شیخ الاسلام والمسلمین ، امامِ اہلسنَّت ، اعلیٰ حضرت امام اَحمد رضا خان  نَوَّرَ اللّٰہُ مَرْقَدَہ جس طرح قراٰن و سنّت کے فقید المثال عالم و محقِّق اور عظیم داعِی و مبلِّغ ہیں، اِسی طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ قراٰن و سنَّت کی تعلیمات کے زبردست عامل بھی ہیں۔ اَحکاماتِ الہٰی و شریعتِ محمدی کا حقیقی معنوں میں تابع ہونا اور آداب ِ نبوی و شمائلِ محمدی کے اِیمان اَفروز اور رُوح اَفزا جام سے سرشار ہونا مجدِّدِ اعظم ، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت کا دَرَخْشِنْدَہ باب ہے۔ لاریب امامِ اہلسنَّت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کثیر مَحاسن و مَحامد کے حامل ہیں، آپ رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کے جس پہلو پر بھی نظر کی جائے ،ہر جا سنِّتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا پَرتَو اور فیضان دِکھائی دیتاہے۔ 10 شوال المکرَّم یومِ ولادتِ امام احمد رضا قُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیز کی نسبت سے ذیل میں 10 اچھی عاداتِ اعلیٰ حضرت کو ذکر کیا جاتاہے۔ اللہ کریم ہمیں امامِ عشق و محبت ، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا خصوصی فیضان عطا فرمائے اور اِن کی اچھی عادات کو اپنی طبیعت اور مزاج کا حصّہ بنانے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبیین و خاتم المعصومین

(10عاداتِ اعلیٰ حضرت)

(1) لین دین سیدھے ہاتھ سے:اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلسنت امام اَحمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ کی یہ عادتِ مبارَکہ تھی کہ سیدھے ہاتھ سے ہی کچھ دیا اور لیا کرتے تھے۔

چنانچہ مَلِکُ العُلماء ، ماہرِ علمِ توقیت ،خلیفہ و تلمیذِ اعلیٰ حضرت مفتی سیِّد محمد ظفَرُ الدین بِہاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "حیاتِ اعلیٰ حضرت " میں تحریر فرماتے ہیں: " اگر کسی کو کوئی شئی دینا ہوتی، اور اس نے اُلٹا ہاتھ لینے کو بڑھایا ۔(تواعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ) فوراً اپنا دستِ مبارَک روک لیتے اور فرماتے ، سیدھے ہاتھ میں لیجئے، اُلٹے ہاتھ سے شیطان لیتا ہے۔ "([1])

ہمیں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت میں سیدھی جانب سے اچھے کام کی ابتدا کرنے کا خاص التزام نظر آتا ہے۔ چنانچہ جامعِ حالات ، مَلِکُ العلماء علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں :"اعداد بسم اللہ شریف "٧٨٦" عام طور سے لوگ جب لکھتے ہیں، تو ابتدا "٧"سے کرتے ہیں۔ پھر "٨" لکھتے ہیں، اس کے بعد "٦" ۔ مگر اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ پہلے"٦" تحریر فرماتے، پھر"٨" تب "٧"۔"([2])

(2) نماز کا اِحترام :کَنْزالکرامت ، جَبَلِ اِستقامت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ نَماز کابہت اِحترام فرمایا کرتے تھے۔ موسم کی پروا کئے بغیر بہترین اور عُمدہ لباس زیبِ تن فرما کر اچھی ہیئت و حالت میں نماز ادا فرمایا کرتے تھے ۔

چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب چشتی نظامی فرماتے ہیں: "اعلیٰ حضرت نے تمام عمر جماعت سے نماز التزاماً پڑھی اور باوجودیکہ بے حد حَار مزاج تھے،مگر کیسی ہی گرمی کیوں نہ ہو، ہمیشہ دَستار (عِمامہ)اور اَنگرکھے([3]) کے ساتھ نماز پڑھا کرتے ۔ خصوصاً فرض تو کبھی صرف ٹوپی اور کُرتے کے ساتھ ادا نہ کیا۔ اعلیٰ حضرت جس قدر احتیاط سے نماز پڑھتے تھے، آج کل یہ بات نظر نہیں آتی۔ ہمیشہ میری دو رَکعت ان کی ایک رکعت میں ہوتی تھی اور دوسرے لوگ میری چار رکعت میں کم سے کم چھ رکعت ،بلکہ آٹھ رکعت۔"([4])

(3) حُسنِ اَخلاق سے پیش آنا : امامِ اہلسنت ، فارِقِ نور و ظُلمت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ احترام ِ مسلم کے تقاضوں کو نِبھاتے ہوئے مسلمانوں میں سے ہر خاص وعام اورچھوٹے بڑ ے سے اِنتہائی خوش اَخلاقی کے ساتھ پیش آیاکرتے تھے۔ ہر ایک کے مرتبے کے مطابق اُس کی عزت اورتعظیم بھی فرمایا کرتے تھے۔

چنانچہ ِ"حیاتِ اعلیٰ حضرت" میں ذکر کیا گیا ہے کہ :"(اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ )ہر شخص حتی کہ چھوٹی عمر والے سے بھی نہایت ہی خُلْق (ملنساری اور خوش مزاجی)کے ساتھ ملتے، آپ اور جناب سے مخاطب فرماتے اور حسبِ حیثیت اس کی توقیر و تعظیم فرماتے۔" ([5])

(4) ظاہر و باطن یکساں : آقائے نعمت، دریائے رحمت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ نہایت شُستہ کردار کے مالک تھے۔ حضرت رضاؔ رحمۃ اللہ علیہ کی طبیعت اِس قدر سُتھری اور مزاج ایسا نِکھرا اوراُجیالا تھا کہ ظاہر اور باطن ایک سا تھا۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے قول اور فعل میں نہ تو کوئی ٹکڑاؤ تھا،نہ ہی تحقیق و فتویٰ اور ذاتی عمل میں کوئی تضاد تھا۔

مَلِکُ العلماء علامہ ظفَرُ الدین بِہاری رحمۃ اللہ علیہ اِس تابناک حقیقت کا اِظہار بصورتِ تحریر یوں فرماتے ہیں:"اعلیٰ حضرت امام اہلِ سنّت کی سب صفتوں میں ایک بہت بڑی صفت جو عالِمِ باعمل کی شان ہونی چاہئے ، یہ تھی کہ آپ کا ظاہر باطن ایک تھا۔ جو کچھ آپ کے دل میں تھا وہی زبان سے ادا فرماتے تھے، اور جو کچھ زبان سے فرماتے، اسی پر آپ کا عمل تھا۔ کوئی شخص کیسا ہی پیارا ہو یا کیسا ہی معزَّز ، کبھی اس کی رعایت سے کوئی بات خلاف ، شرع اور اپنی تحقیق کے، نہ زبان سے نکالتے نہ تحریر فرماتے۔ اور رعایت ، مصلحت کا وہاں گزر ہی نہ تھا۔"([6])

(5) علمائے اہلسنت کیلئے سراپا کرم : حامیِ سنَّت ، ماحیِ بدعت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ علمائے اہلسنّت سے بڑی محبت فرمانے والے، انہیں عزت و مَان دینے والے اور ان کی قدر فرمانے والے تھے۔ گویا کہ امامِ اہل سنَّت رحمۃ اللہ علیہ علمائے اہلسنَّت کے لئے رحمتوں کا بادَل اورشفقتوں کا سائبان تھے۔

چنانچہ حضرت مولانا سیِّد شاہ اسماعیل حسن میاں صاحب کا بیان ہے کہ:" مولانا احمد رضا خان صاحب بمضموناَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ ([7]) (کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل۔ت)جس قدر کُفار و مرتدین پر سخت تھے، اسی درجہ علمائے اہلِ سنّت کے لیے اَبرِ کرم سراپا کرم تھے۔ جب کسی سُنّی عالِم سے ملاقات ہوتی ، دیکھ کر باغ باغ ہوجاتے ، اور ان کی ایسی عزت و قدر کرتے کہ وہ خود اپنے کو اس کا اہل نہ خیال کرتے۔"([8])

(6) سادات کی تعظیم : عاشقِ ماہِ نبوّت ، پروانۂ شمعِ رسالت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ جانِ کائنات ،سیِّدُ السادات صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے نسبی تعلق رکھنے کی بناء پر ساداتِ کِرام کا بہت اَدب و اِحترام کیا کرتے تھے۔آپ رحمۃ اللہ علیہ مختلف مواقع پر مختلف انداز میں سیِّد حضرات سے اپنی محبت و عقیدت کا اِظہار فرماتے تھے۔اِس حوالے سے عید کے پُر مسر ت موقع پر امامِ عشق و محبت ، حضرتِ رضاؔ رحمۃ اللہ علیہ کی عادت ِ کریمہ کیا ہوا کرتی تھی ، چنانچہ خلیفۂ اعلیٰ حضرت علامہ ظفَرُالدین بِہاری رحمۃ اللہ علیہ قلم بند فرماتے ہیں کہ : "حضور(یعنی اعلیٰ حضرت) کا یہ معمول ہے کہ بموقع عیدَین دورانِ مُصافَحہ سب سے پہلے جو سیِّد صاحب مُصافَحہ کرتے ہیں، اعلیٰ حضرت اس کی دست بوسی فرمایا کرتے ہیں۔"([9])

(7) سادات پر خصوصی شفقت : عالِمِ شریعت، پیشوائے طریقت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ نیاز کی شیرینی وغیرہ دینے میں سیِّد حضرات کو دیگر مسلمانوں پر فوقیت اور ترجیح دیا کرتے تھے ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ دوسرے مسلمانوں کی بہ نسبت انہیں دوگنا حصّہ دیا کرتے تھے۔

چنانچہ "حیاتِ اعلیٰ حضرت" میں مسطور ہے کہ:"حضور (یعنی اعلیٰ حضرت) کے یہاں مجلسِ میلاد مبارَک میں ساداتِ کرام کو بہ نسبت اور لوگوں کے دوگنا حصّہ بر وقت تقسیمِ شیرینی ملا کرتا تھا ۔"([10])

(8) زائرِ مدینہ کا اَدب : عظیم البرکت ، عظیم المرتبت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ کو مفخرِ موجودات،سلطانِ کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے مقدَّس شہر مدینہ منوَّرہ اور وہاں کی خاکِ شفاء سے ایسی والہانہ محبت تھی کہ جب کوئی زائرِ مدینہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس حاضر ہوتا تو آپ ا ُس کے پاؤں چوم لیا کرتے تھے۔

جناب سیِّد ایوب علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے : " جب کوئی صاحب حجِ بیت اللہ شریف کرکے حضور (یعنی اعلیٰ حضرت) کی خدمت میں حاضر ہوتے، پہلا سوال یہی ہوتا کہ سرکار ([11])میں حاضری دی؟ اگر اِثبات (یعنی "ہاں") میں جواب ملا، فوراً ان کے قدم چوم لیتے۔ اور اگر نفی میں جواب ملا، پھر مطلق تخاطب نہ فرماتے ۔ نہ اِلتفات فرماتے۔ ایک بار ایک حاجی صاحب حاضر ہوئے ، چنانچہ حسبِ عادتِ کریمہ یہی استفسار ہوا کہ سرکار میں حاضری ہوئی؟ وہ آبدیدہ ہو کر عرض کرتے ہیں۔ ہاں حضور! مگر صرف دو روز قیام رہا۔ حضور (یعنی اعلیٰ حضرت) نے قدم بوسی فرمائی اور ارشاد فرمایا : وہاں کی تو سانسیں بھی بہت ہیں، آپ نے تو بحمداللہ دو دن قیام فرمایا۔"([12])

(9) تبلیغِ دین کا جذبہ : مجدِّدِ دین و مِلّت ، صاحبِ علم و معرفت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ ایک فقیدالمثال مفتی اور محقِّق ہونے کے ساتھ ساتھ دینِ اسلام کے عظیم داعِی اورشاندار مبلِّغ بھی تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ تبلیغِ دین کے معاملے میں اِس قدر سنجیدہ طبیعت کے مالک تھے کہ اگر کسی شخص کو کوئی خلافِ شریعت بات کرتےہوئے سُنتے یا منافیِ شریعت کام کرتے ہوئے دیکھتے تو فوراً اُس کی اِصلاح فرماتے۔

تلمیذِ اعلیٰ حضرت علامہ ظفَرُ الدین بِہاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:"اعلیٰ حضرت امام اہل سنّت قُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیْز جس طرح اس اَمر پر اِعتقاد رکھتے تھے کہ حضراتِ انبیائے کرام علیہم السلام اور حضور ِ اقدس ﷺ تبلیغ و ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے، اور علمائے کرام وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاء(نبیوں کے وارث) ہیں ۔ اسی طرح اس پر بھی یقینِ کامل رکھتے تھے کہ علماء کے ذمہ دو فرض ہیں، ایک تو شریعت مطہرہ پر پورے طور پر عمل کرنا ، دوسرا فرض مسلمانوں کو ان کی دِینی باتوں سے واقف بنانا، ان پر مطلع کرنا۔ اسی لیے جہاں کسی کو خلافِ شرع کرتے ہوئے دیکھتے ، فرضِ تبلیغ بجا لاتے، اور اس کو اپنے فرائض میں داخل سمجھتے۔"([13])

(10) نَماز اور جماعت کی پابندی : پابندِ صلوٰۃ وسنَّت ،صاحبِ خوف و خشیت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ کو نماز اور جماعت سے بڑی محبت تھی ۔ حالتِ سفر ہو یا ایامِ حَضر، صحت کا زمانہ ہو یا علالت و بیماری کے ایام، ہمیشہ ہی نماز اور جماعت کی پابندی کا اِہتمام واِنصرام فرمانا آپ رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت کا روشن اور لائقِ تقلید پہلو ہے۔

چنانچہ "حیاتِ اعلیٰ حضرت " میں ہے:" اعلیٰ حضرت قُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیْز حضر و سفر، صحت و علالت ہر حال میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا ضروری خیال فرماتے تھے۔ خود ارشاد فرمایا کرتے:

"مَرد وں کی نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں ہونی چاہیے ،عورتوں کی نماز علیٰ حدہ گھر میں ہوتی ہے۔"

سفرکی حالت میں مسجد میں جا کر سب نمازوں کو ادا کرنا دشوار ہے، خصوصاً لمبے سفر میں۔ تاہم اعلیٰ حضرت جماعت سے نماز ادا کرنے کو ضروری خیال فرماتے ، اور اس پر سختی سے عامل تھے۔ اگر کسی گاڑی سے سفر کرنے میں اَوقاتِ نماز اسٹیشن پر نہیں ملتا ، تو اس گاڑی پر سفر نہیں کرتے، دوسری گاڑی اختیار فرماتے، یا نماز باجماعت کے لیے اسٹیشن پر اُتر جاتے، اور اس گاڑی کو چھوڑ دیتے ، اور نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد جو گاڑی ملتی ، اس سے بقیہ سفر پورا فرماتے۔"([14])

جلوہ ہے نور ہے کہ سراپا رضا کا ہے

تصویرِ سُنّیت ہے کہ چہرہ رضا کاہے

وادی رضا کی ، کوہِ ہِمالہ رضا کا ہے

جس سمت دیکھیےوہ علاقہ رضا کا ہے

گر قبول اُفتد زہے عزّو شرف

شوال المکرَّم 1443ھ،بمطابق مئی 2022ء

سگِ درگاہِ اعلیٰ حضرت

ابوالحقائق راشدعلی رضوی عطاری مدنی



[1] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/189،برکاتی پبلشرز، کراچی۔

[2] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/189،برکاتی پبلشرز، کراچی۔

[3] : اچکن کی وضع کا ایک بر کا لباس جسے گھنڈی کے ذریعے گلے کے پاس جوڑ دیتے ہیں۔

[4] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/197-198،برکاتی پبلشرز، کراچی۔

[5] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/198،برکاتی پبلشرز، کراچی۔

[6] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/210،برکاتی پبلشرز، کراچی۔

[7] : پ26،الفتح:29۔

[8] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/216-217،برکاتی پبلشرز، کراچی۔

[9] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/224،برکاتی پبلشرز، کراچی۔

[10] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/226،برکاتی پبلشرز، کراچی۔

[11] : سرکار کون ہیں؟ "سرکار" سے اعلیٰ حضرت رحمۃا للہ تعالیٰ علیہ کی مراد سرکارِ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے۔ چنانچہ یہی سیِّد ایوب علی صاحب بیان فرماتے ہیں:"اعلیٰ حضرت بجائے عدالت کے کچہری کا لفظ استعمال فرمایا کرتے۔ کسی صاحبِ علاقہ یا رؤسا یا اُمرا میں سے کسی کو کوئی سرکار کہتا ، تو کبیدہ خاطر ہوتے، اور فرماتے کہ سرکار نہ کہیے۔سرکار صرف سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں۔" (حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/350،برکاتی پبلشرز، کراچی)

[12] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/237،برکاتی پبلشرز، کراچی۔

[13] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/329،برکاتی پبلشرز، کراچی۔

[14] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/412،برکاتی پبلشرز، کراچی۔


عز ت گھٹانےوالی باتیں

Mon, 9 May , 2022
1 year ago

انسان کی اچھی عادتیں اسے معزز  بنادیتی ہیں اور بُری عادتیں کسی کو معزز نہیں بننے دیتیں بلکہ کسی معزز بندےمیں بھی اگر بُری عادتیں پیدا ہوجائیں تو وہ لوگوں کی نظروں میں اپنا وقار کھو دیتا ہے ۔کسی بھی بُری چیز سے بچنے کےلئے اس کے بارے میں آگاہی ضروری ہے ،یہاں کچھ ایسی باتیں بیان کی جارہی ہیں جو دینی ،اخلاقی ،یا معاشرتی طور پر بُری ہیں اور ایک مہذب شخص کو یہ باتیں ہر گز زیب نہیں دیتیں، بااخلاق بندہ ان باتوں سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ لہٰذا ان بُری عادتوں سے خود بھی بچیئے اور اپنے متعلقین کو بھی بچائیے تاکہ معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ ہو اور ہر طرف اچھائی اور بھلائی کا دَور دورہ ہو۔

خیال رہے کہ ان برائیوں میں سے بعض تو ناجائز وگناہ ہیں،بعض خلافِ مُرَوَّت اور بعض اخلاقی و معاشرتی اعتبار سے غیر مناسب ہیں،لہٰذا ہر ایک کاحکم ِشرعی جدا ہوگا ۔

72 بُری عادتیں:

(1)بلا وجہِ شرعی کسی کےسلام کا جواب نہ دینا۔(2) دوران ِ ملاقات بےدِلی (بے رخی)کا مظاہرہ کرنا۔ (3) ہر وقت منہ چڑھائے رکھنا،کسی سے سیدھے منہ بات نہ کرنا۔ (4)خواہ مخواہ کسی کےذاتی معاملات میں دخل اندازی کرنا۔(5) دوسروں کوحقیرسمجھنا اور تحقیروالا برتاؤ کرنا۔ (6) کسی پر بے جا سختی کرنا۔ (7) باوجودِ قدرت لوگوں کی خوشی غمی میں شریک نہ ہونا۔(8) مدد پر قادر ہونے کے باوجود دوسروں کی مدد نہ کرنا۔ (9) گالی بکنا ،کسی کو برابھلاکہنا بالخصوص سب کے سامنےذلیل کرنا۔(10)لالچی طبیعت والا ہونا۔ (11)مطلبی اور خود غرض ہونا۔(12) بےمُرَوَّت ہونا۔(13) بلا وجہِ شرعی دوسروں کی حوصلہ شکنی کرنا۔ (14)دو رُخا ہونا یعنی ایک کے سامنے کچھ کہنا دوسرے کو کچھ کہنا۔ (15)کوئی شرمندہ ہوکر اپنی غلطی کی معافی مانگے تب بھی بغیر کسی وجہ کے اسےمعاف نہ کرنا۔(16)کسی کے عیب اچھالنا۔(17)کسی کا بُرا چاہنا۔(18) لوگوں کے راز فاش کرنا۔(19) کنجوس ہونا ،جہاں خرچ کرناضروری ہو وہاں بھی خرچ نہ کرنا۔ (20) اللہ کریم نے جسے عزت دی اس کی عزت نہ کرنا۔(21)وعدہ خلافی کرنا۔(22) کسی کےاعتمادکوٹھیس پہنچانا۔ (23) لوگوں کے مال ومتاع وپراپرٹیز پر ناجائز قبضے کے چکر میں رہنا ۔(24)جان بوجھ کر کسی کو غلط مشورہ دینا۔(25) اپنے Status سے ہٹ کرصرف امیروں کی دعوت پر جانا اور غریبوں کی دعوت ٹھکرا دینا۔ (26) غرور و تکبر کرنا۔(27) بےجا مطالبات کرنا۔(28) امانت میں خیانت کرنا ،چاہے مال میں ہو یاکسی کی عزت و آبرو میں۔(29)دو بندوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر گُھس کر بیٹھنا۔ (30)اپنے منہ میاں مِٹّھو بننایعنی خواہ مخواہ اپنی ہی تعریف کرتے رہنا۔(31)کسی کامذاق اڑانا۔(32)کسی کو ڈانٹ پڑ رہی ہو تو اس کی حالت پر ہنسنا۔(33) کسی کی بےبسی پر مسکرانا،ہنسنایا خوش ہونا۔(34) کسی پر بے جا تنقید کرنا۔(35) لوگوں کی چیزیں بِلا اجازت استعمال کرنا(بعض لوگوں کی طرف سے حقیقی یا عرفی طور پر اجازت ہوتی ہے وہ اس سے خارج ہیں)۔ (36)کسی کےپیاروں کی برائی کرنا۔(37)دوسروں کے سامنے گھِن والے کام کرنامثلاً ناک میں انگلی ڈالنا،دانتوں سے ناخن کترنا،باربار بلا وجہ تھوکنا۔(38)کسی بھی طرح کا نشہ کرنا۔( 39) کسی کاحق مارنا۔(40) غلطی کے باوجود اپنی غلطی تسلیم نہ کرنا ۔(41) محفل میں کسی کو ہٹا کر خود اس کی جگہ بیٹھنا۔(42) کسی کے مخاطب کرنے پر بلا عذراسے جواب نہ دینا۔ (43) کوئی بات کررہا ہو تو اس پر توجہ نہ دینا بلکہ کسی اور کام میں مگن رہنا۔ (44) بِنا بُلائے کسی کی دعوت پر جانا ۔ (45) استطاعت کے باوجود قرض جلد ادا نہ کرنا۔ (46) کسی کی گاڑی استعمال کرنے کے بعد پٹرول ختم کر کے واپس کرنا اور پٹرول ڈلوا کرنہ دینا، یا گاڑی کاکوئی نقصان ہوجانے پر ویسے ہی لاکر کھڑی کردینا ٹھیک کروا کے نہ دینا۔ (47)دوستوں کے ساتھ آؤٹنگ پرجانا مگرکبھی کھانےپینے میں اخراجات شئیر نہ کرنا ،ہمیشہ انہیں کا خرچہ کروانا۔ (48)ملاقات کا ٹائم دینا اور پھر بِلا وجہ اس سے ملاقات نہ کرنا۔ (49) انجانے میں کسی سے نقصان ہوجانےپر فوراً اپنا روَیّہ تبدیل کرلینا ، غصے میں آپے سے باہر ہوجانا اور اس کی معذرت قبول نہ کرنا۔(50) کسی کی خامی یا کمز وری کا خود اس کے سامنے یا دیگر لوگوں کے سامنے بار بارتذکر ہ کرناکہ یہ دل آزاری اور غیبت ہے اور یہ دونوں کام ناجائز ہیں۔ (51) سب کےساتھ کھارہے ہوں تو اچھی چیزیں خود لے لینا اوردوسروں کی پرواہ نہ کرنا۔ (52) صرف اپنے مطلب کی حد تک لوگوں سے تعلق رکھنا مطلب نکل جانے پر لاتعلق ہوجانا۔(53) منصب یا عہدہ مل جانے پر بِلاعذر اپنے قریبی لوگوں سے دور ہوجانا، انہیں حقیر سمجھنا۔ (54)بلا وجہ کسی کی بات کاٹنا۔ (55) بغیر اجازت کسی کا موبائل فون ا ستعما ل کرنا۔ (56) دوسروں کے میسجز اورواٹس اپ وغیرہ بغیر اجاز ت دیکھنا ،کسی کی موبائل اسکرین پر نظر ڈالنا۔ (57)دوران ڈرائیونگ کسی کو ٹکر ما ر دی تو اسے طبی امداد دینے کے بجائے وہیں تڑپتا چھوڑ کر بھاگ جانا ، یہ انتہائی مذموم اور انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے، اگر خدا نخواستہ کبھی ایسا ہو جائے تو بھاگنے کے بجائے وہیں رکیں جوزخمی ہوئے اسے قریبی کلینک یا ہسپتال تک پہنچائیں۔ (58)ہروقت میلے کچیلے کپڑوں میں رہنا،صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھنا۔ (59) بس یا ٹرین میں سب کے سامنے سگریٹ پینا، سگریٹ پینا ویسے بھی صحت کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔(60)جگہ جگہ پان تھوکنا۔ (61) کچرا وغیرہ راستے میں ہی ڈال دینا۔(62)لوگوں کے گھروں میں جھانکنا۔ (63) لوگوں کو بالخصوص خواتین کوگھورنا۔ (64) بِلا ضرورت لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا۔ (65)جھوٹ بولنا۔ (66) بیوی بچوں اور دیگر متعلقین کے حقوق ادا نہ کرنا۔(67) دوسروں پرالزام تراشی کرنا۔ (68) بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر وقت شکوہ شکایت کرتے رہنا۔(69) کوئی کام کاج نہ کرنا اور نہ ہی اس کیلئے کوشش کرنا، یوں ہی ہروقت گھر میں پڑے رہنا۔(70)کسی کے گھر مہمان جائیں تو ان کے گھریلو حالات یا انتظام پر بِلا وجہ تنقید کرنا۔(71)دوسروں کے بچوں سے ان کے گھریلو معاملات کے بارےمیں پوچھنا،کُرید کُریدکران سے گھریلو ذاتی معاملات جاننے کی کوشش کرنا ۔ (72)کوئی آپ کے بچوں کی درست شکایت لے کر آئے تو تحمل سے سن کر اچھا ریپلائی کرنے کے بجائے ،الٹا سامنے والے کو ہی جھاڑ دینا اور اپنی اولاد کی بے جا حمایت کرنا۔

ان بری عادتوں سے خود بھی بچیئے اور اپنے متعلقین کو بھی ان سے بچانے کی کوشش کیجئے ! ان شاء اللہ ہمارے معاشرے سے برائیاں ختم ہوں گی اور لوگوں کا کردار سدھرنا شروع ہوجائے گا۔

اللہ کریم ہم سب کو ان بری عادتوں اور تمام برائیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے !

آمین بِجِاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

حکیم سید محمد سجاد عطاری مدنی ۔

فاضل الطب والجراحت۔ فاضلِ طب نبوی

اسلامک سکالر: اسلامک ریسرچ سینٹر (المدینۃ العلمیہ)

مُدرِّس: مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ایجوکیشن عالمی مدنی مرکز کراچی

27-04-2022

۲۵ رمضان ا لمبارک۱۴۴۳ ہجری 


عید الفطرعالم اسلام کا ایک مذہبی تہوار ہے جسے  ہر سال پوری دنیا میں بسنے والے مسلمان رمضان کے روزے رکھنے کے بعد بڑی عقیدت و جوش وخروش سے یکم شوال کو مناتے ہیں۔

عید عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی” خوشی ،جشن، فرحت اور چہل پہل“ کے ہیں جبکہ فِطر کے معنی ”روزہ کھولنے“ کے ہیں یعنی روزہ توڑنا یا ختم کرنا۔ عید الفطر کے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہےاس روز اللہ پاک بندوں کو روزہ اور عبادتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتا ہے اسی وجہ سے اس تہوار کو عید الفطر قرار دیا گیا ہے۔ عید الفطر کے دن نماز عید پڑھی جاتی ہے، جسے جامع مسجد یا کسی کھلے میدان یعنی عیدگاہ میں ادا کیا جاتا ہےعیدالفطر کا یہ تہوار جو پورے ایک دن پر محیط ہے اسے ”چھوٹی عید“ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جبکہ اس کی یہ نسبت عیدالاضحیٰ کی وجہ سے ہے کیونکہ عید الاضحیٰ تین روز پر مشتمل ہے اور اسے ”بڑی عید“ بھی کہا جاتا ہے۔ عمومی طور پر عید کی رسموں میں مسلمانوں کا آپس میں "عید مبارک" کہنا اور گرم جوشی سے ایک دوسرے سے نہ صرف ملنا بلکہ مرد حضرات کا آپس میں بغل گیر ہونا، رشتہ داروں اور دوستوں کی آؤ بھگت کرنا شامل ہیں۔ علاوہ ازیں بڑے بوڑھے بچے اور جوان نت نئے کپڑے زیب تن کرتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں، ایک دوسرے کی دعوت کرتے ہیں، مختلف قسم کے کھانے پکائے جاتے ہیں۔خصوصی طور پر مسلمان صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہوتے ہیں اور نماز فجر ادا کرتے ہیں پھر دن چڑھے نماز عید سے پہلے چند کھجوریں کھاتے ہیں جو سنت رسول ہے۔ (بُخاری ج۱ ص ۳۲۸ حدیث ۹۵۳) اوریہ اس دن روزہ کے نہ ہونے کی علامت ہے۔ مسلمانوں کی ایسے مواقع پر اچھے یا نئے لباس زیب تن کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جبکہ نئے اور عمدہ لباس پہن کر مسلمان اجتماعی طور پر عید کی نماز ادا کرنے کے لیے مساجد؛ عید گاہوں اور کھلے میدانوں میں جاتے ہیں۔ نماز عید الفطر میں آتے اور جاتے ہوئے آہستہ آواز سے تکبیریں (اللہ اکبر ،اللہ اکبر، لا الہ اِلہ اللہ، واللہ اکبر، اللہ اکبر، واللہ الحمد) کہنا اور راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔عید کے روز غسل کرنا، خوشبو استعمال کرنا اور اچھا لباس پہننا سنت ہے۔(بہارِ شریعت ج۱ص۷۷۹تا۷۸۱، عالمگیری ج۱ص۱۴۹،۱۵۰ وغیرہ تِرمذِی ج۲ص۶۹حدیث۵۴۱) ۔ عیدالفطر کی نماز کے موقع پر خطبہ عید کے علاوہ بنی نوع انسانیت کی بھلائی اور عالم اسلام کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں جس میں اللہ تعالیٰ سے کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی مانگی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اس کی مدد اور رحمت مانگی جاتی ہے، دعا کے اختتام پر اکثر لوگ اپنے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے مسلمان بھائیوں کو عید مبارک کہتے ہوئے بغل گیر ہو جاتے ہیں۔ نماز کی ادائیگی کے بعد لوگ اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور جان پہچان کے لوگوں کی طرف ملاقات کی غرض سے جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اپنے پیاروں کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے قبرستان کی طرف جاتے ہیں۔بلاشبہ وہ افراد نہایت خوش قسمت ہیں کہ جنھوں نے ماہِ صیام پایا اور اپنے اوقات کو عبادات سے منور رکھا۔پورا ماہ تقویٰ کی روش اختیار کیے رکھی اور بارگاہِ ربّ العزّت میں مغفرت کے لیے دامن پھیلائے رکھا۔یہ عید ایسے ہی خوش بخت افراد کے لیے ہے اور اب اُنھیں مزدوری ملنے کا وقت ہے۔تاہم، صحابہ کرا م رضی اللہ عنہ اور بزرگانِ دین اپنی عبادات پر اِترانے کے بجائے اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دُعائیں کیا کرتے تھے۔بلکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکے مقبول بندے تو فرمایا کرتے تھے کہ’’ عید اُن کی نہیں، جنھوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو آراستہ کیا، بلکہ عید تو اُن کی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ گئے اور اُس کے عذاب و عتاب سے ڈر گئے۔ عید اُن کی نہیں، جنھوں نے بہت زیادہ خوشیاں منائیں، بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنھوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اُس پر قائم رہے۔ عید اُن کی نہیں، جنھوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھائیں اور دسترخوان آراستہ کیے، بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنھوں نے نیک بننے کی کوشش کی اور سعادت حاصل کی۔ عید اُن کی نہیں، جو دنیاوی زیب و زینت اور آرئش و زیبائش کے ساتھ گھر سے نکلے، بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنھوں نے تقویٰ، پرہیزگاری اورخوفِ خدا کو اختیار کیا۔ عید اُن کی نہیں، جنھوں نے اپنے گھروں میں چراغاں کیا، بلکہ عید تو اُن کی ہے، جو دوزخ کے پُل سے گزر گئے۔‘‘

سیدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی عید:

حضرتِ علامہ مولانا عبد المصطفٰی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں : عید کے دِن چند حضرات مکانِ عالی شان پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروقِ اَعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ در وا زہ بند کرکے زَارو قطار رو رہے ہیں ۔ لوگوں نے حیران ہوکر عرض کی: یاامیرَالْمُؤمِنِین رَضِیَ اللہُ عَنْہُ !آج تو عید ہے جو کہ خوشی منانے کا دِن ہے ، خوشی کی جگہ یہ رونا کیسا؟آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے آنسو پونچھتے ہوئے فرمایا: ’’ھٰذا یَوْمُ الْعِیْدِ وَھٰذا یَوْمُ الْوَعِیْد‘‘یعنی یہ عید کا دِن بھی ہے اور وَعید کا دِن بھی ۔ جس کے نَمازو روزے مقبول ہوگئے بلا شبہ اُس کے لئے آج عید کا دِن ہے،لیکن جس کے نَمازو روزے رَد کر کے اُس کے منہ پر ماردیئے گئے اُس کیلئے تو آج وَعید کا دِن ہے۔

حضور غوث اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی عید:

اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندوں کی ایک ایک ادا ہمارے لئے موجب صد درسِ عبرت ہوتی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ ہمارے حضور سَیِّدُنا غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی شان بے حد اَرفع واعلیٰ ہے ، اِس کے باوجودآپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ہمارے لئے کیا چیز پیش فرماتے ہیں ! سنیئے اور عبرت حاصِل کیجیئے ۔ ؎

خلق گَوید کہ فر د ا روزِ عید اَسْت خوشی دَررُوحِ ہر مؤمن پدید اَسْت

دَراں رَوزے کہ بااِیماں بمیرم مِرادَر مُلک خودآں رَوزِ عید اَسْت

یعنی ’’لوگ کہہ رہے ہیں ،’’کل عید ہے!کل عید ہے!‘‘او رسب خوش ہیں ۔ لیکن میں تو جس دِن اِس دنیا سے اپنا اِیمان سلامت لے کر گیا ، میرے لئے تو وُہی دِن عید ہوگا ۔‘‘

سُبْحٰنَ اللہِ !( عَزَّوَجَلَّ) سُبْحٰنَ اللہِ !( عَزَّوَجَلَّ)کیا شانِ تقوی ہے ! اتنی بڑی شان کہ اَولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے سردار! اور اِس قَدَر تواضع واِنکِسار ! اس میں ہمارے لئے بھی دَرْسِ عبرت ہے اور ہمیں سمجھا یا جا رہا ہے کہ خبردار! ایمان کے مُعامَلے میں غفلت نہ کرنا، ہر وَقت ایمان کی حِفاظت کی فِکر میں لگے رہنا، کہیں ایسا نہ ہوکہ تمہاری غفلت اور معصیت کے سَبَب ایمان کی دَولت تمہارے ہاتھ سے نکل جائے ۔

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں’’ چاند رات‘‘ کو ایک لحاظ سے شرعی پابندیوں سے فرار کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، حالانکہ چاند رات کو ’’لَیْلَۃُ الْجَائِزۃ‘‘ یعنی انعام والی رات‘‘ کہا گیا ہے ۔ جو لوگ پورے ماہِ مقدّس میں تقویٰ و پرہیزگاری کی راہ پر کاربند رہے، اُن میں سے بھی بہت سے لوگ اس رات لہو ولعب میں مشغول ہوکر اپنی ساری محنت اکارت کر بیٹھتے ہیں۔دراصل، شیطان آزاد ہوتے ہی خلقِ خدا کو تقویٰ و پرہیزگاری کے راستے سے ہٹا کر فسق وفجور کی طرف مائل کرنے کی کوششوں میں لگ جاتا ہے اور بدقسمتی سے بہت سے لوگ اُس کے پُرفریب جال میں پھنس جاتے ہیں۔

اے لوگو لائقِ عذاب کاموں کااِرْتکاب کر کے ’’یومِ عید“ کو اپنے لئے ’’یومِ وَعید‘‘ نہ بناو ۔ اور یادرکھو! ؎

لَیْسَ الْعِیدُ لِمَنْ لَّبِسَ الْجَدِیْد اِنَّمَاالْعِیْدُ لِمَنْ خَافَ الْوَعِیْد

(یعنی عید اُس کی نہیں ،جس نے نئے کپڑے پہن لئے ،عید تو اُس کی ہے جو عذابِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ سے ڈر گیا )

اِس میں کوئی شک نہیں کہ عید کے دِن غسل کرنا ، نئے یا دُھلے ہوئے عمدہ کپڑے پہننا اور عطرلگانا مستحب ہے،یہ مستحبات ہمارے ظاہری بدن کی صفائی اور زینت سے متعلق ہیں ۔لیکن ہمارے اِن صاف ،اُجلے اور نئے کپڑوں اور نہائے ہوئے اور خوشبو ملے ہوئے جسم کے ساتھ ساتھ ہماری روح بھی ہم پر ہمارے ماں باپ سے بھی زیادہ مہربان خدائے رَحمنعَزَّوَجَلَّکی محبت و اِطاعت اور امّت کے غمخوار، دو جہاں کے تاجدار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کی اُلفت وسُنَّت سے خوب سجی ہوئی ہونی چائیے ۔

یومِ عید اپنی اصل میں ایک مذہبی تہوار ہے، اس لیے اِس روز ہونے والی تمام سرگرمیوں کو اسی تناظر میں ترتیب دیا جانا چاہیے۔تاہم یہ بھی ذہن میں رہے کہ اسلام نے خوشی کے اظہار سے منع نہیں کیا اور نہ ہی اسلام کے نزدیک تقویٰ وپرہیزگاری کا مطلب خشک مزاجی اور رُوکھا پن ہے۔البتہ، اسلام نے تہواروں اور تفریحات کو کچھ حدود وقیود کا پابند ضرور بنایا ہے تاکہ بے لگام خواہشات اور نفس پرستی کی راہ روکی جا سکے۔عید کا آغاز، دو رکعت نماز سے ہوتا ہے، جو اس بات کا اظہار ہے کہ کوئی بھی مسلمان اپنی مذہبی اور تہذیبی روایات میں اللہ تعالیٰ کی ہدایات سے لاپروا نہیں ہوسکتا۔

عید کے اس پُرمسرّت موقع پر ہمارا ایک کام یہ بھی ہونا چاہیے کہ آس پڑوس اور رشتے داروں پر نظر دوڑائیں کہ کہیں اُن میں سے کوئی ایسا تو نہیں، جو اپنی غربت اور تنگ دستی کے سبب عید کی خوشیوں میں شامل ہونے سے محروم ہے۔ اگر ایسا ہے، تو یقین جانیے، ہم خواہ کتنے ہی اچھے کپڑے پہن لیں، طویل دسترخوان سجا لیں، عیدیاں بانٹتے پِھریں، ہماری عید پھر بھی پھیکی ہی رہے گی، جس میں دیگر افراد شامل نہ ہوں۔

