علمائے اسلام  اور مسلمانانِ عالَم کا قدیم زمانے سے یہ قابلِ تحسین اور لائقِ تقلید طریقہ چلا آرہا ہے کہ جب بھی سیِّدِ کائنات صلی اللہ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر دُرود شریف پڑھتے ہیں تو اِس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کی مبارَک آل اور پیارے اَصحاب رضوانُ اللہ علیھم اَجمعین پر بھی دُرود و سلام بھیجتے ہیں۔یقیناً یہ خوبصورت انداز عقیدے کی درستی اور پختگی کی علامت ہے ؛کہ اِس طرز پر درود و سلام پڑھنے والے کو سرورِ دوعالَم، حُسنِ مجسَّم ،شفیعِ معظَّم صلی اللہ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کے تمام صحابہ اور جمیع اہلِ بیت سے عقیدت و محبت ہے،جو کہ ایمان کےلئے انتہائی ضروری ہے۔

علمائے اسلام نے تعظیمِ رسول کی علامات میں اِس بات کو بھی ذکر فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کے صحابہ اور اہلِ بیت سے محبت و عقیدت رکھی جائے اور ان حضرات کا ادب و احترام کیا جائے۔چنانچہ امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیفِ لطیف "شفاء شریف " میں اہلِ بیت اَطہار کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

" وَمِنْ تَوْقِیْرِہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَبِرِّہِ بِرُّ آلِہِ ذُرِّیَّتِہِ وَاُمَّھَاتِ الْمُؤْمِنِیْنَ اَزْوَاجِہِ۔"یعنی،سرکارِ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کی تعظیم و توقیر میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کی آل، اَولاد اور اَزواج ( یعنی اُمہاتُ المؤمنین) کی تعظیم و توقیر کی جائے۔([1])

اور اِسی "شفاء شریف" میں آپ رحمۃ اللہ علیہ صحابۂ کرام کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:

" وَمِنْ تَوْقِیْرِہِ وَبِرِّہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوْقِیْرِ اَصْحَابِہِ وَبِرُّھُمْ وَ مَعْرِفَۃُ حَقِّھِمْ وَ الْاِقْتِدَاءُ بِھِمْ وَحُسْنُ الثَّنَاءِ عَلَیْھِمْ۔" یعنی،سرورِ ذیشان صلی اللہ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کی تعظیم و توقیر میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کے صحابۂ کرام کی تعظیم و توقیر کی جائے،ان کے حق کو پہچانا جائے، ان کی اقتدا اور پیروی کی جائے اور ان کی مدح و ثنا کی جائے۔([2])

ان کے مَولیٰ کی اُن پر کروڑوں درود اُن کے اَصحاب وعِترَت پہ لاکھوں سلام([3])

محبتِ صحابہ و اہلِ بیت کا دُرست معنی:

یہاں ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ نبیِ کریم ،رسولِ عظیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کے مقدَّس صحابہ اور پیارے اہلِ بیت کی محبت سے مراد یہ ہے کہ ان حضرات میں سے ہر ایک سے محبت رکھی جائے ۔معاذاللہ! صحابہ یا اہلِ بیت میں سے کسی ایک فرد سے بھی بغض ونفرت رکھنا انتہائی ہلاکت خیز اور دُنیاو آخرت میں نقصان و خُسران کا باعث ہے اور یہ اِس بات کی بھی دلیل ہے کہ ایسے شخص کو دیگرصحابہ واہلِ بیت سے بھی سچی اور ایمانی محبت نہیں ہے؛کیونکہ اِن تمام تر نفوسِ قُدسیہ سے محبت اِ ن کی ذات کی وجہ سے نہیں ہے ،بلکہ ذاتِ مصطفٰے صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم سے تعلّق اور نسبت رکھنے کی وجہ سے ہے۔

