قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے: وَ الَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ
يَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ
عَشْرًا١ۚ(پ2،البقرۃ:234)
ترجمہ: اور تم میں سے جو مر جائیں اور بیویاں چھوڑیں تو وہ بیویاں چار مہینے اور دس
دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔
تفسیر: اس آیت میں بیوہ کی عدت کا ذکر ہو رہا ہے، عِدَّت
کا لغوی معنی ٰ شمار اور گنتی ہے، جبکہ شرعاً اس
سے مراد ہے کہ شوہر کے طلاق دینے یا وفات پا جانے کے بعد عورت آگے کسی سے نکاح کرنے سے پہلے ایک مخصوص مدت تک انتظار کرے۔ امام
رازی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے
ہیں کہ یہاں اس آیت مبارکہ میں بیوہ عورتوں کو شوہر کی موت کے بعد خود کو ایک
مخصوص مدت تک روکے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، مگر یہاں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ کس
چیز سے روکے رکھیں؟ چنانچہ یاد رکھئے کہ بیوہ عورت کو 3 چیزوں سے رکے رہنے کا پابند
کیا ہے: (1)نکاح سے(2)خاوند کے گھر سے نکلنے سے اور(3)زینت سے۔([1]) اب
اگر کوئی عورت عدت کی پابندیاں پوری نہ کرے یعنی مذکورہ تینوں چیزوں سے نہ رکے تو
جو اسے روکنے پر قادر ہے وہ اسے روکے، اگر نہیں روکے گا تو وہ بھی گناہ گار
ہو گا۔(2)
(1)بیوہ نیا نکاح کب کرے؟شوہر کی وفات کے بعد وفات کی عدت
گزارنا عورت پر مطلقاً لازم ہے خواہ جوان ہو یا بوڑھی یا نابالغہ، یونہی عورت کی
رخصتی ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔(3)اس آیتِ مبارکہ میں یہ بیان کیا گیا ہے
کہ بیوہ عورت کی عدت 4 ماہ 10
دن ہے بشرطیکہ جب شوہر کا انتقال چاند کی پہلی تاریخ کو ہوا ہو، ورنہ وہ 130 دن
پورے کرے گی(4)۔(5) لیکن اگر وہ بیوہ امید سے ہو یعنی ماں
بننے والی ہو تو اب اس کیلئے کوئی خاص مدت
مقرر نہیں، بلکہ جس وقت بچہ پیدا ہو گا
عدت ختم ہو جائے گی۔ اگرچہ ایک منٹ بعد حمل ساقط ہو گيا اور اعضا بن چکے ہیں عدت پوری ہو گئی ورنہ نہیں
اور اگر دو یا تین بچے ایک حمل سے ہوئے
تو پچھلے کے پیدا ہونے سے عدت پوری ہو گی۔(6)بیوہ اگر امید سے
ہو تو اس کی عدت بچہ پیدا ہونا ہے، اس کی دلیل یہ روایت ہے: حضرت سبیعہ اسلمیہ رضی اللہُ عنہا بیان کرتی ہیں کہ وہ قبیلہ بنو عامر سے تعلق رکھنے والے بدری صحابی حضرت سعد بن خولہ رضی اللہُ عنہ کی زوجیت میں
تھیں۔ حجۃ الوداع کے سال ان کا انتقال ہو گیا جبکہ وہ امید سے تھیں۔ ان کی وفات کے
کچھ دن بعد ہی ان کے ہاں بچے کی ولادت ہو گئی اور جب یہ نفاس سے فارغ ہو گئیں تو انہوں نے شادی کے
پیغامات آنے کے خیال سے بناؤ سنگھار کیا۔ یہ دیکھ کر کسی نے انہیں کہا: کیا بات ہے
آپ بنی سنوری ہوئی ہیں! لگتا ہے شادی کرنا چاہتی ہیں؟ اللہ کی قسم! آپ اس وقت تک
نکاح نہیں کر سکتىں جب تک کہ چار ماہ دس دن (كى عدت) مکمل نہ ہو جائے۔ تو یہ شام کے وقت حضور صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے
پاس گئیں اور اس بارے میں دریافت کیا تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ جب ان کے ہاں بچہ
پیدا ہوا تھا تو اسی وقت ان کی عدت بھی پوری ہو گئی تھی، لہٰذا اگر چاہیں تو شادی کر لیں۔(7)اس سے یہ
بھی معلوم ہوا کہ عدت کے دوران عورت نہ کسی سے نکاح کر سکتی ہے نہ ہی اسے نکاح کا
پیغام دیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ
اللہِ علیہ
فرماتے ہیں: عدت میں نکاح تو نکاح، نکاح کا پیغام دینا (بھی) حرامِ قطعی ہے۔(8)ایک
اور مقام پر فرماتے ہیں: عدت میں نکاح باطل و حرام محض ہے۔(9)
(2)عدت کہاں گزارے؟:شوہر کی موت کے
وقت جس مکان میں
عورت کی رہائش تھی اسی مکان میں عدت پوری کرے کہ بلا ضرورت اس مکان کو چھوڑ کر
دوسری جگہ رہائش رکھنا منع ہے۔ آج کل بلاوجہ معمولی باتوں کو ضرورت سمجھ لیا
جاتا ہے وہ یہاں مراد نہیں بلکہ ضرورت وہ
ہے کہ اُس کے بغیر چارہ نہ ہو۔(10) مثلا ً٭جبراً (زبردستی)نکالا
جائے٭مکان گر جائے یا٭گرنے کا خطرہ ہو یا٭مال کے نقصان کا
خطرہ ہویا٭مکا ن کرایہ پر تھا عورت
میں کرایہ دینے کی طاقت نہ ہو یا٭اور اس قسم کی ضروریات ہوں تو (ایسی عورت)
قریب ترین مکان میں منتقل ہو جائے۔ (11)البتہ! موت کی عدت میں اگر باہر
جانے کی حاجت ہو تو ان صورتوں میں گھر سے نکلنے کی علما نے اجازت دی ہے: ٭عورت
کے پاس بقدر ِ کفایت مال نہیں اور باہر جا کر محنت مزدوری کر کے لائے گی تو کام
چلے گا تو اسے اجازت ہے کہ دن میں اور رات کے کچھ حصے میں باہر جائے اور رات کا
اکثر حصہ اپنے مکان میں گزارے مگر حاجت سے زیادہ باہر ٹھہرنے کی اجازت نہیں۔ ٭اگر
بقدرِ کفایت اس کے پاس خرچ موجود ہے تو اسے بھی گھر سے نکلنا مطلقاً منع ہے اور
اگر خرچ موجود ہے مگر باہر نہ جائے تو کوئی نقصان پہنچے گا مثلاً زراعت کا کوئی
دیکھنے بھالنے والا نہیں اور کوئی ایسا نہیں جسے اس کام پر مقرر کرے تو اس کے ليے
بھی جا سکتی ہے مگر رات کو اُسی گھر میں رہنا ہو گا۔ ٭یونہی کوئی سودا لانے
والا نہ ہو تو اس کے ليے بھی جاسکتی ہے۔ (12)
(3)زینت ترک کرنا: کسی کے فوت ہونے پر زینت کو ترک کرنا
سوگ کہلاتا ہے، سوگ اس پر ہے جو عاقلہ بالغہ مسلمان ہو اور موت یا طلاقِ بائن کی
عدت ہو۔(13) ایسی عورت کو عدت پوری ہونے تک سوگ منانا شر عاً واجب ہے
اور اس کا ترک حرام ہے حتی کہ شوہر نے مرنے سے پہلے کہہ دیا تھا کہ سوگ نہ کرنا جب
بھی سوگ واجب ہے۔(14) البتہ! 4ماہ
10 دن تک سوگ کرنا صرف شوہر کی موت کے ساتھ خاص ہے اور کسی عزیز یا رشتہ دار کی
موت پر 3دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں۔ جیسا
کہ حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں
کہ جب ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہُ عنہا کے بھائی فوت ہوئے تو میں ان کے پاس گئی، انہوں نے خوشبو منگا کر اپنے جسم پر لگائی اور فرمایا:
مجھے خوشبو لگانے کی اگرچہ ضرورت تو نہیں، مگر میں نے حضور صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے یہ
سنا ہے کہ جو عورت اللہ پاک پر اور یوم آخرت پر ایمان لائی ہو اس کیلئے کسی میت پر
3دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں۔ ہاں! شوہر (کی
موت) پر 4ماہ 10دن تک سوگ کرے۔(15)
سوگ کی حالت میں ممنوع کام:(1)ہر
قسم کا زیور یہاں تک کہ انگوٹھی، چھلا اور چوڑیاں وغیرہ پہننا (2)ریشمی کپڑا پہننا(3)سرمہ لگانا(4)کنگھی کرنا،مجبوری ہو تو موٹے دندانوں کی کنگھی(استعمال) کرے۔ (5)ہر
طرح کی زیب و زینت، ہار، پھول، مہندی، خوشبو وغیرہ کا استعمال کرنا۔ (16)
سوگ کی حالت میں جائز کام:(1)چار پائی پر سونا، بچھونا
بچھانا،سونے کیلئے ہو یا بیٹھنے کیلئے منع نہیں۔ (17) (2)غسل کرنا، صاف
ستھرا اور سادہ لباس پہننا(3)سر درد کی وجہ سے سر میں تیل کا استعمال کرنا(4) آنکھوں
میں درد کے سبب سرمہ لگانا۔(18)
نوٹ: عدت پوری ہونے پر عورت کا مسجد میں جانا یا مسجد کو دیکھنا،
کسی
رشتہ دار وغیرہ کے بلانے پر نکلنا، نفل ادا کرنا، صبح یا شام کسی مخصوص وقت عدت کو ختم کرنا یا اس دن گھر سے ضرور
نکلنا ان تمام باتوں کی شرعاً کوئی اصل نہیں۔ ہاں! ختمِ عدت پر اسی دن کسی
وجہ سے گھر سے نکلنے اور شکرانے کے نفل پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، مگر عدت کو ختم کرنے کیلئے یہ سب کام ضروری نہیں، نیز
شوہر کی قبر پر جانے کے بجائے گھر سے ہی فاتحہ پڑھ کر دعائے مغفرت کرے۔(19)
(یہ مضمون ماہنامہ خواتین
ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1] تفسیر رازی، 2/ 468 2 تفسیر صراط الجنان،1/359 3 تفسیر صراط الجنان،1/359 4فتاویٰ
رضویہ، 13/ 294ماخوذاً 5تفسیر
صراط الجنان،1/359 6جوہرہ نیرہ،الجزء الثانی، ص96 7بخاری، 3/ 16، حدیث:
3991 8فتاویٰ رضویہ،11/
266 9فتاویٰ رضویہ، 11/290
0بہارشریعت،
2/245ملتقطاً
A فتاویٰ رضویہ،13/328 B بہار
شریعت، 2/245 C در مختار،5/221 D درمختار،5/221
Eبخاری،
1/ 433، حدیث: 1282 Fفتاویٰ
رضویہ، 13/331ملخصاً Gفتاویٰ
رضویہ، 13/331 Hتجہیز و تکفین کا
طریقہ، ص211 Iتجہیز و تکفین کا
طریقہ،ص 212
صحیح
مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ سے مروی ہے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:صِنْفَانِ مِنْ اَهْلِ
النَّارِ لَمْ اَرَهُمَا، قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ
كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ،وَ نِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ
مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ،رُءُوْسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ،لَا
يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ،وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَاِنَّ رِيْحَهَا لَتُوْجَدُ مِنْ
مَسِيْرَةِ كَذَا وَكَذَا۔([1]) یعنی جہنمیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جن کو میں نے(اس
زمانے میں) نہیں دیکھا: (1)وہ لوگ جن
کے پاس گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے جن
سے وہ لوگوں کو(ناحق) ماریں گے۔ (2)وہ عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود برہنہ ہوں گی، مائل
کرنے والی اور مائل ہونے والی ہوں گی، ان کے سَر بختی اونٹوں کی کوہانوں کی طرح
ایک جانب جھکے ہوئے ہونگے، وہ جنت میں داخل ہوں گی نہ جنت کی خوشبو سونگھیں
گی،حالانکہ جنت کی خوشبو بہت دور سے آتی ہو گی۔
شرحِ حدیث
مذکورہ حدیثِ پاک میں جہنمی عورتوں کے تین اوصاف بیان
ہوئے ہیں، ان کی تفصیل یہ ہے:
(1)لباس پہننے کے باوجود برہنہ:اس حدیثِ
پاک میں عورتوں کے لباس پہننے سے مراد یا تو یہ ہے کہ وہ اللہ پاک کی نعمتوں سے
لطف اندوز ہوں گی، جبکہ بے لباس ہونے سے مراد ہے کہ وہ نعمتوں کا شکر ادا نہ کریں
گی یا پھر یہ مراد ہے کہ ظاہری طور پر تو لباس پہنیں گی مگر حقیقت میں بے لباس ہوں
گی، وہ اس طرح کہ ایسا باریک لباس پہنیں گی جس سے ان کا بدن جھلکے گا۔(2) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہحدیثِ مبارکہ کے ان
الفاظ کے تحت فرماتے ہیں: جسم کا کچھ حصہ لباس سے ڈھکیں گی اور کچھ حصہ ننگا رکھیں
گی یا اتنا باریک کپڑا پہنیں گی جس سے جسم ویسے ہی نظر آئے گا۔ یہ
دونوں عیوب آج دیکھے جا رہے ہیں یا اللہ پاک کی نعمتوں سے ڈھکی ہوں گی، شکر سے
ننگی یعنی خالی ہوں گی یا زیوروں سے
آراستہ(اور) تقویٰ سے ننگی ہوں گی۔(3)
لباس اللہ پاک کی نعمت ہے: لباس اللہ پاک کی عطا کردہ ایک
عظیم نعمت ہے قرآنِ پاک میں لباس کے دو اہم مقاصد مذکور ہیں: (1)سترِ عورت (2) زینت۔سترِ عورت
