ہرصاحبِ ایمان شخص اللہ پاک سےمحبت کا دم بھرتااور اس کی دوستی و کرم نوازی کا متلاشی رہتا ہے، مگر یہ دوستی اُسی خوش قسمت مسلمان کے حصے میں آتی ہےجس کو وہ اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ اور جنہیں ربِّ کریم اپنادوست بنالےتو ان  کا ذکر اس دنیا سے جانے کے بعد بھی باقی رہتا ہے، ایسے لوگوں کو اولیاء اللہ کہتے ہیں۔اولیائے کرام کے شب و روز اللہ پاک کی اطاعت و فرمانبرداری والے کاموں میں بسر ہوتے ہیں اور ان نفوسِ قدسیہ کا دامن گناہوں کی آلودگیوں سے صاف و شفاف رہتا ہے،اسی لئےاللہ پاک انہیں دیگر فضائل و کما لات و اختیارات عطا فرمانے کے ساتھ ساتھ نہ صرف انہیں پنا قربِ خاص عطافرماتا ہے بلکہ ان کے سروں پر اپنی ولایت کا روشن تاج سجا کردنیا میں انہیں ”کرامات“ اور آخرت میں جنت جیسی عظیم الشان نعمت انعام کی صورت میں عطافرماتا اور اپنی رضا کے تمغۂ امتیاز سے نوازتا ہے۔ انہی خوش نصیب اولیاء کرام کی فہرست میں دوسری صدی کی عظیم شخصیت حضرت سیدنا عبداللہ شاہ غازی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جن کےفیضان سے آج بھی بالخصوص کراچی اور بالعموم پاکستان بھر کے عاشقان رسول فیضیاب ہو رہے ہیں،اسی مناسبت سے آج حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت کے حوالے سے کچھ تحریر کرنے کی سعادت حاصل کررہاہوں ۔

سیرت و تعارف

٭حضرت سیدعبد اللہ شاہ غازی الاشتر 98ھ میں اس دنیا میں جلوہ گر ہوئے۔٭حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی نے مدینَۂ منورہ میں آنکھ کھولی۔٭ حضرت عبداللہ شاہ غازی کا تعلق اہل بیت اطہار کے گھرانے سے ہے۔٭ آپ کےوالد صاحب کا نام حضرت سید محمدنفس ذکیہ تھا جوکہ امام حسن رضی اللہ عنہ کے پوتے تھے ۔٭حضرت سیدعبداللہ شاہ غازی حسنی حسینی سیِّد ہیں آپ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں مولاعلی شیر خدا کر م اللہ وجہہ الکرم سے ملتاہے٭آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے والد صاحب کے زیرِ سایہ مدینۂ منورہ میں ہی ہوئی۔ ٭ آپ علمِ حدیث میں ماہر تھے۔ ٭ آپ میں علم کے جو ہر موجو د تھے، آپ نے اپنے علم کی روشنیوں سے کئی لوگوں کو منوّر کیا۔٭آپ سندھ میں 12 برس تک اسلام کی تبلیغ میں مشغول رہے اور مقامی آبادی کے سینکڑوں لوگوں کو اسلام سےمشرف کیا۔ ٭آپ نہایت عابدو زا ہد ،متقی ،بلند ہمت،دِین کا درد رکھنے والے اور لوگوں پر انتہائی شفیق اور مہربان تھے۔٭آپ کا شمار تابعین یاتبع تابعین میں ہوتا ہے۔٭آپ کے اخلاقِ کریمانہ سے بہت سے لوگ متأثر ہوکر دائرہ اسلام میں دخل ہوئے۔ ٭اندرونِ سندھ پاکستان میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کی آمد دوسری ہجری میں ہوئی۔ ٭حضرت سیدعبداللہ شاہ غازی سندھ میں داخل ہونے والے پہلے سادات گھرانے کے بزرگ و مبلغ تھے۔٭20ذُوالحجۃُ الحرام151 میں آپ شہید ہوئے۔٭کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن میں آپ کا مزارِ پُر انوار اپنی برکتیں لُٹارہا ہےاور اپنی نورانیت اور برکت سے اس شہر کو خصوصاً اور پورے پاکستان کو عموماً اپنی رحمت میں لیے ہوئے ہے۔٭آپ کے مزار پر انوار پر آنے والے زائرین کو دلی سکون حاصل ہوتاہے ا ور مرادیں پوری ہوتی ہیں ۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کا اکثر راہ خدا میں جہاداور دین اسلام کی تبلیغ سر بلندی کے لئے گزرا اسی وجہ سے آپ کا ایک لقب غازی ہے،آپ رحمۃ اللہ علیہ 760 عیسوی میں 400 افرا د کے قافلے پر مشتمل لوگوں کے ساتھ سندھ میں تشریف لائےاگر یہ کہا تو بے جا نہ ہوگا کہ خطہ سندھ کو یہ شرف حاصل ہےکہ حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمۃ اللہ علیہاہل بیت کے وہ پہلے فرد ہیں جنہوں نے سندھ کی دھرتی کو اپنے قدموں کی برکت سے نوازا ا ور یہاں لوگوں کو کفرو شرک کی ناپاکیوں سے نکال کر اسلام کی روشن تعلیمات سے آگاہ کیا اور رب کریم کی وحدانیت اور اس کے پیارے رسول کی سنتوں کا عاشق بنایا۔

کرامت :

آپ رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت کی کتابوں میں آپ کی مشہور کرامات میں سے ایک کرامت جو آج بھی آپ کے مزار پر انوار کے پہلو میں ہے وہ میٹھے پانی کا کنواں ہے ۔جس کے بارے میں مشہور یہ ہے کہ جب آپ کو شہید کیا گیاتو آپ کےمریدین آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پرانوار کے پاس رہےکہیں دشمن آپ کے جسم مبارک کو نکال کر نہ لے جائیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار اونچائی پر تھا اس لئے مریدوں کو پانی لینے جانے میں پریشانی تھی تو مریدین نے آپ کے وسیلے سےعاجزی و انکساری کے ساتھ اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا کی،توایک مرید کےخواب میں آپ رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے اور دعا کی قبولیت کی خوشخبری دی کہ اللہ کریم نے تمہاری دعا قبول فرمالی اور آپ کے مزار پرانوار کے پاؤں کی جانب سے ایک میٹھےپانی کا کنواں جاری ہوگیا،آج بھی اس کنواں کے پانی سے ہزاروں لوگ سیراب ہوتے ہیں اور کئی بیماروں کو شفا نصیب ہوتی ہے،کئی غم زدوں کو راحت نصیب ہوتی ہے ۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی 20 جولائی 2022 بمطابق 20 ذوالحجۃ الحرام سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کا1292واں عرس مبارک شروع ہورہا ہے بالخصوص کراچی،پاکستان کےدیگر شہروں اور بالعموم دنیا بھر سے کثیر عاشقان اولیاء آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر انوار پر حاضری دے کر اپنی روحانیت کو مضبوط کرتے ہیں ،اپنے مَن کی مرادیں پاتے ہیں اور عرس مبارک میں شریک ہوکر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں ایصال ثواب پیش کرتے ہیں،الحمدللہ !عالم اسلامی کی دینی تحریک دعوت اسلامی کے شعبے مزارات اولیاء کے تحت عرس میں شریک ہونے کی والوں کی تربیت اور اصلاح کا خاص اہتمام ہوتا ہے اور آپ کے مزار پر انوار پر تلاوت قرآن ، نعت خوانی، فاتحہ اور ایصال ثواب کاسلسلہ ہوتاہے ،22 جولائی 2022ء کو بعد نمازِ مغرب مزارِ مبارک پر عرس کی اختتامی تقریب دعوتِ اسلامی کے زیرِ انتظام منعقد کی جائے گی جس میں ترجمان دعوتِ اسلامی و مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن مولانا حاجی عبدالحبیب عطاری سنتوں بھرابیان فرمائیں گے جبکہ ثناخوان حضرات عقیدت کے پھول نچھاور کریں گے۔ یہ محفلِ نعت مدنی چینل پر براہِ راست نشر بھی کی جائے گی۔ آپ بھی حضرت عبداللہ شاہ غازی کے عرس کے سلسلے میں اپنے اپنے گھروں میں فاتحہ اور ایصال ثواب کا اہتمام کیجئے ۔اللہ کریم ہمیں اولیاء کرام کے فیضان سے مالا مال فرمائے اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین متین کی خدمت کرنےکی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

از: مولانا عبدالجبار عطاری مدنی

اسکالر:المدینۃ العلمیہ(اسلامک ریسرچ سینٹر)


امام اہل سنت اعلحضرت  کے بیشمار خلفاء تھے جو برصغیر اور حرمین شریفین اور دیگر بلاد تک پھیلے ہوئے تھے رسالہ اَلإجَازاتُ المَتِیْنَة لِعُلَمَاءِ بَكَّة وَالْمَدِیْنَة کے سرسری مطالعے سے آپ کے خلفاء کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے آپ کے متعین خلفاء کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے تاہم انہی میں سے ایک محدث مغرب حضرت علامہ عبد الحی بن عبد الکبیر الکتانی رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی ہیں۔

آپ اپنے وقت کے بہت بڑے محدث ، فقیہ ، مؤرخ ، مصنف، شاعر ، عظیم مبلغ اور سلسلہ کتانیہ کے پیشواتھے آپ کو تفسیر ، حدیث ، فقہ ، اصول فقہ، تصوف، تاریخ اور لغت پر مکمل عبور حاصل تھا تاہم خاص شغف علم حدیث و اسماء الرجال میں تھا آپ کی مشہور و معروف کتب ’’فھرس الفھارس ‘‘ اور ’’التراتیب الاداریة ‘‘ ہیں۔ آپ کو پانچ سو ( 500 ) سے زائد مشائخ سے اکتساب فیض اور اجازت و خلافت کا شرف حاصل ہے ۔

آپ اس لحاظ سے انفرادی حیثیت رکھتے ہیں کہ عرب میں امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ نے جس عظیم محدث کو سب سے پہلے شرف خلافت و اجازات سے نوازا وہ آپ کی ہی ذات گرامی تھی ۔

امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ سے محدث مغرب کی ملاقات مکہ مکرمہ میں 1323ھ بمطابق 1905ء کو ایام حج کے دوران ہوئی اس ملاقات میں امام اہل سنت نے اجازت عامہ فی السلوک کی اجازت طلب کرنے پر دی ۔

امام اہل سنت آپ کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :محدث المغرب، جلیل المنصب،السید الفاضل العالم الکامل مولانا السید عبدالحی ابن السید الکبیر الشریف عبد الکبیر الکتانی الفاسی۔(اَلإجَازاتُ المَتِیْنَۃ لِعُلَمَاءِ بَكَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃ، ص: 6 )

مزید دوسری جگہ ارشاد فرمایا:المحدث الفاضل ،العالم الکامل، السید النسیب، الحسیب الاریب، مجمع الفضائل، مبنع الفواضل مولانا السید الشیخ محمد عبدالحی ابن الشیخ الکبیر السید عبد الکبیر الکتانی الحسنی الادریسی الفاسی محدث الغرب بل محدث العجم والعرب انشاء الربث۔( اَلإجَازاتُ المَتِیْنَة لِعُلَمَاءِ بَكَّة وَالْمَدِیْنَة ،ص: 17 )

امام اہل سنت کا القاب سے ذکر کرنا محدث مغرب کی علمیت و جلالت کا ظہور ہے ۔

مزید یہ کہ محدث مغرب رحمۃ اللّٰہ علیہ امام اہل سنت کی علمی وجاہت اور روحانی شخصیت سے اس قدر متأثر ہوئے کہ زندگی بھر ان کا تذکرہ ادب و احترام سے کرتے رہے یہی جھلک آپ کی تحریروں میں بھی نظر آتی ہے ،آپ نے امام اہل سنت کا تذکرہ انتہائی عقیدت و احترام اور القاب سے کیا جیسا کہ اپنی کتاب’’الاجوبة النبعة عن الاسئلة الاربعة‘‘ میں امام اہل سنت کے بارے میں ارشاد فرمایا : صاحب التألیف العیدیدۃ العلامة الکبیر الشھاب احمد رضا علي خان البریلوي الھندي۔( الاجوبة النبعة عن الاسئلة الاربعة ص 70 )

اسی طرح دوسری جگہ مسلسل بالاولیہ کا ذکر کرتے ہوئے ’’ فھرس الفھارس‘‘ میں ان القاب سے ذکر خیر کیا : وحدثنا به الفقیه المسند الصوفی الشھاب احمد رضا علي خان البریلوي الھندي و ھو اول حدیث سمعته منه بمکة۔( فھرس الفھارس ، ج: ،1 ص: 86 )

علامہ کتانی نے اپنی کتاب ’’ اداء الحق الفرض الذین یقطعون ما امر الله به ان یوصل و یفسدون فی الارض ‘‘ میں اپنے بعض مشائخ کا تذکرہ کرتے ہوئے امام اہل سنت کا بھی ذکر خیر فرمایا ۔ یہ کتاب ابھی طبع تو نہیں ہوئی البتہ مخطوط سے امام اہل سنت کا تعارف علیحدہ طور پر مکتبہ دار الامام یوسف النبھانی سے ’’ ترجمہ امام اہل السنہ احمد رضا خان البریلوي‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں طبع ہوچکا ہے ۔

شیخ کتانی نے امام اہل سنت کی خدمات کا ذکر اپنی کتاب ’’ الیواقیت الثمینة فی الاحادیث القاضیة ‘‘ میں کیا اور’’ المباحث الحسان المرفوعة الی قاضی تلسمان‘‘ میں امام اہل سنت کو بطور شیخ تصوف ذکر کیا ۔( المباحث الحسان المرفوعة الی قاضی تلسمان، ص: 252)

الله پاک ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین

حوالہ جات

خلیفہ امام اہل سنت شیخ سید عبدالحی الکتانی ادریسی حسنی فارسی رحمۃ اللّٰہ علیہ (مخلصاً )،فھرس الفھارس، المباحث الحسان المرفوعة الی قاضی تلسمان،الاجوبة النبعة عن الاسئلة الاربعة،الإجازات المتینة لعلماء بكَّة وَالمدینة

از: قلم

احمدرضا مغل،16 شعبان المعظم 1443

بمطابق 20 مارچ 2022،بروز اتوار


سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کا تعارُف:

حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام اللہ پاک کے برگزیدہ رسول ہیں۔ آپ کا لقب ’’خطیب الانبیاء‘‘ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام اپنی قوم کو انتہائی اچھے طریقے سے دین کی دعوت دیتےتھے۔ نیز اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کا تذکرہ کرتے تو ارشاد فرماتے: ’’وہ خطیب الانبیاء تھے۔‘‘(نوادر الاصول، الاصل الثالث و الستون والمائتان،۶/ ۲۰۶، تحت الحدیث:۱۴۰۸) حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام جَلیلُ القدر رسول حضرت سیِّدُنا موسیٰ کَلِیْمُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام کے سسر اور حضرت سیِّدُنا ابراہیم خَلِیْلُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد میں سے ہیں۔

سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کے اوصاف:

اوصاف:(1)حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام اپنی قوم میں انتہائی امانت دار شخص کی حیثیت سے معروف تھے، اسی لئے توحید ورسالت کی دعوت دیتے وقت آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے قوم سے فرمایا:اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۷۸) ۱۹، الشعراء: ۱۷۸) ترجمۂ کنزالایمان: بےشک میں تمہارے لئے اللہ کا امانت دار رسول ہوں۔ (2)دیگر انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی طرح حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے بھی بےلوث ہو کر اور صرف رضائے الٰہی کے حصول کے لئے توحید و رسالت کی دعوت دی۔ چنانچہ قوم سے فرمایا:وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ(۱۸۰)۱۹، الشعراء: ۱۸۰) ترجمۂ کنزالایمان: اور میں اس (تبلیغ) پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔

سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد:

قرآنِ کریم میں حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی دو شہزادیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک حضرت سیِّدُنا موسیٰ کَلِیْمُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام جیسے جَلیلُ القدر اور اُولُوا الْعَزم رسول کے نکاح میں آئیں۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

قَالَ اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَتَیَّ هٰتَیْنِ ۲۰، القصص:۲۷)

ترجمۂ کنزالایمان: کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دونوں بیٹیوں میں سے ایک تمہیں بیاہ دوں۔

سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم:

اللہ پاک نے حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کو دو قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجا:(1)اہْلِ مدین اور (2) اَصْحَابُ الْاَیْکَہ۔(روح المعانی، الاعراف، تحت الایة:۸۵،جزء۸، ۴/ ۵۷۵) مدین: سے مراد وہ شہر ہےجس میں رہنے والوں کی طرف حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کو رسول بنا کر بھیجا گیا۔(روح المعانی، ھود، تحت الایة:۸۴،جزء۱۲، ۶/ ۴۳۰) اَصْحَابُ الْاَیْکہ: جنگل اور جھاڑی کو ’’ایکہ‘‘ کہتے ہیں، ان لوگوں کا شہر چونکہ سرسبز جنگلوں اور مرغزاروں کے درمیان تھا اس لئے انہیں قرآن پاک میں’’اَصْحَابُ الْاَیْکَہ‘‘ یعنی جھاڑی والے فرمایا گیا۔ یہ شہر، مدین کے قریب واقع تھا۔ (خازن، الحجر، تحت الایة:۷۸، ۳/ ۱۰۷۔ جلالین، الشعراء، تحت الایة:۱۷۶، ص ۳۱۵)

قوم کو نیکی کی دعوت:

مدین کے رہنے والے لوگ کفر و شرک، بت پرستی اور ناپ تول میں کمی کرنے جیسے بڑے گناہوں میں مبتلا تھے۔ حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے انہیں احسن انداز میں توحید و رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی اور ناپ تول میں کمی کرنے اور دیگر حقوق العباد تلف کرنے سے منع فرمایا۔ عرصہ دراز تک وعظ و نصیحت کے باوجودصرف چند افراد ہی ایمان لائے اور دیگر افراد کو قوم کے سرداروں نے قوم کو معاشی بدحالی سے ڈرا دھمکا کر ایمان قبول کرنے سے روکے رکھا۔ (ابو سعود، الاعراف، تحت الایة:۹۰، ۲/ ۲۷۶۔روح البیان، الاعراف، تحت الایة:۹۰، ۳/ ۲۰۳ ملخصًاو ملتقطًا)

اہْلِ مدین کے گناہ اور بُرائیاں:

قرآنِ پاک میں اہْلِ مدین کے درج ذیل گناہوں کا تذکرہ ہے: (1) اللہ پاک کی وحدانیت کا انکار۔ (2)بتوں کی پوجا کرنا۔ (3)نعمتوں کی ناشکری۔ (4)ناپ تول میں کمی۔ (5)لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے دینا۔ (6)زمین میں فساد پھیلانا۔ (7)لوگوں کو اذیت دینے کے لئے راستوں میں بیٹھنا۔ (8)لوگوں کو اللہ پاک پر ایمان لانے سے روکنا۔ (9)لوگوں کو حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام سے دور کرنے کی کوشش کرنا۔ (10)حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کو جھٹلانا۔ (11)نبی کو اپنے جیسا بشر کہنا۔(12 تا 15)نماز پڑھنے والوں اور اہْلِ علم پر طنز کرنا، اپنی بڑائی جتانا اور اہْلِ ایمان کو حقیر جاننا۔۸، ۹، الاعراف: ۸۵ تا ۹۳۔ پ ۱۲، ھود: ۸۴ تا ۹۵۔ پ ۱۹، الشعراء: ۱۷۶ تا ۱۹۰ ملخصًا)

ناپ تول میں کمی کرنے پر قرآنی وعید:

اللہ رَبُّ الْعٰلَمِیْن قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ٘ۖ(۲)وَاِذَاكَالُوْهُمْ اَوْوَّزَنُوْهُمْ یُخْسِرُوْنَؕ(۳) اَلَایَظُنُّ اُولٰٓىٕكَ اَنَّهُمْ مَّبْعُوْثُوْنَۙ(۴)لِیَوْمٍ عَظِیْمٍۙ(۵) یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ(۶) ۳۰، المطففین:۱ تا ۶)

ترجمۂ کنزالایمان: کم تولنے والوں کی خرابی ہے وہ کہ جب اوروں سے ماپ(ناپ) کر لیں پورا لیں اور جب انھیں ماپ یا تول کر دیں کم کر دیں کیا ان لوگوں کو گمان نہیں کہ انھیں اٹھنا ہے ایک عظمت والے دن کے لیے جس دن سب لوگ ربُّ الْعٰلَمِیْن کے حضور کھڑے ہوں گے۔

تفسیر خزائن العرفان:

(سورۂ مُطَفِّـفِیْن کا) شانِ نزول :رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم جب مدینہ طیبہ تشریف فرما ہوئے تو یہاں کے لوگ پیمانہ میں خیانت کرتے تھے، بالخصوص ایک شخص ابو جہینہ ایسا تھا کہ وہ دو پیمانے رکھتا تھا لینے کا اور دینے کا اور ان لوگون کے حق میں یہ آیتیں نازل ہوئیں اور انہیں پیمانے میں عدل (انصاف) کرنے کا حکم دیا گیا۔ (خزائن العرفان، سورۂ مُطَفِّـفِیْن)

تفسیر نور العرفان:

مشہور مفسر، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ’’کم تولنے والوں کے لیے خرابی ہے‘‘ کے تحت فرماتے ہیں:دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، دنیا میں لوگوں کی گالیاں کھاتا ہے، اس کا اعتبار اٹھ جاتا ہے کم تولنے سے تجارت کا فروغ نہیں ہوتا، رزق میں بےبرکتی ہوتی ہے، آخرت میں اس کا یہ گناہ معاف نہ ہوگا کیونکہ اس نے بندے کا حق مارا۔ نیز حرام رزق سے دل سیاہ، خیالات خراب، نیک اعمال برباد ہوتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ کم تولنے والا تاجر، چور، ڈاکو سے بدتر ہے کیونکہ یہ ترازو کے ذریعہ سے چوری کرتا ہے حالانکہ ربّ (کریم) نے ترازو عدل کے لئے اتاری تھی گویا کہ یہ شریف بدمعاش ہے، کھلے مجرم سے چھپا مجرم زیادہ خطرناک ہے۔(نورالعرفان، پ۳۰، سورۂ مطففین، تحت الآیہ:۱)

ناپ تول میں کمی کرنے پر حدیث میں وعید:

حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ناپ تول کرنے والوں سے ارشاد فرمایا: ’’تم دو ایسی چیزوں کے ذمہ دار بنائے گئے ہو جن کی وجہ سے تم سے پہلی امتیں ہلاک ہو چکی ہیں (یعنی ناپ تول میں کمی کی وجہ سے)۔‘‘(ترمذی، کتاب البیوع، باب ماجآء فی المکیال والمیزان، ۳/ ۹، حدیث:۱۲۲۱)

حضرت سیِّدُنا نافع رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاایک بیچنے والے کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’ اللہ پاک سے ڈر اور ناپ تول پورا پورا کر! کیونکہ کمی کرنے والوں کو میدانِ محشر میں کھڑا کیا جائے گا یہاں تک کہ ان پسینہ ان کے کانوں کے نصف تک پہنچ جائے گا۔‘‘(بغوی، المطففین، تحت الآیة:۳، ۴/ ۴۲۸)

نافرمانی پر قوم کا انجام:

جب ان لوگوں کے ایمان لانے کی کوئی صورت نہ رہی تو حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی دعا کے بعد اللہ پاک نے انہیں ایک ہولناک چیخ اور زلزلے کے عذاب سے تباہ و برباد کر دیا۔(ابو سعود، الاعراف، تحت الایة:۹۱، ۲/ ۲۷۶)

قرآن مجید میں ان کے عذاب کو مختلف مقام پر بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ

(1)……سورۂ اعراف میں ہے:

فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْافِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۚۖۛ(۹۱)۹، الاعراف:۹۱)

ترجمۂ کنزالایمان: تو انھیں زلزلے نے آ لیا تو صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے ۔

(2)……سورۂ ہود میں ہے:

وَاَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُواالصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْافِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۙ(۹۴) كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَاؕ-اَلَا بُعْدًا لِّمَدْیَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ۠(۹۵)۱۲، ھود:۹۴، ۹۵)

ترجمۂ کنزالایمان: اور ظالموں کو چنگھاڑ نے آ لیا توصبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے گویا کبھی وہاں بسے ہی نہ تھے ارے دور ہوں مدین جیسے دور ہوئے ثمود۔

(3)…… سورۂ عنکبوت میں ہے:

فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ٘(۳۷) ۲۰، العنکبوت:۳۷)

ترجمۂ کنزالایمان: تو اُنھوں نے اُسے جھٹلایا تو اُنھیں زلزلے نے آ لیا تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے۔

مردوں سے خطاب:

حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام قوم کی ہلاکت کے بعد ان کی نعشوں کے پاس سے گزرے تو ان سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے میری قوم! بےشک میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیئے اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم کسی طرح ایمان نہ لائے اور جب تم خود ہی کفر پر قائم رہ کر اپنے آپ کو تباہ وبرباد کرنے پر تُل گئے تو میں کافروں کی ہلاکت پر کیوں غم کروں۔(صاوی، الاعراف، تحت الایة:۹۳، ۲/ ۶۹۴) قرآن پاک میں ہے:

فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَكُمْۚ-فَكَیْفَ اٰسٰى عَلٰى قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ۠(۹۳) ۹، الاعرف:۹۳)

ترجمۂ کنزالایمان: تو شعیب نے ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہارے بھلے کو نصیحت کی تو کیوں کر غم کروں کافروں کا۔

تفسیر صراط الجنان:

کفار کی ہلاکت کے بعد حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے ان سے جو کلام فرمایا ا س سے معلوم ہو اکہ مردے سنتے ہیں۔ حضرت سیِّدُنا قتادہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں: ’’اللہپاک کے نبی حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنی قوم کو سنایا، بے شک اللہ پاک کے نبی حضرت سیِّدُنا صالح عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنی قوم کو سنایا اور اللہ پاک کی قسم! رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے اپنی قوم کو سنایا۔ (تفسیر ابن ابی حاتم، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۳، ۵ / ۱۵۲۴)

مُردوں کے سننے کی قوت سے متعلق بخاری شریف میں ہے: جب ابوجہل وغیرہ کفار کو بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا تو اس وقت رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے ان سے خطاب فرمایا: فَهَلْ وَجَدْتُّـمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَـقًّا یعنی توکیا تم نے اس وعدے کو سچا پایا جو تم سے تمہارے رب نے کیا تھا؟ حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عرض کی: یا رسولَ اللہصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ! آپ ایسے جسموں سے کلام فرما رہے ہیں کہ جن کے اندر روحیں نہیں۔ ارشاد فرمایا:وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ مَا اَنْتُمْ بِاَسْمَعَ لِمَا اَقُوْلُ مِنْہُمْ یعنی : اس ذات کی قسم ! جس کے قبضے میں محمد (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) کی جان ہے جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے تم ان سے زیادہ نہیں سنتے۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب قتل ابی جہل، ۳ / ۱۱، حدیث: ۳۹۷۶)

سابقہ اُمتوں کے احوال بیان کرنے سے مقصود:

پچھلی امتوں کے احوال اور ان پر آنے والے عذابات کے بیان سے مقصود صرف ان کی داستانیں سنانا نہیں بلکہ مقصودنبی آخر الزّمان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی امت کو جھنجوڑنا ہے۔ اِن کے سامنے اُن قوموں کا حال بیان کیا گیا ہے کہ جن سے عرب کے لوگ واقف تھے ،جن کے کھنڈرات عربوں کے تجارتی قافلوں کی گزرگاہوں کے ارد گرد واقع تھے ،جن کی خوشحالی، بالا دستی اور غلبہ و اقتدار کی بڑی شہرت تھی اور پھر انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی نافرمانی کے باعث ان کی تباہی و بربادی کے دِلخراش واقعات ہوئے جوسب کو معلوم تھے، یہ واقعات اور حالات بتا کر انہیں آگاہ کیا کہ محمد مصطفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَبھی انہیں تعلیمات کو کامل اور مکمل صورت میں تمہارے پاس لائے ہیں جو پہلے نبیوں عَلَیْہِمُ السَّلَامنے اپنی اپنی امتوں کو اپنے زمانے میں دیں ، اگر تم نے بھی انکار کیا اور سرکشی کی رَوِش اختیار کی تو یاد رکھو تمہارا انجام بھی و ہی ہو گاجو پہلے منکرین کا ہوتا آیا ہے۔ دونوں جہاں کی سعادت اور سلامتی مطلوب ہے تو رسولِ خدا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرو اور ان کا دامَن رحمت مضبوطی سے تھا م لو ،تمہیں دنیا و آخرت دونوں میں سربلندی نصیب ہو جائے گی۔ (صراط الجنان۳/ ۳۸۳ملخصاً)

اصحاب ایکہ پر عذاب:

پھر حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کو اصحاب ایکہ کی طرف مبعوث فرمایا۔ یہ لوگ بھی اہْلِ مدین جیسے ہی گناہوں میں مبتلا تھے، انہوں نے بھی حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی تبلیغ سے نصیحت حاصل نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر جہنم کا دروازہ کھولا اور ان پر دوزخ کی شدید گرمی بھیجی جس سے سانس بند ہوگئے، اب نہ انہیں سایہ کام دیتا تھا نہ پانی اس حالت میں وہ تہ خانہ میں داخل ہوئے تاکہ وہاں انہیں کچھ امن ملے لیکن وہاں باہر سے زیادہ گرمی تھی وہاں سے نکل کر جنگل کی طرف بھاگے، اللہ تعالیٰ نے ایک ابر (بادل) بھیجا جس میں نہایت سرد اور خوش گوار ہوا تھی، اس کے سایہ میں آئے اور ایک نے دوسرے کو پُکار پُکار کر جمع کر لیا، مرد، عورتیں، بچے سب مجتمع ہوگئے تو اچانک زلزلہ آیا اور بادل سے آگ برسنے لگی، سب کے سب ٹڈیوں کی طرح تڑپ تڑپ کر جل گئے۔ چونکہ ان لوگوں نے اپنی سرکشی سے حضرت سیِّدُنا شعیب سے یہ کہا تھا کہ’’ تو ہم پر آسمان سے کوئی ٹکڑا گرا دواگر تم سچے ہو۔‘‘۱۹، الشعراء:۱۸۷)اس لئے اس سرکش قوم پر وہی عذاب اس صورت میں آگیا اور سب کے سب راکھ کا ڈھیر بنا دیئے گئے۔(صاوی، الشعراء، تحت الایة:۱۸۹، ۴/ ۱۴۷۴)

