ہر شخص کی خواہش ہوتی ہےکہ معاشرے میں میرا کوئی مقام ہو ،لو گ میری  طرف متوجہ ہوں،میری عزت کی جائے ،مجھے اہمیت دی جائے ۔ یاد رکھئے !معاشرےمیں اپنا مقام بنانے کےلئے، ایک اچھا انسان بننے کے لئے کچھ کام اپنے اوپر نافذ کرنے ہوتے ہیں، کچھ پابندیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں، اپنا رویے تبدیل کرنے پڑتے ہیں اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے ہوتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں غور وفکر ، بزرگان ِدین کی سیرت کے مطالعے اور نیک لوگوں کی صحبت کی برکت سے جو باتیں سیکھنے کو ملیں ان میں سے کچھ یہاں بیان کی جاتی ہیں ۔ان باتوں پر عمل کیجئے ! اِنْ شَاءَ اللہ دین و دنیا میں کامیابی ملے گی اور آپ معاشرے میں ایک معزز و باوقار فر د بَن کر ابھریں گے ۔یہ ضرور پیشِ نظر رہے کہ ان تمام باتوں پر عمل کرنے سے مقصود فقط اپنےربِّ کریم کی خوشنودی کا حصول ہو کہ اللہ پاک کی رضا ہی تمام کامیابیوں کی اصل ہے ۔وہ کریم ربّ راضی ہوگیا تو سب راضی ہوجائیں گے ۔؏

جس کا عمل ہو بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے

دین ودنیامیں عزت دلانے والے42 کام:

(1)سلام میں پہل کیجئے،جاننے والے ہوں یا انجان ، سب سے آگےبڑھ کر خود ملئے، سلام سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے، سامنے والے کے دل میں نرم گوشہ پیدا ہو جاتا ہے ،سلام میں پہل کرنا،کسی کو اچھے نام سے مخاطب کرنا، دلوں میں مقام ومرتبہ بنانے کاپہلا زینہ ہے۔(2) ملاقات کے وقت خوشی کااظہار کیجئے۔ (3) مسکراہٹ اپنی عادت بنالیجئے۔ (4) اپنے متعلقین پر بھر پور توجہ دیجئے۔ ( 5)دوسروں سے عزت سے پیش آئیے۔(6) دوسروں کے مقام و مرتبے کا لحاظ کیجئے۔(7) ہر معاملے میں نرمی اختیارکیجئے۔نرمی سےبڑے بڑے بگڑے ہوئے کام بن جاتے ہیں اور بے جا سختی بنے بنائے کام بگاڑ دیتی ہے۔(8)لوگوں کے دکھ درد میں شریک رہئے ، ان سے غمخواری کیجئے،ڈھارس بندھائیے،غموں میں شریک رہنے والا برسوں یاد رہتا ہے۔ (9) لوگوں کی غلطیاں معا ف کر دیجئے،بدلہ لینےپر قادر ہونے کے باوجود معاف کردینا بہادروں کاکام ہے ، یہ عمل بندوں کو بےدام غلام بنادیتا ہے۔(10) دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالئے۔ ہاں! تنہائی میں حسبِ موقع ضرور سمجھائیے۔(11)کسی پر کتنا ہی غصہ آرہا ہو کبھی بھی بدتمیزی نہ کیجئے ۔ باوقار انداز میں دلائل کے ساتھ اپنا موقف واضح کیجئے۔ (12) لوگوں کو اپنائیت کا احساس دلائیے، جو آپ کے قریب ہوں انہیں اپنائیت محسوس ہو ، اجنبیت و وحشت محسوس نہ کریں۔(13) لوگوں سے بھلائی فقط اللہ کریم کی خوشنودی کے لئے کریں کسی قسم کاکوئی دنیاوی لالچ ہر گز نہ ہو۔(14) مشکل وقت میں لوگوں کے کام آئیے، ان کی مدد کیجئے۔ (15)کبھی کسی کا برا نہ سوچیئے، سب کے ساتھ بھلائی اور خیر خواہی کیجئے ۔ (16) کوئی آ پ سے اپنا راز شیئر کرے تو اسے کبھی کسی پر ظاہرنہ کیجئے۔دوسروں کے مال ودولت اور عزت کے محافظ بن کر رہئے کہ انہیں آپ کی طرف سے خیانت کا خوف نہ ہو، بلکہ اس معاملے میں آپ کی طرف سے بالکل مطمئن ہوں ۔(17)دوسرں کے مال ودولت سے بے نیاز ہوجائیے ،کسی سے کوئی لالچ نہ رکھئے۔(18)کنجوسی سے بچئے، سخاوت اپنائیے ،اپنے اہل وعیال اور دیگر متعلقین کی ضروریات کا خیال رکھئے۔ اچھے کاموں میں خرچ کر نے سے مال بڑھتاہے گھٹتانہیں ،کنویں سے جتنا پانی لیں بڑھتا ہی جائے گا۔(19) بے مُروّتی سے بچئے ،چالاکی ، خود غرضی،لالچ، یہ چیزیں انسان کی شخصیت کو عیب دار کر دیتی ہیں۔(20) چھوٹی چھوٹی کامیابیوں پر بھی لوگوں کی حوصلہ افزائی کیجئے۔ اِس سے اُن میں خود اعتمادی بڑھےگی، آگے بڑھنے کا ذہن بنے گا، مایوسی اور احساسِ کمتری جیسی خطر ناک سوچ سے نجات ملے گی۔ (21) اپنوں کے احوال سے واقف رہئے کہ کہیں کسی مشکل میں تو نہیں،اپنوں سے رابطےمضبوط رکھئے۔ (22)کبھی بھول کربھی کسی کی عزتِ نفس مجروح نہ کیجئے ،ورنہ نفرت کی ایسی دیوار قائم ہوجائے گی جسے گرانا بہت مشکل ہوگا۔دوسروں کو عزت دیجئے اورخود عزت پائیے۔ (22)کسی کی غیر موجودگی میں اس کی برائی ہرگز نہ کیجئے ،غیبت اور چغلخوری دوستی کو تلوار کی طرح کاٹ دیتی ہیں۔ (23)کسی کی غیر موجودگی میں اس کی برائی کی جارہی ہوتو حسبِ موقع اس کا دفاع کیجئے ۔لوگوں کو اس کی عزت اچھالنے سے روکئے ،یقین کیجئے جب اُسے معلوم ہوگا کہ آپ نے اُس کا دفاع کیا ہے تو وہ آپ کا شکر گزار ہوگا،آپ کو اپنامحسن سمجھے گا۔ (24)اپنا رویّہ ہمیشہ درست رکھئے کہ غلط رویّے دشمنی کا بیج بوتے ہیں۔ (25)قابلِ تعریف عمل پر لوگوں کی دل کھول کر تعریف کیجئے، انہیں حوصلہ ملےگا،آپ کے دو تعریفی جملے ہوسکتا ہے کسی کی زندگی بدل دیں۔(26) لوگوں کی خوشیوں میں شامل رہئے۔ (27)آپ کے متعلقین میں سے کوئی اگر غلط راستےپر چل پڑے تو اسےہر گز تنہا نہ چھوڑئیے ، کیونکہ اُس وقت اُسے آپ کی مدد کی اشد ضرورت ہے،پوری کوشش کر کے اسے برائیوں کی دلدل سے نکال کر ا چھائیوں کا مسافر بنا دیجئے(28)اپنے متعلقین کو نیک کاموں میں شریک رکھئے،اچھی محافل ،دینی اجتماعات میں انہیں ساتھ لے جائیے کہ مؤمن جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے بھی پسند کرتا ہے۔(29)اپنوں پر اعتمادکیجئے اور انکے اعتماد کو بھی ٹھیس نہ پہنچائیے۔(30) وعدہ سوچ سمجھ کر کیجئے،جب وعدہ کرلیں تو ضرور پورا کیجئے۔(31)جب کوئی مشورہ چاہے تو اپنے تجربات کی روشنی میں اچھا مشورہ دیجئے۔ (32) دوسروں کے مزاج کو سمجھئے ،لوگوں کےمزاج کے خلاف نہ چلیئے ،اگر ایسا کچھ ضروری بھی ہوتو حکمت ِ عملی اختیار کیجئے کہ حکمت و دانائی مؤمن کا گمشدہ خزانہ ہے۔(33) وفا دار رہئے ،بے وفائی سے بچئے۔(34) اپنوں کی دعوت قبول کیجئے، خود بھی ان کی دعوت کیجئے،حسبِ حیثیت تحائف بھی دیجئے آپس میں محبت بڑھے گی۔ (35) ہرگز کبھی کسی کو طعنہ مت دیجئے ،کبھی کسی پر احسان نہ جتائیے کہ اللہ پاک طعنہ دینے والوں اور احسان جتانے والوں کو پسندنہیں فرماتا۔ (36)غرور وتکبر، خود پسندی ، اور بڑا بول بولنے سے ہر دم بچئے۔(37) ایثار کیجئے لوگ دل سے دعائیں دیں گے ۔(38) آسان بن جائیے کہ لوگوں کی رسائی آپ تک ممکن ہو ،ایسا مشکل نہ بنئے کہ لوگ آپ سے ملنے کو ترس جائیں۔(39) بے جا مطالبات سے بچئے کہ اس سے آدمی کا وقار کم ہوتا ہے ۔( 40) کسی کو سب کے سامنے مت ٹوکئے ،نہ جھڑکئے، بلکہ علیحدگی میں سمجھائیے ورنہ نفرت و ضد پیدا ہوگی ۔ (41) اپنوں کے لئے دعائے خیر کرتے رہئے ۔ (42) خو د بھی نیک عمل کیجئے ،اپنے متعلقین کو بھی نیکی کی راہ پر چلائیے، اللہ پاک اپنے نیک بندوں کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈال دیتا ہے ۔

اللہ کریم کی رحمت سے امید ہے کہ ان باتوں پر عمل کر کے بندہ معاشرے کا معزز اور باوقار فرد بن سکتا ہے ۔اللہ کریم اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے صدقے ہم سب پر اپنا فضل و کرم فرمائے ۔آمین

حکیم سید محمد سجاد عطاری مدنی

اسلامک سکالر، اسلامک ریسرچ سینٹر (المدینۃ العلمیۃ)

مدرِّس: مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ایجوکیشن عالمی مدنی مرکز کراچی


فضائلِ عشرۂ رحمت

Sat, 2 Apr , 2022
2 years ago

خُدائے رَحمٰن عَزَّوَجَلَّ کا کروڑہا کروڑ اِحسان کہ اُس نے ہمیں ماہِ رَمَضَان جیسی عظیمُ الشّان نِعمت سے سَرفَراز فرمایا۔ ماہِ رَمَضَان کے فِیضَان کے کیا کہنے !اِس کی تو ہر گھڑی رَحمت بھری ہے۔اِس مہینےمیں اَجْر و ثَواب بَہُت ہی بڑھ جاتاہے۔نَفْل کا ثواب فَرض کے برابر اور فَرْض کا ثواب 70 گُنا کردیا جاتا ہے ۔بلکہ اِس مہینے میں تو روزہ دار کاسونا بھی عبادت میں شُمار کیا جاتاہے۔عَرش اُٹھانے والے فِرِشتے روزہ داروں کی دُعاء پرآمین کہتے ہیں اور ایک حدیثِ پاک کے مُطابِق رَمَضَان کے روزہ دار کے لئے دریا کی مچھلیاں اِفطار تک دُعائے مَغْفِرت کرتی رہتی ہیں۔‘‘ (اَلتَّرغیب والتَّرہیب ج2ص55حدیث6، دار الکتب العلمیہ)

رمضان المبارک کے چاند رات کے بعد 10 دن یہ عشرہ رحمت کہلاتے ہے ، 10 دن پورے ہونے کے بعد دسواں سورج غروب ہوگیا تو یہ عشرہ مغفرت شروع ہوگیا ، اب یہ 10 دن رہے گا، اب جیسے ہی 20 کا روزہ مکمل ہوا اور سورج غروب ہوگیا تو اب یہ کہ جَہَنَّمْ سے آزادی کا عشرہ شروع ہوگیا یعنی خصوصیت کے ساتھ پہلے عشرے میں رحمت کا نزول، دوسرے میں مغفرت ہےاور تیسرے میں جہنم سے آزادیاں۔

٭عشرہ رحمت: رحمتیں لٹاتا ہے لہذا اس حوالے سے ہم اس کے فضائل جانتے ہے وہ کیاہے نیزاس میں ہمیں کون سی دعاپڑھنی ہے۔

٭(مراۃ المناجیح جلد 3،صفحہ 141 ،تحت الحدیث،مکتبہ ضیاء القراٰن)میں ہے: پہلے عشرہ میں رب تعالیٰ مؤمنوں پر خاص رحمتیں فرماتا ہے جس سے انہیں روزہ، تراویح کی ہمت ہوتی ہے اور آئندہ ملنے والی نعمتوں کی استعداد(یعنی طاقت) پیدا ہوتی ہے۔

اس عشرہ کے ابتداء سے ہی جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں ا ور دوزخ کے دروازے بندکردیئے جاتے ہیں شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ایک روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔(مسلم،بخاری) (مراٰۃ المناجیح،ج:3،ص:132)۔

٭حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت جب رمضان کی پہلی رات آتی ہےاللہ عزوجل نظر رحمت فرماتا ہےجس پر اللہ پاک نظر رحمت فرمائےاس کو کبھی بھی عذاب نہیں ہوگا۔(اَلتَّرغیب والتَّرہیب ج2ص56حدیث7، دارالکتب العلمیہ،) اس مہینہ میں جو کوئی بھی گناہ کرتا ہے وہ اپنے نفس امارہ کی شرارت سے کرتا ہے نہ کہ شیطان کے بہکانے سے۔(مراٰۃ ،ج:3،ص:134)

٭حضرت سَیِّدُنا عبدُاللّٰہ ابن عباس ر َضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ رحمت عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ معظم ہے : ’’جب رَمضان شریف کی پہلی رات آتی ہے تو عرش عظیم کے نیچے سے مَثِیْرہ نامی ہوا چلتی ہے جوجنت کے درختوں کے پتو ں کو ہلاتی ہے، اِس ہوا کے چلنے سے ایسی دِلکش آواز بلند ہوتی ہے کہ اِس سے بہتر آواز آج تک کسی نے نہیں سنی۔اِس آواز کوسن کربڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ظاہر ہوتی ہیں یہاں تک کہ جنت کے بلند محلات پر کھڑی ہوجاتی ہیں اور کہتی ہیں :’’ہے کوئی جو ہم کو اللہ تَعَالٰی سے مانگ لے کہ ہمارا نکاح اُس سے ہو؟‘‘ پھر وہ حوریں داروغۂ جنت (حضرت)رِ ضوان (عَلَیْہِ وَالسَّلَام) سے پوچھتی ہیں : ’’آج یہ کیسی رات ہے؟‘‘ (حضرت) رِ ضوان (عَلَیْہِ السَّلَام) جواباً تَلْبِیَہ (یعنی لبَّیْک) کہتے ہیں ، پھر کہتے ہیں :’’یہ ماہِ رَمضان کی پہلی رات ہے، جنت کے دروازےاُمّتِ مُحمّد عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے روزے داروں کے لئے کھول دئیے گئے ہیں ۔ ‘‘(اَلتَّرغیب والتَّرہیب، ج 2 ،ص60، حدیث 23)

٭ بلعموم پورا ہی سال اوربلخصوص رمضان شریف میں ہمیں اس مقولہ کا مصداق بنا رہنا چاہیے’’ رِضائے مولیٰ ازہَمہ اَولیٰ‘‘ یعنی اللہ عزوجل کی مرضی سب سے بہتر ہے۔ یو تو اللہ پاک کی رحمت ہمارے اوپر سارا ہی سال رہتی ہے۔اور رمضان المبارک اس میں مزید اضا فہ ہوجاتا ہے نیز رمضان المبارک کے ابتدائی 10 دن یہ خصوصیت کے ساتھ اللہ پاک سے رحمت طلب کرنے کے ہے اسی لئےانہیں کہا ہی عشرہ رحمت جاتا ہے یعنی رحمت والے دس دن ۔تو لہذا ہمیں ان دس دنوں میں خصوصیت کے ساتھ اپنے رب کریم سے اس کی رحمت طلب کرنا چاہیئے ۔ اللہ پاک اپنے بندہ سے اس سے مانگنے کو پسند فرماتا اور اس کی رحمت سے بڑے بڑے گناہ گار بخشے جاتے ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۵۳) (پ:24/ الزمر:53) ترجمہ کنزالایمان:’’ تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ،اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہو بےشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ، بےشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔

احادیث شریف میں ہے ۔پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں جبرئیل امین علیہ السلام حاضر ہوئے اس حال میں کے آپ منبر پر چڑھ رہے تھے اس وقت تین دعائیں کی جن پر آپ علیہ السلام نے امین کہا (پیارے آقا علیہ السلام کی زبان مبارکہ سے جاری ہونے والی کوئی بات رائیگا نھی جاتی) ان میں ایک دعا یہ تھی جس نے ماہِ رمضان کو پایا اور اپنی بخشش نہ کروا سکا تو اس پر آپ نے امین فرمایا۔ (صحیح ابن حبان،ح:410،باب حق الوالدین ،ج:1،ص:315، دارالکتب العلمیہ۔بیروت )

اَبرِ رحمت چھاگیا ہے اور سماں ہے نُورنُور

فضلِ رب سے مغفرت كا ہوگیا سامان ہے

پہلے عشرے کی دعا

رَبِّ اغُفِرُ وَارُحَمُ وَأَنُتَ خَیُرُ الرَّاحِمِينَ۔

ترجمہ:’’ اے میرے رب مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، تو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے۔‘‘


حضرت پیر سید صبغت اللہ شاہ  راشدی قادری رحمۃُ اللہِ علیہکی ولادت 1183ھ/ 1779ء کو پیر جو گوٹھ ضلع خیر پور میرس (سندھ)میں ہوئی۔

تعلیم:اپنے والد صاحب کی زیر سرپرستی درگاہ شریف پر مروجہ نصاب کی تعلیم حاصل کی اور والد صاحب سے مثنوی شریف ودیگر تصوف کی کتب کا درس لیا،خاندان میں آپ پہلے پیر ہیں جو پیر پگارہ (صاحب دستار)کے لقب سے مشہور ہوئے۔آپ قرآن پاک، حدیث شریف اور فقہی احکام پر دسترس رکھتے تھے۔ روزانہ بعد نماز فجر درس حدیث دینا آپ کا معمول تھا۔

بیعت وخلافت: اپنے والد ماجد امام العارفین حضرت پیر سید محمد راشد پیر صاحب روضے دھنی (وفات 1234ھ) کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں بیعت ہوئےاور ان کی خدمت میں رہ کر سلوک کی منازل طے کیں۔والد صاحب کی وفات کے بعد 50سال کی عمر میں اپنے والد صاحب کی جگہ مسند رشدوہدایت پر فائز ہوئےاور دستار سجادگی آپ کے سر پر باندھی گئی۔

دینی کتب سے دلچسپی:آپ کو دینی،علمی اور صوفیانہ کتب سے خاص دلچسپی تھی۔اہم ومفید کتابوں کو جمع کرنا زندگی بھر دستور رہا اس لئے آپ کے کتب خانہ میں نادر ونایاب کتب کا ذخیرہ جمع ہوگیا تھا۔

عادات وخصائل: سنت مبارکہ کے پابند،پرہیزگار،شب بیدار،سخی، مہمان نواز،خلق عظیم سے آراستہ ،سادگی پسنداور غریب کسانوں کے ہمدرد تھے۔متوکل ایسے کہ جو موجود ہوتا راہِ خدا میں خرچ فرمادیتے اور کل کے لئے بچا کر نہیں رکھتے تھے۔

مقام ومرتبہ: حضرت پیر سید صبغت اللہ شاہ راشدی قادری رحمۃُ اللہِ علیہکی سندھ میں مقبولیت اور ان کے علمی وروحانی مراتب کا اندازہ سید حمید الدین کے اس بیان سے ہوتا ہے:”باشندگان سندھ کے نزدیک سارے ملک(متحدہ ہندوستان)میں ان (پیر صبغت اللہ)جیسا کوئی شیخ ومرشد نہیں،تقریباً تین لاکھ بلوچ ان کے مرید ہیں،مرجع خلق عام ہیں،جاہ وجلال سے زندگی گزار رہے ہیں۔جودو کرم ،اخلاص ومروت میں بھی شہرۂ آفاق ہیں۔ان کا کتب خانہ بڑا عجیب وغریب کتب خانہ ہے۔بادشاہوں اور امراء کے پاس بھی ایسا کتب خانہ نہ ہوگا ،15000ہزار معتبر کتابیں اس میں موجود ہیں۔“

معمولات:ہر سال نہایت عقیدت واحترام کے ساتھ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکا انعقاد فرماتے تھے۔ حضور پرنور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکی نعت اور صوفیانہ کلام بغیر مزامیر(ساز) کے سماعت فرماتےاور اسے اپنی روحانی خوراک قرار دیتے۔ روزانہ ختم قادریہ کرتے، آپ اور آپ کے مریدین بڑی عقیدت کے ساتھ حضور غوث اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ کی نیاز دلایا کرتے۔

تبلیغ دین: رشدوہدایت اور تبلیغ دین کے لئے دوردراز علاقوں تک سفر کیااور معرفت کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔ جہاں بھی گئے وہاں ذکر ونعت شریف کی محافل ضرور قائم کیں ،اس طرح خشک دلوں کو معرفت کی چاشنی نصیب ہوئی۔

وصال: 6رمضان المبارک 1246ھ/1831ء کو 63سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا۔

(انسائیکلو پیڈیا اولیائے کرام ،1/377،انوار علمائے اہل سنت سندھ،ص359،تذکر ہ صوفیائے سندھ،ص273)

از:مولانا محمد گل فراز عطاری مدنی

(سینئر اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی، المدینۃ العلمیہ)


