نام وکنیت:
نام عبد اللہ بن محمد بن عبید بن سفیان بن
قیس قرشی ہے،کنیت ابو بکر اور شہرت ابن
ابی دُنیاکے نام سے ہے ۔
ولادت:
آپ208ہجری کوبغدادمیں پیداہوئے ۔(سیر
اعلام النبلاء،10/694)
اساتذۂ کرام :
آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نےاپنے وقت
کے جیدعلما اور اکابرمحدثین سے اکتسابِ فیض کیا۔آپ کے اساتذہ میں سے چند کے نام یہی ہیں:امام بخاری، امام
ابوداؤد سجستانی،امام احمد بن حنبل،امام قاسم بن سلام،صاحب طبقات امام ابنِ سعد،
امام علی بن جعد، امام ابو بکر بن ابی شیبہ،امام عثمان بن ابی شیبہ،امام قتیبہ بن
سعید، احمدبن ابراہیم، امام احمدبن حاتم، احمدبن محمدبن ایوب، ابراہیم بن عبداللہ
ہروی، داؤدبن رشید، حسن بن حماد، ابو
عبیدہ بن فضیل بن عیاض، ابراہیم بن محمد بن عرعرہ، احمدبن عمران احنسی رحمۃُ اللہِ علیہم
وغیرہ کے اسمائے گرامی معروف ہیں ۔(سیر اعلام النبلاء،10/694، تھذیب التھذیب،4/473)
تلامذہ:
آپ رحمۃُ
اللہِ علیہ سے علم حاصل
کرنے والوں کی تعداد کافی بڑی ہے ۔ آپ کے اکابر تلامذہ میں سے کچھ کے نام یہ ہیں
: امام ابن ابی حاتم، احمدبن محمد، امام ابوبکراحمدبن سلیمان،امام ابن
ماجہ،امام ا بن خزیمہ،امام ابوالعباس بن عقدہ، عبداللہ بن اسماعیل بن
برہ،امام ابوبکر بن محمدبن عبداللہ شافعی، امام ابوبکر احمد بن مروان دینوری،
ابوالحسن احمدبن محمدبن عمر نیشاپوری، اور محمد بن خلف وکیع رحمۃُ اللہِ
علیہم ۔ان کے علاوہ بھی بہت لوگوں نے آپ کے علوم سے فیض پایاہے ۔امام ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہ نے تقریباً 26 تلامذہ کے نام ذکر کئے ہیں۔(سیر اعلام
النبلاء،10/696)اورامام ابن حجر عسقلانی رحمۃُ اللہِ
علیہ نے 17کے
نام ذکر کئے ہیں ۔ (تھذیب التھذیب،4/473)
تعریفی کلمات :
(1)…امام ابن ابی حاتم رحمۃُ
اللہِ علیہ
فرماتے ہیں : میں اورمیرے والد امام ابن ابی دُنیا رحمۃُ اللہِ
علیہ کی
روایات لکھاکرتے تھے ، ایک دن کسی نے میرے والد صاحب سے امام ابن ابی دُنیا رحمۃُ اللہِ علیہ کے بارے میں
پوچھاتو والد صاحب نے فرمایا : وہ بہت سچے آدمی ہیں۔( تھذیب التھذیب،4/474)
(2)…قاضی
اسماعیل بن اسحاق رحمۃُ اللہِ علیہنے آپ کے وصال کے موقع پرکہا : اللہ پاک ابو بکرکوغریقِ بحررحمت
فرمائے !ان کے ساتھ کثیر علم بھی چلاگیا۔( تھذیب التھذیب،4/474)
(3)…امام
ذہبی رحمۃُ اللہِ علیہنقل فرماتے ہیں کہ’’امام ابن ابی دُنیا رحمۃُ اللہِ علیہ جب کسی کے پاس تشریف فرماہوتے تواگراس
کوہنساناچاہتے توایک لمحے میں ہنسا دیتے اور اگررلاناچاہتے تو رُلادیتے کیونکہ آپ
رحمۃُ اللہِ علیہ بہت وسیع علم
رکھتے تھے ۔(سیر
اعلام النبلاء،10/696) نیز فرماتے ہیں:آپ رحمۃُ اللہِ علیہسچے عالم اور
محدث تھے۔(تذکرۃ الحفاظ،2/181)
(4)…مؤرخ ابن
ندیم نے کہا:امام ابن ابی دُنیا رحمۃُ اللہِ علیہ خلیفہ مکتفی باللہ کے استاد ہیں۔آپ ایک متقی اورپرہیز گار آدمی تھے اور
اخبارو روایات کے بہت بڑے عالم تھے ۔(الفہرست،ص262)
(5)…علامہ ابن تغری بردی حنفی رحمۃُ اللہِ علیہفرماتے ہیں: امام ابن ابی دُنیا رحمۃُ اللہِ علیہ عالم،زاہد،متقی اور عبادت گزار تھے۔آپ سے کثیر حضرات نے روایت کیا اور
علما نے آپ کے ثقہ ،سچے اور امانت دار ہونے پر اتفاق کیا۔(النجوم الزاہرۃ،3/86)
تصانیف:
آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے کثیر کتابیں یاد گار چھوڑیں
ہیں جن میں سے اکثر زُہد و رقائق پرمشتمل ہیں ۔آپ کی نصیحتوں اور مواعظ اورکتب
کوہردور میں بے پناہ مقبولیت حاصل رہی ہے۔حضرت علامہ ابن جوزی رحمۃُ اللہِ
علیہ فرماتے ہیں کہ امام ابن ابی دُنیا رحمۃُ اللہِ
علیہ نے زہدکے موضوع پر100سے زائدکتب لکھی ہیں۔( المنتظم لابن جوزی، 12/341) امام ذہبی رحمۃُ اللہِ
علیہ نے آپ کی 183کتابوں کے نام بیان کئے ہیں۔(سیر
اعلام النبلاء،10/697)آپ کی چند کتابوں کے نام یہ ہیں :
(1)اَلْقَنَاعة(2)قَصْرُالْاَمَل(3)اَلصَّمْت(4)اَلتَّوْبَة(5)اَلیَقِیْن(6)اَلصَّبْر(7)الجُوْع(8)حُسْنُ الظَّنِ بِاللّٰه(9)اَلْاَوْلِیَاء(10)صِفَةُالنَّار (11)صِفَةُ الْجَنَّة (12)تَعْبِیْرُ الرُّؤْیَاء (13)الدُّعَاء (14)ذَمُّ
الدُّنْیَا(15)اَلْاَخْلَاق(16)کَرَامَاتُ الْاَوْ لِیَاء(17)عَاشُوْرَاء(18)
اَلْمَنَاسِک (19)اَخْبَارُ اُوَیْس(20)اَخْبَارُ مُعَاوِیَه(21)
اَخْبَارُقُرَیْش(22) اَخْبَارُ الْمُلوک (23) اَخْبَارُ الثَّوْرِی(24)
اَخْبَارُ الْاَعْرَاب (25)ذَمُّ الْمُسْکِر(26)ذَمُّ الْکِذْب (27)
ذَمُّ الْبَغی(28)ذَمُّ الْغِیْبة(29)ذَمُّ الْحَسَد(30)ذَمُّ
الرِّبَا(31)ذَمُّ الرِّیَاء (32) ذَمُّ الْبُخْل(33)ذَمُّ
الشَّہْوَات (سیر اعلام النبلاء،10/697)
وفات:
آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نےبروز منگل 14
جُمَادَی الاُولیٰ 281ہِجْرِی میں
وفات پائی۔ قاضی یوسف بن یعقوب رحمۃُ اللہِ علیہ نے نمازِجنازہ پڑھائی۔آپ کے جسدِخاکی کو شُوْنِیْزِیَّہ (بغداد)کے قبرستان
میں سپردِ خاک کیاگیا۔( تاریخ
بغداد ، 10 / 9 0 ، 9 1 ، مقدمۃ التحقيق،ذم الکذب،ص12)
از:محمد گل فراز مدنی(اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)
شجرکاری
جو اس وقت ایک اہم ایشو ہے، مقامی اور عالمی طور پر کانفرنسز سمینارز ہورہے
ہیں،تشہیری مہمیں چلائی جارہی ہیں لوگوں
کو درخت لگانے کی ترغیبیں دلائی جارہی ہیں، ہمارا پیارا دین اسلام جو کہ انسان کے وجود وبقاء کا ضامن دینِ
فطرت ہے، اس میں ظاہری وباطنی اور انفرادی
و اجتماعی نظافت وپاکیزگی پر بہت زور دیا گیا ہے، اس نے تقریباًساڑھےچودہ سو سال
پہلے شجرکاری کی اہمیت بتائی چنانچہ:
اللہ
پاک کے آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے کوئی
درخت لگا یا اور اس کی حفا ظت اور دیکھ
بھال پر صبر کیا یہا ں تک کہ وہ پھل دینے لگا تو اس میں سے کھایا جانے والا ہرپھل
اللہ پاک کے نزدیک اس کے لئے صدقہ ہے ۔ (مسند
احمد،5/574، رقم: 18586)
دنیا
کے عظیم ترین سماجی رہنما محمد مصطفی ٰصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے
ارشاد فرمایا: جومسلمان درخت لگا ئے یا فصل بوئے پھر اس میں سے جوپرند ہ یا انسا ن
کھا ئے تو وہ اسکی طر ف سے صدقہ شما ر ہوگا ۔ (مسلم
،ص 840، حدیث: 1553)
دوسری
روایت میں ہے کہ مسلمان جو کچھ اُگائے پھر اس میں سے کوئی انسان یا جانور یا پرند
ہ کھائے تو وہ اس کے لئے قیامت تک صدقہ ہوگا۔ (مسلم،ص839،
رقم:1552)
حضرتِ
سیدنا اَنَس رضی
اللہ عنہ
سے مروی حدیث پاک میں وہ سات چیزیں جن کا
ثواب انسان کو مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے ان میں سے ایک درخت لگانا بھی
ہے۔ (مجمع
الزوائد، ، 1/ 408، رقم: 769)
مشہور
صحابی رسول حضرتِ سیدنا ابودَرْدَاء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ میں دمشق میں ایک جگہ کھیتی بورہا تھا، ایک شخص میرے قریب سے گزرا تو اس نے مجھ
سے کہا کہ آپ صحا بئ رسول جیسا منصب حاصل ہونے کے باوجود یہ کام کررہے ہیں! تو میں
نے اس سے کہا میرے بارے میں رائے قائم کرنے میں جلد بازی مت کرو کیونکہ میں نے
رسول پاک صلی
اللہ علیہ وسلم
کو فرماتے ہوئے سنا ہے:’’ جس نے فصل بوئی تو اس فصل میں سے آدمی یا مخلوق میں سے
جو بھی کھائے گا وہ اس کے لئے صدقہ شمار ہو گا‘‘۔ (مسند
احمد،10/ 421، حدیث: 27576)
معاشرتی فوائد
گلوبل وارمنگ میں کمی: عالمی
ماحول کےدرجۂ حرارت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہےجس کی وجوہات میں درختوں کا کٹاؤ، گاڑیوں کا بے تحاشا دھواں،
زہریلی گیسز شامل ہیں، لہٰذا زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر اس عالمی چیلنج سے کسی حد
تک نبردآزما ( یعنی اس کا مقابلہ) ہواجاسکتا
ہے۔
فضائی آلودگی میں کمی: فضائی آلودگی بھی اس وقت دنیا
کے اہم چیلنجز میں ہیں، ہمارے ملک کے کچھ شہر عالمی آلودہ ترین شہروں میں ٹاپ پر
ہوتے ہیں، درخت اور پودے فضا میں موجود آلودگیوں، گیسز کو اپنے اندر جذب کرکے
ماحولیاتی آلودگی میں کمی کا باعث بنتے ہیں۔
جانوروں کی بقا کا ذریعہ:جنگلی جانوروں
کی غذا کا اہم جز درختوں کے پتے ہیں ، یوں درختوں کو ان کی زندگی کا ضامن بھی قرار
دیا جاسکتا ہے۔
سیلاب سے بچاؤ: درخت کی جڑیں نہ صرف خود اضافی پانی
کو جذب کرتی ہیں بلکہ مٹی کو بھی پانی جذب کرنے میں مدد دیتی ہیں جس کے باعث پانی
جمع ہو کر سیلاب کی شکل اختیار نہیں کرتا۔
لینڈ سلائیڈنگ سے بچاؤ: جہاں درخت
موجود ہوں وہاں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ کافی حد تک کم ہوجاتا ہے کیونکہ درخت کی
جڑیں زمین کی مٹی کو روک کر رکھتی ہیں جس کی وجہ سے زمین کا کٹاؤ یا لینڈ سلائیڈنگ
سے حفاظت رہتی ہے۔
قحط سالی کا خاتمہ: یہ اپنی جڑوں میں جذب شدہ پانی
کو ہوا میں خارج کرکے بادلوں کی تشکیل اور
بارشوں کا ذریعہ بنتے ہیں۔
ایندھن کی فراہمی: درختوں کی لکڑیاں آج بھی کئی
گھروں کے چولہا جلنے کا سبب بنتی ہیں اس
کے علاوہ کئی اور چیزوں کے لئے ایندھن کا کردار ادا کرتی ہیں۔
معاشی فوائد
بجلی کی بچت: درختوں کی کثرت سے ماحول ٹھنڈا اور
خوشگوار ہوگا نتیجۃً وہ آلات جو گرمیوں میں استعمال ہوتے ہیں ان کی ضرورت سے
چھٹکارا ملے گا یا اس میں کمی واقع ہوگی ، یوں قومی وسائل میں نہ صرف اضافہ ہوگا
بلکہ اہم قومی مسئلہ انرجی کرائسز سے بھی نمٹنے میں معاونت ہوگی۔
صنعتوں کی حوصلہ افزائی:درخت کئی طرح
کی صنعتوں کے لئے رامٹریل(Raw
Material) یعنی خام مال فراہم کرتے ہیں، فرنیچر،
کرسیوں، کاغذ اور کنسٹریکشن کی صنعتیں اس
میں نمایاں ہیں۔
غذائی ضروریات کے حصول کا
ذریعہ:ہماری
غذائی ضروریات کی تکمیل میں بھی درختوں کا
اہم کردار ہے ، ہم جو پھل وغیرہ کھاتے ہیں
وہ اکثر ان درختوں کی ہی مرہون منت ہے۔
زمین کی زرخیزی میں اضافے کا سبب: درخت مٹی اور
زمین کو پانی فراہم کرتے رہتے ہیں جس سے اس کی زرخیزی میں اضافہ ہوتا ہے اوروہ
بنجر نہیں ہو تی ۔
طبعی اورطبی فوائد
آکسیجن کی فراہمی کا ذریعہ: یہ
آکسیجن خارج کرتے ہیں اور آکسیجن کی انسانی زندگی میں ضرورت سے ہر شخص آگاہ ہے۔
خوشگوار ماحول کا سبب: یہ کاربن ڈائی اکسائیڈ کو جذب
کرکے ماحول کو خوشگوار بنانے میں اپنا اہم
کردار اداکرتے ہیں ہیں۔
ادویات کے حصول کا ذریعہ: مختلف اقسام کی ادویات کے بنانے میں درختوں کی
جڑیں اورپتے وغیرہ استعمال ہوتے ہیں، تحقیق کے مطابق پودوں اور جڑی بوٹیوں پر
مشتمل ادویات کے کاروبار کا حجم دنیا بھر میں تقریباً 83 ارب ڈالر ہے۔
ذہنی تناؤ اور ڈپریشن میں کمی اور انسانی صحت کا ضامن :
درختوں کی موجودگی کو خوشگوارصحت مند زندگی کی ضامن بھی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ انہیں دیکھنے اور اس کے درمیان رہنے سے لوگوں کو ذہنی و جسمانی طور پرخوشگوار تازگی
کا احساس ہوتا ہے جونہ صرف ذہنی طور پر بلکہ کئی جسمانی امراض سے محفوظ رکھتے ہوئے
انہیں صحت مند بناتی ہے جبکہ درختوں کے درمیان رہنے سے ان کی تخلیقی کارکردگی میں
بھی اضافہ ہوتا ہے۔
صوتی آلودگی میں کمی: ماہرین
کے مطابق اربن پلاننگ میں اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کے ارد گرد
اور زیادہ شور شرابے والے مقامات جیسے فیکٹریوں اور کارخانوں کے قریب زیادہ سے
زیادہ درخت لگانے سے ماحول کوپرسکون بنایاجاسکتا ہے۔
دعوتِ اسلامی اور شجرکاری مہم
دعوتِ
اسلامی کے شعبہ فیضان گلوبل ریلیف فاؤنڈیشن (FGRF)
نے"پودا لگانا ہے درخت بناناہے" کے مقصد سے 30 جولائی 2021 میں اس مہم کا آغاز کیا جس
میں شیخ طریقت امیر اہلسنّت بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار
قادری دامت
برکاتہم العالیہ اوردعوتِ
اسلامی کے ہر سطح کے ذمہ داران اور اسلامی بھائیوں نے بھرپور حصہ لیا اورFGRF
کی جانب سے ملنے والی رپورٹ کے مطابق جنوری 2021ء سے اب تک ملک وبیرونِ میں ہزاروں مقامات پر 2ملین (یعنی 20لاکھ)سے زائد پودےلگائے جاچکے ہیں۔اس کے علاوہ مزید پودے لگانے اور لگائے گئے پودوں کی نگہداشت کا کام بھی بحسن خوبی انجام دیا
جارہا ہے۔ آپ سے بھی درخواست ہے کہ اس کام میں دعوتِ اسلامی کا ساتھ دیکر اس
صدقۂ جاریہ کا حصہ بنیں۔ اگر آپ شجرکاری کے سلسلے میں تعاون کرنا چاہتےہیں تو اپنے علاقے میں موجود
دعوتِ اسلامی کے ذمہ داران یا FGRF کے اسلامی
بھائیوں سے رابطہ فرمائیں۔
ا ز:مولانا کاشف سلیم عطاری مدنی
رکنِ
مجلس المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)
15
شوال المکرم 1443ھ
17
مئی، 2022 ء
اعلیٰ حضرت کو اللہ پاک نے جامع کمالاتِ ظاہری و باطنی اور صوری و معنوی
بنایا تھا، اوصاف و کمالات میں جس کو دیکھئے آپ کی ذات میں بروجہِ کمال اس کا ظہور
تھا، والدین کی اطاعت کا حال یہ تھا گویا کہ اعلیٰ حضرت حضرت سیِّدُنا ابن عباس رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مَرْوِی اس قول کی عملی تفسیر تھے کہ 3 آیاتِ مقدسہ 3 ایسی چیزوں کے مُتَعَلِّق نازل ہوئیں جو 3 اشیا سے مُتَّصِل ہیں ، ان میں سے کوئی بھی چیز دوسری کے بغیر قبول نہ ہو گی: (1)اَطِیۡعُوا اللہَ وَ اَطِیۡعُوا
الرَّسُوۡلَ (پ۵، النساء: ۵۹) ترجمۂ کنزالایمان:حکم مانو اللہ کا اورحکم مانورسول کا۔ یعنی جس نے اللہ کی اطاعت کی لیکن رسول کی اطاعت نہ کی تو وہ
اس سے قبول نہ کی جائے گی۔ (2)وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ
وَ اٰتُواالزَّکٰوۃَ (پ۱، البقرۃ:۴۳) ترجمۂ کنز الایمان:اور نماز قائم رکھو اور
زکٰوۃ دو۔ یعنی جس نے نما ز پڑھی لیکن زکوٰۃ نہ دی تو وہ بھی اس سے قبول نہ کی جائے گی۔اور (3)اَنِ اشْکُرْ لِیۡ وَ لِوٰلِدَیۡکَط (پ۲۱، لقمٰن: ۱۴)ترجمۂ کنز الایمان : یہ کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا۔ یعنی جس نے اللہ کا شکر اد اکیا لیکن اپنے والدین کا شکر ادا
نہ کیا تو وہ بھی اس سے قبول نہ کیا جائے گا۔اسی وجہ سے اللہ کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
نے
ارشاد فرمایا: اللہ کی رضا والدین کی رضا میں اور اللہ کی ناراضی والدین کی ناراضی میں ہے۔(شعب الایمان، 6/177، حدیث:7830)
پیارے
اِسْلَامی بھائیو!اعلیٰ حضرت کی پوری زندگی کا مُطَالَعَہ کیا
جائے تو یہی سیکھنے کو ملے گا کہ آپ نے ہمیشہ والدین کا اطاعت کی اور دوسروں کو بھی
یہی حکم دیا، جیسا کہ اپنے ہی ایک فتویٰ میں فرماتے ہیں: باپ كی نافرمانی میں اللہ كی نافرمانی
اور باپ كی ناراضی میں اللہ كی ناراضی ہے اگر والدین راضی ہیں تو جنّت ملے گی
اگر والدین ناراض ہوں تو دوزخ میں جائے گا۔ لہٰذا چاہيے كہ جلد از جلد والدین كو
راضی كر ے ورنہ كوئی فرض و نفل عبادت قبول نہ ہوگی اور مرتے وقت كلمہ نصيب نہ ہونے
كا خوف ہے۔(والدین ،زوجین اور
اساتذہ کے حقوق، ص 17)
آئیے! اعلیٰ حضرت کی حیاتِ طیبہ سے چند واقعات مُلَاحَظہ
کرتے ہیں تا کہ ہمیں بھی اپنے
