اس اُمّت کے بہترین اور افضل و اعلی افراد صحابۂ کرام ہیں کہ جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکی قربت و صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے،شب و روز آپ کے شربتِ دِیدار سے سیراب ہوتے،آپ پر نزول ِ وحی کے اثرات ملاحظہ کرتے اور آپ کی ذات سے صادِر ہونے والے بہت سے معجزات کا ظہور بھی اپنی نگاہوں سے دیکھتے۔ چُونکہ اِن افراد کی تعلیم و تربیّت خُود نبیِّ کریم فرمایا کرتے تھے اِسی وجہ سے اِن کے ذہنوں میں آپ کی سوچ،آنکھوں میں نبوت کا سراپا،زندگی میں آپ کا کردار رَچا بسا ہوتا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی معیت سے شرف یاب ہونے کے طفیل آپ پر نازل ہونے والے انوار و تجلیات سے اُنہیں بھی حِصّہ ملتا رہا ۔اِسی وجہ سے صحابۂ کرام کا مقام و مرتبہ اُمَّت میں سب سے بلند و بالا ہے۔

یاد رکھئے!جس طرح تمام انبیاء میں سب سے افضل و اعلی ہمارے آقا و مولیٰہیں اِسی طرح دیگر تمام انبیاء کے صحابہ میں سب سے افضل مقام اَصحاب رسول کا ہے، پھر صحابۂ کرام میں سب سے افضل خلفائے راشدین (یعنی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق، حضرت سیدنا عمر فاروق، حضرت سیدنا عثمانِ غنی اور حضرت سیدنا علی المرتضی ) ہیں اور انہی خلفاۓ راشِدین میں سے تیسرے خلیفۂ ،جامع القرآن ، کامل الحیاء و الایمان حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کا 18 ذی الحجہ کو یوم شہادت ہے۔ اسی مناسبت سے آپ کی ذات والا صفات کے بارے میں کچھ تحریر کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہوں ،آپ کے حالات و واقعات کی طرف جانے سے پہلے آپ کا تعارف ملاحظہ کیجیئے : چنانچہ

حضرت عثمان غنی کا تعارف

آپ کا نام نامی،اسم گرامی”عثمان“اور کنیت ’’ ابوعَمرو‘‘ہے۔’’ امیر المؤ منین، ذُوالنورین(یعنی دو نور والا) ،کامل الحیاء و الایمان، (حیا اور ایمان میں کامل) ،جامع القرآن (قرآن جمع کرنے والے) ،سید الاسخیاء (سخیوں کے سردار) ،عثمان باحیا وغیرہ آپ کے مشہور القابات ہیں ۔ مگرآپ کے تمام اَلقابات میں سے ’’ ذُو النُّورَین‘‘ (یعنی دو نور والا) زياده مشہور ہے۔اس لقب کی زیادہ مشہور وجہ یہ ہے کہ آپ کے نکاح میں یکے بعد دیگرے حُضُور پُر نُور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دو شہزادیاں حضرت سیدتنا رقیہ اور حضرت سیدتنا اُمِّ کلثوم رضی اللہ تعالی عنھما آئیں،اسی وجہ سے آپ کو ’’ ذُو النّورَیْن‘‘ (یعنی دو نور وا لا)کہا جاتا ہے۔ (تہذیب الاسماء، 1/297)آپ خلفائے راشِدین میں تیسرے خلیفہ ہیں۔ (جنتی زیور، ص182 ملخصا) آپ امیر المؤمنین ابوبکر صدیق کی کوششوں سے اسلام لائے اور اسلام قبول کرنے والوں میں آپ کا شمار چوتھے نمبر پر ہوتا ہے،جیسا کہ آپ رضی ا للہُ عنہ خود ارشاد فرماتے ہیں:ا ِنِّيْ لَرَابِعُ اَرْبَعَةٍ فِي الْاِسْلَامِ یعنی میں اِسلام قبول کرنے والے 4 اشخاص میں سے چوتھا ہوں۔ (معجم کبیر،1/85،حدیث:124 ) حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کو بروز جمعہ35ہجری ماہِ ذی الحجہ میں شہید کیا گیا ۔ حضرت سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہُ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور آپ جنَّتُ البقیع میں سُپردِ خاک کئے گئے۔ (اسد الغابۃ ،3/ 614-616ملخصا)

حضرت سَیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کا شمار ان صحابۂ کرام میں ہوتاہے،جن پر اسلام قبول کرنے کے بعد ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے، طرح طرح سے ستایا گیا اور بہت ہی درد ناک سُلوک کیا گیا،مگر قربان جائیے!حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کے عزم و استقلال پر!جو اس قدر ظلم سہہ کر بھی باطل کےآگے ڈَٹے رہے ا ور دینِ اسلام سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہ ہوئے:چنانچہ

جب حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ اِسلام لاۓ تو آپ کو نہ صِرف اپنے گھر والوں بلکہ پُورے خاندان کی طرف سے شدید مخالفت کے ساتھ ساتھ سخت سزا ؤں کا سامنا کرنا پڑا،یہاں تک کہ آپ کا چچا حکم بن ابی العاص اِس قَدر ناراض اور برہم ہوا کہ آپ کو پکڑ کر ایک رَسّی سے باندھ دیا اور کہا: تم نے اپنے باپ دادا کا دِین چھوڑ کر ایک دُوسرا نیا مذہب اِختیار کرلیا ہے،جب تک کہ تُم اُس نئے مَذہب کو نہیں چھوڑوگے ہم تمہیں نہیں چھوڑیں گے اِسی طرح باندھ کر رکھیں گے۔یہ سُن کر آپ نےفرمایا: خُدائے ذُوالجلال کی قسم! مذہبِ اسلام کو میں کبھی نہیں چھوڑ سکتا“ ا ور نہ کبھی اس دولت سے دَسْتْ بَردارہوسکتا ہوں،میرےجسم کےٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو یہ ہوسکتا ہے مگر دل سےدین ِاسلام نکل جائے یہ ہرگز نہیں ہو سکتا،حکم بن ا بی العاص نے جب اِس طرح آپ کا ا ستقلال دیکھا تو مجبور ہو کر آپ کو رہا کردیا۔ (تاریخ ابن عساکر،39 /26)

ذوق عبادت اور شوق تلاوت

امیر المؤمنین،حضرت سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کی پاکیزہ سیرت کا ایک روشن پہلو یہ بھی تھا کہ آپ ساری ساری رات ربِّ کائنات کی بارگاہ میں سجدہ و قیام کی حالت میں گزار دیا کرتے ،قبر و آخرت کی فکر میں ڈوبے رہتے اور اپنے ربِّ کریم سے رحمت کی آس لگائے رکھتے تھے۔دن کے اوقات سخاوت و روزہ کی حالت میں گزرتے تو راتیں بارگاہ ِخداوندی میں سجدہ و قیام اور تلاوت قرآن میں کٹ جاتی تھیں۔آپ کے شوق ِعبادت و ذوقِ تلاوت پر مشتمل4 واقعات ملاحظہ کیجئے : چنانچہ

(1)حضرت سیِّدُنا زبیر بن عبداللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المؤ منین حضرت سیِّدُنا عثمان رضی اللہُ عنہ ہمیشہ روزہ رکھتے اور ابتدائی رات میں کچھ آرام کر کے پھر ساری رات عبادت میں بسر کرتے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ 2/ 173 ، حدیث :6)

(2)حضرت سیِّدُنا مسروق ، اَشْتَر (یعنی جس نے حضرت سیدنا عثمانِ غنی کو شہید کیا تھا ) سے ملے تو پوچھا : کیا تو نے حضرت سیِّدُنا عثمان رضی اللہُ عنہ کو شہید کیا ہے؟ اس نے کہا: ’’ہا ں ‘‘ توآپ نے فرمایا:اللہ پاک کی قسم!تو نے روزہ دار اور عبادت گزار شخص کو شہید کیا ہے ۔ (معجم کبیر،1/81، حدیث:114)

(3) جب امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہُ عنہ کو شہید کیا گیا تو آپ کی زوجہ نے قاتلوں سے فرمایا: ’’تم نے اس شخص کو شہید کیا،جو ساری رات عبادت کرتا اور ایک رکعت میں قرآنِ کریم ختم کرتا ہے۔ ( الزھد للامام احمد، ص 1 5 3 ، حدیث : 673)

(4) حضرت سیِّدُنا عبد الرحمن تیمی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: ” مجھے ایک بار مقامِ ابراہیم پر رات ہوگئی۔ میں عشاء کی نماز ادا کرکے مقامِ ابراہیم پر پہنچا یہاں تک کہ میں اس میں کھڑا ہوا تو اتنے میں ایک شخص نے میرے کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھا۔ میں نے دیکھا تو وہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عثمان بن عفان رضی اللہُ عنہ تھے۔ کچھ دیر بعد آپ نے سورۂ فاتحہ سے قرآنِ کریم کی تلاوت شروع کی یہاں تک کہ پورا قرآنِ کریم ختم کرلیا۔ “ (الزھد لابن المبارک، ص452،حدیث:1276ملخصا)

تلاوت قرآن کی عادت بنائیے

اے عاشقانِ صحابہ!ان واقعات سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان غنی رضی ا للہُ عنہ کو کس قدر عبادت اور تلاوت قرآن سے محبت تھی ،دن رات ربِّ کریم کا کلام پڑھتے رہتے تھے۔ مگر افسوس!آج مسلمانوں کی اکثریت قرآنِ پاک کی تعلیم سے ناآشنا ہے،بعض نادانوں کو قرآنِ پاک دیکھ کر پڑھنا بھی نہیں آتا اور جن کو پڑھنا آتا ہے وہ بھی سالوں سال تک قرآنِ پاک کھول کر نہیں دیکھتے،کئی کئی مہینے گزر جاتے ہیں مگر مسلمانوں کے گھر تلاوت کی برکت سے محروم رہتے ہیں۔ آئیے!آج حضرت عثمان غنی رضی اللہُ عنہ کے عرس کے موقع پر ہم بھی نیت کرتے ہیں کہ آج سے آپ کی سیرت اور اداؤں کو اپناتے ہوئے ہم دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ قرآنِ پاک پڑھیں گے اور دوسرے لوگوں کو بھی قرآن ِ پاک پڑھنے کی ترغیب دلائیں گے۔ ان شاء اللہ عَزَّ وَجَلَّ!

18 ذی الحجہ کو اپنے اپنے گھروں میں حضرت عثمان غنی رضی اللہُ عنہ کی بارگاہ میں ایصال ثواب پیش کرنے کے لئے فاتحہ و نیاز کا اہتمام کریں اور اپنے بچوں کو ان کی سیرت کے بارے میں بتائیں،اس کے لئے شیخ طریقت ، امیر اہل سنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کا رسالہ کراماتِ عثمان غنی خود بھی پڑھئے اور اپنے بچوں کو بھی پڑھائیے۔اللہ کریم ہمیں اپنے نیک بندوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

از: مولانا عبد الجبار عطاری مدنی

اسکالر:المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر)دعوت اسلامی


فلسفۂ حج

Fri, 8 Jul , 2022
1 year ago

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے: وَاَتِمُّوا الحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہ ترجمۂ کنزالایمان (اور حج اور عمرہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے لئے پورا کرو) ۔(البقرۃ، پ2، 196) آیتِ مبارکہ کے اس جز کے تحت تفسیرِ صراط الجنان میں لکھاہے :اس سے مراد یہ ہے کہ حج و عمرہ دونوں کو ان کے فرائض و شرائط کے ساتھ خالصتاً اللہ تعالیٰ کے لئے بغیر سستی اور کوتاہی کے مکمل کرو۔(صراط الجنان،1، 354، تحت الآیۃ:196)

اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اولاً حج کا اصلِ مقصود رضائے الٰہی ہونا چاہیئے، اسی طرح حاجی کا گناہوں سے پاک ہو جانا اسی صورت میں ہےجبکہ و ہ صرف اللہ عزوجل کی رضا کے لئے حج کرے جیساکہ حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے:جو صرف اللہ عزوجل کے لئے حج کرے اور اس میں کوئی فحش بات یا گناہ نہ کرے تووہ حج سے ایسےلوٹتا ہے جیسا کہ وہ آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔(بخاری، فضل حج مبرور، 1، 512، حدیث1521)

اراکینِ حج اوراسلاف کی یادیں:

حج کا ایک مقصد ہمیں ہمارے اسلاف کی یادوں کے ساتھ جوڑنا ہے کیوں کہ حج میں ادا کئے جانےوالے اراکین، واجبات، سنتیں اور مستحبات الغرض احرام باندھنے سے لیکر طوافِ زیارہ تک ہر کام ہمارے اسلاف و بزرگانِ دین کی یادوں پر مشتمل ہے جن کے سبب مسلمانوں کا ایمان تازہ ہو جاتا ہیں اوریہ اُن کی بخشش کا سامان بھی بن جاتا ہے۔

مقصدِ حج:

جس طرح اللہ عزوجل نے باجماعت نماز پڑھنے کو افضل قرار دیا کہ اس طرح مسلمان ایک ہی صف میں ایک ہی امام کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں، اس طرح اتفاق و اتحاد پیدا ہوتا ہےنیز ایک غریب انسان بغیر کسی تفریق اور امتیاز کے امیر آدمی کے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہےکہ آقا ہو یا غلام، خادم ہو یا مخدوم سب اللہ عزوجل کی بارگاہ میں برابر ہیں کسی کو دوسرے پر فوقیت نہیں مگر تقوے کے ساتھ۔ارشاد خدا وندی ہے: ان اکرمکم عند اللہ اتقکم ۔ترجمۂ کنزالایمان(بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والاوہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے) ۔

