شب قدر کی قدر کیجئے

Wed, 27 Apr , 2022
2 years ago

نورورحمت کی بارش:

اللہ ربُّ العزت نے اپنے پیارے نبی کی پیاری امت کوجہاں دیگر خصوصیات سے نوازا ہے وہیں ایک خصوصیت ’’شب قدر‘‘ بھی ہے ۔ خصوصیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ رات پہلے کسی دوسری امت کو عطا نہیں کی گئی۔باری تعالیٰ نے یہ خاص فضل وکرم صرف اُمتِ مصطفی پرفرمایاہے۔ویسے تو اس کاکرم ہر آن ، ہر گھڑی جاری وساری ہے۔ا س کا کرم نہ ہوتو کائنات ویران ہوجائےمگر کریم مولیعَزَّوَجَلَّ کی نوازشوں کا جو انداز شب قدر میں ہوتا ہے وہ کسی اور رات میں نظر نہیں آتا۔ برکت ورحمت سے بھر پور اس رات میں باری تعالیٰ نے اپنا بے مثل کلام نازل فرمایااور اس ایک نعمت سے کتنی ہی نعمتوں کے دروازے کھل گئے،زبانِ خلق کلام باری سے مشرف ہوئی،قلب انسانی کتاب رحمانی کا محافظ بن گیا،سینہ بشریت ملکوتی ولاہوتی اسرار کا محرم راز بن گیا اور پیکر انسانی وحی الہی کے فانوس سے جگمگا اٹھا۔اس رات کے عبادت گزاروں پر غروب آفتاب سے صبح چمکنے تک نورورحمت کی بارش ہوتی رہتی ہے اور یہ منظر دیکھنے کے لئے فرشتے آسمانوں سے قطاردرقطار اترتے ہیں۔

جبرائیل وملائکہ کاسلام ومصافحہ:

لاکھوں سال عبادت کرنے والے فرشتے اور امام الملائکہ حضر ت جبریل امین علیہ السلام اس ایک رات میں عبادت کرنے والوں پرسلام بھیجتے ہیں اور ان سے مصافحہ فرماتے ہیں۔تفاسیر میں ہے کہ شب قدر میں عبادت کرنے والے بندے کو جب حضرت جبریل امین علیہ السلام آکر سلام کرتے ہیں اور اس کے ساتھ مصافحہ فرماتے ہیں تو اس پرخوف وخشیت کی ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے، آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں اور اس کے جسم کا ایک ایک رونگٹا کھڑا ہوجاتا ہے۔حضرت امام فخرالدین رازیرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:’’فرشتوں کا سلام امن وسلامتی کی ضمانت ہے ۔ حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام پرصرف سات فرشتوں نے سلام بھیجاتو ان پر نارِ نمرودٹھنڈی وسلامتی والی ہوگئی اور شب قدر کے عبادت گزاروں پرتو بے شمار فرشتے سلام بھیجتے ہیں توکیوں نہ امید کی جائے کہ ان پر نار ِجہنم امن و سلامتی والی ہوجائے گی۔‘‘(تفسیر کبیر ،11/236۔شرح صحیح مسلم،3/217)

’’شبِ قدر‘‘کہنے کی وجوہات :

اس رات کو شب قدر کہنے کی درج ذیل وجوہات ہوسکتی ہیں:

{1} لفظ قدر کا ایک معنی ’’ مرتبہ‘‘ہے ، اس رات کو شب قدر اس لئے کہتے ہیں کہ سال کی باقی راتوں کے مقابلے میں یہ زیادہ بلند پایہ اور عظیم مرتبے والی رات ہے۔

{2}یا اس لئے کہ اس رات میں عبادت کی قدرو منزلت باقی راتوں کی نسبت ہزار مہینوں کی راتوں سے بھی زیادہ ہے۔

{3}یااس سبب سے کہ اس رات میں عبادت کرنے والوں کی قدرباری تعالیٰ کے ہاں باقی ر اتوں میں عبادت کرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔

{4} قدر کا لفظ’’ قضا و قدر‘‘کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ،چونکہ فرشتوں کواس رات انسان کی ایک سال کی تقدیر کا قلمدان سونپ دیا جاتا ہے اس لئے اس رات کو شب قدر کہتے ہیں۔

{5} قدر کا ایک معنی’’تنگی‘‘بھی ہے، چونکہ فرشتے اس رات میں بڑی کثرت سے زمین پر اترتے ہیں حتی کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے ،اس وجہ سے بھی اس رات کو شب ِقدر کہتے ہیں۔(ماخوذ ازمقالاتِ سعیدی،ص365)