قرآن مجید میں ان کے عذاب کو یوں بیان فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ سورۂ شعراء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّةِؕ- اِنَّهٗ كَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۱۸۹)۱۹، الشعراء:۱۸۹)

ترجمۂ کنزالایمان: تو انھیں اسے جھٹلایا تو اُنھیں شامیانے والے دن کے عذاب نے آ لیا بےشک وہ بڑے دن کا عذاب تھا۔

قرآنی مقامات:

حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کی قوموں کا اجمالی ذکر قرآنِ پاک کی متعدد سورتوں میں ہے جبکہ تفصیلی تذکرہ درج ذیل پانچ سورتوں میں ہے: (1) سورۂ اعراف، آیت:85 تا 93۔ (2) سورۂ ہود، آیت:84 تا 95۔ (3) سورۂ حجر، آیت:78، 79۔ (4) سورۂ شعراء، آیت:176 تا 190۔ (5) سورۂ عنکبوت، آیت:36، 37۔

احکامِ الٰہیہ کی پابندی میں اپنی ناکامی سمجھنے والے غور کریں:

حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کو قوم کے سرداروں کو احکامِ الٰہیہ کی پابندی میں اپنی ناکامی، راہِ راست پر چلنے میں اپنی ہلاکت اور دیْنِ حق پر ایمان لانے میں مہیب خطرات نظر آتے تھے اور انہوں نے دوسروں کو بھی دیْنِ حق سے دور کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس طرح کی بیمار ذہنیت کے حامل افراد کی ہمارے معاشرے میں بھی کوئی کمی نہیں جو اسلامی احکام پر عمل کو اپنی ترقی وخوشحالی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں بلکہ اسلامی احکام کا مذاق اڑاتے ہیں۔ہمارے ہاں کتنے لوگ یہ نعرہ لگانے والے ہیں کہ ’’اگر سودی نظام کو چھوڑ دیا، اگر عورتوں کو پردہ کروایا تو ہم نقصان میں پڑ جائیں گے اور ہماری ترقی رک جائے گی۔‘‘ اس جملے میں اور اہْلِ مدین کے جملے ’’اگر تم شعیب کے تابع ہوئے تو ضرور نقصان میں رہو گے‘‘ میں کتنا فرق ہے اس پر غور فرمالیں۔(سیرت الانبیاء، ص۵۲۵ ملخصاً)

(ازقلم : ابو محمد محمد عمران الٰہی عطاری مدنی)


نام و نسب:

عبد الرحمن بن احمد بن عبد الرحمن بن حسن بن محمد بن ابو البرکات مسعود سلامی بغدادی دمشقی حنبلی،شہرت ابنِ رجب کےنام سے ہے۔

ابن رجب کی وجہ تسمیہ:

آپ کے دادا عبد الرحمن کو ماہِ رجب میں پیدا ہونے کی وجہ سے رجب کہا جاتا تھا ۔آپ کو دادا کی اسی نسبت کے باعث ابنِ رجب کہا جانے لگا۔

کنیت ولقب:

کنیت ابو الفرج اور زین الدین لقب ہے۔

ولادت:

امام ابن رجب رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت بروز ہفتہ 15 ربیع الاول 736ھ بمطابق 4 نومبر 1335ء کو بغداد میں ہوئی۔

تحصیل علم:

آپ ایک علمی گھرانے پیدا ہوئے ،آپ کے والد اور دادا اپنے وقت کے جید عالم اور محدث تھے۔چھوٹی سی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا اور بچپن ہی میں احادیث سننے میں مشغول ہوگئے۔آپ نے اپنے والد اور بہت سے مشائخ سے علم حاصل کیا اور اس کے لئے دوردراز کا سفر کیا۔حصول علم کی طرف راغب کرنے میں آپ کے والد کا بڑا کردار رہا وہ آپ کوعلم حدیث کی مجلسوں میں ساتھ لے کر جاتے اور احادیث کی اجازتیں آپ کے لئے حاصل کرتے۔آپ نے مکہ میں شیخ عثمان بن یوسف نویری ،بیت المقدس میں حافظ کبیر صلاح الدین علائی ،مصر میں صدر الدین ابو الفتح میدومی اور ناصر الدین ابن ملوک اور قاہرہ میں ابو الحرم محمد بن قلانسی حنبلی رحمۃُ اللہِ علیہمسےاحادیث سنیں۔ عظیم محدث امام زین عراقی رحمۃُ اللہِ علیہ علما اور مشائخ سے احادیث سننے میں آپ کے ساتھی رہے۔

اساتذہ:

آپ نے جن اساتذہ اور مشائخ سے علم حاصل کیا ان کی تعداد پچاس سے زائد ہے۔ان میں سے چند کے نام یہ ہیں:قاضی القضاۃ حضرت احمد بن حسن المعروف ابنِ قاضی جبل ،حضرت احمد بن سلیمان حنبلی،حضرت احمد بن عبد الرحمن حریری مقدسی ، حضرت احمد بن عبد الکریم بعلی ،حضرت ابن عبد الہادی مقدسی ، حضرت شیخ عز الدین امام ابنِ جماعہ، حضرت عبد المؤمن بن عبدالحق بغدادی حنبلی، محدث عراق حضرت ابو حفص عمر بن علی،مؤرخ شام حضرت قاسم بن محمد برزالی، حضرت ابن خباز محمد بن اسماعیل،حضرت فقیہ ابن نباش حنبلی رحمۃُ اللہِ علیہموغیرہ ۔

تلامذہ:

آپ سے کثیر حضرات نے علم حاصل کیا جن میں چند کے نام یہ ہیں:حضرت ابنِ رسام حموی حنبلی،مفتی دیار مصر شیخ محب الدین احمد بن نصر،حضرت داود بن سلیمان دمشقی حنبلی،حضرت ابو شعر عبد الرحمن بن سلیمان حنبلی،حضرت امام عبد الرحمن زرکشی،حضرت شیخ ابن لحام علی بن محمد بعلی،حضرت علاء الدین ابن مغلی، قاضی مکہ حضرت محمد بن احمد مقدسی حنبلی،قاضی القضاۃ دمشق حضرت شمس الدین محمد بن محمد انصاری حنبلی رحمۃُ اللہِ علیہوغیرہ۔

تصانیف:

آپ نے مختلف موضوعات پر بہت سی کتابیں یادگار چھوڑیں جن میں سے کچھ کتب کے نام یہ ہیں:(1)ذیل طبقات الحنابلہ(یہ کتاب آپ کی وجہ شہرت بھی بنی)(2)شرح جامع تِرمذی (3) جامع العلوم والحکم(4)فتح الباری فی شرح البخاری(یہ شرح صرف کتاب الجنائز تک ہے) (5) اختیار الاولیٰ فی شرح حدیث اختصام الملا الاعلیٰ(6)نور الاقتباس فی مشکاۃ وصیۃ النبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم لابن عباس(7)الاستخراج لاحکام الخراج (8). نزہۃ الاسماع فی مسئلۃ السماع(9) وقعۃ بدر(10) اختیار الاَبرار(11) اہوال یوم القیامۃ (12) البشارۃ العظمیٰ فی ان حظ المومن من النار الحمی(13) کتاب التوحید (14)الخشوع فی الصلوٰۃ(15)ذم الخمر (16)ذم المال و الجاہ(17)رسالۃ فی معنی العلم(18)التخویف من النار (19)الفرق بین النصیحۃ والتعییر(20)فضائل الشام(21) فضل علم السلف علی الخلف(22)کشف الکربۃ فی وصف حال الغربۃ (23) الکشف والبیان عن حقیقۃ النذور وَ الایمان(24) اللطائف فی الوعظ ۔ عادات واطوار:آپ زہد وتقویٰ ،خشیت الٰہی اور فضل وکمال میں اپنی مثال آپ تھے۔لوگوں سے ملنے جلنے کے بجائے گوشہ نشینی پسند کرتے تھے۔نہ عوامی اور معاشرتی مسائل سےخبردار تھے اور نہ ہی حکام وقت سے کوئی سروکار تھی۔علم کی اشاعت اور تصنیف وتالیف میں مشغول رہتے تھے۔قصاعین کے مدرسہ سکریہ میں رہائش رکھتے تھے۔ آپ کا علمی مقام اتنا بلند تھا کہ لوگ دور دور آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔آپ بہترین واعظ تھے۔لوگوں پر آپ کا وعظ اثر انداز ہوتا اور اسے سن کر لوگوں کے دل بیدار ہوتے ۔وعظ میں آپ کا اسلوب اور انداز حضرت امام ابن جوزی رحمۃُ اللہِ علیہ کی طرح تھا ۔آپ کے وعظ میں آیات و احادیث اور رقت انگیز اشعار ہوتے جسے سن کر لوگوں پر گریہ اور رقت طاری ہوجاتی۔آپ کو اسلاف کا کلام اور ان کے واقعات خوب یاد تھے۔تقویٰ و پرہیزگاری کے ساتھ آپ کو عبادت کا ذوق وشوق بھی بہت تھا،کثرت کے ساتھ عبادت فرماتے اور تہجدگزار تھے۔

وفات:

آپ کی وفات بروز اتوار 6 رجب المرجب 795ھ بمطابق 18 مئی 1393ء کو دمشق میں ہوئی۔ کل مدت حیات 59 سال 3 ماہ 21 یوم تھی۔ بابِ صغیر دمشق میں شیخ حنابلہ امام ابو الفرج عبد الواحد بن محمد شیرازی دمشقی رحمۃُ اللہِ علیہ کے پہلو میں آپ کی تدفین کی گئی ۔

حوالہ جات: الدر رالکامنہ،2/107دار الجیل بیروت، الاعلام زرکلی،3/295 دار العلم للملایین بیروت،اردو دائرہ معارف اسلامیہ،1/521، انباء الغمر،1/460 احیاء التراث الاسلامی مصر، اختیار الاولی،ترجمۃ المصنف،1/13 مکتبہ دار الاقصی کویت وغیرہ۔

ازقلم:محمد گل فراز مدنی(اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)


مسلمان پر پہلا فرض نماز ہے،قرآن وسنت میں اس کی بہت زیادہ تاکید ومطالبہ ہے۔ روز محشر اسی کے متعلق سب سے پہلے پوچھا جائے گا۔جہاں نماز کے دینی وروحانی فضائل وثمرات ہیں وہیں اس کے بے شمار طبی، سائنسی اور دنیاوی فوائد وبرکات بھی ہیں۔پیش نظر مضمون ایسے ہی فوائدوبرکات پر مشتمل ہے۔ یاد رہے کہ ہمیں نماز اللہ پاک کا حکم سمجھ کر پڑھنی ہے، ضمنی طور پریہ فوائد بھی حاصل ہوجائیں گے۔ان شاء اللہ

طہارت کے فوائد وبرکات:

نماز کی طہارت میں تین چیزیں آتی ہیں(1)جسم کا پاک ہونا(2)لباس کا پاک ہونا(3)جگہ کا پاک ہونا۔

(1) جسم کا پاک ہونا:جسم کو چھوٹی اور بڑی دونوں طرح کی ناپاکی سے پاک رکھنا ضروری ہے۔احتیاط کے ساتھ غسل کرنے سے وہ تمام اعضا دھل جاتے ہیں جو بے دھیانی میں دھلنے سے رہ جاتے ہیں۔ یوں انسان اپنے اندر فرحت بخش احساس اور نئی زندگی محسوس کرتا ہے۔یہ فرحت اور تازگی خشوع کے زیادہ قریب کرتی ہے اور دل ودماغ کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔

(2) لباس کا پاک ہونا:اگر نمازی کا لباس پاک نہ ہو تو قسم قسم کے جراثیمی مادے مختلف بیماریوں کا باعث بن جاتے ہیں ، گندے کپڑوں میں نماز پڑھنے میں وہ تازگی وفریش نیس حاصل نہیں ہوتی جو صاف ستھرے لباس سے ہوتی ہے۔ ناپاک کپڑے والا جہاں بیٹھے وہاں امراض پھیلانے کا سبب بنے نیز ایسے شخص کی سوشل لائف بھی متأثر ہوتی ہے کہ لوگ اس سے دو بھاگتے ہیں۔ اسلام نے نماز کے ذریعے بندے کو معاشرے میں رہنے اور عزت والی زندگی گزارنے کا سلیقہ عطا کیا ہے کہ وہ پاک صاف رہے اور سب لوگ اس سے محبت کریں۔

(3) جگہ کا پاک ہونا: نماز کے لیے ایسی جگہ ہونی چاہیے جو پاک صاف ہو ۔ناپاک اور غیرموزوں جگہ انسانی جسم پر خطرناک اثرات مرتب کرتی ہے اور پیٹھالوجی(حیاتیات) کے مطابق کئی ایسی بیماریاں پیدا کرتی ہے جو جسم ودماغ کی تمام قوتیں ختم کردیتی ہیں ۔اس کے علاوہ ناپاک زمین سے تشنج،ہیضہ،ٹائی فائیڈ وغیرہ جیسے موذی امراض کا خطرہ ہوتا ہے۔

وضو کے فوائد وبرکات:

نماز کے لیے وضو ضروری ہے اور وضو میں ہاتھ دھلنے سے ہاتھوں کے جراثیم دھل جاتے ہیں اور منہ کے راستے جسم میں داخل نہیں ہوپاتے ورنہ متعدد امراض کا باعث ہوں۔اگر ہاتھ باربار نہ دھلیں تو جلدی رنگت کے خراب ہونے،گرمی دانے،ایگزیما،جلدی سوزش وغیرہ کے امراض ہوسکتے ہیں۔ کھاتے وقت غذائی ذرات دانتوں میں اٹک کر رہ جاتے ہیں ،یہ متعفن ہوکر تھوک کے ساتھ معدے میں پہنچتے ہیں نیز دانتوں اور مسوڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں کلی ومسواک سے ان خطرات میں کافی کمی آجاتی ہے۔یوں ہی ہوا کے ساتھ سینکڑوں جراثیم منہ میں جمع ہوجاتے ہیں اور لعاب کے باعث منہ میں چپک جاتے ہیں اور منہ کے کناروں کے پھٹنے، ہونٹوں اور منہ کی داد،چھالوں وغیرہ کا سبب بنتے ہیں ۔دن میں پانچ بار ناک دھونے سے دائمی نزلہ،زکام اور ناک کے امراض سے بچا جاسکتا ہے۔چہرہ دھونے سے خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے نیز چہرے پر دانوں اور الرجی سے حفاظت رہتی ہے نیز چہرے کا مساج ہوجانے سے خون کا دوران متوازن رہتا ہے۔کہنیوں سمیت ہاتھ دھونے سے اُن تین رگوں کو تقویت ملتی ہے جن کا بالواسطہ دل ودماغ اور جگر سے تعلق ہے۔مسح کرنے سے دماغ اصلی پوزیشن پر رہتا ہے۔پاؤں دھونے اور انگلیوں کا خلال کرنے سے اُس انفیکشن سے بچاؤ ہوجاتا ہے جو دھول مٹی اور جراثیم لگنے سے انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے ۔ نیز پاؤں دھونے سے ڈپریشن،بے چینی،بے سکونی،دماغی خشکی اور نیند کی کمی جیسے مسائل کا خاتمہ ہوتا ہے۔

نیت نماز کے فوائد وبرکات:

