شرح سلامِ رضا

Fri, 19 Aug , 2022
1 year ago

(33)

طائرانِ قُدُس جس کی ہیں قمرِیَّاں

اس سہی سَرْو قامت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی: قُمریاں:فاختہ کی طرح خوش الحان پرندے۔سہی:سیدھا۔سرو:ایک درخت جو سیدھا اور گاجر کی شکل کا ہوتا ہے۔ قامت: قد۔

مفہومِ شعر:معصوم فرشتے قُمریوں کی طرح حضور کی شان بیان کرتےاور درود بھیجتے ہیں اس قد و قامت والے پہ لاکھوں سلام۔

شرح:طائرانِ قدس جس کی ہیں قمریاں:قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ١ؕ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا0(پ22،الاحزاب:56)ترجمہ: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والو!ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔

امام سخاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:درود شریف کی آیت مدنی ہے اور ا س کا مقصد یہ ہے کہ اللہ پاک اپنے بندوں کو اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی وہ قدر و منزلت بتا رہا ہے جو ملأِ اعلیٰ(یعنی فرشتوں)میں اس کے حضور ہے کہ وہ مُقَرّب فرشتوں میں اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ثنا بیان فرماتا ہے اور یہ کہ فرشتے آپ پر صلاۃ بھیجتے ہیں، پھر عالَمِ سِفلی کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ پر صلاۃ و سلام بھیجیں تاکہ نیچے والی اور اوپر والی ساری مخلوق کی ثنا آپ پر جمع ہو جائے۔([1])

سہی سرو قامت:حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:حضورِ انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نہ بہت زیادہ لمبے تھے نہ پستہ قد، بلکہ آپ درمیانی قد والے تھے اور آپ کا مقدس بدن انتہائی خوبصورت تھا، جب آپ چلتے تو کچھ خمیدہ ہو کر چلتے تھے۔(2) جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم جب چل رہے ہوتے تو ایسے معلوم ہوتا گویا کہ آپ کسی بلندی سے اتر رہے ہیں، میں نے آپ کا مثل نہ آپ سے پہلے دیکھا نہ آپ کے بعد۔(3)

الغرض سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حضور میانہ قد تھے لیکن یہ آپ کی معجزانہ شان ہے کہ اگر آپ ہزاروں انسانوں کے مجمع میں کھڑے ہوتے تو آپ کا سرِ مبارک سب سے اونچا نظر آتا تھا۔(4) اعلیٰ حضرت نے ایک مقام پر قدِ مصطفٰے کی شان و عظمت کو یوں بھی بیان فرمایا ہے:

قدِ بے سایہ کے سایۂ مرحمت ظلِّ ممدودِ رأفت پہ لاکھوں سلام

(34)

وصف جس کا ہے آئینۂ حق نما

اس خدا ساز طلعت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی:وصف: خوبی۔ حق نما: اللہ پاک کی راہ دکھانے والا۔ خدا ساز:خدا کی پہچان کرانے والا۔ طلعت: چہرہ

مفہومِ شعر:جو چہرہ مبارک حق کودیکھنے کا آئینہ ہے، خدا کی پہچان کرانے والے اس چہرے کی نورانیت پہ لاکھوں سلام۔

شرح:حدیثِ پاک میں ہے:مَنْ رَآنِی فَقَدْ رَأَى الْحَقّ یعنی جس نے مجھے دیکھا یقیناً اُس نے حق کو دیکھا۔(5) بعض لوگ اس حدیث کے معنی یہ کرتے ہیں کہ یہاں حق سے مراد ربِّ کریم کی ذات ہے اور معنی یہ ہیں کہ جس نے مجھے دیکھا اس نے خدا کو دیکھ لیا کیونکہ حضور انور آئینہ ِذاتِ کبریا ہیں جیسے کہا جائے:جس نے قرآن ِمجید پڑھا اس نے ربِّ کریم سے کلام کر لیا یا جس نے بخاری دیکھی اس نے امام محمد بن اسماعیل کو دیکھ لیا۔اگرچہ بعض لوگ اس معنی کی تردید کرتے ہیں لیکن ہم نے جو توجیہ عرض کی اس توجیہ سے یہ معنی درست ہیں۔ قرآنِ کریم نے حضورکو ذکرُ اللہ فرمایا،کیونکہ حضور (صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم)کو دیکھ کر خدا یاد آتا ہے۔(6)یہی قول شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ کا بھی ہے کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا روئے منور ربِّ کریم کے جمال کا آئینہ ہے اور اللہ پاک کے انوار و تجلیات کا اس قدر مظہر ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں۔(7)

خدا ساز طلعت:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایامِ وصال میں یارِ با وفا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز ادا کر رہے تھے، اچانک آقائے کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے حجرۂ مبارک کا پردہ اُٹھایا اور اپنے غلاموں کی طرف دیکھا تو ہمیں یوں محسوس ہوا: كَأَنَّ وَجْهَهُ وَرَقَةُ مُصْحَفٍ گویا حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا چہرۂ انور قرآن کا ورق ہے۔ (8)

(35)

جس کے آگے سرِ سَروَراں خَم رہے

اس سرِ تاجِ رِفعت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی:سرِ سَروَراں:بادشاہوں کے سر۔

مفہومِ شعر:اس سرِ مبارک کی بلندی اور مرتبے پہ لاکھوں سلام جس کے آگے بادشاہوں کے سر جھک گئے۔

شرح:سر تاجِ رفعت:یعنی حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سرِ اقدس کی یہ شان ہے کہ بڑے بڑے باشاہوں اور تاجوروں کے سر آپ کے آگ جھک گئے اور اللہ پاک نے آپ کے سر ِاقدس پر نعمت و برتری کا ایسا تاج سجایا کہ تمام بلندیاں اور رفعتیں وہاں سے خیرات پا رہی ہیں۔

(36)

وہ کرم کی گھٹا گیسوئے مشک سا

لَکَّۂ ابرِ رَحمت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی:کرم: رحمت۔گیسو: بال مبارک۔مشک سا: کستوری کی مثل۔لکہ: ٹکڑا۔ابر: بادل۔

مفہومِ شعر:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زلفیں کرم کی گھٹا جیسی ہیں جن سے مشک کی خوشبو مہکتی ہے،ابرِ رحمت کے اس ٹکڑے پہ لاکھوں سلام۔

شرح:صحیح بخاری شریف میں ہے: اُمُّ المومنین حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس حضور نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا بال مبارک تھا جسے آپ نے چاندی کی ڈبیہ میں رکھا ہوا تھا، مدینہ منورہ میں جب کوئی بیمار ہو جاتا تو آپ بال مبارک کو پانی میں بھگو دیتیں اور پھر وہ مبارک پانی مریض کو پلایا جاتا تو وہ شفا پا جاتا تھا(9)۔(10)

جب نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم حلق کراتے (یعنی بال مبارک اُترواتے) تو صحابہ کرام علیہم الرضوان بال حاصل کرنے کے لئے دیوانہ وار گھومتے تھے۔صحابہ کرام علیہم الرضوان کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ حضور نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بال مبارک عذابِ قبر سے حفاظت کا نسخہ ہیں۔جیسا کہ کاتبِ وحی جلیل القدر صحابیِ رسول حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بال مبارک موجود تھے اور آپ نے وصیت فرمائی کہ ان بالوں کو میرے ساتھ میری قبر میں رکھ دیا جائے۔(11)


(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)



[1]القول البدیع،ص85 2شمائل محمدیہ،ص16،حدیث:2 3شمائل محمدیہ، ص19،حدیث:5 4سیرتِ مصطفے،ص566 5بخاری،4/407،حدیث: 6996 6مراۃ المناجیح،6/286ملتقطاً 7مدارج النبوۃ،1/3 8بخاری،1/243،حديث:680 9بخاری،4/76،حدیث:5896ماخوذاً 0عمدۃ القاری،15/94،تحت الحدیث: 5896ملخصاً Aتاریخِ ابن عساکر،59 /229ملخصاً 


جاب کرنے والی خواتین

Fri, 19 Aug , 2022
1 year ago

معاشرے میں عموماً گھر کے مرد باہر کام کاج کرتے ہیں اور رزق حلال کما کر گھر  کا نظام چلاتے ہیں اور گھر والوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں اور یہ ان کی ذمہ داری بھی ہے لیکن بعض اوقات گھر کی خواتین کو بھی جاب کرنی پڑ جاتی ہے اور گھر کا نظام چلانا پڑتا ہے، اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں: ان کے گھر کوئی مرد نہ ہو یا مرد ہو لیکن مہنگائی کی وجہ سے اس کی تنخواہ سے گھر کے تمام افراد کا گزر بسر نہ ہوتا ہویا مرد کسی بیماری کی وجہ سے کام نہ کر سکتا ہو یا اس طرح کی اور کچھ وجوہات ہو سکتی ہیں جن کی بنا پر خواتین کو نوکری کرنی پڑتی ہے، اس میں بعض خواتین مجبوری کی وجہ سے کرتی ہیں اور بعض شوقیہ ایسا کرتی ہیں، بہر حال اگر ضرورت نہ ہو یا گھر والوں کی اجازت نہ ہو یا بیوی کو شوہر کی طرف سے اجازت نہ ہو تو نوکری نہ کرے، نیز بلاوجہ بھی نوکری نہیں کرنی چاہیے، بلکہ گھر داری سیکھے، سلائی کڑھائی سیکھ لے، اسلامی تعلیمات سیکھے تاکہ اس کو ساری زندگی یہ چیزیں کام آئیں اور اچھے انداز میں اپنے گھر کی ذمہ داریاں پوری کر سکے اور اگر اجازت کی رکاوٹ نہیں ہے تو خاتون کا نوکری کرنا بعض شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ جیسا کہ امیرِ اہل سنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ سے جب اسی حوالے سے سوال کیا گیا کہ کیا عورت ملازمت کر سکتی ہے تو آپ نے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کے حوالے سے اجازت کی یہ 5 شرطیں ذکر فرمائیں: (1) کپڑے باریک نہ ہوں جن سے سر کے بال یا کلائی وغیرہ ستر کا کوئی حصّہ چمکے(2)کپڑے تنگ وچست نہ ہوں جو بدن کی ہیئات (یعنی سینے کا ابھاریا پنڈلی وغیرہ کی گولائی) ظاہرکریں(3)بالوں یا گلے یا پیٹ یا کلائی یا پنڈلی کا کوئی حصّہ ظاہِر نہ ہوتا ہو(4)کبھی نامحرم کے ساتھ معمولی دیر کے لئے بھی تنہائی نہ ہوتی ہو (5) اس کے وہاں رہنے یا باہر آنے جانے میں کوئی فتنے کا گمان نہ ہو۔ یہ پانچوں شرطیں اگر جمع ہیں توحرج نہیں اور ان میں ایک بھی کم ہے تو(ملازمت وغیرہ) حرام([1])۔ (2)

معلوم ہوا! اگر عورت شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے گھریلو ذمے داریوں کی وجہ سے کسبِ معاش میں حصہ لے تو شرعاً اس پر کوئی پابندی عائد کی گئی ہے نہ اسے ناپسندیدہ قرار دیا ہے۔ خواتینِ اسلام کی سیرت کے مطالعے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ بہت سی صحابیات اپنے گھر کی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی نباہتے ہوئے اور پردے کے معاملات کی رعایت کے ساتھ کسبِ مَعاش میں بھی حصہ لیتی تھیں اور حصولِ معاش کے ایسے طریقے اختیار کرتی تھیں جن سے شریعت کی پابندیوں میں کوتاہی بھی نہ ہو۔ جیسا کہ اُم المومنین حضر ت خدیجہ رضی اللہ عنہا تجارت کیا کرتی تھیں اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔ معلوم ہوا! کچھ صحابیات نے معاشی سرگرمیوں میں حصہ ضرور لیا لیکن اسے مقصدِ حیات بنایا نہ دنیوی عیش و آرام اور آسائشوں (Luxuries) کے لئے کمایا اور نہ فضول خرچیوں میں صرف کیا، بلکہ اس کے ذریعے بھی اللہ اور اس کے رسول کی رضا ہی تلاش کی۔ اللہ پاک ہمیں بھی ایسی توفیق دے کہ اسی کی رضا کے مطابق اپنی پوری زندگی گزاریں۔


(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)