عید کی خوشیاں دوبالا ہوگئیں

سلسلۂ قادریہ رضویہ عطّاریہ کے عظیم بُزرگ حضرت سِری سَقطی رحمۃُ اللہِ علیہ (بطورِ عاجزی)فرماتے ہیں کہ میں دل کی سختی کے مرض میں مبتلاتھا لیکن حضرت معروف کرخی رحمۃُ اللہِ علیہ کی دُعا کی برکت سے مجھے چھٹکارا مل گیا۔ ہوا یوں کہ میں ایک بار نمازِ عید پڑھنے کے بعد واپس لوٹ رہا تھا تو حضرت معروف کرخی رحمۃُ اللہِ علیہ کو دیکھا۔ آپ کے ساتھ ایک بچہ بھی تھاجس کے بال بکھرے ہوئے تھےاوروہ ٹوٹے دل کے ساتھ رورہا تھا ۔ میں نے عرض کی : یاسیدی! کیا ہوا؟ آپ کے ساتھ یہ بچہ کیوں رو رہا ہے؟ آپ نے جواب دیا : میں نے چند بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھاجبکہ یہ بچہ غمگین حالت میں ایک طرف کھڑا تھا اوراُن بچوں کے ساتھ نہیں کھیل رہا تھا ۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں یتیم ہوں ، میرےابوجان انتقال کر گئے ہیں ، ان کے بعد میرا کوئی سہارا نہیں اور میرے پاس کچھ رقم بھی نہیں کہ جس کے بدلے اَخروٹ خرید کر اِن بچوں کے ساتھ کھیل سکوں ۔ چنانچہ میں اس بچےکو اپنے ساتھ لے آیا تاکہ اِس کے لئے گٹھلیاں جمع کروں جن سے اخروٹ خرید کر یہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل سکے۔ میں نے عرض کی : آپ یہ بچہ مجھے دے دیں تاکہ میں اِس کی یہ خراب حالت بدل سکوں ۔ آپ نے فرمایا : کیا تم واقعی ایسا کرو گے؟میں نے کہا : جی ہاں۔ فرمایا : چلو اسے لے لو ، اللہ پاک تمہارا دل ایمان کی برکت سے غنی کرے اور اپنے راستے کی ظاہری و باطنی پہچان عطا فرمائے۔ حضرت سِری سقطی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ میں اس بچے کو لےکر بازار گیا ، اسے اچھے کپڑے پہنائے اوراخروٹ خرید کر دیئے جن سے وہ دن بھر بچوں کے ساتھ کھیلتا رہا۔ بچوں نے اس سے پوچھا کہ تجھ پر یہ احسان کس نےکیا؟ اُس نے جواب دیا : حضرت سری سقطی رحمۃُ اللہِ علیہ اور معروف کرخی رحمۃُ اللہِ علیہ نے۔ جب بچے کھیل کود ‏کے بعد چلے گئے تو وہ خوشی خوشی میرے پاس آیا۔ میں نے اس سے پوچھا : بتاؤ! تمہاراعید کا دن کیسا گزرا؟اس نے کہا : اے چچا ! آپ نے مجھے اچھے کپڑے پہنائے ، مجھے خوش کر کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لئے بھیجا ، میرے غمگین اور ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑا ، اللہ کریم! آپ کو اپنی بارگاہ سے اس کا بدلہ عطا فرمائے اور آپ کے لئےاپنی بارگاہ کا راستہ کھول دے۔ حضرت سری سقطی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : مجھے بچے کے اس کلام سے بے حد خوشی ہوئی اور اس سے میری عید کی خوشیاں مزید بڑھ گئیں ۔ (الروض الفائق ، ص185)

اللہ ربُّ العزّت کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ایک یتیم بچے سے ہمدردی اور خیرخواہی کی ایمان اَفروز حکایت آپ نے پڑھی۔ عید الفطر کی خوشیاں ہیں ، خُوب نعمتوں کی کثرت ہے ، گھر میں کھانے کےلئےایک سے ایک لذیذ ڈِش تیار ہورہی ہے ، بہترین عمدہ لباس پہنے ہوئےہیں ، گھر میں مہمانوں کاآنا جانا اورعیدیاں لینے دینے کاسلسلہ جاری ہے ، ایسےمیں کیا ہی اچھا ہوکہ پڑوسیوں ، غریبوں ، یتیموں اورسفید پوش عاشقانِ رسول کے گھروں میں بھی خوشی و راحت پہنچانے کی کوئی صورت ہوجائے تاکہ یہ ’’عید ‘‘ہمارے لئے’’سعید‘‘یعنی سعادت مندی کاسبب بن جائے۔ کاش!ایسا ہوجائے۔

از: سید شعیب رضا عطاری

(المدینہ العلمیہ ، دعوت ِ اسلامی )


ویسے تو رمضانُ المبارک کی ہر گھڑی رحمتوں اور برکتوں سے بھری ہوئی ہےجیساکہ احادیثِ مبارکہ میں موجود ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ رمضانُ المبارک میں روزانہ افطار کے وقت10 لاکھ ایسے گناہ گاروں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے جن پر گناہوں کی وجہ سے جہنم واجب ہو چکی تھی لیکن اللہ عزوجل نے امتِ محمدیہ کو اس مہینے میں ایک ایسی رات سے بھی نوازا ہے جس میں اتنی رحمتِ الٰہی نازل ہوتی ہیں جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔اس رات میں عبادت کرکے بندہ نہ صرف اپنے گناہوں کو بخشواتا ہے بلکہ اللہ عزوجل کا قرب بھی حاصل کرتاہے ۔ اس رات کو اللہ عزوجل نے ماہِ رمضانُ المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پوشیدہ رکھا ہے جسے لَیْلَۃُالْقَدرکہا جاتا ہے جو کہ ہزار مہینوں سے افضل ہے اوریہ رات امتِ محمدیہ ﷺکے ساتھ خاص ہے(یعنی صرف امتِ محمدیہ کو عطاء کی گئی ہے) نیز اس رات کی فضیلت پر قراٰن و احادیث کی کثیر آیتیں اور روایتیں دال ہیں۔

شبِ قدر میں قراٰن کا نزول:

اس رات کی قدرو منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نےاسی رات آسمانِ دنیا میں یکبار قرآنِ مجید نازل کیا جیساکہ قرآنِ کریم میں ارشادِ خدا وندی ہے:اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ترجمۂ کنزالایمان :بیشک ہم نے اس قرآن کو شب ِقدر میں نازل کیا۔

تفسیردرِّ منثورمیں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہمافرماتے ہیں: اللہ عزوجل نے لوحِ محفوظ سے بیت العزت (جو کہ آسمانِ دنیا میں ہے)کی طرف ایک ہی دفعہ پورا قراٰنِ کریم شبِ قدر میں نازل فرمایا۔

شب قدر کی فضیلت پراحادیثِ مبارکہ:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابۂ کرام کو خوشخبری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:تمہارے پاس ماہِ رمضان آیا ہے جو بَرَکت والا ہے۔اس مہینے میں ایک رات ہے(یعنی شبِ قدر) جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے (ملخص) ۔(سنن نسائی، کتاب الصیام، 355/2103)

حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ شہنشاہِ دو عالم حضرت محمد کا فرمانِ عالیشان ہے: جو ایما ن کی وجہ سے اور ثواب کے لئے شب ِ قدر کا قیام کرے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ (صحیح البخاری ،کتاب الصوم ، باب من صام رمضان ایمان واحتساب ونیۃ، 1/6256 الحدیث 1901 )

حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:جب شبِ قدر ہوتی ہےتو جبرئیلِ امین علیہ السّلام ملائکہ کی جماعت کے ساتھ اترتے ہیں اور ہر قیام و قعود کرنے والے بندے پر جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذکر و عبادت میں مشغول ہو(اس کے لئے) دعا کرتے ہیں۔( شعب الایمان،باب فی الصیام،3/343، الحدیث ۳۷۱۷)

شبِ قدر ملنے کی وجہ:

امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے جب پچھلی امتوں کے لوگوں کی عمروں پر توجہ فرمائی تو آپ ﷺ کو اپنی امت کے لوگوں کی عمریں کم معلوم ہوئیں۔آپ ﷺ نے یہ خیال فرمایاکہ گزشتہ لوگوں کے مقابلے میں ان کی عمریں کم ہیں تو ان کی نیکیاں بھی کم رہیں گی تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ ﷺ کو شبِ قدر عطاء فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔(الموطا، کتاب الاعتکاف، باب ماجاء فی لیلۃالقدر،1/295،الحدیث 761)

شبِ قدر کن راتوں میں تلاش کی جائے؟

شبِ قدر کی تعیین کے بارے میں علمائے کرام کا بڑا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک شبِ قدررمضانُ المبارک کی پہلی رات، بعض کے نزدیک اکیسویں رات، بعض کے نزدیک تیئسویں رات، بعض کے نزدیک پچیسویں رات، بعض کے نزدیک ستائیسویں رات، بعض کے نزدیک انتیسویں رات اور بہت سے علمائے کرام کا یہ قول ہے کہ شبِ قدر رمضانُ المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے جیساکہ کثیر احادیثِ صحیحہ میں بھی مذکور ہے۔

شبِ قدر کی علامت:

حضرت سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ سرکار ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے:میں نے شبِ قدر کو دیکھا پھر مجھے بھلادی گئی، لہٰذا تم اسے رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔اور یہ ایک خوشگوار رات ہے، نہ گرم، نہ سرد اس رات چاند کے ساتھ شیطان نہیں نکلتا یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔(صحیح ابنِ خزیمہ، کتاب الصیام، باب صفۃ لیلۃ القدر بنفی الحر و البرد ، 3/330،الحدیث2190)

لیلۃالقدر کی دعا:

حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں:میں نے بارگاہِ رسالت ﷺ ،میں عرض کی، یا رسولُ اللہﷺ اگر مجھے شبِ قدر کا علم ہوجائے تو میں کیا دعا کروں؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم یہ دعا کرو’’اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ‘‘ یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ تو بہت معاف کرنے والا کرم فرمانے والا ہے۔ معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے، پس مجھے معاف فرما۔ (جامع الترمذی ،کتاب الدعوات،باب ماجاء فی جامع الدعوات عن رسول اللہ،5/306، الحدیث3513)

تمام بھلائیوں سے محروم رہ گیا:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب رمضانُ المبارک شروع ہوتا تو رسولُ اللہﷺ ارشاد فرماتے:یہ جو مہینہ شروع ہوا ہے ، اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔جو اس سے محروم رہ گیا تو وہ تمام بھلائی سے محروم کر دیا گیا اور اس کی بھلائی سے بد بخت ہی محروم رہتا ہے۔(سنن ابنِ ماجہ، کتاب الصیام، باب ماجاء فی فضلِ شہرِ رمضان،2/297، الحدیث 1644)

پیارے اسلامی بھائیوں:اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ہمیں ایسی بابرکت رات سے نوازا ہے جس میں رحمتِ الٰہی برستی رہتی ہے، ہمیں چاہیئے کہ اس بابَرَکت رات کو اللہ پاک کی عبادت و ریاضت اورخوب ذکر واذکار میں گزاریں، نوافل پڑھیں، اپنے تمام سابقہ گناہوں سے توبہ کریں اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ ارادہ کریں۔

شبِ قدرمیں پڑھے جانے والے نوافل:

٭ چار رکعت نفل پڑہیں: ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ تکاثر ایک مرتبہ اور اس کے بعد سورۂ اخلاص تین مرتبہ پڑھیں تو موت کی سختیوں سے آسانی ہوگی اور عذابِ قبر سے محفوظ رہے گا۔(فضائل الایام،441 مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ)

٭دو رکعت نفل پڑہیں:ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص سات مرتبہ پڑہیں۔سلام پھیرنے کے بعد سات مرتبہ ’’اَسْتَغْفِرُاللّٰہ‘‘ پڑھے تواپنی جگہ اسے اٹھے گا کہ اس پر اور اس کے والدین پر رحمتِ خدا برسنی شروع ہو جائے گی۔(ایضاً)

٭ چار رکعت نفل پڑہیں: ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قدر ایک مرتبہ اور سورۂ اخلاص ستائیس مرتبہ پڑھے تو یہ شخص گناہوں سے ایسا پاک ہو جائے گا کہ گویا آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّاس کو جنت میں ہزار محل عنایت فرمائے گا۔(ایضاً)

از: غیاث الدین عطاری مدنی

اسلامک اسکالر، اسلامک ریسرچ سینٹر(المدینۃ العلمیہ)


قضا نمازوں کا شارٹ کٹ

Wed, 27 Apr , 2022
2 years ago

ٓپ نے ”شارٹ کٹ “(Shortcut)کا لفظ نہ صرف سنا ہوگا بلکہ بارہا اس کا مشاہدہ بھی کیا ہوگا۔ شارٹ کٹ اگر علم وعقل اور دین کی خلاف ورزی سے بچتے ہوئے اپنایا جائے تو مفیدہے ورنہ اس کے نقصانات (Side Effects) بہت زیادہ ہیں ۔ جیسے پڑھائی چور ”شارٹ کٹ“ کے ذریعے جعلی ڈگری لے کراپنے ساتھ ساتھ ملک وقوم کا بھی بیڑاغرق کرتا ہے اور یوٹرن کے بجائے” شارٹ کٹ“کے سہارے اپنی موٹر سائیکل فٹ پاتھ کے اوپر سے پارکرنے والا اپنے ساتھ دوسروں کی زندگی بھی داؤ پر لگادیتا ہے ۔دورِ حاضر میں ناعاقبت اندیش مسلمان دین میں بھی” شارٹ کٹ “ڈھونڈتے رہتے ہیں اور بہت سے”وقت طلب“ دینی معاملات کو مختصر وقت میں انجام دینا چاہتے ہیں جیسے تین بار سورۂ اخلاص پڑھی اور مرحوم کے ایصالِ ثواب کے لئے’’ایک قرآن پاک ‘‘لکھوادیااور لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ موصوف نے اول تا آخر مکمل قرآن پاک پڑھاہے حالانکہ حدیث شریف تو یہ اہمیت بتانے کے لئے تھی کہ جب تین بار سورۂ اخلاص کی تلاوت پر اتنا ثواب ہے تو غورکروپورا قرآن کریم پڑھنے پر کتنا ثواب ہوگا۔یونہی ماہِ رمضان شریف میں عبادت سے جی چرانے والے ”مرد“وہ مسجد تلاش کرتے نظر آئیں گے جہاں”20منٹ والی“ تراویح ہوتی ہے (ایک جگہ تو16 منٹ کا بھی ریکارڈ ہے ،لاحول ولاقوۃ الاباللہ تعالی)اوراگرتھوڑی ہمت کربھی لیں تو ایسے حافظ صاحب کا انتخاب کرتے ہیں جو جلد ’’فارغ‘‘کردے ۔یہی حال قضائے عمری کا بھی ہے کہ بعض نادان ماہِ رمضان کے آخری جمعے (جمعۃ الوداع)کو مخصوص طریقے پرنمازپڑھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم سے قضائے عمری کا بوجھ اتر گیا ۔یہ ایک خود ساختہ”دینی شارٹ کٹ“ ہے مگر یہ سمجھنا کہ اس کے بعد قضائے عمری پڑھنے کی کوئی حاجت نہیں سراسر جہالت اور احکام شریعت سے روگردانی ہے ۔علم وآگہی کے باوجود ہمارے ہاں بعض علاقوں میں باجماعت یہ نماز پڑھائی جاتی ہے۔ بقول شخصے ایک جگہ توکوئی”اہم شخصیت ‘‘بھی یہ فریضہ انجام دیتی ہے۔والی اللہ المشتکی۔ جبکہ علماء کرام اور محدثین عظام نے اس عمل کو جہالت قبیحہ،واضح گمراہی ،سخت ممنوع، بدترین بدعت اور نہ جانے کیا کیا کہا ہے ۔چنانچہ،

امام اہلسنت امام احمد رضا خان حنفی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ ،جلد۸،صفحہ ۱۵۵پر اس طرح نماز پڑھنے کے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:’’فوت شدہ نمازوں کے کفارہ کے طور پر یہ جو( قضائے عمری کا)طریقہ ایجاد کرلیا گیا ہے یہ بد ترین بدعت ہے اس بارے میں جو روایت ہے وہ موضوع (من گھڑت) ہے یہ عمل سخت ممنوع ہے ، ایسی نیت و اعتقاد باطل و مردود، اس جہالت قبیحہ اور واضح گمراہی کے بطلان پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے، حضور پر نور سید المرسلین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:” من نسی صلوٰۃ فلیصلہا اذا ذکرھا لا کفارۃ لھا الا ذلک ترجمہ: جو شخص نماز بھول گیا تو جب اسے یاد آئے ادا کرلے، اس کا کفارہ سوائے اس کی ادائیگی کے کچھ نہیں ۔“(صحیح مسلم ،ص۳۴۶،الحدیث:۶۸۴)یہ حدیث شریف اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قضانمازیں کسی شارٹ کٹ سے ادا نہیں ہوں بلکہ انہیں پڑھنا ہی ہوگا۔

اورحضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ”موضوعات کبیر“ میں فرماتے ہیں:یہ حدیث کہ ” من قضی صلوٰۃ من الفرائض فی اخر جمعۃ من رمضان کان ذلک جابرا لکل صلوٰۃ فائتۃ فی عمرہ الی سبعین سنۃترجمہ: جس نے رمضان کے آخری جمعہ میں ایک فرض نماز ادا کرلی اس سے اس کی ستر سال کی فوت شدہ نمازوں کا ازالہ ہوجاتا ہے ۔“ یقینی طور پر باطل ہے کیونکہ یہ اس اجماع کے مخالف ہے کہ ”عبادات میں سے کوئی شے سابقہ سالوں کی فوت شدہ عبادات کے قائم مقام نہیں ہوسکتی۔“( الاسرار الموضوعۃ ،ص۲۴۲،الحدیث:۹۵۳)اور امام ابن حجر اور علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہما فرماتے ہیں :اقبح من ذلک مااعتید فی بعض البلاد من صلوٰۃ الخمس فی ھذہ الجمعۃ عقب صلٰوتھا زاعمین انھا تکفر صلٰوۃ العام اوالعمر المتروکۃ و ذلک حرام لوجوہ لا تخفیترجمہ :اس سے بھی بدتر وہ طریقہ ہے جو بعض شہروں میں ایجاد کر لیا گیا ہے کہ جمعۃ الوداع کے دن نمازِ جمعہ کے بعد پانچ نمازیں اس گمان سے ادا کی جائیں کہ اس سے ایک سال یا گذشتہ تمام عمر کی نمازوں کا کفارہ ہے اور یہ عمل ایسی وجوہ کی بنا پر حرام ہے جو نہایت ہی واضح ہیں۔( شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ ،ج۹،ص۴۶۴)

یوں ہی مجدد اعظم امام اہلسنت نَوَّرَاللہُ مَرْقَدَہُ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :نماز قضائے عمری کہ آخرجمعہ ماہِ مبارک رمضان میں اس کاپڑھنا اختراع کیا(گھڑا)گیا اور اس میں یہ سمجھاجاتاہے کہ اس نماز سے عمربھر کی اپنی اور ماں باپ کی بھی قضائیں اُترجاتی ہیں محض باطل و بدعت سیئہ شنیعہ(انتہائی بُری بدعت) ہے کسی کتاب معتبر میں اصلاً اس کانشان نہیں۔(فتاوی رضویہ،ج۷،ص۴۱۷)

البتہ بعض علمائے متاخرین نے جمعۃ الوداع میں نوافل کا ایک طریقہ لکھا ہے مگر وہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ ان نوافل کی برکت سےصرف’’ قضاکا گناہ‘‘ معاف ہونے کی امید ہے اور ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اس سے قضا نمازیں معاف ہوجائیں گی کیونکہ قضا نمازیں صرف اور صرف پڑھنے ہی سے ادا ہوتی ہیں ۔جیسا کہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی قُدِّسَ سِرُّہُ فرماتے ہیں :” جمعۃ الواداع میں نماز قضا عمری پڑھے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جمعۃ الوداع کے دن ظہر وعصر کے درمیان بار ہ رکعت نفل دو دو رکعت کی نیت سے پڑھے اور ہررکعت میں سورہ فاتحہ کے بعدا یک بار آیت الکرسی اور تین بار”قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ “اور ایک ایک بار فلق اور ناس پڑھے ۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ جس قد ر نمازیں اس نے قضا کر کے پڑھی ہوں گی ۔ ان کے قضا کرنے کا گناہ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ! معاف ہوجائے گا۔یہ نہیں کہ قضا نمازیں اس سے معاف ہوجائیں گی وہ تو پڑھنے سے ہی ادا ہوں گی ۔(اسلامی زندگی ،ص۱۰۵)

بارگاہِ الہٰی میں دعا ہے کہ وہ ہمیں حق وسچ کو سمجھنےاوراسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دین میں ایسے ’’شارٹ کٹس‘‘سے ہماری حفاظت فرمائے جوہمیں جنت ورحمت کے بجائے جہنم ولعنت کا راستہ دکھائیں۔امین

محمد آصف اقبال (ایم ۔اے)

کراچی،پاکستان


شب قدر کی قدر کیجئے

Wed, 27 Apr , 2022
2 years ago

نورورحمت کی بارش:

اللہ ربُّ العزت نے اپنے پیارے نبی کی پیاری امت کوجہاں دیگر خصوصیات سے نوازا ہے وہیں ایک خصوصیت ’’شب قدر‘‘ بھی ہے ۔ خصوصیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ رات پہلے کسی دوسری امت کو عطا نہیں کی گئی۔باری تعالیٰ نے یہ خاص فضل وکرم صرف اُمتِ مصطفی پرفرمایاہے۔ویسے تو اس کاکرم ہر آن ، ہر گھڑی جاری وساری ہے۔ا س کا کرم نہ ہوتو کائنات ویران ہوجائےمگر کریم مولیعَزَّوَجَلَّ کی نوازشوں کا جو انداز شب قدر میں ہوتا ہے وہ کسی اور رات میں نظر نہیں آتا۔ برکت ورحمت سے بھر پور اس رات میں باری تعالیٰ نے اپنا بے مثل کلام نازل فرمایااور اس ایک نعمت سے کتنی ہی نعمتوں کے دروازے کھل گئے،زبانِ خلق کلام باری سے مشرف ہوئی،قلب انسانی کتاب رحمانی کا محافظ بن گیا،سینہ بشریت ملکوتی ولاہوتی اسرار کا محرم راز بن گیا اور پیکر انسانی وحی الہی کے فانوس سے جگمگا اٹھا۔اس رات کے عبادت گزاروں پر غروب آفتاب سے صبح چمکنے تک نورورحمت کی بارش ہوتی رہتی ہے اور یہ منظر دیکھنے کے لئے فرشتے آسمانوں سے قطاردرقطار اترتے ہیں۔

جبرائیل وملائکہ کاسلام ومصافحہ:

لاکھوں سال عبادت کرنے والے فرشتے اور امام الملائکہ حضر ت جبریل امین علیہ السلام اس ایک رات میں عبادت کرنے والوں پرسلام بھیجتے ہیں اور ان سے مصافحہ فرماتے ہیں۔تفاسیر میں ہے کہ شب قدر میں عبادت کرنے والے بندے کو جب حضرت جبریل امین علیہ السلام آکر سلام کرتے ہیں اور اس کے ساتھ مصافحہ فرماتے ہیں تو اس پرخوف وخشیت کی ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے، آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں اور اس کے جسم کا ایک ایک رونگٹا کھڑا ہوجاتا ہے۔حضرت امام فخرالدین رازیرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:’’فرشتوں کا سلام امن وسلامتی کی ضمانت ہے ۔ حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام پرصرف سات فرشتوں نے سلام بھیجاتو ان پر نارِ نمرودٹھنڈی وسلامتی والی ہوگئی اور شب قدر کے عبادت گزاروں پرتو بے شمار فرشتے سلام بھیجتے ہیں توکیوں نہ امید کی جائے کہ ان پر نار ِجہنم امن و سلامتی والی ہوجائے گی۔‘‘(تفسیر کبیر ،11/236۔شرح صحیح مسلم،3/217)

’’شبِ قدر‘‘کہنے کی وجوہات :

اس رات کو شب قدر کہنے کی درج ذیل وجوہات ہوسکتی ہیں:

{1} لفظ قدر کا ایک معنی ’’ مرتبہ‘‘ہے ، اس رات کو شب قدر اس لئے کہتے ہیں کہ سال کی باقی راتوں کے مقابلے میں یہ زیادہ بلند پایہ اور عظیم مرتبے والی رات ہے۔

{2}یا اس لئے کہ اس رات میں عبادت کی قدرو منزلت باقی راتوں کی نسبت ہزار مہینوں کی راتوں سے بھی زیادہ ہے۔

{3}یااس سبب سے کہ اس رات میں عبادت کرنے والوں کی قدرباری تعالیٰ کے ہاں باقی ر اتوں میں عبادت کرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔

{4} قدر کا لفظ’’ قضا و قدر‘‘کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ،چونکہ فرشتوں کواس رات انسان کی ایک سال کی تقدیر کا قلمدان سونپ دیا جاتا ہے اس لئے اس رات کو شب قدر کہتے ہیں۔

{5} قدر کا ایک معنی’’تنگی‘‘بھی ہے، چونکہ فرشتے اس رات میں بڑی کثرت سے زمین پر اترتے ہیں حتی کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے ،اس وجہ سے بھی اس رات کو شب ِقدر کہتے ہیں۔(ماخوذ ازمقالاتِ سعیدی،ص365)

شب قدر کیوں عطا ہوئی؟

بنی اسرائیل میں ایک نیک خصلت بادشاہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک ہزار لڑکے عطا فرمائے۔ وہ اپنے ایک شہزادے کو اپنے مال کے ساتھ لشکر کے لئے تیارکرتا اور اسے راہِ خدامیں مجاہد بنا کر بھیج دیتا ۔ وہ ایک مہینے تک جہاد کرتا اور شہید ہوجاتا پھر دوسرے شہزادے کوتیار کرکے بھیجتااور ہر ماہ ایک شہزادہ شہید ہوجاتا۔اِس کے ساتھ ساتھ بادشاہ خود بھی رات کو قِیام کرتا اور دِن کو روزہ رکھا کرتا۔ایک ہزار مہینوں میں اس کے ہزار شہزادے شہید ہوگئے۔پھر خود آگے بڑھ کر جہاد کیا اور شہید ہوگیا۔ لوگوں نے کہا کہ اِ س بادشاہ کا مرتبہ کوئی شخص نہیں پا سکتا ۔توخالق کائنات نے یہ آیتِ مبارکہ نازِل فرمائی:’’لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌمِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ(ترجمہ: شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے)یعنی اس بادشاہ کے ہزار مہینوں سے جو کہ اِس نے رات کے قِیام، دِن کے روزوں اور مال ،جان اور اولاد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرکے گزارے اس سے بہترہے ۔ (تفسیر قرطبی ،20/122)

ایک روایت یہ ہے کہ ایک بارحضور نبی رحمت،شفیع اُمت نے یہ تذکرہ فرمایا کہ’’ حضرت شمعون رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ہزار ماہ اس طر ح عبادت کی کہ رات کو قیام کرتے اور دن کو روزہ رکھتے اور ساتھ ساتھ راہِ خدا میں کافروں سے جہادبھی کرتے۔ ‘‘حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان جو کہ دن رات حصولِ عبادت اور بھلائیوں میں سبقت کے لئے کوشاں رہتے تھے ،انہوں نے جب ان طویل عبادتوں کاذکر سنا تو ان کو حضرت شمعون رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ایک ہزارسال کی عبادت اورجہاد پر بڑا رشک آیا اور وہ بارگاہِ رسالت میں عرض گزار ہوئے کہ’’یارسول اللہ !ہمیں تو بہت تھوڑی عمریں ملی ہیں ۔اس میں سے بھی کچھ حصہ نیند میں گزرتا ہے تو کچھ طلب معاش میں، کھانے پکانے میں اور دیگر امور میں بھی کچھ وقت صرف ہوجاتا ہے ،لہٰذا ہم تو اس طرح کی عبادت کر ہی نہیں سکتے اور یوں بنی اسرائیل ہم سے عبادت میں بڑھ جائیں گے۔‘‘اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۂ قدر نازل فرما کر تسلی دی کہ’’اے محبوب! ہم نے آپ کی امت کو ہر سال میں ایک ایسی رات عطا فرمادی ہے کہ اگر وہ اس رات میں میری عبادت کریں گے تو حضرت شمعون رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ہزار مہینوں کی عبادت سے بھی بڑھ جائیں گے۔(تفسیر عزیزی ،4/434)

گویا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بتادیا:’’تمہاری عمر نہیں بڑھ سکتی اجر تو بڑھ سکتا ہے، ہزار ماہ کی طویل عمر نہ سہی ہم تمہیں ایک ہی رات میں ہزار ماہ کا اجر دے دیتے ہیں۔‘‘

رحمت عالَم کی شبِ قدر:

جب رمضان کریم کے آخری دس دِن آتے توحضوررحمۃ للعالمینعبادت پر کمربستہ ہوجاتے ،ان میں راتوں کو شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی شب بیداری کرواتے ۔(سنن ابن ماجہ،2/357)اور ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ آپ نے ارشاد فرمایا:’’تمہارے پاس ایک مہینہ آیا ہے ، جس میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جوشخص اس رات سے محروم رہ گیا ،گویاتمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیااوراس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقت میں محروم ہو۔‘‘(سنن ابن ماجہ،2/298)

نیزہم گناہگاروں کی ترغیب وتحریص کے لئے ارشاد فرمایا:’’جس نے اِس رات میں ایمان ا ور اِخلاص کے ساتھ قیام کیا تو اس کے عمر بھر کے گزشتہ گناہ معاف کردئیے جائیں گے ۔‘‘ (صحیح بخاری،1/660)

پیارے بھائیو!اگر پوری رات قیام نہ کر پائیں تو کم از کم عشاء وفجر باجماعت ادا کرلیجئے کہ حضورنبی رحمت نے ارشاد فرمایا:’’جس نے عشاء کی نماز باجماعت ادا کی گویا اُ س نے آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر کی نماز باجماعت پڑھی گویا اس نے پوری رات قیام کیا ۔‘‘(صحیح مسلم ،حدیث:656)اور ایک موقع پرتو واضح طور پر ارشاد فرمادیا:’’جس نے عشاء کی نماز باجماعت پڑھی تحقیق اُس نے شب قدر سے اپنا حصہ پالیا۔‘‘(جامع صغیر،حدیث:8796)

بزرگان دین کی شبِ قدر:

مفسر قرآن حضرت علامہ اسماعیل حقی حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان کرتے ہیں کہ بزرگانِ دین رحمہم اللہ تعالیٰ آخری عشرے کی ہر رات میں دورکعت نفل شب قدر کی نیت سے پڑھا کرتے تھے ۔ نیز بعض حضرات سے منقول ہے کہ ’’جو ہررات دس آیات شب قدرکی نیت سے پڑھ لے تو اس کی برکت اور ثواب سے محروم نہ ہوگا۔‘‘(روح البیان ،10/483)

شب قدر کومخفی رکھنے میں حکمتیں:

اللہ تعالیٰ اور رسول کریمنے واضح طور پر شب قدر کومتعین نہیں فرمایااور اس مقدس رات کو مخفی وپوشیدہ رکھا،اس کی درج ذیل وجوہات وحکمتیں ہوسکتی ہیں: {1}شب قدر کو اس لئے آشکارا نہیں کیا تاکہ اُمت میں ذوق تجسس اور گرمی عمل برقرار رہے۔{2} اگر لیلۃ القدر کو ظاہر کیا جاتا تو لوگ عام طور پر اسی رات کی عبادت پر اکتفا کرلیتے او ر راہِ عمل مسدور ہوجاتی۔{3}اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کا جاگنا اور اسے یاد کرنا زیادہ محبوب ہے، عدم تعیین کے سبب لوگ شب قدر کی تلاش میں متعدد راتیں جاگ کر گزاریں گے، اس لئے اسے مخفی رکھا۔{4}امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: اگر شب قدر کو معین کردیا جاتا تو جس طرح اس رات میں عبادت کا ثواب ہزار ماہ کی عبادت جتنا ہوتا اس طرح اس میں گناہ بھی ہزار درجہ بڑھ جاتا۔لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس رات کوپوشیدہ رکھا تاکہ اگر کوئی شخص اس رات کو پا کر عبادت کرے تو اسے ہزار ماہ کی عبادتوں کا ثواب مل جائے لیکن اگر کوئی شخص غفلت اور جہالت سے اس رات میں کوئی گناہ کربیٹھے تو تعین کا علم نہ ہونے کی وجہ سے لیلۃ القدر کی عظمت مجروح کرنے کا گناہ اس کے ذمہ نہ آئے۔(مقالاتِ سعیدی،ص367)

شب قدرکے نوافل اوروظائف:

نور سے معمور اس مقدس وبابرکت رات میں کثیر مسلمان نوافل ومستحبات اور اورادو وظائف کا اہتمام کرتے ہیں ،صد مرحبا!مگر ایسوں کو دیکھنا چاہیے کہ کہیں ان کے ذمہ فرائض وواجبات تو نہیں ہیں ؟حقوق اللہ وحقوق العباد سے تو کچھ باقی نہیں ہے؟اگرہے جیسے قضانمازیں ذمے رہتی ہیں تو شب قدر میں ترجیحی بنیاد پر پہلے انہیں ادا کریں کیونکہ جب تک فرائض پورے نہیں ہوتے نفلی عبادات معلق رہتی ہیں یعنی مقام قبولیت تک نہیں پہنچتیں۔بہر حال اس شب میں نوافل ووظائف کی فضیلت وارد ہے ۔یہاں چند روایات ذکر کی جاتی ہیں :

[1]حضرت فقیہ ابوا للیث سمر قندی حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشادفرمایا: ’’شب قدر کی نفل نمازکم از کم دو رکعت ہے اور زیادہ سے زیادہ ہزاررکعت ہے اور درمیانہ درجہ دو سو رکعت ہے اورہررکعت میں درمیانے درجہ کی قرات یہ ہے کہ سورۂ فاتحہ کے بعد ایک مرتبہ سورہ قدر اور تین مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے اورہر دورکعت کے بعد سلام پھیرے اور سلام کے بعدحضورنبی کریم پردرود شریف بھیجے اور پھر نماز کے لئے کھڑا ہوجائے یہاں تک کہ اپنادوسورکعت کایا اس سے کم یا اس سے زیادہ کاجوارادہ کیا ہو پورا کرے تو ایسا کرناقرآن وسنت میں وارداس شب کی جلالت ِقدر اور قیام کے لئے اسے کفایت کرے گا۔‘‘(روح البیان ، 10/483)

[2] ایک روایت میں ہے کہ’’ جو شب قدر میں اخلاص کے ساتھ نوافل پڑھے گااس کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے‘‘۔(روح البیان ،10/480)

(نوٹ:یاد رہے کہ یہاں صغیرہ گناہوں کی معافی کا بیان ہے جبکہ کبیرہ گناہ توبہ سے معاف ہوتے ہیں)

[3] ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی:’’یارسول اللہ! اگرمجھے شب قدر کا علم ہوجائے تو کیا پڑھوں؟‘‘حضور نبی کریم نے ارشاد فرمایا:یہ دعا ء ما نگو:اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیترجمہ:اے اللہ !بے شک تُو معاف فرمانے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے لہٰذا مجھے بھی معاف فرمادے۔(سنن ترمذی ،5/306)

[4] امیر المومنین حضرت علی المرتضی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں:’’جو شخص شب قدر میں سورۂ قدر (اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ،پوری سورت) سات بار پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ہر بلا سے محفوظ فرمادیتا ہے اور70 ہزارفرشتے اس کے لئے جنت کی دعا کرتے ہیں اور جو کوئی (سال بھر میں جب کبھی) جمعہ کے دن نمازِ جمعہ سے پہلے تین بارسورۂ قدر پڑھتا ہے اللہ ربُّ العزت اس روز کے تمام نماز پڑھنے والوں کی تعداد کے برابر اس کے لئے نیکیاں لکھتا ہے۔‘‘(نزہۃ المجالس ،1/223)

[5] شب قدرمیں بارہ رکعت نماز تین سلام سے پڑھے، ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قدر ایک بار اور سورۂ اخلاص 15 بار پڑھے اور سلام کے بعد 70 بار اِستغفار (اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ الْعَظِیْمَ وَاَ تُوْبُ اِلَیْہ) پڑھے تو اللہ تعالیٰ نبیوں کی سی عبادت کاثواب عطا فرمائے گا۔

[6]د و رکعت اس طرح پڑھے کہ سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قدر تین تین باراور سورہ ٔاخلاص پانچ پانچ بارپڑھے اور سلام کے بعد سورۂ اخلاص27 بار پڑھ کر گناہوں کی مغفرت طلب کرے اللہ تبارک وتعالیٰ گناہ معاف فرمائے گا۔

[7] ستائیسویں شب دو دو کر کے چار رکعت اس طرح پڑھے کہ سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ تکاثر ایک بار اور سورہ ٔاخلاص تین تین بار پڑھے اللہ ربُّ العزت اس کی برکت سے موت کی سختیاں آسان فرمائے گا۔

[8] دو رکعت نفل اس طرح پڑھے کہ سورۂ فاتحہ کے بعد سورہ ٔالم نشرح ایک بار اور سورۂ اخلاص تین تین بار پڑھے پھر سلام کے بعد 27 بار سورۂ قدر پڑھے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے بے پنا ہ ثواب عطا فرمائے گا۔

[9] چار رکعات اس طرح پڑھی جائیں کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قدر تین تین بار اور سورۂ اخلاص پچاس پچاس بار پڑھے۔ سلام پھیرنے کے بعد سجدہ میں سر رکھ کر ایک بار یہ دعا پڑھے :سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ،اس کے بعد جو بھی دینی یا دنیاوی جائز حاجت طلب کرے وہ پوری ہوگی۔

[10]ستائیسویں رات سورۂ ملک 7 بار پڑھنے والے کے لئے مغفرت کی بشارت ہے۔(اِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالٰی)

(ماخوذاز’’ بارہ ماہ کے فضائل واعمال‘‘،مصنف :مفتی فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ علیہ)

تحریر: محمد آصف اقبال مدنی عطاری


اُمُّ المؤ منین  زوجہ سیِّدُ المرسلین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بہترین مفسر ہ ،محدثہ ،حافظہ،قاریہ، ادیبہ، معلمہ اور زبر دست فقیہ ہیں۔ غرض مجموعہ ٔ حسانات و کمالات ہیں بلکہ بلامبالغہ پوری تاریخ عالم میں اتنی عظیم صفات والی خاتون جو ایک طرف عالمہ ، فاضلہ اور منصب افتا ء پر فائز ہو تو دوسری طرف بہترین خاتون خانہ اور اعلی انتظامی صلاحیتوں کی مالک بھی ہو ، ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔

حضرت عطا رضی اللہ عنہ فرماتے ہے: کَانَتْ عائشۃُ اَفْقَہ الناسِ وَ اَ عْلَمَ الناسِ و اَحْسَنَ النَّاسِ رَأیاً فِیْ العَامَّۃیعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تمام لوگوں سے بڑھ کر فقیہ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر عالمہ اور تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اچھی رائے رکھنے والی تھیں۔ ( المستدرک للحاکم، 5/18،ح:6808)

آپ رضی اللہ عنہا علوم قراٰنیہ، علوم حدیث کی جامع بڑی محدثہ ، بڑی فقیہ تھیں۔ کسی نے عرض کیا کہ اے اُمُّ المؤ منین! قراٰن سےمعلوم ہوتا ہے کہ حج و عمرہ میں صفاو مروہ کی سعی واجب نہیں ،صرف جائز ہےکیونکہ اللہ پاک نے فرمایا: فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَاؕ ( کہ ان کے سعی میں گناہ نہیں) ۔ تو آپ نے جواب دیا: اگر یہ سعی واجب نہ ہوتی تو یوں ارشاد ہوتا وَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ لاَ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا ( کہ ان کے سعی نہ کرنے میں گناہ نہیں)۔دیکھو!اس ایک جواب میں اُصول فقہ کا کتنا دقیق مسئلہ حل فرمادیا کہ واجب کی پہچان یہ ہے کہ اس کے کرنے میں ثواب، نہ کرنے میں گناہ ،جائز کی پہچان یہ ہے کہ اس کے نہ کرنے میں گناہ نہ ہو۔ یہاں آیت میں پہلی بات فرمائی گئی ہے۔(مراٰۃ المناجیح، کتاب المناقب، باب مناقب ازواج النبی،8/505)

حضرت عائشہ کو ابتداء ًکچھ کمالات تو اپنے والد کے گھر میں نصیب ہوئے پھر آپ جب رسو ل خدا ﷺ کے یہاں آئیں تو کاشانہ اقد س میں آپ کی تربیت ہوئی۔آئیے ! اس کی چند جھلکیاں ملاحظہ کرتے ہیں۔

علمی شان وشوکت

آپ رضی اللہ عنہا کاشانۂ اقدس میں آنےکے بعد دن رات سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے دیدار اور صحبتِ بابَرکت سے فیض یاب ہونے کے ساتھ ساتھ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے چشمۂ عِلْم سے بھی خوب سیراب ہوئیں اور اس بحرِ محیط سے عِلْم کے بیش بہا موتی چُن کر آسمانِ عِلْم ومعرفت کی اُن بلندیوں کو پہنچ گئیں جہاں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہُم، آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کے شاگردوں کی فَہْرِسْت میں نظر آنے لگے۔ صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو جب بھی کوئی گھمبیر اور ناحَل مسئلہ آن پڑتا تو اس کے حَل کے لئے آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کی طرف رُجُوع لاتے، چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ عَنۡہُ فرماتے ہیں: ہم اصحابِ رسول کو کسی بات میں اِشْکَال ہوتا تو اُمُّ المؤمنین حضرتِ عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کی بارگاہ میں سوال کرتے اور آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا سے ہی اس بات کا عِلْم پاتے۔ (سنن الترمذی،5/ 471، حديث:3909)

