تندرست
و توانا رہنے کے لیے اچھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اچھی غذا وہ ہے جو متوازن ہو اور
متوازن غذا وہ ہوتی ہے جس میں وہ تمام بنیادی اجزا مناسب مقدار میں موجود ہوں جن
سے جسم کو حرارت اور طاقت ملتی ہے۔ کیونکہ یہ غذائی اجزا انسانی جسم کو طاقت و
توانائی پہنچانے کے علاوہ جسم کو صحت مند رکھتے اور بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت
بڑھاتے ہیں۔ کوئی بھی غذا جو انسانی جسم کے لیے مفید اور فعال کردار ادا کرتی ہے
بسا اوقات وہ دو یا دو سے زیادہ غذائی اجزا کا مجموعہ یا مرکب ہوتی ہے۔ غذا کے
بارے میں ہمارا اصول یہ ہونا چاہیے کہ ہم کھانے کے لیے زندہ نہ رہیں بلکہ زندہ
رہنے کے لیے کھائیں اور ایسی غذائیں کھائیں جو غذائیت سے بھر پور ہوں۔ اچار کا
شمار بھی انہی غذاؤں میں ہوتا ہے جن کا اہتمام زمانہ قدیم سے دنیا کے مختلف حصوں
میں کیا جا رہا ہے۔
ماضی
میں اچار بنانے کا رواج گھروں میں عام تھا، خواتین گھروں میں مختلف مصالحوں اور
سبزیوں وغیرہ کا اچار بنایا کرتی تھیں، لیکن جب سے ٹیکنالوجی عام ہوئی ہے، اب
مارکیٹ میں وافر مقدار میں مختلف اقسام کے اچار فروخت ہونے کی وجہ سے گھروں میں
اچار بنانا کافی حد تک کم ہو گیا ہے۔
اچار کی مختلف اقسام: پہلے زمانے میں زیادہ تر آم کا اچار
بنایا جاتا تھا،لیکن اب کئی قسم کی سبزیوں اور پھلوں کا اچار بھی تیار کیا جاتا ہے۔ مثلاً آم کا اچار، گاجر کا اچار،
ہری مرچ کا اچار، لیموں کا اچار، کریلے کا اچار،لسوڑے کا اچار، فالسے کا اچار،
لہسن کا اچار، ادرک کا اچار، کدو کا اچار، آملے کا اچار، کیری کا اچار، بند گوبھی
کا اچار، زیتون کا اچار اور مختلف سبزیوں اور پھلوں کا مکس اچار وغیرہ، حتی کہ آج
کل چکن کا اچار بھی تیار ہو رہا ہے۔
اچار میں استعمال ہونے والے چند اہم اجزا کے فوائد: اچار
عموماً سرکہ یا سرسوں کے تیل میں تیار کیا جاتا ہے اور اس کی تیاری میں کئی مصالحہ
جات مثلاً کلونجی، لال مرچ، سونف، میتھی دانہ، رائی دانہ، اجوائن، ہلدی اور نمک استعمال
کیے جاتے ہیں۔ ذیل میں ان اجزا کے فوائد کا مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے:
سرکہ کے فوائد: سرکہ میں پروٹین اور نشاستہ (Starch)کی تھوڑی مقدار پائی جاتی ہے۔100گرام سرکہ
میں صرف 16 کیلوریز ہوتی ہیں، اس کے علاوہ اس
میں سوڈیم، کیلشیم، میگنیشیم، فاسفورس، آئرن، زنک اور کلورین بھی پائی جاتی
ہے۔ سرکہ کی اہمیت کے لیے اتنا ہی کافی ہے
کہ ایک روایت میں حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے سرکے کو بہترین سالن قرار
دیا۔([1])
٭سرکہ
ہاضمہ میں مفید ہے۔ ٭سرکہ ایسیڈک ایسڈ سے بھر پور ہوتا ہے جو جسم میں ہیمو گلوبن
کو بڑھاتا ہے۔٭سرکہ جراثیم کش ہوتا ہے۔٭سرکے کو گرم کر کے اس سے کُلّی کرنے کے
نتیجے میں دانتوں کا درد ختم اور مسوڑھے مضبوط ہوتے ہیں۔نیز یہ منہ کی صفائی کے علاوہ
سانس کی بو کو بھی ختم کرتا ہے۔٭غذائی ماہرین کے مطابق گوشت خور افراد کے لیے سرکے
کا استعمال نہایت ضروری ہے، یہ گوشت کھانے کے نتیجے میں خون میں بڑھنے
والے کولیسٹرول کے اخراج کا سبب بنتا ہے۔٭ سرکہ دل کی تمام بیماریوں کیلئے بھی
نہایت مفید ہے۔٭غذائی ماہرین کے مطابق سرکہ کینسر کے لیے انسانی مدافعتی نظام میں
مزاحمتی خلیات کی افزائش کرتا ہے، تحقیق کے مطابق سرکہ کینسر کے سیلز کو بھی ختم کرتا
ہے۔
سرسوں کے تیل کے فوائد: ایک تحقیق کے
مطابق سرسوں کا تیل دل کی صحت کے لیے مفید ہے، اس میں موجود مونو سیچوریٹڈ فیٹی
ایسڈز جسم میں موجود نقصان دہ کولیسٹرول کی سطح کو کم کرتے ہیں جبکہ خون میں چربی
کی سطح مستحکم رکھ کر اس کی گردش میں مدد دیتے ہیں۔ سرسوں کا تیل بیکٹریا کش، فنگل
کش اور وائرس کو دور رکھنے کی خصوصیات رکھتا ہے، اس کا استعمال موسمی انفیکشن سمیت
نظام ہاضمہ کے انفیکشن کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔
کلونجی کے فوائد: حدیث پاک میں
ہے: کلونجی میں موت کے سوا ہر مرض کا علاج ہے۔([2]) قدیم اطبا کلونجی اور اس کے بیج معدے اور
پیٹ کے امراض مثلاً ریاح، گیس، آنتوں کا درد، نسیان، رعشہ، دماغی کمزوری اور فالج کے لیے استعمال کرتے تھے۔اس کے علاوہ
کلونجی مختلف امراض مثلاً دمہ،کھانسی،الرجی، ذیابیطس (شوگر)وغیرہ میں مفید ہے۔کلونجی
کو سرکے کے ساتھ ملا کر کھانے سے پیٹ کے کیڑے مر جاتے ہیں۔
اجوائن کے فوائد: اجوائن مصالحہ
نہ صرف بدہضمی، گیس اور ہاضمہ کے مسائل کم کرتا ہے بلکہ خون میں موجود چربی کی
مقدار بھی کم کرتا ہے، پیچش اور امراضِ رحم میں مفید ہے، پیٹ کے کیڑوں کو ختم کرتی
ہے، رگوں کے سدے کھولتی، ورموں کو تحلیل کرتی اور پیشاب و حیض کو جاری کرتی ہے۔
میتھی دانہ کے فوائد: میتھی دانے کی
افادیت سے کسی کو انکار نہیں ہے، کیونکہ اس میں بہت سے
غذائی اجزا پائے جاتے ہیں۔ میتھی دانہ میں جو غذائی اجزا یا وٹامنز پائے جاتے ہیں
ان میں فائبر، پروٹین، کاربوہائیڈریٹ، آئرن اور میگنیشیم شامل ہے۔ میتھی دانے کا
استعمال خواتین کے لئے کئی اعتبار سے مفید
ہے، مثلاً میتھی دانہ ماں کے دودھ کی پیداوار میں اضافہ کرتا اور ہر قسم کے درد بالخصوص ماہواری کے درد سے
نجات دلاتا ہے۔ میتھی دانہ میں ورم کش خصوصیات پائی جاتی ہیں جو مؤثر طریقے سے جسمانی
ورم میں کمی لاتی ہیں۔ میتھی دانہ کے استعمال سے آنتوں کی حرکت میں اضافہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے
ہاضمہ کے مسائل میں کمی آتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ دل کی جلن کو دور کرنے کے لیے بھی
مفید ہے۔
سونف کے فوائد: سونف میں
وٹامن اے اور سی بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے جس کے سبب اس کا استعمال بینائی کی
حفاظت کرتا ہے، سونف پیٹ کے درد، قولنج (پسلی کے نیچے ہونے والے درد)، سینہ، جگر، گردہ
اور تلی کے لئے مفید ہے، دماغ کی کمزوری اور ہاضمہ کی خرابی دور
کرنے کیلئے بہترین دوا ہے، نیز یہ پیشاب اور حیض کو بھی جاری کرتی ہے۔
رائی دانہ کے فوائد: رائی کے بیج
صحت کیلئے بہت مفید ہیں۔ ان میںglucosinolate پایا جاتا ہے جو رائی کو
امتیازی ذائقہ دیتا ہے۔ طبّی تحقیقات کے مطابق رائی دانہ میں موجود مرکبات انسانی
جسم بالخصوص قولون (بڑی آنت) میں سرطانی خلیوں کو روک سکتے ہیں۔ رائی کے بیج فیٹی ایسڈز اومیگا-3، مینگنیز،
وٹامنB1،
کیلشیم، پروٹین، زِنک اور ریشے سے بھرپور ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی معروف ہے کہ رائی
کے بیج کم حرارے رکھتے ہیں۔ رائی کے بیج کا ایک چمچ صرف 32 حراروں اور 1.8 گرام کاربوہائیڈریٹس پر مشتمل ہوتا ہے۔ رائی
دانے میں موجود سیلینیوم دمے کے حملوں اور جوڑوں کے درد کی شدت کو کم کر دیتا ہے۔
رائی دانے کیلشیم اور
میگنیشیم سے بھرپور ہونے کے پیشِ نظر عمر بڑھنے کے ساتھ خواتین کو ہڈیوں سے متعلق
مسائل سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ آدھے سر کے درد کی شدت میں بھی کمی کرتا
ہے۔ (جاری ہے)
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
رسم
بسم اللہ یا بسم اللہ خوانی سے مراد یہ ہے کہ جب بچہ یا بچی چار سال چار مہینے چار
دن کا ہو جائے تو اس کو کسی اچھے عالم دین یا حافظ قرآن کے پاس لے جا کر یا گھر
میں بلا کر سب سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھائی جائے۔
اس
رسم کا اہتمام کئی مسلمان گھرانوں میں کیا
جاتا ہے، اعلیٰ حضرت سے پوچھا گیا کہ حضور تقریب بسم اللہ کی کوئی عمر شرعاً مقرر
ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا: شرعاً کچھ مقرر نہیں، ہاں مشائخ کرام کے یہاں 4 برس 4 ماہ 4 دن مقرر ہیں۔ پھر آپ نے حضرت
خواجہ بختیار کاکی رحمۃُ اللہِ علیہ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ان کی تقریب
بسم اللہ اسی عمر میں ہوئی، جس میں حضرت خواجہ غریب نواز بھی شریک تھے۔([1]) اسی طرح اَمِیْرِ اَہْلِ سنّت سے
بھی ثابت ہے کہ جب آپ کی پوتی بنت حاجی
بلال کی عمر 22 جولائی 2016 کو 4سال
4 ماہ اور 4 دن ہوئی تو تقریب بسم اللہ میں آپ نے اسے یہ الفاظ پڑھائے:بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم، مَا شَاءَ اللہ، سُبْحٰنَ اللہ ۔ پھر یہ
دعابھی کی:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْن
یا اللہ!
پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا واسطہ! تیرے اس اسمِ پاک کا واسطہ!