وعدہ خلافی وبدعہدی کے معاشرتی نقصانات:

”تم خالد سے پیمنٹ لے کرآئے یا نہیں؟‘‘ ہول سیلر نے اپنے ملازم سے پوچھا۔

”نہیں جناب!انہوں نے کل کا کہا ہے“ملازم نے سادہ سا جواب دیا۔

اس طرح کے ٹال مٹول پر مشتمل جملوں کا تبادلہ ہماری مارکیٹس اور بازاروں کا معمول ہے ۔ ہردن لین دین میں کتنے ہی وعدے ، ارادے اور معاہدے ہوتے اور ٹوٹتے ہیں مگر کبھی اس معاملے پر گہرائی سے سوچا نہیں جاتاکہ ہمارے معاشرے پر اس وعدہ خلافی کے کتنے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔جب اس طرح کا ایک وعدہ ٹوٹتاہے تو بعض اوقات اس کا خمیازہ کئی افراد کوبھگتنا پڑتا ہے،مثلا کسی نے ہول سیلر سے مال لیا اور پیسے دو دن میں دینے کا وعدہ کیا مگروقت مقررہ پر ادائیگی نہ کی ۔اس پر غور کیجئے کہ ہوسکتا ہے ہول سیلر نےاپنے بیٹے کی داخلہ فیس جمع کروانی ہو یااپنی بیٹی کی سالگرہ پر کوئی تحفہ دینا ہو یا آگے کسی کو پیمنٹ کرنے کا وعدہ کر رکھا ہویا ملازم کو تنخواہ دینی ہواور غریب ملازم نے راشن والے سے ”ماہانہ ادائیگی“ کا وعدہ کر رکھا ہو۔یوں پوری ایک لڑی (چین)بنی ہوتی ہے اور وعدہ توڑنے والا پہلا شخص اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے معاشرتی نظام کو تباہ کرنے میں حصہ دار بن جاتا ہے۔اسی طرح ہول سیلر بھی ایڈوانس رقم پر بکنگ کرکے وقت مقررہ پر ری ٹیلر کو مال نہیں دیتے اور یہاں بھی مذکورہ خرابی جگہ بنا لیتی ہے۔قرض کی ادائیگی کا وعدہ ہو یا آرڈر پر سامان تیار کرنے کامعاہدہ ،ہمیں جابجا وعدہ خلافی اور بد عہدی کی بھیانک اور مکروہ صورتیں دیکھنے کو ملیں گی۔آپ عیدسے چنددن پہلے کسی ”ٹیلر“کی دکان پر چلے جائیں وہاں آپ کو گاہکوں سے کئے گئے وعدے ٹوٹتے صاف نظر آجائیں گے اوراس قابل مذمت فعل کے سبب نوبت بحث ومباحثہ سے تلخ کلامی حتی کہ ہاتھا پائی اور مارکٹائی تک جاپہنچتی ہے۔

وعدہ خلافی وبدعہدی سے ملکی نظام کی تباہی:

یہ تو تھاافراد کی باہمی وعدہ خلافی کا معاملہ جس کا نقصان چند لوگوں تک محدود رہتا ہے اور اگر وعدہ خلافی ومعاہدہ شکنی ایک ملک کے چند اداروں کے مابین ہوتو اس کا خمیازہ بسا اوقات پوری قوم بھگتی ہے۔جیسے بجلی کا ادارہ اگر تیل کے ادارے کو واجبات وقت مقررہ پر ادا نہ کرے تو لا محالہ قوم کو لوڈشیڈنگ کا عذاب جھیلنا پڑے گا۔یہی وہ ”گردشی قرضے‘‘ ہوتے ہیں جو طول پکڑجائیں تو کسی بھی ملک کاداخلی نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے ۔وعدوں کے ٹوٹنے کا یہ عمل نہ صرف معاشرے اور نظام زندگی میں خلل ڈالتا ہے بلکہ بہت ساری برائیوں اور گناہوں کو بھی جنم دیتا ہے،اس کی وجہ سے دلوں میں بغض وکینہ،نفرت وعداوت، شماتت وشقاوت ، حسدوتکبر اور جذبہ انتقام وغیرہ ایسی قباحتیں پیدا ہوجاتی ہیں اور چغل خوری،غیبت ،تہمت ،گالی گلوچ ،طعن وتشنیع اور ظلم وتعدی جیسی شناعتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں جس کے نتیجے میں معاشرہ قلبی اضطراب اورذہنی بے سکونی میں مبتلا ہو کر ”نفسیاتی مریض“ بن جاتا ہے۔

وعدہ وعہد کی پاسداری کا قرآنی حکم :

ویسے تو بروزِ قیامت ہر شے کے متعلق سوال ہونا ہے مگر ”عہد“جس کی خلاف ورزی بے شمار خرابیوں کا باعث ہے اس کے متعلق خاص طور پر پوچھا جائے گا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”وَاَوْفُوۡا بِالْعَہۡدِ ۚ اِنَّ الْعَہۡدَکَانَ مَسْـُٔوۡلًا۱۵،بنی اسرائیل:۳۴)ترجمہ کنزالایمان:اورعہدپوراکروبے شک عہد سےسوال ہوناہے۔“ آیت طیبہ میں اللہ تعالیٰ اور بندوں، دونوں کے ساتھ کیے جانے والے عہد مراد ہیں ۔یہاں سے عہدووعدہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔اس کا ایک رخ انسان کی زبان ہے ۔یہاں ”زبان“سے مراد ”ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں“والی زبان نہیں بلکہ گوشت کے اس ٹکڑے سے کیا گیا ”وعدہ“ ہے ۔جیسے کہہ دیا کرتے ہیں ”اب کچھ نہیں ہوسکتا ،ہم نے زبان دے رکھی ہے“اور ”بھائی! زبان بھی کوئی شے ہوتی ہے“وغیرہ ۔یہی وہ زبان ہے جسے نبھانے والے معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اور پرسکون زندگی گزارتے ہیں اور اگر کوئی تاجر اس عادت کو اپنا لیتا ہے تو وہ نہ صرف عزت وشہرت کماتا ہے بلکہ روزبروز ترقی کے زینے طے کرتا چلا جاتا ہے اور اس کے برعکس جو تاجر لین دین میں وعدہ خلافی کا عادی ہو وہ اکثر عزت اور کاروبار دونوں سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے ۔

وعدہ وعہد نبھانے کی نبوی تعلیمات:

قرآن کریم کے ساتھ ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات بھی اس سلسلے میں ہماری زبردست رہنما ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خود ایک دیانت دار،سچے اور امین تاجر تھے، بعثت سے قبل اور مبعوث ہونے کے بعد دونوں ہی ادوار میں تجارتی لین دین میں وعدہ وفائی اور اپنی بات کی پاسداری کی زبردست مثالیں قائم فرمائی ہیں ۔یہاں دو نوں ادوار کی ایک ایک مثال ملاحظہ فرمائیے:

(۱)پہلی مثال: حضرت عبداللہ بن ابوحمساء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نزول وحی اور اعلانِ نبوت سے قبل میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خریدوفروخت کاایک معاملہ کیامگر اس وقت پوری رقم ادا نہ کرسکا تو میں نے وعدہ کیا کہ باقی رقم ابھی آکر ادا کرتا ہوں۔ اتفاق سے تین دن تک مجھے اپنا وعدہ یاد نہ آیا۔ تیسرے دن جب میں اس جگہ پہنچا جہاں آنے کا وعدہ کیا تھا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی مقام پر اپنا منتظر پایا۔ میری اس وعدہ خلافی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتھے پر ذرابھی بل نہیں آیا، بس اتنا ہی فرمایا کہ تم کہاں تھے؟ میں اس جگہ تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔(سنن ابی داود،4/342 ،حدیث:4836)

حدیث مبارکہ سے جہاں یہ واضح ہوا کہ ظہور نبوت سے قبل بھی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے مثل صداقت کے حامل تھے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ان صاحب نے اگرچہ بقایا رقم کی بروقت ادائیگی کا وعدہ بھلا دیا مگر ہادی دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مقام پر ملنے کاجووعدہ فرمایا اسے ضرور پورا کیا ۔یہاں یہ یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں ٹھہرنا محض اپنا مال لینے کے لئے نہ تھا بلکہ اپنا وعدہ پورا کرنے کے لئے تھا،مال تو ان کے گھر جاکر بھی وصول کیا جاسکتاتھا۔(مراٰۃ المناجیح،6/491)

(۲)دوسری مثال: یہود کےایک بڑے عالم زید بن سعنہ کی ہے،انہوں نے تورات میں اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جونشانیاں اور علامات پڑھ رکھی تھیں دو کے علاوہ تمام کا مشاہدہ ذاتِ رسالت میں کرچکے تھے اور وہ دو علامات جن میں سے ایک حضور کے حلم کا جہل پر غالب ہونا اور دوسری جہل کے برتاؤ کی زیادتی کے ساتھ ان کے حلم ووقار کا بڑھتے جاناتھیں ۔ان علامات کی پہچان اور امتحان کے لئے انہوں نے حضورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کھجوروں کا سودا کیا ، کھجوریں سپرد کرنے کی مدت میں ابھی ایک دو دن باقی تھے کہ انہوں نے بھرے مجمع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دامن اور چادرکے ملنے کی جگہ سے پکڑ کر بڑے تلخ و ترش لہجے میں کھجوریں دینے کا تقاضا کیا اور کہا:”تم سب عبدالمطلب کی اولاد کا یہی طریقہ ہے کہ ہمیشہ لوگوں کا حق ادا کرنے میں تاخیر کردیتے ہو اورٹال مٹول تمہاری عادت بن چکی ہے۔“یہ منظر دیکھ کر حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت غضب بھری اور تیزنظروں سے گھور کر اُس سے کہا :” اےدشمنِ خدا!یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح بات کرتا ہے ۔“حلیم وکریم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عمر!ہم تم سے اِس سے زیادہ بہتر بات کے مستحق تھے کہ تم مجھے اچھی ادائیگی کااور اسے اچھے تقاضے کا کہتے ۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ” اسے اِس کے حق کے برابر کھجوریں دے دواور کچھ زیادہ بھی دے دوتاکہ یہ تمہارے اِسے سخت نظروں سے دیکھ کر خوفزدہ کرنے کا بدلہ ہوجائے۔“پس زید بن سعنہ نے اس حسنِ سلوک سے جب باقی دو علامات کو بھی دیکھ لیا تو کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔(دلائل النبوۃللبیہقی،1/278)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ لین دین میں وعدہ ومعاہدہ کی پاسداری رب کریم کا حکم ،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ، عقل سلیم کا تقاضا اور ایک خوبصورت معاشرے کی تعمیروترقی میں غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے ۔ لہٰذا ہر سمجھدار تاجر کوچاہیے کہ اِس محمود ومحبوب صفت سے متصف ہو کر ایک اچھا کاروباری بنے اور اپنی دنیا وآخرت کو سنوارے۔

نوٹ: یہ تحریرغالباً 2016ء میں لکھی گئی تھی ، کچھ ترمیم واضافہ کے ساتھ دوبارہ پیش خدمت ہے۔

محمد آصف اقبال مدنی عطاری

(20شعبان المعظم1443ھ مطابق24مارچ2022ء)


عِنْدَ ذِکْرِ الصَّالِحِیْن تَنَزَّلُ الرَّحْمَۃُ ۔(نیک لوگوں کے ذکر کے وقت رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، ۲/۶۵، رقم ۱۷۷۰)) آئیے! اللہ پاک کی رحمت سے حصہ پانے اور بزرگوں کا فیضان حاصل کرنے کےلئے حضرت عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کی سیرت ملاحظہ کیجئے۔

نام و نسب، القابات، پیدائش:

حضرت لعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی ولادت باسعادت مشہور قول کےمطابق ۵۳۸ھ میں آذربائیجان کے قصبہ ’’مَروَند‘‘ میں ہوئی۔([1]) اسی مناسبت سے آپ کومروندی کہا جاتا ہے۔آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہکانام محمد عثمان ہےجبکہ ”لعل اور شہباز“ آپ کے القاب ہیں۔([2]) آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کاسلسلہ نسب سیدمحمدعثمان بن سید کبیر بن سید شمس الدین بن سیدنورشاہ بن سیدمحمودشاہ ہے جو گیارہ واسطوں سے حضرت امام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے ملتا ہے۔ ([3])

القاب کی وجہ:

جب کوئی شخص اپنے نام کے علاوہ کسی اور لقب سے مشہور ہوجاتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے جیسے مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو آپ کی بہادری کی وجہ سے اسد اللہ کا لقب ملا جس کا مطلب ہے ”شیرِ خدا“ اور آپ کو اپنے اسی لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی طرح حضرت لعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو ”لعل“ اور ”شہباز“ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے آپ کے ان القاب کی وجہ یہ ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کے چہرہ انور پر لال رنگ کے قیمتی پتھر ’’ لعل“ کی مانندسرخ کرنیں پھوٹتی محسوس ہوتی تھیں اسی مناسبت سےآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ ”لعل“ کے لقب سے مشہور ہوئےجبکہ ”شہباز“ کا لقب بارگاہ حسینیت سے عطا ہوا۔چنانچہ منقول ہے کہ ایک رات آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کے والدِ ماجد حضرت کبیرالدینعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْن امام ِعالی مقام حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی زیارت سے فیض یاب ہوئے،امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے ارشاد فرمایا: ہم تمہیں وہ شہباز عطا کرتے ہیں جو ہمیں ہمارے نانا جان ،رحمت عالمیان صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم سے عطا ہواہے ۔ اس بشارت کے بعدحضرت لعل شہبازقلندر کی ولادت ہوئی اور آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ ولایت کے اعلی مرتبہ پر فائز ہوگئے ۔([4])

قلندر کہنے کی وجہ:

آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سلسلہ قلندریہ سے بھی تعلق رکھتے تھے اسی لئے آپ کو قلندر کہا جاتا ہے ۔برِصغیر میں سلسلہ قلندریہ نے حضرت شاہ خضر رومی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ (مُتَوَفّٰی ۵۹۹ھ)سے شہرت پائی۔([5])

مکتبۃ المدینہ کے رسالے ”فیضان عثمان مروندی لعل شہباز قلندر“ کے صفحہ نمبر 9 پر ہے: قلندر خلافِ شرع حرکتیں کرنے والے کو نہیں کہا جاتا، جیسا کہ فی زمانہ بے نمازی ، داڑھی چٹ ، خلافِ شرع مونچھیں، عورتوں کی طرح لمبے لمبے بال ، ہاتھ پاؤں میں لوہے کے کَڑے پہننے والے لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ ہماری تو قلندری لائن ہے ، مَعَاذَ اللہ، حالانکہ صوفیائے کرام کی اصطلاح میں قلندر شریعت کے پابند کو ہی کہا جاتا ہے چنانچہ

مصنفِ کُتُبِ کَثِیرہ، خلیفۂ مفتیٔ اعظم ہند فیضِ مِلَّت حضرت علامہ مولانا مفتی فیض احمد اویسی رضوی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ نقل فرماتے ہیں : ’’قلندر وہ ہے جو خلائقِ زمانہ سے ظاہری اور باطنی تجربہ حاصل کر چکا ہو، شریعت و طریقت کا پابند ہو ۔ ‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’دراصل صوفی اور قلندر ایک ہی ذات کا نام ہے صرف لفظ دو ہیں مُسمّٰی (ذات)ایک ۔مگر حق یہ ہے کہ ان میں عموم خصوص کی نسبت ہے ، اس لئے کہ ہر قلندر صوفی تو ہو سکتا ہے لیکن ہر صوفی قلندر نہیں، کیونکہ جہاں صوفی کی انتہا ہوتی ہے وہاں سے قلندر کی ابتدا ہوتی ہے ۔‘‘([6])

ابتدائی تعلیم:

حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سید کبیرالدین رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کے زیر سایہ حاصل کی۔ چونکہ والدین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْھِما تقویٰ و پرہیز گاری اور زیورِ علم سے آراستہ وپیراستہ تھے اس لیےبچپن ہی سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اللہ والوں کی محبتیں اورصحبتىں مىسر آئىں۔ جس کے نتیجے میں فىوض و برکات اور علمِ دىن کے گہرے نقوش آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی لوحِ قلب پر مُنَقَّش ہوئے۔ یوں بچپن ہی میں نىکی اور راست بازى آپ کا شعار بن چکی تھی ۔([7])آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو بچپن ہی سے علمِ دین حاصل کرنے کا شوق تھا اور آپ نے چھ سال کی چھوٹی عمر میں ہی قرآن پاک مکمل پڑھ لیا تھااور ابتدائی مسائلِ دینیہ بھی یاد کرلئے تھے یہی نہیں بلکہ سات سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔ بعدہ دیگر دینی عُلوم کی تحصیل میں مصروف ہو گئے اور بہت جلد مروجہ علوم و فنون میں بھی مہارت حاصل کرلى۔([8])

اساتذہ و رفقاء:

حضرت لعل شہباز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ جن اولیائے کرام اور صوفیائے عظام رَحِمَہُمُ اللہُ کى صحبتوں سے فیض یاب ہوئے اور راہ خدا کے مسافربنے ۔ان میں سر فہرست حضرت شىخ فرىدالدین گنج شکر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، حضرت بہاؤ الدىن زکرىا ملتانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، حضرت مخدوم جہانىاں جلال الدىن بخاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اور حضرت شىخ صدرالدىن عارف رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا نام ِ نامی اسم ِ گرامی شامل ہے۔([9])

مزارات پر حاضری:

بزرگوں کے مزارات پر حاضری دینا بھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ معمولات میں سے تھا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ایک طویل عرصہ تک سیر و سیاحت کرتے رہے، دورانِ سیاحت بہت سے اولیائے کرام سے ماقاتیں کیں اور بہت سے اولیائے کرام کے مزارات پر حاضری کا شرف حاصل کیا، آپ اپنے وطن مروند سے عراق تشریف لے گئے، چنانچہ بغداد میں سیدالاولیا ءحضور سیدی غوث اعظم عبدالقادر جیلانی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ، مشہدشریف میں حضرت امام علی رضا رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اور کوفہ میں امام الائمہ، سراج الامۃ امام اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے مزار اقدس پر حاضری دے کر فیوض وبرکات حاصل کئے ۔([10])

بشارتِ غوثیہ:

بارگاہ غوثیہ سے حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے بہت روحانی فیوض حاصل کئے جتنے دن رہے عبادت، تلاوت اور مراقبہ میں مصروف رہے اور انوار و برکات حاصل فرماتے رہے۔مزار مبارک میں حاضری کے دوران ایک مرتبہ حضور غوث اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ خواب میں تشریف لائے اور آپ کو سینے سے لگایا اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئےارشاد فرمایا : عثمان تم ہمارے قلندر ہو تمہیں فیوض و برکات دے دئیے گئے ہیں ، اب تم یہاں سے مکہ مکرمہ جاؤ اور بیت اللہ کی قربت کی سعادت حاصل کرو ۔([11])

سفر مدینہ:

بزرگوں کے مزارات سے اکتساب فیض کے بعد آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے دل میں آقائے دو جہاں، سرورکون ومکاںصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے درپاک پر حاضری کی تمنا جاگ اُٹھی چونکہ حج کے ایام قریب تھے لہذااحرام باندھا اور چل پڑے۔ حج بىت اللہ سے مشرف ہونے کے بعدمدینہ منورہ میں نبی محترم، شفیع معظم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضر دی اورعشق ومحبت میں ڈوب کر اپنے پیارے آقا و مولیٰ محمد مصطفٰےصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر خوب خوب درود وسلام کے نذرانے پیش کیے۔ ([12])

بیعت و خلافت:

حضرت عثمان مروندی لعل شہباز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ علم و حکمت کی دولت سمیٹتے سمیٹتے جب کربلائے معلی پہنچے توحضرت امام موسىٰ کاظم رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی اولاد سے ایک بزرگ حضرت شىخ ابواسحاق سید ابراہىم قادری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ دست اقدس پر بیعت ہوئے اور تقرىباً ۱۲ماہ تک پیرومرشد کے زیرسایہ سلوک کی منزلیں طے کرتے رہے۔ پیرومرشد حضرت ابراہیم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی نظر ولایت نے جب اس بات کا مشاہدہ کیا کہ یہ مرید اب مرید کامل بن کر طریقت کی اعلیٰ منزلیں طے کرچکاہے تو انہوں آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو خرقہ خلافت سے نوازا اور خدمت دین کے لیےراہِ خدا میں نکلنے کی ہدایت فرمائی۔([13])

پیر و مرشد کے حکم پر عمل:

آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو آپ کےمرشد کریم نےچونکہ خدمت ِ دین کے لئے کوئی خاص منزل متعین نہ فرمائی تھی لہذا آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مرشد کریم کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے اَن دیکھے راستوں پر نکل کھڑے ہوئےاور شہر بہ شہر گاؤں بہ گاؤں نیکی کی دعوت کی دھومیں مچانے میں مصروف ہوگئے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی تمام عمر دین کی خدمت اورتبلیغ دین میں گزری ، چنانچہ

سندھ میں آمد:

سرکاردوعالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے درِاقدس سے واپسی پر کچھ عرصہ عراق میں قیام فرمایا پھر تبلیغ قرآن و سنت کا عظیم فريضہ سرانجام دیتے ہوئے مکران کے راستے سندھ مىں جلوہ فرما ہوئےآپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی عادت کریمہ تھی کہ ایک جگہ قیام پزیر نہ رہتے بلکہ اکثر سفر پر رہتے چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے ملتان اور پھر ہندوستان کے دیگر شہر گرنار،گجرات ، جونا گڑھ، پانی پت، وغیرہ کا سفر اختیار فرمایا اور خوب نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیں۔([14])

سیہون آمد:

حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی آمد سے قبل سیہون برائیوں اور بدکاریوں کا گڑھ تھا ہر طرف برائی اور بدکاری کا دور دورہ تھا۔ سیہون اس وقت بت پرستی اور کفر و الحاد کا مرکز بنا ہوا تھا۔ زندگی کے ہر شعبے میں بے راہ روی تھی، جوا، شراب اور دوسری معاشرتی برائیاں عام تھیں۔ لوگوں کی اخلاقی حالت بہت پست تھی جگہ جگہ عصمت فروشی کے اڈے قائم تھے لیکن حضرت لعل شہباز قلندر نے سیہون پہنچتے ہی گمراہ اور بدکار لوگوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس کروایا اور برائیوں اور بدکاریوں سے دور رہنے کی تلقین فرمائی اور لوگوں کو اسلام قبول کرنےکی دعوت دی۔

سیہون کے بڑے بڑے زمیندار اور روسا ان برائیوں میں شریک تھے۔ ان عیش پسندوں اور روساء نے آپ کی بہت مخالفت کی۔ مگر آپ نے اس ظلمت کدہ کفر میں اسلام کی شمع کو منور رکھا۔ آہستہ ہستہ اس شمع کی روشنی پھیلنے لگی اور آپ کی دینی و روحانی تعلیمات کو لوگ قبول کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے برائی کی جگہ نیکی نے لےلی اور بدکاری اور فحاشی سے لوگ کنارہ کشی اختیار کرنے لگے۔ گناہوں اور برائیوں کے مرکز ویران اور سنسان ہوگئے۔ سیہون کے جس محلہ میں آکر آپ قیام پذیر ہوئے وہ محلہ بدکار عورتوں کا تھا اس عارف باللہ کے قدموں کا پہلا اثر یہ تھا کہ وہاں زناکاری اور فحاشی کا بازار سرد پڑگیا۔ ([15])

کرامت:

حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی سیہون شریف آمد سے قبل یہاں کا ایک محلہ بے حیائی اور بد کاری کا مرکز سمجھا جاتا تھا فاحشہ عورتیں سرعام لوگوں کو دعوتِ گناہ دیتیں۔ حضرت قلندر کی آمدکے بعدجو مرد بھی گناہ کے ارادے سے اس محلے میں آتا آپ کی نظر فیض اثر پڑتے ہی فوراً واپس ہو جاتا او ر اس قدر مرعوب ہوتا کہ دوبارہ اس طرف کا رخ نہ کرتا آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اللہ پاک کی بارگاہ میں ان عورتوں کے لیے ہدایت کی دعا مانگى جو فوراً قبول ہوئی اور یکدم ان کی کایا پلٹ گئی چنانچہ وہ سب خود جمع ہوکر حضرت قلندر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور صدق دل سے تائب ہوکر قلعہ اسلام میں پناہ گزیں ہوگئیں۔([16])

وصالِ باکمال:

زندگی کی112 بہاروں کو بارگاہِ قلندر سے فیض پانے کا موقع ملا۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے 21شعبان المعظم650 ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا۔([17]) انا للہ وانا الیہ راجعون

آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے جس جگہ وصال فرمایاوہیں آپ کا روضہ مبارکہ تعمیر ہوااس کی تعمیر سب سے پہلے سلطان فیروز تغلق کے زمانےمیں ہوئی پھر وقتاًفوقتاً سرزمین ہند پر حکمرانی کرنے والے سلاطین وامراء مزار پرانوار پر حاضر ہوتے رہے اوراس کی تزئین وآرائش میں حصہ ڈال کر دین و دنیا کی سعادتیں لوٹتے رہے آج بھی آپرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا عرس مبارک نہایت تزک واحتشام کے ساتھ منایا جاتا ہےجس میں دورو نزدیک سے آنے والےعقیدت مند اور محبین اپنی عقیدت ومحبت کا اظہار کرتے ہیں ۔([18])

اللہ پاک ہمیں حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کےفیضان سے مالا مال فرمائے۔ آمین

از:مولانا سید منیرعطاری مدنی

اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر، دعوتِ اسلامی



[1]اللہ کے خاص بندے،عبدہ،ص۵۲۳

[2]شان قلندر،ص۲۶۴ملخصاً

[3]شان قلندر،ص۲۶۴

[4]اللہ کے خاص بندے،عبدہ،ص۵۲۲بتغیر

[5]اقتباس الانوار، ص۶۶

[6]قلندر کی شرعی تحقیق، ص۶، بتصرف

[7]شان قلندر،ص۲۶۸بتغیر

[8]شان قلندر،ص۲۶۸بتغیر

[9]تذکرہ اولیائے سندھ، ص۲۰۶ بتغیر

[10]اللہ کے خاص بندے،عبدہ،ص۵۲۹

[11]سیرتِ حضرت لعل شہباز قلندر،ص۸۴

[12]اللہ کے خاص بندے،عبدہ،ص۵۲۹

[13]شان قلندر،ص۲۷۰بتغیر

[14]اللہ کے خاص بندے،عبدہ،ص۵۲۹

[15]سیرتِ حضرت لعل شہباز قلندر،ص۱۰۶۔۱۰۷

[16]تذکرہ صوفیائے سندھ، ص۲۰۳ملخصاً

[17]اللہ کے خاص بندے،عبدہ،ص۵۲۳

[18]تذکرہ صوفیائے سندھ، ص۲۰۳ملخصاً


ساتویں صدی ہجری کی ایک دوپہر ڈھل رہی تھی کہ درویشوں کا ایک قافلہ مختلف علاقوں میں نیکی کی دعوت دیتا ہوا باب الاسلام سندھ کے ایک علاقے میں پہنچا۔ ان دنوں باب الاسلام سندھ برائىوں اور بدکارىوں کى آماجگاہ تھا۔ ہر طرف گناہوں کا دور دورہ تھا۔ اس علاقے میں خاص طور پر کفر و شرک اور فحاشی وبدکاری عام تھی ۔بعض علاقے تو ایسے تھے کہ جہاں مسلمانوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔دینی معلومات نہ ہونے کے باعث لوگ زندگى کے ہر شعبے مىں بے راہ روى اور معاشرتى برائىوں کا شکار تھے ۔ لوگوں کى اَخلاقى حالت اَبتر تھی اسی وجہ سے جگہ جگہ برائی کے اڈے قائم تھے ۔ درویشوں کا یہ قافلہ ايك ایسے محلے میں ٹھہرا جہاں ہر طرف چہل پہل تھی ۔شام ڈھلتے ہی چراغ روشن ہونے لگے ، شام نے رات کا لبادہ اوڑھا تو گانے بجنے لگے ، عورتیں سرِعام گناہ کی دعوت دینے لگیں، اوباش نوجوان گناہوں کے بھنور کی طرف کھنچتے چلے جارہے تھے ۔ یادِ الہی میں مگن درویش یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوئے اور اپنے اميرِ قافلہ سے عرض کرنے لگے : حضور! یہاں قیام کرنا ہمارے لیے مناسب نہیں، کہیں اور چلتے ہیں یہ تو بہت ہی بُری جگہ ہے ۔امیرِقافلہ نے فرمایا : ہم یہاں اپنی مرضی سے نہیں آئے بلکہ بھیجے گئے ہیں۔ امیرِقافلہ کا جواب سُن کر درویش مطمئن ہو گئے ۔جوں توں رات گزری ، صبح گناہوں کا بازار سرد پڑ چکا تھا۔ اگلی رات درویش یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بازار میں کل جیسی رونق نہ تھی۔ دوسری طرف برائی کے اڈوں پر بھی اوس پڑ چکی تھی، جو بھی آتا محلے میں داخل ہوتے ہی الٹے پاؤں واپس لوٹ جاتا ۔اب تو یہ معمول ہی بن گیا، بازار کی رونقیں ختم ہونے لگیں۔ ایک دن ساری عورتیں جمع ہوئیں اور کہنے لگیں : جس دن سے یہ درویش یہاں آئے ہیں ہمارا تو کاروبار ہی ٹھپ ہو گیا ہے ۔ انہیں یہاں سے نکالو ورنہ ہم تو بھوکے مر جائیں گے ۔ چنانچہ وہ ان درویشوں کے پاس آئیں اور کہا : بابا آپ صوفی لوگ ہیں یہاں آپ کا کیا کام ، یہ گناہوں کی جگہ ہے ، یہاں سے چلے جائیں آپ کی وجہ سے ہمارا کام بند ہو رہا ہے ۔ درویشوں کے امیرِ قافلہ نے فرمایا : ’’ہم یہاں جانے کے لیے نہیں آئے ، اب تو ہمارا مزار بھی یہیں بنے گا۔ البتہ اگر تمہیں کوئی مسئلہ ہے تو تم یہاں سے چلی جاؤ ۔‘‘امیرِ قافلہ کا جواب سن کر انہیں پریشانی لاحق ہوگئی۔ چونکہ بڑے بڑے زمىندار اور رؤسا یہاں تک کہ خود راجہ بھی ان گناہوں میں شریک تھا لہذا انہوں نے راجہ کو شکایت کر دی۔ راجہ نے اپنے سپاہیوں سے کہا : درویشوں سے کہو یہاں سے چلے جائیں ورنہ انہیں زبردستی نکال دیا جائے گا۔ راجہ کا حکم پاتے ہی سپاہی درویشوں کے قافلے کی طرف روانہ ہوئے ابھی قریب بھی نہ پہنچے تھے کہ اچانک انکے پاؤں زمین نے پکڑ لیے ۔ سپاہیوں نے قدم اٹھانے کے لیے بہت جتن کیے مگر بے سود۔ انہوں نے واپس پلٹنے کی کوشش کی تو زمین نے پاؤں چھوڑ دیے ۔ سپاہی گھبرا کر واپس لوٹ گئے ۔ وہ عورتیں حیرت میں ڈوبی یہ منظر دیکھ رہی تھیں انکے دل کی دنیا زیروزبر ہوگئی اور وہ دلی طور پر اس بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی معتقد ہوچکی تھیں، بے ساختہ اس بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (جو کہ اس قافلے کے امیر بھی تھے )کے قدموں میں گر کر تائب ہوگئیں اور دائرہ اسلام میں داخل ہوگئیں۔ ان کی دیکھا دیکھی مرد بھی ان بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے دستِ حق پرست پر تائب ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے ۔( اللہ کے ولی ، ص۳۴۰، اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۳۳، شانِ قلندر، ص۲۸۸ بتصرف)

کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ بلند رتبہ درویش کون تھے ؟ جی ہاں! یہ کوئی اور نہیں بلکہ بابُ الاسلام سندھ کی پہچان حضرت لعل شہباز قلندر سیّدمحمدعثمان مَروَندی کاظمی حنفی قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی تھے اور دوسرے درویش آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے مرید اور خادم تھے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سیہون شریف ضلع دادو بابُ الاسلام سندھ تشریف لا کرکفروشرک کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں بھٹکنے والوں کواسلام کے پاکىزہ اُصُولوں سے روشناس کراىا۔

اس ظُلمت کدے مىں اسلام کى شمع روشن کی۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی آمد سے بابُ الاسلام سندھ میں اسلام کى روشنی پھیلتی چلی گئی۔ لوگ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی پُرتاثیر دعوت پر جوق درجوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے احکامات اور سرکاردوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی میٹھی میٹھی سنتوں کی روشنی میں زندگی بسرکرنے لگے ۔سُطُورِذیل میں نیکی کی دعوت کے عظیم داعی ، مُبَلِّغِ اسلام حضرت لعل شہباز قلندر سید محمد عثمان مَروَندِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکے مختصر حالات زندگی پیش کیے جاتے ہیں۔

ولادت اور سلسلہ نسب

حضرت سیدنا لعل شہباز قلندر محمد عثمان مَروَندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی ساداتِ کرام کے مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ولادتِ باسعادت مشہور قول کےمطابق ۵۳۸ھ بمطابق 1143ء میں آذربائیجان کے قصبہ ’’مَروَند‘‘ میں ہوئی۔(اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۳)اسی مناسبت سے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کومَروَندِی کہا جاتاہے ۔آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا نام سید محمد عثمان ہے جبکہ آپ اپنے لقب ’’لعل شہباز‘‘ سے مشہور ہیں۔(شان قلندر، ص۲۶۴ملخصاً)

اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کو اس قدر حسن و جمال عطا فرمایا تھا کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی پیشانی کے نورکے سامنے چاندنی بھی مات تھی ۔حضرت علامہ مولانا میر سید غلام علی آزاد بلگرامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ’’آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کاسلسلہ نسب تیرہ واسطوں سے حضرت سیدناامام جعفر صادق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہتک پہنچتاہے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کاسلسلہ نسب یوں ہے : سیدعثمان مروندی بن سید کبیر بن سید شمس الدین بن سیدنورشاہ بن سیدمحمودشاہ بن سیّد احمد شاہ بن سیّد ہادی بن سیّد مہدی بن سیّدمنتخب بن سیّدغالب بن سیّد منصوربن سیّداسماعیل بن سیدناامام محمدبن جعفر صادق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہم ۔( لب تاریخ سندھ مخطوط، ص۹ بحوالہ تذكره اولياءِ سندھ، ص٢٠٦)

قلندر کہنےکی وجہ

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سلسلہ قلندریہ سے بھی تعلق رکھتے تھے اسی لئے آپ کو قلندر کہا جاتا ہے ۔برِصغیر میں سلسلہ قلندریہ نے حضرت شاہ خضر رومی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی (مُتَوَفّٰی ۵۹۹ھ)سے شہرت پائی ۔(اقتباس الانوار، ص۶۶)

قلندر کون ہوتاہے ؟

قلندر خلافِ شرع حرکتیں کرنے والے کو نہیں کہا جاتا، جیسا کہ فی زمانہ بے نمازی ، داڑھی چٹ ، خلافِ شرع مونچھیں، عورتوں کی طرح لمبے لمبے بال ، ہاتھ پاؤں میں لوہے کے کَڑے پہننے والے لوگ کہتے پھرتے ہیں کہ ہماری تو قلندری لائن ہے ، مَعَاذَ اللہ، حالانکہ صوفیائے کرام کی اصطلاح میں قلندر شریعت کے پابند کو ہی کہا جاتا ہے چنانچہ مصنفِ کُتُبِ کَثِیرہ، خلیفۂ مفتیٔ اعظم ہند فیضِ مِلَّت حضرت علامہ مولانا مفتی فیض احمد اویسی رضوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی نقل فرماتے ہیں : ’’قلندر وہ ہے جو خلائقِ زمانہ سے ظاہری اور باطنی تجربہ حاصل کر چکا ہو، شریعت و طریقت کا پابند ہو ۔ ‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’دراصل صوفی اور قلندر ایک ہی ذات کا نام ہے (قلندر کی شرعی تحقیق، ص۶ بتصرف)

القاب کی وجہ تسمیہ

آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے چہرۂ انور پر لال رنگ کے قیمتی پتھر ’’ لعل کی مانندسرخ کرنیں پھوٹتی محسوس ہوتی تھیں اسی مناسبت سے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ لعلکے لقب سے مشہور ہوئے جبکہ شہبازکا لقب بارگاہِ امامِ حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے عطا ہوا۔چنانچہ منقول ہے کہ ایک رات آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے والدِ ماجد حضرت سیدنا کبیرالدینعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْمُبِیْن امام ِعالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی زیارت سے فیض یاب ہوئے ، سیّدُناامام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا : ہم تمہیں وہ شہباز عطا کرتے ہیں جو ہمیں ہمارے نانا جان ، رحمتِ عالَمیان صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم سے عطا ہواہے ۔اس بشارت کے بعدحضرت لعل شہبازقلندر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الصَّمَد کی ولادت ہوئی اور آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ولایت کے اعلیٰ مراتب پر فائز ہوگئے ۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۲بتغیر)

بچپن اور ابتدائی تعلیم

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا ابتدائی سلسلۂ تعلیم والدِ گرامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِیکے زیرِ سایہ تکمیل پایا۔ چونکہ والدین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْھِماتقویٰ و پرہیز گاری اور زیورِ علم سے آراستہ وپیراستہ تھے اس لیے بچپن ہی سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکو اللہ والوں کی محبتیں اورصحبتىں مىسر آئىں۔ جس کے نتیجے میں فُىُوض و بَرکات اور علمِ دىن کے گہرے نُقُوش آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی لوحِ قلب پر مُنَقَّش ہوئے ۔ یوں بچپن ہی میں نىکی اور راست بازى آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا شِعار بن چکی تھی ۔(شان قلندر، ص۲۶۸بتغیر)

حفظِ قرآن اور مسائلِ دینیہ

اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو غیرمعمولی قوّتِ حافظہ سے نوازا تھا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جونہی پڑھنے کی عمر میں قدم رکھا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو علاقے کى مسجد مىں دینِ اسلام کی ابتدائی تعلیم کے حصول کے لیے بھیجا گیا۔ والدہ ماجدہ کی دلی خواہش تھی کہ میرا بیٹا خوب علم دین حاصل کرے ۔ چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے والدہ ماجدہ کی خواہش کوعملی جامہ پہنانے کے لیے اپنے گاؤں کى مسجد میں ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ چونکہ مادرزاد ولی تھے لہذا جلد ہى آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے قرآن پاک پڑھنے کے ساتھ ساتھ ابتدائى دىنى مسائل بھى سىکھ لىے ۔ چھ برس کى عمر تک دىن کے چىدہ چىدہ مسائل اور نماز روزہ اور طہارت کے بارے مىں ضرورى مسائل سے آپ کو مکمل طور پر آگاہى حاصل ہوچکى تھى۔ سعادت مند والدین کی مدنی تربیت نے قرآن پاک حفظ کرنے کا شوق وجذبہ بیدار کیا تو سات سال کى عمر مىں قرآن مجىد بھی حفظ کرلىا۔ اس کے بعددیگر علومِ دینیہ کی تحصیل میں مصروف ہو گئے اور بہت جلد مُرَوَّجہ عُلُوم و فُنُو ن کے ساتھ ساتھ عربى اور فارسى زبانوں مىں بھى مہارت حاصل کرلى۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲٥ بتصرف)

والدین کا داغِ مفارقت

دستورِ قدرت ہے کہ جسے جتنا بلند مقام عطا کیاجاتا ہے اتنی ہی آزمائشوں اور امتحانات سے گزارا جاتا ہے ۔ حضرت سیدنا لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے امتحان کا وقت آچکا تھا۔ ایامِ زیست(زندگی کے دنوں) کی گنتی اٹھارہ سال کو پہنچی تو والد ماجد داغِ مَفارقت دے گئے ، ابھی یہ زخم تازہ تھا کہ دو سال بعد والدہ ماجدہ بھى داعیٔ اَجَل کو لبیک کہہ گئیں۔چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مزید علمِ دین کے شوق میں گھربار چھوڑ کر راہ خدا عَزَّ وَجَلَّکے مسافر بن گئے اور علمائے کرام کى بارگاہ سے وراثت ِانبیاء یعنی علم اور صوفیائے کرام کی بارگاہ سے خزینۂ روحانیت جمع کرنے میں مصروف ہو گئے ۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۶ بتصرف)

حضرت لعل شہباز قلندر سنی تھے

حضرت سیّدنا لعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ صحیح العقیدہ سُنی اورحنفی المذہب تھے ۔آ پ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ساری زندگی اہلِ سنّت کے جلیل القدر علمائے کرام اور مشائخِ عُظّام ہی کے ساتھ دوستی اور نشست وبرخاست رکھی نیزان ہی کے ساتھ سفر بھی فرمائے ۔حضرت سیّدنالعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنی ایک نعتیہ غزل کے آخری مصرع میں اپنا عقیدہ یوں بیان فرماتے ہیں :۔

عثمان چو شد غلام نبی و چہار یار

امیدش از مکارم عربی محمد است

یعنی : عثمان جب ہوگئے حضور نبیٔ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کے چاروں یاروں(حضرت صدیق اکبر، حضرت عمرفاروق اعظم، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی المرتضٰی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ )کے غلام۔۔۔ اُس کو امید ہے محمدِ عربی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاق و عادات سے ۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۷ بتصرف)

حضرت سیدنا عثمان مروندی المعروف لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہعلم و حکمت کی دولت سمیٹتے سمیٹتے جب کربلائے معلی پہنچے توحضرت سیدنا امام موسىٰ کاظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکی اولاد سے ایک بزرگ حضرت سیدنا شىخ ابواسحاق سید ابراہىم قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِیکے دستِ اَقدس پر بیعت ہوئے اور تقرىباً ۱۲ماہ تک پیرومرشدکے زیرِسایہ سلوک کی منزلیں طے فرماتے رہے ۔ پیرومرشد حضرت سیدنا ابراہیم قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی نظرِ ولایت نے جب اس بات کا مشاہدہ کیا کہ یہ اب مریدِ کامل بن کر طریقت کی اعلیٰ منزلیں طے کرچکے ہیں تو انہوں نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو خرقۂ خلافت و اجازت سے نوازا اور خدمتِ دین کے لیے راہِ خدا میں سفر کرنے کی ہدایت فرمائی۔( شان قلندر و غيره، ص۲۷۰بتغیر)

بعض سیرت نگاروں نے لکھا کہ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہحضرت سیدنا شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی سہروردی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِیكے مریدو خلیفہ تھے ۔( خزینۃ الاصفیاء ، ۴/ ۷۹، تذكره حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی، ص١١١)

مرشد کےحکم پرعمل

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے مرشدِ کریم نے چونکہ خدمت ِ دین کے لئے کوئی خاص منزل متعین نہ فرمائی تھی اس لئے آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پیرو مرشد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے اَن دیکھے راستوں پر نکل کھڑے ہوئے اور شہر بہ شہر گاؤں بہ گاؤں نیکی کی دعوت کی دھومیں مچانے میں مصروف ہوگئے ۔( آداب مرشد کامل، ص : ۱۹۸ملتقطاً)