سبق

معلوم ہوا کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کی مبارک معیت کے باعث بہت بڑی عالمہ ، محدثہ اور فقیہ تھیں ۔ قراٰن پاک میں سارے مسائل موجود ہیں لیکن بعض آیات مجملہ ہیں جو مشکلات تھیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دور فرمائیں اور ان آیات کا صحیح مطلب بیان فرما کر مشکلات کو حل فرمایا: گویا حدیث ہمارے لئے مشکل کشا ہے۔ اسی طرح بعض احادیث میں بھی مشکلات پیش آتی رہیں، خدا تعالی نے فقہا علیہم الرحمہ کی فقہ سے احادیث کی ان مشکلات کو دور فر مایا۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا محدثہ بھی تھیں اور فقیہ بھی۔ قراٰن کی مشکلات کو حدیث سے اور حدیث کی مشکلات کو فقہ سے حل فرما دیتی تھیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث کو سمجھنا ہر شخص کا کام نہیں کیونکہ خود صحابہ کرام کو بھی بعض اوقات حدیث کی اصل مراد سمجھنے کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا اور جو کچھ آپ فرمادیتی تھیں اُسے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قبول فرما لیتے تھے۔

مروی روایات کی تعداد

آپ رَضِیَ اللہُ عَنہَا سے دو ہزار دو سو دس (2210) احادیث مروی ہیں جن میں سے 174 مُتَّفَقٌ عَلَیْه یعنی بُخاری ومسلم دونوں میں، 54 احادیث صرف بُخاری شریف میں اور 68 احادیث صرف مسلم شریف میں ہیں۔ ( مدارج النبوۃ، قسم پنجم، باب دُوُم در ذکرِ ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُنَّ، ۲ / ۴۷۳

حضرت عروہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مارایتُ احداً اَعلمُ بفقہ ولا بطبّ ولا بشعر من عائشۃ یعنی میں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے بڑھ کر شعر، طبّ اور فقہ کا عالم کسی کو نہیں پایا۔

طب اور مریضوں کے علاج معالجہ میں بھی انہیں کافی بہت مہارت تھی۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دن حیران ہو کر حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عرض کیا کہ اے اماں جان! مجھے آپ کے علم حدیث و فقہ پر کوئی تعجب نہیں کیونکہ آپ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجیت اور صحبت کا شرف پایا ہے اور آپ رسول اصلی اﷲ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ محبوب ترین زوجہ مقدسہ ہیں اسی طرح مجھے اس پر بھی کوئی تعجب اور حیرانی نہیں ہے کہ آپ کو اس قدر زیادہ عرب کے اشعار کیوں اور کس طرح یاد ہو گئے؟ اس لئے کہ میں جانتا ہوں کہ آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی نور نظر ہیں اور وہ اشعار عرب کے بہت بڑے حافظ و ماہر تھے مگر میں اس بات پر بہت ہی حیران ہوں کہ آخر یہ طِبِّیْ معلومات اور علاج و معالجہ کی مہارت آپ کو کہاں سے اور کیسے حاصل ہو گئی؟ یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی آخری عمر شریف میں اکثر علیل ( یعنی بیماری تشریف لےآتی) ہو جایا کرتے تھے اور عرب و عجم کے اَطبّاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دوائیں تجویز کرتے تھے اور میں ان دواؤں سے آپ کا علاج کیا کرتی تھی (اس لئے مجھے طبّی معلومات بھی حاصل ہو گئیں)۔ (شرح الزرقانی علی المواھب، المقصد الثانی، الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاھرات، عائشۃ اُمِّ المؤمنین،4/389 تا392 ) ۔

آپ رضی اللہ عنہا کے شاگردوں میں صحابہ اور تابعین کی ایک بہت بڑی جماعت ہے اور آپ کے فضائل و مناقب میں بہت سی حدیثیں بھی وارد ہوئی ہیں۔

وفات

17 رمضان شب سہ شنبہ (بروز منگل) ۵۷ھ؁ یا ۵۸ھ ؁ میں مدینہ منورہ کے اندر آپ رضی اللہ عنہا کا 66 سال کی عمر میں وصال ہوا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کی وصیت کے مطابق رات میں لوگوں نے آپ کو جنت البقیع کے قبرستان میں دوسری ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کی قبروں کے پہلو میں دفن کیا۔ (المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب عائشۃ ام المؤمنین،ج۴،ص۳۹۲) ۔اللہ پاک اُمّ المؤمنین کے درجات میں مزید بلندیاں عطا فرمائے اور ہمیں ان کے علمی فیضان سے وافر حصہ مرحمت فرمائیں۔ امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم۔

بنتِ صدّیق آرامِ جانِ نبی

اُس حریمِ برأت پہ لاکھوں سلام

یعنی ہے سورۂ نور جن کی گواہ

ان کی پرنور صورت پہ لاکھوں سلام


استاذالاساتذه فقیہ العصر علامہ مفتی محمد قاسم گڑھی یاسینی علیہ الرحمہ بن استاذالعلماء علامہ مفتی محمد ہاشم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادتِ باسعادت 16 ربیع الآخر 1305ھ بروز اتوار بوقت صبح گڑھی یاسین ضلع شکارپور سندھ میں ہوئی۔ ( مہران سوانح نمبر صفحہ 118 )

تعلیم و تربيت:

استاذالاساتذه فقیہ العصر علامہ مفتی محمد قاسم گڑھی یاسینی علیہ الرحمہ نے درس نظامی کی تمام کتب اپنے والد گرامی استاذالعلماء علامہ مفتی محمد ہاشم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ کے پاس پڑھیں اور ان کے وصال کے بعد آخری دو تین کتب برصغیر کے فقیہِ اعظم رئیس العلماء سند الفقہاء علامہ عبدالغفور مفتون ہمایونی رحمۃُ اللہِ علیہ کے پاس ہمایوں شریف میں پڑھیں اور 1323ھ میں انہیں کے پاس دستار فضیلت ہوئی۔ ( مختصر سوانح حیات مفتی محمد قاسم گڑہی یاسینی صفحہ 07 )

درس و تدريس:

مولانا محمد حسین کہاوڑ رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں کہ آپ کے پاس مکران، بلوچستان، پنجاب اور سندھ کے دور دراز علاقوں سے طالب علم دینی تعلیم حاصل کرنے آتے اور فیضیاب ہوکر لوٹتے، ( مختصر سوانح مفتی محمد قاسم گڑھی یاسینی صفحہ 7-8 ) مفتی محمد قاسم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ علم و ادب اور عربیت کے بہت بڑے عالم تھے ،سندھ میں ان کے ہمعصر علماء میں سے کوئی بھی ان کا ہم پلہ نہ تھا ، انہیں فقہ کے مسائل حل کرنے اور فتوی نویسی میں مہارت حاصل تھی، علامہ عبدالغفور مفتون ہمایونی رحمۃُ اللہِ علیہ کے وصال کے بعد بلوچستان اور جنوبی سندھ کے لوگ فتوے کے لئے آپ کے پاس آتے تھے اس کے ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ ( تذکرہ مشاہیر سندھ صفحہ 257 )

تصنیف و تاليف:

مفتی محمد قاسم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ کی تصانیف میں (01)فتاوی قاسمیہ (02) اہلسنت کے عقائد کے متعلق تحریر کردہ رسالہ’’عقائد نامہ اہلسنت‘‘ (03)”عمدة الآثار فی تذکرة الاخیار الکٹبار مشائخ درگاہ کٹبار شریف“ (4) دربارہ تقلید (05) الفاظ القرآن با معنی فارسی (6) مجموعہ اشعار۔ ( انوار علمائے اہلسنت سندھ صفحہ 803 )

بیعت:

مفتی محمد قاسم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ غوث الزمان حضرت خواجہ عبدالرحمان مجددی نقشبندی فاروقی رحمۃُ اللہِ علیہ سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت ہوئے ۔( مہران سوانح نمبر صفحہ 120 )

تلامذہ:

مفتی محمد قاسم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ کے تلامذہ کی فہرست میں کثیر علماء کے نام شامل ہیں جن میں سے چند کے نام یہ ہیں: آپ کے چھوٹے بھائی استاذالعلماء مفتی محمد ابراھیم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ ، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد خان جمالی رحمۃُ اللہِ علیہ، مولانا احمد صاحب رحمۃُ اللہِ علیہ قاضی مکران بلوچستان، مولانا نصير الدين صاحب رحمۃُ اللہِ علیہ شہدادکوٹ، مولانا محمد حسين کہاوڑ رحمۃُ اللہِ علیہ جیکب آباد، مولانا میاں فخر الدین رحمۃُ اللہِ علیہ کٹبار شریف بلوچستان، صاحبزادہ عبدالغفار جان سرہندی رحمۃُ اللہِ علیہ و صاحبزادہ غلام احمد جان سرہندی رحمۃُ اللہِ علیہ ٹنڈو محمد خان وغیرہ ۔(انوار علماء اہلسنت سندھ صفحہ 803-804 )

شعر و شاعری:

مفتی محمد قاسم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ شاعری کا بھی ذوق رکھتے تھے، عارف کامل سیّد احمد خالد شامی رحمۃُ اللہِ علیہ جوخود بلند پائے کے شاعر تھے وہ بھی آپ علی کی اشعار سن کر آپ کو داد دیتے تھے، آپ عربی زبان فصاحت کے ساتھ بولتے تھے جس کے خود اہل عرب بھی معترف تھے، ایک بار سید جمال الدین جیلانی سید عبدالرحمان ( سجاہ نشین خانقاہ عالیہ حضور غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ ) کے فرزند علامہ مفتی محمد قاسم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ کی فصیح عربی زبان سن کر بے انتہا محظوظ ہوئے اور حاضرین مجلس کو کہنے لگے میں نے قلات سے لیکر سو رت تک سارا ہندوستان دیکھا ہے لیکن ان جیسا عالم کہیں نہیں دیکھا، شاعری میں آپ علیہ الرحمہ کا تخلص " قاسم " تھا، آپ علیہ الرحمہ نے سندھی کے علاوہ عربی و فارسی زبان میں بھی شاعری کی ہے، آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی شاعری میں قصائد، قطعات، منظومات و مناجات وغیرہ شامل ہیں۔( مہران سوانح نمبر صفحہ 120 انوار علمائے اہلسنت سندھ صفحہ 804 )

وصال:

مفتی محمد قاسم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ نے 44 برس کی عمر میں 18 ذوالقعد الحرام 1349ھ بمطابق 1929ء کو اس عالم فانی سے وصال فرمایا، آپ کی نماز جنازہ آغا عبدالستار جان سرہندی رحمۃُ اللہِ علیہ نے پڑھائی جس میں کثیر تعداد میں آپ کے تلامذہ و عقیدت مند شریک ہوئے۔ ( مختصر سوانح حیات مفتی محمد قاسم گڑھی یاسینی صفحہ 25 )

صاحب تکبیر کا لقب:

علامہ مفتی محمد قاسم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ کو صاحب تکبیر بھی کہا جاتا ہے وہ اس لئے کہ آپ کی نماز جنازہ پڑھاتے ہوئے جیسے ہی امام صاحب نے اللہ اکبر کی آواز بلند کی اسی وقت آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کے کفن کے اندر سے بھی اللہ اکبر کی آواز بلند ہوئی۔ ( انوار علمائے اہلسنت سندھ صفحہ 804 )

مزار شریف:

مفتی محمد قاسم گڑھی یاسینی رحمۃُ اللہِ علیہ کا مزار شریف گڑھی یاسین ضلع شکارپور میں واقع ہے۔ اللہ کریم ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے صدقے ہماری مغفرت فرمائے۔ آمین یارب العالمین،

از:قمرالدين عطاری عفی عنہ

05 رمضان المبارک 1443ھ

06 اپریل 2022ع شب پنجشنبہ


فیضانِ غزوہ ٔ بدر

Sat, 16 Apr , 2022
2 years ago

آغاز ِدعوتِ اسلام اور  کفار مکہ کا رد عمل

جب سے اللہ پاک کے آخری نبی ، مکی مدنی ، محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کفار مکہ کے سامنے اپنی نبوت اور رسالت کا اعلان فرمایا۔ کفار مکہ کو بتوں کو پوجنے سے منع کیا اور خدائے واحد کی عبادت کی طرف بلانا شروع کیا تب سے کفر و شرک کی فضاؤں میں پروان چڑھنے والے لوگ حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے۔ کل تک جو لوگ آپ کو صادق اور امین کا لقب (Title)دیتے آج وہ آپ کی جان کے دشمن بن گئے. حالانکہ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زندگی بھر کا ہر ہر گوشہ ہر ہر لمحہ ان کے سامنے تھا جو پھول سے زیادہ شگفتہ ، شبنم سے زیادہ پاکیزہ ، آفتاب سے زیادہ روشن ، مہتاب سے زیادہ چمکدار ، ہر قسم کے ظاہری اور باطنی نقص سے پاک تھا. اس کے باوجود کفار مکہ نے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان کے ساتھیوں پر ظلم و ستم کی آندھیاں چلائی۔

درندہ صفت کفار جناب رحمت عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے راہ میں کانٹے بچھاتے ، جسم نازنین پرپتھر برساتے ، گالیاں دیتے ، سجدے کی حالت میں پیٹھ پراونٹ کی اوجڑی ڈال دیتے ، دیوانہ ،مجنون اور شاعر ہونے کا پروپیگنڈا کرتے ۔ نبوت کے روشن دلائل دیکھنے کے باوجود بھی ایمان نہ لائے ۔ معجزات دیکھ کر کفار مکہ جب لا جواب ہو جاتے تو بجائے ایمان لانے کے وہ کہتے کہ یہ تو کاہن ، ساحر اور جادوگر ہیں ۔ اتنی سخت تکلیفیں اور ایذایتیں جھیلنے کے بعد بھی سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے خلاف کوئی جوابی کاروائی(Reply Action) نہ کرتے بلکہ صبر و تحمل سے کام لیتے۔حسن اخلاق کے پیکر پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا انداز کریمہ تو یہ تھا کہ جو لوگ آپ کو اذیتیں پہنچاتے ہیں آپ تو ان کے لیے بھی دعائیں کرتے تھے

سلام اس پر جس نے خون کے پیاسوں کو قبائیں دیں

سلام اس پر جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں

صحابہ کرام عَلَيهِم الرّضوَان پر مظالم

سنگ دل ، بے رحم کفار شمعِ نبوت کے جاں  نثار پروانوں  حضرت بلال، حضرت صہیب، حضرت عمار، حضرت خباب  رَضِیَ اللہ عَنْہُم وغیرہ کو رسیوں  سے باندھتے اور پھر کوڑے مار مار کرجلتی ہوئی ریتوں  پر لٹاتے ، کسی کو آگ کے دہکتے ہوئے کوئلوں  پر سلاتے ، کسی کو باندھ کر کوچے و بازاروں میں گھسیٹتے ، کسی کو چٹائیوں  میں  لپیٹ لپیٹ کر ناکوں  میں  دھوئیں  دیتے ،کسی کی پیٹھ پر لاٹھیاں برساتے ، کسی کا گلا گھونٹتے ، الغرض کفار مکہ نے ان عظیم ہستیوں پر ظلم و زیادتیوں کے پہاڑ توڑے ۔مگر خدا کی قسم ! ان حضرات نے استقلال و استقامت کا وہ منظر پیش کیا کہ بلند و بالا چوٹیاں سر اٹھا اٹھا کر حیرت کے ساتھ ان سچے جان نثاروں کے جذبہ استقامت کا نظارہ کرتی تھی۔

نبی کو اور مسلمانوں کو تکلیفیں لگی ملنے

وہ تکلیفیں کہ جن سے عرش اعظم لگا ہلنے

لٹاتے تھے کسی کو تپتی تپتی ریت کے اوپر

تو رکھتے تھے کسی کے سینہ بے کینہ پر پتھر

محمد کی محبت میں ہزاروں ظلم سہتے تھے

خدا پر تھی نظر ان کی زباں سے کچھ نہ کہتے تھے

اے عاشقان رسول! دیکھا آپ نے ہمارے پیارے صحابہ کرام رَضِیَ اللہ  عَنْہُم نے دین اسلام کی خاطر کتنی قربانیاں دیں کتنی تکلیفیں جھیلی لیکن نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی غلامی سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے۔ گویا زبان حال سے وہ یہ کہہ رہے تھے کہ "بھلے پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں یا ریزہ ریزہ ہو جائے. ہم موت کو تو گلے لگا سکتے ہیں لیکن دامن مصطفی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نہیں چھوڑ سکتے. اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ صحابہ کرام  رَضِیَ اللہ  عَنْہُم اپنے آقا اور مولا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کتنے وفادار ساتھی تھے. مصائب و آلام کے ایسے زور دار طوفان آئے کہ ایمان پر ثابت قدم رہنا دشوار ہو جائے لیکن صحابہ کرام  رَضِیَ اللہ  عَنْہُم کاایمان اور مضبوط ہوجاتا۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللہ  عَنْہُم نے اپنے گھر بار ، بال بچے ، ماں باپ ، رشتے دار مال ودولت سب کچھ چھوڑدیا لیکن اپنے پیارے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دامن نہ چھوڑا۔ آج جو لوگ صحابہ کرام جیسی مبارک ہستیوں پر طعن وتشنیع کرتے ہیں ان کے لیے مقام فکر ہے ۔

اس میں مبلغین کیلئے بھی درس ہے کہ اگر نیکی کی دعوت دینے پر کوئی تکلیف یا آزمائش آئے تو صحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہم کی تکالیف کو یاد کرنا چاہیے کہ انہوں نے تو اتنی اذیتیں برداشت کی ہیں۔ ہماری تکلیفیں ان کی ایک تکلیف کے کروڑویں حصے کے ایک ذرے کے برابر بھی نہیں ہے۔

(پہلا باب ) جنگ بدر کا پس منظر

ہجرت اول =حبشہ کی طرف ہجرت

کفار مکہ نے جب اپنے ظلم وستم سےمسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا تو حضور رحمت عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسلمانوں کو حبشہ جا کر پناہ لینے کا حکم دیا۔صحابہ کرام  رَضِیَ اللہ  عَنْہُم کا ایک گروہ ہجرت کر کے حبشہ میں امن و سکون کی حالت میں رہنے لگا. لیکن کفار مکہ کو یہ کب گوار تھا کہ مسلمان امن اور چین کے حالت میں رہے. چنانچہ انہوں نے اپنے کچھ شریر لوگ حبشم بھیجے تاکہ وہاں بھی مسلمانوں کا جینا دو بھر(یعنی مشکل) کر دیں۔(سیرت مصطفی ص126 خلاصا)

ہجرت ثانی=مدینہ منورہ کی طرف ہجرت

اعلان نبوت کے دس سال بعد تک مسلمان اسی طرح کفار کے ظلم و ستم کو برداشت کرتے رہے. بالآخر اللہ کریم کےحکم سے مسلمانوں نے اور خود پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مدینے کی طرف ہجرت فرمائی۔ اعلان نبوت سے لے کر ہجرت کے پہلے سال تک مسلمانوں کو کفار سے جنگ کرنے کی اجازت نہ تھی ۔بلکہ کفار کی طرف سےپہنچنے والی ایذیتوں اور تکلیفوں کو صبر وتحمل سےبرداشت کر کے دلائل اور موعظہ حسنہ کے ذریعے لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے کا حکم تھا ۔

جہاد کرنے کی اجازت

جب سارےکفارمکہ اور مدینہ کے یہودی ان مٹھی بھر مسلمانوں کے مخالف ہوگئے اور انہوں نے مسلمانوں کو سرے سے ختم کردینے کا عزم کرلیا تو اللہ پاک نے مسلمانوں کو کفار سے جنگ کرنے کی اجازت دی۔

چنانچہ اللہ پاک پارہ 17 سورہ الحج کی ایت نمبر 39 میں ارشاد فرماتاہے

اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْاؕ-وَ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَصْرِهِمْ لَقَدِیْر

ترجمۂ کنز الایمان: پروانگی عطا ہوئی انہیں جن سے کافر لڑتے ہیں اس بنا پر کہ ان پر ظلم ہوا اور بیشک اللہ اُن کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے۔

اس آیت مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ کفار ِمکہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم کو ہاتھ اور زبان سے شدید اِیذائیں دیتے اور تکلیفیں  پہنچاتے رہتے تھے اورصحابۂ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس اس حال میں  پہنچتے تھے کہ کسی کا سر پھٹا ہے ،کسی کا ہاتھ ٹوٹا ہے اورکسی کا پاؤں  بندھا ہوا ہے۔ روزانہ اس قسم کی شکایتیں  بارگاہِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں پہنچتی تھیں اورصحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم رسول کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں  کفار کے ظلم و ستم کی فریادیں  کیا کرتے اور آپ یہ فرما دیا کرتے کہ’’ صبر کرو، مجھے ابھی جہاد کا حکم نہیں  دیا گیا ہے۔ جب حضور اکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وسَلَّمَ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی ،تب یہ آیت نازل ہوئی اور یہ وہ پہلی آیت ہے جس میں  کفار کے ساتھ جنگ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین کی طرف سے جن مسلمانوں  سے لڑائی کی جاتی ہے انہیں  مشرکین کے ساتھ جہاد کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور بیشک اللہ اِن مسلمانوں  کی مدد کرنے پر ضرور قادر ہے۔ (تفسیر روح البیان، الحج، تحت الآیۃ ۳۹ )

١٢صفر المظفر  ، ٢ہجری کو یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی(سیرت مصطفی ص 197) جس میں مسلمانوں کو کفار سے جہاد کرنے کی اجاز ملی۔ اس آیت کریمہ کے نزول بعد سے غزوات اور سرایا کا آغاز ہوا ۔

کفار مکہ کی سازشیں اور لڑائیوں کا آغاز

اللہ پاک کے آخری نبی ، رسول ہاشمی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے صحابہ کرام رَضِیَ اللہ  عَنْہُم نے اپنا سب مال و متاع مکے میں چھوڑ کر نہایت بیکسی کی حالت میں مدینے کو ہجرت کی۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کفار مکہ مسلمانوں کی دشمنی کو چھوڑ دیتے کیونکہ مسلمان ان کے شہر یعنی مکہ سے چلے گئے لیکن ان دین اسلام کے دشمنوں کے غضب کو اور زیادہ آگ لگ گئی. اب تو یہ مدینے والوں کے بھی دشمن بن گئے ۔انہیں بھی دھمکیاں دینے لگے. چنانچہ ہجرت کے چند روز بعد کفار مکہ نے انصار کے امیر عبداللہ بن ابی کو ایک دھمکیوں بھرا خط بھیجا جس میں لکھا تھا:

"تم نے ہمارے بندے محمد(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کو اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے. ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو تم لوگ ان کو قتل کر دو یا مدینے سے نکال دو. ورنہ ہم سب لوگ تم پر حملہ کر دیں گے تو میں تمام لڑنے والے جونوں کو قتل کر کے تمہاری عورتوں پر تصرف کریں گے" (ابو داؤد ج2 باب فی خبر النفیر)

کفار مکہ مسلمانوں کی دشمنی میں اس قدر بڑھے کہ مدینے پر حملہ کرنے کی تیاریاں کرنے لگے رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کے پیارے صحابہ کرام  رَضِیَ اللہ  عَنْہُم راتیں جاگ جاگ کر بسر کرتے تھے ۔ حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی اور صحابہ کرام  رَضِیَ اللہ  عَنْہُم کی حفاظت کیلئے دو اقدامات کرنے کا فیصلہ فرمایا

1۔ کفار مکہ کی ملک شام سے ہونے والی تجارت کے راستے کو روکنا تاکہ وہ لوگ صلح پر راضی ہو ۔

2۔ مدینہ منورہ کے اطراف کے تمام قبائل سے صلح کے معاہدے کرنا تاکہ کفا مکہ مدینے پر حملہ کی جرات نہ کرسکے۔

اس سلسلے میں کفار اور ان کے مختلف حلیفوں سے ٹکراو شروع ہوا۔ پھر کفار کے ساتھ چھوٹی بڑی کئی لڑائیاں ہوئی جنہیں تاریخ اسلام میں غزوات اور سرایا کا نام دیا جاتا ہے۔

غزوہ اور سریۃ کسے کہتے ہیں؟

غزوہ اور سریۃ دو مختلف اصطلاحات (Terms) ہیں۔ ان کا فرق جاننا ضروری ہے چنانچہ جن جنگوں میں اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود شرکت کی انہیں محدثین کی اصطلاح میں اسے"مغازی" یا "غزوہ" کہتے ہیں۔

اور وہ لشکر جس میں نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خود شریک نہ ہوئے بلکہ اپنے صحابہ کرام  رَضِیَ اللہ عَنْہُم کو امیر بنا کر بھیجا اسے" سریہ" کہتے ہیں۔(مدارج نبوت باب دوم 76/2) (سیرت سید الانبیاء ص176)

غزوہ کی جمع "غزوات" سریہ کی جمع "سرایا" ہے۔

غزوہ اور سریۃ کی تعداد

غزوات اور سرایا کی تعداد کے بارے میں اختلاف. امام بخاری کی روایت کے مطابق غزوات کی تعداد 19 ہے. جن میں سے صرف 9 ایسے غزوہ ہیں جن میں جنگ کی نوبت پیش ہے.(بخاری ، کتاب المغازی ، باب غزوہ العشیرہ 3/3) جبکہ سریہ کی تعداد 47 یا 56 ہے۔(شرح الزرقانی علی المواھب 221/2)

جن 9 غزوات میں جنگ کی نوبت پیش آئی ان کے نام یہ ہیں۔

1۔ جنگ بدر۔ 2۔ جنگ احد۔ 3۔ جنگ احزاب 4۔ جنگ بنو قریظہ 5۔ جنگ بنو المصطلق 6۔جنگ خیبر۔ 7۔ فتح مکہ۔ 8۔ جنگ حنین۔ 9۔ جنگ طائف(شرح الزرقانی علی المواھب 221/2)

علم المغازی( غزوات کے علم )کی اہمیت

غزوات مصطفےصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا باب (Chapter)بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔غزوات کا علم بڑی شان و شوکت والا علم ہے کیونکہ ان جنگوں کو خود پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نسبت ہے اور جس چیز کو حضور سے نسبت ہو جائے تو وہ شان والی ہوجاتی ہے ۔آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت کا بڑا حصہ غزوات پر مشتمل ہے اور اس میں ہمارے لیے سیکھنے اور سمجھنے کو بہت کچھ ہے ۔ چنانچہ علم المغازی کی اہمیت پر تین قول ملاحظہ ہو۔

1۔جنتی صحابی ، حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے پوتے حضرت اسماعیل بن محمدرَحْمَۃُاللہ عَلَیْہِ  فرماتے ہیں کہ ہمارے والد غزوات رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تعلیم دیتے تھے اور فرماتے ہیں یَا بُنَیَّ ھَذِہٖ مَآثِرُابَائِکُمْ فَلَا تُضِیْعُوْ ا ذِکْرَھَا" اے میرے بیٹے یہ تمہارے آباؤ اجداد کا شرف لہذا ان کو ضائع مت کرنا"(سبل الہدی و الرشاد 10/4(

.2۔ امام حسین کے شہزادے ،تابعی بزرگ ، امام زین العابدین رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہِ  فرماتے ہیں کُنَّا نَعْلَمُ مُغَازِی االنَّبِيِ کَمَا نَعْلَمُ السُّوْرَةَ مِنَ الْقُرْآن ترجمہ"ہمیں غزوات رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے متعلق بھی قرآن پاک کی سورتوں کی طرح معلومات دی جاتی)البدایة والنھایة ج2 ص 642 )(سبل الہدی و الرشاد 10/4(

3۔ سیدنا امام زہری رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں فِي عِلْمِ الْمُغَازِی عِلْمُ الْآخِرَةِ وَالدُّنْیَاترجمہ علم المغازی میں دنیا واخرت کے علوم موجود ہیں۔(البدایة والنھایة ج2 ص 642 دار الفکر ،بیروت(

کفار مکہ کے تجارتی قافلہ کا پیچھا تعاقب

ماہ جُمَادَى الاُخرىٰ سن 2 ہجری کو کفار مکہ ایک قافلہ تجارت کا سامان لے کر مکہ سے ملک شام جارہا تھا۔حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ 150 یا 200 مہاجرین صحابہ کو ساتھ لے کر اس قافلے کا راستہ روکنے کے لیے مقام " ذی العشیرہ" تک تشریف لے گئے۔ جو يَنْبُع کی بندرگاہ کے قریب ہے. مگر یہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ قافلہ بہت آگے بڑھ گیا ہے. اس میں کوئی لڑائی وغیرہ واقعہ نہیں ہوئی۔ (المواھب اللدنیۃ والزرقانی ج2 ص 232 ۔234)

مقام " ذی العشیرہ "کی وجہ سے اس غزوہ کو" غزوہ ذ ی العشیرہ" کہتے ہیں۔

مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے والا پہلا کافر

ماہ رجب سن 2 ہجری میں سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبداللہ بن حجش رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو امیر لشکر بنا کر 8 یا 12 مہاجرین کا ایک قافلہ مقام " نخلہ " کی طرف بھیجا جو طائف اور مکہ کے درمیان ایک جگہ ہے۔ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہے ہدایات فرمائی کہ تم نخلہ میں ٹھہر کر قریش کے قافلوں پر نظر رکھوں اور ہمیں صورت حال کی خبر دیتے رہنا۔ عجیب اتفاق کہ جس دن یہ لوگ مقام نخلہ پہنچے اسی دن کفار قریش کا ایک تجارتی قافلہ آیا جس میں عَمرو بن الحَضْرَمى اور عبداللہ بن مغیرہ کے دو لڑکے عثمان اور نوفل اور ان کے ساتھ کچھ دیگر لوگ بھی تھے۔ اس کے علاوہ اونٹوں پر کھجور اور دوسرا مال تجارت لدا ہوا تھا۔ چنانچہ حضرت واقد بن تمیمی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے ایک ایسا تاک (نشانہ بنا ) کر تیر مارا کہ عَمرو بن الحَضْرَمى کو لگا اور اسی تیر سے وہ قتل ہو گیا۔ عثمان کو ان لوگوں نے گرفتار کر لیا جبکہ نوفل بھاگ گیا۔ حضرت عبداللہ بن حجش رَضِیَ اللہُ عَنْہُ اسیروں (قیدیوں ) اور مال غنیمت لے کر رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔(المواھب اللدنیة و شرح الزرقانی ج2 ص 238) سیرت کی کتابوں میں اس واقعے کو۔ سریہ حضرت عبداللہ بن حجش رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

عَمرو بن الحَضْرَمى وہ پہلا کافر تھا جو مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا ۔یہ عبداللہ حضرمی کا بیٹا تھا۔سریہ حضرت عبداللہ بن حجش میں جو لوگ قتل یا گرفتار ہوئے وہ بہت رئیس خاندان کے لوگ شمار کیے جاتے تھے ۔ اس واقعے کی وجہ سے کفار غصے سے آگ بگولہ ہوگئے۔ اور انہوں نے مسلمانوں سے بدلہ لینے کی ٹھان لی۔ "خون کا بدلہ خون "کے نعرے لگانے لگے ۔

جنگ بدر کے اسباب

مسلمانوں کی کافروں کے ساتھ جو پہلی سب سے بڑی جنگ ہوئی اسے " غزوہ بدر " کہتے ہیں۔

غزوہ بدر کا اصلی سبب تو عَمرو بن الحَضْرَمى کا فر کا قتل تھا۔ اس قتل کی وجہ سے کفار قریش میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھی۔جیسا کہ حضرت عروہ بن زبیر کا بیان کہ جنگ بدر اور تمام لڑائیاں جو کفار قریش سے ہوئی. ان سب کا بنیادی سبب عَمرو بن الحَضْرَمى کا قتل ہے جس کو. حضرت واقد بن عبداللہ تمیمی نے تیر مار کر قتل کر دیا تھا۔(تاریخ طبری، جزء2 ، ص131)

مگر اچانک یہ صورت حال پیدا ہوئی کہ قریش کا وہ قافلہ جس کی تلاش میں حضورپرنور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مقام ذی العشیرہ تک تشریف لے گئےلیکن قافلہ ہاتھ نہیں آیا تھا۔ بالکل اچانک مدینہ میں خبر ملی کہ اب وہی قافلہ ملک شام سے لوٹ کر مکہ جانے والے اور یہ بھی پتہ چل گیا کہ اس قافلے میں کل تیس یا چالیس افراد ہیں جن کی نگرانی ابو سفیان کررہا ہےاور کفار قریش کا بہت زیادہ مال تجارت اس قافلے میں موجود ہے ۔

سرکار دوجہاں صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے پیارے اصحاب سے فرمایا کافروں کی ٹولیاں ہماری تلاش میں بھی رہتی ہیں اور ان کی ایک ٹولی تو شہر مدینہ میں ڈاکہ ڈال کر گئی ہے ایسا کیوں نہ ہم کفار قریش کے اس قافلے پر حملہ کر دیں اس کی شامی تجارت کا راستہ رک جائے اور وہ مجبور ہو کر ہم سے صلح کر لے۔

مسلمانوں کا سامان جنگ

جب یہ قافلہ مقام بدر کے قریب پہنچا تو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس قافلے کی خبر ملی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فورا مسلمانوں کو نکلنے کی دعوت دی ۔چنانچہ 12 رمضان المبارک سن 2 ہجری بروز ہفتہ کو مسلمانوں کا لشکر مدینے سے نکلا ۔ جو جس حالت میں تھا اسی حال میں روانہ ہوگیا۔اس لشکر میں مسلمانوں کے پاس کوئی بڑی فوج بھی نہ تھی اور نہ ہی زیادہ ہتھیار تھے ۔ کیونکہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ بڑی جنگ ہوگی۔ مسلمان تو صرف کفار قریش کے قافلے پر حملہ کرنے کیلئے نکلے تھے ۔

اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد 313 تھی جن کے پاس صرف 2 گھوڑے ، 70 اونٹ ، 6زرہیں (لوہے کا جنگی لباس۔ Body Armor) اور 8 تلوار یں تھی۔(معجم کبیر 133/11 حدیث 11377 زرقانی علی المواھب 260/2) ۔

مگر ان کا جذبہ ایمانی بے مثال تھا ۔انہیں سامان جنگ پر نہیں اللہ و رسول پر بھروسہ تھا۔اس چھوٹے سے قافلے کے سپہ سالار اعظم (chief commander ) خود سید عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تھے۔اس لشکر کی منظر کشی کرتے کسی شاعر نے لکھا

تھے ان کے پاس دو گھوڑے ، چھ زرہیں ، آٹھ شمشیریں

پلٹنے آئے تھے یہ لوگ دنیا بھر کی تقدیریں

سواری کے لیے تین تین مجاہدین کو ایک ایک اونٹ ملا ہوا تھا۔چنانچہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، حضرت علی اور حضرت مَرثَد غَنَوِى ایک اونٹ پر۔ ( مقام روحاء تک حضرت مرثد کی جگہ حضرت ابو لبابہ تھے )اور حضرت ابوبکر, حضرت عمر, حضرت عبدالرحمن بن عوف دوسرے اونٹ پر باری باری سوار ہوتے تھے۔ جب پیارے اقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیدل چلنے کی باری آتی۔حضرت علی اور ابو لبابا عرض کرتےحضور آپ سوار ہو جائے آپ کی جگہ ہم پیدل چلتے ہیں مگر رحم وکرم فرمانے والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے "تم پیدل چلنے پر مجھ سے زیادہ قادر نہیں ہو اور نہ میں تمہاری نسبت اجر کا کم خواہاں(چاہنے والا ) ہوں (طبقات ابن سعد ۔ غزوہ بدر)

بدر ایک کنواں کا نام ہے

بدر مدینہ منورہ سے 80 میل کے فاصلے پر ایک گاؤں کا نام ہے ۔جہاں زمانہ جاہلیت میں سالانہ میلہ لگتا تھا۔موجودہ روڈ کے اعتبار سے یہ تقریبا 152 کلومیٹر کا سفر ہے۔ جہاں ایک کنواں بھی تھا۔ جس کے مالک کا نام" بدر " تھا،اسی کے نام پر اس کا نام بدر رکھ دیا گیا. اسی مقام پر جنگ بدر کا وہ عظیم معرکہ ہوا۔ جس میں کفار قریش اور مسلمانوں کے درمیان سخت جنگ ہوئی اور مسلمانوں کو وہ عظیم الشان فتح مبین نصیب ہوئی جس کے بعد اسلام کی عزت اور اقبال کا پرچم اتنا سر بلند ہو گیا کہ کفار قریش کی عظمت وشوکت بالکل ہی خاک میں مل گئے. اللہ پاک نے جنگ بدر کے اس دن کا نام" یوم الفرقان " رکھا۔(المواھب اللدنیۃ و الزرقانی ج2 ص255)

انصار اور مہاجرین کا جذبہ جہاد

کفارمکہ تک یہ خبر پہنچ گئی کہ مسلمان ہمارے تجارتی قافلے پر حملہ کر رہے ہیں. تو مکے والے مسلمانوں سے لڑنے کی تیاری کرنے لگے۔ تو نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ کو جمع فرما کر آگاہ فرمایا اور صحابہ کرام کو بتا دیا کہ ممکن ہے کہ سفر میں کفارقریش کے قافلے سے ملاقات ہو جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کفار مکہ کے لشکر سے جنگ کی نوبت آجائے۔

پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا یہ فرمان سن کر ابوبکر صدیق ، عمر فاروق اور دوسرے مہاجرین نے بڑے جوش و خروش کا اظہار کیا۔ مگر مصطفے جان رحمت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّ انصار کا منہ دیکھ رہے تھے کیونکہ انصار نے آپ کے دست مبارک پر بیعت کرتے وقت اس بات کا عہد کیا تھا کہ اس وقت تلوار اٹھائیں گے جب کفار مدینہ پر چڑھ آئیں گے. اور اب مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کرنے کا معاملہ تھا۔

حضرت ابوبکر وحضرت عمر رضی اللہ عنہما نے عرض کی: اے ہادی دوراں (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)ہمارے مال وجاں اولاد سب کچھ آپ پر قرباں حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ  نے کھڑے ہو کر عرض کی: یارسولَ اللہ !صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہماری رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں ، اس ذات کی قسم ! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اگر آپ   صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم ارشاد فرمائیں تو ہم اس میں کود جائیں گے۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب غزوۃ البدر، ص981 ،الحدیث :1779)

انصار کے ایک معزز سردار حضرت مقداد بن اسود رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے عرض کی: یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،ہم حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کی طرح یہ نہ کہیں گے کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور آپ کا خدا عَزَّوَجَلَّ جا کر لڑیں بلکہ ہم لوگ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے دائیں سے، بائیں سے،آگے سے، پیچھے سے لڑیں گے۔ یہ سن کر نور والے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا چہرۂ انور خوشی سے چمک اٹھا۔ (بخاری، کتاب المغازی، 3/ 5 ، الحدیث: 3952)

حضرت موسی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام   کے ساتھ بنی اسرائیل کا سلوک

اللہ پاک کی پیارے نبی حضرت موسی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم کے واقعے کا پس منظر یہ ہے کہ جب اللہ پاک نے فرعون کو دریائے نیل میں غرق کیا ۔فرعون کے غرق ہونے کے بعد بنی اسرائیل دوبارہ مصر میں آباد ہوگئے۔ کچھ عرصے بعد حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے انہیں حکمِ الہٰی سنایا کہ ملک ِشام حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور ان کی اولاد کا مدفن ہے اوراسی میں بیت المقدس ہے، اُسے عمالِقہ قبیلے سے آزاد کرانے کے لیے جہاد کرو اور مصر چھوڑ کر وہیں وطن بناؤ ۔اللہ رب العزت کا حکم نازل ہوا

وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ فَكُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا۔ (البقرہ 1 آیت 58)

ترجمہ کنزالایمان:اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤ پھر اس میں جہاں چاہو بے روک ٹوک کھاؤ

اس شہر سے مراد بیت المقدس ہے یا اس کے قریب شہر اریحا ہے جس میں عمالقہ قبیلے کے لوگ آباد تھے۔ قوم عمالقہ کے لوگ بد ترین کافر اور بڑے طاقتور تھے۔ ان کے جسم بہت بڑے تھے کہ ان کے بدن کی جسامت دیکھ کر انسان خوفزدہ ہو جائے۔ یہ بڑے جفاکش اور جنگجو لوگ تھے. حضرت موسی بنی اسرائیل کو ہمراہ لے کر قوم عمالقہ سے جہاد کرنے روانہ ہوئے. جب یہ لشکر بیت المقدس شہر کے قریب پہنچا تو بنی اسرائیل ایک دم بزدل ہو گئے۔دو حضرات کالب بن یوقنا اور یوشع بن نون رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا نے جرأت مندی کا مظاہرہ کیا۔ یہ دونوں حضرات اُن سرداروں میں سے تھے جنہیں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے قوم عمالقہ کا حال دریافت کرنے کے لئے بھیجا اور انہوں نے حالات معلوم کرنے کے بعد حکم کے مطابق جبارین کا حال صرف حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کیا اور دوسروں کو نہ بتایا ۔ ان دونوں حضرات نے قوم کو جوش دلانے کیلئے فرمایا