اسم ِ ذات کا واسطہ! ہم سب کی مغفرت فرما۔میری مدنی منّی قرآن کریم سے محبت کرنے
والی، علمِ دین سے محبت کرنے والی بنے، دعوت اسلامی کی باعمل مبلغہ بنے، عالمہ
بنے، مفتیہ بنے۔(2)
بسم اللہ خوانی کے موقع پر جائز و ناجائز باتیں:جس بچے کی
رسمِ بسم اللہ ہوتی ہے اس کے ماں باپ اس دن تقریب کا خاص اہتمام کرتے ہیں٭گھر
کو سجاتے ہیں٭طرح
طرح کے کھانے پکواتے ہیں٭قاری صاحب کو بلاتے ہیں یا ان کے پاس
مدرسے یا مسجد وغیرہ میں بچے کو لے جاتے ہیں ٭قاری
صاحب بچے کو بسم اللہ شریف کے علاوہ مختلف دعائیں، سورۂ علق کی ابتدائی 5
آیات اور کلمہ شریف وغیرہ بھی پڑھاتے ہیں ٭بعض
جگہ یہ رسم کسی بڑی عمر کے بزرگ سے کروائی جاتی ہے٭پھر
بلائے گئے مہمان بچے کو پیسے اور مبارک باد دیتے ہیں ٭مٹھائی
تقسیم ہوتی ہے ٭قاری
صاحب کو بھی تحائف وغیرہ پیش کئے جاتے ہیں۔ اگر یہ سب کچھ اہل خانہ اپنی خوشی اور
مرضی سے کریں تو کوئی حرج نہیں۔ لیکن یاد رہے اس طریقہ کار کو لازم نہ سمجھ لیا
جائے یعنی جو اتنا بڑا اہتمام نہ کر سکے، اس کو ملامت اور لعن طعن نہ کی جائے،
ورنہ ایسا کرنے والا شخص گناہ گار ہو گا۔ نیز
یہ رسم صرف لوگوں کو دکھانے کے لئے نہ کی جائے کہ فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ
والہ وسلم ہے: جو شہرت کے لئے عمل کرے گا اللہ پاک اسے رسوا کرے گا، جو دکھاوے کے
لئے عمل کرے گا اللہ پاک اسے عذاب دے گا۔(3) لہٰذا چاہئے کہ یہ کام اللہ پاک کی رضا کیلئے کریں نا کہ
نمود و نمائش کیلئے اور اس موقع پر عورتیں شریک ہوں تو پردے کا خاص خیال رکھا جائے
اور کسی قسم کی کوئی خرافات بھی نہ کی جائے۔نیز بہتر یہ ہے کہ رسم بسم اللہ کسی
باعمل سنی عالم دین یا مفتی صاحب سے کروائیں۔
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1] ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، ص 481 2 ماہنامہ فیضان مدینہ، جنوری، ص 481 3 جامع الاحادیث، 7/44، حدیث:20740
سنجید گی کیا ہے ؟ وہ تمام کام جو ہماری روز مرہ زندگی
کا حصہ ہیں، انہیں وقار اور اچھے طریقے سے ادا کیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ فلاں نے
یہ کام بڑی سنجیدگی سے کیا ہے۔ سنجیدگی اگرچہ اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتی ہے، مگر
ہم نے اسے محض گفتگو کی حد تک محدود کر دیا ہے، یعنی کم گو ہونا، فضول نہ بولنا،
قہقہہ نہ لگانا، کسی کا دل نہ دکھانا، بات بات پر مذاق نہ اڑانا وغیرہ امور کو ہی
سنجیدگی سمجھتی ہیں۔ چنانچہ اسی حوالے سے اَمِیْرِ اَہْلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ سے
ایک مدنی مذاکرے میں جب یہ پوچھا گیا کہ بعض لوگ اپنے چہرے پر ہر وقت اداسی طاری کئے رکھتے ہیں کیا اسی کا نام
سنجیدگی ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا: ہر وقت چہرے پر اداسی طاری کئے رکھنے کو سنجیدگی
نہیں کہتے بلکہ خشکی کہتے ہیں۔([i]) اسی طرح مذاق مسخری کرنا، گناہوں بھری باتیں
کرنا، لوگوں کا تمسخر اڑا نا اور بات بات
پر قہقہہ لگا نا بھی سنجیدگی نہیں۔ بلکہ اگر آپ کسی ایسے ماحول کا حصہ ہیں تو یاد
رکھئے کہ ایسے ماحول میں رہنے سے کئی گناہوں میں مبتلا ہونے کا شدید خدشہ ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جو خواتین سنجیدگی
اختیار نہیں کرتیں ان کی باتوں میں بھی تاثیر نہیں رہتی، خواہ وہ دین کی مبلغہ ہی
کیوں نہ ہوں۔ جبکہ سنجیدہ گفتگو کرنے والی اور مذاق مسخری سے بچنے والی خواتین کی باتیں
توجہ سے سنی جاتی ہیں اور ان پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ہمیں چاہئے کہ حکمت
عملی کے ساتھ اپنے معمولات کو پورا کریں اور جہاں سنجیدگی کو اپنانا ضروری ہو وہاں
سنجیدہ رہیں۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ حصولِ علم کیلئے وقار اور سنجیدگی اختیار
کرو۔(2) لہٰذا ضروری
ہے کہ ہمارے روئیے اور انداز میں میانہ روی ہو یعنی ہنسی مذاق والا مزاج ہو نہ
غصیلا انداز، بلکہ ہمیں تو اپنی زندگی کے
ہر معاملے میں ہی میانہ روی اختیار کرنی چاہیے کہ اس کے بے شمار فوائد ہیں اور اس
کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے پیارے آقا صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
سیرت کو اپنا لیں کیونکہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خوبصورت زندگی
کا ہر پہلو ہمارے لئے بے مثال نمونہ ہے، آپ سنجیدگی اور وقار کا پیکر تھے، موقع کے
لحاظ سے مسکراتے بھی تھے اور مزاح بھی فرماتے تھے مگر آپ نے کبھی بھی قہقہہ نہیں
لگایا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا
کہ آقا کریم صلی الله علیہ والہ وسلم نے
سب کے ساتھ ہنسی مذاق کیا ہو، آپ عام لوگوں کی طرح دوسروں سے نا شائستہ ہنسی مذاق
نہیں فرماتے تھے۔ آپ کے صحابہ کرام بھی
زور سے نہیں ہنستے تھے بلکہ آپ کی طرح مسکراتے تھے، وہ آپ کی مجلس میں ایسی سنجیدگی
اور وقار سے بیٹھتے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔(3) اسی
طرح حضرت اُمِّ درداء رضی اللہُ عنہا اپنے
شوہر حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ کے متعلق
فرماتی ہیں کہ وہ ہر بات مسکرا کر کیا کرتے تھے، میں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو
انہوں نے جواب دیا: میں نے حضور کو دیکھا ہے کہ آپ دورانِ گفتگو مسکرا تے رہتے
تھے۔(4)نیز حضور صلی الله علیہ والہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے اس طرح کے مضامین
بھی ملتے ہیں کہ آپ تمام لوگوں سے زیادہ تبسم فرمانے والے اور سب سے
زیادہ خوش رہنے والے تھے، البتہ! جس وقت آپ پر وحی نازل ہو رہی ہوتی(5)
یا قیامت کا تذکرہ ہو رہا ہوتا (6) یا وعظ و نصیحت سے بھرپور خطبہ ہو
رہا ہوتا تو یہ کیفیت نہ ہوتی۔(7)
ہمیں
چاہیے کہ ان احادیثِ کریمہ کی روشنی میں اپنے معمولات کاجائزہ لیں اور اپنی زندگی
کو سنجیدگی کے زیور سے آراستہ کریں، ہر کام موقع کی مناسبت سے کریں اور مسکرانے کے
وقت مسکرائیں، مگر ضرورت سے زیادہ سنجیدہ ہوں
نہ روکھے پن کا مظاہرہ کریں، ورنہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے رشتے دار اور سہیلیاں بھی ہماری
مسکراہٹ دیکھنے کو ترس جائیں۔ یاد رکھئے! غیر ضروری سنجیدگی ہمارے گھر کے افراد کو
ہی اکتاہٹ میں مبتلا نہ کرے گی بلکہ ہم سے ملنے جلنے والی خواتین بھی ہمارے قریب آنا
پسند نہ کریں گی، بالخصوص شادی شدہ خواتین ایسا رویہ نہ اپنائیں کہ اس سے بد مزاجی
پیدا ہو گی اور ان سے یہ باتیں بھی صادر ہو سکتی ہیں: بات بات پر چیخ و پکار سے
کام لینا، چھوٹی سی غلطی پر بلا وجہ غصے اور جذباتی پن کا مظاہرہ کرنا، شوہر سے روکھے
پن سے پیش آنا، ہر وقت چہرہ سپاٹ و سنجیدہ رکھنا، سیدھے منہ بات نہ کرنا، خوشی یا
رنْج کے موقع پر بھی چہرہ بے تأثّر رکھنا کہ خوشی یا غم کا اظہار ہی نہ ہو، یونہی
گھر کے دیگر معاملات سے لاتعلقی برتنا یا
بچوں سے بے رخی سے پیش آنا۔ یاد رکھئے! ان
میں سے کوئی بھی بات درست نہیں، اس سے گھر
کے ماحول بھی خراب ہوتا، میاں بیوی کے درمیان تناؤ پیدا ہوتا اور بچّوں سے ہم
آہنگی ختم ہو جاتی ہے۔ لہٰذا خشک مزاجی سے جہاں تک ممکن ہو ہمیں بچنا چاہئے اور مسکراہٹ،
ملنساری اور خندہ پیشانی کی عادات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ہو
سکے تو کبھی کبھار موقع کی مناسبت سے خوش طبعی سے بھی کام لینا چاہئے۔ اگر ہم ان اوصافِ کریمہ کو اپنا لیں گی تو ان
شاء اللہ ہماری زندگی سے بھی مشکلات کم ہوں گی اور آسانیاں پیدا ہوں گی۔
سنجیدگی کے فوائد و
برکات:٭ سنجیدگی اللہ
پاک کی رضا کا باعث ہے۔٭سنجیدگی سے بزرگی و
دنیا کی بے شمار برکتیں
نصیب ہوتی ہیں۔٭وقار اور عزت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ٭ گھر میں دینی ماحول بنانے اور نیکی کی
دعوت کو عام کرنے کے لیے سنجیدگی بھرا رویہ بہت معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ ٭سنجیدگی اختیار کرنے سے آخرت بھی اچھی
ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو یعقوب بن حسین رازی رحمۃُ اللہِ علیہ کوکسی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا: الله پاک نے
آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ کہنے لگے: اللہ پاک نے میری مغفرت فرما دی۔ پوچھا گیا:
کس وجہ سے؟ فرمایا: میں سنجیدہ بات میں مذاق شامل نہ کرتا تھا۔(8)
٭ منقول ہے: سنجیدگی اور وقار سے اچھا کوئی ہار نہیں، اللہ پاک جس کے فہم
و فراست میں اضافہ فرماتا ہے اس کی ہدایت میں بھی اضافہ فرما دیتاہے۔(9)
سنجیدگی نہ اپنانےکے نقصانات: ٭غیر سنجیدہ
خواتین کو پسند نہیں کیا جاتا٭ان کے
متعلق رائے بھی اچھی نہیں رکھی جاتی ٭ ان سے
مدد لی جاتی ہے نہ کی جاتی ہے ٭ان سے
دور رہنے میں عافیت سمجھی جاتی ہے ٭ بسا
اوقات ذلت و رسوائی کا سامنا بھی کرنا پڑ
جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃُ اللہِ علیہ کا فرمان ہے کہ آپس میں ٹھٹھا مذاق مت کیا کرو کیونکہ اس طرح ہنسی ہنسی میں دلوں میں نفرت بیٹھ
جاتی ہے اور برے افعال کی بنیاد دلوں میں اُستوار ہو جاتی ہے۔(10)
اللہ
پاک ہمیں سنجیدگی اور وقار کو اپنا کر اپنی زندگی اچھے انداز میں گزارنے کی توفیق
عطافرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
(یہ مضمون ماہنامہ خواتین
ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[i]مدنی مذاکرہ قسط 28: حافظہ کمزور ہونے
کی وجوہات، ص 31 2جامع بیان العلم وفضلہ، ص187، حدیث:599
3وسائل
الوصول کتاب جمال مصطفیٰ، ص157 4مکارم الاخلاق للطبرانی، ص319، حدیث: 21 5مکارم الاخلاق للطبرانی، ص319، حدیث:
22 6نسائی،ص 274تا275، حدیث: 1575 7مسلم، ص 430، حدیث 867 8احیاء العلوم مترجم، 5 / 654 9حلیہ، 5/ 160، الرقم: 6625 0کیمیائے سعادت، 2/563
دینِ
اسلام کی یہ خوبی ہے کہ اس نے اپنے ماننے والوں کو ایک دوسرے کے حقوق کا خیال
رکھنے کا ہی حکم نہیں دیا بلکہ ایک دوسرے کی عزت کی حفاظت کا بھی حکم دیا ہے۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہر وہ عمل جس کی وجہ سے کسی کی عزت پر حرف آتا ہو یا معاشرے
میں فساد و بگاڑ پیدا ہو اس سے بچنے کی بھی خوب تاکید کی ہے۔ مثلاً ایک طرف راستوں
سے گندگی ہٹا دینے کو صدقہ قرار دیا تو دوسری طرف مذاق کے ذریعے کسی مسلمان کی عزت
کو پامال کرنے کو حرام و ناجائز اور گناہ قرار دیا۔ لہٰذا یاد رکھئے! تضحیک یعنی مذاق اڑانا چاہے اسلام کا
ہو، دینی شعائر کا ہو یا معاذ اللہ انبیائے کرام و اولیا و صلحا کا ہو یا عام
بندوں کا، اللہ پاک کو سخت ناراض کرنے والا کام ہے، اس لئے اس کی اسلام میں شدید مذمت بیان فرمائی گئی ہے اور قرآن کریم میں
ایسے واقعات کثرت سے موجود ہیں جن میں یہ بتایا گیا کہ مذاق اڑانےوالی قومیں تباہ
کردی گئیں۔
مذاق اڑانے کا مطلب: مذاق اڑانے سے مراد یہ ہے کہ کسی کو
حقیر جان کر اس کا حقیقی یا فرضی عیب اس طرح بیان کرنا کہ سننے والے کو ہنسی آئے۔([1]) مذاق اڑانا
بلا شبہ بیوقوفوں اور جاہلوں کا شیوہ ہے، کوئی بھی با شعور و عقل مند اس عمل کو
پسند کرتا ہے نہ ہمارے دین میں اس کی اجازت ہے۔ جیسا کہ پارہ 26، سورۃ الحجرات کی 11
ویں آیت میں ہے: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا
يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا
نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ١ۚترجمۂ
کنزالعرفان:اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں پر نہ ہنسیں، ہو سکتا ہے کہ وہ
ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں پر ہنسیں، ہو سکتا ہے کہ
وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں۔
اس
آیت کریمہ کے شانِ نزول کے متعلق دو قول ہیں:
(1)حضرت
انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضور نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہُ عنہن کے
متعلق نازل ہوئی ہے کہ انہوں نے حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہُ عنہا کو چھوٹے قد کی وجہ سے شرمندہ کیا تھا۔(2)
(2)حضرت
عبدُ اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں: آیت کا یہ حصہ اُمُّ المومنین حضرت
صفیہ بنتِ حیی رضی اللہُ عنہا کے حق میں اس وقت نازل ہوا جب انہیں حضورِ اقدس صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ایک
زوجہ مطہرہ نے یہودی کی بیٹی کہا۔(3)
مذاق اڑانے کے مختلف طریقے: کسی کا مذاق اڑانے کے مختلف طریقے ہیں: مثلاً کسی کی رنگت کا مذاق اڑایا جائے۔٭کسی
کے وزن کے انتہائی کم یا زیادہ ہونے کا مذاق اڑایا جائے ٭کسی
کی غربت و مفلسی کا مذاق اڑایا جائے ٭کسی کی
کامیابی یا ناکامی کا مذاق اڑایا جائے٭کسی کو حاصل
ہونے والے نفع و نقصان کا مذاق اڑایا جائے ٭کسی میں پائے
جانے والے جسمانی عیب کا مذاق اڑایا جائے ٭کسی کی
دینداری کا مذاق اڑایا جائے ٭کسی کے تقویٰ
کا مذاق اڑایا جائے ٭کسی کے عمدہ اخلاق والا ہونے پر اس کا
مذاق اڑایا جائے۔
مذاق کی آفات: ٭فی زمانہ جگت بازی کے نام پر کثیر خواتین بے سوچے سمجھے جو
منہ میں آیا کہہ دیتی ہیں اور یہ بھی پروا نہیں کرتیں کہ اس سے کسی کی دل آزاری ہو رہی ہے٭نیز
یہ بھی بھول جاتی ہیں کہ ان کا یہ عمل کسی بہت بڑے گناہ کا بھی سبب بن سکتا ہے،
یعنی زبان کی حفاظت نہ کرنے کی وجہ سے معاذ اللہ کلمات کفر بھی منہ سے نکل سکتے
ہیں۔ ٭آج
یہ کسی کو اپنے مذاق کا ہدف بنائے ہوئے ہیں تو کل کوئی اور انہیں بھی مذاق کا تختہ
مشق بنا سکتا ہے۔
مشہور
کہاوت ہے: جو آج کسی پر ہنس رہا ہے کل اس پر بھی ہنسا جا سکتا ہے۔ ٭جنہیں
اپنے ایمان کی فکر نہیں ہوتی وہ اپنا وقت مذاق میں صرف کر کے برباد کرتی ہیں ٭جھوٹ
کی آمیزش بھی مذاق میں اہم کردار ادا کرتی ہے، یاد رکھئے! جھوٹ بولنے والیاں بھی اللہ
پاک کے غضب کو دعوت دیتی ہیں۔٭مذاق
کرنے والیاں بعض اوقات اتنے سخت الفاظ استعمال کرتی ہیں کہ جس کا مذاق اڑایا جائے
وہ بہت عرصے تک اس صدمے سے نہیں نکل پاتی اور وہ الفاظ اسے رنج پہنچاتے رہتے ہیں
اور ادھر دل آزاری کرنے کے بعد کہا جاتا ہے کہ ہم نے تو بس مذاق کیا تھا، افسوس! ہمارے
دین نے جس عمل کو نا پسند کیا ہے لوگ اسی سے لطف اٹھاتے ہیں۔
مذاق کے نتائج: یاد رکھئے! بے تکے مذاق والے روئیے کے دنیا
و آخرت دونوں میں منفی نتائج نکلتے ہیں۔ مثلاً اس سے جہاں باہمی کدورتیں، رنجشیں،
لڑائی جھگڑا، انتقامی سوچ، بدگمانی، حسد اور سازشیں جنم لیتی ہیں، جس سے دنیاوی
زندگی بھی بسا اوقات جہنم محسوس ہوتی ہے تو دوسری جانب ایسے روئیے والی خواتین خدا
کی رحمت سے محروم ہو کر ظلم کرنے والیوں میں شمار
ہوتیں، اپنی نیکیاں گنوا بیٹھتیں اور آخرت
کو خطرے میں ڈال دیتی ہیں۔ اس بری
عادت کے نتائج کا اندازہ اس سے لگائیے کہ حضور صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا
فرمان ہے: جس نے کسی مسلمان کو(ناحق)ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا
دی اس نے اللہ پاک کو ایذا دی۔(4) اسی طرح ایک روایت میں ہے: قیامت کے
روز لوگوں کا مذاق اڑانے والے کے سامنے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور کہا
جائے گا کہ آؤ!آؤ! وہ جیسے ہی دروازے کے پاس پہنچے گا دروازہ بند ہو جائے گا۔ پھر
جنت کا ایک دوسرا دروازہ کھلے گا اور اس کو پکارا جائے گا کہ ادھر آ جاؤ! وہ رنج و
غم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے پاس جائے گا تو وہ بھی بند ہو جائے گا۔ اسی طرح اس
کے ساتھ معاملہ ہوتا رہے گا یہاں تک کہ جب دروازہ کھلے گا اور اسے بلایا جائے گا تو وہ نہیں جائے گا۔(5)
یہ عادت کس طرح ختم کی جائے؟ اگر کسی اسلامی بہن میں ایسی
عادتِ بد موجود ہے تو اسے چاہئے کہ ٭پہلی فرصت میں
اللہ پاک کی بارگاہ میں سچی توبہ کرے اور آئندہ اس مذموم فعل سے بچنے کی بھر پور
کوشش کرے ٭ایسی
سہیلیوں سے جان چھڑائے جو اس طرح کی حرکات میں مبتلا ہیں ٭مسلمانوں
کا مذاق اڑانے کی اسلام میں جو وعیدیں بیان کی گئی ہیں ان کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھے ٭نیک
صحبتوں اور اجتماعات میں اپنا زیادہ وقت گزارے٭سنجیدہ
اسلامی بہنوں کی زندگی کا بغور جائزہ لے اور ان جیسا بننے کی کوشش کرے، اللہ پاک
نے چاہا تو جلد اس مرض سے چھٹکارا مل جائے گا۔
اسلام
میں کسی بھی انسان کو حقیر سمجھنے کی اجازت نہیں بلکہ بہترین مسلمان وہی ہے جس کی
زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔لیکن
اگر کسی کو ایسی آزمائش کا سامنا ہو بھی تو صبر کرے اور جوابی کاروائی کر کے خود
بھی اسی گناہ میں شامل نہ ہو جائے۔ البتہ! یاد رہے کہ ایسا مذاق جو کسی کو خوش
کرنے کے لئے ہو اور اس میں کوئی غیر مناسب بات بھی نہ ہو، جسے خوش طبعی اور خوش مزاجی کہتے ہیں تو اس میں
کوئی حرج نہیں بلکہ خوش طبعی کرنا سنتِ مستحبہ ہے۔(6) جیساکہ ایک مرتبہ
حضور نے حضرت انس کو یا ذَا الاُذْنَیْن یعنی اے دو کانوں والے فرمايا۔ (7)
اللہ
پاک ہمیں ہر اس عمل سے بچائے جو دوسروں کی تکلیف کا باعث بنے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1] احیا ء العلوم، 3/207 2 تفسیر خازن، 4 / 169 3تفسیر
خازن، 4/ 169 4 معجم اوسط، 2 /386، حدیث: 3607 5 موسوعہ ابن ابی دنیا،7/183، حدیث: 287 6 مراٰۃ المناجیح،6 /493 ماخوذاً 7 ترمذی، 3/399،
حدیث:1998
حدثنا عمرو بن سواد المصري قال: حدثنا عبد الله بن وهب، عن عمرو بن الحارث،
عن سعيد بن أبي هلال، عن زيد بن أيمن، عن عبادة بن نسي، عن أبي الدرداء، قال: قال رسول
الله صلى الله عليه وسلم: ”أكثروا الصلاة علي يوم الجمعة؛
فإنه مشهود، تشهده الملائكة، وإن أحدا لن يصلي علي، إلا عرضت علي صلاته، حتى يفرغ
منها“قال: قلت: وبعد الموت؟ قال: ”وبعد الموت، إن الله حرم
على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء، فنبي الله حي يرزق“
سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے:’’اَکْثِرُوا الصَّلَاۃَ عَلَیَّ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَاِنَّہٗ مَشْہُوْدٌ
تَشْہَدُہُ الْمَلَائِکَۃُ وَاِنَّ اَحَدًا لَنْ یُّصَلِّیَ عَلَیَّ اِلَّا عُرِضَتْ
عَلَیَّ صَلَا تُہُ حَتَّی یَفْرُغَ مِنْہَا“
”یعنی جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے دُرُود بھیجا کرو کیونکہ یہ یومِ مشہود (یعنی میری بارگاہ میں فِرِشتوں کی خُصُوصی حاضِری کا دن)ہے، اس دن فِرِشتے (خُصُوصی طور پر کثرت سے
میری بارگاہ میں ) حاضِر
ہوتے ہیں، جب کوئی شخص مجھ پر دُرُود بھیجتا ہے تو اس کے فارغ ہونے تک اس کا
دُرُود میرے سامنے پیش کردیا جاتا ہے ۔“ حضرتِ سَیِّدُنا ابُو دَرْداء رضی اللّٰہ عَنْہ کا بیان ہے کہ میں نے عرض کی: ’’(یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!) اور آپ کے وصال کے بعد
کیا ہوگا؟‘‘ارشاد فرمایا:’’ہاں (میری
ظاہری) وَفات کے بعد بھی (میرے سامنے اسی طرح پیش
کیا جائے گا)“۔ ”اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاْکُلَ اَجْسَادَ
الْاَنْبِیَاءِ،یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے زمین کے لئے اَنبیائے کرام علیھم الصَّلوۃ والسَّلام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے۔“ فَنَبِیُّ اللّٰہِ حَیٌّ یُرْزَقُ،”پس
اللہ عَزَّوَجَلَّ کا نبی زِندہ ہوتا ہے اور
اسے رِزْق بھی عطا کیا جاتا ہے۔‘‘ (سنن ابن
ماجه،کتاب الجنائز،باب ذكر وفاته ودفنه صلى الله عليه وسلم،
جلد 1،صفحہ 519،حدیث:1637(
