شیخ الاسلام
والمسلمین ، امامِ اہلسنَّت ، اعلیٰ حضرت امام اَحمد رضا خان نَوَّرَ اللّٰہُ
مَرْقَدَہ جس طرح قراٰن و سنّت کے فقید
المثال عالم و محقِّق اور عظیم داعِی و
مبلِّغ ہیں، اِسی طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ قراٰن و سنَّت کی تعلیمات کے زبردست عامل بھی ہیں۔ اَحکاماتِ
الہٰی و شریعتِ محمدی کا حقیقی معنوں میں تابع ہونا اور آداب ِ نبوی و شمائلِ محمدی کے اِیمان اَفروز اور رُوح اَفزا جام سے سرشار ہونا مجدِّدِ اعظم ، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت کا دَرَخْشِنْدَہ
باب ہے۔ لاریب امامِ اہلسنَّت رحمۃ اللہ تعالیٰ
علیہ کثیر مَحاسن و مَحامد کے حامل ہیں، آپ رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت کے جس پہلو
پر بھی نظر کی جائے ،ہر جا سنِّتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا پَرتَو
اور فیضان دِکھائی دیتاہے۔ 10 شوال المکرَّم یومِ ولادتِ امام احمد
رضا قُدِّسَ
سِرُّہُ الْعَزِیز کی نسبت سے ذیل میں 10 اچھی عاداتِ اعلیٰ حضرت کو ذکر کیا جاتاہے۔ اللہ کریم ہمیں امامِ عشق و محبت ، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا خصوصی فیضان عطا فرمائے اور اِن کی اچھی عادات کو اپنی
طبیعت اور مزاج کا حصّہ بنانے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین
بجاہ خاتم النبیین و خاتم المعصومین
(10عاداتِ
اعلیٰ حضرت)
(1) لین دین سیدھے ہاتھ سے:اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلسنت امام اَحمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ کی یہ عادتِ مبارَکہ تھی کہ سیدھے ہاتھ سے ہی کچھ دیا اور
لیا کرتے تھے۔
چنانچہ مَلِکُ
العُلماء ، ماہرِ علمِ توقیت ،خلیفہ و تلمیذِ اعلیٰ حضرت مفتی سیِّد محمد ظفَرُ
الدین بِہاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "حیاتِ اعلیٰ
حضرت " میں تحریر فرماتے ہیں: " اگر کسی کو کوئی شئی
دینا ہوتی، اور اس نے اُلٹا ہاتھ لینے کو بڑھایا ۔(تواعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ) فوراً اپنا دستِ مبارَک روک لیتے اور فرماتے ، سیدھے ہاتھ
میں لیجئے، اُلٹے ہاتھ سے شیطان لیتا ہے۔ "([1])
ہمیں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت میں سیدھی جانب سے اچھے کام کی ابتدا کرنے کا خاص التزام نظر آتا ہے۔ چنانچہ جامعِ
حالات ، مَلِکُ العلماء علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں :"اعداد
بسم اللہ شریف "٧٨٦" عام طور سے
لوگ جب لکھتے ہیں، تو ابتدا "٧"سے کرتے ہیں۔ پھر "٨" لکھتے ہیں، اس کے بعد "٦" ۔ مگر اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ پہلے"٦" تحریر فرماتے، پھر"٨" تب "٧"۔"([2])
(2) نماز کا اِحترام :کَنْزالکرامت ، جَبَلِ اِستقامت امام
احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ نَماز کابہت اِحترام فرمایا کرتے تھے۔ موسم کی پروا کئے بغیر بہترین اور عُمدہ لباس زیبِ تن فرما کر اچھی ہیئت و
حالت میں نماز ادا فرمایا کرتے تھے ۔
چنانچہ مولوی محمد
حسین صاحب چشتی نظامی فرماتے ہیں: "اعلیٰ حضرت نے تمام عمر جماعت سے نماز
التزاماً پڑھی اور باوجودیکہ بے حد حَار مزاج تھے،مگر کیسی ہی گرمی کیوں نہ ہو، ہمیشہ دَستار (عِمامہ)اور اَنگرکھے([3]) کے ساتھ نماز پڑھا کرتے ۔ خصوصاً فرض تو کبھی صرف ٹوپی اور
کُرتے کے ساتھ ادا نہ کیا۔ اعلیٰ حضرت جس قدر احتیاط سے نماز پڑھتے تھے، آج کل یہ
بات نظر نہیں آتی۔ ہمیشہ میری دو رَکعت ان
کی ایک رکعت میں ہوتی تھی اور دوسرے لوگ میری چار رکعت میں کم سے کم چھ رکعت ،بلکہ