جب نماز کی نیت کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو قدرتی طور پر جسم میں تناؤ پیدا ہوتا ہے ۔ایسی حالت میں انسان کے اوپر سفلی جذبات کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔سیدھے کھڑے ہونے میں ام الدماغ سے روشنیاں چل کر ریڑھ کی ہڈی سے ہوتی ہوئی پورے اعصاب میں پھیل جاتی ہیں۔۔۔ نماز میں جب ہاتھ اٹھا کرعورت کندھوں کے اور مرد کانوں کے قریب لے جاتا ہے تو ایک مخصوص برقی رو نہایت باریک رگ سے دماغ میں جاتی ہے اور دماغ کے خلیوں کو چارج کردیتی ہے۔ جس کو شعور نے نظر انداز کردیا تھا۔ یہ خلیے چارج ہوتے ہیں تو دماغ میں روشنی کا ایک جھماکہ ہوتا ہے جس سے تمام اعصاب متاثر ہوکر دماغ کے اس خانے کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں جس میں دماغ کی روحانی صلاحیتیں مخفی ہیں۔

نماز کے دینی ودنیاوی فوائد وبرکات:

(1)نماز میں تمام فرشتوں کی عبادات کو جمع کردیا گیا ہے۔(2)نماز میں ساری مخلوقات کی عبادت شامل ہے،درخت قیام،چوپائے رکوع،سانپ بچھو سجدے،مینڈک وغیرہ قعدہ اورپرندے ہروقت انتقالات میں اور یہ سب اشرف المخلوقات انسان کی عبادت میں جمع کردیا گیا۔(3)نماز برائی سے بچاتی اور حالت درست کرتی ہے،آزمائی ہوئی بات ہے کہ بڑے بڑے گناہ گاروں نے سچے دل سے نماز شروع کی تو گناہوں سے بچ گئے۔ (4)نماز مصیبتوں سے بچاتی ہے،قحط میں نماز استسقاء،مشکل میں نماز حاجت اوربیماری میں نفل نماز۔ (5)نماز سے ذہن صاف ہوتا ہے اور غصے کی آگ بجھ جاتی ہے۔(6)وضو کرنے والا دماغی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے اور نماز کے لیے بار بار وضو کیا جاتا ہے۔(7)نمازی آدمی اکثر تلی کی بیماریوں اور جنون وغیرہ سے محفوظ رہتا ہے۔(8)نمازی کے اعضا دھلتے رہتے،کپڑے وگھر پاک رہتے ہیں اور گندگی سے بچا رہتا ہے اور گندگی سے بیماریاں آتی ہیں ۔ (9)نماز رزق دلاتی ہے۔ (10)نماز درود غم کا احساس بھلا دیتی یا کم کردیتی ہے۔ (11)نماز میں بہترین ورزش ہے کہ اس کے قیام ،رکوع اور سجدے وغیرہ سے بدن کے اکثر جوڑ حرکت کرتے ہیں۔(12)سجدے سے بند ناک کھلتی ہے۔(13)آنتوں میں جمع ہونے والے غیر ضروری مواد کو حرکت دے کر نکالنے میں سجدہ کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ (14)نماز پڑھنے سے بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے کیونکہ نماز سے قبل وضو سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔(15)نماز پڑھنے سے جوڑوں کے درد سے نجات ملتی ہے۔(16) گٹھیا کے مریضوں کے لیے نماز بہترین علاج اور ورزش ہے۔

نماز فجرکے فوائد وبرکات:

جو شخص فجر پڑھتا ہے وہ خوش خوش ،تروتازہ ہوکر صبح کرتا ہے ورنہ غمگین د ل اور سستی کے ساتھ صبح کرتا ہے اور اُسے بہت ساری فکریں گھیر لیتی ہیں، وہ اپنے کام پورے کرنے کے تعلق سے حیران وپریشان ہوکر صبح کرتا ہے اور جو کام بھی کرنے کا ارادہ کرتا ہے اُس میں ناکامیاب رہتا ہے کیونکہ وہ اللہ پاک کی نزدیکی سے دور ہوکر شیطان کے دھوکے کے جال میں پھنس چکا ہوتا ہے۔نیز صبح انسان خالی پیٹ ہوتا ہے اور اس حالت میں اٹھتے ہی فورا سخت محنت اور زیادہ ورزش نقصان دہ ہوتی ہے ،چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ پاک نے صبح کی نماز مختصر رکھی ہے۔ صبح کی نماز کا ایک مقصد انسان کو طہارت وصفائی کی طرف مائل کرنا بھی ہے کہ اٹھتے ہی انسان وضو اور مسواک سے منہ کی اچھی طرح صفائی کرلے تاکہ رات بھر منہ میں موجود رہنے والے جراثیم ختم ہوجائیں،اگر منہ کے بیکٹریاز اندر چلے جائیں تومعدے کی سوزش،آنتوں کے ورم اور السر کے خطرات ہوجاتے ہیں۔

نماز ظہر کے فوائد وبرکات:

بندہ صبح سے دوپہر تک مسلسل کام میں مگن رہتا ہے،مرد گھر سے باہر اور خواتین گھر کے اندر جس کی وجہ سے ذہن وجسم تھک جاتا ہے اور تجربے سے ثابت ہے کہ اس تھکن کے وقت نماز ظہر ادا کرلی جائے تو یہ جسم ودماغ کو پھر سے ہشاش بشاش ،تروتازہ اور بقیہ دن میں کام کرنے کے قابل کردیتی ہے۔نیز سورج کی تمازت (گرمی)ختم ہونے کے بعد زمین کے اندر سے ایک خاص قسم کی گیس خارج ہوتی ہے۔یہ زہریلی گیس اگر انسان پر اثرانداز ہوجائے تو اُسے طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کردیتی ہے۔دماغی نظام اتنا درہم برہم ہوجاتا ہے کہ آدمی پاگل پن کا گمان کرنے لگتا ہے۔ جب کوئی بندہ ذہنی طور پر عبادت میں مشغول ہوجاتا ہے اُسے نماز کی نورانی لہریں خطرناک گیس سے محفوظ رکھتی ہیں۔

نماز عصر کے فوائد وبرکات:

ہر ذی شعور یہ بات محسوس کرتا ہے کہ وقت عصر میں اُس پر تھکان وبے چینی جیسی کیفیت طاری ہوتی ہے اور نماز عصر شعور کو اس حد تک تھکان وبے چینی سے روک دیتی ہے جس سے دماغ پر خراب اثرات مرتب ہوں۔ وضو اور نماز عصر قائم کرنے والے بندے کے شعور میں اتنی طاقت آجاتی ہے کہ وہ لاشعوری نظام کو آسانی سے قبول کرلیتا ہے اور اپنی روح سے قریب ہوجاتا ہے نیز نماز عصر کی پابندی سے دماغ روحانی تحریکات قبول کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔

نماز مغرب کے فوائد وبرکات:

بوقت مغرب عموماً سب گھر والے ایک ساتھ ہوتے ہیں،ماں باپ اپنے بچوں سے بات چیت کرتے ہیں۔اس باہمی گفتگو کے لیے ذہنی سکون بے حد ضروری ہے اور جب ذہنی سکون کے ساتھ ماں باپ اپنے بچوں سے بات کرتے ہیں تووالدین کے اندر کی روشنیاں بچوں میں براہ راست منتقل ہوتی ہیں جس سے اولاد کے دل میں ماں باپ کا احترام اور وقار قائم ہوتا ہے اور اس میں اعلی ترین ذہنی سکون ان والدین کو حاصل ہوتا ہے جو پابندی کے ساتھ مغرب کی نماز ادا کرتے ہیں اور ایسا کرنے والوں کی اولاد سعادت مند اور ماں باپ کی خدمت گزار ہوتی ہے۔

نماز عشاکے فوائد وبرکات:

انسان جب کاروبار اور اپنی جاب سے گھر واپس آتا ہے تو کھانا کھاتا ہے اور زیادہ تر لذت حرص میں زیادہ کھا جاتا ہے۔اب اگر وہ اس کھانے کے بعد لیٹ جائے تو مہلک امراض میں مبتلا ہوسکتا ہے۔نیز سارے دن کا تھکا ماندہ ذہن لے کر اگر نیند کرے گا تو بے سکون رہے گالہذا عشا کی نماز پڑھنے سے ممکنہ امراض اور بے سکونی سے بچ جائے گا۔ اب تو ماہرین سونے سے قبل ہلکی ورزش پر زور دیتے ہیں اور خود ماہرین کا کہنا ہے کہ نماز سے بڑھ کر اس وقت کوئی بہترین ورزش نہیں ۔

باجماعت نماز کے فوائد وبرکات:

(1)نماز باجماعت درس دیتی ہے کہ معاشرے سے انتشارکا خاتمہ کرکے اتفاق واتحاد کا ماحول پیدا کیا جائے۔(2)نماز باجماعت بتاتی ہے کہ جماعت کے لیے ہم زبان،ہم رنگ یا رشتہ دار ہونا ضروری نہیں ۔یوں ہی ہمیں اجتماعی زندگی میں بھی اسلام کو معیار بنانا چاہیے نہ کہ قومیت،نسل،رنگ،خون اور قرابت کو۔پتا چلا قوم مذہب سے بنتی ہے نہ کہ وطن سے۔ (3)نماز باجماعت امیرغریب کا فرق بھی مٹاتی ہے کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں سب برابر ہوجاتے ہیں ،لہذا کوئی اپنے بادشاہ ہونے،حاکم ہونے ،سیٹھ ہونے یا باس ہونے پر نہ اترائے۔باجماعت نماز میں کبھی تو غریب اور ملازم اگلی صف میں اور امیراور سیٹھ عین اُس کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے ۔بقول ڈاکٹر اقبال :

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودوایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

بندہ وصاحب ومحتاج وغنی ایک ہوئے

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

(4)نماز باجماعت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہم وقت کی پابندی کریں۔اولا تو نماز بھی وقت میں پڑھنی ہے پھر ایک خاص وقت میں جماعت کے ساتھ ادا کرنے سے وقت کی پابندی کا ذہن ملتا ہے۔(5)نماز کے اعمال جیسے رکوع،سجدے پھر تشہد میں بیٹھنا یہ تمام اعمال انسانی جوڑوں اور ہڈیوں کی تقویت کا باعث ہیں ۔(6)سنت کے مطابق رکوع کیا جائے،کمر سیدھی رہے اور گھٹنے جھکے ہوئے نہ ہوں تو یہ عمل معدے کو قوت دیتا اور امراض جگر سے نجات دلاتا ہے۔

نماز میں خشوع وخضوع کے فوائد وبرکات:

(1) خشوع وخضوع یعنی انتہائی توجہ کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز خود کشی کے رجحان کو کم کرتی ہے اور یہ رجحان ذہنی سطح سے کم ہوکر دھل جاتے ہیں ۔

(2)حرص ،لالچ،جھوٹ،بخل،کینہ حسد ایسےباطنی امراض ہیں جن کی وجہ سے انسان نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوجاتا ہے، پورے دھیان اورتوجہ سے پڑھی جانے والی نمازان امراض ومسائل سے نجات دلاتی ہے۔

(3)ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ اگر لوگوں کو خشوع وخضوع کے فوائد کا علم ہوجائے تو وہ کاروبار چھوڑ کرتوجہ کے ساتھ نماز میں لگ جائیں۔

تحریر: محمد آصف اقبال مدنی عطاری


اس اُمّت کے بہترین اور افضل و اعلی افراد صحابۂ کرام ہیں کہ جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکی قربت و صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے،شب و روز آپ کے شربتِ دِیدار سے سیراب ہوتے،آپ پر نزول ِ وحی کے اثرات ملاحظہ کرتے اور آپ کی ذات سے صادِر ہونے والے بہت سے معجزات کا ظہور بھی اپنی نگاہوں سے دیکھتے۔ چُونکہ اِن افراد کی تعلیم و تربیّت خُود نبیِّ کریم فرمایا کرتے تھے اِسی وجہ سے اِن کے ذہنوں میں آپ کی سوچ،آنکھوں میں نبوت کا سراپا،زندگی میں آپ کا کردار رَچا بسا ہوتا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی معیت سے شرف یاب ہونے کے طفیل آپ پر نازل ہونے والے انوار و تجلیات سے اُنہیں بھی حِصّہ ملتا رہا ۔اِسی وجہ سے صحابۂ کرام کا مقام و مرتبہ اُمَّت میں سب سے بلند و بالا ہے۔

یاد رکھئے!جس طرح تمام انبیاء میں سب سے افضل و اعلی ہمارے آقا و مولیٰہیں اِسی طرح دیگر تمام انبیاء کے صحابہ میں سب سے افضل مقام اَصحاب رسول کا ہے، پھر صحابۂ کرام میں سب سے افضل خلفائے راشدین (یعنی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق، حضرت سیدنا عمر فاروق، حضرت سیدنا عثمانِ غنی اور حضرت سیدنا علی المرتضی ) ہیں اور انہی خلفاۓ راشِدین میں سے تیسرے خلیفۂ ،جامع القرآن ، کامل الحیاء و الایمان حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کا 18 ذی الحجہ کو یوم شہادت ہے۔ اسی مناسبت سے آپ کی ذات والا صفات کے بارے میں کچھ تحریر کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں ،آپ کے حالات و واقعات کی طرف جانے سے پہلے آپ کا تعارف ملاحظہ کیجیئے : چنانچہ

حضرت عثمان غنی کا تعارف

آپ کا نام نامی،اسم گرامی”عثمان“اور کنیت ’’ ابوعَمرو‘‘ہے۔’’ امیر المؤ منین، ذُوالنورین(یعنی دو نور والا) ،کامل الحیاء و الایمان، (حیا اور ایمان میں کامل) ،جامع القرآن (قرآن جمع کرنے والے) ،سید الاسخیاء (سخیوں کے سردار) ،عثمان باحیا وغیرہ آپ کے مشہور القابات ہیں ۔ مگرآپ کے تمام اَلقابات میں سے ’’ ذُو النُّورَین‘‘ (یعنی دو نور والا) زياده مشہور ہے۔اس لقب کی زیادہ مشہور وجہ یہ ہے کہ آپ کے نکاح میں یکے بعد دیگرے حُضُور پُر نُور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دو شہزادیاں حضرت سیدتنا رقیہ اور حضرت سیدتنا اُمِّ کلثوم رضی اللہ تعالی عنھما آئیں،اسی وجہ سے آپ کو ’’ ذُو النّورَیْن‘‘ (یعنی دو نور وا لا)کہا جاتا ہے۔ (تہذیب الاسماء، 1/297)آپ خلفائے راشِدین میں تیسرے خلیفہ ہیں۔ (جنتی زیور، ص182 ملخصا) آپ امیر المؤمنین ابوبکر صدیق کی کوششوں سے اسلام لائے اور اسلام قبول کرنے والوں میں آپ کا شمار چوتھے نمبر پر ہوتا ہے،جیسا کہ آپ رضی ا للہُ عنہ خود ارشاد فرماتے ہیں:ا ِنِّيْ لَرَابِعُ اَرْبَعَةٍ فِي الْاِسْلَامِ یعنی میں اِسلام قبول کرنے والے 4 اشخاص میں سے چوتھا ہوں۔ (معجم کبیر،1/85،حدیث:124 ) حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کو بروز جمعہ35ہجری ماہِ ذی الحجہ میں شہید کیا گیا ۔ حضرت سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہُ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ جنَّتُ البقیع میں سُپردِ خاک کئے گئے۔ (اسد الغابۃ ،3/ 614-616ملخصا)

حضرت سَیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کا شمار ان صحابۂ کرام میں ہوتاہے،جن پر اسلام قبول کرنے کے بعد ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، طرح طرح سے ستایا گیا اور بہت ہی درد ناک سُلوک کیا گیا،مگر قربان جائیے!حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کے عزم و استقلال پر!جو اس قدر ظلم سہہ کر بھی باطل کےآگے ڈَٹے رہے ا ور دینِ اسلام سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہ ہوئے:چنانچہ

