شہیدانِ کربلا

Wed, 3 Aug , 2022
1 year ago

سن60ہجری تھا، اہل کوفہ نواسۂ رسول اللہ ، امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہُ عنہ کو کوفہ آکر دین پھیلانے کا فریضہ انجام دینے کے لئے خط پر خط لکھتے چلے جارہے تھے ۔ جب اہل کوفہ نے 10 ہزار خطوط آپ کو بھیج دیئے تو آپ نے اہل کوفہ کی تصدیق کے لئے حضرت امام مسلم بن عقیل رضی اللہُ عنہ کو کوفہ بھیجا ، کوفہ پہنچتے ہی کوفیوں نے بڑی تعداد میں حضرت امام مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ حضرت امام مسلم بن عقیل رضی اللہُ عنہ نے اطمینان صورتِ حال دیکھ کر حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کو کوفہ آنے کا خط لکھ دیا۔

حضرت امام مسلم بن عقیل رضی اللہُ عنہ کا تسلی بخش خط موصول ہونے پر حق کا پرچار کرنے، باطل کو مٹانے، دم توڑتی ہوئی انسانیت کو عزت و وقار کے ساتھ جینے مرنے کا سلیقہ سکھانے کے لئے امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کوفہ جانے کا فیصلہ کیا۔ کوفہ جانے سے قبل آپ نے اپنے خدام ، اصحاب اور گھر والوں کے ہمراہ خانہ کعبہ کا الوداعی طواف کیا اور 3 ذو الحجۃ الحرام 60ھ کو کوفہ کے لئے رختِ سفر باندھ لیا۔ اس سفر میں بعض روایات کے مطابق آپ کے ہمراہ 82 افراد تھے جن میں اہل بیت کی باپردہ خواتین، دودھ پیتے بچے، آپ کی آل اولاد اور دیگر جوان شامل تھے۔

اس سفر کے دوران کئی مشکلات درپیش آئیں مثلاً حضرت مسلم بن عقیل اور ان کے دو صاحبزادوں رضی اللہُ عنہمم کو شہید کردیا ہے اور اس کے علاوہ اہل کوفہ نے بھی اپنی سابقہ فطرت پر باقی رہتے ہوئے بد عہدی، بے وفائی اور بزدلی کا مظاہرہ کردیاہے۔ان خبر وں کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آپ کی جماعت میں مختلف آراء جمع ہوگئیں اورواپسی جانے کا مطالبہ کیا گیا مگر بہت سی گفتگو کے بعد یہی طے پایا کہ آگے سفر جاری رکھا جائے اور واپسی کے خیال کو ترک کردیا جائے۔حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شرکائے قافلہ کے ساتھ کوفہ پہنچے والے ہی تھے کہ حُر نے ابن زیاد کے ایک ہزار ہتھیار بند سواروں کے ہمراہ آپ کا رستہ روک کر شہر میں داخل ہونے سے منع کردیا، مجبوراً آپ رضی اللہ عنہ کو کوفہ کی راہ سے ہٹ کر ”کربلا“ میں پڑاؤ ڈالنا پڑا، یہ محرم الحرام 61ھ کی دوسری تاریخ تھی۔

آہستہ آہستہ سورج کا طلوع و غروب ہونا اُس وقت کو قریب کررہا تھا جس دن آپ رضی اللہ عنہ اس دنیا فانی کو چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی کی جانب کوچ کرنے والے تھے۔ لہذا کربلا میں ابن سعد نے پانچ ہزار کا لشکر آپ رضی اللہ عنہ کے پڑاؤ کے سامنے لا کھڑا کیا، اس کے پیچھے ابن زیاد نے ابن سعد کی مدد کے لئے پے در پے شمر ذی الجوشن کو چار ہزار، یزید کلبی کو دو ہزار، حصین بن نمیر سکونی کو چارہزار، عمرو بن قیس حمصی کو دو ہزار اور ایک ہزار کا لشکر قیس بن حنظلہ کے کمان میں روانہ کردیا۔ اس طرح یزیدی بزدلوں کی افواج کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی جبکہ ان کے مقابلے میں امام عالی امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ بہت تھوڑے اشخاص تھے۔یزیدی خاندانِ رسول پر طرح طرح کی مصیبتیں ڈھانے لگے یہاں تک کہ مالک کوثر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھرانے پر نہر فرات کا پانی بھی بند کردیاگیا۔ 8 محرم الحرام 61ھ کو دنیا نے وہ دن بھی دیکھا کہ روئے زمین پر اعلائے کلمۃ الحق کو بلند کرنے کی خاطر بچّے العطش العطش (ہائے پیاس، ہائے پیاس)پکار رہے ہیں، امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی پیاس کو اپنا مہمان بنائے بیٹھے ہیں۔ان سب صورت حال کے باجود9 محرام الحرام61ھ کی شام گروہِ یزیدلشکر پاک پر حملہ آور ہونے کے لئے روانہ ہوگیا، امام حسین رضی اللہ عنہ کے حکم پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ایک رات کی مہلت طلب کی ، ابن سعد نے اپنے لشکر کے امراء سے مشورہ کر کے مہلت دے دی۔ عاشوراء کی رات امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے خیمے اور خواتین کی حفاظت کے لئے خندق کھدوائی اس میں لکڑی بھرکر آگ لگادی تاکہ دشمن شب خون نہ مار سکیں۔ عاشوراء کی رات امام عالی مقام کی کرامتیں بھی ظاہر ہوئیں، آپ رضی اللہ عنہ کی دعاؤں کی بدولت مالک بن عروہ، ابن اشعث اور جعدہ قرنی مختلف عذابات میں مبتلا ہوکرحقدار نار ہوئے۔ شب عاشوراء امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے اپنے عزیز و اقارب کو نصیحتیں کیں اور اس کے بعد بارگاہِ خداوندی میں سجدہ ریز ہوگئے۔