آٹھ رکعت۔"([4])
(3) حُسنِ اَخلاق سے پیش آنا : امامِ اہلسنت
، فارِقِ نور و ظُلمت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ احترام ِ مسلم کے
تقاضوں کو نِبھاتے ہوئے مسلمانوں میں سے ہر خاص وعام اورچھوٹے بڑ ے سے اِنتہائی خوش اَخلاقی کے ساتھ
پیش آیاکرتے تھے۔ ہر ایک کے مرتبے کے مطابق اُس کی عزت اورتعظیم بھی فرمایا کرتے
تھے۔
چنانچہ ِ"حیاتِ
اعلیٰ حضرت" میں ذکر کیا گیا ہے کہ :"(اعلیٰ حضرت ،امامِ اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ
)ہر شخص حتی کہ چھوٹی عمر والے سے بھی نہایت ہی خُلْق (ملنساری اور خوش مزاجی)کے ساتھ ملتے، آپ اور جناب سے مخاطب فرماتے اور حسبِ حیثیت اس کی توقیر و
تعظیم فرماتے۔" ([5])
(4) ظاہر و باطن یکساں : آقائے نعمت، دریائے رحمت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ نہایت شُستہ کردار کے مالک تھے۔ حضرت رضاؔ رحمۃ اللہ علیہ کی طبیعت اِس قدر سُتھری اور مزاج ایسا نِکھرا اوراُجیالا
تھا کہ ظاہر اور باطن ایک سا تھا۔ اعلیٰ
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے قول اور
فعل میں نہ تو کوئی ٹکڑاؤ تھا،نہ ہی تحقیق و فتویٰ اور
ذاتی عمل میں کوئی تضاد تھا۔
مَلِکُ العلماء علامہ ظفَرُ الدین بِہاری رحمۃ اللہ علیہ اِس تابناک حقیقت
کا اِظہار بصورتِ تحریر یوں فرماتے ہیں:"اعلیٰ حضرت امام اہلِ سنّت کی سب
صفتوں میں ایک بہت بڑی صفت جو عالِمِ باعمل کی شان ہونی چاہئے ، یہ تھی کہ آپ کا
ظاہر باطن ایک تھا۔ جو کچھ آپ کے دل میں تھا وہی زبان سے ادا فرماتے تھے، اور جو
کچھ زبان سے فرماتے، اسی پر آپ کا عمل تھا۔ کوئی شخص کیسا
ہی پیارا ہو یا کیسا ہی معزَّز ، کبھی اس کی رعایت سے کوئی بات خلاف ، شرع اور
اپنی تحقیق کے، نہ زبان سے نکالتے نہ تحریر فرماتے۔ اور رعایت ، مصلحت کا وہاں گزر
ہی نہ تھا۔"([6])
(5) علمائے اہلسنت کیلئے سراپا کرم : حامیِ سنَّت ،
ماحیِ بدعت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ علمائے اہلسنّت سے بڑی محبت فرمانے والے، انہیں
عزت و مَان دینے والے اور ان کی قدر فرمانے والے تھے۔ گویا کہ امامِ اہل سنَّت رحمۃ اللہ علیہ علمائے اہلسنَّت کے لئے رحمتوں کا بادَل اورشفقتوں کا سائبان تھے۔
چنانچہ حضرت مولانا
سیِّد شاہ اسماعیل حسن میاں صاحب کا بیان ہے کہ:" مولانا احمد رضا خان صاحب
بمضموناَشِدَّآءُ
عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ ([7])
(کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل۔ت)جس قدر کُفار و
مرتدین پر سخت تھے، اسی درجہ علمائے اہلِ سنّت کے لیے اَبرِ کرم سراپا کرم تھے۔ جب
کسی سُنّی عالِم سے ملاقات ہوتی ، دیکھ کر باغ باغ ہوجاتے ، اور ان کی ایسی عزت و
قدر کرتے کہ وہ خود اپنے کو اس کا اہل نہ خیال کرتے۔"([8])
(6) سادات کی تعظیم : عاشقِ ماہِ نبوّت ، پروانۂ شمعِ رسالت
امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ جانِ کائنات ،سیِّدُ السادات صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے نسبی تعلق رکھنے کی بناء پر ساداتِ کِرام کا بہت اَدب و اِحترام کیا کرتے تھے۔آپ
رحمۃ اللہ علیہ مختلف مواقع پر مختلف انداز میں سیِّد حضرات سے اپنی محبت و عقیدت کا اِظہار
فرماتے تھے۔اِس حوالے سے عید کے پُر مسر ت موقع پر امامِ عشق و محبت ، حضرتِ رضاؔ رحمۃ اللہ علیہ کی عادت ِ کریمہ کیا ہوا کرتی تھی ، چنانچہ خلیفۂ اعلیٰ
حضرت علامہ ظفَرُالدین بِہاری رحمۃ اللہ علیہ قلم بند فرماتے
ہیں کہ : "حضور(یعنی اعلیٰ حضرت) کا یہ معمول ہے کہ بموقع عیدَین دورانِ مُصافَحہ سب سے