[1] فتاویٰ رضویہ، 22/248 2 پردے کے بارے میں سوال جواب، ص 160


نانی کا کردار

Fri, 19 Aug , 2022
1 year ago

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں رسولِ کریم  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو حضراتِ حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما آپ کی گود میں کھیل رہے تھے۔ میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں؟ ارشاد فرمایا: میں ان سے محبت کیوں نہ کروں! حالانکہ یہ میرے دو پھول ہیں جن کی مہک میں سونگھتا ہوں۔([i])

معلوم ہوا!اللہ پاک کے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اپنی نواسے نواسیوں سے بہت محبت تھی۔ چنانچہ ہمارے معاشرے میں نواسے، نواسیوں سے محبت میں نانی کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے، کیونکہ نانی اپنے نواسے، نواسیوں سے والہانہ محبت کرتی اور ان کی بہترین و اچھی دوست اور غم خوار بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ نواسے، نواسیوں کی تربیت میں ایک نانی کس طرح مؤثر ہوتی یا ہو سکتی ہے، ملاحظہ فرمائیے:

· نانی کو چاہئے کہ جس طرح اس نے اپنی بیٹی کی تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا،اسی طرح نواسے، نواسیوں کی تربیت میں بھی اپنی بیٹی کی مدد کرے اور اسے بچوں کو بچپن میں ہی دینی تعلیم دینے کی ترغیب دلائے۔

· عموماً نواسے،نواسیاں قصے کہانیاں سننے کے شوقین ہوتے ہیں، لہٰذا نانی کو چاہئے کہ نواسے،نواسیوں کو جھوٹے و من گھڑت اور ڈراؤنے قصے، کہانیاں سنانے کے بجائے معتبر سنی علما کی کتب و رسائل سے دیکھ کر حکایات سنائے تاکہ ان کے سینوں میں بھی شرعی احکام پر عمل کا جذبہ بیدار ہو اور وہ ڈرپوک بننے کے بجائے بہادر بنیں۔ اس کے لئے مکتبۃ المدینہ سے جاری کردہ کہانیاں بنام نور والا چہرہ، دودھ پیتا مدنی مُنا،بیٹا ہو تو ایسا، حضرت آدم علیہ السلام، حضرت ادریس علیہ السلام، فرعون کا خواب، جھوٹا چور، لالچی کبوتر،بے وقوف کی دوستی، چالاک خرگوش، راہنمائی کرنے والا بھیڑیا پڑھ کر سنانا،نیز کڈز مدنی چینل دکھانابے حد مفید ہے۔

· نانی کو چاہئے کہ اپنے نواسے، نواسیوں کو بڑوں کی عزت کرنا اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا سکھائے،نیز مقدس ہستیوں مثلاً رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم،ازواجِ مطہرات، صحابہ کرام، اولیائے عظام وغیرہ اور مقدس چیزوں مثلاً قرآنِ کریم اور دیگر دینی کتب وغیرہ کا ادب بھی سکھائے۔

· نواسے،نواسیوں میں انبیائے کرام، ازواجِ مطہرات، صحابہ وصحابیات،اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہ عنہم اور اولیائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کی شمعِ محبت فروزاں کرنے کے لئے ان کے سامنے ان مقدس ہستیوں کے منتخب واقعات پڑھ کر سنائے۔ اس ضمن میں مکتبۃ المدینہ کی کتب سیرت الانبیا، سیرتِ مصطفی، فیضانِ امہات المومنین، کراماتِ صحابہ، خلفائے راشدین، صحابہ کرام کا عشقِ رسول،صحابہ کی باتیں، صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف (جلد1)، اسلام کی بنیادی باتیں (3جلدیں)، آئیے! قرآن سمجھتے ہیں (7جلدیں)، نیز ماہنامہ خواتین (ویب ایڈیشن) اور ماہنامہ فیضانِ مدینہ سے مدد لینا انتہائی مفید ہے۔

· اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نانی کو گھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس کی بات بھی کوئی نہیں ٹالتا، لہٰذانانی کو چاہیے کہ نواسے، نواسیوں کے درمیان باہمی محبت کی فضا قائم رکھنے میں ہمیشہ اپنا کردار ادا کرتی رہے، تاکہ ان کے درمیان خوشی ومحبت کی شمع سدا جلتی رہے۔

· نواسے، نواسیوں سے شفقت و نرمی بھرے انداز میں باتیں کرے اور اسی لہجے میں باتیں کرنا سکھائے تا کہ وہ اسی لہجے میں بات کرنے کے عادی ہو جائیں۔

· غیبت حرام اور جہنم میں لے جا نے والا کام ہے۔ قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں اس کی سخت مذمت کی گئی ہے، امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہمُ العالیہ فرماتے ہیں:جس طرح بچے کے ساتھ جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں،اسی طرح اس کی غیبت کی بھی ممانعت ہے۔خواہ ایک ہی دن کا بچہ ہو،بِلا مصلَحتِ شرعی اس کی بھی برائی بیان نہ کی جائے۔ ماں باپ اور گھر کے دیگر افراد کیلئے لمحہ فکریہ ہے، ان کو چاہئے کہ بِلا ضرورت اپنے بچوں کو پیچھے سے (اور منہ پر بھی) ضدی،شرارتی،ماں باپ کا نافرمان وغیرہ نہ کہا کریں۔(2)لہٰذا نانی کو چاہئے کہ وہ کبھی بھی اپنے نواسے، نواسیوں کی یا ان کے سامنے کسی بھی مسلمان خصوصاً ان کے والدین کی بُرائی نہ کرے، کیونکہ اس کے کئی نقصانات ظاہر ہو سکتے ہیں مثلاً نواسے، نواسیوں کے دل میں نانی کی اہمیت کم ہو جائے گی، ان کے دل میں اپنے والدین کی نفرت و بیزاری پیدا ہوگی، وہ غیبت کرنا سیکھ جائیں گے وغیرہ۔

· جو کام نرمی سے ہوسکتا ہے اس کام میں سختی دکھانا ہر گز عقلمندی نہیں، لہٰذا اگر نواسے، نواسیاں نانی کے سامنے کوئی برا کام کریں مثلاً کسی کی پیٹھ پیچھے برائی کریں، جھوٹ بولیں، کسی کا نقصان کر دیں، بغیر پوچھے کسی کی چیز اٹھا لیں، کسی کا نام بگاڑیں، کسی کو گالی دیں، کسی کو دھکا دیں وغیرہ تو نانی کو چاہئے کہ وہ ان پرزور زور سے چلانے، انہیں لعنت و ملامت کرنے اور بد دعائیں دینے کے بجائے انہیں سمجھائے کہ بیٹا! تھوڑا سوچئے! اگر یہی سلوک کوئی آپ کے ساتھ بھی کرے تو آپ کو کیسا لگے گا؟ اس طرح انہیں اپنے کئے پر شرمندگی ہو گی اور آئندہ وہ ان حرکتوں سے باز رہیں گے۔

· ہر معاملے میں نواسے، نواسیوں میں برابری والا سلوک کرے، حتی کہ عیدین و دیگر خوشی کے مواقع پر ان میں تحائف بھی برابری کی بنیاد پر تقسیم کرے، تاکہ کوئی بھی بچہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہو نہ اس کے والدین کے دل میں کوئی میل آئے ۔

· اگر نواسے، نواسیاں تنگ کریں تو انہیں جھڑکنے، ڈاٹنے اور ذلیل کرنے کے بجائے پیار و محبت سے سمجھائے یا ان کا دھیان کسی اور جانب کر دے کیونکہ ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے ان کے احساسات مجروح ہو سکتے ہیں۔

· نواسے، نواسیاں آپس میں لڑ پڑیں تو نانی کو چاہیے کہ وہ تماشائی کا کردار نبھانے اور لڑائی کی آگ کو مزید بھڑکانے کے بجائے معاملہ ان کے والدین تک پہنچنے کا انتظار نہ کرے، بلکہ پہلے ہی آگے بڑھ کر صلح صفائی کرا دے، جب دیکھے کہ معاملہ ٹھنڈا ہو چکا ہے تو انہیں پیار محبت سے مل جل کر رہنے کا درس دے اور لڑائی جھگڑوں کے نقصانات سے آگاہ کرے۔

· نانی زندگی کے کئی نشیب و فراز دیکھ چکی ہوتی ہے اور تجربے میں بھی گھر کے سب افراد سے فائق ہوتی ہے لہٰذا نانی کو چاہئے کہ وہ وقتاً فوقتاً اپنے نواسے، نواسیوں کو اپنے ذاتی تجربات سے آگاہ کیا کرے کہ یہ تجربات انہیں زندگی کے ہر موڑ پر فائدہ دیں گے۔

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)



[i] معجم کبیر،4/155،حدیث:3990ملتقطاً 2غیبت کی تباہ کاریاں،ص 52


اکثر والدین کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ بہت ضدی ہو گیا ہے،  بات نہیں مانتا، بد تمیزی کرتا ہے، اپنی من مانی کرتا ہے وغیرہ۔ یاد رہے! بچے کا ضدی ہونا کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کا حل ممکن نہ ہو۔ کیونکہ یہ کوئی پیدائشی بیماری نہیں کہ بچے پیدا ہوتے ہی ضدی ہوں، بلکہ ان کے ضدی ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ بچوں کی تربیت چونکہ کسی مہارت سے کم نہیں لہٰذا والدین پر لازم ہے کہ ان تمام عوامل پر گہری نظر رکھیں جو بچے کو ضدی بناتے ہیں۔ چنانچہ والدین کی خیر خواہی کی نیت سے ذیل میں ایسی ہی چند باتوں کا ذکر جا رہا ہے، امید ہے انہیں پیش نظر رکھنے سے وہ بچوں کے ضدی ہونے کی وجوہات کے علاوہ ان کے حل بھی جان لیں گے۔

بچے کے غصے میں ہونے کی علامات

بچے عموماً غصے کی حالت میں ضد کرتے ہیں، لہٰذا سب سے پہلے وہ علامات جاننا ضروری ہیں جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ بچہ اس وقت غصے میں ہے۔ چنانچہ جب بچہ غصے کی حالت میں ہو تو ٭اکثر بلند آواز سے روتا ہے تا کہ اس کی طرف توجہ دی جائے ٭پیروں کو زمین پر مارتا ہے ٭سر اور ہاتھوں کو دیوار پر مارتا ہے ٭آس پاس کی چیزوں کو لاتیں مارتا ہے ٭بڑوں سے بد تمیزی کرتا ہے٭بغیر کسی وجہ کے دانتوں سے کاٹنے لگتا ہے ٭کھلونے وغیرہ توڑنے لگتا ہے ٭ہاتھ میں جو بھی چیز آئے اٹھا کر پھینک دیتا ہے۔

ضدی پن کے اسباب و وجوہات اور ان کا علاج

بے جا روک ٹوک: بچوں کو ہر وقت کسی نہ کسی کام یا بات سے روکتے رہنا انہیں ضدی و ڈھیٹ بنا دیتا ہے۔

علاج: بچوں کو ہر وقت ٹوکنے و منع کرنے کے بجائے انہیں جس کام سے منع کر رہے ہیں اس کے نقصان دہ ہونے کے متعلق سمجھائیں۔ مثلاً بچہ بار بار گرم برتن کو چھونے کی کوشش کرے تو اسے بار بار نہ ٹوکیں، بلکہ یہ سمجھائیں اور احساس دلائیں کہ گرم چیزوں کو چھونا کس قدر نقصان دہ ہے! آپ کا یہ احساس بیدار کرنا اسے ہمیشہ کے لئے ہر گرم شے کو چھوتے ہوئے احتیاط کا دامن تھامنا سکھا دے گا۔ ان شاء اللہ

بے جا تفتیش: بچے جب بھی کوئی کام کریں تو ان کی پوچھ گچھ شروع کر دی جائے کہ انہوں نے یہ کام کیوں کیا! یا انہیں ڈانٹا ڈپٹا جائے تو بسا اوقات ان میں ضد کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔

علاج: بچوں کو ہر وقت بے جا تفتیش کے کٹہرے میں کھڑا رکھیں نہ ان سے سختی سے پیش آئیں کہ بلا وجہ سختی برداشت کرنے والے بچے بڑے ہو کر احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں، ان میں خود اعتمادی نہیں رہتی اور انہیں ہر وقت یہی خوف رہتا ہے کہ وہ کچھ غلط کر رہے ہیں۔ چنانچہ اگر ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو نرمی سے اس غلطی کا ازالہ کریں اور اپنے اور بچوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم کرنے کوشش کریں تاکہ وہ اپنی ہر بات آپ کے ساتھ شئیر کر سکیں۔