جب10 محرم الحرام 61ھ کی صبح طلوع ہوئی تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نےاپنے رفقاء کے ساتھ نمازفجر باجماعت ادا کی۔ ابھی آپ رضی اللہ عنہ نے دعا بھی نہ مانگی تھی کہ مخالفین کے لشکر سے جنگ کے نقارے بجنے لگے۔ ابن سعد نے اپنے لشکر کو ترتیب دینا شروع کردیا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت زہیر بن قین بجلی رضی اللہ عنہ اور حضرت حبیب بن مظاہر اسدی رضی اللہ عنہ کو میمنہ اور میسرہ پر مقرر کردیا جبکہ پرچم نصرت نشان حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو عطا کیا، جب دونوں جانب صفیں قائم ہوگئیں تو امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے صداقت کا آخری خطبہ ارشاد فرمایا جس میں انہیں خاندانِ نبوت کی توقیر کرنے، انہیں اپنے ناپاک مقصد سے دستبردار ہونے کی تلقین کی گئی اور کوفیوں کو ان کا وعدہ یاد دلایا لیکن یزیدیت راہ جہنم کو اختیار کرنے میں بضد تھی ۔ خطبے کے بعد اہل حق کی جانب سے حجت تمام ہوگئی۔ جنگ کے آغاز سے قبل حضرت حُر رضی اللہ عنہ اور کچھ دیر بعد ان کے بھائی حضرت مصعب رضی اللہ عنہ جہنمی لشکر سے تائب ہوکر جنتی لشکر کے صف میں شامل ہوگئے۔

جنگ کا آغاز ہونے والا ہے ، زمین و آسمان خاموش تماشائی بن کر تَک رہے ہیں کہ اسلام کے 72 بہادر اور جانباز شہسوار 22 ہزار دشمنِ دین سے ٹکرانے والے ہیں۔ اب مجاہدین اسلام کا ایک ایک کرکے میدانِ کربلامیں آنے کا وقت ہوا چاہتا ہے جنہوں نے دشمنوں کے صفوں کو تار تار کردیا ، جنہوں نے دشمنوں کے صفوں میں گُھس کر اپنے شعلہ ایمانی سے انہیں جلاکر خاک میں ملادیا۔ترتیب وار ہر ایک کی جنگی مہارت و شجاعت اور شہادت کے مختصر واقعات ملاحظہ کریں:

٭حضرت حر اور ان کے رفقاءرضی اللہ عنہم:

امام حسین رضی اللہ عنہ کی اجازت سے سب سے پہلے میدانِ جنگ میں حضرت حُر رضی اللہ عنہ تشریف لائے، ان کے مقابلےمیں مخالفین کے لشکر سے صفوان بن حنظلہ سامنے آیا، آپ رضی اللہ عنہ نے اس کا سر تن سے جداکردیا، اس کے بعد صفوان کے تین بھائیوں سے بیک وقت مقابلہ کیا اور پلک جھپکتے ہی انہیں خاک میں ملادیا، اس کے بعد حضرت حُر دشمنوں کے صفوں کو چیر تے ہوئے ان کے درمیان چلے گئے اور ابن سعد کے پرچم بردار کے دو ٹکرے کردیئے، شمر کے حکم پر اس کے لشکر نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا، آپ بہادری سے ان کا مقابلہ کررہے تھے کہ قسورہ بن کنانہ نے ان کے سینے پر نیزہ مارا جو آپ کے جسم میں گھس گیا، حضرت حر رضی اللہ عنہ قسورہ بن کنانہ کو واصل جہنم کرتے ہوئے اپنے گھوڑے سے گر پڑے اور امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے آغوش میں ابدی جہان کی طرف کوچ کرگئے۔

اس کے بعد حضرت حُر کے بھائی مصعب، آپ کے بیٹے علی ، آپ کے غلام غرہ رضی اللہ عنہم بھی مردانہ وار اور بہادری کےساتھ دشمنوں سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔

٭حضرت زہیر بن حسان رضی اللہ عنہ:

اس کے بعد حضرت زہیر بن حسان سیدنا امام عالی مقام رضی اللہُ عنہ سے اجازت لیکر میدان کربلا میں اترے، آپ کے مد مقابل سامر ازدی نامی شخص موجود تھا۔ آ پ نے اُس کے منہ نیزہ مارا جس کی نوک اُس کی گُدی سے پار ہوگئی اور وہ جہنم رسید ہوا، اس کے بعد آپ نے نصر بن کعب، اس کے بھائی صالح بن کعب اور اس کے بیٹے کعب کے ساتھ بہادری سے لڑے اور انہیں واصل جہنم کردیا۔ فردًا فردًا لڑکر آپ کو ہرانا ناممکن تھا لہذا حجر بن حجار نے ابن سعد کے حکم پر تین سو سواروں کے ساتھ تین مقامات پر گھات لگایا اور نہایت بزدلانہ اور مکاری سے آپ رضی اللہُ عنہ کو شہید کردیا۔

٭حضرت عبد اللہ کلبی رضی اللہ عنہ:

میدان جنگ میں ابن زیاد بن ابیہ کا غلام ”یسار“ اور ابن زیاد کا مولیٰ ”سالم“ سامنا آیا۔ جنتی لشکر سے حضرت عبد اللہ کلبی اُن گھڑ سواروں سے مقابلہ کرنے کے لئے ایمانی جذبے کے ساتھ پیدل سامنے آئے اور ان دونوں سے بیک وقت بہادری کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے انہیں خاک میں ملادیا۔ ابن زیاد کے غلاموں نے یہ دیکھا اور یک دم ان پر حملہ کرکے آپ رضی اللہُ عنہ کو رتبہ شہادت سے سیراب کردیا۔

٭حضرت بریر بن حضیر ہمدانیرضی اللہ عنہ:

آپ ایک عمر رسیدہ اور پاکیزہ روز گار بزرگ تھے چنانچہ میدان میں جو بھی آپ کے سامنے آتا اپنا سر گنوا بیٹھتا، لہذا جب مخالفین تنگ آگئے تو یزید بن معقل کو حضرت بریر کے سامنے لاکھڑا کیا، آپ نے اس کا بھی کام تمام کردیا اس کے بعد حضرت بریر رضی اللہُ عنہ امام عالی مقام رضی اللہُ عنہ کی دعاؤں سے حصہ لیکر بجیر بن اوس کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔

٭حضرت وہب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ:

