سابقہ شمارے میں حضرت یوسف علیہ السّلام کی سیرت اور چند معجزات ذکر کئے گئے تھے، اب آپ کے ان ایمان افروز اور دلچسپ معجزات و عجائبات کو بیان کیا جا رہا ہے جو آپ کو کنویں میں اور اس کے بعد مصر تک پہنچنے کے راستے میں اور پھر مصر میں پیش آئے۔ ان تمام باتوں کو امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب بحرالمحبۃ میں ترتیب وار ذکر کیا ہے، ذیل میں مذکور تمام معجزات و عجائبات اور آپ علیہ السّلام سے متعلق مزید مفید معلومات امام غزالی کی مذکورہ کتاب سے ہی لئے گئے ہیں:

کنویں میں تنہائی کے ساتھی: جب حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائیوں نے آپ کو کنویں میں ڈالا تو اللہ پاک نے آپ کی حفاظت کے لئے اور کنویں میں تنہائی و وحشت دور کرنے کے لئے آپ کے پاس جنت سے غلام بھیج دیئے ۔([1])

50 سال بعد آخر خواب پورا ہوا: حضرت یوسف علیہ السّلام کو ان کے بھائیوں سے مالک بن زعر نامی مصری شخص نے خریدا تھا، اس نے بچپن میں خواب دیکھا تھا کہ کنعان کی سر زمین پر سورج آسمان سے اتر کر اس کی آستین میں داخل ہوا، پھر نکل کر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا، اس کے بعد ایک سفید بادل سے اس پر موتی برسے جنہیں چن کر اس نے اپنے صندوق میں بھر لیا۔ اس خواب کی تعبیر اسے یہ بتائی گئی کہ اسے ایک غلام ملے گا، جو حقیقت میں غلام نہ ہو گا، اس کی برکت سے وہ اتنا دولت مند ہو جائے گا کہ اس کے اثرات قیامت تک اس کی اولاد میں باقی رہیں گے، اس کی دعا کی برکت سے وہ جہنم سے نجات کا اور جنت کا حق دار ٹھہرے گا، اس کی اولاد کثیر ہو گی اور ہمیشہ اس کا نام و ذکر باقی رہے گا۔ چنانچہ وہ فوراً کنعان پہنچا کہ کسی طرح وہ غلا م مل جائے، مگر ہاتف غیب سے آواز آئی اتنی جلدی نہ کر! ابھی اس ملاقات میں 50 سال باقی ہیں۔ پھر بھی وہ ہر سال اس علاقے میں دو بار جاتا۔ جب 50 سال پورے ہوئے تو اس نے اپنے بشریٰ نامی غلام سے کہا: اگر اس بار تجھے وہ غلام مل گیا کہ جس کی تلاش میں میں اتنے عرصے سے بھٹک رہا ہوں تو تجھے اپنا نصف مال ہی نہیں دوں گا بلکہ تو میری جس بیٹی سے چاہے گا اس سے تیری شادی بھی کروا دوں گا۔ چنانچہ

جب وہ دمشق سے کنعان پہنچا، تو دور سے ہی کیا دیکھتا ہے کہ پرندے (راستے میں موجود ایک ویران اور خشک) کنویں کا طواف کر رہے ہیں، حقیقت میں وہ فرشتے تھے جنہیں اللہ پاک نے بھیجا تھا۔ مالک نے قافلہ والوں سے کہا: اس خشک کنویں کی طرف چلو! ہو سکتا ہے اس سے پانی نکل آیا ہو۔ جب وہ کنویں کے قریب پہنچا اور اس کی سواریوں کے جانور یعنی گدھوں اور اونٹوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی خوشبو سونگھی تو وہ اپنی پیٹھ کا بوجھ پھینک کر کنویں کی طرف دوڑنے لگے۔ مالک نے قافلے کو مناسب مقام پر ٹھہرا کر اپنے غلام بشریٰ اور خادم مامل کو ایک ڈول دے کر پانی لانے کے لئے کنویں کی طرف بھیجا۔ (2)

بے مثل حسن کا خریدار کون ہو سکتا ہے؟ادھر حضرت جبریل علیہ السّلام نے حاضر خدمت ہو کر حضرت یوسف علیہ السّلام سے عرض کی: چلئے! پوچھا: کہاں؟ عرض کی: آپ کو یاد ہے کہ ایک دن آپ نے شیشے میں اپنا حسن و جمال دیکھا تو دل میں کیا کہا تھا؟ ارشاد فرمایا: ہاں! میں نے یہ کہا تھا کہ اگر میں غلام ہوتا تو کوئی بھی میری قیمت ادا نہ کر پاتا۔ عرض کی: آج وہی دن ہے، چلئے اپنی قیمت دیکھ لیجئے۔ جب آپ ڈول میں بیٹھ کر باہر آئے تو مامل خادم پکار اٹھا: اے بشریٰ! یہ تو وہی غلام ہے جسے ہم 50 سال سے تلاش کر رہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے فوراً آپ کو قافلے میں چھپا دیا۔ (3)