بے جا لاڈ پیارخواہشات کی تکمیل: اکثر والدین بچوں سے بے جا لاڈ پیار کرتے ہیں اور بچہ بھی فطری طور پر والدین کے ساتھ اٹیچ ہوتا ہے، مگر جب وہ کسی موقع پر اس وہم کا شکار ہو جائے کہ اس کے والدین کی توجہ کا مرکز کوئی اور ہے یعنی وہ کسی اور بچے سے لاڈ پیار کریں تو یہ برداشت نہیں کر پاتا اور لاشعوری طور پر ضد کرنے لگتا ہے۔اسی طرح بچوں کی ہر خواہش پوری کرنے والے والدین اگر کبھی کوئی خواہش پوری نہ کر پائیں یعنی بچے ایسی خواہش کا اظہار کر دیں جو بر وقت پوری نہ ہو سکتی ہو یا ان کے لئے نقصان دہ ہو تو وہ یوں بھی ضدی ہونے لگتے ہیں۔ مثلاً ایک حکایت میں ہے کہ ایک بادشاہ کے یہاں بیٹا نہیں تھا۔ اس نے اپنے وزیر سے کہا: بھئی کبھی اپنے بیٹے کولے آنا۔ اگلے دن وزیر اپنے بیٹے کو لے کر آیا، بادشاہ نے اسے دیکھا اور پیار کرنے لگا، پھر بادشاہ نے کہا: اچھا بچے کو آج کے بعد رونے مت دینا۔ اس نے عرض کی: بادشاہ سلامت! اس کی ہر بات کیسے پوری کی جائے؟ بادشاہ نے کہا: اس میں کون سی بات ہے؟ میں سب کو کہہ دیتا ہوں کہ بچے کو جس چیز کی ضرورت ہو اسے پورا کر دیا جائے اور اسے رونے نہ دیا جائے۔ وزیر نے کہا: ٹھیک ہے۔ پھر بچے کی خواہش پر ایک ہاتھی لایا گیا، جس سے وہ تھوڑی دیر کھیلتا رہا لیکن بعد میں رونا شروع کر دیا، بادشاہ نے پوچھا: اب کیوں رو رہے ہو؟ اس نے سوئی کے ساتھ کھیلنے کی خواہش ظاہر کی، سوئی پیش کر دی گئی، مگر تھوڑی دیر کے بعد اس نے پھر رونا شروع کر دیا، بادشاہ نے کہا: ارے! اب کیوں رو رہا ہے؟ تو وہ کہنے لگا: جی! اس ہاتھی کو سوئی کے سوراخ میں سے گزار دیں۔

علاج: والدین اگرچہ بچوں سے حد درجہ مخلص ہوتے ہیں، مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس انمول رشتے کو مزید با اعتماد بنانے کے لیے بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کیا جائے، فی زمانہ سوشل میڈیا کی زبان میں یہ رویہ فرینڈلی ہو فرینکلی نہ ہو یعنی رویہ دوستانہ ہو مگر اس میں بے تکلفی نہ ہو۔ چنانچہ بچے کی ہر جائز خواہش اور مطالبہ ضرور پورا کریں۔ لیکن اگر بچہ کسی کوئی نقصان دہ چیز مانگے یا وہ مہنگی ہو یا اس کے لیے موزوں نہ ہو تو بچے کو اس شے کے متبادل پر راضی کرنے کی کوشش کریں، اس سے بچے کی ضد ختم کرنے میں بہت مدد ملے گی۔

باہمی موازنہ کرنا یا یکساں سلوک کا نہ ہونا:بچے کا اپنے بہن بھائی یا دوسرے بچوں سے موازنہ کرتے رہنا یا بچوں میں یکساں سلوک نہ رکھنا اور ان میں سے بعض کو بعض پر ترجیح دینا بھی ان کو ضدی بنا دیتا ہے۔

علاج:جو بچے یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے انصاف نہیں کیا جا رہا وہ احساسِ کمتری کا شکار ہو کر اندر ہی اندر ہی کڑھتے رہتے ہیں یا پھر احتجاج کا راستہ اپناتے ہوئے غصے کا اظہار کرنے لگتے ہیں، چنانچہ والدین کو چاہئے کہ ان امور کا خیال رکھیں اور بچوں کو کبھی بھی احساسِ کمتری کا شکار نہ ہونے دیں۔

بچے دوسروں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں: بسا اوقات گھر میں کوئی ایسا فرد بھی ہوتا ہے کہ جس کے رویہ کا بچے پہ اثر پڑتا ہے جیسے کوئی غصے کا تیز ہے یا پھر ضدی ہے تو اس کے دیکھا دیکھی بچہ بھی اس رویہ کو اپنا لیتا ہے۔

علاج:ماحول کا بچے پہ گہرا اثر پڑتا ہے، ایک اچھا ماحول ہی بچے کی مثالی تربیت میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

محسوسات کا اظہار نہ کر پانا: بسا اوقات بچوں کو ایسے معاملات کا سامنا ہوتا ہے جن کا وہ مناسب انداز میں اظہار نہیں کر پاتے تو ان میں چڑ چڑا پن اور ضد کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، مثلاً نیند آنا، بھوک محسوس کرنا یا سردی و گرمی لگنا وغیرہ۔ گرمی کی وجہ سے بچوں میں یہ کیفیت اکثر دیکھی گئی ہے۔

علاج:3بچے کو اٹھا کر سینے سے لگا لیں اور یونہی کچھ دیر مضبوطی سے تھامے رکھیں یا پھر اس سے بات چیت کریں۔ مگر اس حالت میں بچے کو بالکل نظر انداز نہ کریں۔ 3اس حالت میں بچے کی تعریف کریں، اس کی اچھائیاں بیان کریں۔ 3ایسی حالت میں بچے کا پہلے سکون سے جائزہ لیں اور اس کی ضد کی وجہ جاننے کی کوشش کریں مگر اس کے ساتھ کوئی سختی مت برتیں۔ 3 بچے کی بوریت دور کرنے کے لئے ہر وقت اس کا ایک آدھ پسندیدہ کھلونا اپنے پاس یا قریب ہی رکھیں۔


(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)


یقیناًآزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اللہ پاک نے بھی نعمت ملنے پر خوشی منانے کا حکم دیا ہے، لہٰذا 14 اگست 1947ء بمطابق 27 رمضان المبارک 1366ہجری کے جس مبارک دن ہمارا پیارا وطن پاکستان آزاد ہوا ہمیں اِس دن خوشیاں مناتے ہوئے اس بات کا بھی احساس رہنا چاہئے کہ جس مالکِ حقیقی نے ہمیں اس عظیم الشان نعمت سے نوازا ہے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہوئے اس کا شکر بھی بجا لایا جائے۔ مگر افسوس! ہمیں اسلامی تعلیمات یاد ہیں نہ قیامِ پاکستان کے مقاصد۔ حالانکہ یہ ملک مذہب کے نام پر بنا اور ایک آزاد ملک کی فضاؤں میں سانس لینے کی آرزو میں ہزاروں لاکھوں مسلمانوں نے مال و جان وغیرہ کی قربانیاں دیں، مگر افسوس! ہمیں کچھ بھی یاد نہیں۔

بحیثیت قوم ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس دن ہم اپنے محسنوں کو یاد کر کے کم از کم انہیں خراجِ عقیدت ہی پیش کر دیتے مگر افسوس! ہماری حالت یہ ہے کہ 13 اگست کو سرشام ہی یہ انتظار کرنے لگتے ہیں کہ کب رات کے 12 بجیں اور جشنِ آزادی کے نام پر کان پھاڑ دینے والے جدید ترین ساؤنڈ سسٹم کے ذریعے بے ہنگم موسیقی بجانے، ہوائی فائرنگ و آتش بازی کرنے اور بم پٹاخے پھوڑنے جیسی خرافات کا سلسلہ شروع ہو۔ حالانکہ ان خرافات کے سبب نزدیک رہنے والے مریضوں، بوڑھوں اور گھریلو خواتین کو رات بھر سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چھوٹے بچے خوف سے کانپ جاتے ہیں، شیر خوار بچے ہڑ بڑا کر اُٹھ جاتے اور رو رو کر بُرا حال کر لیتے ہیں۔

پھر اسی پر بس نہیں ہوتی بلکہ سڑکوں پر ہلڑ بازی کی جاتی ہے، موٹر سائیکل یا کار کے سائلنسر نکال دئیے جاتے ہیں جن سے نکلنے والی مکروہ آواز سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، تفریحی مقامات پر رش بڑھ جاتا ہے جہاں مردوں اور عورتوں کے بدن آپس میں ٹکرا رہے ہوتے ہیں، بد نگاہیاں اور بے حیائیاں اپنے عروج پر ہوتی ہیں، اجنبی لڑکے لڑکیوں میں میل ملاپ اور تحفے تحائف کا لین دین کا سلسلہ ہوتا ہے، اپنے تئیں جدید تہذیب کی کئی خواتین تنگ اور نیم عریاں لباس پہن کر مردوں کے شانہ بشانہ اس گناہ میں خود بھی شریک ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعات بھی رونما ہو جاتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ سال جشنِ آزادی کے موقع پر مینارِ پاکستان پر ایسا ہی ایک نہایت دلخراش واقعہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل بھی ہوا تھا۔ اس واقعے سے پوری دنیا میں جہاں ہمارے پاک وطن کی جگ ہنسائی ہوئی وہیں ہمارے اسلاف کی ارواح کو بھی تکلیف ہوئی ہو گی کہ جس وطن کی خاطر انہوں نے قربانیاں دی تھیں آج اسی وطن کی بہو بیٹیاں یوں سر عام لوگوں کو دعوتِ نظارہ دیتی پھر رہی ہیں۔ ان اشعار میں شاید آج ہی کے معاشرے کی عکاسی کی گئی ہے:

ہر کوئی مست مئے ذوقِ تنِ آسانی ہے

تم مسلماں ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے

حیدری فقر ہے،نے دولتِ عثمانی ہے

تم کو کیا اسلاف سے نسبت روحانی ہے

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

جشن آزادی کی خوشی میں کیا کرنا چاہئے؟٭اس دن اللہ پاک کے حضور سجدہ ریز ہوا جائے اور اس کا شکر بجا لایا جائے کہ اس نے ہمیں غلامی سے نجات اور آزادی کی نعمت عطا فرمائی ٭تحریکِ آزادی میں شامل علمائے اہلِ سنت اور شہدائے کرام کے ایصالِ ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کا اہتمام کیا جائے ٭ شکرانے کے نفل ادا کئے جائیں ٭صدقہ و خیرات کیا جائے ٭قرآن خوانی کا اہتمام کیا جائے ٭محارم رشتے داروں، سہیلیوں اور پڑوسنوں کو مبارک باد اور تحائف پیش کئے جائیں ٭قیامِ پاکستان کے مقاصد کو اجاگر کیا جائے ٭اپنے گھر، مدرسے اور جامعہ پر سبز ہلالی پرچم لہرایا جائے اور دوسرے دن اتار لیا جائے تاکہ اس کا تقدس برقرار رہے ٭ملکِ پاکستان کی بقا و خوش حالی کے لئے خصوصی دعائیں کی جائیں Pوطن کی حفاظت کے لئے اپنے تن، من، دھن کی قربانی دینے کے جذبے کا اظہار کیا جائےPصرف ایسی نظمیں پڑھی اور سنی جائیں جو موسیقی اور غیر شرعی الفاظ سے پاک ہوں ٭اس دن ہونے والی خرافات سے خود بھی بچا جائے اور اپنی اولاد کو بھی بچایا جائے٭ٹی وی اور سوشل میڈیا جشنِ آزادی کی خرافات کو پھیلانے کا بھی ذریعہ ہے اور بچنے کا بھی، لہٰذا جشنِ آزادی کی خرافات سے بچنے کیلئے اس دن صرف اور صرف مدنی چینل ہی دیکھئے٭دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.net کا وزٹ کیجئے یا سوشل میڈیا پر بنے دعوتِ اسلامی کے مختلف آفیشل یوٹیوب چینلز اور معلوماتی پیجز کا وزٹ کیجئے۔

