گم شدہ خزانے کی دریافت اور اُس کی تمام تقاضوں کے ساتھ بازیافت کتنی مشکل اور دشوار گزار ہے یہ وہی شخص جان سکتا ہے جو اِن جاں گسل مراحل سے گزرا ہو ،امام احمد رضا خان قادری رحمۃُ اللہِ علیہ کےمخطوطات کا حال بھی گم شدہ خزانے کی طرح ہے جن میں کئی مخطوط عصری تقاضوں کے مطابق منظرِ عام پر لائے جاچکے چکے ہیں ، لائے جارہے ہیں اورلائے جاتے رہیں گے ۔ ان شاء اللہ الکریم

امام احمدرضاخان قادری رحمۃُ اللہِ علیہ کی ہدایہ اور اس کی شروحات پر تعلیقات بھی اُن گم شدہ خزانوں میں سےایک تھی جو مضبوط لائحہ عمل کے ساتھ ہماری مقدور بھر کی جانے والی کوشش سے منظرِ عام پر آچکی ہے۔ اس کو منظر عام پر لانے میں ہمیں کن دشواریوں کا سامنا رہا؟کتنی مشکلیں ہم پر ٹوٹ ٹوٹ کرآسان ہوتی چلی گئیں ؟محقق اور شرکائے تحقیق نے باہمی مشوروں سےاور اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کا لا کر کیسےیہ سنگ ِ میل عبور کیا؟اِن تمام احوالِ واقعی کواِس مضمون میں سمیٹ کر پیش کرنے کا مقصد میدانِ تحقیق میں اتر کر اِن گم شدہ خزانے دریافت کرنے کاشوق رکھنے والوں کو رہنمائی فراہم کرنا ہے اوریہ بات ذہن نشین کروانی ہے کہ سرمایَۂ اسلاف کو منظر ِ عام پر لانے کے لیےکوشش کی سمت کا درست تعین ،منظم لائحۂ عمل اورمسلسل کوشش بہت اہم اور حددرجہ ضروری ہے ۔آئیے!اِس داستانِ تحقیق میں پیش آنے والے احوال ِ واقعی ملاحظہ کرتے ہیں :

کچھ صاحب ِہدایہ کے بارے میں:

صاحب ِ ہدایہ شیخ الاسلام، بُرہانُ الدّین حضرت امام ابو الحسن علی بن ابوبکر صدیقی مَرغِینَانی رحمۃُ اللہِ علیہ کی پیدائش 511ھ مَرغِینان (نزد فرغانہ) ازبکستان میں ہوئی،آپ کا سلسلۂ نسب مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے ملتا ہےیوں آپ نسباً صدیقی ہیں۔آپ عظیم حَنَفی فقیہ اورصاحبِ تَخْریج و تَرْجیح ہیں۔فِقہِ حنفی کی بے مثال کتاب ہِدایہ شریف آپ ہی نے تصنیف فرمائی ۔ آپ کا وِصال 15 ذوالحجہ 593ھ کوہوا۔ مزارمبارک قبرستان تشوكا ردِيزا سَمر قَند ازبکستان میں ہے۔(تاریخِ اسلام للذہبی،42/137، ہدایہ،1/11)

ہدایہ کی بین الاقوامی شہرت اور اِس کی بنیادی وجہ:

اللہ کریم نے امام علی بن ابوبکر صدیقی مرغینانی رحمۃُ اللہِ علیہ کو کثیر علم کے ساتھ علم کوخوب صورت انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت سے نوازا تھا جس کا اظہار پہلے”بدایۃ المبتدی“ پھر ”کفایۃ المنتھی“ کی صورت میں ہوا اور جب آپ نے محسوس کیا کہ کفایۃ المنتہی کی طوالت استفادے میں بڑی رکاوٹ بنی گی تو اُن مندرجات کااحاطہ کرنے والی اس کے مقابلے میں ایک مختصر کتاب تحریر فرمائی اور اُسے ہدایہ کا نام دیا،یہ کتاب آپ نے 13 سال کے عرصے میں مسلسل روزے رکھ کر لکھی اور اپنے روزے کو دِکھاوے سے بچانےکےلیے آپ نے یہ تدبیراختیار کی کہ جب خادم کھانا لاتا تو آپ اُسے کھانا رکھ کر چلے جانے کا فرمادیتے اور پھر وہ کھاناکسی طالبِ علم یا ضرورت مند کو کھلادیتے،جب خادم برتن لینےآتاتو اُسے خالی پاکر یہ سمجھتا کہ کھا نا آپ ہی نے کھایا ہے ۔ آپ کےاخلاص کانتیجہ ہے کہ اُس زمانے سے لے کر آج تک ہدایہ کو عیونِ روایت و متون ِ درایت کا حسین سنگم شمار قرار دیا جاتا ہے(ہدایہ،1/23تا24) اورملکی و بین الاقوامی درس گاہوں میں اسلامی قانون کی اعلیٰ کتاب کے طور پر پڑھایا جاتا ہے نیز آج بھی وکلاو ججز کے لیے یہ کتابِ ہدایت فراہم کرنے والی کامل رہنما کاکام دیتی ہے ۔

ہدایہ کی شروحات، حواشی اور تعلیقات:

ہدایہ کی بین الاقوامی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مبارک کتاب ہردور کےمحققین کی توجہ کامرکز رہی ہے اور اِن حضرات نے اس کتاب سے استفادے کو آسان تر بنانے کے لیے گراں قدر شروحات اور قیمتی حواشی و تعلیقات رقم فرمائے۔

شرح،حاشیہ اور تعلیق کی وضاحت:

کتاب کےمتن کو بذریعہ تحریر سمجھانے کے تین طریقے رائج ہیں :

(1)جو تحریر متن کی ہر سطر کی وضاحت کرے وہ شرح کہلاتی ہے۔

(2)جوتحریر ماتن کے کسی ترک شدہ نکتے کی وضاحت یا متن سے کسی مسئلے کے استخراج یا مزید دلائل و براہین کے اندراج،متن پروارد اعتراض کو دور کرنےیاماتن کا تعقب وغیرہ جیسے امُور کے لیے لکھی جائے اُسےتعلیق کہتے ہیں۔شرح کی طرح تعلیق نگاری میں پورے متن کی وضاحت کرنا ضروری نہیں ہوتا ،تعلیق نگار متن کے جتنے حصے پر چاہتا ہے تعلیق رقم کردیتا ہے۔

(3)جوتحریر متن کے کسی منتخب لفظ اورجملے کی وضاحت کےلیے لکھی جائے اُسے حاشیہ کہتے ہیں۔

متن سمجھانے کے لیے رائج ان تینوں میں سے ہرطریقے کو اختیار کرنے کے لیے علم میں حیرت انگیز وسعت و پختگی ،کمال دقتِ نظری ،قابلِ رشک قوت ِ حافظہ اور حددرجہ ذہانت درکا ر ہے۔

امام اہلِ سنّت کے حواشی و تعلیقات

امامِ اہلِ سنت اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان قادری برکاتی کی تحریری خدمات میں شہرۂ آفاق کتب پرگراں قدر تعلیقات وحواشی بھی شامل ہیں ۔ اِ ن تعلیقات و حواشی میں متن میں ذکرکردہ مسائل کے جامع دلائل، مشکل الفاظ کے معانی، ضر وری مسائل ،متن کی عبارات کے باہمی ربط،متن میں درج رائے کی تصویب وغیرہ جیسے کئی اہم امور شامل ہیں ۔