چھپانے کے قابل لباس پہننا فرض ہے اور لباسِ زینت پہننا مستحب ہے۔ (4) چنانچہ پارہ 8 سورۃ الاعراف کی 26 ویں آیت میں ارشاد ہوتا
ہے: يٰبَنِيْۤ
اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا
يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِيْشًا ١ؕ ترجمہ:اے آدم کی
اولاد! بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک لباس وہ
اتارا جو تمہاری شرم کی چیزیں چھپاتا ہے اور (ایک لباس وہ جو) زیب و زینت ہے۔
فیشن کے نام پر بےپردگی: ہونا تو یہ چاہئے کہ لباس اللہ پاک کی رضا کے مطابق پہنا جاتا
مگر افسوس! فی زمانہ دیگر بڑھتی ہوئی برائیوں کے ساتھ ساتھ لباس کے معاملے میں بھی
فیشن وغیرہ کے نام پر شرعی اَحکام کو پامال کیا جا رہا ہے۔ کبھی لباس ایسا ہوتا ہے
جو پورے بدن کو ڈھانپتا ہی نہیں مثلاً ہاف آستین یا بغیر آستین(sleeve less) والا کرتہ، ٹخنوں سے اونچا پاجامہ وغیرہ اور کبھی
اتنا باریک ہوتا ہے کہ جسم کی رنگت وغیرہ نظر آتی ہے جیسے باریک لان کے کپڑے،
باریک ململ یا جالی (Net) والا دوپٹہ
وغیرہ۔ یونہی کبھی لباس باریک تو نہیں
ہوتا لیکن اس قدر تنگ اور چست ہوتا ہے کہ اعضا کی ہیئت ظاہر ہوتی ہے جیسے چوڑی دار
پاجامہ، ٹائٹس (Tights)، پینٹ شرٹ
وغیرہ۔ باریک لباس پہن کر اپنے بدن کی نمائش کرنے والیوں پر حدیثِ مبارکہ میں لعنت
بھی کی گئی ہے۔(5) نیز باریک کپڑوں میں سے بدن چمکے يا سر کے بالوں يا گلے يا بازو یا کلائی یا
پیٹ یا پنڈلی کا کوئی حصہ کھلا ہو یوں کسی
نامحرم کے سامنے ہونا سخت حرامِ قطعی ہے۔(6)کیونکہ عورت کیلئے چہرے کی ٹکلی، دونوں ہتھیلیوں، دونوں
پاؤں کے تلووں کے علاوہ تمام بدن، بلکہ سر کے لٹکتے ہوئے بال، گردن اور کلائیاں چھپانا
بھی ضروری ہے۔(7) فی زمانہ خوفِ فتنہ کی وجہ سے نامحرم کے سامنے عورت کو اپنا چہرہ کھولنا
بھی منع ہے۔(8)
شرعی مسئلہ: یاد رہے! اتنا باریک کپڑا جس
سے بدن کی رنگت جھلکے یا اتنا باریک دوپٹہ جس سے بالوں کی سیاہی نظر آئے اسے پہن
کر نماز پڑھی تو نماز نہ ہو گی۔ ایسا کپڑا جس سے بدن کا رنگ تو نہ چمکتا ہو لیکن
وہ اتنا تنگ اور بدن سے چپکا ہوا ہوکہ دیکھنے سے عُضْو کی ہیئت معلوم ہوتی ہو، ایسے
کپڑے سے نماز تو ہو جائے گی مگر اس عضو کی طرف دوسروں کو نگاہ کرنا جائز نہیں اور
ایسا کپڑا لوگوں کے سامنے پہننا بھی منع ہے۔(9)
تفریح گاہوں،شادیوں وغیرہ پر ہماری حالت:فی زمانہ پردے
کی اہمیت ہی ذہنوں اور دلوں سے ختم ہو چکی ہے۔ بالخصوص تفریح گاہوں، شادیوں اور
دیگر فنکشنز کے موقع پر تو بے پردگی کے دلسوز مناظر خون کے آنسو رلاتے ہیں۔ حتی کہ
ان مواقع پر بظاہر پردہ دار کہلانے والی خواتین بھی پردے کی تمام تر حدود کو یہ
کہہ کر پامال کرتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ بھئی خوشی کے موقع پر تو سب چلتا ہے۔ حالانکہ
انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ سب نہیں چلتا بلکہ خوشی ہو یا غمی صرف اللہ پاک و رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا
حکم ہی چلتا ہے۔
یاد رکھئے! پردہ بلاشبہ مسلم عورت کی پہچان، ہر عورت کی
زینت اور عزت و عصمت کا محافظ ہی نہیں بلکہ اللہ پاک و رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
رضا حاصل کرنے کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ جبکہ بے پردگی، حیا سوز لباس پہننا اور اپنے
بدن کی نمائش کرنا اللہ پاک کی ناراضی اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، چنانچہ
ایسے کام کرنے والیوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کمزور اور نرم و نازک جسم
جس کی آج وہ نمائش کرتی پھرتی ہیں اللہ پاک کی ناراضی کی صورت میں یہ قبر میں
کیڑوں کی خوراک اور پھر جہنم کا ایندھن بنے گا۔
(2) مائل کرنے اور مائل ہونے سے مراد:یعنی دوپٹہ اپنے سر سے اور برقعہ اپنے منہ سے ہٹا دیں گی تاکہ ان کے چہرے ظاہر ہوں یا اپنی باتوں یا
گانے سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خود ان کی طرف مائل ہوں گی۔(10)
(3)ان کے سر بختی اونٹنیوں کی
کوہانوں کی طرح ہوں گے: مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ حدیثِ
مبارکہ کے اس حصے کے تحت فرماتے ہیں:اس جملہ مبارکہ کی بہت تفسیریں ہیں۔ بہتر
تفسیر یہ ہے کہ وہ عورتیں راہ چلتے شرم سے سر نیچا نہ کریں گی بلکہ بےحیائی سے
اونچی گردن کیے،سر اٹھائے ہر طرف دیکھتی، لوگوں کو گُھورتی چلیں گی جیسے اونٹ کے
تمام جسم میں کوہان اونچی ہوتی ہے ایسے ہی ان کے سر اونچے رہا کریں گے۔(11)
الغرض ہمیں مغربی تہذیب کو نہیں بلکہ صحابیات و صالحات کو
اپنا رول ماڈل بنانا ہے۔ ہمیں ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اور سیدہ خاتونِ جنت
فاطمۃ الزہرا رضی اللہُ عنہا کے نقشِ قدم پر چلنا ہے۔ خاتونِ جنت رضی اللہُ عنہا
کی شان تو یہ تھی کہ بعد از وصال کفن میں ڈھکے ہوئے مبارک بدن پر بھی کسی نامحرم
کی نظر پڑنا گوارا نہ تھا۔ اے اللہ پاک!
خاتونِ جنت رضی اللہُ عنہا کی شرم و حیا
کا صدقہ ہمیں بھی شرم و حیا کی دولت عطا فرما۔
اٰمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نہ
دیکھ رشک سے تہذیب کی نمائش کو |
کہ سارے پھول یہ کاغذ کے ہیں خدا کی قسم! |
وہی
ہے راہ ترے عزم و شوق کی منزل |
جہاں
ہیں عائشہ و فاطمہ کے نقشِ قدم |
تری
حیات ہے کردارِ رابعہ بصری |
ترے
فسانے کا موضوع ہے عصمتِ مریم |
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1]مسلم،ص 1171، حدیث: 7194 ملخصاً 2جہنم میں لے جانے والے اعمال، 1/ 505 3مراۃ المناجیح، 5/255 4تفسیر صراط الجنان،3/289 5صحیح ابن حبان،7/502،حدیث:5723ماخوذاً 6فتاویٰ رضویہ، 22/217 7درمختار،2/ 95 8در مختار،2/97 9بہارشریعت،حصہ:1،3/480ملخصاً 0تفسیر صراط الجنان،8 / 22 A مراۃ المناجیح،5/ 256
جن باتوں کے ماننے سے بندہ
اسلام میں داخل ہوتا ہے ان میں سے ایک وقوعِ قیامت کو ماننا بھی ہے، یعنی بندہ اس
بات پر ایمان رکھے کہ اللہ پاک کے حکم سے قیامت ضرور اپنے وقت پر قائم ہو گی ، جب
انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو گا اور اسے اس کے اچھے یا برے کاموں کا صلہ ملے
گا، اسی یوم الحساب کو مذہبِ اسلام میں قیامت کہتے ہیں۔ ([1])قرآنِ کریم میں لفظ قیامت 70 بار آیا ہے، قیامت کے ناموں کی تعداد کسی نے 100 اور کسی نے اس سے بھی زائد بتائی ہے۔
قرآنِ کریم میں بھی قیامت کے کئی نام مذکور ہیں، بلکہ 13 سورتوں کا نام قیامت یا قیامت کی
ہولناکیوں کے نام پر آیا ہے:
الدخان |
الواقعہ |
الحشر |
التغابن |
الحاقہ |
القیامہ |
النباء |
التکویر |
الانفطار |
الانشقاق |
الغاشیہ |
الزلزلہ |
القارعہ |
|
|
قیامت سے 40
سال پہلے تمام مسلمانوں کی وفات ہو جائے گی وہ یوں کہ مسلمانوں کی بغلوں کے نیچے
سے خوشبو دار ہوا گزرے گی جس سے تمام مسلمان فوت ہو جائیں گے۔(2) اس کے
بعد 40 سال کا زمانہ ایسا گزرے گا کہ اس میں کسی کی اولاد ہو گی نہ کوئی 40 سال سے
کم عمر کا ہو گا، اس وقت دنیا میں کافر ہی کافر ہوں گے۔(3) انہی پر
قیامت قائم ہو گی، وہ یوں کہ جب پہلی بار صور پھونکا جائے گا تو قیامت قائم ہو جائے
گی۔ اسی بات کا ذکر پارہ 23، سورۂ یٰسٓ کی 49 نمبر آیت میں یوں ہے:مَا
يَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً تَاْخُذُهُمْ وَ هُمْ يَخِصِّمُوْنَ0ترجمۂ کنز العرفان:وہ صرف ایک چیخ کا
انتظار کررہے ہیں جو انہیں اس حالت میں پکڑ لے گی جب وہ دنیا کے جھگڑوں میں پھنسے
ہوئے ہوں گے۔اس کے بعد دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو سب دوبارہ زندہ ہوکر اپنے
رب کی طرف چل پڑیں گے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:وَ
نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ
يَنْسِلُوْنَ0(پ23،یٰسٓ:51)ترجمۂ
کنز العرفان: اور
صور میں پھونک ماری جائے گی تواسی وقت وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف دوڑتے چلے جائیں گے۔
وقوع
قیامت کے منکر کا حکم:بے شک
قیامت قائم ہو گی، اس کا انکار کرنے والا کافر ہے۔(4) علامہ قاضی عیاض
مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ کی مشہور و معروف کتاب شفاء شریف میں
ہے: جس نے قیامت کا انکار کیا وہ کافر ہے کیونکہ اس پر نص موجود ہے اور اس وجہ سے
کہ قیامت کے حق ہونےکی خبر تواتر کے ساتھ منقول ہونے پر اُمّت کا اجماع ہے۔(5)
قیامت
کی قسمیں:قِیامَت کی تین قسمیں ہیں: پہلی قیامت صغریٰ: یہ موت ہے۔ مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗجو مَر
گیا اس کی قیامت قائم ہو گئی۔ دوسری قیامت وسطیٰ:وہ یہ کہ ایک قرن(یعنی ایک
زمانہ) کے تمام لوگ فنا ہو
جائیں اور دوسرے قرن کے نئے لوگ پیدا ہو جائیں۔ تیسری قیامت کبریٰ: وہ یہ کہ
آسمان و زمین سب فناہوجائیں گے۔(6)
قیامت کب قائم ہوگی؟ وقوعِ
قیامت کے متعلق اتنا تو سب جانتے ہیں کہ 10 محرم الحرام کو جمعہ کے دن قائم ہو گی،
مگر کس سال قائم ہو گی؟ اسے اللہ جانتا ہے اور اسکے بتائے سے اسکے رسول۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے:عٰلِمُ
الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖۤ اَحَدًاۙ0
اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ(پ29،الجن:26، 27) ترجمہ
کنز الایمان: غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب
پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔
وقوعِ
قیامت کا درست وقت نہ بتانے میں حکمت: اس
کا درست وقت نہ بتانے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ یہ جان کر کہ ابھی تو بہت وقت ہے ، لوگ نیک
اعمال بجا لانے میں سستی کا مظاہرہ کریں گے۔
منکرینِ
قیامت :یاد رہے! دنیا میں بعض لوگ ایسے ہیں جو
رب کو مانتے ہیں نہ قیامت کو اور نہ کسی اور ضرورت دینی کو۔ بعض اس بات کو تو تسلیم
کرتے ہیں کہ خدا ہے اور دنیا ایک دن فنا ہو جائے گی ، مگر قیامت کو نہیں مانتے،
حالانکہ ہر عقل مند شخص جانتا ہے کہ جب رب کو مان لیا تو پھر قیامت کا انکار کرنا گویا
کہ اس کی قدرت و حکمت کو جھٹلانا ہے۔ بعض یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قیامت حق ہے تو نظر کیوں نہیں آتی؟ تو اس کا جواب یہ
ہے کہ جب ہم اس دنیا کا مکمل مشاہدہ نہیں کر سکتے جو کہ آسانی سے نظر آ رہی ہے تو
اس دنیا میں رہ کر اس عالم قیامت کو کیسے دیکھ سکتے ہیں جس کا تعلق غیب سے ہے یعنی ان
مشاہدات کے لئے جس لطافت کی ضرورت ہے وہ ہر انسان کو میسر نہیں لیکن جسے
اللہ چاہے وہ غیبی حقیقتوں کا مشاہدہ
کرلیتے ہیں۔(7) حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے
مکی دور میں کفار سب سے زیادہ وقوعِ قیامت کا ہی انکار کرنے والے تھے، چنانچہ اس
وقت سب سے زیادہ آیات ایسی نازل ہوئیں جن میں قیامت کا حق و سچ ہونا ہی مذکور ہے۔ ذیل میں وقوعِ قیامت پر چند نقلی و
عقلی دلائل مختصراً ذکر کئے جا رہے ہیں :
وقوعِ
قیامت پر نقلی دلائل: سورہ
حج کی ابتدائی آیات میں اللہ پاک نے جہاں تخلیق انسانی کے مراحل کو بیان فرمایا
وہاں یہ بھی ذکر فرمایا کہ اللہ پاک مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد مارنے اور پھر
دوبارہ اٹھانے پر بھی قادر ہے،نیز فرمایا: اَنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ
لَّا رَيْبَ فِيْهَا١ۙ (پ17،الحج:7)ترجمۂ
کنز العرفان:یہ کہ قیامت آنے والی ہے اس میں کچھ شک نہیں۔ایک مقام پر ہے:
لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ١ؕ (پ5،النساء:87)ترجمہ کنز العرفان: وہ
ضرور تمہیں قیامت کے دن اکٹھا کرے گا جس میں کوئی شک نہیں۔
وقوعِ
قیامت پر عقلی دلائل :
نظامِ دنیا ہے کہ جب کوئی محنت و مشقت کرتا ہے تو اپنے کام کی جزا پاتا ہے اور جو اپنے مالک کی یا اپنے ملکی قوانین
کی نافرمانی و خلاف ورزی کرتا ہے تو سزاوار
ٹھہرتا ہے، لہٰذا قیامت کا
قیام بھی ضروری ہے تاکہ اچھوں کو ان کے کاموں کی جزا ملے اور بروں کو ان کے کئے کی
سزا۔
بسا اوقات یوں
ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ دنیا میں ظلم سہتے رہتے ہیں، انہیں زندگی میں راحت کم ملتی ہے اور بہت سے ایسے ہیں جو ظلم
کرتے ہیں لیکن دنیا میں انہیں سزا نہیں ملتی اور ظالم کا بغیر سزا کے رہ جانا اور
مظلوم کا بغیر جزا کے رہ جانا اللہ پاک کی مصلحت کے خلاف ہے اور عقل کے بھی خلاف
ہے، نیزجزا و سزا کے معاملہ سے پہلے ضروری ہے کہ اس جہان کو مکمل ختم کیا جائے
کیونکہ یہ جہان دار العمل ہے، اس لئے ایک اور جہان ہو جو صرف دار الجزا ہو اور
وہاں جزا و سزا کا معاملہ ہو اور وہی قیامت ہے۔
اسی طرح اگرغور کریں تو معلوم ہوگا کہ انسان دنیا میں اچانک نہیں آیا بلکہ اس سے قبل کئی عالموں
میں رہ چکا ہے مثلاً عالمِ ارواح پھر شکمِ مادر پھر عالمِ دنیا جب یہ چیزیں عقل کے
دائرے میں آتی ہیں تو اب اگر چوتھا عالَم یعنی عالمِ قیامت بھی مان لیا جائے تو ا س میں کیا عقلی قباحت
ہے؟ (8)
انکارِ
قیامت کے نقصانات:منکر
قیامت فطرت سے باغی ہو جاتا ہے، وہ اچھے اخلاق سے محروم ہو جاتا ہے۔ مالک کائنات
کی قدرت، حکمت اور مصلحت سے فرار اختیار کرتا ہے، نفسانی خواہشات میں مبالغہ کرتا
ہے، کفر و ضلالت، اور سرکشی پر اتر آتا ہے، بے باک ہو جاتا ہے، اعمال حسنہ سے بیزار
ہو جاتا ہے، شیطان اور نفس کا غلام بن جاتا ہے۔
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1]عقیدۂ
آخرت، ص 4 2مسلم،ص1201،حدیث:7373 3بہار شریعت، حصہ: 1 ، 1/127 4 بہار شریعت، حصہ: 1 ، 1/129 5شفاءشریف،2/290
6ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص386 7عقیدۂ
آخرت، ص 36 ملخصاً 8عقیدۂ
آخرت، ص 5 ملخصاً
ہر ماہ کسی نبی کی بشارت: حضرت آمنہ رضی اللہُ عنہا جب امید سے ہوئیں تو پہلے ماہ حضرت
آدم تشریف لائے اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کے متعلق خبر دی۔دوسرے ماہ حضرت ادریس علیہ السّلام تشریف
لائے اور حضور کے فضل و کرم اور شرف عالی کی خبر دی۔تیسرے ماہ حضرت نوح علیہ السّلام تشریف
لائے اور بتایا کہ آپ کا نورِ نظر فتح و نصرت کا مالک ہے۔ چوتھے مہینے حضرت ابراہیم
علیہ السّلام نے
تشریف لا کر حضور کے قدر و شرف کے متعلق آگاہ فرمایا۔ پانچویں مہینے حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے آ
کر آپ کو بتایا کہ جس ہستی کی آپ ماں بننے والی ہیں وہ صاحب مکارم و عزت ہے۔ چھٹے
مہینے حضرت موسی علیہ السّلام نے
تشریف لا کر حضور کی قدر و جاہ عظیم کے متعلق آپ کو بتایا۔ ساتویں مہینے حضرت داود
علیہ السّلام نے
آکر بتایا کہ آپ جس ہستی کی ماں بننے والی ہیں وہ مقامِ محمود، حوضِ کوثر ، لواءُ
الحمد، شفاعتِ عظمیٰ اور روزِ ازل کا مالک ہے۔آٹھویں مہینے حضرت سلیمان علیہ السّلام نے
آکر بتایا کہ آپ کو نبی آخر الزمان کی ماں بننے کا شرف ملنے والا ہے۔ پھر نویں مہینے
حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے
تشریف لا کر خبر دی کہ آپ کے نورِ نظر قول راست اور دین راجح کے مالک ہیں ۔ الغرض ہر
ایک نبی نے انہیں فرمایا: اے آمنہ! آپ کو بشارت ہو کہ آپ دنیا و آخرت کے سردار کی ماں بننے والی ہیں، لہٰذا جب وہ پیدا ہوں تو ان کا نام محمد رکھئے گا۔([1])
ولادت کا ماہ و دن:مشہور یہ ہے کہ حضور کی ولادت باسعادت 12ربیع
الاول شریف کو پیر کے دن ہوئی، نیز یہ کہ ولادت باسعادت کا مہینا ربیع الاول ہی
تھا، محرم، رجب، رمضان یا کوئی دوسرا معزز و محترم ماہ نہ تھا کیونکہ حضور کے عزو
شرف کا تعلق کسی مہینے سے نہیں، بلکہ مقامات کی طرح زمانے کو بھی آپ سے
نسبت کی وجہ سے شرف حاصل ہوا۔ اگر آپ کی ولادت ان مہینوں میں سے کسی میں ہوتی تو یہ
وہم کیا جاتا کہ آپ کو فلاں مہینے کی وجہ سے شرف اور مرتبہ ملا ہے، اس لئے اللہ پاک
نے آپ کی ولادت ان مہینوں کے علاوہ رکھی تاکہ اس مہینے آپ کی عنایت اور آپ کے ذریعے
اس کی کرامت کا اظہار ہو۔ جب جمعۃ المبارک کا یہ عالم ہے کہ اس دن حضرت آدم علیہ السّلام کی
ولادت مبارکہ ہوئی اور اس میں ایک ایسی ساعت ہے جس میں کوئی مسلمان بندہ بھلائی
طلب کرے تو اللہ پاک اسے عطا کرتا ہے لہٰذا
اس وقت کے متعلق آپ کیا کہیں گے جس
میں تمام رسولوں کے سردار صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کی ولادت ہوئی۔ اللہ پاک نے اپنے محبوب
کی ولادت کے دن یعنی پیر کو وہ عبادات نہ رکھیں جو جمعہ کے دن رکھیں کہ جس میں
حضرت آدم پیدا ہوئے ، جس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے حضور کے احترام و اکرام کے
طور پر آپ کے وجود مسعود کی وجہ سے پیر کے دن آپ کی امت پر تخفیف رکھی، چونکہ آپ
کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا لہٰذا اس رحمت میں سے ایک بات یہ ہے کہ آپ کی
ولادت کے دن کسی خاص عبادت کا مکلف نہیں بنایا۔(2)
حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے کہ حضور پیر کے دن
پیدا ہوئے۔ پیر کو ہی آپ نے اعلانِ نبوت فرمایا، پیر کے دن آپ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ
طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی اور پیر کے دن ہی مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے، نیز حجر اسود
کو بھی پیر کے دن نصب فرمایا۔ اسی دن فتح مکہ کا واقعہ ہوا اور سورہ مائدہ کا نزول
بھی اسی دن ہوا۔(3)
یہ
بھی مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم کی ولادت پیر کے دن فجر کے وقت ہوئی۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں: مر الظہران کے مقام پر ایک شامی راہب کہا
کرتا تھا: اے اہل مکہ! عنقریب تم میں ایک بچہ پیدا ہو گا، اہل عرب اس کے دین کو
اختیار کریں گے
اور وہ عجم کا بھی مالک ہو گا۔ یہ اس (بچے کی پیدائش) کا زمانہ ہے۔ چنانچہ جب بھی
مکہ مکرمہ میں کوئی بچہ پیدا ہوتا اس کے متعلق پوچھتا۔ پھر جب حضور کی ولادت ہوئی
تو حضرت عبد المطلب اسی صبح راہب کے پاس گئے
تو وہ آپ سے کہنے لگا: (اے عبدالمطلب!) اس بچے کے باپ بن جائیے! یقیناً وہ بچہ جس
کے متعلق میں آپ سے بیان کرتا ہوں وہ پیر کے دن پیدا ہو گا، اسی دن اعلانِ نبوت
کرے گا اور اس کا وصال بھی اسی دن ہو گا۔ اس پر حضرت عبد المطلب نے جب اسے یہ
بتایا کہ آج پیر کے دن ہمارے ہاں بھی بچہ پیدا ہوا ہے تو اس نے پوچھا: آپ نے اس کا
نام کیا رکھا ہے؟ جب بتایا کہ اس کا نام محمد رکھا ہے تو بولا: اللہ کی قسم! میں جانتا
تھا کہ وہ بچہ آپ کے ہی گھرانے میں پیدا ہو گا، اس کی پہچان کی تین خصوصیات
پائی جا رہی ہیں: (1) اس کا ستارہ گزشتہ رات طلوع ہوا (2) وہ آج کے دن پیدا ہوا اور (3)اس کا نام محمد ہے۔(4)
شب قدر افضل ہے یا شب میلاد؟ بلاشبہ حضور کی ولادت کی رات شب
قدر سے افضل ہے اور اس کی تین وجوہ ہیں: (1) شبِ
میلاد حضور کے ظہور کی رات ہے جبکہ شب قدر حضور کو عطا کی گئی اور اس میں کوئی
اختلاف نہیں کہ جس شے کو کسی کی وجہ سے شرف حاصل ہو وہ اس ذات سے زیادہ شرف والی
نہیں ہو سکتی، لہٰذا اس اعتبار
سے میلاد شریف کی رات افضل ہے۔ (2) شب
قدر میں فرشتے اترتے ہیں جبکہ شب میلاد میں وہ ہستی جلوہ گر ہوئی جو فرشتوں سے بھی
افضل ہے۔ یہی زیادہ پسندیدہ قول ہے۔(3)شب
قدر میں صرف امت محمدیہ پر فضل خداوندی ہوتا ہے جبکہ شبِ میلاد تمام موجودات پر فضل
ہوا کہ اللہ پاک نے حضور کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا، اس طرح تمام
مخلوق کو نعمت حاصل ہوئی۔ لہٰذا اس
رات کا نفع عام ہوا اور یہ رات افضل قرار پائی۔(5)
شب ولادت کے واقعات
ستاروں کا جھکنا:حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہُ عنہ کی والدہ ماجدہ
فرماتی ہیں کہ میں حضور کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ ماجدہ بی بی آمنہ کے پاس
موجود تھی۔ میں دیکھ رہی تھی کہ ستارے جھکنے لگے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ
یہ مجھ پر آ گریں گے، جب حضور پیدا ہوئے تو حضرت آمنہ سے ایسا نور نکلا جس نے در و
دیوار کو جگمگا دیا اور مجھے ہر طرف نور ہی نور نظر آنے لگا۔(6)جبکہ
شواہد النبوۃ میں ہے کہ حضرت عثمان کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ حضور کے نور کے
سامنے چراغ کی روشنی بھی ماند تھی، میں نے اس رات 6 نشانیاں دیکھیں: (1)جب حضور پیدا ہوئے تو آپ نے پیدا ہوتے ہی
سب سے پہلے سجدہ کیا۔ (2)جب حضور نے
اپنا سرِ مبارک سجدہ سے اٹھایا تو نہایت فصاحت کے ساتھ فرمایا:لا الہ الا اللہ
انی رسول اللہ۔(3)حضور کی پیدائش پر تمام گھر روشن ہو گیا۔ (4)حضور پیدا ہوئے تو میں نے آپ کو نہلانا
چاہا لیکن ہاتف غیبی سے آواز آئی: اپنے آپ کو تکلیف میں نہ ڈالئے ہم نے آپ کو پاک
و صاف پیدا کیا ہے۔ (5)پھر جب میں نے
معلوم کرنا چاہا کہ لڑکی ہے یا لڑکا تو میں نے آپ کو ختنہ شدہ اور ناف کٹی ہوئی
دیکھی۔(6)پھر جب میں نے خیال کیا کہ آپ
کو کسی کپڑے میں لپیٹوں تو میں نے آپ کی پشت
پر مہرِ نبوت دیکھی اور آپ کے کندھے کے درمیان لا الہ الا اللہ محمد رسول
اللہ
لکھا ہوا دیکھا۔(7)
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1] رسائل میلاد مصطفیٰ، مولد
العروس اردو، ص 225 2 مواہب اللدنیہ ، 1/ 75 3 مواہب اللدنیہ ، 1/ 75 4 مواہب اللدنیہ ، 1/ 76 5 مواہب اللدنیہ ، 1/ 77 6دلائل