ہمعصروہمسفر

حضرت سیدنا لعل شہباز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے نیکی کی دعوت عام کرنے کے لئے مختلف اولیائے کرا م کے ساتھ مدنی قافلوں میں سفر کیا۔جن اولیائے کرام اور صوفیائے عُظَّام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَامکى صحبتوں سے فیض یاب ہوئے اور راہِ خداکے مسافر بنے ۔ ان میں سَرِ فہرست (۱)حضرت سیدنا شىخ فرىدالدین گنج شکر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الصَّمَد، (۲)حضرت سیدنا بہاؤ الدىن زکرىا ملتانى قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی، (۳)حضرت سیدنا مخدوم جہانىاں جلال الدىن بخاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْبَارِی (صوفیاء کی اصطلاح میں ان تین اور چوتھے حضرت لعل شہباز قلندر کو چار یار کہتے ہیں ۔)اور حضرت سیدنا شىخ صدرالدىن عارف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا نام ِ نامی اسم ِ گرامی شامل ہے ۔( معیار سالکان طریقت (سندھی)، ص ۴۲۴، تذکرہ اولیاءِ سندھ، ص۲۰۶ بتغیر)

مزارات پر حاضری

حضرت سیّدنالعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ طریقت کی منازل طے کرنے میں مصروف تھے اور اس دوران اپنے اپنے وقت کے برگزیدہ اولیائے کرام سے روحانی فیض حاصل کرنے کے لئے انکے مزارات پر حاضری بھی دیتے رہتے چنانچہ مشہدشریف میں حضرت سیّدناامام علی رضا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہاور کوفہ (بغداد) میں امام الائمہ، سِراجُ الاُمَّۃ، حضرت سیدنا امامِ اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہکے مزارِ اَقدس پر حاضری دے کر فُیُوض وبَرَکات حاصل کئے ۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۹)

غوثِ پاک کے مزار پر

حضرت سیّدنالعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ پیرانِ پیر روشن ضمیر حضور غوثِ اعظم محی الدین سید ابومحمدعبدالقادر جیلانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِیکے مزار شریف پر حاضر ہوئے ، مراقبے کے دوران آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کو سیّدناغوثِ اعظم کی زیارت ہوئی ، سیّدنا غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا : عثمان !اب مکہ مُعَظَّمہ چلے جاؤاور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے گھر کی زیارت کرو۔( سیرت حضرت لعل شہباز قلندر، ص۷۲)

سفرِ حج اور فکرِ مدینہ

حضرت سیّدنالعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے مشہورومعروف علماواولیاسے اِکتِسابِ علم و روحانیت کے بعد آقائے دوجہاں، سردار انس و جاںصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے درِپاک پر حاضری کا ارادہ فرمایا۔ چونکہ حج کے ایام قریب تھے لہٰذااِحرام باندھا اور چل پڑے ۔حضرت سیدنا لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خوف غالب تھا یہاں تک کہ جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سفرِ حج پر روانہ ہو رہے تھے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی خُفیَہ تدبیر کا خیال آگیا اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ یوں فکرِ مدینہ فرمانے لگے : ’’اے عثمان! تم سواری پر سوار حجِ بیتُ اللہکے لیے جارہے ہو اور عنقریب تمہارا جنازہ بھی روانہ ہو گا۔تم نے آخرت کے لیے کیا توشہ تیار کیا ہے ؟اسی خوفِ خداکے ساتھ بیتُ اللہ شریف پہنچے ، حج کی سعادت پائی اور انوارِ الہی کی بارش سے خوب مستفیض ہوئے ۔( سیرت حضرت لعل شہباز قلندر، ص۷۲)

زیارتِ مدینہ

حجِ بیتُ اللہسے مُشَرَّف ہونے کے بعدمدینہ منورہ میں نبیٔ محترم، شفیعِ مُعَظَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی بارگاہِ مُحتَشَم میں حاضر ہوئے اورعشق ومحبت میں ڈوب کر اپنے پیارے آقا و مولیٰ محمد مصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر خوب خوب درود و سلام کے گجرے نچھاور کیے ۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۹)

منقول ہے کہ روضۂ رسول پر حاضر کیا ہوئے جد ا ہونے کو جی ہی نہ چاہتا تھا، لہذا گیارہ ماہ تک درِرسول پر حاضر رہے ۔اگلے سال پھر حج کی سعادت پائی اور ہندوستان کا سفر اختیار فرمایا۔بَرِصغیر پاک و ہند میں آپ کی منزل سیہون شریف ضلع دادو باب الاسلام سندھ تھی چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ پہلے مرکزالاولیاء لاہور تشریف فرما ہوئے ۔

قلندرپاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اور باب الاسلام آمد

حج کے بعد سرکاردوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے درِاقدس پر حاضر ہوئے اور وہیں سے ہندوستان کے لیے رختِ سفر باندھا چنانچہ وہاں سے عراق پہنچے اور کچھ عرصہ وہیں قیام فرمایا پھر تبلیغ قرآن و سنّت کا عظیم فريضہ سرانجام دیتے ہوئے بلخ ، بخارا اور مختلف علاقوں سے ہوتے ہوئے باب الاسلام سندھ مىں جلوہ فرما ہوئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عادتِ کریمہ تھی کہ ایک جگہ قیام نہ فرماتے بلکہ اکثرمدنی قافلے کے مسافر رہتے چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے مدینۃ الاولیاءملتان، مرکز الاولیاء لاہور اور پھر ہندوستان کے دیگر شہر اجمیر، گرنار، گجرات ، جونا گڑھ، پانی پت، کشمىر وغیرہ کا سفر اختیار فرمایا اور خوب نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیں۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۹بتصرف)

اجمیر شریف حاضری

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے تقریباً چالیس دن تک اجمیر شریف میں سلطان الہند حضرت سیّدنا خواجہ معین الدین سید حسن چشتی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِیکے مزارِ پُر انوارکے سائے میں قیام فرمایا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہیہاں عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتے اور باطنی فیوض و برکات سے مالا مال ہوتے ۔(شان قلندر، ص۲۷۹بتغیر)

سندھ کا مقدر جاگ اٹھا

ان دنوں برصغیر ہندوستان کے مختلف اطراف میں اولیاء و صوفیائے کرام شمعِ اسلام روشن کیے ہوئے تھے ۔ وسطِ ہند اور جنوبى پنجاب مىں چشتى سلسلے کے بزرگ توحىد ورسالت کادرس دے رہے تھے اور خاندانِ سہروردیہ کا فیضان دہلی تا ملتان پھیلا ہوا تھامگر ابھی تک باب الاسلام سندھ فیوض و برکات سے خاص حصہ نہ رکھتا تھا۔جب حضرت سیدنا لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہپانی پت میں حضرت سیدنا بوعلی قلندر رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے پاس پہنچے تو انہوں نے باب ا لاسلام سندھ کو نوازنے کی استدعا کی اورفرمایا : ’’ہند میں تین سو قلندر ہیں ، بہتر ہو گا کہ آپ (باب الاسلام) سندھ تشریف لے جائیں ۔‘‘آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے مشورے پر حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ باب الاسلام سندھ تشریف لے آئے ۔( تحفۃ الکرام (مترجم)، ص ۴۲۹، تذكره اولياءِ سندھ، ص٢٠٦)

دشتِ شہباز

حضرت سیدنالعل شہباز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہنے جب باب الاسلام سندھ کی طرف رخت سفر باندھا تو راستے میں مکران مىں وادى پنج گورکے قریب قیام فرمایایہاں ہزاروں مکرانى بلوچوں نے آپ کے دست حق پرست پر توبہ کی اور شمع اسلا م کے پروانے بن گئے ۔ یہ میدان آج بھى آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے لقب کی نسبت سے ’’دشتِ شہباز‘‘ کہلاتا ہے ۔ یہاں کے مقامی لوگ آج بھی آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی عقیدت اور محبت کا دم بھرتے نظر آتے ہیں۔( شان قلندر، ص۲۸۲وغیرہ)

ضعیف العمری میں بھی قافلے

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہضعیفُ العمر ی کے باوجود صحت مند اور چاک و چوبند تھے ۔ منقول ہے کہ جب آپ سىہون تشرىف لائے تو اس وقت آپ کى عمر سو سال سے کچھ زائد تھى، اور آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہآخری ایام میں بھی حسبِ عادت نیکی کی دعوت عام کرنے کے لیے سفر فرماتے تھے ۔( اللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۲۳)

علماکاادب

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ علم کے بہت ہی قدردان تھے نیز اہلِ علم کے مقام ومرتبے کا لحاظ فرمایاکرتے تھے ۔ نماز کى امامت بہت کم فرماتے ، ہمىشہ ىہ کوشش رہتی کہ پاس موجود علمائے کرام مىں سے کوئى امامت کروائے ۔( شان قلندر، ص۳۰۲وغیرہ)

علمی مقام اور تدریس

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ زبردست عالمِ دین تھے ۔لِسانیات اور صرف و نحومیں آپ کو یدِ طولیٰ حاصل تھا۔فارسى اور عربى پر کامل دَسترَس رکھتے تھے نیزآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ زبردست شاعربھی تھے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے کچھ مضامىن پر کتابىں بھى لکھى ہىں جن میں سے صرف صغیر قسم دوئم، اجناس اور میزان الصرف کےبارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس دورکے مدارس کے نصاب میں بھی شامل تھىں۔(سیرت پاک حضرت لعل شہبازقلندر وغيره، ص۲۴ بتغیر، وغیرہ)

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ مدرسہ بہاؤ الدىن (مدینۃالاولیاء ملتان شریف) میں فارسى اور عربى میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ۔ سىہون شرىف مىں مدرسہ’’فقہ الاسلام‘‘ تھا جس کے بارے میں منقول ہے کہ وہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہہی نے قائم فرمایا تھا جبکہ ایک دوسرى رواىت میں ہے کہ یہ مدرسہ پہلے سے قائم تھا البتہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اس کی تعمیر وترقی میں اہم کردار ادا کیا یہاں تک کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے دور میں اس جیساعالى شان مدرسہ پورے باب الاسلام سندھ مىں نہ تھا۔ تِشنگانِ علم دُوردراز سے علم کی پیاس بجھانے سیہون آتے یہاں تک کہ اسکندرىہ (مصر)جىسے دور دراز علاقے سے طلبہ اس مدرسہ مىں تحصىلِ علم کے لىے حاضر ہوتے تھے ۔ یہ وہ دور تھا کہ سیہون باب الاسلام سندھ علم و علما کا مرکز تھا اور حضرت لعل شہباز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ علما کى اس کہکشاں مىں مثلِ آفتاب تھے ۔( شہبازِ ولايت، ص۲۵ بحوالہاللہ کے خاص بندے عبدہ، ص۵۳١)

سجادہ نشین

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے سجادہ نشین آپ کے محبوب مریدوخلیفہ حضرت سیدنا علی سرمست رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ہوئے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے بارے میں منقول ہے کہ جب قلندر پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہبغداد شریف سے باب ا لاسلام سندھ تشریف لائے تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بھی ان کے ساتھ تشریف لائے تھے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہقلندر پاک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے وزىر مشہور تھے ۔( سیرت پاک حضرت لعل شہبازقلندر، ص۹۰)

بارانِ رحمت کا نزول

منقول ہے کہ ایک بار سىہون شرىف اور اس کے اردگردکے علاقوں مىں شدید قحط پڑا یہاں تک کہ کھانے کى کوئى چىز دور دور تک دکھائى نہ دىتى، نہریں خشک ہوگئىں، کنوئىں سوکھ گئے ، پانى کاملنا دشوار ہوگیا۔ قحط کی وجہ سے اس قدر خوفناک صورت حال ہوگئى کہ زندہ بچنے کى کوئى امىد دکھائى نہ دىتى تھى۔ آخر کار اہلِ علاقہ اکٹھے ہو کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکى خانقا ہ کے گرد جمع ہوئے اور فریاد کرنے لگے ۔ حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے امربالمعروف اور نہی عن المنکر(نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا) کا فريضہ سرانجام دیتے ہوئے فرمایا : تم سب لوگ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کى بارگاہ مىں گناہوں سے سچی توبہ کرو اور مىرے ساتھ دعا مانگو۔ لوگوں نے فوراً اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہِ عالی میں اپنے گناہوں کى معافى مانگی اور توبہ استغفار کرنے لگے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں دعاکے لیے ہاتھ دراز کردیے اور بارش اور خوشحالی کی دعاکی۔ کہا جاتا ہے کہ ابھى حضرت لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ مانگ کر اپنے حجرہ مبارکہ مىں داخل بھى نہ ہونے پائے تھے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ کى دعا کو قبولیت سے مشرف فرمایا اور رحمت کی بوندیں برسنیں لگیں۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّکے فضل وکرم اور حضرت سیدنا لعل شہباز قلندر رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی قبولیتِ دعا کی خوشی میں لوگوں نے کھانے پکاکر غربا و مساکىن مىں تقسىم کىے ۔ حضرت سیدنا لعل شہباز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے نمازِ عشاء کى ادائىگى کے بعد اجتماعِ ذکرونعت کا اہتمام فرمایا اور لوگوں نے مل کر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ذکر کىا اور حضور پرنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی ذات گرامی پر خوب درود و سلام پىش کىا۔(شان قلندر، ص۳۱۱وغیرہ)

مسواك سایہ داردرخت بن گئی

گرمیوں کے دن تھے ، سورج پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھااور حضرت لعل شہباز قلندررَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہاپنى خانقاہ کے صحن مىں وضو فرمارہے تھے ۔ ایک عقیدت مند نے دھوپ کى تپش کو دىکھتے ہوئے عرض کی : حضور! ہم اس جگہ پر اىک ساىہ دار درخت لگائىں گے تاکہ آنے والے اسکے سائے مىں آرام پائیں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے وضو سے فراغت کے بعد ایک مرید کو اپنى مسواک دىتے ہوئے فرماىا : اسے یہاں زمىن مىں گاڑ دو۔حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مسواک زمىن مىں گاڑ دی گئی۔ اگلے ہى دن اس مسواک مىں ہری ہری شاخىں نمودار ہوگئىں اور چند دنوں مىں دىکھتے ہى دىکھتے ىہ چھوٹى سى مسوا ک اىک تناور ساىہ دار درخت بن گئی۔(شان قلندر، ص۳۱۳وغیرہ)

دم کرنے سے مریضوں کی شفایابی

منقول ہے کہ حضرت سیدنا لعل شہبازقلندرمحمدعثمان مَروَندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی جس مریض کے لیے دستِ دعا بلند فرمادیتے فوراً صحتیاب ہو جاتا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہقرآن کریم کی چند آىات مبارکہ تلاوت فرماتے اور پانى پر دم کرکے مریض کو پلانے اور آنکھوں پر لگانے کا حکم فرماتے ۔ نتیجۃً فوری طور پرمرىض میں صحت ىابی کے آثار نمودار ہوجاتے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے دم کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ سورۃالفاتحہ، سورۃ الفلق، سورۃ الناس اور کلمۂ طیبہ بالترتیب ایک ایک بار پڑھتے ، اسکے بعدخلفائے راشدىن رِضْوَانُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْنکے وسىلہ جلىلہ سے مرىض کى شفاىا بى کے لىے بارگاہِ الہٰى عَزَّ وَجَلَّ مىں دعا کرتے ۔کہتے ہیں کہ آج بھی اگر کوئی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے مزار پر حاضر ہوکر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے اىصالِ ثواب کے بعد اسی طرح بالترتیب سورۃالفاتحہ، سورۃ الفلق، سورۃ الناس اور کلمہ طیبہ پڑھ کر خلفائے راشدىن کے وسىلہ سے دعا کرتا ہے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّکے فضل وکرم سے اس کى دعا قبول ہوجاتى ہے ا ور پروردگار عالم اسے شفائے کاملہ عطا فرماتا ہے ۔(شان قلندر، ص۳۱۵وغیرہ)

آخری کلمات

جب حضرت سیدنا لعل شہباز قلندر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الصَّمَدکا آخری وقت آیا تو آپ کی زبان سے ادا ہونے والے آخری کلمات یہ تھے : مىرا کوئى ساتھى نہىں ہے ، مىرا عمل مىرا ساتھ کىادے گا، مىرا سب سے بڑا سہارا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کى ذات بابرکات ہے ، مىرے ساتھى اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب حضور سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، آپ کےصحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ہىں۔

حضرت سیدنا لعل شہباز رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکے ان کلمات سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّماورصحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانبالخصوص خلفائے راشدین رِضْوَانُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن سے محبت و عقیدت کا پتا چلتا ہے ۔( شان قلندر، ص۳۲۲وغیرہ)

وفاتِ حسرت آیات

آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ۲۱شعبان المعظم۶۷۳ ھ میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جس جگہ وصال فرمایاوہیں آپ کا روضہ مبارکہ تعمیر ہوااس کی تعمیر سب سے پہلے سلطان فیروز تغلق کے زمانے میں ہوئی پھر وقتاًفوقتاً سرزمین ہند پر حکمرانی کرنے والے سَلاطین واُمَرَاء مزارِ پُراَنوار پر حاضر ہوتے رہے اوراس کی تَزئِین وآرائش میں حصہ ڈال کر دین و دنیا کی سعادتیں لوٹتے رہے ۔(حدیقۃ الاولیاء (سندھی)، ص۹۹، معیار سالکانِ طریقت (سندھی)، ص ۴۲۵)


قارئینِ کرام ! اچھے کام کرنے سے آپ لوگوں کی آنکھوں کے تارے بن سکتے ہیں جبکہ برے کام کرنے سے یا بری عادات اپنانے سے آپ لوگوں کی نظروں سے گِر بھی سکتے ہیں اور آپ کو ذلت و شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ اس مضمون میں ہم 16 ایسے کاموں کی نشاندہی کررہے ہیں جن سے اجتناب کرکے آپ شرمندگی سے بچ سکتے ہیں۔

(1)کسی کے فون میں جھانکنا بہت ہی نامناسب بات ہے یقین جانیں شریف اور سمجھدار لوگ ایسی حرکتیں نہیں کرتے، یہ عمل ذلیل بھی کرواسکتا ہے اور شرمندہ بھی ۔

(2)کسی کا نمبر اس کی اجازت کے بغیر کسی کو بھی نہ دیں کیا پتا جس کا نمبر آپ نے کسی کو دیا اس کو یہ بات سخت نا پسند ہو ۔ ہاں اگر اس کی طرف سے اجازت ہے تو ٹھیک ہے۔

(3)اگر آپ کے پاس کسی کا فون آئے تو اس طرح فون پر بات نہ کیجئے کہ جس سے اور لوگ ڈسٹرب ہوں اگر کمرے میں ہوں تو باہر چلے جائیں تاکہ دوسرے لوگوں کو پریشانی نہ ہو، نیز موبائل کی ٹون ایسی نہ رکھیں جس سے دوسرے لوگ ڈر جائیں یا پریشان ہوں ۔

(4)بعض لوگوں کو جب فون کیا جائے تو انہوں نے عجیب ٹونز سیٹ کی ہوتی ہیں کسی نے گانے کی ٹون معاذ اللہ سیٹ کی ہوتی ہے اور نہ جانے کیا کیا بعض اوقات کسی دینی ذہن رکھنے والے کو بھی جب فون کیا جائے تو میوزک یا گانے کی آواز آجاتی ہے حالانکہ ان کو خود بھی اس بات کا پتہ نہیں ہوتا اس پر بھی وقتاً فوقتاً غور کرلینا چاہیے شاید یہ کمپنی والے ایسا کردیتے ہیں یا کوئی اور وجہ ہوتی ہے۔

(5)اگر آپ کو کوئی کام دیا گیا اور آپ نہیں کرنا چاہتے تو اپنی جان چھڑانے کے لئے کسی اور کو اس میں خدارا نہ پھنسائیں کہ بھائی میں تو نہیں کرسکوں گا ایسا کرو وہ فلاں بندہ ہے نا اس کے پاس چلے جاؤ وہ تمہارا کام کردے گا جیسے اس کے پاس دنیا کا کوئی کام نہیں ہے وہ اسی لئے بیٹھا ہے کہ کہیں سے بھی کوئی بھی کیسا بھی کام اس کو دے اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اسی کام میں مصروف ہوجائے۔لوگوں کے اپنے اپنے کام فکس ہوتے ہیں آپ کے ایسا کرنے سے کوئی آزمائش میں آسکتا ہے۔

(6)کسی کی چیز اس کی اجازت کے بغیر استعمال نہ کریں چاہے کوئی معمولی چیز ہی کیوں نہ ہو اگر آپ اس سے اجازت لے لیں گے تو اس کی نظر میں آپ کا مقام اور بڑھ جائے گا۔

(7)لوگوں سے چیزیں لے کر واپس نہ کرنا بہت ہی معیوب اور برا عمل ہے، اولاً کوشش کریں ایسی نوبت نہ آئے بصورت مجبوری وقت پر لوٹادیں، سکھی رہیں گے۔

(8)کھانے کے دوران منہ سے چبانے کی آوازیں نکالنے سے لوگوں کو الجھن ہوتی ہے اور یہ مہذب لوگوں کا طریقہ نہیں اس سے بچیں اور لوگوں کے سامنے بلند آواز سے ڈکار نے سے بھی گریز کریں نیز جمائی کے دوران منہ سے آواز نکالنا اور منہ پر ہاتھ نہ رکھنا بھی بری صفات میں شمار کیا جاتا ہے۔

(9)لوگوں سے ایسا مذاق کرنا جس سے ان کی دل آزاری ہو اور ان کی تحقیر ہو اسلام میں اس کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے اس عادت سے خود کو لازمی بچائیں۔

(10)بار بار کسی کے پاس بلاوجہ چلے جانے سے اہمیت کم ہوجاتی ہے اور سامنے والے کی نظر میں آپ کی وقعت بھی ختم ہوجائے گی،اگرچہ وہ آپ کا دوست یا ررشتہ دار ہو۔