ادْخُلُوْا عَلَیْهِمُ الْبَابَۚ-فَاِذَا دَخَلْتُمُوْهُ فَاِنَّكُمْ غٰلِبُوْنَ وَ عَلَى اللّٰهِ فَتَوَكَّلُوْۤا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ (پارہ 6 المائدہ 23)

ترجمہ کنزالایمان:دروازے میں ان پر داخل ہو اگر تم دروازے میں داخل ہوگئے تو تمہارا ہی غلبہ ہے اور اللہ ہی پر بھروسہ کرو اگر تمہیں ایمان ہے۔

حضرت کالب بن یوقنا اور یوشع بن نون رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا کی باتیں سن کر قوم کو کوئی اثر نہ ہوا بلکہ انہوں نے نہایت بزدلی کا ثبوت دیتے ہوئے حضرت موسی کے ساتھ جہاد میں جانے سے صاف انکار کر دیا اور کہا

قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ

ترجمۂ کنز الایمان:بولے اے موسیٰ ہم تو وہاں کبھی نہ جائیں گے جب تک وہ وہاں ہیں تو آپ جائیے اور آپ کا رب تم دونوں لڑو ہم یہاں بیٹھے ہیں۔(پارہ6 المائدہ 24)

جو روتا ہے اس کا کام ہوتا ہے

مدینہ منورہ سے ایک میل دور چل کر سید الانبیاء صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے لشکر کا جائزہ لیا جو صغیر السن (کم عمر) تھے۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کو واپس کر دیا ۔جنتی صحابی رسول حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے چھوٹے بھائی حضرت سیدنا عمیر بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ عَنْہُ جو ابھی نو عمر ہی تھے ۔فوج کی تیاری کے وقت ادھر ادھر چھپتے پھر رہے تھے۔ حضرت سید نا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے تعجب سے پوچھا: کیوں چھپتے پھر رہے ہو؟ کہنے لگے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ دیکھ لیں اور چھوٹا سمجھ کر جہاد پر جانے سے منع فرمادیں ۔ بھیا! مجھے راہ خدا عزوجل میں لڑنے کا بڑا شوق ہے، کاش مجھے شہادت نصیب ہوجائے ۔ آخر کار سرکار نامدار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی توجہ شریف میں آہی گئے اوران کوکم عمری کی وجہ سے منع فرمادیا۔ حضرت سیدنا عمیر غلبہ شوق کے سبب رونے لگے ۔جو روتا ہے اس کا کام ہوتا ہے کے مصداق ان کا آرزوئے شہادت میں رونا کام آ گیا اور تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اجازت مرحمت فرمادی۔ جنگ میں شریک ہو گئے اور دوسری آرزوبھی پوری ہوئی کہ اس جنگ میں شہادت کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ آپ کے بڑے بھائی حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں : میرے بھائی عمیر چھوٹے تھے اورتلوار بڑی تھی لہذا میں اس کی حمائل کے سموں میں گرہیں لگا کر اونچی کرتا تھا۔ (کتاب المغازي للواقدی ج 1 ص21)

اے عاشقان رسول! سبحان اللہ ! دیکھا آپ نے! چھوٹا ہو یا بڑا راہ خدا میں جان قربان کرنا ہی ان کی زندگی کا مقصد عظیم تھا لہذا کامیابی خودآگے بڑھ کر ان کے قدم چومتی تھی۔

لشکر کا جائزہ لینے کے بعد حضور اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بدر کی طرف چل پڑے جدھر سے قافلے کے آنے کی خبر تھی ۔لشکر میں 313 صحابہ کرام تھے جن میں سے 60 مہاجرین اور بقیہ انصار تھے ۔ مقام۔ صفراء پر جب لشکر پہنچا تو رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دو آدمیوں کو روانہ فرمایا تاکہ وہ معلوم کر کے آئے کہ قافلہ کدھر۔ ہے اور کہاں تک پہنچا ہے۔(شرح زرقا نی علی المواھب ج2 ص326)

قضا حق ہے مگر اس شوق کا اللہ والی ہے

جو اُن کی راہ میں جائے وہ جان اللہ والی ہے

(حدائق بخشش ،ص183)

بحکم سرکار دوجہاں حضرت عثمان بن عفان مدینے میں رہے

جس وقت سرکار دوعالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینے سے روانہ ہورہے تھے ۔تو اس آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیاری شہزادی حضرت رقیہ رَضِیَ اللہُ عَنْہا سخت بیمار تھی ۔نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہ کو ان کی دیکھ بھال اور تیمارداری کیلئے مدینہ ہی میں چھوڑا اور خود اسلامی لشکر کے ساتھ تشریف لے گئے۔(طبقات ابن سعد ،رقیہ بنت رسول اللہ 30/8)

" جنت " کے تین حروف کی نسبت سے عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی تین خصوصیات

اے عاشقان صحابہ و اہل بیت! اسلام کے تیسرے خلیفہ، جنتی صحابی، جامع القران ، حضرت عثمان ابن عفان رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی شان و عظمت کے کیا کہنے۔ چنانچہ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی تین خصوصیات ملاحظہ ہو ۔

1۔ جنتی صحابی، سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کا ایک لقب ذُو النُّوْرَیْن (دونور والے ) بھی ہے کیونکہ نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی دوشہزادیاں یکے بعد دیگرے حضرت سید نا عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے نکاح میں دی تھیں اور فرمایا " اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں ایک کے بعد دوسری سے تمہارا نکاح کر دیتا کیونکہ میں تم سے راضی ہوں ۔(معجم کبیر ج22 ص436 حدیث 1061)

حضرت ملھب بن ابو صفرہ  رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ کی خدمت میں سوال ہوا حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو " ذُو النُّوْرَیْن" کیوں کہتے ہیں؟ فرمایا :کیونکہ آپ کے علاوہ دنیا میں کسی کے نکاح میں نبی کی دو بیٹیاں آنا معلوم نہیں۔(ریاض النضرة ، باب الثالث ، ص 6 حدیث 977)

نور کی سرکار سے پایا دوشالہ نور کا

ہو مبارک تم کو ذُو النُّوْرَیْن جوڑا نور کا (حدائق بخشش 246)

2۔ بدر کے دن آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہم سے بیعت لی تو فرمایا: اِنّ عُثمَانَ اِنطَلَقَ فِي حَاجَةِالله و حَاجَة رَسُولِ الله واِنّي اُبَايِعُ له ترجمہ:بے شک عثمان اللہ اور اس کے رسول کی خدمت میں یے ، اس کی جانب سے میں بیعت کرتا ہو۔(ابو داؤد، کتاب الجہاد ص436 الحدیث 2726)

مفتی احمد یار خان  رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں : حضور انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا بایاں (یعنی دل کی جانب والا )ہاتھ اٹھایا اور فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اپنے داہنے ہاتھ (Right Hand) کو فرمایا کہ ہمارا ہاتھ ہے اور خود ہی حضرت عثمان کی طرف سے بیت کی۔ اس بیت عثمان کا واقعہ دو بار ہوا: ایک تو غزوہ بدر میں ، دوسرے بیت رضوان کے وقت مقام حدیبیہ میں۔ یہ ہے حضرت عثمان کی شان!!

دست حبیب خدا ، جو کہ ید اللہ تھا

ہاتھ بنا آپ کا آپ کو ذی شان ہیں

(مراة المناجیح 601/5 مختصرا)

3۔ کیونکہ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حکم پر مدینے میں رہے اور غزوہ بدر میں شریک نہ ہوسکے ۔ تو پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو اجر وثواب کی خوشخبری سنائی اور مال غنیمت میں سے حاصل بھی دیا ۔چنانچہ بخاری شریف میں ہے اِنَّ لَكَ اَجرَ رَجُلِِ مِمَّن شَهِدَ بَدرََ اوَ سَهمَه

" بے شک تمہیں غزوہ بدر میں شرکت کرنے والے کی مثل آجر بھی ملے گا اور مال غنیمت میں سے حصہ بھی دیا جائے گا۔"(بخاری، کتاب فضائل أصحاب، ص937،الحدیث 3698)

مفتی احمد یار خان  رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں "حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ غزوہ بدر سے غائب نہیں رہے، وہ بدر میں تھے، جہاد کر رہے تھے ، مدینه منور ہ میں ان کا گھر ان کے لئے بدر کا میدان تھا اور اپنی زوجہ یعنی رقیہ بنت رسول اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْھا کی خد مت ان کے لئے بدر کا جہاد تھا۔ (مراة المناجیح 405/8 مختصرا)

آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو بدر والوں کا صرف ثواب نہ ملا بلکہ غنیمت کا حصہ بھی ملا، آپ صرف حکما غازی بدر نہ ہوئے بلکہ حقیقتا غازی مانے گئے۔ (مراة المناجیح 602/5 مختصرا)

معلوم ہوا الله پاک نے اپنے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو شرعی احکام میں بھی اختیار عطا فرمایا ہے۔ دیکھئے! اصل حکم میں جہاد کے ثواب اور مال غنیمت کا حق دار وہی ہے جو جہاد میں شریک ہوا آپ رضی الله عنه بظاہر غزوہ بدر میں شامل نہ تھے۔ مگر اللہ پاک کی عطا سےمالک ومختار آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سے غزوہ بدر میں شرکت کے ثواب کا وعدہ بھی فرمایا اور مال غنیمت سے حصہ بھی عطا کی۔

کنجی تمہیں دی اپنے خزانوں کی خدا نے

محبوب کیا مالک و مختار بنایا

مکے والوں کو مسلمانوں کے حملے کی خبر پہنچ گئی

جب نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مدینہ سے روانہ ہوئے تو ابوسفیان کو اس کی خبرل گئی ۔ اس نے فورا ہی ضمضم بن عمرو غفاری کومکہ بھیجا کہ وہ قریش کو اس کی خبر کر دے تا کہ وہ اپنے قافلہ کی حفاظت کا انتظام کریں اور خودراستہ بدل کر قافلہ کو سمندر کی جانب لےکر روانہ ہوگیا۔ ابوسفیان کا قاصد مضم بن عمرو غفاری جب مکہ پہنچا تو اس وقت کے دستور کے مطابق کہ جب کوئی خوفناک خبر سنانی ہوتی تو خبر سنانے والا اپنے کپڑے پھاڑ کر اور اونٹ کی پیٹھ پر کھڑا ہو کر چلا چلا کر خبر سناتا تھا چنانچہ ضمضم بن عمرو غفاری نے اپنا کرتا پھاڑ ڈالا اور اونٹ کی پیٹھ پر کھڑا ہو کر زور زور سے چلانے لگا کہ اے اہل مکہ تمہارا سارا مال تجارت ابوسفیان کے قافلہ میں ہے اور مسلمانوں نے اس قافلہ کا راستہ روک کر قافلہ کولوٹ لینے کا عزم کر لیا ہے لہذا جلدی کرو اور بہت جلد اپنے اس قافلے کو بچانے کے لئے ہتھیار لے کر دوڑ پڑو۔ (مدارج النبوة، ج2، ص82)

لشکر کی تیاریاں اور کفار مکہ کا سامان جنگ

ضمضم بن عمرو کا یہ انداز دیکھ کر سارے اہل مکہ کا امن وسکون غارت ہو گیا۔ تمام قبائل قریش اپنے گھروں سے نکل پڑے۔ سرداران مکہ میں سے صرف ابو لہب اپنی بیماری کی وجہ سے نہیں نکلا اس کے سوا تمام روساء قریش پوری طرح مسلح ہوکر نکل پڑے اور چونکہ مقام نخلہ کا واقعہ بالکل ہی تازہ تھا جس میں عمرو بن الحضرمی مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا گیا تھا اور اس کے قافلہ کو مسلمانوں نے لوٹ لیا تھا اس لئے کفارقریش جوش انتقام میں آپے سے باہر ہورہے تھے۔دشمن خدا و مصطفے ایک ہزار کا لشکر جرار لے کر روانہ ہوئے۔ ان کے پاس 100 برق رفتار گھوڑے ہیں جن پر 100 زرہ پوش جنگجو سوار ہیں، 700 اعلی نسل کے گھوڑے۔(معجم کبیر 133/11 حدیث 11377 زرقانی علی المواھب 260/2)

کھانے پینے کے ذخائر کے انبار اٹھانے والے بار بردار جانور مزید برآں ۔ فوج کی خوراک کا یہ انتظام تھا کہ قریش کےمالدار لوگ یعنی عباس بن عبد المطلب ، عتبہ بن ربیہ، حارث بن عامر ، نضر بن الحارث، ابوجہل، آمیہ وغیرہ باری باری سے روزانہ دس دس اونٹ نحر کرتے تھے اور پورے لشکر کو کھلاتے تھے۔ عتبہ بن ربیعہ جو قریش کا سب سے بڑا رئیس تھا اس پورے لشکر کا سپہ سالار تھا۔

ابو سفیان کا تجارتی قافلہ بچ کر نکل گیا

جب ابو سفیان بدر کے قریب پہنچا اور اس کو کفار کی مدد نہ پہنچی تو وہ نہایت خوفزدہ ہوا کہ کہیں مسلمان قافلے پر حملہ نہ کر دے۔اس ڈر سے اس نے اپنے اونٹوں کے منہ پھیر دئیے ۔ بالآخر ابوسفیان جب عام راستہ سے مڑ کر ساحل سمندر کے راستہ پر چل پڑا اور خطرہ کے مقامات سے بہت دور بھاگ گیا اور اس کو اپنی حفاظت کا پورا پورا اطمینان ہو گیا تو اس نے قریش کو ایک تیز رفتار قاصد کے ذریعے خط بھیج دیا کہ تم لوگ اپنے مال اور آدمیوں کو بچانے کے لئے اپنے گھروں سے ہتھیار لے کر نکل پڑے تھے اب تم لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاؤ کیونکہ ہم لوگ مسلمانوں کی یلغار اور لوٹ مار سے بچ گئے ہیں اور جان و مال کی سلامتی کے ساتھ ہم مکہ پہنچ رہے ہیں۔ (السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ بدر الکبری ص255)

اسی شان کے ساتھ ہم بدر میں جائیں گے

جب ابوسفیان کا یہ خط ملا اس وقت کفار مکہ مقام "جحفہ میں تھے۔ خط پڑھ کر قبیلہ بنوزہرہ اور قبیلہ بنوعدی کے سرداروں نے کہا کہ اب مسلمانوں سے لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لہذا ہم لوگوں کو واپس لوٹ جانا چاہیے۔ یہ سن کر ابوجہل بگڑ گیا اور کہنے لگا کہ ہم خدا کی قسم ! اسی شان کے ساتھ ہم بدر تک جائیں گے، وہاں اونٹ نحرکریں گے اور خوب کھائیں گے، کھلائیں گے، شراب پئیں گے، ناچ رنگ کی محفلیں جمائیں گے تا کہ تمام قبائل عرب پر ہماری عظمت اور شوکت کا سکہ بیٹھ جائے اور وہ ہمیشہ ہم سے ڈرتے رہیں ۔ کفارقریش نے ابوجہل کی رائے پرعمل کیا لیکن بنوزہرہ اور بنوعدی کے دونوں قبائل واپس لوٹ گئے۔ ان دونوں قبیلوں کے سوا باقی کفار قریش کے تمام قبائل جنگ بدر میں شامل ہوئے۔(سیرت ابن ہشام، ج 2ص 418)

سورةالانفال پارہ 10 آیت نمبر 47 میں ابو جہل کے اسی قول کی طرف اشارہ ہے چنانچہ ارشاد فرمایا

وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِهِمْ بَطَرًا وَّ رِئَآءَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ

ترجمۂ کنز الایمان

اور ان جیسے نہ ہونا جو اپنے گھر سے نکلے اتراتے اور لوگوں کے دکھانے کو اور اللہ کی راہ سے روکتے اور ان کے سب کام اللہ کے قابو میں ہیں۔

تفسیر صاوی میں ہے کہ  یہ آیت ان کفارِ قریش کے بارے میں نازل ہوئی جو بدر میں بہت اتراتے اور تکبر کرتے ہوئے آئے تھے۔ جب یہ لوگ آئے توسر کارِ دوعالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے دعا کی: یارب! عَزَّوَجَلَّ، یہ قریش آگئے ،تکبر و غرور میں سرشار اور جنگ کے لئے تیار ہیں ، تیرے رسول کو جھٹلاتے ہیں۔ یارب! عزَّوَجَلَّ، اب وہ مدد عنایت ہو  جس کا تو نے وعدہ کیا تھا۔ حضرت عبداللہ  بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا نے فرمایا کہ جب ابوسفیان نے دیکھا کہ قافلہ کو کوئی خطرہ نہیں رہا تو انہوں نے قریش کے پاس پیغام بھیجا کہ تم قافلہ کی مدد کے لئے آئے تھے، اب اس کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے لہٰذا واپس چلے جاؤ۔ اس پر ابوجہل نے کہا کہ’’ خدا کی قسم! ہم واپس نہ ہوں  گے یہاں تک کہ ہم بدر میں اتریں ، تین دن قیام کریں ، اونٹ ذبح کریں ، بہت سے کھانے پکائیں ، شرابیں پئیں ، کنیزوں کا گانا بجانا سنیں ، عرب میں ہماری شہرت ہو اور ہماری ہیبت ہمیشہ باقی رہے۔ لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا جب وہ بدر میں  پہنچے تو شراب کے جام کی جگہ انہیں ساغرِموت پینا پڑا اور کنیزوں کے سازو نَوا کی جگہ رونے والیاں انہیں روئیں اور اونٹوں کے ذبح کی جگہ ان کی گردنیں کٹیں۔(صاوی، الانفال، تحت الآیۃ: 47)

(دوسرا باب ) میدان بدر

مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمہاری طرف ڈال دیا ہے

پیارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ17 رمضان المبارک سن 2ہجری جمعہ کی رات کو بدر میں قریب کے میدان میں اترے اور کفار قریش دوسری طرف پہلے پہنچ چکے تھے ۔رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت علی و زبیر وسعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ عَنْہم کومشرکین کا حال دریافت کرنے کے لئے بھیجا۔وہ قریش کے دوغلام پکڑ لائے۔ اس وقت حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نماز پڑھ رہے تھے۔ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم نے ان غلاموں سے پوچھا: کیاتم ابو سفیان کے ساتھی ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو قریش کے سقے(پانی لانے والے ملازم )ہیں ۔ قریش نے ہمیں پانی پلانے کے لئے بھیجا ہے۔ اس پر صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم نے انہیں مارا۔ جب وہ درد سے بے چین ہوئے تو کہنے لگے کہ ہم ابوسفیان کے ساتھی ہیں۔ اتنے میں پیارے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نماز سے فارغ ہوئے۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اصحاب سے فرمایا:” جب یہ تم سے سچ بول رہے تھے تو تم نے ان کو مارا اور جب تم سے جھوٹ بولا تو تم نے ان کو چھوڑ دیا۔ اللہ کی قسم ! انہوں نے سچ کہا وہ قریش کے ساتھی ہیں" ۔ پھر حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان غلاموں سے قریش کا حال دریافت کیا۔ انہوں نے جواب دیا: الله کی قسم !یہ جو ریت کا ٹیلہ نظر آرہا ہے اس کے پیچھے ہیں۔ سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دریافت فرمایا کہ قریش تعداد میں کتے ہیں؟ وہ بولےکہ ہمیں معلوم نہیں ۔ پھر تاجدار انبیاء صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھا کہ وہ روزانہ کتنے اونٹ ذبح کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ ایک دن 10 اونٹ اور ایک دن 9 اونٹ ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ وہ ہزار اور نوسو کے درمیان ہیں۔ (واقعی وہ ہزار کے قریب تھے اور ان کے پاس سوگھوڑے تھے)۔ پھر نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھا: سرداران قریش میں سے کون کون آئے ہیں؟ وہ بولے : عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ ، ابوجہل بن ہشام ، ابوالبختری بن ہشام حکیم بن حزام ، نوفل بن خویلد، حارث بن عامر بن نوفل ، طعیمہ بن علدی ابن نوفل ،نضر بن حارث ، زمعہ بن اسود ، امیہ بن خلف وغیرہم یہ سن کر آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے اصحاب سے فرمایا " سن لو !مکہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو تمہاری طرف ڈال دیا ہے "(السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ بدر الکبری ص254)

مسلمانوں کی جنگی تدبیر

کفار قریش چونکہ مسلمانوں سے پہلے بدر میں پہنچ چکے تھے اس لئے مناسب جگہوں پر ان لوگو ن نے قبضہ کرلیا۔جب پیارے آقا ، مکی مدنی مصطفی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے لشکر کو لے کر بدر میں پہنچے تو ایسی جگہ پڑاؤ ڈالا کہ جہاں نہ کوئی کنواں تھانہ کوئی چشمہ اور وہاں کی زمین اتنی ریتلی تھی کہ گھوڑوں کے پاؤں زمین میں دھنستے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت حباب بن منذ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ نے پڑاؤ کے لئے جس جگہ کو منتخب فرمایا ہے یہ وحی کی طرف سے ہے یا فوجی تدبیر ہے؟ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اس کے بارے میں کوئی وحی نہیں اتری ہے۔ حضرت حباب بن منذ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے کہا کہ پھر میری رائے میں جنگی تدابیر کی رو سے بہتر یہ ہے کہ ہم کچھ آگے بڑھ کر پانی کے چشموں پر قبضہ کر لیں تا کہ کفارجن کنوؤں پر قابض ہیں وہ بیکار ہو جائیں کیونکہ انہی چشموں سے ان کے کنویں میں پانی جاتا ہے۔ حضورصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کی رائے کو پسند فرمایا۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام آخری نبی ،مکی مدنی مصطفے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ حباب بن منذ کی رائے درست ہے ۔ پھر اسی مشورے پرعمل کیا گیا۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ بدر الکبری ص254)

پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مبارک سائبان

پیارے پیارے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے رحمة للعالمین، خاتم النّبیین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نشست کیلئےاونچی جگہ پر کھجور کی شاخوں کا ایک سائبان (چھپر۔shade )بنایا۔ اس مبارک سائبان کی مضبوط حفاظت یہ ایک اہم کام تھا کیونکہ کفار قریش کے حملوں کا اصل مقصد ( Mission) پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کی ذات تھی۔ کسی میں بھی ہمت نہ تھی کہ اس مقدس سائبان کی حفاظت کرے۔ لیکن یہ سعادت اسلام کے پہلے خلیفہ ، صحابی ابن صحابی، جنتی ابن جنتی ، امیرالمومنین سیدنا صدیق اکبررَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی قسمت میں لکھی تھی۔چنانچہ ایک روایت ملاحظہ ہو ۔

شان یار غار بزبان حیدر کرار

چنانچہ کنزالعمال میں ہے، اسلام کے چوتھے خلیفہ ، جنتی صحابی، امیر المومنین سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی بہادری کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں " غزوہ بدر کے دن ہم نے سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت اور نگہداشت کیلئے ایک سائبان بنایا تاکہ کوئی کافر رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر حملہ کر کے تکلیف نہ پہنچا سکے ۔ اللہ کی قسم ہم میں سے کوئی آگے نہ بڑھا ۔ صرف صدیق اکبر رَضِیَ اللہُ عَنْہُ تلوار ہاتھ میں لیے آگے تشریف لائے اور پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس کھڑے ہو گئے اور پھر کسی کافر کی یہ جرات نہ ہو سکی کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے قریب بھی پھٹکے۔ اس لیے ہم میں سے سب سے زیادہ بہادر ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ہیں۔ . (کنزالعمال حرف الفاء ، باب فصائل الصحابة ج6 ص235)(فیضان صدیق اکبر، ص254)

مسجد عريش

غزوہ بدر میں جس جگہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم نے نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حفاطت کیلئے سائبان (چھپر) بنایا تھا۔ جنگ کے بعد عاشقان رسول نے وہی ایک اعلیٰ شان مسجد تعمیر کی ۔آج بھی شہدائے بدر کے مزارات کے پہلو میں وہ مبارک مسجد موجود ہے ۔ سرکار دوعالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سائبان کی نسبت کی برکتیں حاصل کرنے کیلئے عشاق مصطفے نے اس مسجد کا نام " مسجد عریش " رکھا ۔کیونکہ سائبان کو عربی زبان میں " عريش " کہتے ہیں اسی وجہ سے اس مسجد کا نام مسجد عريش رکھا گیا۔

کہ جنگ بدر کا نقشہ حضور جانتے ہیں

اللہ پاک کی عطا سے غیب بتانے والے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رات کے وقت چند صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کے ساتھ میدان جنگ کا معائنہ فرمانے کیلئے تشریف لے گئے۔ اس وقت دست مبارک میں ایک چھڑی تھی۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اسی چھڑی سے زمین پر لکیر بناتے تھے اور یہ فرماتے جاتے تھے کہ یہ فلاں کافر کے قتل ہونے کی جگہ ہے اور کل یہاں فلاں کافر کی لاش پڑی ہوئی ملے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ غیب دان نبی ،محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جس جگہ جس کا فرکی قتل گاہ بتائی تھی اس کافر کی لاش ٹھیک اسی جگہ پائی گئی ان میں سے کسی ایک نے لکیر سے بال برابر بھی تجاوز نہیں کیا۔(مسلم ، کتاب الجھاد و السیر ، باب غزوةبدر الحدیث 1778)

کہاں مریں گے ابو جہل و عتبہ و شیبہ

کہ جنگ بدر کا نقشہ حضور جانتے ہیں

جنگ سے پہلے لشکر اسلام پر دو انعام الہی

1۔ باران رحمت کا نزول جہاں کفار ٹھہرے ہوئے تھے انہوں نے وہاں کنوئیں کھودلئے تھے اور پانی جمع کرلیا تھا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم میں سے بعض کو وضو کی اور بعض کو غسل کی ضرورت تھی اور اس کے ساتھ پیاس کی شدت بھی تھی۔ شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ تمہارا گمان ہے کہ تم حق پر ہو، تم میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی ہیں اورتم اللہ والے ہو جبکہ حال یہ ہے کہ مشرکین غالب ہو کر پانی پر پہنچ گئے اور تم وضو اور غسل کئے بغیر نمازیں پڑھ رہے ہو تو تمہیں دشمن پر فتح یاب ہونے کی کس طرح امید ہے ؟شیطان کا یہ وسوسہ یوں زائل ہوا کہ  اللہ تعالیٰ نے بارش بھیجی جس سے وادی سیراب ہوگئی اور مسلمانوں نے اس سے پانی پیا، غسل اور وضو کئے، اپنی سواریوں کو پانی پلایا اور اپنے برتنوں کو پانی سے بھر لیا، بارش کی وجہ سے غبار بھی بیٹھ گیا اور زمین اس قابل ہوگئی کہ اس پر قدم جمنے لگے ، صحابۂ کرام  رَضِیَ اللہُ عَنْہُم کے دل خوش ہو گئے ۔ ( تفسیر بغوی، الاعراف، تحت الآیۃ 11) بارش کی وجہ سے کفار کی زمین کیچڑ ہوگئی جس پر چلنا دشوار ہوگیا ۔

2۔ امن والی نیند دوسرا انعام یہ ہوا کہ جب مسلمانوں کو دشمنوں کی کثرت اور مسلمانوں کی قلت ( یعنی کمی)سے جانوں کا خوف ہوا اور بہت زیادہ پیاس لگی تو ان پر غنودگی ڈال دی گئی جس سے انہیں راحت حاصل ہوئی ، تھکاوٹ اور پیاس دور ہوئی اور وہ دشمن سے جنگ کرنے پر قادر ہوئے۔ یہ اونگھ اُن کے حق میں نعمت تھی ۔ بعض علماء نے فرمایا کہ’’ یہ اونگھ معجزہ کے حکم میں ہے کیونکہ یکبارگی (Altogether)سب کواونگھ آئی اور کثیر جماعت کا شدید خوف کی حالت میں اِس طرح یکبارگی اونگھ جانا خلاف ِعادت ہے۔(تفسیر خازن، الانفال، تحت الآیۃ:11، 2/ 182)

ان دونوں انعامات کا ذکر کرتے ہوئے اللہ کریم پارہ 9 سورة الانفال آیت نمبر 11 میں ارشاد فرماتا ہے

اِذْ یُغَشِّیْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیْكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَهِّرَكُمْ بِهٖ وَ یُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَ لِیَرْبِطَ عَلٰى قُلُوْبِكُمْ وَ یُثَبِّتَ بِهِ الْاَقْدَامَ

ترجمۂ کنز الایمان:جب اس نے تمہیں اونگھ سے گھیر دیا تو اس کی طرف سے چین تھی اور آسمان سے تم پر پانی اتارا کہ تمہیں اس سے ستھرا کردے اور شیطان کی ناپاکی تم سے دور فرما وے اور تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھائے اور اس سے تمہارے قدم جمادے۔

آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شب بیداری

17 رمضان المبارک سن 2 ھجری جمعہ کی رات تھی تمام فوج تو آرام و چین کی نیند سو رہی تھی مگر ایک سرور کائنات صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات تھی جو ساری رات خداوند عالم سے لو لگائے دعا میں مصروف تھی ۔ صبح نمودار ہوئی تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لوگوں کو نمازکے لئے بیدار فرمایا پھر نماز کے بعد قرآن کی آیات جہاد سنا کر ایسا لرزہ خیز اور ولولہ انگیز وعظ(speech )فرمایا کہ مجاہدین اسلام کی رگوں کے خون کا قطرہ قطرہ جوش وخروش کا سمندر بن کر طوفانی موجیں مارنے لگا اور لوگ میدان جنگ کے لئے تیار ہونے لگے۔(سیرت مصطفی ص218 مکتبہ المدینہ)

غزوہ بدر اور خطبہ سیدالمبلغین، خاتم النّبیین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

اس غزوہ میں نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے جنگ سے پہلے ایک تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جس میں ہمارے لئے بھی قیمتی مدنی پھول ہیں۔ چنانچہ پیارے آقا، مدینے والے مصطفےصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:

میں تمہیں اسی بات کی ترغیب دلاتا ہوں جس کی ترغیب اللہ تعالی نے دی، ان کاموں سے منع کرتا ہوں جن سے اللہ تعالی نے منع فرمایا، وہ حق بات کا حکم دیتا اور سچ کو پسند فرماتا، بھلائی پر نیکو کاروں کو اپنی بارگاہ میں بلند مقام عطا فرماتا ہے، وہ اسی مرتبہ سے یاد رکھے جاتے اور فضیلت پاتے ہیں، آج تم حق کی منزلوں میں سے ایک منزل پر کھڑے ہو، اس مقام پر الله تعالی وہی عمل قبول فرمائے گا جو صرف اسی کی رضا کے لئے ہو۔ بے شک مصیبت کے وقت صبر ایسی چیز ہے جس سے اللہ پاک رنج و غم دور کر تا ہے اور اسی کے ذریعے تم آخرت میں نجات پاؤ گے، تم میں اللہ کا نبی موجود ہے جو تمہیں بعض چیزوں سے ڈراتا اور بعض کے کرنے کا حکم دیتا ہے، آج تم حیا کرنا، کہیں ایسانہ ہو کہ اللہ رب العزت تم سے اپنی ناراضی والا عمل ہوتا دیکھے کیونکہ وہ فرماتا ہے: الله کی بیزاری اس سے بہت زیادہ ہے جیسے تم اپنی جان سے بیزار ہو ۔ (پ24، الومن 10) اس نے اپنی کتاب میں جن باتوں کا علم دیا ہے ان کو دیکھو ، اس کی نشانیوں میں غور کرو کہ اس نے تمہیں ذلت کے بعد عزت بخشی ہے، اس کی کتاب کو مضبوطی سے تھام لو وہ تم سے راضی ہو جائے گا، تم اس موقع پر آزما کر دیکھ لو تم اس کی رحمت اور مغفرت کے مستحق ہو جاؤ گے جس کا اس نے تم سے وعدہ کیا ہے، بے شک اس کا وعدہ حق، اس کا قول سچ اور اس کا عذاب سخت ہے، میں اور ہم اللہ سے مدد طلب کرتے ہیں جو حی و قیوم ہے، وہی ہماری پشت پناہی کرنے والا ہے اور اسی کے کرم کو ہم نے تھام رکھا ہے، اسی پر ہم بھروسا کرتے ہیں اور اسی کی طرف ہمیں لوٹنا ہے، اللہ تعالی ہماری اور سارے مسلمانوں کی مغفرت فرمائے۔(سبل البديل و الرشاد، 4 / 34)

آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خطبے کے مدنی پھول

پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے ایسی حالت کہ جنگ ہونے والی ہے، خون کا پیاسا دشمن سامنے موجود ہے مگر مصطفے جان رحمت، شمع بزم ہدایت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس موقع پر بھی اپنے پروانوں کو حق بندگی ادا کرنے اور رضائے الہی کے حصول کی دعوت دے رہے ہیں، یقینا یہ ثابت قدمی اور أولو العزم اخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کے شایان شان ہے۔ اس مبارک خطبہ سے حاصل ہونے والے مدنی پھول ہمارے لئے مشعل راہ اور ہر امتحان میں کامیابی کی ضمانت ہیں ۔ جیسے

1۔ ہر حال میں خالق آسمان وزمین، رب العلمین عَزَّوَجَلَّ اور بعطائے پروردگار مالک اسمان وزمین، رحمة للعالمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اطاعت کرنا۔

2۔ نیکیوں کی رغبت و حرص رکھنا ۔

3۔ ہر نیکی صرف اللہ کی رضا کے لئے کرنا۔

4۔ جان لیوا حالات میں بھی صبر کا دامن تھامے رکھنا۔

5۔ مصیبت کے وقت کوئی ایسا کام نہ کرنا جس سے ہمارا رب ناراض ہو جائے۔

6۔ اللہ کے وعدوں کو یاد کرنا

7۔ ہر مصیبت و پریشانی میں اللہ کی طرف رجوع کرنا اور اس سے دعامانگنا۔

صحابی رسول کا عشق بھرا انداز

17 رمضان المبارک جمعہ کے دن وعظ وخطبے کے بعد دوعالم کے مالک ومختار ، مکی مدنی سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صف آرائی میں مشغول ہوئے۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دست مبارک میں ایک تیر کی لکڑی تھی ۔جس سے کسی کو آپ اشارہ فرماتے کہ آگے ہو جاؤ اور کسی سے ارشاد فرماتے تھے کہ پیچھے ہو جاؤ۔ چنانچہ حضرت سؤاد بن غزیہ انصاری رَضِیَ اللہُ عَنْہُ جوصف سے آگے نکلے ہوئے تھے حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےاس لکڑی سے ان کے پیٹ پر ایک کونچا دے کر فرمایا تو اِستَوِ يَا سَوَاد یعنی اے سواد برابر ہوجاو ۔حضرت سواد رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے عرض کی یا رسول الله! آپ نے مجھے ضرب شدید لگائی ہے حالانکہ آپ کو الله کریم نےحق و انصاف کے ساتھ بھیجا ہے آپ مجھے قصاص دیں۔ یہ سن کر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی شکم مبارک ننگا کر دیا اور فرمایا : اپنا قصاص لے لو، اس پر حضرت سواد رَضِیَ اللہُ عَنْہُ صاحب جود وکرم ، دافع رنج والم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے گلے لپٹ گئے اور آپ کے شکم مبارک کو بوسہ دیا۔ پیارے مصطفے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھا: اے سواد! تو نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت سواد رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے عرض کی یا رسول الله !موت حاضر ہے میں نے چاہا کہ آخرعمر میں میرا بدن آپ کے بدن اطہر سے مس کر جائے ، یہ سن کر آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کے لئے دعائے خیر و برکت فرمائی اور حضرت سواد رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے بارگاہ رسالت میں معذرت کرتے ہوئے اپنا قصاص معاف فرما دیا۔ تمام صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم سيدنا سواد رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی اس عاشقانہ ادا کو حیرت سے دیکھتے ہوئے ان کا منہ تکتے رہ گئے۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ بدر الکبری ص258۔ 259)

اے عاشقان رسول! سبحان اللہ سبحان اللہ! حضرت سؤاد رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی سعادت وقسمت پر قربان جایئے۔ اپ کے عشق رسول کی کیا بات ہے۔صحابہ کرام پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے والہانہ عشق رکھتے تھے۔یقینا صحابہ کرام یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ جو چیز مالک جنت۔ ،قاسم نعمت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جسم منور سے مس (Touch) ہو جاتی ہے اسے جہنم کی اگ کیا یہ دنیا کی اگ بھی نہیں جلا سکتی ۔ اللہ پاک ان مبارک ہستیوں کے صدقے ہمیں پکا سچا عاشق رسول بنائے اور نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے والہانہ عقیدت ومحبت عطا فرمائے۔ اللہ پاک ہمیں مصطفے جان رحمت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مباک قدموں سے لگی ہوئی خاک سے چمٹنا نصیب فرمائے۔

اے عشق تِرے صَدقے جلنے سے چُھٹے سَستے

جو آگ بجھا دے گی وہ آگ لگائی ہے

(حدائق بخشش ص193)

شرح کلام رضا : اعلیٰ حضرت  رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ عشق مصطفے کو مخاطب کر کے فرما رہے ہیں کہ اے عشق تجھ میں رونے ، تڑپنے سے ہم قیامت میں نجات پائیں گے کیونکہ ہم نے تو نبی پاک کے عشق وہ آگ لگائی ہوئی ہے جو اخرت میں دوزخ کی آگ کو بجھا دے گی یعنی اس عشق کے صدقے سے دوزخ سے چھٹکارا ملے گا۔

آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے دو صحابہ کو صفوں سے الگ کردیا

جنتی صحابی سیدنا حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں ’’میں اور حضرت حُسَیل  رَضِیَ اللہ عَنْہُ کہیں سے آرہے تھے کہ راستے میں کفار نے ہم دونوں کو روک کر کہا ’’ تم دونوں بدر کے میدان میں حضرت محمد  (  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ) کی مدد کرنے کے لئے جا رہے ہو۔ ہم نے جواب دیا: ہمارا بدر جانے کا ارادہ نہیں ہم تو مدینے جا رہے ہیں ۔ کفار نے ہم سے یہ عہد لیا کہ ہم صرف مدینے جائیں گے اور جنگ میں رسولُ اللہ  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے ساتھ شریک نہ ہوں گے ۔ اس کے بعد جب ہم دونوں(بدر کے میدان میں )  بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   میں حاضر ہوئے اور اپنا واقعہ بیان کیا تو حضورِ اقدس  صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے ارشاد فرمایا ’’تم دونوں واپس چلے جاؤ، ہم ہر حال میں کفار سے کئے ہوئے عہد کی پابندی کریں گے اور ہمیں  کفار کے مقابلے میں صرف اللہ پاک کی مدد درکار ہے۔ (مسلم، کتاب الجہادوالسیر، باب الوفاء بالعہد، ص988 )

سچے نبی سے محبت کرنے والے اسلامی بھائیو! اس واقعے سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دین اسلام میں وعدے پوار کرنے کی کتنی اہمیت ہے کہ ایسی سنگین حالت( situation )کہ پہلی جنگ ہے اور اوپر سے صرف 313 مجاہدین جن کے پاس چند گھوڑے، تلواریں ،زریں اور تیر ہیں اور سامنے کیل کانٹے سے لیس ایک ہزار کا لشکر ہے اب ایسی حالت کہ ایک ایک سپاہی کتنا قیمتی اور اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔لیکن قربان جائے جناب صادق وامین نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر کہ کفار سے کیے ہوئے وعدہ کو بھی پورا کیا۔مگر آہ آج ہمارا کیا حال ہے افسوس! صد کروڑ افسوس ہمارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو وہ ہیں جو کفار سے کیے ہوئے وعدے کو پورا کریں اور ان سے محبت کرنے والا اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ وعدہ خلافی کرے،کسی سے قرض لے تو مقرر تاریخ پر بلاعذر شرعی ادا نہ کرے،کسی کو وقت (Time)دئے تو مقررہ وقت پر نہ پہنچ کر اگلے کو تکلیف وازمائش میں مبتلا کرے۔ یقینا فکر آخرت رکھنے والے اسلامی بھائیوں کیلئے اس میں لمحہ فکریہ ہے۔