امام اہل سنّت کے حواشی لکھنے کا انداز

بلا شبہ اما م اہل سنت روز مرہ زندگی میں فراغت نام کو بھی نہیں تھی، لہٰذا آپ کا حواشی وتعلیقات لکھنے کا انداز بھی عمومی نہیں تھا کہ خاص اسی ارادے سے کثیر کتب کو سامنے رکھ کر حواشی لکھتے بلکہ کسی بھی کتاب کے مطالعہ کے دوران اس وقت آپ کے دل ودماغ میں جو بات آتی وہ آپ اپنے اس ذاتی نسخہ کے اطراف میں لکھ دیتے تھے جسے بعد میں قاضی عبد الرحیم بستوی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر نے نقل اور تبییض کیا ۔

ہدایہ کے ساتھ ساتھ اس کی شروحات فتح القدیر، کفایہ، عنایہ ، حاشیہ چلپی علی العنایہ اور علامہ عبد الحی لکھنوی رحمۃُ اللہِ علیہ کے حواشی پر بھی آپ نے تعلیقات اورحواشی رقم فرمائے ہیں۔

اس کام کے اولین محرّک

جد الممتار کے کام سے فراغت کے بعد رکن شوریٰ ابو ماجد مولانا شاہد عطاری مدنی دام ظلہ نے راقم اور مولاناڈاکٹر یونس علی عطاری صاحب کے ساتھ مشورہ کیا جس میں آپ نے امام کے دیگر تحقیقی حواشی کو منظر عام پر لانے کے حوالے سے اپنی خواہش کا اظہار فرمایا چونکہ ہدایہ درسیات میں پڑھائی جانے والی اہم کتاب بھی ہے تو اس پر کام کا طے ہوا اور راقم کو اس کی ذمہ داری تفویض کی گئی۔

50 فیصد سے زياده کام ادارے کے اوقات کے علاوہ گھریا آفس میں ہوا لیکن چونکہ یہ کام اضافی وقت میں ہورہا تھا نیز کام کے اگلے کئی مراحل ایسے تھے جو تنہا مکمل نہیں کئے جاسکتے تھے لہٰذا اس کام کو آفیشل ٹائم میں آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ۔

مخطوط کی تفصیل

یہ دراصل دو مخطوط تھے ایک میں صرف ہدایہ آخرین اور حواشئی عبد الحی لکھنوی پر امام اہل سنّت کی تعلیقات تھیں اور دوسرا مخطوط وہ تھا جس میں ہدایہ کی شروحات :فتح القدیر، کفایہ، عنایہ اور حاشیہ چلپی کی عبارتوں پر حواشی تھے۔

مخطوط کی حالت

اگر مخطوط کی حالت پر بات کی جائے توثانی الذکر مخطوط جو تقریباً 70صفحات پر مشتمل ہے اس کا پہلا صفحہ ہی اسے بوسہ دیکر دوبارہ بند کرنے کی طرف داعی تھااور بقیہ کئی صفحات کی حالت بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھی اور دوسرے مخطوط کی حالت قدرے بہتر تھی لیکن اس میں کئی مقامات پر ہدایہ کی وہ عبارتیں جن پر امام نے حاشیہ رقم فرمایا تھا وہ سرے سے موجودہی نہیں تھی، میں نے اپنی معلومات اور رسائی کی حد تک کوشش کی کہ کوئی صاف نسخہ مل جائے اس ضمن میں جمعیت اشاعت اہلسنّت، ادارہ تحقیقات امام احمد رضا اور ہند میں بھی رابطے کئے لیکن کامیابی نہ ملی ، کچھ ہمت ٹوٹی کہ کام کس طرح آگے بڑھایا جائے لیکن جن کا کام تھا انہوں نے ہی ہمت بندھائی اور رکن شوریٰ کی وقتاًفوقتاً پوچھ گچھ نے بھی اس کام پر کمر بستہ رکھا ۔