(11)کسی سے کچھ بھی منگوائیں تو پیسے پہلے اس کے حوالے کریں تاکہ وہ بغیر کسی مشقت کے آپ کی چیز لے آئے بہت سے لوگوں میں یہ بری عادت موجود ہے کہ لوگوں کو آرڈر دیئے چلے جاتے ہیں کہ یار میرے لئے یہ لے آنا یا مجھے فلاں چیز لادینا پیسے میں د ے دوں گا وغیرہ جبکہ وہ بے چارہ کئی بار لوگوں کے لئے ان کا مطلوبہ سامان تو لے آیا لیکن جس کے لئے لایا اس نے پھر مڑ کر بھی اس کی طرف نہ دیکھا اور اس کا نقصان ہوگیا یاد رکھئے بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ انہیں خود سے مانگنا اچھا نہیں لگتا اگر کسی نے ان کے پیسے ادھار لئے ہوں تب بھی وہ اپنے پیسے واپس مانگنے میں شرم محسوس کرتے ہیں اس لئے خدارا لوگوں کی پرواہ اور فکر کریں ۔ ایسی حرکتوں کی وجہ سے ہی پھر سامنے والا بھی ٹال مٹول کرنا شروع کردیتا ہے کہ یار میں تمہاری چیز لانا بھول گیا ذہن میں نہیں رہا یاد نہیں رہا اب بتائیں اگر آپ کا کردار صاف ہوتا تو وہ کیوں آپ کی مدد نہ کرتا لہذا پیسوں کے معاملے میں سستی کاہلی کا مظاہرہ نہ کریں۔جس کے جو پیسے آپ کے ذمہ ہوں فورا لوٹانے کی کوشش کریں۔

(12)کسی سے قرض لیا یہ بول کر کہ دو دن بعد لوٹادوں گا تو اب لازمی لوٹادیں ورنہ یہ ہوگا کہ اس بار تو آپ نے اس سے پیسے لے لئے لیکن آئندہ پھر وہ کبھی بھی آپ کو اُدھار پیسے نہیں دے گا۔ لوگوں کا بھروسہ مت توڑیں۔

(13)لوگ دوسروں کی مدد کرناچاہتے ہیں ان کی مشکل میں کام آنے کا جذبہ رکھتے ہیں لیکن کم ظرفوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے مستحقین بھی ان کی بھلائی سے محروم ہوجاتے ہیں۔

(14)کسی کے پاس جو کچھ بھی ہے اس سے جلنا ،چڑنا ،حسد کرنا ،بغض رکھنا چھوڑ دیں کیونکہ یاد رکھیں آپ کے ایسا کرنے سے اس کا کچھ نہیں بگڑے گا لیکن ان کاموں کی نحوستیں آپ تک ضرور پہنچیں گی ہاں توبہ کرلیں تو ان شاء اللہ بچت ہوجائے گی۔بلکہ دوسروں کے پاس نعمتیں دیکھیں تو ان کے لئے مزید دعا کریں اس سے اللہ پاک آپ کی بھی نعمتوں میں اضافہ کردے گا۔

(15)اپنی چیزوں کو ترتیب سے رکھیں تاکہ وقت ضرورت دشواری کا سامنا نہ ہو اور غصے کی کیفیت سے بچ سکیں۔

(16)کوئی بھی ضروری کام ایسا ہو جو بعد میں کرنا ہو اور بھول جانے کا اندیشہ ہو تو اس کو موبائل میں ایک فولڈر بنا کر نوٹ کرلیں ۔ تاکہ وقت ضرورت دیکھا جا سکے۔اسی طرح کسی کو کچھ دیں یا لیں تو اس کو نوٹ کرلیں تاکہ بعد میں جھگڑا نہ ہو۔

از: محمد بلال سعید عطاری مدنی

اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر ، دعوتِ اسلامی

02-03-2022


تنقیدوں کا مقابلہ

Tue, 22 Mar , 2022
2 years ago

زندگی کو کامیاب بنانے کیلئے کچھ مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارے اسکول اور مدرسے میں تعلیم اور ڈگری تو دی جاتی ہے۔ لیکن زندگی گزارنے کی بنیادی مہارتیں نہیں سکھائیں جاتیں۔ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دنیا میں نیک اور بد ، لیڈر اور عالم ہر ایک کو بُرا بھلا ضرور کہا گیا ہے۔لیکن یہ تنقید ان بڑے لوگوں کے راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکی۔ اس سے بھی حیران کن بات یہ ہے کہ ان کے پاس دل بھی تھے اور ان کا دل ٹوٹ بھی جاتا تھا۔ لیکن یہ لوگ تنقید کا سامنا کرنے کی صلاحیت سے واقف تھے۔ کچھ صلاحتیں پیدائشی ہوتی ہیں۔ یہ خاص لوگوں کو ملتی ہیں۔اور کچھ صلاحتیں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ اور پیدا اس وقت ہونگی جب” کوئی بھی انسان اگر سچے دل کے ساتھ چاہے تو کسی بھی صلاحیت کو محنت کرکے اپنے اندر پیدا کرسکتا ہے “۔

اب 6 ایسے نکات عرض کرتا ہوں کہ جن پر عمل کرکے آپ تنقیدوں کا مقابلہ کر سکیں گے۔

1) آپ کسی کی تنقید کو اہمیت نہ دیں۔

2) ہمیشہ اچھے لوگوں کی رائے کو ذہن نشین رکھیں۔ اور انہیں بار بار دہراتے اور یاد کرتے رہیں۔

3) آپ اپنے آپ کو پہچانیں۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں پر نظر رکھیں۔ اپنی خامیوں کو خوبیوں میں بدلنے کی کوشش کریں۔

4) تنقید کرنے والوں کی فطرت تنقید کرنا ہے۔ تو آپ ان کو چھوڑ دیں۔ آپ ان کی وجہ سے اپنے آپ کو نہ بدلیں۔ ایک بات یاد رکھیں "کتے کی فطرت بھوکنا ہے"۔

5) آپ بڑا سوچیں ، چھوٹے جھگڑوں میں نہ پڑیں۔ کیونکہ ”بڑی منزل کے مسافر چھوٹے چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑتے “۔

6) آپ اچھے لوگوں کی مجلس اختیار کریں۔ کیونکہ اچھا کام کرنے والوں پر تنقید کا اثر کم ہوتا ہے۔

آخری بات؛ جو سب باتوں سے اہم ہے۔ کبھی بھی کسی کی تنقید آپ کی زندگی بدل کر رکھ دیتی ہے۔کیونکہ تنقید کا کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو۔ لیکن ایک فائدہ سارے مانتے ہیں کہ تنقید ”آپ کے اندر سوئے ہوئے احساس کو جگاتی ہے “ کیونکہ جس کو احساس نہ جگائے اسے کون جگا سکتا ہے۔

از: ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری


جیت آپ کی ہے لیکن

Tue, 22 Mar , 2022
2 years ago

اس دنیا میں انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد جیسے آتی ہے۔ ویسے ہی چلی جاتی ہے۔ وہ یوں زندگی گزراتے ہیں گویا کبھی زندہ ہی نہ تھے۔ جبکہ بعض لوگ آتے ہیں اور ان کا نام ہمیشہ کے لئے  زندہ ہوجاتا ہے۔وہ کیوں زندہ رہتے ہیں؟ دونوں کی زندگیوں میں صرف ایک فرق ہے۔ وہ فرق کامیابی کا ہے۔ وہ کامیابیاں جو انہوں نے حاصل کی ہوتی ہیں۔ ان کی کامیابیوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ ان کا مضبوط تعلق بن جاتا ہے۔

اس دنیا میں کچھ لوگوں کے نام کے چرچے ہوتے ہیں۔ اور کچھ کے نام تو اپنے خاندان اور کچھ دوستوں تک رہتے ہیں۔ حالانکہ دونوں انسان ہیں۔ پھر ایسی کونسی بات ہے جس نے ایک کو عُروج دیا اور دوسرے کو زوال ؟ فرق صرف اپنی ذات کو سمجھنے کا ہے۔ جس نے اپنی ذات کو سمجھا ، اور اپنی زندگی کو اہمیت دی اُس کا نام باقی رہ گیا۔ اور جس نے نہ سمجھا اس کا نام مٹ گیا۔

زندگی کو جتنی اہمیت دینی چاہیے۔ ہم اسے اتنی اہمیت نہیں دیتے۔ سب سے قیمتی چیز زندگی ہے۔ افسوس سے یہ بات کہنی پڑرہی ہے کہ لوگ پیسوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ زندگی کو اہمیت نہیں دیتے۔

میرے بھائیو!! زندگی ایک بار ملی ہے۔ اس لیے جینے کا حق ادا کیجئے۔ اس زندگی کو محسوس کرکے شان دار بنا کر جائیں۔ جو شخص کہتا ہے کہ میں یہ کام کل سے کرونگا ، اس کا شان دار لمحہ کبھی نہیں آتا۔ اس کی زندگی کبھی شان دار نہیں ہو پاتی۔ اسی لمحے سے شروع کیجئے۔

غُبارے کالے ہوں ، نیلے ہوں الغرض غُبارے کسی بھی کلر کے ہوں وہ غُبارے کلر کی وجہ سے نہیں اُڑتے۔ بلکہ اندر موجود گیس کی وجہ سے اُڑتے ہیں۔ اسی طرح کامیابی کا تعلق امیری، غریبی شہری، دیہاتی اچھے، کالے سے نہیں ہوتا۔ بلکہ اندر موجود جذبے ، جنون سے ہوتا ہے۔

انسان کے اندر کچھ ہوگا تو وہ اُڑان کے قابل بنے گا۔ جس میں کوئی تڑپ ہے ، لگن ہے، آنسو ہیں۔ وہ زیادہ ترقی کرسکتا ہے۔

بس آپ سر جھکائے اپنی منزل کی طرف چلتے چلے جائیے۔ اس چیز کی پروا چھوڑ دیجئے۔ کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں۔ صرف اپنی منزل کو فوکس رکھئیے۔ ایک دن جب آپ سر اٹھائیں گےتو زمانہ آپ کے ساتھ ہوگا۔ شرط یہ ہے کہ آپ لگے رہیں۔


صوبۂ پنجا ب میں جن صوفیائے کرام نے اپنے علم و عمل اور حسنِ اخلاق سے ہزارہا لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا، انہیں کفر کے اندھیروں سے نکال کر ان کے دلوں کو نورِ ایمان سے منور کیا، اسلامی تعلیمات کو عام کیا اورمخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچایا ان میں عظیم المرتبت صوفی بزرگ برہان الواصلین، شمس السالکین، سلطان العارفین حضرت خواجہ سلطان باہو کا بھی شمار ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کے وصالِ پُرملال کو سینکڑوں سال گزر نے کے باوجود آج بھی ان کا نام زندہ و تابندہ ہے۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کا نام ”سلطان باہو“ ہے۔ صوفیائے کر ام رحمۃاللہ علیہم نے آپ کو”سلطان العارفین“ کے لقب دیا۔ آپ کا تعلق قبیلہ اعوان سے ہے۔ آپ کا شجرۂ نسب سلطان باہو بن بازیدمحمد بن فتح محمد بن اللہ دتہ جو آگے چل کر امیرالمومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم تک جا پہنچتا ہے۔

پیدائش سے پہلے ولایت کی بشارت :

والدۂ ماجدہ حضرت بی بی راستی رحمۃ اللہ علیہا کو حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی پیدائش سے پہلے ہی الہام ہوچکا تھا کہ ان کے شکم میں ایک ولیِ کامل پرورش پارہا ہے چنانچہ خود فرماتی ہیں: مجھے غیب سے یہ پتاچلا کہ میرے پیٹ میں جو لڑکا ہے وہ پیدائشی ولی اللہ اور تارکِ دنیا ہوگا۔

بچپن کی کرامات :

۱۔آپ رحمۃ اللہ علیہ شیر خواری کے دنوں میں جب رمضان المبارک آتاتو دن بھر والدہ ماجدہ کا دودھ نہ پیتے، افطار کے وقت پی لیا کر تے۔

۲۔ بچپن میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کے سانس کے ساتھ ”ہو ہو“ کی آواز اس طرح نکلتی تھیں جیسے آپ رحمۃ اللہ علیہ ذکر الہٰی میں مشغول ہوں۔

۳۔آپ رحمۃ اللہ علیہ نہ تو کھلونوں سے کھیلا کر تے اور نہ ہی بچوں کے دیگر مشاغل اختیار کرتے۔(باہو عین باہو، ص ۱۱، ملخصاً)

آپ ر حمۃاللہ علیہ کی نظر کی کر امت :

آپ رحمۃ اللہ علیہ نظریں جھکا کر چلا کرتے تھےاگر راہ چلتے اچانک کسی مسلمان پر نظر پڑ جاتی تو اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا اور وہ بے اختیار پکار اٹھتا: واللہ! یہ کوئی عام بچہ نہیں اس کی آنکھوں میں عجیب روشنی ہے جو براہِ راست دلوں کو متاثر کرتی ہےاگر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی نظر کسی غیر مسلم پر پڑجاتی تو اس کی بگڑی سنور جاتی اور وہ اپنے آبائی باطل مذہب کو ترک کردیتا اور کلمۂ طیبہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا ۔

جب سلطان العارفین حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی نظر ولایت سے غیر مسلموں کے قبول اسلام کے واقعات کئی مرتبہ پیش آئے تو مقامی غیر مسلموں میں کھلبلی مچ گئی چنانچہ وہ سب آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم حضرت بازید محمد علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے صاحبزادے حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی شکایت کرنے لگے، آپ رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم نے پوچھا: آخر میرے بیٹے کا قصو ر کیا ہے؟ یہ تو بہت چھوٹا ہے کسی پرہاتھ اٹھانے کے بھی قابل نہیں ہے۔ایک شخص نے کہا: اگر ہاتھ اٹھالیتا تو زیادہ اچھا تھا، والد ماجد نے حیران ہو کر پوچھا پھر کیا گلہ ہے؟

ان کے سر برا ہ نے کہا: آپ کا بچہ ہم میں جس پر بھی نظر بھرکر دیکھ لیتا ہے وہ مسلمان ہوجاتا ہے اس کی وجہ سے شور کوٹ کے لوگوں کا آبائی مذہب خطرے میں پڑ گیا ہے، بڑی عجیب شکایت تھی والد صاحب کچھ دیر تک سوچتے رہے۔ پھر فرمایا : اب تم ہی بتاؤ میں اس سلسلے میں کیا کرسکتا ہوں؟

سربراہ نے کہا، قصور تو بچے کی دایہ کا ہے جو اسے وقت بے وقت باہر لے جاتی ہے آپ سے ایک گزار ش ہے کہ آپ بچے کی سیر کا ایک وقت مقرر کرلیں، بالآخر حضرت بازید محمد رحمۃ اللہ علیہ نے سختی کے ساتھ دایہ کو ہدایت کردی کہ وہ ایک مقررہ وقت پر سلطان باہو کو باہر لے کرجایا کریں اس کے بعد شہر کے غیر مسلموں نےاس کام پر چند نوکر رکھ لئے کہ جب سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ باہر نکلیں تو بازاروں اور گلی کوچوں میں ان کی آمد کی خبر پہنچادی جائے لہذا جب نوکر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی آمد کی خبر سنتے تو لوگ یعنی غیر مسلم اپنی اپنی دکانوں اور مکانوں میں چھپ جاتے۔(مناقب سلطانی، ص ۲۷ ، مخلصاًوغیرہ)

بارگاہِ رسالت سے فیوض و برکات:

حضرت سلطا ن باہو فرماتے ہیں: کہ میں بچپن میں ایک دن سڑک کے کنارے کھڑا تھا ایک با رُعب صاحب حشمت نورانی صورت والے بزرگ گھوڑے پر تشریف لائے اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے پیچھے گھوڑے پر بٹھالیامیں نے ڈرتے اور کانپتے ہوئے پوچھاآپ کون ہیں؟ ارشاد فرمایا: میں علی بن ابی طالب ہوں۔ میں نے پھر عرض کی: مجھے کہاں لے جار ہے ہیں، فرمایا: پیارے آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم سے تمہیں ان کی بارگاہ میں لے جارہا ہوں جب بارگاہِ رسالت میں حاضر ی ہوئی تو وہاں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ، حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم اور سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہم بھی جلوہ فرماتھے۔

دیکھتے ہی دیکھتے نبیوں کے سردار رحمتِ عالمیان صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں دستِ مبارک میری طرف بڑھائے اور ارشاد فرمایا: میر ے دونوں ہاتھ پکڑلو ، پھر دستِ اقدس پر بیعت لی اور کلمہ طیبہ کی تلقین فرمائی ۔حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب میں نے لا الہ الالہ محمد الرسول اللہ“ پڑھا تو درجات و مقامات کا کوئی حجاب باقی نہ رہا، اس کے بعد حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مجھ پر توجہ فرمائی جس سے میرے وجود میں صدق و صفا ( یعنی سچائی اور پاکیزگی ) پیدا ہوگئی،توجہ فرمانے کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس مجلس سے رخصت ہوگئے، پھر اس کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے میری طرف توجہ فرمائی جس سے میرے وجود میں عدل و محاسبہ نفس پیدا ہوگیا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ بھی رخصت ہو گئے، ان کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے میری طرف توجہ فرمائی جس سے میرے اندر حیا اور سخاوت کا نور پیدا ہوگیا، پھر وہ بھی اس نورانی مجلس سے رخصت ہوگئے، اس کے بعد حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے مجھ پر توجہ فرمائی، تو میرا جسم علم، شجاعت اور حلم سے بھر گیا پھر پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر حضرت سیدتنا فاطمہ زہرہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے گئے تو آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : تم میرے فرزند ہو پھر میں نے حسنین کریمین رضی اللہ عنہا کے قدمین شریفین کا بوسہ لیا اور ان کی غلامی کا پٹا اپنے گلے میں ڈال لیا، پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیردستگیر حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی الحسنی والحسینی رضی اللہ عنہ کے سپرد فرمادیا۔ حضور غوث پاک نے مجھے مخلوق خدا کی رہنمائی کا حکم ارشاد فرمایا، حضرت سلطا ن باہو رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے جو بھی دیکھا ظاہری آنکھوں سے دیکھا۔(باہو عین باہو،ص ۱۱۱تا ۱۱۳ ملخصاً وغیرہ)

سائلو دامن سخی کا تھام لو، کچھ نہ کچھ انعام ہوہی جائے گا

مفلسوں ان کی گلی میں جا پڑو باغ خلد اکرام ہو ہی جائے گا

مٹی سونا بن گئی :

تحصیل شور کوٹ (ضلع جھنگ پنجاب پاکستان) سے کئی میل دور ایک خاندانی رئیس مفلس ہوگیا، اس نے ایک مقامی بزرگ سے اپنی مفلسی و تنگدستی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی حالت زار اس طرح بیان کی کہ حضور اب تو اکثر فاقوں نے گھیر رکھا ہے دروازے پر قرض خواہوں کا ہجوم رہتا ہے، مفلسی کی وجہ سے بچوں کی شادیاں اور دیگر ضروریات کی ادائیگی مشکل ہوگئی ہے سمجھ نہیں آتا کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ بزرگ نے فرمایا کہ دریائے چناب کے کنارے شور کورٹ جاؤ، وہاں سلطان العار فین حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ سے اپنی مشکلات بیان کرنا، جب اسے امید کی کوئی کرن نظر نہ آئی تو وہ اپنے چند دوستوں کے ساتھ سفر کرکے شور کوٹ پہنچا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اس وقت کھیت میں ہل چلا رہے تھے، وہ شخص یہ دیکھ کر بہت مایوس ہوا اور سوچنے لگا جو شخص خود مفلسی کا شکار ہے اور ہل چلا کر گزر بسر کرتاہے وہ بھلا میری کیا مدد کرے گا، یہ سوچ کر جونہی پلٹا تو کسی نے اس کا نام لے کر پکارا وہ حیران ہوا کہ یہاں تو میں اجنبی ہوں پھر میرا نام پکارنے والا کون ہے؟، پلٹ کر دیکھا تو حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ اسے بلارہے تھے جب اس نے یہ ماجرا دیکھا تو دل میں امید پیدا ہوئی اور فورا آپ رحمہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں باادب حاضر ہوگیا۔

حضرت سلطان باہو رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا: تم نے سفر کی تکالیف برداشت کیں اتنا فاصلہ طے کیا پھر بھی ہم سے ملے بغیر جارہے ہو، اس نے گریہ زاری کرتے ہوئے اپنی خستہ حالی کی داستان سنائی ، حضرت سلطان باہو علیہ الرحمہ نے اسی وقت زمین سے مٹی کا ایک ڈھیلا اٹھایا اور اسے زمین پر دے مارا جب اس شخص نے زمین پر نظر ڈالی تو کھیت میں موجود تمام پتھر اور ڈھیلے سونا بن گئے۔ ولی کامل حضرت سلطا ن باہو رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی بے نیازی سے فرمایا: اپنی ضرورت کے مطابق سونا اٹھا لو چنانچہ رئیس اور اس کے دوستوں نے وافر مقدار میں سونا اپنے اوپر لادا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کی اس کرم نوازی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے رخصت ہوگئے۔(مناقبِ سلطان، ص ۶۸، ملخصا وغیرہ)

دل کی بات جان لی :

مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں دو اشرفیوں کی تھیلیاں بھیجیں اس وقت آپ رحمۃ اللہ علیہ کنویں کے پاس بیٹھے کھیتوں کو پانی دے رہے تھے آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں تھیلیاں کنویں میں پھینک دیں وزیر کو بڑا تعجب ہوا اور اس کے دل میں یہ خواہش ہوئی کہ کاش یہ اشرفیاں مجھے مل جاتیں،آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے دل کی بات جان لی اور جب کنویں کی طرف نظر فرمائی تو اس سے پانی کی بجائے اشرفیاں نکلنے لگیں آپ رحمہ اللہ علیہ کی یہ کرامت دیکھ کر وزیر آپ رضی اللہ عنہ کے قدموں میں گر گیا، آپ رحمہ اللہ علیہ نے ایک بار پھر اس پر نظرِ کرم فرما کر عشق حقیقی کا جام پلایا اوروہ دونوں اشرفیوں سے بھری تھیلیاں ا س کے حوالے کر دیں۔(باہو عین باہو، ص ۳۲۶،ملخصاً)


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ ط

تذکرہ ٔ خواجہ سیدمبارک علی شاہ الوری رحمۃ اللہ علیہ

دُرُود شریف کی فضیلت

فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم:میں نے گزشتہ رات عجیب واقعہ دیکھا ، میں نے اپنے ایک اُمتی کو دیکھاجوپُل صراط پر کبھی گھسٹ کر اور کبھی گھٹنوں کے بل چل رہا تھا ، اتنے میں وہ دُرُودآیا جو اس نے مجھ پر بھیجا تھا، اُس نے اُسے پُل صراط پر کھڑا کر دیا یہاں تک کہ اُس نے پل صراط پار کر لیا۔ (معجم کبیر ،25/282، حدیث:39)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

تذکرہ ٔ خواجہ سیدمبارک علی شاہ الوری

الورصوبہ راجستھان، ہند(1) کاسادات خاندان اپنی نسبی شرافت، علمیت اور قائدانہ صلاحیتوں سے مالامال ہے ،ان میں کئی ہستیوں نے دین وملت کے لیےایسی کثیر خدمات سرانجام دیں جوتاریخ کے اوراق میں نقش ہیں،تقریبا تین سوسال سے مسلمانانِ ہندوپاک ان کے فیوضات وبرکات سے مستفیض ہورہے ہیں ،اس خاندان کے ایک عظیم فرزند پاکستان کے آٹھویں بڑے شہرحیدرآباد(2 ) میں مدفون ہیں، میری مراد جوہرکانِ ولایت،گوہر بحرحقیقت،مخزنِ اسرارِ شریعت، معدنِ نورِ معرفت،پیرِطریقت،عالم شریعت حضرت خواجہ مولانا سید مبارک علی شاہ حسنی رضوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، اس رسالے میں ان کا مختصر ذکرخیرکیا جاتاہے ۔

خاندان کا تعارف

پیرطریقت حضرت خواجہ مولانا سید مبارک علی شاہ حسنی رضوی صاحب خاندانِ سادات کے چشم وچراغ تھے ، آپ حسنی رضوی سیدتھے ،44ویں پشت میں آپ کانسب حضرت امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ (3) سے مل جاتاہے۔(4) آپ کے آباء واجداد مشہد مقدس(5) سے بلگرام(6) وہاں سے فیض آباد(7) اوروہاں سے ریاست الورمیں آئے، یہیں بودوباش اختیار کرلی ۔یہ خاندان نہایت شریف ،دین دار اور متقی تھا ، اس خاندان کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے:مولانا سیدمبارک علی حسنی رضوی، مولانا سیدسلامت علی حسنی رضوی،مولانا حکیم سیدوزیرعلی حسنی رضوی ،سیدشاہ محورحسنی رضوی، سید ابوسعید محمود حسنی رضوی ،سیدابی نصربلخی حسنی رضوی،سید ابوکمال محمدحسنی رضوی،سیدقوت الدین محسن حسنی رضوی، سید ذکی حسن حسنی رضوی،سیدعلی حسنی رضوی، سید نورالدین ثانی حسنی رضوی،سیدصفی جفوی حسنی رضوی، سید غوث الدین حسنی رضوی، سید نورالدین حسنی رضوی، سید ابراہیم حسنی رضوی، سیدبرہان الدین حسنی رضوی، سید رضی الدین حسنی رضوی،سیدعبدالرزاق حسنی رضوی،سیدحافظ عبدالغفور حسنی رضوی، سید محمد صالح حسنی رضوی، سیدمہیمن حسنی رضوی، سیدعبداللہ ثالث حسنی رضوی، سیدشہاب الدین غوری حسنی ،سیدعبدالرحمٰن غوری حسنی، سیداسماعیل غوری حسنی، سید صفدرعلی حسنی، سیدتواب ابوالقاسم حسنی ،سیدطاہر حسنی ،سیدطیب حسنی ، سید اویس ثانی حسنی، سید عسکر حسنی، سید یحییٰ حسنی،سیدناصرالدین حسنی،سیدعلی حسنی، سیدحمود حسنی،سیدمحمود حسنی، سیدعبداللہ ثانی حسنی ،سید امام احمد حسنی، سید امام عمر حسنی ، سیدادریس اول حسنی، سید امام عبداللہ محض حسنی ،سیدامام حسن مجتبیٰ ۔ (8)

خاندانِ مبارکیہ الورمیں

اس خاندان کے پہلے فردجو الور آئے وہ مولانا سید مبارک علی شاہ کے جدامجد مولاناحکیم سید وزیرعلی حسنی رضوی بلگرامی ہیں،یہ عالم دین ،حکیم حازق ، اسلامی شاعر، مصنف کتب اورمعززینِ زمانہ سے تھے ، ان کا علاج حیرت انگیز ہوتاتھا ، مایوس لوگ ان کے علاج سے شفاپاتے تھے ،ریاست کے راجہ نے انہیں ریاستی طبیب مقررکیا تھا،انھوں نے 1855ء میں دہلی، لکھنؤ،آگرہ اوربریلی وغیرہ کے مشاہیربزرگوں کے حالات بنام ’’مرآۃ الہند‘‘تحریرفرمائے، جسے 1856ء میں الورسے شائع کروایا گیا تھا۔(9)

پیدائش

حضرت مولانا سید مبارک علی شاہ حسنی صاحب کی ولادت تقریبا 1305ھ مطابق 1888ء کومحلہ نواب پورہ ، الور (راجستھان ، ہند)میں ہوئی۔ آپ کانام الورکے مشہور محدث اور ولی اللہ داداجی میاں،شاہ ِولایت ِالور حضرت شیخ سید مبارک شاہ محدث الوری رحمۃ اللہ علیہ (10) کے نام گرامی کی نسبت سے’’ سیدمبارک علی‘‘رکھا گیا، الورکے مشہور شاعر صاحبزادہ سیدشبیرحسین اخترزید ی (11) نے آپ کی منقبت لکھی جس میں آپ کے نام و جائے پیدائش (مولد)کا اس طرح ذکر کیا ہے :

مبارک ہے کہ جس پر مہرباں ہے خالق اکبر

جناب رحمۃ للعالمین کا پیار ہے جس پر

مبارک ہے نثارِ یاعلی کا جوخلیفہ ہے

مبارک ہے کہ جس کا مولدومسکن رہا الور (12)

والدین کا تذکرہ

مولانا سیدمبارک علی شاہ صاحب کے والدگرامی حضرت مولانا خواجہ سید سلامت علی شاہ حسنی صاحب ایک نیک اور علمی شخصیت کے مالک تھے،آپ کوتجارہ شہر (13) میں مدارالمہام (حاکم اعلیٰ،سربراۂ کار،نائبُ السلطنت)کے عہدے پر تعینات کیا گیا، اس کے بعد آپ تجارہ کے ایک قریبی علاقے ٹپوکڑہ (14) میں تشریف لے آئے یہاں کے لوگ آپ کے معتقد تھے، آپ نے یہیں قیام فرمایا اوررشدوہدایت کا سلسلہ جاری رکھا ، یہیں آپ کا وصال ہوا،مزارمبارک یہیں ہے۔ آپ صاحب کرامات تھے ، پٹوکڑہ کی ایک شاہراہ پر بہت بڑااژدھا رہتاتھا ،لوگ اس کے خوف سے لمباراستہ اختیار کرتے تھے، جب آپ کو معلوم ہوا توآپ وہاں تشریف لے گئے ،آپ نے ایک سکے پرکچھ پڑھ کردم کیا اوراژدھے کی طرف پھینک دیا، اس کا منہ بندہوگیااور وہ دم توڑ گیا۔ (15) حضرت مولانا سیدمبارک علی شاہ صاحب کی والدہ محترمہ دینی تعلیم سےآراستہ اور سلیقہ شعارخاتون تھیں، یہ بھی سادات کے حسنی خاندان سےتعلق رکھتی تھیں۔ (16)

تعلیم وتربیت

مولانا سیدمبارک علی شاہ صاحب نے دینی تعلیم علمائے الورسے حاصل کی۔قرآن کریم حضرت حافظ قاری محمدحنیف انصاری صاحب(17) اور فارسی کی تعلیم حضرت مولانا مفتی زین الدین الوری (18)سے حاصل کی ،اس زمانے میں الورمیں ولی کامل، مرشددوراں حضرت میاں صاحب مولانا سید نثارعلی شاہ مشہدی قادری چشتی رحمۃ اللہ علیہ (19) مرجع خاص و عام تھے، بچپن میں ہی مولانا سید مبارک علی شاہ صاحب کو میاں صاحب الوری رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت حاصل ہوئی ، ان سےہی بیعت کا شرف پایا اورپھر سلسلہ قادریہ راجشاہیہ (20) اور سلسلہ چشتیہ صابریہ(21) میں خلافت سے بھی نوازے گئے۔(22)

مجاہد ات وریاضات

آپ بچپن سے ہی نمازروزوں کے پابند،فرائض وسنن کے عامل اورحسنِ اخلاق کے پیکر تھے ،تصوف کی جانب بہت لگاؤتھا ،آپ نے الورکی چاند پہاڑی (تال برچھوں )میں چِلّے کاٹے، ڈگی تالاب میں کھڑے ہوکرریاضت کی ،دوران ریاضت مچھلیوں نے آپ کوزخمی بھی کیا اورپنڈلیوں کا گوشت کھا لیا مگرپھربھی آپ نمازیں باجماعت اداکرتے رہے۔(23)

دیگربزرگوں سے استفادہ

مولاناسیدمبارک علی شاہ صاحب نے حضرت سائیں توکل شاہ انبالوی(24) سے بھی استفادہ کیا اورسلسلہ نقشبندیہ توکلیہ (25)میں خلافت حاصل کی ، میاں صاحب حضرت مولانا سید نثارعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد آپ نے شیخ المشائخ، شبیہِ غوثِ اعظم پیرسیدشاہ علی حسین اشرفی جیلانی رحمۃ اللہ علیہ(26) کی جانب رجوع کیا اور اُن سے 18ذیقعدہ 1341ھ کو سلسلہ چشتیہ نظامیہ اشرفیہ (27)اور سلسلہ قادریہ جلالیہ اشرفیہ(28)کی خلافت واجازت سے مشرف ہوئے (29) آپ کو شہزادۂ اعلیٰ حضرت، حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ (30) سے بھی استفادے کاموقع ملا اوراُن سے سلسلہ قادریہ رضویہ حامدیہ(31) کی خلافت اور اجازت حاصل ہوئی۔ صاحبزادہ سیدشبیرحسین اخترزیدی نے آپ کے روحانی سلسلوں کو اپنے شعرمیں یوں منظوم کیاہے:

مبارک ہے کہ چشتی قادری تھے سلسلے جس کے

مبارک ہے حقیقت معرفت کے جس میں تھے جوہر(32)

روحانی مقام ومرتبہ

مولانا سیدمبارک علی شاہ صاحب علم وعمل کے پیکر،ولی کامل، مرجع عوام،صاحب مراتب ، صاحب مسند اور کثیر اوصاف حمیدہ کے جامع بزرگ تھے ، الورمیں آپ کا مرتبہ ٔ روحانیت قابل ذکرشمارہوتاہے ،شارح بخاری ،شیخ الحدیث حضرت علامہ محمود احمد رضویرحمۃ اللہ علیہ (33) تحریر فرماتے ہیں :حضرت مولانا سید مبارک علی شاہ صاحب الوری جو اپنے وقت کے باکمال بزرگ تھے،نہایت عابدوزاہد،متقی و پرہیزگار اور صاحب کرامت شخصیت تھے ،رات دن عبادت وریاضت میں گزار دیتے۔ ریاست ِالورمیں آپ کے دولت کدہ پر مشائخ وفقراء اورمجازیب کا ہجوم رہتا تھا، دور دورسے حاجت مندآتے اور اپنی مشکلات کا روحانی علاج کراتےتھے ،حضرت سیدمبارک علی شاہ صاحب علیہ الرحمہ بھی حضرت سید شاہ نثارعلی صاحب علیہ الرحمہ کے مرید وخلیفہ تھے۔آپ ریاست الورمیں اپنے پیرومرشدکا سالانہ عرس بڑی دھوم دھام سے منعقد کرواتے تھے،جس میں علما و مشائخ اورفقراءوصوفیاتشریف لاتے تھے ۔ (34)

پاکستان میں ہجرت

قیام پاکستان کے لیے الورکے مسلمانوں نے بھرپورکرداراداکیا اور تحریک پاکستان میں حصہ لیا،جب پاکستان بن گیا توحالات کے نا گفتہ بہ ہونے کی وجہ سے مولانا سیدمبارک علی شاہ صاحب نے پاکستان کے شہرلاہور(35) ہجرت کرنے کافیصلہ کیا کیونکہ لاہورمیں آپ کی ہمشیرہ رہتی تھی ،جن کی شادی امام المحدثین علامہ مفتی سیددیدارعلی شاہ الوری رحمۃاللہ علیہ (36) سے ہوئی تھی ،(37) نیزآپ کے بیٹے شیخ التصوف حضرت مولانا سید محمدعلی حسنی رضوی صاحب جامعہ حزب الاحناف لاہور(38) سے فارغ التحصیل ہوئے تھے اورلاہورشہرسے زمانہ طالب علمی سے واقف تھے۔ کچھ عرصہ آپ نے دارالعلوم حزب الاحناف اندرون دہلی گیٹ لاہورمیں قیام فرمایا ،پھر الور کے راجپوتوں نے (جو الور سے حیدرآباد ہجرت کرکے آئے تھےاورآپ کے مریدتھے ) آپ کو حیدرآبادآنے کی دعوت دی چنانچہ آپ حیدرآبادمنتقل ہوگئے۔ (39)

حیدرآباد میں خدمات

حیدرآبادمیں آپ کے مریدین نے آپ کو ہیرہ آباد،شاہی بازاراوردیگرمقامات پر ٹھہرنے کی پیشکش کی مگرآپ نے جامع مسجدنورکے قریب بلدیہ سے ایک پلاٹ خرید کر مکان تعمیرکرکے اس میں رہائش اختیارکی ،نور مسجدچھوٹی تھی ، اس کی توسیع فرمائی اور مسجد میں امامت اختیارکی اورسلسلہ مبارکیہ کی ترویج کی بھی کوشش جاری رکھی، آپ سے حیدرآبادکے ہزاروں لوگوں نے استفادہ کیا اوربھرپورمستفیض ہوئے ۔ (40)

شریعت کی پابندی

عوام ہوں یا خواص سب پر شریعت کی پابندی ضروری ہے ،حضرت مولانا سید مبارک شاہ صاحب نہ صرف خود پابندِقرآن وحدیث اورمتبع سنت تھےبلکہ اپنے مریدوں اوردیگرلوگوں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے ،آپ کو نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے میں کسی کی پروا ہ نہیں ہوتی تھی ،یہی وجہ ہے کہ جو آپ کی صحبت میں آتاپابندِصوم و صلوۃ اورشریعت مطہرہ کےمطابق زندگی گزارنے والابن جاتاتھا ،آپ کی پوری زندگی سنت مصطفی کی تصویرتھی،آپ نے اپنے دونوں بیٹوں شیخ التصوف حضرت مولانا سیدمحمدعلی حسنی رضوی اورمولانا سیدانوارعلی حسنی رضوی رحمۃ اللہ علیہماکی ایسی تربیت کی کہ یہ دونوں بھی علم وعمل کے پیکراورسنتوں کے پابندتھے ۔(41)

شادی و اولاد

حضرت مولانا سیدمبارک علی شاہ رضوی صاحب کا نکاح اپنے پیرومرشد حضرت مولانا سید نثارعلی رضوی مشہدی رحمۃاللہ علیہ کی بھتیجی سے ہوا ۔(42) آپ کی زوجہ سیّدہ محترمہ صوم و صلوۃ کی پابنداورعلم وعمل کی پیکرتھیں۔ آپ کے دوصاحبزادے ہیں :

شیخ التصوف علامہ سیدمحمدعلی رضوی

بڑے بیٹے مجاہدتحریک عقیدہ ٔختم نبوت حضرت مولانا سید محمد علی حسنی رضوی الوری(43)تھےجن کی شادی کاظمی خاندان میں ہوئی ،ان کے سسرقاضی سید محفوظ علی کاظمی اجمیری صاحب تھے، ان کےدوصاحبزادے٭صاحبزادہ سید برکات احمدحسنی رضوی ٭صاحبزادہ سیدحسنات احمدحسنی رضوی اورتین صاحبزادیاں ہیں ۔

مولانا صوفی سیدانوارعلی رضوی

چھوٹے بیٹے حضرت مولانا صوفی سید انوار علی حسنی رضوی ہیں (44) جن کی شادی قیام پاکستان کے بعد مغل خاندان کے مرزا مقیم بیگ صاحب کی صاحبزادی سے ہوئی ،آپ کی آٹھ صاحبزادیاں اور تین صاحبزادے ہیں ،صاحبزادوں کے نام یہ ہیں :٭صاحبزادہ حضرت مولانا پیر سید اشرف علی حسنی رضوی٭صاحبزادہ سیدافسرعلی حسنی رضوی ٭صاحبزادہ مولانا سید نجف علی حسنی رضوی ۔ (45)

صاحبزادیاں

حضرت مولانا سید مبارک علی شاہ حسنی رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی تین صاحبزادیاں ہیں : ٭زوجہ حضرت قبلہ سائیں سید احمد علی شاہ کمبل پوش چشتی نظامی(46)، ٭زوجہ مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی شاہ ابو البرکات سید احمد رضوی(47)، ٭زوجہ قاضی اشتیاق حسین (سابق فارسٹ آفیسر پنجاب)اللہ پاک اس سادات گھرانے کو سلامت رکھے اور دنیا و آخرت سے مالامال فرمائے۔ (48)

مشائخ سے رابطہ

آپ حسن اخلاق کے پیکر،دل جوئی اورمہمان نوازی کرنے والے اور ہردلعزیز شخصیت کے مالک تھے ،آپ کا ہم عصرعلماومشائخ سے نہ صرف رابطہ تھا بلکہ دلی وابستگی بھی تھی، ان میں سے حضرت قاری حافظ پیر سید عابد علی شاہ صاحب(49)، حضرت پیر سید واحد علی شاہ صاحب(50) حضرت پیرطریقت میاں عبدالقادر تولیڑے والے(51)، حضرت پیر میاں سید نذیر احمدشاہ دیسولے والے(52) حضرت پیر ننھا میاں قادری (53) حضرت پیر سید احمد مدنی شاہ(54) حضرت مولانا عبدالرحیم ڈکاری شاہ اور حضرت خواجہ اخونددوسی پشاوری(55) وغیرہ شامل ہیں ،یہ حضرت نمازجمعہ جامع مسجد الور (56) میں ادافرماتے اور عصرتک ان حضرات کی مجلس جاری رہتی، حضرت پیر عیدوپھول شاہ صاحب دوھے والے(57) الورتشریف لاتے اورحضرت حافظ سیدعبدالحکیم شاہ صاحب (58) کے ہاں قیام فرماتے ، یہ آپ سےضرورملاقات کیا کرتے تھے ۔(59)

وفات ومدفن

مولانا سیدمبارک علی شاہ حسنی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی وفات کی خبرپہلے دے دی تھی، علالت کے دوران حضرت مولانا عبدالشکورصادق چشتی نظامی(60) کوحکم صادرفرمایا کہ میرے دونوں بیٹوں کی خلافت واجازت نامہ تحریرفرمائیں ،چنانچہ ایساہی کیا گیا ،آپ نے ان پر دستخط فرماکردونوں بیٹوں کواجازت نامے عطافرمائے۔(61) آپ کا وصال حیدرآباد سندھ میں 23ذوالحجہ 1373ھ مطابق 3ستمبر1953ءکو ہوا،تدفین حیدرآباد کے قدیمی ٹنڈویوسف قبرستان میں کی گئی،(62) الورکے مشہورشاعرصاحبزادہ سید شبیر حسین اختر زیدی نےیہ قطعہ لکھا :

بست وذی الحجہ درآدینہ شب رحلت نمود اس مسافرازسرائے ہستی ناپائیدار

سہ ستمبربودوسالش خواں ’’براے مغفرت‘‘1953ء

مزارکی تعمیر

1954ء میں آپ کی قبرکو پختہ کیا گیا ،1972ء میں آپ کے صاحبزادے مولانا سیدمحمدعلی صاحب نے مزارشریف پر چھت ڈالنے کی سعادت پائی ،1993ء میں مزارشریف کے چاروں جانب چاردیواری تعمیرکی گئی ،1996ء میں آپ کے پوتے اشرف ملت حضرت مولانا صاحبزادہ سیداشرف علی شاہ صاحب نے چاردیواری کی ازسرنوتعمیرکی اورگنبدبنایا، مزیدتزئین وآرائش آپ کے پوتے صاحبزادہ سیدبرکات احمدرضوی نے کروائی ،اس آستانے کے موجودہ سجادہ نشین حضرت صاحبزادہ پیر سید اشرف علی حسنی رضوی قادری مدظلہ العالی(63) ہیں،جوعلم دین سےمالامال، سنتوں کے پابند اور ذکر و فکر میں مشغول رہنے والے انسان ہیں۔(64)