الہٰی !اگر یہ چند نفوس ہلاک ہوگئے تو ۔۔۔

صفیں درست کرنے کے بعد آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سائبان میں تشریف لے گئے ۔ سائبان میں یار غار سیدنا ابوبکر صدیق  رَضِیَ اللہ عَنْہُ کے علاوہ کوئی نہ تھا ۔ اس وقت اللہ پاک کی رحمت والے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بارگاہ الہی میں یوں دعا مانگ رہے تھے " اے اللہ !تو نے مجھ سے جو وعدہ فرمایا آج اسے پورا کردے"

پیارے پیارے غَمزُده آقا(غموں کو دور کرنے والے)صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر اس قدر رقت اور محویت طاری تھی کہ جوش گریہ میں چادر مبارک دوش انور سے گر پڑتی تھی مگرآپ کو خبر نہیں ہوتی تھی کبھی آپ سجدہ میں سر رکھ کر اس طرح دعا مانگے کہ "الہی! اگر یہ چند نفوس ہلاک ہو گئے تو پھر قیامت تک روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والے نہ رہیں گے۔( المواھب اللدنیة و الزرقانی ج2ص 278)

سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہُ  آپ کے یارغار تھے۔ آپ کو اس طرح بے قرار دیکھ کر ان کے دل کا سکون وقرار جاتا رہا اور ان پر رقت طاری ہوگئی اور انہوں نے چادر مبارک کو اٹھا کر آپ کے مقدس کندھے پر ڈال دی اور آپ کا دست مبارک تھام کر بھرائی ہوئی آواز میں بڑے ادب کے ساتھ عرض کیا کہ حضور ! اب بس کیجئے خدا ضرور اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔

اپنے یار غار صدیق جاں نثار کی بات مانتے ہوئے نبی رحمت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعا ختم کر دی اور آپ کی زبان مبارک پر اس آیت کا ورد جاری ہو گیا۔

سَیُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۔ (پارہ 27 ،القمر 45)

ترجمہ کنزالایمان :اب بھگائی جاتی ہے یہ جماعت اور پیٹھیں پھیر دیں گے۔

آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس آیت کو بار بار پڑھتے رہے جس میں فتح مبین کی بشارت کی طرف اشارہ تھا۔اللہ کریم نے اپنے پیارے اور اخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعا کو قبولیت کا تاج پہنایا اور مسلمانوں کو عظیم فتح نصیب ہوئی۔ اعلیٰ حضرت امام اہلسنت دعائے مصطفے کے بارے میں کیا خوب فرماتے ہیں۔

اِجابت کا سہرا عنایت کا جوڑا دُلہن بن کے نِکلی دُعائے مُحَمَّد

اِجابت نے جُھک کر گلے سے لگایا بڑھی ناز سے جب دُعائے مُحَمَّد

(حدائق بخشش ص66)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں! اس سے پتا چلتا ہے کہ کیسے ہی کٹھن حالات پیدا ہو جائیں ہمیں نظر اسباب نہیں بلکہ مسبب الأسباب جل جلالہ پررکھنی چاہئے اور دعا سے ہرگز غفلت نہیں کرنی چاہئے ۔ کہ فرمان آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہےاَلدُّعَاءُ سِلَاحُ المُؤْ مِن یعنی دعا مومن کا ہتھیار ہے۔(مسند ابی یعلی ج 1ص 215 حدیث435) غزوة بدر میں دشمنوں کو اپنی بھاری تعداد اور کثرت اسلحہ (weapon)پر ناز تھا اور مسلمانوں کو الله رب العزت اور اس کے پیارے محبوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر بھروسا۔ مجاہد ین میں جذبہ شہادت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور مسلمانوں کا بچہ بچہ شوق شہادت سے سرشار تھا۔ (ابو جہل کی موت ص17)

مسلمانوں کا لشکر دوگنا ہوگیا

بدر کے میدان میں اللہ نے مسلمانوں پر کئی طرح کے انعامات فرمائے ،ان میں  سے ایک یہ ہے کہ     اللہ پاک نے مسلمانوں کو کفار بہت تھوڑے کر کے دکھائے ۔سیدنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ وہ کافر ہماری نگاہوں میں اتنے کم لگے کہ میں نے اپنے برابر والے ایک شخص سے کہا کہ تمہارے گمان میں کافر ستر (70) ہوں گے اس نے کہا کہ میرے خیال میں سو ہیں حالانکہ وہ ایک ہزار تھے۔ اور کافروں کی نظروں میں مسلمانوں کو بہت تھوڑا کر کے     دکھایایہاں تک کہ ابوجہل نے کہا کہ’’ انہیں رسیوں میں باندھ لو،گویا کہ وہ مسلمانوں کی جماعت کو اتنا قلیل دیکھ رہا تھا کہ مقابلہ کرنے اور جنگ آزما ہونے کے لائق بھی خیال نہیں کرتا تھا ۔ مسلمانوں کو مشرکین تھوڑے دکھانے میں حکمت یہ تھی کہ مسلمانوں کے دل مضبوط ہو جائیں اورکفار پر ان کی جرأت بڑھ جائے جبکہ مشرکین کو مسلمانوں کی تعداد تھوڑی دکھانے میں یہ حکمت تھی کہ مشرکین مقابلہ پر جم جائیں ، بھاگ نہ پڑیں اور یہ بات ابتداء میں تھی، مقابلہ ہونے کے بعد انہیں مسلمان بہت زیادہ نظر آنے لگے۔ ( تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: 44  ،488/5)

چنانچہ اللہ کریم پارہ 10 سورةالانفال آیت نمبر 44 میں فرماتا ہے

وَ اِذْ یُرِیْكُمُوْهُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْۤ اَعْیُنِكُمْ قَلِیْلًا وَّ یُقَلِّلُكُمْ فِیْۤ اَعْیُنِهِمْ لِیَقْضِیَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًاؕ-وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۠

ترجمۂ کنز الایمان:او ر جب لڑتے وقت تمہیں کا فر تھوڑے کرکے دکھائے اور تمہیں ان کی نگاہوں میں تھوڑا کیا کہ اللہ پورا کرے جو کام ہونا ہے اور اللہ کی طرف سب کاموں کی رجوع ہے۔

بدر کے سب سے پہلے شہید

لڑائی کا آغاز اس طرح ہوا کہ عامر بن الحضرمی جو اپنے مقتول بھائی عمرو بن الحضرمی کے خون کا بدلہ لینے کیلئے بے قرار تھا جنگ کیلئے آگے بڑھا اس کے مقابلے کیلئے جنتی صحابی حضرت مِهْجَعْ رَضِیَ اللہ عَنْہُ   میدان میں نکلے اور لڑتے لڑتے شہادت سے سرفراز ہو گئے۔مسلمانوں کی طرف سے جس صحابی نے سب سے پہلے جام شہادت نوش کیا وہ سیدنا فاروق اعظم کے غلام" مِهْجَعْ "تھے۔ حضرت علامہ امام محی الدین شرف نووی فرماتے ہیں: مِهْجَع رَضِیَ اللہ عَنْہُ ہیں جو اسلام کے دوسرے خلیفہ سید نا عمر فاروق اعظم  رَضِیَ اللہ عَنْہُ  کے غلام ہیں اور مسلمانوں میں سے یہ وہ پہلے صحابی ہیں جو بدر کے دن شہید ہوئے۔ پھر حارثہ بن سراقہ انصاری رَضِیَ اللہ عَنْہُ   حوض سے پانی پی رہے تھے کہ ناگہاں ان کو کفار ایک تیر لگا اور وہ شہید ہو گئے۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ بدر الکبری ص259)

غزوہ بدر کے پہلے شہید حضرت سیدنا مِهْجَعْ  رَضِیَ اللہ عَنْہُ کی فضیلت مرحبا چنانچہ نبی محترم، شاہ بنی آدم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا سَيِّدُ الشُّهَدَاءِ مِهجَع وَهُوَ اوَّلُ مَن يٌُدعٰي الٰى بَابِ الجَنَّةِ مِن هٰذِهِ الامَّة

ترجمہ :مِهْجَعْ شہدا کے سردار ہیں اور میری امت میں قیامت کے دن جسے سب سے پہلے جنت کے دروازے کی طرف بلایا جائے گا وہ یہی ہیں

(روح المعانی، پ20 ،ج20 ،ص457،، تحت الآیۃ 6)(تفسیر خازن، پ 20، ج 3 ،ص445، تحت الآیۃ 6)

اس جنت کی طرف بڑھو جس کی چوڑائی اسمان وزمین کے برابر ہے

سیدالمبلغین ،خاتم النّبیین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ مسلمانو !اس جنت کی طرف بڑھے چلو جس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے ۔تو حضرت عمیر بن الحمام انصاری  رَضِیَ اللہ عَنْہُ  بول اٹھے کہ یا رسول اللہ! کیا جنت کی چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہے؟ ارشاد فر مایا کہ ”ہاں“ یہ سن کر حضرت عمیر رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے کہا: ”واہ وا‘‘ آپ نے دریافت فرمایا کہ کیوں اے عمیر تم نے ”واہ وا‘‘ کس لئے کہا ؟ عرض کیا کہ یا رسول اللہ فقط اس امید پر کہ میں بھی جنت میں داخل ہو جاؤں ۔ مالک جنت ،قاسم نعمت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خوشخبری سناتے ہوئے ارشادفرمایا کہ اے عمیر تو بے شک جنتی ہے۔ حضرت عمیر رَضِیَ اللہ عَنْہُ  اس وقت کھجوریں کھا رہے تھے۔ یہ بشارت سنی تو مارے خوشی سے کھجوریں پھینک کر کھڑےہو گئے اور ایک دم کفار کے لشکر پر تلوار لے کر ٹوٹ پڑے اور جانبازی کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہو گئے ۔(صحیح مسلم، کتاب الامارة، باب ثبوت الجنةللشھید ،ص 1053،الحدیث 1901)

مرنے والوں کو یہاں ملتی ہے عمر جاوید

زندہ چھوڑے گی کسی کو نہ مسیحائی دوست

(حدائق بخشش ص62)

حضرت حمزہ ، حضرت علی المرتضی اور حضرت عبیدہ رَضِیَ اللہ عَنْہم کی شجاعت

1۔دوسری جانب صف أعدا میں سے اسود بن عبدالاسد مخزومی جو بد خلق تھا، آگے بڑھا اور کہنے لگا "میں الله سے عہد کرتا ہوں کہ مسلمانوں کے حوض سے پانی پیوں گا یا اسے ویران کر دوں گا یا اس کے پاس مر جاؤں گا"۔ ادھر سے جنتی صحابی سیدنا حمزہ بن عبد المطلب  رَضِیَ اللہ عَنْہُ نکلے ۔ اسود حوض تک پہنچنے نہ پایا کہ حضرت حمزہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے اس کا پاؤں نصف ساق(پنڈلیShin) تک کاٹ دیا اور وہ پیٹھ کے بل گر پڑا پھر وہ حوض کے قریب پہنچا یہاں تک کہ اس میں گر پڑا تاکہ اس کی قسم پوری ہوجائے ۔ حضرت حمزہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ  نے اس کا تعاقب کیا اور خوش ہی میں اس کا کام تمام کر دیا ۔( دلائل النبوةللبیھقی، باب سیاق قصةبدر عن مغازی، ج3 ص113) (السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ بدر الکبری ص258)

اس کے بعد کفار قریش کی صفوں سےشیبہ بن ربیعہ اور عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن ربیعہ نکلے۔ مشرکین نے چلا کر کہا:”اے محمد! ہماری طرف اپنی قوم میں سے ہمارے جوڑ کے آدمی بھیجئے ‘‘ یہ سن کر اللہ پاک کے پیارے اور سچے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اے بنی ہاشم ! اٹھو اور اس حق کی حمایت میں لڑو جس کے ساتھ الله پاک نے تمہارےنبی کو بھیجا ہے کیونکہ وہ باطل لائے ہیں تا کہ الله کے نور کو بجھا دیں ۔‘‘ پس حضرت حمزہ ،علی بن ابی طالب اور عبیدہ بن مطلب بن عبد مناف رَضِیَ اللہ عَنْہم دشمن کی طرف بڑھے اور ان کے سروں پر خود تھے جس وجہ سے ان کے چہرے چھپے ہوئے تھے ۔ عتبہ نے کہا: تم بولوتا کہ ہم تمہیں پہچان لیں۔‘‘نبی کریم کے پیارے چچا سیدناحمزہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے کہا: میں حمزہ بن عبد المطلب شیر خدا اور شیر رسول ہوں اس پر عتبہ بولا:” اچھا جوڑ ہے، میں حلیفوں کا شیر ہوں ۔ پھر اس نے اپنے بیٹے سے کہا: ولید اٹھ ۔ پس سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ عَنْہُ کی طرف بڑھے اور ایک نے دوسرے پر وار کیا مگر سیدنا علی المرتضی  رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے اس کو قتل کر دیا، پھر عتبہ اٹھاحضرت حمزہ  رَضِیَ اللہ عَنْہُ اس کی طرف بڑھے اور سیدنا حمزہ  رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے عتبہ کو قتل کر دیا پھر شیبہ اٹھاحضرت عبیدہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ کی طرف بڑھا۔ حضرت عبیدہ  رَضِیَ اللہ عَنْہُ صحابہ کرام میں سے سب سے بڑی عمر والے(old Age)تھے۔ شیبہ نے تلوار کی دھار حضرت عبیدہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ کے پاوں پر ماری جو پنڈلی کے گوشت پر گئی اور اسے کاٹ دیا پھر حضرت حمزہ اور حضرت علی  رَضِیَ اللہ عَنْہُماشیبہ پر حملہ آور ہوئے اور اسے قتل کر دیا اور حضرت عبیدہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ کو اٹھا کر سرکار دوجہاں صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں لائے۔ حضرت عبیدہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے عرض کیا: یا رسول الله!صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیا میں شہید ہو؟ رحمت عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ”ہاں“ پھر حضرت عبیدہ  رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے کہا: اگر ابوطالب اس حالت میں مجھے دیکھتا تومان جا تا کہ میں اس کی نسبت اس کے شعر ذیل کا زیادہ حق ہوں۔(الطبقات الکبری لابن سعد ،غزوہ بدر ج 2 ص 12)( شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیة، باب غزوہ بدر الکبری ج2 ص276)

و نسلمه حتی نصرع حوله ونذهل عن ابنائنا والحلائل

ہم محمد( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کو حوالہ نہ کریں گے یہاں تک کہ ان کے گرد لڑ کر مر جائیں اور اپنے بیٹوں اور بیویوں کو بھول جائیں۔

حُسنِ یوسُف پہ کٹیں مِصْر میں اَنگُشتِ زَناں

سَر کٹاتے ہیں تِرے نام پہ مردانِ عرب

(حدائق بخشش ص58)

ابو جہل کی موت

حضرت سید نا عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں: غزوہ بدر کے دن جب میں مجاہدین کی صف میں کھڑا تھا، میں نے اپنے دائیں بائیں دوکم سن انصاری لڑکے دیکھے۔ اتنے میں ایک نے آہستہ سے مجھ سے کہا: (يَا عَمُّ هَل تَعرِفُ ابَا جَهل ) اےچچا جان! آپ ابوجہل کو پہنچانے ہیں؟ میں نے جواب دیا ہے ہاں لیکن تمہیں اس سے کیا کام ہے۔ اس نے کہا: مجھے معلوم ہوا ہے وہ گستاخ رسول ہے، خدا کی قسم! اگر میں اس کو دیکھ لوں تو اس پرٹوٹ پڑوں یا تو اس کو مار ڈالوں یا خودمر جاؤں ۔ دوسرے لڑکے نے بھی مجھ سے اسی طرح کی گفتگو کی ۔ (ان حقیقی مدنی منوں کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے شاعر نے لکھا ) ۔

قسم کھائی ہے مر جائیں گے یا ماریں گے ناری کو

سنا ہے گالیاں دیتا ہے یہ محبوب باری کو

حضرت سید نا عبد الرحمن بن عوف  رَضِیَ اللہ عَنْہُ مزید فرماتے ہیں: اچانک میں نے دیکھا کہ ابوجہل اپنے سپاہیوں کے درمیان کھڑا ہے۔ میں نے ان لڑکوں کو ابو جہل کی طرف اشارہ کر دیا۔ وہ تلوار میں لہراتے ہوئے اس پر ٹوٹ پڑے اور پے درپے وار کر کے اسے پچھاڑ دیا۔ پھر دونوں حضورِاقدس خدمت میں حاضر ہو گئے اور عرض کیا: یا رسول الله ہم نے ابوجہل کو ٹھکانے لگا دیا ہے۔ سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھا فرمایا: تم میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے؟ دونوں ہی کہنے لگے: میں نے ۔ نبی پاکصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: کیا تم نے اپنی خون آلود تلواریں صاف کر لی ہیں؟ دونوں نے عرض کی جی نہیں ۔ میٹھے میٹھے مصطفےصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان تلواروں کو ملاحظہ کر کے فرمایا:كِلَا كُمَا قَتَلَه تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے۔(بخاری ج2 ص 306 حدیث 3161)

دونوں منوں کا بھی حملہ خوب تھا بو جبل پر

بدر کے ان دونوں ننھے جاں نثاروں کو سلام

اے عاشقان رسول ! یہ اسلام کے شاہیں صفت کم سن مجاہدین جنہوں نے لشکر قریش کے سپہ سالار دشمن خدا و مصطفے اور اس امت کے سنگ دل و سرکش فرعون ابو جہل کو موت کے گھاٹ اتارا ۔ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: معاذ اور معوذ  رَضِیَ اللہ عَنْہُما یہ دونوں سگے بھائی تھے۔ ان کے عشق رسول پر صد ہزارحسین و آفرین اور ان کے ولولۂ جہاد پرلاکھوں سلام کہ اس لڑکپن اور کھیلنے کودنے کے ایام میں ہی انہوں نے اپنی زندگیوں کو مد نی رنگ میں رنگ لیا اور راہ خدا میں سفر کر کے لشکر کفار کے سپہ سال لار ابو جہل جفا کار سے ٹکر لے لی اور اس کو خاک وخون میں کوٹتا کردیا۔ (ابو جہل کی موت ص4)

جوانو ! قابل تقلید ہے اقدام دونوں کا ؛جبین لوح غیرت پہ لکھا ہے نام دونوں کا

وہ غازی تھےمئےحب نبی کاجوش تھاان کو ؛لب کوثر پہنچ کر شوق نوشا نوش تھا ان کو

اس امت کا فرعون کون ہے؟

جب جنگ کا زور تھوڑا کم ہوا تو اللہ پاک کے آخری نبی ، مکی مدنی ،محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کون ہے جو ابو جہل کو دیکھ کر اس کا حال بتائے؟ تو حضرت سیدناعبدالله بن مسعود رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے جا کر لاشوں میں دیکھا تو ابو جہل زخمی پڑا ہوا دم توڑ رہا تھا۔ اس کا سارا بدان فولاد میں چھپا ہوا تھا، اس کے ہاتھ میں تلوار تھی جو رانوں پر رکھی ہوئی تھی ۔زخموں کی شدت کے باعث اپنے کسی عضو کو جنبش (Movement) نہیں دے سکتا تھا۔ سیدنا عبدالله بن مسعود رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے اس کی گردن پر پاوں رکھا، اس عالم میں بھی اس کے تکبر کا عالم یہ تھا کہ حقارت سے بول اٹھا:اے بکریوں کے چرواہے تو بڑی اونچی اور دشوار جگہ پر چڑھ گیا۔ ( السيرة النبوية لابن هشام ،غزوہ بدر الکبری ص262) حضرت سید نا عبدالله ابن مسعود رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : میں اپنی کند تلوار سے ابوجہل کے سر پر ضربیں لگانے لگا جس سے تلوار پر اس کے ہاتھ کی گرفت (Grip)ڈھیلی پڑگئی، میں نے اس سے تلوار کھینچ لی۔ جانکنی کے عالم میں اس نے اپنا سراٹھایا اور پوچھا فتح کس کی ہوئی ؟ میں نے کہا: الله و رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیلئے ہی فتح ہے۔ پھر میں نے اس کی داڑھی کو پکڑ کر جھنجھوڑا کہا

اَلْحَمْدُ للهِ الَّذِي اَ خْزَاكَ يَا عَدُوَّاللهِ "اس اللہ پاک کا شکر ہے کہ جس نے اے دشمن خدا ! تجھے ذلیل کیا"۔ میں نے اس کا خول اس کی گدی سے ہٹایا اور اسی کی تلوار سے اس کی گردن پر زور دار وار کیا اس کی گردن کٹ کر سامنے جا گری۔ پھر میں نے اس کے ہتھیار، زرہ و غیرہ

اتار لئے اور اس کا سراٹھا کر بارگاہ رسالت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہو گیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یہ دشمن خدا ابو جہل کا سر ہے۔ آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے تین بار فرمایا: اَلْحَمْدُ للهِ الَّذِي أَعَزَّ الْإسْلَامَ وَأَهْلَه " الله رب العزت کا شکر ہے جس نے اسلام اور اہل اسلام کو عزت بخشی" ۔ پھر سرکار عالی وقار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سجدہ شکر ادا کیا ۔ پھر فرمایا "ہر امت میں ایک فرعون ہوتا ہے اس امت کا فرعون ابو جہل تھا"۔(سبل الهدى والرشادج 4 ص 51 ۔54)

ابو جہل کا عناد اور عداوت رسول تو دیکھئے کہ ٹانگیں کٹ چکی ہیں ، سارا جسم زخموں سے چور چور ہے، موت سر پر منڈلا رہی ہےاس حالت میں بھی اس شقی ازلی (یعنی ہمیشہ ہی سے بد بخت) کی شقاوت ( یعنی بد بختی ) کا عالم یہ ہے کہ اس نے حضرت سید نا ابن مسعود کو کہا اپنے نبی(صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کو میرا یہ پیغام پہنچا دینا کہ میں عمر بھر اس کا دشمن رہا ہوں اور اس وقت بھی میرا جذبہ عداوت شدید تر ہے۔ سیدنا عبد الله بن مسعود نے جب نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دربار میں اس ازلی بد بخت کا یہ جملہ عرض کیا تو الله پاک کے آخری نبی، مکی مدنی مصطفے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میری امت کا فرعون تمام امتوں کے فرعونوں سے زیادہ سنگدل اور کینہ پرور ہے۔ حضرت موسیٰ کے فرعون کو جب(بحر احمر کی)موجوں نے نرغے میں لےلیاتو پکاراٹھا

قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا الَّذِیْۤ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُوْۤا اِسْرَآءِیْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ

ترجمۂ کنز الایمان : بولا میں ایمان لایا کہ کوئی سچا معبود نہیں سوا اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں مسلمان ہوں۔

گر اس امت کا فرعون مرنے لگا تو اس کی اسلام دشمنی اور سرکشی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوگیا۔ ( تفسیر کبیر ج 11 ص224 )

سید الشاکرین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سجدہ شکر ادا فرمایا

ابو جہل اسلام کا بہت بڑا دشمن تھا۔اس ازلی بد بخت نے ہر وقت مسلمانوں کو تکلیفیں دی ۔جب حضورِاقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس کی موت کی خبر پہنچی تو اللہ کریم کے پیارے محبوب نے اللہ پاک کا شکر ادا کرتے ہوئےسجدہ شکر کیا۔اس سےمعلوم ہوا کہ جب بھی کوئی نعمت یا خوشی کی خبر ملے تو اللہ پاک کا شکر ادا کرنا چاہئے یا سجدہ شکر کر لینا چاہئے۔ دینی یا دنیاوی خوشی کی خبرسن سجدے میں گر جانا "سجدہ شکر" کہلاتا ہے(مراةالمناجیح 388/2)، بهارشریت میں ہے: "سجدہ شکر مثلاً اولاد پیدا ہوئی یامال پایا یا گم ہوئی چیزمل گئی یا مریض نے شفا پائی یا مسافر واپس آیا غرض کسی نعمت پر سجدہ کرنا مستحب ہے۔(بہارشریت ج1 ص738)

سجدہ شکر کا طریقہ :

سجدہ شکر کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ کھڑا ہوکر اللّٰہ اَكْبَرکہتاہوا سجدے میں جائے اور کم سے کم تین بار سُبْحَانَ رَبِّى الاَعْلٰى کہے، پھر کہتا ہواکھڑا ہو جائے، پہلے پیچھے دونوں بار کہناسنت ہے اور کھڑے ہو کر سجدے میں جانا اور سجدے کے بعد کھڑا ہوتا یہ دونوں قیام مستحب۔(عالمگیر ی ج1 ص135 ، درمیان ج2 ص699)

سجدہ شکر اور سجدہ تلاوت دونوں کا ایک ہی طریقہ ہے۔یار رہے کہ سجدہ شکر میں وضو لازم ہے۔

شجاعت مصطفے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

اسلام کے تیسرے خلیفہ، جنتی صحابی سیدنا علی المرتضی رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے کہ جب غزوہ بدر کے دن ہم رسول اللہ کی پناہ میں اپنا بچاؤ کرتے تھے ۔حضور ہم سب سے زیادہ دشمن کے قریب ہوتے تھے ۔اس دن آپ لڑائی میں سب سے زیادہ مضبوط اور طاقتور تھے۔(شرح السنة ،ج7،ص47 حدیث 3592)

ابُو البَخْتَرى کو قتل نہ کرنا

اللہ پاک کی عطا سے غیب جاننے والے اخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لڑائی شروع ہونے سے پہلے ارشادفرمایا تھا کہ مجھے معلوم ہے کہ بنو ہاشم وغیرہ میں سے چند لوگ جبر واکراہ(مجبوراً )کفار کے ساتھ شامل ہو کر آئے ہیں جو ہم سے لڑنانہیں چاہتے۔ اگر ان میں سے کوئی تمہارے مقابل آجائے تو تم اسے قتل نہ کرو۔ غیب دان نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےان لوگوں کے نام بھی بتادیئے تھے۔ ان میں سے ایک ابُو البَخْتَرى عاص بن ہشام تھا جو کہ مکہ میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کسی قسم کی اذیت نہ دیا کرتا تھا۔ ابُو البَخْتَرى کے ساتھ جنادہ بن ملیحہ اس کا رفیق بھی تھا ۔ صحابی رسول حضرت سیدنامجذر بن زیاد رَضِیَ اللہ عَنْہُ کی نظر جو ابُو البَخْتَرى پر پڑی تو کہا کہ حضور نے تیرے قتل سے منع فرمایا ہے اس لئے تجھے چھوڑتا ہوں ۔‘ ابُو البَخْتَرى نے کہا: میرے رفیق کوبھی حضرت مجذر رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے کہا: الله کی قسم ! ہم تیرے رفیق کو نہیں چھوڑے گے۔ہمیں رسول الله نے فقط تیرے چھوڑنے کا حکم دیا ہے ۔ ابُو البَخْتَرى نے کہا تب اللہ کی قسم میں اور وہ دونوں جان دیں گے، میں مکہ کی عورتوں کا یہ طعن نہیں سن سکتا کہ ابُو البَخْتَرى نے اپنی جان بچانے کے لئے اپنے رفیق کا ساتھ چھوڑ دیا۔ جب حضرت مجذر رَضِیَ اللہ عَنْہ ُنے حملہ کیا تو ابُو البَخْتَرى یہ شعر پڑھتا ہوا حملہ آور ہوا اور مارا گیا۔

لن يسلم ابن حرة زميله حتى يموت او يرى سبيله

شریف زادہ اپنے رفیق کو نہیں چھوڑ سکتا جب تک مر نہ جائے یا اپنے رفیق کے بچاؤ کی راہ نہ دیکھ لے۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ بدر الکبری ص260)

امیہ بن خلف کی موت

دوعالم کے مالک ومختار، مکی مدنی سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بڑا دشمن امیہ بن خلف بھی جنگ بدر میں شریک تھا اور اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا۔ حضرت بلال رَضِیَ اللہ عَنْہُ پہلے اسی امیہ کے غلام تھے۔ امیہ ان کو اذیت دیا کرتا تھا تا کہ اسلام چھوڑ دیں۔ مکہ کی گرم ریت پر پیٹھ کے بل لٹا کر ایک بھاری پتھر (stone)ان کے سینے پر رکھ دیا کرتا تھا پھر کہا کرتا تھا تمہیں یہ حالت پسند ہے یا ترک اسلام؟ حضرت بلال رَضِیَ اللہ عَنْہُاس حالت میں بھی احد ! أحد !“ پکارا کرتے تھے ۔حضرت عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللہ عَنْہ نے کسی زمانہ میں مکہ میں امیہ سے معاہدہ کیا تھا کہ وہ مدینہ میں آئے گا تو یہ اس

کی جان کے ضامن ہوں گے۔ عہد کی پابندی کو ملحوظ ر کھ کر حضرت عبدالرحمن بن عوف رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے چاہا کہ وہ میدان جنگ سے لے کر نکل جائے ۔ اس لئے اس کو اور اس کے بیٹے کو لے کر ایک پہاڑ پر چڑھے۔ اتفاق یہ کہ حضرت بلال رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے دیکھ لیا اور انصار کوخبر کر دی۔ لوگ دفع ٹوٹ پڑے۔ حضرت عبدالرحمن رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے امیہ کے بیٹے کو آگے کر دیا لوگوں نے اسے قتل کر دی لیکن اس پر بھی قناعت نہ کی اور امیہ کی طرف بڑھے۔ یہ چونکہ جسیم وثقيل تھا اس لئے حضرت عبد الرحمن رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے کہا تم زمین پر لیٹ جاؤ۔ وہ لیٹ گیا تو آپ اس پر چھا گئے تا کہ لوگ اس کو مارنے نہ پائیں مگر لوگوں نے حضرت عبدالرحمن رَضِیَ اللہ عَنْہُ کی ٹانگوں کے اندر سے ہاتھ ڈال کر اس کوقتل کر دیا۔ حضرت عبد الرحمن رَضِیَ اللہ عَنْہُ کی بھی ایک ٹانگ زخمی ہوئی اور اس زخم کا نشان مدتوں باقی رہا۔(صحیح بخاری، کتاب الوكالة ،باب اذا وکل المسلم حریبا۔ج2 ، ص78 ، الحدیث 2301)(السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ بدر الکبری ص260)

تاریخی برچھی (Historical Javelin)

اس کے بعد سعید بن العاص کا بیٹا "عبیدہ " سر سے پاؤں تک لوہے کے لباس اور ہتھیاروں سے چھپا ہواصف سے باہر نکلا اور یہ کہ کر اسلامی لشکر کوللکارنے لگا کہ "میں ابوکرش ہوں‘‘ اس کی یہ مغرورانہ للکار سن کر رحمةللعلمین، خاتم النّبیین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پھوپھی زاد بھائی جبتی صحابی حضرت سیدنا زبیر بن العوام رَضِیَ اللہ عَنْہُ جوش میں بھرے ہوئے اپنی بر چھی(نیزہJavelin) لےکر مقابلہ کے لئے نکلے مگر یہ دیکھا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے سوا اس کے بدن کاکوئی حصہ بھی ایسا نہیں ہے جو لوہے سے چھپا ہوا نہ ہو۔ حضرت زبیر رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے تاک کر اس کی آنکھ میں اس زور سے برچھی ماری کہ وہ زمین پر گرا اور مر گیا۔ برچھی اس کی آنکھ کو چھید تی ہوئی کھوپڑی کی ہڈی میں چبھ گئی تھی۔ حضرت زبیر رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے جب اس کی لاش پر پاؤں رکھ کر پوری طاقت سے کھینچا تو بڑی مشکل سے برچھی نکلی لیکن اس کا سر مڑ کرخم (یعنی مڑ Bend )ہو گیا۔ یہ برچھی ایک تاریخی یادگار بن کر برسوں تبرک بنی رہی۔لطف وکرم فرمانے والے آقاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت زبیر رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے یہ برچھی طلب فرمالی اور اس کو ہمیشہ اپنے پاس رکھا پھر آخری نبی، مکی مدنی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد چاروں خلفاء راشدین رَضِیَ اللہ عَنْہُم کے پاس منتقل ہوتی رہی۔ پھر حضرت سیدنا زبیر رَضِیَ اللہ عَنْہُ کے فرزند حضرت عبدالله بن زبیر رَضِیَ اللہ عَنْہُ کے پاس آئی یہاں تک کہ 73ھ میں جب بنوامیہ کے ظالم گورنر حجاج بن یوسف ثقفی نے ان کو شہید کر دیا تو یہ برچھی بنوامیہ کے قبضہ میں چلی گئی پھر اس کے بعد لاپتہ ہوگئی۔ (صحیح بخاری ، کتاب المغازی ج3 ص 18 الحدیث 3998)

(تیسرا باب)جنگ بدر میں فرشتوں کا نزول

The Descent of Angels in War of Badar

غزوہ بدر میں جہاں اللہ کریم نے مسلمانوں کے لشکر پر کئی انعامات فرمائے تاکہ مسلمان میدان جنگ میں ثابت قدم رہے ۔مسلمان کفار کو شکست دے اور کفار کی قوت وطاقت ختم ہو جائے ۔ان انعامات میں ایک بڑا انعام جس کی وجہ سے مسلمانوں کو اتنے بڑے لشکر سے فتح حاصل ہوئی وہ اللہ پاک کا فرشتوں کے ذریعے مسلمانوں کی مدد کرنا ہے۔ اور قران مجید میں بھی اس کا ذکر فرمایا چنانچہ پارہ 3 سورہ ال عمران ایت نمبر۔ 123 تا 125 میں فرماتا ہے۔

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۱۲۳)

اِذْ تَقُوْلُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ اَلَنْ یَّكْفِیَكُمْ اَنْ یُّمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰثَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئكَةِ مُنْزَلِیْنَؕ(۱۲۴)بَلٰۤىۙ-

اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا وَ یَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِهِمْ هٰذَا یُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئكَةِ مُسَوِّمِیْنَ(۱۲۵)

ترجمۂ کنز الایمان:اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے تو اللہ سے ڈرو کہ کہیں تم شکر گزار ہو۔جب اے محبوب تم مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتے اتار کر۔ ہا ں کیوں نہیں اگر تم صبرو تقویٰ کرو اور کافر اسی دم تم پر آپڑیں تو تمہارا رب تمہاری مدد کو پانچ ہزار فرشتے نشان والے بھیجے گا۔

صراط الجنان جلدی، ص 47 پر اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھاہے۔

شَہَنْشاہِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو حوصلہ دیتے ہوئے اور ان کی ہمت بڑھاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ’’تم اپنی ہمت بلند رکھو ، کیا تمہیں یہ کافی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ تین ہزار فرشتے اتار کر تمہاری مدد فرمائے ۔ اس کے بعد فرمان ہے کہ تین ہزار فرشتوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اگرتم صبر و تقویٰ اختیار کرو اور اس وقت دشمن تم پر حملہ آور ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ پانچ ہزار ممتاز فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد فرمائے گا۔ یہ ایک غیبی خبر تھی جو بعد میں پوری ہوئی اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کےصبر و تقویٰ کی بدولت اللہ تعالیٰ نے پانچ ہزار فرشتوں کو نازل فرمایا جنہوں نے میدانِ بدر میں مسلمانوں کی مدد کی۔

اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کا مدد کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کا مدد کرنا ہے:

اس آیتِ مبارکہ(سورہ ال عمران آیت نمبر :123)سے اہلسنّت کا ایک عظیم عقیدہ واضح طور پر ثابت ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ جنگِ بدر میں مسلمانوں کی مدد کیلئے فرشتے نازل ہوئے جنگ میں فرشتے لڑے، انہوں نے مسلمانوں کی مدد کی لیکن ان کی مدد کواللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ بدر میں اللہ تعالیٰ نے تمہاری مدد فرمائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ  عَزَّوَجَلَّ کے پیارے جب اللہ تعالیٰ کی اجازت سے مدد فرماتے ہیں تو وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی کی مدد ہوتی ہے۔ لہٰذا انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاءرَحْمَۃُاللہِ عَلَیْہِمْ جو مدد فرمائیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کی مدد قرار پائے گی اور اسے کفر و شرک نہیں کہا جائے گا۔ (صراط الجنان ،ج 2 ،ص46)

اعلی حضرت رَحْمَۃُاللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں

حاکم حکیم داد و دَوا دیں یہ کچھ نہ دیں

مَردُود یہ مُراد کِس آیت، خبر کی ہے

(حدائق بخشش ص206)

اسی طرح سور ةالانفال آیت نمبر 12 میں ارشاد ہوتا ہے

اِذْ یُوْحِیْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰٓئكَةِ اَنِّیْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ

ترجمہ کنزالایمان :جب اے محبوب تمہارا رب فرشتوں کو وحی بھیجتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم مسلمانوں کو ثابت رکھو ۔

یعنی اللہ رب العزت نے فرشتوں کی طرف وحی فرمائی کہ میں مسلمانوں کے ساتھ ہوں تم ان کی مدد کرو اور انہیں ثابت قدم رکھو۔ فرشتوں کے ثابت قدم رکھنے کا معنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ فرشتوں نے نور والے آقا، مکی مدنی مصطفے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خبر دی کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد فرمائے گا اور نبی کریم  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مسلمانوں کو یہ خبر دے دی  ( جس سے مسلمانوں کے دل مطمئن ہو گئے اور وہ اس جنگ میں ثابت قدم رہے۔(تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: 12 ، 463/5)

بدر میں قتال ملائکہ کے متعلق روایات

مفسرین کی ایک تعداد کے مطابق جنگ بدر میں فرشتوں نے باقاعدہ لڑائی میں حصہ لیا تھا۔پہلے ایک ہزار فرشتے آئے پھر تین ہزار ،پھر پانچ ہزار ۔

1۔چنانچہ جنتی ابن جنتی، صحابی ابن صحابی  عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَانے فرمایا کہ مسلمان اس دن کافروں کا تعاقب کرتے تھے اور کافر مسلمانوں کے آگے آگے بھاگتا جاتا تھا کہ اچانک اُوپر سے کوڑے کی آواز آتی اور سوار کا یہ کلمہ سنا جاتا تھا ’’ اَقْدِمْ حَیْزومُ ‘‘ یعنی آگے بڑھ اے حیزوم (حیزوم حضرت جبریل  عَلَیْہِ السَّلَام کے گھوڑے کا نام ہے) اور نظر آتا تھا کہ کافر گر کر مر گیا اور اس کی ناک تلوار سے اڑا دی گئی اور چہرہ زخمی ہوگیا۔ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم نے اللہ پاک کی عطا سےدو جہاں سے باخبر پیارے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے اپنے یہ معائنے بیان کئے تو رسول اکرم، نور مجسم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے فرمایا کہ یہ تیسرے آسمان کی مدد ہے۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃبدرالخ،ص969،الحدیث:  58(1763)

     2۔حضرت ابو داؤد مازنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ’’میں مشرک کی گردن مارنے کے لئے اس کے درپے ہوا لیکن اس کا سر میری تلوار پہنچنے سے پہلے ہی کٹ کر گر گیا تو میں نے جان لیا کہ اسے کسی اور نے قتل کیا ہے۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی داود المازنی رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ، 9/  202، الحدیث: 23839)

3۔ علامہ ابو جعفر محمد بن جریر طبری روایت کرتے ہیں عبداللہ ابن عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُما نے بیان کیا کہ جنگ بدر کے بعد ابو سفیان مکے کے لوگوں میں جنگ کے احوال بیان کر رہا تھا۔ اس نے کہا ہم نے آسمان اور زمینوں کے درمیان سفید رنگ کے سوار دیکھے جو چتکبرے گھوڑوں پر سوار تھے وہ ہم کو قتل کرنے تھے اور ہم وہ قید کر رہے تھے ابو رافع نے فرمایا وہ فرشتے تھے۔(تبیان القرآن، ج۔4 ص۔ 560 فرید بک سٹال)

4۔ بدر کے دن حضرت سیدنا ابوالیسر رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے حضرت عباس کو قید کیا۔ ابو الیسر رَضِیَ اللہ عَنْہُ نہایت دبلے پتلے آدمی تھے اور حضرت عباس بہت جسیم تھے. رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ابوالیسر رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے پوچھا تم نے عباس پر کیسے قابو پایا؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک شخص نے میری مدد کی تھی۔ میں نے اس کو اس سے پہلے نہ دیکھا نہ اس بعد دیکھا۔اللہ پاک کے پیارے غیب دان نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ایک معزز فرشتہ نے تمہاری مدد کی تھی۔(تبیان القرآن، ج۔4 ص۔ 560 فرید بک سٹال )

