلے گئے
۔دوسری رات کو آئے تو بھی انہوں نے اسی طر آوازیں سنی تو تعجب کیا اور واپس لوٹ
آئے یہاں کہ گھر کا مالک حج سے واپس آگیا
تو چوروں کا سردار آیا اور کہنے لگا میں تجھ سے اللہ پاک کے واسطے سے پوچھتا ہوں یہ بتا کہ تو نے گھر کی حفاظت کیلئے کیا کیا
تھا۔تو اس۔ ے کہا میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ میں نے آیت الکرسی کی آخری آیت
وَ لَا
یَءُوْدُهٗ حِفْظُهُمَاۚ-وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ۔ لکھی اور
ساتھ اصحاب بدر کے نام لکھے یہ وہ ہیں جسے
میں نے اپنے گھر می رکھ گیا تھا ۔(دعاء بتوسل اسمائے اھل بدر، ص23 ،جمعیت اشاعت
اہلسنّت، کراچی)
نام: ”عبدالحق“کنیت ”ابو المجد“اور لقب ”محدث دہلوی “ہے۔آپ کی پیدائش ہند کے
مشہور شہر دہلی میں بروز جمعہ 1محرم الحرام 958ھ مطابق 9جنوری 1551ء کو ہوئی۔(شیخ عبد الحق محدث دہلوی موضوعاتی مطالعہ، ص91،محدثین
عظام حیات وخدمات، ص621)
والدِ ماجد:آپ کے والد شیخ سیف الدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ خوش طبع صوفی
بزرگ اور بلند پایہ شاعر تھے۔ 500 اشعار پر مشتمل مثنوی”سلسلۃ الوصال“ایک دن میں
تحریر کی۔ (اخبار الاخیار،ص614،اللہ کے خاص بندے، ص679)
تعلیم اور شوق علم:آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کی ۔انہوں نے آپ کی
تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔تھوڑی مدت میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔اپنے والد سے
ابتدائی تعلیم پانے کے بعد گھر سے 2میل کے فاصلے پر مدرسہ دہلی میں داخلہ لیا۔سخت
سردی اور گرمی کے موسم میں بھی روزانہ دو مرتبہ مدرسہ جاتے۔آپ کو حصول علم کا ایسا
شوق تھا کہ خود فرماتے ہیں:”علم نحو میں کافیہ،لب الالباب اور ارشاد وغیرہ کے بعض
اوقات ایک ہی مجلس میں سولہ(16)سولہ(16)صفحات پڑھ جاتا اور شوق کا یہ حال تھا کہ حاشیہ والی جب
کوئی کتاب میسر آجاتی تو وہ کتاب میں کسی استاد سے پڑھنے کے بجائے اکثر اپنے آپ ہی
پڑھ لیا کرتا تھا اور سمجھ بھی لیتا تھا۔علم حاصل کرنے کی شوق کی وجہ سے کبھی وقت پر کھانا کھایا نہ
سویا۔“آپ نے17یا 18سال کی عمر میں علوم ظاہری سے فراغت حاصل ۔پھر ماواء النہر چلے
گئے اور وہاں کے بڑے بڑے علما سے فیض حاصل کیا۔اس کے بعد درس وتدریس اور تصنیف وتالیف میں مشغول ہوگئے۔(اخبار الاولیاءص623، اللہ کے خاص بندے،ص680، شیخ عبد الحق محدث دہلوی موضوعاتی
مطالعہ، ص92)
بیعت:بچپن میں اپنے والد شیخ سیف الدین سے سلسلہ قادریہ میں
بیعت ہوئے ۔اس کے علاوہ شیخ موسٰی پاک شہید اور شیخ عبد الوہاب متقی رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہِمَا سے بھی اکتساب فیض کیا۔شیخ خواجہ باقی بِاللّٰہ سے سلسلہ نقشبندیہ میں خلافت حاصل کی۔آپ کو
سلسلہ قادریہ کے بانی حضور غوث اعظم رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ سے بے پناہ عقیدت اور خصوصی تعلق تھا۔خود فرماتے
ہیں:”مجھے حضور غوث پاک رَحْمَۃُ اللہِ
عَلَیْہ نے خواب میں حضور نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے
اشارے پر بیعت کیا۔“ایک جگہ لکھتے ہیں :”میرا مرکز اعتماد ان پر ہے جن کا قدم
اولیاء کی گردنوں پر ہے۔“(اللہ کے خاص بندے،ص680، شیخ عبد الحق محدث دہلوی موضوعاتی
مطالعہ، ص98،تذکرہ مشائخ قادریہ،ص155،اخبار
الاخیار،ص628)
دینی خدمات: آپ کے دور میں اکبر بادشاہ کے گمراہ کن نظریات دین
الٰہی کے نام سے پھیل چکے تھے اور بہت سے لوگ اس فریب میں آکر حق کی راہ سے ہٹ گئے
تھے۔آپ نے خاموشی سے دہلی میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی اور درس وتدریس کے ساتھ وعظ
کا سلسلہ شروع کردیا ۔اس کافائدہ یہ ہوا کہ عام لوگوں کے دلوں سے گمراہی والے نظریات دور ہونے لگے اور یوں آپ نے دین الٰہی
کا فتنہ ختم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔آپ نے 30سے زیادہ علوم پر 134سے زائد
کتابیں لکھیں۔اس کے علاوہ 150 سے زائد نصیحت بھرے وہ خطوط بھی ہیں جو آپ نے اپنے
دوستوں،حکمرانوں،علما،صوفیا اور شاگردوں کو لکھے۔اکبر کے مرنے کے بعد جہانگیر نے
تخت پر بیٹھتے ہی ایک قاصد آپ کی خدمت میں بھیجا کہ دین سے متعلق کچھ معلومات
فراہم کریں ۔آپ نے” نوریہ سلطانیہ“ کتاب لکھ کر بادشاہ کی تربیت فرمائی۔آپ نے چار
طریقوں سے تبلیغ اسلام کا مشن جاری رکھا:(1)اپنی اولاد کو ایسی تربیت دی کہ وہ آپ کےمشن
کو جاری رکھ سکے۔(2)شاگردوں کو ہندوستان اور بیرون ملک اشاعت اسلام کے لئے روانہ
کیا۔ (3) اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کے لئے قدیم وجدید موضوع پر کتابیں
لکھیں۔(4)علماء و مشائخ،حکمرانوں اور بادشاہوں سے خط وکتابت کرکے رابطہ رکھا۔(اللہ کے خاص
بندے،ص682، شیخ عبد الحق محدث دہلوی موضوعاتی مطالعہ، ص239،240)
وصال:آپ کا انتقال بروزجمعہ 22ربیع الاول1052ھ مطابق 20جون 1642ء
کو ہوا۔مزار مبارک دہلی میں واقع ہے۔(شیخ
عبد الحق محدث دہلوی موضوعاتی مطالعہ،ص97،440،تذکرہ مشائخ قادریہ،ص161)
از:محمد گل فراز عطاری مدنی(اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)
اقوام عالَم کو درسِ صفائی:
سولہویں صدی عیسوی تک یورپ کے
باشندے صفائی ستھرائی اور طہارت وپاکیزگی
سے ناواقف تھے ۔گندگی سے گھن کھانا تو دور کی بات ہے وہ تو جس مکان میں سوتے تھے
اسی میں اپنے پالتوجانور باندھتے تھےاور گھر کے باہر کھلی گلیوں میں قضائے حاجت
کرتے تھے ۔روشنی کا انتظام نہ ہونے کے باعث اگر کوئی اندھیرا چھاجانے کے بعد گھر
سے باہر نکلتا تونجاست سے آلودہ ہوکر واپس آتا۔ مکان اورگلی کوچوں کی گندگی کے
ساتھ ساتھ ان کے جسم اورروح بھی پراگندہ تھے ۔نہ انہیں قضائے حاجت وجنابت کے بعد
استنجاوطہارت کا شعور تھا اور نہ ہی بلند پایہ اخلاق کی معرفت تھی ۔یہ تو اسلام
کانور تھا جس نے اہل یورپ کوروشنی دی،انہیں نفاست وپاکیزگی کا طریقہ اوررہن سہن کا
سلیقہ بتایا، انسانی فطرت کے تقاضوں سے آشنا کیا اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے روشناس کروایا۔اس کی وجہ علامہ عبدالرسول ارشد(گولڈ میڈلسٹ)کی زبانی
ملاحظہ کیجئے :جب مسلمانوں کے شہر اپنی صفائی اور خوبصورتی کی وجہ سے دل ونگاہ کو
اپنی طرف کھینچ رہے تھے ،اس وقت یورپ کے شہروں میں گندگی،غلاظت اور تاریکی کے سوا
کچھ نہ تھا۔۔اور۔۔یہ انسانی فطرت ہے کہ اندھیروں میں بھٹکنے والا انسان اس طرف
دوڑتا ہے جہاں اسے روشنی کی کرن نظر آتی ہے۔اہل یورپ نے بھی یہی کچھ کیا۔جب انہیں
اپنے ہاں ہر طرف تاریک اور ظلمت نظر آئی تو انہوں نے علم، تہذیب،اخلاق اور خوش
حالی کا درس لینے کے لئے مسلمانوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔
طہارتِ امت کافریضہ:
دین مبین نے نہ صرف اہل یورپ کو
روشنی سے نوازابلکہ اپنے آفاقی پیغام اور فطرت سے کامل ہم آہنگی کی بدولت دنیا
کی تمام ہی اقوام کونور بانٹا ہے۔اس مضمون میں ہم اسلام کے صرف اس پہلو پر گفتگو
کریں گے کہ توحیدورسالت کی دعوت کے ساتھ ساتھ اسلام نے انسان کو نفاست وپاکیزگی کا
تصور دیا اور اس پر کاربند رہنے کی تلقین کی ہے اور حضور خاتم الانبیاء صلی اللہ
علیہ وسلم کی بعثت کے
عظیم مقصد میں یہ بھی شامل تھا کہ امت کو نجاست وگندی سے پاک فرمائیں۔حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ
السلام نے تعمیرکعبہ کے بعد جو دعا
فرمائی اس میں یہ بھی تھا : اے ہمارے رب ! ان میں ایسا رسول بھیج جو انہیں خوب
ستھرا فرمادے۔(پ۱،البقرۃ:۱۲۹) مفسرقرآن
ابوالحسن علاء الدین علی بن محمد المعروف امام خازن رحمۃ اللہ علیہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یعنی ایسا رسول جو
انہیں شرک، بت پرستی، ہرقسم کی نجاست وگندگی،گھٹیاحرکتوں اور کوتاہیوں سے پاک
کردے۔ (تفسیرخازن،ج۱،ص۹۲)پھر یہ کہ اسلام دین فطرت ہے اور
صفائی ستھرائی اور طہارت وپاکیزگی فطرت کا تقاضا ہے۔حضورنبی طاہر ومطہر صلی اللہ
علیہ وسلم کا ارشاد
گرامی ہے: الفطرۃ خمس الختان والاستحداد وقص الشارب وتقلیم الأظفار ونتف
الآباط یعنی پانچ چیزیں فطرت سے ہیں:(۱) ختنہ کرنا (۲)موئے زیر ناف صاف
کرنا(۳) مونچھیں پست کرنا (۴) ناخن تراشنا (۵) اور بغل کے بال اکھیڑنا۔(صحیح بخاری،ج۴، ص۷۵، الحدیث:۵۸۹۱)
مسلمان کا اسلامی نشان:
صفائی ستھرائی کی اہمیت وافادیت کو اُجاگر کرتے ہوئے شیخ الحدیث حضرت
علامہ عبدالمصطفی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:صفائی ستھرائی کی مبارک عادت بھی مردوں اور عورتوں کے
لیے نہایت ہی بہترین خصلت ہے جو انسانیت کے سر کا ایک بہت ہی قیمتی تاج ہے۔ امیری
ہو یا فقیری ہر حال میں صفائی و ستھرائی انسان کے وقار و شرف کا آئینہ دار اور
محبوبِ پروردگار ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کا یہ اسلامی نشان ہے کہ وہ اپنے بدن، اپنے
مکان و سامان، اپنے دروازے اور صحن وغیرہ ہر ہر چیز کی پاکی اور صفائی ستھرائی کا
ہر وقت دھیان رکھے۔ گندگی اور پھوہڑ پن انسان کی عزت و عظمت کے بدترین دشمن ہیں اس
لیے ہر مردو عورت کو ہمیشہ صفائی ستھرائی کی عادت ڈالنی چاہیے۔ صفائی ستھرائی سے
صحت و تندرستی بڑھتی رہتی ہے اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں بیماریاں دور ہو جاتی ہیں۔
حدیث شریف میں ہے کہ ’’اﷲتعالیٰ پاک ہے اور
پاکیزگی کو پسند فرماتا ہے‘‘۔(مشکوٰۃ
المصابیح ،ج۲،ص۴۹۷، الحدیث
: ۴۴۸۷) رسول
اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کو
پھوہڑ اور میلے کچیلے رہنے والے لوگوں سے بے حد نفرت تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام علیہم
الرضوان کو ہمیشہ صفائی ستھرائی
کاحکم دیتے رہتے اور اس کی تاکید فرماتے رہتے تھے۔پھوہڑ عورتیں جو صفائی ستھرائی
کا خیال نہیں رکھتی ہیں وہ ہمیشہ شوہر کی نظروں میں ذلیل وخوار رہتی ہیں بلکہ بہت
سی عورتوں کو ان کے پھوہڑ پن کی وجہ سے طلاق مل جاتی ہے اس لئے عورتوں کو صفائی
ستھرائی کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے۔(جنتی زیور،ص۱۳۹)
پاکیزگی آدھا ایمان:
یہ بھی ضروری
ہے کہ بندہ ہر وقت بننے سنورنے ہی میں نہ لگا رہے کہ اس کی بھی ممانعت ہے بلکہ شرع
میں جتنی صفائی مطلوب ہے وہ حسب قدرت وطاقت بجالائے ۔ ارشادِ رسول صلی اللہ
علیہ وسلم ہے : تنظفوا بکل ما استطعتم فان اللّٰہ بنی الاسلام
علی النظافۃ ولن یدخل الجنۃ الا کل نظیف ترجمہ:تم سے جتنا ممکن ہو صفائی رکھو
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بنیاد
صفائی پر رکھی ہے اور جنت میں وہی داخل ہوگا جو صاف ستھر اہوگا۔(جمع
الجوامع،ج4،ص: 115) اسلام نے اپنے ماننے
والوں کو ہر طرح کی صفائی کا حکم دیا ہے خواہ جسمانی ہو یا روحانی ،فرد کی ہو یا
معاشرے کی ، گھر کی ہو یا مسجد کی یا پھر محلے کی ہو، الغرض اسلام جسم وروح ،دل
ودماغ ،قرب وجواراورتہذیب وتمدن کو ستھرا رکھنے کا درس دیتا ہے ۔ اسے ہر جگہ ترتیب
وسلیقہ اور نفاست وعمدہ مطلوب ومحبوب ہے اور گندگی وناپاکی اور غلاظت ونجاست ناپسند ہے۔ صفائی کی اہمیت بتاتے ہوئے حضورنبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:’’الطھورنصف الایمان یعنی پاکیزگی آدھا ایمان ہے۔‘‘ (سنن الترمذی ،ج ۵،ص۳۰۸،الحدیث: ۳۵۳۰)
جسمانی صفائی کتنے دن بعد ؟
جسم کی صفائی کے متعلق اول الذکر حدیث فطرت میں پانچ طرح کی
صفائی کو بیان کیا گیا ہے،اول ختنہ کہ سنت ہے اور یہ شعار اسلام میں ہے کہ مسلم وغیرمسلم میں اس سے امتیاز ہوتا ہے
اسی لیے عرف عام میں اس کو مسلمانی بھی کہتے ہیں۔ختنہ کی مدت سات سال سے بارہ سال
کی عمرتک ہے اور بعض علما نے یہ فرمایا کہ ولادت سے ساتویں دن کے بعد ختنہ کرنا
جائز ہے۔(بہارشریعت،ج۳،ص۵۸۹)باقی
چارچیزوں کے متعلق صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی حنفی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: ہرجمعہ کو اگر
ناخن نہ ترشوائے تو پندرھویں دن ترشوائے اور اس کی انتہائی مدت چالیس ۴۰ دن ہے اس کے بعد نہ ترشوانا ممنوع ہے۔ یہی حکم مونچھیں
ترشوانے اور موئے زیر ِ ناف دور کرنے اور بغل کے بال صاف کرنے کا ہے کہ چالیس دن
سے زیادہ ہونا منع ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے، کہتے ہیں کہ’’ناخن ترشوانے اور مونچھیں
کاٹنے اور بغل کے بال صاف کرنے میں ہمارے لیے یہ میعاد مقرر کی گئی تھی کہ چالیس
دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔‘‘(صحیح
مسلم ، ص۱۵۳،الحدیث:۲۵۸)مزید فرماتے ہیں : موئے زیر ناف دور کرنا سنت ہے۔ ہر ہفتہ میں
نہانا، بدن کو صاف ستھرا رکھنا اور موئے زیر ناف دور کرنا مستحب ہے اور بہتر جمعہ
کا دن ہے اور پندرھویں روز کرنا بھی جائز ہے اور چالیس روز سے زائد گزار دینا
مکروہ و ممنوع۔ موئے زیر ناف استرے سے مونڈنا چاہیے اور اس کو ناف کے نیچے سے شروع
کرنا چاہیے اور اگر مونڈنے کی جگہ ہرتال چونا یا اس زمانہ میں بال اڑانے کا صابون
چلا ہے، اس سے دور کرے یہ بھی جائز ہے(بال
صفاپاؤڈراور کریم وغیرہ بھی اسی حکم میں داخل ہیں)، عورت کو یہ بال اکھیڑ ڈالنا سنت ہے۔(بہارشریعت،ج۳،ص۵۸۴)ممکن
ہوتو ہر جمعہ کو یہ کام کر لینے چاہیں کیونکہ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضور نبی کریم
صلی
اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نماز
کوجانے سے پہلے مونچھیں کترواتے اور ناخن ترشواتے۔ (شعب الایمان،ج۳،ص۲۴ ،الحدیث:۲۷۶۳)
دس چیزوں کی صفائی:
حجۃ الاسلام امام محمدبن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :طہارت حاصل کرنے والے کو چاہیے کہ
پاکیزگی حاصل کرے، مونچھوں کو پست کرے، بغلوں کے بال اکھیڑے، موئے زیرِناف مونڈے،
ناخن کاٹے، ختنہ کرے،وضو میں ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کے جوڑاچھی طرح دھوئے، ناک کی
صفائی کاخاص خیال رکھےاور کپڑوں اوربدن کی پاکیزگی کا خوب اہتمام کرے۔(رسائل امام غزالی ،ص۴۰۷) ۔۔صفائی اور پاکیزگی سے متعلق یہ وہ چیزیں ہیں جو حضرت
ابراہیم علیہ السلام پر بھی
لازم تھیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ
عنہما فرماتے ہیں: وہ