والدین کی اطاعت کا جذبہ ملے، چُنَانْچِہ حضرت علامہ ظفر الدین بہاری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: جب اعلیٰ حضرت کے والد ماجد مولانا شاہ نقی
علی خان صاحب کا اِنْتِقَال ہوا تو
اعلیٰ حضرت اپنے حصۂ جائیداد کے خود مالک تھے مگر سب اختیار والدۂ ماجدہ کے سپرد
تھا۔وہ پوری مالکہ و متصرفہ تھیں،جس طرح چاہتیں صَرف کرتیں، جب آپ کو کتابوں کی خریداری کیلئے کسی غیر معمولی رقم
کی ضرورت پڑتی تو والدۂ ماجدہ کی خدمت میں درخواست کرتے اور اپنی ضرورت
ظاہر کرتے۔جب وہ اجازت دیتیں اور درخواست منظور کرتیں تو کتابیں
منگواتے۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/146)
یہ ہے اطاعت والدین کہ جائیداد کا مالک ہونے کے
باوجود سب اختیارات والدۂ محترمہ کو دیدیئے اور پھر خود دینی کتب کی خریداری کیلئے
درخواست کرتے، اگر پوری ہوتی تو ٹھیک ورنہ والدۂ محترمہ کی رضا پر راضی رہتے۔یہ
ایک مثال ہی نہیں بلکہ ایسی کئی مثالیں ہیں جن سے ہمیں والدین کی اطاعت اعلیٰ حضرت
کی حیاتِ طیبہ سے سیکھنے کو ملتی ہے۔ مَثَلًا
دوسری بار جب مکہ معظمہ کی حاضری
ہوئی، تو پہلے سے کوئی ارادہ نہ تھا، ننھے میاں (اعلیٰ حضر ت کے برادرِ اصغر حضرت مولانا محمد رضا خان) اور
حامد رضا خان (شہزادۂ اعلیٰ حضرت) مع
متعلقین بارادۂ حج روانہ ہوئے،اعلیٰ حضرت خود لکھنؤ تک اُن کو پہنچانے تشریف لے
گئے ۔واپسی پر دل بے چین ہو گیا، گویا کہ آپ کو اپنی نعت کے یہ اشعار یاد آگئے:
گزرے جس راہ سے وہ سیِّدِ والا ہو
کر
رہ گئی ساری زمیں عنبرِ سار ا ہو کر
وائے محرومئ قسمت کہ میں پھر اب کی برس
رہ گیا ہمرَہ ِ زُوّارِ مدینہ ہوکر
اسکے ساتھ ہی بے چینی اتنی بڑھی کہ اُسی وقت حج کا
قصدِ مصمم فرما لیا، لیکن والدۂ ماجدہ کی اجازت کے بغیر سفر مناسب نہ جانا،
چُنَانْچِہ اس سے آگے کا ذکر خود اعلیٰ حضرت ہی کی زبانی سنئے، فرماتے ہیں:عشاکی
نماز سے اوّل وقت فارغ ہو گیا۔ صرف والدۂ
ماجدہ سے اِجازت لینا باقی رہ گئی جو نہایت اہم مَسْئَلَہ تھا اور گویا اس کا یقین تھا کہ وہ اِجازت نہ دیں گی،
کس طرح عرض کروں؟اور بغیر اجازتِ والدہ حجِ نفل کو جانا حرام۔ آخر کار اندر مکان
میں گیا، دیکھا کہ والدۂ ماجدہ چادر اوڑھے آرام فرما
رہی ہیں۔ میں نے آنکھیں بند کر کے قدموں پر سر رکھ دیا، وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھیں اور فرمایا:کیا ہے؟ میں نے کہا
:حضور! مجھے حج کی اجازت دے
دیجئے۔پہلا لفظ جو فرمایا یہ تھا :خدا حافظ۔ میں اُلٹے پاؤ
ں با ہر آیا اور فو را ً سوار ہو کر
اسٹیشن پہنچا ۔ (حیات ِ اعلیٰ حضرت،1/415)
والدہ کی اطاعت کا ایک اور
واقعہ انتہائی سبق آموز ہے، چُنَانْچِہ ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ
الْعِزَّت (اپنے شہزادے) حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن (جو ابھی چھوٹے تھے)کو گھر
کے ایک دالان میں پڑھانے بیٹھے، اعلیٰ حضرت پچھلا سبق سن کر آگے دیتے تھے، پچھلا
سبق جو سنا تو وہ یاد نہ تھا اس پر ان کو سزا دی۔آپ کی والدۂ محترمہ (اپنے پوتے) حضرت حجۃ
الاسلام کو بہت چاہتی تھیں،انہیں کسی طرح خبر ہوئی تو وہ غصے سے بھری ہوئی آئیں اور اعلیٰ حضرت قبلہ کی پشت پر ایک دو ہتٹر(دونوں ہاتھوں سے)مارا
اورفرمایا:تم میرے حامد کو مارتے ہو!اعلیٰ حضرت فورًا جھک کر کھڑے ہو گئے اور اپنی والدہ محترمہ سے
عرض کیا:اماں اور مارئیےجب تک آپ کا
غصہ فرو(ختم) نہ ہو۔یہ
سننے کے بعد انہوں نے ایک دوہتٹر اور مارا اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ رَبِّ الْعِزَّت سر جھکائے کھڑے رہے یہاں تک کہ وہ خود واپس تشریف لے
گئیں۔اس وقت جو غصے میں ہونا تھا ہو گیامگر بعد میں اس واقعہ کا ذکر جب بھی کرتیں
تو آبدیدہ ہو کر فرماتیں کہ دوہتٹر مارنے سے پہلے میرے ہاتھ کیوں نہ ٹوٹ گئےکہ
ایسے مطیع و فرماں بردار بیتے کہ جس نے خود کو پِٹنےکے لئے پیش کردیاکیسے مارا؟افسوس۔(سیرت اعلیٰ حضرت از مولانا حسنین رضا خان ص 91)
والدین کی اطاعت کے حوالے سے اعلیٰ حضرت کی
زندگی بلاشبہ ہمارے لئے مَشْعَلِ راہ ہے، آپ
نے اپنے والدین کی زندگی میں ہی ان کا
اطاعت و فرمانبرداری نہیں فرمائی، بلکہ بعد از وصال بھی اگر کبھی والدین
میں سے کسی نے خواب میں آکر کوئی حکم یا اشارہ فرمایا تو کبھی بھی اس سے روگردانی
نہ فرمائی، ایسے چند واقعات کا تذکرہ آپ نے خود ملفوظات شریف میں بھی فرمایا ہے، مَثَلًا فرماتے ہیں :آٹھ دس برس ہوئے رجب کے مہینے میں حضرت والد ماجد(یعنی مولانا نقی علی خان)کو
خواب میں دیکھا فرماتے ہیں:احمد رضا!اب کی رمضان میں تمہیں بیماری ہوگی اور زیادہ
ہو گی روزہ نہ چھوڑنا۔یہاںبحمداللہ! جب
سے روزے فرض ہوئے کبھی نہ سفر نہ مرض کسی حالت میں روزہ نہیں چھوڑا ۔خیر رمضان
شریف میں بیمار ہوااور بہت بیمار ہوا مگر بحمداللہ! روزے نہ چھڑے۔(ملفوظات اعلیٰ حضرت ۴۱۳)
تُو نے باطل کو مٹایا اے امام
احمدرضا
دین کا ڈنکا بجایا اے امام احمدرضا
اے امامِ اہلِ سنّت نائبِ شاہِ اُمم
کیجئے ہم پر بھی سایہ اے امام
احمدرضا
حافظِ ملّت حضرت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ
اللّٰہ علیہ اپنی " علم و علماء " میں تصنیف کی فضیلت کے حوالے سے نقل
کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ سرکار اقدس صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا :
ان مما یلحق المؤمن من
عملہ و حسناتہ بعد موتہ علما علمہ و نشرہ وولدا صالحا ترکہ او مصحفا ورثہ او مسجدا
بناہ او بیتا لابن السبیل او نھرا اجراہ او صدقۃ اخرجہ من مالہ فی صحتہ و حیاتہ
تلحقہ من بعد موتہ رواہ ابن ماجہ و البیہقی
جو اعمال و نیکیاں مؤمن کو بعدموت بھی پہنچتی
رہتی ہیں ان میں سے وہ علم ہے جسے سیکھا گیا اور پھیلایا گیا ، اور نیک اولاد جو
چھوڑ گیا ،یا قرآن شریف جس کا وارث بنا گیا،یا مسجد یا
مسافر خانہ جو بنا گیا ،یا نہر جو جاری کرگیا یا خیرات جسے اپنے مال سے اپنی
تندرستی و زندگی میں نکال گیا، کہ یہ چیزیں اسے مرنے کے بعد بھی پہنچتی رہتی ہیں۔ (ابن
ماجہ،بیہقی فی شعب الایمان)
فائدہ: ان
تمام چیزوں کا اور اسی طرح دینی کتابیں وراثت میں چھوڑنے، ان کو وقف کرنے اور
مدرسہ و خانقاہیں بنوانے کا ثواب بھی مؤمن کو قبر میں ملتا رہے گا جب تک کہ وہ دنیا
میں باقی رہیں گی۔ ان میں تعلیم دینے کا
ثواب زیادہ دنوں تک ملتا رہے گا بشرطیکہ شاگردوں کو قابل بنائے اور ان سے درس و تدریس کا سلسلہ چل پڑے اور سب سے
زیادہ ثواب بہترین دینی کتابوں کی تصنیفات
کا ملے گا کہ وہ پوری دنیا میں پھیل جاتی
ہیں اور قیامت تک باقی رہیں گی جن سے مسلمان اپنے ایمان و عمل سنوارتے رہیں گے ۔ (
فضائلِ علم و عُلماء ص 88 )
٭ حضرت امام عبد الرحمن الجوزی رحمۃ الله علیہ نے
ابو الوفاء بن عقیل رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے " الفنون " نامی ایک کتاب لکھی
جو آٹھ سو (800) جلدوں میں ہے۔ کہا جاتا
ہے کہ دنیا میں لکھی جانے والی کتابوں میں یہ سب سے بڑی کتاب ہے۔ ( المنتظم ج 9 ص 96 )
٭ خود امام ابن الجوزی رحمۃ الله علیہ نے دینی
علوم و فنون میں سے تقریبا ہر فن پر کوئی نہ کوئی تصنیف چھوڑی ہے ۔
مشہور ہے کہ ان کےآخری غسل کے واسطے پانی گرم کرنے کے لئے قلم کا وہ
تراشہ کافی ہوگیا جو صرف احادیث لکھتے ہوئے قلم کے تراشنے میں جمع ہوگیا تھا ۔( قیمۃ
الزمن ص 21 )
٭ امام جوزی رحمۃ الله علیہ فرماتے ہیں کہ میں
نے مدرسہ نظامیہ کے پورے کتب خانے کا مطالعہ کیا جس میں چھ ہزار (6000) کتابیں تھیں
اسی طرح بغداد کے مشہور کتب خانے کتب خانہ الحنفیہ، کتب خانہ حمیدی ،کتب خانہ عبد
الوھاب، کتب خانہ ابو محمد وغیرھا جتنے کتب خانے میری دسترس میں تھے، سب کا مطالعہ
کرڈالا۔ ایک دفعہ برسر منبر فرمایا میں نے اپنے ہاتھ سے دو ہزار ( 2000 ) جلدیں
تحریر کی ہیں۔ ( قیمۃ الزمن ص 21 )
٭حافظ الحدیث حضرت امام جلال الدین سیوطی رحمۃ الله علیہ نے چھ سو ( 600 ) سے زائد کتب
تصنیف فرمائیں۔ جن میں تفسیر دُرِّ منثور، البدور السافرة اور شرح الصدور مشہور ہیں۔
٭ استاذ المحدثین حضرت یحییٰ بن مَعِیْن رحمۃ
الله علیہ کا بیان ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے دس لاکھ (1000000) احادیث مبارکہ
تحریر کیں۔ ( سیر اعلام النبلاء ج 11 ص 85
)
٭ عظیم صوفی بزرگ حضرت امام محمد بن محمد غزالی
رحمۃ الله علیہ نے اٹھتر (78) اصلاحی ، علمی اور تحقیقی کتابیں لکھیں جن میں صرف ”یاقوت التاویل “ چالیس (40) جلدوں میں ہے ۔(
علم اور علماء اہمیت ص 20 )
٭ معروف محدث حضرت امام ابن شاہین رحمۃ الله علیہ
نے صرف روشنائی اتنی استعمال کی کہ اس کی قیمت سات سو درھم بنتی تھی ۔ ( علم اور
علماء کی اہمیت ص 21 )
٭ فقہ حنفی کے امام حضرت امام محمد رحمۃ الله علیہ
کی تالیفات ایک ہزار (1000) کے قریب ہیں۔ ( علم اور علماء کی اہمیت ص 21 )
٭ حضرت ابن جریر طبری رحمۃ الله علیہ نے اپنی
زندگی میں تین لاکھ اٹھاون ہزار (358000) اوراق لکھے جس میں تین ہزار (3000) اوراق
تو آپ کی کتاب " تفسیر طبری " کی ہیں جو تیس (30) جلدوں پر ہے مزید آپ کی
ایک کتاب " تاریخ الامم و الملوك
" ہے جو اکیس (21 ) جلدوں پر ہے۔ (
تاریخ بغداد ج 2 ص 163 )
٭ حضرت علامہ
باقلانی رحمۃ الله علیہ نے صرف معتزلہ کے
رد میں ستر ہزار (70000) اوراق لکھے ۔( علم اور علماء اہمیت ص 20 )
٭ مشہور محدث حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ الله علیہ
نے
”فتح
الباری “چودہ (14) جلدوں میں
”تہذیب
التہذیب “ چار ( 4 )جلدوں میں
" الاصابہ فی تمییز الصحابہ " نو (9)
جلدوں میں
" لسان المیزان " آٹھ( 8 ) جلدوں میں
" تغلیق التغلیق " پانچ ( 5 )جلدوں میں
اور دیگر کتب ورسائل کی تعداد ڈیڑھ سو(
150 ) سے زائد ہیں ۔ ( علم اور علماء اہمیت
ص 20 )
٭ حافظ الحدیث حضرت امام عساکر رحمۃ الله علیہ نے " تاریخ دمشق " اَسِّی ( 80 ) جلدوں میں لکھی۔
٭ حضرت امام شمس الدین ذھبی رحمۃ الله علیہ نے
" تاریخ اسلام " پچاس (50) جلدوں اور " سیر اعلام النبلاء
" تئیس (23) جلدوں " تذکرۃ
الحفاظ " چار ( 4 ) جلدوں میں لکھیں۔
٭حافظ الحدیث امام سید محمد مرتضیٰ بلگرامی زبیدی
رحمۃ اللہ علیہ نے 100 سے زائد کتب لکھیں ،جن
میں مشہور و معروف تاج العروس ( 40 مجلد ) اور اتحاف سعادۃ المتقین شرحِ احیاء علوم الدین ہے۔(
حدائق الحنفیۃ ص 477 )
٭ معروف محدث فرات بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا
وصال ہوا تو ان کے گھر سے اٹھارہ ( 18 ) صندوق کتب سے بھرے ہوئے دستیاب ہوئے ان
کتب میں اکثر ان کی خود نوشتہ تھیں۔(فضائل
علم و علماء ص 196 )
٭️قطب شام حضرت امام عبد الغنی نابلسی رحمة اللّٰہ
علیہ نے 250 سے زائد کتب تحریر کیں ۔ ( اصلاح اعمال مترجم ، مقدمہ ، ج 1 ص 70 )
٭مفتی الثقلین ،امام اصول و فروع شمس الدین ابنِ
کمال پاشا رومی رحمۃ اللّٰہ علیہ 300 سے زائد کتب لکھیں جن میں مشہور کتاب " مجموعہ رسائل ابن کمال پاشا "۔(
ماہ نامہ فیضان مدینہ ، اپنے بزرگوں کو یاد رکھئیے ، عرس ذیقعدہ )
٭ محدث شہیر حافظ ابو نعیم اصفہانی رحمۃ اللّٰہ
علیہ نے 50 کتب تحریر کیں جن میں مشہور معروف حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء ہے۔(
حلیۃ الاولیاء مقدمہ ج 1 ص 15 )
٭سلطان اولیاء حضرت شیخ عبد القادر الجیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتب کی تعداد 72 ہے حالانکہ آپ مدرس بھی تھے
اور تبلیغ بھی فرماتے تھے ۔
٭امام اہلسنت امام احمدرضا خان رحمۃ الله علیہ نے مختلف عنوانات پر کم و بیش ایک
ہزار(1000) کتابیں لکھی ہیں ۔ ( تذکرہ امام احمد رضا ص 16 )
٭یوں تو اعلیٰ حضرت رحمۃ الله علیہ نے 1286ھ سے 1340ھ تک لاکھوں فتوے دیئے ہوں گے لیکن
افسوس کہ ! ! سب نقل نہ کئے جاسکے جو نقل کرلیے گئے تھے وہ “ العطایا النبویہ فی الفتوی الرضویہ “ کے
نام سے موسوم ہیں۔ فتاوی رضویہ کی 30 ( تیس
) جلدیں ہیں جن کے کل صفحات 21656 ( اکیس
ہزار چھ سو چھپن )،اس میں کل سوالات و جوابات 6847 ( چھ ہزار آٹھ سو سینتالیس ) جبکہ
206 رسائل بھی اس میں موجود ہیں ۔( تذکرہ امام احمد رضا ص 16 )
٭حضرت علامہ مولانا مفتی فیض احمد اویسی رحمۃ الله
علیہ کی کتب ورسائل کی تعداد کم و بیش تین ہزار (3000) سے زائد ہے۔آپ کی کتب کی
فہرست پر ایک مستقل رسالہ بنام " علم کے موتی " موجود ہے ۔
٭ قطب شام ڈاکٹر عبد العزیز الخطیب دامت برکاتہم
العالیہ کی سات 7 موسوعات حدیث ،فقہ ، تصوف ، عقائد ، خطبات ، تاریخ السلامیہ ،
دروس کے موضوعات پر ہیں ۔
موسوعة الحدیث الشریف ( 4 مجلد )
موسوعة الفقة الشافعی ( 20 مجلد )
موسوعة التصوف ( 9 مجلد )
موسوعة العقائد ( 5 مجلد )
موسوعة خطب المنبریه ( 12 مجلد )
موسوعة الشخصیات الاسلامیه ( 7 مجلد )
موسوعة الدورس البدریه ( 5 مجلد )
یوں یہ باسٹھ ( 62 ) جلدیں ہوگئیں ۔
ان کے علاوہ آپ کی کتب و رسائل کی تعداد پچپن (
55 ) سے زائد ہے۔
٭ پیر و مرشد امیراہل سنت حضرت علامہ مولانا ابو
بلال محمد الیاس عطار قادری اطال اللہ
عمرہ کی کتب و رسائل کی تعداد تقریبا ڈیڑھ سو ( 150 ) ہے۔
یہ تو وہ کتب ہیں جن کا تذکرہ کہیں نہ کہیں ملتا
ہے ۔ یہاں بغداد کا المناک سانحہ بھلایا نہیں جاسکتا کہ تاتاریوں نے جب بغداد میں
عظیم طوفان برپا کیا ، علماء کا قتل عام کیا اور بغداد کی لائبریریاں جلاکر ان کی راکھ دریائے
دجلہ کے سپرد کردی تو تین دن تک اس راکھ سے اس دریا کا پانی سیاہ ہوکر بہتا رہا۔ اسی فتنے میں کئی ہزار یا لاکھوں کتب جن کی
تعداد کا علم آج تک نہ ہوسکا ، ضائع کردی گئیں۔
مقصدتحریر اورسابقہ سطور سے حاصل ہونے والا نتیجہ
:
ان تمام سطور کو پڑھنے سے یہ بات بلکل سمجھی جا
سکتی ہے کہ ہمارے اسلاف کا تحریر سے کتنا لگاؤ تھا جبکہ آج کل حالیہ دور میں دیکھا
یہ گیا ہے کہ نام نہاد خطیبوں اور نعت
خوانوں کی وجہ سے ہمارے طلباء کے ازھان خط
و کتابت سے ہٹ گئے ہیں اور انہوں نے اپنا مقصد صرف تقریر و خطابت کو بنانا شروع کر
دیا اور وہ بھی اپنی محنت اور عربی کتب کی مدد سے نہیں بلکہ محض کسی جوشیلے مقرر کی
تقریر سن کر اور اردو میں بیانات پر لکھی جانے والی کتب سے پڑھ کر بنا تحقیق کے
آگے بیان کر دینا ہی مقصد سمجھ بیٹھے اور اسی پر اپنی صلاحیوں کو محدود کرتے نظر
آتے ہیں لہذا ایسے طلباء سے عرض ہے اپنے مقاصد میں تحریر و کتابت کو بھی شامل کریں
اور اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلیں۔ ان خطیبوں اور مقررین کے پیچھے چل کر اپنی
صلاحیتوں کو محدود مت کیجیے اور اگر بیان و
تقریر کرنی پڑے تو اپنی تقریر خود عربی کتب سے تیار کیجیے یا کسی صحیح العقیدہ سنی
محققین علماء کرام کی کتب سے تیار کیجیے۔ ساتھ ساتھ تحریر لکھنے کی طرف بھی قدم
بڑھائیے ،چاہے کسی ایک کتاب پر یا کسی موضوع پر۔اس سے آپ کی صلاحیتوں میں کئی گنا
اضافہ ہوگا۔
شرف ملت
حضرت علامہ مولانا عبد الحکیم شرف قادری رحمۃ الله علیہ اپنی کتاب " تذکرہ