جب حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ اِسلام لاۓ تو آپ کو نہ صِرف اپنے گھر والوں بلکہ پُورے خاندان کی طرف سے شدید مخالفت کے ساتھ ساتھ سخت سزا ؤں کا سامنا کرنا پڑا،یہاں تک کہ آپ کا چچا حکم بن ابی العاص اِس قَدر ناراض اور برہم ہوا کہ آپ کو پکڑ کر ایک رَسّی سے باندھ دیا اور کہا: تم نے اپنے باپ دادا کا دِین چھوڑ کر ایک دُوسرا نیا مذہب اِختیار کرلیا ہے،جب تک کہ تُم اُس نئے مَذہب کو نہیں چھوڑوگے ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے اِسی طرح باندھ کر رکھیں گے۔یہ سُن کر آپ نےفرمایا: خُدائے ذُوالجلال کی قسم! مذہبِ اسلام کو میں کبھی نہیں چھوڑ سکتا“ ا ور نہ کبھی اس دولت سے دَسْتْ بَردارہوسکتا ہوں،میرےجسم کےٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو یہ ہوسکتا ہے مگر دل سےدین ِاسلام نکل جائے یہ ہرگز نہیں ہو سکتا،حکم بن ا بی العاص نے جب اِس طرح آپ کا ا ستقلال دیکھا تو مجبور ہو کر آپ کو رہا کردیا۔ (تاریخ ابن عساکر،39 /26)

ذوق عبادت اور شوق تلاوت

امیر المؤمنین،حضرت سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کی پاکیزہ سیرت کا ایک روشن پہلو یہ بھی تھا کہ آپ ساری ساری رات ربِّ کائنات کی بارگاہ میں سجدہ و قیام کی حالت میں گزار دیا کرتے ،قبر و آخرت کی فکر میں ڈوبے رہتے اور اپنے ربِّ کریم سے رحمت کی آس لگائے رکھتے تھے۔دن کے اوقات سخاوت و روزہ کی حالت میں گزرتے تو راتیں بارگاہ ِخداوندی میں سجدہ و قیام اور تلاوت قرآن میں کٹ جاتی تھیں۔آپ کے شوق ِعبادت و ذوقِ تلاوت پر مشتمل4 واقعات ملاحظہ کیجئے : چنانچہ

(1)حضرت سیِّدُنا زبیر بن عبداللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المؤ منین حضرت سیِّدُنا عثمان رضی اللہُ عنہ ہمیشہ روزہ رکھتے اور ابتدائی رات میں کچھ آرام کر کے پھر ساری رات عبادت میں بسر کرتے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ 2/ 173 ، حدیث :6)

(2)حضرت سیِّدُنا مسروق ، اَشْتَر (یعنی جس نے حضرت سیدنا عثمانِ غنی کو شہید کیا تھا ) سے ملے تو پوچھا : کیا تو نے حضرت سیِّدُنا عثمان رضی اللہُ عنہ کو شہید کیا ہے؟ اس نے کہا: ’’ہا ں ‘‘ توآپ نے فرمایا:اللہ پاک کی قسم!تو نے روزہ دار اور عبادت گزار شخص کو شہید کیا ہے ۔ (معجم کبیر،1/81، حدیث:114)

(3) جب امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کو شہید کیا گیا تو آپ کی زوجہ نے قاتلوں سے فرمایا: ’’تم نے اس شخص کو شہید کیا،جو ساری رات عبادت کرتا اور ایک رکعت میں قرآنِ کریم ختم کرتا ہے۔ ( الزھد للامام احمد، ص 1 5 3 ، حدیث : 673)

(4) حضرت سیِّدُنا عبد الرحمن تیمی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: ” مجھے ایک بار مقامِ ابراہیم پر رات ہوگئی۔ میں عشاء کی نماز ادا کرکے مقامِ ابراہیم پر پہنچا یہاں تک کہ میں اس میں کھڑا ہوا تو اتنے میں ایک شخص نے میرے کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھا۔ میں نے دیکھا تو وہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عثمان بن عفان رضی اللہُ عنہ تھے۔ کچھ دیر بعد آپ نے سورۂ فاتحہ سے قرآنِ کریم کی تلاوت شروع کی یہاں تک کہ پورا قرآنِ کریم ختم کرلیا۔ “ (الزھد لابن المبارک، ص452،حدیث:1276ملخصا)

تلاوت قرآن کی عادت بنائیے

اے عاشقانِ صحابہ!ان واقعات سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان غنی رضی ا للہُ عنہ کو کس قدر عبادت اور تلاوت قرآن سے محبت تھی ،دن رات ربِّ کریم کا کلام پڑھتے رہتے تھے۔ مگر افسوس!آج مسلمانوں کی اکثریت قرآنِ پاک کی تعلیم سے ناآشنا ہے،بعض نادانوں کو قرآنِ پاک دیکھ کر پڑھنا بھی نہیں آتا اور جن کو پڑھنا آتا ہے وہ بھی سالوں سال تک قرآنِ پاک کھول کر نہیں دیکھتے،کئی کئی مہینے گزر جاتے ہیں مگر مسلمانوں کے گھر تلاوت کی برکت سے محروم رہتے ہیں۔ آئیے!آج حضرت عثمان غنی رضی اللہُ عنہ کے عرس کے موقع پر ہم بھی نیت کرتے ہیں کہ آج سے آپ کی سیرت اور اداؤں کو اپناتے ہوئے ہم دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ قرآنِ پاک پڑھیں گے اور دوسرے لوگوں کو بھی قرآن ِ پاک پڑھنے کی ترغیب دلائیں گے۔ ان شاء اللہ عَزَّ وَجَلَّ!

18 ذی الحجہ کو اپنے اپنے گھروں میں حضرت عثمان غنی رضی اللہُ عنہ کی بارگاہ میں ایصال ثواب پیش کرنے کے لئے فاتحہ و نیاز کا اہتمام کریں اور اپنے بچوں کو ان کی سیرت کے بارے میں بتائیں،اس کے لئے شیخ طریقت ، امیر اہل سنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کا رسالہ کراماتِ عثمان غنی خود بھی پڑھئے اور اپنے بچوں کو بھی پڑھائیے۔اللہ کریم ہمیں اپنے نیک بندوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

از: مولانا عبد الجبار عطاری مدنی

اسکالر:المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر)دعوت اسلامی


فلسفۂ حج

Fri, 8 Jul , 2022
2 years ago

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے: وَاَتِمُّوا الحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہ ترجمۂ کنزالایمان (اور حج اور عمرہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے پورا کرو) ۔(البقرۃ، پ2، 196) آیتِ مبارکہ کے اس جز کے تحت تفسیرِ صراط الجنان میں لکھاہے :اس سے مراد یہ ہے کہ حج و عمرہ دونوں کو ان کے فرائض و شرائط کے ساتھ خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے بغیر سستی اور کوتاہی کے مکمل کرو۔(صراط الجنان،1، 354، تحت الآیۃ:196)

اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اولاً حج کا اصلِ مقصود رضائے الٰہی ہونا چاہیئے، اسی طرح حاجی کا گناہوں سے پاک ہو جانا اسی صورت میں ہےجبکہ و ہ صرف اللہ عزوجل کی رضا کے لئے حج کرے جیساکہ حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے:جو صرف اللہ عزوجل کے لئے حج کرے اور اس میں کوئی فحش بات یا گناہ نہ کرے تووہ حج سے ایسےلوٹتا ہے جیسا کہ وہ آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔(بخاری، فضل حج مبرور، 1، 512، حدیث1521)

اراکینِ حج اوراسلاف کی یادیں:

حج کا ایک مقصد ہمیں ہمارے اسلاف کی یادوں کے ساتھ جوڑنا ہے کیوں کہ حج میں ادا کئے جانےوالے اراکین، واجبات، سنتیں اور مستحبات الغرض احرام باندھنے سے لیکر طوافِ زیارہ تک ہر کام ہمارے اسلاف و بزرگانِ دین کی یادوں پر مشتمل ہے جن کے سبب مسلمانوں کا ایمان تازہ ہو جاتا ہیں اوریہ اُن کی بخشش کا سامان بھی بن جاتا ہے۔

مقصدِ حج:

جس طرح اللہ عزوجل نے باجماعت نماز پڑھنے کو افضل قرار دیا کہ اس طرح مسلمان ایک ہی صف میں ایک ہی امام کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں، اس طرح اتفاق و اتحاد پیدا ہوتا ہےنیز ایک غریب انسان بغیر کسی تفریق اور امتیاز کے امیر آدمی کے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہےکہ آقا ہو یا غلام، خادم ہو یا مخدوم سب اللہ عزوجل کی بارگاہ میں برابر ہیں کسی کو دوسرے پر فوقیت نہیں مگر تقوے کے ساتھ۔ارشاد خدا وندی ہے: ان اکرمکم عند اللہ اتقکم ۔ترجمۂ کنزالایمان(بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والاوہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے) ۔

اسی طرح اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مسلمانوں کو یکجا و متحد کرنے اور اُن کے درمیان اخلاص و محبت پیدا کرنے کے لئےانہیں ایک ایسی جگہ جمع ہونے کا حکم دیا جہاں وہ لوگ نسل، زبان، رنگت اور شہروں کا امتیاز کئے بغیر خالصتاً اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے لئے ایک ساتھ عبادت کریں کیوں کہ مسلمان مشرق و مغرب تک پھیل چکے تھے اور اُن میں نسل و زبان کے اعتبار سے بھی فرق آگیا تھالہٰذا انہیں ایک میدان میں جمع ہونے کا حکم دیا گیا۔

افعالِ حج کی بزرگانِ دین سے نسبت:

جیساکہ ذکر کیا گیا کہ حج کے اراکین و افعال دراصل ہمارے اسلاف کی یادیں ہیں جس کے ذریعے مسلمان اپنے قلوب و اذہان کو پاک و صاف کرتے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے مغفرت کے طلب گار ہوتے ہیں،ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

حجرِ اسود کا استلام:

حجرِ اسود ایک جنتی پتھر ہے جس کا حاجی استلام( اپنے ہاتھ سے چھونا) کرتے ہیں ، زمانہ جاہلیت میں لوگوں کو پتھر سے دور کیا جاتا تھا جبکہ اس پتھر کو چومنے اور چھونے کا حکم دیا گیاکیوں کہ پیارے آقا ﷺ نے جب حج کیا تو حجرِ اسود کو چوما تھا۔(سنن ابی داؤو، کتاب المناسک، باب فی رفع الیداذا رأی البیت،2، 255، حدیث 1872)

روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجرِ اسود کے پاس تشریف لائے اور اسے چوما پھر فرمایا: میں جانتاہوں تو ایک پتھر ہے، تو نہ کسی کو نقصان پہنچاسکتا ہے نہ فائدہ اگر میں رسول اللہ ﷺ کو تجھے چومتے ہوئے نہیں دیکھتاتو میں بھی تجھے نہیں چومتا ۔(بخاری ، باب ماذکر فی الحجر الاسود، 1، 537، حدیث 1597)

صفا اور مروۃ کی سعی:

یہ وہ دو مقام ہیں جن میں بعض مناسکِ حج ادا کئے جاتے ہیں جیساکہ صفا و مروۃ کے درمیان سعی کرنا یعنی ان مقامات میں اُس شخص کی طرح چلنا جو کسی چیز کی جستجو میں ہو یا کسی چیز کی تلاش میں ہو ۔

جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی زوجہ سیدہ ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور ان کے شہزادے حضرت اسماعیل علیہ السّلام ان مقامات میں جلوہ افروز تھےتو اس وقت سیدہ ہاجرہ رضی اللہ عنہا مشکیزے میں پانی ختم ہونے کے سبب صفا سے مروۃ کے درمیان دوڑی تھیں تاکہ وہ اپنی اور اپنے شہزادے کی پیاس بھجا سکیں ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو سیدہ کا یہ عمل اتنا پسند آیا (کیوں کہ انہوں نے یہ سب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نبی کے لئے کیا تھا) لہٰذا اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اس عمل کو حج کے رکن میں شامل فرما دیا۔(صاوی، ابراہیم، 3/ 1027-1028،تحت الآیۃ:37)

قربانی:

اس میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی اقتداء ہے، جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے انہیں حکم دیا کہ اپنے لختِ جگر کو ذبح کردو تو حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنے بیتے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو اس معاملے سے آگاہ کیا تو انہیں عرض کی اے میرے باپ آپ وہ کریں جس کا آپ کو حکم ہوا ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السّلاماس حکم پر عمل پیرا ہونے کے لئے تیار ہو گئے اور اپنے لختِ جگر کو ذبح کرنے کے لئے لٹا دیا لیکن اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے حضرت جبرائیل علیہ السّلام کے ذریعے ایک مینڈھا بھیج کر حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو بچا لیااور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو قربانی کرنے کا حکم دیا۔(صاوی، الصافات، 5/ 1746-1748)

اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب بندوں کے افعال اراکینِ حج میں شامل:

ان جیسے اور بھی اراکینِ حج ہیں جن کا تعلق اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب بندوں سے ہےنیز ان نیک بندوں نے یہ ا راکینِ حج اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت سمجھ کر نہیں بلکہ کسی خاص وجہ کے تحت کیا تھالیکن اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے محبوب بندوں کے ان افعال کو اراکینِ حج میں شامل فرما کر مسلمانوں (جو استطاعت رکھتے ہوں) پر حج کو لازم قرار دے دیا تاکہ دنیا بھر کے مسلمان حج کے لئے جمع ہوکر ان نیک بندوں کی اطاعت گزاری کو ملاحظہ کریں اور ان نیک بندوں کی طرح اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حکم پر سرِ خم تسلیم کریں۔

اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں بھی اپنے بابَرَکت گھر کعبۂ معظمہ کی زیارت سے مشرف فرمائے تاکہ ہم مکہ مکرمہ میں موجود ان مقدس مقامات کی زیارت کر سکیں جن کا تعلق اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب بندوں سے ہے۔

از:غیاث الدین عطاری مدنی

اسلامک اسکالر، اسلامک ریسرچ سینٹر(المدینۃ العلمیہ)


دار التراث العلمی للتحقیق والترجمة والطباعة والنشر کراتشی کی کارکردگی و اہداف

علمائے اہلسنت کی عربی کتابوں کو دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ علمائے کرام کی تحقیق وتخریج وغیرہ کے ساتھ دنیائے عرب سے منظم انداز میں شائع کروانےکی غرض سے مکتبۃ المدینہ العربیہ میں ایک ذیلی شعبہ

’’دار التراث العلمی ‘‘ کے نام سے جمادی الاولیٰ 1441ھ/ جنوری2020 ء کو قائم کیا گیا ، اس شعبہ کے ذریعے اب تک جو کتابیں شائع ہوچکی ہیں ، جن پر کام جاری ہے اور آئندہ کے اہداف کی تفصیل درج ذیل ہے:

2020

نمبر شمار

نام کتاب

مصنف

محقق

شعبہ

کل صفحات

مکتبہ

1

انور المنان

امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان حنفی ماتریدی

مولانامحمد کاشف سلیم عطاری مدنی

کتب اعلیٰ حضرت

87

دار الکتب العلمیہ بیروت

2

الفتاوی المختارۃ

امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان حنفی ماتریدی

مولانامحمد گل فراز عطاری مدنی / مولانامحمد کاشف سلیم عطاری مدنی

کتب اعلیٰ حضرت

127

دار الکتب العلمیہ بیروت

3

اجلی الاعلام

امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان حنفی ماتریدی

مولانامحمد کاشف سلیم عطاری مدنی

کتب اعلیٰ حضرت

141

دار الکتب العلمیہ بیروت

4

مجموع رسائل الشیخ الیاس العطار (ج1)