کام شروع کرنے سے پہلے رضویات پر کام کرنے والے اداروں اورافراد سے رابطہ کیا تاکہ اگر کوئی پہلے ہی سے اس پر کام کررہا ہے تو وسائل اور وقت کو کسی دوسرے کام میں لگایا جائے اور نہیں کررہا تو انہیں بھی اس کام کی اطلاع پہنچ جائے، اس ضمن میں مفتی عطاء اللہ نعیمی دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ،مفتی حنیف خان رضوی دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ اور ا دارہ اہل سنت میں کام کرنے والوں سے رابطہ کیا، سبھی کی طرف سے نفی میں جواب آیا اور مفتی عطاء اللہ نعیمی دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ نے تو حسبِ عادت اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین بھی دلایا جس کیلئے ان کا مشکور ہوں۔

کام کی ابتداء ومراحل

کمپوزنگ

سب سے پہلے اس کی کمپوزنگ شروع کی۔ جگہ جگہ مشکل ومغلق الفاظ اور بیاضات کی وجہ سے ڈاٹس لگاکر آگے جانا پڑتا ، ہر مرتبہ پچھلی کمپوزنگ پر نظر ثانی و غور کرتا تو کبھی کبھار کچھ مقامات حل ہوجاتے۔

کتاب کا تعین

کمپوزنگ کے بعد دوسرا اہم مرحلہ یہ تھا کہ جن عبارتوں پر امام اہل سنّت رحمۃُ اللہِ علیہ نے کلام فرمایا ہے وہ کس کتاب کی عبارت ہے چونکہ مخطوط میں اس کا کوئی تعین نہیں تھا ، ہدایہ، فتح القدیر اور عنایہ کی عبارتوں کی تلاش تو شاملہ میں ہونے کی وجہ سے آسان تھیں لیکن کفایہ اور حاشیہ چلپی علی العنایۃ کی عبارتوں کے تعین میں بسا اوقات کافی وقت اور محنت لگی۔

قولہ کا تعین

کتاب کے تعین کے بعد اہم کام اس کے مقام کا تعین تھا، بسا اوقات ایک ہی طرح کے الفاظ ہدایہ میں بھی ہوتے اور فتح القدیر، عنایہ وغیرہ میں بھی تو اس بات کا تعین کہ امام کا مرادی مقام ہدایہ کی عبارت ہے یا فتح القدیر وغیرہ کی اس کیلئے بعض اوقات سیاق و سباق سے کلام پڑھنے کے ساتھ غور وخوض بھی کرنا پڑتا ۔

قولہ کے مقام کا تعین

کتاب اور قولہ کے تعین کے بعد اس کی تخریج کا مرحلہ تھا چونکہ مخطوط میں قولہ کی کوئی ترتیب نہیں تھی ایک قولہ کتابُ الطہارۃ کا تھا تو اس سے اگلا کتاب الصلاۃ کا پھر کچھ صفحات کے بعد دوبارہ کتاب الطہارۃ کے قولہ آجاتے تھے تو کتاب باب کے تعین کے ساتھ ساتھ ان کی ترتیب کا کام بھی کیا گیا۔

مقولہ نمبرنگ اورلاحقہ اور سابقہ سے کلام

۞قاری کو نفس ِمسئلہ اور تعلیق کی تفہیم کیلئے حاشیہ میں لاحقہ اور سے کافی غور وخوض کے بعد کلام کی ترکیب بنائی گئی، بعض اوقات حاشیہ چلپی کی عبارت سمجھانے کیلئے پہلے ہدایہ پھر عنایہ اور حاشیہ چلپی کی عبارت خلاصتاً ذکر کی گئی تاکہ طوالت سے بھی بچا جاسکے۔ اسی طرح ہر قولہ کو علیحدہ نمبر بھی دیا گیا ہےتاکہ احالہ میں آسانی ہو۔

۞ابتداء میں مقدمہ وغیرہ کے بعد صاحب ہدایہ، عنایہ، کفایہ ، حاشیہ چلپی اور امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہم کے حالات ذکر کئے ہیں۔