آپ کی شادی ہوئے ابھی 17 روز ہوئےتھے، آپ میدان جنگ میں تشریف لائے اور اپنے مد مقابل حکیم بن طفیل کو نیزہ مار کر ایک ہی حملے میں زمین پر گرادیا اور اس کی ہڈیاں توڑدیں۔ اس کے بعدآپ نے قلب لشکر پر حملہ کردیا اور دشمن زمین چاٹنے لگے، ابن سعد کے حکم سے اس کی فوج نے آپ کو گھیرے میں لیکر سر تن سے جدا کردیا۔ اس طرح آپ بارگاہ خدا وندی میں مقبول ہوگئے۔

٭حضرت عمرو بن خالد اور آپ کے بیٹے حضرت خالد رضی اللہ عنہ:

آپ دونوں ایک کے بعد ایک میدان جنگ میں جلوۂ افروز ہوئے اور فاسقوں فاجروں کو قتل کرنے کےبعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

٭دیگر شہیدانِ کربلا رضی اللہ عنہم:

حضرت خالد بن عمرو کے بعد میدان کربلا میں شجرِ اسلام کو اپنے خون سے سیراب کرنے کے لئے حضرت سعد بن حنظلہ تمیمی، حضرت عمرو بن عبد اللہ حجی، حضرت حماد بن انس، حضرت وقاص بن مالک، حضرت شریح بن عبید، حضرت مسلم بن عوسجہ اسدی، اس کے بعد آپ کے بیٹے، حضرت ہلال بن نافع بجلی، حضرت عبد الرحمن بن عبد اللہ یزدی، حضرت یحیٰ بن سلیم، حضرت عبد الرحمن بن عروہ غفاری، حضرت مالک بن انس، حضرت عمر بن مطاع حجفی، حضرت قیس بن منبہ، ابن سعد کے چچا زاد بھائی ہاشم بن عتبہ بن وقاص اور آپ کی مدد کے لئے حضرت فضل بن سیدنا علی المرتضیٰ نو آدمیوں رضی اللہ عنہم کو لیکر یکے بعد دیگرے میدان کارزار میں آتے رہے اور باغیان اسلام اور دشمن اہل بیت کے خون سے زمین کو رنگ دیا ۔ اسلام کے ان سپاہیوں نے دشمنانِ اہل بیت کے ناپاک جسموں سے زمین کا بوجھ ہلکا کرتے ہوئے ناموس اسلام اور ناموس اہل بیت کی خاطر اپنی جانیں تک راہِ خدا میں قربان کردیں۔حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کے برادران گرامی اور اولادِ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہُ عنہمامیں سب سے پہلے شربتِ شہادت پینے والے حضرت فضل بن علی رضی اللہُ عنہما ہی تھے۔

ان سب کی شہادت کے بعد بھی میدان جنگ سجا ہوا ہے اور ہزاروں دشمنان اسلام اپنے کندھوں پر سروں کا بوجھ اٹھائے کھڑے ہیں جبکہ دوسری جانب ان کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے جنتی دولہوں نے اپنے سروں پر شہادت کا سہرا سجایا ہوا ہےاور باراتی فرشتوں کے ہمراہ جنت میں جانے اور اپنے آقا و مولیٰ ، ساقی کوثر، مالک جنت مصطفٰے کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دیدار کے لئے بے تاب ہیں۔

ان شہیدوں کو دیکھ کر مجاہدین کے دل شوق شہادت سے مچلنے لگے، ہاشم بن عتبہ بن وقاص کی شہادت کے بعد حضرت حبیب بن مظاہر، حضرت ابو ذر غفاری کے آزاد کردہ غلام حضرت ”حرّہ“ یا ”حریرہ“، حضرت یزید بن مہاجر جعفی، حضرت انیس بن معقل اصبحی، حضرت عابس بن شبیب اور ان کاغلام حضرت شوذب، حضرت سیف بن حارث، اِن کے چچازاد بھائی حضرت مالک بن عبد بن سریع، امام زین العابدین کے تُرکی غلام ، حضرت حنظلہ بن سعد، حضرت یزید بن زیاد شعبی، حضرت سعد بن عبد اللہ حنفی، حضرت جنادہ بن انصاری، آپ کے بیٹے عمرو بن جنادہ، حضرت مرہ بن ابی مرہ، حضرت محمد بن مقداد، حضرت عبد اللہ بن دجانہ، امیر المؤمنین علی المرتضیٰ کے غلام حضرت سعد، حضرت امام حسین کے پانچ غلام حضرت قیس بن ربیع، حضرت اشعث بن سعد، حضرت عمر بن قرط، حضرت حنظلہ اور حضرت حماد رضی اللہُ عنہم ایک ایک کرکے دیوانہ وار میدان میں آتے گئے اور سمندر شہادت میں غوطہ زن ہوکر جنت میں موتی سمیٹنے جاتے گئے۔

مذکورہ حضرات نے ہمت و بہادری، تلوار و نیزہ زنی، تیر اندازی کے ایسے ایسے جوہر دکھائے کہ مجاہدین نے تاریخ رقم کردی، شہیدوں نے دشمنوں کے صفوں کو تارتار کردیا ہر طرف خون کی ندیاں بہادیں، یزیدیوں کے پیروں تلے زمین ہلادی، مجاہدین جس طرف رخ کرتے لشکر کے لشکر پچھاڑ دیتے، البتہ اسلام کے تنہا شیروں پر منافقین کتوں کے جُھنڈ کی طرح حملہ کرکے انہیں شہید کرتے جارہے تھے۔

سیدنا امام حسین کے اقربا رضی اللہ عنہ کی شہادتیں:

اب تک سیدنا امام حسین رضی اللہُ عنہ کے دوستوں، غلاموں اور وفاداروں میں سے 53 حضرات جام شہادت نوش کرنے کے بعد اس جہان فانی سے رحلت فرماچکے تھے اور سیدنا امام حسین اور امام زین العابدین رضی اللہُ عنہما کے علاوہ19 افراد باقی تھے جن میں امام عالی مقام کے بھائی،بیٹوں اور اقرباء کی تعداد 16 تھی جبکہ دو افراد آپ کے ساتھیوں سے اور ایک شخص آپ کے غلاموں سے باقی بچا تھا۔