شب قدر کیوں عطا ہوئی؟

بنی اسرائیل میں ایک نیک خصلت بادشاہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک ہزار لڑکے عطا فرمائے۔ وہ اپنے ایک شہزادے کو اپنے مال کے ساتھ لشکر کے لئے تیارکرتا اور اسے راہِ خدامیں مجاہد بنا کر بھیج دیتا ۔ وہ ایک مہینے تک جہاد کرتا اور شہید ہوجاتا پھر دوسرے شہزادے کوتیار کرکے بھیجتااور ہر ماہ ایک شہزادہ شہید ہوجاتا۔اِس کے ساتھ ساتھ بادشاہ خود بھی رات کو قِیام کرتا اور دِن کو روزہ رکھا کرتا۔ایک ہزار مہینوں میں اس کے ہزار شہزادے شہید ہوگئے۔پھر خود آگے بڑھ کر جہاد کیا اور شہید ہوگیا۔ لوگوں نے کہا کہ اِ س بادشاہ کا مرتبہ کوئی شخص نہیں پا سکتا ۔توخالق کائنات نے یہ آیتِ مبارکہ نازِل فرمائی:’’لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌمِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ(ترجمہ: شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے)یعنی اس بادشاہ کے ہزار مہینوں سے جو کہ اِس نے رات کے قِیام، دِن کے روزوں اور مال ،جان اور اولاد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرکے گزارے اس سے بہترہے ۔ (تفسیر قرطبی ،20/122)

ایک روایت یہ ہے کہ ایک بارحضور نبی رحمت،شفیع اُمت نے یہ تذکرہ فرمایا کہ’’ حضرت شمعون رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ہزار ماہ اس طر ح عبادت کی کہ رات کو قیام کرتے اور دن کو روزہ رکھتے اور ساتھ ساتھ راہِ خدا میں کافروں سے جہادبھی کرتے۔ ‘‘حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان جو کہ دن رات حصولِ عبادت اور بھلائیوں میں سبقت کے لئے کوشاں رہتے تھے ،انہوں نے جب ان طویل عبادتوں کاذکر سنا تو ان کو حضرت شمعون رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ایک ہزارسال کی عبادت اورجہاد پر بڑا رشک آیا اور وہ بارگاہِ رسالت میں عرض گزار ہوئے کہ’’یارسول اللہ !ہمیں تو بہت تھوڑی عمریں ملی ہیں ۔اس میں سے بھی کچھ حصہ نیند میں گزرتا ہے تو کچھ طلب معاش میں، کھانے پکانے میں اور دیگر امور میں بھی کچھ وقت صرف ہوجاتا ہے ،لہٰذا ہم تو اس طرح کی عبادت کر ہی نہیں سکتے اور یوں بنی اسرائیل ہم سے عبادت میں بڑھ جائیں گے۔‘‘اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۂ قدر نازل فرما کر تسلی دی کہ’’اے محبوب! ہم نے آپ کی امت کو ہر سال میں ایک ایسی رات عطا فرمادی ہے کہ اگر وہ اس رات میں میری عبادت کریں گے تو حضرت شمعون رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی بڑھ جائیں گے۔(تفسیر عزیزی ،4/434)

گویا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بتادیا:’’تمہاری عمر نہیں بڑھ سکتی اجر تو بڑھ سکتا ہے، ہزار ماہ کی طویل عمر نہ سہی ہم تمہیں ایک ہی رات میں ہزار ماہ کا اجر دے دیتے ہیں۔‘‘

رحمت عالَم کی شبِ قدر:

جب رمضان کریم کے آخری دس دِن آتے توحضوررحمۃ للعالمینعبادت پر کمربستہ ہوجاتے ،ان میں راتوں کو شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی شب بیداری کرواتے ۔(سنن ابن ماجہ،2/357)اور ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ آپ نے ارشاد فرمایا:’’تمہارے پاس ایک مہینہ آیا ہے ، جس میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جوشخص اس رات سے محروم رہ گیا ،گویاتمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیااوراس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقت میں محروم ہو۔‘‘(سنن ابن ماجہ،2/298)

نیزہم گناہگاروں کی ترغیب وتحریص کے لئے ارشاد فرمایا:’’جس نے اِس رات میں ایمان ا ور اِخلاص کے ساتھ قیام کیا تو اس کے عمر بھر کے گزشتہ گناہ معاف کردئیے جائیں گے ۔‘‘ (صحیح بخاری،1/660)