اسی طرح اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے مسلمانوں کو یکجا و متحد کرنے اور اُن کے درمیان اخلاص و محبت پیدا کرنے کے لئےانہیں ایک ایسی جگہ جمع ہونے کا حکم دیا جہاں وہ لوگ نسل، زبان، رنگت اور شہروں کا امتیاز کئے بغیر خالصتاً اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رضا کے لئے ایک ساتھ عبادت کریں کیوں کہ مسلمان مشرق و مغرب تک پھیل چکے تھے اور اُن میں نسل و زبان کے اعتبار سے بھی فرق آگیا تھالہٰذا انہیں ایک میدان میں جمع ہونے کا حکم دیا گیا۔

افعالِ حج کی بزرگانِ دین سے نسبت:

جیساکہ ذکر کیا گیا کہ حج کے اراکین و افعال دراصل ہمارے اسلاف کی یادیں ہیں جس کے ذریعے مسلمان اپنے قلوب و اذہان کو پاک و صاف کرتے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے مغفرت کے طلب گار ہوتے ہیں،ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

حجرِ اسود کا استلام:

حجرِ اسود ایک جنتی پتھر ہے جس کا حاجی استلام( اپنے ہاتھ سے چھونا) کرتے ہیں ، زمانہ جاہلیت میں لوگوں کو پتھر سے دور کیا جاتا تھا جبکہ اس پتھر کو چومنے اور چھونے کا حکم دیا گیاکیوں کہ پیارے آقا ﷺ نے جب حج کیا تو حجرِ اسود کو چوما تھا۔(سنن ابی داؤو، کتاب المناسک، باب فی رفع الیداذا رأی البیت،2، 255، حدیث 1872)

روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حجرِ اسود کے پاس تشریف لائے اور اسے چوما پھر فرمایا: میں جانتاہوں تو ایک پتھر ہے، تو نہ کسی کو نقصان پہنچاسکتا ہے نہ فائدہ اگر میں رسول اللہ ﷺ کو تجھے چومتے ہوئے نہیں دیکھتاتو میں بھی تجھے نہیں چومتا ۔(بخاری ، باب ماذکر فی الحجر الاسود، 1، 537، حدیث 1597)

صفا اور مروۃ کی سعی:

یہ وہ دو مقام ہیں جن میں بعض مناسکِ حج ادا کئے جاتے ہیں جیساکہ صفا و مروۃ کے درمیان سعی کرنا یعنی ان مقامات میں اُس شخص کی طرح چلنا جو کسی چیز کی جستجو میں ہو یا کسی چیز کی تلاش میں ہو ۔

جب حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی زوجہ سیدہ ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور ان کے شہزادے حضرت اسماعیل علیہ السّلام ان مقامات میں جلوہ افروز تھےتو اس وقت سیدہ ہاجرہ رضی اللہ عنہا مشکیزے میں پانی ختم ہونے کے سبب صفا سے مروۃ کے درمیان دوڑی تھیں تاکہ وہ اپنی اور اپنے شہزادے کی پیاس بھجا سکیں ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کو سیدہ کا یہ عمل اتنا پسند آیا (کیوں کہ انہوں نے یہ سب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نبی کے لئے کیا تھا) لہٰذا اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اس عمل کو حج کے رکن میں شامل فرما دیا۔(صاوی، ابراہیم، 3/ 1027-1028،تحت الآیۃ:37)

قربانی:

اس میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی اقتداء ہے، جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے انہیں حکم دیا کہ اپنے لختِ جگر کو ذبح کردو تو حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اپنے بیتے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو اس معاملے سے آگاہ کیا تو انہیں عرض کی اے میرے باپ آپ وہ کریں جس کا آپ کو حکم ہوا ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السّلاماس حکم پر عمل پیرا ہونے کے لئے تیار ہو گئے اور اپنے لختِ جگر کو ذبح کرنے کے لئے لٹا دیا لیکن اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے حضرت جبرائیل علیہ السّلام کے ذریعے ایک مینڈھا بھیج کر حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو بچا لیااور قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو قربانی کرنے کا حکم دیا۔(صاوی، الصافات، 5/ 1746-1748)

اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب بندوں کے افعال اراکینِ حج میں شامل:

ان جیسے اور بھی اراکینِ حج ہیں جن کا تعلق اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب بندوں سے ہےنیز ان نیک بندوں نے یہ ا راکینِ حج اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت سمجھ کر نہیں بلکہ کسی خاص وجہ کے تحت کیا تھالیکن اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اپنے محبوب بندوں کے ان افعال کو اراکینِ حج میں شامل فرما کر مسلمانوں (جو استطاعت رکھتے ہوں) پر حج کو لازم قرار دے دیا تاکہ دنیا بھر کے مسلمان حج کے لئے جمع ہوکر ان نیک بندوں کی اطاعت گزاری کو ملاحظہ کریں اور ان نیک بندوں کی طرح اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے حکم پر سرِ خم تسلیم کریں۔

اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں بھی اپنے بابَرَکت گھر کعبۂ معظمہ کی زیارت سے مشرف فرمائے تاکہ ہم مکہ مکرمہ میں موجود ان مقدس مقامات کی زیارت کر سکیں جن کا تعلق اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب بندوں سے ہے۔

از:غیاث الدین عطاری مدنی

اسلامک اسکالر، اسلامک ریسرچ سینٹر(المدینۃ العلمیہ)


دار التراث العلمی للتحقیق والترجمة والطباعة والنشر کراتشی کی کارکردگی و اہداف

علمائے اہلسنت کی عربی کتابوں کو دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ علمائے کرام کی تحقیق وتخریج وغیرہ کے ساتھ دنیائے عرب سے منظم انداز میں شائع کروانےکی غرض سے مکتبۃ المدینہ العربیہ میں ایک ذیلی شعبہ

’’دار التراث العلمی ‘‘ کے نام سے جمادی الاولیٰ 1441ھ/ جنوری2020 ء کو قائم کیا گیا ، اس شعبہ کے ذریعے اب تک جو کتابیں شائع ہوچکی ہیں ، جن پر کام جاری ہے اور آئندہ کے اہداف کی تفصیل درج ذیل ہے:

2020

نمبر شمار

نام کتاب

مصنف

محقق

شعبہ

کل صفحات

مکتبہ

1

انور المنان

امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان حنفی ماتریدی

مولانامحمد کاشف سلیم عطاری مدنی

کتب اعلیٰ حضرت

87

دار الکتب العلمیہ بیروت

2

الفتاوی المختارۃ

امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان حنفی ماتریدی

مولانامحمد گل فراز عطاری مدنی / مولانامحمد کاشف سلیم عطاری مدنی

کتب اعلیٰ حضرت

127

دار الکتب العلمیہ بیروت

3

اجلی الاعلام

امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان حنفی ماتریدی

مولانامحمد کاشف سلیم عطاری مدنی

کتب اعلیٰ حضرت

141

دار الکتب العلمیہ بیروت

4

مجموع رسائل الشیخ الیاس العطار (ج1)

امیر اہلسنّت مولانا محمد الیاس عطار قادری

عرب شیوخ ومدنی علمائے کرام

عربی ڈپارٹمنٹ

301

دار الکتب العلمیہ بیروت

5

دروس البلاغۃ

(۱)حنفی ناصف(۲)محمد دباب(۳) سلطان محمد (۴)مصطفی طموم

مولانامحمد شہزاد سلیم عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

202

دار الفجر سوریا

6

المقدمۃ فی علم الحدیث

شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی

مولانااحمد رضا شامی عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

212

دار الریاحین اردن

2021

7

التعلیقات الرضویہ علی تقریب التہذیب

امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان حنفی ماتریدی

مفتی حسان عطاری مدنی / مولانامحمد کاشف سلیم مدنی عطاری

کتب اعلیٰ حضرت

326

دار الکتب العلمیہ بیروت

8

التعلیقات الرضویہ علی الھدایۃ و شروحہا

امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان حنفی ماتریدی

مولانامحمد کاشف سلیم مدنی عطاری

کتب اعلیٰ حضرت

744

دار الکتب العلمیہ بیروت

9

نفحات الصلاۃ

امیر اہلسنّت مولانا محمد الیاس عطار قادری

عرب شیوخ ومدنی علمائے کرام

عربی ڈپارٹمنٹ

608

دار الکتب العلمیہ بیروت

10

شجرۃ الطریقۃ القادریۃ

امیر اہلسنّت مولانا محمد الیاس عطار قادری

عرب شیوخ ومدنی علمائے کرام

عربی ڈپارٹمنٹ

152

دار الکتب العلمیہ بیروت

11

مسند الامام الاعظم

علامہ عابد سندھی

مولاناکامران احمد عطاری مدنی/ مولاناعدیل صدیقی عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

656

دار الصالح مصر

12

الفوز الکبیر

شاہ ولی اللہ دہلوی

مولانااحمد رضا شامی عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

165

دار الکتب العلمیہ بیروت

13

نور الایضاح

علامہ حسن بن عمار شرنبلالی حنفی

مولاناافتخار احمد عطاری مدنی/ مولانااسماعیل نقشبندی مدنی

شعبہ درسی کتب

592

دار الکتب العلمیہ بیروت

2022

14

جد الممتار (7 جلدیں)

امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان حنفی ماتریدی

مولانا یونس عطاری مدنی/ مولاناکاشف سلیم عطاری مدنی/ سید عقیل احمد عطاری مدنی

کتب اعلیٰ حضرت

4,105

دار الکتب العلمیہ بیروت

15

فوز الکرام

شیخ محمد قائم بن صالح سندھی

مفتی حسان عطاری مدنی / مولانامحمد کاشف سلیم عطاری مدنی

کتب اعلیٰ حضرت

121

دار الکتب العلمیہ بیروت

2022 میں جو کتب شائع ہونگی

1

زبدۃ الاتقان (جاچکی ہے)

امام جلال الدین سیوطی شافعی

مولاناکامران احمد عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

266

دار الفجر سوریا

2

آثار السنن (جاچکی ہے)

محمد علی بن نیموی

مولانااحمد رضا شامی عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

580

دار المعراج سوریا

3

شرح تہذیب (کام جاری ہے)

عبد اللہ یزدی

مولاناکامران احمد عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

306

دار نور المبین اردن

4

فتح المنان (کام جاری ہے)

شیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی

مفتی حسان صاحب/مولانا اکرم ، مولانا عاصم، مولانا منصور، مولانا احمد رضا عطاری مدنی

شعبہ فقہ حنفی

1200

دار الریاحین اردن

5

الکافیۃ ( جاچکی ہے)

علامہ ابن حاجب

مولاناعبد الواحد عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

252

دار نور المبین اردن

6

تلخیص المفتاح (جاچکی ہے)

محمد قزوینی

مولاناعبد الواحد عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

209

دار نور المبین اردن

7

عنایۃ النحو( جاچکی ہے)

مولاناعبد الواحد عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

279

دار نور المبین اردن

8

الرشیدیۃ (جاچکی ہے)

علامہ عضد الدین

مولانا ازہار عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

127

دار نور المبین اردن

9

الدعوۃ الی الخیر (کام جاری ہے)

امیر اہلسنّت مولانا محمد الیاس عطار قادری

عرب شیوخ ومدنی علمائے کرام

عربی ڈپارٹمنٹ

500

دار الکتب العلمیہ بیروت

10

التعلیقات الرضویۃ علی میزان الاعتدال (کام جاری ہے)

امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان حنفی ماتریدی

مفتی حسان عطاری مدنی / مولانامحمد کاشف سلیم عطاری مدنی

کتب اعلیٰ حضرت

350

دار الکتب العلمیہ بیروت

2023 اور اس کے بعد جو کتب شائع ہونگی

11

مالی الجیب بعلوم الغیب

امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان حنفی ماتریدی

مولاناکاشف سلیم عطاری مدنی/مولانا شعیب رئیس عطاری مدنی/مولانا ندیم عطاری مدنی

کتب اعلیٰ حضرت

12

التعلیق المجلی لما فی منیۃ المصلی

علامہ وصی احمد محدث سورتی

مفتی حسان عطاری مدنی

شعبہ فقہ حنفی

13

خلاصۃ الدلائل

امام علی بن احمد رازی

مولاناافتخار احمد عطاری مدنی/مولانا شہزاد سلیم عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

14

نور الانوار

شیخ احمد بن ابو سعید (المعروف ملاجیون )

مولاناعبد الواحد عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

15

شرح المنتخب الحسامی

علامہ حسام الدین محمد بن محمد

مولانا عدیل صدیقی عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

16

السراجیہ

علامہ محمد بن عبد الرشید سراجی

مولاناعبد الواحد عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

17

شرح العقائد

علامہ سعد الدین تفتازانی

مولاناکامران احمد عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

18

مجموعۃ الازھار

مولانااحمد رضا شامی عطاری مدنی

شعبہ درسی کتب

19

مجموع رسائل الشیخ الیاس العطار (ج2)

امیر اہلسنّت مولانا محمد الیاس عطار قادری

عرب شیوخ ومدنی علمائے کرام

عربی ڈپارٹمنٹ

20

تفسیراتِ احمدیہ

شیخ احمد بن ابو سعید (المعروف ملاجیون )

