اُمُّ المؤ منین  زوجہ سیِّدُ المرسلین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بہترین مفسر ہ ،محدثہ ،حافظہ،قاریہ، ادیبہ، معلمہ اور زبر دست فقیہ ہیں۔ غرض مجموعہ ٔ حسانات و کمالات ہیں بلکہ بلامبالغہ پوری تاریخ عالم میں اتنی عظیم صفات والی خاتون جو ایک طرف عالمہ ، فاضلہ اور منصب افتا ء پر فائز ہو تو دوسری طرف بہترین خاتون خانہ اور اعلی انتظامی صلاحیتوں کی مالک بھی ہو ، ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔

حضرت عطا رضی اللہ عنہ فرماتے ہے: کَانَتْ عائشۃُ اَفْقَہ الناسِ وَ اَ عْلَمَ الناسِ و اَحْسَنَ النَّاسِ رَأیاً فِیْ العَامَّۃیعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تمام لوگوں سے بڑھ کر فقیہ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر عالمہ اور تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اچھی رائے رکھنے والی تھیں۔ ( المستدرک للحاکم، 5/18،ح:6808)

آپ رضی اللہ عنہا علوم قراٰنیہ، علوم حدیث کی جامع بڑی محدثہ ، بڑی فقیہ تھیں۔ کسی نے عرض کیا کہ اے اُمُّ المؤ منین! قراٰن سےمعلوم ہوتا ہے کہ حج و عمرہ میں صفاو مروہ کی سعی واجب نہیں ،صرف جائز ہےکیونکہ اللہ پاک نے فرمایا: فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَاؕ ( کہ ان کے سعی میں گناہ نہیں) ۔ تو آپ نے جواب دیا: اگر یہ سعی واجب نہ ہوتی تو یوں ارشاد ہوتا وَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ لاَ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا ( کہ ان کے سعی نہ کرنے میں گناہ نہیں)۔دیکھو!اس ایک جواب میں اُصول فقہ کا کتنا دقیق مسئلہ حل فرمادیا کہ واجب کی پہچان یہ ہے کہ اس کے کرنے میں ثواب، نہ کرنے میں گناہ ،جائز کی پہچان یہ ہے کہ اس کے نہ کرنے میں گناہ نہ ہو۔ یہاں آیت میں پہلی بات فرمائی گئی ہے۔(مراٰۃ المناجیح، کتاب المناقب، باب مناقب ازواج النبی،8/505)

حضرت عائشہ کو ابتداء ًکچھ کمالات تو اپنے والد کے گھر میں نصیب ہوئے پھر آپ جب رسو ل خدا ﷺ کے یہاں آئیں تو کاشانہ اقد س میں آپ کی تربیت ہوئی۔آئیے ! اس کی چند جھلکیاں ملاحظہ کرتے ہیں۔

علمی شان وشوکت

آپ رضی اللہ عنہا کاشانۂ اقدس میں آنےکے بعد دن رات سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے دیدار اور صحبتِ بابَرکت سے فیض یاب ہونے کے ساتھ ساتھ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے چشمۂ عِلْم سے بھی خوب سیراب ہوئیں اور اس بحرِ محیط سے عِلْم کے بیش بہا موتی چُن کر آسمانِ عِلْم ومعرفت کی اُن بلندیوں کو پہنچ گئیں جہاں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہُم، آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کے شاگردوں کی فَہْرِسْت میں نظر آنے لگے۔ صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو جب بھی کوئی گھمبیر اور ناحَل مسئلہ آن پڑتا تو اس کے حَل کے لئے آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کی طرف رُجُوع لاتے، چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ عَنۡہُ فرماتے ہیں: ہم اصحابِ رسول کو کسی بات میں اِشْکَال ہوتا تو اُمُّ المؤمنین حضرتِ عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کی بارگاہ میں سوال کرتے اور آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا سے ہی اس بات کا عِلْم پاتے۔ (سنن الترمذی،5/ 471، حديث:3909)