یاد رکھئے! معاشرتی برائیوں کو روکنا جس طرح مردوں پر لازم ہے اسی طرح خواتین پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے اپنے منصب و حیثیت کے مطابق معاشرے میں رائج برائیوں کا خاتمہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ جس طرح پاکستان بنانے میں خواتین نے بھر پور کردار ادا کیا تھا اسی طرح پاکستان بچانے میں بھی خواتین کو کردار ادا کرنا ہو گا۔

اپنے بچوں کی اچھی تربیت کر کے تقریباتِ جشنِ آزادی کی خرافات کی روک تھام کے لئے خواتین اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، لہٰذا خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کی اس حسین انداز میں تربیت کریں کہ آگے چل کر وہ دیگر معاشرتی برائیوں سمیت جشنِ آزادی پر ہونے والی خرافات سے دور رہے۔ اس ضمن میں چند معاون گزارشات پیشِ خدمت ہیں:

(1)بچپن سے ہی اپنے بچوں کی تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق کیجئے تا کہ بڑے ہوں تو یہ اسلام کے شیدائی بن کر معاشرتی برائیوں کا سد ِّباب کر سکیں۔

(2)بچوں کو اپنے اسلاف کی قربانیوں کے بارے میں بتائیے تاکہ ان میں ملک کی خدمت کرنے کا جذبہ صحیح معنوں میں پیدا ہو سکے۔

(3)گھر میں دینی ماحول بنائیے، کیونکہ جب گھر کا ماحول دینی ہو گا تو ہمارا معاشرہ بہتری کی جانب گامزن ہو سکتا ہے، اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ روزانہ گھر میں کم سے کم ایک گھنٹہ 20منٹ مدنی چینل چلائیے تا کہ آپ کے بچوں کا رحجان دین کی طرف بڑھے۔

(4)بچوں کو قیامِ پاکستان کا اصل مقصد بتائیے۔

(5)بچیوں کو پردہ کرنے کی ترغیب دینے سے پہلے خود پر پردہ نافذ کیجئے، کیونکہ بچے اپنے بڑوں کو جو کرتا دیکھتے ہیں وہ بھی ویسا ہی کرتے ہیں۔

(6)اپنے بچوں کو ایسی چیزیں خرید کر ہی نہ دیجئے جن سے جشنِ آزادی میں ہونے والی خرافات جنم لیں مثلاً باجے وغیرہ۔

(7)بچوں کو ایسے کاموں کی بھی ہر گز اجازت مت دیجئے جن سے دوسروں کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ جیسے موٹر سائیکل سے سائلنسر نکالنا۔

اللہ پاک ہمارے حالوں پر رحم فرمائے، ہمیں اپنے وطن کی قدر کرنے کی توفیق عطا کرے اور ہمارے وطن کو صبحِ قیامت تک سلامت رکھے اور اسے اسلام کا قلعہ بنائے۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)


جب  تک انسان صحت مند رہتا ہے یا اس کے پاس طرح طرح کی نعمتیں ہوتی ہیں تو کیا اپنے اور کیا غیر سبھی اس کے گن گاتے اور اس کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں، لیکن جیسے ہی اس پر کوئی مصیبت و آزمائش آ جاتی ہے یا وہ کسی موذی مرض کا شکار ہوتا ہے تو وہی لوگ اسے بے یار و مدد گار چھوڑ کر کسی بھولی بِسری چیز کی طرح بھلا دیتے ہیں، حتی کہ وہ بیوی جس کی ہر فرمائش اس نے پوری کی تھی اور اس کے ناز نخرے برداشت کئے تھے، وہ بھی اپنا ساز و سامان اُٹھا کر ہمیشہ کے لئے اسے داغِ مفارقت دے جاتی ہے۔ لیکن قربان جائیے! حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ محترمہ پر! جو تاریخ ِ انسانی کی وہ عظیم ترین خاتون ہیں جنہوں نے وفا شعاری کی اعلیٰ مثال قائم کی، یوں کہ مال و اولاد کی محرومی پر صبر کیا، شوہر پر آنے والی مصیبتوں کو بڑے صبر اور ہمت و حوصلے سے برداشت کیا، مصیبت کی اس گھڑی میں انہیں تنہا چھوڑنے کے بجائے 18 سال کا طویل عرصہ ان کا ساتھ نبھایا اور ہر دکھ درد میں اپنے شوہر کے شانہ بشانہ رہیں، جس کے صلے میں ربِّ کریم نے انہیں اپنی نعمتوں اور خاص رحمت سے سرفراز فرمایا۔

مختصر تعارف: اللہ پاک کے صابر و شاکر پیغمبر حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کے نام میں مورخین و مفسرین کا اختلاف ہے، البتہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ آپ حضرت یوسف علیہ السلام کی پوتی تھیں ([1])جو شکل و صورت میں حضرت یوسف علیہ السلام سے بہت زیادہ مشابہ تھیں۔(2)

اِزدواجی زندگی:حضرت ایوب علیہ السلام نے 30 سال کی عمر میں آپ سے شادی فرمائی۔(3)اللہ پاک نے آپ کو 7 بیٹوں اور7 بیٹیوں سے نوازا تھا جو حضرت ایوب علیہ السلام پر آنے والی آزمائش کے دوران وفات پاگئے تھے،جب ان کی آزمائش ختم ہوئی تو اللہ پاک نے انہیں دوبارہ اتنے ہی بیٹے اور بیٹیاں عطا فرمائیں(یعنی آپ کو ٹوٹل 28 بیٹے بیٹیاں عطا ہوئے تھے۔)(4)

اوصاف:آپ حضرت ایوب علیہ السلام کو پہنچنے والی آزمائش میں ان کے ساتھ صبر و شکر کے ساتھ رہیں، ان کے لئے کھانا تیار کرتیں اور ربِّ کریم کی حمد و ثنا بجا لاتی تھیں۔(5)نیز آپ نہایت عبادت گزار خاتون تھیں۔(6)

فضلِ خداوندی: حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: حضرت ایوب علیہ السّلام کی بیماری کے بعد ربِّ کریم نے آپ کی بیوی صاحبہ رحمت کو جوانی و صحت بخشی، اولاد بہت عطا کی، مال اندازے سے بھی زیادہ عطا فرمایا۔(7)

شرعی مسئلے کا ثبوت: مفسرینِ کرام فرماتے ہیں:بیماری کے زمانے میں حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ ایک بار کہیں کام سے گئیں تو دیر سے خدمت میں حاضر ہوئیں، چونکہ آپ تکلیف و کمزوری کی وجہ سے بہت سے کام خود نہ کر پاتے تھے اور زوجہ ہی مدد گار تھیں تو زوجہ کی غیر موجودگی میں غالباً سخت آزمائش کا معاملہ آیا جس سے بے قرار ہو کر آپ نے قسم کھائی کہ میں تندرست ہو کر تمہیں سو کوڑے ماروں گا۔ جب حضرت ایوب علیہ السلام صحت یاب ہوئے تو اللہ پاک نے حکم دیا کہ آپ انہیں جھاڑو مار دیں اور اپنی قسم نہ توڑیں، لہٰذا انہوں نے سو تیلیوں والا ایک جھاڑو لے کر اپنی زوجہ کو ایک ہی بار مار دیا۔(8)اس کا ذکر قرآنِ کریم میں یوں ہوا ہے: وَ خُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْ١ؕ(پ23،صٓ:44)ترجمہ:اور(فرمایا)اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے مار دو اور قسم نہ توڑو۔ جبکہ ایک روایت میں حضرت سعید بن مسیّب رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: مجھے یہ روایت پہنچی ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام نے اپنی بیوی کو سو چھڑی مارنے کی قسم کھائی کہ بیوی محنت سے روٹی مہیا کرتی تھیں، ایک روز اس نے زائد روٹی آپ کی خدمت میں پیش کی جس پر آپ کو خطرہ محسوس ہوا کہ ہو سکتا ہے یہ زائد خوراک کسی کے مال میں خیانت کر کے لائی ہیں، تو جب اﷲ پاک کی طرف سے آپ پر خاص رحمت کے ذریعے تکلیف کی شدت ختم ہوئی اور بیوی کے متعلق جو آپ کو شبہ تھا اس کی برأت معلوم ہوئی تو اﷲ پاک نے فرمایا: آپ ایک مُٹّھا(گُچھا) لے کر اپنے ہاتھ سے اس کو مار دیں اور قسم نہ توڑیں۔ (پ23،صٓ:44)تو آپ نے شاخوں کا ایک مُٹّھا (گُچھا)جو سو چھڑیوں کا مجموعہ تھا، لے کر اللہ پاک کے حکم کے مطابق بیوی کو مارا۔ (9)

اس واقعے سے علمائے کرام نے حیلہ شرعی کا جواز ثابت کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ جو حیلہ کسی کا حق مارنے یا اس میں شبہ پیدا کرنے یا باطل سے فریب دینے کے لئے کیا جائے وہ مکروہ ہے اور جو حیلہ اس لئے کیا جائے کہ آدمی حرام سے بچ جائے يا حلال کو حاصل کر لے وہ اچھا ہے۔ اس قسم کے حیلوں کے جائز ہونے کی دلیل مذکورہ واقعہ ہی ہے۔ (10)

حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ پر رحمت اورتخفیف کا سبب: مفسرِ قرآن ابو سعود محمد آفندی رحمۃُ اللہِ علیہ کے مطابق حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ پر اس رحمت اورتخفیف کا سبب یہ ہے کہ بیماری کے زمانے میں انہوں نے اپنے شوہر کی بہت اچھی طرح خدمت کی اور آپ کے شوہر آپ سے راضی ہوئے تو اس کی برکت سے اللہ کریم نے آپ پر یہ آسانی فرمائی۔(11)

وصال: آپ حضرت ایوب علیہ السلام کی حیاتِ طیبہ میں ہی انتقال کر گئی تھیں، جبکہ ایک قول کے مطابق آپ حضرت ایوب علیہ السلام کے وصال کے بعد کچھ عرصہ حیات رہیں اور بعدِ وصال ملکِ شام میں آپ کو دفن کیا گیا۔(12)

زوجۂ ایوب کی سیرت سے حاصل ہونے والے نکات:

· اللہ پاک کی نیک بندیاں مصیبتوں اور تکلیفوں سے گھبراتی نہیں بلکہ ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں۔

· اپنے کسی عمل سے بے صبری کا اظہار نہیں کرتیں۔

· لمبا عرصہ آزمائش میں گھرے رہنے کے باوجود بھی ان کی زبانیں شکوہ شکایات کی آلودگی سے آلودہ نہیں ہوتیں۔

· یہ خوش حالی اور آزمائش ہر حال میں اپنے رب کی رضا پر راضی رہتیں اور صبر و شکر کا دامن نہیں چھوڑتیں۔

· ان کے شوہر کیسی ہی سخت ترین بیماری میں مبتلا ہو جائیں، ان کا اللہ پاک کی ذات پر بھروسا کمزور نہیں ہوتا۔

· وہ شوہر کی خدمت گزاری میں کمی بھی نہیں آنے دیتیں بلکہ اپنے اس عظیم محسن کا مضبوط سہارا بن کر آخری دم تک ان کا ساتھ نبھاتی ہیں۔

· اللہ پاک شوہر کی اطاعت و خدمت گزار بیوی سے راضی ہو کر اسے دنیا کے اندر ہی بے پناہ نعمتوں اور خاص فضل و کرم سے نوازتا ہے۔

اللہ کریم تمام عورتوں خصوصاً شادی شدہ خواتین کو ان پاکیزہ ہستیوں کا صدقہ نصیب فرمائے۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)


[1] عجائب القرآن مع غرائب القرآن،ص181 2 نہایۃ الارب،13/135 3 نہایۃ الارب،13/135 4 تفسیر قرطبی،6/188 5 تفسیر کبیر،8/ 173 6 نہایۃ الارب،13/135 7 مراۃ المناجیح،7/575 8 تفسیر بیضاوی،5/49 9 تفسیر در منثور،7/195 0 فتاویٰ ہندیۃ،6/390 A تفسیرابو سعود،4/444ملخصاً B الروضۃ الفیحاء،ص71


راہِ خدا میں خرچ

Thu, 18 Aug , 2022
1 year ago

ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ایک لاکھ درہم بھیجے تو آپ نے اسی دن وہ سب قریبی رشتے داروں اور فقیروں میں تقسیم فرما دئیے۔ یہاں تک کہ شام کے کھانے کے لئے بھی کچھ نہ بچایا حالانکہ اس دن آپ خود روزے سے تھیں۔ جب خادمہ نے عرض کی کہ اگر ایک درہم ہی بچا لیتیں تو اچھا ہوتا! تو اس کی دل جوئی کے لئے ارشاد فرمایا: یاد نہیں رہا، اگر یاد آ جاتا تو بچا لیتی۔([1])