پہلے جو سیِّد صاحب مُصافَحہ کرتے ہیں، اعلیٰ حضرت اس کی دست بوسی فرمایا کرتے
ہیں۔"([9])
(7) سادات پر خصوصی شفقت : عالِمِ شریعت، پیشوائے طریقت امام
احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ نیاز کی شیرینی وغیرہ دینے میں سیِّد حضرات کو دیگر مسلمانوں
پر فوقیت اور ترجیح دیا کرتے تھے ۔آپ رحمۃ اللہ علیہ دوسرے مسلمانوں کی
بہ نسبت انہیں دوگنا حصّہ دیا کرتے تھے۔
چنانچہ "حیاتِ
اعلیٰ حضرت" میں مسطور ہے کہ:"حضور (یعنی اعلیٰ حضرت) کے یہاں مجلسِ میلاد مبارَک میں
ساداتِ کرام کو بہ نسبت اور لوگوں کے دوگنا حصّہ بر وقت تقسیمِ شیرینی ملا کرتا
تھا ۔"([10])
(8) زائرِ مدینہ کا اَدب : عظیم البرکت ، عظیم المرتبت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ کو مفخرِ موجودات،سلطانِ کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے مقدَّس شہر مدینہ منوَّرہ اور وہاں
کی خاکِ شفاء سے ایسی والہانہ محبت تھی کہ جب کوئی زائرِ مدینہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس حاضر ہوتا تو آپ ا ُس کے پاؤں چوم لیا کرتے تھے۔
جناب سیِّد ایوب علی
صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان
ہے : " جب کوئی صاحب حجِ بیت اللہ شریف کرکے حضور (یعنی اعلیٰ حضرت) کی خدمت میں حاضر ہوتے، پہلا سوال یہی ہوتا کہ
سرکار ([11])میں حاضری دی؟ اگر اِثبات (یعنی "ہاں") میں جواب ملا، فوراً
ان کے قدم چوم لیتے۔ اور اگر نفی میں جواب ملا، پھر مطلق تخاطب نہ فرماتے ۔ نہ اِلتفات فرماتے۔ ایک بار ایک حاجی صاحب حاضر ہوئے ، چنانچہ حسبِ
عادتِ کریمہ یہی استفسار ہوا کہ سرکار میں
حاضری ہوئی؟ وہ آبدیدہ ہو کر عرض کرتے ہیں۔ ہاں حضور! مگر صرف دو روز قیام رہا۔ حضور
(یعنی اعلیٰ حضرت) نے قدم بوسی
فرمائی اور ارشاد فرمایا : وہاں کی تو سانسیں بھی بہت ہیں، آپ نے تو بحمداللہ دو دن قیام فرمایا۔"([12])
(9) تبلیغِ دین کا جذبہ : مجدِّدِ دین و مِلّت ، صاحبِ علم و معرفت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ ایک فقیدالمثال مفتی اور محقِّق ہونے کے ساتھ
ساتھ دینِ اسلام کے عظیم داعِی اورشاندار مبلِّغ بھی تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ تبلیغِ
دین کے معاملے میں اِس قدر سنجیدہ طبیعت
کے مالک تھے کہ اگر کسی شخص کو کوئی
خلافِ شریعت بات کرتےہوئے سُنتے یا منافیِ
شریعت کام کرتے ہوئے دیکھتے تو فوراً اُس
کی اِصلاح فرماتے۔
تلمیذِ اعلیٰ حضرت
علامہ ظفَرُ الدین بِہاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:"اعلیٰ
حضرت امام اہل سنّت قُدِّسَ سِرُّہُ الْعَزِیْز جس طرح اس اَمر پر اِعتقاد رکھتے
تھے کہ حضراتِ انبیائے کرام علیہم السلام اور حضور ِ اقدس ﷺ تبلیغ و ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے،
اور علمائے کرام وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاء(نبیوں کے وارث) ہیں ۔ اسی طرح اس
پر بھی یقینِ کامل رکھتے تھے کہ علماء کے ذمہ دو فرض ہیں، ایک تو شریعت مطہرہ پر
پورے طور پر عمل کرنا ، دوسرا فرض مسلمانوں کو ان کی دِینی باتوں سے واقف بنانا،
ان پر مطلع کرنا۔ اسی لیے جہاں کسی کو خلافِ شرع کرتے ہوئے دیکھتے ، فرضِ تبلیغ
بجا لاتے، اور اس کو اپنے فرائض میں داخل سمجھتے۔"([13])
(10) نَماز اور جماعت کی پابندی : پابندِ صلوٰۃ وسنَّت ،صاحبِ خوف و خشیت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ کو نماز اور جماعت سے بڑی محبت تھی ۔ حالتِ سفر ہو یا ایامِ حَضر، صحت کا زمانہ ہو یا علالت و
بیماری کے ایام، ہمیشہ ہی نماز اور جماعت