5۔ حضرت سہل بن حُنَیف رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ’’ غزوۂ بدر کے دن ہم میں سے کوئی تلوار سے مشرک کی طرف اشارہ کرتا تھا تو اس کی تلوار پہنچنے سے پہلے ہی مشرک کا سر جسم سے جدا ہو کر گر جاتا تھا۔(معرفۃ الصحابہ، سہل بن حنیف بن واہب بن العکیم،2 / 441، رقم:3299 )

6۔ صدیق اکبر اور فاروق اعظم رَضِیَ اللہ عَنْہُما کی کیا شان ہے کہ الله پاک کی طرف سے مدد کے لیے آنے والے ملائکہ کی آپ حضرات کو رفاقت حاصل ہوئی ۔ چنانچہ حضرت سید ناعلی المرتضی شیر خدا رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے موقعے پر خاتم المرسلين رحمةللعلمین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سیدنا ابو بکر صدیق وسید نا عمر فاروق رَضِیَ اللہ عَنْہُما سے ارشاد فرمایا: تم میں سے ایک کے ساتھ جبریل اور ایک کے ساتھ میکائیل ہیں۔( مصنف ابن ابی شیبہ ، کتاب الفضائل، ماذکر فی ابی بکر ج7 ص475، فیضان فاروق اعظم ج1 ص 483)

فرشتوں کی فوج دیکھ کر شیطان میدان جنگ سے بھاگ کھڑا ہوا

شیطان لعین جوجنگ بدر میں بصورت سراقہ کفار کے ساتھ آیا تھا جب اس نے یہ اسمانی مدد دیکھی تو اپنی جان کے ڈرسے بھاگ کھڑا ہوا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا

فَلَمَّا تَرَآءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰى عَقِبَیْهِ وَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْكُمْ اِنِّیْۤ اَرٰى مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَؕ-وَ اللّٰهُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ۠ (سورةالانفال :48)

ترجمۂ کنز الایمان: تو جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے الٹے پاؤں بھاگا اور بولا میں تم سے الگ ہوں میں وہ دیکھتا ہوں جو تمہیں نظر نہیں آتا میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور اللہ کا عذاب سخت ہے۔

اس واقعے کا پس منظر (Back ground) کچھ اس طرح ہےکہ جب کفار قریش بدر میں جانے کیلئے تیار ہوگئے تو شیطان(ابلیس لعین) ایک جھنڈا ساتھ لے کرمشرکین سے آملا اور ان سے کہنے لگا کہ میں تمہارا ذمہ دار ہوں آج تم پر کوئی غالب آنے والا نہیں جب مسلمانوں اور کافروں کے دونوں لشکر صف آراء ہوئے اور سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےایک مشت خاک مشرکین کے منہ پر ماری تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے اور حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام   ابلیس لعین کی طرف بڑھے جوسراقہ کی شکل میں حارث بن ہشام کا ہاتھ پکڑ ے ہوئے تھا، ابلیس ہاتھ چھڑا کر اپنے گروہ کے ساتھ بھاگا۔ حارث پکارتا رہ گیا سراقہ !سراقہ! تم نے تو ہماری ضمانت لی تھی اب کہا ں جاتے ہو ؟ابلیس کہنے لگا : بےشک میں تم سے بیزار ہوں اور امن کی جو ذمہ داری لی تھی اس سے   سبک دوش ہوتا ہوں۔ اس پر حار ث بن ہشام نے کہا کہ ہم تیرے بھروسے پر آئے تھے کیا تو اس حالت میں ہمیں رسوا کرے   گا؟ کہنے لگا: میں وہ دیکھ رہاہوں جو تم نہیں دیکھ رہے،بیشک میں   اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرتا ہوں کہیں وہ مجھے ہلاک نہ کردے۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: 48 ، 201/2 )

جبل ملائکہ

پیارےپیارے اسلامی بھائیوں!میدان بدر کے قریب ایک پہاڑ(Mountain ) واقع ہے ۔جس کا نام جبل ملائکہ ہے۔ یہ وہی مبارک پہاڑ اہے جہاں جنگ بدرکےدن مسلمانوں کی نصرت کیلئے فرشتوں کا نزول ہوا تھا ۔حیران کن بات یہ ہے کہ عموما پہاڑ پتھر وغیرہ سخت قسم کے ہوتے ہیں مگر قدرت الہی دیکھیئےکہ یہ اتنا بڑا پہاڑ (جبل ملائکہ) سارے کا ساراریت کا ہے۔ اس مقدس پہاڑ کی ریت بھی اتنی نرم و ملائم نرالی ہے کہ اگر اس پر پاؤں رکھا جائے یا کپڑوں پر لگ جائے تو کسی قسم کی آلودگی(یعنی میل کچیل) نہیں ہوتی اورعجب بات یہ ہے کہ یہ مبارک مٹی فورا جھڑ جاتی کوئی ذرہ بھی جسم پر باقی نہیں رہتا ہے گویا کہ عشق کی زبان میں کہا جاسکتا ہےکہ مٹی بھی اس مبارک جگہ کو چھوڑنا نہیں چاہتی۔

کفار ہتھیار ڈال کر بھاگ کھڑے ہوئے

کفار قریش کے سرداروں عتبہ، شیبہ، ابو جہل وغیرہ کی ہلاکت سے کفار مکہ کی کمرٹوٹ گئی اور ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ ہتھیارڈال کر بھاگ کھڑے ہوئے اور مسلمانوں نے ان لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔اس جنگ میں کفار کے ستر آدمی قتل اور ستر آدمی گرفتار ہوئے۔ باقی اپنا سامان چھوڑ کر فرار ہو گئے اس جنگ میں کفار مکہ کو ایک زبردست شکست ہوئی کہ ان کی عسکری طاقت( جنگی طاقت-Military power)ہی فوت ہوگئی ۔ کفارقریش کے بڑے بڑے نامور سردار جو بہادری اورفن سپہ گری میں یکتائے روزگار تھے ایک ایک کر کے سب موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ۔ ان ناموروں میں عتبہ، شیبہ ابوجہل، ابوابتری، زمعہ، عاص بن ہشام، امیہ بن خلف، منبه بن الحجاج، عقبہ بن ابی معیط نضر بن الحارث وغیرہ قریش کے سرتاج تھے یہ سب مارے گئے۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ بدر الکبری ص267)

صبر اور تقویٰ کی اہمیت

اے عاشقان رسول! دیکھا آپ نے کہ جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد اور سامان جنگ کی قلت کے باوجود فتح مبین نے مسلمانوں کے قدموں کا بوسہ لیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ کثرت تعداد اور سامان جنگ کی فراوانی پر موقوف نہیں ۔ بلکہ فتح کا دارومدار نصرت خداوندی پر ہے کہ وہ جب چاہتا ہے تو فرشتوں کی فوج آسمان سے میدان جنگ میں اتار کر مسلمانوں کی امداد و نصرت فرما دیتا ہے اور مسلمان قلت تعداد اور سامان جنگ نہ ہونے کے باوجود فتح مند ہو کر کفار کےلشکروں کو تہس نہس کر کے فنا کے گھاٹ اتار دیتا ہے، مگر اللہ تعالٰی اس کیلئے دو شرطیں رکھی ہیں۔ ایک صبر اور دوسرا تقویٰ (بَلٰۤی اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا ترجمہ کنزالایمان ہا ں کیوں نہیں اگر تم صبرو تقویٰ کرو(ال عمران :ایت نمبر 125)) ۔اگر مسلمان صبر اور تقویٰ کے دامن کو تھامے ہوئے خدا کی مدد پر بھروسہ کر کے جنگ میں اڑ جائیں تو ان شاء اللہ ہمیشہ اور ہر محاذ پر فتح مبین مسلمانوں کے قدموں چومے گی اور کفار شکست کھا کر راہ فرار اختیار کریں گے یا مسلمانوں کی مار سے فنا ہوکر فی النار ہو جائیں گے۔ بس ضرورت ہے کہ مسلمان صبر وتقوی کے ہتھیار سے لیس ہو کر خدا کی مدد کا بھروسہ کرکے کفار کے حملوں کا مقابلہ کرنے کیلئے میدان جنگ میں استقامت کا پہاڑ بن کر کھڑے رہیں اور ہرگز ہرگز تعداد کی کمی اور سامان جنگ کی قلت وکثرت کی پرواہ نہ کریں۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن ص 84 -85)

مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو ابھارتے ہوئے کسی نے کیا خوب کہا؛

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

بدر کا گڑھا (Pit of Baddar)

رحمة للعالمین ، خاتم النّبیین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاہمیشہ یہ طریقہ رہا کہ جہاں بھی کوئی لاش نظر آتی تھی اخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس کو فون کروادیتے تھے لیکن جنگ بدر میں قتل ہونے والے کفار چونکہ تعداد میں بہت زیادہ تھے، سب کو الگ الگ دفن کرنا ایک دشوار کام تھا اس لئے تمام لاشوں کو سرور کار دوعالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بدر کے ایک گڑھے میں ڈال دینے کا حکم فرمایا۔ چنانچہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم نے تمام لاشوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر گڑھے میں ڈال دیا۔ امیہ بن خلف کی لاش پھول گئی تھی ،صحابہ کرام نے اس کو گھسیٹنا چاہا تو اس کے اعضاءالگ الگ ہونے لگے اس لئے اس کی لاش وہیں مٹی میں دبا دی گئی۔ (المواھب اللدنیة والزرقانی ،غزوہ بدر الکبری ج2 ص 303)

تم ان سے زیادہ نہیں سنتے

اللہ پاک کے پیارے اور آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عادت کریمہ تھی جب کسی مقام کو فرماتے تو وہاں تین دن قیام فرماتے۔ بدر سے واپس تشریف لے جاتے وقت اس کنوئیں پر تشریف لے گئے جس میں کافروں کی لاشیں پڑی تھیں اور انہیں ان کے نام، ان کے والد کے نام کے ساتھ آواز دے کر ارشاد فرمایا:'' یَا فَلَانُ بْنَ فَلَانِِ وَیَا فَلَانُ بْنَ فَلَانِِ اَیَسُرُّکُمْ اَنَّکُمْ اَطَعْتُمُ اللہَ وَرَسُولَهُ فَاِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدْنَا رَبُّنَا حَقًّا فَھَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا ترجمہ اے فلاں بن فلاں! اور اے فلاں بن فلاں! کیا اب تمہیں یہ پسند ہے کہ تم نے الله اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی ۔ بہر حال ہم نے اس وعدے کو سچا پایا جو ہمارے رب نے ہم سے فرمایا تھا، کیا تم نے بھی اس وعدے کو سچا پایا جو تمہارے رب نے تم سے کیا تھا؟ اسلام کے تیسرے خلیفہ، جنتی صحابی سید نا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے یہ سن کر عرض کی : یَارَسُوْلَ اللہِ مَا تُکَلِّمُ مِنْ اِجْسَادِِ لَا اَرْوَاحَ لَھَا یارسول الله!صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ کیا ان بےجان جسموں سے کلام فرمارہے ہیں؟ ارشادفرمایا: وَالَّذِی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِہٰ مَا اَنْتُمْ بِاَسْمَعَ لِمَا أَقُوْلُ مِنْھُم اے عمر! اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے تم کچھ ان سے زیادہ نہیں سنتے ‘‘ ( مگر انہیں طاقت نہیں کہ مجھے لوٹ کر جواب دیں )(بخاری، کتاب المغازی، باب قتل ابی جھل ،ج3 ص11 الحدیث 3976)

اے عاشقان رسول! اس سے معلوم ہوا کہ جب کفار کے مردے زندوں کی گفتگو سنتے ہیں تو پھر صالح مؤمنین خصوصا انبیاء کرام عَلَیْھُم الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اولیاء عظام رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہم کی کیا شان ہوگی یقینا اللہ پاک کے نیک بندے زندوں کی فریاد کو سنتے بھی ہیں اور باذن الہی ان کی دستگیری(مدد) بھی فرماتے ہیں۔

نیک مومنین سے مدد مانگنا باقاعدہ قران وحديث و صحابہ وتابعین سے ثابت ہے جیسے پارہ 28سورةالتحریم کی آیت نمبر 4 میں ارشاد ہوتا ہے۔

فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلىٰهُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِیْرٌ(۴)

ترجمۂ کنز الایمان

تو بیشک اللہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں ۔

یَا عِبَادَاللہِ اَعْیِنُونِی

جنتی صحابی حضرت عتبہ بن غزوان رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے کہ شہنشاہ مدینہ منورہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز گم ہوجائے اور مدد چاہے۔ اور ایسی جگہ ہو کہ کوئی ہمدم نہیں تو اسے چاہئے یوں پکارے:یَا عِبَادَاللہِ اَعْیِنُونِی، یَا عِبَادَاللہِ اَعْیِنُونِی، یَا عِبَادَاللہِ اَعْیِنُونِی اے اللہ کےبندو! میری مدد کرو، اے اللہ کےبندو! میری مدد کرو، اے اللہ کےبندو! میری مدد کرو، کہ اللہ کے کچھ بندے ہیں جنہیں یہ نہیں دیکھتا۔(معجم کبیر ،ج 15 ص 117 ، الحدیث 290)

واللہ وہ سُن لیں گے فریاد کو پہنچیں گے

اِتنا بھی تو ہو کوئی جو آہ کرے دل سے

(حدائق بخشش ص143)

ممکن نہیں کہ خیرِ بشَر کو خبر نہ ہو

یقینا اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے کہ اللہ پاک کے نیک بندے اللہ پاک کی دی ہوئی طاقت کے ذریعے مدد فرماتے ہیں ورنہ حقیقی مددگار تو اللہ رب العزت ہی ہے۔چنانچہ سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دستگیری کا ایک ایمان افروز واقعہ سنیئے ۔ امام طبرانی ، علامہ ابن المقری اور امام ابو الشیخ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہم یہ تینوں حدیث کے بہت بڑے امام گزرے ہیں ۔اور یہ تینوں ہستیاں ایک ہی زمانے میں مدینہ منورہ کی ایک درسگاہ میں حدیث کا علم حاصل کرتےتھے ۔ ایک بار ان تینوں طلباء علم حدیث پر ایسا وقت گزرا کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا۔ روزے پر دوزے رکھتے رہے، مگر جب بھوک سے نڈھال ہو گئے اور ہمت جواب دےگئی تو تینوں نے صاحب جودوکرم ، دافع رنج والم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے روضہ اطہر پر حاضر ہو کر فریاد کی یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہم لوگ بھوک سے بے تاب ہیں ۔یہ عرض کرکے امام طبری رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ تو آستانہ مبارکہ ہی پر بیٹھ گئے اور کہا : اس ڈر پر موت آئے گیا روزی ، اب یہاں سے نہیں اٹھوں گا۔ علامہ ابن المقری اور امام ابو الشیخ رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہما اپنی قیام گاہ پر لوٹ آئے ۔ تھوڑی دیر بعد کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، دونوں نے دروازہ کھول کر دیکھا تو علوی خاندان کے ایک بزرگ دو غلاموں کے ساتھ کھانا لے کر تشریف فرماہیں۔ اور یہ فرمارہے ہیں کہ نور والے آقا، مکی مدنی مصطفے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ابھی ابھی مجھے خواب میں اپنی زیارت سے مشرف فرماکر حکم فرمایا کہ میں آپ لوگوں کے پاس کھانا پہنچا دوں چنانچہ جو کچھ مجھ سے فی الوقت ہو سکا حاضر ہے ۔(تذکرہ الحفاظ ،121/3 ، رقم 913 مخلصا)

شہدائے بدر

جنگ بدر میں کل چودہ مسلمان شہادت سے سر فراز ہوئے ۔جن میں سے چھ مہاجر صحابہ کرام تھے اور آٹھ انصار صحابہ تھے ۔ مہاجرین شہدا بدر کے نام یہ ہیں۔1۔ حضرت عبیدہ بن الحارث رَضِیَ اللہ عَنْہُ ۔ 2۔حضرت عمیر بن ابی وقاص رَضِیَ اللہ عَنْہُ 3۔ حضرت ذوالشمالین عمیر بن عبد عمرو رَضِیَ اللہ عَنْہُ 4۔حضرت عاقل بن ابی بکیررَضِیَ اللہ عَنْہُ 5۔ حضرت مِهجَع بن صالح رَضِیَ اللہ عَنْہُ 6۔ حضرت صفوان بن بیضاءرَضِیَ اللہ عَنْہُ

انصار شہدا بدر کے نام یہ ہیں 7۔ حضرت سعد بن خیثمہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ 8۔ حضرت مبشر بن عبد المنذر رَضِیَ اللہ عَنْہُ 9۔ حضرت حارثہ بن سراقہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ 10۔ حضرت معوذ بن عفراء رَضِیَ اللہ عَنْہُ ۔ 11۔ حضرت عمیر بن حُمَام رَضِیَ اللہ عَنْہُ 12۔حضرت رافع بن معلیٰ رَضِیَ اللہ عَنْہُ 13۔ حضرت عوف بن عفراءرَضِیَ اللہ عَنْہُ 14۔ حضرت یزید بن حارث رَضِیَ اللہ عَنْہُ (المواھب اللدنیة والزرقانی ،غزوہ بدر الکبری ج2 ص 325 )

ان شہداء بدر میں سے تیرہ(13)حضرات تو میدان بدر میں ہی مدفون ہوئے مگر حضرت عبیدہ بن حارث رَضِیَ اللہ عَنْہُ نےچونکہ بدر سے واپسی پر منزل "صفراء " میں وفات پائی اس لئے ان کی قبر مبارک صفراء کے مقام میں ہے۔ (شرح الزرقانی علی المواھب، غزوہ بدر الکبری ،ج 2 ،ص325)

جاں نثارانِ بدر و اُحد پر درود

حق گزارانِ بیعت پہ لاکھوں سلام

(حدائق بخشش ص311)

اہل مدینہ کا جوش استقبال

نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فتح کے بعد حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ کو فتح مبین کی خوشخبری سنانے کے لئے مدینہ بھیج دیا تھا۔ چنانچہ حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ یہ خوشخبری لے کر جب مدینہ پہنے تو تمام اہل مدینہ جوش مسرت کے ساتھ اپنے آقاو مولا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آمد آمد کے انتظار میں برقرار رہنے لگے اور جب تشریف آوری کی خبر پیچی تو اہل مدینہ نے آگے بڑھ کر مقام "روحاء "میں آپ کا پرجوش استقبال کیا۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ بدر الکبری ص265)

حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ جب فتح کی خوشخبری لے کر مدینے پہنچے اسی دن نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پیاری شہزادی سیدہ رقیہ رَضِیَ اللہ عَنْھا کا انتقال ہوا۔جن کی عیادت کیلئے نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سیدنا عثمان غنی رَضِیَ اللہ عَنْہُ کو مدینے میں رکنے کا ارشاد فرمایا تھا۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ بدر الکبری ص282)

انعامات الہیہ کا تذکرہ

مکتبہ المدینہ کی کتاب" عجائب القرآن مع غرائب القرآن " (کل صفحات: 420)کے صفحہ 302 پر ہے :جنگ بدر میں مسلمانوں کو جن مشکل حالات کا سامنا تھاظاہر ہے کہ عقل انسانی عالم اسباب پر نظر کرتے ہوئے اس کے سوا اور کیا فیصلہ کرسکتی ہےکہ وہ اس جنگ کو ٹال دیں۔ مگر صادق الایمان مسلمانوں نے اپنے رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مرضی پاکر ہر قسم کی بے سروسامانی کے باوجود حق وباطل کی معرکہ آرائی کیلئے والہانہ اور فدا کارانہ جذبات کے ساتھ خود کو پیش کردیا اور نہایت قدمی اور اولوالعزمی کے ساتھ میدان جنگ میں کود پڑے تو اللہ پاک نے ان مسلمانون کی کس کس طرح امداد ونصرت فرمائی، اس پر ایک نظر ڈال کر خداوند قدوس کے فضل عظیم کی جلوہ سامانیوں کا نظارہ کیجئے اور یہ دیکھئے کہ الله تعالی نے اس جنگ میں کس کس طرح مسلمانوں کی مدد فرمائی۔

1۔ مسلمانوں کی نگاہ میں دشمنوں کی تعداد اصل تعداد سے کم نظر آئی تا کہ مسلمان مرعوب نہ ہوں اور مشرکین کی نظروں میں مسلمان مٹھی بھر نظر آئیں تا کہ وہ جنگ سے ہی نہ چرائیں اور حق و باطل کی جنگ ٹل نہ جائے۔

2۔ اور ایک وقت میں مسلمان مشرکین کی نظر میں دگنے نظر آئے تا کہ مشرکین مسلمانوں سے شکست کھا جائیں۔

3۔پہلے مسلمانوں کی مدد کے لئے ایک ہزار فرشتے بھیجے گئے۔ پھر فرشتوں کی تعداد بڑھا کر تین ہزار کر دی گئی ۔ پھر فرشتوں کی تعداد پانچ ہزار ہوگئی ۔

4۔ مسلمانوں پرعین معرکہ کے وقت تھوڑی دیر کے لئے غنودگی اور نیند طاری کر دی گئی جس کے چند منٹ بعد ان کی بیداری نے ان میں ایک نئی تازگی اور نئی روح پیدا کر دی ۔

5۔ آسمان سے پانی برسا کر مسلمانوں کے لئے ریتلی زمین کو پختہ زمین کی طرح بنادیا اور مشرکین کے محاذجنگ کی زمین کو کیچھڑ اورپھسلن والی دلدل بنادیا۔

6۔ نتیجہ جنگ یہ ہوا کہ ذرا دیر میں مشرکین کے بڑے بڑے نامی گرامی پہلوان اور جنگجو شہسوار مارے گئے ۔ چنانچہ ستر(70) مشرکین قتل ہوئے اور ستر(70)گرفتار ہو کر قیدی بنائے گئے اور مشرکین کا لشکر اپنا سارا سامان چھوڑ کر میدان جنگ سے بھاگ نکلا اور یہ سارا سامان مسلمانوں کو مال غنیمت میں مل گیا۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن ص 302 ۔303)

انہی انعامات الہیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام اہلسنت رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں

کثرتِ بعدِ قِلّت پہ اکثر درود

عزّتِ بعدِ ذِلّت پہ لاکھوں سلام

(حدائق بخشش ص298)

یہ واقعہ ہمیں متنبہ کر رہا ہے کہ اگر مسلمان خدا پر بھروسہ کر کے حق و باطل کی جنگ میں ثابت قدمی اور پامردی کے ساتھ ڈٹے رہیں تو تعداد کی کمی اور بے سروسامانی کے باوجود ضرور خدا کی مدد اتر پڑے گی اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگی۔ یہ رب العزت کے فضل و کرم کا وہ دستور ہے۔کہ جس میں ان شاء الله تعالی قیامت تک کوئی تبدیلی نہیں ہوگی ۔ بس شرط یہ ہے کہ مسلمان نہ بدل جائیں، اور ان کے اسلامی خصائل و کردار میں کوئی تبدیلی نہ ہو۔ ورنہ خدا کا دستور تو نہ بدلا ہے نہ کبھی بدلے گا اس کا وعدہ ہے کہ

فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبْدِیْلًا  (پارہ 22 سورةالفاطر :43)

ترجمہ کنزالایمان: تو تم ہرگز اللہ کے دستور کو بدلتا نہ پاؤ گے والله تعالی اعلم

(عجائب القرآن مع غرائب القرآن ص 304)

قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم

سردار انبیاء، حبیب کبریا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مدینہ شریف پہنچنے کے ایک دن بعد اسیران جنگ (یعنی قیدی-Prisoners) مدینے پہنچے۔ اللہ پاک کےپیارے پیارے رحم فرمانے والےنبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم کو تاکید فرمائی کہ ان کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے۔جن قیدیوں کے پاس کپڑے نہ تھے ان کو کپڑے دلوائے گئے۔صحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم ان لوگوں کو گوشت روٹی وغیرہ حسب طاقت بہترین کھانا کھلاتے اور خود کھجوریں کھا لیتےتھے۔چنانچہ ابو عزیز بن عمیر کا بیان ہےکہ جب مجھے بدر سے لائے تو میں انصار کی ایک جماعت میں تھاتو وہ صبح یا شام کا کھانا لاتے تو روٹی مجھے دیتے اور خود کھجوریں کھاتے ۔ان میں سے جس کے ہاتھ روٹی کا ٹکڑا آتا وہ میرے آگے رکھ دیتا۔مجھے شرم آتی میں اسے واپس کرتا مگر وہ مجھ ہی کو واپس دیتا اور ہاتھ نہ لگاتا۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔ غزوہ بدر الکبری ص265)

پیارےپیارے اسلامی بھائیو!اے کاش ہمارے اندر بھی مسلمان بھائیوں سےخیر خواہی کرنےکا جذبہ پیدا ہوجاتا! کاش! ضرورت مند مسلمانوں کی ضروریات پوری کرنے کا ذوق نصیب ہوجاتا ۔ مذکورہ واقعہ میں یقیناہمارے لیے سیکھنے کے بے شمار مدنی پھول موجود ہیں لیکن افسوس اب معاملہ برعکس نظر آتا ہے ایسا لگتا ہےکہ ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کا دشمن بنا ہوا ہے ، کسی مسلمان بھائی کی بےعزتی کرنا ، اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا ،اس کا مال دبا لینا، دوسرے کو نیچا دیکھانا ، دھوکہ دینا ،آپس میں لڑنا جھگڑنا زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ اپنے مسلمان بھائیوں کا خیال رکھنا بہت بڑی سعادت ہے اور ان کو اذیت دینا تو دور کی بات حتّٰی کہ کسی مسلمان کو ڈرانا ، گھورنا یا ایسا اشارہ کرنا جو باعث تکلیف ہو وہ بھی جائز نہیں چنانچہ رحمةللعلمین، خاتم النّبیین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ دوسرے مسلمان کی طرف آنکھ سے اس طرح اشارہ کرے جس سے تکلیف ہو (اتحاف السادة للزیدی ج7 ص177)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کو جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو خوفزدہ کرے۔(سنن ابی داؤد ج4، ص 391 ،الحدیث 5004)

قیدیوں کے بارے میں مشورہ

قیدیوں کے بارے میں سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرات صحابہ رَضِیَ اللہ عَنْہُم سے مشورہ فرمایا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟ اسلام کے دوسرے خلیفہ سیدنا فاروق اعظم رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے یہ رائے دی کہ ان سب دشمنان اسلام کوقتل کر دینا چاہے اور ہم میں سے ہرشخص اپنے اپنے قریبی رشتہ دارکواپنی تلوار سےقتل کرےمگراسلام کے پہلے خلیفہ،سیدنا صدیق اکبر رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے یہ مشورہ دیا کہ آخر یہ سب لوگ اپنے عزیز واقارب ہی ہیں لہذا انہیں قتل نہ کیا جائے بلکہ ان لوگوں سے بطور فدیہ کچھ رقم لے کر ان سب کو رہا کردیا جائے۔ اس وقت مسلمانوں کی مالی حالت بہت کمزور ہے فدیہ کی رقم سے مسلمانوں کی مالی امداد کا سامان بھی ہو جائے گا اور شاید آئندہ الله ان لوگوں کو اسلام کی توفیق نصیب فرمائے۔ سرکار دوجہاں صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہُ کی سنجیدہ رائے کو پسند فرمایا اور ان قیدیوں سے چار چار ہزار در ہم فدیہ لے کر ان لوگوں کو چھوڑ دیا۔ جولوگ مفلسی کی وجہ سے فدیہ نہیں دے سکتے تھے وہ یوں ہی بلا فدیہ چھوڑ دیئے گئے۔ ان قیدیوں میں سے جو لوگ پڑھنا لکھنا جانتے تھے ان میں سے ہر ایک کا فدیہ یہ تھا کہ وہ انصارکے دس لڑکوں کو لکھنا سکھادیں۔( المواھب اللدنیة والزرقانی، غزوہ بدر الکبری ج2 ص 320،322)

دلوں کی بھی رکھتے ہیں خبر حبیب کبریاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ

بدر کے ان قیدیوں میں سے نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیارے چچا ،جنتی صحابی حضرت سیدنا عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُ بھی تھے (جو ابھی تک مسلمان نہ ہوئے تھے )۔انصار نے پیارے آقا صلی الله تعالی علیہ وسلم سے یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ حضرت عباس ہمارے بھانجے ہیں لہذا ہم ان کا فدیہ معاف کرتے ہیں لیکن حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ عرض منظور نہیں فرمائی۔ حضرت عباس قریش کے ان دس دولت مند رئیسوں میں سے تھے جنہوں نے لشکر کفار کے راشن کی ذمہ داری اپنے سر لی تھی، اس غرض کے لئے حضرت عباس کے پاس بیس اوقیہ(تقريبا 2450 گرام )سونا تھا۔ چونکہ فوج کو کھانا کھلانے میں ابھی حضرت عباس کی باری نہیں آئی تھی اس لئے وہ سونا ابھی تک ان کے پاس محفوظ(Save) تھا۔ اس سونے کو آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مال غنیمت میں شامل فرما لیا اور حضرت عباس سے مطالبہ فرمایا کہ وہ اپنی اور اپنے دونوں بھتیجوں عقیل بن ابی طالب اور نوفل بن حارث اور اپنے حلیف عقبہ بن عمرو چار شخصوں کا فدیہ ادا کر یں۔ حضرت عباس نے کہا کہ میرے پاس کوئی مال ہی نہیں ہے، میں کہاں سے فدیہ ادا کروں؟ یہ سن کر اللہ کی عطا سے غیب جاننے والا آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ چچا جان! آپ کا وہ مال کہاں ہے؟ جوآپ نے جنگ بدر کے لئے روانہ ہوتے وقت اپنی بیوی" ام افضل "کو دیا تھا اور یہ کہا تھا اگر میں اس لڑائی میں مارا جاؤں تو اس میں سے اتنا مال میرے لڑکوں کو دے دینا۔ یہ سن کر حضرت عباس نے کہا قسم ہے اس خدا کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجاہے کہ یقینا آپ اللہ پاک کے رسول ہیں کیونکہ اس مال کا علم میرے اور میری بیوی ام الفضل کے سوا کسی کو نہیں تھا۔ چنانچہ حضرت عباس نے اپنا اور اپنے دونوں بھتیجوں اور اپنے حلیف کا فدیہ ادا کر کے رہائی حاصل کی پھر اس کے بعد حضرت عباس اور حضرت عقیل اورحضرت نوفل تینوں مشرف بہ اسلام ہو گئے ۔(مدارج النبوۃ ، باب چہارم ،قسم دوم ج 2ص 97)

جنگ بدر کے قیدیوں میں جناب رسالت مآب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے داماد ابوالعاص بن الربیع بھی تھے۔ یہ ہالہ بنت خویلد کے لڑکے تھے اور ہالی حضرت بی بی خدیجہ رَضِیَ اللہ عَنْھا کی حقیقی بہن تھیں اس لئے حضرت بی بی خدیجہ رَضِیَ اللہ عَنْھا نے آخری نبی، رسول ہاشمی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مشورہ لے کر اپنی لڑ کی حضرت زینب رَضِیَ اللہ عَنْھا کا ابو العاص بن الرب سے نکاح کر دیا تھا۔ اللہ پاک کے پیارے اور آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےجب اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رَضِیَ اللہ عَنْھا نے تو اسلام قبول کر لیا مگر ان کے شوہر ابوالعاص مسلمان نہیں ہوئے اور نہ حضرت زینب رَضِیَ اللہ عَنْھا کو اپنے سے جدا کیا۔ ابو العاص بن الربیع نے حضرت زینب رَضِیَ اللہ عَنْھا کے پاس قاصد بھیجا کہ فدیہ کی رقم بھیج دیں ۔ حضرت زینب رَضِیَ اللہ عَنْھا کو ان کی والدہ حضرت بی بی خدیجہ رَضِیَ اللہ عَنْھا نے جہیز میں ایک قیمتی ہار(Necklace) بھی دیا تھا۔ سیدہ زینب رَضِیَ اللہ عَنْھا نے فدیہ کی رقم کےساتھ وہ ہار بھی اپنے گلے سے اتار کر مد ینہ بیچ دیا۔ جب بیٹیوں سے محبت فرمانے والےاقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نظراس ہار پر پڑی تو حضرت بی بی خدیجہ رَضِیَ اللہ عَنْھا اور ان کی محبت کی یاد نے قلب مبارک پر ایسارقت انگیز اثر ڈالا کہ آپ رو پڑے اورصحابہ سے فرمایا کہ" اگر تم لوگوں کی مرضی ہو تو بیٹی کو اس کی ماں کی یادگارواپس کر دو " یہ سن کر تمام صحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم نے سر تسلیم کر دیا اور یہ ہار سیدہ زینب رَضِیَ اللہ عَنْھاکے پاس مکہ بھیج دیا گیا۔

ابو العاص رِہا ہو کر مدینہ سے مکہ آئے اور حضرت بی بی زینب رَضِیَ اللہ عَنْھا کو مدینے بھیج دیا۔ ابوالعاص بہت بڑے تاجر (Business man)تھے ۔یہ مکہ سے اپنا سامان تجارت لے کر شام گئے اور وہاں سے خوب نفع کما کر مکہ آ رہے تھے کہ مسلمان مجاہدین نے ان کے قافلہ پر حملہ کر کے ان کا سارا مال و اسباب لوٹ لیا اور یہ مال غنیمت تمام سپاہیوں پرتقسیم بھی ہو گیا۔ ابوالعاص چھپ کر مدینہ پہنچے اور حضرت زینب رضی الله تعالی عنہا نے ان کو پناہ دےکر اپنے گھر میں اتارا۔ رحمت عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم سے فرمایا کہ اگر تم لوگوں کی خوشی ہوتو ابوالعاص کا مال و سامان واپس کر دو فرمان رسالت کا اشارہ پاتے ہی تمام مجاہدین نے سارا مال و سامان ابوالعاص کے سامنے رکھ دیا۔ ابو العاص اپنا سارامال و اسباب لے کر مکہ آئے اور اپنے تمام تجارت کے شریکوں (Partners) کو پائی پائی کا حساب سمجھا کر اور سب کو اس کے حصہ کی رقم ادا کر کے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اور اہل مکہ سے کہہ دیا کہ میں یہاں آ کر اور سب کا پورا پورا حساب ادا کر کے مدینہ جاتا ہوں تا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ابو العاص ہمارارو پیہ لے کر تقاضا کے ڈر سے مسلمان ہو کر مدینے بھاگ گیا۔ اس کے بعد حضرت ابوالعاص رَضِیَ اللہ عَنْہُ مدینہ آ کر حضرت بی بی زینبرَضِیَ اللہ عَنْھا کے ساتھ رہنے لگے۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔ اسلام ابی العاص بن الربیع ، ص282)

مقتولین بدر کا ماتم

بدر میں کفار قریش کی شکست کی خبر جب مکہ میں بھی پہنچی توایسا کہرام مچ گیا کہ گھر گھر ماتم کدہ بن گیا مگر اس خیال سے کہ مسلمان ہم پرہنسیں گے ابوسفیان نے تمام شہر میں اعلان کر دیا کہ خبر دار کوئی شخص رونے نہ پائے ۔ اس لڑائی میں اسود بن المطلب کے دولڑ کے عقیل اور زمعہ اور ایک پوتا حارث بن زمعہ قتل ہوئے تھے۔ اس شدید صدمہ سے اسود کا دل پھٹ گیا تھا وہ چاہتا تھا کہ اپنے ان مقتولوں پر خوب پھوٹ پھوٹ کر روئے تا کہ دل کی بھڑاس نکل جائے لیکن قومی غیرت کے خیال سے رو نہیں سکتا تھا مگر دل ہی دل میں گھٹتا اور کڑھتا رہتا تھا اور آنسو بہاتے بہاتے اندھا ہو گیا تھا، ایک دن شہر میں کسی عورت کے رونے کی آواز آئی تو اس نے اپنے غلام کو بھیجا کہ دیکھو کون رو رہا ہے؟ کیا بدر کے مقتولوں پر رونے کی اجازت ہوگئی ہے؟ میرے سینے میں رنج وغم کی آگ سلگ رہی ہے، میں بھی رونےکے لیے بے قرار ہوں ۔ غلام نے بتایا کہ ایک عورت کا اونٹ گم ہو گیا ہے وہ اسی غم میں رورہی ہے ۔ اسود چانکہ شاعرتھا، یہ سن کر بے اختیار اس کی زبان سے یہ دردناک اشعار نکل پڑے ۔ (جن کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے)

کیا وہ عورت ایک اونٹ کے گم ہو جانے پر رورہی ہے؟ اور بے خوابی نے اس کی نیند کوروک دیا ہے۔تو وہ ایک اونٹ پر نہ روئے لیکن بد روئے جہاں قسمتوں نے کوتاہی کی ہے۔

اگر تجھ کو رونا ہے تو عقیل پر رویا کر اور شیروں کے شیر حارث پر۔ اور ان سب پر رو اور نام مت لے اور ابو حکیمہ(زمعہ )کا تو کوئی ہمسر نہیں۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔ اسلام ابی العاص بن الربیع ، ص268)

کس کا کیا ہے ارادہ حضور جانتے ہیں

ایک دن عمیر اور صفوان دونوں حطیم کعبہ میں بیٹھےمقتولین بدر پر آنسو بہارہے تھے ۔ ایک دم صفوان بول اٹھا کہ اےعمیر میرا باپ اور دوسرے روسائے مکہ کہ جس طرح بدر میں قتل ہوئے ان کو یاد کر کے سینے میں دل پاش پاش ہور ہا ہے اور اب زندگی میں کوئی مزہ باقی نہیں رہ گیا ہے۔ عمیر نے کہا کہ اے صفوان!تم جو کہتے ہو میرے سینے میں بھی انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے ، میرے عزیز واقرباء بھی بدر میں بے دردی کے ساتھ قتل کئے گئے ہیں اور میرا بیٹا مسلمانوں کی قید میں ہے۔ خدا کی قسم! اگر میں قرضدار(Debtors)نہ ہوتا اور بال بچوں کی فکر سے دو چار نہ ہوتا تومیں ابھی ابھی تیز رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر مدینہ جاتا اور دم زدن میں دھوکہ سے(معاذاللہ )محمد (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کو قتل کر کے فرار ہو جاتا۔ یہ سن کرصفوان نے کہا کہ اےعمیر تم اپنے قرض اور بچوں کی ذرا بھی فکر نہ کرو ۔ میں خدا کے گھر میں عہد(Promise )کرتا ہوں کہ تمہارا سارا قرض ادا کر دوں گا اور میں تمہارے بچوں کی پرورش کا بھی ذمہ دار ہوں ۔ اس معاہدہ کے بعد میں سیدھا گھر آیا اور زہر میں بجھائی ہوئی تلوار لے کر گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ جب عمیر مدینہ میں مسجد نبوی کے قریب پہنچا تو حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے اس کو پکڑ لیا اور اس کا گلہ دبائے اورگردن پکڑے ہوئے دربار رسالت میں لے گئے۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پوچھا کہ کیوں عمیر کس ارادہ سے آئے ہو؟ جواب دیا کہ اپنے بیٹے کو چھڑانے کے لیے۔باذن الہی دلوں کے ارادہ سے واقف آخری نبی نے فرمایا کہ کیا تم نے اور صفوان نے حطیم کعبہ میں بیٹھ کر میرے قتل کی سازش نہیں کی ہے؟ عمیر یہ راز کی بات سن کر سناٹے میں آ گیا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ اللہ پاک کے رسول ہیں کیونکہ خدا کی قسم ! میرے اور صفوان کے سوا اس راز کی کسی کو بھی خبر نتھی۔ ادھر مکہ میں صفوان(معاذاللہ )پیارے آقا، مکی مدنی مصطفے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کےقتل کی خبر سنے کے لیے انتہائی بے قرار تھا اور دن گن گن کر عمیر کے آنے کا انتظار کر رہا تھا مگر جب اس نے ناگہاں یہ سنا کہ عمیر مسلمان ہو گیا تو حیرت کے مارے اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور وہ بوکھلا گیا۔حضرت عمیر مسلمان ہو کر مکہ آئے اور جس طرح وہ پہلے مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے اب وہ کافروں کی جان کے دشمن بن گئے اور انتہائی بے خوفی اور بہادری کے ساتھ مکہ میں اسلام کی دعوت دینے لگے یہاں تک کہ ان کی دعوت اسلام سے بڑے بڑے کافروں کے اندھیرے دلوں میں نور ایمان کی روشنی سے آجالا ہو گیا اور یہی عمیر اب صحابی رسول حضرت عمیر رَضِیَ اللہ عَنْہُ کہلانے لگے۔(السیرة النبوةلابن ھشام۔ اسلام ابی العاص بن الربیع ، ص274)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! جہاں اس واقعہ سے یہ پتہ چلا کہ صحابی رسول حضرت عمیر کس طرح ایمان لائے وہی یہ بات بھی اَظْہَرُ مِن الشَّمْس( سورج سے زیادہ روشن ) ہے کہ اللہ کے محبوب، دانائے غیوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اللہ رب العزت کی عطا سے دلوں کے ارادوں کو بھی جانتے ہیں۔ امام اہلسنت رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ کیا خوب فرماتے ہیں کہ