راہِ خدا میں خرچ کرنا چونکہ دنیا و آخرت میں نجات اور برکات کا ذریعہ ہے، لہٰذا ہماری بزرگ خواتین کا معمول تھا کہ راہِ خدا میں خوش دلی سے خرچ کر کے اللہ پاک کی خوب رضا حاصل کرتیں۔ جیسا کہ مذکورہ واقعے سے معلوم ہو رہا ہے کہ ہماری بزرگ خواتین راہِ خدا میں مال خرچ کرتیں تو اپنے ذاتی اخراجات کی بھی فکر نہ کرتیں کیونکہ ان کا اللہ پاک پر یقین کامل تھا، نیز وہ توکل کے اعلیٰ مرتبے پر ہی فائز نہ تھیں بلکہ وہ بخوبی جانتی تھیں کہ راہِ خدا میں خرچ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا بلکہ بڑھتا ہے۔ جیسا کہ فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے: صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا۔(2)

اس حوالے سے ہمارا جذبہ اگرچہ بزرگ خواتین جیسا تو نہیں مگر ہم کم از کم اتنا تو کر سکتی ہیں کہ جتنی استطاعت ہو اس کے مطابق ہی راہِ خدا میں خرچ کرنے کی عادت بنا لیں۔ الحمد للہ! دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول میں ایسی بہت سی خوش نصیب اسلامی بہنیں ہیں کہ جب ان سے راہِ خدا میں خرچ کرنے کا کہا گیا تو انہوں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے زیورات تک دے دیئے، بعضوں نے اپنی برسوں کی جمع پونجی راہِ خدا میں دے دی، اللہ پاک انہیں اس کی جزا ضرور عطا فرمائے گا یہ اس کا وعدہ ہے۔ جیسا کہ اس کا ارشاد ہے:وَ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهٗ١ۚ وَ هُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ0(پ22،السبا:39)ترجمۂ کنز العرفان: تم فرماؤ: اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے میں اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

ایک روایت میں ہے: روزانہ دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک دعا مانگتا ہے: یا اللہ! خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما دے۔ جبکہ دوسرا یوں عرض کرتا ہے: بخل کرنے والے کو برباد کر دے۔(3) نیز خرچ کی قدرت ہونے کے باوجود صدقہ و خیرات سے ہاتھ روک لینا ربِ کریم کی طرف سے ملنے والی نعمتوں سے محرومی کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نے مجھ سے فرمایا: خرچ کرنے کے معاملے میں ہاتھ نہ روکو ورنہ تم سے بھی روک لیا جائے گا۔(4) اس لئے ہمیں چاہئے کہ خوش دلی کے ساتھ حسبِ توفیق راہِ خدا میں مال خرچ کرتی رہیں اور اگر زیادہ مقدار میں خرچ کرنے کی استطاعت نہ ہو تب بھی شیطان کے بہکاوے میں آکر تھوڑے مال کو کم سمجھتے ہوئے راہِ خدا میں خرچ کرنے سے محروم نہ ہوں۔ کیونکہ اللہ پاک ہماری نیتوں کو ملاحظہ فرماتا ہے، اس لئے کہ کسی کی اچھی نیت کی وجہ سے اس کا تھوڑا مال ہی بارگاہِ الٰہی میں قبول ہو جاتا ہے اور کسی کی بری نیت کی بنا پر اس کے لاکھوں روپے بھی قبول نہیں ہو پاتے۔ جیسا کہ غزوہ تبوک کے موقع پر ایک صحابی کو دن بھر کی مزدوری میں دو صاع کھجوریں ملیں، انہوں نے نصف گھر والوں کو دیں اور باقی نصف کھجوریں لے کر جب بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو حضور نے اپنے اس جاں نثار صحابی کے خلوص کو قبول کرتے ہوئے ان کی لائی ہوئی کھجوروں کو تمام مالوں کے ڈھیر کے اوپر رکھ دیا۔(5)مگر اس شخص کا مال حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اللہ پاک کے حکم پر قبول نہ فرمایا کہ جس نے اپنے کثیر مال میں صدقہ و زکوٰۃ کی ادائیگی کو ٹیکس گمان کیا۔ حالانکہ وہ انتہائی مفلس تھا اور اسے یہ سارا مال حضور کی دعا کی برکت سے ہی حاصل ہوا تھا۔ پھر بعد میں وہ شخص خلافتِ صدیقی و فاروقی میں بھی مال لے کر آیا مگر ان دونوں ہستیوں میں سے بھی کسی نے قبول نہ کیا اور آخر کار یہ شخص خلافتِ عثمانی میں ہلاک ہو گیا۔ (6)

یہ بھی یاد رکھئے کہ غریبوں کی مدد کرنا اگرچہ راہِ خدا میں خرچ کرنا ہی ہے تاہم پیشہ ور بھکاریوں پر خرچ کرنا اس میں داخل نہیں، ایسے لوگوں پر اپنا مال خرچ کرنا در حقیقت ان سے ہمدردی نہیں بلکہ بھیک مانگنے کے گناہ پر ان کی مدد ہے، لہٰذا ایسے بھکاریوں کے بجائے ان مستحق سفید پوش افراد پر اپنا مال خرچ کیجئے جو خود داری کے سبب کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے اور مستحقین کو جھڑکا بھی نہ جائے کہ اس کی اسلام میں سخت ممانعت ہے، اگر آپ کے رشتے داروں میں کوئی ضرورت مند ہیں تو پہلے ان کی معاونت کیجئے کہ حضور صلی اﷲ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا! اﷲ پاک اس شخص کے صدقہ کو قبول نہیں فرماتا، جس کے رشتے دار اس کے سلوک کے محتاج ہوں اور یہ غیروں کو دے، قسم ہے اس کی جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے! اللہ پاک اس کی طرف قیامت کے دن نظر نہ فرمائے گا۔(7) رشتے داروں میں بھی زیادہ افضل اس رشتے دار پر خرچ کرنا ہے جس سے ناراضی ہو کہ عموماً اسے دینے کا دل نہیں کرتا پھر بھی فقط رضائے الٰہی کیلئے دیں تو ان شاء اللہ اس پر زیادہ اجر ملے گا۔ جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے: سب سے افضل صدقہ وہ ہے جو کینہ پرور رشتے دار کو دیا جائے کیونکہ اسے صدقہ دینے میں صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی۔(8)

ہمیں خوب غور کر لینا چاہیے کہ ہمارا مال کہاں خرچ ہو رہا ہے؟ کہیں فضول اور بے مصرف کاموں میں تو نہیں ضائع ہو رہا؟ کیونکہ ہم میں کئی خواتین ضرورت سے زیادہ کپڑے، برتن اور گھر کے غیر ضروری سامان میں پانی کی طرح پیسہ بہاتی ہیں جو کہ کمائی کرنے والے پر بھی بہت بوجھ بنتا ہے اور مالی حوالے سے بھی تنگی اور پریشانی کا سامنا رہتا ہے اور بسا اوقات نوبت لڑائی جھگڑے تک جا پہنچتی ہے، نیز گھر میں اتنی وسعت بھی نہیں ہوتی کہ اتنا سامان رکھا جائے۔

اسی طرح اگر بعض خواتین میں کبھی صدقہ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا بھی ہے تو بعض اوقات وہ کسی ایسی خاتون یا فقیر کو دیدیتی ہیں جو مستحق ہی نہیں ہوتا یا پھر ایسے افراد پر خرچ کرتی ہیں جو بعد میں بھی اسی آسرے پر رہتے ہیں کہ کوئی انہیں کچھ دیدے اور یوں ان میں سوال کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے، چنانچہ یاد رکھئے! خرچ کرنے کے بھی آداب ہیں کہ کس پر خرچ کیا جائے اور کس پر نہیں۔ مثلاً قرآنِ کریم میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اپنے والدین، قریبی رشتہ داروں، یتیموں اور محتاجوں پر خرچ کریں۔(پ2، البقرۃ: 215)

اللہ پاک ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کےاگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)



[1]تفسیر کبیر،8/257 2مسلم، ص 1397، حديث:2588 3 بخاری،1/485،حدیث:1442 4 بخاری،1/483،حدیث:1433 5تفسیر خازن،2/ 265 6تفسیرمدارک، التوبۃ، تحت الآیۃ: 75، ص 446، ملتقطاً 7معجم اوسط، 6/296، حدیث: 8828 8مستدرک، 2/ 27، حدیث: 1515


اچار (قسط اول)

Thu, 18 Aug , 2022
1 year ago

تندرست و توانا رہنے کے لیے اچھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اچھی غذا وہ ہے جو متوازن ہو اور متوازن غذا وہ ہوتی ہے جس میں وہ تمام بنیادی اجزا مناسب مقدار میں موجود ہوں جن سے جسم کو حرارت اور طاقت ملتی ہے۔ کیونکہ یہ غذائی اجزا انسانی جسم کو طاقت و توانائی پہنچانے کے علاوہ جسم کو صحت مند رکھتے اور بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت بڑھاتے ہیں۔ کوئی بھی غذا جو انسانی جسم کے لیے مفید اور فعال کردار ادا کرتی ہے بسا اوقات وہ دو یا دو سے زیادہ غذائی اجزا کا مجموعہ یا مرکب ہوتی ہے۔ غذا کے بارے میں ہمارا اصول یہ ہونا چاہیے کہ ہم کھانے کے لیے زندہ نہ رہیں بلکہ زندہ رہنے کے لیے کھائیں اور ایسی غذائیں کھائیں جو غذائیت سے بھر پور ہوں۔ اچار کا شمار بھی انہی غذاؤں میں ہوتا ہے جن کا اہتمام زمانہ قدیم سے دنیا کے مختلف حصوں میں کیا جا رہا ہے۔

ماضی میں اچار بنانے کا رواج گھروں میں عام تھا، خواتین گھروں میں مختلف مصالحوں اور سبزیوں وغیرہ کا اچار بنایا کرتی تھیں، لیکن جب سے ٹیکنالوجی عام ہوئی ہے، اب مارکیٹ میں وافر مقدار میں مختلف اقسام کے اچار فروخت ہونے کی وجہ سے گھروں میں اچار بنانا کافی حد تک کم ہو گیا ہے۔

اچار کی مختلف اقسام: پہلے زمانے میں زیادہ تر آم کا اچار بنایا جاتا تھا،لیکن اب کئی قسم کی سبزیوں اور پھلوں کا اچار بھی تیار کیا جاتا ہے۔ مثلاً آم کا اچار، گاجر کا اچار، ہری مرچ کا اچار، لیموں کا اچار، کریلے کا اچار،لسوڑے کا اچار، فالسے کا اچار، لہسن کا اچار، ادرک کا اچار، کدو کا اچار، آملے کا اچار، کیری کا اچار، بند گوبھی کا اچار، زیتون کا اچار اور مختلف سبزیوں اور پھلوں کا مکس اچار وغیرہ، حتی کہ آج کل چکن کا اچار بھی تیار ہو رہا ہے۔

اچار میں استعمال ہونے والے چند اہم اجزا کے فوائد: اچار عموماً سرکہ یا سرسوں کے تیل میں تیار کیا جاتا ہے اور اس کی تیاری میں کئی مصالحہ جات مثلاً کلونجی، لال مرچ، سونف، میتھی دانہ، رائی دانہ، اجوائن، ہلدی اور نمک استعمال کیے جاتے ہیں۔ ذیل میں ان اجزا کے فوائد کا مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے:

سرکہ کے فوائد: سرکہ میں پروٹین اور نشاستہ (Starch)کی تھوڑی مقدار پائی جاتی ہے۔100گرام سرکہ میں صرف 16 کیلوریز ہوتی ہیں، اس کے علاوہ اس میں سوڈیم، کیلشیم، میگنیشیم، فاسفورس، آئرن، زنک اور کلورین بھی پائی جاتی ہے۔ سرکہ کی اہمیت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ایک روایت میں حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے سرکے کو بہترین سالن قرار دیا۔([1])