حضرت عقیل کی اولادوں رضی اللہ عنہم کی شہادتیں:

خاندانِ رسالت کے تحفظ اور اسلام کا پرچم سرخرو کرنے کے لئے سیدنا امام حسین رضی اللہُ عنہ کے اقربا میں سب سے پہلے حضرت عبد اللہ بن مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہم نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر میدان جنگ میں جانے کی اجازت طلب کی۔ ان کے اصرار پر امام حسین رضی اللہُ عنہنےآپ کو اجازت دے دی، عبداللہ قدامہ کو شکست دینے کے بعد یزیدی لشکر کے دائیں طرف حملہ کردیااور میمنہ کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا، دشمنوں کے پیادوں نے آپ کا راستہ روک لیا اور عمرو بن صبیح صیداوی نے تیر مارکر خاندان عقیل کے فرد کو شہید کردیا۔آپ کی شہادت کے بعد حضرت عقیل رضی اللہُ عنہ کے صاحبزادگان حضرت جعفر اور حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہما فرداً فرداً میدان میں اترے اور دشمنوں کو خون میں نہلانے کے بعد اپنے بھائی بھتیجوں کی پیروی کرتے ہوئے صراط شہادت پرروانہ ہوگئے۔

حضرت زینب کے بیٹوں رضی اللہ عنہم کی شہادتیں:

جب حضرت عقیل رضی اللہُ عنہ کی اولاد شہید ہوگئی تو امام حسین کے بھانجے اور حضرت زینب کے بیٹوں حضرت محمد بن عبد اللہ ، حضرت عون بن عبد اللہ رضی اللہُ عنہم نے باری باری اجازت حاصل کی اور آرزوئے شہادت لے کر ایک ایک کر کے دشمنوں سے مقابلہ کرنے تشریف لے گئے، میدان میں جنگی جوہر دکھانے کے بعد اپنے رفقاء کے پیچھے پیچھے جنت کی طرف کوچ کرگئے۔

امام حسن کے بیٹوں رضی اللہ عنہم کی شہادتیں:

حضرت امام حسن کےبیٹے حضرت عبد اللہ رضی اللہُ عنہما امام حسین رضی اللہُ عنہ کی اجازت سے میدان میں اترے اور مدمقابل طلب کرنے میں وقت ضائع کئے بغیر ابن سعد کے لشکر پر حملہ کردیا، ابن سعد جان بچاکر اپنے سواروں کے درمیان بھاگ گیا۔ابن سعد کے بھاگنے کے کچھ دیر بعد ہی بختری بن عمرو شامی پانچ سو سواروں کو لے کر آپ کے سامنے آگیا،امام حسین رضی اللہُ عنہ کی صفوں سے امام حسین رضی اللہُ عنہ کے غلام پیروزان اور جناب محمد بن انس اور حضرت اسد ابی دجانہ رضی اللہُ عنہم شہزادۂ امام حسن کے دفاع کے لئے راوانہ ہوئے۔ان چاروں نے دشمنوں کو دن میں تارے دکھادیئے اور اُس کے لشکر کو زیر و زبر کرتے گئے آخر ان چاروں کو بھی شہید کردیا گیا۔ ان چاروں میں سب سے پہلے ارزق بن ہاشم کے ہاتھوں حضرت اسد اور اس کے بعد پیروزان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوئے۔

حضرت عبد اللہ بن حسن رضی اللہُ عنہما یزیدیوں کے لشکر کو درہم برہم کرنے اور کئی دشمنوں کو واصل جہنم کرنے کے بعد اپنے چچا جان حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کے پاس تشریف لائے اور پیاس کی شکایت کرنے لگے، امام حسین رضی اللہُ عنہ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے خوشخبری سنائی کہ عنقریب تیرے دادا جان اور ابا جان تجھے پانی پلائیں گے۔ اس بشارت کے بعد حضرت عبد اللہ دوبارہ میدان میں تشریف لائے تو اُن پر پانچ ہزار افراد نے یک بارگی تیر و تلوار، نیزہ و سنان اور خنجروں سے حملہ کردیا ، امام حسین رضی اللہُ عنہ کے لشکر سے علمدار حضرت عباس بن علی رضی اللہُ عنہما نے پرچم حضرت علی اکبر رضی اللہُ عنہ کو دیا اور اپنے بھائی حضرت عون بن علی رضی اللہُ عنہما کو ساتھ لے کر حضرت عبد اللہ رضی اللہُ عنہ کی مدد کو آئے لیکن آپ رضی اللہُ عنہ پہلے ہی بہت زخمی ہوچکے تھے، اچانک نبہان بن زہیر نے تلوار سے آپ رضی اللہُ عنہ کے کندھوں کے درمیان وار کیا تو آپ رضی اللہُ عنہگھوڑے سے زمین پر تشریف لے آئے اور دنیا فانی کو خیر باد کہہ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔

حضرت امام حسن کے دوسرے بیٹے حضرت قاسم رضی اللہُ عنہما میدان جنگ میں جانے کے خواہش مند ہوئے لیکن امام حسین رضی اللہُ عنہ نے اجازت نہیں دی لیکن حضرت قاسم رضی اللہُ عنہ نے اپنے ابا جان رضی اللہُ عنہ کی وصیت جو تعویذ کے ذریعے انہیں کی گئی تھی اُسے دکھاکر اجازت طلب کی، امام حسین رضی اللہُ عنہ نے انہیں اجازت دے دی، حضرت قاسم رضی اللہُ عنہ میدان آئے اور مدمقابل طلب کیا، لڑائی کے دوران آپ رضی اللہُ عنہ نے بہت سے سر تن سے جدا کردیئے اور بڑے بڑے بہادروں کو ہلاک کردیا جن میں ارزق اور اس کے چار بیٹے بھی شامل تھے۔ ارزق کو ایک ہزار سوار کے برابر گنا جاتا تھا۔آپ رضی اللہُ عنہ نے لشکر پر حملہ کرکے ان پر ہیبت طاری کردی، آپ رضی اللہُ عنہ دشمنوں پر قیامت برپا کررہے تھے یزیدیوں نے آپ رضی اللہُ عنہ کے گھوڑے پر تیروں کی بارش شروع کردی اور آپ رضی اللہُ عنہ کا گھوڑا گِرپڑا، شیش بن سعد بد بخت نے آپ رضی اللہُ عنہ پر نیزے کا وار کیا جو آپ رضی اللہُ عنہ کی پشت سے پار ہوگیا، جناب قاسم بن حسن رضی اللہُ عنہما کو اس جنگ میں ستائیس (27) زخم آچکے تھے۔آپ رضی اللہُ عنہ جب گھوڑے سے زمین پر تشریف لائے تو امام حسین رضی اللہُ عنہ کو پکارا، امام عالی مقام رضی اللہُ عنہ نے آکر انہیں اٹھایا اور دشمنوں سے مقابلہ کرتے ہوئے خیمہ کے دروازے تک لے آئے، حضرت قاسم رضی اللہُ عنہ نے خیمے میں مسکراتےہوئے اپنی جان راہِ خدا میں قربان کردی۔