ہمیں کوشش کرکے بالخُصُوص جمعۃالمبارک
کے دن دُرُود شریف کی کثرت کرنی چاہئے کہ اَحادیثِ مُبارَکہ میں اِس روز کثرتِ دُرُود کی خاص طور پر تاکید کی
گئی ہے اور زَمین اَنبیائے کرام عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃُوالسَّلام کے مُبارک جسموں کو
کیوں نہیں کھاتی ، اس کی اِیمان اَفروز تَوجِیہ بیان
کرتے ہوئے حضرتِ علَّامہ عبدالرؤف مَنَاوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ
اللّٰہ الْقَوی ارشاد فرماتے ہیں: ’’لِاَنَّہَا
تَتَشَرَّفُ بِوَقْعِ اَقْدَامِہِمْ عَلَیْہَا وَتَفْتَخِرُ بِضَمِّہِمْ اِلَیْہَا
فَکَیْفَ تَأْکُلُ مِنْہم،اس
لئے کہ زمین اَنبیائے کرام عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے مُبارک قَدموں کے بوسے سے مُشرَّف ہوتی ہے اور اسے یہ
سَعادت ملتی ہے کہ َانبیائے کرام کے مُبارک اَجسام زمین سے مَس ہوتے
ہیں تو یہ اِن کے جسموں کو کیسے کھا سکتی ہے ۔ (فیض القدیر،حرف الھمزۃ،جلد 2،صفحہ
535،تحت الحدیث 2480)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تمام حضرات انبیاء عَلَیْھِمُ
الصَّلٰوۃ والسَّلام کے مقدس اجسام ان کی مبارک قبروں میں سلامت رہتے ہیں اور زمین پر
حضرت حق جل جلالہ نے حرام فرما دیا ہے کہ ان کے مقدس جسموں پر کسی قسم کا تغیر و
تبدل پیدا کرے۔ جب تمام انبیا عَلَیْھِمُ
الصَّلٰوۃ والسَّلام کی یہ شان ہے تو پھر بھلا حضور سید الانبیاء و سید المرسلین
اور امام الانبیاء و خاتم النبییّن صلى الله عليه وسلم کے مقدس جسم انور کو زمین کیونکر کھا سکتی ہے؟
اس لئے تمام علماء امت و اولیاء امت کا یہی عقیدہ ہے کہ حضورِ اقدس صلى الله عليه وسلم اپنی
قبر اطہر میں زندہ ہیں اور خداعزوجل کے حکم سے بڑے بڑے تصرفات فرماتے رہتے ہیں اور اپنی خداداد پیغمبرانہ قوتوں
اور معجزانہ طاقتوں سے اپنی امت کی مشکل کشائی اور ان کی فریاد رسی فرماتے رہتے
ہیں۔
خوب یاد رکھئے !کہ جو شخص اس کے خلاف عقیدہ
رکھے وہ یقینا بارگاہِ اقدس کا گستاخ بد عقیدہ، گمراہ اور اہل سنت کے مذہب سے خارج
ہے۔ (سیرتِ
مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم،صفحہ 645)
حضراتِ انبیاء عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃ والسَّلام بالخصوص حضرت سیدالانبیاء صلى الله عليه وسلم اپنی
اپنی قبر میں لوازمِ حیات جسمانی کے ساتھ زندہ ہیں اور ہر گز ہرگز ان کے جسموں کو
مِٹی نہیں کھاسکتی کیوں کہ اللہ پاک نے زمین پر حرام ٹھہرادیا ہے کہ وہ انبیاء
کرام عَلَیْھِمُ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے جسموں کو کھاسکے۔
اس حدیث کا آخری فقرہ کہ ” فَنَبِیُّ
اللہِ حَیٌّ یُّرْزَقُ“ یعنی اللہ عزوجل کے نبی زندہ ہیں اور انہیں روزی دی جاتی ہے۔اس کا کیا مطلب ہے؟ تو اس بارے
میں صاحبِ مرقاۃ کا بیان ہے کہ ("يرزق"):رزقا معنويا فإن الله تعالى قال في حق الشهداء من أمته (بل أحياء عندربهم يرزقون) [آل عمران: 169]
فكيف سيدهم بل رئيسهم۔۔۔۔ ولا ينافيه أن يكون هناك رزق حسي أيضا، وهو الظاهر المتبادر۔
(مرقاة المفاتيح شرح
مشكاة المصابيح،جلد
3،صفحہ 1020،تحت الحدیث 1366)
یعنی انہیں رزقِ معنوی دیا جاتا ہے اس لیے کہ
اللہ پاک نے آپ کی امت کے شہیدوں کے بارے میں فرمایا کہ ”بلکہ وہ زندہ ہیں اور
روزی دیئے جاتے ہیں۔“ تو پھر کیا حال ہوگا ان شہیدوں کے سردارکابلکہ رئیس کا اور
یہ جو ہم نے لکھ دیا ہے کہ رزق معنوی دیاجاتا ہے تو یہ اسکے منافی نہیں ہے کہ اللہ
پاک انہیں رزق حسی بھی عطا فرمائے اور یہاں یہی رزق حسی مراد لینا ظاہر ہے جو جلد
ذہنوں میں آجاتا ہے۔ (یعنی ظاہری طور
پر کھانا پینا)۔ (بہشت
کی کنجیاں،صفحہ 149)
از: مولانا سید کامران عطاری مدنی
توجہ فرمائیں:
مضمون کے تمام مندرجات (حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح،پروف ریڈنگ، فارمیشن ودیگر کا م) مؤلف
کے ذمے ہیں، ادارہ اس کاذمہ دار نہیں، الغرض شرعی تفتیش ادارے کی جانب سے کروائی جاچکی ہے۔راقم کی جانب
سےمضمون کو ہر طرح کی اغلاط سے پاک کرنے کی مقدوربھرکوشش کی گئی ہے تاہم پھر بھی مضمون میں اگر کہیں غلطی پائیں تو مذکورہ
میل آئی ڈی پر رابطہ فرمائیں:
آج رات عالمی مدنی مرکز کراچی میں نعت خوان اسلامی بھائیوں کا مدنی
مذاکرہ ہوگا
تفصیلات کے مطابق آج 15 اگست 2022ء کو عالمی
مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں نعت خوان اسلامی بھائیوں کا مدنی مذاکرہ ہوگا جس میں امیرِ اہل سنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ مدنی پھول ارشاد فرمائیں گے۔ مدنی مذاکرے کا آغاز رات
ساڑھے نو بجے ہوگا۔ اس موقع پر مدنی چینل پر براہِ راست سوالات و جوابا ت کا سلسلہ
بھی ہوگا جبکہ نعت خوان اسلامی بھائی آف ایئر
مدنی مذاکرے میں امیر اہل سنت سے سوالات
بھی کرسکیں گے۔
یومِ آزادی ) 14اگست) قریب ہے اور اس دن اللہ
کریم کی نعمتوں میں سےایک نعمت ”ملکِ
پاکستان“ کی صورت میں ہمیں نصیب ہوئی، 14اگست 1947ءکو ا للہ کریم نےمسلما نوں کو غیر مسلموں
کی غلامی سے ہمیشہ کے لئےآزا دی نصیب فرمائی،اگر تاریخ پاکستان کامطالعہ کیا جائے تو یہ بات
روز روشن کی طرح واضح ہےکہ اس آزا دی کو حاصل کرنے کے لئے 1857ءسے1947ء تک تقریبا 90سال کی جدو جہدشامل ہے،ملکِ پاکستان کی
آزا دی کے لئےکئی علماوصلحا کےساتھ ساتھ عام مسلمانوں نےبھی اپنی جانوں کی قربانی پیش کی، ایک اندازے کےمطابق ملک پاکستان کی بنیاد کے لئے لاکھوں لوگوں نےاپنی جانوں
کی قُربانی دی جن میں بچے،بوڑھے،مردا ور عورتیں شامل تھیں،اِس وطنِ عزیز کی آ زا دی
کے لیے لوگوں نے ا پنی جائیدادیں
چھوڑ یں، گھربارچھوڑا ،تقریبا18 لاکھ لوگوں کا خون ، کئی نوجوان لڑکیوں کی عزت ا ور کئی بہنوں کےسہاگ شامل ہیں۔راقم الحروف کو ایک نمازی نےواقعہ سنایا، جب بھی وہ واقعہ یادآتا ہے تودل خون کےآنسو روتاہےاور روح
کانپ جاتی ہے،آپ بھی اس واقعہ کو ملاحظہ کیجئے : چنانچہ
ایک مرتبہ عصرکی نماز کے بعد ایک نمازی نے چائےکی دعوت دی تو میں ا ن کے
ساتھ ان کے گھر چلاگیاا ن کی عمر تقریبا 100سال کےقریب ہے اور نمازوں سےمحبت ا یسی کہ پانچوں نمازیں مسجد میں ادا کرنے آتے ہیں،خیران
کے گھر پہنچ کر ان کے ساتھ بات چیت شروع ہوئی تو میں نے ان سے عرض کی :آپ نے تو ا پنی آنکھوں
سےپاکستان کو بنتےدیکھا اور حالات و واقعات کو دیکھا اور ہجرت کرکے پاکستان آئے ہیں
تو کوئی واقعہ ہی سنا دیجئے؟ میری یہ بات ختم ہوئی تو انہوں نے ایک لمبا سانس لیا اور بات
شروع کرنے سے پہلے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئےاور پھر انہوں نے ایک واقعہ سنایا کہ جب ملک پاکستان اور مسلمانوں کی ایک آزاد ریاست بننےکی خبر ملی تو جوجہاں تھا اس نے
وہیں سے پاکستان کی طرف ہجرت کرلی، نہ وا لدین
کی کوئی خیر خبر اور نہ گھر وا لوں کی فکر،بس سب کی زبان پر ایک نعرہ تھا کہ پاکستان کامطلب کیا؟ ”لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ “ لوگوں
کاایساشوق
اور ایسا جذبہ کہ بیان سےباہر ا ور دوسری طرف دشمن پیچھابھی
کررہے تھےاس لئے ہم چھپتے چھپاتے آرہے تھے
ایک جگہ گنے( کماد ) کی فصل تھی تو ہم لوگ اس میں چھپ گئے ، ہمارے ساتھ ایک عورت بھی تھی جس کےپاس ایک دودھ پیتا بچہ تھا ،جیسے ہی بچے کوگرمی کی
وجہ سےگھٹن محسوس ہوئی تو اس
نے رونا شروع کردیا ا ور ا ب
وہا ں موجود لوگوں نے اس کی ما ں کی طرف تِرچھی
نظروں
سےدیکھنا شروع کردیا کہ اس بچےکی آوا ز سن کر دشمن آجائیں گےا ور سب کی جان جائے گی، بچےکی ما ں نے لوگوں کی طرف دیکھا اور اس کے بعد جو عورت نے کیا وہ آج
بھی جب یادکرتے ہیں تود ل خون کےآنسو روتاہے، وہ یہ کہ اس ماں نےاپنےاس دودھ
پیتے بچے کا اپنے ہاتھوں سے گلہ دبا دیا۔
اور دوسرا واقعہ
کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ قیامِ
پاکستان کے کچھ ماہ بعد لاہور کی ایک مسجد
کے باہر ایک بابا جی اکثرنظر آتے، ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا، لوگ ترس کھا کر کوئی کھانے کی چیز رکھ جاتے، بہت کمزور تھے،کبھی کوئی لقمہ لے لیا تو سہی وگرنہ
اکثر کھانا خراب ہو جاتا، زیادہ تر گُم سُم بیٹھے رہتےکبھی ا پنے آپ سے باتیں کرتے
پھر دن میں ایک دو دفعہ چیخ مارتے اور زور زور سے رونے لگتے ایک دن ا ن کے
پاس ایک بزرگ بیٹھے تھےمیں نے پوچھا :آپ
کون؟ بولے: یہ میرے رشتہ دار ہیں ، پوچھا: یہ دن میں ایک دو دفعہ اونچی آواز سےایک
لڑکی کا نام لیتے ہیں اور زور سے چیخ مار کر رونے لگتے ہیں ، رشتہ دارکی آوا ز بھرآئی،
بولے بیٹا! یہ بہت بڑے بیوپاری تھےپاکستان ہجرت کے وقت یہ ہندو اکثریتی علاقےمیں تھے
ہندو گروہ کی شکل میں آتے جو گھرمسلمانوں
کے ہوتےمردوں، بوڑھی خواتین کو مار دیتے اور نوجوان لڑکیوں کو اٹھا کر ساتھ لے
جاتےایک دن ایسا ہی حملہ ان کےگھر پر ہوا،
ا ن کے گھر کےساتھ ایک کنواں تھا، ایک ہی لاڈلی اکلوتی بیٹی تھی سترہ اٹھارہ /سال
کی،اسےکنویں کےکنارے کھڑا کیا اس ڈر سےکہ بلوائی، اس کی عزت خرا ب نہ کریں اسے
دھکا دے دیا،گرتے ہوے بیٹی نے ایک چیخ ماری تھی جب ان کو اپنی اس لاڈلی کی وہ چیخ یاد آتی ہے تویہ خود چیخ مار کر رونے لگتے ہیں ،اس دکھ میں ان
کا ذہنی توازن بھی ٹھیک نہیں رہا۔
اےمیرےعزیزہم
وطنو! اُس منظرکوذرا تصورمیں لائیےاورسوچئےیہی لوگ
پاکستان کے اصل وارث ہیں، کتنے دلیر اور غیرت
مند تھے کہ کسی نے بچے کو
تو کسی نے بیٹی کو پاکستان
کے لئے قربان کر دیا۔ یہ لوگ اتنی
قربانیاں دینے کےباوجودبھی ایک الگ ملک و ریاست چاہتے تھے تاکہ ا ن کےبعدآنے والےسکون سے زندگی گزارسکیں،
بغیرکسی خوف وغم کے رب کریم کی عبادت کریں، دین اسلام کی تبلیغ کریں،ذرا سوچئے!اگر ان شہیدانِ ملک پاکستان نےکل قیامت کے دن ہم سے رب کی بارگاہ