النبوۃ لابی نعیم، ص 76، حدیث: 76 7 شواہد
النبوۃ مترجم، ص 70
سابقہ
شمارے میں حضرت یوسف علیہ السّلام کی
سیرت اور چند معجزات ذکر کئے گئے تھے، اب آپ
کے ان ایمان افروز اور دلچسپ معجزات و عجائبات کو بیان کیا جا رہا ہے جو آپ کو کنویں میں اور اس کے بعد مصر تک
پہنچنے کے راستے میں اور پھر مصر میں پیش آئے۔ ان تمام باتوں کو امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب بحرالمحبۃ میں ترتیب وار ذکر کیا ہے، ذیل میں مذکور تمام معجزات و عجائبات اور آپ
علیہ السّلام سے
متعلق مزید مفید معلومات امام غزالی کی مذکورہ کتاب سے ہی لئے گئے ہیں:
کنویں میں تنہائی کے ساتھی: جب حضرت یوسف علیہ السّلام کے
بھائیوں نے آپ کو کنویں میں ڈالا تو اللہ پاک نے آپ کی حفاظت کے لئے اور کنویں میں
تنہائی و وحشت دور کرنے کے لئے آپ کے پاس
جنت سے غلام بھیج دیئے ۔([1])
50 سال بعد آخر خواب پورا ہوا: حضرت
یوسف علیہ السّلام کو ان
کے بھائیوں سے مالک بن زعر نامی مصری شخص
نے خریدا تھا، اس نے بچپن میں خواب دیکھا تھا کہ کنعان کی سر زمین پر سورج آسمان
سے اتر کر اس کی آستین میں داخل ہوا، پھر نکل کر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا، اس کے بعد ایک سفید بادل سے اس پر موتی
برسے جنہیں چن کر اس نے اپنے صندوق میں بھر لیا۔ اس خواب کی تعبیر اسے یہ بتائی
گئی کہ اسے ایک غلام ملے گا، جو حقیقت میں غلام نہ ہو گا، اس کی برکت سے وہ اتنا دولت
مند ہو جائے گا کہ اس کے اثرات قیامت تک اس کی اولاد میں باقی رہیں گے، اس کی دعا کی برکت سے وہ جہنم سے نجات کا اور جنت
کا حق دار ٹھہرے گا، اس کی اولاد کثیر ہو گی اور ہمیشہ اس کا نام و ذکر باقی رہے
گا۔ چنانچہ وہ فوراً کنعان پہنچا کہ کسی طرح
وہ غلا م مل جائے، مگر ہاتف غیب سے آواز آئی اتنی جلدی نہ کر! ابھی اس ملاقات
میں 50 سال باقی ہیں۔ پھر بھی وہ ہر سال
اس علاقے میں دو بار جاتا۔ جب 50 سال پورے ہوئے تو اس نے اپنے بشریٰ نامی غلام سے
کہا: اگر اس بار تجھے وہ غلام مل گیا کہ جس کی تلاش میں میں اتنے عرصے سے بھٹک رہا
ہوں تو تجھے اپنا نصف مال ہی نہیں دوں گا بلکہ تو میری جس بیٹی سے چاہے گا اس سے
تیری شادی بھی کروا دوں گا۔ چنانچہ
جب
وہ دمشق سے کنعان پہنچا، تو دور سے ہی کیا دیکھتا ہے کہ پرندے (راستے میں موجود ایک
ویران اور خشک) کنویں کا طواف کر رہے ہیں، حقیقت میں وہ فرشتے تھے جنہیں اللہ پاک نے
بھیجا تھا۔ مالک نے قافلہ والوں سے کہا: اس
خشک کنویں کی طرف چلو! ہو سکتا ہے اس سے پانی نکل آیا ہو۔ جب وہ کنویں کے قریب
پہنچا اور اس کی سواریوں کے جانور یعنی گدھوں اور اونٹوں نے حضرت یوسف علیہ السلام
کی خوشبو سونگھی تو وہ اپنی پیٹھ کا بوجھ پھینک کر کنویں کی طرف دوڑنے لگے۔ مالک
نے قافلے کو مناسب مقام پر ٹھہرا کر اپنے غلام بشریٰ اور خادم مامل کو ایک ڈول دے
کر پانی لانے کے لئے کنویں کی طرف بھیجا۔ (2)
بے مثل حسن کا خریدار کون ہو سکتا ہے؟ادھر حضرت
جبریل علیہ السّلام نے
حاضر خدمت ہو کر حضرت یوسف علیہ السّلام سے عرض کی: چلئے! پوچھا: کہاں؟
عرض کی: آپ کو یاد ہے کہ ایک دن آپ نے شیشے میں اپنا حسن و جمال دیکھا تو دل میں کیا
کہا تھا؟ ارشاد فرمایا: ہاں! میں نے یہ کہا تھا کہ اگر میں غلام ہوتا تو کوئی بھی
میری قیمت ادا نہ کر پاتا۔ عرض کی: آج وہی دن ہے، چلئے اپنی قیمت دیکھ لیجئے۔ جب
آپ ڈول میں بیٹھ کر باہر آئے تو مامل خادم پکار اٹھا: اے بشریٰ! یہ تو وہی غلام ہے
جسے ہم 50 سال سے تلاش کر رہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے فوراً آپ کو قافلے میں چھپا
دیا۔ (3)
حضرت یوسف کے بھائیوں اور امیر قافلہ کے درمیان مکالمہ: صبح
کے وقت آپ کے بھائی آپ کو دیکھنے کے لئے آئے تو کنویں میں نہ پا کر قافلے والوں کو
گھیر لیا اور ان سے کہنے لگے کہ ہمارا ایک غلام بھاگ گیا ہے، ہمیں معلوم ہوا ہے کہ
وہ اس کنویں میں چھپا ہوا تھا اور تم لوگوں نے اسے نکال لیا ہے، ہمیں بتاؤ! تم نے
اس کے ساتھ کیا کیا ہے؟ اسے ہمارے سامنے لاؤ! ورنہ ہماری ایک پکار پر تمہاری روحیں
تمہارے جسموں سے جدا ہو جائیں گی۔ حضرت یوسف علیہ السّلام بھی ان کی
باتیں سن رہے تھے، چنانچہ انہوں نے قافلے والوں سے فرمایا کہ انہیں ان کے سامنے
جانے دیا جائے، جب آپ کے ایک بھائی نے آپ کو دیکھا تو وہ آپ کے پاس آ کر کہنے لگا:
اگر آپ نے غلامی کا اقرار کر لیا تو محفوظ رہیں گے ورنہ ہم آپ کو واقعی قتل کر دیں
گے۔ تو آپ نے قافلے والوں سے فرمایا: یہ لوگ سچ کہہ رہے ہیں، یہی میرے گھر والے
ہیں اور میں واقعی غلام ہوں۔ پھر جب امیر
قافلہ مالک نے آپ سے یہ پوچھا کہ اس ویران کنویں
اور اپنے بھائیوں سے آپ کیسے محفوظ رہے؟ارشاد فرمایا:لا الہ الا اللہ محمد رسول
اللہ
کی برکت سے۔امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ عبرانی زبان
میں اللہ پاک کی کتاب تورات میں یونہی لکھے ہوئے تھے۔ (4)
بے مثل حسن کی بے مول قیمت: بہرحال
ابھی تک مالک کو چونکہ حضرت یوسف علیہ السّلام کے غلام ہونے پر یقین نہ آیا تھا، اس لئے اس نے ایک بار پھر آپ سے
پوچھا :آپ حقیقت میں کون ہیں؟ ارشاد فرمایا: میں غلام ہیں ۔ مگر اس بار یہ کہتے
ہوئے اشارے سے یہ اظہار بھی کر دیا کہ میں
ان کا نہیں بلکہ اللہ کا بندہ ہوں۔ مالک بن زعر چونکہ ہر قیمت پر آپ کو اپنے پاس
رکھنا چاہتا تھا لہٰذا اس نے
آپ کے بھائیوں سے کہا: اپنے اس غلام کو کتنے میں بیچو گے؟ بولے: اگر تم اس کے
عیبوں کے باوجود اسے خریدنا چاہتے ہو تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ مالک نے فوراً رضا
مندی کا اظہار کر دیا۔ حضرت یوسف علیہ السّلام یہ سب دیکھ رہے تھے اور سوچ
رہے تھے کہ ان کے بھائی کثیر مال و دولت مانگیں گے، مگر آپ کے بھائیوں نے مالک بن
زعر کے پیش کردہ کثیر درہم و دینار میں سے صرف مٹھی بھر ہی لئے۔ چنانچہ ان کی حسب
منشا انہیں رقم ادا کرنے کے بعد مالک بولا کہ کوئی ایسی تحریر بھی لکھ دو کہ یہ
تمہارا غلام تھا اور تم نے اسے مجھے بیچ دیا
ہے۔ لہٰذا انہوں نے یہ سب بھی لکھ دیا۔(5)
بھائیوں سے الوداعی ملاقات: جب حضرت یوسف علیہ السّلام اپنی
آبائی سرزمین سے کوچ کرنے لگے تو انہوں نے مالک سے فرمایا: مجھے تھوڑی دیر کی اجازت درکار ہے تا کہ میں اپنے مالکوں
کو الوداع کہہ سکوں، ہو سکتا ہے اب میں کبھی لوٹ کر واپس نہ آ سکوں اور آج کے بعد
کبھی ان سے مل نہ سکوں۔ اس پر مالک بولا: تم کیسے غلام ہو! انہوں نے تمہارے ساتھ
جو سلوک کیا ہے، اب بھی تم ایسا چاہتے ہو؟ ارشاد فرمایا: ہر فرد کا فعل اس کے ظرف
کے مطابق ہوتا ہے۔ بہرحال اجازت ملنے پر جب بھائیوں کے پاس گئے تو فرمایا: تم نے
مجھ سے اگرچہ شفقت بھرا سلوک نہیں کیا مگر میری دعا ہے کہ اللہ پاک تم سب پر رحم
فرمائے، اسی طرح تم سب نے تو مجھے مقام
ذلت پر پیش کر دیا ہے مگر میری دعا ہے کہ اللہ پاک تمہیں عزتیں عطا فرمائے، تم نے
بھلے مجھے بیچ دیا ہے مگر میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیشہ تمہاری حفاظت فرمائے، اسی
طرح تم نے بھلے مجھے بے یار و مددگار بنا دیا ہے مگر میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیشہ
تمہاری مدد و نصرت فرمائے۔ اس کے بعد آپ رونے لگے اور آپ کے تمام بھائی بھی رونے
لگے اور بولے: ہم اپنے فعل پر شرمندہ ہیں، مگر ہم آپ کو واپس نہیں لے جا سکتے۔(6)
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
(33)
طائرانِ قُدُس جس کی ہیں قمرِیَّاں
اس سہی سَرْو قامت پہ لاکھوں سلام
مشکل الفاظ کے معانی: قُمریاں:فاختہ کی طرح خوش
الحان پرندے۔سہی:سیدھا۔سرو:ایک درخت جو سیدھا اور گاجر کی شکل کا
ہوتا ہے۔ قامت: قد۔
مفہومِ شعر:معصوم فرشتے قُمریوں کی طرح حضور کی شان بیان کرتےاور درود بھیجتے ہیں اس قد و قامت والے پہ
لاکھوں سلام۔
شرح:طائرانِ قدس جس کی ہیں قمریاں:قرآنِ پاک میں
ارشاد ہوتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى
النَّبِيِّ١ؕ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا
تَسْلِيْمًا0(پ22،الاحزاب:56)ترجمہ:
بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو!ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔
امام
سخاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:درود شریف کی آیت
مدنی ہے اور ا س کا مقصد یہ ہے کہ اللہ پاک اپنے بندوں کو اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی وہ
قدر و منزلت بتا رہا ہے جو ملأِ اعلیٰ(یعنی فرشتوں)میں اس کے حضور ہے کہ وہ
مُقَرّب فرشتوں میں اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ثنا بیان
فرماتا ہے اور یہ کہ فرشتے آپ پر صلاۃ بھیجتے ہیں، پھر عالَمِ سِفلی کو حکم دیا کہ
وہ بھی آپ پر صلاۃ و سلام بھیجیں تاکہ نیچے
والی اور اوپر والی ساری مخلوق کی ثنا آپ پر جمع ہو جائے۔([1])
سہی سرو قامت:حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:حضورِ
انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نہ بہت زیادہ لمبے تھے نہ پستہ قد، بلکہ آپ درمیانی
قد والے تھے اور آپ کا مقدس بدن انتہائی خوبصورت تھا، جب آپ چلتے تو کچھ خمیدہ ہو
کر چلتے تھے۔(2) جبکہ حضرت علی
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم جب چل رہے ہوتے تو ایسے
معلوم ہوتا گویا کہ آپ کسی بلندی سے اتر رہے ہیں، میں نے آپ کا مثل نہ آپ سے پہلے
دیکھا نہ آپ کے بعد۔(3)
الغرض
سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضور میانہ قد تھے لیکن یہ آپ کی معجزانہ شان ہے کہ
اگر آپ ہزاروں انسانوں کے مجمع میں کھڑے ہوتے تو آپ کا سرِ مبارک سب سے اونچا نظر
آتا تھا۔(4) اعلیٰ حضرت نے ایک مقام پر قدِ مصطفٰے کی شان و عظمت کو
یوں بھی بیان فرمایا ہے:
قدِ بے سایہ کے سایۂ مرحمت ظلِّ ممدودِ رأفت پہ لاکھوں
سلام
(34)
وصف جس کا ہے آئینۂ حق نما
اس خدا ساز طلعت پہ لاکھوں سلام
مشکل الفاظ کے معانی:وصف: خوبی۔ حق
نما: اللہ پاک کی راہ دکھانے والا۔ خدا ساز:خدا کی پہچان کرانے والا۔ طلعت:
چہرہ
مفہومِ شعر:جو چہرہ مبارک حق کودیکھنے کا آئینہ ہے، خدا کی
پہچان کرانے والے اس چہرے کی نورانیت پہ لاکھوں سلام۔
شرح:حدیثِ
پاک میں ہے:مَنْ رَآنِی فَقَدْ رَأَى الْحَقّ یعنی جس نے
مجھے دیکھا یقیناً اُس نے حق کو دیکھا۔(5) بعض لوگ اس حدیث کے معنی یہ
کرتے ہیں کہ یہاں حق سے مراد ربِّ کریم کی ذات ہے اور معنی یہ ہیں کہ جس نے مجھے
دیکھا اس نے خدا کو دیکھ لیا کیونکہ حضور انور آئینہ ِذاتِ کبریا ہیں جیسے کہا
جائے:جس نے قرآن ِمجید پڑھا اس نے ربِّ کریم سے کلام کر لیا یا جس نے بخاری دیکھی