دس چیزیں جوحضرت ابراہیم علیہ السلام پرواجب تھیں وہ یہ ہیں:(۱) مونچھیں
کتروانا(۲) کلی کرنا (۳) ناک میں صفائی کے لئے پانی استعمال کرنا (۴)مسواک کرنا (۵)
سر میں مانگ نکالنا (۶) ناخن ترشوانا (۷) بغل کے بال دور کرنا (۸) موئے زیر ناف کی صفائی(۹) ختنہ (۱۰) پانی سے
استنجا کرنا۔صدرالافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ یہ قول نقل کرنے کے بعدفرماتے ہیں: یہ سب چیزیں
حضرت ابراہیم علیہ السلام پر واجب
تھیں اور ہم پر ان میں سے بعض واجب ہیں بعض سنت۔ (خزائن العرفان،سورۃ البقرۃ، تحت الایۃ:۱۲۴)
خِلال بھی صفائی ہے:
ظاہری جسم کی صفائی میں اس قدر مبالغہ اور باریک بینی دین اسلام کا خاصہ
اور طرۂ امتیاز ہے۔یہاں تک آیا ہے کہ کھانے کے بعدلکڑی وغیرہ سے دانتوں کا خلال
کیا جائے اوردوران وضو اپنے ہاتھ پاؤں کی انگلیوں اور داڑھی کے بالوں کا خلال
کیاجائے اور یہ مستحب ہے ۔سراپا پاکیزہ
ونفیس حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: تخللوا فإنہ نظافۃ والنظافۃ تدعو إلی
الإیمان والإیمان مع صاحبہ فی الجنۃ ترجمہ :خلال کیا کرو کیونکہ یہ صفائی ہے اور صفائی
ایمان کی طرف بلاتی ہے اور ایمان مومن کے ساتھ جنت میں ہوگا۔(المعجم الاوسط،ج۷،ص:۲۱۵)دانتوں کی
صفائی کے لئے خِلال نیم کی لکڑی کا
ہوکہ اس کی تلخی سے منہ کی صفائی ہوتی ہے اور یہ مسوڑھوں کیلئے مفید ہوتی ہے۔
بازاریTOOTH PICKS عموماً موٹی اور کمزور ہوتی ہیں۔ ناریل کی
تیلیوں کی غیرمستعمل جھاڑو کی ایک تیلی یا کھجور کی چٹائی کی ایک پٹی سے بلیڈ
کے ذریعے کئی مضبوط خِلا ل تیار ہو سکتے
ہیں۔بعض اوقات منہ کے کونے کے دانتوں میں خلا ہوتا ہے اوراس میں بوٹی وغیرہ کاریشہ
پھنس جاتا ہے جوکہ تنکے وغیرہ سے نہیں نکل پاتا۔ اس طرح کے ریشے نکالنے کیلئے
میڈیکل اسٹور پر مخصوص طرح کے دھاگے (flosses) ملتے ہیں نیز
آپریشن کے آلات کی دکان پر دانتوں کی اسٹیل کی کریدنی (curved
sickle scale) بھی ملتی ہے مگر ان چیزوں کے استعِمال کا طریقہ
سیکھنا بہت ضروری ہے ورنہ مسوڑھے زخمی ہو سکتے ہیں۔(فیضان سنت،ج۱،ص۲۸۹)
صفائی کی اہمیت پراحادیث مبارکہ:
دین اسلام میں ظاہری بدن کے ساتھ لباس ،بالوں اور استعمال کی دیگر چیزوں کی صفائی پر بھی بہت زور دیا گیا
ہے۔ ان چیزوں کی صفائی ستھرائی کے بارے میں بھی
کثیراحادیث وآثار وارد ہیں۔چند روایات ملاحظہ کیجئے :
{1}حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنے کپڑے دھوؤ،بالوں
کو سنوارو،مسواک کرو،زینت اپناؤاور صفائی ستھرائی رکھو کیونکہ بنی اسرائیل ایسا
نہیں کرتے تھے تو ان کی عورتیں بدکاری میں مبتلا ہوگئیں۔ (کنزالعمال،ج۳،جزء۶،ص۲۷۳، الحدیث: ۱۷۱۷۱) {2} حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من کرامۃ المؤمن علی
اللہ نقاء ثوبہ ورضاہ بالیسیر ترجمہ: بندہ مومن کی بارگاہِ الہٰی
میں عزت وکرامت سے یہ بھی ہے کہ اس کے کپڑے صاف ہوں اور وہ تھوڑے پر راضی رہے۔(المرجع السابق ،الحدیث:۱۷۱۸۲)علامہ عبدالروف مناوی رحمۃاللہ
علیہ فرماتے ہیں
:تھوڑے پر راضی رہنے سے مراد لباس،کھانے ،پانی اور مال ودولت میں کمی پر راضی رہنا
ہے اور لباس میں یہ بات پسندیدہ ہے کہ وہ صاف ستھرا ہو اور
متوسط درجے کا ہو۔ (التیسیرشرح
الجامع الصغیر،ج۲،ص۷۴۱) {3} حضرت عطاء بن یساررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے ۔ اتنے میں ایک شخص آیا جس کے سر اور داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کیا گویا
اسے اپنے بال اور ڈاڑھی کی درستی کا حکم دے رہے ہیں ۔وہ درست کرکے حاضر ہوا تو آپ
صلی
اللہ علیہ وسلم نے
ارشادفرمایا: ألیس ہذا خیرا من أن یأتی أحدکم وہو ثائر الرأس کأنہ شیطان یعنی کیا یہ اس سے بہتر نہیں کہ تم
میں سے کوئی شیطان کی طرح سر بکھیرے ہوئے آئے۔(مشکوۃ المصابیح ،ج۱،ص۱۳۷،الحدیث:۴۴۸۶) {4} حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی ایک روایت ہے ۔آپ
فرماتے ہیں کہ ایک بار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر ملاقات کے لئے تشریف لائے تو ایک
بکھرے بالوں والے کو دیکھا تو فرمایا:کیا اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس سے اپنے
بالوں کو سنوارے اور ایک میلے کپڑوں والے
شخص کو دیکھ کر فرمایا:کیا اس کے پاس کوئی ایسی شے نہیں جس سے اپنے کپڑے دھو لے۔ (مسند ابی یعلی ،ج۲،ص ۲۷۷،الحدیث:۲۰۲۲) {5}حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری خوبصورت گھنی زلفیں تھیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:’’ان کا اچھی طرح خیال
رکھنا۔‘‘تومیں دن میں ان کو دومرتبہ تیل لگاتا تھا۔(حلیۃ الاولیا،ج۳،ص۱۸۴،الحدیث:۳۶۳۸)
مسواک کی ضرورت واہمیت:
منہ کی صفائی وپاکیزگی بھی ظاہری جسم کی صفائی میں داخل ہے اور اس صفائی
کے لئے مسواک سے بڑھ کر کوئی شے نہیں اور اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:حضرت جبرائیل علیہ السلام جب بھی میرے پاس آئے انہوں
نے مجھے مسواک کرنے کی وصیت کی حتی کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ مجھ پر اور میری
امت پر فرض نہ ہوجائے اور اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں پڑنے کاخوف نہ ہوتاتومیں
ان پر مسواک کرنا فرض کردیتااور میں اس قدر مسواک کرتا ہوں کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں
اپنے اگلے دانت زائل نہ کرلوں۔(سنن ابن ماجہ ، ج ۱، ص۱۸۶،
الحدیث: ۲۸۹)اورایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمکا معمول تھا کہ جب گھر میں داخل
ہوتے تو سب سے پہلے مسواک کیا کرتے ۔(صحیح
مسلم،ص۱۵۲،الحدیث:۲۵۳)
اگر چہ منجن ، ٹوٹھ پیسٹ اور ماؤتھ واش سے بھی منہ کی صفائی ہوجاتی ہے
مگران سے مسواک والا ثواب حاصل نہ ہوگا جبکہ مسواک عبادت کی نیت سے ہو ۔کیونکہ
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:
مسواک کولازم کرلو کہ یہ منہ کی صفائی اور رب تعالیٰ کی رضا کاسبب ہے۔(مسنداحمد ،ج۲،ص۴۳۸،الحدیث:۵۸۶۹)اس حدیث شریف کی شرح کرتے ہوئے حکیم الامت مفتی
احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس میں دین و دنیا کی بھلائی ہے۔خیال
رہے کہ مسواک سے مسلمان کا مسواک کرنابنیت عبادت مراد ہے،کفار کی مسواک
اورمسلمانوں کی عادتًا مسواک اگرچہ منہ تو صاف کردے گی مگر رضائے الٰہی کا ذریعہ
نہ بنے گی نیز اگرچہ مسواک میں دنیوی اور دینی بہت فوائد ہیں،مگر یہاں صرف دو
فائدے بیان ہوئے،یا اس لئے کہ یہ بہت اہم ہیں یا کیونکہ باقی فوائد بھی ان دو میں
داخل ہیں۔منہ کی صفائی سے معدے کی قوت اور بے شمار بیماریوں سے نجات ہے اور جب رب
راضی ہوگیا پھر کیا کمی رہ گئی۔(مراٰۃ المناجیح ،ج۱،ص۳۶۳)
عبادات اور مسواک:
خاص طور پر نماز سے قبل مسواک ضرورکی جائے کہ اس سے منہ کی صفائی کے ساتھ
ساتھ نماز کا ثواب بڑھ جاتا ہے نیزاس میں فرشتوں کی راحت کا سامان بھی ہے۔ارشادنبوی صلی
اللہ علیہ وسلمہے:مسواک کے ساتھ دو رکعت پڑھنا بغیر مسواک کے ستر رکعتیں
پڑھنے سے افضل ہے ۔ (الترغیب والترہیب، ج ۱، ص
۱۰۲،الحدیث:۱۸)اور ایک موقع پر ارشادفرمایا: جب تم میں سے
کوئی رات کو نمازکے لئے کھڑا ہو تواسے مسواک کرلینی چاہئے کیونکہ جب وہ نماز میں
قرا ء ت کرتا ہے توفرشتہ اپنا منہ اس کے منہ پر رکھ لیتا ہے اور جو چیز اس کے منہ
سے نکلتی ہے وہ فرشتے کے منہ میں داخِل ہوجاتی ہے۔(شعب الایمان،ج۲،ص۳۸۱،
الحدیث:۲۱۱۷)اور اگر کوئی نمازی مسواک وغیرہ سے دانتوں میں پھنسے ریزے وریشے
وغیرہ نہیں نکالتا تو اس سے فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے۔مروی ہے کہ دونوں فرشتوں کے لئے اس سے زیادہ کوئی چیزتکلیف دہ
نہیں کہ وہ اپنے ساتھی کونماز پڑھتا دیکھیں اور اس کے دانتوں میں کھانے کے رَیزے
پھنسے ہوں۔(المعجم الکبیر،ج۴،ص۱۷۷، الحدیث:۴۰۶۱)
نماز کی طرح تلاوت اورذکرودعا کے لئے بھی مسواک کی رعایت رکھنا چاہیے
۔حدیث شریف میں ہے : طیبوا افواھکم فانہا طرق القراٰن یعنی اپنے منہ صاف رکھو کیونکہ یہ قرآن کا راستہ ہیں۔(
کنز العمال،ج۱،ص۶۰۳،الحدیث: ۲۷۵۲) اوررئیس
المتکلمین مولانا نقی علی خان حنفی رحمۃ اللہ علیہ’’احسن الوعالآداب الدعا‘‘میں دعاکا ۵۳واں ادب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جب قصدِ دعا ہو پہلے مسواک کر لے کہ اب اپنے رب سے مناجات
کریگا، ایسی حالت میں رائحہ متغیرہ (یعنی منہ کی بدبو) سخت ناپسند ہے
خصوصاً حقّہ پینے والے، خصوصاً تمباکو کھانے والوں کو اس ادب کی رعایت ذکر ودعا
ونماز میں نہایت اہم ہے، کچا لہسن پیاز کھانے پر حکم ہوا کہ مسجد میں نہ آئے۔(صحیح
مسلم، ص۲۸۲، الحدیث: ۵۶۴)وہی حکم یہاں بھی ہوگا، مع ہذا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلمفرماتے ہیں:”مسواک رب کو راضی کرنے
والی ہے۔“(صحیح بخاری،ج۱،ص۶۳۷،الحدیث:۱۹۳۳) اور
ظاہر ہے کہ رضائے رب باعثِ حصولِ اَرب ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا مراد ملنے کا سبب ہے)۔(فضائل دعا،ص۱۰۸)
گھر اور محلے کی صفائی:
انسانی طبیعت اپنے قرب وجوار سے بہت جلد اثر
قبول کرتی ہے اور اچھے یا برے ماحول کے اثرات انسان پرضرور مرتب ہوتے ہیں خواہ
معاملہ معاشرتی برائیوں اوربدکرداریوں کا ہو یا کچرے ،غلاظت اور نجاست کے ڈھیروں
کا ہو لہٰذاانسان جس گھر ،محلے اور علاقے میں رہتا ہے اس کا صاف ستھرا ہونا بھی
انتہائی ضروری ہے ۔گھر اور علاقے کا صاف ستھرا ہونا افرادِ معاشرہ کی نفاست،اچھے مزاج،پروقارزندگی اور خوبصورت
سوچ کی عکاسی کرتا ہے ۔حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : إن اللہ طیب
یحب الطیب نظیف یحب النظافۃ کریم یحب الکرم جواد یحب الجود فنظفوا افنیتکم ولا
تشبہوا بالیہود ترجمہ: اللہ تعالیٰ پاک ہے پاکی کو پسند فرماتا ہے
،ستھرا ہے ستھرے پن کو پسند کرتا ہے،کریم ہے کرم کو پسند کرتا ہے ،جواد ہے سخاوت
کو پسند فرماتا ہےتو تم اپنے صحنوں کوصاف ستھرا رکھو اوریہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ
کرو۔(سنن الترمذی،ج۴،ص۳۶۵،الحدیث:۶۸۰۸)
ایک
حدیث شریف میں یوں ہے : فنظِّفوا عَذِراتِكم
ولا تَشبَّهوا باليَهود تجمع الأكْباء في دْورها ترجمہ:تم اپنے صحنوں کو صاف رکھو اور یہود سے مشابہت نہ کرو کیونکہ ان کے
گھروں میں کچرے ڈھیر رہتے ہیں۔(غریب الحدیث لابن
قتیبۃ،ج۱،ص۲۹۷)اس حدیث پاک میں ہمیں یہ درس دیا گیا ہے کہ اپنے گھر صاف رکھو ۔لباس، بدن وغیرہ کی صفائی تو بہت ہی
ضروری ہے گھر بھی صاف رکھو وہاں کوڑا جالا وغیرہ جمع نہ ہونے دو اور اپنے صحن صاف رکھ کر یہود کی مخالفت کروکیونکہ یہود اپنے گھر کے
صحن صاف نہیں رکھتے نیز یہود بہت گندے، بہت بخیل، بڑے خسیس ،بڑے ذلیل ہیں عیسائی اگرچہ کافر ہیں مگر وہ
یہود کی طرح گندے نہیں ان میں کچھ صفائی ہے اگرچہ ان کے بھی دانت میلے منہ بدبو
دار اور ناخن لمبے ہوتے ہیں۔ ہر طرح کی صفائی تو اسلام نے ہی سکھائی ہے۔(ماخوذ
ازمراۃ المناجیح،ج۶،ص،ملخصاً) ۔
مسجد کی صفائی کا حکم:
ایک بندہ
ٔمومن کااپنے گھر کے علاوہ مسجد سے بھی گہرا تعلق ہوتا اور وہ بارباریا وقتا فوقتا
وہاں حاضری کی سعادت پاتا رہتا ہے اور اپنے خالق ومالک کے حکم کی بجاآوری میں
عبادت وریاضت سے مشرف ہوتا ہے۔لہٰذا اس کی صفائی وستھرائی بھی ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَعَہِدْنَاۤ اِلٰۤی
اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ اَنۡ طَہِّرَا بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ
وَالْعٰکِفِیۡنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوۡدِترجمہ :اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسمٰعیل کو
کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے
لئے۔ (پ۱،البقرۃ:۱۲۵)نیزصدرالافاضل مفتی نعیم
الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ سورۃ توبہ کی آیت ۱۸کے تحت رقم طراز ہیں:اس
آیت میں یہ بیان کیا گیا کہ مسجدوں کے آباد کرنے کے مستحق مؤمنین ہیں۔ مسجدوں کے
آباد کرنے میں یہ امور بھی داخل ہیں جھاڑو دینا ، صفائی کرنا ، روشنی کرنا اور
مسجدوں کو دنیا کی باتوں سے اور ایسی چیزوں سے محفوظ رکھنا جن کے لئے وہ نہیں
بنائی گئیں ۔ مسجدیں عبادت کرنے اور ذکر کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں اور علم کا درس
بھی ذکر میں داخل ہے۔(خزائن العرفان)
مسجد کی صفائی کرنا باعث اجروثواب ہے اور صفائی
کرنے والوں کا مرتبہ بڑا بلند ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک حبشی جوان مسجد کی صفائی
کیا کرتا تھا ۔ایک بار حضورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے موجودنہ پایا تو اس کے متعلق دریافت کیا
۔صحابہ کرام نے
عرض کی:وہ تو فوت ہوگیا ۔ارشادفرمایا:کیا تم مجھے اس کی خبر نہیں دے سکتے تھے؟بقول
راوی شاید لوگوں نے اس کے معاملے کو چھوٹا خیال کرکے خبر نہ دی ۔ پھرآپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مجھے
اس کی قبر پر لے چلو ۔قبر پر پہنچ کر آپ نے اس کی نماز جنازہ ادا کی اور
فرمایا:بے شک یہ قبریں اندھیرے سے بھری ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ میرے ان پرنماز پڑھنے کی برکت سے ان کو
روشن ومنورفرمادے گا۔‘‘(صحیح مسلم
، ج ۱ ،ص ۴۷۶ ، الحدیث:۹۵۶)اسی طرح
مسجد کی صفائی کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا:مسجد کی صفائی
کرنا بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں کا حق مہر ہے۔(المعجم الکبیر، الحدیث۲۵۲۱، ج۳، ص۱۹)
ظاہر کے ساتھ باطن کی صفائی:
ظاہرکی صفائی کے مقابلے میں باطن کی صفائی زیادہ اہم ہے۔انسان اگر صرف
اپنا ظاہر صاف ستھرا رکھے مگر باطن طرح طرح کی نجاستوں سے آلودہ ہو تو یہ ایک تشویش ناک امر ہے، کیونکہ باطن یعنی دل کی صفائی پورے
جسم کو فیض یاب کرتی ہے اور اس کی درستی کی ضمانت ہے۔حضورنبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إن في الجسد
مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله وإذا فسدت فسد