امیر اہلسنّت مولانا محمد الیاس عطار قادری

عرب شیوخ ومدنی علمائے کرام

عربی ڈپارٹمنٹ

301

دار الکتب العلمیہ بیروت

5

دروس البلاغۃ

(۱)حنفی ناصف(۲)محمد دباب(۳) سلطان محمد (۴)مصطفی طموم

مولانامحمد شہزاد سلیم عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

202

دار الفجر سوریا

6

المقدمۃ فی علم الحدیث

شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی

مولانااحمد رضا شامی عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

212

دار الریاحین اردن

2021

7

التعلیقات الرضویہ علی تقریب التہذیب

امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان حنفی ماتریدی

مفتی حسان عطاری مدنی / مولانامحمد کاشف سلیم مدنی عطاری

کتب اعلیٰ حضرت

326

دار الکتب العلمیہ بیروت

8

التعلیقات الرضویہ علی الھدایۃ و شروحہا

امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان حنفی ماتریدی

مولانامحمد کاشف سلیم مدنی عطاری

کتب اعلیٰ حضرت

744

دار الکتب العلمیہ بیروت

9

نفحات الصلاۃ

امیر اہلسنّت مولانا محمد الیاس عطار قادری

عرب شیوخ ومدنی علمائے کرام

عربی ڈپارٹمنٹ

608

دار الکتب العلمیہ بیروت

10

شجرۃ الطریقۃ القادریۃ

امیر اہلسنّت مولانا محمد الیاس عطار قادری

عرب شیوخ ومدنی علمائے کرام

عربی ڈپارٹمنٹ

152

دار الکتب العلمیہ بیروت

11

مسند الامام الاعظم

علامہ عابد سندھی

مولاناکامران احمد عطاری مدنی/ مولاناعدیل صدیقی عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

656

دار الصالح مصر

12

الفوز الکبیر

شاہ ولی اللہ دہلوی

مولانااحمد رضا شامی عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

165

دار الکتب العلمیہ بیروت

13

نور الایضاح

علامہ حسن بن عمار شرنبلالی حنفی

مولاناافتخار احمد عطاری مدنی/ مولانااسماعیل نقشبندی مدنی

شعبہ درسی کتب

592

دار الکتب العلمیہ بیروت

2022

14

جد الممتار (7 جلدیں)

امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان حنفی ماتریدی

مولانا یونس عطاری مدنی/ مولاناکاشف سلیم عطاری مدنی/ سید عقیل احمد عطاری مدنی

کتب اعلیٰ حضرت

4,105

دار الکتب العلمیہ بیروت

15

فوز الکرام

شیخ محمد قائم بن صالح سندھی

مفتی حسان عطاری مدنی / مولانامحمد کاشف سلیم عطاری مدنی

کتب اعلیٰ حضرت

121

دار الکتب العلمیہ بیروت

2022 میں جو کتب شائع ہونگی

1

زبدۃ الاتقان (جاچکی ہے)

امام جلال الدین سیوطی شافعی

مولاناکامران احمد عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

266

دار الفجر سوریا

2

آثار السنن (جاچکی ہے)

محمد علی بن نیموی

مولانااحمد رضا شامی عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

580

دار المعراج سوریا

3

شرح تہذیب (کام جاری ہے)

عبد اللہ یزدی

مولاناکامران احمد عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

306

دار نور المبین اردن

4

فتح المنان (کام جاری ہے)

شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی

مفتی حسان صاحب/مولانا اکرم ، مولانا عاصم، مولانا منصور، مولانا احمد رضا عطاری مدنی

شعبہ فقہ حنفی

1200

دار الریاحین اردن

5

الکافیۃ ( جاچکی ہے)

علامہ ابن حاجب

مولاناعبد الواحد عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

252

دار نور المبین اردن

6

تلخیص المفتاح (جاچکی ہے)

محمد قزوینی

مولاناعبد الواحد عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

209

دار نور المبین اردن

7

عنایۃ النحو( جاچکی ہے)

مولاناعبد الواحد عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

279

دار نور المبین اردن

8

الرشیدیۃ (جاچکی ہے)

علامہ عضد الدین

مولانا ازہار عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

127

دار نور المبین اردن

9

الدعوۃ الی الخیر (کام جاری ہے)

امیر اہلسنّت مولانا محمد الیاس عطار قادری

عرب شیوخ ومدنی علمائے کرام

عربی ڈپارٹمنٹ

500

دار الکتب العلمیہ بیروت

10

التعلیقات الرضویۃ علی میزان الاعتدال (کام جاری ہے)

امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان حنفی ماتریدی

مفتی حسان عطاری مدنی / مولانامحمد کاشف سلیم عطاری مدنی

کتب اعلیٰ حضرت

350

دار الکتب العلمیہ بیروت

2023 اور اس کے بعد جو کتب شائع ہونگی

11

مالی الجیب بعلوم الغیب

امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان حنفی ماتریدی

مولاناکاشف سلیم عطاری مدنی/مولانا شعیب رئیس عطاری مدنی/مولانا ندیم عطاری مدنی

کتب اعلیٰ حضرت

12

التعلیق المجلی لما فی منیۃ المصلی

علامہ وصی احمد محدث سورتی

مفتی حسان عطاری مدنی

شعبہ فقہ حنفی

13

خلاصۃ الدلائل

امام علی بن احمد رازی

مولاناافتخار احمد عطاری مدنی/مولانا شہزاد سلیم عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

14

نور الانوار

شیخ احمد بن ابو سعید (المعروف ملاجیون )

مولاناعبد الواحد عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

15

شرح المنتخب الحسامی

علامہ حسام الدین محمد بن محمد

مولانا عدیل صدیقی عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

16

السراجیہ

علامہ محمد بن عبد الرشید سراجی

مولاناعبد الواحد عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

17

شرح العقائد

علامہ سعد الدین تفتازانی

مولاناکامران احمد عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

18

مجموعۃ الازھار

مولانااحمد رضا شامی عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

19

مجموع رسائل الشیخ الیاس العطار (ج2)

امیر اہلسنّت مولانا محمد الیاس عطار قادری

عرب شیوخ ومدنی علمائے کرام

عربی ڈپارٹمنٹ

20

تفسیراتِ احمدیہ

شیخ احمد بن ابو سعید (المعروف ملاجیون )

ماہرِ امورِ تجارت

مفتی علی اصغر عطاری مدنی

شعبہ فقہ حنفی

21

مجموع رسائل الامام احمد رضا

امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان حنفی ماتریدی

تعریب: مفتی حسان عطاری مدنی

کتب اعلیٰ حضرت

22

حاشیۃ افہام القرآن(عربی)

شیخ الحدیث والتفسیر مفتی قاسم صاحب

عرب شیوخ ومدنی علمائے کرام

عربی ڈپارٹمنٹ


تاریخ: 06.07.2022


اولاد دینے والا کون؟

Tue, 5 Jul , 2022
2 years ago

از: بنت طارق عطاریہ مدنیہ  ناظمہ جامعہ فیضانِ ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

لڑکیاں بھی اللہ پاک کی نعمت ہیں اور لڑکے بھی، پھر کسی کو اللہ نے صرف بیٹیاں عطا فرمائیں، کسی کو صرف بیٹے، کسی کو بیٹے بیٹیاں دونوں اور کسی کو بیٹے عطا فرمائے نہ بیٹیاں۔ یہ تقسیم اللہ پاک کی حکمت او رمصلحت پر مبنی ہے جیسا کہ اس کا فرمان ہے:لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ١ؕ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ الذُّكُوْرَۙ0 اَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًا١ۚ وَ يَجْعَلُ مَنْ يَّشَآءُ عَقِيْمًا١ؕ اِنَّهٗ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ0 (پ25،الشوریٰ:50-49)ترجمہ:آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کے لیے ہے وہ جو چاہے پیدا کرے ۔ جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا انہیں بیٹے اور بیٹیاں دونوں ملا دے اور جسے چاہے بانجھ کر دے، بیشک وہ علم والا، قدرت والا ہے۔

يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا:

یعنی اللہ پاک جسے چاہے صرف بیٹیاں دے اور بیٹا نہ دے، جسے چاہے بیٹے دے اور بیٹیاں نہ دے، جسے چاہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں دے اور جسے چاہے بانجھ کر دے کہ اس کے ہاں اولاد ہی نہ ہو۔ وہ مالک ہے اپنی نعمت کو جس طرح چاہے تقسیم کرے۔ تفسیر قرطبی میں ہے: اس آیت کا حکم اگرچہ عام ہے مگر یہ انبیائے کرام کے متعلق نازل ہوئی، چنانچہ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا سے مراد حضرت لوط علیہ السّلام ہیں، جنہیں اللہ پاک نے دو بیٹیاں دیں اور بیٹے نہ دیئے، يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ الذُّكُوْرَسے مراد حضرت ابراہیم علیہ السّلام ہیں کہ جن کو 8 بیٹے دیئے، بیٹیاں نہ دیں، يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًا سے مراد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں کہ جن کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں دیں، جبکہ يَجْعَلُ مَنْ يَّشَآءُ عَقِيْمًا سے مراد حضرت یحییٰ علیہ السّلام ہیں کہ جن کی کوئی اولاد نہ تھی۔([1])

معلوم ہوا! اولاد ہونے یا نہ ہونے یا بیٹے یا بیٹیاں ہونے میں ہمارے لیے کسی نہ کسی نبی کی زندگی میں نمونہ ہے۔ نیز یہ جاننا بھی فائدے سے خالی نہیں کہ اس آیت میں بیٹیاں دینے کو بیٹے دینے سے پہلے ذکر فرمانے کی چند وجوہ یہ ہیں:

1-بیٹے کا پیدا ہونا خوشی کا اور بیٹی کا پیدا ہونا چونکہ غم کا باعث ہے، لہٰذا اگر پہلے بیٹے کا ذکر ہوتا پھر بیٹی کا تو ذہن خوشی سے غم کی طرف منتقل ہوتا۔ مگر جب پہلے بیٹی دینے کا ذکر فرمایا اور پھر بیٹا دینے کا تو انسان کا ذہن غم سے خوشی کی طرف منتقل ہو گا اور یہ کریم کی عطا کے زیادہ لائق ہے۔

2-پہلے بیٹی ہو تو بندہ اس پر صبر و شکر کرے گا کیونکہ اللہ پاک پر اعتراض ممکن نہیں، مگر جب اسکے بعد بیٹا ہو گا تو بندہ جان لے گا کہ یہ اللہ پاک کا فضل و احسان ہے، لہٰذا اس کا زیادہ شکر بجا لائے گا۔

3-عورت کمزور، ناقص العقل اور ناقص الدین ہوتی ہے، اس لیے عورت کے ذکر کے بعد مرد کے ذکر کرنے میں یہ حکمت ہے کہ جب عجز اور حاجت زیادہ ہو تو اللہ کی عنایت اور اس کا فضل زیادہ ہوتا ہے۔

4-بعض افراد کے نزدیک بیٹی کا وجود حقیر اور ناگوار ہوتا ہے، زمانہ جاہلیت میں عرب بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، چنانچہ یہاں بیٹیوں کا ذکر بیٹوں سے پہلے کر کے یہ ظاہر فرمایا گیا ہے کہ لوگ اگرچہ بیٹی کو حقیر جانتے ہیں مگر اللہ پاک کو بیٹی پسند ہے، اس لیے اس نے بیٹی کے ذکر کو بیٹے کے ذکر پر مقدم فرمایا۔ (2)

بیٹے اور بیٹیاں دینے یا نہ دینے کا اختیار اللہ پاک کے پاس ہے:

اولاد دینے کا اختیار اور قدرت چونکہ صرف اللہ پاک کے پاس ہے، لہٰذا اگر بانجھ افراد چاہیں کہ موجودہ ترقی یافتہ دور میں کسی بھی مصنوعی طریقے سے ان کے ہاں اولاد ہو جائے یعنی ٹیسٹ ٹیوب و کلوننگ وغیرہ کے ذریعے، تو انہیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اولاد کا حصول اللہ پاک کے فضل کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی طرح عورت کے بس میں نہیں کہ وہ جو چاہے پیدا کرے۔ بیٹے کی خواہش رکھنے والوں کا بیٹی پیدا ہونے پر عورت کو مشقِ ستم بنانا، اسے طرح طرح کی اذیتیں دینا، بات بات پر طعنوں کے نشتر چبھونا، آئے دن ذلیل کرتے رہنا، صرف بیٹیاں پیدا ہونے پر اسے منحوس سمجھنا اور طلاق دے دینا، قتل کی دھمکیاں دینا بلکہ بعض اوقات قتل ہی کر ڈالنا قطعاً درست نہیں۔ افسوس! آج مسلمانوں نے اسی طرزِ عمل کو اپنا لیا ہے جو کفار کا تھا۔ جس کا تذکرہ پارہ 14، سورۃ النحل کی آیت نمبر 58 اور 59 میں یوں کیا گیا ہے: ترجمہ:اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصے سے بھراہوتا ہے۔ اس بشارت کی برائی کے سبب لوگوں سے چھپا پھرتا ہے ۔ کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبا دے گا؟خبردار! یہ کتنا بُرا فیصلہ کررہے ہیں ۔

یعنی اسلام نے تو عورت کو ذلت و رسوائی کی چکی سے نکال کر معاشرے میں عزت و مقام عطا کیا مگر آج کے مسلمان اسے دوبارہ اسی چکی میں پسنے کے لئے دھکیل رہے ہیں۔ خدارا! ہوش کے ناخن لیجئے اور بیٹیوں کی قدر کیجئے! کیونکہ اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے: عورت کی برکت ہی یہ ہے کہ اس کے ہاں سب سے پہلے بیٹی پیدا ہو۔(3) ایک روایت میں ہے: بیٹیوں کو بُرا مت کہو! بیشک وہ محبت کرنے والیاں ہیں۔(4) اسی طرح ایک روایت میں ہے: جس پر بیٹیوں کی پرورش کا بوجھ آ پڑے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو یہ بیٹیاں اس کیلئے جہنم سے روک بن جائیں گی۔(5)

بلکہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بیٹیوں سے محبت فرما کر سب کے لئے عملی نمونہ بھی پیش کیا۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: جب بی بی فاطمہ رضی اللہُ عنہا تشریف لاتیں تو حضور کھڑے ہو جاتے، ان کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ لیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے، یونہی جب آپ ان کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ کھڑی ہو کر حضور کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ لیتیں اور اپنی جگہ بٹھا دیتیں۔(6)

ایک طرف حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا اسوۂ حسنہ اور قرآن و سنت کے احکام اور دوسری طرف مسلمانوں کا اس کے برعکس عمل نظر آتا ہے۔ آج کے مسلمان دورِ جاہلیت کی روایات کو زندہ کرتے نظر آتے ہیں اور اسلامی تعلیمات بھلا دینے کے باعث بیٹی کی ولادت کو برا سمجھنے اور بے رحمی کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن یہ خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں عورت کو بیٹی پیدا ہونے پر قتل کر دیا گیا۔ ابھی 2022 حال ہی میں پہلی بیٹی کی پیدائش پر 7 دن کی بیٹی کو7 گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ الامان والحفیظ