اکابر اہلسنت " میں لکھتے ہیں کہ محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد قادری رحمۃ الله علیہ طلبہ سے
مخاطب ہو کر فرمایا کرتے تھے :” مولانا ! درسی کتب پر حواشی لکھنے کی طرف توجہ
ضرور دیجیے کچھ نہیں تو ہر روز ایک دو سطریں لکھ لیا کریں ان شاءاللہ ایک وقت ایسا
آئے گا کہ مکمل کتاب بن جائے گی ۔“ ( تذکرہ اکابرِ اہل سنت ص 78 )
ازقلم: احمد رضا مغل
بتاریخ :
10 اپریل 2022
بمطابق 8 رمضان
المبارک 1443بروز اتوار
سوانح
حیات استاذالعلماء عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ
الرحمہ
استاذ
العلماء عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ بن خمیسو خان جمالی کی ولادت 14 اپریل 1898ء بمطابق 1316 ہجری کو بمقام لونی ضلع سبی بلوچستان میں ہوئی۔
مفتی
صاحب علیہ
الرحمہ
کا تعلق جمالی بلوچ قبیلے سے تھا اور ان کا آبائی وطن جھوک سیّد قاسم شاھ تحصیل بھاگ
ڈویژن قلات صوبہ بلوچستان تھا جہاں پر اِن
کی بارانی زمینیں (یعنی وہ زمین جس کی کاشت بارش کے پانی پر منحصر ہو) تھیں۔(
انوار علمائے اہلسنت سندھ )
ولادت کی بشارت
حضرت
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ ایک اہل اللہ
فقیر کی دعا اور بشارت کے سبب پیدا ہوئے، فقیر نے فرمایا تھا " اللہ تعالی
اپنے فضل و کرم سے جو بچہ آپ کو عطا کریگا اس کے داہنے کاندھے پر ایک خاص نشانی
ہوگی اگر وہ نشانی ہو تو فقیر کی
دعا سمجھئےگا" واقعی مفتی صاحب علیہ الرحمہ کے داہنے
کاندھے پر وہ نشانی موجود تھی۔ (
جامعہ راشدیہ جا پنجاھ سال )
تعلیم وتربیت
حضرت
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ نے قرآن پاک
کی تعلیم مشہور اہل اللہ حضرت خواجہ سیّد خواج محمد شا ہ صاحب کاظمی
علیہ الرحمہ کے
پاس بمقام انجن شیڈ سبی میں حاصل کی، تین درجے اردو پارنس اسکول سبی سے پاس کئے۔
عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم حضرت مولانا محمد یوسف علیہ الرحمہ (
لانڈھی فقیر صاحبان ) کے پاس حاصل کی اور 4، 5 برس تک وہیں پڑھتے رہے۔
اس کے
بعد سندھ کے مختلف دینی مدارس میں مروجہ درس نظامی کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔حضرت
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ نے 1334 ہجری میں اعلیٰ تعلیم کے لئے
اس وقت کی نامور دینی درس گا ہ ’’ مدرسہ ہاشمیہ قاسمیہ گڑھی
یاسین ضلع شکارپور‘‘میں داخلہ لیا، جہاں پر
استاذالاساتذہ فقیہ العصر حضرت علامہ مفتی محمد قاسم گڑھی یاسینی المعروف صاحب
تکبیر علیہ
الرحمہ سے
11 ذوالقعد ۃالحرام 1336 ہجری کو
فارغ التحصیل ہوکر سند فراغت حاصل کی۔( انوار
علمائے اہل سنت سندہ )
قاضی القضاہ
حضرت
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ ربیع الثانی 1353 ہجری بمطابق جولائی 1934ء کو عمدۃالفقہاء حضرت خواجہ
محمد حسن جان سرہندی فاروقی علیہ الرحمہ کےمنتخب کرنے پر خان آف
قلات الحاج میر احمد یار خان کے استاد اور ریاست قلات کے قاضی القضاہ ( یعنی چیف جسٹس ) مقرر
ہوئے۔
شادی و اولاد
حضرت
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ نے دو شادیاں کی تھیں، ایک اپنے جمالی
خاندان میں جس سے آپ علیہ الرحمہ کو ایک بیٹا
مولانا عبدالغفار اور ایک بیٹی
پیدا ہوئی ، جب کے کوئٹہ اور قلات میں قیام کے دوران خان معظم نے مفتی اعظم
پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ کی شادی ایک ممتاز سردار گھرانے میں
کروائی جس میں سے آپ علیہ الرحمہ کو چار صاحبزادے عبدالرشید، عبدالعزیز، عبدالقادر،
عبدالکریم اور ایک بیٹی پیدا ہوئی۔
صحافت
مولانا
الٰہی بخش جمالی علیہ
الرحمہ (
داماد مفتی اعظم علیہ
الرحمہ
) لکھتے ہیں کہ 1340 ہجری بمطابق1921 ء کو حضرت مفتی
اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ نے سلطان کوٹ ضلع شکارپور میں
مستقل رہائش اختیار کی۔
سلطان
کوٹ میں رہتے ہوئے حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ نے مذہبی صحافت کو
فروغ دیا، سندھی میں ’’ماہانہ رسالہ ھمایوں‘‘1342 ہجری سے
1345 ہجری بمطابق 1924 ء سے 1928 ء تک چار سال جاری رکھا۔ اس کے بعد’’ ماہنامہ الاسلام ‘‘کے نام
سے سلطان کوٹ ہی میں اگست 1935 ء سے 1938 ء تک چار سال جاری رکھا۔ ان دونوں رسائل
میں درس تفسیر، مذھبی و علمی مواد، مسائل شرعیہ اور بدمذھبوں کا پرزور اور مدلل رد
کیا گیا ہے۔ ( شکارپور جی صحافتی تاریخ )
شخصیت
حضرت
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ بیک وقت
محدث، اسماء الرجال کے حافظ، فقیہ، مناظر،
محقق، مصنف، عظیم مدرس، شاعر اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ آپ علیہ الرحمہ دستار فضیلت سے لیکر اپنی حیات طیبہ کے آخری لمحات تک قال اللہ و قال الرسول کی
تعلیم میں مصروف رہے اور تقریبا 50 برس تک دین متین کی خدمت کرتے رہے۔
بیعت
حضرت
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ کن سے بیعت تھے۔؟
اس سے متعلق مختلف اقوال ہیں۔
حضرت
مفتی اعظم علیہ
الرحمہ
کے شاگرد حضرت مفتی محمد رحیم سکندری مدظلہ العالی سے جب اس کے
متعلق استفسار کیا گیا تو انہوں نے بتایا
کہ :حضرت استاذی مفتی اعظم علیہ الرحمہ اویسی سلسلے میں
حضور غوث اعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کے مرید تھے۔
حضرت مولانا قربان علی سکندری علیہ الرحمہ ( تلمیذ مفتی اعظم علیہ
الرحمہ ) حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ
الرحمہ کی سوانح حیات کے متعلق تحریر کردہ ایک مضمون میں
لکھتے ہیں کہ : 1353 ہجری کو حضرت مفتی
اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ سندھ اور بلوچستان کے مشہوربزرگ اور اپنے پیر
طریقت عمدۃالفقہاء حضرت خواجہ محمد حسن جان سرھندی فاروقی علیہ
الرحمہ کے منتخب کرنے پر خان آف قلات الحاج میر احمد
یار خان کے استاد اور ریاست قلات کے قاضی القضاہ ( چیف جسٹس ) مقرر
ہوئے۔
ڈاکٹر
ناصر الدین صدیقی قادری اپنی کتاب ’’ بزرگان قادریہ ‘‘میں حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد
صاحبداد جمالی علیہ
الرحمہ
کی بیعت ہونے کے متعلق لکھتے ہیں کہ’’ حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد
جمالی علیہ الرحمہ کے ایک ساتھی و مقتدی اور دور حاضر کی ثقہ
شخصیت مفتی ظفر علی نعمانی صاحب کا کہنا ہے کہ“ مفتی صاحبداد
خان علیہ
الرحمہ
اپنے آپ کو قادری کہا کرتے تھے، اس وقت بھی مفتی صاحبداد خان علیہ الرحمہ کے خاندان والے خانوادہ حضرت سلطان
باہو قادری علیہ
الرحمہ
سے بیعت ہیں۔
اس
بات کی تصدیق محترم المقام حاجی جمیل احمد جمالی صاحب نے بھی کی، ان کا کہنا ہے کہ میرے والد گرامی حضرت
مولانا الاہی بخش جمالی علیہ الرحمہ حضرت سلطان العارفین سلطان باہو علیہ الرحمہ کے مرید تھے۔مزید کہا کہ میری
والدہ (
دختر مفتی اعظم پاکستان علیہ الرحمہ ) نے کہا کہ حضرت مفتی اعظم پاکستان
مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ حضرت سلطان العارفین سلطان باہو علیہ الرحمہ سے
بیعت تھے۔
اندازہ
اور غالب گمان یہی ہے کہ استاذالعلماء عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد
صاحبداد جمالی علیہ
الرحمہ
سلطان العارفین حضرت سلطان باہو علیہ الرحمہ سے ’’ سلسلہ قادریہ ‘‘ میں بیعت تھے۔
درس وتدریس
استاذالعلماء
عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ نے سب سے
پہلے تدریس کا آغاز رانی پور ریاست خیرپور میرس سے کیا۔
حضرت
مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے پیر سیّد علی مدد شاہ جیلانی علیہ الرحمہ کے طلب کرنے اور اپنے استاد محترم علیہ الرحمہ کے کہنے پر درگاہ ِقادریہ جیلانیہ رانی
پور میں کچھ عرصہ پڑھایا۔اس کے
بعد حضرت علامہ مولانا محمد حسن کٹباری علیہ الرحمہ (
سجادہ نشین دربار عالیہ کٹبار شریف بلوچستان ) کے اصرار پر
مفتی اعظم علیہ
الرحمہ
کے استاد علیہ
الرحمہ
نے حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کو تدریس کے لیے ( کٹبار شریف
ضلع لہڑی بلوچستان ) بھیجا۔
قیام
پاکستان کے بعد جب حضرت علامہ مولانا مفتی ظفر علی نعمانی صاحب علیہ الرحمہ نے
بمقام آرام باغ گاڑی کہاتہ کراچی میں ’’ دارالعلوم امجدیہ ‘‘قائم
کیا تو حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے وہاں بھی پڑھایا۔
اس کے بعد نے رئیس الفقہاء خواجہ
محمد حسن جان سرہندی فاروقی علیہ الرحمہ کے انتخاب پر ’’سندہ مدرسۃ الاسلام کراچی‘‘ میں بھی تدریس کے فرائض سرانجام دیئے۔
حضرت
مفتی اعظم علیہ
الرحمہ
کو کراچی سے حضرت پیر پگارا شاہ مردان، شاہ ثانی علیہ
الرحمہ کے طلب کرنے پر استاذالعلماء مولانا محمد صالح
مہر علیہ الرحمہ عظیم دینی درس گاہ جامعہ راشدیہ گاہ شریف پیر جو گوٹھ لے آئے۔
حضرت
مفتی اعظم علیہ
الرحمہ 1955ء کو جامعہ راشدیہ سے منسلک ہوئے اور اپنے
وصال تک اسی جامعہ سے وابسطہ رہے۔حضرت مفتی اعظم علیہ
الرحمہ جامعہ راشدیہ کے صدر مدرس اور شیخ الجامعہ
مقرر ہوئے اور یہاں پر درس وتدریس، فتاوی
نویسی، تصنیف و تحقیق کے اہم و ضروری کام میں مصروف رہے اور اپنی حیات طیبہ کے
آخری دس سال جامعہ کی ترقی و بہتری میں گز ارے اور علماء کی ایک جماعت تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔( جامعہ راشدیہ جا پنجاھ سال، انوار علمائے
اہلسنت سندھ )
تلامذہ
استاذالعلماء
عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ کے تلامذہ کی
فہرست بہت طویل ہے کیوں کہ حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے اپنی حیات طیبہ کا اکثر حصہ مختلف مقامات پر
درس و تدریس میں گز ارا، حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے
فیضان کو ان کے جن طلباء نے عام کیا ان میں چند حضرات کے اسماء گرامی یہ ہیں۔
پیر
سیّد عبدالجبار شا ہ صاحب رانی
پوری علیہ الرحمہ، مولانا میاں تاج محمد کٹباری علیہ الرحمہ،
مولانا میاں عبدالحی کٹباری علیہ الرحمہ، مولانا میاں فخرالدین کٹباری علیہ الرحمہ،
استاذالاساتذہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد صالح مہر علیہ الرحمہ، حضرت علامہ
مفتی محمد رحیم سکندری مدظلہ العالی، حضرت علامہ مفتی در محمد سکندری علیہ الرحمہ،
حضرت علامہ مفتی عبدالواحد عباسی علیہ الرحمہ، حضرت سلطان الواعظین مفتی عبدالرحیم
سکندری علیہ
الرحمہ،
حضرت علامہ مولانا سید غوث محمد شاہ صاحب جیلانی علیہ الرحمہ، حضرت علامہ
مولانا قربان علی سکندری علیہ الرحمہ،
حضرت مولانا محمد موروجہ سکندری مدظلہ العالی وغیرہ
بحیثیت استاد
استاذالعلماء
عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ کی شخصیت میں
وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو ایک بہترین مدرس میں ہونی چاہیے، حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ اپنے طلباء پر والد جیسی شفقت فرماتے
اور ان سے محبت رکہتے تھے، استاذ العلماء حضرت علامہ مفتی محمد رحیم سکندری صاحب مدظلہ العالی لکھتے
ہیں کہ : استاد مفتی صاحب علیہ الرحمہ کا
معمول تھا کہ رات کے وقت لالٹین وغیرہ لئے طلباء کے کمروں کا چکر لگاتے اگر کوئی
طالب علم ناساز یا بیمار ہوتا تو فورا ًاس کے علاج معالجے کا اہتمام فرماتے پھرجا کر آرام فرماتے تھے۔ ( جامعہ
راشدیہ جا پنجاھ سال )
حضرت
مفتی اعظم علیہ
الرحمہ
کے طلباء حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کا بے انتہا ادب و احترام کرتے، استاذالعلماء
مولانا مفتی محمد صالح مہر علیہ الرحمہ جب حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کوآتا دیکھتے تو حضرت مفتی اعظم علیہ
الرحمہ کے ادب و تعظیم کی وجہ سے کھڑےہوجاتے۔( مرد مجا ہد مرد صالح مولانا محمد صالح مہر علیہ الرحمہ )
عادات وخصائل
استاذالعلماء،
عمدۃالفقہاء ، مفتی اعظم پاکستان مفتی
محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ کے متعلق مشہور تھا کہ آپ علیہ الرحمہ رات کا اکثر
حصہ تلاوت
قرآن پاک میں گز ارتے، حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ نماز
تہجد ادا کرنے کے پابند تھے اس کے علاوہ آپ علیہ الرحمہ درود پاک
بکثرت پڑھتے تھے، دلائل الخیرات شریف اور رات کے اذکار پابندی سے پڑھا کرتے
تھے۔ ( جامعہ
راشدیہ جا پنجاھ سال )
تصنیف وتالیف
استاذالعلماء
عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ نے درس و
تدریس کے علاوہ تصنیف و تالیف میں نمایاں خدمات سر انجام دیں، حضرت مفتی اعظم علیہ
الرحمہ نے اپنے قلم کے ذریعے دین متین کی خوب خدمت کی
اور بدمذہبوں کا پرزور اور مدلل رد فرمایا، آپ علیہ
الرحمہ نے عقائد کی درست گی کے ساتھ ساتھ معاشرے کی
بہتری کے لئے بھی اپنے قلم کا استعمال
کیا، حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ نے جو تصانیف تحریر فرمائیں ان کہ نام درج ذیل ہیں۔
البلاغ المبین، مطالبہء
حق، نصرت الحق، الحق الصریح، اقامۃ البرھان، گستاخ وھابین جا جواب، وھابی شفاعت جا
منکر آھن، التوسل بسید الرسل الی خالق الکل، الصارم الربانی علی کرشن قادیانی،
عشرہ کاملہ، سیف الرحمان علی اعداء القرآن، السیف المسلول علی اعداء آل الرسول، تعمیر
مساجد کا اہم فتویٰ، القول المقبول ، الہام القدیر فی مسئلۃ التقدیر، سبیل النجاح فی مسائل
العیال والنکاح،
اسلامی مشاورتی کاونسل کے سوال نامے کے جواب، القول الانور فی بحث النور
والبشر، العمل بالتلقیح لایفسد الصوم بالقول الصحیح وغیرہ
فتاوی نویسی
استاذالعلماء،عمدۃالفقہاء،
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ علم و فضل و
فتاویٰ نویسی میں نا فقط برصغیر میں مرجع الخلائق تھے بلکہ یورپ، مشرق وسطیٰ اور
انگلستان تک سے حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے پاس فتویٰ کے لیے سوالات آتے تھے،
آپ علیہ
الرحمہ
کی کمال درجے کی فیاضی اور پابندی
تھی کہ ہر ایک کو شافی دلیل اور تفصیل کے ساتھ مستند فتویٰ بھیجتے تھے۔
جمعیت
علماء پاکستان نے مسلمانوں کی
دینی معاملات میں رہنمائی کے لئے کراچی میں مرکزی دارالافتاء قائم کیا اور
جمعیت علماء پاکستان کے قائدین نے متفقہ طور پر حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کو
اس دارالافتاء کا رئیس منتخب کیا، جہاں آپ علیہ الرحمہ مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے
فتاویٰ نویسی کے کام میں مشغول
رہے۔
حضرت
مفتی اعظم علیہ
الرحمہ
کی فن افتاء میں مہارت کا تذکرہ محقق اہل سنت حضرت علامہ عبدالحکیم شرف قادری علیہ الرحمہ نے
اپنی مایہ نازتصنیف ’’تذکرہ اکابر اہلسنت‘‘ میں بھی کیا ہے۔
مفتی اعظم پاکستان کالقب
استاذالعلماء
عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ کو مفتی اعظم
پاکستان کا لقب کس نے دیا اس سےمتعلق جب حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے
شاگرد سلطان الواعظین حضرت مفتی عبدالرحیم سکندری علیہ الرحمہ سے استفسار
کیا گیاتو انہوں نے فرمایا :حضرت استاذی
مفتی اعظم علیہ
الرحمہ
کو مفتی اعظم پاکستان کا لقب جمعیت علماء پاکستان والوں نے دیا تھا، اس کے علاوہ
اکثر علماء کرام اور مشائخ عظام نے حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کو اسی
لقب ’’مفتی اعظم ‘‘سے یاد کیا ہےجن حضرات نے حضرت
مفتی اعظم علیہ
الرحمہ
کو مفتی اعظم پاکستان لکھا ہے ان
کے اسماء گرامی درج ذیل
ہیں:
حضرت
علامہ مولانا عبدالحامد قادری بدایونی علیہ الرحمہ ( صدر جمعیت
علماء پاکستان )، حضرت علامہ مفتی غلام معین الدین نعیمی
علیہ الرحمہ (
ایڈیٹر سواد اعظم لاہور )، حضرت
مولانا مفتی ریاض الحسن جیلانی حامدی علیہ الرحمہ، خطیب پاکستان حضرت علامہ مولانا عارف
اللہ قادری میرٹھی علیہ الرحمہ ( ایڈیٹر ما ہنامہ سالک راولپنڈی )
استاذ العلماء مفتی تقدس علی خان بریلوی علیہ الرحمہ ( سابقہ شیخ
الحدیث و شیخ الجامعہ جامعہ راشدیہ درگاہ شریف پیر
جو گوٹھ )
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اعجاز ولی رضوی علیہ الرحمہ ( شیخ
الحدیث دارالعلوم نعمانیہ لاہور ) وغیرہ۔
حضرت
مفتی اعظم علیہ
الرحمہ
کو’’ مفتی اعظم پاکستان‘‘ کا
لقب دینے والے آپ علیہ
الرحمہ
کے نا شاگرد ہیں، نا استاد، نا ہی پیر بہائی بلکہ ان سب نے حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کی
فقہی بصیرت کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ (
انوار علمائے اہل سنت سندہ )
ہم عصرعلماءکرام
حضرت
مفتی اعظم علیہ
الرحمہ کے ہم عصر علمائےکرام کی فہرست بہت طویل ہے ان
حضرات میں سے چند کے اسماء گرامی
یہ ہیں:
حضرت
علامہ مولانا ابوالحسنات سید محمد
احمد قادری صاحب علیہ الرحمہ، مجا ہد ملت حضرت علامہ مولانا عبدالحامد قادری بدایونی علیہ الرحمہ، حضرت علامہ
مفتی غلام معین الدین نعیمی علیہ الرحمہ (
ایڈیٹر سواد اعظم لاہور ) ،
غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید
کاظمی علیہ الرحمہ، عمدۃ الفقہاء حضرت خواجہ محمد حسن جان سرہندی فاروقی علیہ الرحمہ، حضرت علامہ مولانا محمد حسن کٹباری (سجّادَہ نشین دربار عالیہ کٹبار شریف بلوچستان )، حضرت علامہ مولانا مفتی عبدالباقی ہمایونی علیہ الرحمہ (سجّادَہ نشین درگاہ عالیہ ہمایوں شریف ) ،حضرت علامہ آغا غلام مجدد سرہندی فاروقی علیہ الرحمہ، استاذ العلماء
مفتی تقدس علی خان بریلوی علیہ الرحمہ (
سابقہ شیخ الحدیث و شیخ الجامعہ جامعہ راشدیہ درگا ہ شریف پیر جو گوٹھ ) ،غوث الزماں علامہ محمد قاسم مشوری علیہ الرحمہ، حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اعجاز ولی رضوی علیہ الرحمہ (
شیخ الحدیث دارالعلوم نعمانیہ لاہور )
حضرت علامہ مولانا قمرالدین عطائی مہیسر علیہ الرحمہ، قائد ملت اسلامیہ حضرت علامہ شا ہ احمد نورانی صدیقی علیہ الرحمہ وغیرہ۔
تحریک پاکستان
استاذالعلماء
عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ کا شمار
تحریک پاکستان کے سرگرم کارکنان
میں ہوتا ہے:
مفتی
اعظم علیہ الرحمہ نے 1939ء کو مذہبی
نقطہ نظر سے مسلم
لیگ میں شامل ہوکر تحریک پاکستان کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کیا، کانگریسی حکومت
کے خلاف مسجد منزل گاہ سکہر کی آزادی کے لئے کام کیا اور اِتمام
حجت کے لیے سندھ کے کانگریسی وزیر اعلی خان بہادر اللہ بخش خان سومرو شکارپوری کو 16 اگست 1939 ءکو مسجد کی آزادی،
مسلمانوں کے حقوق کےاحترام اور تحریک کے نتائج کے متعلق خط تحریر فرمایا
مگر افسوس کے موصوف نے کوئی توجہ نہ دی۔ ( سہ ماہی مہران سوانح نمبر )
27 تا
30 اپریل 1946 ء کو ’’بنارس
انڈیا ‘‘ میں آل انڈیا سنی کانفرنس کا
انعقاد ہوا جس میں برصغیر ( پاک و ہند اور بنگال ) سے دو
ہزار علماء و مشائخ اہلسنت نے شرکت کی، سب نے متفقہ طور پر
یک زبان ہوکر پاکستان کی حمایت کی، ان حضرات میں استاذالعلماء عمدۃالفقہاء مفتی
اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ بھی شامل
تھے۔(
خطبات آل انڈیا سنی کانفرنس )
تحریک ختم نبوت
استاذالعلماء عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان
مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ نے تحریک ختم نبوت میں بھر پور حصہ لیا،حضرت
مفتی اعظم علیہ الرحمہ 1952 ء سے ختم نبوت کی بنیادی تحریک کا حصہ رہے۔2 جون 1952
ء کو کراچی میں آل پاکستان مسلم پارٹیز کنوینشن میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت
قرار دینے کے لیے جو بورڈ تشکیل دیا گیا اس میں حضرت علامہ مولانا عبدالحامد قادری
بدایونی علیہ الرحمہ، قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی علیہ
الرحمہ کے علاوہ استاذالعلماء عمدۃالفقہاء مفتی اعظم
پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ سندھ سے شامل تھے۔عقیدہ ختم نبوت کے لیے 1953
ء کو پہلی بار علامہ ابوالحسنات سید محمد احمد قادری علیہ
الرحمہ کی قیادت میں تحریک چلائی گئی اس تحریک میں حضرت
مفتی اعظم علیہ الرحمہ بھی شامل تھے۔
سندھ
میں قادیانیوں کے خلاف سب سے اول
جس شخصیت نے اپنے قلم کا استعمال کیا وہ بھی حضرت مفتی اعظم علیہ
الرحمہ ہی تھے اس بات کا اندازہ حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کی قادیانیوں کی
تردید میں لکھی ہوئی کتاب ’’ الصارم الربانی علی کرشن قادیانی ‘‘کے مطالعے
سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
شاعری
استاذالعلماء، عمدۃالفقہاء، مفتی اعظم پاکستان
مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ شاعری کا بھی شوق رکھتےتھے اور شاعری میں اپنا تخلص ’’ناصح‘‘ لکھتےتھے۔حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کی تحریر کردہ
نعتیہ غزلیں انھی کے جاری کردہ ماہوار رسالے ’’الہمایوں‘‘ میں
شایع ہوتی تھیں۔
دیدارِمصطفی ﷺ
استاذالعلماء
عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ نے بذریعہ
خواب بہت سی بزرگ ہستیوں کا دیدار کیا، ان میں صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ،
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ،
محبوب سبحانی غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ،
اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا
خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ اور اورنگزیب عالمگیر علیہ الرحمہ
شامل ہیں۔
سندہ
مدرسۃ الاسلام کراچی میں تدریس کے دوران جس کمرے میں حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ قیام
پذیر تھےوہاں آپ علیہ الرحمہ کو
خواب میں سرکار صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت فیض بشارت حاصل ہوئی۔ ( جامعہ راشدیہ جا پنجاھ سال )
وصال
استاذالعلماء عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان مفتی
محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ یکم جمادی الاولی 1385 ہجری بمطابق 29 اگست 1965ء
کو اس عالم فانی سے وصال فرماگئے۔
حضرت مفتی اعظم علیہ
الرحمہ کی نماز جنازہ عیدگاہ سلطان کوٹ ، جامعہ راشدیہ کے استاد حضرت علامہ
سید حسین امام اختر علیہ الرحمہ کی امامت میں ادا کی گئی۔حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کی نماز جنازہ میں
کثیر تعداد میں آپ علیہ الرحمہ کے تلامذہ، محبین، معتقدین اور سلطان کوٹ والوں نے شرکت کی۔حضرت
مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے وصال پر آنکھیں اشکبار تھیں۔
مزارشریف
استاذالعلماء
عمدۃالفقہاء مفتی اعظم پاکستان
مفتی محمد صاحبداد جمالی علیہ الرحمہ کا مزار شریف سلطان کوٹ ضلع
شکارپور میں واقع ہے۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ پاک حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے مزار اقدس پر اپنی کروڑہا رحمتوں
کا نزول فرمائے، ہمیں حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے دین متین
کی خدمت کا شرف عطا فرمائے اور ہمیں حضرت مفتی اعظم علیہ الرحمہ کے فیض سے
مستفیض فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
شیخ الاسلام
والمسلمین ، امامِ اہلسنَّت ، اعلیٰ حضرت امام اَحمد رضا خان نَوَّرَ اللّٰہُ
مَرْقَدَہ جس طرح قراٰن و سنّت کے فقید
المثال عالم و محقِّق اور عظیم داعِی و
مبلِّغ ہیں، اِسی طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ قراٰن و سنَّت کی تعلیمات کے زبردست عامل بھی ہیں۔ اَحکاماتِ
الہٰی و شریعتِ محمدی کا حقیقی معنوں میں تابع ہونا اور آداب ِ نبوی و شمائلِ محمدی کے اِیمان اَفروز اور رُوح اَفزا جام سے سرشار ہونا مجدِّدِ اعظم ، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت کا دَرَخْشِنْدَہ
باب ہے۔ لاریب امامِ اہلسنَّت رحمۃ اللہ تعالیٰ
علیہ کثیر مَحاسن و مَحامد کے حامل ہیں، آپ رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کے جس پہلو
پر بھی نظر کی جائے ،ہر جا سنِّتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا پَرتَو
اور فیضان دِکھائی دیتاہے۔ 10 شوال المکرَّم یومِ ولادتِ امام احمد
رضا قُدِّسَ
سِرُّہُ الْعَزِیز کی نسبت سے ذیل میں 10 اچھی عاداتِ اعلیٰ حضرت کو ذکر کیا جاتاہے۔ اللہ کریم ہمیں امامِ عشق و محبت ، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا خصوصی فیضان عطا فرمائے اور اِن کی اچھی عادات کو اپنی
طبیعت اور مزاج کا حصّہ بنانے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین
بجاہ خاتم النبیین و خاتم المعصومین
(10عاداتِ
اعلیٰ حضرت)
(1) لین دین سیدھے ہاتھ سے:اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلسنت امام اَحمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ کی یہ عادتِ مبارَکہ تھی کہ سیدھے ہاتھ سے ہی کچھ دیا اور
لیا کرتے تھے۔
چنانچہ مَلِکُ
العُلماء ، ماہرِ علمِ توقیت ،خلیفہ و تلمیذِ اعلیٰ حضرت مفتی سیِّد محمد ظفَرُ
الدین بِہاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "حیاتِ اعلیٰ
حضرت " میں تحریر فرماتے ہیں: " اگر کسی کو کوئی شئی
دینا ہوتی، اور اس نے اُلٹا ہاتھ لینے کو بڑھایا ۔(تواعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ) فوراً اپنا دستِ مبارَک روک لیتے اور فرماتے ، سیدھے ہاتھ
میں لیجئے، اُلٹے ہاتھ سے شیطان لیتا ہے۔ "([1])
ہمیں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت میں سیدھی جانب سے اچھے کام کی ابتدا کرنے کا خاص التزام نظر آتا ہے۔ چنانچہ جامعِ
حالات ، مَلِکُ العلماء علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں :"اعداد
بسم اللہ شریف "٧٨٦" عام طور سے
لوگ جب لکھتے ہیں، تو ابتدا "٧"سے کرتے ہیں۔ پھر "٨" لکھتے ہیں، اس کے بعد "٦" ۔ مگر اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ پہلے"٦" تحریر فرماتے، پھر"٨" تب "٧"۔"([2])
(2) نماز کا اِحترام :کَنْزالکرامت ، جَبَلِ اِستقامت امام
احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ نَماز کابہت اِحترام فرمایا کرتے تھے۔ موسم کی پروا کئے بغیر بہترین اور عُمدہ لباس زیبِ تن فرما کر اچھی ہیئت و
حالت میں نماز ادا فرمایا کرتے تھے ۔
چنانچہ مولوی محمد
حسین صاحب چشتی نظامی فرماتے ہیں: "اعلیٰ حضرت نے تمام عمر جماعت سے نماز
التزاماً پڑھی اور باوجودیکہ بے حد حَار مزاج تھے،مگر کیسی ہی گرمی کیوں نہ ہو، ہمیشہ دَستار (عِمامہ)اور اَنگرکھے([3]) کے ساتھ نماز پڑھا کرتے ۔ خصوصاً فرض تو کبھی صرف ٹوپی اور
کُرتے کے ساتھ ادا نہ کیا۔ اعلیٰ حضرت جس قدر احتیاط سے نماز پڑھتے تھے، آج کل یہ
بات نظر نہیں آتی۔ ہمیشہ میری دو رَکعت ان
کی ایک رکعت میں ہوتی تھی اور دوسرے لوگ میری چار رکعت میں کم سے کم چھ رکعت ،بلکہ
آٹھ رکعت۔"([4])
(3) حُسنِ اَخلاق سے پیش آنا : امامِ اہلسنت
، فارِقِ نور و ظُلمت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ احترام ِ مسلم کے
تقاضوں کو نِبھاتے ہوئے مسلمانوں میں سے ہر خاص وعام اورچھوٹے بڑ ے سے اِنتہائی خوش اَخلاقی کے ساتھ
پیش آیاکرتے تھے۔ ہر ایک کے مرتبے کے مطابق اُس کی عزت اورتعظیم بھی فرمایا کرتے
تھے۔
چنانچہ ِ"حیاتِ
اعلیٰ حضرت" میں ذکر کیا گیا ہے کہ :"(اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ
)ہر شخص حتی کہ چھوٹی عمر والے سے بھی نہایت ہی خُلْق (ملنساری اور خوش مزاجی)کے ساتھ ملتے، آپ اور جناب سے مخاطب فرماتے اور حسبِ حیثیت اس کی توقیر و
تعظیم فرماتے۔" ([5])
(4) ظاہر و باطن یکساں : آقائے نعمت، دریائے رحمت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ نہایت شُستہ کردار کے مالک تھے۔ حضرت رضاؔ رحمۃ اللہ علیہ کی طبیعت اِس قدر سُتھری اور مزاج ایسا نِکھرا اوراُجیالا
تھا کہ ظاہر اور باطن ایک سا تھا۔ اعلیٰ
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے قول اور
فعل میں نہ تو کوئی ٹکڑاؤ تھا،نہ ہی تحقیق و فتویٰ اور
ذاتی عمل میں کوئی تضاد تھا۔
مَلِکُ العلماء علامہ ظفَرُ الدین بِہاری رحمۃ اللہ علیہ اِس تابناک حقیقت
کا اِظہار بصورتِ تحریر یوں فرماتے ہیں:"اعلیٰ حضرت امام اہلِ سنّت کی سب
صفتوں میں ایک بہت بڑی صفت جو عالِمِ باعمل کی شان ہونی چاہئے ، یہ تھی کہ آپ کا
ظاہر باطن ایک تھا۔ جو کچھ آپ کے دل میں تھا وہی زبان سے ادا فرماتے تھے، اور جو
کچھ زبان سے فرماتے، اسی پر آپ کا عمل تھا۔ کوئی شخص کیسا
ہی پیارا ہو یا کیسا ہی معزَّز ، کبھی اس کی رعایت سے کوئی بات خلاف ، شرع اور
اپنی تحقیق کے، نہ زبان سے نکالتے نہ تحریر فرماتے۔ اور رعایت ، مصلحت کا وہاں گزر
ہی نہ تھا۔"([6])
(5) علمائے اہلسنت کیلئے سراپا کرم : حامیِ سنَّت ،
ماحیِ بدعت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ علمائے اہلسنّت سے بڑی محبت فرمانے والے، انہیں
عزت و مَان دینے والے اور ان کی قدر فرمانے والے تھے۔ گویا کہ امامِ اہل سنَّت رحمۃ اللہ علیہ علمائے اہلسنَّت کے لئے رحمتوں کا بادَل اورشفقتوں کا سائبان تھے۔
چنانچہ حضرت مولانا
سیِّد شاہ اسماعیل حسن میاں صاحب کا بیان ہے کہ:" مولانا احمد رضا خان صاحب
بمضموناَشِدَّآءُ
عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ ([7])
(کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل۔ت)جس قدر کُفار و
مرتدین پر سخت تھے، اسی درجہ علمائے اہلِ سنّت کے لیے اَبرِ کرم سراپا کرم تھے۔ جب
کسی سُنّی عالِم سے ملاقات ہوتی ، دیکھ کر باغ باغ ہوجاتے ، اور ان کی ایسی عزت و
قدر کرتے کہ وہ خود اپنے کو اس کا اہل نہ خیال کرتے۔"([8])
(6) سادات کی تعظیم : عاشقِ ماہِ نبوّت ، پروانۂ شمعِ رسالت
امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ جانِ کائنات ،سیِّدُ السادات صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے نسبی تعلق رکھنے کی بناء پر ساداتِ کِرام کا بہت اَدب و اِحترام کیا کرتے تھے۔آپ
رحمۃ اللہ علیہ مختلف مواقع پر مختلف انداز میں سیِّد حضرات سے اپنی محبت و عقیدت کا اِظہار
فرماتے تھے۔اِس حوالے سے عید کے پُر مسر ت موقع پر امامِ عشق و محبت ، حضرتِ رضاؔ رحمۃ اللہ علیہ کی عادت ِ کریمہ کیا ہوا کرتی تھی ، چنانچہ خلیفۂ اعلیٰ
حضرت علامہ ظفَرُالدین بِہاری رحمۃ اللہ علیہ قلم بند فرماتے
ہیں کہ : "حضور(یعنی اعلیٰ حضرت) کا یہ معمول ہے کہ بموقع عیدَین دورانِ مُصافَحہ سب سے
پہلے جو سیِّد صاحب مُصافَحہ کرتے ہیں، اعلیٰ حضرت اس کی دست بوسی فرمایا کرتے
ہیں۔"([9])
(7) سادات پر خصوصی شفقت : عالِمِ شریعت، پیشوائے طریقت امام
احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ نیاز کی شیرینی وغیرہ دینے میں سیِّد حضرات کو دیگر مسلمانوں
پر فوقیت اور ترجیح دیا کرتے تھے ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ دوسرے مسلمانوں کی
بہ نسبت انہیں دوگنا حصّہ دیا کرتے تھے۔
چنانچہ "حیاتِ
اعلیٰ حضرت" میں مسطور ہے کہ:"حضور (یعنی اعلیٰ حضرت) کے یہاں مجلسِ میلاد مبارَک میں
ساداتِ کرام کو بہ نسبت اور لوگوں کے دوگنا حصّہ بر وقت تقسیمِ شیرینی ملا کرتا
تھا ۔"([10])
(8) زائرِ مدینہ کا اَدب : عظیم البرکت ، عظیم المرتبت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ کو مفخرِ موجودات،سلطانِ کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے مقدَّس شہر مدینہ منوَّرہ اور وہاں
کی خاکِ شفاء سے ایسی والہانہ محبت تھی کہ جب کوئی زائرِ مدینہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس حاضر ہوتا تو آپ ا ُس کے پاؤں چوم لیا کرتے تھے۔
جناب سیِّد ایوب علی
صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان
ہے : " جب کوئی صاحب حجِ بیت اللہ شریف کرکے حضور (یعنی اعلیٰ حضرت) کی خدمت میں حاضر ہوتے، پہلا سوال یہی ہوتا کہ
سرکار ([11])میں حاضری دی؟ اگر اِثبات (یعنی "ہاں") میں جواب ملا، فوراً
ان کے قدم چوم لیتے۔ اور اگر نفی میں جواب ملا، پھر مطلق تخاطب نہ فرماتے ۔ نہ اِلتفات فرماتے۔ ایک بار ایک حاجی صاحب حاضر ہوئے ، چنانچہ حسبِ
عادتِ کریمہ یہی استفسار ہوا کہ سرکار میں
حاضری ہوئی؟ وہ آبدیدہ ہو کر عرض کرتے ہیں۔ ہاں حضور! مگر صرف دو روز قیام رہا۔ حضور
(یعنی اعلیٰ حضرت) نے قدم بوسی
فرمائی اور ارشاد فرمایا : وہاں کی تو سانسیں بھی بہت ہیں، آپ نے تو بحمداللہ دو دن قیام فرمایا۔"([12])
(9) تبلیغِ دین کا جذبہ : مجدِّدِ دین و مِلّت ، صاحبِ علم و معرفت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ ایک فقیدالمثال مفتی اور محقِّق ہونے کے ساتھ
ساتھ دینِ اسلام کے عظیم داعِی اورشاندار مبلِّغ بھی تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ تبلیغِ
دین کے معاملے میں اِس قدر سنجیدہ طبیعت
کے مالک تھے کہ اگر کسی شخص کو کوئی
خلافِ شریعت بات کرتےہوئے سُنتے یا منافیِ
شریعت کام کرتے ہوئے دیکھتے تو فوراً اُس
کی اِصلاح فرماتے۔
تلمیذِ اعلیٰ حضرت
علامہ ظفَرُ الدین بِہاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:"اعلیٰ
حضرت امام اہل سنّت قُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیْز جس طرح اس اَمر پر اِعتقاد رکھتے
تھے کہ حضراتِ انبیائے کرام علیہم السلام اور حضور ِ اقدس ﷺ تبلیغ و ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے،
اور علمائے کرام وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاء(نبیوں کے وارث) ہیں ۔ اسی طرح اس
پر بھی یقینِ کامل رکھتے تھے کہ علماء کے ذمہ دو فرض ہیں، ایک تو شریعت مطہرہ پر
پورے طور پر عمل کرنا ، دوسرا فرض مسلمانوں کو ان کی دِینی باتوں سے واقف بنانا،
ان پر مطلع کرنا۔ اسی لیے جہاں کسی کو خلافِ شرع کرتے ہوئے دیکھتے ، فرضِ تبلیغ
بجا لاتے، اور اس کو اپنے فرائض میں داخل سمجھتے۔"([13])
(10) نَماز اور جماعت کی پابندی : پابندِ صلوٰۃ وسنَّت ،صاحبِ خوف و خشیت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ کو نماز اور جماعت سے بڑی محبت تھی ۔ حالتِ سفر ہو یا ایامِ حَضر، صحت کا زمانہ ہو یا علالت و
بیماری کے ایام، ہمیشہ ہی نماز اور جماعت
کی پابندی کا اِہتمام واِنصرام فرمانا آپ رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت کا روشن اور لائقِ تقلید پہلو ہے۔
چنانچہ "حیاتِ
اعلیٰ حضرت " میں ہے:" اعلیٰ
حضرت قُدِّسَ
سِرُّہُ الْعَزِیْز حضر و سفر، صحت و علالت ہر حال
میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا ضروری خیال فرماتے تھے۔ خود ارشاد فرمایا کرتے:
"مَرد وں کی
نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں ہونی چاہیے
،عورتوں کی نماز علیٰ حدہ گھر میں ہوتی ہے۔"
سفرکی حالت میں مسجد
میں جا کر سب نمازوں کو ادا کرنا دشوار ہے، خصوصاً لمبے سفر
میں۔ تاہم اعلیٰ حضرت جماعت سے نماز ادا کرنے کو ضروری خیال فرماتے ، اور اس پر
سختی سے عامل تھے۔ اگر کسی گاڑی سے سفر کرنے میں اَوقاتِ نماز اسٹیشن پر نہیں ملتا ، تو اس گاڑی
پر سفر نہیں کرتے، دوسری گاڑی اختیار فرماتے، یا نماز باجماعت کے لیے اسٹیشن پر
اُتر جاتے، اور اس گاڑی کو چھوڑ دیتے ، اور نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد جو گاڑی
ملتی ، اس سے بقیہ سفر پورا فرماتے۔"([14])
جلوہ ہے نور ہے کہ سراپا رضا کا ہے
تصویرِ سُنّیت ہے کہ چہرہ رضا کاہے
وادی رضا کی ، کوہِ ہِمالہ رضا کا ہے
جس سمت دیکھیےوہ علاقہ رضا کا ہے
گر
قبول اُفتد زہے عزّو شرف
شوال
المکرَّم 1443ھ،بمطابق مئی 2022ء
سگِ
درگاہِ اعلیٰ حضرت
ابوالحقائق
راشدعلی رضوی عطاری مدنی
[1] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/189،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
[2] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/189،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
[3] : اچکن کی وضع کا ایک بر کا لباس جسے گھنڈی کے ذریعے گلے کے پاس جوڑ دیتے
ہیں۔
[4] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/197-198،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
[5] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/198،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
[6] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/210،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
[7] : پ26،الفتح:29۔
[8] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/216-217،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
[9] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/224،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
[10] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/226،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
[11] : سرکار کون ہیں؟ "سرکار" سے اعلیٰ حضرت رحمۃا للہ تعالیٰ علیہ کی مراد سرکارِ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے۔ چنانچہ یہی سیِّد ایوب
علی صاحب بیان فرماتے ہیں:"اعلیٰ حضرت بجائے عدالت کے کچہری کا
لفظ استعمال فرمایا کرتے۔ کسی صاحبِ علاقہ یا رؤسا یا اُمرا میں سے کسی کو کوئی سرکار کہتا
، تو کبیدہ خاطر ہوتے، اور فرماتے کہ سرکار نہ کہیے۔سرکار صرف
سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں۔" (حیاتِ اعلیٰ
حضرت،1/350،برکاتی پبلشرز، کراچی)
[12] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/237،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
[13] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/329،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
[14] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/412،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
انسان کی اچھی عادتیں اسے معزز بنادیتی ہیں اور بُری عادتیں کسی کو معزز نہیں بننے دیتیں بلکہ کسی معزز بندےمیں بھی اگر بُری عادتیں پیدا ہوجائیں تو وہ لوگوں کی نظروں میں اپنا وقار کھو دیتا ہے ۔کسی
بھی بُری چیز سے بچنے کےلئے اس کے بارے
میں آگاہی ضروری ہے ،یہاں کچھ ایسی باتیں بیان کی جارہی ہیں جو دینی ،اخلاقی ،یا معاشرتی طور پر بُری ہیں
اور ایک مہذب شخص کو یہ باتیں ہر گز زیب نہیں دیتیں، بااخلاق بندہ ان باتوں سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ لہٰذا ان بُری
عادتوں سے خود بھی بچیئے اور اپنے متعلقین کو بھی بچائیے تاکہ
معاشرے سے برائیوں کا خاتمہ ہو اور ہر طرف اچھائی اور بھلائی کا دَور دورہ ہو۔
خیال رہے کہ ان برائیوں میں سے بعض تو ناجائز وگناہ ہیں،بعض خلافِ مُرَوَّت اور بعض اخلاقی و معاشرتی اعتبار سے غیر مناسب ہیں،لہٰذا
ہر ایک کاحکم ِشرعی جدا ہوگا ۔
72 بُری عادتیں:
(1)بلا
وجہِ شرعی کسی کےسلام کا جواب نہ دینا۔(2) دوران ِ ملاقات بےدِلی (بے رخی)کا مظاہرہ کرنا۔ (3)
ہر وقت منہ چڑھائے رکھنا،کسی سے سیدھے منہ بات نہ کرنا۔ (4)خواہ مخواہ کسی
کےذاتی معاملات میں دخل اندازی کرنا۔(5) دوسروں کوحقیرسمجھنا اور تحقیروالا برتاؤ کرنا۔ (6) کسی پر بے جا سختی کرنا۔ (7) باوجودِ قدرت لوگوں کی خوشی غمی میں شریک نہ ہونا۔(8) مدد پر قادر ہونے کے باوجود
دوسروں کی مدد نہ کرنا۔ (9) گالی بکنا ،کسی کو برابھلاکہنا بالخصوص سب کے سامنےذلیل کرنا۔(10)لالچی
طبیعت والا ہونا۔ (11)مطلبی اور خود غرض ہونا۔(12) بےمُرَوَّت
ہونا۔(13) بلا وجہِ شرعی دوسروں کی حوصلہ شکنی کرنا۔ (14)دو رُخا ہونا یعنی
ایک کے سامنے کچھ کہنا دوسرے کو کچھ کہنا۔ (15)کوئی شرمندہ ہوکر اپنی غلطی کی معافی مانگے تب بھی بغیر کسی وجہ کے اسےمعاف نہ کرنا۔(16)کسی کے عیب اچھالنا۔(17)کسی کا بُرا چاہنا۔(18) لوگوں کے
راز فاش کرنا۔(19) کنجوس ہونا ،جہاں خرچ
کرناضروری ہو وہاں بھی خرچ نہ کرنا۔ (20)
اللہ کریم نے جسے عزت دی اس کی عزت نہ کرنا۔(21)وعدہ خلافی کرنا۔(22)
کسی کےاعتمادکوٹھیس پہنچانا۔ (23) لوگوں کے مال ومتاع وپراپرٹیز پر ناجائز قبضے کے
چکر میں رہنا ۔(24)جان بوجھ کر کسی کو غلط مشورہ دینا۔(25) اپنے Status سے ہٹ کرصرف امیروں کی دعوت پر جانا اور غریبوں کی دعوت ٹھکرا دینا۔ (26) غرور و تکبر کرنا۔(27) بےجا
مطالبات کرنا۔(28) امانت میں خیانت کرنا ،چاہے مال میں ہو یاکسی کی عزت و آبرو میں۔(29)دو
بندوں کے درمیان ان کی اجازت کے بغیر گُھس کر بیٹھنا۔ (30)اپنے منہ میاں مِٹّھو
بننایعنی خواہ مخواہ اپنی ہی تعریف کرتے
رہنا۔(31)کسی کامذاق اڑانا۔(32)کسی کو ڈانٹ پڑ رہی ہو تو اس کی حالت پر ہنسنا۔(33)
کسی کی بےبسی پر مسکرانا،ہنسنایا خوش ہونا۔(34) کسی پر بے جا تنقید کرنا۔(35) لوگوں کی چیزیں بِلا اجازت استعمال کرنا(بعض لوگوں کی طرف سے حقیقی یا عرفی طور پر اجازت ہوتی ہے وہ اس سے خارج
ہیں)۔ (36)کسی کےپیاروں کی برائی کرنا۔(37)دوسروں کے سامنے گھِن والے کام کرنامثلاً ناک میں انگلی
ڈالنا،دانتوں سے ناخن کترنا،باربار بلا وجہ تھوکنا۔(38)کسی بھی طرح کا نشہ کرنا۔(
39) کسی کاحق مارنا۔(40) غلطی کے باوجود اپنی غلطی تسلیم نہ کرنا ۔(41) محفل میں کسی کو ہٹا کر خود اس کی جگہ بیٹھنا۔(42) کسی کے مخاطب کرنے پر بلا عذراسے
جواب نہ دینا۔ (43) کوئی بات کررہا ہو تو اس پر توجہ نہ دینا
بلکہ کسی اور کام
میں مگن رہنا۔ (44) بِنا بُلائے کسی کی دعوت پر جانا ۔ (45) استطاعت کے
باوجود قرض جلد ادا نہ کرنا۔ (46) کسی کی
گاڑی استعمال کرنے کے بعد پٹرول ختم کر کے واپس کرنا اور پٹرول ڈلوا کرنہ دینا، یا
گاڑی کاکوئی نقصان ہوجانے پر ویسے ہی
لاکر کھڑی کردینا ٹھیک کروا کے نہ دینا۔ (47)دوستوں کے ساتھ آؤٹنگ پرجانا مگرکبھی کھانےپینے میں اخراجات شئیر نہ کرنا ،ہمیشہ انہیں کا خرچہ کروانا۔ (48)ملاقات کا ٹائم دینا اور پھر بِلا وجہ اس سے ملاقات نہ
کرنا۔ (49) انجانے میں کسی سے نقصان ہوجانےپر فوراً اپنا روَیّہ تبدیل کرلینا ، غصے میں آپے سے باہر ہوجانا اور اس کی معذرت قبول نہ
کرنا۔(50) کسی کی خامی یا کمز وری کا خود
اس کے سامنے یا دیگر لوگوں کے سامنے بار بارتذکر ہ کرناکہ یہ دل آزاری اور غیبت
ہے اور یہ دونوں کام ناجائز ہیں۔ (51) سب کےساتھ کھارہے ہوں تو اچھی چیزیں خود لے لینا اوردوسروں کی پرواہ نہ کرنا۔ (52) صرف اپنے مطلب کی حد تک لوگوں سے تعلق رکھنا مطلب نکل جانے پر لاتعلق ہوجانا۔(53) منصب یا عہدہ مل جانے پر بِلاعذر اپنے قریبی لوگوں سے دور ہوجانا، انہیں حقیر سمجھنا۔ (54)بلا
وجہ کسی کی بات کاٹنا۔ (55) بغیر اجازت
کسی کا موبائل فون ا ستعما ل کرنا۔ (56) دوسروں کے میسجز اورواٹس اپ وغیرہ بغیر اجاز ت دیکھنا ،کسی کی موبائل اسکرین پر نظر ڈالنا۔ (57)دوران ڈرائیونگ
کسی کو ٹکر ما ر دی تو اسے طبی امداد دینے کے بجائے وہیں
تڑپتا چھوڑ کر بھاگ جانا ، یہ انتہائی مذموم اور انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے، اگر
خدا نخواستہ کبھی ایسا ہو جائے تو بھاگنے کے بجائے وہیں رکیں جوزخمی ہوئے اسے
قریبی کلینک یا ہسپتال تک پہنچائیں۔ (58)ہروقت
میلے کچیلے کپڑوں میں رہنا،صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھنا۔ (59) بس یا ٹرین میں سب کے سامنے سگریٹ پینا، سگریٹ پینا ویسے بھی صحت کے لیے
سخت نقصان دہ ہے۔(60)جگہ جگہ پان تھوکنا۔ (61) کچرا وغیرہ راستے میں ہی ڈال دینا۔(62)لوگوں کے گھروں میں جھانکنا۔ (63) لوگوں کو بالخصوص خواتین کوگھورنا۔ (64) بِلا ضرورت لوگوں
کے سامنے ہاتھ پھیلانا۔ (65)جھوٹ بولنا۔ (66)
بیوی بچوں اور دیگر متعلقین کے حقوق ادا
نہ کرنا۔(67) دوسروں پرالزام تراشی کرنا۔ (68)
بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر وقت شکوہ شکایت کرتے رہنا۔(69) کوئی کام کاج
نہ کرنا اور نہ ہی اس کیلئے کوشش کرنا، یوں ہی ہروقت گھر میں پڑے رہنا۔(70)کسی کے
گھر مہمان جائیں تو ان کے گھریلو حالات یا انتظام پر بِلا وجہ تنقید کرنا۔(71)دوسروں کے بچوں سے ان
کے گھریلو معاملات کے بارےمیں پوچھنا،کُرید کُریدکران سے گھریلو ذاتی معاملات جاننے کی کوشش کرنا ۔ (72)کوئی آپ کے بچوں کی درست شکایت لے کر آئے تو تحمل سے سن کر اچھا ریپلائی کرنے کے بجائے ،الٹا سامنے والے کو ہی جھاڑ دینا اور اپنی اولاد کی بے جا حمایت کرنا۔
ان بری عادتوں سے خود بھی بچیئے اور اپنے متعلقین کو
بھی ان سے بچانے کی کوشش کیجئے ! ان شاء اللہ ہمارے
معاشرے سے برائیاں ختم ہوں
گی اور لوگوں کا کردار سدھرنا شروع ہوجائے
گا۔
اللہ کریم ہم سب کو ان بری عادتوں اور تمام برائیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے !
آمین بِجِاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
حکیم سید محمد سجاد عطاری مدنی ۔
فاضل الطب والجراحت۔ فاضلِ طب نبوی
اسلامک سکالر: اسلامک ریسرچ سینٹر (المدینۃ العلمیہ)
مُدرِّس: مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ایجوکیشن عالمی مدنی مرکز کراچی
27-04-2022
۲۵ رمضان ا لمبارک۱۴۴۳
ہجری
عید الفطرعالم اسلام کا ایک مذہبی تہوار ہے جسے
ہر سال پوری دنیا میں بسنے والے
مسلمان رمضان کے روزے رکھنے کے بعد بڑی
عقیدت و جوش وخروش سے یکم شوال کو مناتے ہیں۔
عید عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی” خوشی ،جشن، فرحت اور چہل پہل“ کے ہیں جبکہ فِطر کے معنی ”روزہ کھولنے“ کے
ہیں یعنی روزہ توڑنا یا ختم کرنا۔ عید الفطر کے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہےاس
روز اللہ پاک بندوں کو روزہ اور عبادتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتا ہے اسی وجہ سے اس تہوار کو عید الفطر قرار دیا گیا ہے۔ عید الفطر کے دن نماز عید پڑھی جاتی
ہے، جسے جامع مسجد یا کسی کھلے میدان یعنی عیدگاہ میں ادا کیا جاتا ہےعیدالفطر کا
یہ تہوار جو پورے ایک دن پر محیط ہے اسے ”چھوٹی عید“ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے
جبکہ اس کی یہ نسبت عیدالاضحیٰ کی وجہ سے ہے کیونکہ عید الاضحیٰ تین روز پر مشتمل
ہے اور اسے ”بڑی عید“ بھی کہا جاتا ہے۔ عمومی طور پر عید کی رسموں میں مسلمانوں کا
آپس میں "عید مبارک" کہنا اور گرم جوشی سے ایک دوسرے سے نہ صرف ملنا
بلکہ مرد حضرات کا آپس میں بغل گیر ہونا، رشتہ داروں اور دوستوں کی آؤ بھگت کرنا
شامل ہیں۔ علاوہ ازیں بڑے بوڑھے بچے اور جوان نت نئے کپڑے زیب تن کرتے ہیں اور
خوشی کا اظہار کرتے ہیں، ایک دوسرے کی دعوت کرتے ہیں، مختلف قسم کے کھانے پکائے
جاتے ہیں۔خصوصی طور پر مسلمان صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہوتے ہیں اور
نماز فجر ادا کرتے ہیں پھر دن چڑھے نماز عید سے پہلے چند کھجوریں کھاتے ہیں جو سنت
رسول ہے۔ (بُخاری ج۱ ص ۳۲۸ حدیث ۹۵۳) اوریہ اس دن روزہ کے نہ ہونے کی علامت ہے۔ مسلمانوں کی
ایسے مواقع پر اچھے یا نئے لباس زیب تن کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جبکہ نئے
اور عمدہ لباس پہن کر مسلمان اجتماعی طور پر عید کی نماز ادا کرنے کے لیے مساجد؛
عید گاہوں اور کھلے میدانوں میں جاتے ہیں۔ نماز عید الفطر میں آتے اور جاتے ہوئے
آہستہ آواز سے تکبیریں (اللہ اکبر ،اللہ اکبر، لا الہ اِلہ
اللہ، واللہ اکبر، اللہ اکبر، واللہ الحمد) کہنا اور راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔عید کے روز غسل کرنا، خوشبو استعمال
کرنا اور اچھا لباس پہننا سنت ہے۔(بہارِ شریعت ج۱ص۷۷۹تا۷۸۱، عالمگیری ج۱ص۱۴۹،۱۵۰ وغیرہ تِرمذِی ج۲ص۶۹حدیث۵۴۱) ۔ عیدالفطر کی نماز کے موقع پر خطبہ عید کے
علاوہ بنی نوع انسانیت کی بھلائی اور عالم اسلام کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں
جس میں اللہ تعالیٰ سے کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی مانگی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ
سے اس کی مدد اور رحمت مانگی جاتی ہے، دعا کے اختتام پر اکثر لوگ اپنے دائیں بائیں
بیٹھے ہوئے مسلمان بھائیوں کو عید مبارک کہتے ہوئے بغل گیر ہو جاتے ہیں۔ نماز کی
ادائیگی کے بعد لوگ اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور جان پہچان کے لوگوں کی طرف ملاقات
کی غرض سے جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ اپنے پیاروں کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لئے قبرستان
کی طرف جاتے ہیں۔بلاشبہ وہ افراد نہایت خوش قسمت ہیں کہ جنھوں نے ماہِ صیام پایا
اور اپنے اوقات کو عبادات سے منور رکھا۔پورا ماہ تقویٰ کی روش اختیار کیے رکھی اور
بارگاہِ ربّ العزّت میں مغفرت کے لیے دامن
پھیلائے رکھا۔یہ عید ایسے ہی خوش بخت افراد کے لیے ہے اور اب اُنھیں مزدوری ملنے
کا وقت ہے۔تاہم، صحابہ کرا م رضی اللہ عنہ اور بزرگانِ دین اپنی عبادات پر اِترانے کے
بجائے اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دُعائیں کیا کرتے تھے۔بلکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکے مقبول بندے تو فرمایا کرتے تھے کہ’’ عید اُن کی نہیں، جنھوں نے عمدہ لباس سے
اپنے آپ کو آراستہ کیا، بلکہ عید تو اُن کی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ گئے
اور اُس کے عذاب و عتاب سے ڈر گئے۔ عید اُن کی نہیں، جنھوں نے بہت زیادہ خوشیاں
منائیں، بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنھوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اُس پر قائم
رہے۔ عید اُن کی نہیں، جنھوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھائیں اور دسترخوان آراستہ کیے،
بلکہ عید تو اُن کی ہے، جنھوں نے نیک بننے کی کوشش کی اور سعادت حاصل کی۔ عید اُن
کی نہیں، جو دنیاوی زیب و زینت اور آرئش و زیبائش کے ساتھ گھر سے نکلے، بلکہ عید
تو اُن کی ہے، جنھوں نے تقویٰ، پرہیزگاری اورخوفِ خدا کو اختیار کیا۔ عید اُن کی نہیں، جنھوں نے اپنے
گھروں میں چراغاں کیا، بلکہ عید تو اُن کی ہے، جو دوزخ کے پُل سے گزر گئے۔‘‘
سیدُنا
عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کی عید:
حضرتِ علامہ مولانا
عبد المصطفٰی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں : عید کے دِن چند حضرات مکانِ عالی
شان پر حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروقِ
اَعظم رَضِیَ اللہُ عَنْہُ در وا زہ بند کرکے
زَارو قطار رو رہے ہیں ۔ لوگوں نے حیران ہوکر عرض کی: یاامیرَالْمُؤمِنِین رَضِیَ اللہُ عَنْہُ !آج تو عید ہے جو کہ خوشی منانے کا دِن ہے ، خوشی کی جگہ
یہ رونا کیسا؟آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے آنسو پونچھتے
ہوئے فرمایا: ’’ھٰذا یَوْمُ الْعِیْدِ وَھٰذا یَوْمُ
الْوَعِیْد‘‘یعنی یہ عید کا دِن بھی ہے اور وَعید کا دِن بھی ۔ جس کے نَمازو روزے مقبول
ہوگئے بلا شبہ اُس کے لئے آج عید کا دِن ہے،لیکن جس کے نَمازو روزے رَد کر کے اُس
کے منہ پر ماردیئے گئے اُس کیلئے تو آج وَعید کا دِن ہے۔
حضور
غوث اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی
عید:
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے مقبول بندوں کی ایک ایک ادا ہمارے لئے موجب صد
درسِ عبرت ہوتی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ
عَزَّوَجَلَّ ہمارے
حضور سَیِّدُنا غوثِ اعظم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْاَکْرَم کی شان بے حد اَرفع
واعلیٰ ہے ، اِس کے باوجودآپ رَضِیَ
اللہُ عَنْہُ ہمارے
لئے کیا چیز پیش فرماتے ہیں ! سنیئے اور عبرت حاصِل کیجیئے ۔ ؎
خلق گَوید کہ فر د ا روزِ عید اَسْت خوشی
دَررُوحِ ہر مؤمن پدید اَسْت
دَراں رَوزے کہ بااِیماں بمیرم مِرادَر مُلک خودآں
رَوزِ عید اَسْت
یعنی ’’لوگ کہہ رہے ہیں ،’’کل عید ہے!کل عید
ہے!‘‘او رسب خوش ہیں ۔ لیکن میں تو جس دِن اِس دنیا سے اپنا اِیمان سلامت لے کر گیا
، میرے لئے تو وُہی دِن عید ہوگا ۔‘‘
سُبْحٰنَ اللہِ !( عَزَّوَجَلَّ) سُبْحٰنَ اللہِ !( عَزَّوَجَلَّ)کیا شانِ تقوی ہے !
اتنی بڑی شان کہ اَولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے
سردار! اور اِس قَدَر تواضع واِنکِسار !
اس میں ہمارے لئے بھی دَرْسِ عبرت ہے اور ہمیں سمجھا یا جا رہا ہے کہ خبردار!
ایمان کے مُعامَلے میں غفلت نہ کرنا، ہر وَقت ایمان کی حِفاظت کی فِکر میں لگے
رہنا، کہیں ایسا نہ ہوکہ تمہاری غفلت اور معصیت کے سَبَب ایمان کی دَولت تمہارے
ہاتھ سے نکل جائے ۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں’’ چاند
رات‘‘ کو ایک لحاظ سے شرعی پابندیوں سے فرار کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، حالانکہ
چاند رات کو ’’لَیْلَۃُ الْجَائِزۃ‘‘ یعنی
انعام والی رات‘‘ کہا گیا ہے ۔ جو لوگ پورے ماہِ مقدّس میں تقویٰ و پرہیزگاری کی
راہ پر کاربند رہے، اُن میں سے بھی بہت سے لوگ اس رات لہو ولعب میں مشغول ہوکر اپنی ساری
محنت اکارت کر بیٹھتے ہیں۔دراصل، شیطان آزاد ہوتے ہی خلقِ خدا کو تقویٰ و
پرہیزگاری کے راستے سے ہٹا کر فسق وفجور کی طرف مائل کرنے کی کوششوں میں لگ جاتا
ہے اور بدقسمتی سے بہت سے لوگ اُس کے پُرفریب جال میں پھنس جاتے ہیں۔
اے لوگو لائقِ عذاب
کاموں کااِرْتکاب کر کے ’’یومِ عید“ کو اپنے لئے ’’یومِ وَعید‘‘ نہ بناو ۔ اور یادرکھو! ؎
لَیْسَ الْعِیدُ لِمَنْ لَّبِسَ الْجَدِیْد اِنَّمَاالْعِیْدُ لِمَنْ
خَافَ الْوَعِیْد
(یعنی عید
اُس کی نہیں ،جس نے نئے کپڑے پہن لئے ،عید تو اُس کی ہے جو عذابِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ سے ڈر گیا )
اِس میں کوئی شک نہیں کہ عید کے دِن غسل کرنا ،
نئے یا دُھلے ہوئے عمدہ کپڑے پہننا اور عطرلگانا مستحب ہے،یہ مستحبات ہمارے ظاہری
بدن کی صفائی اور زینت سے متعلق ہیں ۔لیکن ہمارے اِن صاف ،اُجلے اور نئے کپڑوں اور
نہائے ہوئے اور خوشبو ملے ہوئے جسم کے ساتھ ساتھ ہماری روح بھی ہم پر ہمارے ماں
باپ سے بھی زیادہ مہربان خدائے رَحمنعَزَّوَجَلَّکی
محبت و
اِطاعت اور امّت کے غمخوار، دو جہاں کے تاجدار صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کی اُلفت وسُنَّت سے خوب سجی ہوئی ہونی چائیے ۔
یومِ عید اپنی اصل میں ایک مذہبی تہوار ہے، اس
لیے اِس روز ہونے والی تمام سرگرمیوں کو اسی تناظر میں ترتیب دیا جانا چاہیے۔تاہم یہ
بھی ذہن میں رہے کہ اسلام نے خوشی کے اظہار سے منع نہیں کیا اور نہ ہی اسلام کے
نزدیک تقویٰ وپرہیزگاری کا مطلب خشک مزاجی اور رُوکھا پن ہے۔البتہ، اسلام نے
تہواروں اور تفریحات کو کچھ حدود وقیود کا پابند ضرور بنایا ہے تاکہ بے لگام
خواہشات اور نفس پرستی کی راہ روکی جا سکے۔عید کا آغاز، دو رکعت نماز سے ہوتا ہے،
جو اس بات کا اظہار ہے کہ کوئی بھی مسلمان اپنی مذہبی اور تہذیبی روایات میں اللہ
تعالیٰ کی ہدایات سے لاپروا نہیں ہوسکتا۔
عید کے اس پُرمسرّت موقع پر ہمارا ایک کام یہ
بھی ہونا چاہیے کہ آس پڑوس اور رشتے داروں پر نظر دوڑائیں کہ کہیں اُن میں سے
کوئی ایسا تو نہیں، جو اپنی غربت اور تنگ دستی کے سبب عید کی خوشیوں میں شامل ہونے
سے محروم ہے۔ اگر ایسا ہے، تو یقین جانیے، ہم خواہ کتنے ہی اچھے کپڑے پہن لیں،
طویل دسترخوان سجا لیں، عیدیاں بانٹتے پِھریں، ہماری عید پھر بھی پھیکی ہی رہے گی،
جس میں دیگر افراد شامل نہ ہوں۔
عید
کی خوشیاں دوبالا ہوگئیں
سلسلۂ قادریہ رضویہ عطّاریہ کے عظیم بُزرگ
حضرت سِری سَقطی رحمۃُ
اللہِ علیہ (بطورِ عاجزی)فرماتے ہیں کہ میں دل کی سختی کے مرض میں مبتلاتھا لیکن حضرت
معروف کرخی رحمۃُ
اللہِ علیہ کی
دُعا کی برکت سے مجھے چھٹکارا مل گیا۔ ہوا یوں کہ میں ایک بار نمازِ عید پڑھنے کے
بعد واپس لوٹ رہا تھا تو حضرت معروف کرخی رحمۃُ اللہِ علیہ کو دیکھا۔ آپ کے ساتھ ایک بچہ بھی تھاجس کے بال بکھرے ہوئے تھےاوروہ ٹوٹے دل کے ساتھ رورہا تھا ۔ میں نے عرض کی : یاسیدی! کیا ہوا؟ آپ کے ساتھ یہ بچہ کیوں رو رہا ہے؟ آپ
نے جواب دیا : میں نے چند بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھاجبکہ یہ بچہ غمگین حالت میں ایک طرف کھڑا تھا اوراُن بچوں کے ساتھ نہیں کھیل
رہا تھا ۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں یتیم ہوں ، میرےابوجان انتقال کر گئے ہیں ، ان کے بعد میرا کوئی سہارا نہیں اور میرے پاس
کچھ رقم بھی نہیں کہ جس کے بدلے اَخروٹ خرید
کر اِن بچوں کے ساتھ کھیل سکوں ۔ چنانچہ میں اس بچےکو اپنے ساتھ لے آیا تاکہ اِس کے لئے گٹھلیاں جمع
کروں جن سے اخروٹ خرید کر یہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل سکے۔ میں نے عرض کی : آپ یہ
بچہ مجھے دے دیں تاکہ میں اِس کی یہ خراب حالت بدل سکوں ۔ آپ نے فرمایا : کیا تم
واقعی ایسا کرو گے؟میں نے کہا : جی ہاں۔ فرمایا : چلو اسے لے لو ، اللہ پاک تمہارا
دل ایمان کی برکت سے غنی کرے اور اپنے راستے کی ظاہری و باطنی پہچان عطا فرمائے۔ حضرت سِری سقطی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ میں اس بچے کو لےکر بازار گیا ، اسے اچھے کپڑے پہنائے اوراخروٹ خرید کر دیئے جن سے وہ دن بھر بچوں کے ساتھ کھیلتا رہا۔ بچوں نے اس سے پوچھا
کہ تجھ پر یہ احسان کس نےکیا؟ اُس نے جواب دیا : حضرت سری سقطی رحمۃُ اللہِ علیہ اور
معروف کرخی رحمۃُ
اللہِ علیہ نے۔ جب بچے کھیل کود کے بعد چلے گئے تو وہ خوشی خوشی میرے
پاس آیا۔ میں نے اس سے پوچھا : بتاؤ! تمہاراعید کا دن کیسا گزرا؟اس نے کہا : اے چچا ! آپ نے مجھے اچھے کپڑے
پہنائے ، مجھے خوش کر کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لئے بھیجا ، میرے غمگین اور ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑا ، اللہ کریم! آپ
کو اپنی بارگاہ سے اس کا بدلہ عطا فرمائے اور آپ کے لئےاپنی بارگاہ کا راستہ کھول
دے۔ حضرت سری سقطی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : مجھے بچے کے اس کلام سے بے حد
خوشی ہوئی اور اس سے میری عید کی خوشیاں مزید بڑھ گئیں ۔ (الروض الفائق ، ص185)
اللہ ربُّ العزّت کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے
صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ایک یتیم بچے سے
ہمدردی اور خیرخواہی کی ایمان اَفروز
حکایت آپ نے پڑھی۔ عید الفطر کی خوشیاں ہیں ، خُوب نعمتوں کی کثرت ہے ، گھر میں
کھانے کےلئےایک سے ایک لذیذ ڈِش تیار ہورہی ہے ، بہترین عمدہ لباس پہنے ہوئےہیں ، گھر میں مہمانوں کاآنا جانا
اورعیدیاں لینے دینے کاسلسلہ جاری ہے ، ایسےمیں کیا ہی اچھا ہوکہ پڑوسیوں ، غریبوں
، یتیموں اورسفید پوش عاشقانِ رسول کے گھروں میں بھی خوشی و راحت پہنچانے کی
کوئی صورت ہوجائے تاکہ یہ ’’عید ‘‘ہمارے لئے’’سعید‘‘یعنی سعادت مندی کاسبب بن جائے۔ کاش!ایسا
ہوجائے۔
از: سید شعیب رضا عطاری
(المدینہ العلمیہ ، دعوت ِ اسلامی )
ویسے تو رمضانُ
المبارک کی ہر گھڑی رحمتوں اور برکتوں سے بھری ہوئی ہےجیساکہ احادیثِ مبارکہ میں
موجود ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ رمضانُ المبارک میں روزانہ افطار کے وقت10 لاکھ ایسے
گناہ گاروں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے جن پر گناہوں کی وجہ سے جہنم واجب ہو چکی
تھی لیکن اللہ عزوجل نے امتِ محمدیہ ﷺ کو اس مہینے میں ایک
ایسی رات سے بھی نوازا ہے جس میں اتنی رحمتِ الٰہی نازل ہوتی ہیں جن کا شمار نہیں کیا جاسکتا۔اس رات میں
عبادت کرکے بندہ نہ صرف اپنے گناہوں کو بخشواتا ہے بلکہ اللہ عزوجل کا
قرب بھی حاصل کرتاہے ۔ اس رات کو اللہ عزوجل نے ماہِ رمضانُ
المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پوشیدہ رکھا ہے جسے لَیْلَۃُالْقَدرکہا جاتا ہے جو کہ
ہزار مہینوں سے افضل ہے اوریہ رات امتِ محمدیہ ﷺکے ساتھ خاص ہے(یعنی صرف امتِ
محمدیہ کو عطاء کی گئی ہے) نیز اس رات کی فضیلت پر قراٰن و احادیث کی کثیر آیتیں اور روایتیں دال ہیں۔
شبِ
قدر میں قراٰن کا نزول:
اس رات کی قدرو منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا
جا سکتا ہے کہ اللہ عَزَّ
وَجَلَّ نےاسی
رات آسمانِ دنیا میں یکبار قرآنِ مجید نازل کیا جیساکہ قرآنِ کریم میں ارشادِ خدا
وندی ہے:اِنَّاۤ
اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ ترجمۂ کنزالایمان :بیشک ہم نے اس قرآن کو شب ِقدر میں نازل کیا۔
تفسیردرِّ منثورمیں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہمافرماتے
ہیں: اللہ عزوجل نے
لوحِ محفوظ سے بیت العزت (جو کہ
آسمانِ دنیا میں ہے)کی طرف ایک ہی دفعہ پورا قراٰنِ کریم شبِ قدر میں نازل
فرمایا۔
شب
قدر کی فضیلت پراحادیثِ مبارکہ:
حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابۂ کرام کو خوشخبری دیتے ہوئے ارشاد
فرمایا:تمہارے پاس ماہِ رمضان آیا ہے جو بَرَکت والا ہے۔اس مہینے میں ایک رات ہے(یعنی شبِ قدر) جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے (ملخص) ۔(سنن نسائی، کتاب الصیام، 355/2103)
حضرتِ سیِّدُنا
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ شہنشاہِ دو عالم
حضرت محمد ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: جو ایما
ن کی وجہ سے اور ثواب کے لئے شب ِ قدر کا قیام کرے اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے
جائیں گے۔ (صحیح البخاری ،کتاب الصوم ، باب من صام رمضان ایمان
واحتساب ونیۃ، 1/6256 الحدیث 1901 )
حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:جب شبِ
قدر ہوتی ہےتو جبرئیلِ امین علیہ السّلام ملائکہ کی جماعت کے ساتھ
اترتے ہیں اور ہر قیام و قعود کرنے والے بندے پر جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذکر
و عبادت میں مشغول ہو(اس کے لئے) دعا کرتے
ہیں۔( شعب الایمان،باب فی الصیام،3/343،
الحدیث ۳۷۱۷)
شبِ
قدر ملنے کی وجہ:
امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے
ہیں کہ حضور ﷺ نے جب پچھلی امتوں کے لوگوں کی عمروں پر توجہ فرمائی تو آپ ﷺ کو
اپنی امت کے لوگوں کی عمریں کم معلوم ہوئیں۔آپ ﷺ نے یہ خیال فرمایاکہ گزشتہ لوگوں
کے مقابلے میں ان کی عمریں کم ہیں تو ان کی نیکیاں بھی کم رہیں گی تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے
آپ ﷺ کو شبِ قدر عطاء فرمائی جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔(الموطا، کتاب الاعتکاف، باب ماجاء فی لیلۃالقدر،1/295،الحدیث 761)
شبِ
قدر کن راتوں میں تلاش کی جائے؟
شبِ قدر کی تعیین کے بارے میں علمائے کرام کا بڑا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک
شبِ قدررمضانُ المبارک کی پہلی رات، بعض کے نزدیک اکیسویں رات، بعض کے نزدیک
تیئسویں رات، بعض کے نزدیک پچیسویں رات،
بعض کے نزدیک ستائیسویں رات، بعض کے نزدیک انتیسویں رات اور بہت سے علمائے کرام کا
یہ قول ہے کہ شبِ قدر رمضانُ المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں منتقل ہوتی
رہتی ہے جیساکہ کثیر احادیثِ صحیحہ میں بھی مذکور ہے۔
شبِ
قدر کی علامت:
حضرت سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ سرکار ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے:میں
نے شبِ قدر کو دیکھا پھر مجھے بھلادی گئی، لہٰذا تم اسے رمضان کے آخری عشرے کی طاق
راتوں میں تلاش کرو۔اور یہ ایک خوشگوار رات ہے، نہ گرم، نہ سرد اس رات چاند کے
ساتھ شیطان نہیں نکلتا یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔(صحیح ابنِ خزیمہ، کتاب الصیام، باب صفۃ لیلۃ القدر بنفی
الحر و البرد ،
3/330،الحدیث2190)
لیلۃالقدر
کی دعا:
حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں:میں نے بارگاہِ رسالت ﷺ
،میں عرض کی، یا رسولُ اللہﷺ اگر مجھے شبِ قدر کا علم ہوجائے تو میں کیا دعا کروں؟
تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم یہ دعا کرو’’اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ
عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ‘‘ یعنی
اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ تو بہت معاف کرنے والا کرم فرمانے والا ہے۔ معاف کرنے کو
پسند فرماتا ہے، پس مجھے معاف فرما۔ (جامع الترمذی ،کتاب الدعوات،باب ماجاء فی جامع
الدعوات عن رسول اللہ،5/306، الحدیث3513)
تمام
بھلائیوں سے محروم رہ گیا:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب رمضانُ المبارک شروع ہوتا تو رسولُ اللہﷺ ارشاد فرماتے:یہ
جو مہینہ شروع ہوا ہے ، اس
میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔جو اس سے محروم رہ گیا تو وہ تمام
بھلائی سے محروم کر دیا گیا اور اس کی بھلائی سے بد بخت ہی محروم رہتا ہے۔(سنن ابنِ ماجہ، کتاب الصیام، باب ماجاء فی فضلِ شہرِ رمضان،2/297، الحدیث 1644)
پیارے
اسلامی بھائیوں:اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے
ہمیں ایسی بابرکت رات سے نوازا ہے جس میں رحمتِ الٰہی
برستی رہتی ہے، ہمیں چاہیئے کہ اس بابَرَکت رات کو اللہ پاک کی عبادت و ریاضت اورخوب ذکر واذکار میں گزاریں، نوافل پڑھیں، اپنے تمام سابقہ گناہوں سے توبہ کریں اور آئندہ گناہ
نہ کرنے کا پختہ ارادہ کریں۔
شبِ
قدرمیں پڑھے جانے والے نوافل:
٭ چار رکعت نفل پڑہیں: ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ تکاثر ایک
مرتبہ اور اس کے بعد سورۂ اخلاص تین مرتبہ پڑھیں تو موت کی سختیوں سے آسانی ہوگی
اور عذابِ قبر سے محفوظ رہے گا۔(فضائل الایام،441 مطبوعہ
مکتبہ نوریہ رضویہ)
٭دو رکعت نفل پڑہیں:ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص سات مرتبہ
پڑہیں۔سلام پھیرنے کے بعد سات مرتبہ ’’اَسْتَغْفِرُاللّٰہ‘‘ پڑھے تواپنی جگہ اسے اٹھے گا کہ
اس پر اور اس کے والدین پر رحمتِ خدا برسنی شروع ہو جائے گی۔(ایضاً)
٭ چار رکعت نفل پڑہیں: ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قدر ایک مرتبہ
اور سورۂ اخلاص ستائیس مرتبہ پڑھے تو یہ شخص گناہوں سے ایسا پاک ہو جائے گا کہ
گویا آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے اور اللہ عَزَّ
وَجَلَّاس کو جنت میں ہزار محل عنایت فرمائے گا۔(ایضاً)
از: غیاث الدین عطاری مدنی
اسلامک اسکالر، اسلامک ریسرچ سینٹر(المدینۃ العلمیہ)
ٓپ نے ”شارٹ کٹ
“(Shortcut)کا لفظ نہ صرف
سنا ہوگا بلکہ بارہا اس کا مشاہدہ بھی کیا ہوگا۔ شارٹ کٹ اگر علم وعقل اور دین کی خلاف ورزی سے بچتے ہوئے
اپنایا جائے تو مفیدہے ورنہ اس کے نقصانات (Side Effects) بہت زیادہ ہیں ۔ جیسے پڑھائی چور ”شارٹ کٹ“ کے ذریعے جعلی
ڈگری لے کراپنے ساتھ ساتھ ملک وقوم کا بھی بیڑاغرق کرتا ہے اور یوٹرن کے بجائے” شارٹ کٹ“کے سہارے اپنی موٹر سائیکل فٹ پاتھ
کے اوپر سے پارکرنے والا اپنے ساتھ دوسروں کی زندگی بھی داؤ پر لگادیتا ہے ۔دورِ
حاضر میں ناعاقبت اندیش مسلمان دین میں بھی” شارٹ کٹ “ڈھونڈتے رہتے ہیں اور بہت سے”وقت
طلب“ دینی معاملات کو مختصر وقت میں انجام دینا چاہتے ہیں جیسے تین بار
سورۂ اخلاص پڑھی اور مرحوم کے ایصالِ ثواب کے لئے’’ایک قرآن پاک ‘‘لکھوادیااور
لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ موصوف نے اول تا آخر مکمل قرآن پاک پڑھاہے حالانکہ حدیث
شریف تو یہ اہمیت بتانے کے لئے تھی کہ جب تین بار سورۂ اخلاص کی تلاوت پر اتنا
ثواب ہے تو غورکروپورا قرآن کریم پڑھنے
پر کتنا ثواب ہوگا۔یونہی ماہِ رمضان شریف میں عبادت سے جی چرانے والے ”مرد“وہ مسجد
تلاش کرتے نظر آئیں گے جہاں”20منٹ والی“ تراویح ہوتی ہے (ایک جگہ تو16 منٹ کا بھی
ریکارڈ ہے ،لاحول ولاقوۃ الاباللہ تعالی)اوراگرتھوڑی ہمت کربھی لیں تو ایسے حافظ صاحب کا انتخاب
کرتے ہیں جو جلد ’’فارغ‘‘کردے ۔یہی حال قضائے عمری کا بھی ہے کہ بعض نادان ماہِ
رمضان کے آخری جمعے (جمعۃ الوداع)کو مخصوص طریقے پرنمازپڑھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم سے قضائے
عمری کا بوجھ اتر گیا ۔یہ ایک خود ساختہ”دینی شارٹ کٹ“ ہے مگر یہ سمجھنا کہ اس کے بعد قضائے عمری پڑھنے کی کوئی حاجت
نہیں سراسر جہالت اور احکام شریعت سے روگردانی ہے ۔علم وآگہی کے باوجود ہمارے ہاں
بعض علاقوں میں باجماعت یہ نماز پڑھائی جاتی ہے۔ بقول شخصے ایک جگہ توکوئی”اہم
شخصیت ‘‘بھی یہ فریضہ انجام دیتی ہے۔والی اللہ المشتکی۔ جبکہ علماء کرام اور محدثین عظام نے اس عمل کو جہالت قبیحہ،واضح
گمراہی ،سخت ممنوع، بدترین بدعت اور نہ جانے کیا کیا کہا ہے ۔چنانچہ،
امام اہلسنت امام
احمد رضا خان حنفی رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ ،جلد۸،صفحہ ۱۵۵پر اس طرح
نماز پڑھنے کے متعلق ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:’’فوت شدہ
نمازوں کے کفارہ کے طور پر یہ جو( قضائے عمری کا)طریقہ ایجاد کرلیا گیا ہے یہ بد ترین بدعت ہے اس
بارے میں جو روایت ہے وہ موضوع (من گھڑت) ہے یہ عمل سخت
ممنوع ہے ، ایسی نیت و اعتقاد باطل و مردود، اس جہالت قبیحہ اور
واضح گمراہی کے بطلان پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے، حضور پر نور سید المرسلین صلی
اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:” من
نسی صلوٰۃ فلیصلہا اذا ذکرھا لا کفارۃ لھا الا ذلک
ترجمہ:
جو شخص نماز بھول گیا تو جب اسے یاد آئے ادا کرلے، اس کا کفارہ سوائے اس کی
ادائیگی کے کچھ نہیں ۔“(صحیح مسلم ،ص۳۴۶،الحدیث:۶۸۴)یہ حدیث شریف اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قضانمازیں
کسی شارٹ کٹ سے ادا نہیں ہوں بلکہ انہیں پڑھنا ہی ہوگا۔
اورحضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ
علیہ”موضوعات
کبیر“ میں فرماتے ہیں:یہ حدیث کہ ” من قضی
صلوٰۃ من الفرائض فی اخر جمعۃ من رمضان کان ذلک جابرا لکل صلوٰۃ فائتۃ فی عمرہ الی
سبعین سنۃترجمہ: جس نے
رمضان کے آخری جمعہ میں ایک فرض نماز ادا کرلی اس سے اس کی ستر سال کی فوت شدہ
نمازوں کا ازالہ ہوجاتا ہے ۔“ یقینی طور پر باطل ہے کیونکہ یہ اس اجماع کے
مخالف ہے کہ ”عبادات میں سے کوئی شے سابقہ سالوں کی فوت شدہ عبادات کے قائم مقام
نہیں ہوسکتی۔“(
الاسرار الموضوعۃ ،ص۲۴۲،الحدیث:۹۵۳)اور
امام ابن حجر اور علامہ زرقانی رحمۃ اللہ علیہما فرماتے ہیں :اقبح من ذلک مااعتید
فی بعض البلاد من صلوٰۃ الخمس فی ھذہ الجمعۃ عقب صلٰوتھا زاعمین انھا تکفر صلٰوۃ
العام اوالعمر المتروکۃ و ذلک حرام لوجوہ لا تخفیترجمہ :اس سے
بھی بدتر وہ طریقہ ہے جو بعض شہروں میں ایجاد کر لیا گیا ہے کہ جمعۃ الوداع کے دن
نمازِ جمعہ کے بعد پانچ نمازیں اس گمان سے ادا کی جائیں کہ اس سے ایک سال یا گذشتہ
تمام عمر کی نمازوں کا کفارہ ہے اور یہ عمل ایسی وجوہ کی بنا پر حرام ہے جو نہایت
ہی واضح ہیں۔(
شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ ،ج۹،ص۴۶۴)
یوں ہی مجدد اعظم امام اہلسنت نَوَّرَاللہُ مَرْقَدَہُ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :نماز قضائے عمری کہ آخرجمعہ ماہِ مبارک رمضان میں اس
کاپڑھنا اختراع کیا(گھڑا)گیا اور اس میں یہ سمجھاجاتاہے کہ اس نماز سے عمربھر کی اپنی اور ماں باپ
کی بھی قضائیں اُترجاتی ہیں محض باطل و بدعت سیئہ شنیعہ(انتہائی بُری بدعت) ہے کسی کتاب معتبر
میں اصلاً اس کانشان نہیں۔(فتاوی رضویہ،ج۷،ص۴۱۷)
البتہ بعض علمائے متاخرین نے جمعۃ الوداع میں نوافل کا ایک
طریقہ لکھا ہے مگر وہ بھی یہی فرماتے ہیں
کہ ان نوافل کی برکت سےصرف’’ قضاکا گناہ‘‘ معاف ہونے کی امید ہے اور ایسا
ہرگز نہیں ہے کہ اس سے قضا نمازیں معاف ہوجائیں گی کیونکہ قضا نمازیں صرف اور صرف
پڑھنے ہی سے ادا ہوتی ہیں ۔جیسا کہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی قُدِّسَ
سِرُّہُ فرماتے ہیں :” جمعۃ الواداع میں نماز قضا عمری پڑھے ۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ جمعۃ الوداع
کے دن ظہر وعصر کے درمیان بار ہ رکعت نفل دو دو رکعت کی نیت سے پڑھے اور ہررکعت میں سورہ فاتحہ کے بعدا یک بار آیت الکرسی اور
تین بار”قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدٌ “اور ایک ایک بار فلق اور ناس پڑھے ۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ جس قد ر نمازیں
اس نے قضا کر کے پڑھی ہوں گی ۔ ان کے قضا کرنے کا گناہ اِنْ شَآءَاللہ
عَزَّوَجَلَّ! معاف ہوجائے گا۔یہ نہیں کہ قضا نمازیں اس سے معاف ہوجائیں
گی وہ تو پڑھنے سے ہی ادا ہوں گی ۔(اسلامی زندگی ،ص۱۰۵)
بارگاہِ
الہٰی میں دعا ہے کہ وہ ہمیں حق وسچ کو سمجھنےاوراسے قبول کرنے کی توفیق عطا
فرمائے اور دین میں ایسے ’’شارٹ کٹس‘‘سے
ہماری حفاظت فرمائے جوہمیں جنت ورحمت کے بجائے جہنم ولعنت کا راستہ دکھائیں۔امین
محمد
آصف اقبال (ایم ۔اے)
کراچی،پاکستان
نورورحمت کی بارش:
اللہ ربُّ العزت نے اپنے پیارے نبیﷺ کی پیاری امت کوجہاں دیگر
خصوصیات سے نوازا ہے وہیں ایک خصوصیت ’’شب قدر‘‘ بھی ہے ۔ خصوصیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ رات پہلے
کسی دوسری امت کو عطا نہیں کی گئی۔باری تعالیٰ نے یہ خاص فضل وکرم صرف اُمتِ مصطفی
پرفرمایاہے۔ویسے تو اس کاکرم ہر آن ، ہر گھڑی جاری وساری ہے۔ا س کا کرم نہ ہوتو
کائنات ویران ہوجائےمگر کریم مولیعَزَّوَجَلَّ کی نوازشوں کا جو انداز شب قدر میں
ہوتا ہے وہ کسی اور رات میں نظر نہیں آتا۔ برکت ورحمت سے بھر پور اس رات میں باری
تعالیٰ نے اپنا بے مثل کلام نازل فرمایااور اس ایک نعمت سے کتنی ہی نعمتوں کے
دروازے کھل گئے،زبانِ خلق کلام باری سے مشرف ہوئی،قلب انسانی کتاب رحمانی کا محافظ
بن گیا،سینہ بشریت ملکوتی ولاہوتی اسرار کا محرم راز بن گیا اور پیکر انسانی وحی
الہی کے فانوس سے جگمگا اٹھا۔اس رات کے عبادت گزاروں پر غروب آفتاب سے صبح چمکنے
تک نورورحمت کی بارش ہوتی رہتی ہے اور یہ منظر دیکھنے کے لئے فرشتے آسمانوں سے
قطاردرقطار اترتے ہیں۔
جبرائیل وملائکہ کاسلام ومصافحہ:
لاکھوں سال عبادت کرنے والے فرشتے اور امام
الملائکہ حضر ت جبریل امین علیہ السلام
اس ایک رات میں عبادت کرنے والوں پرسلام بھیجتے ہیں اور ان سے مصافحہ فرماتے ہیں۔تفاسیر
میں ہے کہ شب قدر میں عبادت کرنے والے بندے کو جب حضرت جبریل امین علیہ السلام آکر سلام کرتے ہیں اور اس کے ساتھ مصافحہ
فرماتے ہیں تو اس پرخوف وخشیت کی ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی ہے، آنکھوں میں آنسو
بھر آتے ہیں اور اس کے جسم کا ایک ایک رونگٹا کھڑا ہوجاتا ہے۔حضرت امام فخرالدین
رازیرحمۃ
اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:’’فرشتوں
کا سلام امن وسلامتی کی ضمانت ہے ۔ حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام
پرصرف سات فرشتوں نے سلام بھیجاتو ان پر نارِ نمرودٹھنڈی وسلامتی والی ہوگئی اور
شب قدر کے عبادت گزاروں پرتو بے شمار فرشتے سلام بھیجتے ہیں توکیوں نہ امید کی
جائے کہ ان پر نار ِجہنم امن و سلامتی والی ہوجائے گی۔‘‘(تفسیر کبیر ،11/236۔شرح صحیح مسلم،3/217)
’’شبِ قدر‘‘کہنے کی وجوہات :
اس رات کو شب قدر کہنے کی درج ذیل وجوہات ہوسکتی
ہیں:
{1} لفظ قدر کا ایک معنی ’’ مرتبہ‘‘ہے ، اس رات کو شب قدر اس لئے کہتے
ہیں کہ سال کی باقی راتوں کے مقابلے میں یہ زیادہ بلند پایہ اور عظیم مرتبے والی
رات ہے۔
{2}یا اس لئے کہ اس رات میں عبادت کی قدرو منزلت باقی راتوں کی نسبت ہزار مہینوں
کی راتوں سے بھی زیادہ ہے۔
{3}یااس سبب سے کہ اس رات میں عبادت کرنے والوں کی قدرباری تعالیٰ کے ہاں باقی
ر اتوں میں عبادت کرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔
{4} قدر کا لفظ’’ قضا و قدر‘‘کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے ،چونکہ
فرشتوں کواس رات انسان کی ایک سال کی تقدیر کا قلمدان سونپ دیا جاتا ہے اس لئے اس
رات کو شب قدر کہتے ہیں۔
{5} قدر کا ایک معنی’’تنگی‘‘بھی ہے، چونکہ فرشتے اس رات میں بڑی کثرت
سے زمین پر اترتے ہیں حتی کہ زمین تنگ ہوجاتی ہے ،اس وجہ سے بھی اس رات کو شب ِقدر
کہتے ہیں۔(ماخوذ ازمقالاتِ سعیدی،ص365)
شب قدر کیوں عطا ہوئی؟
بنی اسرائیل میں ایک نیک خصلت بادشاہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ایک ہزار لڑکے عطا فرمائے۔ وہ
اپنے ایک شہزادے کو اپنے مال کے ساتھ لشکر کے لئے تیارکرتا اور اسے راہِ خدامیں
مجاہد بنا کر بھیج دیتا ۔ وہ ایک مہینے تک جہاد کرتا اور شہید ہوجاتا پھر دوسرے
شہزادے کوتیار کرکے بھیجتااور ہر ماہ ایک شہزادہ شہید ہوجاتا۔اِس کے ساتھ ساتھ
بادشاہ خود بھی رات کو قِیام کرتا اور دِن کو روزہ رکھا کرتا۔ایک ہزار مہینوں میں
اس کے ہزار شہزادے شہید ہوگئے۔پھر خود آگے بڑھ کر جہاد کیا اور شہید ہوگیا۔ لوگوں
نے کہا کہ اِ س بادشاہ کا مرتبہ کوئی شخص نہیں پا سکتا ۔توخالق کائنات نے یہ آیتِ
مبارکہ نازِل فرمائی:’’لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌمِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ(ترجمہ: شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے)یعنی اس بادشاہ کے ہزار مہینوں سے جو کہ اِس نے
رات کے قِیام، دِن کے روزوں اور مال ،جان اور اولاد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرکے گزارے اس سے
بہترہے ۔ (تفسیر قرطبی ،20/122)
ایک روایت یہ ہے کہ ایک بارحضور نبی رحمت،شفیع
اُمت ﷺنے یہ
تذکرہ فرمایا کہ’’ حضرت شمعون رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ہزار ماہ اس طر ح عبادت کی کہ رات کو قیام کرتے اور
دن کو روزہ رکھتے اور ساتھ ساتھ راہِ خدا میں کافروں سے جہادبھی کرتے۔ ‘‘حضرات صحابہ
کرام علیہم الرضوان جو کہ دن رات حصولِ عبادت اور بھلائیوں میں
سبقت کے لئے کوشاں رہتے تھے ،انہوں نے جب ان طویل عبادتوں کاذکر سنا تو ان کو حضرت
شمعون رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ایک ہزارسال کی عبادت اورجہاد پر بڑا رشک آیا اور
وہ بارگاہِ رسالت میں عرض گزار ہوئے کہ’’یارسول اللہ !ہمیں تو بہت تھوڑی عمریں ملی ہیں ۔اس میں سے
بھی کچھ حصہ نیند میں گزرتا ہے تو کچھ طلب معاش میں، کھانے پکانے میں اور دیگر
امور میں بھی کچھ وقت صرف ہوجاتا ہے ،لہٰذا ہم تو اس طرح کی عبادت کر ہی نہیں سکتے