ماہرِ امورِ تجارت

مفتی علی اصغر عطاری مدنی

شعبہ فقہ حنفی

21

مجموع رسائل الامام احمد رضا

امام اہلسنّت مولانا احمد رضا خان حنفی ماتریدی

تعریب: مفتی حسان عطاری مدنی

کتب اعلیٰ حضرت

22

حاشیۃ افہام القرآن(عربی)

شیخ الحدیث والتفسیر مفتی قاسم صاحب

عرب شیوخ ومدنی علمائے کرام

عربی ڈپارٹمنٹ


تاریخ: 06.07.2022


اولاد دینے والا کون؟

Tue, 5 Jul , 2022
1 year ago

از: بنت طارق عطاریہ مدنیہ  ناظمہ جامعہ فیضانِ ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

لڑکیاں بھی اللہ پاک کی نعمت ہیں اور لڑکے بھی، پھر کسی کو اللہ نے صرف بیٹیاں عطا فرمائیں، کسی کو صرف بیٹے، کسی کو بیٹے بیٹیاں دونوں اور کسی کو بیٹے عطا فرمائے نہ بیٹیاں۔ یہ تقسیم اللہ پاک کی حکمت او رمصلحت پر مبنی ہے جیسا کہ اس کا فرمان ہے:لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ١ؕ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ الذُّكُوْرَۙ0 اَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًا١ۚ وَ يَجْعَلُ مَنْ يَّشَآءُ عَقِيْمًا١ؕ اِنَّهٗ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ0 (پ25،الشوریٰ:50-49)ترجمہ:آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کے لیے ہے وہ جو چاہے پیدا کرے ۔ جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا انہیں بیٹے اور بیٹیاں دونوں ملا دے اور جسے چاہے بانجھ کر دے، بیشک وہ علم والا، قدرت والا ہے۔

يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا:

یعنی اللہ پاک جسے چاہے صرف بیٹیاں دے اور بیٹا نہ دے، جسے چاہے بیٹے دے اور بیٹیاں نہ دے، جسے چاہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں دے اور جسے چاہے بانجھ کر دے کہ اس کے ہاں اولاد ہی نہ ہو۔ وہ مالک ہے اپنی نعمت کو جس طرح چاہے تقسیم کرے۔ تفسیر قرطبی میں ہے: اس آیت کا حکم اگرچہ عام ہے مگر یہ انبیائے کرام کے متعلق نازل ہوئی، چنانچہ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا سے مراد حضرت لوط علیہ السّلام ہیں، جنہیں اللہ پاک نے دو بیٹیاں دیں اور بیٹے نہ دیئے، يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ الذُّكُوْرَسے مراد حضرت ابراہیم علیہ السّلام ہیں کہ جن کو 8 بیٹے دیئے، بیٹیاں نہ دیں، يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًا سے مراد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں کہ جن کو بیٹے اور بیٹیاں دونوں دیں، جبکہ يَجْعَلُ مَنْ يَّشَآءُ عَقِيْمًا سے مراد حضرت یحییٰ علیہ السّلام ہیں کہ جن کی کوئی اولاد نہ تھی۔([1])

معلوم ہوا! اولاد ہونے یا نہ ہونے یا بیٹے یا بیٹیاں ہونے میں ہمارے لیے کسی نہ کسی نبی کی زندگی میں نمونہ ہے۔ نیز یہ جاننا بھی فائدے سے خالی نہیں کہ اس آیت میں بیٹیاں دینے کو بیٹے دینے سے پہلے ذکر فرمانے کی چند وجوہ یہ ہیں:

1-بیٹے کا پیدا ہونا خوشی کا اور بیٹی کا پیدا ہونا چونکہ غم کا باعث ہے، لہٰذا اگر پہلے بیٹے کا ذکر ہوتا پھر بیٹی کا تو ذہن خوشی سے غم کی طرف منتقل ہوتا۔ مگر جب پہلے بیٹی دینے کا ذکر فرمایا اور پھر بیٹا دینے کا تو انسان کا ذہن غم سے خوشی کی طرف منتقل ہو گا اور یہ کریم کی عطا کے زیادہ لائق ہے۔

2-پہلے بیٹی ہو تو بندہ اس پر صبر و شکر کرے گا کیونکہ اللہ پاک پر اعتراض ممکن نہیں، مگر جب اسکے بعد بیٹا ہو گا تو بندہ جان لے گا کہ یہ اللہ پاک کا فضل و احسان ہے، لہٰذا اس کا زیادہ شکر بجا لائے گا۔

3-عورت کمزور، ناقص العقل اور ناقص الدین ہوتی ہے، اس لیے عورت کے ذکر کے بعد مرد کے ذکر کرنے میں یہ حکمت ہے کہ جب عجز اور حاجت زیادہ ہو تو اللہ کی عنایت اور اس کا فضل زیادہ ہوتا ہے۔

4-بعض افراد کے نزدیک بیٹی کا وجود حقیر اور ناگوار ہوتا ہے، زمانہ جاہلیت میں عرب بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، چنانچہ یہاں بیٹیوں کا ذکر بیٹوں سے پہلے کر کے یہ ظاہر فرمایا گیا ہے کہ لوگ اگرچہ بیٹی کو حقیر جانتے ہیں مگر اللہ پاک کو بیٹی پسند ہے، اس لیے اس نے بیٹی کے ذکر کو بیٹے کے ذکر پر مقدم فرمایا۔ (2)

بیٹے اور بیٹیاں دینے یا نہ دینے کا اختیار اللہ پاک کے پاس ہے:

اولاد دینے کا اختیار اور قدرت چونکہ صرف اللہ پاک کے پاس ہے، لہٰذا اگر بانجھ افراد چاہیں کہ موجودہ ترقی یافتہ دور میں کسی بھی مصنوعی طریقے سے ان کے ہاں اولاد ہو جائے یعنی ٹیسٹ ٹیوب و کلوننگ وغیرہ کے ذریعے، تو انہیں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اولاد کا حصول اللہ پاک کے فضل کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی طرح عورت کے بس میں نہیں کہ وہ جو چاہے پیدا کرے۔ بیٹے کی خواہش رکھنے والوں کا بیٹی پیدا ہونے پر عورت کو مشقِ ستم بنانا، اسے طرح طرح کی اذیتیں دینا، بات بات پر طعنوں کے نشتر چبھونا، آئے دن ذلیل کرتے رہنا، صرف بیٹیاں پیدا ہونے پر اسے منحوس سمجھنا اور طلاق دے دینا، قتل کی دھمکیاں دینا بلکہ بعض اوقات قتل ہی کر ڈالنا قطعاً درست نہیں۔ افسوس! آج مسلمانوں نے اسی طرزِ عمل کو اپنا لیا ہے جو کفار کا تھا۔ جس کا تذکرہ پارہ 14، سورۃ النحل کی آیت نمبر 58 اور 59 میں یوں کیا گیا ہے: ترجمہ:اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصے سے بھراہوتا ہے۔ اس بشارت کی برائی کے سبب لوگوں سے چھپا پھرتا ہے ۔ کیا اسے ذلت کے ساتھ رکھے گا یا اسے مٹی میں دبا دے گا؟خبردار! یہ کتنا بُرا فیصلہ کررہے ہیں ۔

یعنی اسلام نے تو عورت کو ذلت و رسوائی کی چکی سے نکال کر معاشرے میں عزت و مقام عطا کیا مگر آج کے مسلمان اسے دوبارہ اسی چکی میں پسنے کے لئے دھکیل رہے ہیں۔ خدارا! ہوش کے ناخن لیجئے اور بیٹیوں کی قدر کیجئے! کیونکہ اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے: عورت کی برکت ہی یہ ہے کہ اس کے ہاں سب سے پہلے بیٹی پیدا ہو۔(3) ایک روایت میں ہے: بیٹیوں کو بُرا مت کہو! بیشک وہ محبت کرنے والیاں ہیں۔(4) اسی طرح ایک روایت میں ہے: جس پر بیٹیوں کی پرورش کا بوجھ آ پڑے اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو یہ بیٹیاں اس کیلئے جہنم سے روک بن جائیں گی۔(5)

بلکہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بیٹیوں سے محبت فرما کر سب کے لئے عملی نمونہ بھی پیش کیا۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: جب بی بی فاطمہ رضی اللہُ عنہا تشریف لاتیں تو حضور کھڑے ہو جاتے، ان کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ لیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے، یونہی جب آپ ان کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ کھڑی ہو کر حضور کا ہاتھ پکڑ کر بوسہ لیتیں اور اپنی جگہ بٹھا دیتیں۔(6)

ایک طرف حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا اسوۂ حسنہ اور قرآن و سنت کے احکام اور دوسری طرف مسلمانوں کا اس کے برعکس عمل نظر آتا ہے۔ آج کے مسلمان دورِ جاہلیت کی روایات کو زندہ کرتے نظر آتے ہیں اور اسلامی تعلیمات بھلا دینے کے باعث بیٹی کی ولادت کو برا سمجھنے اور بے رحمی کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن یہ خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں عورت کو بیٹی پیدا ہونے پر قتل کر دیا گیا۔ ابھی 2022 حال ہی میں پہلی بیٹی کی پیدائش پر 7 دن کی بیٹی کو7 گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ الامان والحفیظ

آج کے دور میں علمِ دین سے بہرہ ور ہونا بہت ضروری ہے تاکہ زمانہ جاہلیت کی ان رسومات کا خاتمہ کیا جا سکے۔ کیونکہ اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور شخص بیٹی ہونے یا اولاد نہ ہونے کو عورت کا قصور سمجھنے کے بجائے رب کریم کی رضا و مشیت سمجھتا ہے جبکہ جاہل آدمی سفاکی پر اتر آتا اور عورت کو قصور وار ٹھہرا کر اس پر ظلم ڈھاتا ہے۔ معاشرتی پستی کا تو یہ عالم ہے کہ عورتیں ہی عورتوں کو قصور وار ٹھہراتی ہیں، ساس بہو پر ظلم ڈھاتی، طعنوں کی بھرمار کرتی اور بعض اوقات بیٹے کو طلاق دینے پر مجبور کر دیتی ہے۔ لہٰذا علم حاصل کیجئے تا کہ حضور کے اسوۂ حسنہ پر عمل کر سکیں اور یوں دنیا و آخرت کی کامیابی اور معاشرے میں امن و امان کا قیام ممکن ہو۔

اللہ کریم تمام مسلمانوں کو بیٹیوں کی قدر اور حضور کے اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)




[1] تفسیر قرطبی،الجزء : 16، 8/36 2 تفسیر رازی،9/610 3 مکارم الاخلاق للخرائطی، 9/610 4مسند امام احمد،6/134، حدیث:17378 5 مسلم، ص1085، حدیث:6693ملتقطاً 6 ابوداود،4/454،حدیث:5217


از: بنت کریم عطاریہ مدنیہ معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز خوشبوئے عطار واہ کینٹ

صحیح مسلم شریف کی حدیثِ مبارکہ ہے:عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ قَالَ: لَعَنَ اللّٰهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُسْتَوْشِمَاتِ، وَالنَّامِصَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ، وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰهِ۔ ([i])یعنی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:گودنے و گدوانے والیوں، چہرے کے بال نوچنے و نوچوانے والیوں، خوبصورتی کے لیے دانتوں کے درمیان فاصلہ کرنے والیوں اور اللہ پاک کی تخلیق میں تبدیلی کرنے والیوں پر اللہ پاک کی لعنت ہو۔

شرحِ حدیث

اللہ پاک کے کسی پر لعنت فرمانے سے مراد یہ ہے کہ اللہ پاک نے اسے اپنی بارگاہ سے دھتکار دیا اور اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے۔(2)چنانچہ علمائے کرام نے مذکورہ تمام کاموں کو گناہِ کبیرہ قرار دیا ہے کہ ان کا ارتکاب کرنے والیوں پر اللہ پاک کی طرف سے لعنت آئی ہے اور لعنت کبیرہ گناہوں کی علامات میں سے ہے۔(3) ذیل میں حدیث پاک کی شرح میں اس بات کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے کہ مذکورہ عورتوں پر لعنت کی وجوہات کیا ہیں اور اب اس کا تدارک کیسے ممکن ہے؟

الواشمات و المستوشمات:

یعنی وہ عورتیں جو جسم کو گودتی و گدواتی ہیں۔ مراد سُوئی وغیرہ سے جسم میں چھید لگا کر اس میں رنگ یا سرمہ بھرنا ہے، آج کل اسے ٹیٹوز (Tattoos) بنانا بھی کہا جاتا ہے۔ یاد رکھئے! جسم پہ مختلف ڈیزائن کے ٹیٹوز بنوانا شرعاً ناجائز و ممنوع ہیں۔ اس میں اللہ پاک کی بنائی ہوئی چیز کو تبدیل کرنا ہے اور اللہ پاک کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں خلافِ شرع تبدیلی کرنا ناجائز و حرام اور شیطانی کام ہے۔