عرس کی تقریبات

حضرت خواجہ سیدمبارک علی شاہ صاحب کے مزارپرانواراور جامع مسجدنورپنجرہ پور حیدرآبادمیں ہرسال دھوم دھام سے عرس ہوتاہے ،راقم کے سامنے 68ویں دو روزہ عرس کا اشتہارہے ،جس سے معلوم ہوتاہے کہ 22،23ذوالحجہ1442ھ مطابق 2،3 اگست 2021ء کو حیدرآبادمیں منعقدکیا گیا ،جو قرآن خوانی،نعت خوانی، تقاریر علمائے اہل سنت اورچادرپوشی وغیرہ کی تقریبات پرمشتمل ہیں ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

حواشی ،ماخذومراجع

(1) الورہند کے صوبے راجستھان کا ایک شہرہے جو تقریبا 75سال پہلے ریاست الورکا دارالحکومت تھا ، یہ دہلی اور جےپور کے درمیان واقع ہے دونوں جانب برابربرابر(یعنی 150کلومیڑ) فاصلہ ہے ،الورشہرمیں کئی اولیائے کرام کا مسکن ہے مثلامحدث الورسید مبارک شاہ،حضرت غالب شہید،حضرت مخدوم شاہ کمال چشتی، سلسلہ رسول شاہی کے بزرگ وغیرہ ۔(حیات کرم حسین ،23)

(2) حیدرآباد، پاکستان کے صوبہ ٔ سند ھ کا اہم شہرہے ،1935ء سے پہلے یہ سندھ کا دارالحکومت تھا،حیدرآباد صنعت اور تجارت کے لحاظ سے پاکستان کے اہم شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں کی اہم صنعتوں میں چوڑی، چمڑا، کپڑا اور دیگر صنعتیں شامل ہیں،اس میں دعوت اسلامی کاعالی شان مدنی مرکز فیضان مدینہ آفندی ٹاؤن میں واقع ہے ،جس کو دنیائے دعوت اسلامی میں پہلافیضان مدینہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔

(3) نورِچشمِ رسول، جگر گوشۂ بتول، حضرت امام ابو محمد حسن بن علی مُجتبٰی رضی اللہ عنہ کی ولادت 15رمضان 3ہجری کو مدینہ منور ہ میں ہوئی اوریہیں 5ربیعُ الاوّل 49یا50ھ کو بذریعہ زہرخوانی شہادت پائی ،مزارپرانوارجنت البقیع میں ہے، آپ حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجھہ الکریم کےبڑے بیٹے،حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے شہزادے، نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مشابےاورجنت کے نوجوانوں کے سردار تھے ،شجاعت،سیادت(سرداری)،سخاوت، تقویٰ وعبادت کے خوگرتھے، آپ کی شان میں کئی فرامین مصطفیٰ ہیں جن میں سے یہ بھی ہے: یہ میرا بیٹا سردار ہے یقیناً، اللہ پاک اس کی وجہ سے مسلمانوں کےدوگروہوں میں صلح کرائےگا۔ ( الاصابہ، 2 /60،صفۃ الصفوة، 1/386)

(4) اشتہارعرس ،اگست 2021ء ۔

(5) مشہد ایران کے شہروں میں سے ایک اہم شہر ہے ،آبادی کے لحاظ سے ایران کا دوسرا بڑا شہرہے۔ اس شہر میں امام علی رضارحمۃ اللہ علیہ مدفون ہیں، سالانہ کروڑوں لوگ آپ کے مزارپر حاضری کے لئے آتے ہیں۔

(6) بلگرام ہند کی ریاست اترپردیش کے ضلع ہردوائی کا ایک اہم شہر ہے۔

(7) فیض آباد ہندکے صوبے اترپردیش کا اہم شہرہے یہ دریائے گھاگھراکے کنارے واقع ہے ،یہ 1722ء تا 1775ء تک نوابی ریاست اودھ کا دارالحکومت رہا اورخوب ترقی کی ،اس کےبعد لکھنؤ(یوپی ہند)کو ریاست کا دارالحکومت بنادیا گیا ۔

(8) روشن تحریریں ،48،49وغیرہ۔

(9) مرجع الور،ص146،حیات کرم حسین ،ص130،تذکرۂ مبارک ،ص16،17،حیات کرم حسین میں آپ کا تخلص شیدالکھا ہے ۔

(10) اکبری دورکے عظیم محدث داداجی میاں صاحب،شاہِ ولایت الور حضرت علامہ سیدمبارک شاہ محدث الوری رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ایک سادات گھرانے میں 897ھ مطابق1491ء میں ہوئی اوروصال 22محرم 987ھ مطابق 21مارچ 1579ءکو نوے سال کی عمرمیں الورمیں فرمایا۔آپ کو شہرسے باہرایک پرسکون مقام میں دفن کیا گیا، بعدمیں جہانگیر بادشاہ نے آپ کا عالیشان مزار تعمیرکروایا تھا، آپ بہترین عالم دین ،محدث وفقیہ ،صاحب کرامت ولی اللہ اورکثیرالفیض تھے اس لیے لوگوں کا آپ کی طرف بہت رجوع تھا۔ آپ صاحب کمال بزرگ تھے، آپ کی ذات میں سخاوت اورایثارپسندی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، مخلوق خدا پر بے دریغ مال خرچ کیا کرتے تھے،حاجت مندوں کی مدد کرتے، امرا بھی خالی ہاتھ نہ جاتے۔ (سیدی ابوالبرکات،118، نزھۃ الخواطر، 4/251، روشن تحریریں ، 130، مستفاد، منتخب التواریخ، ص 623) آپ کے تفصیلی حالات پڑھنے کے لیے راقم کا مقالہ ’’تذکرۂ محدث الور‘‘کا مطالعہ کیجئے۔

(11) صاحبزادہ سیدشبیرحسین اختر زیدی الورکے مشہورشاعرتھے اوراخترانکاتخلص تھا یہ الورکےعالم شہیراستاذالعلماء مولانا سیّد ضامن علی زیدی صاحب کے صاحبزادے ہیں۔ سندھ کےمعروف شاعرمقبول الوری (وفات: 27فروری 1989ء) ان اختر الوری صاحب کے بیٹے ہیں ۔(حیات کرم حسین،ص130،روشن تحریریں ،ص50)

(12) روشن تحریریں،ص50،تذکرہ مبارک ص 16۔

(13) تجارہ (Tijara،তিজারা)الورشہرسے شمال مشرق55کلومیڑواقع ایک قدیم قصبہ ہے، یہ ریاست الورکا حصہ تھا، 1826ء میں راجۂ ریاست الور بختاورسنگھ کے بعد یہ ریاست اس کے دوبیٹوں میں تقسیم ہوگئی ،راجہ بنے سنگھ ریاست الوراورراجہ بلونت سنگھ ریاست تجارہ کے حکمران طے پائے،بلونت سنگھ نے 1845ء تک تقریباً 20سال تجارہ،کشن گڑھ،کرنی کوٹ،منڈاورپر حکومت کی اور1845ءکو لاولداس دنیا سے گیا ، تجارہ پھر الورمیں شامل ہوگیا ،راؤ راجہ بنے سنگھ الوروتجارہ کا حکمران بن گیا۔تجارہ میں کئی اولیائے کرام کے مزارات ہیں ،حضرت شاہ غازی گدن شاہ ولایت مداری(وفات1009ھ مطابق 1600ء)،حضرت رکن عالم شہید (421ھ مطابق 1030ء)، حضرت میراں جی شاہ جیون ابوالعلائی (26رجب 1167ھ مطابق1753ء)،حضرت شاہ بلم نور،حضرت مرزا احمد شاہ قادری (خلیفہ حضرت حمزہ مارہروی )،حضرت شاہ ابوالغیث ابوالعلائی (1241ھ مطابق1825ء) وغیرہ(حیات کرم حسین، ص23،22،67،68 ،126)

(14) ٹپوکڑہ(Tapukra،टपूकड़ा) تجارہ سے جانب شمال 21کلومیٹراوردہلی سے جانب جنوب ساڑھے 87کلومیٹرواقع ہے۔

(15) تذکرہ مبارک،ص17،20۔

(16) روشن تحریریں ،ص48،49۔

(17) حالات معلوم نہ ہوسکے۔

(18) حضرت مولانامفتی سیدزین العابدین الوری امام المحدثین مفتی سیددیدارعلی شاہ صاحب کے شاگرد،مدرسہ قوت الاسلام الورکے مدرس اورمفتی اعظم پاکستان مفتی شاہ ابوالبرکات سیداحمدقادری الوری کے بھی استاذہیں ۔( تذکرہ علماء اہل سنت وجماعت لاہور،ص319،تذکرہ اکابراہل سنت،ص142،تذکرہ مبارک،ص17)

(19) حضرت میاں صاحب مولانا سید نثارعلی شاہ مشہدی قادری چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت غالبا1245ھ مطابق 1830ء کو الورکے سادات گھرانے میں ہوئی اور یہیں 6شوال 1328ھ مطابق 11،اکتوبر 1910ء کو وصال فرمایا،آپ درسِ نظامی کے فاضل ،جیدعالم دین ، سلسلہ قادریہ راجشاہیہ اورسلسلہ چشتیہ صابریہ کے شیخ طریقت تھے ، یہ الورکی ہردل عزیزشخصیت اورمرجع خاص وعام تھے ، مشہور سنی عالم دین امام المحدثین مفتی سیددیدارعلی شاہ الوری ان کے بھتیجے اور خلیفہ ہیں ۔ ( سیدی ابوالبرکات ،ص117،روشن تحریریں ،ص139 )حضرت میاں صاحب الوری رحمۃ اللہ علیہ کے تفصیلی حالات اورآپ کے سلسلہ قادریہ وسلسلہ چشتیہ صابریہ کے بزرگوں کے مختصر حالات پڑھنے کے لیے راقم کا مقالہ ’’تذکرہ ٔ حضرت میاں صاحب الوری‘‘کا مطالعہ کیجئے ۔

(20) سلسلہ قادریہ راجشاہیہ میں شجرہ طریقت اس طرح ہے : میاں صاحب حضرت مولانا پیرسید نثارعلی رضوی قادری راجشاہی ، شیخ کمال میاں غازی الدین شاہ قادری راجشاہی، فردوِقت حضرت میاں راج شاہ قادری،قطب عالم حکیم محمد اسماعیل مہمی قادری شہید، خواجہ مجاہد حضرت شاہ غلام جیلانی صدیقی قادری، جامع شریعت وطریقت حضرت شاہ بدرالدین اوحدقادری، ناصرالملت والدین حضرت مولانا شاہ محمدفاخرالہ آبادی قادری، حضرت شاہ خوب اللہ یحیی الہ آبادی قادری، تاج العارفین شیخ محمدافضل الہ آبادی قادری،سیّدالاولیاء حضرت سید محمد ترمذی کالپوی قادری، اس کے آگے شجرہ ٔ قادریہ پاک وہند میں معروف ہے۔ (ملت راج شاہی، 370تا372) مزیدتفصیل راقم کے مقالے ’’تذکرہ میاں صاحب الوری‘‘ میں دیکھئے۔

(21) سلسلہ چشتیہ صابریہ میں شجرہ طریقت یہ ہے: میاں صاحب حضرت مولانا پیرسید نثار علی رضوی قادری چشتی، حضرت خواجہ غلام رسول لکھنؤی، حضرت خواجہ خدا بخش لکھنؤی، حضرت مولاناخواجہ شاہ عبدالرحمن موحد لکھنؤی، حضرت خواجہ شاہ نورالہدی منگلوری،حضرت خواجہ مفتی محمد سلیم الدین منگلوری، حضرت خواجہ محمد یوسف سامانہی،حضرت خواجہ محمدابراہیم مرادآبادی،حضرت خواجہ محمد صادق گنگوہی، حضرت خواجہ ابوسعید گنگوہی، اس کے آگے شجرہ ٔ چشتیہ صابریہ پاک و ہند میں معروف ہے۔ (شجرہ قادریہ نثاریہ مبارکیہ رضویہ اشرفیہ، ص3تا5) مزید تفصیل راقم کے مقالے ’’تذکرہ میاں صاحب الوری‘‘میں دیکھئے۔شجرہ قادریہ نثاریہ 21صفحات پر مشتمل رسالہ ہے اس کے ناشرصاحبزادہ پیرسیدنجف علی شاہ حسنی صاحب ہیں جنہوں نے اسےحضرت مولانا صاحبزادہ پیرسید اشرف علی شاہ حسنی صاحب کے حکم سے بخاری پرنٹنگ پریس حیدرآبادسندھ سے شائع کروایا ہے، سن اشاعت معلوم نہ ہوسکا،یہ رسالہ مبلغ دعوت اسلامی حاجی محمدسہیل عطاری صاحب نے مجھے بھیجا اس پر راقم ان کا اورحضرت مولاناصاحبزادہ پیر سید اشرف علی شاہ حسنی صاحب کا شکرگزارہے ۔

(22) روشن تحریریں ، ص49۔

(23) تذکرہ مبارک،ص18۔

(24) حضرت خواجہ سائیں توکل شاہ انبالوی کی ولادت 1255ھ مطابق 1840ء موضع پکھو کی (ضلع گورد اسپور،مشرقی پنجاب )میں ہوئی اور4ربیع الاول 1315ھ مطابق 3اگست1897ء کو انبالہ (مشرقی پنجاب )میں وفات پائی،آپ مادر زاد ولی ، سلسلہ نقشبندیہ کے معروف بزرگ ،امی ہونے کے باوجودعلم لدنی اورمعرفت کے خزینے تھے۔ (ذکرخیرصحیفہ محبوب،ص17،174،243)

(25) سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ توکلیہ میں شجرہ طریقت یہ ہے : حضرت سائیں توکل شاہ انبالوی، خواجہ قادربخش جہاں خیلاں ہوشیارپوری ،حافظ حاجی محمود آرزو جالندھری، مولانا شاہ محمدشریف قندھاری ،حضرت شاہ ابوسعیدمجددی دہلوی، حضرت شاہ غلام علی دہلوی، اس کے آگے شجرہ ٔ نقشبندیہ مجددیہ پاک وہند میں معروف ہے ۔ (لمعات کمالات قادریہ وتبرکات خالقیہ، ص 110تا123)

(26) شیخ المشائخ مخدوم الاولیا ،شبیہ غوث اعظم حضرت شاہ سیدعلی حسین اشرفی رحمۃ اللہ علیہ عالِمِ دین، شیخِ طریقت، مَرْجَعِ عُلَما اور اَکابِرِینِ اَہلِ سنّت سے تھے۔ 1266ھ کَچھوچَھہ شریف میں پیدا ہوئے اور 11 رجب 1335ھ میں وِصال فرمایا۔ مزار شریف کچھوچھہ شریف میں ہے۔(تذکرہ علمائے اَہْلِ سنّت، 188تا190)

(27) سلسلہ چشتیہ نظامیہ اشرفیہ میں شجرہ طریقت یہ ہے :حضرت شاہ سیدعلی حسین اشرفی کچھوچھوی،مولانا سیداشرف حسین شاہ ،حضرت سیدنیاز اشرف شاہ، حضرت سید داؤدعلی شاہ،حضرت سیدتوکل علی شاہ،حضرت سیدبہاؤالدین شاہ، حضرت سید محمدمرادشاہ،حضرت سیدفتح اللہ شاہ،حضرت سیداحمدشاہ،حضرت سید شاہ راجو، حضرت سید محمود شمس الحق والدین،حضرت سیدحاجی چراغ جہاں، حضرت سید جعفر شاہ لاڈ،حضرت سیدحسین قتال، حضرت سید عبدالرزاق نورالعین، مخدوم سلطان سیداشرف جہانگیرسمنانی،حضرت خواجہ شیخ علاء الدین بنگالی، حضرت خواجہ عثمان اخی سراج الحق بنگالی ۔(سوانح حیات خاندان رضویہ برکاتیہ مع شجرہ عالیہ قادریہ اشرفیہ برکاتیہ،35،36)

(28) سلسلہ قادریہ جلالیہ اشرفیہ میں شجرہ طریقت یہ ہے :حضرت شاہ سیدعلی حسین اشرفی کچھوچھوی،مولانا سید اشرف حسین شاہ، حضرت سیدمنصب علی شاہ، حضرت سید قلندربخش شاہ،حضرت سیدصفت اللہ اشرف، حضرت سیدنواز اشرف، حضرت سید نذر اشرف ،حضرت سیدعنایت اللہ،حضرت سیدہدایت اللہ، حضرت سید نوراللہ، حضرت سیدعبدالرسول ،حضرت سیدحسین،حضرت سیدمحمد، حضرت سید اشرف شاہ شہید، حضرت سید محمد حسن، حضرت سید عبدالرزاق نورالعین، مخدوم سلطان سید اشرف جہانگیرسمنانی،حضرت سیدمخدوم جلال الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت۔ (سوانح حیات خاندان رضویہ برکاتیہ مع شجرہ عالیہ قادریہ اشرفیہ برکاتیہ، 37،38)

(29) مخدوم الاولیا محبوب ربانی ،309۔

(30) شہزادۂ اعلیٰ حضرت،حُجّۃُ الاسلام مفتی حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ عالم ِدین،ظاہری و باطنی حسن سےمالامال اور جانشینِ اعلیٰ حضرت تھے ۔بریلی شریف میں ربیعُ الاول 1292ھ میں پیداہوئے اور17جمادی الاولیٰ 1362ھ میں وصال فرمایا اور مزار شریف خانقاہِ رضویہ بریلی شریف ہند میں ہے، تصانیف میں فتاویٰ حامدیہ مشہور ہے۔ (فتاویٰ حامدیہ،ص48،79)

(31) سلسلہ قادریہ رضویہ میں شجرہ طریقت یہ ہے : حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان ، اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان ، حضرت شاہ آل رسول مارہروی ، حضرت شاہ آل احمداچھے میاں ، حضرت شاہ حمزہ مارہروی، حضرت شاہ آل محمدمارہروی، حضرت شاہ برکت اللہ مارہروی، حضرت سیدفضل اللہ شاہ کالپوی، حضرت شاہ احمدکالپوی ، حضرت شاہ محمد کالپوری ۔ (شجرات قادریہ نثاریہ مبارکیہ رضویہ اشرفیہ ،12،13) یہ اوراس سے آگے شجرہ ٔ قادریہ پاک وہند میں معروف ہے ۔

(32) روشن تحریریں ،50۔

(33) شارح بخاری،شیخ الحدیث حضرت محموداحمدرضوی صاحب بن مفتی اعظم پاکستان حضرت علامہ مفتی شاہ ابوالبرکات سیداحمدرضوی 1343ھ مطابق 1924ء کو آگرہ (ہند) میں پیدا ہوئے،آپ جیدعالم دین ،محقق مقرر، مفتی اسلام، بہترین مدرس درس نظامی ، مصنف کتب کثیرہ اورملکی مسائل پر گہری نظر رکھنے والے تھے، کچھ عرصہ رویتِ ہلال کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے، 4رجب المرجب 1420 ھ مطابق 14 اکتوبر 1999ء کو لاہور میں وفات پائی،دارالعلوم حزب الاحناف لاہورمیں دفن کئے گئے۔ ( تذکرہ اکابرِ اہل سنّت، ص 140 ، تذکرہ علما اہل سنت و جماعت لاہور، ص 372 )

(34) سیدی ابوالبرکات ،118،119۔

(35) لاہورایک قدیم وتاریخی شہرہےمغلیہ عہدمیں لاہورکے اردگردفصیل اورتیرہ دروازے بنائےگئے ،372ھ کویہ ملتان سلطنت کا حصہ تھا،اب یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا دار الحکومت اور پاکستان کادوسرا بڑا شہر ہے۔یہ پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکزہے،اسےپاکستان کا دل اور باغوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی تقریباایک کروڑ 11لاکھ ہے۔

(36) امامُ الْمُحدِّثین حضرت مولانا سیِّد محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ ، جَیِّد عالِم، اُستاذُالعُلَما، مفتیِ اسلام تھے۔ آپ اکابرین اہل سنّت سے تھے۔ 1273ھ مطابق 1856ھ کو اَلْوَر (راجِسْتھان) ہِند میں پیدا ہوئے اور لاہور میں 22رجب 1345ھ مطابق 26جنوری 1927ءمیں وِصال فرمایا۔ دارُالعُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف اور فتاویٰ دِیداریہ آپ کی یادگار ہیں۔ آپ کا مزار مُبارَک اَندرونِ دہلی گیٹ محمدی محلّہ لاہور میں ہے۔ (فتاویٰ دیداریہ، ص2)

(37) ماخوذازسیدی ابوالبرکات ،118۔

(38) دار العلوم حزبُ الاحناف لاہوراہل سنت کی ایک مرکزی دینی درس گاہ ہے جو داتا گنج بخش روڈ پر واقع ہے۔ جس میں سے بڑے جلیل القدر علما فارغ التحصیل ہوئے،اس کے بانی امام المحدثین حضرت علامہ مفتی سیدمحمددیدارعلی شاہ الوری ہیں جنہوں نے جامع مسجدوزیرخان (اندرونی دہلی گیٹ لاہور)میں 1322ھ مطابق 1924ء کواس کا آغاز فرمایا، 1345ھ مطابق 1926ء کو باقاعدہ اس کی عمارت جامع مسجدحنفیہ (مفتی سیددیدارعلی شاہ)محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ سے متصل بنائی گئی ،پھراسے گنج بخش روڈ پر وسیع وعریض عمارت میں منتقل کردیا گیا ۔

(39) روشن تحریریں،56،12۔

(40) تذکرہ مبارک،22۔

(41) تذکرہ مبارک ،22،23۔

(42) صاحبزادہ حضرت مولانا پیرسیدمحمداشرف حسنی رضوی صاحب کی جانب سے ایک تحریرمیں یہ بات ہے جس کا عکس راقم کے پاس موجودہے ۔