٭سرکہ ہاضمہ میں مفید ہے۔ ٭سرکہ ایسیڈک ایسڈ سے بھر پور ہوتا ہے جو جسم میں ہیمو گلوبن کو بڑھاتا ہے۔٭سرکہ جراثیم کش ہوتا ہے۔٭سرکے کو گرم کر کے اس سے کُلّی کرنے کے نتیجے میں دانتوں کا درد ختم اور مسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں۔نیز یہ منہ کی صفائی کے علاوہ سانس کی بو کو بھی ختم کرتا ہے۔٭غذائی ماہرین کے مطابق گوشت خور افراد کے لیے سرکے کا استعمال نہایت ضروری ہے، یہ گوشت کھانے کے نتیجے میں خون میں بڑھنے والے کولیسٹرول کے اخراج کا سبب بنتا ہے۔٭ سرکہ دل کی تمام بیماریوں کیلئے بھی نہایت مفید ہے۔٭غذائی ماہرین کے مطابق سرکہ کینسر کے لیے انسانی مدافعتی نظام میں مزاحمتی خلیات کی افزائش کرتا ہے، تحقیق کے مطابق سرکہ کینسر کے سیلز کو بھی ختم کرتا ہے۔

سرسوں کے تیل کے فوائد: ایک تحقیق کے مطابق سرسوں کا تیل دل کی صحت کے لیے مفید ہے، اس میں موجود مونو سیچوریٹڈ فیٹی ایسڈز جسم میں موجود نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح کو کم کرتے ہیں جبکہ خون میں چربی کی سطح مستحکم رکھ کر اس کی گردش میں مدد دیتے ہیں۔ سرسوں کا تیل بیکٹریا کش، فنگل کش اور وائرس کو دور رکھنے کی خصوصیات رکھتا ہے، اس کا استعمال موسمی انفیکشن سمیت نظام ہاضمہ کے انفیکشن کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔

کلونجی کے فوائد: حدیث پاک میں ہے: کلونجی میں موت کے سوا ہر مرض کا علاج ہے۔([2]) قدیم اطبا کلونجی اور اس کے بیج معدے اور پیٹ کے امراض مثلاً ریاح، گیس، آنتوں کا درد، نسیان، رعشہ، دماغی کمزوری اور فالج کے لیے استعمال کرتے تھے۔اس کے علاوہ کلونجی مختلف امراض مثلاً دمہ،کھانسی،الرجی، ذیابیطس (شوگر)وغیرہ میں مفید ہے۔کلونجی کو سرکے کے ساتھ ملا کر کھانے سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں۔

اجوائن کے فوائد: اجوائن مصالحہ نہ صرف بدہضمی، گیس اور ہاضمہ کے مسائل کم کرتا ہے بلکہ خون میں موجود چربی کی مقدار بھی کم کرتا ہے، پیچش اور امراضِ رحم میں مفید ہے، پیٹ کے کیڑوں کو ختم کرتی ہے، رگوں کے سدے کھولتی، ورموں کو تحلیل کرتی اور پیشاب و حیض کو جاری کرتی ہے۔

میتھی دانہ کے فوائد: میتھی دانے کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہے، کیونکہ اس میں بہت سے غذائی اجزا پائے جاتے ہیں۔ میتھی دانہ میں جو غذائی اجزا یا وٹامنز پائے جاتے ہیں ان میں فائبر، پروٹین، کاربوہائیڈریٹ، آئرن اور میگنیشیم شامل ہے۔ میتھی دانے کا استعمال خواتین کے لئے کئی اعتبار سے مفید ہے، مثلاً میتھی دانہ ماں کے دودھ کی پیداوار میں اضافہ کرتا اور ہر قسم کے درد بالخصوص ماہواری کے درد سے نجات دلاتا ہے۔ میتھی دانہ میں ورم کش خصوصیات پائی جاتی ہیں جو مؤثر طریقے سے جسمانی ورم میں کمی لاتی ہیں۔ میتھی دانہ کے استعمال سے آنتوں کی حرکت میں اضافہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ہاضمہ کے مسائل میں کمی آتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ دل کی جلن کو دور کرنے کے لیے بھی مفید ہے۔

سونف کے فوائد: سونف میں وٹامن اے اور سی بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے جس کے سبب اس کا استعمال بینائی کی حفاظت کرتا ہے، سونف پیٹ کے درد، قولنج (پسلی کے نیچے ہونے والے درد)، سینہ، جگر، گردہ اور تلی کے لئے مفید ہے، دماغ کی کمزوری اور ہاضمہ کی خرابی دور کرنے کیلئے بہترین دوا ہے، نیز یہ پیشاب اور حیض کو بھی جاری کرتی ہے۔

رائی دانہ کے فوائد: رائی کے بیج صحت کیلئے بہت مفید ہیں۔ ان میںglucosinolate پایا جاتا ہے جو رائی کو امتیازی ذائقہ دیتا ہے۔ طبّی تحقیقات کے مطابق رائی دانہ میں موجود مرکبات انسانی جسم بالخصوص قولون (بڑی آنت) میں سرطانی خلیوں کو روک سکتے ہیں۔ رائی کے بیج فیٹی ایسڈز اومیگا-3، مینگنیز، وٹامنB1، کیلشیم، پروٹین، زِنک اور ریشے سے بھرپور ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی معروف ہے کہ رائی کے بیج کم حرارے رکھتے ہیں۔ رائی کے بیج کا ایک چمچ صرف 32 حراروں اور 1.8 گرام کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل ہوتا ہے۔ رائی دانے میں موجود سیلینیوم دمے کے حملوں اور جوڑوں کے درد کی شدت کو کم کر دیتا ہے۔ رائی دانے کیلشیم اور میگنیشیم سے بھرپور ہونے کے پیشِ نظر عمر بڑھنے کے ساتھ خواتین کو ہڈیوں سے متعلق مسائل سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ آدھے سر کے درد کی شدت میں بھی کمی کرتا ہے۔ (جاری ہے)


(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)



[1] مسلم،ص873،حدیث:5354

[2] بخاری، 4/19، حدیث:5687


رسم بسم اللہ

Thu, 18 Aug , 2022
1 year ago

رسم بسم اللہ یا بسم اللہ خوانی سے مراد یہ ہے کہ جب بچہ یا بچی چار سال چار مہینے چار دن کا ہو جائے تو اس کو کسی اچھے عالم دین یا حافظ قرآن کے پاس لے جا کر یا گھر میں بلا کر سب سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھائی جائے۔

اس رسم کا اہتمام کئی مسلمان گھرانوں میں کیا جاتا ہے، اعلیٰ حضرت سے پوچھا گیا کہ حضور تقریب بسم اللہ کی کوئی عمر شرعاً مقرر ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا: شرعاً کچھ مقرر نہیں، ہاں مشائخ کرام کے یہاں 4 برس 4 ماہ 4 دن مقرر ہیں۔ پھر آپ نے حضرت خواجہ بختیار کاکی رحمۃُ اللہِ علیہ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ان کی تقریب بسم اللہ اسی عمر میں ہوئی، جس میں حضرت خواجہ غریب نواز بھی شریک تھے۔([1]) اسی طرح اَمِیْرِ اَہْلِ سنّت سے بھی ثابت ہے کہ جب آپ کی پوتی بنت حاجی بلال کی عمر 22 جولائی 2016 کو 4سال 4 ماہ اور 4 دن ہوئی تو تقریب بسم اللہ میں آپ نے اسے یہ الفاظ پڑھائے:بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم، مَا شَاءَ اللہ، سُبْحٰنَ اللہ ۔ پھر یہ دعابھی کی:

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْن

یا اللہ! پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا واسطہ! تیرے اس اسمِ پاک کا واسطہ! اسم ِ ذات کا واسطہ! ہم سب کی مغفرت فرما۔میری مدنی منّی قرآن کریم سے محبت کرنے والی، علمِ دین سے محبت کرنے والی بنے، دعوت اسلامی کی باعمل مبلغہ بنے، عالمہ بنے، مفتیہ بنے۔(2)

بسم اللہ خوانی کے موقع پر جائز و ناجائز باتیں:جس بچے کی رسمِ بسم اللہ ہوتی ہے اس کے ماں باپ اس دن تقریب کا خاص اہتمام کرتے ہیں٭گھر کو سجاتے ہیں٭طرح طرح کے کھانے پکواتے ہیں٭قاری صاحب کو بلاتے ہیں یا ان کے پاس مدرسے یا مسجد وغیرہ میں بچے کو لے جاتے ہیں ٭قاری صاحب بچے کو بسم اللہ شریف کے علاوہ مختلف دعائیں، سورۂ علق کی ابتدائی 5 آیات اور کلمہ شریف وغیرہ بھی پڑھاتے ہیں ٭بعض جگہ یہ رسم کسی بڑی عمر کے بزرگ سے کروائی جاتی ہے٭پھر بلائے گئے مہمان بچے کو پیسے اور مبارک باد دیتے ہیں ٭مٹھائی تقسیم ہوتی ہے ٭قاری صاحب کو بھی تحائف وغیرہ پیش کئے جاتے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ اہل خانہ اپنی خوشی اور مرضی سے کریں تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن یاد رہے اس طریقہ کار کو لازم نہ سمجھ لیا جائے یعنی جو اتنا بڑا اہتمام نہ کر سکے، اس کو ملامت اور لعن طعن نہ کی جائے، ورنہ ایسا کرنے والا شخص گناہ گار ہو گا۔ نیز یہ رسم صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے نہ کی جائے کہ فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے: جو شہرت کے لئے عمل کرے گا اللہ پاک اسے رسوا کرے گا، جو دکھاوے کے لئے عمل کرے گا اللہ پاک اسے عذاب دے گا۔(3) لہٰذا چاہئے کہ یہ کام اللہ پاک کی رضا کیلئے کریں نا کہ نمود و نمائش کیلئے اور اس موقع پر عورتیں شریک ہوں تو پردے کا خاص خیال رکھا جائے اور کسی قسم کی کوئی خرافات بھی نہ کی جائے۔نیز بہتر یہ ہے کہ رسم بسم اللہ کسی باعمل سنی عالم دین یا مفتی صاحب سے کروائیں۔


(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)



[1] ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، ص 481 2 ماہنامہ فیضان مدینہ، جنوری، ص 481 3 جامع الاحادیث، 7/44، حدیث:20740


سنجیدگی

Thu, 18 Aug , 2022
1 year ago

سنجید گی کیا ہے ؟ وہ تمام کام جو ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ ہیں، انہیں وقار اور اچھے طریقے سے ادا کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ فلاں نے یہ کام بڑی سنجیدگی سے کیا ہے۔ سنجیدگی اگرچہ اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتی ہے، مگر ہم نے اسے محض گفتگو کی حد تک محدود کر دیا ہے، یعنی کم گو ہونا، فضول نہ بولنا، قہقہہ نہ لگانا، کسی کا دل نہ دکھانا، بات بات پر مذاق نہ اڑانا وغیرہ امور کو ہی سنجیدگی سمجھتی ہیں۔ چنانچہ اسی حوالے سے اَمِیْرِ اَہْلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ سے ایک مدنی مذاکرے میں جب یہ پوچھا گیا کہ بعض لوگ اپنے چہرے پر ہر وقت اداسی طاری کئے رکھتے ہیں کیا اسی کا نام سنجیدگی ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: ہر وقت چہرے پر اداسی طاری کئے رکھنے کو سنجیدگی نہیں کہتے بلکہ خشکی کہتے ہیں۔([i]) اسی طرح مذاق مسخری کرنا، گناہوں بھری باتیں کرنا، لوگوں کا تمسخر اڑا نا اور بات بات پر قہقہہ لگا نا بھی سنجیدگی نہیں۔ بلکہ اگر آپ کسی ایسے ماحول کا حصہ ہیں تو یاد رکھئے کہ ایسے ماحول میں رہنے سے کئی گناہوں میں مبتلا ہونے کا شدید خدشہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جو خواتین سنجیدگی اختیار نہیں کرتیں ان کی باتوں میں بھی تاثیر نہیں رہتی، خواہ وہ دین کی مبلغہ ہی کیوں نہ ہوں۔ جبکہ سنجیدہ گفتگو کرنے والی اور مذاق مسخری سے بچنے والی خواتین کی باتیں توجہ سے سنی جاتی ہیں اور ان پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہمیں چاہئے کہ حکمت عملی کے ساتھ اپنے معمولات کو پورا کریں اور جہاں سنجیدگی کو اپنانا ضروری ہو وہاں سنجیدہ رہیں۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ حصولِ علم کیلئے وقار اور سنجیدگی اختیار کرو۔(2) لہٰذا ضروری ہے کہ ہمارے روئیے اور انداز میں میانہ روی ہو یعنی ہنسی مذاق والا مزاج ہو نہ غصیلا انداز، بلکہ ہمیں تو اپنی زندگی کے ہر معاملے میں ہی میانہ روی اختیار کرنی چاہیے کہ اس کے بے شمار فوائد ہیں اور اس کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سیرت کو اپنا لیں کیونکہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خوبصورت زندگی کا ہر پہلو ہمارے لئے بے مثال نمونہ ہے، آپ سنجیدگی اور وقار کا پیکر تھے، موقع کے لحاظ سے مسکراتے بھی تھے اور مزاح بھی فرماتے تھے مگر آپ نے کبھی بھی قہقہہ نہیں لگایا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ آقا کریم صلی الله علیہ والہ وسلم نے سب کے ساتھ ہنسی مذاق کیا ہو، آپ عام لوگوں کی طرح دوسروں سے نا شائستہ ہنسی مذاق نہیں فرماتے تھے۔ آپ کے صحابہ کرام بھی زور سے نہیں ہنستے تھے بلکہ آپ کی طرح مسکراتے تھے، وہ آپ کی مجلس میں ایسی سنجیدگی اور وقار سے بیٹھتے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔(3) اسی طرح حضرت اُمِّ درداء رضی اللہُ عنہا اپنے شوہر حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ کے متعلق فرماتی ہیں کہ وہ ہر بات مسکرا کر کیا کرتے تھے، میں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا: میں نے حضور کو دیکھا ہے کہ آپ دورانِ گفتگو مسکرا تے رہتے تھے۔(4)نیز حضور صلی الله علیہ والہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے اس طرح کے مضامین بھی ملتے ہیں کہ آپ تمام لوگوں سے زیادہ تبسم فرمانے والے اور سب سے زیادہ خوش رہنے والے تھے، البتہ! جس وقت آپ پر وحی نازل ہو رہی ہوتی(5) یا قیامت کا تذکرہ ہو رہا ہوتا (6) یا وعظ و نصیحت سے بھرپور خطبہ ہو رہا ہوتا تو یہ کیفیت نہ ہوتی۔(7)