آج کے دور میں علمِ دین سے بہرہ ور ہونا بہت ضروری ہے تاکہ زمانہ جاہلیت کی ان رسومات کا خاتمہ کیا جا سکے۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور شخص بیٹی ہونے یا اولاد نہ ہونے کو عورت کا قصور سمجھنے کے بجائے رب کریم کی رضا و مشیت سمجھتا ہے جبکہ جاہل آدمی سفاکی پر اتر آتا اور عورت کو قصور وار ٹھہرا کر اس پر ظلم ڈھاتا ہے۔ معاشرتی پستی کا تو یہ عالم ہے کہ عورتیں ہی عورتوں کو قصور وار ٹھہراتی ہیں، ساس بہو پر ظلم ڈھاتی، طعنوں کی بھرمار کرتی اور بعض اوقات بیٹے کو طلاق دینے پر مجبور کر دیتی ہے۔ لہٰذا علم حاصل کیجئے تا کہ حضور کے اسوۂ حسنہ پر عمل کر سکیں اور یوں دنیا و آخرت کی کامیابی اور معاشرے میں امن و امان کا قیام ممکن ہو۔

اللہ کریم تمام مسلمانوں کو بیٹیوں کی قدر اور حضور کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)




[1] تفسیر قرطبی،الجزء : 16، 8/36 2 تفسیر رازی،9/610 3 مکارم الاخلاق للخرائطی، 9/610 4مسند امام احمد،6/134، حدیث:17378 5 مسلم، ص1085، حدیث:6693ملتقطاً 6 ابوداود،4/454،حدیث:5217


از: بنت کریم عطاریہ مدنیہ معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز خوشبوئے عطار واہ کینٹ

صحیح مسلم شریف کی حدیثِ مبارکہ ہے:عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ قَالَ: لَعَنَ اللّٰهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ، وَالنَّامِصَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ، وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰهِ۔ ([i])یعنی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:گودنے و گدوانے والیوں، چہرے کے بال نوچنے و نوچوانے والیوں، خوبصورتی کے لیے دانتوں کے درمیان فاصلہ کرنے والیوں اور اللہ پاک کی تخلیق میں تبدیلی کرنے والیوں پر اللہ پاک کی لعنت ہو۔

شرحِ حدیث

اللہ پاک کے کسی پر لعنت فرمانے سے مراد یہ ہے کہ اللہ پاک نے اسے اپنی بارگاہ سے دھتکار دیا اور اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے۔(2)چنانچہ علمائے کرام نے مذکورہ تمام کاموں کو گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے کہ ان کا ارتکاب کرنے والیوں پر اللہ پاک کی طرف سے لعنت آئی ہے اور لعنت کبیرہ گناہوں کی علامات میں سے ہے۔(3) ذیل میں حدیث پاک کی شرح میں اس بات کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے کہ مذکورہ عورتوں پر لعنت کی وجوہات کیا ہیں اور اب اس کا تدارک کیسے ممکن ہے؟

الواشمات و المستوشمات:

یعنی وہ عورتیں جو جسم کو گودتی و گدواتی ہیں۔ مراد سُوئی وغیرہ سے جسم میں چھید لگا کر اس میں رنگ یا سرمہ بھرنا ہے، آج کل اسے ٹیٹوز (Tattoos) بنانا بھی کہا جاتا ہے۔ یاد رکھئے! جسم پہ مختلف ڈیزائن کے ٹیٹوز بنوانا شرعاً ناجائز و ممنوع ہیں۔ اس میں اللہ پاک کی بنائی ہوئی چیز کو تبدیل کرنا ہے اور اللہ پاک کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں خلافِ شرع تبدیلی کرنا ناجائز و حرام اور شیطانی کام ہے۔

اگر ٹیٹوز بنوا لیے ہوں تو کیا کریں؟

اگر کسی نے اپنے جسم پر اس طرح نام یا ڈیزائن بنوا لیے تو اگر بغیر شدید تکلیف و تغییر کے اسے ختم کروانا ممکن ہو تو توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ ختم کروانا لازم ہے ورنہ اس کو اسی حال میں رہنے دے اور اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتی رہے۔(4)امیرِ اہلِ سنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں: میں نے سنا ہے کہ اسے مٹانے کا آسان طریقہ ایجاد ہو گیا ہے۔ ایک ایسا کیمیکل ہے جس سے نہ تو کوئی زخم ہوتا ہے نہ کھال کاٹنے کی نوبت آتی ہے اور یہ مٹ جاتا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر صاف کروانا ہو گا۔(5)

النامصات و المتنمصات:

یعنی وہ عورتیں جو ابرو کے بال نوچ کر باریک کرتی و کرواتی ہیں۔چنانچہ عورت کے چہرے پر اگر بال آ گئے ہوں تو عام حالت میں اس کے لیے یہ بال صاف کرانا مُباح و جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ کام اگر شوہر کے لیے زینت کی نیت سے ہو تو جائز ہونے کے ساتھ ساتھ مستحب بھی ہے۔ البتہ ابرو بنوانا اس حکم سے مُسْتَثْنیٰ (جدا)ہے کہ صرف خوبصورتی و زینت کے لیے ابرو کے بال نوچنا اور اسے بنوانا ناجائز ہے۔ حدیثِ پاک میں ابرو بنوانے والی عورت کے بارے میں لعنت آئی ہے لہٰذا آجکل عورتوں میں ابرو بنوانے کا جو رواج چل پڑا ہے، یہ ناجائز ہے، اس سے ان کو باز آنا چاہئے۔

ابرو بنوانے کی ایک جائز صورت:

ہاں! ایک صورت یہ ہے کہ ابرو کے بال بہت زیادہ بڑھ چکے ہوں، بھدے (بُرے)معلوم ہوتے ہوں تو صرف ان بڑھے ہوئے بالوں کو تراش کر اتنا چھوٹا کر سکتی ہیں کہ بھدا پن دور ہو جائے، اس میں حرج نہیں۔(6)

ابرو بنوانے والیوں کے جھوٹے حیلے بہانے:

بعض خواتین طرح طرح کے جھوٹے حیلے بہانے بنا کر اپنے دل کو منا لیتی ہیں مثلاً ہم تو شوہر کو خوش کرنے کے لیے ایسا کرتی ہیں، شوہر آئی بروز بنوانے کا کہتا ہے اس لیے بنواتی ہیں وغیرہ۔

یاد رہے! جس کام سے شریعت نے منع کیا ہے وہ منع ہی رہے گا۔ شوہر بلکہ کسی کے بھی حکم دینے سے اس کام کا کرنا جائز نہیں ہو جائے گا۔ کیونکہ اللہ پاک کی نافرمانی میں مخلوق کی بات یا حکم ماننا جائز نہیں۔ شوہر کی فرمانبرداری بھی صرف انہی کاموں میں کی جائے گی جو شریعت کے خلاف نہ ہوں۔

یونہی بعض خواتین آئی بروز بنواتی ہیں اور عذر یہ پیش کرتی ہیں کہ بال بڑے ہو گئے تھے، دیکھنے میں اچھے نہیں لگتے تھے۔ حالانکہ صرف بالوں کا بڑھ جانا عذر نہیں بلکہ اجازت اسی صورت میں ملے گی جب اتنے بڑھ جائیں کہ بھدے (بُرے) معلوم ہوں۔ اس صورت میں بھی صرف بالوں کو اتنا چھوٹا کروانے کی اجازت ہے کہ بھدا پن دور ہو جائے، نہ کہ خوبصورت دکھنے کے لیے باریک کروانے کی۔

المتفلجات:

یعنی وہ عورتیں جو خوبصورتی کے لیے ریتی وغیرہ سے دانتوں کو کشادہ کرتی ہیں۔ علامہ یحییٰ بن شرف الدین نووی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: بعض بوڑھی عورتیں اپنی عمر کم ظاہر کرنے اور دانتوں کو خوبصورت بنانے کے لیے مخصوص دانتوں کے درمیان معمولی سی کشادگی کرا لیتی ہیں۔ یہ کام کرنا اور کرانا دونوں حرام ہیں، کیونکہ اس میں اللہ پاک کی بناوٹ کو تبدیل کرنا ہے۔ البتہ علاج کی غرض یا دانتوں میں موجود عیب دور کرنے کے لئے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔(7)

عورت کا زینت اختیار کرنا کیسا:

عورت کے لیے زینت حاصل کرنا جائز ہے ،بلکہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے شوہر کے لیے زینت اختیار کرنا تو مستحب و کارِ ثواب ہے۔ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عورت کا اپنے شوہر کے لیے گہنا پہننا، بناؤ سنگار کرنا باعِثِ اجرِ عظیم اور اس کے حق میں نمازِ نَفل سے افضل ہے۔ بعض صالحات کہ خود اور ان کے شوہر دونوں صاحبِ اولیائے کرام سے تھے، ہر شب بعد نمازِ عشا پورا سنگار کر کے دلہن بن کر اپنے شوہر کے پاس آتیں، اگر انہیں حاجت ہوتی تو حاضر رہتیں، ورنہ زیور و لباس اتار کر مصلے بچھاتیں اور نماز میں مشغول ہو جاتیں۔ (8)کنواری لڑکی بھی شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے زینت کر سکتی ہے۔ لیکن زینت انہی چیزوں کے ذریعے حاصل کی جائے جن کو شریعت نے جائز قرار دیا ہے۔شریعت کی منع کردہ چیزوں میں کوئی زینت نہیں ،بلکہ ایسی زینت تو آخرت میں باعثِ وبال ہے۔

زینت کی بعض جائز صورتیں:

زینت کی بعض جائز صورتیں یہ ہیں:¡حلال اشیا کے ذریعے میک اپ کرنا ¡آرٹیفیشل بال اور پلکیں لگانا جبکہ انسان یا خنزیر کے بالوں سے بنی ہوئی نہ ہوں البتہ وضو و غسل کرنے کے لئے ان پلکوں کا اتارنا ضروری ہو گا، کیونکہ آرٹیفیشل پلکیں عموماً گوند وغیرہ کے ذریعے اصلی پلکوں کے ساتھ چپکا دی جاتی ہیں اور انہیں اتارے بغیر اصلی پلکوں کو دھونا ممکن نہیں، جبکہ وضو و غسل میں اصلی پلکوں کا ہر بال دھونا ضروری ہے ¡دھاگے یا اُون کی بنی ہوئی چُٹیا لگانا ¡کندھوں سے نیچے بالوں کی نوکیں وغیرہ کٹوا کر برابر کرنا ¡بازو، ہاتھ، پاؤں اور ٹانگوں کے بال اتارنا ¡ابرو کے علاوہ چہرے کے بال صاف کرنا ¡آرٹیفیشل جیولری پہننا۔

زینت کی بعض ناجائز صورتیں:

زینت کی بعض ناجائز صورتیں یہ ہیں:¡مردانہ طرز کے بال کٹوانا (فاسقہ عورتوں کی طرح بطورِ فیشن بال کٹوانا بھی منع ہے) ¡ اَبرو بنوانا ¡انسان یا خنزیر کے بالوں سے بنی ہوئی وِگ یا پلکیں استعمال کرنا ¡بالوں میں سیاہ رنگ کا خضاب لگانا۔

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)


[i]مسلم، ص905،حدیث:5573 2 اصلاحِ اعمال،ص419 3 جہنم میں لے جانے والے اعمال، 1/ 459 ماخوذ اً 4مختصر فتاویٰ اہلِ سنت،ص 208 5سردی سے بچنے کے طریقے،ص12 6 مختصر فتاویٰ اہلِ سنت،ص 192 ملتقطاً 7شرح مسلم للنووی،الجزء:7،14/106ماخوذاً 8فتاویٰ رضویہ،22/126


صور پر ایمان

Tue, 5 Jul , 2022
2 years ago

از: بنت فیاض عطاریہ مدنیہ،  ناظم آباد کراچی

جب قیامت کی تمام نشانیاں پوری ہو جائیں گی تو اللہ پاک کے حکم سے صور پھونکا جائے گا، صور حق ہے اور اس پر ایمان رکھنا لازم ہے، قرآنِ پاک کی کئی آیات میں صور پھونکے جانے کا تذکرہ موجود ہے۔ مثلاً وَ نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ١ؕ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ0(پ24،الزمر:68)ترجمہ:اور صُور میں پھونک ماری جائے گی تو جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ہیں سب بیہوش ہو جائیں گے مگر جسے اللہ چاہے پھر اس میں دوسری بار پھونک ماری جائے گی تواسی وقت وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہوجائیں گے۔

صور کیا ہے؟

فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے: صور ایک سینگ ہے جس میں پھونکا جائے گا۔([i]) ایک روایت میں ہے کہ صور کا دائرہ زمین و آسمان کی چوڑائی جیسا ہے۔ (2)مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: صور سینگ کے اس بگل کا نام ہے جو قیامت میں پھونکا جائے گا۔ اس صور کی بڑائی اس کی آواز کی ہیبت ہمارے خیال و وہم سے ورا ہے۔ آج ایٹم بم اور چیخنے والے بم کی آواز ہی لوگوں کو مار دیتی ہے، بستیوں میں زلزلے ڈال دیتی ہے، وہ تو صور ہے۔(3)

صور کون پھونکے گا؟

امام قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :امام ترمذی اور دیگر محدثین رحمۃ اللہ علیہم کی روایت کردہ اَحادیث سے پتا چلتا ہے کہ صاحبِ صور صرف حضرت اسرافیل علیہ السلام ہیں اور وہی اکیلے صور پھونکیں گے جبکہ ابنِ ماجہ کی ایک روایت کے مطابق حضرت اِسرافیل علیہ السلام کےساتھ صور پھونکنے میں ایک اور فرشتہ بھی شریک ہو گا۔ (4) نیز یہ بھی مروی ہے کہ جب حضرت اسرافیل علیہ السّلام صور پھونکیں گے اس وقت جبریل و میکائیل بھی ان کے پاس موجود ہوں گے۔ چنانچہ ایسی ہی ایک روایت کی شرح میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جس وقت حضرت اسرافیل صور پھونکیں گے اس وقت جبریل آپ کے داہنے ہاتھ کی طرف ہوں گے اور میکائیل بائیں طرف، اس حالت میں آپ صور پھونکیں گے اس کی وجہ رب کریم ہی جانے۔(5)

صور کب پھونکا جائے گا؟

صور قیامت کی تمام نشانیوں میں سب سے آخری نشانی ہے، اس کے فوراً بعد قیامت قائم ہو جائے گی، لہٰذا اس کا یقینی علم تو اللہ پاک کو ہی ہے کہ صور کب پھونکا جائے گا، بہرحال اتنا یاد رکھنا چاہئے کہ ایک روایت میں ہے: صور پھونکنے والا فرشتہ بگل منہ میں لے چکا ہے، اپنے سر کو جھکا چکا ہے اور کان لگا کر اس بات کا انتظار کر رہا ہے کہ کب اسے حکم ہو اور وہ صور پھونکے۔ (6)البتہ! یہ کس دن پھونکا جائے گا، اس کے متعلق غیب جاننے والے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ تمہارے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ ہے، اسی دن حضرت آدم پیدا ہوئے ، اِسی میں ان کی روحِ مبارکہ قبض کی گئی، اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن ہلاکت طاری ہوگی۔(7)