پیارے بھائیو!اگر پوری رات قیام نہ کر پائیں تو کم از کم عشاء وفجر باجماعت ادا کرلیجئے کہ حضورنبی رحمت نے ارشاد فرمایا:’’جس نے عشاء کی نماز باجماعت ادا کی گویا اُ س نے آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر کی نماز باجماعت پڑھی گویا اس نے پوری رات قیام کیا ۔‘‘(صحیح مسلم ،حدیث:656)اور ایک موقع پرتو واضح طور پر ارشاد فرمادیا:’’جس نے عشاء کی نماز باجماعت پڑھی تحقیق اُس نے شب قدر سے اپنا حصہ پالیا۔‘‘(جامع صغیر،حدیث:8796)

بزرگان دین کی شبِ قدر:

مفسر قرآن حضرت علامہ اسماعیل حقی حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان کرتے ہیں کہ بزرگانِ دین رحمہم اللہ تعالیٰ آخری عشرے کی ہر رات میں دورکعت نفل شب قدر کی نیت سے پڑھا کرتے تھے ۔ نیز بعض حضرات سے منقول ہے کہ ’’جو ہررات دس آیات شب قدرکی نیت سے پڑھ لے تو اس کی برکت اور ثواب سے محروم نہ ہوگا۔‘‘(روح البیان ،10/483)

شب قدر کومخفی رکھنے میں حکمتیں:

اللہ تعالیٰ اور رسول کریمنے واضح طور پر شب قدر کومتعین نہیں فرمایااور اس مقدس رات کو مخفی وپوشیدہ رکھا،اس کی درج ذیل وجوہات وحکمتیں ہوسکتی ہیں: {1}شب قدر کو اس لئے آشکارا نہیں کیا تاکہ اُمت میں ذوق تجسس اور گرمی عمل برقرار رہے۔{2} اگر لیلۃ القدر کو ظاہر کیا جاتا تو لوگ عام طور پر اسی رات کی عبادت پر اکتفا کرلیتے او ر راہِ عمل مسدور ہوجاتی۔{3}اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کا جاگنا اور اسے یاد کرنا زیادہ محبوب ہے، عدم تعیین کے سبب لوگ شب قدر کی تلاش میں متعدد راتیں جاگ کر گزاریں گے، اس لئے اسے مخفی رکھا۔{4}امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: اگر شب قدر کو معین کردیا جاتا تو جس طرح اس رات میں عبادت کا ثواب ہزار ماہ کی عبادت جتنا ہوتا اس طرح اس میں گناہ بھی ہزار درجہ بڑھ جاتا۔لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس رات کوپوشیدہ رکھا تاکہ اگر کوئی شخص اس رات کو پا کر عبادت کرے تو اسے ہزار ماہ کی عبادتوں کا ثواب مل جائے لیکن اگر کوئی شخص غفلت اور جہالت سے اس رات میں کوئی گناہ کربیٹھے تو تعین کا علم نہ ہونے کی وجہ سے لیلۃ القدر کی عظمت مجروح کرنے کا گناہ اس کے ذمہ نہ آئے۔(مقالاتِ سعیدی،ص367)

شب قدرکے نوافل اوروظائف:

نور سے معمور اس مقدس وبابرکت رات میں کثیر مسلمان نوافل ومستحبات اور اورادو وظائف کا اہتمام کرتے ہیں ،صد مرحبا!مگر ایسوں کو دیکھنا چاہیے کہ کہیں ان کے ذمہ فرائض وواجبات تو نہیں ہیں ؟حقوق اللہ وحقوق العباد سے تو کچھ باقی نہیں ہے؟اگرہے جیسے قضانمازیں ذمے رہتی ہیں تو شب قدر میں ترجیحی بنیاد پر پہلے انہیں ادا کریں کیونکہ جب تک فرائض پورے نہیں ہوتے نفلی عبادات معلق رہتی ہیں یعنی مقام قبولیت تک نہیں پہنچتیں۔بہر حال اس شب میں نوافل ووظائف کی فضیلت وارد ہے ۔یہاں چند روایات ذکر کی جاتی ہیں :