نام کا انتخاب

اس حاشیہ کا باقاعدہ کوئی نام نہیں تھا تو ذہن یہ بنا کہ ایسے نام کا انتخاب کیا جائے جو عمومی نوعیت کا ہو اور امام اہل ِ سنّت کے دیگر حواشی وتعلیقات میں بھی چل سکے لہٰذا ’’التعلیقات الرضویۃ علی الہدایۃ وشروحہا‘‘ نام تجویز کیا ۔

تحقیق وتخریج

فتاوی رضویہ ودیگر حواشی سے کلام

امام اہل سنّترحمۃُ اللہِ علیہ نے فتاوی رضویہ شریف میں ہدایہ، فتح القدیر، عنایہ ، کفایہ اور حاشیہ چلپی کی عبارتوں پر جہاں اپنا کلام فرمایا ہے تو 33 جلدوں میں ایسے مقامات کو تلاش کیا گیا پھر ان پر غور وخوض کرکے اسے اس کے مناسب مقام پر ذکر کیا گیا ہے۔

دورانِ تحقیق امام نے اگر اپنے کسی اور حاشیہ کی طرف مراجعت کا فرمایا تو تخریج کے ساتھ وہاں بیان کردہ امام اہل سنّت رحمۃُ اللہِ علیہ کی تحقیق کو بھی حاشیہ میں ذکر کردیاگیا ہے۔

بیاض اور مغلق مقامات

مخطوطوں میں جن مقامات پربیاض تھا یاعبارت ناقابل قرأت تھی تو ان کے حل میں درج ذیل کوششیں کی گئی:

۞ جہاں قولہ میں بیاض تھا، غور وخوض کے بعد اگر اس مقام کے تعین میں کامیابی ہوئی تو قولہ کی عبارت کو بڑی بریکٹ [ ] میں ذکر کیا گیا ہے۔

۞اگر وہ بیاض یا مغلق عبارت فقہی مقام تھا تو فقہی کتب میں اس مسئلہ کو دیکھ کر الفاظ کا اندازہ لگایا گیا۔

۞فتاوی رضویہ میں تلاش کیا گیا اور اس ضمن میں کچھ جگہ کامیابی ہوئی الحمد للہ الکریم۔

۞امام اہلِ سنّت کی دیگر فقہی تعلیقات وحواشی میں اس طرح کے مسائل میں تلاش کیا گیا اور حل کی کوشش کی گئی ۔

۞اس مقام کو حل کرنے کیلئے ٹیکنیکل امور اختیار کئے گئے: مثلاً اس صفحہ کا امیج بنا کر پینٹ میں کھول کر پینسل سے الفاظ ملانا ، اس خاص ٹکڑے کو کٹ کرکے زائد نقطے ختم کرنا، بیک گراؤنڈ کا کلر تبدیل کرنا، امیج کی برائیٹنس اور کنٹراس کم زیادہ کرنا۔

۞فقہی، لفظی اورمعنوی اعتبار سے غور وخوض اور حل کی کوشش، اس حوالے سے میں استاذ الاساتذہ قبلہ مولانا عبد الواحد صاحب کا بہت مشکور ہوں کہ انہوں نے ایسے کئی مقامات پر اپنی آراء اور مشورے دئیے جو کئی مقامات کے حل میں بہت معاون ثابت ہوئے اسی طرح جب مجھے دورانِ حل صرفی ونحوی وغیرہ کے اعتبار سے تشفی کرنی ہوتی تو استاد صاحب کو ہی اپنا مرجع بناتا اور اپنے حل کی تصدیق یا تصحیح کرتا۔