پہلا صور پھونکنے کے وقت کیا ہو گا؟

لوگ اپنے کام کاج میں مصروف ہوں گے کہ حضرت اسرافیل علیہ السلام کو صور پھو نکنے کا حکم ہو گا، شروع میں اس کی آواز بہت باریک ہو گی، پھر بہت بلند ہوتی جائے گی، لوگ کان لگا کر سنیں گے اور بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے اور مر جائیں گے، یہاں تک کہ ہر شے فنا ہو جائے گی، اُس وقت سوا اُس واحدِ حقیقی کے کوئی نہ ہو گا، وہ فرمائے گا:لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَؕ (پ24، المؤمن:16) ترجمہ: آج کس کی بادشاہی ہے؟ کہاں ہیں جبارین و متکبرین؟ مگر ہے کون جو جواب دے! پھر خود ہی فرمائے گا: لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ0(پ 24، المؤمن:16)ترجمہ: ایک اللہ کی جو سب پر غا لب ہے۔(8)

کیا صور پھونکے جانے کے بعد بھی کوئی زندہ رہےگا؟

پہلی مرتبہ صور پھونکنے کے بعد جسے اللہ پاک چاہے گا اسے موت نہ آئے گی۔ اس کے متعلق یہ چار اقوال مروی ہیں:

1-حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہما کے نزدیک جب پہلا صور پھونکا جائے گا تو حضرت جبریل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل علیہم السلام کے علاوہ تمام آسمان اور زمین والے مر جائیں گے۔(9) اس کی وضاحت احیاء العلوم میں کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ صور پھونکے جانے کے بعد اللہ پاک کے حکم سے حضرت جبریل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل زندہ رہیں گے پھر اللہ پاک کے حکم سے حضرت عزرائیل یعنی ملک الموت علیہ السّلام پہلے جبریل کی روح قبض کریں گے پھر میکائیل کی اور پھر اسرافیل کی، اس کے بعد اللہ پاک عزرائیل کو مرنے کا حکم فرمائے گا تو وہ بھی مر جائیں گے۔ (10)

2-تفسیر قرطبی میں ہے کہ پہلے نفخہ سے جن لوگوں کو موت نہ آئے گی، ان سے مراد وہ شہدا ہیں جو اپنی تلواریں لٹکائے عرش کے گرد حاضر ہوں گے۔(11)

3-حضرت کعب احبار رحمۃُ اللہِ علیہ کے قول کے مطابق پہلے صور کے بعد جنہیں موت نہ آئے گی ان کی تعداد 12 ہے: 8 عرش اٹھانے والے فرشتے، جبریل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت علیہم السلام۔ جبکہ حضرت ضحاک رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ان سے مراد رضوانِ جنت، حورِ عین، نگرانِ دوزخ حضرت مالک علیہ السلام اور عذاب کے وہ فرشتے ہیں جو جہنم پر مامور ہیں۔(12)

4-حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق اس وقت جنہیں موت نہ آئے گی وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں، چونکہ آپ (کوہِ طور پر) بے ہوش ہو چکے ہیں اس لئے( پہلی مرتبہ صور پھونکنے سے) آپ دوبارہ بے ہوش نہ ہوں گے ۔(13)

صور کتنی بار پھونکا جائے گا؟

صور کتنی مرتبہ پھونکا جائے گا، اس میں اختلاف ہے یعنی چار مرتبہ ، تین مرتبہ یا دو مرتبہ؟ زیادہ تر علما کا اس پر اتفاق ہے کہ صور صرف دو مرتبہ پھونکا جائے گا۔ جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی رحمۃُ اللہِ علیہ دو سے زائد مرتبہ صور پھونکنے کا قول رکھنے والوں کے جواب میں فرماتے ہیں کہ صور صرف دو مرتبہ پھونکا جائے گا، البتہ! ان دونوں کے درمیان سننے والوں کے اعتبار سے کچھ فرق ہو گا یعنی پہلی بار جب صور پھونکا جائے گا تو اس سے ہر زندہ شخص مر جائے گا ، مگر جن کو اللہ پاک نے موت سے مستثنیٰ کر لیا ہے وہ صرف بے ہوش ہو جائیں گے اور جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو جو مر گئے تھے وہ زندہ ہو جائیں گے اور جو بےہوش ہوئے تھے وہ ہوش میں آ جائیں گے۔(14)

دوسرا صور کب پھونکا جائے گا؟

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ان دونوں نفخوں میں 40 سال کا فاصلہ ہو گا کہ اگر سورج ہوتا اور دن رات نکلتے تو 40 سال کی مدت ہوتی ۔(15)

دوسری بار صور پھونکنے کے بعد کیا ہو گا؟

اﷲ پاک جب چاہے گا حضرت اسرافیل کو زندہ فرمائے گا اور صور کو پیدا کر کے دوبارہ پھونکنے کا حکم دے گا، صور پھونکتے ہی تمام اوّلین و آخرین، ملائکہ و اِنس و جن و حیوانات موجود ہو جائیں گے۔(16) سب سے پہلے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم قبرِ مبارک سے یوں برآمد ہوں گے کہ سیدھے ہاتھ میں حضرت صدیقِ اکبر کا ہاتھ اور بائیں ہاتھ میں حضرت فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہما کا ہاتھ ہو گا۔(17)

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)


[i]ترمذی،5/ 165،حدیث:3255 2مسند اسحاق ،1 /75 ، حدیث : 10 ملتقطاً 3مراۃ المناجیح،7/354 ماخوذاً 4التذکرة،ص176 5مراۃ المناجیح،7/362 6سنن کبری للنسائی،6/ 316،حدیث:11082 7ابوداود، 1/391، حدیث: 1047 8ترمذی،5/88،حدیث:3712ماخوذاً 9تفسیر خازن، المومنون، 3 / 332 0احیاء العلوم ، 5/270 Aتفسیر قرطبی،8 /203 Bتفسیر قرطبی،8 /203 Cتفسیر کبیر،9/476 Dفتح الباری، 7/369 Eمراۃ المناجیح،7/354 Fبہارِ شریعت، 1/ 128 Gترمذی،5 /88،حدیث:3712ماخوذاً


حضور کی والدہ ماجدہ

Tue, 5 Jul , 2022
2 years ago

از: شعبہ ماہنامہ خواتین المدینۃ العلمیۃ

حمل کی تکلیف:

بی بی آمنہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: میں نے زمانہ حمل میں کسی طرح کی تکلیف اٹھائی نہ کوئی بوجھ محسوس کیا۔([i]) سیرت حلبیہ میں آپ رضی اللہُ عنہا کا یہ قول مروی ہے کہ مجھے حمل سے پیدائش تک کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔ (2) مگر مواہب اللدنیہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ فرمانِ عالیشان مروی ہے کہ میری والدہ نے دیگر عورتوں کی طرح حمل کا بوجھ محسوس کیا اور اپنی سہیلیوں سے اس کا تذکرہ بھی کیا، پھر میری والدہ نے ایک خواب دیکھا کہ ان کے بطن اطہر میں جو کچھ ہے وہ نور ہے۔ دورانِ حمل چونکہ بوجھ محسوس کرنے اور نہ کرنے دونوں طرح کی روایات مروی ہیں، لہٰذا علمائے کرام نے ان روایات میں یوں تطبیق دی ہے کہ ابتدائی حالت میں بوجھ تھا، پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد یہ کیفیت بھی ختم ہو گئی۔(3)

دورانِ حمل کے عجائبات:

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی والدہ ماجدہ کے بطن اطہر میں پورے نو مہینے تشریف فرما رہے ۔ اس دوران حضرت آمنہ رضی اللہُ عنہا کے سر یا پیٹ میں کوئی درد اور کسی قسم کی تکلیف نہ ہوئی، بلکہ حاملہ عورتوں کو جو تکالیف ہوتی ہیں آپ ان سے بھی محفوظ رہیں۔(4)

امام ابو نعیم اصفہانی رحمۃُ اللہِ علیہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت آمنہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: جب میں چھ ماہ کی حاملہ تھی تو کوئی میرے خواب میں آیا اور کہنے لگا: اے آمنہ! آپ کو تمام جہاں سے بہتر ہستی کی ماں بننے کا شرف ملنے والا ہے، لہٰذا جب یہ ہستی دنیا میں تشریف لائے تو اس کا نام محمد رکھئے گا اور اپنے معاملے (یعنی آپ جو انوار و تجلیات وغیرہ دیکھیں، ان ) کوکسی پر ظاہر مت کیجئے گا۔ (5) ایک روایت میں ہے کہ سیدہ آمنہ نے خواب دیکھا کہ کوئی انہیں کہہ رہا ہے کہ آپ تمام مخلوقِ خدا سے بہتر اور تمام جہانوں کے سردار کی ماں بننے والی ہیں ۔لہٰذا جب وہ پیدا ہوں توان کا نام محمد اور احمد رکھئے گا، نیز ان کے گلے میں یہ تعویز ڈال دیجئے گا۔ چنانچہ جب آپ بیدار ہوئیں تو اپنے سر کے قریب سنہری حروف سے لکھی ہوئی ايك تحریر موجود پائی۔ (اس تحریر کا مفہوم کچھ یوں ہے)میں پناہ مانگتی ہوں اللہ وحدہ لاشریک کی ہر حاسد کے شر سے، ہر بھٹکی مخلوق سے، کھڑی ہو یا بیٹھی ہو، جو سیدھی راہ سے ہٹی ہوئی اور فساد کیلئے کوشاں ہے۔ نیز پناہ مانگتی ہوں ہر پھونکنے اور گرہ لگانے والے سے اور مردود مخلوق سے جو لوگوں کی گزرگاہوں پر گھات لگائے بیٹھتی ہے۔ میں اس بچے کو خدائے بر ترکی پناہ میں دیتی ہوں اور اسی کے ظاہری و باطنی دست قدرت کے حوالے کرتی ہوں کہ اللہ پاک کا دست قدرت ہی تمام مخلوق پر غالب ہے اور اللہ پاک نے انہیں اپنے حجاب میں لے رکھا ہے ، لہٰذا کوئی بھی انہیں تا ابد کسی حال میں نقصان نہ پہنچا پائے گا۔(6) یہ روایت اگرچہ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ سیرت کی کئی کتب میں موجود ہے، مگر شرف مصطفیٰ نامی کتاب میں اس کے بعد یہ اضافہ بھی موجود ہے کہ سیدہ آمنہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں میں نے اس خواب اور تعویز کا ذکر چند عورتوں سے کیا تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ (یہ کوئی آسیب ہے، لہٰذا ) اپنے گلے اور بازو پر لوہے کی کوئی چیز باندھ لوں، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا مگر چند ہی دنوں میں وہ لوہے کی چیز خود بخود ٹوٹ گئی اور میں جب بھی اسے باندھتی ایسا ہی ہوتا، لہٰذا میں نے باندھنا ہی چھوڑ دیا۔(7)

نور سے سارا جہان منور ہو گیا:

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ابھی اپنی والدہ ماجدہ کے شکم میں ہی تھے کہ ایک بار ان سے ایسا نور نکلا جس سے سارا جہان منور ہو گیا اور انہوں نے بصرے کے محلات دیکھے۔ بصرہ شام کی جانب ایک شہر کا نام ہے، اسی قسم کا ایک واقعہ ولادت کے وقت میں بھی منقول ہے۔(8)چنانچہ علامہ سید احمد بن زینی دحلان مکی اپنی کتاب السیرۃ النبویہ میں ان دونوں واقعات میں فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت آمنہ نے جو نور حمل مبارک کے وقت دیکھا تھا وہ خواب میں تھا اور جو ولادت باعث ہزار سعادت کے وقت دیکھا تھا وہ عالم بیداری میں تھا۔(9)

ابن رجب حنبلی فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادت کے وقت نور کے ظہور سے اس طرف اشارہ ہے کہ آپ ایسا نور لے کر آئے ہیں جس کے ذریعے تمام اہل زمین کو ہدایت کی دولت نصیب ہو گی اور شرک کی تاریکی دور ہو گی۔ جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِيْنٌۙ0 يَّهْدِيْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ يُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ يَهْدِيْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ0(10)(پ6،المائدہ: 15، 16)ترجمہ کنز العرفان:بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آ گیا اور ایک روشن کتاب۔ اللہ اس کے ذریعے اسے سلامتی کے راستوں کی ہدایت دیتا ہے جو اللہ کی مرضی کا تابع ہو جائے اور انہیں اپنے حکم سے تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے۔

جہاں تک حضور کی ولادت کے وقت نور سے بُصریٰ کے محلات روشن ہونے کا تعلق ہے تو وہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ملک شام نور نبوت کے ساتھ خاص ہو گا کیونکہ وہ آپ کی بادشاہت والے ملک کا شہر ہے جیسا کہ حضرت کعب الاحبار رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: سابقہ کتب میں یہ لکھا ہوا ہے:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے رسول ہیں، ان کی جائے پیدائش مکہ، ہجرت کا مقام مدینہ منورہ اور بادشاہت ملکِ شام میں ہوگی۔ چنانچہ مکہ مکرمہ سے نبوت محمدی کی ابتدا ہوئی اور آپ کی بادشاہت ملک شام تک پہنچی اوراسی لیے آپ کو معراج کی شب ملک شام کی جانب بیت المقدس تک سیر کرائی گئی جیسا کہ آپ سے قبل حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بھی ملک شام کی طرف ہجرت فرمائی تھی ۔(11)

پیدائش سے پہلے ربیع الاول کی ہر رات بشارت:

علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں: ربیع الاول کی پہلی رات سیدہ آمنہ کو سرور و مسرت حاصل ہوئی۔ دوسری رات آرزو پانے کی بشارت دی گئی۔ تیسری رات میں کہا گیا کہ آپ اس ہستی کی ماں بننے والی ہیں جو ہماری حمد وشکر بجا لائے گی۔ چوتھی رات میں آپ نے آسمانوں سے فرشتوں کی تسبیح کی آواز سنیں۔ پانچویں رات حضرت ابراہیم کو خوش خبری دیتے ہوئے سنا کہ اے آمنہ! مدح وعزت کے مالک کی ماں بننے کا شرف پانے پر خوش ہو جاؤ۔ چھٹی رات میں فرحت و برکت مکمل ہو گئی۔ ساتویں رات میں نور چمکا اور مدہم نہیں ہوا۔ آٹھویں رات میں فرشتوں نے سیدہ آمنہ کے گرد طواف کیا۔ نویں رات میں سیدہ آمنہ کی سعادت و غنا ظاہر ہوئی۔ دسویں رات میں فرشتوں نے شکر و ثنا کے ساتھ لا الہ الا اللہ کا ورد کیا۔ گیارہویں رات میں سیدہ آمنہ سے مشقت و تھکاوٹ دور ہوگئی ۔(12)

آسمان و زمین سے ندا کا آنا:

سیدہ آمنہ فرماتی ہیں کہ حمل کے ہر ماہ میں آسمان و زمین کے درمیان یہ آواز سنا کرتی کہ آپ کو مبارک ہو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے کہ ابو القاسم دنیا میں جلوہ افروز ہونے والے ہیں جو صاحب خیر و برکت ہیں۔(13)

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)


[i] خصائص الکبری للسیوطی مترجم، ص 140 2 سیرت حلبیہ، 1/ 69 3 مواہب اللدنیہ، 1/ 62 4 مواہب اللدنیہ ، 1/ 63 5 دلائل النبوۃ لابی نعیم، ص 362، حدیث: 555 6 دلائل النبوۃ لابی نعیم، ص 77، حدیث: 78 7 شرف المصطفیٰ، 1/ 351، حدیث: 97 8 مدارج النبوت مترجم، 2/ 28 9 السیرۃ النبویۃ، 1/ 45 0 لطائف المعارف، ص 173 A لطائف المعارف، ص 174 B مولد العروس اردو، ص 73 C مدارج النبوت مترجم، 2/ 28