الجسد كله ألا وهي القلب ترجمہ:بے شک جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر یہ
درست ہوجائے تو پوراجسم درست ہوجائے اور اگر یہ خراب ہوجائے تو پوراجسم خراب
ہوجائے ۔سُن لو وہ دِل ہے۔(صحیح بخاری،ج۱، ص۳۳، الحدیث:۵۲) اوردل کادرست اورسلامتی
والا ہونا یہ ہے کہ وہ کفر، گناہوں کے اِرتکاب اور
تمام قباحتوں(یعنی
برائیوں اور خرابیوں) سے پاک ہو۔(تفسیر
بیضاوی،ج۴،ص۲۴۴)حضورنبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :’’بُنِیَ الدِّیْنُ عَلَی النَّظَافَۃِ ترجمہ:دین کی بنیاد طہارت پر ہے۔‘‘(المجروحین لابی حاتم ،ج۲،ص۴۰۱، الحدیث
:۱۱۱۹)حضرت
امام غزالی رحمۃ
اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے
ہیں :’’یہاں طہارت سے مراد صرف کپڑوں کا صاف ہونا ہی نہیں بلکہ دل کی صفائی بھی
مراد ہے۔ اس پریہ فرمانِ الہٰی دلیل وحجت ہے:اِنَّمَا الْمُشْرِکُوۡنَ نَجَسٌ ترجمہ: مشرک نرے ناپاک ہیں۔(پ۱۰ ،التوبہ:۲۸) اس آیت مبارکہ سے ظاہر ہوا کہ نجاست صرف کپڑوں
کے ساتھ خاص نہیں کیونکہ جب تک باطن خبائث سے پاک نہ ہو اس وقت تک علمِ نافع حاصل
نہیں ہوتا اور نہ ہی علم کے نور سے انسان
روشنی پاسکتا ہے۔(لباب الاحیاء،ص۳۲)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:’’ہرچیز کے لئے کوئی نہ کوئی صفائی کرنے
والی شے ہوتی ہے اور دلوں کی صفائی خدا کے ذکر سے ہوتی ہے۔‘‘(الترغیب والترہیب، ج۲،ص۲۵۴، الحدیث:۱۰)
اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے:
باری تعالیٰ کوطہارت و صفائی اس قدر
محبوب ہےکہ اس نے صفائی اپنانے والے کو اپنا محبوب وپیارا قرار دیا ہے۔ارشادِ
الہٰی ہے:
وَاللہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیۡنَ ترجمہ : اور ستھرے اللہ کو پیارے ہیں۔(پ۱۰،التوبہ:۱۰۸)نیزاس کا اندازہ اُخروی
چیزوں میں پاکیزگی وطہارت اور عمدگی ونفاست کے اہتمام سے بھی لگایا جاسکتا ہے ۔اس
نے جنت بنائی تو انتہائی صاف ستھری ،وہاں بسنے والوں کو پسینہ نہیں آئے گا،ان کے
بدن میلے نہیں ہوں،بول وبراز کی اذیت سے محفوظ ہوں گے،جنتی حوروں کو انتہائی
پاکیزہ بنایا۔ارشادربانی ہے:کَاَنَّـہُنَّ الْیَاقُوۡتُ وَ
الْمَرْجَانُترجمہ:(صفائی وخوش رنگی میں )گویا وہ یاقوت اور مونگا ہیں۔(پ۲۷،الرحمن:۵۸) حدیث شریف میں ہے کہ
جنّتی حوروں کے صفائے ابدان کا یہ عالَم ہے کہ ان کی پنڈلی کا مغز اس طرح نظر آتا
ہے جس طرح آبگینہ کی صراحی میں شرابِ سرخ۔(خزائن العرفان)دوسرے مقام پرفرمایا:کَاَمْثٰلِ
اللُّؤْلُؤَ الْمَکْنُوۡنِترجمہ:جیسے چُھپے رکھے ہوئے موتی (پ۲۷،الواقعۃ:۲۳) یعنی جیسا موتی صدف میں چُھپا ہوتا
ہے کہ نہ تو اسے کسی کے ہاتھ نے چھوا ، نہ دھوپ اور ہوا لگی اس کی صفائی اپنی
نہایت پر ہے اس طرح حوریں اچھوتی ہوں گی ۔(خزائن العرفان)اور جنت کی شراب کے ستھرا ہونے کو یوں بیان فرماتا ہے:وَ سَقٰىہُمْ رَبُّہُمْ
شَرَابًا طَہُوۡرًا ترجمہ :اور
انہیں ان کے رب نے ستھری شراب پلائی۔(پ۲۹،الدھر:۲۱)جو نہایت پاک
صاف ، نہ اسے کسی کا ہاتھ لگا، نہ کسی نے چھوا ، نہ وہ پینے کے بعد شرابِ دنیا کی
طرح جسم کے اندر سڑ کر بول بنے ، بلکہ اس کی صفائی کا یہ عالَم ہے
کہ جسم کے اندر اتر کر پاکیزہ خوشبو بن کر جسم سے نکلتی ہے اہلِ جنّت کو کھانے کے
بعدشراب پیش کی جائے گی ، اس کو پینے سے ان کے پیٹ صاف ہوجائیں گے اور جو انہوں نے
کھایا ہے وہ پاکیزہ خوشبو بن کر ان کے جسموں سے نکلے گا اور ان کی خواہشیں اور رَغْبَتِیں
پھرتازہ ہوجائیں گی۔(خزائن العرفان)
موجودہ مسلمان اور صفائی کا
فقدان:
ہم نے مضمون کے شروع میں غیرمسلموں کی غیرفطری اور ناپسندیدہ روش کا تذکرہ
کیا کہ وہ نفاست وپاکیزگی سے دور تھے اور یہ اسلام کا احسان تھا کہ انہوں نے صفائی
ستھرائی کو کسی حد تک اختیار کیا مگر جب ہم آج کے دور میں خود اسلام کے پیروکاروں
کو دیکھتے ہیں تو ان میں بھی ہمیں ایک تعداد ایسی ملتی ہے جو طہارت وپاکیزگی اور
صفائی ستھرائی کے معاملے میں سست روی کا شکار ہے۔کسی مسلمان نے لمبی لمبی مونچھیں
رکھی ہوئی ہیں تو کسی کو اظفارطویلہ یعنی لمبے ناخنوں کا شوق ہے بالخصوص عورتوں
میں یہ مرض زیادہ ہے۔کوئی مسلمان میلے کچلے کپڑوں میں گھن محسوس نہیں کرتا
توکوئی اپنے پسینے اور منہ کی بدبو سے آس
پاس کا ماحول ’’مہکا ‘‘رہا ہوتا ہے ۔کوئی پان کھا کر دانتوں کی صفائی نہیں کرتا تو کسی نے سگریٹ پی پی کر سامنے کے
دانت پیلے کر رکھے ہوتے ہیں۔ کوئی گٹکا کھا کر فٹ پاتھ،دکان ومکان کی
دہلیز،دفاترومارکیٹس کے مخصوص کونے کھدرےرنگین کررہا ہوتا تو کوئی بس وغیرہ کی
کھڑکی سے پیچھے آنیوالے موٹر سائیکل سوار کو اپنے پان یا گٹکے کی پچکاری
سےصبروبرداشت کا’’درس‘‘ دے رہاہوتا ہے ۔کوئی اپنی بلڈنگ سے کچرے کا تھیلا باہر گلی
میں پھینک کر اپنی ’’شرافت ونفاست‘‘کا مظاہرہ کررہا ہوتا ہے تو کوئی اپنے گھرکا
کوڑاکرکٹ جمع کرکےکسی چوراہے یا گلی کے
نکڑ کی’’ زینت‘‘ بنا رہا ہوتاہے۔ کوئی غسل جنابت میں سستی کرکے اپنے گھر کو رحمت
کے فرشتوں کے لئے ”نوگوایریا“بنارہا ہے توکوئی ”اندرونی صفائی“سے غفلت برت کرفطرت سے ’’جنگ“ کررہا ہے ۔الغرض یہ سب ہمارے
گردوبیش میں رہنے والے افراد کر رہے ہیں ۔وہ اسلام جس نے غیروں کو صفائی ستھرائی
کا خوگر کیا آج اس کے بعض اپنوں میں طہارت وپاکیزگی مفقود ہے اور گندگی وناپاکی
ان کی سِرشت وپہچان بنی ہوئی ہے ۔بہر حال مسلمان کو اپنے ظاہر وباطن دونوں کی
صفائی کا خیال رکھنا چاہیے۔ ظاہر کو نجاست، غلاظت،گندگی اور میل کچیل وغیرہ سے اور باطن کو کینۂ مسلم
، غرو ر وتکبر اوربغض وحسد وغیرہ ر ذائل
سے پاک وصاف رکھے۔ باطن کی صفائی کے لئے اچھی صحبت بے حد مفید ہے۔ ظاہروباطن کو
صاف رکھنارب تعالیٰ کو محبوب،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند،صحت وتندرستی کی ضمانتاور فطرت کا تقاضاہے۔
محمد آصف اقبال عطاری مدنی
سینئر اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی(المدینۃ
العلمیہ)
رمضان اور قرآن:
خُدائے
رحمن عزوجل کا
اپنے رسولِ ذیشان صلی
اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی اُمت پر یہ عظیم احسان ہے کہ انہیں قرآن اوررَمضان عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کے اِن دونوں احسانات پر غور کیا
جائے تو ان میں باہم ایک حسین اِمتزاج نظر آتا ہے۔ اگر رَمضان کی فضیلت جاننی ہو تو قرآنِ مجید
بُرہانِ رشید اِس پر ناطق ہےاور اگر قرآن کے نُزول کاذکر کیا جائے تو قرآنِ کریم
خود خبر دیتا ہے کہ نزولِ قرآن ماہِ رمضان ہی میں ہواہے۔چنانچہ خدائے مہربان عزوجل ارشاد فرماتاہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ([1])
ترجمۂ
کنز الایمان: رمضان
کا مہینہ جس میں قرآن اترا۔
خلیفۂ
اعلیٰ حضرت،صدرالاَفاضل سیّد مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ آیتِ
مبارَکہ کے اِس حصّے کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’اس کے معنی میں مفسّرین کے چند اقوال ہیں:(۱) یہ کہ رمضان وہ ہے
جس کی شان و شرافت میں قرآن پاک نازل ہوا (۲) یہ کہ قرآن کریم کے نزول کی
اِبتداء رمضان میں ہوئی (۳) یہ کہ قرآن
کریم بِتَمامِہٖ (پورا
پورا)
رمضان مبارک کی شبِ قدر میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دُنیا کی طرف اتارا گیا اور بیتُ
العزّت میں رہا ، یہ اسی آسمان پر ایک مقام ہے یہاں سے وقتاً فوقتاً حسب ِاِقتضائے
حکمت جتنا جتنا منظورِ الٰہی ہوا جبرئیل
امین لاتے رہے، یہ نُزول تئیس سال کے عرصہ میں پورا ہوا۔‘‘([2])
مفسِّرشہیر
، حکیم الاُمت مفتی اَحمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:’’اسی (رمضان
کے)مہینہ
میں قرآن کریم اُترا اور اسی مہینہ کا نام قرآن شریف میں لیا گیا ۔‘‘([3])
مہینوں کا سردار:
اللہ
ربُّ العزت نے اپنی مخلوقات میں بعض کو بعض پر افضلیت او ر بُزرگی بخشی ہے۔
اَفضلیت اور بُزرگی کا یہ تسلسل ہمیں مخلوقات کے ہر ہر طبقے میں نظر آتاہے۔دیگر
مہینوں میں اگر ماہِ رمضان کی قدر و منزلت
معلوم کرنی ہو تو سیِّدِ کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان ہماری راہنمائی کرتا ہے کہ
"سَیِّدُ الشُّھُوْرِ رَمَضَانُ وَسَیِّدُ الْاَیَّامِ یَوْمُ
الْجُمُعَۃِ"۔([4])
یعنی
،سارے مہینوں کا سردار رَمضان ہے اورتمام دِنوں کا سردار جمعہ کا دِن ہے۔
جنّت اور آسمانوں کے دروازے:
ماہِ
رَمضان کی تو دُنیا میں کیا آمد ہوتی
ہے،قُدرت کی جانب سے خصوصی اِہتمام ہونے لگتے ہیں۔ مسلمانانِ عالَم کیلئے رحمتوں کے پیام آتے ہیں اور ہر سُو اَنوار و برکات کا ظُہور ہوتاہے۔ اِیمانی جذبے کو خوب حرارت
ملتی ہے، گناہوں کا زور ٹوٹتا ہے اور
مختلف قسم کے نیک اَعمال کا سلسلہ مسلمانوں میں عام ہو جاتاہے۔ اس خوشگوار تبدیلی کی چند وُجوہات اَحادیثِ مبارَکہ میں بیان کی گئی
ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان روایت کیا گیا ہےکہ :
إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ. ([5])
یعنی،
جب رمضان آتا ہے تو جنّت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔
اِسی
میں ایک فرمانِ رسالت یوں روایت کیا گیا ہے کہ:
إِذَا دَخَلَ
شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَ سُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ. ([6])
یعنی،
جب ر مضان آجاتا ہے توآسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو
زنجیروں میں جکڑ دیا جاتاہے۔
شرحِ
حدیث:
فقیہ
اعظم ہند، شارِحِ بخاری مفتی شریف الحق
اَمجدی رحمۃ
اللہ علیہ
"نزھۃ
القاری"
میں ان احادیثِ مبارَکہ کی تشریح کرتے
ہوئے فرماتے ہیں کہ:" اس سے کوئی مانع نہیں کہ دروازے کھولنے سے اس کا حقیقی معنی مراد لیا جائے ۔ مطلب یہ
ہوا کہ رمضان میں شب و روز مسلمان اعمالِ
صالحہ بہ کثرت کرتے ہیں، تو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں کہ انہیں عروج اور درجہ قبول تک پہنچنے میں ادنیٰ سی رکاوٹ نہ
ہو۔ نیز یہ کہ جب جنّت اور آسمان کے
دروازے کھلے ہوئے ہیں تو رحمت و برکت کا تسلسل کے ساتھ نزول ہوتا رہے گا۔ اسی طرح جہنم کے دروازوں کا بندہونا او رشیاطین کا زنجیروں میں جکڑنا
حقیقی معنوں میں ہے۔" ([7])
ماہِ رمضان کی 10خصوصیات:
مفسِّرشہیر
، حکیم الاُمت مفتی اَحمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی
شاندار تصنیف "تفسیرِ نعیمی" میں ماہِ رَمضان کی کچھ خُصوصیات اور برکات تحریر فرمائی ہیں۔ ان میں سے
چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
(1) کعبہ
معظّمہ مسلمانوں کو بُلا کر دیتا ہے اور یہ(رمضان) آکر رحمتیں
بانٹتا ہے۔گویا وہ کنواں ہے اور یہ دریا ہے یا وہ دریا ہے اور یہ بارش ۔
(2) ہر مہینہ میں
خاص تاریخیں اور تاریخوں میں بھی خاص وقت میں عبادت ہوتی ہے۔ مثلاً بقر عید کی
چند تاریخوں میں حج ،محرم کی دسویں تاریخ
افضل ،مگر ماہِ رمضان میں ہر دن اور ہر وقت عبادت ہوتی ہے۔روزہ عبادت افطار عبادت۔
افطار کے بعد تراویح کا انتظار عبادت۔
تراویح پڑھ کر سحری کے انتظار میں سونا عبادت ۔ پھر سحری کھانا عبادت۔ غرضیکہ ہر
آن میں خُدا کی شان نظر آتی ہے۔
(3) رَمضان ایک بھٹی ہے جیسے کہ بھٹی گندے
لوہے کو صاف اور صاف لوہے کو مشین کا پُرزہ بنا کر قیمتی کر دیتی ہے اور سونے کو
زیور بنا کر محبوب کے استعمال کے لائق کر دیتی ہے ۔ ایسے ہی ماہِ رمضان گنہگاروں کو پاک کرتاہے اور نیک
کاروں کے درجے بڑھاتاہے۔
(4) رَمضان
میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا
ستّر گنا ملتا ہے۔
(5) بعض علماء
فرماتے ہیں کہ جو رَمضان میں مرجائے اس سے سوالات ِ قبر بھی نہیں ہوتے۔
(6)
رَمضان میں ابلیس قید کر دیا جاتاہے اوردوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں جنّت
آراستہ کی جاتی ہے اس کے دروازے کھول دیئے
جاتے ہیں اسی لئے اس زمانہ میں نیکیوں کی زیادتی اور گناہوں کی کمی ہوتی ہے۔جو لوگ گناہ کرتے بھی ہیں وہ نفسِ امارہ یا اپنے ساتھی شیطان (قرین) کے
بہکانے سے۔
(7) رَمضان کے کھانے پینے کا حساب نہیں۔
(8) قیامت
میں رَمضان و قرآن روزہ دار کی شفاعت کریں گے کہ رَمضان تو کہے گا کہ مولیٰ میں نے اسے دن میں کھانے پینے سے روکا تھا
اور قرآن عرض کرےگا کہ یا ربّ میں نے اسے رات میں سونے سے روکا۔(شبینہ
اور تراویح کی وجہ سے)
(9)قرآن
کریم میں صرف رَمضان شریف ہی کا نام لیا گیا اور اسی کے فضائل بیان ہوئے کسی دوسرے مہینہ کا نہ صراحتاً نام ہے نہ
ایسے فضائل۔
(10)رَمضان شریف میں افطار اور سحری کے وقت دُعا قبول
ہوتی ہے یعنی افطار کرتے وقت اور سحری کھا کر۔یہ مرتبہ کسی اور مہینہ کو حاصل
نہیں۔([8])
اللہ
کریم ہمیں رَمضان المبارَک کی برکات سے حصّہ پانے اور اس میں خوب عبادات کرکے اسے راضی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ طہ ویٰس
از:
ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی
[1] : پ 2، البقرۃ :185۔
[2] : "ترجمہ کنزالایمان مع خزائن
العرفان"، ص:60-61، مکتبۃ المدینۃ۔
[3] : "مراٰت المناجیح"،3/133،نعیمی کتب
خانہ۔
[4] : "معجم کبیر" ، حدیث:9000، 9/205۔
[5] : "صحیح بخار، کتاب الصوم،باب ھل
یقال : رمضان أو شهر رمضان، 1/255۔
[6] : "صحیح بخاری، کتاب الصوم،باب ھل
یقال : رمضان أو شهر رمضان، 1/255۔
[7] : "نزھۃ القاری، کتاب الصوم،3/258 ، فرید
بُک سٹال۔
[8] : "تفسیر نعیمی" ،2/227، نعیمی کتب
خانہ، ملتقطاً ۔
ہر شخص کی
خواہش ہوتی ہےکہ معاشرے میں میرا کوئی مقام ہو ،لو گ میری طرف متوجہ ہوں،میری عزت کی جائے ،مجھے اہمیت دی جائے ۔ یاد رکھئے !معاشرےمیں
اپنا مقام بنانے کےلئے، ایک اچھا انسان
بننے کے لئے کچھ کام اپنے اوپر نافذ کرنے ہوتے ہیں، کچھ پابندیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں، اپنا رویے تبدیل کرنے پڑتے
ہیں اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے ہوتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں غور وفکر ، بزرگان ِدین کی سیرت کے مطالعے اور نیک لوگوں کی صحبت کی برکت سے جو باتیں سیکھنے کو ملیں ان میں سے کچھ یہاں بیان کی جاتی ہیں ۔ان باتوں پر عمل کیجئے !