کہنا نہ کہنے والے تھے جب سے تو اطلاع

مولیٰ کو قول و قائل و ہر خشک و تر کی ہے

پر کتاب اُتری بَیَانًا لِّکُلِّ شَیْء

تفصیل جس میں مَا عَبَرو مَا غَبَر کی ہے

(حدائق بخشش ص213)

شرح کلام رضا : اللہ پاک کے عطا سے غیب دان نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان یہ ہے کہ بات کرنے والےنے بات نہیں کہی تھی مگر آقا ومولا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اس بات کی بھی پہلے سے خبر تھی اور جو اس کا ارادہ تھا وہ بھی آپ جانتےتھے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان تو یہ ہے کہ آپ بعطائے الہی کائنات کے ہر خشک و تر کو جانتے ہیں۔ اور اللہ پاک نے انہیں قرآن پاک کی صورت میں ایسی عظیم کتاب عطا فرمائی ہے کہ جس میں ہر شے کا واضح بیان موجود ہے۔

گستاخ رسول کی عبرتناک موت

گستاخ مصطفے ابولہب کسی سبب جنگ بدر میں شریک نہیں ہوسکا تھا۔ جب کفارقریش شکست کھا کر مکہ واپس آئے تو لوگوں کی زبانی جنگ بدر کے حالات سن کر ابولہب کو انتہائی رنج وملال ہوا۔ اس کے بعد ہی وہ بڑی چیچک(Smallpox)کی بیماری میں مبتلا ہو گیا جس سے اس کا تمام بدن سڑگیا اور آٹھ دن بعد موت کے گھاٹ اترگیا۔ عرب کے لوگ چیچک سے بہت ڈرتے تھے اور اس بیماری میں مرنے والے کو بہت ہی منحوس سمجھتے تھے اس لیے اس کے بیٹوں نے بھی تین دن تک اس کی لاش(Dead Body) کو ہاتھ نہیں لگایامگر اس خیال سے کہ لوگ طعنہ ماریں گے ایک گڑھاکھودکر لکڑیوں سے دھکیلتے ہوئے لے گئے اور اس گڑھے میں لاش کو گرا کر اوپر سے مٹی ڈال دی اور بعض روایات میں یوں بھی ہے کہ دور سے لوگوں نے اس گڑھے میں اس قدر پتھر چھینکے کہ ان پتھروں سے اس کی لاش چھپ گئی۔(المواھب اللدنیة والزرقانی ،غزوہ بدر الکبری ج2 ص 340)

جو کوئی گستاخ ہے سرکار( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )کا

وہ ہمیشہ کے لئے فِی النّار ہے

(وسائل بخشش )

(چوتھا باب) بدر میں معجزات مصطفےصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ظہور

وہ عجیب وغریب کام جو عام طور پر یعنی عادة ناممکن ہوں اور ایسی باتیں اگر نبوت کا دعوی کرنے والے سے اس کی تائید میں ظاہر ہوں تو ان کو معجزہ کہتے ہیں ۔(کتاب العقائد ص19) قران وحديث میں انبیاء والمرسلين کے کثیر معجزات کا ذکر ہے ۔ حضرت صالح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اونٹنی جو پہاڑ سے نکلی تھی۔ حضرت موسی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے عصا کا سانپ بن جانا ،ہاتھ کا روشن ہو جانا ، پتھر پر عصا مارنے سے پانی کے چشمے جاری ہوجانا اس طرح حضرت عیسٰی عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دودھ پینے کے دنوں میں کلام کرنا ، مردوں کو زندہ کرنا ، کوڑھ کے مریضوں کو شفا دینا اور ہمارے آقا محمد مصطفے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے معجزات بے شمار ہیں مثلا چاند کو دو ٹکڑے کرنا، سفر معراج ، انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کردینا، جانوروں اور لکڑی کے ستون کا کلام کرنا ، پرندوں کا فریاد کرنا اور درختوں، پتھروں کا سجدہ کرنا وغیرہ الغرض اللہ کے پیارےپیارے رحمت والے آخری نبی سراپامعجزہ ہیں۔

اسی طرح غزوہ بدر میں بھی کئی معجزات کا ظہور ہوا جن میں سے کچھ روایت ملاحظہ ہو

1۔ایک مٹھی خاک

جب کفار اور مسلمانوں کی فوجیں ایک دوسرے کے سامنے ہوئیں تو اللہ پاک کی عطا سے اشیاء عالم پر با اختیار آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ایک مٹھی خاک کافروں کے چہرے پر ماری اور فرمایا ’’ شَاہَتِ الْوُجُوْہ ‘‘ یعنی ان لوگوں کے چہرے بگڑ جائیں۔ وہ خاک تمام کافروں کی آنکھوں میں پڑی اور صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم بڑھ کر انہیں قتل اور گرفتار کرنے لگے۔ مفسرین نے فرمایا کفارِ قریش کی شکست کا اصل سبب خاک کی وہ مٹھی تھی جو تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے پھینکی تھی۔ اسی معجزے کے بارے میں اللہ پاک پارہ 9 سورةالانفال آیت نمبر 17 میں فرماتا ہے :

وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى “ ترجمہ کنزالایمان:اور اے محبوب وہ خاک جو تم نے پھینکی تم نے نہ پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی۔

(تفسیر طبری ،الانفال، تحت الآیۃ 17 ،203/6)(قرطبی، الانفال، تحت الآیۃ: 17 ،276/4 ، الجزء السابع )

اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُاللہِ عَلَیْہِ اس واقعےکی منظرکشی کرتے ہوئے کیا خوب فرماتے ہیں :

میں ترے ہاتھوں کے صدقے کیسی کنکریاں تھیں وہ

جن سے اتنے کافروں کا دفعتاً منھ پھر گیا

(حدائق بخشش ص53)

2۔حضرت عکاشہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی تلوار

جنگ بدر کے دوران جنتی صحابی سیدنا عکاشہ بن محصن رَضِیَ اللہ عَنْہُ کی تلوار ٹوٹ گئی تو نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کو درخت کی ایک ٹہنی دے کر فرمایا " تم اس سے جنگ کرو" وہ ٹہنی ان کے ہاتھ میں آتے ہی ایک نہایت نفیس اور بہترین تلوار بن گئی جس سے وہ عمر بھر تمام لڑائیوں میں جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ اسلام کے پہلے خلیفہ ،جنتی صحابی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ عَنْہُ کے دور خلافت میں وہ شہادت سے سرفراز ہوئے۔(مدارج النبوة، قسم سوم ج2 ص123)

3۔ مبارک لعاب کی برکتیں

علامہ قاضی عیاض مالکی  رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ اپنے مقبول زمانہ کتاب "الشِّفَاءُ بِتَعْرِیْفِ حُقُوْقِ الْمُصْطَفٰے"میں لکھتے ہیں کہ جنگ کے دوران جنتی صحابی سیدنا حبیب بن یساف رَضِیَ اللہ عَنْہُ کے مونڈھے پر ایسی ضرب لگی کہ  جس سے مونڈھا کٹ کر الگ ہوگیا تو دکھیاروں کے حامی و یاور آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس مونڈھے کو اس جگہ پر رکھا اور اس پر مبارک لعاب( یعنی تھوک لگایا تو وہ مینڈھا بالکل درست ہوگیا (شفاشریف ج1 ص213)

4۔لٹکتا ہوا بازو

جن دو مدنی منوں حضرت معوذ اور معاذ رَضِیَ اللہ عَنْہُما نے ابو جہل کو واصل جہنم کیا ان دونوں میں سے حضرت معاذ بن عفراء رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا فرمان ہےکہ میں اپنی تلوار لہراتا ہوا ابوجہل پرٹوٹ پڑا میرے پہلے وارسے اس کی ٹانگ کی پنڈلی کٹ کر دور جا گری۔ اس کے بیٹے عکرمہ (جو بعد میں مسلمان ہوئے) نے میری گردن پروار کیا مگر اس سے میرابازو کٹ گیا اور کھال کے ایک تسمے کے ساتھ لٹکنےکگا۔ سارا دن لٹکتے ہوئے باز کو سنبھالے میں دوسرے ہاتھ سے دشمن پرتلوار چلاتا رہا۔ لٹکتا باز لڑنے میں رکاوٹ بن رہا تھا۔ میں نے اسے پاؤں کے نیچے دبا کر کھینچا جسم سے جلد (یعنی کھال ) کا تسمہ ٹوٹ گیا اور میں اس سے آزاد ہو کر پھر کفار کے ساتھ مصروف جنگ ہو گیا۔ علامہ قاضی عیاض مالکی  رَحْمَۃُاللہ عَلَیْہ نے ابن وہب رضی الله تعالی عنہ سے روایت کی ہےکہ جنگ ختم ہونے کے بعد سیدنا معاذرضی الله تعالی عنہ اپنا کٹا ہوا بازو لے کر بارگاہ رسالت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئے ۔ الله پاک کے حبیب ، طبیبوں کے طبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے لعاب دہن (یعنی مبارک منہ کا تھوک شریف) لگا کر وہ کٹا ہوا بازو پھر کندھے کیساتھ جوڑ دیا۔حضرت معاذ کا زخم ٹھیک ہو گیا اور حضرت معاذ اسلام کے تیسرے خلیفہ، ،سیدنا عثمان غنی رضی الله تعالی عنہ کے عہد خلافت تک زندہ رہے۔(مدارج النبوة ج 2ص 87)

5۔  آنکھ بالکل درست ہوگئی

جنگ کے دوران ایک صحابی رسول حضرت قتادہ بن نعمان رَضِیَ اللہ عَنْہُ کی آنکھ زخمی ہوگئی ،چوٹ لگنے کے باعث وہ اپنی جگہ سے نکل کر رخسار پر ڈھلکنے لگی لوگوں نے چاہا کہ اسےکاٹ ڈالے لیکن وہ بارگاہ رسالت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوئے اور شکایت کی تو شافع روز جزا ، دافع جملہ بلا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے اپنی جگہ دبا کر اپنا مبارک لعاب لگایا تو وہ انکھ فی الفور اس طرح ٹھیک ہو گئی کہ دیکھنے والے دیکھ کر حیران رہے جاتے اور نہ پہچان پاتے کہ دونوں میں سے صحیح آنکھ کون سی ہے؟ اور زخمی آنکھ کونسی  ہے؟(عمدةالقاری، کتاب المغازی، ج12 ،ص46 الحدیث3997)(الخصائص الکبری ص328۔ ممتاز اکیڈمی لاہور )

6۔ کھجور کی شاخ تلوار بن گئی

صحابی رسول، سیدنا سلمہ بن اسلم بن حریش رَضِیَ اللہ عَنْہُ کی تلوار بدر کے دن ٹوٹ گئی اور وہ بغیر ہتھیار کے رہے گئے تو اللہ پاک کی عطا سے مالک ومختار نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہ شاخ انہیں عطا فرمائی جو اس وقت آپ کے ہاتھ میں تھی۔ اور کھجور کی ٹہنی تھی ۔حضور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا۔ اس سے لڑو تو لڑتے وقت وہ تلوار بن گئی اور وہ تلوار بدستور ان کے پاس رہی حتی کہ وہ شہید ہوگئے ۔(الخصائص الکبری ص 331۔ ممتاز اکیڈمی لاہور )

(پانچواں باب )فضائل أصحاب بدر

آخری نبی ، مکی مدنی ، محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم کائنات کی وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہیں رب کائنات عَزَّوَجَلَّ نے خود اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی صحبت کیلئے چنا (Select)ہے۔ اللہ پاک کے شان و عظمت والے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیارےصحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم کی شان تویہ ہےکہ ان کی عزت کر نےکا خود آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےحکم دیا،انہے امت میں سب سے زیادہ عزت والا فرمایا،انہے دیکھنے والوں کو آگ نہیں چھوئے گی ،ان سے محبت کرنا حضور سے محبت کرنا ہے، صحابہ اس امت کے بہترین افراد ہیں،ان کا دفاع کرنے والا قیامت کے دن اللہ پاک کے آخری نبی کی حفاظت میں ہوگا، ہر صحابی امت کیلئے امان ہے، جو صحابی جس جگہ وفات پائے بروز قیامت وہاں کے رہنے والوں کا پیش روا(یعنی رہنما-Leader)اور ان کیلئے نور ہوگا۔ تمام صحابہ کرام جنتی ہیں۔ اور وہ جہنم کی ہلکی سی آواز بھی نہیں سنے گے۔(احادیث مبارکہ کی روشنی سے لیے گئے مدنی پھول)

صحابہ وہ صحابہ جن کی ہردن عید ہوتی تھی

خدا کا قرب حاصل تھا نبی کی دید ہوتی تھی

خود اللہ پاک نے قرآن کریم میں پارہ 27 سورةالحدید ایت 10 میں صحابہ کرام کی شان بیان کرتے ہوئےارشاد فرمایا

وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠

ترجمۂ کنز الایمان:اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرماچکا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔

اسی طرح پارہ 19 سورةالنمل آیت 59 میں فرمایا :قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰى

ترجمۂ کنز الایمان:تم کہو سب خوبیاں اللہ کو اور سلام اس کے چنے ہوئے بندوں پر

صحابی ابن صحابی، جنتی ابن جنتی سیدنا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُما ایت مبارکہ کے اس حصے سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰى ( ترجمہ کنزالایمان: سلام اس کے چنے ہوئے بندوں پر)کی تفسیر میں فرماتے ہیں " چنے ہوئے بندوں سے نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اصحاب رَضِیَ اللہ عَنْہُم مراد ہیں "(تفسیر طبری جلد 10 ص 4 رقم 27060)(ہر صحابی نبی جنتی جنتی ص9)

محمد مصطفے، احمد مجتبٰی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : میرے اصحاب کو برا نہ کہو اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو وہ ان کے ایک مد (ایک کلو میں 40 گرام کم) کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس مد کے آدھے ۔(بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی،جلد 5 صفحہ 461 الحدیث 3673)

نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اَصْحَابِی کَالنُّجُوْمِ فَبِا یِّھِمْ اِقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کسی کی اقتدار کروگے فلاح وہدایت پاجاؤگے(مشکاة المصابیح ، کتاب المناقب ،باب مناقب الاصحابة)

تمہارے لیے جنت واجب ہو چکی :

غزوہ بدر میں شرکت کر نے والے صحابہ کرام رَضِیَ اللہ عَنْہُم جنہیں دوسرے پر فضیلت حاصل ہے۔خاص ان کے حق میں جو احادیث آئی ہیں وہ بہت زیادہ ہیں ۔ سید عالم ،نور مجسم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کے بارے میں خبر دی کہ اللہ نے ان کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دیے ہیں نیز مالک جنت ، قاسم نعمت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اصحاب بدر رَضِیَ اللہ عَنْہُم کو جنت کی بشارت دی. چنانچہ سید المرسلین ، خاتم النّبیین صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان مغفرت نشان ہے لَعَلَّ اللہَ اطَّلَعَ اِلٰی اَھْلِ بَدْرِِ فَقَالَ : اِعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَکُمٌ الجَنَّةُ اَوْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُم

ترجمہ بے شک الله کریم اہل بدر سے واقف ہے اور اس نے یہ فرما دیا ہے تم اب جو عمل چاہو کرو بلاشبہ تمہارے لیے جنت واجب ہو چکی ہے یا (یہ فرمایا )میں نے تمہیں بخش دیا( بخاری ، کتاب المغازی، باب فضل من شهد بدرا ،ج3 ،ص12 ، الحدیث 3983)

جہنم میں نہیں جائیں گے

بعطائے پروردگار دو عالم کے مالک ومختار آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان بخشش نشان ہے۔اِنِّی لَارْجُو اَلَّا یَدْخُلَ النَّارَ اِنْ شَاءَاللہُ مِمَّنْ شَھِدَ بَدْرََا وَ الْحُدَيْبِيَةَ ترجمہ مجھے امید ہے کہ جو لوگ بدر اور حدیبیہ میں شریک تھے ، ان میں سے کوئی بھی ان شاء اللہ جہنم میں نہیں جائے گا۔(ابن ماجہ ، ج 4 ،ص508 ،الحدیث 4281)

غزوہ بدر میں شریک ہونے والے ملائکہ کی فضیلت

بدر میں تشریف لانے والے فرشتے دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں کہ اللہ پاک  نےان پر خاص نشان لگا دئیے تھے جن سے وہ دوسروں سے ممتاز ہوگئے اور احادیث میں اس کی صراحت بھی موجود ہے کہ بدر میں اترنے والے فرشتے دوسرے فرشتوں سے افضل ہیں۔چنانچہ

حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں عرض کیا" مَا تَعُدُّوْنَ اَھْلَ بَدْرِِفِیْکُم یعنی آپ حضرات اپنوں میں بدر والوں کو کیسے شمار کرتے ہیں؟" فرمایا حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا "مِنْ أَفْضَلِ الْمُسْلِمِیْن یعنی مسلمانوں میں افضل یا اس طرح کی اور بات فرمائی"۔ حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی یوں ہی فرشتوں میں وہ فرشتے جو بدر میں حاضر ہوئے (یعنی ہم انہیں فرشتوں میں افضل شمار کرتے ہیں)۔(بخاری، کتاب المغازی، باب شھود الملائكة بدرا )

فاروق اعظم رَضِیَ اللہ عَنْہُ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے

بدری صحابہ کی فضیلت کے بارے میں ایک واقعہ ملاحظہ ہو۔ جب نبی پاکِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فتح مکہ کی تیاری فرمارہے تھے ۔تو جنتی صحابی سیدنا  حاطب بن ابی بلتعہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے کسی عورت کو ایک خط دے کر مکہ بھیج دیا۔ اس خط کے ذریعے حضرت حاطب رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے مکے والوں کو اس حملے کی خبر دینا چاہی ۔ لیکن غیب دان آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابہ کرام کو بھیج کر راستے سے اس خط کو واپس منگوالیا ۔ سرکار دوعالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت حاطب بن بلتعہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ کو بلوایا اور ان سے اس کی وجہ دریافت فرمائی سیدنا حاطب بن بلتعہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ  نے عرض کی: یارسول اللہ !  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ، میں جب سے اسلام لایا ہوں تب سے کبھی میں نے کفر نہیں کیا اور جب سے حضور کی نیاز مندی مُیَسَّر آئی ہے تب سے کبھی آپ کے ساتھ خیانت نہ کی اور جب سے اہلِ مکہ کو چھوڑا ہے تب سے کبھی اُن کی محبت دل میں نہ آئی ،لیکن واقعہ یہ ہے کہ میں قریش میں رہتا تھا اور اُن کی قوم میں سے نہ تھا، میرے سوادوسرے مہاجرین کے مکہ مکرمہ میں رشتہ دار(Relatives)ہیں جو ان کے گھر بار کی نگرانی کرتے ہیں(لیکن میرا وہاں کوئی رشتہ دار نہیں )مجھے اپنے گھر والوں کے بارے اندیشہ تھا اس لئے میں نے یہ چاہا کہ میں اہلِ مکہ پر کچھ احسان رکھ دوں تاکہ وہ میرے گھر والوں کو نہ ستائیں اور یہ بات میں یقین سے جانتا ہوں کہ اللہ پاک اہلِ مکہ پر عذاب نازل فرمانے   والا ہے،میرا خط انہیں بچا نہ سکے گا۔اللہ پاک کے محبوب، دانائے غیوب صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُن کا یہ عذر   قبول فرمایا اور ان کی تصدیق کی۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے عرض کی:یارسول اللہ! صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   ، مجھے اجازت دیجئے تاکہ   اس منافق کی گردن ماردوں ۔ حضور پُرنور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےفاروق اعظم رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے فرمایا۔اِنَّهُ شَھِدَ بَدْراً ،وَمَا یُدْرِيكَ لَعَلَّ اللہَ اطَّلَعَ اِلٰی اَھْلِ بَدْرٍ فَقَالَ : اِعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَکُمٌ الجَنَّةُ اَوْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُم۔ ترجمہ یہ (یعنی حضرت حاطب بن بلتعہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ)بدر میں شریک ہوئے ہیں تمہیں کیا خبر اللہ پاک نے بدر والوں پر توجہ فرمائی پس فرمایا کہ جو چاہو کرو تمہارے لیے جنت واجب ہوچکی ہے۔ فَدَمِعَتْ عَیْنَا عُمَر یعنی یہ سن کر فاروق اعظم رَضِیَ اللہ عَنْہُ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر ، باب الجاسوس۔ اور۔ کتاب المغازی ، باب غزوة فتح مختصرا)(مسلم شریف، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل اھل بدر مختصر )(تفصیلی واقعہ جاننے کیلئے صراط الجنان ج10 ص 99-100 کا مطالعہ کیجئے)

فضیلت صحابہ میں اہل بدر کا مرتبہ

بہاد شریعت میں ہے:خلفائے اربعہ راشدین کے بعد بقیہ عشرۂ مبشَّرہ و حضرات حسنین و اصحابِ بدر و اصحابِ بیعۃ الرضوان کے لیے افضلیت ہے اور یہ سب قطعی جنتی ہیں ۔(بہار شریعت ،ج1(الف) ، ص249)

مجلس مصطفے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں بدری صحابہ کی تعظیم

مصطفے جان رحمت، شمع بزم ہدایت صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ غزوہِ بدر میں حاضر ہونے والے صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کی عزت کرتے تھے۔ چنانچہ ایک روز چند بدری صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ ایسے وقت پہنچے جب کہ مجلس شریف بھر چکی تھی ،اُنہوں نے پیارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے کھڑے ہو کر سلام عرض کیا۔ نور والے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سلام کاجواب دیا، پھر اُنہوں نےحاضرین کو سلام کیا تواُنہوں نے جواب دیا، پھروہ اس انتظار میں کھڑے رہے کہ اُن کیلئے مجلس شریف میں جگہ بنائی جائے مگر کسی نے جگہ نہ دی ،سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ چیزگراں گزری تو حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے قریب والوں کو اُٹھا کر اُن کیلئے جگہ بنا دی، اُٹھنے والوں کو اُٹھنا شاق ہوا تو اس پرسورةالمجادلة کی ایت نمبر 11 نازل ہوئی چنانچہ ارشاد فرمایا

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قِیْلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللّٰهُ لَكُمْۚ-وَ اِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْۙ-وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(۱۱)

ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو جب تم سے کہا جائے مجلسوں میں جگہ دو تو جگہ دو اللہ تمہیں جگہ دے گا اور جب کہا جائے اٹھ کھڑے ہو تو اُٹھ کھڑے ہو اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔ (تفسیر خازن،  ج4 ، ص 240 )

بزرگانِ دین کی تعظیم کرنا سنت ہے

اے عاشقان صحابہ واہل بیت! جہاں اس آیت سے بدری صحابہ کی فضیلت واضح طور پر ظاہر ہے وہی اس آیت کے شانِ نزول سے یہ بھی معلوم ہورہا ہے بزرگانِ دین کے لئے جگہ چھوڑنا اور ان کی تعظیم (Respect)کر نا جائز بلکہ سنت ہے حتّٰی کہ مسجد میں بھی ان کی تعظیم کر سکتے ہیں کیونکہ اس ایت مبارکہ کے شان بزول میں مذکورہ واقعہ مسجد ِنبوی شریف میں پیش آیا تھا۔ احادیث مبارکہ میں بھی بزرگان دین اور دینی پیشواؤں کی تعظیم و توقیر  کا حکم دیا گیا چنانچہ جنتی صحابی، حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، اسلام کے سب سے بڑے مبلغ ، رسول اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’جن سے تم علم حاصل کرتے ہوان کے لئے عاجزی اختیار کرو اور جن کو تم علم سکھاتے ہو ان کے لئے تواضع اختیار کرو اور سرکَش عالِم نہ بنو۔ (الجامع لاخلاق الراوی، باب توقیر المحدّث طلبۃ العلم۔۔۔ الخ، تواضعہ لہم، ص230 ، الحدیث: 804 )

حارثہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ) جنت الفردوس میں ہے

شہداء بدر ہی کی فضیلت پر ضمناً دلالت کرنے والی یہ حدیث بھی ملاحظہ ہو۔چنانچہ جنتی صحابی حضرت انس رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں ’’غزوۂ بدر کے دن حضرت حارثہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ شہید ہو گئے تو ان کی والدہ نے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی :    یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ کو بخوبی معلوم ہے کہ مجھے حارثہ کتنا پیارا تھا، اگر وہ جنت میں ہے تو میں صبر کروں اور ثواب کی امید رکھوں اور اگر خدانخواستہ معاملہ برعکس ہے تو آپ دیکھیں گے کہ میں کیا کرتی ہوں۔ اللہ پاک کے عطا سے غیب دان آخری نبی  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’تجھ پر افسوس ہے ،کیا تو پگلی ہو گئی ہے ؟کیا خدا کی ایک ہی جنت ہے؟ اس کی جنتیں تو بہت ساری ہیں اور بے شک حارثہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) جنت الفردوس میں ہے۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب فضل من شہد بدرًا، 12/3 ،الحدیث:3942)

اہل بدر کے ناموں کی وجہ سے دعاؤں کا قبول ہونا

جن نفوس قدسیہ نے اللہ پاک ، اس کے آخری رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت اور دین اسلام کی سر بلندی کیلئے اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر دشمن کا مقابلہ کیا اور صبر واستقلال کے ساتھ ڈٹے رہے آخر کار کفار کا دبدبہ اور عزت فنا کردی تو اللہ پاک نے ان ہستیوں کو وہ مرتبہ عطا فرمایا کہ جن کے مقدس ناموں سے لوگوں کی مشکلات دور ہوتی اور حاجتیں بر آتی ہیں چنانچہ بعض صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ بہت سے اولیاء کو ولایت کا مرتبہ اہل بدر کے نام پڑھنے کی وجہ عطا ہوا اور بہت سے بیماروں نے بیماری سے شفا پانے کیلئے اللہ پاک کی بارگاہ میں ان کے ناموں کو وسیلہ پیش کیا تو اللہ کریم نے انہیں عافیت عطا فرمائی۔ ایک بزرگ کا بیان ہے کہ میں نے جس بیمار کے بھی سر پر ہاتھ رکھ کر خلوص نیت کے ساتھ اہل بدر کے نام پڑھے اللہ پاک نے اسے عافیت اور شفا سےنوازا اور اگر کسی کی موت کا وقت اچکا ہوتا تو اللہ کریم نے اس پر نزع کی سختیوں میں تخفیف فرمائی ۔

(اسماء اھل بدر ، للبقاعی۔ ورقه6۔ اور سیف النصر ، للسنوسی۔ ص29)( تلخیص فضائل سادتنا البدریة بنام اہل بدر کے فضائل ،ص55 ، جمعیت اشاعت اہلسنّت، کراچی)

چنانچہ مرآة المناجیح میں ہے کہ اصحاب بدر رَضِیَ اللہ عَنْہُم کے نام پڑھ کر دعائیں کی جائیں ان شاء اللہ قبول ہوں ( مرآة المناجیح ،ج 8 ، ص 567)

گھر کی حفاظت کا نسخہ

کتابوں میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں کہ بدری صحابہ کے نام پڑھنے سے بڑی بڑی مشکلات ٹل گئی چنانچہ اسی ضمن میں ایک حکایت ملاحظہ ہو ایک بزرگ حج کے ارادے سے بیت اللہ شریف کی طرف نکلے تو انہوں نے اصحاب بدر کے نام ایک کاغذ (paper) میں لکھے اور وہ کاغذ دروازے کی پٹن میں رکھ دیا ۔چور اس کے گھر آئے تاکہ جو کچھ گھر می۔ ہے نکال لیں۔جب چھت پر چڑھے تو باتوں اور چھنچھناہٹ کی آوازیں سنی تو واپس چلے گئے ۔دوسری رات کو آئے تو بھی انہوں نے اسی طر آوازیں سنی تو تعجب کیا اور واپس لوٹ آئے یہاں کہ گھر کا مالک حج سے واپس آگیا تو چوروں کا سردار آیا اور کہنے لگا میں تجھ سے اللہ پاک کے واسطے سے پوچھتا ہوں یہ بتا کہ تو نے گھر کی حفاظت کیلئے کیا کیا تھا۔تو اس۔ ے کہا میں نے اس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ میں نے آیت الکرسی کی آخری آیت وَ لَا یَءُوْدُهٗ حِفْظُهُمَاۚ-وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ۔ لکھی اور ساتھ اصحاب بدر کے نام لکھے یہ وہ ہیں جسے میں نے اپنے گھر می رکھ گیا تھا ۔(دعاء بتوسل اسمائے اھل بدر، ص23 ،جمعیت اشاعت اہلسنّت، کراچی) 


نام: ”عبدالحق“کنیت ”ابو المجد“اور لقب ”محدث دہلوی “ہے۔آپ کی پیدائش ہند کے مشہور شہر دہلی میں بروز جمعہ 1محرم الحرام 958ھ مطابق 9جنوری 1551ء کو ہوئی۔(شیخ عبد الحق محدث دہلوی موضوعاتی مطالعہ، ص91،محدثین عظام حیات وخدمات، ص621)

والدِ ماجد:آپ کے والد شیخ سیف الدین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ خوش طبع صوفی بزرگ اور بلند پایہ شاعر تھے۔ 500 اشعار پر مشتمل مثنوی”سلسلۃ الوصال“ایک دن میں تحریر کی۔ (اخبار الاخیار،ص614،اللہ کے خاص بندے، ص679)

تعلیم اور شوق علم:آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کی ۔انہوں نے آپ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔تھوڑی مدت میں قرآن پاک حفظ کرلیا۔اپنے والد سے ابتدائی تعلیم پانے کے بعد گھر سے 2میل کے فاصلے پر مدرسہ دہلی میں داخلہ لیا۔سخت سردی اور گرمی کے موسم میں بھی روزانہ دو مرتبہ مدرسہ جاتے۔آپ کو حصول علم کا ایسا شوق تھا کہ خود فرماتے ہیں:”علم نحو میں کافیہ،لب الالباب اور ارشاد وغیرہ کے بعض اوقات ایک ہی مجلس میں سولہ(16)سولہ(16)صفحات پڑھ جاتا اور شوق کا یہ حال تھا کہ حاشیہ والی جب کوئی کتاب میسر آجاتی تو وہ کتاب میں کسی استاد سے پڑھنے کے بجائے اکثر اپنے آپ ہی پڑھ لیا کرتا تھا اور سمجھ بھی لیتا تھا۔علم حاصل کرنے کی شوق کی وجہ سے کبھی وقت پر کھانا کھایا نہ سویا۔“آپ نے17یا 18سال کی عمر میں علوم ظاہری سے فراغت حاصل ۔پھر ماواء النہر چلے گئے اور وہاں کے بڑے بڑے علما سے فیض حاصل کیا۔اس کے بعد درس وتدریس اور تصنیف وتالیف میں مشغول ہوگئے۔(اخبار الاولیاءص623، اللہ کے خاص بندے،ص680، شیخ عبد الحق محدث دہلوی موضوعاتی مطالعہ، ص92)

بیعت:بچپن میں اپنے والد شیخ سیف الدین سے سلسلہ قادریہ میں بیعت ہوئے ۔اس کے علاوہ شیخ موسٰی پاک شہید اور شیخ عبد الوہاب متقی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِمَا سے بھی اکتساب فیض کیا۔شیخ خواجہ باقی بِاللّٰہ سے سلسلہ نقشبندیہ میں خلافت حاصل کی۔آپ کو سلسلہ قادریہ کے بانی حضور غوث اعظم رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے بے پناہ عقیدت اور خصوصی تعلق تھا۔خود فرماتے ہیں:”مجھے حضور غوث پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے خواب میں حضور نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اشارے پر بیعت کیا۔“ایک جگہ لکھتے ہیں :”میرا مرکز اعتماد ان پر ہے جن کا قدم اولیاء کی گردنوں پر ہے۔“(اللہ کے خاص بندے،ص680، شیخ عبد الحق محدث دہلوی موضوعاتی مطالعہ، ص98،تذکرہ مشائخ قادریہ،ص155،اخبار الاخیار،ص628)

دینی خدمات: آپ کے دور میں اکبر بادشاہ کے گمراہ کن نظریات دین الٰہی کے نام سے پھیل چکے تھے اور بہت سے لوگ اس فریب میں آکر حق کی راہ سے ہٹ گئے تھے۔آپ نے خاموشی سے دہلی میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی اور درس وتدریس کے ساتھ وعظ کا سلسلہ شروع کردیا ۔اس کافائدہ یہ ہوا کہ عام لوگوں کے دلوں سے گمراہی والے نظریات دور ہونے لگے اور یوں آپ نے دین الٰہی کا فتنہ ختم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔آپ نے 30سے زیادہ علوم پر 134سے زائد کتابیں لکھیں۔اس کے علاوہ 150 سے زائد نصیحت بھرے وہ خطوط بھی ہیں جو آپ نے اپنے دوستوں،حکمرانوں،علما،صوفیا اور شاگردوں کو لکھے۔اکبر کے مرنے کے بعد جہانگیر نے تخت پر بیٹھتے ہی ایک قاصد آپ کی خدمت میں بھیجا کہ دین سے متعلق کچھ معلومات فراہم کریں ۔آپ نے” نوریہ سلطانیہ“ کتاب لکھ کر بادشاہ کی تربیت فرمائی۔آپ نے چار طریقوں سے تبلیغ اسلام کا مشن جاری رکھا:(1)اپنی اولاد کو ایسی تربیت دی کہ وہ آپ کےمشن کو جاری رکھ سکے۔(2)شاگردوں کو ہندوستان اور بیرون ملک اشاعت اسلام کے لئے روانہ کیا۔ (3) اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کے لئے قدیم وجدید موضوع پر کتابیں لکھیں۔(4)علماء و مشائخ،حکمرانوں اور بادشاہوں سے خط وکتابت کرکے رابطہ رکھا۔(اللہ کے خاص بندے،ص682، شیخ عبد الحق محدث دہلوی موضوعاتی مطالعہ، ص239،240)

وصال:آپ کا انتقال بروزجمعہ 22ربیع الاول1052ھ مطابق 20جون 1642ء کو ہوا۔مزار مبارک دہلی میں واقع ہے۔(شیخ عبد الحق محدث دہلوی موضوعاتی مطالعہ،ص97،440،تذکرہ مشائخ قادریہ،ص161)

از:محمد گل فراز عطاری مدنی(اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)


فطرت کا تقاضا 

Thu, 7 Apr , 2022
2 years ago

اقوام عالَم کو درسِ صفائی:

سولہویں صدی عیسوی تک یورپ کے باشندے صفائی ستھرائی اور طہارت وپاکیزگی سے ناواقف تھے ۔گندگی سے گھن کھانا تو دور کی بات ہے وہ تو جس مکان میں سوتے تھے اسی میں اپنے پالتوجانور باندھتے تھےاور گھر کے باہر کھلی گلیوں میں قضائے حاجت کرتے تھے ۔روشنی کا انتظام نہ ہونے کے باعث اگر کوئی اندھیرا چھاجانے کے بعد گھر سے باہر نکلتا تونجاست سے آلودہ ہوکر واپس آتا۔ مکان اورگلی کوچوں کی گندگی کے ساتھ ساتھ ان کے جسم اورروح بھی پراگندہ تھے ۔نہ انہیں قضائے حاجت وجنابت کے بعد استنجاوطہارت کا شعور تھا اور نہ ہی بلند پایہ اخلاق کی معرفت تھی ۔یہ تو اسلام کانور تھا جس نے اہل یورپ کوروشنی دی،انہیں نفاست وپاکیزگی کا طریقہ اوررہن سہن کا سلیقہ بتایا، انسانی فطرت کے تقاضوں سے آشنا کیا اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے روشناس کروایا۔اس کی وجہ علامہ عبدالرسول ارشد(گولڈ میڈلسٹ)کی زبانی ملاحظہ کیجئے :جب مسلمانوں کے شہر اپنی صفائی اور خوبصورتی کی وجہ سے دل ونگاہ کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے ،اس وقت یورپ کے شہروں میں گندگی،غلاظت اور تاریکی کے سوا کچھ نہ تھا۔۔اور۔۔یہ انسانی فطرت ہے کہ اندھیروں میں بھٹکنے والا انسان اس طرف دوڑتا ہے جہاں اسے روشنی کی کرن نظر آتی ہے۔اہل یورپ نے بھی یہی کچھ کیا۔جب انہیں اپنے ہاں ہر طرف تاریک اور ظلمت نظر آئی تو انہوں نے علم، تہذیب،اخلاق اور خوش حالی کا درس لینے کے لئے مسلمانوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔

طہارتِ امت کافریضہ:

دین مبین نے نہ صرف اہل یورپ کو روشنی سے نوازابلکہ اپنے آفاقی پیغام اور فطرت سے کامل ہم آہنگی کی بدولت دنیا کی تمام ہی اقوام کونور بانٹا ہے۔اس مضمون میں ہم اسلام کے صرف اس پہلو پر گفتگو کریں گے کہ توحیدورسالت کی دعوت کے ساتھ ساتھ اسلام نے انسان کو نفاست وپاکیزگی کا تصور دیا اور اس پر کاربند رہنے کی تلقین کی ہے اور حضور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے عظیم مقصد میں یہ بھی شامل تھا کہ امت کو نجاست وگندی سے پاک فرمائیں۔حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے تعمیرکعبہ کے بعد جو دعا فرمائی اس میں یہ بھی تھا : اے ہمارے رب ! ان میں ایسا رسول بھیج جو انہیں خوب ستھرا فرمادے۔۱،البقرۃ:۱۲۹) مفسرقرآن ابوالحسن علاء الدین علی بن محمد المعروف امام خازن رحمۃ اللہ علیہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یعنی ایسا رسول جو انہیں شرک، بت پرستی، ہرقسم کی نجاست وگندگی،گھٹیاحرکتوں اور کوتاہیوں سے پاک کردے۔ (تفسیرخازن،ج۱،ص۹۲)پھر یہ کہ اسلام دین فطرت ہے اور صفائی ستھرائی اور طہارت وپاکیزگی فطرت کا تقاضا ہے۔حضورنبی طاہر ومطہر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: الفطرۃ خمس الختان والاستحداد وقص الشارب وتقلیم الأظفار ونتف الآباط یعنی پانچ چیزیں فطرت سے ہیں:(۱) ختنہ کرنا (۲)موئے زیر ناف صاف کرنا(۳) مونچھیں پست کرنا (۴) ناخن تراشنا (۵) اور بغل کے بال اکھیڑنا۔(صحیح بخاری،ج۴، ص۷۵، الحدیث:۵۸۹۱)

مسلمان کا اسلامی نشان:

صفائی ستھرائی کی اہمیت وافادیت کو اُجاگر کرتے ہوئے شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:صفائی ستھرائی کی مبارک عادت بھی مردوں اور عورتوں کے لیے نہایت ہی بہترین خصلت ہے جو انسانیت کے سر کا ایک بہت ہی قیمتی تاج ہے۔ امیری ہو یا فقیری ہر حال میں صفائی و ستھرائی انسان کے وقار و شرف کا آئینہ دار اور محبوبِ پروردگار ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کا یہ اسلامی نشان ہے کہ وہ اپنے بدن، اپنے مکان و سامان، اپنے دروازے اور صحن وغیرہ ہر ہر چیز کی پاکی اور صفائی ستھرائی کا ہر وقت دھیان رکھے۔ گندگی اور پھوہڑ پن انسان کی عزت و عظمت کے بدترین دشمن ہیں اس لیے ہر مردو عورت کو ہمیشہ صفائی ستھرائی کی عادت ڈالنی چاہیے۔ صفائی ستھرائی سے صحت و تندرستی بڑھتی رہتی ہے اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں بیماریاں دور ہو جاتی ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’اﷲتعالیٰ پاک ہے اور پاکیزگی کو پسند فرماتا ہے‘‘۔(مشکوٰۃ المصابیح ،ج۲،ص۴۹۷، الحدیث : ۴۴۸۷) رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کو پھوہڑ اور میلے کچیلے رہنے والے لوگوں سے بے حد نفرت تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام علیہم الرضوان کو ہمیشہ صفائی ستھرائی کاحکم دیتے رہتے اور اس کی تاکید فرماتے رہتے تھے۔پھوہڑ عورتیں جو صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتی ہیں وہ ہمیشہ شوہر کی نظروں میں ذلیل وخوار رہتی ہیں بلکہ بہت سی عورتوں کو ان کے پھوہڑ پن کی وجہ سے طلاق مل جاتی ہے اس لئے عورتوں کو صفائی ستھرائی کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے۔(جنتی زیور،ص۱۳۹)