ہمیں چاہیے کہ ان احادیثِ کریمہ کی روشنی میں اپنے معمولات کاجائزہ لیں اور اپنی زندگی کو سنجیدگی کے زیور سے آراستہ کریں، ہر کام موقع کی مناسبت سے کریں اور مسکرانے کے وقت مسکرائیں، مگر ضرورت سے زیادہ سنجیدہ ہوں نہ روکھے پن کا مظاہرہ کریں، ورنہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے رشتے دار اور سہیلیاں بھی ہماری مسکراہٹ دیکھنے کو ترس جائیں۔ یاد رکھئے! غیر ضروری سنجیدگی ہمارے گھر کے افراد کو ہی اکتاہٹ میں مبتلا نہ کرے گی بلکہ ہم سے ملنے جلنے والی خواتین بھی ہمارے قریب آنا پسند نہ کریں گی، بالخصوص شادی شدہ خواتین ایسا رویہ نہ اپنائیں کہ اس سے بد مزاجی پیدا ہو گی اور ان سے یہ باتیں بھی صادر ہو سکتی ہیں: بات بات پر چیخ و پکار سے کام لینا، چھوٹی سی غلطی پر بلا وجہ غصے اور جذباتی پن کا مظاہرہ کرنا، شوہر سے روکھے پن سے پیش آنا، ہر وقت چہرہ سپاٹ و سنجیدہ رکھنا، سیدھے منہ بات نہ کرنا، خوشی یا رنْج کے موقع پر بھی چہرہ بے تأثّر رکھنا کہ خوشی یا غم کا اظہار ہی نہ ہو، یونہی گھر کے دیگر معاملات سے لاتعلقی برتنا یا بچوں سے بے رخی سے پیش آنا۔ یاد رکھئے! ان میں سے کوئی بھی بات درست نہیں، اس سے گھر کے ماحول بھی خراب ہوتا، میاں بیوی کے درمیان تناؤ پیدا ہوتا اور بچّوں سے ہم آہنگی ختم ہو جاتی ہے۔ لہٰذا خشک مزاجی سے جہاں تک ممکن ہو ہمیں بچنا چاہئے اور مسکراہٹ، ملنساری اور خندہ پیشانی کی عادات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ہو سکے تو کبھی کبھار موقع کی مناسبت سے خوش طبعی سے بھی کام لینا چاہئے۔ اگر ہم ان اوصافِ کریمہ کو اپنا لیں گی تو ان شاء اللہ ہماری زندگی سے بھی مشکلات کم ہوں گی اور آسانیاں پیدا ہوں گی۔

سنجیدگی کے فوائد و برکات:٭ سنجیدگی اللہ پاک کی رضا کا باعث ہے۔٭سنجیدگی سے بزرگی و دنیا کی بے شمار برکتیں نصیب ہوتی ہیں۔٭وقار اور عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ٭ گھر میں دینی ماحول بنانے اور نیکی کی دعوت کو عام کرنے کے لیے سنجیدگی بھرا رویہ بہت معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ ٭سنجیدگی اختیار کرنے سے آخرت بھی اچھی ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو یعقوب بن حسین رازی رحمۃُ اللہِ علیہ کوکسی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا: الله پاک نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ کہنے لگے: اللہ پاک نے میری مغفرت فرما دی۔ پوچھا گیا: کس وجہ سے؟ فرمایا: میں سنجیدہ بات میں مذاق شامل نہ کرتا تھا۔(8)

٭ منقول ہے: سنجیدگی اور وقار سے اچھا کوئی ہار نہیں، اللہ پاک جس کے فہم و فراست میں اضافہ فرماتا ہے اس کی ہدایت میں بھی اضافہ فرما دیتاہے۔(9)

سنجیدگی نہ اپنانےکے نقصانات: ٭غیر سنجیدہ خواتین کو پسند نہیں کیا جاتا٭ان کے متعلق رائے بھی اچھی نہیں رکھی جاتی ٭ ان سے مدد لی جاتی ہے نہ کی جاتی ہے ٭ان سے دور رہنے میں عافیت سمجھی جاتی ہے ٭ بسا اوقات ذلت و رسوائی کا سامنا بھی کرنا پڑ جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃُ اللہِ علیہ کا فرمان ہے کہ آپس میں ٹھٹھا مذاق مت کیا کرو کیونکہ اس طرح ہنسی ہنسی میں دلوں میں نفرت بیٹھ جاتی ہے اور برے افعال کی بنیاد دلوں میں اُستوار ہو جاتی ہے۔(10)

اللہ پاک ہمیں سنجیدگی اور وقار کو اپنا کر اپنی زندگی اچھے انداز میں گزارنے کی توفیق عطافرمائے۔

اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)



[i]مدنی مذاکرہ قسط 28: حافظہ کمزور ہونے کی وجوہات، ص 31 2جامع بیان العلم وفضلہ، ص187، حدیث:599 3وسائل الوصول کتاب جمال مصطفیٰ، ص157 4مکارم الاخلاق للطبرانی، ص319، حدیث: 21 5مکارم الاخلاق للطبرانی، ص319، حدیث: 22 6نسائی،ص 274تا275، حدیث: 1575 7مسلم، ص 430، حدیث 867 8احیاء العلوم مترجم، 5 / 654 9حلیہ، 5/ 160، الرقم: 6625 0کیمیائے سعادت، 2/563


مذاق اڑانا 

Thu, 18 Aug , 2022
1 year ago

دینِ اسلام کی یہ خوبی ہے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کا ہی حکم نہیں دیا بلکہ ایک دوسرے کی عزت کی حفاظت کا بھی حکم دیا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہر وہ عمل جس کی وجہ سے کسی کی عزت پر حرف آتا ہو یا معاشرے میں فساد و بگاڑ پیدا ہو اس سے بچنے کی بھی خوب تاکید کی ہے۔ مثلاً ایک طرف راستوں سے گندگی ہٹا دینے کو صدقہ قرار دیا تو دوسری طرف مذاق کے ذریعے کسی مسلمان کی عزت کو پامال کرنے کو حرام و ناجائز اور گناہ قرار دیا۔ لہٰذا یاد رکھئے! تضحیک یعنی مذاق اڑانا چاہے اسلام کا ہو، دینی شعائر کا ہو یا معاذ اللہ انبیائے کرام و اولیا و صلحا کا ہو یا عام بندوں کا، اللہ پاک کو سخت ناراض کرنے والا کام ہے، اس لئے اس کی اسلام میں شدید مذمت بیان فرمائی گئی ہے اور قرآن کریم میں ایسے واقعات کثرت سے موجود ہیں جن میں یہ بتایا گیا کہ مذاق اڑانےوالی قومیں تباہ کردی گئیں۔

مذاق اڑانے کا مطلب: مذاق اڑانے سے مراد یہ ہے کہ کسی کو حقیر جان کر اس کا حقیقی یا فرضی عیب اس طرح بیان کرنا کہ سننے والے کو ہنسی آئے۔([1]) مذاق اڑانا بلا شبہ بیوقوفوں اور جاہلوں کا شیوہ ہے، کوئی بھی با شعور و عقل مند اس عمل کو پسند کرتا ہے نہ ہمارے دین میں اس کی اجازت ہے۔ جیسا کہ پارہ 26، سورۃ الحجرات کی 11 ویں آیت میں ہے: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ١ۚترجمۂ کنزالعرفان:اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں پر نہ ہنسیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں پر ہنسیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں۔

اس آیت کریمہ کے شانِ نزول کے متعلق دو قول ہیں:

(1)حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضور نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہُ عنہن کے متعلق نازل ہوئی ہے کہ انہوں نے حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہُ عنہا کو چھوٹے قد کی وجہ سے شرمندہ کیا تھا۔(2)

(2)حضرت عبدُ اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں: آیت کا یہ حصہ اُمُّ المومنین حضرت صفیہ بنتِ حیی رضی اللہُ عنہا کے حق میں اس وقت نازل ہوا جب انہیں حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ نے یہودی کی بیٹی کہا۔(3)

مذاق اڑانے کے مختلف طریقے: کسی کا مذاق اڑانے کے مختلف طریقے ہیں: مثلاً کسی کی رنگت کا مذاق اڑایا جائے۔٭کسی کے وزن کے انتہائی کم یا زیادہ ہونے کا مذاق اڑایا جائے ٭کسی کی غربت و مفلسی کا مذاق اڑایا جائے ٭کسی کی کامیابی یا ناکامی کا مذاق اڑایا جائے٭کسی کو حاصل ہونے والے نفع و نقصان کا مذاق اڑایا جائے ٭کسی میں پائے جانے والے جسمانی عیب کا مذاق اڑایا جائے ٭کسی کی دینداری کا مذاق اڑایا جائے ٭کسی کے تقویٰ کا مذاق اڑایا جائے ٭کسی کے عمدہ اخلاق والا ہونے پر اس کا مذاق اڑایا جائے۔

مذاق کی آفات: ٭فی زمانہ جگت بازی کے نام پر کثیر خواتین بے سوچے سمجھے جو منہ میں آیا کہہ دیتی ہیں اور یہ بھی پروا نہیں کرتیں کہ اس سے کسی کی دل آزاری ہو رہی ہے٭نیز یہ بھی بھول جاتی ہیں کہ ان کا یہ عمل کسی بہت بڑے گناہ کا بھی سبب بن سکتا ہے، یعنی زبان کی حفاظت نہ کرنے کی وجہ سے معاذ اللہ کلمات کفر بھی منہ سے نکل سکتے ہیں۔ ٭آج یہ کسی کو اپنے مذاق کا ہدف بنائے ہوئے ہیں تو کل کوئی اور انہیں بھی مذاق کا تختہ مشق بنا سکتا ہے۔

مشہور کہاوت ہے: جو آج کسی پر ہنس رہا ہے کل اس پر بھی ہنسا جا سکتا ہے۔ ٭جنہیں اپنے ایمان کی فکر نہیں ہوتی وہ اپنا وقت مذاق میں صرف کر کے برباد کرتی ہیں ٭جھوٹ کی آمیزش بھی مذاق میں اہم کردار ادا کرتی ہے، یاد رکھئے! جھوٹ بولنے والیاں بھی اللہ پاک کے غضب کو دعوت دیتی ہیں۔٭مذاق کرنے والیاں بعض اوقات اتنے سخت الفاظ استعمال کرتی ہیں کہ جس کا مذاق اڑایا جائے وہ بہت عرصے تک اس صدمے سے نہیں نکل پاتی اور وہ الفاظ اسے رنج پہنچاتے رہتے ہیں اور ادھر دل آزاری کرنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ ہم نے تو بس مذاق کیا تھا، افسوس! ہمارے دین نے جس عمل کو نا پسند کیا ہے لوگ اسی سے لطف اٹھاتے ہیں۔