اِنْ شَاءَ اللہ دین و دنیا میں کامیابی ملے گی اور آپ معاشرے میں ایک معزز و باوقار فر د بَن کر ابھریں گے ۔یہ ضرور پیشِ نظر رہے کہ ان تمام باتوں پر عمل کرنے سے مقصود فقط اپنےربِّ کریم کی خوشنودی کا حصول ہو کہ اللہ
پاک کی رضا ہی تمام کامیابیوں کی اصل ہے ۔وہ
کریم ربّ راضی ہوگیا تو سب راضی ہوجائیں گے ۔؏
جس
کا عمل ہو بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
دین ودنیامیں عزت دلانے والے42 کام:
(1)سلام میں
پہل کیجئے،جاننے والے ہوں یا انجان ، سب سے آگےبڑھ کر خود ملئے، سلام سے محبت میں اضافہ ہوتا
ہے، سامنے والے کے دل میں نرم گوشہ پیدا ہو جاتا ہے ،سلام میں پہل کرنا،کسی کو اچھے نام سے مخاطب کرنا، دلوں میں مقام ومرتبہ بنانے کاپہلا زینہ ہے۔(2) ملاقات کے وقت خوشی کااظہار کیجئے۔ (3) مسکراہٹ اپنی عادت بنالیجئے۔ (4) اپنے متعلقین پر بھر پور توجہ دیجئے۔ ( 5)دوسروں سے عزت سے پیش آئیے۔(6) دوسروں کے مقام و مرتبے کا لحاظ کیجئے۔(7) ہر معاملے
میں نرمی اختیارکیجئے۔نرمی سےبڑے بڑے
بگڑے ہوئے کام بن جاتے ہیں اور بے جا سختی بنے بنائے کام بگاڑ دیتی ہے۔(8)لوگوں کے دکھ درد میں شریک
رہئے ، ان سے غمخواری کیجئے،ڈھارس بندھائیے،غموں میں شریک
رہنے والا برسوں یاد رہتا ہے۔ (9) لوگوں کی غلطیاں معا ف کر دیجئے،بدلہ لینےپر
قادر ہونے کے باوجود معاف کردینا بہادروں کاکام ہے ، یہ عمل بندوں کو بےدام غلام بنادیتا ہے۔(10)
دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالئے۔ ہاں! تنہائی میں حسبِ موقع ضرور سمجھائیے۔(11)کسی پر
کتنا ہی غصہ آرہا ہو کبھی بھی
بدتمیزی نہ کیجئے ۔ باوقار انداز میں دلائل کے ساتھ اپنا موقف واضح کیجئے۔ (12)
لوگوں کو اپنائیت کا احساس دلائیے، جو آپ کے قریب ہوں انہیں اپنائیت محسوس ہو ، اجنبیت و وحشت محسوس نہ کریں۔(13) لوگوں سے بھلائی فقط
اللہ کریم کی خوشنودی کے لئے کریں کسی قسم کاکوئی دنیاوی لالچ ہر گز نہ ہو۔(14) مشکل وقت میں لوگوں کے کام آئیے، ان کی مدد کیجئے۔ (15)کبھی کسی کا برا نہ سوچیئے،
سب کے ساتھ بھلائی اور خیر خواہی کیجئے ۔ (16) کوئی آ
پ سے اپنا راز شیئر کرے تو اسے کبھی کسی پر ظاہرنہ کیجئے۔دوسروں کے مال ودولت اور عزت کے محافظ بن کر رہئے کہ انہیں آپ کی طرف سے خیانت کا خوف نہ ہو، بلکہ اس معاملے میں آپ
کی طرف سے بالکل مطمئن ہوں ۔(17)دوسرں کے
مال ودولت سے بے نیاز ہوجائیے ،کسی سے
کوئی لالچ نہ رکھئے۔(18)کنجوسی سے بچئے،
سخاوت اپنائیے ،اپنے اہل وعیال اور دیگر متعلقین کی ضروریات کا خیال رکھئے۔ اچھے کاموں میں خرچ کر نے
سے مال بڑھتاہے گھٹتانہیں ،کنویں سے جتنا پانی لیں بڑھتا ہی جائے گا۔(19) بے مُروّتی سے بچئے ،چالاکی ، خود غرضی،لالچ، یہ چیزیں انسان کی شخصیت کو عیب
دار کر دیتی ہیں۔(20) چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر بھی لوگوں کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ اِس سے اُن میں خود اعتمادی بڑھےگی، آگے بڑھنے کا ذہن بنے گا، مایوسی اور احساسِ کمتری جیسی خطر ناک سوچ سے نجات ملے گی۔ (21) اپنوں کے احوال سے واقف رہئے کہ کہیں
کسی مشکل میں تو نہیں،اپنوں سے رابطےمضبوط
رکھئے۔ (22)کبھی بھول کربھی کسی کی عزتِ نفس مجروح نہ کیجئے ،ورنہ نفرت کی ایسی
دیوار قائم ہوجائے گی جسے گرانا بہت
مشکل ہوگا۔دوسروں کو عزت دیجئے اورخود عزت
پائیے۔ (22)کسی کی غیر موجودگی میں اس کی
برائی ہرگز نہ کیجئے ،غیبت اور چغلخوری
دوستی کو تلوار کی طرح کاٹ دیتی ہیں۔ (23)کسی کی غیر موجودگی
میں اس کی برائی کی جارہی ہوتو حسبِ موقع اس کا دفاع کیجئے ۔لوگوں کو اس کی عزت اچھالنے سے روکئے ،یقین کیجئے جب اُسے معلوم ہوگا کہ آپ نے اُس کا دفاع کیا ہے تو وہ آپ کا
شکر گزار ہوگا،آپ کو اپنامحسن سمجھے گا۔ (24)اپنا رویّہ ہمیشہ درست رکھئے کہ
غلط رویّے دشمنی کا بیج بوتے ہیں۔ (25)قابلِ
تعریف عمل پر لوگوں کی دل کھول کر تعریف
کیجئے، انہیں حوصلہ ملےگا،آپ کے دو تعریفی جملے ہوسکتا ہے کسی کی زندگی بدل دیں۔(26) لوگوں کی خوشیوں میں شامل رہئے۔ (27)آپ
کے متعلقین میں سے کوئی اگر غلط
راستےپر چل پڑے تو اسےہر گز تنہا نہ چھوڑئیے ، کیونکہ اُس وقت اُسے آپ کی مدد کی اشد ضرورت ہے،پوری کوشش کر کے اسے برائیوں کی دلدل
سے نکال کر ا چھائیوں کا مسافر بنا دیجئے(28)اپنے متعلقین کو نیک کاموں میں شریک رکھئے،اچھی محافل ،دینی اجتماعات میں
انہیں ساتھ لے جائیے کہ مؤمن جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی
اپنے بھائی کے لئے بھی پسند کرتا ہے۔(29)اپنوں پر اعتمادکیجئے اور انکے اعتماد کو بھی ٹھیس نہ پہنچائیے۔(30) وعدہ سوچ سمجھ کر کیجئے،جب وعدہ کرلیں تو ضرور پورا کیجئے۔(31)جب کوئی مشورہ چاہے تو اپنے تجربات کی روشنی میں اچھا مشورہ دیجئے۔ (32) دوسروں کے مزاج کو
سمجھئے ،لوگوں کےمزاج کے خلاف نہ چلیئے ،اگر ایسا کچھ ضروری بھی ہوتو
حکمت ِ عملی اختیار کیجئے کہ حکمت و دانائی مؤمن کا گمشدہ خزانہ ہے۔(33) وفا دار رہئے ،بے وفائی سے بچئے۔(34) اپنوں کی دعوت قبول کیجئے،
خود بھی ان کی دعوت کیجئے،حسبِ حیثیت تحائف بھی دیجئے آپس میں محبت بڑھے گی۔ (35) ہرگز کبھی کسی کو طعنہ مت دیجئے ،کبھی
کسی پر احسان نہ جتائیے کہ اللہ پاک طعنہ دینے والوں اور احسان جتانے والوں کو پسندنہیں فرماتا۔ (36)غرور وتکبر، خود پسندی ، اور بڑا بول بولنے سے ہر
دم بچئے۔(37) ایثار کیجئے لوگ دل
سے دعائیں دیں گے ۔(38) آسان بن جائیے کہ لوگوں کی رسائی آپ تک ممکن ہو ،ایسا مشکل نہ بنئے کہ لوگ آپ سے ملنے کو ترس جائیں۔(39) بے جا مطالبات سے
بچئے کہ اس سے آدمی کا وقار کم ہوتا ہے ۔(
40) کسی کو سب کے سامنے مت ٹوکئے ،نہ جھڑکئے، بلکہ علیحدگی میں سمجھائیے ورنہ نفرت و ضد پیدا ہوگی ۔ (41) اپنوں کے لئے دعائے خیر کرتے رہئے ۔ (42) خو د بھی نیک عمل کیجئے ،اپنے متعلقین کو بھی نیکی کی راہ پر چلائیے، اللہ پاک اپنے نیک بندوں کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے ۔
اللہ کریم کی رحمت سے امید ہے کہ ان باتوں پر عمل کر کے بندہ معاشرے کا معزز اور باوقار فرد بن سکتا ہے ۔اللہ کریم اپنے
پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم کے
صدقے ہم سب پر اپنا فضل و کرم فرمائے ۔آمین
حکیم سید محمد سجاد عطاری مدنی
اسلامک
سکالر، اسلامک ریسرچ سینٹر (المدینۃ العلمیۃ)
مدرِّس:
مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ایجوکیشن عالمی مدنی مرکز کراچی
خُدائے
رَحمٰن عَزَّوَجَلَّ کا
کروڑہا کروڑ اِحسان کہ اُس نے ہمیں ماہِ رَمَضَان جیسی عظیمُ الشّان نِعمت سے
سَرفَراز فرمایا۔ ماہِ رَمَضَان کے فِیضَان کے کیا کہنے !اِس کی تو ہر گھڑی رَحمت
بھری ہے۔اِس مہینےمیں اَجْر و ثَواب بَہُت ہی بڑھ جاتاہے۔نَفْل کا ثواب فَرض کے
برابر اور فَرْض کا ثواب 70 گُنا کردیا جاتا ہے ۔بلکہ اِس مہینے میں تو
روزہ دار کاسونا بھی عبادت میں شُمار کیا جاتاہے۔عَرش اُٹھانے والے فِرِشتے روزہ
داروں کی دُعاء پرآمین کہتے ہیں اور ایک حدیثِ پاک کے مُطابِق”
رَمَضَان کے روزہ دار کے لئے دریا کی مچھلیاں اِفطار تک دُعائے مَغْفِرت کرتی رہتی
ہیں۔‘‘ (اَلتَّرغیب
والتَّرہیب ج2ص55حدیث6، دار الکتب العلمیہ)
رمضان
المبارک
کے چاند رات کے بعد 10 دن یہ عشرہ رحمت
کہلاتے ہے ، 10 دن پورے ہونے کے بعد دسواں سورج غروب ہوگیا تو یہ عشرہ مغفرت شروع ہوگیا
، اب یہ 10 دن رہے گا، اب جیسے ہی 20 کا روزہ مکمل ہوا اور سورج غروب ہوگیا تو اب یہ کہ جَہَنَّمْ سے آزادی کا عشرہ شروع ہوگیا یعنی خصوصیت کے ساتھ پہلے عشرے میں
رحمت کا نزول، دوسرے میں مغفرت ہےاور تیسرے
میں جہنم سے آزادیاں۔
٭عشرہ
رحمت:
رحمتیں لٹاتا ہے لہذا اس حوالے سے ہم اس کے فضائل جانتے
ہے وہ کیاہے نیزاس میں ہمیں کون سی دعاپڑھنی ہے۔
٭(مراۃ المناجیح جلد 3،صفحہ 141 ،تحت الحدیث،مکتبہ ضیاء القراٰن)میں ہے: پہلے عشرہ میں رب تعالیٰ مؤمنوں پر خاص
رحمتیں فرماتا ہے جس سے انہیں روزہ، تراویح کی ہمت ہوتی ہے اور آئندہ ملنے والی
نعمتوں کی استعداد(یعنی
طاقت) پیدا ہوتی ہے۔
اس
عشرہ کے ابتداء سے ہی جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں ا ور دوزخ کے دروازے بندکردیئے جاتے ہیں شیاطین
زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ایک
روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔(مسلم،بخاری) (مراٰۃ المناجیح،ج:3،ص:132)۔
٭حضرت
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت جب رمضان کی پہلی رات
آتی ہےاللہ عزوجل نظر رحمت فرماتا ہےجس پر
اللہ پاک نظر رحمت فرمائےاس کو کبھی بھی
عذاب نہیں ہوگا۔(اَلتَّرغیب
والتَّرہیب ج2ص56حدیث7، دارالکتب العلمیہ،) اس
مہینہ میں جو کوئی بھی گناہ کرتا ہے وہ اپنے نفس امارہ کی شرارت سے کرتا ہے نہ کہ
شیطان کے بہکانے سے۔(مراٰۃ
،ج:3،ص:134)
٭حضرت
سَیِّدُنا
عبدُاللّٰہ ابن عباس ر َضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے
کہ رحمت عالم صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا
فرمانِ معظم ہے : ’’جب رَمضان شریف کی پہلی رات آتی ہے تو عرش عظیم کے نیچے سے
مَثِیْرہ نامی ہوا چلتی ہے جوجنت کے
درختوں کے پتو ں کو ہلاتی ہے، اِس ہوا کے چلنے سے ایسی دِلکش آواز بلند ہوتی ہے کہ
اِس سے بہتر آواز آج تک کسی نے نہیں سنی۔اِس آواز کوسن کربڑی بڑی آنکھوں والی حوریں
ظاہر ہوتی ہیں یہاں تک کہ جنت کے بلند محلات پر کھڑی ہوجاتی ہیں اور کہتی ہیں
:’’ہے کوئی جو ہم کو اللہ تَعَالٰی سے مانگ لے کہ ہمارا نکاح اُس سے ہو؟‘‘ پھر وہ
حوریں داروغۂ جنت (حضرت)رِ
ضوان (عَلَیْہِ وَالسَّلَام) سے
پوچھتی ہیں : ’’آج یہ کیسی رات ہے؟‘‘ (حضرت) رِ ضوان (عَلَیْہِ السَّلَام) جواباً تَلْبِیَہ (یعنی لبَّیْک) کہتے
ہیں ، پھر کہتے ہیں :’’یہ ماہِ رَمضان کی پہلی رات ہے، جنت کے دروازےاُمّتِ مُحمّد
عَلٰی
صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے روزے داروں کے لئے کھول دئیے گئے ہیں
۔ ‘‘(اَلتَّرغیب
والتَّرہیب، ج 2
،ص60،
حدیث 23)
٭ بلعموم پورا ہی سال اوربلخصوص رمضان شریف میں ہمیں اس مقولہ کا مصداق بنا رہنا چاہیے’’ رِضائے
مولیٰ ازہَمہ اَولیٰ‘‘ یعنی اللہ
عزوجل کی مرضی سب سے بہتر ہے۔ یو تو اللہ
پاک کی رحمت ہمارے اوپر سارا ہی سال رہتی ہے۔اور رمضان المبارک اس میں
مزید اضا فہ ہوجاتا ہے نیز رمضان المبارک کے ابتدائی 10 دن یہ خصوصیت کے ساتھ
اللہ پاک سے رحمت طلب کرنے کے ہے اسی لئےانہیں کہا ہی عشرہ رحمت جاتا ہے یعنی رحمت والے دس دن ۔تو لہذا ہمیں ان دس دنوں میں خصوصیت کے ساتھ اپنے رب کریم سے اس کی رحمت طلب کرنا چاہیئے ۔ اللہ پاک اپنے بندہ سے اس سے مانگنے کو پسند
فرماتا اور اس کی رحمت سے بڑے بڑے گناہ
گار بخشے جاتے ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى
اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ
الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۵۳)
(پ:24/
الزمر:53) ترجمہ کنزالایمان:’’ تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی
کی ،اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہو بےشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ، بےشک وہی
بخشنے والا مہربان ہے۔
احادیث شریف میں ہے ۔پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں جبرئیل امین علیہ السلام حاضر ہوئے اس حال میں کے آپ منبر پر چڑھ رہے تھے اس وقت تین دعائیں کی جن پر آپ علیہ السلام نے
امین کہا (پیارے آقا علیہ السلام کی زبان مبارکہ سے جاری ہونے والی کوئی بات رائیگا نھی جاتی) ان میں ایک دعا یہ تھی جس نے ماہِ رمضان کو پایا اور اپنی بخشش نہ کروا سکا
تو اس پر آپ نے امین فرمایا۔ (صحیح
ابن حبان،ح:410،باب حق الوالدین ،ج:1،ص:315،
دارالکتب العلمیہ۔بیروت )
اَبرِ
رحمت چھاگیا ہے اور سماں ہے نُورنُور
فضلِ
رب سے مغفرت كا ہوگیا سامان ہے
پہلے عشرے کی دعا
رَبِّ اغُفِرُ وَارُحَمُ
وَأَنُتَ خَیُرُ الرَّاحِمِينَ۔
ترجمہ:’’
اے میرے رب مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، تو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
حضرت پیر سید صبغت اللہ شاہ راشدی قادری رحمۃُ اللہِ علیہکی ولادت 1183ھ/ 1779ء کو پیر جو گوٹھ ضلع خیر پور میرس (سندھ)میں ہوئی۔
تعلیم:اپنے والد صاحب کی زیر سرپرستی درگاہ شریف پر مروجہ نصاب کی تعلیم حاصل کی
اور والد صاحب سے مثنوی شریف ودیگر تصوف
کی کتب کا درس لیا،خاندان میں آپ پہلے پیر
ہیں جو پیر پگارہ (صاحب دستار)کے لقب سے مشہور
ہوئے۔آپ قرآن پاک، حدیث شریف اور فقہی احکام پر دسترس رکھتے تھے۔ روزانہ بعد نماز
فجر درس حدیث دینا آپ کا معمول تھا۔
بیعت وخلافت: اپنے والد ماجد امام العارفین حضرت پیر سید محمد راشد پیر
صاحب روضے دھنی (وفات 1234ھ)
کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں بیعت
ہوئےاور ان کی خدمت میں رہ کر سلوک کی منازل طے کیں۔والد صاحب کی وفات کے بعد
50سال کی عمر میں اپنے والد صاحب کی جگہ مسند رشدوہدایت پر فائز ہوئےاور دستار سجادگی آپ کے سر پر باندھی گئی۔
دینی کتب سے دلچسپی:آپ کو دینی،علمی اور صوفیانہ کتب سے خاص دلچسپی تھی۔اہم
ومفید کتابوں کو جمع کرنا زندگی بھر دستور
رہا اس لئے آپ کے کتب خانہ میں نادر ونایاب کتب کا ذخیرہ جمع ہوگیا تھا۔
عادات وخصائل: سنت مبارکہ کے
پابند،پرہیزگار،شب بیدار،سخی، مہمان نواز،خلق عظیم سے آراستہ ،سادگی پسنداور غریب
کسانوں کے ہمدرد تھے۔متوکل ایسے کہ جو موجود ہوتا راہِ خدا میں خرچ فرمادیتے اور
کل کے لئے بچا کر نہیں رکھتے تھے۔
مقام ومرتبہ: حضرت پیر سید صبغت اللہ شاہ راشدی قادری رحمۃُ اللہِ علیہکی سندھ میں مقبولیت اور ان
کے علمی وروحانی مراتب کا اندازہ سید حمید الدین کے اس بیان سے ہوتا ہے:”باشندگان
سندھ کے نزدیک سارے ملک(متحدہ ہندوستان)میں ان (پیر صبغت اللہ)جیسا کوئی شیخ ومرشد
نہیں،تقریباً تین لاکھ بلوچ ان کے مرید ہیں،مرجع خلق عام ہیں،جاہ وجلال سے زندگی
گزار رہے ہیں۔جودو کرم ،اخلاص ومروت میں بھی شہرۂ آفاق ہیں۔ان کا کتب خانہ بڑا
عجیب وغریب کتب خانہ ہے۔بادشاہوں اور امراء کے پاس بھی ایسا کتب خانہ نہ ہوگا
،15000ہزار معتبر کتابیں اس میں موجود ہیں۔“
معمولات:ہر سال نہایت عقیدت واحترام کے ساتھ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکا انعقاد
فرماتے تھے۔ حضور پرنور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکی نعت اور صوفیانہ کلام بغیر مزامیر(ساز) کے سماعت فرماتےاور اسے اپنی روحانی خوراک قرار دیتے۔ روزانہ
ختم قادریہ کرتے، آپ اور آپ کے مریدین بڑی
عقیدت کے ساتھ حضور غوث اعظم رحمۃُ اللہِ
علیہ کی نیاز دلایا کرتے۔
تبلیغ دین: رشدوہدایت اور تبلیغ دین کے لئے دوردراز علاقوں تک سفر
کیااور معرفت کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔ جہاں بھی گئے وہاں ذکر ونعت شریف کی محافل ضرور قائم کیں ،اس طرح خشک دلوں کو
معرفت کی چاشنی نصیب ہوئی۔
وصال: 6رمضان المبارک 1246ھ/1831ء کو 63سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا۔
(انسائیکلو پیڈیا اولیائے کرام ،1/377،انوار علمائے اہل
سنت سندھ،ص359،تذکر ہ صوفیائے سندھ،ص273)
از:مولانا محمد گل فراز عطاری مدنی
(سینئر اسلامک ریسرچ
سینٹر دعوتِ اسلامی، المدینۃ العلمیہ)
وعدہ خلافی وبدعہدی کے معاشرتی نقصانات:
”تم خالد سے پیمنٹ لے کرآئے یا نہیں؟‘‘ ہول سیلر
نے اپنے ملازم سے پوچھا۔
”نہیں جناب!انہوں نے کل کا کہا ہے“ملازم نے سادہ
سا جواب دیا۔
اس طرح کے ٹال مٹول پر مشتمل جملوں کا تبادلہ