(43) مجاہدتحریک عقیدہ ختم نبوت حضرت مولانا سید محمد علی حسنی رضوی الوری کی پیدائش 1332ھ مطابق 1914ء کو الورمیں ہوئی، شعبان المعظم 1356ھ مطابق اکتوبر1937ء کو دارالعلوم حزب الاحناف سےفارغ التحصیل ہوئے، 1947ء تک دہلی کینٹ کی مسجدکے خطیب رہے ،جزوی طورپر تدریس بھی کی ،قیام پاکستان کے بعد لاہور آکر ہربنس پورکی مسجدمیں امامت وخطابت کی، اس کے بعدحیدرآبادآگئے ،یہاں آکر محلہ پنجرہ پول میں نورمسجداورمدرسہ برکات اسلام کی بنیاد رکھی ،اسکول میں ہیڈ ماسٹرکے فرائض بھی اداکرتے رہے ،1970ء میں قومی اسمبلی کے ممبربنائے گئے ،ختم نبوت بل پاس کرانے میں آپ کا بھی اہم کردار رہا، 1990ء میں مدرسہ احسن البرکات حیدرآباد(بالمقابل ہوم اسٹیڈ ہال) میں شیخ التصوف مقررہوئے ،دس سال اس منصب پرفائزرہے، آپ حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب کے مریدوخلیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ،شیخ المشائخ حضرت شاہ علی حسین اشرفی جیلانی،والدگرامی مولانا سید مبارک علی شاہ قادری چشتی، علامہ شاہ ابوالحسنات سیدمحمداحمدقادری،علامہ شاہ ابوالبرکات سید احمد رضوی اورشہزادۂ غوث الوری حضرت سید طاہرعلاؤ الدین گیلانی سے بھی خلافت حاصل تھی، آپ نے 11جمادی الاخریٰ 1429ھ مطابق 16جون 2008ءکو حیدرآبادمیں وصال فرمایا اوردرگاہ حضرت عبدالوہاب شاہ جیلانی میں دفن ہونے کی سعادت پائی۔(روشن تحریریں ،52تا64،32،5)

(44) حضرت مولانا صوفی سیدانوارعلی شاہ الوری میاں صاحب کے خلیفہ وجانشین حضرت مولانا سید مبارک علی حسنی رضوی کے فرزند،عالم دین اورصوفی باصفا تھے، ان کی وفات30جمادی الاخریٰ1415 مطابق3دسمبر 1994ء حیدرآباد سندھ میں ہوئی ،مزار، احاطہ مزارحضرت سیدنا گل شاہ غازی میں ہے ۔

(45) روشن تحریریں،56،55۔

(46) حضرت خواجہ سیداحمدعلی جمال شاہ کمبل پوش نظامی خاندانِ محبوب الہی خواجہ نظام الدین اولیا کے چشم وچراغ اور سجادہ نشین تھے ، آپ سالک نمامجذوب صاحبِ معارف تھے، صوفی شاعرحضرت مولانا عبدالشکورنظامی کمبل پوش اکبرآبادی ثم حیدرآبادی (وفات :14ربیع الاخر 1395ھ مطابق 26،اپریل1975 ء، مدفون حیدر آباد،سندھ پاکستان) آپ کے ہی خلیفہ ہیں۔ (انوارعلمائے اہلسنت سندھ، 547)

(47) مفتیِ اعظم پاکستان، سیّدُ المحدّثین حضرت علامہ ابوالبرکات سیّد احمد قادری رَضَوی اشرفی، استاذُ العلماء، شیخ الحدیث، مناظرِ اسلام، بانی و امیر مرکزی دار ُالعُلوم حِزب ُالاحناف اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔ 1319 ہجری کو محلہ نواب پور اَلْوَر (راجستھان) ہند میں پیدا ہوئے اور لاہور میں 20شوّال 1398ہجری میں وِصال فرمایا، مزار مبارک دارُ العلوم حِزب الاحناف داتا دربار مارکیٹ لاہور میں ہے۔ (تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ، ص 318-314)

(48) تذکرہ مبارک،21،اس کے بارے میں مزیدمعلومات بذریعہ تحریرصاحبزادہ مولانا سیداشرف علی شاہ حسنی رضوی مدظلہ العالی نے عطا فرمائیں ۔

(49) امام انام حضرت خواجہ حافظ سید عابدعلی شاہ قادری چشتی الوری رحمۃ اللہ علیہ الورکے مشہوربزرگ ہیں ،آپ حضرت شاہ ولایت امروہی سہروردی کے خاندان سے تھے، حافظ صاحب کی ولادت 29رمضان 1298ھ مطابق 25،اگست 1881ءکو مرادآباد(یوپی ،ہند)میں ہوئی ،آپ نے حافظ محمد انورشاہ مرادآبادی (مریدوخلیفہ پیرجی میاں)سے حفظ قرآن کی سعادت پائی پھرحصول علم دین کے بعد پیرجی میاں احمد شاہ رامپوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات میں حاضرہوکر 3صفر1316ھ کو بیعت ہوئےاور27شعبان1322ھ کو24سال کی عمرمیں خلافت سے نوازے گئے ،پیرجی میاں صاحب کے حکم سے2رمضان 1322ھ مطابق10 نومبر 1904 ء کو الورتشریف لائے اور رشدوہدایت کا سلسلہ شروع کیا،آپ کا قیام دوسال چنبیلی باغ (بیرون دروازہ مالاکھیڑا،دامن کوہ الور)میں رہا،آپ عموماً نمازجمعہ مسجد دائرہ میں ادافرماتے تھے کیونکہ یہ مسجدآپ کے قریب تھی، نماز سے فراغت کے بعدآپ میاں صاحب مولاناسید نثار علی شاہ صاحب سے ملاقات کرتےاورباہم علم وعرفان پرمبنی گفتگوہوتی۔1323ھ مطابق 1905ء میں بحکم مرشد آپ اپنے چھوٹے بھائی حافظ سید واحدعلی شاہ الوری کو بھی یہاں لے آئے، تقریباً دوسال آپ کا قیام خواص کنہیالال جی باغیچی میں رہا، صرف 28سال کی عمرمیں آپ نے 29رمضان 1326ھ مطابق 25، اکتوبر 1908ء کو وصال فرمایا،آپ کی تدفین خانقاہ قادریہ موضع مونگسکہ نزدالورریلوے اسٹیشن میں ہوئی، جس پر عالیشان مزارکی تعمیرکی گئی ،آپ کا یوم عرس گیارہ شوال ہے۔(تجلیات مرشدالمعروف بہ سوانح امام انام حضرت سیدنا عابدعلی الوری، 20،23،24،32،88،110،109،134،تذکرہ صوفیائے میوات،571تا 578، تذکرہ کاملان رامپور، 20تا22،روشن تحریریں،137)

(50) پیرِ طریقت حضرت پیر سیّد واحد علی شاہ قادری چشتی رحمۃ اللہ علیہ 1305ھ کو خاندانِ شاہِ ولایت امروہی مرادآباد میں پیدا ہوئے ، تعلیم و تربیت “ الور “ میں ہوئی ، آپ عالمِ دین، پیرِ طریقت اور عظیم روحانی شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کا وصال 11ربیعُ الآخر 1366ھ کو کراچی میں ہوا، مزار بارگاہِ واحدیہ (سخی حسن چورنگی ،  نارتھ ناظم آباد) کراچی میں ہے۔ (اللہ والے ، کلیاتِ مناقب ، ص689)

(51) تولیڑے والے باباحضرت صوفی سید عبد القادر شاہ نقشبندی کی ولادت پیر12 ربیع الاول 1219ھ پھلور ضلع جالندھر مشرقی پنجاب انڈیا میں ہوئی،10 ربیع الاول 1381ھ مطابق 1961ء بروز منگل سہ پہر تین بجے حیدرآباد سندھ میں وصال فرماگئے، آپکا مزارمبارک ہالہ ناکہ آفتاب آباد حیدرآباد میں مرجع خلائق ہے ،آپ کو حضرت سائیں توکل شاہ انبالوی کے پیربھائی حضرت کرم بخش نقشبندی مجددی پھلواری (خلیفۂ حضرت خواجہ قادر بخش نقشبندی )سے بیعت وخلافت کی سعادت حاصل ہوئی ،آپ نے سلطان الہندحضرت خواجہ سیدحسن سنجری اجمیری کے روحانی حکم سے قصبہ تولڑہ ریاست الورمیں قیام فرمایا،1947ء میں پاکستان ہجرت کی، دوسال گوجرانوالہ میں قیام فرمایا اور1949ء میں حیدرآبادتشریف لے آئے،آپ شریعت وطریقت کے جامع تھے، کبھی نماز قضانہ ہوئی۔ کئی غیرمسلم آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے،آپ عابدوزاہد،کم سخن ، خاموش طبع،صوفی کامل تھے ۔اگرچہ آپ کی شخصیت مرجع خلائق تھی مگرآپ نے کسی کو اپنے سلسلے کی خلافت عطانہیں فرمائی۔(بزم جاناں،۲۸۴ ،روشن تحریریں ،۶۲وغیرہ)

(52) دیسولے والے پیرصاحب حضرت میاں سیدنذیراحمدشاہ نقشبندی لکھنؤ کی پیدائش قصبہ موہان ضلع اناؤ ریاست اترپردیش میں ہوئی تعلیمی مراحل لکھنؤمیں طے کئے، آپ حضرت علامہ شاہ شمس الدین احمدمیاں گنج مرادآبادی (صاحبزادے وجانشین حضرت علامہ شاہ فضل رحمن گنج مرادآبادی )کے مرید و خلیفہ تھے ،انہیں کے حکم سے قصبہ دیسولہ ریاست الورمیں قیام فرمایا ،1947ء میں لاہورپھرشیخوپورہ اور آخرمیں بہاولپورتشریف لائے اوریہیں 25ربیع الاول1388ھ مطابق 22جون 1968ء کو دوران نعت خوانی وصال فرمایا ۔غزالی زماں حضرت علامہ سیداحمد سعیدشاہ کاظی اورفیض ملت حضرت مولانا فیض احمداویسی رحمۃ اللہ علیہما نے بھی ان سے استفادہ فرمایا ،علامہ کاظمی صاحب کو غزالی زماں کا لقب بھی آپ نے عطافرمایا۔(اولیائے بہاولپور،287،288)

(53) حضرت ننھامیاں قادری راجشاہی صاحب فردوقت میاں راج شاہ قادری صاحب کے نواسے تھے۔( روشن تحریریں ،140)

(54) خواجہ سیداحمدمدنی الوری صاحب سادات کے عظیم خانوادے سے تعلق رکھتے تھے، آپ علاقہ میں معروف ومشہورصاحب نسبت اورخدارسیدہ بزرگ تھے اور ہمہ وقت جذب ومستی میں رہا کرتے تھے ، ان کے والد حضرت مولانا سید نورمحمد مدنی شاہ نقشبندی شیخ المشائخ علامہ فضل رحمن گنج مرادآبادی کے خلیفہ اورالورکی ہردلعزیز شخصیت کے مالک تھے ،ان کا وصال 28رجب 1316ھ مطابق 12دسمبر1898 ء کو ہوا،آپ کو ہسپتال سے متصل ریلوے روڈپر دفن کیا گیا اور بعد میں خوبصورت مزارتعمیرکیاگیا، مولانامفتی شاہ عبدالرحیم منڈاوری الوری صاحب (تلمیذامام المحدثین مفتی سیددیدارعلی شاہ ) ان کے سجادہ نشین مقررہوئے جبکہ مولانا محبوب لعل شاہ سید نورمحمد مدنی شاہ صاحب کے خلیفہ تھے،مدنی شاہ صاحب کے ایک اورخلیفہ سیداعجازحسین شاہ نے آپ کی تعلیمات،ملفوظات اور حالات پر مشتمل رسائل بنام مجموعہ رسائل رحمانی مطبع نامی کانپورمحمدرحمت اللہ سے 1320ھ مطابق 1903ء میں شائع کروائے۔(حیات کرم حسین ،166،312، بزم جاناں،280)

(55) حضرت عبدالرحیم ڈکاری شاہ اورحضرت خواجہ اخونددوسی پشاوری رحمۃ اللہ علیہما کے حالات سے آگاہی نہ ہوسکی ۔

(56) جامع مسجدالورکو الورکے بادشاہ ترسون محمدخان میواتی نے 969ھ مطابق 1562ء میں تعمیرکروایا۔(مرقع الور،50(

(57) حضرت عیدوپھول شاہ صاحب دوھے والے،اللہ پاک کی یادمیں مست اورمخلوق کی رہبری میں مصروف رہنے والی شخصیت تھے ۔(بزم جانان،۲۸۶)

(58) حضرت حافظ سیدعبدالحکیم شاہ صاحب کےحالات معلوم نہ ہوسکے۔

(59) تذکرہ مبارک ،13،19۔

(60) حضرت مولانا عبدالشکورصادق چشتی نظامی کمبل پوش کی ولادت 27رجب 1311ھ مطابق1894ء کو آگرہ (یوپی، ہند)میں ہوئی، 26اپریل 1975ء کو حیدرآبادمیں وصال فرمایا،آپ حضرت سیداحمدعلی جمال شاہ نظامی کمبل پوش کے مریدوخلیفہ اوراسلامی شاعرتھے ،دیوان ذوق تصوف آپ کی یادگارہے جسے آپ کے خلیفہ صوفی محمدیعقوب نظامی کورنگی کراچی نے شائع کروایاہے ۔(انوارعلمائے اہل سنت سندھ،547تا551)

(61) تذکرہ مبارک،24،23۔

(62) تذکرہ مبارک ،13۔

(63) اشرف ملت حضرت صاحبزادہ مولاناسیداشرف علی شاہ حسنی رضوی صاحب تذکرہ کے چھوٹے بیٹے مولانا سیدانوار علی شاہ الوری رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے ہیں، آپ حافظ قرآن۔ عالم باعمل ،فاضل طب وجراحت،امام وخطیب جامع مسجد نور پنجرہ پول حیدرآباد،اورنیٹل ٹیچرگورنمنٹ سندھ ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ، پرنسپل دارالعلوم برکات اسلام،سرپرست انجمن عاشقان رسول وبزم منارکیہ وحلقہ اشرفیہ حیدرآباد ہیں۔ ( بیک ٹائٹل تذکرہ مبارک)

(64) تذکرۂ مبارک،24۔


اَلْحَمْدُ للہ ہم مسلمان ہیں، اور ایک کامل مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات کا نہیں احکام الٰہیہ کا پابند ہوتا ہے، اپنی خواہشات کا نہیں بلکہ دینِ اسلام کے اصول وقوانین کا پابند ہوتاہے، ہرحال میں اپنے رب کی رضا پر راضی رہتا ہے، وہ اولاد کو اللہ پاک کی بڑی نعمت سمجھتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ بیٹے اللہ کی نعمت ہیں تو بیٹیاں اللہ کی رحمت، اللہ کریم جسے چاہے بیٹے عطا فرمائے، جسے چاہے بیٹیوں جیسی رحمت سے نوازے اور جسے چاہے بے اولاد رکھے، اس کے ہر کا م میں بے شمار حکمتیں ہوتی ہیں ، ہمیں ہرحال میں اس کی اطاعت وفرمانبرداری کرنی چاہیئے ۔

اسلام نے بیٹی کو بڑی عَظَمت بخشی ہے، اس کا وقار بُلند کیا ہے،اسے کئی شانیں دی ہیں، بیٹی اللہ کی رحمت، باپ کی ا ٓنکھوں کی ٹھنڈک، گھر کی رونق، ماں کاسکون، بھائیوں کی لاڈلی، ننھیال اور ددھیال کی شہزادی، اپنے کفالت کرنے والوں کوجہنم کی آگ سے بچانے والی، انہیں جنت دلانے والی، فرشتو ں کی طرف سے سلامتی کی دعائیں پانے کا ذریعہ، قیامت تک کے لئے اللہ کریم کی مدد حاصل کرنے کا سبب، جس کی خوشنودی بروزِ قیامت والدین کو محشر کی ہولناکیوں سے بچا کر خوشیاں دلائے گی، بیٹی پر خرچ کرنا صدقہ کرنے کی طرح ہے اور اس پر شفقت کرنے والا خوفِ خدا سے رونے والے کی مثل ہے۔

ہر مسلمان کو چاہئے کہ دینی ماحول سے وابستہ رہے تاکہ دینی معلومات ملیں،برائیوں سے بچنے کاذہن بنے ، اور زمانۂ جاہلیت کی طرح بیٹیوں کو بُرا سمجھنے،انہیں تکلیف دینے اور انہیں حقیر ومنحوس سمجھ کر قتل کردینے جیسی ظالمانہ و وحشیانہ سوچ سے بچا جاسکے،اور بیٹیوں کو اللہ کی رحمت سمجھ کر پیار و محبت سے ان کی پرورش و تربیت کرنے کا جذبہ ملے۔ اپنے مسلمان بھائیوں کی خیر خواہی کے لئے یہاں کچھ احادیث بیان کی جاتی ہیں تاکہ معلوم ہو کہ اسلام نے بیٹیوں پر کس قدر احسان فرمایا ہے اور انہیں کیسی شانیں عطا فرمائی ہیں:

محبت کرنے والیاں:

ہمارے پیارےنبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا:”بیٹیوں کو بُرا مت سمجھو، بے شک وہ محبت کرنے والیاں ہیں۔“ (مسند اِمام احمد،6/134،حدیث:17378)

جنت میں داخلہ:

حدیثِ نبوی ہے:”جس کے یہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ نہ تواسے کوئی تکلیف پہنچائے، نہ ہی اسے بُرا جانے اور نہ بیٹے کو بیٹی پر فضیلت دے تو اللہ کریم اسے جنت میں داخِل فرمائے گا۔ (مستدرک، 5/248 ، حدیث: 7428)

جہنم سے حفاظت:

حدیث پاک میں ہےکہ ”جس شخص پر بیٹیوں کی پرورش کا بوجھ آ پڑے اور وہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے تو یہ بیٹیاں اس کے لئے جہنم سے رُکاوٹ بن جائیں گی ۔“ (مسلم،ص 1414، حدیث:2629)

اللہ کی رحمت شامل حال رہے گی :

ہمارے پیارے نبی صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمنے ارشاد فرمایا:” جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ پاک فِرِشتوں کو بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں :’’ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم اَہْلَ الْبَیْتیعنی اے گھر والو! تم پر سلامَتی ہو۔‘‘ پھر فِرِشتے اُس بچّی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایک کمزور جان ہے جو ایک کمزور سے پیدا ہوئی ہے ، جو شخص اس کمزور جان کی پرورِش کی ذمّے داری لے گا، قِیامت تک اللہ کریم کی مدد اُس کے شاملِ حال رہے گی۔ (مجمع الزوائد،8 /285، حدیث: 13484)

جنت کی بشارت:

اللہ پاک کے پیارے نبیصَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم نے فرمایا:”جس کی تین بیٹیاں ہوں اوروہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے جنت واجِب ہوجاتی ہے ۔عرض کی گئی : اور دو ہوں تو؟ فرمایا : دو ہوں تب بھی ۔ عرض کی گئی : اگر ایک ہو تو ؟ فرمایا:”اگر ایک ہو توبھی ۔“ (معجم الاوسط،4/347 ،حدیث:6199)

جہنم کی آگ سے حفاظت:

ہمارے پیارے نبی صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم نے ارشاد فرمایا:”جو اپنی دو بیٹیوں یا دو بہنوں یا دو رشتے دا ر بچیوں پر ثواب کی نیّت سے خرچ کرے یہاں تک کہ اللہ پاک انہیں بے نیاز کر دے(یعنی ان کا نِکاح ہوجائے یا وہ صاحِب مال ہوجائیں یا ان کی وفات ہو جائے ) تووہ اس کیلئے آگ سے رکاوٹ ہوجائیں گی۔“ (مسند امام احمد بن حنبل، 10/179، حدیث: 26578)

بیٹیوں کے ساتھ ہمارے پیارے نبی کا طرز عمل:

ہمارے پیارے نبی کی پیاری بیٹی سیدۂ کائنات حضرتِ بی بی فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا جب نبی کریم ،رؤوف و رحیم صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم کے پاس آتیں تو آپ صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم کھڑے ہو کران کی طرف متوجِّہ ہو تے ، پھر اپنے پیارے پیارے ہاتھ میں اُن کا ہاتھ لے کراُسے بوسہ دیتے پھر اُنہیں اپنی جگہ بٹھا تے۔ اسی طرح جب نبی کریم صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم حضرت بی بی فاطِمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ بھی کھڑی ہو جاتیں ، آپ کا مبارک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چُومتیں اورآپ صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔ (ابوداود،4/454 ،حدیث: 5217)

مسکین ماں کا بیٹیوں پر ایثار:

اُم ُّالمومنین حضرتِ عائشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ ”میرے پاس ایک مسکین عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ آئی ، میں نے اُسے تین کھجوریں دیں۔ اُس نے ایک ایک کھجور اپنی بیٹیوں کو دی اور ایک خود لے لی پھر اپنی کھجور بھی دوٹکڑے کر کے اپنی دونوں بیٹیوں کو کھلا دی ۔ مجھے اس واقعے سے بہت تعجب ہوا ، میں نے نبی کریم، رؤوف و رحیم صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم کی بارگاہ میں اس خاتون کے ایثار کا واقعہ بیان کیا تو آپ صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم نے فرمایا: اللہ پاک نے اِس ایثار کی وجہ سے اُس عورت کے لئے جنت واجِب کردی ہے ۔ ‘‘(مسلم ،ص 1415،حدیث: 2630)

اللہ کریم اپنے پیارے حبیب صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم کے صدقے ہمیں اپنی اولاد سے بالخصوص بیٹیوں سے محبت سے پیش آنے کی ، ان کی اچھی تربیت کرنے اور ان سے مشفقانہ رویہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین یا رَبَّ الْعَالَمِیْن، بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن

حکیم سید محمد سجاد عطاری مدنی

اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر (المدینۃ العملیہ)

لیکچرار جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ایجوکیشن عالمی مدنی مرکز کراچی