صاحبزادگان علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم کی شہادتیں:

سیدنا امام حسین رضی اللہُ عنہکے بھانجے اور بھتیجوں کی شہادت کے بعد آپ کے برادران یعنی امیر المؤمنین سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ کے صاحبزادگان حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت عون، حضرت جعفر اور حضرت عبد اللہ رضی اللہُ عنہم اپنے دل میں شہادت کا جذبہ لئے میدان جنگ میں تشریف لاتے گئے اور دشمنوں سے زمین کو پاک کرتے چلے گئے، اسد اللہ رضی اللہُ عنہ کے جانباز شیروں نے لومڑیوں کے لشکروں کا نہایت بہادری سے مقابلہ کیا اور دین اسلام کی خاطر اپنی جانیں قربان کردیں۔

لشکر حسینیت کے علمدار حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی شہادت:

میدان جنگ میں جانے کی اجازت لینے کے لئے حضرت عباس بن علی رضی اللہُ عنہما امام حسین رضی اللہُ عنہ کی بارگاہ میں پہنچے، امام حسین رضی اللہُ عنہ نے آنکھیں نم کئے انہیں اجازت دے دی۔امام حسین رضی اللہُ عنہ نے کہا کہ میدان جنگ میں جائیں تو پہلے ان لوگوں پر حجت قائم کریں اور جو کچھ میں آپ کو بتاؤں وہ کہہ دیں اور اگر وہ نہ سُنیں تو پھر اُن سے جنگ شروع کردیں۔ حضرت عباس رضی اللہُ عنہ جب میدان جنگ میں تشریف لائے تو انہوں نے حجت قائم کرنے کے لئے امام حسین رضی اللہُ عنہ کے پیغام کو مِن و عَن بیان کردیا۔حضرت عباس رضی اللہُ عنہ کا پیغام سن کر ابن زیاد کی فوج سے شور اٹھا اور پھر خاموش ہوگئے بعد ازاں کچھ لوگوں نے گالیاں دینا شروع کردیں اور کچھ لوگ پشیمان ہوگئے اور ایک گروہ زار و قطار رونے لگا۔ لشکر یزید سے شمر بن جوشن، شیث بن ربعی اور حجر بن الاحجار سامنے آیا اور آپ رضی اللہُ عنہ کی بات ماننے سے انکار کرتے ہوئے انہیں یزید کی بیعت کرنے کا کہا۔ حضرت عباس رضی اللہُ عنہ نے واپس آکر امام حسین رضی اللہُ عنہ کی خدمت میں جو کچھ سنا تھا عرض کردیا۔ ابھی بات چل ہی رہی تھی کہ اچانک خیمے سے صدائے العطش اٹھ کر آسمان تک پہنچ گئی، حضرت عباس رضی اللہُ عنہ نے اہل بیت کی چیخوں اور زاری کو سُنا تو نڈھال ہوگئے، پھر آپ رضی اللہُ عنہ نے ایک مشکیزہ اور دو لوٹے اٹھائے نیزہ تان کر دریائے فرات کی طرف رخ کرلیا۔ نہر فرات پر چار ہزار افراد کا پہرہ تھا ، دو ہزار لشکریوں نے آپ رضی اللہُ عنہ کا رستہ روک لیا، آپ رضی اللہُ عنہ نے اہل بیت کو پانی پلانے کی تلقین کی، آپ رضی اللہُ عنہ کی بات سنتے ہی نہر کے پانچ سو سواروں اور پیادوں نے آپ رضی اللہُ عنہ پر تیر کی بارش شروع کردی، آپ رضی اللہُ عنہ نے اپنا بچاؤ کرتے ہوئے اُن پر حملہ کردیا اور اسّی 80لوگوں کو ڈھیر کرکے اپنے گھوڑے کو پانی میں اتار دیا، آپ رضی اللہُ عنہ نے یزیدیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے فرات کے کنارے پر پہنچ کر مشکیزہ کو پانی سے بھرلیا، آپ رضی اللہُ عنہ پانی پیئے بغیر گھوڑے پر سوار ہوگئے اور مشکیزہ کندھے پر ڈال لیا، یزیدی پیادوں اور سواروں نے آپ رضی اللہُ عنہ کا رستہ روک کر جنگ شروع کردی، نوفل بن ارزق بد بخت نے حربے کا وار کیا اور آپ رضی اللہُ عنہ کا دایاں بازوں شہید کردیا، اس کے بعد آپ رضی اللہُ عنہ نے مشکیزہ دوسرے کاندھے پر ڈالا تو بائیں بازوں کو بھی قلم کردیا گیا، آپ رضی اللہُ عنہ نے دانتوں کے ساتھ مشکیزے کو کاندھے سے کھینچ لیا ، اچانک مشکیزے پر ایک تیر آکر لگا اور مشکیزے میں سوراخ ہونے کی وجہ سے تمام پانی بہ گیا۔ حضرت عباس رضی اللہُ عنہ کاندھوں پر زخم آنے کی وجہ سے گھوڑے کی پُشت سے نیچے گر پڑےاور امام حسین رضی اللہ عنہ کو امداد کے لئے پکارا، جب آواز امام حسین رضی اللہُ عنہ کے کانوں تک پہنچی تو آپ نے جان لیا کہ حضرت عباس اپنے والد ِ ماجد رضی اللہُ عنہ کے حضور پہنچ گئے ہیں۔