ہماری مارکیٹس اور بازاروں کا معمول ہے ۔ ہردن لین دین میں کتنے ہی وعدے ، ارادے
اور معاہدے ہوتے اور ٹوٹتے ہیں مگر کبھی اس معاملے پر گہرائی سے سوچا نہیں جاتاکہ
ہمارے معاشرے پر اس وعدہ خلافی کے کتنے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔جب اس طرح کا ایک
وعدہ ٹوٹتاہے تو بعض اوقات اس کا خمیازہ کئی افراد کوبھگتنا پڑتا ہے،مثلا کسی نے
ہول سیلر سے مال لیا اور پیسے دو دن میں دینے کا وعدہ کیا مگروقت مقررہ پر ادائیگی
نہ کی ۔اس پر غور کیجئے کہ ہوسکتا ہے ہول سیلر نےاپنے بیٹے کی داخلہ فیس جمع کروانی
ہو یااپنی بیٹی کی سالگرہ پر کوئی تحفہ دینا ہو یا آگے کسی کو پیمنٹ کرنے کا وعدہ
کر رکھا ہویا ملازم کو تنخواہ دینی ہواور غریب ملازم نے راشن والے سے ”ماہانہ ادائیگی“
کا وعدہ کر رکھا ہو۔یوں پوری ایک لڑی (چین)بنی ہوتی ہے اور وعدہ توڑنے والا پہلا
شخص اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے معاشرتی نظام کو تباہ کرنے میں حصہ دار بن جاتا ہے۔اسی
طرح ہول سیلر بھی ایڈوانس رقم پر بکنگ کرکے وقت مقررہ پر ری ٹیلر کو مال نہیں دیتے
اور یہاں بھی مذکورہ خرابی جگہ بنا لیتی ہے۔قرض کی ادائیگی کا وعدہ ہو یا آرڈر پر
سامان تیار کرنے کامعاہدہ ،ہمیں جابجا وعدہ خلافی اور بد عہدی کی بھیانک اور مکروہ
صورتیں دیکھنے کو ملیں گی۔آپ عیدسے چنددن پہلے کسی ”ٹیلر“کی دکان پر چلے جائیں وہاں
آپ کو گاہکوں سے کئے گئے وعدے ٹوٹتے صاف نظر آجائیں گے اوراس قابل مذمت فعل کے
سبب نوبت بحث ومباحثہ سے تلخ کلامی حتی کہ ہاتھا پائی اور مارکٹائی تک جاپہنچتی
ہے۔
وعدہ خلافی وبدعہدی سے ملکی
نظام کی تباہی:
یہ تو تھاافراد کی باہمی وعدہ خلافی کا معاملہ
جس کا نقصان چند لوگوں تک محدود رہتا ہے اور اگر وعدہ خلافی ومعاہدہ شکنی ایک ملک
کے چند اداروں کے مابین ہوتو اس کا خمیازہ بسا اوقات پوری قوم بھگتی ہے۔جیسے بجلی
کا ادارہ اگر تیل کے ادارے کو واجبات وقت مقررہ پر ادا نہ کرے تو لا محالہ قوم کو
لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیلنا پڑے گا۔یہی وہ ”گردشی قرضے‘‘ ہوتے ہیں جو طول پکڑجائیں تو
کسی بھی ملک کاداخلی نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے ۔وعدوں کے ٹوٹنے کا یہ عمل
نہ صرف معاشرے اور نظام زندگی میں خلل ڈالتا ہے بلکہ بہت ساری برائیوں اور گناہوں
کو بھی جنم دیتا ہے،اس کی وجہ سے دلوں میں بغض وکینہ،نفرت وعداوت، شماتت وشقاوت ،
حسدوتکبر اور جذبہ انتقام وغیرہ ایسی قباحتیں پیدا ہوجاتی ہیں اور چغل خوری،غیبت
،تہمت ،گالی گلوچ ،طعن وتشنیع اور ظلم وتعدی جیسی شناعتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں
جس کے نتیجے میں معاشرہ قلبی اضطراب اورذہنی بے سکونی میں مبتلا ہو کر
”نفسیاتی مریض“ بن جاتا ہے۔
وعدہ وعہد کی پاسداری کا قرآنی حکم :
ویسے تو بروزِ قیامت ہر شے کے متعلق سوال ہونا
ہے مگر ”عہد“جس کی خلاف ورزی بے شمار خرابیوں کا باعث ہے اس کے متعلق خاص طور پر
پوچھا جائے گا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”وَاَوْفُوۡا بِالْعَہۡدِ ۚ اِنَّ الْعَہۡدَکَانَ
مَسْـُٔوۡلًا(پ۱۵،بنی اسرائیل:۳۴)ترجمہ کنزالایمان:اورعہدپوراکروبے
شک عہد سےسوال ہوناہے۔“ آیت طیبہ میں اللہ تعالیٰ اور بندوں، دونوں کے ساتھ کیے جانے
والے عہد مراد ہیں ۔یہاں سے عہدووعدہ کی
اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔اس کا ایک رخ انسان کی زبان ہے ۔یہاں ”زبان“سے
مراد ”ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں“والی زبان نہیں بلکہ گوشت کے اس ٹکڑے سے کیا
گیا ”وعدہ“ ہے ۔جیسے کہہ دیا کرتے ہیں ”اب کچھ نہیں ہوسکتا ،ہم نے زبان دے رکھی
ہے“اور ”بھائی! زبان بھی کوئی شے ہوتی ہے“وغیرہ ۔یہی وہ زبان ہے جسے نبھانے والے
معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں اور اگر
کوئی تاجر اس عادت کو اپنا لیتا ہے تو وہ نہ صرف عزت وشہرت کماتا ہے بلکہ روزبروز ترقی کے زینے طے کرتا چلا جاتا ہے اور
اس کے برعکس جو تاجر لین دین میں وعدہ خلافی کا عادی ہو وہ اکثر عزت اور کاروبار دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔
وعدہ وعہد نبھانے کی نبوی تعلیمات:
قرآن کریم کے ساتھ ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات بھی اس سلسلے میں ہماری زبردست رہنما ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خود ایک دیانت دار،سچے اور امین تاجر تھے، بعثت
سے قبل اور مبعوث ہونے کے بعد دونوں ہی ادوار میں تجارتی لین دین میں وعدہ وفائی
اور اپنی بات کی پاسداری کی زبردست مثالیں قائم فرمائی ہیں ۔یہاں دو نوں ادوار کی
ایک ایک مثال ملاحظہ فرمائیے:
(۱)پہلی مثال: حضرت
عبداللہ بن ابوحمساء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نزول وحی اور اعلانِ نبوت سے قبل
میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم سے خریدوفروخت کاایک معاملہ کیامگر
اس وقت پوری رقم ادا نہ کرسکا تو میں نے وعدہ کیا کہ باقی رقم ابھی آکر ادا کرتا
ہوں۔ اتفاق سے تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یاد نہ آیا۔ تیسرے دن جب میں اس جگہ پہنچا
جہاں آنے کا وعدہ کیا تھا توآپ صلی
اللہ علیہ وسلم کو اسی مقام پر
اپنا منتظر پایا۔ میری اس وعدہ خلافی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتھے پر ذرابھی بل نہیں آیا، بس اتنا ہی فرمایا کہ
تم کہاں تھے؟ میں اس جگہ تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔(سنن ابی داود،4/342 ،حدیث:4836)
حدیث مبارکہ سے جہاں یہ واضح ہوا کہ ظہور نبوت
سے قبل بھی حضور نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم بے مثل صداقت کے حامل
تھے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ان صاحب نے اگرچہ بقایا رقم کی بروقت ادائیگی کا
وعدہ بھلا دیا مگر ہادی دو جہاں صلی
اللہ علیہ وسلم نے اسی مقام پر
ملنے کاجووعدہ فرمایا اسے ضرور پورا کیا ۔یہاں یہ یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں ٹھہرنا محض اپنا مال لینے کے لئے نہ تھا بلکہ
اپنا وعدہ پورا کرنے کے لئے تھا،مال تو ان کے گھر جاکر بھی وصول کیا جاسکتاتھا۔(مراٰۃ المناجیح،6/491)
(۲)دوسری مثال: یہود کےایک
بڑے عالم زید بن سعنہ کی ہے،انہوں نے تورات میں اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
جونشانیاں اور علامات پڑھ رکھی تھیں دو کے علاوہ تمام کا مشاہدہ ذاتِ رسالت میں
کرچکے تھے اور وہ دو علامات جن میں سے ایک حضور کے حلم کا جہل پر غالب ہونا اور
دوسری جہل کے برتاؤ کی زیادتی کے ساتھ ان کے حلم ووقار کا بڑھتے جاناتھیں ۔ان
علامات کی پہچان اور امتحان کے لئے انہوں نے حضورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کھجوروں کا سودا کیا ، کھجوریں سپرد کرنے کی مدت میں
ابھی ایک دو دن باقی تھے کہ انہوں نے بھرے مجمع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دامن اور چادرکے ملنے کی جگہ سے پکڑ کر بڑے تلخ و
ترش لہجے میں کھجوریں دینے کا تقاضا کیا
اور کہا:”تم سب عبدالمطلب کی اولاد کا یہی طریقہ ہے کہ ہمیشہ لوگوں کا حق ادا کرنے
میں تاخیر کردیتے ہو اورٹال مٹول تمہاری عادت بن چکی ہے۔“یہ منظر دیکھ کر حضرت
عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت غضب بھری اور تیزنظروں سے گھور کر اُس
سے کہا :” اےدشمنِ خدا!یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح بات کرتا ہے ۔“حلیم وکریم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عمر!ہم تم سے اِس سے زیادہ بہتر بات کے
مستحق تھے کہ تم مجھے اچھی ادائیگی کااور اسے اچھے تقاضے کا کہتے ۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ” اسے اِس کے حق کے برابر کھجوریں دے
دواور کچھ زیادہ بھی دے دوتاکہ یہ تمہارے اِسے سخت نظروں سے دیکھ کر خوفزدہ کرنے
کا بدلہ ہوجائے۔“پس زید بن سعنہ نے اس حسنِ سلوک سے جب باقی دو علامات کو بھی دیکھ
لیا تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔(دلائل النبوۃللبیہقی،1/278)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ لین دین میں وعدہ ومعاہدہ کی
پاسداری رب کریم کا حکم ،رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ، عقل
سلیم کا تقاضا اور ایک خوبصورت معاشرے کی تعمیروترقی میں غیرمعمولی اہمیت کا حامل
ہے ۔ لہٰذا ہر سمجھدار تاجر کوچاہیے کہ اِس محمود ومحبوب صفت سے متصف ہو کر ایک
اچھا کاروباری بنے اور اپنی دنیا وآخرت کو سنوارے۔
نوٹ: یہ تحریرغالباً 2016ء میں لکھی گئی تھی ، کچھ ترمیم واضافہ کے ساتھ دوبارہ پیش خدمت ہے۔
محمد آصف اقبال
مدنی عطاری
(20شعبان المعظم1443ھ مطابق24مارچ2022ء)
عِنْدَ ذِکْرِ الصَّالِحِیْن تَنَزَّلُ
الرَّحْمَۃُ ۔(نیک لوگوں کے ذکر کے
وقت رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، ۲/۶۵، رقم ۱۷۷۰)) آئیے! اللہ پاک کی رحمت سے حصہ پانے اور بزرگوں کا فیضان حاصل
کرنے کےلئے حضرت عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کی سیرت ملاحظہ کیجئے۔
نام و نسب، القابات، پیدائش:
حضرت لعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی ولادت باسعادت مشہور قول کےمطابق ۵۳۸ھ میں آذربائیجان
کے قصبہ ’’مَروَند‘‘ میں ہوئی۔([1]) اسی مناسبت سے آپ کومروندی کہا جاتا ہے۔آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکانام محمد
عثمان ہےجبکہ ”لعل اور شہباز“ آپ کے القاب
ہیں۔([2]) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کاسلسلہ نسب سیدمحمدعثمان بن سید کبیر بن سید شمس الدین بن سیدنورشاہ بن
سیدمحمودشاہ ہے جو گیارہ واسطوں سے حضرت
امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے ملتا ہے۔ ([3])
القاب کی وجہ:
جب کوئی شخص
اپنے نام کے علاوہ کسی اور لقب سے مشہور ہوجاتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی
وجہ ہوتی ہے جیسے مولی علی کرم
اللہ وجہہ الکریم کو آپ کی بہادری کی وجہ سے اسد اللہ کا لقب ملا جس کا مطلب ہے ”شیرِ خدا“ اور آپ
کو اپنے اسی لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی
طرح حضرت لعل شہباز قلندررَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ کو ”لعل“ اور
”شہباز“ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے آپ کے ان القاب کی وجہ یہ ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ
کے چہرہ انور پر لال رنگ کے قیمتی پتھر ’’ لعل“ کی مانندسرخ کرنیں پھوٹتی
محسوس ہوتی تھیں اسی مناسبت سےآپ رَحْمَۃُ
اللّٰہ ِ عَلَیْہ ”لعل“ کے لقب سے
مشہور ہوئےجبکہ ”شہباز“ کا لقب بارگاہ حسینیت سے عطا ہوا۔چنانچہ منقول ہے کہ ایک
رات آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کے
والدِ ماجد حضرت کبیرالدینعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْن امام ِعالی مقام
حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ
کی زیارت سے فیض یاب ہوئے،امام
حسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے
ارشاد فرمایا: ہم تمہیں وہ شہباز عطا کرتے ہیں جو ہمیں ہمارے نانا جان ،رحمت عالمیان صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ
واٰلہٖ وسلَّم سے عطا ہواہے ۔ اس بشارت کے بعدحضرت لعل شہبازقلندر کی ولادت ہوئی اور آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ
ولایت کے اعلی مرتبہ پر فائز ہوگئے ۔([4])
قلندر
کہنے کی وجہ:
آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سلسلہ قلندریہ سے بھی تعلق رکھتے تھے اسی لئے آپ کو قلندر کہا جاتا
ہے ۔برِصغیر میں سلسلہ قلندریہ نے حضرت شاہ خضر رومی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ (مُتَوَفّٰی ۵۹۹ھ)سے شہرت پائی۔([5])
مکتبۃ المدینہ کے رسالے ”فیضان عثمان مروندی لعل
شہباز قلندر“ کے صفحہ نمبر 9 پر ہے: قلندر خلافِ شرع حرکتیں کرنے والے کو نہیں کہا جاتا، جیسا کہ فی زمانہ بے نمازی ، داڑھی چٹ ، خلافِ شرع مونچھیں، عورتوں کی طرح لمبے لمبے بال ، ہاتھ پاؤں میں لوہے کے کَڑے پہننے والے لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ ہماری تو قلندری لائن
ہے ، مَعَاذَ اللہ، حالانکہ
صوفیائے کرام کی اصطلاح میں قلندر شریعت کے
پابند کو ہی کہا جاتا ہے چنانچہ
مصنفِ کُتُبِ کَثِیرہ،
خلیفۂ مفتیٔ اعظم ہند فیضِ مِلَّت حضرت علامہ مولانا مفتی فیض احمد اویسی رضوی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ نقل فرماتے ہیں : ’’قلندر وہ ہے جو خلائقِ زمانہ
سے ظاہری اور
باطنی تجربہ حاصل کر چکا ہو، شریعت و طریقت کا پابند ہو ۔ ‘‘ مزید
فرماتے ہیں : ’’دراصل صوفی اور قلندر
ایک ہی ذات کا نام ہے صرف لفظ دو ہیں
مُسمّٰی (ذات)ایک ۔مگر حق یہ
ہے کہ ان میں عموم خصوص کی نسبت ہے ، اس لئے کہ ہر قلندر صوفی تو ہو سکتا ہے لیکن ہر صوفی قلندر نہیں، کیونکہ جہاں صوفی کی انتہا ہوتی ہے وہاں سے قلندر کی ابتدا ہوتی ہے ۔‘‘([6])
ابتدائی تعلیم:
حضرت لعل شہباز
قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد
گرامی سید کبیرالدین رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کے زیر سایہ حاصل کی۔ چونکہ والدین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْھِما تقویٰ و پرہیز گاری اور زیورِ علم سے آراستہ
وپیراستہ تھے اس لیےبچپن ہی سے آپ رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اللہ والوں کی محبتیں اورصحبتىں مىسر آئىں۔ جس کے
نتیجے میں فىوض و برکات اور علمِ دىن کے
گہرے نقوش آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ کی لوحِ قلب پر مُنَقَّش
ہوئے۔ یوں بچپن ہی میں نىکی اور راست بازى آپ کا شعار بن چکی تھی ۔([7])آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو بچپن ہی سے علمِ دین حاصل کرنے
کا شوق تھا اور آپ نے چھ سال کی چھوٹی عمر میں ہی قرآن پاک مکمل پڑھ لیا تھااور
ابتدائی مسائلِ دینیہ بھی یاد کرلئے تھے یہی نہیں بلکہ سات سال کی عمر میں قرآن
پاک حفظ کرلیا۔ بعدہ دیگر دینی عُلوم کی تحصیل میں مصروف ہو گئے اور بہت جلد مروجہ
علوم و فنون میں بھی مہارت حاصل کرلى۔([8])
اساتذہ
و رفقاء:
حضرت لعل شہباز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جن اولیائے کرام اور صوفیائے عظام رَحِمَہُمُ اللہُ کى صحبتوں سے فیض یاب ہوئے اور راہ خدا کے مسافربنے ۔ان
میں سر فہرست حضرت شىخ فرىدالدین گنج شکر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، حضرت بہاؤ الدىن
زکرىا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، حضرت مخدوم جہانىاں جلال الدىن بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اور حضرت شىخ صدرالدىن عارف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا نام ِ نامی اسم ِ گرامی شامل ہے۔([9])
مزارات پر حاضری:
بزرگوں کے مزارات پر حاضری دینا بھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ معمولات
میں سے تھا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ایک طویل عرصہ تک سیر و سیاحت کرتے رہے، دورانِ سیاحت
بہت سے اولیائے کرام سے ماقاتیں کیں اور بہت سے اولیائے کرام کے مزارات پر حاضری
کا شرف حاصل کیا، آپ اپنے وطن مروند سے عراق تشریف لے گئے، چنانچہ بغداد میں
سیدالاولیا ءحضور سیدی غوث اعظم عبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، مشہدشریف میں حضرت