اگر ٹیٹوز بنوا لیے ہوں تو کیا کریں؟

اگر کسی نے اپنے جسم پر اس طرح نام یا ڈیزائن بنوا لیے تو اگر بغیر شدید تکلیف و تغییر کے اسے ختم کروانا ممکن ہو تو توبہ و استغفار کے ساتھ ساتھ ختم کروانا لازم ہے ورنہ اس کو اسی حال میں رہنے دے اور اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتی رہے۔(4)امیرِ اہلِ سنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں: میں نے سنا ہے کہ اسے مٹانے کا آسان طریقہ ایجاد ہو گیا ہے۔ ایک ایسا کیمیکل ہے جس سے نہ تو کوئی زخم ہوتا ہے نہ کھال کاٹنے کی نوبت آتی ہے اور یہ مٹ جاتا ہے ۔ اگر ایسا ہے تو پھر صاف کروانا ہو گا۔(5)

النامصات و المتنمصات:

یعنی وہ عورتیں جو ابرو کے بال نوچ کر باریک کرتی و کرواتی ہیں۔چنانچہ عورت کے چہرے پر اگر بال آ گئے ہوں تو عام حالت میں اس کے لیے یہ بال صاف کرانا مُباح و جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ کام اگر شوہر کے لیے زینت کی نیت سے ہو تو جائز ہونے کے ساتھ ساتھ مستحب بھی ہے۔ البتہ ابرو بنوانا اس حکم سے مُسْتَثْنیٰ (جدا)ہے کہ صرف خوبصورتی و زینت کے لیے ابرو کے بال نوچنا اور اسے بنوانا ناجائز ہے۔ حدیثِ پاک میں ابرو بنوانے والی عورت کے بارے میں لعنت آئی ہے لہٰذا آجکل عورتوں میں ابرو بنوانے کا جو رواج چل پڑا ہے، یہ ناجائز ہے، اس سے ان کو باز آنا چاہئے۔

ابرو بنوانے کی ایک جائز صورت:

ہاں! ایک صورت یہ ہے کہ ابرو کے بال بہت زیادہ بڑھ چکے ہوں، بھدے (بُرے)معلوم ہوتے ہوں تو صرف ان بڑھے ہوئے بالوں کو تراش کر اتنا چھوٹا کر سکتی ہیں کہ بھدا پن دور ہو جائے، اس میں حرج نہیں۔(6)

ابرو بنوانے والیوں کے جھوٹے حیلے بہانے:

بعض خواتین طرح طرح کے جھوٹے حیلے بہانے بنا کر اپنے دل کو منا لیتی ہیں مثلاً ہم تو شوہر کو خوش کرنے کے لیے ایسا کرتی ہیں، شوہر آئی بروز بنوانے کا کہتا ہے اس لیے بنواتی ہیں وغیرہ۔

یاد رہے! جس کام سے شریعت نے منع کیا ہے وہ منع ہی رہے گا۔ شوہر بلکہ کسی کے بھی حکم دینے سے اس کام کا کرنا جائز نہیں ہو جائے گا۔ کیونکہ اللہ پاک کی نافرمانی میں مخلوق کی بات یا حکم ماننا جائز نہیں۔ شوہر کی فرمانبرداری بھی صرف انہی کاموں میں کی جائے گی جو شریعت کے خلاف نہ ہوں۔

یونہی بعض خواتین آئی بروز بنواتی ہیں اور عذر یہ پیش کرتی ہیں کہ بال بڑے ہو گئے تھے، دیکھنے میں اچھے نہیں لگتے تھے۔ حالانکہ صرف بالوں کا بڑھ جانا عذر نہیں بلکہ اجازت اسی صورت میں ملے گی جب اتنے بڑھ جائیں کہ بھدے (بُرے) معلوم ہوں۔ اس صورت میں بھی صرف بالوں کو اتنا چھوٹا کروانے کی اجازت ہے کہ بھدا پن دور ہو جائے، نہ کہ خوبصورت دکھنے کے لیے باریک کروانے کی۔

المتفلجات:

یعنی وہ عورتیں جو خوبصورتی کے لیے ریتی وغیرہ سے دانتوں کو کشادہ کرتی ہیں۔ علامہ یحییٰ بن شرف الدین نووی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: بعض بوڑھی عورتیں اپنی عمر کم ظاہر کرنے اور دانتوں کو خوبصورت بنانے کے لیے مخصوص دانتوں کے درمیان معمولی سی کشادگی کرا لیتی ہیں۔ یہ کام کرنا اور کرانا دونوں حرام ہیں، کیونکہ اس میں اللہ پاک کی بناوٹ کو تبدیل کرنا ہے۔ البتہ علاج کی غرض یا دانتوں میں موجود عیب دور کرنے کے لئے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔(7)

عورت کا زینت اختیار کرنا کیسا:

عورت کے لیے زینت حاصل کرنا جائز ہے ،بلکہ شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے شوہر کے لیے زینت اختیار کرنا تو مستحب و کارِ ثواب ہے۔ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عورت کا اپنے شوہر کے لیے گہنا پہننا، بناؤ سنگار کرنا باعِثِ اجرِ عظیم اور اس کے حق میں نمازِ نَفل سے افضل ہے۔ بعض صالحات کہ خود اور ان کے شوہر دونوں صاحبِ اولیائے کرام سے تھے، ہر شب بعد نمازِ عشا پورا سنگار کر کے دلہن بن کر اپنے شوہر کے پاس آتیں، اگر انہیں حاجت ہوتی تو حاضر رہتیں، ورنہ زیور و لباس اتار کر مصلے بچھاتیں اور نماز میں مشغول ہو جاتیں۔ (8)کنواری لڑکی بھی شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے زینت کر سکتی ہے۔ لیکن زینت انہی چیزوں کے ذریعے حاصل کی جائے جن کو شریعت نے جائز قرار دیا ہے۔شریعت کی منع کردہ چیزوں میں کوئی زینت نہیں ،بلکہ ایسی زینت تو آخرت میں باعثِ وبال ہے۔

زینت کی بعض جائز صورتیں:

زینت کی بعض جائز صورتیں یہ ہیں:¡حلال اشیا کے ذریعے میک اپ کرنا ¡آرٹیفیشل بال اور پلکیں لگانا جبکہ انسان یا خنزیر کے بالوں سے بنی ہوئی نہ ہوں البتہ وضو و غسل کرنے کے لئے ان پلکوں کا اتارنا ضروری ہو گا، کیونکہ آرٹیفیشل پلکیں عموماً گوند وغیرہ کے ذریعے اصلی پلکوں کے ساتھ چپکا دی جاتی ہیں اور انہیں اتارے بغیر اصلی پلکوں کو دھونا ممکن نہیں، جبکہ وضو و غسل میں اصلی پلکوں کا ہر بال دھونا ضروری ہے ¡دھاگے یا اُون کی بنی ہوئی چُٹیا لگانا ¡کندھوں سے نیچے بالوں کی نوکیں وغیرہ کٹوا کر برابر کرنا ¡بازو، ہاتھ، پاؤں اور ٹانگوں کے بال اتارنا ¡ابرو کے علاوہ چہرے کے بال صاف کرنا ¡آرٹیفیشل جیولری پہننا۔

زینت کی بعض ناجائز صورتیں:

زینت کی بعض ناجائز صورتیں یہ ہیں:¡مردانہ طرز کے بال کٹوانا (فاسقہ عورتوں کی طرح بطورِ فیشن بال کٹوانا بھی منع ہے) ¡ اَبرو بنوانا ¡انسان یا خنزیر کے بالوں سے بنی ہوئی وِگ یا پلکیں استعمال کرنا ¡بالوں میں سیاہ رنگ کا خضاب لگانا۔

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)


[i]مسلم، ص905،حدیث:5573 2 اصلاحِ اعمال،ص419 3 جہنم میں لے جانے والے اعمال، 1/ 459 ماخوذ اً 4مختصر فتاویٰ اہلِ سنت،ص 208 5سردی سے بچنے کے طریقے،ص12 6 مختصر فتاویٰ اہلِ سنت،ص 192 ملتقطاً 7شرح مسلم للنووی،الجزء:7،14/106ماخوذاً 8فتاویٰ رضویہ،22/126


صور پر ایمان

Tue, 5 Jul , 2022
1 year ago

از: بنت فیاض عطاریہ مدنیہ،  ناظم آباد کراچی

جب قیامت کی تمام نشانیاں پوری ہو جائیں گی تو اللہ پاک کے حکم سے صور پھونکا جائے گا، صور حق ہے اور اس پر ایمان رکھنا لازم ہے، قرآنِ پاک کی کئی آیات میں صور پھونکے جانے کا تذکرہ موجود ہے۔ مثلاً وَ نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ١ؕ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ0(پ24،الزمر:68)ترجمہ:اور صُور میں پھونک ماری جائے گی تو جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ہیں سب بیہوش ہو جائیں گے مگر جسے اللہ چاہے پھر اس میں دوسری بار پھونک ماری جائے گی تواسی وقت وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہوجائیں گے۔

صور کیا ہے؟

فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے: صور ایک سینگ ہے جس میں پھونکا جائے گا۔([i]) ایک روایت میں ہے کہ صور کا دائرہ زمین و آسمان کی چوڑائی جیسا ہے۔ (2)مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: صور سینگ کے اس بگل کا نام ہے جو قیامت میں پھونکا جائے گا۔ اس صور کی بڑائی اس کی آواز کی ہیبت ہمارے خیال و وہم سے ورا ہے۔ آج ایٹم بم اور چیخنے والے بم کی آواز ہی لوگوں کو مار دیتی ہے، بستیوں میں زلزلے ڈال دیتی ہے، وہ تو صور ہے۔(3)

صور کون پھونکے گا؟

امام قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :امام ترمذی اور دیگر محدثین رحمۃ اللہ علیہم کی روایت کردہ اَحادیث سے پتا چلتا ہے کہ صاحبِ صور صرف حضرت اسرافیل علیہ السلام ہیں اور وہی اکیلے صور پھونکیں گے جبکہ ابنِ ماجہ کی ایک روایت کے مطابق حضرت اِسرافیل علیہ السلام کےساتھ صور پھونکنے میں ایک اور فرشتہ بھی شریک ہو گا۔ (4) نیز یہ بھی مروی ہے کہ جب حضرت اسرافیل علیہ السّلام صور پھونکیں گے اس وقت جبریل و میکائیل بھی ان کے پاس موجود ہوں گے۔ چنانچہ ایسی ہی ایک روایت کی شرح میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جس وقت حضرت اسرافیل صور پھونکیں گے اس وقت جبریل آپ کے داہنے ہاتھ کی طرف ہوں گے اور میکائیل بائیں طرف، اس حالت میں آپ صور پھونکیں گے اس کی وجہ رب کریم ہی جانے۔(5)

صور کب پھونکا جائے گا؟

صور قیامت کی تمام نشانیوں میں سب سے آخری نشانی ہے، اس کے فوراً بعد قیامت قائم ہو جائے گی، لہٰذا اس کا یقینی علم تو اللہ پاک کو ہی ہے کہ صور کب پھونکا جائے گا، بہرحال اتنا یاد رکھنا چاہئے کہ ایک روایت میں ہے: صور پھونکنے والا فرشتہ بگل منہ میں لے چکا ہے، اپنے سر کو جھکا چکا ہے اور کان لگا کر اس بات کا انتظار کر رہا ہے کہ کب اسے حکم ہو اور وہ صور پھونکے۔ (6)البتہ! یہ کس دن پھونکا جائے گا، اس کے متعلق غیب جاننے والے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ تمہارے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ ہے، اسی دن حضرت آدم پیدا ہوئے ، اِسی میں ان کی روحِ مبارکہ قبض کی گئی، اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن ہلاکت طاری ہوگی۔(7)

پہلا صور پھونکنے کے وقت کیا ہو گا؟

لوگ اپنے کام کاج میں مصروف ہوں گے کہ حضرت اسرافیل علیہ السلام کو صور پھو نکنے کا حکم ہو گا، شروع میں اس کی آواز بہت باریک ہو گی، پھر بہت بلند ہوتی جائے گی، لوگ کان لگا کر سنیں گے اور بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے اور مر جائیں گے، یہاں تک کہ ہر شے فنا ہو جائے گی، اُس وقت سوا اُس واحدِ حقیقی کے کوئی نہ ہو گا، وہ فرمائے گا:لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَؕ (پ24، المؤمن:16) ترجمہ: آج کس کی بادشاہی ہے؟ کہاں ہیں جبارین و متکبرین؟ مگر ہے کون جو جواب دے! پھر خود ہی فرمائے گا: لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ0(پ 24، المؤمن:16)ترجمہ: ایک اللہ کی جو سب پر غا لب ہے۔(8)

کیا صور پھونکے جانے کے بعد بھی کوئی زندہ رہےگا؟

پہلی مرتبہ صور پھونکنے کے بعد جسے اللہ پاک چاہے گا اسے موت نہ آئے گی۔ اس کے متعلق یہ چار اقوال مروی ہیں:

1-حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہما کے نزدیک جب پہلا صور پھونکا جائے گا تو حضرت جبریل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل علیہم السلام کے علاوہ تمام آسمان اور زمین والے مر جائیں گے۔(9) اس کی وضاحت احیاء العلوم میں کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ صور پھونکے جانے کے بعد اللہ پاک کے حکم سے حضرت جبریل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل زندہ رہیں گے پھر اللہ پاک کے حکم سے حضرت عزرائیل یعنی ملک الموت علیہ السّلام پہلے جبریل کی روح قبض کریں گے پھر میکائیل کی اور پھر اسرافیل کی، اس کے بعد اللہ پاک عزرائیل کو مرنے کا حکم فرمائے گا تو وہ بھی مر جائیں گے۔ (10)