اور یوں بنی اسرائیل ہم سے عبادت میں بڑھ جائیں گے۔‘‘اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۂ قدر نازل فرما کر تسلی دی کہ’’اے
محبوب! ہم نے آپ کی امت کو ہر سال میں ایک ایسی رات عطا فرمادی ہے کہ اگر وہ اس
رات میں میری عبادت کریں گے تو حضرت شمعون رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ہزار
مہینوں کی عبادت سے بھی بڑھ جائیں گے۔(تفسیر
عزیزی ،4/434)
گویا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بتادیا:’’تمہاری عمر نہیں بڑھ
سکتی اجر تو بڑھ سکتا ہے، ہزار ماہ کی طویل عمر نہ سہی ہم تمہیں ایک ہی رات میں
ہزار ماہ کا اجر دے دیتے ہیں۔‘‘
رحمت عالَم ﷺ
کی شبِ قدر:
جب رمضان کریم کے آخری دس دِن آتے توحضوررحمۃ
للعالمینﷺ عبادت پر کمربستہ ہوجاتے ،ان میں راتوں کو شب بیداری
فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی شب بیداری کرواتے ۔(سنن ابن ماجہ،2/357)اور ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ آپ ﷺنے ارشاد
فرمایا:’’تمہارے پاس ایک مہینہ آیا ہے ، جس میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں
سے افضل ہے جوشخص اس رات سے محروم رہ گیا ،گویاتمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیااوراس
کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقت میں محروم ہو۔‘‘(سنن ابن ماجہ،2/298)
نیزہم گناہگاروں کی ترغیب وتحریص کے لئے ارشاد فرمایا:’’جس
نے اِس رات میں ایمان ا ور اِخلاص کے ساتھ قیام کیا تو اس کے عمر بھر کے گزشتہ
گناہ معاف کردئیے جائیں گے ۔‘‘ (صحیح
بخاری،1/660)
پیارے بھائیو!اگر پوری رات قیام نہ کر پائیں تو کم از کم عشاء
وفجر باجماعت ادا کرلیجئے کہ حضورنبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جس نے
عشاء کی نماز باجماعت ادا کی گویا اُ س نے آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر کی
نماز باجماعت پڑھی گویا اس نے پوری رات قیام کیا ۔‘‘(صحیح مسلم ،حدیث:656)اور ایک موقع پرتو واضح طور پر ارشاد فرمادیا:’’جس نے
عشاء کی نماز باجماعت پڑھی تحقیق اُس نے شب قدر سے اپنا حصہ پالیا۔‘‘(جامع صغیر،حدیث:8796)
بزرگان
دین کی شبِ قدر:
مفسر
قرآن حضرت علامہ اسماعیل حقی حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان کرتے ہیں کہ بزرگانِ دین رحمہم اللہ تعالیٰ آخری عشرے کی ہر رات میں دورکعت نفل شب قدر کی
نیت سے پڑھا کرتے تھے ۔ نیز بعض حضرات سے منقول ہے کہ ’’جو ہررات دس آیات شب قدرکی
نیت سے پڑھ لے تو اس کی برکت اور ثواب سے محروم نہ ہوگا۔‘‘(روح البیان ،10/483)
شب قدر کومخفی رکھنے میں حکمتیں:
اللہ تعالیٰ اور رسول کریمﷺنے واضح طور پر شب قدر کومتعین نہیں فرمایااور اس
مقدس رات کو مخفی وپوشیدہ رکھا،اس کی درج ذیل وجوہات وحکمتیں ہوسکتی ہیں: {1}شب
قدر کو اس لئے آشکارا نہیں کیا تاکہ اُمت میں ذوق تجسس اور گرمی عمل برقرار رہے۔{2}
اگر لیلۃ القدر کو ظاہر کیا جاتا تو لوگ عام طور پر اسی رات کی عبادت پر اکتفا کرلیتے
او ر راہِ عمل مسدور ہوجاتی۔{3}اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کا جاگنا اور اسے یاد کرنا زیادہ
محبوب ہے، عدم تعیین کے سبب لوگ شب قدر کی تلاش میں متعدد راتیں جاگ کر گزاریں گے،
اس لئے اسے مخفی رکھا۔{4}امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: اگر شب قدر کو معین کردیا جاتا تو
جس طرح اس رات میں عبادت کا ثواب ہزار ماہ کی عبادت جتنا ہوتا اس طرح اس میں گناہ
بھی ہزار درجہ بڑھ جاتا۔لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس رات کوپوشیدہ رکھا تاکہ اگر کوئی شخص اس
رات کو پا کر عبادت کرے تو اسے ہزار ماہ کی عبادتوں کا ثواب مل جائے لیکن اگر کوئی
شخص غفلت اور جہالت سے اس رات میں کوئی گناہ کربیٹھے تو تعین کا علم نہ ہونے کی
وجہ سے لیلۃ القدر کی عظمت مجروح کرنے کا گناہ اس کے ذمہ نہ آئے۔(مقالاتِ سعیدی،ص367)
شب قدرکے نوافل اوروظائف:
نور سے معمور اس مقدس وبابرکت رات میں کثیر
مسلمان نوافل ومستحبات اور اورادو وظائف کا اہتمام کرتے ہیں ،صد مرحبا!مگر ایسوں
کو دیکھنا چاہیے کہ کہیں ان کے ذمہ فرائض وواجبات تو نہیں ہیں ؟حقوق اللہ وحقوق العباد سے تو کچھ باقی نہیں ہے؟اگرہے جیسے
قضانمازیں ذمے رہتی ہیں تو شب قدر میں ترجیحی بنیاد پر پہلے انہیں ادا کریں کیونکہ
جب تک فرائض پورے نہیں ہوتے نفلی عبادات معلق رہتی ہیں یعنی مقام قبولیت تک نہیں
پہنچتیں۔بہر حال اس شب میں نوافل ووظائف کی فضیلت وارد ہے ۔یہاں چند روایات ذکر کی
جاتی ہیں :
[1]حضرت فقیہ ابوا للیث سمر قندی حنفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشادفرمایا: ’’شب قدر کی نفل نمازکم از کم
دو رکعت ہے اور زیادہ سے زیادہ ہزاررکعت ہے اور درمیانہ درجہ دو سو رکعت ہے
اورہررکعت میں درمیانے درجہ کی قرات یہ ہے کہ سورۂ فاتحہ کے بعد ایک مرتبہ سورہ قدر
اور تین مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھے اورہر دورکعت کے بعد سلام پھیرے اور سلام کے
بعدحضورنبی کریم ﷺپردرود شریف بھیجے اور پھر نماز کے لئے کھڑا ہوجائے یہاں تک کہ
اپنادوسورکعت کایا اس سے کم یا اس سے زیادہ کاجوارادہ کیا ہو پورا کرے تو ایسا
کرناقرآن وسنت میں وارداس شب کی جلالت ِقدر اور قیام کے لئے اسے کفایت کرے گا۔‘‘(روح البیان ، 10/483)
[2] ایک روایت میں
ہے کہ’’ جو شب قدر میں اخلاص کے ساتھ نوافل پڑھے گااس کے اگلے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں
گے‘‘۔(روح البیان ،10/480)
(نوٹ:یاد رہے کہ یہاں صغیرہ
گناہوں کی معافی کا بیان ہے جبکہ کبیرہ گناہ توبہ سے معاف ہوتے ہیں)
[3] ام المومنین
حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا نے بارگاہِ رسالت
میں عرض کی:’’یارسول اللہ!
اگرمجھے شب قدر کا علم ہوجائے تو کیا پڑھوں؟‘‘حضور نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:یہ دعا ء ما نگو:اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ
عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیترجمہ:اے
اللہ !بے شک تُو معاف فرمانے والا ہے اور معاف کرنے
کو پسند کرتا ہے لہٰذا مجھے بھی معاف فرمادے۔(سنن ترمذی ،5/306)
[4] امیر المومنین حضرت علی المرتضی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی
وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں:’’جو
شخص شب قدر میں سورۂ قدر (اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ،پوری سورت) سات بار پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ہر بلا سے محفوظ فرمادیتا ہے اور70
ہزارفرشتے اس کے لئے جنت کی دعا کرتے ہیں اور جو کوئی (سال بھر میں جب کبھی) جمعہ کے دن نمازِ جمعہ سے پہلے تین بارسورۂ قدر پڑھتا
ہے اللہ ربُّ العزت اس روز کے تمام نماز پڑھنے والوں کی
تعداد کے برابر اس کے لئے نیکیاں لکھتا ہے۔‘‘(نزہۃ المجالس ،1/223)
[5] شب قدرمیں بارہ رکعت نماز
تین سلام سے پڑھے، ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قدر ایک بار اور سورۂ
اخلاص 15 بار پڑھے اور سلام کے بعد 70 بار اِستغفار (اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ الْعَظِیْمَ وَاَ تُوْبُ اِلَیْہ) پڑھے تو اللہ تعالیٰ نبیوں کی سی عبادت کاثواب عطا فرمائے
گا۔
[6]د و رکعت اس طرح پڑھے کہ سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قدر تین
تین باراور سورہ ٔاخلاص پانچ پانچ بارپڑھے اور سلام کے بعد سورۂ اخلاص27 بار پڑھ
کر گناہوں کی مغفرت طلب کرے اللہ تبارک وتعالیٰ گناہ معاف فرمائے گا۔
[7] ستائیسویں شب
دو دو کر کے چار رکعت اس طرح پڑھے کہ سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ تکاثر ایک بار اور
سورہ ٔاخلاص تین تین بار پڑھے اللہ ربُّ العزت اس کی برکت سے موت کی سختیاں آسان فرمائے
گا۔
[8] دو رکعت نفل
اس طرح پڑھے کہ سورۂ فاتحہ کے بعد سورہ ٔالم نشرح ایک بار اور سورۂ اخلاص تین تین
بار پڑھے پھر سلام کے بعد 27 بار سورۂ قدر پڑھے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے بے پنا ہ ثواب عطا فرمائے
گا۔
[9] چار رکعات اس
طرح پڑھی جائیں کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قدر تین تین بار اور
سورۂ اخلاص پچاس پچاس بار پڑھے۔ سلام پھیرنے کے بعد سجدہ میں سر رکھ کر ایک بار یہ
دعا پڑھے :سُبْحَانَ
اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ،اس کے بعد جو بھی دینی یا دنیاوی جائز حاجت طلب
کرے وہ پوری ہوگی۔
[10]ستائیسویں رات سورۂ ملک 7 بار پڑھنے والے کے لئے مغفرت
کی بشارت ہے۔(اِنْ شَآءَ اللّٰہُ
تَعَالٰی)
(ماخوذاز’’
بارہ ماہ کے فضائل واعمال‘‘،مصنف :مفتی فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ علیہ)
تحریر: محمد آصف
اقبال مدنی عطاری
اُمُّ
المؤ منین زوجہ سیِّدُ المرسلین حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا بہترین مفسر ہ ،محدثہ ،حافظہ،قاریہ،
ادیبہ، معلمہ اور زبر دست فقیہ ہیں۔ غرض
مجموعہ ٔ حسانات و کمالات ہیں بلکہ بلامبالغہ پوری تاریخ عالم میں اتنی عظیم صفات
والی خاتون جو ایک طرف عالمہ ، فاضلہ اور
منصب افتا ء پر فائز ہو تو دوسری طرف بہترین
خاتون خانہ اور اعلی انتظامی صلاحیتوں کی مالک بھی ہو ، ڈھونڈنے
سے بھی نہیں ملتی۔
حضرت
عطا رضی
اللہ عنہ فرماتے ہے: کَانَتْ عائشۃُ اَفْقَہ الناسِ وَ اَ عْلَمَ
الناسِ و اَحْسَنَ النَّاسِ رَأیاً فِیْ العَامَّۃیعنی حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا تمام لوگوں سے بڑھ کر
فقیہ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر عالمہ اور
تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اچھی رائے
رکھنے والی تھیں۔ ( المستدرک للحاکم، 5/18،ح:6808)
آپ رضی اللہ عنہا علوم
قراٰنیہ، علوم
حدیث کی جامع بڑی محدثہ ، بڑی فقیہ تھیں۔ کسی نے عرض کیا کہ اے اُمُّ المؤ منین!
قراٰن سےمعلوم ہوتا ہے کہ حج و عمرہ میں صفاو مروہ کی سعی واجب نہیں ،صرف جائز ہےکیونکہ
اللہ پاک نے فرمایا: فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ
اَنْ یَّطَّوَّفَ بِهِمَاؕ ( کہ ان
کے سعی میں گناہ نہیں) ۔ تو آپ نے
جواب دیا: اگر یہ سعی واجب نہ ہوتی تو یوں
ارشاد ہوتا وَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِ اَنْ لاَ یَّطَّوَّفَ بِهِمَا ( کہ ان کے سعی نہ کرنے میں گناہ نہیں)۔دیکھو!اس ایک جواب میں اُصول فقہ کا کتنا دقیق
مسئلہ حل فرمادیا کہ واجب کی پہچان یہ ہے کہ اس کے کرنے میں ثواب، نہ کرنے میں
گناہ ،جائز کی پہچان یہ ہے کہ اس کے نہ کرنے میں گناہ نہ ہو۔ یہاں آیت میں پہلی
بات فرمائی گئی ہے۔(مراٰۃ المناجیح،
کتاب المناقب، باب مناقب ازواج النبی،8/505)
حضرت
عائشہ کو ابتداء ًکچھ کمالات تو اپنے والد
کے گھر میں نصیب ہوئے پھر آپ جب رسو ل خدا ﷺ کے یہاں آئیں تو کاشانہ اقد س میں آپ کی تربیت ہوئی۔آئیے
! اس کی چند جھلکیاں ملاحظہ کرتے ہیں۔
علمی شان وشوکت
آپ رضی اللہ عنہا کاشانۂ اقدس میں آنےکے بعد دن رات سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّم کے دیدار اور صحبتِ
بابَرکت سے فیض یاب ہونے کے ساتھ ساتھ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے چشمۂ عِلْم سے بھی خوب سیراب ہوئیں اور اس بحرِ محیط
سے عِلْم کے بیش بہا موتی چُن کر آسمانِ عِلْم ومعرفت کی اُن بلندیوں کو پہنچ گئیں
جہاں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ رَضِیَ
اللہُ عَنۡہُم، آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کے شاگردوں کی فَہْرِسْت میں نظر آنے لگے۔ صحابۂ
کِرام عَلَیْہِمُ
الرِّضْوَان کو جب بھی کوئی گھمبیر
اور ناحَل مسئلہ آن پڑتا تو اس کے حَل کے لئے آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کی طرف رُجُوع
لاتے، چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا ابوموسیٰ
اشعری رَضِیَ
اللہُ عَنۡہُ فرماتے ہیں: ہم اصحابِ رسول کو کسی بات میں اِشْکَال ہوتا تو
اُمُّ المؤمنین حضرتِ عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کی بارگاہ میں
سوال کرتے اور آپ رَضِیَ
اللہُ عَنۡہَا سے
ہی اس بات کا عِلْم پاتے۔ (سنن الترمذی،5/ 471، حديث:3909)
سبق
معلوم
ہوا کہ ام المومنین حضرت عائشہ
رضی اللہ
عنہا حضور ﷺ کی مبارک معیت کے باعث بہت بڑی عالمہ ، محدثہ اور فقیہ تھیں ۔ قراٰن پاک میں سارے مسائل
موجود ہیں لیکن بعض آیات مجملہ ہیں جو مشکلات تھیں وہ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم نے دور فرمائیں اور ان آیات کا صحیح مطلب بیان
فرما کر مشکلات کو حل فرمایا: گویا حدیث ہمارے لئے مشکل کشا ہے۔ اسی طرح بعض
احادیث میں بھی مشکلات پیش آتی رہیں، خدا
تعالی نے فقہا علیہم الرحمہ کی فقہ سے احادیث کی ان مشکلات کو دور فر
مایا۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا محدثہ بھی تھیں اور فقیہ بھی۔ قراٰن کی
مشکلات کو حدیث سے اور حدیث کی مشکلات کو
فقہ سے حل فرما دیتی تھیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث کو سمجھنا ہر شخص کا کام نہیں کیونکہ خود صحابہ کرام کو بھی بعض اوقات حدیث کی اصل مراد سمجھنے کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا اور جو کچھ آپ
فرمادیتی تھیں اُسے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قبول
فرما لیتے تھے۔
مروی روایات کی تعداد
آپ رَضِیَ اللہُ عَنہَا سے دو
ہزار دو سو دس (2210) احادیث مروی ہیں جن میں سے 174 مُتَّفَقٌ عَلَیْه یعنی بُخاری ومسلم دونوں میں، 54 احادیث صرف بُخاری شریف میں اور 68 احادیث
صرف مسلم شریف میں ہیں۔ ( مدارج النبوۃ، قسم پنجم،
باب دُوُم در ذکرِ ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہُنَّ، ۲ / ۴۷۳ )۔
حضرت
عروہ رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں: مارایتُ احداً اَعلمُ بفقہ
ولا بطبّ ولا بشعر من عائشۃ یعنی
میں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے بڑھ کر شعر، طبّ اور فقہ کا عالم کسی کو نہیں پایا۔
طب
اور مریضوں کے علاج معالجہ میں بھی انہیں کافی بہت مہارت تھی۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دن حیران ہو کر حضرت بی
بی عائشہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا سے عرض کیا کہ اے
اماں جان! مجھے آپ کے علم حدیث و فقہ پر کوئی تعجب نہیں کیونکہ آپ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زوجیت اور صحبت کا شرف پایا ہے اور آپ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ محبوب ترین زوجہ مقدسہ ہیں اسی
طرح مجھے اس پر بھی کوئی تعجب اور حیرانی نہیں ہے کہ آپ کو اس قدر زیادہ عرب کے
اشعار کیوں اور کس طرح یاد ہو گئے؟ اس لئے کہ میں جانتا ہوں کہ آپ حضرت ابوبکر صدیق
رضی اﷲ عنہ کی نور نظر ہیں اور وہ اشعار عرب کے بہت بڑے
حافظ و ماہر تھے مگر میں اس بات پر بہت ہی حیران ہوں کہ آخر یہ طِبِّیْ معلومات
اور علاج و معالجہ کی مہارت آپ کو کہاں سے اور کیسے حاصل ہو گئی؟ یہ سن کر حضرت
عائشہ رضی اﷲ
عنہا نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی آخری عمر شریف میں اکثر علیل ( یعنی بیماری تشریف لےآتی) ہو جایا کرتے تھے اور
عرب و عجم کے اَطبّاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دوائیں تجویز کرتے تھے اور میں ان دواؤں سے آپ کا علاج کیا کرتی
تھی (اس لئے مجھے طبّی
معلومات بھی حاصل ہو گئیں)۔ (شرح الزرقانی علی المواھب، المقصد الثانی، الفصل
الثالث فی ذکر ازواجہ الطاھرات، عائشۃ اُمِّ المؤمنین،4/389 تا392 ) ۔
آپ رضی اللہ عنہا
کے شاگردوں میں صحابہ اور تابعین کی
ایک بہت بڑی جماعت ہے اور آپ کے فضائل و مناقب میں بہت سی حدیثیں بھی وارد ہوئی ہیں۔
وفات
17 رمضان شب
سہ شنبہ (بروز منگل) ۵۷ھ یا ۵۸ھ میں مدینہ
منورہ کے اندر آپ رضی
اللہ عنہا کا 66 سال
کی عمر میں وصال ہوا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کی وصیت کے
مطابق رات میں لوگوں نے آپ کو جنت البقیع کے قبرستان میں دوسری ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کی قبروں کے پہلو میں دفن کیا۔ (المواہب
اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب عائشۃ ام المؤمنین،ج۴،ص۳۹۲) ۔اللہ پاک اُمّ المؤمنین
کے درجات میں مزید بلندیاں عطا فرمائے اور ہمیں ان کے علمی فیضان سے وافر حصہ مرحمت فرمائیں۔ امین
بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ
علیہ وسلم۔
بنتِ صدّیق آرامِ جانِ نبی
اُس حریمِ برأت پہ لاکھوں سلام
یعنی ہے سورۂ نور جن کی گواہ
ان کی پرنور صورت پہ لاکھوں سلام