نام: ”عبدالحق“کنیت ”ابو المجد“اور لقب ”محدث دہلوی “ہے۔آپ کی پیدائش ہند کے
مشہور شہر دہلی میں بروز جمعہ 1محرم الحرام 958ھ مطابق 9جنوری 1551ء کو ہوئی۔(شیخ عبد الحق محدث دہلوی موضوعاتی مطالعہ، ص91،محدثین
عظام حیات وخدمات، ص621)
والدِ ماجد:آپ کے والد شیخ سیف الدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ خوش طبع صوفی
بزرگ اور بلند پایہ شاعر تھے۔ 500 اشعار پر مشتمل مثنوی”سلسلۃ الوصال“ایک دن میں
تحریر کی۔ (اخبار الاخیار،ص614،اللہ کے خاص بندے، ص679)
تعلیم اور شوق علم:آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کی ۔انہوں نے آپ کی
تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔تھوڑی مدت میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔اپنے والد سے
ابتدائی تعلیم پانے کے بعد گھر سے 2میل کے فاصلے پر مدرسہ دہلی میں داخلہ لیا۔سخت
سردی اور گرمی کے موسم میں بھی روزانہ دو مرتبہ مدرسہ جاتے۔آپ کو حصول علم کا ایسا
شوق تھا کہ خود فرماتے ہیں:”علم نحو میں کافیہ،لب الالباب اور ارشاد وغیرہ کے بعض
اوقات ایک ہی مجلس میں سولہ(16)سولہ(16)صفحات پڑھ جاتا اور شوق کا یہ حال تھا کہ حاشیہ والی جب
کوئی کتاب میسر آجاتی تو وہ کتاب میں کسی استاد سے پڑھنے کے بجائے اکثر اپنے آپ ہی
پڑھ لیا کرتا تھا اور سمجھ بھی لیتا تھا۔علم حاصل کرنے کی شوق کی وجہ سے کبھی وقت پر کھانا کھایا نہ
سویا۔“آپ نے17یا 18سال کی عمر میں علوم ظاہری سے فراغت حاصل ۔پھر ماواء النہر چلے
گئے اور وہاں کے بڑے بڑے علما سے فیض حاصل کیا۔اس کے بعد درس وتدریس اور تصنیف وتالیف میں مشغول ہوگئے۔(اخبار الاولیاءص623، اللہ کے خاص بندے،ص680، شیخ عبد الحق محدث دہلوی موضوعاتی
مطالعہ، ص92)
بیعت:بچپن میں اپنے والد شیخ سیف الدین سے سلسلہ قادریہ میں
بیعت ہوئے ۔اس کے علاوہ شیخ موسٰی پاک شہید اور شیخ عبد الوہاب متقی رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہِمَا سے بھی اکتساب فیض کیا۔شیخ خواجہ باقی بِاللّٰہ سے سلسلہ نقشبندیہ میں خلافت حاصل کی۔آپ کو
سلسلہ قادریہ کے بانی حضور غوث اعظم رَحْمَۃُ
اللہِ عَلَیْہ سے بے پناہ عقیدت اور خصوصی تعلق تھا۔خود فرماتے
ہیں:”مجھے حضور غوث پاک رَحْمَۃُ اللہِ
عَلَیْہ نے خواب میں حضور نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے
اشارے پر بیعت کیا۔“ایک جگہ لکھتے ہیں :”میرا مرکز اعتماد ان پر ہے جن کا قدم
اولیاء کی گردنوں پر ہے۔“(اللہ کے خاص بندے،ص680، شیخ عبد الحق محدث دہلوی موضوعاتی
مطالعہ، ص98،تذکرہ مشائخ قادریہ،ص155،اخبار
الاخیار،ص628)
دینی خدمات: آپ کے دور میں اکبر بادشاہ کے گمراہ کن نظریات دین
الٰہی کے نام سے پھیل چکے تھے اور بہت سے لوگ اس فریب میں آکر حق کی راہ سے ہٹ گئے
تھے۔آپ نے خاموشی سے دہلی میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی اور درس وتدریس کے ساتھ وعظ
کا سلسلہ شروع کردیا ۔اس کافائدہ یہ ہوا کہ عام لوگوں کے دلوں سے گمراہی والے نظریات دور ہونے لگے اور یوں آپ نے دین الٰہی
کا فتنہ ختم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔آپ نے 30سے زیادہ علوم پر 134سے زائد
کتابیں لکھیں۔اس کے علاوہ 150 سے زائد نصیحت بھرے وہ خطوط بھی ہیں جو آپ نے اپنے
دوستوں،حکمرانوں،علما،صوفیا اور شاگردوں کو لکھے۔اکبر کے مرنے کے بعد جہانگیر نے
تخت پر بیٹھتے ہی ایک قاصد آپ کی خدمت میں بھیجا کہ دین سے متعلق کچھ معلومات
فراہم کریں ۔آپ نے” نوریہ سلطانیہ“ کتاب لکھ کر بادشاہ کی تربیت فرمائی۔آپ نے چار
طریقوں سے تبلیغ اسلام کا مشن جاری رکھا:(1)اپنی اولاد کو ایسی تربیت دی کہ وہ آپ کےمشن
کو جاری رکھ سکے۔(2)شاگردوں کو ہندوستان اور بیرون ملک اشاعت اسلام کے لئے روانہ
کیا۔ (3) اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کے لئے قدیم وجدید موضوع پر کتابیں
لکھیں۔(4)علماء و مشائخ،حکمرانوں اور بادشاہوں سے خط وکتابت کرکے رابطہ رکھا۔(اللہ کے خاص
بندے،ص682، شیخ عبد الحق محدث دہلوی موضوعاتی مطالعہ، ص239،240)
وصال:آپ کا انتقال بروزجمعہ 22ربیع الاول1052ھ مطابق 20جون 1642ء
کو ہوا۔مزار مبارک دہلی میں واقع ہے۔(شیخ
عبد الحق محدث دہلوی موضوعاتی مطالعہ،ص97،440،تذکرہ مشائخ قادریہ،ص161)
از:محمد گل فراز عطاری مدنی(اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)