کی پابندی کا اِہتمام واِنصرام فرمانا آپ رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت کا روشن اور لائقِ تقلید پہلو ہے۔
چنانچہ "حیاتِ
اعلیٰ حضرت " میں ہے:" اعلیٰ
حضرت قُدِّسَ
سِرُّہُ الْعَزِیْز حضر و سفر، صحت و علالت ہر حال
میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا ضروری خیال فرماتے تھے۔ خود ارشاد فرمایا کرتے:
"مَرد وں کی
نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں ہونی چاہیے
،عورتوں کی نماز علیٰ حدہ گھر میں ہوتی ہے۔"
سفرکی حالت میں مسجد
میں جا کر سب نمازوں کو ادا کرنا دشوار ہے، خصوصاً لمبے سفر
میں۔ تاہم اعلیٰ حضرت جماعت سے نماز ادا کرنے کو ضروری خیال فرماتے ، اور اس پر
سختی سے عامل تھے۔ اگر کسی گاڑی سے سفر کرنے میں اَوقاتِ نماز اسٹیشن پر نہیں ملتا ، تو اس گاڑی
پر سفر نہیں کرتے، دوسری گاڑی اختیار فرماتے، یا نماز باجماعت کے لیے اسٹیشن پر
اُتر جاتے، اور اس گاڑی کو چھوڑ دیتے ، اور نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد جو گاڑی
ملتی ، اس سے بقیہ سفر پورا فرماتے۔"([14])
جلوہ ہے نور ہے کہ سراپا رضا کا ہے
تصویرِ سُنّیت ہے کہ چہرہ رضا کاہے
وادی رضا کی ، کوہِ ہِمالہ رضا کا ہے
جس سمت دیکھیےوہ علاقہ رضا کا ہے
گر
قبول اُفتد زہے عزّو شرف
شوال
المکرَّم 1443ھ،بمطابق مئی 2022ء
سگِ
درگاہِ اعلیٰ حضرت
ابوالحقائق
راشدعلی رضوی عطاری مدنی
[1] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/189،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
[2] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/189،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
[3] : اچکن کی وضع کا ایک بر کا لباس جسے گھنڈی کے ذریعے گلے کے پاس جوڑ دیتے
ہیں۔
[4] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/197-198،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
[5] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/198،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
[6] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/210،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
[7] : پ26،الفتح:29۔
[8] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/216-217،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
[9] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/224،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
[10] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/226،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
[11] : سرکار کون ہیں؟ "سرکار" سے اعلیٰ حضرت رحمۃا للہ تعالیٰ علیہ کی مراد سرکارِ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ
واٰلہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے۔ چنانچہ یہی سیِّد ایوب
علی صاحب بیان فرماتے ہیں:"اعلیٰ حضرت بجائے عدالت کے کچہری کا
لفظ استعمال فرمایا کرتے۔ کسی صاحبِ علاقہ یا رؤسا یا اُمرا میں سے کسی کو کوئی سرکار کہتا
، تو کبیدہ خاطر ہوتے، اور فرماتے کہ سرکار نہ کہیے۔سرکار صرف
سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں۔" (حیاتِ اعلیٰ
حضرت،1/350،برکاتی پبلشرز، کراچی)
[12] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/237،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
[13] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/329،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔
[14] : حیاتِ اعلیٰ حضرت،1/412،برکاتی پبلشرز،
کراچی۔