امام علی رضا رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اور کوفہ میں امام الائمہ، سراج الامۃ امام اعظم
ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے مزار اقدس پر حاضری دے کر فیوض وبرکات حاصل کئے ۔([10])
بشارتِ غوثیہ:
بارگاہ غوثیہ سے حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بہت روحانی فیوض حاصل کئے جتنے دن رہے عبادت،
تلاوت اور مراقبہ میں مصروف رہے اور انوار و برکات حاصل فرماتے رہے۔مزار مبارک میں
حاضری کے دوران ایک مرتبہ حضور غوث اعظم رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ خواب میں تشریف
لائے اور آپ کو سینے سے لگایا اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئےارشاد فرمایا : عثمان تم
ہمارے قلندر ہو تمہیں فیوض و برکات دے دئیے گئے ہیں ، اب تم یہاں سے مکہ مکرمہ جاؤ
اور بیت
اللہ کی قربت کی سعادت حاصل کرو ۔([11])
سفر مدینہ:
بزرگوں کے
مزارات سے اکتساب فیض کے بعد آپ رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ کے دل میں آقائے
دو جہاں، سرورکون ومکاںصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے درپاک پر حاضری کی تمنا جاگ اُٹھی چونکہ حج
کے ایام قریب تھے لہذااحرام باندھا اور چل پڑے۔ حج بىت اللہ سے مشرف ہونے کے بعدمدینہ منورہ میں نبی محترم، شفیع
معظم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر دی اورعشق ومحبت میں ڈوب کر
اپنے پیارے آقا و مولیٰ محمد مصطفٰےصَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر خوب خوب درود وسلام کے نذرانے پیش کیے۔ ([12])
بیعت
و خلافت:
حضرت عثمان مروندی لعل شہباز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ علم و حکمت کی دولت سمیٹتے سمیٹتے جب کربلائے
معلی پہنچے توحضرت امام موسىٰ کاظم رَضِیَ
اللہُ عَنْہ کی اولاد سے ایک بزرگ حضرت شىخ ابواسحاق سید ابراہىم قادری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ دست اقدس پر بیعت ہوئے اور تقرىباً ۱۲ماہ تک پیرومرشد کے زیرسایہ سلوک کی منزلیں
طے کرتے رہے۔ پیرومرشد حضرت ابراہیم رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ کی نظر ولایت نے جب
اس بات کا مشاہدہ کیا کہ یہ مرید اب مرید کامل بن کر طریقت کی اعلیٰ منزلیں طے
کرچکاہے تو انہوں آپ رَحْمَۃُ اللہِ
عَلَیْہ کو خرقہ خلافت سے نوازا اور خدمت دین کے لیےراہِ
خدا میں نکلنے کی ہدایت فرمائی۔([13])
پیر و مرشد کے حکم پر عمل:
آپ رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ کو آپ کےمرشد
کریم نےچونکہ خدمت ِ دین کے لئے کوئی خاص
منزل متعین نہ فرمائی تھی لہذا آپ رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ مرشد کریم کے
فرمان پر لبیک کہتے ہوئے اَن دیکھے راستوں
پر نکل کھڑے ہوئےاور شہر بہ شہر گاؤں بہ گاؤں نیکی کی دعوت کی دھومیں مچانے میں
مصروف ہوگئے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی تمام عمر دین کی خدمت اورتبلیغ
دین میں گزری ، چنانچہ
سندھ میں آمد:
سرکاردوعالم صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے درِاقدس سے واپسی پر کچھ عرصہ عراق میں قیام
فرمایا پھر تبلیغ قرآن و سنت کا عظیم فريضہ سرانجام دیتے ہوئے مکران کے راستے سندھ مىں جلوہ فرما ہوئےآپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی عادت کریمہ تھی کہ ایک جگہ قیام پزیر نہ رہتے بلکہ اکثر سفر پر رہتے
چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ملتان اور پھر ہندوستان کے دیگر
شہر گرنار،گجرات ، جونا گڑھ، پانی پت، وغیرہ کا سفر اختیار فرمایا اور خوب نیکی کی دعوت کی
دھومیں مچائیں۔([14])
سیہون آمد:
حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی آمد سے قبل سیہون برائیوں اور بدکاریوں کا گڑھ تھا ہر طرف برائی
اور بدکاری کا دور دورہ تھا۔ سیہون
اس وقت بت پرستی اور کفر و الحاد کا مرکز بنا ہوا تھا۔ زندگی کے ہر شعبے میں بے
راہ روی تھی، جوا، شراب اور دوسری معاشرتی برائیاں عام تھیں۔ لوگوں کی اخلاقی حالت
بہت پست تھی جگہ جگہ عصمت فروشی کے اڈے قائم تھے لیکن حضرت لعل شہباز قلندر نے سیہون پہنچتے ہی گمراہ اور بدکار
لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کروایا اور برائیوں اور بدکاریوں سے دور رہنے
کی تلقین فرمائی اور لوگوں کو اسلام قبول کرنےکی دعوت دی۔
سیہون کے بڑے بڑے زمیندار اور روسا ان برائیوں میں
شریک تھے۔ ان عیش پسندوں اور روساء نے آپ کی بہت مخالفت کی۔ مگر آپ نے اس ظلمت کدہ
کفر میں اسلام کی شمع کو منور رکھا۔ آہستہ ہستہ اس شمع کی روشنی پھیلنے لگی اور آپ
کی دینی و روحانی تعلیمات کو لوگ قبول کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے برائی کی جگہ
نیکی نے لےلی اور بدکاری اور فحاشی سے لوگ کنارہ کشی اختیار کرنے لگے۔ گناہوں اور
برائیوں کے مرکز ویران اور سنسان ہوگئے۔ سیہون کے جس محلہ میں آکر آپ قیام پذیر ہوئے وہ محلہ بدکار عورتوں کا تھا اس عارف باللہ کے قدموں کا پہلا اثر یہ تھا کہ وہاں زناکاری
اور فحاشی کا بازار سرد پڑگیا۔ ([15])
کرامت:
حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی سیہون شریف آمد سے قبل یہاں کا ایک محلہ بے
حیائی اور بد کاری کا مرکز سمجھا جاتا تھا فاحشہ عورتیں سرعام لوگوں کو دعوتِ گناہ
دیتیں۔ حضرت قلندر کی آمدکے بعدجو مرد بھی گناہ کے ارادے سے اس محلے میں آتا آپ کی
نظر فیض اثر پڑتے ہی فوراً واپس ہو جاتا
او ر اس قدر مرعوب ہوتا کہ دوبارہ اس طرف کا رخ نہ کرتا آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اللہ پاک کی بارگاہ میں ان عورتوں کے لیے ہدایت کی دعا
مانگى جو فوراً قبول ہوئی اور یکدم ان کی کایا پلٹ گئی چنانچہ وہ سب خود جمع ہوکر
حضرت قلندر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور صدق دل سے تائب ہوکر قلعہ
اسلام میں پناہ گزیں ہوگئیں۔([16])
وصالِ باکمال:
زندگی کی112 بہاروں کو بارگاہِ قلندر سے فیض پانے کا
موقع ملا۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے 21شعبان المعظم650 ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا۔([17]) انا
للہ وانا الیہ راجعون
آپرَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ نے جس جگہ وصال
فرمایاوہیں آپ کا روضہ مبارکہ تعمیر ہوااس کی تعمیر سب سے پہلے سلطان فیروز تغلق
کے زمانےمیں ہوئی پھر وقتاًفوقتاً سرزمین ہند پر حکمرانی کرنے والے سلاطین وامراء
مزار پرانوار پر حاضر ہوتے رہے اوراس کی تزئین وآرائش میں حصہ ڈال کر دین و دنیا کی سعادتیں لوٹتے رہے آج بھی آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا عرس مبارک نہایت تزک واحتشام کے ساتھ منایا
جاتا ہےجس میں دورو نزدیک سے آنے
والےعقیدت مند اور محبین اپنی عقیدت ومحبت کا اظہار کرتے ہیں ۔([18])
اللہ پاک ہمیں حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کےفیضان سے مالا مال فرمائے۔ آمین
از:مولانا سید منیرعطاری مدنی
اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر، دعوتِ اسلامی
[1] … اللہ کے خاص
بندے،عبدہ،ص۵۲۳
[2] … شان
قلندر،ص۲۶۴ملخصاً
[3] … شان
قلندر،ص۲۶۴
[4] … اللہ کے خاص
بندے،عبدہ،ص۵۲۲بتغیر
[5] … اقتباس الانوار، ص۶۶
[6] … قلندر کی شرعی تحقیق، ص۶، بتصرف
[7] … شان
قلندر،ص۲۶۸بتغیر
[8] … شان
قلندر،ص۲۶۸بتغیر
[9] … تذکرہ اولیائے
سندھ، ص۲۰۶ بتغیر
[10] … اللہ کے خاص
بندے،عبدہ،ص۵۲۹
[11] … سیرتِ حضرت
لعل شہباز قلندر،ص۸۴
[12] … اللہ کے خاص
بندے،عبدہ،ص۵۲۹
[13] … شان
قلندر،ص۲۷۰بتغیر
[14] … اللہ کے خاص بندے،عبدہ،ص۵۲۹
[15] … سیرتِ حضرت
لعل شہباز قلندر،ص۱۰۶۔۱۰۷
[16] … تذکرہ صوفیائے
سندھ، ص۲۰۳ملخصاً
[17] … اللہ کے خاص
بندے،عبدہ،ص۵۲۳
[18] … تذکرہ صوفیائے
سندھ، ص۲۰۳ملخصاً
ساتویں صدی
ہجری کی ایک دوپہر ڈھل رہی تھی کہ درویشوں کا ایک قافلہ مختلف علاقوں میں نیکی کی
دعوت دیتا ہوا باب الاسلام سندھ کے ایک علاقے میں پہنچا۔ ان دنوں باب الاسلام
سندھ برائىوں اور بدکارىوں کى آماجگاہ تھا۔ ہر طرف گناہوں کا دور دورہ تھا۔ اس
علاقے میں خاص طور پر کفر و شرک اور فحاشی
وبدکاری عام تھی ۔بعض علاقے تو ایسے تھے کہ جہاں مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر
تھی۔دینی معلومات نہ ہونے کے باعث لوگ زندگى کے ہر
شعبے مىں بے راہ روى اور معاشرتى برائىوں کا شکار تھے ۔
لوگوں کى اَخلاقى حالت اَبتر تھی اسی وجہ سے جگہ جگہ ”برائی کے اڈے“ قائم تھے ۔ درویشوں کا یہ
قافلہ ايك ایسے محلے میں ٹھہرا جہاں ہر طرف چہل پہل تھی
۔شام ڈھلتے ہی چراغ روشن ہونے لگے ، شام نے رات کا لبادہ اوڑھا تو گانے بجنے لگے ، عورتیں سرِعام گناہ کی دعوت دینے لگیں، اوباش نوجوان گناہوں کے
بھنور کی طرف کھنچتے چلے جارہے تھے ۔ یادِ الہی میں مگن درویش یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوئے اور اپنے اميرِ قافلہ سے عرض کرنے لگے : حضور! یہاں قیام کرنا ہمارے لیے مناسب نہیں، کہیں اور چلتے ہیں یہ
تو بہت ہی بُری جگہ ہے ۔امیرِقافلہ
نے فرمایا : ہم یہاں اپنی مرضی سے نہیں آئے بلکہ بھیجے گئے ہیں۔ امیرِقافلہ کا جواب سُن کر درویش مطمئن ہو
گئے ۔جوں توں رات گزری ، صبح گناہوں کا بازار سرد پڑ چکا تھا۔ اگلی رات درویش یہ
دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بازار میں کل
جیسی رونق نہ تھی۔ دوسری طرف برائی کے
اڈوں پر بھی اوس پڑ چکی تھی، جو بھی آتا محلے میں داخل ہوتے ہی الٹے پاؤں واپس لوٹ جاتا ۔اب تو یہ معمول ہی بن
گیا، بازار کی رونقیں ختم ہونے لگیں۔ ایک
دن ساری عورتیں جمع ہوئیں اور کہنے لگیں : جس دن سے یہ درویش یہاں آئے ہیں ہمارا تو کاروبار ہی ٹھپ ہو گیا ہے ۔ انہیں یہاں سے نکالو ورنہ ہم تو بھوکے مر جائیں گے ۔ چنانچہ وہ ان درویشوں کے پاس آئیں
اور کہا : بابا ”آپ صوفی لوگ ہیں
یہاں آپ کا کیا کام ، یہ گناہوں کی جگہ ہے ، یہاں سے چلے جائیں آپ کی وجہ سے ہمارا کام بند
ہو رہا ہے “۔ درویشوں کے امیرِ قافلہ نے فرمایا : ’’ہم یہاں جانے کے
لیے نہیں آئے ، اب تو ہمارا مزار بھی یہیں
بنے گا۔ البتہ اگر تمہیں کوئی مسئلہ ہے تو
تم یہاں سے چلی جاؤ ۔‘‘امیرِ
قافلہ کا جواب سن کر انہیں پریشانی لاحق ہوگئی۔ چونکہ بڑے بڑے زمىندار اور رؤسا یہاں تک کہ خود راجہ بھی ان گناہوں میں شریک تھا لہذا
انہوں نے راجہ کو شکایت کر دی۔ راجہ
نے اپنے سپاہیوں سے کہا : درویشوں سے کہو یہاں سے چلے جائیں ورنہ انہیں زبردستی نکال دیا جائے گا۔
راجہ کا حکم پاتے ہی سپاہی درویشوں کے
قافلے کی طرف روانہ ہوئے ابھی قریب بھی نہ پہنچے تھے کہ
اچانک انکے پاؤں زمین نے پکڑ لیے ۔ سپاہیوں
نے قدم اٹھانے کے لیے بہت جتن کیے مگر بے سود۔ انہوں نے واپس پلٹنے کی کوشش کی تو زمین نے پاؤں چھوڑ
دیے ۔ سپاہی گھبرا کر واپس لوٹ گئے ۔ وہ عورتیں حیرت میں ڈوبی یہ منظر دیکھ رہی
تھیں انکے دل کی دنیا زیروزبر ہوگئی اور وہ دلی طور پر اس بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ کی معتقد ہوچکی
تھیں، بے ساختہ اس بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ (جو کہ اس
قافلے کے امیر بھی تھے )کے قدموں میں
گر کر تائب ہوگئیں اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگئیں۔ ان کی دیکھا دیکھی مرد بھی ان
بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے دستِ حق پرست پر تائب ہو کر دائرہ
اسلام میں داخل ہوگئے ۔( اللہ کے ولی ، ص۳۴۰، اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۳۳، شانِ قلندر، ص۲۸۸ بتصرف)
کیا آپ
جانتے ہیں کہ یہ بلند رتبہ درویش کون تھے
؟ جی ہاں! یہ کوئی اور نہیں بلکہ بابُ الاسلام سندھ کی پہچان حضرت لعل شہباز قلندر
سیّدمحمدعثمان مَروَندی کاظمی حنفی قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی تھے اور
دوسرے درویش آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکے مرید اور خادم تھے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ نے سیہون شریف ضلع دادو بابُ
الاسلام سندھ تشریف لا کرکفروشرک کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں بھٹکنے والوں کواسلام کے پاکىزہ
اُصُولوں سے روشناس کراىا۔
اس ظُلمت
کدے مىں اسلام کى شمع روشن کی۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکی آمد سے بابُ الاسلام سندھ میں
اسلام کى روشنی پھیلتی چلی گئی۔ لوگ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی پُرتاثیر
دعوت پر جوق درجوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے احکامات اور سرکاردوعالم صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی میٹھی میٹھی سنتوں کی روشنی میں زندگی
بسرکرنے لگے ۔سُطُورِذیل میں نیکی کی دعوت کے
عظیم داعی ، مُبَلِّغِ اسلام حضرت لعل شہباز
قلندر سید محمد عثمان مَروَندِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکے مختصر
حالات زندگی پیش کیے جاتے ہیں۔
ولادت اور سلسلہ نسب
حضرت سیدنا
لعل شہباز قلندر محمد عثمان مَروَندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی ساداتِ کرام کے مذہبی
گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادتِ باسعادت مشہور قول کےمطابق
۵۳۸ھ بمطابق 1143ء میں آذربائیجان کے
قصبہ ’’مَروَند‘‘ میں ہوئی۔(اللہ کے خاص بندے عبدہ،
ص۵۲۳)اسی مناسبت سے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کومَروَندِی کہا جاتاہے ۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا نام سید محمد عثمان ہے جبکہ آپ اپنے لقب ’’لعل شہباز‘‘ سے مشہور ہیں۔(شان قلندر،
ص۲۶۴ملخصاً)
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کو اس قدر حسن و جمال عطا فرمایا تھا کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی پیشانی کے نورکے
سامنے چاندنی بھی مات تھی ۔حضرت علامہ
مولانا میر سید غلام علی آزاد بلگرامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کاسلسلہ نسب تیرہ واسطوں سے حضرت سیدناامام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہتک پہنچتاہے ۔ ‘آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ کاسلسلہ نسب یوں ہے : سیدعثمان مروندی بن سید کبیر بن سید شمس الدین بن سیدنورشاہ بن
سیدمحمودشاہ بن سیّد احمد شاہ بن سیّد ہادی بن سیّد مہدی بن سیّدمنتخب بن سیّدغالب
بن سیّد منصوربن سیّداسماعیل بن سیدناامام محمدبن جعفر صادق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہم ۔( لب
تاریخ سندھ مخطوط، ص۹ بحوالہ تذكره اولياءِ
سندھ، ص٢٠٦)
قلندر کہنےکی
وجہ
آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ سلسلہ قلندریہ سے بھی تعلق رکھتے تھے اسی لئے آپ کو قلندر کہا جاتا
ہے ۔برِصغیر میں سلسلہ قلندریہ نے حضرت شاہ خضر رومی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی (مُتَوَفّٰی ۵۹۹ھ)سے شہرت پائی ۔(اقتباس الانوار، ص۶۶)
قلندر کون ہوتاہے ؟
قلندر خلافِ
شرع حرکتیں کرنے والے کو نہیں کہا جاتا، جیسا کہ فی زمانہ بے نمازی ، داڑھی چٹ ، خلافِ شرع مونچھیں، عورتوں
کی طرح لمبے لمبے بال ، ہاتھ پاؤں میں لوہے کے کَڑے پہننے والے لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ ہماری تو قلندری لائن ہے ، مَعَاذَ اللہ، حالانکہ صوفیائے کرام کی اصطلاح
میں قلندر شریعت کے پابند کو ہی کہا جاتا ہے چنانچہ مصنفِ کُتُبِ کَثِیرہ، خلیفۂ مفتیٔ