2-تفسیر قرطبی میں ہے کہ پہلے نفخہ سے جن لوگوں کو موت نہ آئے گی، ان سے مراد وہ شہدا ہیں جو اپنی تلواریں لٹکائے عرش کے گرد حاضر ہوں گے۔(11)

3-حضرت کعب احبار رحمۃُ اللہِ علیہ کے قول کے مطابق پہلے صور کے بعد جنہیں موت نہ آئے گی ان کی تعداد 12 ہے: 8 عرش اٹھانے والے فرشتے، جبریل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت علیہم السلام۔ جبکہ حضرت ضحاک رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ان سے مراد رضوانِ جنت، حورِ عین، نگرانِ دوزخ حضرت مالک علیہ السلام اور عذاب کے وہ فرشتے ہیں جو جہنم پر مامور ہیں۔(12)

4-حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق اس وقت جنہیں موت نہ آئے گی وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں، چونکہ آپ (کوہِ طور پر) بے ہوش ہو چکے ہیں اس لئے( پہلی مرتبہ صور پھونکنے سے) آپ دوبارہ بے ہوش نہ ہوں گے ۔(13)

صور کتنی بار پھونکا جائے گا؟

صور کتنی مرتبہ پھونکا جائے گا، اس میں اختلاف ہے یعنی چار مرتبہ ، تین مرتبہ یا دو مرتبہ؟ زیادہ تر علما کا اس پر اتفاق ہے کہ صور صرف دو مرتبہ پھونکا جائے گا۔ جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی رحمۃُ اللہِ علیہ دو سے زائد مرتبہ صور پھونکنے کا قول رکھنے والوں کے جواب میں فرماتے ہیں کہ صور صرف دو مرتبہ پھونکا جائے گا، البتہ! ان دونوں کے درمیان سننے والوں کے اعتبار سے کچھ فرق ہو گا یعنی پہلی بار جب صور پھونکا جائے گا تو اس سے ہر زندہ شخص مر جائے گا ، مگر جن کو اللہ پاک نے موت سے مستثنیٰ کر لیا ہے وہ صرف بے ہوش ہو جائیں گے اور جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو جو مر گئے تھے وہ زندہ ہو جائیں گے اور جو بےہوش ہوئے تھے وہ ہوش میں آ جائیں گے۔(14)

دوسرا صور کب پھونکا جائے گا؟

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ان دونوں نفخوں میں 40 سال کا فاصلہ ہو گا کہ اگر سورج ہوتا اور دن رات نکلتے تو 40 سال کی مدت ہوتی ۔(15)

دوسری بار صور پھونکنے کے بعد کیا ہو گا؟

اﷲ پاک جب چاہے گا حضرت اسرافیل کو زندہ فرمائے گا اور صور کو پیدا کر کے دوبارہ پھونکنے کا حکم دے گا، صور پھونکتے ہی تمام اوّلین و آخرین، ملائکہ و اِنس و جن و حیوانات موجود ہو جائیں گے۔(16) سب سے پہلے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم قبرِ مبارک سے یوں برآمد ہوں گے کہ سیدھے ہاتھ میں حضرت صدیقِ اکبر کا ہاتھ اور بائیں ہاتھ میں حضرت فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہما کا ہاتھ ہو گا۔(17)

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)


[i]ترمذی،5/ 165،حدیث:3255 2مسند اسحاق ،1 /75 ، حدیث : 10 ملتقطاً 3مراۃ المناجیح،7/354 ماخوذاً 4التذکرة،ص176 5مراۃ المناجیح،7/362 6سنن کبری للنسائی،6/ 316،حدیث:11082 7ابوداود، 1/391، حدیث: 1047 8ترمذی،5/88،حدیث:3712ماخوذاً 9تفسیر خازن، المومنون، 3 / 332 0احیاء العلوم ، 5/270 Aتفسیر قرطبی،8 /203 Bتفسیر قرطبی،8 /203 Cتفسیر کبیر،9/476 Dفتح الباری، 7/369 Eمراۃ المناجیح،7/354 Fبہارِ شریعت، 1/ 128 Gترمذی،5 /88،حدیث:3712ماخوذاً


حضور کی والدہ ماجدہ

Tue, 5 Jul , 2022
1 year ago

از: شعبہ ماہنامہ خواتین المدینۃ العلمیۃ

حمل کی تکلیف:

بی بی آمنہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: میں نے زمانہ حمل میں کسی طرح کی تکلیف اٹھائی نہ کوئی بوجھ محسوس کیا۔([i]) سیرت حلبیہ میں آپ رضی اللہُ عنہا کا یہ قول مروی ہے کہ مجھے حمل سے پیدائش تک کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔ (2) مگر مواہب اللدنیہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ فرمانِ عالیشان مروی ہے کہ میری والدہ نے دیگر عورتوں کی طرح حمل کا بوجھ محسوس کیا اور اپنی سہیلیوں سے اس کا تذکرہ بھی کیا، پھر میری والدہ نے ایک خواب دیکھا کہ ان کے بطن اطہر میں جو کچھ ہے وہ نور ہے۔ دورانِ حمل چونکہ بوجھ محسوس کرنے اور نہ کرنے دونوں طرح کی روایات مروی ہیں، لہٰذا علمائے کرام نے ان روایات میں یوں تطبیق دی ہے کہ ابتدائی حالت میں بوجھ تھا، پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد یہ کیفیت بھی ختم ہو گئی۔(3)

دورانِ حمل کے عجائبات:

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی والدہ ماجدہ کے بطن اطہر میں پورے نو مہینے تشریف فرما رہے ۔ اس دوران حضرت آمنہ رضی اللہُ عنہا کے سر یا پیٹ میں کوئی درد اور کسی قسم کی تکلیف نہ ہوئی، بلکہ حاملہ عورتوں کو جو تکالیف ہوتی ہیں آپ ان سے بھی محفوظ رہیں۔(4)

امام ابو نعیم اصفہانی رحمۃُ اللہِ علیہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت آمنہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: جب میں چھ ماہ کی حاملہ تھی تو کوئی میرے خواب میں آیا اور کہنے لگا: اے آمنہ! آپ کو تمام جہاں سے بہتر ہستی کی ماں بننے کا شرف ملنے والا ہے، لہٰذا جب یہ ہستی دنیا میں تشریف لائے تو اس کا نام محمد رکھئے گا اور اپنے معاملے (یعنی آپ جو انوار و تجلیات وغیرہ دیکھیں، ان ) کوکسی پر ظاہر مت کیجئے گا۔ (5) ایک روایت میں ہے کہ سیدہ آمنہ نے خواب دیکھا کہ کوئی انہیں کہہ رہا ہے کہ آپ تمام مخلوقِ خدا سے بہتر اور تمام جہانوں کے سردار کی ماں بننے والی ہیں ۔لہٰذا جب وہ پیدا ہوں توان کا نام محمد اور احمد رکھئے گا، نیز ان کے گلے میں یہ تعویز ڈال دیجئے گا۔ چنانچہ جب آپ بیدار ہوئیں تو اپنے سر کے قریب سنہری حروف سے لکھی ہوئی ايك تحریر موجود پائی۔ (اس تحریر کا مفہوم کچھ یوں ہے)میں پناہ مانگتی ہوں اللہ وحدہ لاشریک کی ہر حاسد کے شر سے، ہر بھٹکی مخلوق سے، کھڑی ہو یا بیٹھی ہو، جو سیدھی راہ سے ہٹی ہوئی اور فساد کیلئے کوشاں ہے۔ نیز پناہ مانگتی ہوں ہر پھونکنے اور گرہ لگانے والے سے اور مردود مخلوق سے جو لوگوں کی گزرگاہوں پر گھات لگائے بیٹھتی ہے۔ میں اس بچے کو خدائے بر ترکی پناہ میں دیتی ہوں اور اسی کے ظاہری و باطنی دست قدرت کے حوالے کرتی ہوں کہ اللہ پاک کا دست قدرت ہی تمام مخلوق پر غالب ہے اور اللہ پاک نے انہیں اپنے حجاب میں لے رکھا ہے ، لہٰذا کوئی بھی انہیں تا ابد کسی حال میں نقصان نہ پہنچا پائے گا۔(6) یہ روایت اگرچہ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ سیرت کی کئی کتب میں موجود ہے، مگر شرف مصطفیٰ نامی کتاب میں اس کے بعد یہ اضافہ بھی موجود ہے کہ سیدہ آمنہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں میں نے اس خواب اور تعویز کا ذکر چند عورتوں سے کیا تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ (یہ کوئی آسیب ہے، لہٰذا ) اپنے گلے اور بازو پر لوہے کی کوئی چیز باندھ لوں، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا مگر چند ہی دنوں میں وہ لوہے کی چیز خود بخود ٹوٹ گئی اور میں جب بھی اسے باندھتی ایسا ہی ہوتا، لہٰذا میں نے باندھنا ہی چھوڑ دیا۔(7)

نور سے سارا جہان منور ہو گیا:

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ابھی اپنی والدہ ماجدہ کے شکم میں ہی تھے کہ ایک بار ان سے ایسا نور نکلا جس سے سارا جہان منور ہو گیا اور انہوں نے بصرے کے محلات دیکھے۔ بصرہ شام کی جانب ایک شہر کا نام ہے، اسی قسم کا ایک واقعہ ولادت کے وقت میں بھی منقول ہے۔(8)چنانچہ علامہ سید احمد بن زینی دحلان مکی اپنی کتاب السیرۃ النبویہ میں ان دونوں واقعات میں فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت آمنہ نے جو نور حمل مبارک کے وقت دیکھا تھا وہ خواب میں تھا اور جو ولادت باعث ہزار سعادت کے وقت دیکھا تھا وہ عالم بیداری میں تھا۔(9)

ابن رجب حنبلی فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادت کے وقت نور کے ظہور سے اس طرف اشارہ ہے کہ آپ ایسا نور لے کر آئے ہیں جس کے ذریعے تمام اہل زمین کو ہدایت کی دولت نصیب ہو گی اور شرک کی تاریکی دور ہو گی۔ جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِيْنٌۙ0 يَّهْدِيْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ يُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ يَهْدِيْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ0(10)(پ6،المائدہ: 15، 16)ترجمہ کنز العرفان:بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آ گیا اور ایک روشن کتاب۔ اللہ اس کے ذریعے اسے سلامتی کے راستوں کی ہدایت دیتا ہے جو اللہ کی مرضی کا تابع ہو جائے اور انہیں اپنے حکم سے تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے۔

جہاں تک حضور کی ولادت کے وقت نور سے بُصریٰ کے محلات روشن ہونے کا تعلق ہے تو وہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ملک شام نور نبوت کے ساتھ خاص ہو گا کیونکہ وہ آپ کی بادشاہت والے ملک کا شہر ہے جیسا کہ حضرت کعب الاحبار رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: سابقہ کتب میں یہ لکھا ہوا ہے:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے رسول ہیں، ان کی جائے پیدائش مکہ، ہجرت کا مقام مدینہ منورہ اور بادشاہت ملکِ شام میں ہوگی۔ چنانچہ مکہ مکرمہ سے نبوت محمدی کی ابتدا ہوئی اور آپ کی بادشاہت ملک شام تک پہنچی اوراسی لیے آپ کو معراج کی شب ملک شام کی جانب بیت المقدس تک سیر کرائی گئی جیسا کہ آپ سے قبل حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بھی ملک شام کی طرف ہجرت فرمائی تھی ۔(11)

پیدائش سے پہلے ربیع الاول کی ہر رات بشارت:

علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں: ربیع الاول کی پہلی رات سیدہ آمنہ کو سرور و مسرت حاصل ہوئی۔ دوسری رات آرزو پانے کی بشارت دی گئی۔ تیسری رات میں کہا گیا کہ آپ اس ہستی کی ماں بننے والی ہیں جو ہماری حمد وشکر بجا لائے گی۔ چوتھی رات میں آپ نے آسمانوں سے فرشتوں کی تسبیح کی آواز سنیں۔ پانچویں رات حضرت ابراہیم کو خوش خبری دیتے ہوئے سنا کہ اے آمنہ! مدح وعزت کے مالک کی ماں بننے کا شرف پانے پر خوش ہو جاؤ۔ چھٹی رات میں فرحت و برکت مکمل ہو گئی۔ ساتویں رات میں نور چمکا اور مدہم نہیں ہوا۔ آٹھویں رات میں فرشتوں نے سیدہ آمنہ کے گرد طواف کیا۔ نویں رات میں سیدہ آمنہ کی سعادت و غنا ظاہر ہوئی۔ دسویں رات میں فرشتوں نے شکر و ثنا کے ساتھ لا الہ الا اللہ کا ورد کیا۔ گیارہویں رات میں سیدہ آمنہ سے مشقت و تھکاوٹ دور ہوگئی ۔(12)

آسمان و زمین سے ندا کا آنا:

سیدہ آمنہ فرماتی ہیں کہ حمل کے ہر ماہ میں آسمان و زمین کے درمیان یہ آواز سنا کرتی کہ آپ کو مبارک ہو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے کہ ابو القاسم دنیا میں جلوہ افروز ہونے والے ہیں جو صاحب خیر و برکت ہیں۔(13)

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)


[i] خصائص الکبری للسیوطی مترجم، ص 140 2 سیرت حلبیہ، 1/ 69 3 مواہب اللدنیہ، 1/ 62 4 مواہب اللدنیہ ، 1/ 63 5 دلائل النبوۃ لابی نعیم، ص 362، حدیث: 555 6 دلائل النبوۃ لابی نعیم، ص 77، حدیث: 78 7 شرف المصطفیٰ، 1/ 351، حدیث: 97 8 مدارج النبوت مترجم، 2/ 28 9 السیرۃ النبویۃ، 1/ 45 0 لطائف المعارف، ص 173 A لطائف المعارف، ص 174 B مولد العروس اردو، ص 73 C مدارج النبوت مترجم، 2/ 28