اس نے امام محمد بن اسماعیل کو دیکھ لیا۔اگرچہ بعض لوگ اس معنی کی تردید
کرتے ہیں لیکن ہم نے جو توجیہ عرض کی اس توجیہ سے یہ معنی درست ہیں۔ قرآنِ کریم نے
حضورکو ذکرُ اللہ فرمایا،کیونکہ حضور (صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم)کو دیکھ کر خدا یاد آتا ہے۔(6)یہی قول شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃُ
اللہِ علیہ
کا بھی ہے کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا روئے منور ربِّ کریم کے جمال کا
آئینہ ہے اور اللہ پاک کے انوار و تجلیات کا اس قدر مظہر ہے کہ اس کی کوئی حد
نہیں۔(7)
خدا ساز طلعت:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایامِ وصال میں یارِ با وفا حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ کی امامت میں نماز ادا کر رہے تھے، اچانک آقائے کائنات صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے اپنے حجرۂ مبارک کا پردہ اُٹھایا اور اپنے غلاموں کی طرف دیکھا تو
ہمیں یوں محسوس ہوا: كَأَنَّ وَجْهَهُ وَرَقَةُ مُصْحَفٍ گویا حضور
صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا چہرۂ انور قرآن کا ورق ہے۔ (8)
(35)
جس کے آگے سرِ سَروَراں خَم رہے
اس سرِ تاجِ رِفعت پہ لاکھوں سلام
مشکل الفاظ کے معانی:سرِ سَروَراں:بادشاہوں
کے سر۔
مفہومِ شعر:اس سرِ مبارک کی بلندی اور مرتبے پہ لاکھوں سلام جس
کے آگے بادشاہوں کے سر جھک گئے۔
شرح:سر تاجِ رفعت:یعنی حضور
صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سرِ اقدس کی یہ شان ہے کہ بڑے بڑے باشاہوں اور تاجوروں
کے سر آپ کے آگ جھک گئے اور اللہ
پاک نے آپ کے سر ِاقدس پر نعمت و برتری کا
ایسا تاج سجایا کہ تمام بلندیاں اور رفعتیں
وہاں سے خیرات پا رہی ہیں۔
(36)
وہ کرم کی گھٹا گیسوئے مشک سا
لَکَّۂ ابرِ رَحمت پہ لاکھوں سلام
مشکل الفاظ کے معانی:کرم:
رحمت۔گیسو: بال مبارک۔مشک سا: کستوری کی مثل۔لکہ: ٹکڑا۔ابر:
بادل۔
مفہومِ شعر:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زلفیں کرم کی
گھٹا جیسی ہیں جن سے مشک کی خوشبو مہکتی ہے،ابرِ رحمت کے اس ٹکڑے پہ لاکھوں سلام۔
شرح:صحیح
بخاری شریف میں ہے: اُمُّ المومنین حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس حضور نبیِّ
کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا بال مبارک تھا جسے آپ نے چاندی کی ڈبیہ میں
رکھا ہوا تھا، مدینہ منورہ میں جب کوئی بیمار ہو جاتا تو آپ بال مبارک کو پانی میں
بھگو دیتیں اور پھر وہ مبارک پانی مریض کو پلایا جاتا تو وہ شفا پا جاتا تھا(9)۔(10)
جب
نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم حلق کراتے (یعنی بال مبارک اُترواتے) تو
صحابہ کرام علیہم الرضوان بال حاصل کرنے کے لئے دیوانہ وار گھومتے تھے۔صحابہ کرام
علیہم الرضوان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ حضور نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
کے بال مبارک عذابِ قبر سے حفاظت کا نسخہ ہیں۔جیسا کہ کاتبِ وحی جلیل القدر صحابیِ رسول حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس حضور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم کے بال مبارک موجود تھے اور آپ نے وصیت فرمائی کہ ان بالوں کو
میرے ساتھ میری قبر میں رکھ دیا جائے۔(11)
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1]القول
البدیع،ص85 2شمائل محمدیہ،ص16،حدیث:2 3شمائل محمدیہ، ص19،حدیث:5 4سیرتِ مصطفے،ص566 5بخاری،4/407،حدیث: 6996 6مراۃ
المناجیح،6/286ملتقطاً 7مدارج
النبوۃ،1/3 8بخاری،1/243،حديث:680 9بخاری،4/76،حدیث:5896ماخوذاً 0عمدۃ القاری،15/94،تحت الحدیث: 5896ملخصاً Aتاریخِ ابن عساکر،59 /229ملخصاً
معاشرے
میں عموماً گھر کے مرد باہر کام کاج کرتے ہیں اور رزق حلال کما کر گھر کا نظام چلاتے ہیں اور گھر والوں کی ضروریات
پوری کرتے ہیں اور یہ ان کی ذمہ داری بھی ہے لیکن بعض اوقات گھر کی خواتین کو بھی جاب کرنی پڑ جاتی ہے اور گھر کا نظام چلانا
پڑتا ہے، اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں: ان کے گھر کوئی مرد نہ ہو یا مرد ہو لیکن مہنگائی کی وجہ سے اس کی تنخواہ
سے گھر کے تمام افراد کا گزر بسر نہ ہوتا ہویا مرد کسی بیماری کی وجہ سے کام نہ کر
سکتا ہو یا اس طرح کی اور کچھ وجوہات ہو سکتی ہیں جن کی بنا پر خواتین کو نوکری
کرنی پڑتی ہے، اس میں بعض خواتین مجبوری کی وجہ سے کرتی ہیں اور بعض شوقیہ ایسا
کرتی ہیں، بہر حال اگر ضرورت نہ ہو یا گھر والوں کی اجازت نہ ہو یا بیوی کو شوہر
کی طرف سے اجازت نہ ہو تو نوکری نہ کرے،
نیز بلاوجہ بھی نوکری نہیں کرنی چاہیے، بلکہ گھر داری سیکھے، سلائی کڑھائی سیکھ
لے، اسلامی تعلیمات سیکھے تاکہ اس کو ساری زندگی یہ چیزیں کام آئیں اور اچھے انداز
میں اپنے گھر کی ذمہ داریاں پوری کر سکے اور اگر اجازت کی رکاوٹ نہیں ہے تو خاتون
کا نوکری کرنا بعض شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ جیسا کہ امیرِ اہل سنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ سے جب
اسی حوالے سے سوال کیا گیا کہ کیا عورت ملازمت کر سکتی ہے تو آپ نے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کے حوالے سے اجازت کی یہ 5 شرطیں ذکر فرمائیں: (1)
کپڑے باریک نہ ہوں جن سے سر کے بال یا کلائی وغیرہ ستر کا کوئی حصّہ چمکے(2)کپڑے
تنگ وچست نہ ہوں جو بدن کی ہیئات (یعنی سینے کا ابھاریا پنڈلی وغیرہ کی گولائی)
ظاہرکریں(3)بالوں یا گلے یا پیٹ یا کلائی
یا پنڈلی کا کوئی حصّہ ظاہِر نہ ہوتا ہو(4)کبھی نامحرم کے ساتھ معمولی دیر کے لئے
بھی تنہائی نہ ہوتی ہو (5) اس کے
وہاں رہنے یا باہر آنے جانے میں کوئی فتنے کا گمان نہ ہو۔ یہ پانچوں شرطیں اگر جمع ہیں توحرج نہیں اور ان میں ایک بھی کم ہے تو(ملازمت وغیرہ) حرام([1])۔ (2)
معلوم
ہوا! اگر عورت شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے گھریلو ذمے داریوں کی وجہ سے کسبِ
معاش میں حصہ لے تو شرعاً اس پر کوئی پابندی عائد کی گئی ہے نہ اسے ناپسندیدہ قرار
دیا ہے۔ خواتینِ اسلام کی سیرت کے مطالعے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ بہت سی صحابیات
اپنے گھر کی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی نباہتے ہوئے اور پردے کے معاملات کی رعایت کے ساتھ کسبِ مَعاش میں بھی حصہ لیتی تھیں اور حصولِ
معاش کے ایسے طریقے اختیار کرتی تھیں جن سے شریعت کی پابندیوں میں کوتاہی بھی نہ ہو۔
جیسا کہ اُم المومنین حضر ت خدیجہ رضی اللہ عنہا تجارت کیا کرتی تھیں اور بھی کئی
مثالیں موجود ہیں۔ معلوم ہوا! کچھ صحابیات نے معاشی سرگرمیوں میں حصہ ضرور لیا لیکن
اسے مقصدِ حیات بنایا نہ دنیوی عیش و آرام اور آسائشوں (Luxuries) کے لئے کمایا اور نہ فضول خرچیوں میں صرف
کیا، بلکہ اس کے ذریعے بھی اللہ اور اس کے
رسول کی رضا ہی تلاش کی۔ اللہ پاک ہمیں
بھی ایسی توفیق دے کہ اسی کی رضا کے مطابق اپنی پوری زندگی گزاریں۔
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
حضرت
ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر
ہوا تو حضراتِ حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما آپ کی گود میں کھیل رہے تھے۔ میں نے
عرض کی: یا رسولَ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں؟
ارشاد فرمایا: میں ان سے محبت کیوں نہ کروں! حالانکہ یہ میرے دو پھول ہیں جن کی مہک میں سونگھتا ہوں۔([i])
معلوم
ہوا!اللہ پاک کے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اپنی نواسے نواسیوں سے بہت محبت تھی۔
چنانچہ ہمارے معاشرے میں نواسے، نواسیوں سے محبت میں نانی کو ایک منفرد حیثیت حاصل
ہے، کیونکہ نانی اپنے نواسے، نواسیوں سے والہانہ محبت کرتی اور ان کی بہترین و
اچھی دوست اور غم خوار بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ نواسے، نواسیوں کی تربیت میں ایک نانی
کس طرح مؤثر ہوتی یا ہو سکتی ہے، ملاحظہ فرمائیے:
· نانی
کو چاہئے کہ جس طرح اس نے اپنی بیٹی کی تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا،اسی طرح نواسے،
نواسیوں کی تربیت میں بھی اپنی بیٹی کی مدد کرے اور اسے بچوں کو بچپن میں ہی دینی تعلیم
دینے کی ترغیب دلائے۔
· عموماً
نواسے،نواسیاں قصے کہانیاں سننے کے شوقین ہوتے ہیں، لہٰذا نانی کو چاہئے کہ
نواسے،نواسیوں کو جھوٹے و من گھڑت اور ڈراؤنے قصے، کہانیاں سنانے کے بجائے معتبر سنی علما کی کتب و رسائل سے دیکھ کر حکایات
سنائے تاکہ ان کے سینوں میں بھی شرعی
احکام پر عمل کا جذبہ بیدار ہو اور وہ ڈرپوک بننے کے بجائے بہادر بنیں۔ اس کے لئے
مکتبۃ المدینہ سے جاری کردہ کہانیاں بنام نور والا چہرہ، دودھ پیتا مدنی مُنا،بیٹا
ہو تو ایسا، حضرت آدم علیہ السلام، حضرت ادریس علیہ السلام، فرعون کا خواب، جھوٹا
چور، لالچی کبوتر،بے وقوف کی دوستی، چالاک خرگوش، راہنمائی کرنے والا بھیڑیا پڑھ کر
سنانا،نیز کڈز مدنی چینل دکھانابے حد مفید ہے۔
· نانی
کو چاہئے کہ اپنے نواسے، نواسیوں کو بڑوں کی عزت کرنا اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش
آنا سکھائے،نیز مقدس ہستیوں مثلاً رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم،ازواجِ مطہرات،
صحابہ کرام، اولیائے عظام وغیرہ اور مقدس چیزوں مثلاً قرآنِ کریم اور دیگر دینی
کتب وغیرہ کا ادب بھی سکھائے۔
· نواسے،نواسیوں
میں انبیائے کرام، ازواجِ مطہرات، صحابہ وصحابیات،اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ
عنہم اور اولیائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کی شمعِ محبت
فروزاں کرنے کے لئے ان کے سامنے ان مقدس ہستیوں کے منتخب واقعات پڑھ کر سنائے۔ اس
ضمن میں مکتبۃ المدینہ کی کتب سیرت
الانبیا، سیرتِ مصطفی، فیضانِ امہات المومنین، کراماتِ صحابہ، خلفائے راشدین، صحابہ
کرام کا عشقِ رسول،صحابہ کی باتیں، صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف (جلد1)، اسلام
کی بنیادی باتیں (3جلدیں)، آئیے! قرآن سمجھتے ہیں (7جلدیں)، نیز ماہنامہ خواتین (ویب
ایڈیشن) اور ماہنامہ فیضانِ مدینہ سے مدد لینا انتہائی مفید ہے۔
· اس
بات میں کوئی شک نہیں کہ نانی کو گھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس کی
بات بھی کوئی نہیں ٹالتا، لہٰذانانی کو
چاہیے کہ نواسے، نواسیوں کے درمیان باہمی محبت کی فضا قائم رکھنے میں ہمیشہ اپنا
کردار ادا کرتی رہے، تاکہ ان کے درمیان خوشی ومحبت کی شمع سدا جلتی رہے۔
· نواسے،
نواسیوں سے شفقت و نرمی بھرے انداز میں باتیں