اعظم ہند فیضِ مِلَّت حضرت علامہ مولانا مفتی فیض احمد اویسی رضوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی نقل فرماتے ہیں : ’’قلندر وہ ہے جو خلائقِ زمانہ سے ظاہری اور باطنی تجربہ حاصل کر چکا ہو، شریعت و
طریقت کا پابند ہو ۔ ‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’دراصل صوفی اور قلندر
ایک ہی ذات کا نام ہے (قلندر کی
شرعی تحقیق، ص۶ بتصرف)
القاب کی وجہ
تسمیہ
آپ
رَحْمَۃُ
اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے چہرۂ انور پر لال رنگ کے قیمتی پتھر
’’ لعل“ کی مانندسرخ کرنیں پھوٹتی محسوس ہوتی تھیں اسی
مناسبت سے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ”لعل“کے لقب سے مشہور ہوئے جبکہ ”شہباز“ کا لقب بارگاہِ امامِ
حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے عطا
ہوا۔چنانچہ منقول ہے کہ ایک رات آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے والدِ
ماجد حضرت سیدنا کبیرالدینعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْن امام ِعالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہکی زیارت سے فیض
یاب ہوئے ، سیّدُناامام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہ نے ارشاد فرمایا : ہم تمہیں وہ شہباز عطا کرتے ہیں جو ہمیں
ہمارے نانا جان ، رحمتِ عالَمیان صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم سے عطا
ہواہے ۔اس بشارت کے
بعدحضرت لعل شہبازقلندر عَلَیْہِ
رَحْمَۃُ اللہِ الصَّمَد کی ولادت ہوئی اور
آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ولایت کے اعلیٰ
مراتب پر فائز ہوگئے ۔( اللہ
کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۲بتغیر)
بچپن اور
ابتدائی تعلیم
آپ
رَحْمَۃُ
اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا ابتدائی سلسلۂ تعلیم والدِ گرامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِیکے زیرِ سایہ تکمیل پایا۔ چونکہ والدین رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْھِماتقویٰ و پرہیز گاری اور زیورِ علم سے آراستہ وپیراستہ تھے اس لیے بچپن ہی سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو اللہ والوں کی محبتیں اورصحبتىں مىسر
آئىں۔ جس کے نتیجے میں فُىُوض و بَرکات اور علمِ دىن کے
گہرے نُقُوش آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکی لوحِ قلب پر مُنَقَّش ہوئے ۔ یوں بچپن ہی میں نىکی اور راست بازى آپرَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ کا
شِعار بن چکی تھی ۔(شان قلندر، ص۲۶۸بتغیر)
حفظِ قرآن اور
مسائلِ دینیہ
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو غیرمعمولی قوّتِ حافظہ سے نوازا تھا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ نے جونہی پڑھنے کی عمر میں قدم رکھا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ کو علاقے کى مسجد مىں دینِ اسلام کی ابتدائی تعلیم کے حصول کے
لیے بھیجا گیا۔ والدہ ماجدہ کی دلی خواہش
تھی کہ میرا بیٹا خوب علم دین حاصل کرے ۔ چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ نے والدہ ماجدہ کی خواہش کوعملی جامہ پہنانے کے لیے اپنے گاؤں کى مسجد میں ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ چونکہ مادرزاد ولی تھے لہذا جلد ہى آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہنے قرآن پاک پڑھنے کے ساتھ ساتھ
ابتدائى دىنى مسائل بھى سىکھ لىے ۔ چھ برس کى عمر تک دىن کے چىدہ چىدہ
مسائل اور نماز روزہ اور طہارت کے بارے مىں ضرورى مسائل سے آپ کو مکمل طور پر آگاہى حاصل ہوچکى تھى۔ سعادت
مند والدین کی مدنی تربیت نے قرآن پاک حفظ
کرنے کا شوق وجذبہ بیدار کیا تو سات سال
کى عمر مىں قرآن مجىد بھی حفظ کرلىا۔ اس کے بعددیگر
علومِ دینیہ کی تحصیل میں مصروف ہو گئے اور بہت جلد مُرَوَّجہ عُلُوم و فُنُو ن کے ساتھ ساتھ عربى اور فارسى
زبانوں مىں بھى مہارت حاصل کرلى۔( اللہ
کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲٥ بتصرف)
والدین کا داغِ
مفارقت
دستورِ قدرت
ہے کہ جسے جتنا بلند مقام عطا کیاجاتا ہے اتنی ہی آزمائشوں اور امتحانات سے گزارا جاتا ہے ۔ حضرت سیدنا لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ کے امتحان کا وقت آچکا تھا۔ ایامِ زیست(زندگی کے
دنوں) کی گنتی اٹھارہ سال کو پہنچی تو والد ماجد داغِ مَفارقت دے گئے ، ابھی یہ زخم تازہ تھا کہ دو سال بعد
والدہ ماجدہ بھى داعیٔ اَجَل کو لبیک کہہ
گئیں۔چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مزید علمِ دین کے شوق میں گھربار چھوڑ کر راہ
خدا عَزَّ وَجَلَّکے مسافر بن گئے اور علمائے کرام کى بارگاہ سے وراثت ِانبیاء
یعنی علم اور صوفیائے کرام کی بارگاہ
سے خزینۂ روحانیت جمع کرنے میں مصروف ہو گئے ۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۶ بتصرف)
حضرت لعل شہباز
قلندر سنی تھے
حضرت سیّدنا
لعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ صحیح العقیدہ سُنی اورحنفی المذہب
تھے ۔آ پ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ساری زندگی اہلِ سنّت کے جلیل القدر
علمائے کرام اور مشائخِ عُظّام ہی کے ساتھ دوستی اور نشست وبرخاست رکھی
نیزان ہی کے ساتھ سفر بھی فرمائے ۔حضرت سیّدنالعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ اپنی ایک نعتیہ غزل کے
آخری مصرع میں اپنا عقیدہ یوں بیان
فرماتے ہیں :۔
عثمان چو شد غلام نبی و چہار یار
امیدش از مکارم عربی محمد است
یعنی : عثمان جب ہوگئے حضور نبیٔ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کے چاروں
یاروں(حضرت صدیق اکبر، حضرت عمرفاروق اعظم، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی المرتضٰی رَضِیَ اللہُ
تَعَالٰی عَنْہُمْ )کے غلام۔۔۔ اُس کو
امید ہے محمدِ عربی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاق و عادات سے ۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۷ بتصرف)
حضرت سیدنا
عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہعلم و حکمت کی
دولت سمیٹتے سمیٹتے جب کربلائے معلی پہنچے توحضرت سیدنا امام
موسىٰ کاظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی اولاد سے ایک بزرگ حضرت سیدنا شىخ ابواسحاق سید ابراہىم قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکے دستِ اَقدس پر بیعت
ہوئے اور تقرىباً ۱۲ماہ تک پیرومرشدکے زیرِسایہ سلوک کی منزلیں طے فرماتے رہے ۔ پیرومرشد حضرت سیدنا ابراہیم قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکی نظرِ ولایت نے جب اس بات کا
مشاہدہ کیا کہ یہ اب مریدِ کامل بن کر
طریقت کی اعلیٰ منزلیں طے کرچکے ہیں تو
انہوں نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ کو خرقۂ خلافت و اجازت سے نوازا اور خدمتِ دین کے لیے راہِ خدا میں سفر کرنے کی ہدایت فرمائی۔( شان قلندر و غيره، ص۲۷۰بتغیر)
بعض سیرت
نگاروں نے لکھا کہ آپرَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہحضرت سیدنا شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی سہروردی عَلَیْہِ رَحمَۃُ
اللّٰہ ِالْقَوِیكے مریدو خلیفہ
تھے ۔( خزینۃ الاصفیاء ، ۴/ ۷۹، تذكره حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی،
ص١١١)
مرشد کےحکم
پرعمل
آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہکے مرشدِ کریم نے
چونکہ خدمت ِ دین کے لئے کوئی خاص منزل متعین نہ فرمائی تھی اس لئے آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پیرو مرشد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے اَن دیکھے راستوں پر نکل
کھڑے ہوئے اور شہر بہ شہر گاؤں بہ گاؤں
نیکی کی دعوت کی دھومیں مچانے میں مصروف
ہوگئے ۔( آداب مرشد
کامل، ص : ۱۹۸ملتقطاً)
ہمعصروہمسفر
حضرت سیدنا
لعل شہباز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے نیکی کی دعوت عام کرنے کے لئے مختلف اولیائے کرا م کے ساتھ مدنی
قافلوں میں سفر کیا۔جن اولیائے کرام اور
صوفیائے عُظَّام رَحِمَہُمُ اللہُ
السَّلَامکى صحبتوں سے فیض یاب ہوئے اور راہِ خداکے مسافر بنے ۔ ان میں
سَرِ فہرست (۱)حضرت سیدنا شىخ
فرىدالدین گنج شکر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ
الصَّمَد، (۲)حضرت سیدنا بہاؤ الدىن زکرىا ملتانى قُدِّسَ سِرُّہُ
النُّوْرَانِی،
(۳)حضرت
سیدنا مخدوم جہانىاں جلال الدىن بخاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی (صوفیاء کی اصطلاح میں ان تین اور چوتھے حضرت لعل شہباز قلندر کو چار یار کہتے ہیں ۔)اور حضرت سیدنا شىخ صدرالدىن عارف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا نام ِ نامی
اسم ِ گرامی شامل ہے ۔( معیار
سالکان طریقت (سندھی)، ص ۴۲۴، تذکرہ اولیاءِ سندھ، ص۲۰۶ بتغیر)
مزارات پر حاضری
حضرت سیّدنالعل
شہباز قلندررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ طریقت کی
منازل طے کرنے میں مصروف تھے اور اس دوران اپنے اپنے وقت کے برگزیدہ اولیائے کرام سے روحانی فیض حاصل کرنے کے لئے انکے
مزارات پر حاضری بھی دیتے رہتے چنانچہ مشہدشریف میں حضرت سیّدناامام علی رضا رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہاور کوفہ (بغداد) میں امام الائمہ، سِراجُ الاُمَّۃ،
حضرت سیدنا امامِ اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی
عَنْہکے مزارِ اَقدس پر حاضری دے کر فُیُوض وبَرَکات حاصل کئے ۔( اللہ
کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۹)
غوثِ پاک کے
مزار پر
حضرت
سیّدنالعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی
عَلَیْہ پیرانِ پیر روشن ضمیر حضور غوثِ اعظم محی الدین سید ابومحمدعبدالقادر
جیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکے مزار شریف پر حاضر ہوئے ، مراقبے
کے دوران آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو سیّدناغوثِ اعظم کی زیارت ہوئی ، سیّدنا غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا : عثمان !اب مکہ مُعَظَّمہ چلے جاؤاور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے گھر کی زیارت کرو۔( سیرت حضرت لعل شہباز قلندر، ص۷۲)
سفرِ حج اور
فکرِ مدینہ
حضرت
سیّدنالعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی
عَلَیْہ نے مشہورومعروف علماواولیاسے اِکتِسابِ علم و روحانیت کے بعد آقائے دوجہاں، سردار انس و جاںصَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے درِپاک پر حاضری کا ارادہ فرمایا۔ چونکہ حج کے ایام قریب تھے لہٰذااِحرام باندھا اور چل پڑے ۔حضرت سیدنا لعل
شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا
خوف غالب تھا یہاں تک کہ جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ سفرِ حج پر روانہ ہو رہے تھے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی
خُفیَہ تدبیر کا خیال آگیا اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ یوں فکرِ مدینہ فرمانے لگے : ’’اے عثمان! تم سواری پر سوار حجِ بیتُ اللہکے لیے جارہے ہو اور عنقریب تمہارا جنازہ بھی روانہ ہو گا۔تم نے آخرت کے لیے کیا توشہ تیار کیا ہے ؟اسی خوفِ خداکے ساتھ بیتُ اللہ شریف پہنچے ، حج
کی سعادت پائی اور انوارِ الہی کی بارش سے خوب مستفیض ہوئے ۔( سیرت حضرت
لعل شہباز قلندر، ص۷۲)
زیارتِ مدینہ
حجِ بیتُ اللہسے مُشَرَّف ہونے
کے بعدمدینہ منورہ میں نبیٔ محترم، شفیعِ مُعَظَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہِ مُحتَشَم میں حاضر ہوئے اورعشق ومحبت میں ڈوب کر اپنے پیارے آقا و مولیٰ محمد مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر خوب خوب درود و سلام کے گجرے نچھاور کیے ۔( اللہ
کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۹)
منقول ہے کہ روضۂ رسول پر حاضر کیا ہوئے جد ا ہونے کو جی ہی نہ چاہتا تھا، لہذا گیارہ
ماہ تک درِرسول پر حاضر رہے ۔اگلے سال پھر حج کی سعادت پائی اور
ہندوستان کا سفر اختیار فرمایا۔بَرِصغیر پاک و ہند میں آپ کی منزل سیہون شریف ضلع دادو باب الاسلام سندھ تھی چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ پہلے مرکزالاولیاء لاہور تشریف فرما ہوئے ۔
قلندرپاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اور باب
الاسلام آمد
حج کے بعد
سرکاردوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے درِاقدس پر حاضر ہوئے اور وہیں سے ہندوستان کے لیے رختِ سفر باندھا
چنانچہ وہاں سے عراق پہنچے اور کچھ عرصہ وہیں قیام فرمایا پھر تبلیغ قرآن
و سنّت کا عظیم فريضہ سرانجام دیتے ہوئے بلخ ، بخارا اور مختلف علاقوں
سے ہوتے ہوئے باب الاسلام سندھ مىں جلوہ
فرما ہوئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عادتِ کریمہ تھی کہ ایک جگہ قیام نہ فرماتے بلکہ اکثرمدنی قافلے کے مسافر رہتے چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ نے مدینۃ الاولیاءملتان، مرکز الاولیاء لاہور اور پھر ہندوستان کے دیگر شہر اجمیر، گرنار، گجرات ، جونا گڑھ، پانی پت، کشمىر وغیرہ کا سفر اختیار
فرمایا اور خوب نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیں۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۹بتصرف)
اجمیر شریف
حاضری
آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہنے تقریباً چالیس
دن تک اجمیر شریف میں سلطان الہند حضرت سیّدنا خواجہ معین الدین سید حسن چشتی عَلَیْہِ رَحمَۃُ
اللّٰہ ِالْقَوِیکے مزارِ
پُر انوارکے سائے میں قیام فرمایا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہیہاں عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتے اور باطنی فیوض و برکات سے مالا مال ہوتے ۔(شان قلندر، ص۲۷۹بتغیر)
سندھ کا مقدر
جاگ اٹھا
ان دنوں
برصغیر ہندوستان کے مختلف اطراف میں اولیاء و صوفیائے کرام شمعِ اسلام روشن کیے ہوئے تھے ۔ وسطِ ہند اور جنوبى پنجاب مىں چشتى سلسلے کے بزرگ توحىد ورسالت کادرس
دے رہے تھے اور خاندانِ سہروردیہ کا فیضان دہلی تا ملتان پھیلا ہوا تھامگر ابھی تک
باب الاسلام سندھ فیوض و برکات سے خاص حصہ
نہ رکھتا تھا۔جب حضرت سیدنا لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہپانی پت میں حضرت
سیدنا بوعلی قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے پاس پہنچے تو انہوں نے باب ا لاسلام سندھ کو نوازنے کی استدعا کی اورفرمایا : ’’ہند میں تین سو قلندر ہیں ، بہتر ہو گا
کہ آپ (باب الاسلام) سندھ تشریف لے جائیں ۔‘‘آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے مشورے پر حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ باب الاسلام سندھ تشریف لے آئے ۔( تحفۃ الکرام (مترجم)، ص ۴۲۹، تذكره
اولياءِ سندھ، ص٢٠٦)
دشتِ شہباز
حضرت سیدنالعل
شہباز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہنے جب باب الاسلام سندھ کی طرف رخت سفر باندھا تو
راستے میں مکران مىں وادى پنج گورکے قریب
قیام فرمایایہاں ہزاروں مکرانى بلوچوں نے آپ کے دست حق پرست پر توبہ کی اور شمع اسلا م کے پروانے بن گئے ۔ یہ میدان آج بھى آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے لقب کی نسبت سے ’’دشتِ شہباز‘‘ کہلاتا ہے ۔ یہاں کے
مقامی لوگ آج بھی آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی
عَلَیْہ کی عقیدت اور محبت کا
دم بھرتے نظر آتے ہیں۔( شان قلندر، ص۲۸۲وغیرہ)
ضعیف العمری میں