سبق

معلوم ہوا کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی مبارک معیت کے باعث بہت بڑی عالمہ ، محدثہ اور فقیہ تھیں ۔ قراٰن پاک میں سارے مسائل موجود ہیں لیکن بعض آیات مجملہ ہیں جو مشکلات تھیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دور فرمائیں اور ان آیات کا صحیح مطلب بیان فرما کر مشکلات کو حل فرمایا: گویا حدیث ہمارے لئے مشکل کشا ہے۔ اسی طرح بعض احادیث میں بھی مشکلات پیش آتی رہیں، خدا تعالی نے فقہا علیہم الرحمہ کی فقہ سے احادیث کی ان مشکلات کو دور فر مایا۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا محدثہ بھی تھیں اور فقیہ بھی۔ قراٰن کی مشکلات کو حدیث سے اور حدیث کی مشکلات کو فقہ سے حل فرما دیتی تھیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث کو سمجھنا ہر شخص کا کام نہیں کیونکہ خود صحابہ کرام کو بھی بعض اوقات حدیث کی اصل مراد سمجھنے کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا اور جو کچھ آپ فرمادیتی تھیں اُسے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قبول فرما لیتے تھے۔

مروی روایات کی تعداد

آپ رَضِیَ اللہُ عَنہَا سے دو ہزار دو سو دس (2210) احادیث مروی ہیں جن میں سے 174 مُتَّفَقٌ عَلَیْه یعنی بُخاری ومسلم دونوں میں، 54 احادیث صرف بُخاری شریف میں اور 68 احادیث صرف مسلم شریف میں ہیں۔ ( مدارج النبوۃ، قسم پنجم، باب دُوُم در ذکرِ ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُنَّ، ۲ / ۴۷۳

حضرت عروہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مارایتُ احداً اَعلمُ بفقہ ولا بطبّ ولا بشعر من عائشۃ یعنی میں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے بڑھ کر شعر، طبّ اور فقہ کا عالم کسی کو نہیں پایا۔

طب اور مریضوں کے علاج معالجہ میں بھی انہیں کافی بہت مہارت تھی۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دن حیران ہو کر حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عرض کیا کہ اے اماں جان! مجھے آپ کے علم حدیث و فقہ پر کوئی تعجب نہیں کیونکہ آپ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجیت اور صحبت کا شرف پایا ہے اور آپ رسول اصلی اﷲ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ محبوب ترین زوجہ مقدسہ ہیں اسی طرح مجھے اس پر بھی کوئی تعجب اور حیرانی نہیں ہے کہ آپ کو اس قدر زیادہ عرب کے اشعار کیوں اور کس طرح یاد ہو گئے؟ اس لئے کہ میں جانتا ہوں کہ آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی نور نظر ہیں اور وہ اشعار عرب کے بہت بڑے حافظ و ماہر تھے مگر میں اس بات پر بہت ہی حیران ہوں کہ آخر یہ طِبِّیْ معلومات اور علاج و معالجہ کی مہارت آپ کو کہاں سے اور کیسے حاصل ہو گئی؟ یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی آخری عمر شریف میں اکثر علیل ( یعنی بیماری تشریف لےآتی) ہو جایا کرتے تھے اور عرب و عجم کے اَطبّاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دوائیں تجویز کرتے تھے اور میں ان دواؤں سے آپ کا علاج کیا کرتی تھی (اس لئے مجھے طبّی معلومات بھی حاصل ہو گئیں)۔ (شرح الزرقانی علی المواھب، المقصد الثانی، الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاھرات، عائشۃ اُمِّ المؤمنین،4/389 تا392 ) ۔

آپ رضی اللہ عنہا کے شاگردوں میں صحابہ اور تابعین کی ایک بہت بڑی جماعت ہے اور آپ کے فضائل و مناقب میں بہت سی حدیثیں بھی وارد ہوئی ہیں۔

وفات

17 رمضان شب سہ شنبہ (بروز منگل) ۵۷ھ؁ یا ۵۸ھ ؁ میں مدینہ منورہ کے اندر آپ رضی اللہ عنہا کا 66 سال کی عمر میں وصال ہوا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کی وصیت کے مطابق رات میں لوگوں نے آپ کو جنت البقیع کے قبرستان میں دوسری ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کی قبروں کے پہلو میں دفن کیا۔ (المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب عائشۃ ام المؤمنین،ج۴،ص۳۹۲) ۔اللہ پاک اُمّ المؤمنین کے درجات میں مزید بلندیاں عطا فرمائے اور ہمیں ان کے علمی فیضان سے وافر حصہ مرحمت فرمائیں۔ امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم۔

بنتِ صدّیق آرامِ جانِ نبی

اُس حریمِ برأت پہ لاکھوں سلام

یعنی ہے سورۂ نور جن کی گواہ

ان کی پرنور صورت پہ لاکھوں سلام