کرے اور اسی لہجے میں باتیں کرنا سکھائے تا کہ وہ اسی لہجے میں بات کرنے کے عادی ہو جائیں۔
· غیبت
حرام اور جہنم میں لے جا نے والا کام ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ
میں اس کی سخت مذمت کی گئی ہے، امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہمُ العالیہ
فرماتے ہیں:جس طرح بچے کے ساتھ جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں،اسی طرح اس کی غیبت کی
بھی ممانعت ہے۔خواہ ایک ہی دن کا بچہ ہو،بِلا مصلَحتِ شرعی اس کی بھی برائی بیان
نہ کی جائے۔ ماں باپ اور گھر کے دیگر افراد کیلئے لمحہ فکریہ ہے، ان کو چاہئے کہ
بِلا ضرورت اپنے بچوں کو پیچھے سے (اور منہ پر بھی) ضدی،شرارتی،ماں باپ کا نافرمان
وغیرہ نہ کہا کریں۔(2)لہٰذا نانی کو چاہئے کہ وہ کبھی بھی اپنے نواسے، نواسیوں کی یا ان کے سامنے کسی بھی مسلمان خصوصاً ان کے
والدین کی بُرائی نہ کرے، کیونکہ اس کے کئی نقصانات ظاہر ہو سکتے ہیں مثلاً نواسے، نواسیوں کے دل میں نانی کی
اہمیت کم ہو جائے گی، ان کے دل میں اپنے والدین کی نفرت و بیزاری پیدا ہوگی، وہ غیبت کرنا سیکھ جائیں
گے وغیرہ۔
· جو
کام نرمی سے ہوسکتا ہے اس کام میں سختی دکھانا ہر گز عقلمندی نہیں، لہٰذا اگر
نواسے، نواسیاں نانی کے سامنے کوئی برا کام کریں مثلاً کسی کی پیٹھ پیچھے برائی
کریں، جھوٹ بولیں، کسی کا نقصان کر دیں، بغیر پوچھے کسی کی چیز اٹھا لیں، کسی کا
نام بگاڑیں، کسی کو گالی دیں، کسی کو دھکا دیں وغیرہ تو نانی کو چاہئے کہ وہ ان
پرزور زور سے چلانے، انہیں لعنت و ملامت کرنے اور بد دعائیں دینے کے بجائے انہیں سمجھائے کہ بیٹا! تھوڑا سوچئے! اگر یہی سلوک کوئی آپ کے ساتھ بھی کرے تو آپ کو کیسا
لگے گا؟ اس طرح انہیں اپنے کئے پر شرمندگی ہو گی اور آئندہ وہ ان حرکتوں سے باز رہیں گے۔
· ہر
معاملے میں نواسے، نواسیوں میں برابری والا سلوک کرے، حتی کہ عیدین و دیگر خوشی کے مواقع پر ان میں تحائف بھی
برابری کی بنیاد پر تقسیم کرے، تاکہ کوئی بھی بچہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہو نہ اس
کے والدین کے دل میں کوئی میل آئے ۔
· اگر
نواسے، نواسیاں تنگ کریں تو انہیں جھڑکنے، ڈاٹنے اور ذلیل کرنے کے بجائے پیار و
محبت سے سمجھائے یا ان کا دھیان کسی اور
جانب کر دے کیونکہ ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے ان کے
احساسات مجروح ہو سکتے ہیں۔
· نواسے،
نواسیاں آپس میں لڑ پڑیں تو نانی کو
چاہیے کہ وہ تماشائی کا کردار نبھانے اور لڑائی کی آگ کو مزید بھڑکانے کے بجائے معاملہ ان کے والدین تک پہنچنے کا انتظار نہ
کرے، بلکہ پہلے ہی آگے بڑھ کر صلح صفائی
کرا دے، جب دیکھے کہ معاملہ ٹھنڈا ہو چکا ہے تو انہیں پیار محبت سے مل جل کر رہنے کا درس دے اور لڑائی جھگڑوں کے نقصانات
سے آگاہ کرے۔
· نانی
زندگی کے کئی نشیب و فراز دیکھ چکی ہوتی
ہے اور تجربے میں بھی گھر کے سب افراد سے فائق ہوتی ہے لہٰذا نانی کو چاہئے کہ وہ
وقتاً فوقتاً اپنے نواسے، نواسیوں کو اپنے ذاتی تجربات سے آگاہ کیا کرے کہ یہ
تجربات انہیں زندگی کے ہر موڑ پر فائدہ دیں گے۔
(یہ مضمون ماہنامہ خواتین
ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
اکثر
والدین کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ بہت ضدی ہو گیا ہے،
بات نہیں مانتا، بد تمیزی کرتا ہے، اپنی من مانی کرتا ہے وغیرہ۔ یاد رہے! بچے
کا ضدی ہونا کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کا حل ممکن نہ ہو۔ کیونکہ یہ کوئی پیدائشی
بیماری نہیں کہ بچے پیدا ہوتے ہی ضدی ہوں، بلکہ ان کے ضدی ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔
بچوں کی تربیت چونکہ کسی مہارت سے کم نہیں لہٰذا والدین پر لازم ہے کہ
ان تمام عوامل پر گہری نظر رکھیں جو بچے کو ضدی بناتے ہیں۔ چنانچہ والدین کی خیر
خواہی کی نیت سے ذیل میں ایسی ہی چند باتوں کا ذکر جا رہا ہے، امید ہے انہیں پیش
نظر رکھنے سے وہ بچوں کے ضدی ہونے کی وجوہات کے علاوہ ان کے حل بھی جان لیں گے۔
بچے کے غصے میں ہونے
کی علامات
بچے
عموماً غصے کی حالت میں ضد کرتے ہیں، لہٰذا
سب سے پہلے وہ علامات جاننا ضروری ہیں جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ بچہ اس وقت
غصے میں ہے۔ چنانچہ جب بچہ غصے کی حالت میں ہو تو ٭اکثر بلند آواز سے روتا ہے تا
کہ اس کی طرف توجہ دی جائے ٭پیروں کو زمین
پر مارتا ہے ٭سر اور ہاتھوں کو دیوار پر مارتا ہے ٭آس پاس کی چیزوں کو لاتیں مارتا
ہے ٭بڑوں سے بد تمیزی کرتا ہے٭بغیر کسی وجہ کے دانتوں
سے کاٹنے لگتا ہے ٭کھلونے وغیرہ توڑنے لگتا ہے ٭ہاتھ میں جو بھی چیز آئے اٹھا کر
پھینک دیتا ہے۔
ضدی پن کے اسباب و وجوہات اور ان کا علاج
بے جا روک ٹوک: بچوں کو ہر
وقت کسی نہ کسی کام یا بات سے روکتے رہنا انہیں ضدی و ڈھیٹ بنا دیتا ہے۔
علاج: بچوں کو ہر
وقت ٹوکنے و منع کرنے کے بجائے انہیں جس کام سے منع کر رہے ہیں اس کے نقصان دہ
ہونے کے متعلق سمجھائیں۔ مثلاً بچہ بار بار گرم برتن کو چھونے کی کوشش کرے تو اسے
بار بار نہ ٹوکیں، بلکہ یہ سمجھائیں اور احساس دلائیں کہ گرم چیزوں کو چھونا کس
قدر نقصان دہ ہے! آپ کا یہ احساس بیدار کرنا اسے ہمیشہ کے لئے ہر گرم شے کو چھوتے
ہوئے احتیاط کا دامن تھامنا سکھا دے گا۔ ان شاء اللہ
بے جا تفتیش: بچے جب بھی کوئی
کام کریں تو ان کی پوچھ گچھ شروع کر دی جائے کہ انہوں نے یہ کام کیوں کیا! یا انہیں ڈانٹا
ڈپٹا جائے تو بسا اوقات ان میں ضد کی
کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔
علاج:
بچوں کو ہر وقت بے جا تفتیش کے کٹہرے میں کھڑا رکھیں نہ ان سے سختی سے پیش آئیں کہ
بلا وجہ سختی برداشت کرنے والے بچے بڑے ہو کر احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں، ان
میں خود اعتمادی نہیں رہتی اور انہیں ہر وقت یہی خوف رہتا ہے کہ وہ کچھ غلط کر رہے
ہیں۔ چنانچہ اگر ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو نرمی
سے اس غلطی کا ازالہ کریں اور اپنے اور بچوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم کرنے
کوشش کریں تاکہ وہ اپنی ہر بات آپ کے ساتھ شئیر کر سکیں۔
بے جا لاڈ پیارخواہشات کی تکمیل: اکثر
والدین بچوں سے بے جا لاڈ پیار کرتے ہیں اور بچہ بھی فطری طور پر والدین کے ساتھ
اٹیچ ہوتا ہے، مگر جب وہ کسی موقع پر اس وہم کا شکار ہو جائے کہ اس کے والدین کی
توجہ کا مرکز کوئی اور ہے یعنی وہ کسی اور بچے سے لاڈ پیار کریں تو یہ برداشت نہیں
کر پاتا اور لاشعوری طور پر ضد کرنے لگتا ہے۔اسی طرح بچوں کی ہر خواہش پوری کرنے
والے والدین اگر کبھی کوئی خواہش پوری نہ کر پائیں یعنی بچے ایسی خواہش کا اظہار
کر دیں جو بر وقت پوری نہ ہو سکتی ہو یا ان کے لئے نقصان دہ ہو تو وہ یوں بھی ضدی
ہونے لگتے ہیں۔ مثلاً ایک حکایت میں ہے کہ
ایک بادشاہ کے یہاں بیٹا نہیں تھا۔ اس نے اپنے وزیر سے کہا: بھئی کبھی اپنے بیٹے
کولے آنا۔ اگلے دن وزیر اپنے بیٹے کو لے کر آیا، بادشاہ نے اسے دیکھا اور پیار
کرنے لگا، پھر بادشاہ نے کہا: اچھا بچے کو آج کے بعد رونے مت دینا۔ اس نے عرض کی: بادشاہ
سلامت! اس کی ہر بات کیسے پوری کی جائے؟ بادشاہ نے کہا: اس میں کون سی بات ہے؟ میں
سب کو کہہ دیتا ہوں کہ بچے کو جس چیز کی ضرورت ہو اسے پورا کر دیا جائے اور اسے
رونے نہ دیا جائے۔ وزیر نے کہا: ٹھیک ہے۔ پھر بچے کی خواہش پر ایک ہاتھی لایا گیا،
جس سے وہ تھوڑی دیر کھیلتا رہا لیکن بعد میں رونا شروع کر دیا، بادشاہ نے پوچھا:
اب کیوں رو رہے ہو؟ اس نے سوئی کے ساتھ کھیلنے کی خواہش ظاہر کی، سوئی پیش کر دی
گئی، مگر تھوڑی دیر کے بعد اس نے پھر رونا
شروع کر دیا، بادشاہ نے کہا: ارے! اب کیوں رو رہا ہے؟ تو وہ کہنے لگا: جی! اس
ہاتھی کو سوئی کے سوراخ میں سے گزار دیں۔
علاج: والدین اگرچہ بچوں
سے حد درجہ مخلص ہوتے ہیں، مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس انمول رشتے کو مزید با اعتماد
بنانے کے لیے بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کیا جائے، فی زمانہ سوشل میڈیا کی
زبان میں یہ رویہ فرینڈلی ہو فرینکلی نہ ہو یعنی رویہ دوستانہ ہو مگر اس میں بے تکلفی نہ ہو۔ چنانچہ بچے کی ہر جائز
خواہش اور مطالبہ ضرور پورا کریں۔ لیکن اگر بچہ کسی کوئی نقصان دہ چیز مانگے یا وہ مہنگی ہو یا اس کے لیے موزوں نہ ہو تو بچے
کو اس شے کے متبادل پر راضی کرنے کی کوشش کریں، اس سے بچے کی ضد ختم کرنے میں بہت
مدد ملے گی۔
باہمی موازنہ کرنا یا یکساں سلوک کا نہ ہونا:بچے کا اپنے
بہن بھائی یا دوسرے بچوں سے موازنہ کرتے رہنا یا بچوں میں یکساں سلوک نہ
رکھنا اور ان میں سے بعض کو بعض پر
ترجیح دینا بھی ان کو ضدی بنا دیتا ہے۔
علاج:جو
بچے یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے انصاف نہیں کیا جا رہا وہ احساسِ کمتری کا شکار ہو کر
اندر ہی اندر ہی کڑھتے رہتے ہیں یا پھر احتجاج کا راستہ اپناتے ہوئے غصے کا اظہار
کرنے لگتے ہیں، چنانچہ والدین کو چاہئے کہ ان امور کا خیال رکھیں اور بچوں کو کبھی
بھی احساسِ کمتری کا شکار نہ ہونے دیں۔
بچے دوسروں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں: بسا
اوقات گھر میں کوئی ایسا فرد بھی ہوتا ہے کہ جس کے رویہ کا بچے پہ اثر پڑتا ہے جیسے
کوئی غصے کا تیز ہے یا پھر ضدی ہے تو اس کے دیکھا دیکھی بچہ بھی اس رویہ کو اپنا
لیتا ہے۔
علاج:ماحول
کا بچے پہ گہرا اثر پڑتا ہے، ایک اچھا ماحول ہی بچے کی مثالی تربیت میں معاون ثابت
ہو سکتا ہے۔
محسوسات کا اظہار نہ کر پانا: بسا اوقات بچوں کو ایسے معاملات کا سامنا ہوتا
ہے جن کا وہ مناسب انداز میں اظہار نہیں کر پاتے تو ان میں چڑ چڑا پن اور ضد کی
کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، مثلاً نیند آنا، بھوک محسوس کرنا یا سردی و گرمی لگنا
وغیرہ۔ گرمی کی وجہ سے بچوں میں یہ کیفیت اکثر دیکھی گئی ہے۔
علاج:3بچے کو اٹھا کر
سینے سے لگا لیں اور یونہی کچھ دیر مضبوطی سے تھامے رکھیں یا پھر اس سے بات چیت کریں۔
مگر اس حالت میں بچے کو بالکل نظر انداز نہ کریں۔ 3اس
حالت میں بچے کی تعریف کریں، اس کی اچھائیاں بیان کریں۔ 3ایسی
حالت میں بچے کا پہلے سکون سے جائزہ لیں اور اس کی ضد کی وجہ جاننے کی کوشش کریں
مگر اس کے ساتھ کوئی سختی مت برتیں۔ 3
بچے کی بوریت دور کرنے کے لئے ہر وقت اس کا ایک آدھ پسندیدہ کھلونا اپنے پاس یا
قریب ہی رکھیں۔
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
یقیناًآزادی
ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اللہ پاک نے بھی نعمت ملنے پر خوشی منانے کا حکم دیا ہے، لہٰذا 14 اگست 1947ء بمطابق 27 رمضان المبارک 1366ہجری
کے جس مبارک دن ہمارا پیارا وطن پاکستان آزاد ہوا ہمیں اِس دن خوشیاں مناتے ہوئے اس بات کا بھی
احساس رہنا چاہئے کہ جس مالکِ حقیقی نے ہمیں اس عظیم الشان نعمت سے نوازا ہے اس کی
اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہوئے اس کا شکر بھی بجا لایا جائے۔ مگر افسوس! ہمیں اسلامی
تعلیمات یاد ہیں نہ قیامِ پاکستان کے مقاصد۔ حالانکہ یہ ملک مذہب کے نام پر بنا
اور ایک آزاد ملک کی فضاؤں میں سانس لینے کی آرزو میں ہزاروں لاکھوں مسلمانوں نے
مال و جان وغیرہ کی قربانیاں دیں، مگر افسوس! ہمیں کچھ بھی یاد نہیں۔
بحیثیت
قوم ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس دن ہم اپنے محسنوں کو یاد کر کے کم از کم انہیں
خراجِ عقیدت ہی پیش کر دیتے مگر افسوس! ہماری حالت یہ ہے کہ 13 اگست کو سرشام ہی
یہ انتظار کرنے لگتے ہیں کہ کب رات کے 12 بجیں اور جشنِ آزادی کے نام پر کان پھاڑ دینے
والے جدید ترین ساؤنڈ سسٹم کے ذریعے بے ہنگم موسیقی بجانے، ہوائی
فائرنگ و آتش بازی کرنے اور بم پٹاخے پھوڑنے جیسی خرافات کا سلسلہ شروع ہو۔
حالانکہ ان خرافات کے سبب نزدیک رہنے والے مریضوں، بوڑھوں اور گھریلو خواتین کو
رات بھر سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چھوٹے بچے خوف سے کانپ جاتے ہیں، شیر
خوار بچے ہڑ بڑا کر اُٹھ جاتے اور رو رو
کر بُرا حال کر لیتے ہیں۔
پھر
اسی پر بس نہیں ہوتی بلکہ سڑکوں پر ہلڑ بازی کی جاتی ہے، موٹر سائیکل یا کار کے سائلنسر نکال دئیے جاتے ہیں جن سے نکلنے
والی مکروہ آواز سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، تفریحی مقامات پر رش بڑھ جاتا
ہے جہاں مردوں اور عورتوں کے بدن آپس میں
ٹکرا رہے ہوتے ہیں، بد نگاہیاں اور بے حیائیاں اپنے عروج پر ہوتی ہیں، اجنبی لڑکے لڑکیوں میں میل ملاپ اور تحفے تحائف کا لین دین کا سلسلہ ہوتا ہے، اپنے تئیں جدید
تہذیب کی کئی خواتین تنگ اور نیم عریاں لباس پہن کر مردوں کے شانہ بشانہ اس گناہ
میں خود بھی شریک ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعات بھی رونما ہو جاتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ
سال جشنِ آزادی کے موقع پر مینارِ پاکستان پر ایسا ہی ایک نہایت دلخراش واقعہ سوشل
میڈیا پر بہت زیادہ وائرل بھی ہوا تھا۔ اس واقعے سے پوری دنیا میں جہاں ہمارے پاک
وطن کی جگ ہنسائی ہوئی وہیں ہمارے اسلاف کی ارواح کو بھی تکلیف ہوئی ہو گی کہ جس
وطن کی خاطر انہوں نے قربانیاں دی تھیں آج اسی وطن کی بہو بیٹیاں یوں سر عام لوگوں
کو دعوتِ نظارہ دیتی پھر رہی ہیں۔ ان اشعار میں شاید آج ہی کے معاشرے کی عکاسی کی
گئی ہے:
ہر کوئی مست مئے ذوقِ تنِ آسانی ہے
تم مسلماں ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے
حیدری فقر ہے،نے دولتِ عثمانی ہے
تم کو کیا اسلاف سے نسبت روحانی ہے
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
جشن آزادی کی خوشی میں کیا کرنا چاہئے؟٭اس دن اللہ
پاک کے حضور سجدہ ریز ہوا جائے اور اس کا شکر بجا لایا جائے کہ اس نے ہمیں غلامی
سے نجات اور آزادی کی نعمت عطا فرمائی ٭تحریکِ آزادی میں شامل علمائے اہلِ سنت اور
شہدائے کرام کے ایصالِ ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کا اہتمام کیا جائے ٭ شکرانے کے نفل ادا کئے جائیں ٭صدقہ و
خیرات کیا جائے ٭قرآن خوانی کا
اہتمام کیا جائے ٭محارم رشتے داروں، سہیلیوں اور پڑوسنوں کو مبارک باد اور تحائف
پیش کئے جائیں ٭قیامِ پاکستان کے مقاصد کو اجاگر کیا جائے ٭اپنے گھر، مدرسے اور جامعہ پر
سبز ہلالی پرچم لہرایا جائے اور دوسرے دن اتار لیا جائے تاکہ اس کا تقدس برقرار
رہے ٭ملکِ پاکستان کی بقا و خوش حالی کے
لئے خصوصی دعائیں کی جائیں Pوطن
کی حفاظت کے لئے اپنے تن، من، دھن کی قربانی دینے کے جذبے کا اظہار کیا جائےPصرف
ایسی نظمیں پڑھی اور سنی جائیں جو موسیقی اور غیر شرعی الفاظ سے پاک ہوں ٭اس
دن ہونے والی خرافات سے خود بھی بچا جائے اور اپنی اولاد کو بھی بچایا جائے٭ٹی وی
اور سوشل میڈیا جشنِ آزادی کی خرافات کو پھیلانے کا بھی ذریعہ ہے اور بچنے کا بھی،
لہٰذا جشنِ آزادی کی خرافات سے بچنے کیلئے
اس دن صرف اور صرف مدنی چینل ہی دیکھئے٭دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.net
کا وزٹ کیجئے یا سوشل میڈیا پر بنے دعوتِ
اسلامی کے مختلف آفیشل یوٹیوب چینلز اور معلوماتی پیجز کا وزٹ کیجئے۔
یاد
رکھئے! معاشرتی برائیوں کو روکنا جس طرح مردوں پر لازم ہے اسی طرح خواتین پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے
اپنے منصب و حیثیت کے مطابق معاشرے میں رائج برائیوں کا خاتمہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ جس طرح پاکستان بنانے میں
خواتین نے بھر پور کردار ادا کیا تھا اسی طرح پاکستان بچانے میں بھی خواتین کو
کردار ادا کرنا ہو گا۔
اپنے
بچوں کی اچھی تربیت کر کے تقریباتِ جشنِ آزادی کی خرافات کی روک تھام کے لئے
خواتین اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، لہٰذا خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کی اس
حسین انداز میں تربیت کریں کہ آگے چل کر
وہ دیگر معاشرتی برائیوں سمیت جشنِ آزادی
پر ہونے والی خرافات سے دور رہے۔ اس ضمن میں چند معاون گزارشات پیشِ خدمت ہیں:
(1)بچپن سے ہی اپنے بچوں کی تربیت
اسلامی اصولوں کے مطابق کیجئے تا کہ بڑے ہوں تو یہ اسلام کے شیدائی بن کر معاشرتی
برائیوں کا سد ِّباب کر سکیں۔
(2)بچوں کو اپنے اسلاف کی قربانیوں کے
بارے میں بتائیے تاکہ ان میں ملک کی خدمت کرنے کا جذبہ صحیح معنوں میں پیدا ہو
سکے۔
(3)گھر میں دینی ماحول بنائیے، کیونکہ
جب گھر کا ماحول دینی ہو گا تو ہمارا معاشرہ بہتری کی جانب گامزن ہو سکتا ہے، اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ روزانہ گھر میں کم سے کم ایک گھنٹہ 20منٹ مدنی چینل چلائیے تا کہ آپ کے بچوں کا رحجان
دین کی طرف بڑھے۔
(4)بچوں کو قیامِ پاکستان کا اصل مقصد
بتائیے۔
(5)بچیوں کو پردہ کرنے کی ترغیب دینے
سے پہلے خود پر پردہ نافذ کیجئے، کیونکہ بچے اپنے بڑوں کو جو کرتا دیکھتے ہیں وہ
بھی ویسا ہی کرتے ہیں۔
(6)اپنے بچوں کو ایسی چیزیں خرید کر ہی
نہ دیجئے جن سے جشنِ آزادی میں ہونے والی خرافات جنم لیں مثلاً باجے وغیرہ۔
(7)بچوں کو ایسے کاموں کی بھی ہر گز
اجازت مت دیجئے جن سے دوسروں کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ جیسے موٹر سائیکل سے سائلنسر
نکالنا۔
اللہ
پاک ہمارے حالوں پر رحم فرمائے، ہمیں اپنے وطن کی قدر کرنے کی توفیق عطا کرے اور
ہمارے وطن کو صبحِ قیامت تک سلامت رکھے اور اسے اسلام کا قلعہ بنائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
جب تک انسان صحت مند رہتا ہے یا اس کے پاس طرح طرح کی نعمتیں ہوتی ہیں تو کیا
اپنے اور کیا غیر سبھی اس کے گن گاتے اور اس کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں، لیکن جیسے ہی اس پر کوئی مصیبت
و آزمائش آ جاتی ہے یا وہ کسی موذی مرض کا
شکار ہوتا ہے تو وہی لوگ اسے بے یار و مدد گار چھوڑ کر کسی بھولی بِسری چیز کی طرح
بھلا دیتے ہیں، حتی کہ وہ بیوی جس کی ہر
فرمائش اس نے پوری کی تھی اور اس کے ناز نخرے برداشت کئے تھے، وہ بھی
اپنا ساز و سامان اُٹھا کر ہمیشہ کے لئے اسے داغِ مفارقت دے جاتی ہے۔ لیکن
قربان جائیے! حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ محترمہ پر! جو تاریخ ِ انسانی کی وہ
عظیم ترین خاتون ہیں جنہوں نے وفا شعاری
کی اعلیٰ مثال قائم کی، یوں کہ مال و اولاد کی محرومی پر صبر کیا، شوہر پر آنے
والی مصیبتوں کو بڑے صبر اور ہمت و حوصلے سے برداشت کیا، مصیبت کی اس گھڑی میں
انہیں تنہا چھوڑنے کے بجائے 18 سال کا طویل عرصہ ان کا ساتھ نبھایا اور ہر دکھ درد
میں اپنے شوہر کے شانہ بشانہ رہیں، جس کے صلے میں ربِّ کریم نے انہیں اپنی نعمتوں
اور خاص رحمت سے سرفراز فرمایا۔
مختصر تعارف: اللہ پاک کے صابر و شاکر پیغمبر حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ
محترمہ کے نام میں مورخین و مفسرین کا اختلاف ہے، البتہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے
کہ آپ حضرت یوسف علیہ السلام کی پوتی تھیں ([1])جو
شکل و صورت میں حضرت یوسف علیہ السلام سے بہت زیادہ مشابہ تھیں۔(2)
اِزدواجی زندگی:حضرت ایوب علیہ السلام نے 30 سال کی عمر
میں آپ سے شادی فرمائی۔(3)اللہ پاک نے آپ کو 7 بیٹوں اور7 بیٹیوں سے
نوازا تھا جو حضرت ایوب علیہ السلام پر آنے والی آزمائش کے دوران وفات پاگئے
تھے،جب ان کی آزمائش ختم ہوئی تو اللہ پاک
نے انہیں دوبارہ اتنے ہی بیٹے اور بیٹیاں عطا فرمائیں(یعنی آپ کو ٹوٹل 28 بیٹے
بیٹیاں عطا ہوئے تھے۔)(4)
اوصاف:آپ
حضرت ایوب علیہ السلام کو پہنچنے والی
آزمائش میں ان کے ساتھ صبر و شکر کے ساتھ رہیں، ان کے لئے کھانا تیار کرتیں اور ربِّ کریم کی حمد و ثنا بجا لاتی تھیں۔(5)نیز آپ
نہایت عبادت گزار خاتون تھیں۔(6)
فضلِ خداوندی: حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ
اللہِ علیہ
فرماتے ہیں: حضرت ایوب علیہ السّلام کی بیماری کے
بعد ربِّ کریم نے آپ کی بیوی صاحبہ رحمت کو جوانی و صحت بخشی، اولاد بہت عطا کی، مال
اندازے سے بھی زیادہ عطا فرمایا۔(7)
شرعی مسئلے کا ثبوت: مفسرینِ کرام
فرماتے ہیں:بیماری کے زمانے میں حضرت ایوب علیہ
السلام کی زوجہ ایک بار کہیں کام سے گئیں تو دیر سے خدمت میں حاضر ہوئیں، چونکہ آپ تکلیف و
کمزوری کی وجہ سے بہت سے کام خود نہ کر پاتے تھے اور زوجہ ہی مدد گار تھیں
تو زوجہ کی غیر موجودگی میں غالباً سخت آزمائش کا معاملہ آیا جس سے بے قرار ہو کر آپ نے قسم کھائی کہ میں تندرست ہو کر تمہیں سو
کوڑے ماروں گا۔ جب حضرت ایوب علیہ
السلام صحت یاب ہوئے تو اللہ پاک نے
حکم دیا کہ آپ انہیں جھاڑو مار دیں اور اپنی قسم نہ توڑیں، لہٰذا انہوں نے
سو تیلیوں والا ایک جھاڑو لے کر اپنی زوجہ کو ایک ہی بار مار دیا۔(8)اس کا
ذکر قرآنِ کریم میں یوں ہوا ہے: وَ خُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْ١ؕ(پ23،صٓ:44)ترجمہ:اور(فرمایا)اپنے
ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے مار دو اور قسم نہ توڑو۔ جبکہ ایک روایت میں حضرت
سعید بن مسیّب رحمۃُ
اللہِ علیہ
فرماتے ہیں: مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنی بیوی کو سو
چھڑی مارنے کی قسم کھائی کہ بیوی محنت سے روٹی مہیا کرتی تھیں، ایک روز اس نے زائد