میں یہ سوال کر لیا کہ: کیا ہم نے اس لئےجانیں قربان کی تھیں کہ تم اس ملک میں اللہ کریم کی نافرمانی کرو،جشنِ آزادی کےنام پر گانے باجےاور رَقص
وسُرُودکی محفلیں سجاؤ۔ بندوں کےحُقُوق پامال کرو، لوگوں کو جانی و مالی نقصان
پہنچاؤ، شراب نوشی کرو، جُوا کھیلو، بائکوں کےسلینسرز نکال کر یا وَن ویلنگ کرکے ا
پنی جانوں کو ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر برائیوں کو عام کرو تو
پھر کیا جواب دیں گے؟
اس لئےآج اللہ پاک کی نعمت جوہمیں وطنِ
عزیز پاکستان کی صورت میں حاصل ہوئی ہے، اس
کی قدر کریں، یوم آزادی کےموقع پر خوشی کا
اظہار ضرور کریں لیکن ا یسے طریقے سے کریں،جس میں ا للہ پاک کی رِضا
اور ہمارے ملک پاکستان کی بقا شامل ہو،کیو نکہ اچھے لوگ ہی اپنے ملک سے محبت کرتے ا ور اس کی دیکھ بھال
کرتے ہیں:امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ”محاضرات الادباء “ میں لکھتے ہیں :
حب الوطن من طین
المولد یعنی عمدہ اور نیک طبیعت کےلوگ ہی اپنےوطن سےمحبت کرتے ہیں۔ (محاضرات الادباء،2/652 مفہوماً)
لہٰذا اپنے وطن عزیز سےمحبت کا اظہارضرور کیجئے لیکن اس طرح کیجئے کہ جشن آزادی ا للہ پاک کی رِضا ا ور اس نعمت (یعنی وطنِ عزیز کے
ملنے) کا شکر ادا کرنےکی
نیت سےنوافل پڑھئےا ور تلاوت قرآن کیجئے نیز اپنےوہ مسلمان بھائی جنہوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ملک پاکستان حاصل کیا انہیں ایصالِ ثواب کریں اور پھر اپنے پیارے وطن عزیز کے لئے یوں
دُعابھی کیجئےکہ یا ربّ کریم ! تونےہمیں آزاد ملک کی صورت میں جو نعمت عطافرمائی
ہے، ہمیں اس کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرما، اس میں تیرے ہی احکامات ا ور تیری رِضا والے کام کرنےکی توفیق عطا فرمااور ہراس کام سے بچنےکی توفیق عطا فرما،جس سےتواور تیرے پیارےحبیب ناراض ہوتے ہوں۔
بانی دعوت اسلامی ،ا میرِ اہلسنّت،حضرت علّامہ مولانا محمدا لیاس عطارقادری دا مت بَرَکاتُہمُ
العا لیہ کی سوچ ا ور آپ کی ”وطنِ عزیز ملکِ
پاکستان“سےسچی محبت کہ آپ نے مختلف مدنی مذاکروں میں”یومِ آزادی“ کی نعمت پرجو مفید ارشادات عطا
فرمائےوہ بھی ملاحظہ کیجئے: چنانچہ
آپ دامت
بَرَکاتُہمُ العالیہ ارشاد فرماتے ہیں:ایک بہت بڑی تعدادہے جو جشنِ آزادی غلط طریقے سے مناتی ہے، خُوب ہلہ گلہ اورہلڑ بازیاں کرتی،ہوائی فائرنگ ا ور نہ جانے کیا کچھ کرتی ہے،ا للہ کرےکہ مُسلمان ان خُرافات (برائیوں)سےبچ کرمسجد میں آکر ہمارے ساتھ جشنِ آزا دی منائیں،اگر دُور ہوں تو مدنی چینل دیکھ
کرجشنِ آزا دی منائیں تو اِنْ شَاءَ اللہ وہ وقت بھی آئے گا کہ ہم جہنّم سے آزا دی کا جشن منائیں گے ہاں!یہ جہنّم سےآزادی کا جشن جیتے جی نہیں ہوسکے گا۔ (پھر امیراہلسنت دامت بَرَکاتُہمُ العا لیہ جشنِ آزا دی پرخُرافات (برائیوں)میں پڑنےوا لوں کو
بچنےکا ذہن دیتے ہوئے ارشا د فرماتے ہیں :) کیاعجب جنہوں نےگنا ہوں کا بھر پور پروگرام بنارکھاہے،وہ گناہوں کا وقت شروع ہونے سے
پہلے پیکِ اجل(یعنی موت) کو لبیک کہہ دیں اور اُنہیں موت آجائے،کیاعجب! اِس را ت
ہونے وا لی فائرنگ میں کسی گو لی پر کسی کا نام لکھا ہوکہ میں اُس کی کھوپڑی میں
جاؤں گی، اُس کے سینے کوچھلنی کروں گی اورقبر کاگڑھا اُس کےلیے تیار ہو،کفن اُس کے
لیےمتعین ہوکہ یہ کفن آج اُس نےپہننا
ہے،یا ہسپتال کاکوئی بیڈ اُس کا منتظر ہو۔یاد رکھئے!گناہ
کرتےکرتےمرنا یا گُناہ کا پکا ارا دہ ہو،اس حالت میں موت سے ہمکنار ہونا اچھا نہیں
ہے،کاش گناہ کرتے ہوئےہمیں یہ احساس ہوکہ میرا ربّ کریم مجھےدیکھ رہا ہے،میرا ربّ کریم ناراض ہوگیاتو کہیں میں ا پنی آخرت خراب نہ کربیٹھو،اے میرے ہم وطنو! اگر
گناہ کےسلسلے آپ نے سوچ رکھے ہیں تو مہربانی
کرکے باز آجائیے ، توبہ کر لیجیےا ور اس مرتبہ آپ نیت کر لیجئےکہ
جشنِ آزا دی دعوت اسلامی کےساتھ منائیں گے ان شاء اللہ ۔ ا للہ کریم تما م مسلمانوں کوعقل سلیم عطا فرمائے۔آمین
آخرمیں شیخ طریقت،بانی دعوت اسلامی مولانا
محمدالیاس عطارقادری دامت بَرَکاتُہمُ العا لیہ کا ملک پاکستان کے لئے لکھا ہوا دعائیہ کلام بھی ملاحظہ فرمائیے :
یا خُدا پاک وطن کی تو حفاظت فرما
فضل کر اس
پہ سدا سایۂ رحمت فرما
مرحبا پاک وطن پاک وطن
پاکستان
دے ترقی تو عنایت اسے
برکت فرما
اس کو تو قلعۂ اسلام
بنا دے یاربّ!
میرے پیارے وطن پہ رحمت
فرما
شکر صد شکر غلامی سے
ملی آزادی
پھر عنایت ہمیں کھوئی
ہوئی شوکت فرما
آج ہے امن وطن کا میرے
پارہ پارہ
پھر مہیا میرے مولا
اسے راحت فرما
چور ڈاکو سے مِرے پاک
وطن کو کر پاک
ملک سے دُور تو رشوت
کی نحوست فرما
بچہ بچہ ہو نمازی میرے
پاکستان کا
اور عطا جذبۂ پابندیِ
سُنّت فرما
واسِطہ شاہِ مدینہ کا
اے پیارے اللہ
دُور عطار سے دنیا کی محبّت فرما
از: مولانا عبدالجبار عطاری مدنی
ا سکالر:المدینۃ العلمیہ(اسلامک
ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی )
٭ عربی میں عاشور اء اسم عدد10 کو کہتے ہے ،10محرم الحرام کو عاشورہ کہنے کی
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس دن اللہ پاک نے 10 انبیائے کرام کو اعزاز
و اکرام سے نوازا۔([1])
جس
طرح مہینوں کے اعتبار سے رمضان المبارک بڑا با برکت مہینا ہے ، دنوں کے اعتبار سے
جمعۃ المبارک بڑا بابرکت دن ہے۔
اسی طرح رمضان المبارک کے بعد محرم الحرام بڑا بابرکت مہینہ ہے۔ اسلامی
سال کا پہلا مہینہ محرم الحرام یہ حرمت والے مہینوں میں سے ہے جب ہی اس کے ساتھ ’’حرام‘‘ لگتا ہے اور یہاں ’’حَرام‘‘ حلال کے مقابل نہیں ہے بلکہ اس
لفظ ’’حَرام‘‘ سے مراد’’ عزت و حرمت ہے‘‘ چونکہ محرم کا مہینا عزت و
حرمت والا ہوتا ہے، اس لئے اس کے ساتھ
حرام بولا جاتا ہےجس طرح کعبۃ اللہ جس مسجد میں ہے اس کا نام مسجد حرام ہے جس کا مطلب ہے:عزت وحرمت والی
مسجد۔
اللہ
پاک قراٰن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:وَذَکِّرْہُمْ بِاَیّٰىمِ
اللہِ ؕ(پ ۱۳،ابراھیم :۵)ترجَمۂ کنزالایمان:اور انھیں اﷲ کے دن یاددلا۔ تفسیر
خزائن العرفان
میں ایّام اللہ کے تحت دسویں محرم الحرام کو واقع ہونے والا
واقعہ ہائلہ ( ہولناک واقعہ ) بھی ہے۔
٭یوم
عاشورہ کو بہت سے تاریخی واقعات رونما ہوئے ہیں جن کا ذکر احادیث طیبہ اور تاریخ کی مستند کتابوں میں کثرت کے ساتھ ملتے ہیں۔ یوم عاشورہ کے چند
تاریخی واقعات پیش خدمت ہیں :
1)ماہ
محرم الحرام جب بھی تشریف لاتا ہے تو اپنے ساتھ کربلا والوں کی یاد کو ساتھ لیکر
آتا ہے اسیرانِ کربلا و شہدائے کربلا بالخصوص نواسۂ رسول ﷺ ، جنتی نوجوانوں کے سردار،سید الشہداء، امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی
اللہ عنہ کی یاد دلوں کو تڑپاتی اور آنکھوں کو اشک
بار کرتی ہے، میدان کربلا میں اہلبیت اطہار کو وہ مصائب وآلام پیش آئے جن کے تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ سیِّدُنا
امامِ حسین رَضِیَ
اللہُ عَنْہ کو مع شہزادگان و رُفقا تین دن بھوکا پیا
سارکھنے کے بعد ’’عاشورا‘‘ کے روزمیدانِ کربلا میں نہایت بے رحمی کے ساتھ
شہید کیا گیا۔ امام عالی مقام نے میدان کربلا میں ایک ایک کرکے اپنے خاندان سمیت 72 جانثار ساتھیوں کو راہ خدا میں
لٹادیا لیکن یزید پلید کے ہاتھ پر بیعت نہ
کی۔
نظامِ اِسلام کا تَحَفُّظ:اگرآپ یزید کی بیعت کرلیتے تو یزید آپ کی بہت
قدرومنزلت کرتا، خوب مال ودولت نچھاور کرتالیکن اِسلام کا نظام درہم برہم ہوجاتا
اور ایسا فساد برپا ہوتا جسے بعد میں دور کرنا دُشوار ترین ہوتا۔
٭امام حسین رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کی خبر حضور علیہ
السلام کے دور مبارکہ سے ہی مشہور
ہوگئی تھی۔امام احمد نے روایات کی کہ حضور ﷺ نے فرمایا:میرے پاس وہ فرشتہ آیا جو اس سے قبل کبھی
نہیں آیا تھا۔اُس نے عرض کیا کہ آپ کا فرزند (حسین رضی اللہ عنہ) شہید کیا جائے گا۔اگر آپ کہیں تو میں اُن کے مقتل گاہ کی مٹی پیش کردوں ۔ پھر اس نے تھوڑی سی سرخ مٹی پیش کی ۔(احمد)
عمر مبارک
٭بوقتِ
شہادت سیِّدُ الشُّہَدا ، امامِ عالی مقام حضرتِ سَیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کی عمر مبارک 56 سال پانچ ماہ پانچ دن تھى
۔ (سوانح کربلا،ص:170 ، کراچی)
کس شقی کی ہے
حکومت ہائے کیا اندھیر ہے
دن دہاڑے لُٹ
رہا ہے کاروانِ اہلِ بیت
٭امام عالی مقام کی شہادت کے علاوہ عاشورہ کے دن اور بھی بہت
سے اہم واقعات وقوع پذیر ہوچکے ہیں جن
کو تاریخی اہمیت حاصل ہے ان کا ذکر ذیل میں موجود ہے ۔
عاشورا کو پیش ہونے والے اہم واقعات
{ ۱ } عاشورا (یعنی 10 مُحَرَّمُ الْحرام ) کے دن سیِّدُنا
آدم صَفِیُّ اللّٰہ
عَلٰی
نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی لغزش کی توبہ قبول ہوئی { ۲ } اِسی
دن حضرتِ سیِّدُنا نوح عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی
کشتی کوہِ جودی پر ٹھہری { ۳ } اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا یونس عَلٰی
نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی قوم کی توبہ قَبول ہوئی { ۴ } اِسی
دن حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم خلیلُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پیدا ہوئے { ۵ } اِسی دن حضرتِ
سیِّدُنا عیسیٰ روحُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پیدا کئے گئے([2])
{ ۶ } اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللّٰہ عَلٰی
نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور اُن کی قوم کو نجات ملی
اور فرعون اپنی قوم سمیت (دریائے نیل میں )
غرق ہوا([3]) { ۷ } اِسی
دن حضرتِ سیِّدُنا یوسُف عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو
قید خانے (Jail
)