حضرت علی اکبر بن امام حسین رضی اللہُ عنہما کی شہادت:

امام عالی مقام حضرت حسین رضی اللہُ عنہ نے جب دیکھا کہ دوستوں بھائیوں اور اقرباء میں سے کوئی شخص پیچھے نہیں بچا تو آپ نے اسلحہ پہن کر میدان کی طرف جانے کا ارداہ کرلیا، حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ نے جب اپنے بابا کو میدان میں جانے کا عزم کرتے دیکھا تو آپ کے ساتھ لپٹ گئے اور جنگ میں جانے سے روک لیا اور خود پہلے جنگ پر جانے کی اجازت طلب کی لیکن امام حسین رضی اللہُ عنہ نے انکار کردیا، البتہ حضرت علی اکبر رضی اللہُ عنہ نے زارو قطار رو کر اپنے والد مکرم کو راضی کرلیا، حضرت علی اکبر رضی اللہُ عنہ نے اپنے اہل خانہ کو الوادع کہا اور میدان کی طرف روانہ ہوگئے، میدان جنگ مبازر طلبی کے باوجود جب کوئی سامنے نہ آیا تو آپ نے دشمنوں کے لشکر پر حملہ کردیا، آپ رضی اللہُ عنہ نے میمنہ و میسرہ اور قلب و جناح پر اس تیزی سے حملے کئے کہ دشمنوں کے لشکر میں شور برپا ہوگیا۔ آپ واپس اپنے بابا جان رضی اللہُ عنہما کے پاس آئے اور پیاس کا عذر پیش کیا اور آپ رضی اللہُ عنہ نےاپنے نانا جان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی انگشتری مبارک اُن کے منہ میں رکھ دی جسے چوسنے سے اُن کی پیاس بجھ گئی اور سکون حاصل ہوگیا، آپ رضی اللہُ عنہ دوسری مرتبہ میدان میں تشریف لائے اور مبازر طلبی کی ، یزیدی لشکر سے طارق بن شیث مقابلے کے لئے آیا ، آپ نے اپنا نیزہ اس کے سینے میں مارکر ہلاک کردیا، اس کے بعد طارق کا بیٹا عُمر اور طلحہ ان کے ہاتھوں واصل جہنم ہوا، یزیدی لشکر کے مصراع بن غالب کے ہلاک ہونے کے بعد ابن سعد کے حکم پر محکم بن طفیل اور ابن نوفل کو ایک ایک ہزار سوار کا لشکر دے کر آپ رضی اللہُ عنہ سے جنگ کے لئے بھیج دیا، ان لشکروں نے حضرت علی اکبر رضی اللہُ عنہ پر حملہ کردیا لیکن آپ نے ایک ہی حملے میں دو ہزار سواروں کو پسپا کردیا، آپ رضی اللہُ عنہ پر جنگ کی وجہ سےبہت زخم آچکے تھے بالآخر ابن نمیر کے نیزے کے وار سے گھوڑے سے نیچے تشریف لے آئے، آپ رضی اللہُ عنہ کی پکار پر امام حسین رضی اللہُ عنہ میدان میں آکر انہیں اٹھایا اور خیمہ کے دروازے پرلے آئے اور اُن کا سر اپنے آغوش میں لے لیا، حضرت علی اکبر رضی اللہُ عنہ نے آنکھیں کھولی اور اہل خانہ کو سلام کہہ کر جنت کی طرف روانہ ہوگئے۔

امام حسین رضی اللہُ عنہ کی اپنے اہل خانہ کو وصیت:

امام حسین رضی اللہُ عنہنے جب دیکھا کہ ساتھ آنے والے تمام مرد حضرات ایک ایک کرکے راہِ خدا میں جان نچھاور کرچکے ہیں، خیمے میں صرف ایک ہی شخص حضرت سیدنا امام زین العابدین بیمار حالت میں موجود ہیں، ان کے علاوہ تمام پردہ نشین خواتین ہیں۔ امام حسین رضی اللہُ عنہ خیمے میں تشریف لے گئےاور اپنی صاحبزادی حضرت سکینہ رضی اللہُ عنہا کو آغوش میں لے کر اپنی ہمشیرگان کو فرمایا ! میری شہادت کے بعد سرننگے نہ کرنا، چہروں پر طمانچے نہ مارنا، سینہ کوبی نہ کرنا اور کپڑے نہ پھاڑناکیونکہ یہ اہل جاہلیت کی عادت ہے۔ اس کے علاوہ امام حسین رضی اللہُ عنہ نے اہل خانہ کو صبر کر نے کی بھی تلقین فرمائی ۔

حضرت علی اصغر رضی اللہُ عنہ کی شہادت:

امام حسین رضی اللہُ عنہ نے ان سب کو تسلی دی اور گھوڑے پر سوار ہوکر میدان کی طرف جانے کا ارادہ کرلیا کہ اچانک خیمے سے چیخ و پکار کی صدا آنے لگی، پوچھنے پر پتا چلا کہ ننھا علی اصغر رضی اللہُ عنہ پیاس کی وجہ سے رو رہا ہے، ان کی والدہ کا دودھ خشک ہوچکا ہے اور شیر خوار بچہ ہلاکت کے قریب ہے۔امام حسین رضی اللہُ عنہ کے کہنے پر حضرت زینب رضی اللہُ عنہا انہیں اٹھا کر آپ کے پا س لے آئیں، امام حسین رضی اللہُ عنہ انہیں اپنی آغوش میں لے کر مخالفین فوج کے سامنے پہنچے اور انہیں ہاتھوں میں اٹھا کر آواز دی اے لوگو !تمہارے گمان میں ، میں نے گناہ کیا ہے لیکن اس بچے کا کوئی قصور نہیں، اِسے ایک گھونٹ پانی دے دو کیونکہ شدت پیاس کی وجہ سے اس کی والدہ کا دودھ خشک ہوچکا ہے۔