روٹی آپ کی خدمت میں پیش کی جس پر آپ کو خطرہ محسوس ہوا کہ ہو سکتا ہے یہ زائد
خوراک کسی کے مال میں خیانت کر کے لائی ہیں، تو جب اﷲ پاک کی طرف سے آپ پر خاص
رحمت کے ذریعے تکلیف کی شدت ختم ہوئی اور بیوی کے متعلق جو آپ کو شبہ تھا اس کی
برأت معلوم ہوئی تو اﷲ پاک نے فرمایا: آپ ایک مُٹّھا(گُچھا) لے کر اپنے ہاتھ سے اس
کو مار دیں اور قسم نہ توڑیں۔ (پ23،صٓ:44)تو آپ نے شاخوں کا ایک مُٹّھا (گُچھا)جو
سو چھڑیوں کا مجموعہ تھا، لے کر اللہ پاک کے حکم کے مطابق بیوی کو مارا۔ (9)
اس
واقعے سے علمائے کرام نے حیلہ شرعی کا جواز ثابت کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ جو حیلہ کسی کا حق مارنے یا اس میں شبہ پیدا
کرنے یا باطل سے فریب دینے کے لئے کیا جائے وہ مکروہ ہے اور جو حیلہ اس لئے کیا جائے
کہ آدمی حرام سے بچ جائے يا حلال کو حاصل کر لے وہ اچھا ہے۔ اس قسم کے حیلوں کے
جائز ہونے کی دلیل مذکورہ واقعہ ہی ہے۔ (10)
حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ پر رحمت اورتخفیف کا سبب: مفسرِ
قرآن ابو سعود محمد آفندی رحمۃُ اللہِ علیہ کے
مطابق حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ پر اس رحمت اورتخفیف کا سبب یہ ہے کہ بیماری
کے زمانے میں انہوں نے اپنے شوہر کی بہت اچھی طرح خدمت کی اور آپ کے شوہر آپ سے
راضی ہوئے تو اس کی برکت سے اللہ کریم نے آپ پر یہ آسانی فرمائی۔(11)
وصال: آپ
حضرت ایوب علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ میں ہی انتقال کر گئی تھیں، جبکہ ایک قول کے مطابق آپ حضرت ایوب علیہ
السلام کے وصال کے بعد کچھ عرصہ حیات رہیں اور بعدِ وصال ملکِ شام میں آپ کو دفن
کیا گیا۔(12)
زوجۂ ایوب کی سیرت سے حاصل ہونے والے نکات:
· اللہ
پاک کی نیک بندیاں مصیبتوں اور تکلیفوں سے گھبراتی نہیں بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کرتی
ہیں۔
· اپنے
کسی عمل سے بے صبری کا اظہار نہیں کرتیں۔
· لمبا
عرصہ آزمائش میں گھرے رہنے کے باوجود بھی ان کی زبانیں شکوہ شکایات کی آلودگی سے
آلودہ نہیں ہوتیں۔
· یہ
خوش حالی اور آزمائش ہر حال میں اپنے رب کی رضا پر راضی رہتیں اور صبر و شکر کا
دامن نہیں چھوڑتیں۔
· ان
کے شوہر کیسی ہی سخت ترین بیماری میں
مبتلا ہو جائیں، ان کا اللہ پاک کی ذات پر بھروسا کمزور نہیں ہوتا۔
· وہ
شوہر کی خدمت گزاری میں کمی بھی نہیں آنے دیتیں بلکہ اپنے اس عظیم محسن کا مضبوط
سہارا بن کر آخری دم تک ان کا ساتھ نبھاتی
ہیں۔
· اللہ
پاک شوہر کی اطاعت و خدمت گزار بیوی سے راضی ہو کر اسے دنیا کے اندر ہی بے پناہ
نعمتوں اور خاص فضل و کرم سے نوازتا ہے۔
اللہ
کریم تمام عورتوں خصوصاً شادی شدہ خواتین کو ان پاکیزہ ہستیوں کا صدقہ نصیب
فرمائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1] عجائب القرآن مع غرائب القرآن،ص181 2 نہایۃ
الارب،13/135 3
نہایۃ الارب،13/135 4 تفسیر قرطبی،6/188 5 تفسیر کبیر،8/ 173 6 نہایۃ
الارب،13/135 7 مراۃ المناجیح،7/575 8 تفسیر بیضاوی،5/49 9 تفسیر در منثور،7/195 0 فتاویٰ ہندیۃ،6/390 A تفسیرابو سعود،4/444ملخصاً B الروضۃ الفیحاء،ص71
ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ام
المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ایک لاکھ درہم بھیجے تو آپ
نے اسی دن وہ سب قریبی رشتے داروں اور فقیروں میں تقسیم فرما دئیے۔ یہاں تک کہ شام
کے کھانے کے لئے بھی کچھ نہ بچایا حالانکہ اس دن آپ خود روزے سے تھیں۔ جب خادمہ نے
عرض کی کہ اگر ایک درہم ہی بچا لیتیں تو اچھا ہوتا! تو اس کی دل جوئی کے لئے ارشاد
فرمایا: یاد نہیں رہا، اگر یاد آ جاتا تو بچا لیتی۔([1])
راہِ خدا میں خرچ کرنا چونکہ دنیا و آخرت میں نجات
اور برکات کا ذریعہ ہے، لہٰذا ہماری بزرگ خواتین کا معمول
تھا کہ راہِ خدا میں خوش دلی سے خرچ کر کے اللہ پاک کی خوب رضا حاصل کرتیں۔ جیسا
کہ مذکورہ واقعے سے معلوم ہو رہا ہے کہ ہماری بزرگ خواتین راہِ خدا میں مال خرچ
کرتیں تو اپنے ذاتی اخراجات کی بھی فکر نہ کرتیں کیونکہ ان کا اللہ پاک پر یقین
کامل تھا، نیز وہ توکل کے اعلیٰ مرتبے پر ہی فائز نہ تھیں بلکہ وہ بخوبی جانتی تھیں
کہ راہِ خدا میں خرچ کرنے سے مال کم نہیں
ہوتا بلکہ بڑھتا ہے۔ جیسا کہ فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے: صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا۔(2)
اس حوالے سے ہمارا جذبہ اگرچہ بزرگ خواتین جیسا تو
نہیں مگر ہم کم از کم اتنا تو کر سکتی ہیں کہ جتنی استطاعت ہو اس کے مطابق ہی راہِ
خدا میں خرچ کرنے کی عادت بنا لیں۔ الحمد
للہ! دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول میں ایسی بہت سی خوش نصیب اسلامی بہنیں ہیں کہ جب
ان سے راہِ خدا میں خرچ کرنے کا کہا گیا تو انہوں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے
اپنے زیورات تک دے دیئے، بعضوں نے اپنی برسوں
کی جمع پونجی راہِ خدا میں دے دی، اللہ پاک انہیں اس کی جزا ضرور عطا فرمائے گا یہ
اس کا وعدہ ہے۔ جیسا کہ اس کا ارشاد ہے:وَ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ١ۚ وَ هُوَ خَيْرُ
الرّٰزِقِيْنَ0(پ22،السبا:39)ترجمۂ کنز العرفان: تم فرماؤ: اور
جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے میں اور دے گا اور وہ سب سے بہتر
رزق دینے والا ہے۔
ایک روایت میں ہے: روزانہ دو فرشتے
نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک دعا مانگتا ہے:
یا اللہ! خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما دے۔ جبکہ دوسرا یوں عرض کرتا ہے: بخل
کرنے والے کو برباد کر دے۔(3) نیز خرچ کی قدرت ہونے کے باوجود
صدقہ و خیرات سے ہاتھ روک لینا ربِ کریم کی طرف سے ملنے والی نعمتوں سے محرومی کا
سبب بھی ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نے مجھ
سے فرمایا: خرچ کرنے کے معاملے میں ہاتھ
نہ روکو ورنہ تم سے بھی روک لیا جائے گا۔(4) اس لئے ہمیں چاہئے کہ خوش دلی کے ساتھ حسبِ
توفیق راہِ خدا میں مال خرچ کرتی رہیں اور
اگر زیادہ مقدار میں خرچ کرنے کی استطاعت نہ ہو تب بھی شیطان کے بہکاوے میں آکر تھوڑے مال کو کم
سمجھتے ہوئے راہِ خدا میں خرچ کرنے سے
محروم نہ ہوں۔ کیونکہ اللہ پاک ہماری نیتوں کو ملاحظہ فرماتا ہے، اس لئے کہ کسی کی
اچھی نیت کی وجہ سے اس کا تھوڑا مال ہی بارگاہِ الٰہی میں قبول ہو جاتا ہے اور کسی
کی بری نیت کی بنا پر اس کے لاکھوں روپے بھی قبول نہیں ہو پاتے۔ جیسا کہ غزوہ تبوک کے موقع پر ایک صحابی کو دن
بھر کی مزدوری میں دو صاع کھجوریں ملیں، انہوں نے نصف گھر والوں کو دیں اور باقی
نصف کھجوریں لے کر جب بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو حضور نے اپنے اس جاں نثار
صحابی کے خلوص کو قبول کرتے ہوئے ان کی لائی ہوئی کھجوروں کو تمام مالوں کے ڈھیر کے
اوپر رکھ دیا۔(5)مگر
اس شخص کا مال حضور صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے اللہ پاک کے حکم پر قبول نہ فرمایا کہ جس نے اپنے
کثیر مال میں صدقہ و زکوٰۃ کی ادائیگی کو ٹیکس گمان کیا۔ حالانکہ وہ انتہائی مفلس
تھا اور اسے یہ سارا مال حضور کی دعا کی برکت سے ہی حاصل ہوا تھا۔ پھر بعد میں وہ
شخص خلافتِ صدیقی و فاروقی میں بھی مال لے کر آیا مگر ان دونوں ہستیوں میں سے بھی
کسی نے قبول نہ کیا اور آخر کار یہ شخص خلافتِ عثمانی میں ہلاک ہو گیا۔ (6)
یہ بھی یاد رکھئے کہ غریبوں کی مدد کرنا اگرچہ راہِ
خدا میں خرچ کرنا ہی ہے تاہم پیشہ ور بھکاریوں پر خرچ کرنا اس میں داخل نہیں، ایسے
لوگوں پر اپنا مال خرچ کرنا در حقیقت ان سے ہمدردی نہیں بلکہ بھیک مانگنے کے گناہ
پر ان کی مدد ہے، لہٰذا ایسے بھکاریوں کے بجائے ان مستحق سفید پوش افراد پر اپنا
مال خرچ کیجئے جو خود داری کے سبب کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے اور مستحقین کو
جھڑکا بھی نہ جائے کہ اس کی اسلام میں سخت ممانعت ہے، اگر آپ کے رشتے داروں میں کوئی ضرورت مند
ہیں تو پہلے ان کی معاونت کیجئے کہ حضور صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس
کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا! اﷲ پاک اس شخص کے صدقہ کو قبول نہیں فرماتا، جس
کے رشتے دار اس کے سلوک کے محتاج ہوں اور یہ غیروں کو دے، قسم ہے اس کی جس
کے دستِ قدرت میں میری جان ہے! اللہ پاک اس کی طرف قیامت کے دن نظر نہ فرمائے گا۔(7) رشتے داروں میں بھی زیادہ افضل اس رشتے دار پر خرچ کرنا ہے جس سے ناراضی ہو
کہ عموماً اسے دینے کا دل نہیں کرتا پھر بھی فقط رضائے الٰہی کیلئے دیں تو ان شاء اللہ اس پر زیادہ اجر ملے
گا۔ جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے: سب سے افضل صدقہ وہ ہے جو کینہ پرور رشتے دار کو دیا
جائے کیونکہ اسے صدقہ دینے میں صدقہ بھی ہے
اور صلہ رحمی بھی۔(8)
ہمیں خوب غور
کر لینا چاہیے کہ ہمارا مال کہاں خرچ ہو رہا ہے؟ کہیں فضول اور بے مصرف کاموں میں
تو نہیں ضائع ہو رہا؟ کیونکہ ہم میں کئی خواتین ضرورت سے زیادہ کپڑے، برتن اور گھر
کے غیر ضروری سامان میں پانی کی طرح پیسہ بہاتی ہیں جو کہ کمائی کرنے والے پر بھی بہت بوجھ بنتا ہے
اور مالی حوالے سے بھی تنگی اور پریشانی کا
سامنا رہتا ہے اور بسا اوقات نوبت لڑائی جھگڑے تک جا پہنچتی ہے، نیز گھر میں اتنی
وسعت بھی نہیں ہوتی کہ اتنا سامان رکھا جائے۔
اسی طرح اگر بعض خواتین میں کبھی صدقہ کرنے کا جذبہ
پیدا ہوتا بھی ہے تو بعض اوقات وہ کسی ایسی خاتون یا فقیر کو دیدیتی ہیں جو مستحق ہی نہیں
ہوتا یا پھر ایسے افراد پر خرچ کرتی ہیں جو بعد میں بھی اسی آسرے پر رہتے ہیں کہ
کوئی انہیں کچھ دیدے اور یوں ان میں سوال کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے، چنانچہ یاد
رکھئے! خرچ کرنے کے بھی آداب ہیں کہ کس پر خرچ کیا جائے اور کس پر نہیں۔ مثلاً قرآنِ
کریم میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اپنے والدین،
قریبی رشتہ داروں، یتیموں اور محتاجوں پر خرچ کریں۔(پ2، البقرۃ: 215)
اللہ پاک ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی سعادت
عطا فرمائے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کےاگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1]تفسیر کبیر،8/257 2مسلم،
ص 1397، حديث:2588 3 بخاری،1/485،حدیث:1442 4
بخاری،1/483،حدیث:1433 5تفسیر خازن،2/ 265 6تفسیرمدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: 75، ص 446، ملتقطاً 7معجم اوسط، 6/296، حدیث: 8828 8مستدرک، 2/
27، حدیث: 1515