سے رہائی ملی { ۸ } اِسی دن حضرتِ سیِّدُنا یونس عَلٰی
نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام مچھلی کے پیٹ
سے نکالے گئے([4]) { ۹ } آسمان سے زمین
پر سب سے پہلی بارش اسی دن نازل ہوئی۔{10} اسی دن کا روزہ اُمّتوں میں مشہور تھا یہاں تک کہ یہ بھی کہا گیا کہ اس دن کا روزہ ماہِ رمضان
المبارک سے پہلے فرض تھا پھر منسوخ کردیا
گیا۔(مکاشفۃ القلوب،ص:311) { 11} اسی
دن حضرت سلیمان عَلٰی
نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو ملک
عظیم عطا کیا گیا۔
٭محرم
کی دسویں تاریخ عاشورا کے دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری۔ چنانچہ اس تاریخ
کو کشتی کی تمام مخلوق یعنی انسان اور وحوش و طیور وغیرہ سبھی نے شکرانہ کا روزہ
رکھا نیز حضرت نوح علیہ السلام نے کشتی سے اُتر کر سب سے پہلی جو بستی بسائی اس
کا نام ’’ثمانین‘‘رکھا۔ عربی زبان میں ثمانین کے معنی ’’اَسی‘‘ ہوتے ہیں ،چونکہ
کشتی میں ۸۰ آدمی تھے اس لئے اس گاؤں کا نام ’’ثمانین‘‘رکھ
دیا گیا۔ (تفسیر صاوی، ج۳،
ص ۹۱۵۔۹۱۴،پ۱۲، ھود :۴۴)
٭عاشورہ میں کئے جانے والے اعمال٭
٭عاشورا
بڑا ہی بابرکت دن ہے اور اس مبارک دن میں احادیث مبارکہ اور بزگان دین کی کتابوں میں نیک اعمال کرنے کی ترغیبات موجود ہیں۔ قارئین کے ذوق کے لئے ذیل میں عاشورا کے روز کئے جانے والے اعمال کا ذکر کیا جارہا ہے۔ عاشوراء کے دن صدقہ وخیرات ،نیکی ،ایثار ،رشتے داروں پر احسان،صلہ رحمی اور فقراء و مساکین پر نرمی و شفقت کرنا دُگنے
اجرکا باعث ہے۔
٭امام بیھقی نے شعب
الایمان میں روایت کیا ہے: عَنْ اَبِیْ ہرُیرۃ اَنَّ رسولَ اللہِ ﷺ مَنْ وَسَّعَ علیٰ
عِیَالَہ وَ أَھْلَہ فِیْ یومِ
عاشورَاء وَسَّعَ اللہُ عَلَیْہَ فِیْ سَائِرِ سَنَتِہ۔ یعنی جو عاشورہ کے روز اپنے اہل و
عیال کے رزق میں کشادگی کرے گا اللہ پاک
سارا سال اس کے رزق میں کشادگی فرمادئے۔(شعب الایمان،ج:3،ص:366،ح:3795)
٭مُفَسّرِشہیر حکیم الامت حضرتِ مفتی احمد یار
خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں:’’مُحرم کی نویں اور دسویں کو روزہ
رکھے تو بَہُت ثواب پائے گا۔ بال بچّوں کیلئے دسویں محرم کو خوب اچّھے اچّھے کھانے
پکائے تواِن
شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ سال بھر تک گھر میں بَرکت رہے گی۔ بہتر ہے کہ
کِھچڑا پکا کر حضرِت شہید کربلا سیِّدُناامامِ حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فاتحہ کرے بَہُت مُجرّب (یعنی مؤثر وآزمودہ)ہے۔ اسی تاریخ یعنی 10مُحرم الحرام کو غسل کرے تو تمام سال اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ بیماریوں سے امن میں رہے گا کیونکہ اس دن آبِ
زم زم تمام پانیوں میں پہنچتا ہے۔ ( تفسیر روح البیان،ج۴،ص: 142،کوئٹہ۔اسلامی
زندگی،ص۹۳)
٭شب عاشورہ کو عاشورہ
کا وسیلہ دیکر اس طرح دعائیں مانگیں: ’’یااللہ عَزَّوَجَلَّ! تجھے اس رات کی حرمت کا واسطہ اوران لوگوں کا
واسطہ جنہوں نے ساری رات تیرا ذکر کرتے ہوئے جاگ کر گزاری ہے! مجھے عافیت عطا فرما
دے، میری تکلیف دور کر دے اور میرے دل کی شکستگی دور فرما دے۔
عاشُوراء
کا روزہ
٭ حضرتِ سَیِّدُنا عبداللہ ابنِ عبّاس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں:’’میں نے سلطانِ دوجہان، شَہَنشاہِ کون
ومکان، رحمتِ عالمیان ﷺ کو کسی دن کے روز ہ کو اور دن پر فضیلت دیکر جُستُجو
فرماتے نہ دیکھا مگر یہ کہ عاشوراء کا دن اور یہ کہ رَمَضان کا مہینہ۔‘‘(صحیح البخاری،ج۱،ص۶۵۷،حدیث۲۰۰۶)
٭حضرتِ سیِّدُنا ابوقَتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ر وایت ہے، رسولُ اللہ عَزَّوَجَلَّ وﷺفرماتے ہیں: ’’ مجھے اللہ پر
گُمان ہے کہ عاشورا ء کا روزہ ا یک سال قبل کے گُناہ مِٹادیتاہے۔ ‘‘ (صحیح
مسلم،ص۵۹۰،حدیث۱۱۶۲)
یہودیّوں
کی مُخالَفَت کرو
٭ نبیِّ
رَحمت ،شفیعِ امّت،شَہَنْشاہِ نُبُوَّت ، تاجدارِ
رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ یومِ عاشوراء کا روزہ رکھو اور اِس میں یہودیوں کی
مخالَفَت کرو، اس سے پہلے یا بعد میں بھی ایک دن کا روزہ رکھو۔‘‘ (مسند
امام احمد،ج۱،ص۵۱۸، حدیث۲۱۵۴)
٭ عاشوراء کا روزہ جب بھی رکھیں تو ساتھ ہی نویں
یا گیارہویں محرم الحرام کا روزہ بھی رکھ لینا بہتر ہے۔
سارا
سال آنکھیں دُکھیں نہ بیمار ہو
٭سرورِکائنات،شاہ
موجودات ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص یومِ عاشوراء اثمد سرمہ آنکھوں میں لگائے تو اس کی
آنکھیں کبھی بھی نہ دکھیں گی۔ (شعب
الایمان،الحدیث:3797،ج:3،ص: 367)
صَلُّوا عَلَی
الْحَبِیب! صلَّی
اللہُ تعالیٰ علیٰ محمَّد
ابو معاویہ رمضان رضا عطاری مدنی
راکبِ دوشِ مصطفیٰﷺ، شہزادۂ علی المرتضیٰ،برادرِ
سیّدُالسادات، سیّدہ فاطمۃالزہرہ کےمہکتے پھول رضی اللہ عنہم، جنّتی نوجوانوں کےسردار، میدانِ کربلا کے شاہ سوار،
سلطانِ کربلا، امامِ عالی مقام حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات وہ پاک ہستی ہیں جنہوں نےمیدانِ کربلا
میں دینِ اسلام کی بقاء کے لئے اپنے گھربار،
مال و دولت اوراولادسب کچھ قربان کر دیا۔
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں:
حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے فضائل و کمالات پر کثیر احادیثِ مبارکہ موجود
ہیں چنانچہ پیارے آقا ﷺ نے ارشادفرمایا جس
کا مفہوم کچھ یوں ہے:حسین مجھ سے ہےاور میں حسین سے ہوں، اللہ عزوجل اس
سے محبت کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے ، حسین میری اولاد کی اولاد ہے۔ (سنن ترمذی،
کتاب
المناقب، باب مناقبِ ابی محمد حسن بن علی
بن ابی طالب الخ، 5/429، الحدیث 3800)
ایک اور مقام پر پیارے آقا ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:بے
شک حسن اور حسین اہلِ جنت نوجوانوں کےسردار ہیں۔ (ایضاً431، الحدیث 3806)
پیدائش کے ساتھ ہی شہادت کی خبر :
حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی پیدائش کے بعد سے ہی حضرت علی، بی بی فاطمہ
اور دیگر اصحاب سمیت اہلِ بیت رضی اللہ عنہم یہ بات جان گئے تھے کہ آپ رضی اللہ عنہ کو سرزمینِ کربلا میں ظلم و ستم کے ساتھ شہید کیا جائے گااور نہایت
بےدردی کے ساتھ آپ کا خون کا بہایا جائے گا جیساکہ اُن احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے
جن میں حضور ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بارے میں خبر دی جیساکہ حاکم نے
ابنِ عباس رضی
اللہ عنہ سے روایت کی ہےکہ ہمیں
کوئی شک نہیں تھا اور اہلِ بیت بالاتفاق یہ بات جانتے تھے کہ حسین ابنِ علی رضی اللہ عنہما کو مقامِ طف میں شہید کیا جائے گا۔(المستدرک للحاکم، کتاب
معرفۃالصحابۃ، استشھد الحسین، 4/175، الحدیث 4879)
میدانِ کربلا میں کرامات کا ظہور
اللہ پاک
نےجس طرح اپنے پیارے حبیب ﷺ کو کثیر معجزات سے نوازا بلکہ معجزہ بنا کر
بھیجا اسی طرح آپ ﷺ کے نواسے امام حسین رضی اللہ عنہ کو بھی
بے شمار کرامات سے نوازا تھا جن کا ظہور میدانِ کربلا میں بھی ہوا ۔جہاں آپ رضی اللہ عنہ 50 سال سے زائد عمر ہونے کے باوجود شجاعت و بہادری کے ساتھ میدانِ کربلا میں
دشمنانِ اہلِ بیت سے جنگ کرتے رہے وہیں آپ رضی اللہ عنہ سے مختلف کرامات ظاہر ہوئیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
بدزبان یزیدی کو گھوڑے نے آگ میں
ڈال دیا
جب امامِ عالی مقام حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے درمیان خطبہ ارشاد فرما رہےتھے تو خیموں کی حفاظت کے لئے خندق میں لگائی گئی آگ
کو دیکھ کر ایک بدزبان یزیدی مالک بن عروہ کہنے لگا:اے حسین! آپ نے دوزخ کی آگ سے
پہلے یہیں آگ لگا لی ۔امام حسین رضی اللہ عنہ
نے اس بدبخت کو جواب دیتے ہوئےفرمایا:کذبت یا عدواللہ (اے خدا
کے دشمن تو جھوٹا ہے) تجھے یہ گمان
ہے کہ میں دوزخ میں جاؤں گااور تو جنت میں جائے گا۔
مسلمانوں کی صف میں سے حضرتِ مسلم بن عو سجہ رضی اللہ عنہ کو مالک بن عروہ کے یہ کلمات بہت ناپسند لگے تو
انہوں نے امامِ عالی مقام حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے اس بد زبان کے منہ پر تیر مارنے کی اجازت
طلب کی۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ کہہ کر خاموش کروادیا کہ میری طرف
سے جنگ کی ابتداء نہیں کی جائے گی۔
یہ کہہ کر آپ رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ الٰہی میں اپنے دستِ مبارک (ہاتھ) پھیلائے اور عرض کیا کہ یا رب عزوجل عذابِ نار سے قبل اسے دنیا میں آتشِ عذاب میں
مبتلا فرما۔آپ رضی
اللہ عنہ کا یہ کہنا تھا کہ اُس
بدبخت کے گھوڑے کا پاؤں ایک سوراخ میں گیاجس کی وجہ سے وہ گھوڑے سے گر گیااور اس
کا پاؤں رکاب میں اُلجھ گیا پھر گھوڑا اسے لیکر بھاگا اور آگ کے خندق میں ڈال دیا۔اس
پر امام حسین رضی
اللہ عنہ نے سجدۂ شکر ادا کیا اور
اللہ
عزوجل کی حمد و ثناء بیان کرتے ہوئے بلند آواز سے (جسے دونوں لشکر سن سکیں) دعا فرمائی: یا اللہ عزوجل ہم تیرے حبیب ﷺ کے گھر والے اور ذریّت (یعنی
اولاد) ہیں ، ہم پر ظلم کرنےوالوں
کے ساتھ انصاف فرما۔
آلِ رسول کے نسب پر جرح کرنے والے کا انجام
اسی دوران دشمنوں کی صف سے ابنِ اشعث نامی شخص
نے کہا کہ آپ کو حضور سرورِ کائنات ﷺ سے کیا نسبت ہے؟ اس کی اس بے ادبی کی وجہ سے امام حسین رضی اللہ عنہ کو کافی تکلیف پہنچی اور وہ بارگاہِ الٰہی میں
عرض گزار ہوئے:یا اللہ
عزوجل ابنِ اشعث نے میرے نسب پر جرح کی ہے اور یہ مجھے تیرے پیارے حبیب ﷺ کا بیٹا تسلیم نہیں کرتا ،یا اللہ عزوجل اس بدزبان کو فوری عذاب میں گرفتار فرما جس کے
بعد اُس بے ادب کو قضائے حاجت کی ضرورت پیش آئی۔وہ گھوڑے سے اتر کر ایک طرف بھاگا
اور کسی جگہ قضائے حاجت کے لئے برہنہ ہوا تو ایک سیاہ بچھو نے اس کی شرم گاہ میں ڈَنگ