حضرت یوسف کے بھائیوں اور امیر قافلہ کے درمیان مکالمہ: صبح کے وقت آپ کے بھائی آپ کو دیکھنے کے لئے آئے تو کنویں میں نہ پا کر قافلے والوں کو گھیر لیا اور ان سے کہنے لگے کہ ہمارا ایک غلام بھاگ گیا ہے، ہمیں معلوم ہوا ہے کہ وہ اس کنویں میں چھپا ہوا تھا اور تم لوگوں نے اسے نکال لیا ہے، ہمیں بتاؤ! تم نے اس کے ساتھ کیا کیا ہے؟ اسے ہمارے سامنے لاؤ! ورنہ ہماری ایک پکار پر تمہاری روحیں تمہارے جسموں سے جدا ہو جائیں گی۔ حضرت یوسف علیہ السّلام بھی ان کی باتیں سن رہے تھے، چنانچہ انہوں نے قافلے والوں سے فرمایا کہ انہیں ان کے سامنے جانے دیا جائے، جب آپ کے ایک بھائی نے آپ کو دیکھا تو وہ آپ کے پاس آ کر کہنے لگا: اگر آپ نے غلامی کا اقرار کر لیا تو محفوظ رہیں گے ورنہ ہم آپ کو واقعی قتل کر دیں گے۔ تو آپ نے قافلے والوں سے فرمایا: یہ لوگ سچ کہہ رہے ہیں، یہی میرے گھر والے ہیں اور میں واقعی غلام ہوں۔ پھر جب امیر قافلہ مالک نے آپ سے یہ پوچھا کہ اس ویران کنویں اور اپنے بھائیوں سے آپ کیسے محفوظ رہے؟ارشاد فرمایا:لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی برکت سے۔امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ عبرانی زبان میں اللہ پاک کی کتاب تورات میں یونہی لکھے ہوئے تھے۔ (4)

بے مثل حسن کی بے مول قیمت: بہرحال ابھی تک مالک کو چونکہ حضرت یوسف علیہ السّلام کے غلام ہونے پر یقین نہ آیا تھا، اس لئے اس نے ایک بار پھر آپ سے پوچھا :آپ حقیقت میں کون ہیں؟ ارشاد فرمایا: میں غلام ہیں ۔ مگر اس بار یہ کہتے ہوئے اشارے سے یہ اظہار بھی کر دیا کہ میں ان کا نہیں بلکہ اللہ کا بندہ ہوں۔ مالک بن زعر چونکہ ہر قیمت پر آپ کو اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا لہٰذا اس نے آپ کے بھائیوں سے کہا: اپنے اس غلام کو کتنے میں بیچو گے؟ بولے: اگر تم اس کے عیبوں کے باوجود اسے خریدنا چاہتے ہو تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ مالک نے فوراً رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ حضرت یوسف علیہ السّلام یہ سب دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ ان کے بھائی کثیر مال و دولت مانگیں گے، مگر آپ کے بھائیوں نے مالک بن زعر کے پیش کردہ کثیر درہم و دینار میں سے صرف مٹھی بھر ہی لئے۔ چنانچہ ان کی حسب منشا انہیں رقم ادا کرنے کے بعد مالک بولا کہ کوئی ایسی تحریر بھی لکھ دو کہ یہ تمہارا غلام تھا اور تم نے اسے مجھے بیچ دیا ہے۔ لہٰذا انہوں نے یہ سب بھی لکھ دیا۔(5)

بھائیوں سے الوداعی ملاقات: جب حضرت یوسف علیہ السّلام اپنی آبائی سرزمین سے کوچ کرنے لگے تو انہوں نے مالک سے فرمایا: مجھے تھوڑی دیر کی اجازت درکار ہے تا کہ میں اپنے مالکوں کو الوداع کہہ سکوں، ہو سکتا ہے اب میں کبھی لوٹ کر واپس نہ آ سکوں اور آج کے بعد کبھی ان سے مل نہ سکوں۔ اس پر مالک بولا: تم کیسے غلام ہو! انہوں نے تمہارے ساتھ جو سلوک کیا ہے، اب بھی تم ایسا چاہتے ہو؟ ارشاد فرمایا: ہر فرد کا فعل اس کے ظرف کے مطابق ہوتا ہے۔ بہرحال اجازت ملنے پر جب بھائیوں کے پاس گئے تو فرمایا: تم نے مجھ سے اگرچہ شفقت بھرا سلوک نہیں کیا مگر میری دعا ہے کہ اللہ پاک تم سب پر رحم فرمائے، اسی طرح تم سب نے تو مجھے مقام ذلت پر پیش کر دیا ہے مگر میری دعا ہے کہ اللہ پاک تمہیں عزتیں عطا فرمائے، تم نے بھلے مجھے بیچ دیا ہے مگر میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیشہ تمہاری حفاظت فرمائے، اسی طرح تم نے بھلے مجھے بے یار و مددگار بنا دیا ہے مگر میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیشہ تمہاری مدد و نصرت فرمائے۔ اس کے بعد آپ رونے لگے اور آپ کے تمام بھائی بھی رونے لگے اور بولے: ہم اپنے فعل پر شرمندہ ہیں، مگر ہم آپ کو واپس نہیں لے جا سکتے۔(6)


(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)



[1] بحر المحبۃ، ص 28 2 ص 30 3 ص 31 4 ص 34 5 ص 36 6 ص 39