از: شعبہ ماہنامہ خواتین المدینۃ العلمیۃ

حضرت یوسف علیہ السّلام اللہ پاک کے بہت ہی پیارے نبی ہیں، آپ کے والد ، دادا اور پردادا سب نبی تھے، آپ پر بھی اپنے والد کی طرح بہت سی آزمائشیں آئیں لیکن اللہ پاک نے آپ کو تمام امتحانات میں شاندار کامیابی عطا فرمائی۔ قرآنِ کریم میں آپ کے نام کی پوری سورت نازل فرمائی جس میں آپ کے مختلف واقعات کو اَحْسَنَ الْقَصَص سے تعبیر فرمایا اور سب سے پہلا قصّہ خواب والی بات سے شروع ہوا۔ اس سورت میں ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح آپ پر بڑی بڑی مصیبتیں آئیں لیکن آپ نے اللہ پاک کی کرم نوازی و حکمتِ عملی سے ان تمام چیزوں میں کامیابی پائی اور سرخرو ہوئے، آپ کی زندگی کے ان واقعات کو پڑھ کر لوگوں کو احساسِ کمتری سے نجات اور انقلاب کا جذبہ ہی نہیں ملتا، بلکہ نئی بلندیوں اور عروج تک پہنچنے کا حوصلہ بھی ملتا ہے اور مایوسیاں دور ہوتی ہیں۔ چنانچہ ذیل میں آپ سے منسوب معجزات کے علاوہ چند ایسی باتیں بھی نقل کی جائیں گی جو عجائب و غرائب سے تعلق رکھتی ہیں:

جس کنویں میں آپ کو ڈالا گیا، اس سے متعلق تین عجائبات:

1-حضرت یوسف علیہ السّلام کے بچپن میں آپ کے بھائیوں نے حسد کی وجہ سے آپ کو گھر سے دور لے جا کر جس کنویں میں ڈالا تھا، اس وقت اس کنویں کا پانی کھارا تھا، لیکن آپ کی برکت سے وہ کھارا پانی میٹھا ہو گیا۔([1])

2-جب آپ علیہ السّلام کنویں سے باہر جانے لگے تو کنویں کی دیواریں آپ کی جُدائی میں رونے لگیں۔(2)

3-اسی کنویں میں ایک اژدھے نے آپ کو تکلیف پہنچانا و ڈرانا چاہا تو حضرت جبریل علیہ السّلام نے اسے ایسا دھکا دیا کہ اس کی تمام نسل بہرہ ہو گئی۔(3)

حسن بےمثال کے عجائبات:

اللہ پاک نے حضرت یوسف علیہ السّلام کو بلاشبہ حسنِ بے مثال عطا فرمایا تھا جس کی تصدیق ہمارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی ان الفاظ میں فرمائی ہے کہ معراج کی شب تیسرے آسمان میں جب میں نے حضرت یوسف کو دیکھا تو ان کے حُسن نے مجھے حیران کر دیا، وہ اپنے حُسن کے سبب (واقعی) لوگوں پر فضیلت رکھنے والے تھے۔(4)

حضرت یوسف علیہ السّلام کے حسن سے متعلق کئی عجیب و غریب باتیں منقول ہیں۔ مثلاً

1-ایک مرتبہ اللہ پاک نے جب آپ کے حسن حقیقی سے پردہ اٹھایا تو لوگ دیدار کے لئے بے قرار ہو کر دوڑ پڑے اور اس ازدحام میں 25000 مردو عورت ہلاک ہوگئے اور آپ کے حسن کی تاب نہ لاکر مزید 5000 مرد اور 360 عورتوں نے دم توڑ دیا۔(5)

2-ایک بار آپ کے زمانے میں لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے اور بھوک سے حالت انتہائی تشویش ناک ہو گئی تو لوگوں نے آپ سے شکایت و فریاد کی، لہٰذا آپ نے بارگاہِ خداوندی میں لوگوں پر رحم کی دعا کی تو اللہ پاک نے فرمایا: میں تمہارا جمال لوگوں کے لئے غذا بنا دوں گا۔ چنانچہ آپ نے لوگوں کو جمع کیا اور انہیں اپنا چہرہ دکھایا تو لوگوں کی بھوک جاتی رہی اور باقی 40 دن بھی لوگوں نے اسی طرح گزارے۔(6)

3-ایک مرتبہ ایک مادر زاد اندھا لڑکا آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا تاکہ آپ اس کی آنکھیں ٹھیک کر دیں۔ چنانچہ آپ نے اپنا نورانی چہرہ جب اس لڑکے کی طرف کیا اور آپ کے چہرے کی روشنی اور شعاعیں اس پر پڑیں تو اللہ پاک نے اسے آنکھیں عطا فرما دیں۔(7)

4-در منثور میں ہے کہ آپ علیہ السّلام جب مصر کی گلیوں میں چلتے تو آپ کے چہرے کی چمک دیواروں پر اس طرح پڑتی جس طرح پانی اور سورج کی چمک دیواروں پر پڑتی ہے۔(8)

حسن یوسف دم عیسی ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

گناہ سے بچنے پر دو عجائبات کا ظہور:

1-عزیزِ مصر کی بیوی نے آپ کو اپنے محل کے انتہائی اندرونی کمرے میں دعوتِ گناہ دینے سے پہلے تمام دروازوں پر تالے لگا دئیے تا کہ آپ بھاگ نہ سکیں۔ مگر اللہ پاک کی شان کہ جب آپ دوڑ کر دروازے کے پاس پہنچتے تو تالے خود بخود ٹوٹ کر گرتے چلے گئے۔(9)

2-حضرت یوسف علیہ السَّلام کے پیچھے بھاگتے ہوئے جب عزیزِ مصر کی بیوی بھی محل سے باہر نکلی تو اچانک سامنے اپنے شوہر کو دیکھ کر حضرت یوسف پر غلط ارادے کا الزام لگا دیا، مگر جب حضرت یوسف علیہ السَّلام نے اس الزام کو رد کرتے ہوئے حقیقت بیان کی تو عزیز مصر نے آپ سے دلیل طلب کی، اس پر آپ نے فرمایا: اس گھر میں زلیخا کے ماموں کا 4 ماہ کا ایک بچہ ہے، اس سے پوچھ لیں۔ عزیز ِمصر نے حیرانی کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا: اللہ پاک اس بات پر قادر ہے کہ اس کو بولنے کی قوت دے اور میری بے گناہی ثابت کر دے۔ چنانچہ اس بچے سے پوچھا گیا تو اس نے اللہ پاک کی قدرت سے یوں کلام کیا: اگر اِن کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو تو عورت سچی ہے، لیکن اگر پیچھے سے پھٹا ہے تو عورت جھوٹی ہے۔ یعنی اگر حضرت یوسف آگے بڑھے اور زلیخا نے ان کو ہٹایا تو کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو گا اور اگر وہ اس سے بھاگ رہے تھے اور زلیخا پیچھے سے پکڑ رہی تھی تو کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا ہو گا۔(10)

خوابوں کی درست تعبیر:

اللہ پاک نے بطورِ معجزہ آپ کو خوابوں کی درست تعبیر کا علم ہی عطا نہ فرمایا بلکہ آپ خواب دیکھنے والے کو اس کا خواب تک بتا دیا کرتے تھے کہ تم نے یہ خواب دیکھا ہے اور اس کی تعبیر یہ ہے۔ جیسا کہ شاہِ مصر کے سامنے جب آپ نے اس کا خواب اور اس کی تعبیر بیان کی تو وہ بولا: خواب کا عجیب ہونا تو اپنی جگہ لیکن آپ کا اس طرح بیان فرما دینا اس سے بھی زیادہ عجیب تر ہے۔(11)

بابرکت قمیص:

حضرت یوسف علیہ السّلام کی جدائی پر چونکہ حضرت یعقوب علیہ السّلام روتے رہتے تھے، لہذا ان کی بینائی چلی گئی ، جب یہ بات حضرت یوسف کو معلوم ہوئی تو آپ نے اپنی قمیص دے کر بھیجی اور کہا کہ یہ ان کے چہرے پر ڈال دینا اللہ کے حکم سے ان کی آنکھیں روشن ہو جائیں گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، یہ مکمل واقعہ سورہ یوسف میں مذکور ہے۔(12)

دعائے یوسفی کی برکتیں:

1-ایک دن حضرت یوسف علیہ السّلام کا گزر زلیخا کے پاس سے ہوا تو وہ بولیں: سب تعریفیں اس خدا کے لیے جس نے ایک غلام کو اپنی عبادت کے بدلے بادشاہ بنا دیا اور بادشاہ کو اس کی نافرمانی کے بدلے غلام بنا دیا۔ تو حضرت یوسف علیہ السّلام نے ان کے لئے دعا کی تو ان کا بڑھاپا جوانی میں بدل گیا۔ (13)

2-جس شخص نے آپ علیہ السّلام کو کنویں سے نکال کر عزیزِ مصر کو بیچا تھا، اسے جب بعد میں آپ کی حقیقت معلوم ہوئی تو وہ شرمندہ ہوا اور معافی مانگی تو آپ نے اس کو معاف کر دیا اور اس کے لئے دعا فرمائی جس کی برکت سے اللہ پاک نے اسے لگاتار 12مرتبہ جڑواں بیٹے عطا فرمائے۔(14)

70 زبانوں میں کلام:

جب آپ عزیز مصر کے پاس آئے تو اس نے آپ سے 70 زبانوں میں گفتگو کی اور آپ نے ہر زبان میں اس کو جواب دیا، اس پر وہ بہت حیران ہوا کہ آپ نے صرف 30 سال کی عمر میں اتنی زبانیں کیسے سیکھ لیں، یقیناً یہ بھی آپ کا عظیم معجزہ ہے۔(15)

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)




[1] تفسیر معالم التنزیل، 2/350 2تفسیر معالم التنزیل، 2/350 3تفسیر روح البیان، 4/224 4تاریخ ابن عساکر، 35/146، حدیث: 7132 5تفسیر بحر المحبۃ، ص 61 تا 63 6قصص الانبیاء، ص 183 7قصص الانبیاء، ص 183 8 تفسیر درّ منثور، 4/532 9تفسیر روح البیان، 4/240 0 الکامل فی التاریخ، 1/108 Aسیرت الانبیاء،ص446 Bسیرت الانبیاء،ص 464 ملخصاً Cتفسیر قرطبی، 5/150 ملخصاً Dتفسیر در منثور، 4/517 Eقصص الانبیاء لابن کثیر، ص 288 


شرح سلامِ رضا

Tue, 5 Jul , 2022
1 year ago

از: بنت اشرف عطاریہ مدنیہ  ڈبل ایم اے (اردو، مطالعہ پاکستان) گوجرہ منڈی بہاؤ الدین

(29)

سببِ ہر سبب منتہائے طلب

عِلّتِ جملہ علّت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی:

سبب: وسیلہ۔منتہا:منزل مقصود۔ طلب: تلاش ۔علت:باعث۔جملہ: تمام۔

مفہومِ شعر:

ہر وجود کا سبب اور ہر طلب کی انتہا حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذات ہے۔اس کائنات کو معرضِ وجود میں لانے کا سبب جو ذات بنی اس پہ لاکھوں سلام۔

شرح:سببِ ہر سبب/علتِ جملہ علت:

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بلاشبہ ہر شے کے وجود کا سبب ہیں، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی: اے عیسیٰ! محمدِ عربی(صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم)پر ایمان لاؤ اور اپنی اُمّت میں سے ان کا زمانہ پانے والوں کو بھی ان پر ایمان لانے کا حکم دو۔ اگر وہ نہ ہوتے تو میں نہ آدم کو پیدا کرتا اور نہ جنت و دوزخ بناتا۔([1]) ایک روایت میں ہے کہ حضرت جبریلِ امین علیہ السلام بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے :آپ کا رب ارشاد فرماتا ہے:بے شک میں نے دنیا اور دنیا والوں کو اس لئے پیدا فرمایا ہے تاکہ اے محبوب! میرے نزدیک تمہاری جو قدر و منزلت ہے وہ انہیں بتاؤں اور اگر تم نہ ہوتے تو میں دنیا کو  پیدا نہ فرماتا۔ (2)

منتہائے طلب:

اس کائنات کو پیدا کرنے کی وجہ حضور ہیں تو معرفتِ الٰہی کو پانے اور منزلِ مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ بھی آپ ہی ہیں۔قرآنِ پاک میں ہے:قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ0 (پ3، الِ عمرٰن:31) ترجمہ: اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

معلوم ہوا!نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت ہی ایسی چیز ہے جس کے ذریعے اللہ پاک کی محبت کو پایا جا سکتا ہے اور آپ کی محبت گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے ۔

(30)

مصدرِ مظہریّت پہ اظہر درود

مظہرِ مصدریّت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی:

مصدر: اصل۔ مظہریّت: ظہور ہونا۔ اَظہر: روشن۔ مظہر: جائے ظہور۔ مصدریّت: صادر ہونا۔

مفہومِ شعر:

دُرود ہو اس ذات پر جو اللہ پاک کے نور کے ظہور کا سرچشمہ ہے اور لاکھوں سلام اس پر جس کے نور کا ظہور اللہ پاک کی ربوبیت کا ظہور ہے۔

شرح:

اللہ پاک فرماتا ہے:لَولَاکَ لَمَا اَظْہَرْتُ الرَّبُوبِیَّۃ اگر محمد نہ ہوتے تو میں اپنے رب ہونے کو ظاہر نہ کرتا۔ (3) حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے عرض کی :یا رسولَ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! مجھے بتائیے کہ اللہ پاک نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا فرمایا؟ تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے جابر! بے شک اللہ پاک نے تمام اشیا سے پہلے تیرے نبی کا نور پیدا فرمایا، پھر یہ نور اللہ پاک کی مشیت کے موافق جہاں چاہا سیر کرتا رہا۔ اس وقت لوح تھی نہ قلم ، جنت تھی نہ دوزخ، فرشتے تھے نہ آسمان و زمین، سورج تھا نہ چاند، جن تھے نہ انسان ۔(4)

(31)

جس کے جلوے سے مُرجھائی کلیاں کھلیں

اس گلِ پاک مَنبت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی:

جلوہ: دیدار، جھلک۔ مُرجھائی: سوکھی۔

گل: پھول۔ مَنبت: اگا ہوا۔

مفہومِ شعر:

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دیدار سے دلوں کی مرجھائی کلیاں کھلتی ہیں۔ اس خوبصورت پھول کی تازہ اُٹھان پر لاکھوں سلام۔

شرح:

ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اللہ پاک نے حسن و جمال کی لازوال دولت عطا فرمائی۔اس کائنات کا سارا حسن نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حسن و جمال کا صدقہ ہے۔ جو ایک بار نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زیارت کر لیتا وہ آپ کا دیوانہ ہو جاتا، آپ کے چہرے کی زیارت سے غمزدوں کے غم دور ہو جاتے، آپ کے دیدار سے دلوں کی مرجھائی کلیاں کھل اٹھتی ہیں، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ٹکٹکی باندھ کر آپ کے مبارک چہرے کی زیارت کرتے رہتے اور آپ کے جلووں سے لطف اندوز ہوتے کیونکہ اللہ پاک نے آپ کو بے مثال حسن و جمال عطا فرمایا ۔ جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ ایک صحابی حضور کو یوں دیکھ رہے تھے کہ نظر ہٹاتے ہی نہیں تھے۔ چنانچہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جب ان سے اس کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے عرض کی:بِاَبِي اَنْتَ وَاُمِّي اَتَمَتَّعُ مِنَ النَّظَرِ اِلَيْكَ یعنی میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں آپ کے چہرۂ انور کی زیارت سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔(5)

حُسنِ یوسف پہ کٹیں مِصْر میں اَنگشتِ زَناں

سَر کٹاتے ہیں تِرے نام پہ مردانِ عرب

(32)

قدِ بے سایہ کے سایۂ مرحمت

ظلِّ ممدودِ رافت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی:

مرحمت:رحمت و کرم۔ ظل: سایہ۔ ممدود: دائمی۔ رافت: مہربانی۔

مفہومِ شعر:

لاکھوں درود اور سلام ہوں اس ذات پر کہ جس کے جسم کا سایہ نہ تھا، البتہ! اس کے رحم و کرم کا سایہ ساری دنیا پر پھیلا ہوا ہے۔

شرح:قدِ بے سایہ:

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حسن و جمال کی لطافت کا یہ عالم ہے کہ آپ کے جسم مبارک کا سایہ نہ تھا۔ جس کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام ابنِ سبع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور نور تھے، اس لئے جب آپ دھوپ یا چاندنی میں چلتے تو آپ کا سایہ نظر نہ آتا ۔ اس قول کی شاہد وہ حدیث ہے جس میں حضور کی اس دعا کا ذکر ہے جس میں آپ نے فرمایا: وَاجْعَلْنِیْ نُوْرًا یعنی یا اللہ! مجھ کو سراپا نور بنا دے۔ ظاہر ہے کہ جب آپ سراپا نور تھے تو پھر آپ کا سایہ کہاں سے پڑتا!(6)

سایۂ مرحمت:

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ظاہری طور پر سایہ نہ تھا، لیکن حقیقت میں تمام جہانوں کیلئے آپ سایۂ رحمت ہیں۔

ظل ممدود:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے سائے میں سوار سو سال تک دوڑتا رہے تب بھی اسے طے نہ کر سکے گا،اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو:وَ ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍۙ0 (پ27،الواقعۃ:30)(ترجمہ:اور دراز سائے میں۔)(7)

یہاں حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سایۂ رحمت کو ظلِّ ممدودِ رافت کہا گیا ہے۔ کیونکہ آپ کا سایۂ رحمت بھی ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اس لئے کہ آپ نے اپنی گنہگار اُمّت کو ہمیشہ یاد رکھا، بوقتِ پیدائش ،سفرِ معراج یہاں تک کہ قیامت کے دن بھی نہ بھولیں گے۔

لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا

میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)




[1]مستدرک،3/ 516 ، حدیث : 4285 2خصائص ِکبریٰ ، 2 / 330ملتقطاً 3مکتوباتِ امام ربانی،2/146،مکتوب:124 4المواھب اللدنیہ،1/37 5 الشفا، 2 / 20 6شرح زرقانی،5/524-525 7بخاری،3/345، حدیث:4881


مدنی مذاکرہ

Tue, 5 Jul , 2022
1 year ago

از: شعبہ ماہنامہ خواتین المدینۃ العلمیۃ

(1)نمک کے استعمال میں احتیاط

سوال: نمک کے استعمال میں کیا احتیاط کرنی چاہیے ؟

جواب: اللہ پاک کے فضل و کرم میں سے ایک نمک بھی ہے۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے ۔اللہ پاک کی شان ہے کہ جس نعمت کی بندے کو زیادہ ضرورت ہے وہ یا تو سستی کر دی یا بالکل ہی مفت کر دی۔ نمک سے زیادہ ہوا کی ضرورت ہے کہ اگر ہوا ایک منٹ کے لیے بند ہو جائے تو بندے ڈھیر ہونا شروع ہو جائیں، لیکن اللہ پاک نے ہوا بالکل مفت کر دی۔ نمک بھی ضروری ہے، لیکن اس کی اتنی فراوانی اور کثرت ہے کہ یہ سستا ہے۔ بہرحال ہر چیز کے اِستعمال میں اعتدال ضروری ہوتا ہے،ہر چیز کی ایک Limit(یعنی حد)ہوتی ہے،Limit (یعنی حد)سے جو بھی چیز زیادہ استعمال ہو گی تو وہ نقصان کرے گی،جیسے ہوا ضروری ہے، لیکن اگر کسی کے منہ پر پائپ رکھ کر ہوا ڈالتے رہیں تو پھر کیا ہوگا؟یہ نعمت زحمت بن جائے گی۔ اسی طرح نمک یقینا ً نعمت ہے،لیکن اس کا بے تحاشا استعمال نقصان دہ ہے۔

انسانی جسم کے لیے نمک کی جتنی ضرورت ہے تو وہ غذاؤں کے ذریعے پوری ہو جاتی ہےجیسے پھل فروٹ میں بھی نمک ہوتا ہے۔ روٹین کے کھانے کے علاوہ اضافی نمک جو لوگ کھاتے ہیں جیسے پکوڑے، سموسے، کباب اور نمکو وغیرہ توان چیزوں میں موجود نمک بدن میں نمک کی مقدار بڑھنے کا سبب بنتا ہے ۔پھر اگر کھانا پیٹ بھر کر کھاتے ہیں تو اس سے بھی نمک کی مقدار پیٹ میں زیادہ جائے گی،جس سے بلڈ پریشر ہائی ہو گا۔ اگر کسی کا بلڈ پریشر ہائی نہیں ہوتا تو اس سے وہ یہ نہ سمجھے کہ مجھے نمک سے نقصان نہیں ہو رہا۔

گردے فیل ہونے کا ایک سبب

اللہ پاک نے اعضا کو جو قوت دی ہے تو اس کی ایک حد ہے۔ نمک جب گردوں میں پہنچتا ہے تو گردے اپنی طاقت سے اس کو حل کر کے نکالتے ہیں، لیکن جب Limit (یعنی حَد) سے زیادہ نمک جاتا ہے تو گردوں کو محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے، اب کوئی بھی چیز جب اپنی طاقت سے زیادہ محنت کرے گی تو اس کے Damage (خراب) ہونے کا امکان تو رہتا ہے۔ زیادہ نمک ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ مقدار گردے میں رُک کر اِدھر اُدھر چپک جاتی ہے اور اس سے گردے میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔

آج کل ویسے بھی سننے میں آتا رہتا ہے کہ اس کے گردے فیل ہو گئے ،اس کے گردے فیل ہو گئے۔ کثرت سے گردوں کے فیل ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ نمک زیادہ مقدار میں استعمال کرتے ہیں اور پھر پانی کم پیتے ہیں، اگر پانی زیادہ پیتے تو گردے اچھی طرح فلٹر کرتے اور نمک چپکا نہ رہ جاتا،لیکن نمک رہ جانے کے سبب پھر گردے فیل ہو جاتے ہیں۔ہم اللہ پاک سے عافیت کا سُوال کرتے ہیں۔بہرحال نمک محدود مقدار میں ہی کھائیے اور غیر ضروری نمک کے استعمال سے خود کو بچائیے۔ کھانے کے علاوہ جو دیگر اضافی چیزیں وقتا فوقتا کھاتے رہتے ہیں ان سے اگر بچیں گے تو ان شاءاللہ گردے بھی محفوظ رہیں گے، بلڈ پریشر اور کئی بیماریوں سے بھی حفاظت رہے گی۔

(2)کون سا نمک استعمال کرنا چاہیے؟

سوال:کھانے میں سمندری نمک استعمال کیا جائے یا کان کا نمک؟جو ڈیلر منافع کے لیے نمک میں ملاوٹ کر کے بیچتے ہیں ان کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟

جواب:میری ناقص معلومات کے مطابق پہاڑی نمک جسے لاہوری نمک بھی کہتے ہیں یہ زیادہ مفید ہے۔ ہم لوگ بڑا پیس لے کر اسے کوٹ کر استعمال کرتے ہیں۔ لاہوری نمک پسا ہوا بھی ملتا ہے، لیکن اس میں کنکر پتھر کا مکس ہونا ممکن ہے، اس لیے کہ ملاوٹ کرنے والے تو پانی میں بھی ملاوٹ کر کے منرل واٹر کے نام پربیچتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں سختی ہوتی ہے جس کے سبب وہاں خالص پانی دستیاب ہو جاتا ہے، لیکن کم ترقی یافتہ ممالک میں ملاوٹیں زیادہ ہوتی ہیں۔ لہٰذا ملاوٹ کرنے والے نمک میں بھی پتھر وغیرہ پیس دیتے ہوں گے۔ اللہ پاک انہیں ہدایت دے کہ اتنی سستی چیز میں بھی ملاوٹ کرتے ہیں اور پیسے کھینچنے کیلئے لوگوں کی جانوں سے کھیلتے ہیں۔

نمک میں اگر ملاوٹ کو چیک کرنا چاہیں تو تھوڑا سا نمک پانی میں گھلا لیں،اگر نمک گھلنے کے بعد کچھ ذرات پانی کی تہہ میں نظر آئیں تو یہ ملاوٹ والا کچرا ہوگا جو پانی میں گھلا نہیں۔([1])

(3)کیا گرا ہوا نمک پلکوں سے اُٹھاناپڑے گا؟

سوال:اگر کوئی نمک گرادے تو بعض لوگ کہتے ہیں:”اسے قیامت کے دن پلکوں سے اُٹھانا پڑے گا“ کیا یہ بات درست ہے؟

جواب:اگر کوئی نمک گرا دے تو”اسےقیامت کے دن پلکوں سے اُٹھانا پڑے گا“یوں ہی”اگر اس طرح پیشاب کرو گے تو قبر میں پیشاب آئے گا“یہ عوامی بے سر و پا(جھوٹی،بے بنیاد) باتیں ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ میں بھی بچپن سے یہ باتیں سنتا آ رہا ہوں، لیکن آج تک نہ کسی کتاب میں پڑھیں اور نہ کسی عالمِ دین سے سنیں۔

عوام کو چاہیے کہ ثواب، عذاب اور قیامت کے متعلق کوئی بھی بات اپنی رائے سے بیان نہ کریں، کیونکہ ان باتوں کا تعلق انبیائے کرام علیہم ُ الصّلوٰۃ و السّلام کے بتانے سے ہے۔ لہٰذا ثواب، عذاب اور قیامت کے متعلق جو باتیں ہیں انہیں عُلمائے کِرام سے سُن کر یا پوچھ کر ہی آگے بیان کیا جائے۔(2)

(4)کیا مرچ کھانے سے زبان پتلی ہوتی ہے؟

سوال: لوگ بولتے ہیں:”مرچ کھانے سے زبان پتلی ہوتی ہے اور پڑھنا آتا ہے “ کیا یہ بات درست ہے؟

جواب:مرچی کھانے سے زبان پتلی ہوتی ہے یا پڑھنا آجاتا ہے میں نے کبھی ایسا سنا نہیں۔