۞جہاں کہیں یہ تمام طریقے اختیار کرنے کے بعد بھی مقام حل نہ ہوا یا اپنے ذہن میں موجود رائے پر خود کو بھی متذبذب پایا تو ایسی جگہ حاشیہ میں مخطوط کے اس مقام کے ٹکڑے کا عکس اور اپنی رائے الفاظ تشکیک کےساتھ لکھ دی تاکہ حقِ تحقیق کے ساتھ ساتھ اپنے قصور ِ فہم سے محشی رحمۃ اللہ علیہ کے دامن کوبھی بچایا جاسکے۔

تخاریج

۞قرآنی آیات، احادیث کریمہ اور نصوص کی تخاریج کی گئیں، کئی کتابیں ایسی بھی تھیں جو مخطوط تھی اور طبع نہیں ہوئیں ، تلاش کرکے ان سے بھی تخاریج کی گئی ہیں۔

۞ہدایہ فتح القدیر وغیرہ کی تخریجوں میں کوئٹہ سے شائع شدہ نسخے کو معیار بنایا جو کہ دراصل مصری نسخہ کا عکس ہے ، کام کے دوران ماہر مسائل تجارت ومعاشیات مفتی علی اصغرعطاری صاحب دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ سے اس حوالے سے بات ہوئی تو آپ نے فرمایا:ہدایہ کی تخریجوں میں جہازی سائز والے نسخوں سے بھی حوالہ دے دیا جائے تو طلبا کو بھی فائدہ ہوگا۔ چنانچہ آپ کے حکم پر ہدایہ کی تخریجوں کے آخر میں بریکٹ میں اولین اور آخرین کے نسخوں کا بھی صفحہ نمبر لکھ دیا ہے۔

۞اسی طرح امام اہلِ سنّت رحمۃُ اللہِ علیہ نے اختصار کے پیش نظر صرف کتابوں کے نام ذکر فرمائے ہیں تو ان تمام کی بھی تخاریج کی گئی ہیں۔

۞اسی طرح امام اہل سنّت رحمۃُ اللہِ علیہ نے ہدایہ، فتح وغیرہ کے کسی مسئلہ کی طرف اشارہ دیا تو تلاش کرکے ان کے بھی حوالے دئیے گئے،یہ تخریج میں ایک مشکل اور محنت طلب مرحلہ تھا کیونکہ اس وقت ہمارے پاس امام اہل سنّت رحمۃُ اللہِ علیہ کے زیرِ استعمال نسخے نہیں تھے جو یہ کام مکمل ہوجانے کے بعد الحمد اللہ مل گئے تھے اس کی صورت یوں بنی کہ یہ بات تو علم میں تھی کہ امام اہل سنّت رحمۃُ اللہِ علیہ عمومی طور پر مصری نسخوں پر اعتماد فرماتے ہیں تو شروع دن سے ہی فتح القدیر اور ہدایہ کے مصری نسخوں کی تلاش میں تھا اس دوران نیٹ سے فتح القدیر کا 1315ھ میں چھپا ہوا مطبع کبری امیریہ مصر کا نسخہ ملا جس کے صفحات نمبر کو امام اہل سنّت رحمۃُ اللہِ علیہ کی نمبرنگ کے موافق پایا اسی طرح دوسرا نسخہ مطبع نولکشور لکھنؤ سے 1292ھ میں 4جلدوں پر شائع ہوا تھا تو ہم نے ان نسخوں سے دوبارہ ان مقامات کی تصدیق کی۔

تراجم

جہاں کہیں امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ نے کسی شخصیت یا کتاب کا نام ذکر کیا ہے تو ان کا مختصر تعارف بھی کیاگیا ہے اسی طرح کتاب کے مصنف کا نام اور کتاب کا موضوع وغیرہ بھی بیان کردیا گیا ہے۔