سنگ دل یزیدیوں نے ابن زیاد کے حکم کے بغیر آپ کے بیٹوں کو ایک قطرہ پانی دینے سے بھی انکار کردیا، اس کے ساتھ ہی قبیلہ ازد کے ایک بد بخت شخص حرملہ بن کاہل نے تیر کھینچا اور امام حسین رضی اللہُ عنہ کی طرف چلادیا، وہ تیر حضرت علی اصغر رضی اللہُ عنہ کے گلے کو چیرتا ہوا حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کے بازو میں پیوست ہوگیا، پھر آپ رضی اللہُ عنہ خیمہ کی طرف تشریف لائے حضرت علی اصغر رضی اللہُ عنہ کی والدہ کو بلاکر فرمایا کہ شہید بچے کو لے لیں اِسے حوض کوثر سے سیراب کیا جائے گا۔

امام حسین رضی اللہُ عنہ کی امام زین العابدین رضی اللہُ عنہ کو وصیت:

امام حسین رضی اللہُ عنہ کے ساتھ مردوں میں صرف حضرت امام زین العابدین رضی اللہُ عنہ باقی بچے تھے اور وہ بھی بیمار تھے، جب انہوں نے اپنے والد گرامی کو اکیلا دیکھا تو نیزہ اٹھا کر خیمے سے باہر تشریف لے آئے، انتہائی کمزوری کی وجہ سے آپ کا بدن کانپ رہا تھا، اسی حالت میں آپ نے میدان کا رخ کرلیا، امام حسین رضی اللہُ عنہ تیزی سے ان کی طرف بڑھے اور انہیں روک کر فرمایا : اے بیٹے !واپس جا؛کیونکہ میری نسل تجھ سے باقی رہے گی، تو ائمہ اہل بیت کا باپ ہوگا اور تیری نسل قیامت تک منقطع نہیں ہوگی، اس کے علاوہ خواتین کی نگرانی تیرے ذمے ہے، میرے نانا جان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور والد گرامی رضی اللہُ عنہ کی جو امانتیں باقی ہیں وہ تیرے سپرد کرتا ہوں۔

سید الشہداء امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہُ عنہ کی شہادت:

حق و باطل کے درمیان فرق کرنے، نا اہل اور اسلام دشمن حکمران کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بننے، شریعت مطہرہ کی تعلیمات کو تار تار کرنے والوں کے خلاف شمشیر بے نیام کرنے، دھوکے باز اور بے وفا کوفیوں کو ان کا صلہ دینے ،باغِ نبوت کے چمکتے دمکتے پھول، لختِ جگر خاتونِ جنت، اسداللہ حیدر کرار کا خون، امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہُ عنہ نےمصری قبہ زیب تن کیا، نانا جان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دستار مبارک سر پر رکھی، حضرت حمزہ رضی اللہُ عنہ کی ڈھال پشت پر ڈالی، اپنے والد گرامی رضی اللہُ عنہ کی تلوار ذوالفقار ہاتھ میں تھامے ذوالجناح پر سوار ہوئے اور اہل خانہ کو خالق کائنات کے سپرد کرکے میدان کی طرف تشریف لے گئے۔

امام حسین رضی اللہُ عنہ جب میدان کے درمیان پہنچے تو آپ نے نیزہ زمین میں گاڑدیا اور آغاز رجز فرمایا : امام حسین رضی اللہُ عنہ نے انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قہر سے ڈرایا، نانا جان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا واسطہ دیتے ہوئے انہیں خود کو شہید کرنے سے روکا اور اہل خانہ کو پانی دینے کی تلقین فرمائی۔ آپ رضی اللہُ عنہ کی باتیں سن کر اہل کوفہ گریۂ و زاری کرنے لگے، بختری بن ربیعہ، شیث بن ربعی اور شمر بن ذی الجوشن نے اپنے لشکر کی یہ حالت دیکھی تو امام حسین کے پاس آئے اور کہا کہ اے ابن ابی تراب !اپنی بات لمبی نہ کریں اور اپنے ارادے کو چھوڑ کر یزید کی بیعت کرلیں، بصورت دیگر ہم آپ کو اسی حال میں رکھیں گے، دوسری جانب ابن سعد نے جب یہ منظر دیکھا تو اپنے پندرہ ہزار بد بختوں کو امام حسین رضی اللہُ عنہ کی طرف تیر چلانے کا حکم دے دیا، اللہ کے حکم سے ان کے تمام تیر خطا کرگئے اور آپ رضی اللہُ عنہ محفوظ رہے اور واپس اپنے خیمے میں تشریف لے آئے، جب آپ رضی اللہُ عنہ نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو گردو غبار اٹھنے لگا اور ان کے درمیان سے جنّو کا سردار ”زعفر زاہد“ سامنے آیا اور امام حسین رضی اللہُ عنہ کو سلام عرض کیا، زعفر زاہدنے امام حسین رضی اللہُ عنہ کو اپنا تعارف کروایا اور جنگ میں مدد کرنے کی اجازت طلب کی، امام حسین رضی اللہُ عنہ نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مدد لینے سے انکار کردیا۔

امام حسین رضی اللہُ عنہ نے دوسری مرتبہ میدان کا رخ کیا، آپ رضی اللہُ عنہکے مد مقابل تمیم بن قحطیہ آیا، آپ رضی اللہُ عنہ نے اس کی گردن پر تلوار ماری جس سے اس کا سر پچاس قدم دور جاگرا، پھر آپ نے یزیدی فوج پر حملہ کردیا، آپ رضی اللہُ عنہ کی تلوار کی ضرب سے دشمن یک دم بھاگنے لگے، یزیدابطی نے جب لشکر کو ڈرتے ہوئے دیکھا تو مسلح ہوکر امام حسین رضی اللہُ عنہ کے سامنے پہنچ گیا اور اپنی شان بیان کرتے ہوئے آپ رضی اللہُ عنہ کی گستاخی کرنے لگااور تلوارسے وار کردیا، امام حسین رضی اللہُ عنہ نے اُس کے وار سے پہلے اُس کی کمر پر تلوار چلادی اور اسے چیر کر دو حصوں میں تقسیم کردیا، پھر آپ رضی اللہُ عنہ نے فرات کا قصد کیا لیکن یزیدی فوج ان کے درمیان حائل ہوگئی۔امام حسین رضی اللہُ عنہنے باغیوں کے سروں پر تلوار چلانا شروع کردی اور فرات تک پہنچ گئے لیکن غیبی آواز کی وجہ سے پانی نوش نہیں فرمایا بلکہ خیمے کی طرف تشریف لے آئے، آپ رضی اللہُ عنہ کے وار سے دشمنوں کی گردنیں اس طرح گررہی تھیں جیسے خزاں میں درخت کے پتے زمین پر گرتے ہیں، خیمے میں امام حسین رضی اللہُ عنہ نے عیال و اطفال کو آخری وصیتیں کیں اور آخری ملاقات کرتے ہوئے الوداع کہا۔