ہاں! مدنی چینل پر بچوں کا سلسلہ آتا ہے،اس میں دکھایا گیا کہ ہمارے اسلامی بھائی بچوں کو کھیت میں لےگئے اور مرچیں نکال کر ان کے فوائد بیان کرنے لگے تو انہوں نے ایک فائدہ یہ بھی بتایا کہ مرچیں کھانے سے قوتِ مُدافعت میں اضافہ ہوتا ہے یعنی بیماری سے مقابلہ کرنے کی قوت بڑھ جاتی ہے۔ یاد رہے ! یہ فوائد لال مرچ کے نہیں ہری مرچ کے ہیں۔نیز ہری مرچ بھی زیادہ نہ کھائی جائے کہ اس سے معدے کو نقصان ہو سکتا ہے۔(3)

(5)حضرت خضر علیہِ السّلام نبی یا ولی؟

سُوال: حضرت خضر علیہِ السّلام نبی تھے یا ولی تھے؟

جواب:سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کی تحقیق یہی ہے کہ حضرت خضر علیہِ السّلام نبی ہیں(4) ۔ (5)

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)




[1]ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت،2/114تا116 2ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت،1/159 3ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت،4/242 4فتاویٰ رضویہ،26/401 5ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت،5/249


از: ام میلاد باجی نگران عالمی مجلس مشاورت دعوت اسلامی

یقیناً نکاح اسلامی شعار اور بہت ہی بابرکت عمل ہے، اس سے نہ صرف دو افراد میں محبت اور امن و سکون کی فضا قائم ہوتی ہے بلکہ دو خاندانوں کا بھی آپس میں ایک محبت بھرا تعلق قائم ہو جاتا ہے، نیز اسی نکاح کی بدولت معاشرے میں ایک اچھی فضا پیدا ہوتی ہے اور برائیوں کا قلع قمع ہوتا ہے، اس کی عظمت و افادیت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب قرآن و سنت اور اسلامی اصول و قوانین کے مطابق اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ لیکن افسوس! صد افسوس! ہمارے یہاں عام طور پر دینی تعلیمات کے مطابق نکاح کی تقریب کے تمام مراحل طے نہیں ہوتے بلکہ ہماری اس مذہبی رسم میں بھی بہت سی ہندوانہ اور غیر اسلامی حرکات و خرافات شامل ہو چکی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب اکثر شادیاں کامیاب نہیں ہو پا رہیں اور شیطان اپنی کوششوں میں یعنی فساد برپا کرنے اور نفرتیں پھیلانے میں مکمل کامیابی حاصل کر رہا ہے، یاد رہے شیطان کبھی نہ چاہے گا کہ مسلمان اللہ پاک کے حکم کی اطاعت کریں اس کو راضی کرنے والے کام کریں اور اس کی منشا کے مطابق عمل کریں اس لئے وہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے اسلامی معاملات میں دخل اندازی کر کے اس میں خرابی پیدا کرے لیکن اللہ پاک کے محبوب بندے شیطان کو ناکام و نامراد کرتے ہیں اور دونوں جہانوں میں سرخرو ہو جاتے ہیں۔ یہاں شادیوں میں پائی جانے والی کچھ ایسی خرابیوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن میں ہماری کئی خواتین مبتلا نظر آتی ہیں تاکہ ہماری مسلمان خواتین ان کو جان کر ان سے بچنے کی کوشش کریں اور اپنی اصلاح کر سکیں۔

مسلمان عورت کو شادی میں کیا نہیں کرنا چاہیے؟

مسلمان عورت کو مردوں سے اختلاط نہیں کرنا چاہیے۔مسلمان عورت کو بے پردگی، بے حیائی اور بے شرمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔مسلمان عورت کو شادی کے معاملات کی وجہ سے نمازوں سے غفلت نہیں کرنی چاہیے۔مسلمان عورت کو دوسرے مہمانوں کے ساتھ مل کر کسی اور خاتون کی غیبت اور برائی نہیں کرنی چاہیے۔ مسلمان عورت کو دوسری عورتوں کے کپڑوں، ان کے زیورات یا ان کی کسی اور بات پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔مسلمان عورت کو شادی کے کھانے وغیرہ میں بھی عیب نہیں نکالنا چاہیے۔مسلمان عورت کو دلہن یا دولہا یا ان میں سے کسی کے گھر والوں کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں کرنی چاہیے اور کسی سے بدگمان نہیں ہونا چاہیے۔مسلمان عورت کو وہاں پر بھی حقوق العباد میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ مسلمان عورت کو شادی کے موقع پر بھی گانے باجے اور ڈانس وغیرہ کرنے اور دیکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ مسلمان عورت کو مووی اور تصویریں بنوانے سے بچنا چاہیے۔

اللہ پاک ہماری مسلمان خواتین کو زندگی کے تمام معاملات شریعت کی روشنی میں گزارنے کی سعادت عطا فرمائے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)

از: بنت اللہ بخش عطاریہ ہند

مشترکہ خاندانی نظام(Joint family system)ایک عمارت کی طرح ہوتا ہے اور عمارت کی مضبوطی، پائیداری، بقا اور خوبصورتی میں اس کے ستونوں کی مضبوطی اور باہمی ربط و تعلق کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے، اگر ان میں کسی قسم کی کمزوری پیدا ہو جائے یا ان کی مناسب دیکھ بھال کا خیال نہ کیا جائے تو ان پر قائم عمارت میں بھی جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ ہونے اور دراڑیں پڑنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، یوں وہ عمارت زیادہ عرصے تک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتی اور بالآخر گر کر ملیا میٹ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح مشترکہ خاندانی نظام کی عمارت کی مضبوطی و خوبصورتی بھی اس کے ستونوں یعنی ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والوں میں اسلامی تعلیمات پر عمل، قوتِ برداشت اور معاشرتی اخلاق و آداب کی رعایت پر موقوف ہوتی ہے، جہاں ان کی رعایت نہیں کی جاتی وہاں اس پاکیزہ عمارت میں کمزوری اور دراڑیں پیدا ہو جاتی ہیں اور یوں اس پاکیزہ عمارت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ۔بلاشبہ جٹھانی یعنی بڑے بھائی کی بیوی اور دیورانی یعنی چھوٹے بھائی کی بیوی بھی خاندان کے دو اہم ترین ستون ہیں، چونکہ یہ دونوں خواتین شادی کے بعد ایک نئے خاندان کا حصہ بنتی ہیں۔ لہٰذا ہونا تو یہ چاہئے کہ یہ دونوں خواتین مل جل کر خاندان کی عمارت کو مضبوط بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں، مگر افسوس! اکثر گھر ان کے درمیان بحث و تکرار اور لڑائی جھگڑے کے سبب میدانِ جنگ بنے رہتے ہیں۔ یہاں ذیل میں چند ایسی باتیں ذکر کی جا رہی ہیں جنہیں اگر یہ دونوں مدِّ نظر رکھیں تو ان کے گھر امن کا گہوارا بن سکتے ہیں:

v جٹھانی یا دیورانی میں سے اگر کوئی گھر کے اہم افراد کا دل جیتنے میں کامیاب ہو جائے تو دوسری کو چاہئے کہ وہ حسد کی آگ میں نہ جلے بلکہ وہ بھی اپنے کام میں نکھار لا کر ان افراد کا دل خوش کرنے کی بھرپور کوشش کرے۔

v دونوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کی خوبیوں کی جائز تعریف ضرور کریں کہ اس سے آپس میں محبت بڑھتی ہے، مثلاً ان میں سے جس کو اچھا کھانا پکانا آتا ہو یا اچھے کپڑے سیتی ہو یا فرائض کے ساتھ ساتھ نفل عبادات بھی بجا لاتی ہو یا دینی کاموں کی شیدائی ہو وغیرہ تو اس کی تعریف کرنے میں دوسری کو ذرا بھی ہچکچاہٹ و کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔

v اگر جٹھانی کو دیورانی کی کوئی بات و حرکت اچھی نہ لگے تو وہ اس کے خلاف محاذ کھڑا کرے نہ کسی کے سامنے اظہار کرے اور نہ اسے جلی کٹی سنائے بلکہ اسے اپنی چھوٹی بہن سمجھ کر معاف کر کے ثوابِ آخرت کی حصہ دار بن کر نفس و شیطان کو ناکام و نامراد کر دے۔

v اسی طرح دیورانی کو جٹھانی کی کوئی بات و حرکت بری لگے تو وہ اسے ضد و انانیت کا مسئلہ بنائے نہ اسے اپنا دشمن سمجھ کر غیبت کے گناہ میں مبتلا ہو، بلکہ اسے اپنی بڑی بہن سمجھ کر غصہ پی لے اور درگزر سے کام لے۔

v ضد ی انسان ہمیشہ تنہا رہ جاتا ہے، لہٰذا جٹھانی دیورانی میں سے جس کو جو اور جتنا ملے وہ اس پر راضی رہے اور خواہ مخواہ اپنی شخصیت کو داغ دار کرے نہ بد گمانی کا شکار ہو۔ مثلاً یہ نہ سوچے کہ دوسری کو شادی پر اتنی مالیت کے زیورات پہنائے گئے، مجھے کیوں نہیں؟ اس کو گھر میں مجھ سے زیادہ جگہ کیوں دی گئی؟اس کے بچوں کا اتنا خیال رکھا جاتا ہے، لیکن میرے بچوں کو اِگنور کیا جاتا ہے! وغیرہ وغیرہ۔

v دونوں کو چاہئے کہ اگر کبھی آپس میں ” تُو تُو میں میں“ ہو جائے تو اسے بڑھاوا نہ دیں، بلکہ”رات گئی بات گئی“ کے مصداق رب کی رضا کی خاطر ایک دوسرے کو معاف کر کے معاملے کو رفع دفع کر دیں اور کوئی بھی اپنے شوہر کے سامنے دوسری کے خلاف باتیں کر کے اس کے دل میں نفرت پیدا نہ کرے، عین ممکن ہے ایسا کرنے سے بھائی بھائی کا دشمن بن جائے اور معاملہ مزید بھیانک روپ اختیار کر لے۔

v بعض خواتین میں یہ عادت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اچھا سمجھتیں اور دوسروں کی اولاد میں نقص ڈھونڈتی رہتی ہیں بلکہ بسا اوقات منہ پر ہی اظہار بھی کر دیتی ہیں کہ تمہارا بچہ تو ایسا ہے۔ لہٰذا ان دونوں کو ایک ہی خاندان کی بہو ہونے کے ناطے ایک دوسرے کے بچوں کو اپنا ہی سمجھنا چاہئے اور خواہ مخواہ ایک دوسری کے بچوں میں عیب نہیں ڈھونڈنا چاہئے، کہ اس سے بچوں کی تربیت پر بھی برا اثر پڑتا ہے اور وہ اپنی ماؤں کی باہمی ناراضی کی وجہ سے زندگی بھر کیلئے ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔

v بچے بچے ہوتے ہیں، جو لڑتے جھگڑتے ہیں پھر دوبارہ سب بھول بھال کر کھیلنے میں مشغول ہو جاتے ہیں، لہٰذا بچوں کی لڑائی کے سبب جٹھانی دیورانی کا آپس میں جھگڑنا، گالی گلوچ کرنا، رشتے ناطے توڑ لینا، خوشی غمی کے معاملات کا بائیکاٹ کر دینا، اپنے بچے کو بے قصور اور دوسری کے بچے کو قصور وار ٹھہرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دینا انتہائی درجے کی کم عقلی ہے۔ لہٰذا بچے لڑیں تو ہاتھوں ہاتھ صلح کروا دیں اور بچوں کو آئندہ ایسا نہ کرنے کی تنبیہ کر دیں، ان شاء اللہ شیطان مردود منہ کی کھائےگا۔

v جٹھانی رشتے میں دیورانی سے فائق ہوتی ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اس پر اپنی بڑائی کی دھاک بٹھائے یا اپنے احسانات جتلائے یا دھونس دھمکی کے ذریعے اپنے مطالبات منوائے یا اس کی کردار کشی کرے یا اسے نیچا دکھانے کے مواقع ڈھونڈتی رہے کہ اس طرح تو غیبتوں، چغلیوں، بہتان تراشیوں، بد گمانیوں، عیب دریوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ چل پڑتا ہے، لہٰذا جٹھانی کو چاہئے کہ وہ اپنی دیورانی کی عزتِ نفس کا خیال رکھے اور اس کی اس قدر خیر خواہی کرے کہ وہ خود کہہ اُٹھیں کہ اللہ پاک ایسی جیٹھانی ہر دیورانی کو دے۔

v دونوں کو چاہئے کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات بھلا کر دکھ سکھ کی گھڑی میں سہیلیوں کی طرح رہیں اور بوقتِ ضرورت ایک دوسری کا سہارا بنیں، مثلاً ایک بیمار ہو تو دوسری اس کے کام بھی خوش اسلوبی سے کر دے اور کبھی بھی اپنے دل میں یہ خیال نہ آنے دے کہ جب مجھ پر آزمائش آئی تھی تو اس نے میرے ساتھ کوئی تعاون نہ کیا تھا، لہٰذا میری بلا سے وہ جئے یا مرے میں اس کے ساتھ ہرگز کوئی تعاون نہ کروں گی۔کیونکہ اگر وہ بھی اسی جیسا سلوک کرے گی تو دونوں میں فرق کیا رہے گا۔ لہٰذا گھر کو امن کا گہوارا بنانے کے لئے ضروری ہے کہ کسی ایک کے ساتھ کبھی کچھ برا ہوا ہو تو وہ درگزر سے کام لے اور اللہ پاک کی رضا کی خاطر معاف فرما دے۔اللہ پاک ہمیں اتفاق سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)