بھی قافلے
آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہضعیفُ العمر ی کے باوجود صحت مند اور چاک و چوبند تھے ۔
منقول ہے کہ جب آپ سىہون تشرىف لائے تو اس وقت آپ کى عمر سو سال سے کچھ زائد تھى، اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہآخری ایام میں بھی حسبِ عادت نیکی
کی دعوت عام کرنے کے لیے سفر فرماتے تھے ۔( اللہ کے خاص بندے
عبدہ، ص۵۲۳)
علماکاادب
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ علم کے بہت ہی قدردان تھے نیز اہلِ علم کے مقام ومرتبے کا لحاظ فرمایاکرتے تھے ۔ نماز کى امامت بہت کم فرماتے ، ہمىشہ ىہ کوشش رہتی کہ پاس موجود علمائے کرام مىں سے کوئى امامت کروائے ۔( شان قلندر، ص۳۰۲وغیرہ)
علمی
مقام اور
تدریس
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ زبردست عالمِ دین تھے ۔لِسانیات اور صرف و
نحومیں آپ کو یدِ طولیٰ حاصل تھا۔فارسى اور عربى پر کامل دَسترَس رکھتے تھے نیزآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ زبردست شاعربھی تھے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے کچھ مضامىن پر
کتابىں بھى لکھى ہىں جن میں سے صرف صغیر قسم دوئم، اجناس اور میزان الصرف کےبارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس دورکے مدارس کے نصاب میں بھی شامل تھىں۔(سیرت پاک حضرت لعل
شہبازقلندر وغيره، ص۲۴ بتغیر، وغیرہ)
آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ مدرسہ بہاؤ الدىن (مدینۃالاولیاء
ملتان شریف) میں فارسى اور عربى میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ۔ سىہون شرىف مىں مدرسہ’’فقہ الاسلام‘‘
تھا جس کے بارے میں منقول ہے کہ وہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہہی نے قائم فرمایا تھا جبکہ ایک
دوسرى رواىت میں ہے کہ یہ مدرسہ پہلے سے قائم تھا البتہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اس
کی تعمیر وترقی میں اہم کردار ادا کیا یہاں تک کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکے دور میں اس جیساعالى شان مدرسہ پورے باب الاسلام سندھ مىں نہ تھا۔
تِشنگانِ علم دُوردراز سے علم کی پیاس
بجھانے سیہون آتے یہاں تک کہ اسکندرىہ (مصر)جىسے دور دراز علاقے سے طلبہ اس مدرسہ مىں تحصىلِ علم کے لىے حاضر ہوتے تھے ۔ یہ وہ دور تھا کہ
سیہون باب الاسلام سندھ علم و علما کا مرکز تھا اور حضرت لعل شہباز رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ علما کى اس کہکشاں
مىں مثلِ آفتاب تھے ۔( شہبازِ ولايت، ص۲۵
بحوالہاللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۳١)
سجادہ نشین
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے سجادہ نشین آپ کے محبوب
مریدوخلیفہ حضرت سیدنا علی سرمست رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ ہوئے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکے بارے میں منقول ہے کہ جب قلندر پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہبغداد شریف سے باب ا
لاسلام سندھ تشریف لائے تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہ بھی ان کے ساتھ تشریف
لائے تھے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہقلندر پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے وزىر مشہور تھے ۔( سیرت پاک حضرت لعل
شہبازقلندر، ص۹۰)
بارانِ رحمت کا نزول
منقول ہے کہ ایک بار سىہون شرىف اور اس کے اردگردکے علاقوں مىں شدید قحط پڑا یہاں تک کہ
کھانے کى کوئى چىز دور دور تک دکھائى نہ
دىتى، نہریں خشک ہوگئىں، کنوئىں سوکھ گئے
، پانى کاملنا دشوار ہوگیا۔ قحط کی وجہ سے اس قدر خوفناک صورت حال ہوگئى کہ زندہ بچنے کى کوئى امىد دکھائى نہ دىتى تھى۔ آخر کار اہلِ علاقہ اکٹھے ہو کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہکى خانقا ہ کے گرد جمع ہوئے اور
فریاد کرنے لگے ۔ حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر(نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا) کا فريضہ سرانجام
دیتے ہوئے فرمایا : تم سب لوگ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کى بارگاہ مىں گناہوں سے سچی توبہ کرو اور مىرے ساتھ دعا مانگو۔ لوگوں نے فوراً اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہِ عالی میں اپنے گناہوں کى معافى مانگی اور توبہ استغفار
کرنے لگے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہنے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی
بارگاہ میں دعاکے لیے ہاتھ دراز کردیے اور بارش اور خوشحالی کی دعاکی۔ کہا جاتا
ہے کہ ابھى حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ مانگ کر اپنے حجرہ مبارکہ مىں داخل بھى نہ ہونے پائے تھے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کى دعا کو قبولیت سے مشرف فرمایا اور رحمت کی بوندیں برسنیں لگیں۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے فضل وکرم اور حضرت
سیدنا لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی
عَلَیْہ کی قبولیتِ دعا کی خوشی میں لوگوں نے کھانے پکاکر غربا و مساکىن مىں تقسىم کىے ۔ حضرت
سیدنا لعل شہباز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی
عَلَیْہ نے نمازِ عشاء کى ادائىگى کے بعد اجتماعِ ذکرونعت
کا اہتمام فرمایا اور لوگوں نے مل کر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ذکر کىا اور حضور پرنور صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ذات گرامی پر خوب درود و سلام پىش کىا۔(شان قلندر،
ص۳۱۱وغیرہ)
مسواك سایہ
داردرخت بن گئی
گرمیوں کے دن
تھے ، سورج پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھااور حضرت لعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہاپنى خانقاہ کے صحن
مىں وضو فرمارہے تھے ۔ ایک عقیدت مند
نے دھوپ کى تپش کو دىکھتے ہوئے عرض کی : حضور! ہم اس جگہ پر اىک ساىہ دار درخت لگائىں گے تاکہ آنے والے اسکے سائے مىں آرام پائیں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی
عَلَیْہنے وضو سے فراغت کے بعد ایک مرید کو اپنى مسواک دىتے ہوئے فرماىا : اسے یہاں زمىن مىں گاڑ دو۔حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مسواک زمىن مىں گاڑ دی گئی۔
اگلے ہى دن اس مسواک مىں ہری ہری شاخىں نمودار ہوگئىں اور چند دنوں مىں
دىکھتے ہى دىکھتے ىہ چھوٹى سى مسوا ک اىک تناور ساىہ دار درخت بن
گئی۔(شان قلندر، ص۳۱۳وغیرہ)
دم کرنے سے مریضوں کی
شفایابی
منقول ہے کہ حضرت سیدنا لعل شہبازقلندرمحمدعثمان
مَروَندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی جس مریض کے لیے دستِ دعا بلند فرمادیتے فوراً صحتیاب ہو جاتا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہقرآن کریم کی چند آىات مبارکہ تلاوت فرماتے اور پانى پر دم کرکے مریض کو پلانے اور آنکھوں پر لگانے کا حکم فرماتے
۔ نتیجۃً فوری طور پرمرىض میں صحت ىابی کے آثار نمودار ہوجاتے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہکے دم کرنے کا
طریقہ یہ تھا کہ سورۃالفاتحہ، سورۃ الفلق، سورۃ الناس اور کلمۂ طیبہ بالترتیب ایک ایک بار پڑھتے ، اسکے بعدخلفائے راشدىن رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ
اَجْمَعِیْنکے وسىلہ جلىلہ سے مرىض کى شفاىا
بى کے لىے بارگاہِ الہٰى عَزَّ وَجَلَّ مىں دعا کرتے ۔کہتے ہیں کہ آج بھی اگر کوئی آپ رَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہکے مزار پر حاضر
ہوکر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے اىصالِ ثواب کے بعد اسی طرح بالترتیب سورۃالفاتحہ، سورۃ الفلق، سورۃ الناس اور کلمہ
طیبہ پڑھ کر خلفائے راشدىن کے وسىلہ سے دعا کرتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّکے فضل وکرم سے اس کى دعا قبول ہوجاتى ہے ا ور
پروردگار عالم اسے شفائے کاملہ عطا فرماتا ہے ۔(شان قلندر، ص۳۱۵وغیرہ)
آخری کلمات
جب حضرت سیدنا
لعل شہباز قلندر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الصَّمَدکا آخری وقت آیا تو آپ کی زبان سے ادا ہونے والے آخری کلمات یہ تھے : مىرا کوئى ساتھى نہىں ہے ، مىرا عمل مىرا ساتھ
کىادے گا، مىرا سب سے بڑا سہارا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کى ذات
بابرکات ہے ، مىرے ساتھى اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب حضور سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، آپ کےصحابۂ
کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ہىں۔
حضرت سیدنا لعل شہباز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے ان کلمات سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماورصحابۂ کرام عَلَیْہِمُ
الرِّضْوَانبالخصوص خلفائے راشدین رِضْوَانُ اللّٰہ ِتَعَالٰی
عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن سے محبت و عقیدت کا پتا چلتا ہے ۔( شان قلندر، ص۳۲۲وغیرہ)
وفاتِ حسرت آیات
آپرَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ نے ۲۱شعبان المعظم۶۷۳ ھ میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ انا للہ وانا
الیہ راجعون ۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ
تَعَالٰی عَلَیْہ نے جس جگہ وصال فرمایاوہیں آپ کا روضہ مبارکہ تعمیر
ہوااس کی تعمیر سب سے پہلے سلطان فیروز تغلق کے زمانے میں ہوئی پھر
وقتاًفوقتاً سرزمین ہند پر حکمرانی کرنے والے سَلاطین واُمَرَاء مزارِ
پُراَنوار پر حاضر ہوتے رہے اوراس کی تَزئِین وآرائش میں حصہ ڈال کر دین و دنیا کی سعادتیں لوٹتے رہے ۔(حدیقۃ
الاولیاء (سندھی)، ص۹۹، معیار سالکانِ
طریقت (سندھی)، ص ۴۲۵)
قارئینِ کرام ! اچھے کام کرنے سے آپ لوگوں کی آنکھوں کے تارے بن سکتے
ہیں جبکہ برے کام کرنے سے یا بری
عادات اپنانے سے آپ لوگوں کی نظروں سے گِر
بھی سکتے ہیں اور آپ کو ذلت و شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ اس مضمون
میں ہم 16 ایسے کاموں کی نشاندہی کررہے
ہیں جن سے اجتناب کرکے آپ شرمندگی سے بچ سکتے ہیں۔
(1)کسی کے فون میں جھانکنا بہت ہی نامناسب بات ہے یقین
جانیں شریف اور سمجھدار لوگ ایسی حرکتیں نہیں کرتے، یہ عمل ذلیل بھی کرواسکتا ہے
اور شرمندہ بھی ۔
(2)کسی کا نمبر اس کی اجازت کے بغیر کسی کو بھی نہ دیں کیا پتا جس کا نمبر آپ
نے کسی کو دیا اس کو یہ بات سخت نا پسند ہو ۔ ہاں اگر اس کی طرف سے اجازت ہے تو ٹھیک
ہے۔
(3)اگر
آپ کے پاس کسی کا فون آئے تو اس طرح فون پر بات نہ کیجئے کہ جس سے اور لوگ ڈسٹرب
ہوں اگر کمرے میں ہوں تو باہر چلے جائیں تاکہ دوسرے لوگوں کو پریشانی نہ ہو، نیز
موبائل کی ٹون ایسی نہ رکھیں جس سے دوسرے لوگ ڈر جائیں یا پریشان ہوں ۔
(4)بعض لوگوں کو جب فون کیا جائے تو انہوں نے عجیب ٹونز سیٹ کی ہوتی ہیں کسی
نے گانے کی ٹون معاذ
اللہ سیٹ کی ہوتی ہے اور نہ جانے کیا
کیا بعض اوقات کسی دینی ذہن رکھنے والے کو بھی جب فون کیا جائے تو میوزک یا گانے کی
آواز آجاتی ہے حالانکہ ان کو خود بھی اس بات کا پتہ نہیں ہوتا اس پر بھی وقتاً
فوقتاً غور کرلینا چاہیے شاید یہ کمپنی والے ایسا کردیتے ہیں یا کوئی اور وجہ ہوتی
ہے۔
(5)اگر
آپ کو کوئی کام دیا گیا اور آپ نہیں کرنا چاہتے تو اپنی جان چھڑانے کے لئے کسی اور
کو اس میں خدارا نہ پھنسائیں کہ بھائی میں تو نہیں کرسکوں گا ایسا کرو وہ فلاں
بندہ ہے نا اس کے پاس چلے جاؤ وہ تمہارا کام کردے گا جیسے اس کے پاس دنیا کا کوئی
کام نہیں ہے وہ اسی لئے بیٹھا ہے کہ کہیں سے بھی کوئی بھی کیسا بھی کام اس کو دے
اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اسی کام میں مصروف ہوجائے۔لوگوں کے اپنے اپنے کام فکس
ہوتے ہیں آپ کے ایسا کرنے سے کوئی آزمائش میں آسکتا ہے۔
(6)کسی کی چیز اس کی اجازت کے بغیر استعمال نہ کریں چاہے کوئی معمولی چیز ہی
کیوں نہ ہو اگر آپ اس سے اجازت لے لیں گے تو اس کی نظر میں آپ کا مقام اور بڑھ
جائے گا۔
(7)لوگوں
سے چیزیں لے کر واپس نہ کرنا بہت ہی معیوب اور برا عمل ہے، اولاً کوشش کریں ایسی
نوبت نہ آئے بصورت مجبوری وقت پر لوٹادیں، سکھی رہیں گے۔
(8)کھانے کے دوران منہ سے چبانے کی آوازیں نکالنے سے لوگوں کو الجھن ہوتی
ہے اور یہ مہذب لوگوں کا طریقہ نہیں اس سے
بچیں اور لوگوں کے سامنے بلند آواز سے ڈکار نے سے بھی گریز کریں نیز جمائی کے
دوران منہ سے آواز نکالنا اور منہ پر ہاتھ نہ رکھنا بھی بری صفات میں شمار کیا
جاتا ہے۔
(9)لوگوں سے ایسا مذاق کرنا جس سے ان کی دل آزاری
ہو اور ان کی تحقیر ہو اسلام میں اس کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے اس عادت سے خود کو
لازمی بچائیں۔
(10)بار بار کسی کے پاس بلاوجہ چلے جانے سے اہمیت کم ہوجاتی ہے اور سامنے والے کی نظر میں آپ کی وقعت بھی ختم ہوجائے گی،اگرچہ
وہ آپ کا دوست یا ررشتہ دار ہو۔
(11)کسی سے کچھ بھی منگوائیں تو پیسے پہلے اس کے حوالے کریں تاکہ وہ بغیر کسی
مشقت کے آپ کی چیز لے آئے بہت سے لوگوں میں یہ بری عادت موجود ہے کہ لوگوں کو آرڈر
دیئے چلے جاتے ہیں کہ یار میرے لئے یہ لے آنا یا مجھے فلاں چیز لادینا پیسے میں د
ے دوں گا وغیرہ جبکہ وہ بے چارہ کئی بار لوگوں کے لئے ان کا مطلوبہ سامان تو لے آیا
لیکن جس کے لئے لایا اس نے پھر مڑ کر بھی اس کی طرف نہ دیکھا اور اس کا نقصان ہوگیا
یاد رکھئے بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ انہیں خود سے مانگنا اچھا نہیں لگتا اگر کسی نے
ان کے پیسے ادھار لئے ہوں تب بھی وہ اپنے پیسے واپس مانگنے میں شرم محسوس کرتے ہیں
اس لئے خدارا لوگوں کی پرواہ اور فکر کریں ۔ ایسی حرکتوں کی وجہ سے ہی پھر سامنے
والا بھی ٹال مٹول کرنا شروع کردیتا ہے کہ یار میں تمہاری چیز لانا بھول گیا ذہن میں
نہیں رہا یاد نہیں رہا اب بتائیں اگر آپ کا کردار صاف ہوتا تو وہ کیوں آپ کی مدد
نہ کرتا لہذا پیسوں کے معاملے میں سستی کاہلی کا مظاہرہ نہ کریں۔جس کے جو پیسے آپ
کے ذمہ ہوں فورا لوٹانے کی کوشش کریں۔
(12)کسی سے قرض لیا یہ بول کر کہ دو دن بعد لوٹادوں گا تو اب لازمی لوٹادیں
ورنہ یہ ہوگا کہ اس بار تو آپ نے اس سے پیسے لے لئے لیکن آئندہ پھر وہ کبھی بھی آپ
کو اُدھار پیسے نہیں دے گا۔ لوگوں کا
بھروسہ مت توڑیں۔
(13)لوگ دوسروں کی مدد کرناچاہتے ہیں ان کی مشکل میں کام آنے کا جذبہ رکھتے ہیں
لیکن کم ظرفوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے مستحقین بھی ان کی بھلائی سے محروم ہوجاتے ہیں۔
(14)کسی کے پاس جو کچھ بھی ہے اس سے جلنا ،چڑنا ،حسد کرنا ،بغض رکھنا چھوڑ دیں
کیونکہ یاد رکھیں آپ کے ایسا کرنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑے گا لیکن ان کاموں کی
نحوستیں آپ تک ضرور پہنچیں گی ہاں توبہ کرلیں تو ان شاء اللہ بچت ہوجائے گی۔بلکہ
دوسروں کے پاس نعمتیں دیکھیں تو ان کے لئے مزید دعا کریں اس سے اللہ پاک آپ کی بھی
نعمتوں میں اضافہ کردے گا۔
(15)اپنی چیزوں کو ترتیب سے رکھیں تاکہ وقت ضرورت دشواری کا سامنا نہ ہو اور
غصے کی کیفیت سے بچ سکیں۔
(16)کوئی بھی ضروری کام ایسا ہو جو بعد میں کرنا ہو اور بھول جانے کا اندیشہ
ہو تو اس کو موبائل میں ایک فولڈر بنا کر نوٹ کرلیں ۔ تاکہ وقت ضرورت دیکھا جا
سکے۔اسی طرح کسی کو کچھ دیں یا لیں تو اس کو نوٹ کرلیں تاکہ بعد میں جھگڑا نہ ہو۔
از: محمد بلال سعید
عطاری مدنی
اسکالر اسلامک ریسرچ
سینٹر ، دعوتِ اسلامی
02-03-2022