مذاق کے نتائج: یاد رکھئے! بے تکے مذاق والے روئیے کے دنیا و آخرت دونوں میں منفی نتائج نکلتے ہیں۔ مثلاً اس سے جہاں باہمی کدورتیں، رنجشیں، لڑائی جھگڑا، انتقامی سوچ، بدگمانی، حسد اور سازشیں جنم لیتی ہیں، جس سے دنیاوی زندگی بھی بسا اوقات جہنم محسوس ہوتی ہے تو دوسری جانب ایسے روئیے والی خواتین خدا کی رحمت سے محروم ہو کر ظلم کرنے والیوں میں شمار ہوتیں، اپنی نیکیاں گنوا بیٹھتیں اور آخرت کو خطرے میں ڈال دیتی ہیں۔ اس بری عادت کے نتائج کا اندازہ اس سے لگائیے کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے: جس نے کسی مسلمان کو(ناحق)ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ پاک کو ایذا دی۔(4) اسی طرح ایک روایت میں ہے: قیامت کے روز لوگوں کا مذاق اڑانے والے کے سامنے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آؤ!آؤ! وہ جیسے ہی دروازے کے پاس پہنچے گا دروازہ بند ہو جائے گا۔ پھر جنت کا ایک دوسرا دروازہ کھلے گا اور اس کو پکارا جائے گا کہ ادھر آ جاؤ! وہ رنج و غم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے پاس جائے گا تو وہ بھی بند ہو جائے گا۔ اسی طرح اس کے ساتھ معاملہ ہوتا رہے گا یہاں تک کہ جب دروازہ کھلے گا اور اسے بلایا جائے گا تو وہ نہیں جائے گا۔(5)

یہ عادت کس طرح ختم کی جائے؟ اگر کسی اسلامی بہن میں ایسی عادتِ بد موجود ہے تو اسے چاہئے کہ ٭پہلی فرصت میں اللہ پاک کی بارگاہ میں سچی توبہ کرے اور آئندہ اس مذموم فعل سے بچنے کی بھر پور کوشش کرے ٭ایسی سہیلیوں سے جان چھڑائے جو اس طرح کی حرکات میں مبتلا ہیں ٭مسلمانوں کا مذاق اڑانے کی اسلام میں جو وعیدیں بیان کی گئی ہیں ان کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھے ٭نیک صحبتوں اور اجتماعات میں اپنا زیادہ وقت گزارے٭سنجیدہ اسلامی بہنوں کی زندگی کا بغور جائزہ لے اور ان جیسا بننے کی کوشش کرے، اللہ پاک نے چاہا تو جلد اس مرض سے چھٹکارا مل جائے گا۔

اسلام میں کسی بھی انسان کو حقیر سمجھنے کی اجازت نہیں بلکہ بہترین مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔لیکن اگر کسی کو ایسی آزمائش کا سامنا ہو بھی تو صبر کرے اور جوابی کاروائی کر کے خود بھی اسی گناہ میں شامل نہ ہو جائے۔ البتہ! یاد رہے کہ ایسا مذاق جو کسی کو خوش کرنے کے لئے ہو اور اس میں کوئی غیر مناسب بات بھی نہ ہو، جسے خوش طبعی اور خوش مزاجی کہتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ خوش طبعی کرنا سنتِ مستحبہ ہے۔(6) جیساکہ ایک مرتبہ حضور نے حضرت انس کو یا ذَا الاُذْنَیْن یعنی اے دو کانوں والے فرمايا۔ (7)

اللہ پاک ہمیں ہر اس عمل سے بچائے جو دوسروں کی تکلیف کا باعث بنے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)



[1] احیا ء العلوم، 3/207 2 تفسیر خازن، 4 / 169 3تفسیر خازن، 4/ 169 4 معجم اوسط، 2 /386، حدیث: 3607 5 موسوعہ ابن ابی دنیا،7/183، حدیث: 287 6 مراٰۃ المناجیح،6 /493 ماخوذاً 7 ترمذی، 3/399، حدیث:1998


حدثنا عمرو بن سواد المصري قال: حدثنا عبد الله بن وهب، عن عمرو بن الحارث، عن سعيد بن أبي هلال، عن زيد بن أيمن، عن عبادة بن نسي، عن أبي الدرداء، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكثروا الصلاة علي يوم الجمعة؛ فإنه مشهود، تشهده الملائكة، وإن أحدا لن يصلي علي، إلا عرضت علي صلاته، حتى يفرغ منهاقال: قلت: وبعد الموت؟ قال: وبعد الموت، إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء، فنبي الله حي يرزق

سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے:’’اَکْثِرُوا الصَّلَاۃَ عَلَیَّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَاِنَّہٗ مَشْہُوْدٌ تَشْہَدُہُ الْمَلَائِکَۃُ وَاِنَّ اَحَدًا لَنْ یُّصَلِّیَ عَلَیَّ اِلَّا عُرِضَتْ عَلَیَّ صَلَا تُہُ حَتَّی یَفْرُغَ مِنْہَا“ ”یعنی جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے دُرُود بھیجا کرو کیونکہ یہ یومِ مشہود (یعنی میری بارگاہ میں فِرِشتوں کی خُصُوصی حاضِری کا دن)ہے، اس دن فِرِشتے (خُصُوصی طور پر کثرت سے میری بارگاہ میں ) حاضِر ہوتے ہیں، جب کوئی شخص مجھ پر دُرُود بھیجتا ہے تو اس کے فارغ ہونے تک اس کا دُرُود میرے سامنے پیش کردیا جاتا ہے ۔“ حضرتِ سَیِّدُنا ابُو دَرْداء رضی اللّٰہ عَنْہ کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی: ’’(یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!) اور آپ کے وصال کے بعد کیا ہوگا؟‘‘ارشاد فرمایا:’’ہاں (میری ظاہری) وَفات کے بعد بھی (میرے سامنے اسی طرح پیش کیا جائے گا)“۔ ”اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاْکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاءِ،یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے زمین کے لئے اَنبیائے کرام علیھم الصَّلوۃ والسَّلام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔“ فَنَبِیُّ اللّٰہِ حَیٌّ یُرْزَقُ،”پس اللہ عَزَّوَجَلَّ کا نبی زِندہ ہوتا ہے اور اسے رِزْق بھی عطا کیا جاتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجه،کتاب الجنائز،باب ذكر وفاته ودفنه صلى الله عليه وسلم، جلد 1،صفحہ 519،حدیث:1637(

ہمیں کوشش کرکے بالخُصُوص جمعۃالمبارک کے دن دُرُود شریف کی کثرت کرنی چاہئے کہ اَحادیثِ مُبارَکہ میں اِس روز کثرتِ دُرُود کی خاص طور پر تاکید کی گئی ہے اور زَمین اَنبیائے کرام عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃُوالسَّلام کے مُبارک جسموں کو کیوں نہیں کھاتی ، اس کی اِیمان اَفروز تَوجِیہ بیان کرتے ہوئے حضرتِ علَّامہ عبدالرؤف مَنَاوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ الْقَوی ارشاد فرماتے ہیں: ’’لِاَنَّہَا تَتَشَرَّفُ بِوَقْعِ اَقْدَامِہِمْ عَلَیْہَا وَتَفْتَخِرُ بِضَمِّہِمْ اِلَیْہَا فَکَیْفَ تَأْکُلُ مِنْہم،اس لئے کہ زمین اَنبیائے کرام عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے مُبارک قَدموں کے بوسے سے مُشرَّف ہوتی ہے اور اسے یہ سَعادت ملتی ہے کہ َانبیائے کرام کے مُبارک اَجسام زمین سے مَس ہوتے ہیں تو یہ اِن کے جسموں کو کیسے کھا سکتی ہے ۔ (فیض القدیر،حرف الھمزۃ،جلد 2،صفحہ 535،تحت الحدیث 2480)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تمام حضرات انبیاء عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے مقدس اجسام ان کی مبارک قبروں میں سلامت رہتے ہیں اور زمین پر حضرت حق جل جلالہ نے حرام فرما دیا ہے کہ ان کے مقدس جسموں پر کسی قسم کا تغیر و تبدل پیدا کرے۔ جب تمام انبیا عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃ والسَّلام کی یہ شان ہے تو پھر بھلا حضور سید الانبیاء و سید المرسلین اور امام الانبیاء و خاتم النبییّن صلى الله عليه وسلم کے مقدس جسم انور کو زمین کیونکر کھا سکتی ہے؟ اس لئے تمام علماء امت و اولیاء امت کا یہی عقیدہ ہے کہ حضورِ اقدس صلى الله عليه وسلم اپنی قبر اطہر میں زندہ ہیں اور خداعزوجل کے حکم سے بڑے بڑے تصرفات فرماتے رہتے ہیں اور اپنی خداداد پیغمبرانہ قوتوں اور معجزانہ طاقتوں سے اپنی امت کی مشکل کشائی اور ان کی فریاد رسی فرماتے رہتے ہیں۔

خوب یاد رکھئے !کہ جو شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھے وہ یقینا بارگاہِ اقدس کا گستاخ بد عقیدہ، گمراہ اور اہل سنت کے مذہب سے خارج ہے۔ (سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم،صفحہ 645)

حضراتِ انبیاء عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃ والسَّلام بالخصوص حضرت سیدالانبیاء صلى الله عليه وسلم اپنی اپنی قبر میں لوازمِ حیات جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں اور ہر گز ہرگز ان کے جسموں کو مِٹی نہیں کھاسکتی کیوں کہ اللہ پاک نے زمین پر حرام ٹھہرادیا ہے کہ وہ انبیاء کرام عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے جسموں کو کھاسکے۔

اس حدیث کا آخری فقرہ کہ فَنَبِیُّ اللہِ حَیٌّ یُّرْزَقُیعنی اللہ عزوجل کے نبی زندہ ہیں اور انہیں روزی دی جاتی ہے۔اس کا کیا مطلب ہے؟ تو اس بارے میں صاحبِ مرقاۃ کا بیان ہے کہ ("يرزق"):رزقا معنويا فإن الله تعالى قال في حق الشهداء من أمته (بل أحياء عندربهم يرزقون) [آل عمران: 169] فكيف سيدهم بل رئيسهم۔۔۔۔ ولا ينافيه أن يكون هناك رزق حسي أيضا، وهو الظاهر المتبادر۔

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح،جلد 3،صفحہ 1020،تحت الحدیث 1366)

یعنی انہیں رزقِ معنوی دیا جاتا ہے اس لیے کہ اللہ پاک نے آپ کی امت کے شہیدوں کے بارے میں فرمایا کہ ”بلکہ وہ زندہ ہیں اور روزی دیئے جاتے ہیں۔“ تو پھر کیا حال ہوگا ان شہیدوں کے سردارکابلکہ رئیس کا اور یہ جو ہم نے لکھ دیا ہے کہ رزق معنوی دیاجاتا ہے تو یہ اسکے منافی نہیں ہے کہ اللہ پاک انہیں رزق حسی بھی عطا فرمائے اور یہاں یہی رزق حسی مراد لینا ظاہر ہے جو جلد ذہنوں میں آجاتا ہے۔ (یعنی ظاہری طور پر کھانا پینا)۔ (بہشت کی کنجیاں،صفحہ 149)

از: مولانا سید کامران عطاری مدنی

توجہ فرمائیں:

مضمون کے تمام مندرجات (حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح،پروف ریڈنگ، فارمیشن ودیگر کا م) مؤلف کے ذمے ہیں، ادارہ اس کاذمہ دار نہیں، الغرض شرعی تفتیش ادارے کی جانب سے کروائی جاچکی ہے۔راقم کی جانب سےمضمون کو ہر طرح کی اغلاط سے پاک کرنے کی مقدوربھرکوشش کی گئی ہے تاہم پھر بھی مضمون میں اگر کہیں غلطی پائیں تو مذکورہ میل آئی ڈی پر رابطہ فرمائیں:

shaboroz@dawateislami.net