پاکیزگی آدھا ایمان:

یہ بھی ضروری ہے کہ بندہ ہر وقت بننے سنورنے ہی میں نہ لگا رہے کہ اس کی بھی ممانعت ہے بلکہ شرع میں جتنی صفائی مطلوب ہے وہ حسب قدرت وطاقت بجالائے ۔ ارشادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے : تنظفوا بکل ما استطعتم فان اللّٰہ بنی الاسلام علی النظافۃ ولن یدخل الجنۃ الا کل نظیف ترجمہ:تم سے جتنا ممکن ہو صفائی رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بنیاد صفائی پر رکھی ہے اور جنت میں وہی داخل ہوگا جو صاف ستھر اہوگا۔(جمع الجوامع،ج4،ص: 115) اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہر طرح کی صفائی کا حکم دیا ہے خواہ جسمانی ہو یا روحانی ،فرد کی ہو یا معاشرے کی ، گھر کی ہو یا مسجد کی یا پھر محلے کی ہو، الغرض اسلام جسم وروح ،دل ودماغ ،قرب وجواراورتہذیب وتمدن کو ستھرا رکھنے کا درس دیتا ہے ۔ اسے ہر جگہ ترتیب وسلیقہ اور نفاست وعمدہ مطلوب ومحبوب ہے اور گندگی وناپاکی اور غلاظت ونجاست ناپسند ہے۔ صفائی کی اہمیت بتاتے ہوئے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’الطھورنصف الایمان یعنی پاکیزگی آدھا ایمان ہے۔‘‘ (سنن الترمذی ،ج ۵،ص۳۰۸،الحدیث: ۳۵۳۰)

جسمانی صفائی کتنے دن بعد ؟

جسم کی صفائی کے متعلق اول الذکر حدیث فطرت میں پانچ طرح کی صفائی کو بیان کیا گیا ہے،اول ختنہ کہ سنت ہے اور یہ شعار اسلام میں ہے کہ مسلم وغیرمسلم میں اس سے امتیاز ہوتا ہے اسی لیے عرف عام میں اس کو مسلمانی بھی کہتے ہیں۔ختنہ کی مدت سات سال سے بارہ سال کی عمرتک ہے اور بعض علما نے یہ فرمایا کہ ولادت سے ساتویں دن کے بعد ختنہ کرنا جائز ہے۔(بہارشریعت،ج۳،ص۵۸۹)باقی چارچیزوں کے متعلق صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہرجمعہ کو اگر ناخن نہ ترشوائے تو پندرھویں دن ترشوائے اور اس کی انتہائی مدت چالیس ۴۰ دن ہے اس کے بعد نہ ترشوانا ممنوع ہے۔ یہی حکم مونچھیں ترشوانے اور موئے زیر ِ ناف دور کرنے اور بغل کے بال صاف کرنے کا ہے کہ چالیس دن سے زیادہ ہونا منع ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے، کہتے ہیں کہ’’ناخن ترشوانے اور مونچھیں کاٹنے اور بغل کے بال صاف کرنے میں ہمارے لیے یہ میعاد مقرر کی گئی تھی کہ چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔‘‘(صحیح مسلم ، ص۱۵۳،الحدیث:۲۵۸)مزید فرماتے ہیں : موئے زیر ناف دور کرنا سنت ہے۔ ہر ہفتہ میں نہانا، بدن کو صاف ستھرا رکھنا اور موئے زیر ناف دور کرنا مستحب ہے اور بہتر جمعہ کا دن ہے اور پندرھویں روز کرنا بھی جائز ہے اور چالیس روز سے زائد گزار دینا مکروہ و ممنوع۔ موئے زیر ناف استرے سے مونڈنا چاہیے اور اس کو ناف کے نیچے سے شروع کرنا چاہیے اور اگر مونڈنے کی جگہ ہرتال چونا یا اس زمانہ میں بال اڑانے کا صابون چلا ہے، اس سے دور کرے یہ بھی جائز ہے(بال صفاپاؤڈراور کریم وغیرہ بھی اسی حکم میں داخل ہیں)، عورت کو یہ بال اکھیڑ ڈالنا سنت ہے۔(بہارشریعت،ج۳،ص۵۸۴)ممکن ہوتو ہر جمعہ کو یہ کام کر لینے چاہیں کیونکہ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نماز کوجانے سے پہلے مونچھیں کترواتے اور ناخن ترشواتے۔ (شعب الایمان،ج۳،ص۲۴ ،الحدیث:۲۷۶۳)

دس چیزوں کی صفائی:

حجۃ الاسلام امام محمدبن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :طہارت حاصل کرنے والے کو چاہیے کہ پاکیزگی حاصل کرے، مونچھوں کو پست کرے، بغلوں کے بال اکھیڑے، موئے زیرِناف مونڈے، ناخن کاٹے، ختنہ کرے،وضو میں ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کے جوڑاچھی طرح دھوئے، ناک کی صفائی کاخاص خیال رکھےاور کپڑوں اوربدن کی پاکیزگی کا خوب اہتمام کرے۔(رسائل امام غزالی ،ص۴۰۷) ۔۔صفائی اور پاکیزگی سے متعلق یہ وہ چیزیں ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بھی لازم تھیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: وہ دس چیزیں جوحضرت ابراہیم علیہ السلام پرواجب تھیں وہ یہ ہیں:(۱) مونچھیں کتروانا(۲) کلی کرنا (۳) ناک میں صفائی کے لئے پانی استعمال کرنا (۴)مسواک کرنا (۵) سر میں مانگ نکالنا (۶) ناخن ترشوانا (۷) بغل کے بال دور کرنا (۸) موئے زیر ناف کی صفائی(۹) ختنہ (۱۰) پانی سے استنجا کرنا۔صدرالافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ یہ قول نقل کرنے کے بعدفرماتے ہیں: یہ سب چیزیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر واجب تھیں اور ہم پر ان میں سے بعض واجب ہیں بعض سنت۔ (خزائن العرفان،سورۃ البقرۃ، تحت الایۃ:۱۲۴)

خِلال بھی صفائی ہے:

ظاہری جسم کی صفائی میں اس قدر مبالغہ اور باریک بینی دین اسلام کا خاصہ اور طرۂ امتیاز ہے۔یہاں تک آیا ہے کہ کھانے کے بعدلکڑی وغیرہ سے دانتوں کا خلال کیا جائے اوردوران وضو اپنے ہاتھ پاؤں کی انگلیوں اور داڑھی کے بالوں کا خلال کیاجائے اور یہ مستحب ہے ۔سراپا پاکیزہ ونفیس حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: تخللوا فإنہ نظافۃ والنظافۃ تدعو إلی الإیمان والإیمان مع صاحبہ فی الجنۃ ترجمہ :خلال کیا کرو کیونکہ یہ صفائی ہے اور صفائی ایمان کی طرف بلاتی ہے اور ایمان مومن کے ساتھ جنت میں ہوگا۔(المعجم الاوسط،ج۷،ص:۲۱۵)دانتوں کی صفائی کے لئے خِلال نیم کی لکڑی کا ہوکہ اس کی تلخی سے منہ کی صفائی ہوتی ہے اور یہ مسوڑھوں کیلئے مفید ہوتی ہے۔ بازاریTOOTH PICKS عموماً موٹی اور کمزور ہوتی ہیں۔ ناریل کی تیلیوں کی غیرمستعمل جھاڑو کی ایک تیلی یا کھجور کی چٹائی کی ایک پٹی سے بلیڈ کے ذریعے کئی مضبوط خِلا ل تیار ہو سکتے ہیں۔بعض اوقات منہ کے کونے کے دانتوں میں خلا ہوتا ہے اوراس میں بوٹی وغیرہ کاریشہ پھنس جاتا ہے جوکہ تنکے وغیرہ سے نہیں نکل پاتا۔ اس طرح کے ریشے نکالنے کیلئے میڈیکل اسٹور پر مخصوص طرح کے دھاگے (flosses) ملتے ہیں نیز آپریشن کے آلات کی دکان پر دانتوں کی اسٹیل کی کریدنی (curved sickle scale) بھی ملتی ہے مگر ان چیزوں کے استعِمال کا طریقہ سیکھنا بہت ضروری ہے ورنہ مسوڑھے زخمی ہو سکتے ہیں۔(فیضان سنت،ج۱،ص۲۸۹)

صفائی کی اہمیت پراحادیث مبارکہ:

دین اسلام میں ظاہری بدن کے ساتھ لباس ،بالوں اور استعمال کی دیگر چیزوں کی صفائی پر بھی بہت زور دیا گیا ہے۔ ان چیزوں کی صفائی ستھرائی کے بارے میں بھی کثیراحادیث وآثار وارد ہیں۔چند روایات ملاحظہ کیجئے :

{1}حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنے کپڑے دھوؤ،بالوں کو سنوارو،مسواک کرو،زینت اپناؤاور صفائی ستھرائی رکھو کیونکہ بنی اسرائیل ایسا نہیں کرتے تھے تو ان کی عورتیں بدکاری میں مبتلا ہوگئیں۔ (کنزالعمال،ج۳،جزء۶،ص۲۷۳، الحدیث: ۱۷۱۷۱) {2} حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من کرامۃ المؤمن علی اللہ نقاء ثوبہ ورضاہ بالیسیر ترجمہ: بندہ مومن کی بارگاہِ الہٰی میں عزت وکرامت سے یہ بھی ہے کہ اس کے کپڑے صاف ہوں اور وہ تھوڑے پر راضی رہے۔(المرجع السابق ،الحدیث:۱۷۱۸۲)علامہ عبدالروف مناوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :تھوڑے پر راضی رہنے سے مراد لباس،کھانے ،پانی اور مال ودولت میں کمی پر راضی رہنا ہے اور لباس میں یہ بات پسندیدہ ہے کہ وہ صاف ستھرا ہو اور متوسط درجے کا ہو۔ (التیسیرشرح الجامع الصغیر،ج۲،ص۷۴۱) {3} حضرت عطاء بن یساررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے ۔ اتنے میں ایک شخص آیا جس کے سر اور داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کیا گویا اسے اپنے بال اور ڈاڑھی کی درستی کا حکم دے رہے ہیں ۔وہ درست کرکے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ألیس ہذا خیرا من أن یأتی أحدکم وہو ثائر الرأس کأنہ شیطان یعنی کیا یہ اس سے بہتر نہیں کہ تم میں سے کوئی شیطان کی طرح سر بکھیرے ہوئے آئے۔(مشکوۃ المصابیح ،ج۱،ص۱۳۷،الحدیث:۴۴۸۶) {4} حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی ایک روایت ہے ۔آپ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر ملاقات کے لئے تشریف لائے تو ایک بکھرے بالوں والے کو دیکھا تو فرمایا:کیا اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس سے اپنے بالوں کو سنوارے اور ایک میلے کپڑوں والے شخص کو دیکھ کر فرمایا:کیا اس کے پاس کوئی ایسی شے نہیں جس سے اپنے کپڑے دھو لے۔ (مسند ابی یعلی ،ج۲،ص ۲۷۷،الحدیث:۲۰۲۲) {5}حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری خوبصورت گھنی زلفیں تھیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:’’ان کا اچھی طرح خیال رکھنا۔‘‘تومیں دن میں ان کو دومرتبہ تیل لگاتا تھا۔(حلیۃ الاولیا،ج۳،ص۱۸۴،الحدیث:۳۶۳۸)

مسواک کی ضرورت واہمیت:

منہ کی صفائی وپاکیزگی بھی ظاہری جسم کی صفائی میں داخل ہے اور اس صفائی کے لئے مسواک سے بڑھ کر کوئی شے نہیں اور اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:حضرت جبرائیل علیہ السلام جب بھی میرے پاس آئے انہوں نے مجھے مسواک کرنے کی وصیت کی حتی کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ مجھ پر اور میری امت پر فرض نہ ہوجائے اور اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں پڑنے کاخوف نہ ہوتاتومیں ان پر مسواک کرنا فرض کردیتااور میں اس قدر مسواک کرتا ہوں کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں اپنے اگلے دانت زائل نہ کرلوں۔(سنن ابن ماجہ ، ج ۱، ص۱۸۶، الحدیث: ۲۸۹)اورایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمکا معمول تھا کہ جب گھر میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے مسواک کیا کرتے ۔(صحیح مسلم،ص۱۵۲،الحدیث:۲۵۳)

اگر چہ منجن ، ٹوٹھ پیسٹ اور ماؤتھ واش سے بھی منہ کی صفائی ہوجاتی ہے مگران سے مسواک والا ثواب حاصل نہ ہوگا جبکہ مسواک عبادت کی نیت سے ہو ۔کیونکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: مسواک کولازم کرلو کہ یہ منہ کی صفائی اور رب تعالیٰ کی رضا کاسبب ہے۔(مسنداحمد ،ج۲،ص۴۳۸،الحدیث:۵۸۶۹)اس حدیث شریف کی شرح کرتے ہوئے حکیم الامت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس میں دین و دنیا کی بھلائی ہے۔خیال رہے کہ مسواک سے مسلمان کا مسواک کرنابنیت عبادت مراد ہے،کفار کی مسواک اورمسلمانوں کی عادتًا مسواک اگرچہ منہ تو صاف کردے گی مگر رضائے الٰہی کا ذریعہ نہ بنے گی نیز اگرچہ مسواک میں دنیوی اور دینی بہت فوائد ہیں،مگر یہاں صرف دو فائدے بیان ہوئے،یا اس لئے کہ یہ بہت اہم ہیں یا کیونکہ باقی فوائد بھی ان دو میں داخل ہیں۔منہ کی صفائی سے معدے کی قوت اور بے شمار بیماریوں سے نجات ہے اور جب رب راضی ہوگیا پھر کیا کمی رہ گئی۔(مراٰۃ المناجیح ،ج۱،ص۳۶۳)

عبادات اور مسواک:

خاص طور پر نماز سے قبل مسواک ضرورکی جائے کہ اس سے منہ کی صفائی کے ساتھ ساتھ نماز کا ثواب بڑھ جاتا ہے نیزاس میں فرشتوں کی راحت کا سامان بھی ہے۔ارشادنبوی صلی اللہ علیہ وسلمہے:مسواک کے ساتھ دو رکعت پڑھنا بغیر مسواک کے ستر رکعتیں پڑھنے سے افضل ہے ۔ (الترغیب والترہیب، ج ۱، ص ۱۰۲،الحدیث:۱۸)اور ایک موقع پر ارشادفرمایا: جب تم میں سے کوئی رات کو نمازکے لئے کھڑا ہو تواسے مسواک کرلینی چاہئے کیونکہ جب وہ نماز میں قرا ء ت کرتا ہے توفرشتہ اپنا منہ اس کے منہ پر رکھ لیتا ہے اور جو چیز اس کے منہ سے نکلتی ہے وہ فرشتے کے منہ میں داخِل ہوجاتی ہے۔(شعب الایمان،ج۲،ص۳۸۱، الحدیث:۲۱۱۷)اور اگر کوئی نمازی مسواک وغیرہ سے دانتوں میں پھنسے ریزے وریشے وغیرہ نہیں نکالتا تو اس سے فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے۔مروی ہے کہ دونوں فرشتوں کے لئے اس سے زیادہ کوئی چیزتکلیف دہ نہیں کہ وہ اپنے ساتھی کونماز پڑھتا دیکھیں اور اس کے دانتوں میں کھانے کے رَیزے پھنسے ہوں۔(المعجم الکبیر،ج۴،ص۱۷۷، الحدیث:۴۰۶۱)

نماز کی طرح تلاوت اورذکرودعا کے لئے بھی مسواک کی رعایت رکھنا چاہیے ۔حدیث شریف میں ہے : طیبوا افواھکم فانہا طرق القراٰن یعنی اپنے منہ صاف رکھو کیونکہ یہ قرآن کا راستہ ہیں۔( کنز العمال،ج۱،ص۶۰۳،الحدیث: ۲۷۵۲) اوررئیس المتکلمین مولانا نقی علی خان حنفی رحمۃ اللہ علیہ’’احسن الوعالآداب الدعا‘‘میں دعاکا ۵۳واں ادب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جب قصدِ دعا ہو پہلے مسواک کر لے کہ اب اپنے رب سے مناجات کریگا، ایسی حالت میں رائحہ متغیرہ (یعنی منہ کی بدبو) سخت ناپسند ہے خصوصاً حقّہ پینے والے، خصوصاً تمباکو کھانے والوں کو اس ادب کی رعایت ذکر ودعا ونماز میں نہایت اہم ہے، کچا لہسن پیاز کھانے پر حکم ہوا کہ مسجد میں نہ آئے۔(صحیح مسلم، ص۲۸۲، الحدیث: ۵۶۴)وہی حکم یہاں بھی ہوگا، مع ہذا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلمفرماتے ہیں:”مسواک رب کو راضی کرنے والی ہے۔“(صحیح بخاری،ج۱،ص۶۳۷،الحدیث:۱۹۳۳) اور ظاہر ہے کہ رضائے رب باعثِ حصولِ اَرب ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا مراد ملنے کا سبب ہے)۔(فضائل دعا،ص۱۰۸)

گھر اور محلے کی صفائی:

انسانی طبیعت اپنے قرب وجوار سے بہت جلد اثر قبول کرتی ہے اور اچھے یا برے ماحول کے اثرات انسان پرضرور مرتب ہوتے ہیں خواہ معاملہ معاشرتی برائیوں اوربدکرداریوں کا ہو یا کچرے ،غلاظت اور نجاست کے ڈھیروں کا ہو لہٰذاانسان جس گھر ،محلے اور علاقے میں رہتا ہے اس کا صاف ستھرا ہونا بھی انتہائی ضروری ہے ۔گھر اور علاقے کا صاف ستھرا ہونا افرادِ معاشرہ کی نفاست،اچھے مزاج،پروقارزندگی اور خوبصورت سوچ کی عکاسی کرتا ہے ۔حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : إن اللہ طیب یحب الطیب نظیف یحب النظافۃ کریم یحب الکرم جواد یحب الجود فنظفوا افنیتکم ولا تشبہوا بالیہود ترجمہ: اللہ تعالیٰ پاک ہے پاکی کو پسند فرماتا ہے ،ستھرا ہے ستھرے پن کو پسند کرتا ہے،کریم ہے کرم کو پسند کرتا ہے ،جواد ہے سخاوت کو پسند فرماتا ہےتو تم اپنے صحنوں کوصاف ستھرا رکھو اوریہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ کرو۔(سنن الترمذی،ج۴،ص۳۶۵،الحدیث:۶۸۰۸)

ایک حدیث شریف میں یوں ہے : فنظِّفوا عَذِراتِكم ولا تَشبَّهوا باليَهود تجمع الأكْباء في دْورها ترجمہ:تم اپنے صحنوں کو صاف رکھو اور یہود سے مشابہت نہ کرو کیونکہ ان کے گھروں میں کچرے ڈھیر رہتے ہیں۔(غریب الحدیث لابن قتیبۃ،ج۱،ص۲۹۷)اس حدیث پاک میں ہمیں یہ درس دیا گیا ہے کہ اپنے گھر صاف رکھو ۔لباس، بدن وغیرہ کی صفائی تو بہت ہی ضروری ہے گھر بھی صاف رکھو وہاں کوڑا جالا وغیرہ جمع نہ ہونے دو اور اپنے صحن صاف رکھ کر یہود کی مخالفت کروکیونکہ یہود اپنے گھر کے صحن صاف نہیں رکھتے نیز یہود بہت گندے، بہت بخیل، بڑے خسیس ،بڑے ذلیل ہیں عیسائی اگرچہ کافر ہیں مگر وہ یہود کی طرح گندے نہیں ان میں کچھ صفائی ہے اگرچہ ان کے بھی دانت میلے منہ بدبو دار اور ناخن لمبے ہوتے ہیں۔ ہر طرح کی صفائی تو اسلام نے ہی سکھائی ہے۔(ماخوذ ازمراۃ المناجیح،ج۶،ص،ملخصاً) ۔

مسجد کی صفائی کا حکم:

ایک بندہ ٔمومن کااپنے گھر کے علاوہ مسجد سے بھی گہرا تعلق ہوتا اور وہ بارباریا وقتا فوقتا وہاں حاضری کی سعادت پاتا رہتا ہے اور اپنے خالق ومالک کے حکم کی بجاآوری میں عبادت وریاضت سے مشرف ہوتا ہے۔لہٰذا اس کی صفائی وستھرائی بھی ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَعَہِدْنَاۤ اِلٰۤی اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ اَنۡ طَہِّرَا بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَالْعٰکِفِیۡنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوۡدِترجمہ :اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسمٰعیل کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے لئے۔ ۱،البقرۃ:۱۲۵)نیزصدرالافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ سورۃ توبہ کی آیت ۱۸کے تحت رقم طراز ہیں:اس آیت میں یہ بیان کیا گیا کہ مسجدوں کے آباد کرنے کے مستحق مؤمنین ہیں۔ مسجدوں کے آباد کرنے میں یہ امور بھی داخل ہیں جھاڑو دینا ، صفائی کرنا ، روشنی کرنا اور مسجدوں کو دنیا کی باتوں سے اور ایسی چیزوں سے محفوظ رکھنا جن کے لئے وہ نہیں بنائی گئیں ۔ مسجدیں عبادت کرنے اور ذکر کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں اور علم کا درس بھی ذکر میں داخل ہے۔(خزائن العرفان)

مسجد کی صفائی کرنا باعث اجروثواب ہے اور صفائی کرنے والوں کا مرتبہ بڑا بلند ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک حبشی جوان مسجد کی صفائی کیا کرتا تھا ۔ایک بار حضورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے موجودنہ پایا تو اس کے متعلق دریافت کیا ۔صحابہ کرام نے عرض کی:وہ تو فوت ہوگیا ۔ارشادفرمایا:کیا تم مجھے اس کی خبر نہیں دے سکتے تھے؟بقول راوی شاید لوگوں نے اس کے معاملے کو چھوٹا خیال کرکے خبر نہ دی ۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مجھے اس کی قبر پر لے چلو ۔قبر پر پہنچ کر آپ نے اس کی نماز جنازہ ادا کی اور فرمایا:بے شک یہ قبریں اندھیرے سے بھری ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ میرے ان پرنماز پڑھنے کی برکت سے ان کو روشن ومنورفرمادے گا۔‘‘(صحیح مسلم ، ج ۱ ،ص ۴۷۶ ، الحدیث:۹۵۶)اسی طرح مسجد کی صفائی کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا:مسجد کی صفائی کرنا بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں کا حق مہر ہے۔(المعجم الکبیر، الحدیث۲۵۲۱، ج۳، ص۱۹)

ظاہر کے ساتھ باطن کی صفائی:

ظاہرکی صفائی کے مقابلے میں باطن کی صفائی زیادہ اہم ہے۔انسان اگر صرف اپنا ظاہر صاف ستھرا رکھے مگر باطن طرح طرح کی نجاستوں سے آلودہ ہو تو یہ ایک تشویش ناک امر ہے، کیونکہ باطن یعنی دل کی صفائی پورے جسم کو فیض یاب کرتی ہے اور اس کی درستی کی ضمانت ہے۔حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله وإذا فسدت فسد الجسد كله ألا وهي القلب ترجمہ:بے شک جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر یہ درست ہوجائے تو پوراجسم درست ہوجائے اور اگر یہ خراب ہوجائے تو پوراجسم خراب ہوجائے ۔سُن لو وہ دِل ہے۔(صحیح بخاری،ج۱، ص۳۳، الحدیث:۵۲) اوردل کادرست اورسلامتی والا ہونا یہ ہے کہ وہ کفر، گناہوں کے اِرتکاب اور تمام قباحتوں(یعنی برائیوں اور خرابیوں) سے پاک ہو۔(تفسیر بیضاوی،ج۴،ص۲۴۴)حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :’’بُنِیَ الدِّیْنُ عَلَی النَّظَافَۃِ ترجمہ:دین کی بنیاد طہارت پر ہے۔‘‘(المجروحین لابی حاتم ،ج۲،ص۴۰۱، الحدیث :۱۱۱۹)حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں :’’یہاں طہارت سے مراد صرف کپڑوں کا صاف ہونا ہی نہیں بلکہ دل کی صفائی بھی مراد ہے۔ اس پریہ فرمانِ الہٰی دلیل وحجت ہے:اِنَّمَا الْمُشْرِکُوۡنَ نَجَسٌ ترجمہ: مشرک نرے ناپاک ہیں۔۱۰ ،التوبہ:۲۸) اس آیت مبارکہ سے ظاہر ہوا کہ نجاست صرف کپڑوں کے ساتھ خاص نہیں کیونکہ جب تک باطن خبائث سے پاک نہ ہو اس وقت تک علمِ نافع حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی علم کے نور سے انسان روشنی پاسکتا ہے۔(لباب الاحیاء،ص۳۲)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:’’ہرچیز کے لئے کوئی نہ کوئی صفائی کرنے والی شے ہوتی ہے اور دلوں کی صفائی خدا کے ذکر سے ہوتی ہے۔‘‘(الترغیب والترہیب، ج۲،ص۲۵۴، الحدیث:۱۰)

اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے:

باری تعالیٰ کوطہارت و صفائی اس قدر محبوب ہےکہ اس نے صفائی اپنانے والے کو اپنا محبوب وپیارا قرار دیا ہے۔ارشادِ الہٰی ہے: وَاللہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیۡنَ ترجمہ : اور ستھرے اللہ کو پیارے ہیں۔۱۰،التوبہ:۱۰۸)نیزاس کا اندازہ اُخروی چیزوں میں پاکیزگی وطہارت اور عمدگی ونفاست کے اہتمام سے بھی لگایا جاسکتا ہے ۔اس نے جنت بنائی تو انتہائی صاف ستھری ،وہاں بسنے والوں کو پسینہ نہیں آئے گا،ان کے بدن میلے نہیں ہوں،بول وبراز کی اذیت سے محفوظ ہوں گے،جنتی حوروں کو انتہائی پاکیزہ بنایا۔ارشادربانی ہے:کَاَنَّـہُنَّ الْیَاقُوۡتُ وَ الْمَرْجَانُترجمہ:(صفائی وخوش رنگی میں )گویا وہ یاقوت اور مونگا ہیں۔۲۷،الرحمن:۵۸) حدیث شریف میں ہے کہ جنّتی حوروں کے صفائے ابدان کا یہ عالَم ہے کہ ان کی پنڈلی کا مغز اس طرح نظر آتا ہے جس طرح آبگینہ کی صراحی میں شرابِ سرخ۔(خزائن العرفان)دوسرے مقام پرفرمایا:کَاَمْثٰلِ اللُّؤْلُؤَ الْمَکْنُوۡنِترجمہ:جیسے چُھپے رکھے ہوئے موتی۲۷،الواقعۃ:۲۳) یعنی جیسا موتی صدف میں چُھپا ہوتا ہے کہ نہ تو اسے کسی کے ہاتھ نے چھوا ، نہ دھوپ اور ہوا لگی اس کی صفائی اپنی نہایت پر ہے اس طرح حوریں اچھوتی ہوں گی ۔(خزائن العرفان)اور جنت کی شراب کے ستھرا ہونے کو یوں بیان فرماتا ہے:وَ سَقٰىہُمْ رَبُّہُمْ شَرَابًا طَہُوۡرًا ترجمہ :اور انہیں ان کے رب نے ستھری شراب پلائی۔۲۹،الدھر:۲۱)جو نہایت پاک صاف ، نہ اسے کسی کا ہاتھ لگا، نہ کسی نے چھوا ، نہ وہ پینے کے بعد شرابِ دنیا کی طرح جسم کے اندر سڑ کر بول بنے ، بلکہ اس کی صفائی کا یہ عالَم ہے کہ جسم کے اندر اتر کر پاکیزہ خوشبو بن کر جسم سے نکلتی ہے اہلِ جنّت کو کھانے کے بعدشراب پیش کی جائے گی ، اس کو پینے سے ان کے پیٹ صاف ہوجائیں گے اور جو انہوں نے کھایا ہے وہ پاکیزہ خوشبو بن کر ان کے جسموں سے نکلے گا اور ان کی خواہشیں اور رَغْبَتِیں پھرتازہ ہوجائیں گی۔(خزائن العرفان)

موجودہ مسلمان اور صفائی کا فقدان:

ہم نے مضمون کے شروع میں غیرمسلموں کی غیرفطری اور ناپسندیدہ روش کا تذکرہ کیا کہ وہ نفاست وپاکیزگی سے دور تھے اور یہ اسلام کا احسان تھا کہ انہوں نے صفائی ستھرائی کو کسی حد تک اختیار کیا مگر جب ہم آج کے دور میں خود اسلام کے پیروکاروں کو دیکھتے ہیں تو ان میں بھی ہمیں ایک تعداد ایسی ملتی ہے جو طہارت وپاکیزگی اور صفائی ستھرائی کے معاملے میں سست روی کا شکار ہے۔کسی مسلمان نے لمبی لمبی مونچھیں رکھی ہوئی ہیں تو کسی کو اظفارطویلہ یعنی لمبے ناخنوں کا شوق ہے بالخصوص عورتوں میں یہ مرض زیادہ ہے۔کوئی مسلمان میلے کچلے کپڑوں میں گھن محسوس نہیں کرتا توکوئی اپنے پسینے اور منہ کی بدبو سے آس پاس کا ماحول ’’مہکا ‘‘رہا ہوتا ہے ۔کوئی پان کھا کر دانتوں کی صفائی نہیں کرتا تو کسی نے سگریٹ پی پی کر سامنے کے دانت پیلے کر رکھے ہوتے ہیں۔ کوئی گٹکا کھا کر فٹ پاتھ،دکان ومکان کی دہلیز،دفاترومارکیٹس کے مخصوص کونے کھدرےرنگین کررہا ہوتا تو کوئی بس وغیرہ کی کھڑکی سے پیچھے آنیوالے موٹر سائیکل سوار کو اپنے پان یا گٹکے کی پچکاری سےصبروبرداشت کا’’درس‘‘ دے رہاہوتا ہے ۔کوئی اپنی بلڈنگ سے کچرے کا تھیلا باہر گلی میں پھینک کر اپنی ’’شرافت ونفاست‘‘کا مظاہرہ کررہا ہوتا ہے تو کوئی اپنے گھرکا کوڑاکرکٹ جمع کرکےکسی چوراہے یا گلی کے نکڑ کی’’ زینت‘‘ بنا رہا ہوتاہے۔ کوئی غسل جنابت میں سستی کرکے اپنے گھر کو رحمت کے فرشتوں کے لئے ”نوگوایریا“بنارہا ہے توکوئی ”اندرونی صفائی“سے غفلت برت کرفطرت سے ’’جنگ“ کررہا ہے ۔الغرض یہ سب ہمارے گردوبیش میں رہنے والے افراد کر رہے ہیں ۔وہ اسلام جس نے غیروں کو صفائی ستھرائی کا خوگر کیا آج اس کے بعض اپنوں میں طہارت وپاکیزگی مفقود ہے اور گندگی وناپاکی ان کی سِرشت وپہچان بنی ہوئی ہے ۔بہر حال مسلمان کو اپنے ظاہر وباطن دونوں کی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے۔ ظاہر کو نجاست، غلاظت،گندگی اور میل کچیل وغیرہ سے اور باطن کو کینۂ مسلم ، غرو ر وتکبر اوربغض وحسد وغیرہ ر ذائل سے پاک وصاف رکھے۔ باطن کی صفائی کے لئے اچھی صحبت بے حد مفید ہے۔ ظاہروباطن کو صاف رکھنارب تعالیٰ کو محبوب،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند،صحت وتندرستی کی ضمانتاور فطرت کا تقاضاہے۔

محمد آصف اقبال عطاری مدنی

سینئر اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی(المدینۃ العلمیہ)


ماہِ رمضان کی برکات

Thu, 7 Apr , 2022
2 years ago

رمضان اور قرآن:

خُدائے رحمن عزوجل کا اپنے رسولِ ذیشان صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی اُمت پر یہ عظیم احسان ہے کہ انہیں قرآن اوررَمضان عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کے اِن دونوں احسانات پر غور کیا جائے تو ان میں باہم ایک حسین اِمتزاج نظر آتا ہے۔ اگر رَمضان کی فضیلت جاننی ہو تو قرآنِ مجید بُرہانِ رشید اِس پر ناطق ہےاور اگر قرآن کے نُزول کاذکر کیا جائے تو قرآنِ کریم خود خبر دیتا ہے کہ نزولِ قرآن ماہِ رمضان ہی میں ہواہے۔چنانچہ خدائے مہربان عزوجل ارشاد فرماتاہے:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ([1])

ترجمۂ کنز الایمان: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا۔

خلیفۂ اعلیٰ حضرت،صدرالاَفاضل سیّد مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ آیتِ مبارَکہ کے اِس حصّے کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’اس کے معنی میں مفسّرین کے چند اقوال ہیں:(۱) یہ کہ رمضان وہ ہے جس کی شان و شرافت میں قرآن پاک نازل ہوا (۲) یہ کہ قرآن کریم کے نزول کی اِبتداء رمضان میں ہوئی (۳) یہ کہ قرآن کریم بِتَمامِہٖ (پورا پورا) رمضان مبارک کی شبِ قدر میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دُنیا کی طرف اتارا گیا اور بیتُ العزّت میں رہا ، یہ اسی آسمان پر ایک مقام ہے یہاں سے وقتاً فوقتاً حسب ِاِقتضائے حکمت جتنا جتنا منظورِ الٰہی ہوا جبرئیل امین لاتے رہے، یہ نُزول تئیس سال کے عرصہ میں پورا ہوا۔‘‘([2])

مفسِّرشہیر ، حکیم الاُمت مفتی اَحمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’اسی (رمضان کے)مہینہ میں قرآن کریم اُترا اور اسی مہینہ کا نام قرآن شریف میں لیا گیا ۔‘‘([3])

مہینوں کا سردار:

اللہ ربُّ العزت نے اپنی مخلوقات میں بعض کو بعض پر افضلیت او ر بُزرگی بخشی ہے۔ اَفضلیت اور بُزرگی کا یہ تسلسل ہمیں مخلوقات کے ہر ہر طبقے میں نظر آتاہے۔دیگر مہینوں میں اگر ماہِ رمضان کی قدر و منزلت معلوم کرنی ہو تو سیِّدِ کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان ہماری راہنمائی کرتا ہے کہ

"سَیِّدُ الشُّھُوْرِ رَمَضَانُ وَسَیِّدُ الْاَیَّامِ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ([4])

یعنی ،سارے مہینوں کا سردار رَمضان ہے اورتمام دِنوں کا سردار جمعہ کا دِن ہے۔

جنّت اور آسمانوں کے دروازے:

ماہِ رَمضان کی تو دُنیا میں کیا آمد ہوتی ہے،قُدرت کی جانب سے خصوصی اِہتمام ہونے لگتے ہیں۔ مسلمانانِ عالَم کیلئے رحمتوں کے پیام آتے ہیں اور ہر سُو اَنوار و برکات کا ظُہور ہوتاہے۔ اِیمانی جذبے کو خوب حرارت ملتی ہے، گناہوں کا زور ٹوٹتا ہے اور مختلف قسم کے نیک اَعمال کا سلسلہ مسلمانوں میں عام ہو جاتاہے۔ اس خوشگوار تبدیلی کی چند وُجوہات اَحادیثِ مبارَکہ میں بیان کی گئی ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان روایت کیا گیا ہےکہ :

إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ. ([5])

یعنی، جب رمضان آتا ہے تو جنّت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔

اِسی میں ایک فرمانِ رسالت یوں روایت کیا گیا ہے کہ:

إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَ سُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ. ([6])

یعنی، جب ر مضان آجاتا ہے توآسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتاہے۔

شرحِ حدیث:

فقیہ اعظم ہند، شارِحِ بخاری مفتی شریف الحق اَمجدی رحمۃ اللہ علیہ "نزھۃ القاری" میں ان احادیثِ مبارَکہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:" اس سے کوئی مانع نہیں کہ دروازے کھولنے سے اس کا حقیقی معنی مراد لیا جائے ۔ مطلب یہ ہوا کہ رمضان میں شب و روز مسلمان اعمالِ صالحہ بہ کثرت کرتے ہیں، تو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں کہ انہیں عروج اور درجہ قبول تک پہنچنے میں ادنیٰ سی رکاوٹ نہ ہو۔ نیز یہ کہ جب جنّت اور آسمان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں تو رحمت و برکت کا تسلسل کے ساتھ نزول ہوتا رہے گا۔ اسی طرح جہنم کے دروازوں کا بندہونا او رشیاطین کا زنجیروں میں جکڑنا حقیقی معنوں میں ہے۔" ([7])

ماہِ رمضان کی 10خصوصیات:

مفسِّرشہیر ، حکیم الاُمت مفتی اَحمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شاندار تصنیف "تفسیرِ نعیمی" میں ماہِ رَمضان کی کچھ خُصوصیات اور برکات تحریر فرمائی ہیں۔ ان میں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:

(1) کعبہ معظّمہ مسلمانوں کو بُلا کر دیتا ہے اور یہ(رمضان) آکر رحمتیں بانٹتا ہے۔گویا وہ کنواں ہے اور یہ دریا ہے یا وہ دریا ہے اور یہ بارش ۔

(2) ہر مہینہ میں خاص تاریخیں اور تاریخوں میں بھی خاص وقت میں عبادت ہوتی ہے۔ مثلاً بقر عید کی چند تاریخوں میں حج ،محرم کی دسویں تاریخ افضل ،مگر ماہِ رمضان میں ہر دن اور ہر وقت عبادت ہوتی ہے۔روزہ عبادت افطار عبادت۔ افطار کے بعد تراویح کا انتظار عبادت۔ تراویح پڑھ کر سحری کے انتظار میں سونا عبادت ۔ پھر سحری کھانا عبادت۔ غرضیکہ ہر آن میں خُدا کی شان نظر آتی ہے۔

(3) رَمضان ایک بھٹی ہے جیسے کہ بھٹی گندے لوہے کو صاف اور صاف لوہے کو مشین کا پُرزہ بنا کر قیمتی کر دیتی ہے اور سونے کو زیور بنا کر محبوب کے استعمال کے لائق کر دیتی ہے ۔ ایسے ہی ماہِ رمضان گنہگاروں کو پاک کرتاہے اور نیک کاروں کے درجے بڑھاتاہے۔

(4) رَمضان میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ستّر گنا ملتا ہے۔

(5) بعض علماء فرماتے ہیں کہ جو رَمضان میں مرجائے اس سے سوالات ِ قبر بھی نہیں ہوتے۔

(6) رَمضان میں ابلیس قید کر دیا جاتاہے اوردوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں جنّت آراستہ کی جاتی ہے اس کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اسی لئے اس زمانہ میں نیکیوں کی زیادتی اور گناہوں کی کمی ہوتی ہے۔جو لوگ گناہ کرتے بھی ہیں وہ نفسِ امارہ یا اپنے ساتھی شیطان (قرین) کے بہکانے سے۔

(7) رَمضان کے کھانے پینے کا حساب نہیں۔

(8) قیامت میں رَمضان و قرآن روزہ دار کی شفاعت کریں گے کہ رَمضان تو کہے گا کہ مولیٰ میں نے اسے دن میں کھانے پینے سے روکا تھا اور قرآن عرض کرےگا کہ یا ربّ میں نے اسے رات میں سونے سے روکا۔(شبینہ اور تراویح کی وجہ سے)

(9)قرآن کریم میں صرف رَمضان شریف ہی کا نام لیا گیا اور اسی کے فضائل بیان ہوئے کسی دوسرے مہینہ کا نہ صراحتاً نام ہے نہ ایسے فضائل۔

(10)رَمضان شریف میں افطار اور سحری کے وقت دُعا قبول ہوتی ہے یعنی افطار کرتے وقت اور سحری کھا کر۔یہ مرتبہ کسی اور مہینہ کو حاصل نہیں۔([8])

اللہ کریم ہمیں رَمضان المبارَک کی برکات سے حصّہ پانے اور اس میں خوب عبادات کرکے اسے راضی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ طہ ویٰس

از: ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی



[1] : پ 2، البقرۃ :185۔

[2] : "ترجمہ کنزالایمان مع خزائن العرفان"، ص:60-61، مکتبۃ المدینۃ۔

[3] : "مراٰت المناجیح"،3/133،نعیمی کتب خانہ۔

[4] : "معجم کبیر" ، حدیث:9000، 9/205۔

[5] : "صحیح بخار، کتاب الصوم،باب ھل یقال : رمضان أو شهر رمضان، 1/255۔

[6] : "صحیح بخاری، کتاب الصوم،باب ھل یقال : رمضان أو شهر رمضان، 1/255۔

[7] : "نزھۃ القاری، کتاب الصوم،3/258 ، فرید بُک سٹال۔

[8] : "تفسیر نعیمی" ،2/227، نعیمی کتب خانہ، ملتقطاً ۔