[1]حضرت فقیہ ابوا للیث سمر قندی حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشادفرمایا: ’’شب قدر کی نفل نمازکم از کم دو رکعت ہے اور زیادہ سے زیادہ ہزاررکعت ہے اور درمیانہ درجہ دو سو رکعت ہے اورہررکعت میں درمیانے درجہ کی قرات یہ ہے کہ سورۂ فاتحہ کے بعد ایک مرتبہ سورہ قدر اور تین مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے اورہر دورکعت کے بعد سلام پھیرے اور سلام کے بعدحضورنبی کریم پردرود شریف بھیجے اور پھر نماز کے لئے کھڑا ہوجائے یہاں تک کہ اپنادوسورکعت کایا اس سے کم یا اس سے زیادہ کاجوارادہ کیا ہو پورا کرے تو ایسا کرناقرآن وسنت میں وارداس شب کی جلالت ِقدر اور قیام کے لئے اسے کفایت کرے گا۔‘‘(روح البیان ، 10/483)

[2] ایک روایت میں ہے کہ’’ جو شب قدر میں اخلاص کے ساتھ نوافل پڑھے گااس کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے‘‘۔(روح البیان ،10/480)

(نوٹ:یاد رہے کہ یہاں صغیرہ گناہوں کی معافی کا بیان ہے جبکہ کبیرہ گناہ توبہ سے معاف ہوتے ہیں)

[3] ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:’’یارسول اللہ! اگرمجھے شب قدر کا علم ہوجائے تو کیا پڑھوں؟‘‘حضور نبی کریم نے ارشاد فرمایا:یہ دعا ء ما نگو:اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیترجمہ:اے اللہ !بے شک تُو معاف فرمانے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے لہٰذا مجھے بھی معاف فرمادے۔(سنن ترمذی ،5/306)

[4] امیر المومنین حضرت علی المرتضی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں:’’جو شخص شب قدر میں سورۂ قدر (اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ،پوری سورت) سات بار پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ہر بلا سے محفوظ فرمادیتا ہے اور70 ہزارفرشتے اس کے لئے جنت کی دعا کرتے ہیں اور جو کوئی (سال بھر میں جب کبھی) جمعہ کے دن نمازِ جمعہ سے پہلے تین بارسورۂ قدر پڑھتا ہے اللہ ربُّ العزت اس روز کے تمام نماز پڑھنے والوں کی تعداد کے برابر اس کے لئے نیکیاں لکھتا ہے۔‘‘(نزہۃ المجالس ،1/223)

[5] شب قدرمیں بارہ رکعت نماز تین سلام سے پڑھے، ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قدر ایک بار اور سورۂ اخلاص 15 بار پڑھے اور سلام کے بعد 70 بار اِستغفار (اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ الْعَظِیْمَ وَاَ تُوْبُ اِلَیْہ) پڑھے تو اللہ تعالیٰ نبیوں کی سی عبادت کاثواب عطا فرمائے گا۔

[6]د و رکعت اس طرح پڑھے کہ سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قدر تین تین باراور سورہ ٔاخلاص پانچ پانچ بارپڑھے اور سلام کے بعد سورۂ اخلاص27 بار پڑھ کر گناہوں کی مغفرت طلب کرے اللہ تبارک وتعالیٰ گناہ معاف فرمائے گا۔

[7] ستائیسویں شب دو دو کر کے چار رکعت اس طرح پڑھے کہ سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ تکاثر ایک بار اور سورہ ٔاخلاص تین تین بار پڑھے اللہ ربُّ العزت اس کی برکت سے موت کی سختیاں آسان فرمائے گا۔

[8] دو رکعت نفل اس طرح پڑھے کہ سورۂ فاتحہ کے بعد سورہ ٔالم نشرح ایک بار اور سورۂ اخلاص تین تین بار پڑھے پھر سلام کے بعد 27 بار سورۂ قدر پڑھے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے بے پنا ہ ثواب عطا فرمائے گا۔

[9] چار رکعات اس طرح پڑھی جائیں کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قدر تین تین بار اور سورۂ اخلاص پچاس پچاس بار پڑھے۔ سلام پھیرنے کے بعد سجدہ میں سر رکھ کر ایک بار یہ دعا پڑھے :سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ،اس کے بعد جو بھی دینی یا دنیاوی جائز حاجت طلب کرے وہ پوری ہوگی۔

[10]ستائیسویں رات سورۂ ملک 7 بار پڑھنے والے کے لئے مغفرت کی بشارت ہے۔(اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالٰی)

(ماخوذاز’’ بارہ ماہ کے فضائل واعمال‘‘،مصنف :مفتی فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ علیہ)

تحریر: محمد آصف اقبال مدنی عطاری