لفظِ "صحابہ" صحابی کی جمع ہے،جس کا لفظی معنیٰ ہی "صحبت میں رہنے والا " اور " رفیق وساتھی "ہےاورمسلمانوں کا ہر سمجھدار بچہ بھی جانتاہے ہے کہ جماعتِ صحابہ پر لفظِ"صحابہ" کا اطلاق صحبتِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کی وجہ سے ہی کیا جاتاہے۔بالفاظِ دیگر صحابی کو صحابی ،صحبت و نسبتِ رسول صلی اللہ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کی وجہ سے ہی کہتے ہیں۔اِسی طرح "اہلِ بیت" کا لفظی معنیٰ ہی "گھر والے" ہے اور ہر مسلمان جانتا ہے کہ اہلِ بیت کو رسولِ کریم ،نبیِ عظیم صلی اللہ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کےمقدّس گھرانے اور خاندان سے ہونے کی وجہ سے ہی "اہلِ بیت" کہا جاتاہے۔ "اہلِ بیت" یعنی گھر والے، کس کے گھر والے ؟ جانِ کائنات ، مفخرِ موجودات صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کے گھر والے۔

چونکہ ذاتِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم سے تعلّق اور نسبت ہر صحابی اور اہلِ بیت کے ہر فرد ہی کو حاصل ہے، لہذا ان میں سے ہر ایک سے عقیدت و محبت رکھنا اور ہر ہر موقع پر اس محبت کا اظہار کرنا بھی ضروری ہے۔

چنانچہ اعلیٰ حضرت، مجدِّدِ اعظم امام اَحمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اِسی حقیقت کا بیا ن یوں فرماتے ہیں:وَلَیْسَ حُبُّ الصَّحَابَۃِ لِذَوَاتِھِمْ، وَلَا حُبُّ اَھْلِ الْبَیْتِ لِاَنْفُسِھِمْ، بَلْ حُبُّھُمْ جَمِیْعاً لِوُصْلَتِھِمْ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ، فَمَنْ اَحَبَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ وَجَبَ اَنْ یُحِبَّھُمْ جَمِیْعاً ، وَمَنْ اَبْغَضَ بَعْضَھُمْ ثَبَتَ اَنَّہُ لَایُحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ۔ یعنی، صحابۂ کرام سے محبت اُن کی ذات کی وجہ سے نہیں ہے، اور اہلِ بیت کی محبت اُن کی اپنی جانوں کی وجہ سے نہیں ہے ، بلکہ ا ن تمام افراد سے محبت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم سے تعلّق اور نسبت رکھنے کی وجہ سے ہے ۔لہذا جو شخص نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم سے محبت کرتاہے تو اُس پر واجب ہے کہ اِ ن تمام حضرات (سارے ہی صحابہ و اہلِ بیت)سے محبت رکھے۔اور جو شخص اِن حضرات(صحابہ و اہل ِبیت ) میں کسی سے ایک سے بھی بُغض رکھے تو ثابت ہوجائے گا کہ ایسا شخص رسولِ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم سے بھی محبت نہیں رکھتا۔ ([4])

اہلِ سُنّت کا ہے بیڑا پار اَصحابِ حضور نَجم ہیں اور ناؤ ہے عِتْرت رسول اللہ کی([5])

ربِّ کریم عزوجل اپنے رسولِ ذیشانصلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ و صحبہ وسلم کے تمام ہی صحابہ و اہلِ بیت کی سچی ،شرعی اور ایمانی محبت پر ہمیں استقامت عطا فرمائے اور ہر ہر موقع پر اپنے قول و فعل سے اِس محبت کا اظہار کرتے رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بِجاہ ِطٰہٰ ویٰس

ازقلم: ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی



([1])۔۔:شرح الشفاء،فی تعظیم امرہ وجوب توقیرہ وبرہ۔۔،ج2،ص81،دارالکتب العلمیہ۔

([2])۔۔:شرح الشفاء،فی تعظیم امرہ وجوب توقیرہ وبرہ۔۔،ج2،ص89،دارالکتب العلمیہ۔

([3])۔۔:حدائق ِ بخشش،ص308۔

([4])۔۔:المعتقد المنتقد مع حاشیۃ المعتمد المستند،ص264،دارالفقیہ۔

([5])۔۔:حدائق ِ بخشش،ص153۔