امام عالی مقام سیدنا امام حسین میدان میں تشریف لائےاور مقابلے کی دعوت دی، ابن سعد نے اپنے لشکر کو اکٹھے ہوکر حملہ کرنے کا حکم دیا، یزیدی لشکر نے حرکت میں آکر آپ رضی اللہُ عنہ کو گھیرے میں لے لیا، امام حسین رضی اللہُ عنہ نے بجلی کی طرح تلوار چلاتے ہوئے اُن پر حملہ کردیا، آپ رضی اللہُ عنہ کے واروں سے نعشوں کے انبار لگ گئے، خون کی بارشیں ہونے لگیں، حملہ کرتے ہوئے آپ رضی اللہُ عنہ پھر فرات تک پہنچ گئے اور پانی پینے کا ارادہ کیا لیکن حصین بن نمیر نے آپ رضی اللہُ عنہکے چہرۂ اقدس پر تیر چلادیا اور آپ پانی پینے سے قاصر رہے، آپ رضی اللہُ عنہکا منہ مبارک گھڑی گھڑی خون سے بھرجاتا تو خون باہر بہنے لگتا، بہر حال دشمنوں نے یک لخت حملہ کرکے آپ کے جسم مبارک کو بہت سے زخموں سے گھائل کردیا، امام عالی مقام رضی اللہُ عنہ نے جنگ سے ہاتھ روک لیا اور آپ رضی اللہُ عنہ کا گھوڑا بھی کمزور پڑگیا، شمر کے حکم پر یزیدی پیادوں نے امام حسین رضی اللہُ عنہ کو گھیرے میں لے لیا، آپ رضی اللہُ عنہ نے اُن پر اس طرح شمشیر چلائی کہ وہ ہزیمت اٹھا کر بھاگ نکلے، جس وقت سواروں اور پیادوں نے حملہ کیا اور آپ کے قریب پہنچے تو ہیبت کی وجہ سے کوئی بھی ایک قدم آگے بڑھانے کے لئے تیار نہ تھا۔ بالآخر اُن لوگوں نے آپ رضی اللہُ عنہ پر تیروں کی بارش شروع کردی، امام حسین رضی اللہُ عنہ اپنے گھوڑے سے اتر آئے۔ یزیدیوں نے آپ کو پیادہ دیکھا تو دلیر ہوکر آپ پر حملہ کردیا یہاں تک کہ ایک شخص کا تیر آپ کی نورانی پیشانی میں پیوست ہوگئی، آپ رضی اللہُ عنہ نے تیر کھینچا اور اپنا ہاتھ مبارک زخم پر رکھ لیا، جب آپ کا ہاتھ مبارک خون سے لت پت ہوگیا تو آپ نے اُسے چہرے پر مل کر فرمایا، میں اسی حالت میں اپنے نانا جان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملاقات کروں گااور شہیدوں کی تفصیل بیان کروں گا۔

اس دن آپ رضی اللہُ عنہ کے جسم اطہر پر تیروں، تلواروں اور نیزوں کے 72 بہتر زخم آچکے تھے، اسی حال میں آپ قبلہ رو ہوکر بیٹھ گئے اور اپنا سر مبارک بحضور کبریا رکھ دیا، آپ رضی اللہُ عنہ کو شہید کرنے کے ارادے سے ایک ایک دو دو آدمی آتے رہے اور چہرہ مبارک پر نظر ڈالتے توشرمندہ ہوکر واپس چلے جاتے، جب شمر نے فوجیوں کو آپ رضی اللہُ عنہ کے قتل سے اعراض کرتے دیکھا تو غضب کرنے لگا، اُ س کی بات سن کر زرعہ بن شریک آگے بڑھ کر آپ کے ہاتھ مبارک پر زخم لگایا اور دس افراد آپ رضی اللہُ عنہ کو قتل کرنے کے لئے آگے بڑھے لیکن کسی کی ہمت نہیں ہوئی، اسی اثنا میں سنان بن انس نے امام حسین رضی اللہُ عنہ کی پشت پر نیزہ مارا تو آپ رضی اللہُ عنہ زمین پر لیٹ گئے، خولی بن یزید اصبحی نے اپنے گھوڑے سے اُتر کر آپ کا سر مبارک آپ کے جسم اطہر سے الگ کرنا چاہا تو اس کا ہاتھ کانپ اٹھا اور اُس کے بھائی شبل بن یزید نے نواسۂ رسول، جگر گوشہ بتول، نوجوان جنت کے سردار، شیر خدا کے دل کا چین، شہنشاہ اہل بیت ، سید السادات، امام عالی مقام حضرت سیدناامام حسین رضی اللہُ عنہ کا سر مبارک کو تن سے جدا کردیا، اس طرح آپ رضی اللہُ عنہ محرم الحرام 61ھ کی دسویں تاریخ جمعہ کے روز اپنا وعدہ پورا کر کے خالق حقیقی سے جاملے۔آپ رضی اللہُ عنہ کی شہادت پر زمین پر لرزہ طاری ہوگیا، ملکوت کی عبادت گاہوں میں شور برپا ہوگیا،جبروت کے باغات سے واویلا کی صدائیں آنے لگی، آفتاب عالم افروز کی روشنی ختم ہوگئی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو

واقعہ کربلا کے تفصیلی مطالعے کے لئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب سوانحِ کربلا کا مطالعہ فرمائیں

نوٹ: اس مضمون کو لکھنے میں کتاب ”روضۃ الشہداء“ اور سوانحِ کربلا سے مدد لی گئی ہے۔

از: مولانا حسین علاؤالدین عطاری مدنی

اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹردعوتِ اسلامی ، المدینۃ العلمیۃ