تقابل

اس کتاب کا مخطوط سے تقابل کرنا بھی اہم اور مشکل مرحلہ تھا کیونکہ قولہ آگے پیچھے بے ترتیب تھے تو مخطوط میں قلم سے نمبر لگاکرترتیب قائم کی گئی پھر تقابل کیا گیا ، امام کے موافق نسخے ملنے کے بعد یہ عقدہ کھلا کہ دراصل امام کے پاس ہندی اور مصری دو نسخے تھے اور دونوں پر ہی امام نے تعلیقات رقم فرمائی تھیں لہذا قولہ کی عبارتوں کاان نسخوں سے دوبارہ تقابل کیا گیا۔

پروف ریڈنگ ونظر ثانی

کتاب کو لفظی اغلاط سے محفوظ بنانے کیلئے ایک سے زیادہ مرتبہ اس کی پروف ریڈنگ کی گئی اور نظر ثانی میں صحت لفظی کے ساتھ ساتھ صحت معنوی اور فقہی کا بھی اہتمام کیا گیا۔

فہارس

8 کتاب میں آٹھ طرح کی فہرستیں بنائی گئی ہیں جن میں آیات واحادیث،تراجم اعلام و کتب، موضوعات ، اشاریات نیز مصادر التحقیق کی فہارس شامل ہیں۔

(7)کام کرنے والے افراد:

ابتداء سے تکمیل تک جن افراد کا تعاون رہا ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: (1)رکن شوری ابو ماجد محمد شاہد عطاری مدنی (2)استاذ الاساتذہ مولانا عبد الواحد عطاری مدنی (3)محمد شہزاد سلیم عطاری مدنی (4)محمد رضوان عطاری مدنی (5)محمد مدثر عطاری مدنی اور طباعت کے معاملات میں دار التراث العلمی کے ذمہ دارمولانا احمد رضا گھانچی صاحب کا تعاون رہا، اللہ کریم ان تمام کو دارین کی سعادتیں عطا فرمائے۔

یہ کتاب ٹوکلرزمیں دار الکتب العلمیہ بیروت سے شائع کروائی گئی یوں دنیائے عرب وعجم میں خزانۂ رضویات سے ایک چھپا ہوا خزانہ چھپ کر منظر عام پر آیا،یہ در حقیقت شیخ طریقت امیر دعوتِ اسلامی مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ کے لگائے ہوئے اس پودے کا ثمرہ ہے جو انہوں نے دعوتِ اسلامی اور اس کے علمی وتحقیقی شعبہ المدینۃ العلمیہ کے ذریعے لگایا اور دعاؤں، شفقتوں اور حوصلہ افزائیوں سے اس کی آبیاری کی، یوں ہمیں علمی وتحقیقی کاموں کیلئے ایک مضبوط پلیٹ فارم حاصل ہوا ، اللہ کریم اس کاوش کو قبول فرمائے اور اسے علما ومحققین کیلئے نافع بنائے اور کام میں کمی کمزوری رہ گئی ہو تو اسے معاف فرمائے اور جس نے جس طرح بھی تعاون کیا اسے قبول فرمائے اور انہیں دنیا وآخرت میں اس کی بہترین جزا عطا فرمائے ، امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کے مزید چھپے ہوئے علمی خزانوں کو منظر عام پر لانے کا ذریعہ بنائے اور جو افراد اور ادارے بھی ایسے کام کررہے ہیں اللہ پاک انہیں مزید برکتیں عطا فرمائے بالخصوص دعوتِ اسلامی اور المدینۃ العلمیہ(Islamic Research Center) کو مزید ترقی وعروج عطافرمائے اور ہمیں اخلاص کے ساتھ دینِ اسلام ومسلکِ اہلسنّت کی خوب خدمت کرنے کی توفیق بخشے۔ اٰمین بجاہ محمد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم۔

(راقم مولانا آصف اقبال عطاری مدنی اور مولانا ناصر جمال عطاری مدنی کا مشکور ہے جنہوں نے اس مضمون پرنظر ثانی وتصحیح فرمائی)

محمد کاشف سلیم عطاری مدنی

14 ذیقعدہ 1443ھ/14.06.2022