مارا تو وہ اسی حالت میں نجاست آلود زمین پر گر اور اس کی جان نکل گئی۔
مغرور شخص پیاسا واصلِ جہنم ہوا
امام حسین رضی اللہ عنہ کی کرامات اور آپ کا مستجاب الدعوات(جس کی دعائیں قبول ہوتی ہوں) ہونے کو دیکھ کر بھی اُن بے باک اور سخت دلوں کو غیرت نہ آئی اور ایک
مغرور شخص نے امام حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے آکر کہنے لگاکہ:اے حسین! دیکھو
تو دریائے فرات کیسے موجیں مار رہا ہے مگرخدا کی قسم تم اس کا ایک قطرہ بھی نہ پی سکو گے حتیٰ کہ تم پیاسے ہلاک ہو جاؤ
گے۔
امام حسین رضی اللہ عنہ
اُس مغرور شخص کی باتیں سن کر رونے لگے
اور اپنے پاک پروردگار سے عرض کرنے لگے :اللّٰہُمَّ اَمِتْہ عَطْشَانًا یا رب عزوجل
اس کو پیاسا مار۔امام حسین رضی اللہ عنہ
کا دعا مانگنا تھا کہ اُس مغرور شخص کا گھوڑا اسے گرا کر بھاگنے لگا جس کو پکڑنے کے لئے اُس شخص نے دوڑ لگائی جس کے سبب
اس پر پیاس کا غلبہ ہوا اور وہ العطش العطش
کہنے لگا ، اُس کے ساتھیوں نے اسے پانی پلانا
چاہا لیکن ایک قطرہ بھی اُس کے حلق سے
نیچے نہیں اترا اور وہ مغرور شخص اسی شدتِ پیاس میں واصلِ جہنم ہو گیا۔(روضۃ الشہداء،
باب نہم، ج 2، ص 186 تا 188)
امام حسین رضی اللہ عنہ کی
کرامات آپ کی شان و عظمت پر گواہ ہیں
امام حسین رضی اللہ عنہ سے کرامات کا ظاہر ہونا اس بات کی طرف اشارہ
تھا کہ امام حسین رضی
اللہ عنہ کی کرامات آپ کی شان و
عظمت پر گواہ ہیں نیز دشمنانِ اہلِ بیت کو
یہ بتانا تھا کہ دیکھ لو کہ جو ایسامستجاب
الدعوات ہو اس کے مقابلے میں آنا اللہ پاک سے جنگ کرنا
ہے لہٰذا اس معاملے میں اللہ عزوجل سے
ڈرومگر اُن بے باک لوگوں نے دنیاوی منصب
پانے کے لئے حسین ابنِ علی رضی اللہ عنہما کو شہید کر ڈالا جس کی سزا انہیں دنیا میں بھی ملی۔ ان واقعات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ
آلِ رسول کی اللہ پاک کی بارگاہ میں کیسی قدر و منزلت ہے ، صرف دعا
مانگنے کی دیر تھی اور دشمنانِ آلِ رسول چند ہی لمحوں میں موت کے گھاٹ اتر گئے۔ اللہ پاک ہمیں بھی آلِ رسول کا ادب
و احترام کرنےاور اُن کی طرح دینِ اسلام
کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔
از:غیاث الدین عطاری
مدنی
اسکالر، اسلامک ریسرچ
سینٹر(المدینۃ العلمیہ)دعوتِ اسلامی
سن60ہجری
تھا، اہل کوفہ نواسۂ رسول اللہ ، امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہُ عنہ کو کوفہ آکر دین پھیلانے کا فریضہ
انجام دینے کے لئے خط پر خط لکھتے چلے
جارہے تھے ۔ جب اہل کوفہ نے 10 ہزار خطوط آپ کو بھیج دیئے تو آپ نے اہل کوفہ کی
تصدیق کے لئے حضرت امام مسلم بن عقیل رضی اللہُ عنہ کو
کوفہ بھیجا ، کوفہ پہنچتے ہی کوفیوں نے بڑی
تعداد میں حضرت امام مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ حضرت امام مسلم بن عقیل رضی اللہُ عنہ نے اطمینان صورتِ حال دیکھ کر حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کو
کوفہ آنے کا خط لکھ دیا۔
حضرت
امام مسلم بن عقیل رضی اللہُ عنہ کا تسلی
بخش خط موصول ہونے پر حق کا پرچار کرنے، باطل
کو مٹانے، دم توڑتی ہوئی انسانیت کو عزت و وقار کے ساتھ جینے مرنے کا سلیقہ سکھانے
کے لئے امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کوفہ
جانے کا فیصلہ کیا۔ کوفہ جانے سے قبل آپ نے اپنے خدام ، اصحاب اور گھر والوں کے
ہمراہ خانہ کعبہ کا الوداعی طواف کیا اور 3 ذو الحجۃ الحرام 60ھ کو کوفہ کے لئے
رختِ سفر باندھ لیا۔ اس سفر میں بعض روایات کے مطابق آپ کے ہمراہ 82 افراد تھے جن
میں اہل بیت کی باپردہ خواتین، دودھ پیتے بچے، آپ کی آل اولاد اور دیگر جوان شامل
تھے۔
اس سفر
کے دوران کئی مشکلات درپیش آئیں مثلاً حضرت مسلم بن عقیل اور ان کے دو صاحبزادوں رضی اللہُ عنہمم کو
شہید کردیا ہے اور اس کے علاوہ اہل کوفہ نے بھی اپنی سابقہ فطرت پر باقی رہتے ہوئے بد عہدی، بے وفائی اور بزدلی کا مظاہرہ
کردیاہے۔ان خبر وں کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آپ کی جماعت میں مختلف آراء جمع
ہوگئیں اورواپسی جانے کا مطالبہ کیا گیا
مگر بہت سی گفتگو کے بعد یہی طے پایا کہ آگے سفر جاری رکھا جائے اور واپسی کے خیال
کو ترک کردیا جائے۔حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شرکائے قافلہ کے ساتھ کوفہ پہنچے والے
ہی تھے کہ حُر نے ابن زیاد کے ایک ہزار ہتھیار بند سواروں کے ہمراہ آپ کا رستہ روک
کر شہر میں داخل ہونے سے منع کردیا، مجبوراً آپ رضی اللہ عنہ کو
کوفہ کی راہ سے ہٹ کر ”کربلا“ میں پڑاؤ ڈالنا پڑا، یہ محرم الحرام 61ھ کی
دوسری تاریخ تھی۔
آہستہ
آہستہ سورج کا طلوع و غروب ہونا اُس وقت کو قریب کررہا تھا جس دن آپ رضی اللہ عنہ اس دنیا
فانی کو چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی کی جانب کوچ کرنے والے تھے۔ لہذا کربلا میں ابن
سعد نے پانچ ہزار کا لشکر آپ رضی اللہ عنہ کے پڑاؤ کے سامنے لا کھڑا کیا، اس کے
پیچھے ابن زیاد نے ابن سعد کی مدد کے لئے پے در پے شمر ذی الجوشن کو چار ہزار،
یزید کلبی کو دو ہزار، حصین بن نمیر سکونی کو چارہزار، عمرو بن قیس حمصی کو دو
ہزار اور ایک ہزار کا لشکر قیس بن حنظلہ کے کمان میں روانہ کردیا۔ اس طرح یزیدی
بزدلوں کی افواج کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی جبکہ ان کے مقابلے میں امام عالی
امام حسین رضی
اللہ عنہ
کے ساتھ بہت تھوڑے اشخاص تھے۔یزیدی خاندانِ رسول پر طرح طرح کی مصیبتیں ڈھانے لگے
یہاں تک کہ مالک کوثر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گھرانے پر نہر فرات کا پانی بھی بند کردیاگیا۔ 8 محرم
الحرام 61ھ کو دنیا نے وہ دن بھی دیکھا کہ روئے زمین پر اعلائے کلمۃ الحق کو بلند
کرنے کی خاطر بچّے العطش العطش (ہائے پیاس، ہائے پیاس)پکار رہے ہیں، امام حسین رضی اللہ عنہ اور
ان کے ساتھی پیاس کو اپنا مہمان بنائے بیٹھے ہیں۔ان سب صورت حال کے باجود9 محرام
الحرام61ھ کی شام گروہِ یزیدلشکر پاک پر
حملہ آور ہونے کے لئے روانہ ہوگیا، امام حسین رضی اللہ عنہ کے
حکم پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے
ایک رات کی مہلت طلب کی ، ابن سعد نے اپنے
لشکر کے امراء سے مشورہ کر کے مہلت دے دی۔ عاشوراء کی رات امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے
خیمے اور خواتین کی حفاظت کے لئے خندق کھدوائی اس میں لکڑی بھرکر آگ لگادی تاکہ
دشمن شب خون نہ مار سکیں۔ عاشوراء کی رات امام عالی مقام کی کرامتیں بھی ظاہر
ہوئیں، آپ رضی
اللہ عنہ
کی دعاؤں کی بدولت مالک بن عروہ، ابن اشعث اور جعدہ قرنی مختلف عذابات میں مبتلا
ہوکرحقدار نار ہوئے۔ شب عاشوراء امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے
اپنے عزیز و اقارب کو نصیحتیں کیں اور اس کے بعد بارگاہِ خداوندی میں سجدہ ریز
ہوگئے۔
جب10
محرم الحرام 61ھ کی صبح طلوع ہوئی تو حضرت
امام حسین رضی
اللہ عنہ
نےاپنے رفقاء کے ساتھ نمازفجر باجماعت ادا کی۔ ابھی آپ رضی اللہ عنہ نے
دعا بھی نہ مانگی تھی کہ مخالفین کے لشکر سے جنگ کے نقارے بجنے لگے۔ ابن سعد نے
اپنے لشکر کو ترتیب دینا شروع کردیا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے
بھی حضرت زہیر بن قین بجلی رضی اللہ عنہ اور حضرت حبیب بن مظاہر اسدی رضی اللہ عنہ کو میمنہ
اور میسرہ پر مقرر کردیا جبکہ پرچم نصرت نشان حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو
عطا کیا، جب دونوں جانب صفیں قائم ہوگئیں تو امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے
صداقت کا آخری خطبہ ارشاد فرمایا جس میں انہیں خاندانِ نبوت کی توقیر کرنے، انہیں
اپنے ناپاک مقصد سے دستبردار ہونے کی تلقین کی گئی اور کوفیوں کو ان کا وعدہ یاد دلایا لیکن یزیدیت
راہ جہنم کو اختیار کرنے میں بضد تھی ۔ خطبے کے بعد اہل حق کی جانب سے حجت تمام
ہوگئی۔ جنگ کے آغاز سے قبل حضرت حُر رضی اللہ عنہ اور کچھ دیر بعد ان کے بھائی حضرت
مصعب رضی
اللہ عنہ
جہنمی لشکر سے تائب ہوکر جنتی لشکر کے صف میں شامل ہوگئے۔
جنگ
کا آغاز ہونے والا ہے ، زمین و آسمان خاموش تماشائی بن کر تَک رہے ہیں کہ اسلام کے
72 بہادر اور جانباز شہسوار 22 ہزار دشمنِ
دین سے ٹکرانے والے ہیں۔ اب مجاہدین اسلام کا ایک ایک کرکے میدانِ کربلامیں آنے کا
وقت ہوا چاہتا ہے جنہوں نے دشمنوں کے صفوں کو تار تار کردیا ، جنہوں نے دشمنوں کے
صفوں میں گُھس کر اپنے شعلہ ایمانی سے انہیں جلاکر خاک میں ملادیا۔ترتیب وار ہر
ایک کی جنگی مہارت و شجاعت اور شہادت کے مختصر واقعات ملاحظہ کریں:
٭حضرت حر اور ان کے رفقاءرضی اللہ عنہم:
امام
حسین رضی
اللہ عنہ
کی اجازت سے سب سے پہلے میدانِ جنگ میں حضرت حُر رضی اللہ عنہ تشریف
لائے، ان کے مقابلےمیں مخالفین کے لشکر سے صفوان بن حنظلہ سامنے آیا، آپ رضی اللہ عنہ نے
اس کا سر تن سے جداکردیا، اس کے بعد صفوان
کے تین بھائیوں سے بیک وقت مقابلہ کیا اور
پلک جھپکتے ہی انہیں خاک میں ملادیا، اس کے بعد حضرت حُر دشمنوں کے صفوں کو چیر تے
ہوئے ان کے درمیان چلے گئے اور ابن سعد کے پرچم بردار کے دو ٹکرے کردیئے، شمر کے
حکم پر اس کے لشکر نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا، آپ بہادری سے ان کا مقابلہ
کررہے تھے کہ قسورہ بن کنانہ نے ان کے سینے پر نیزہ مارا جو آپ کے جسم میں گھس
گیا، حضرت حر رضی
اللہ عنہ
قسورہ بن کنانہ کو واصل جہنم کرتے ہوئے اپنے گھوڑے سے گر پڑے اور امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے
آغوش میں ابدی جہان کی طرف کوچ کرگئے۔
اس کے
بعد حضرت حُر کے بھائی مصعب، آپ کے بیٹے علی ، آپ کے غلام غرہ رضی اللہ عنہم بھی
مردانہ وار اور بہادری کےساتھ دشمنوں سے
لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔
٭حضرت زہیر بن حسان رضی اللہ عنہ:
اس کے
بعد حضرت زہیر بن حسان سیدنا امام عالی
مقام رضی
اللہُ عنہ
سے اجازت لیکر میدان کربلا میں اترے، آپ کے مد مقابل سامر ازدی نامی شخص موجود
تھا۔ آ پ نے اُس کے منہ نیزہ مارا جس کی نوک اُس کی گُدی سے پار ہوگئی اور وہ جہنم
رسید ہوا، اس کے بعد آپ نے نصر بن کعب، اس کے بھائی صالح بن کعب اور اس کے بیٹے کعب کے ساتھ بہادری سے لڑے اور انہیں
واصل جہنم کردیا۔ فردًا فردًا لڑکر آپ کو ہرانا ناممکن تھا لہذا حجر بن حجار نے
ابن سعد کے حکم پر تین سو سواروں کے ساتھ تین مقامات پر گھات لگایا اور نہایت
بزدلانہ اور مکاری سے آپ رضی اللہُ عنہ کو شہید کردیا۔
٭حضرت عبد اللہ کلبی رضی اللہ عنہ:
میدان
جنگ میں ابن زیاد بن ابیہ کا غلام ”یسار“ اور ابن زیاد کا مولیٰ ”سالم“ سامنا آیا۔
جنتی لشکر سے حضرت عبد اللہ کلبی اُن گھڑ سواروں سے مقابلہ کرنے کے لئے ایمانی جذبے کے ساتھ پیدل سامنے آئے اور ان دونوں سے بیک وقت بہادری کے
ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے انہیں خاک میں ملادیا۔ ابن زیاد کے غلاموں نے یہ دیکھا اور
یک دم ان پر حملہ کرکے آپ رضی اللہُ عنہ کو رتبہ شہادت سے سیراب کردیا۔
٭حضرت بریر بن حضیر ہمدانیرضی اللہ عنہ:
آپ
ایک عمر رسیدہ اور پاکیزہ روز گار بزرگ تھے چنانچہ میدان میں جو بھی آپ کے سامنے
آتا اپنا سر گنوا بیٹھتا، لہذا جب مخالفین تنگ آگئے تو یزید بن معقل کو حضرت بریر
کے سامنے لاکھڑا کیا، آپ نے اس کا بھی کام تمام کردیا اس کے بعد حضرت بریر رضی اللہُ عنہ امام
عالی مقام رضی
اللہُ عنہ
کی دعاؤں سے حصہ لیکر بجیر بن اوس کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔
٭حضرت وہب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ:
آپ کی
شادی ہوئے ابھی 17 روز ہوئےتھے، آپ میدان جنگ میں تشریف لائے اور اپنے مد مقابل
حکیم بن طفیل کو نیزہ مار کر ایک ہی حملے میں زمین پر گرادیا اور اس کی ہڈیاں
توڑدیں۔ اس کے بعدآپ نے قلب لشکر پر حملہ کردیا اور دشمن زمین چاٹنے لگے، ابن سعد
کے حکم سے اس کی فوج نے آپ کو گھیرے میں لیکر سر تن سے جدا کردیا۔ اس طرح آپ بارگاہ خدا وندی میں مقبول ہوگئے۔
٭حضرت عمرو بن خالد اور آپ کے بیٹے حضرت خالد رضی اللہ عنہ:
آپ
دونوں ایک کے بعد ایک میدان جنگ میں جلوۂ افروز ہوئے اور فاسقوں فاجروں کو قتل کرنے کےبعد اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
٭دیگر شہیدانِ کربلا رضی اللہ عنہم:
حضرت
خالد بن عمرو کے بعد میدان کربلا میں شجرِ اسلام کو اپنے خون سے سیراب کرنے کے لئے
حضرت سعد بن حنظلہ تمیمی، حضرت عمرو بن عبد اللہ حجی، حضرت حماد
بن انس، حضرت وقاص بن مالک، حضرت شریح بن عبید، حضرت مسلم بن
عوسجہ اسدی، اس کے بعد آپ کے بیٹے، حضرت ہلال بن نافع بجلی، حضرت عبد
الرحمن بن عبد اللہ یزدی، حضرت یحیٰ بن سلیم، حضرت عبد الرحمن بن
عروہ غفاری، حضرت مالک بن انس، حضرت عمر بن مطاع حجفی، حضرت قیس
بن منبہ، ابن سعد کے چچا زاد بھائی ہاشم بن عتبہ بن وقاص اور آپ کی مدد
کے لئے حضرت فضل بن سیدنا علی المرتضیٰ نو آدمیوں رضی اللہ عنہم کو
لیکر یکے بعد دیگرے میدان کارزار میں آتے رہے اور باغیان
اسلام اور دشمن اہل بیت کے خون سے زمین کو رنگ دیا ۔ اسلام کے ان سپاہیوں نے دشمنانِ
اہل بیت کے ناپاک جسموں سے زمین کا بوجھ ہلکا کرتے ہوئے ناموس اسلام اور ناموس اہل بیت
کی خاطر اپنی جانیں تک راہِ خدا میں قربان کردیں۔حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کے
برادران گرامی اور اولادِ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہُ عنہمامیں سب سے پہلے شربتِ شہادت پینے والے حضرت فضل بن
علی رضی
اللہُ عنہما
ہی تھے۔
ان سب
کی شہادت کے بعد بھی میدان جنگ سجا ہوا ہے
اور ہزاروں دشمنان اسلام اپنے کندھوں پر
سروں کا بوجھ اٹھائے کھڑے ہیں جبکہ دوسری جانب ان کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے جنتی دولہوں نے اپنے سروں پر
شہادت کا سہرا سجایا ہوا ہےاور باراتی فرشتوں کے ہمراہ جنت میں جانے اور اپنے آقا و مولیٰ ، ساقی کوثر، مالک جنت
مصطفٰے کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دیدار کے
لئے بے تاب ہیں۔
ان
شہیدوں کو دیکھ کر مجاہدین کے دل شوق شہادت سے مچلنے لگے، ہاشم بن عتبہ بن وقاص کی شہادت کے بعد حضرت حبیب
بن مظاہر، حضرت ابو ذر غفاری کے آزاد کردہ غلام حضرت ”حرّہ“ یا ”حریرہ“،
حضرت یزید بن مہاجر جعفی، حضرت انیس بن معقل اصبحی، حضرت عابس بن
شبیب اور ان کاغلام حضرت شوذب، حضرت سیف بن حارث، اِن کے چچازاد
بھائی حضرت مالک بن عبد بن سریع، امام زین العابدین کے تُرکی غلام ،
حضرت حنظلہ بن سعد، حضرت یزید بن زیاد شعبی، حضرت سعد بن عبد
اللہ حنفی، حضرت جنادہ بن انصاری، آپ کے بیٹے عمرو بن جنادہ،
حضرت مرہ بن ابی مرہ، حضرت محمد بن مقداد، حضرت عبد اللہ بن
دجانہ، امیر المؤمنین علی المرتضیٰ کے غلام حضرت سعد، حضرت امام حسین
کے پانچ غلام حضرت قیس بن ربیع، حضرت اشعث بن سعد، حضرت عمر بن
قرط، حضرت حنظلہ اور حضرت حماد رضی اللہُ عنہم ایک ایک کرکے دیوانہ وار میدان میں آتے
گئے اور سمندر شہادت میں غوطہ زن ہوکر جنت
میں موتی سمیٹنے جاتے گئے۔
مذکورہ
حضرات نے ہمت و بہادری، تلوار و نیزہ زنی، تیر اندازی کے ایسے ایسے جوہر دکھائے کہ
مجاہدین نے تاریخ رقم کردی، شہیدوں نے
دشمنوں کے صفوں کو تارتار کردیا ہر طرف خون کی ندیاں بہادیں، یزیدیوں کے پیروں تلے
زمین ہلادی، مجاہدین جس طرف رخ کرتے لشکر کے لشکر پچھاڑ دیتے، البتہ اسلام کے تنہا
شیروں پر منافقین کتوں کے جُھنڈ کی طرح حملہ کرکے انہیں شہید کرتے جارہے
تھے۔
سیدنا امام حسین کے اقربا رضی اللہ عنہ کی شہادتیں:
اب تک
سیدنا امام حسین رضی
اللہُ عنہ
کے دوستوں، غلاموں اور وفاداروں میں سے 53
حضرات جام شہادت نوش کرنے کے بعد اس جہان فانی سے رحلت فرماچکے تھے اور سیدنا امام
حسین اور امام زین العابدین رضی اللہُ عنہما کے
علاوہ19 افراد باقی تھے جن میں امام عالی مقام کے بھائی،بیٹوں اور اقرباء کی تعداد
16 تھی جبکہ دو افراد آپ کے ساتھیوں سے اور ایک شخص آپ کے غلاموں سے باقی بچا تھا۔
حضرت عقیل کی اولادوں رضی
اللہ عنہم کی شہادتیں:
خاندانِ
رسالت کے تحفظ اور اسلام کا پرچم سرخرو کرنے کے لئے سیدنا امام حسین رضی اللہُ عنہ کے
اقربا میں سب سے پہلے حضرت عبد اللہ بن مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہم نے آپ
کی خدمت میں حاضر ہوکر میدان جنگ میں جانے
کی اجازت طلب کی۔ ان کے اصرار پر امام حسین رضی اللہُ عنہنےآپ
کو اجازت دے دی، عبداللہ قدامہ کو شکست دینے کے بعد یزیدی لشکر کے دائیں طرف حملہ
کردیااور میمنہ کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا، دشمنوں کے پیادوں نے آپ کا راستہ روک لیا
اور عمرو بن صبیح صیداوی نے تیر مارکر خاندان عقیل کے فرد کو شہید کردیا۔آپ کی
شہادت کے بعد حضرت عقیل رضی اللہُ عنہ کے
صاحبزادگان حضرت جعفر اور حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہما فرداً
فرداً میدان میں اترے اور دشمنوں کو خون میں نہلانے کے بعد اپنے بھائی بھتیجوں کی
پیروی کرتے ہوئے صراط شہادت پرروانہ ہوگئے۔
حضرت زینب کے بیٹوں رضی اللہ عنہم کی شہادتیں:
جب
حضرت عقیل رضی
اللہُ عنہ
کی اولاد شہید ہوگئی تو امام حسین کے بھانجے اور حضرت زینب کے بیٹوں حضرت محمد بن عبد اللہ ، حضرت عون بن عبد
اللہ رضی
اللہُ عنہم
نے باری باری اجازت حاصل کی اور آرزوئے
شہادت لے کر ایک ایک کر کے دشمنوں سے مقابلہ کرنے تشریف لے گئے، میدان میں جنگی
جوہر دکھانے کے بعد اپنے رفقاء کے پیچھے پیچھے جنت کی طرف کوچ کرگئے۔
امام حسن کے بیٹوں رضی اللہ عنہم کی شہادتیں:
حضرت
امام حسن کےبیٹے حضرت عبد اللہ رضی اللہُ عنہما امام حسین رضی اللہُ عنہ کی اجازت
سے میدان میں اترے اور مدمقابل طلب کرنے میں وقت ضائع کئے بغیر ابن سعد کے لشکر پر
حملہ کردیا، ابن سعد جان بچاکر اپنے سواروں کے درمیان بھاگ گیا۔ابن سعد کے بھاگنے
کے کچھ دیر بعد ہی بختری بن عمرو شامی پانچ سو سواروں کو لے کر آپ کے سامنے
آگیا،امام حسین رضی
اللہُ عنہ
کی صفوں سے امام حسین رضی اللہُ عنہ کے غلام پیروزان اور جناب محمد بن انس
اور حضرت اسد ابی دجانہ رضی اللہُ عنہم شہزادۂ امام حسن کے دفاع کے لئے
راوانہ ہوئے۔ان چاروں نے دشمنوں کو دن میں تارے دکھادیئے اور اُس کے لشکر کو زیر و
زبر کرتے گئے آخر ان چاروں کو بھی شہید کردیا گیا۔ ان چاروں میں سب سے پہلے ارزق
بن ہاشم کے ہاتھوں حضرت اسد اور اس کے بعد پیروزان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید
ہوئے۔
حضرت
عبد اللہ بن حسن رضی
اللہُ عنہما یزیدیوں
کے لشکر کو درہم برہم کرنے اور کئی دشمنوں کو واصل جہنم کرنے کے بعد اپنے چچا جان
حضرت امام حسین رضی
اللہُ عنہ
کے پاس تشریف لائے اور پیاس کی شکایت کرنے لگے، امام حسین رضی اللہُ عنہ نے
انہیں تسلی دیتے ہوئے خوشخبری سنائی کہ عنقریب تیرے دادا جان اور ابا جان تجھے
پانی پلائیں گے۔ اس بشارت کے بعد حضرت عبد اللہ دوبارہ میدان میں تشریف لائے تو
اُن پر پانچ ہزار افراد نے یک بارگی تیر و تلوار، نیزہ و سنان اور خنجروں سے حملہ
کردیا ، امام حسین رضی اللہُ عنہ کے لشکر سے علمدار حضرت عباس بن علی رضی اللہُ عنہما نے
پرچم حضرت علی اکبر رضی اللہُ عنہ کو دیا اور اپنے بھائی حضرت عون بن
علی رضی
اللہُ عنہما
کو ساتھ لے کر حضرت عبد اللہ رضی اللہُ عنہ کی مدد کو آئے لیکن آپ رضی اللہُ عنہ پہلے
ہی بہت زخمی ہوچکے تھے، اچانک نبہان بن زہیر نے تلوار سے آپ رضی اللہُ عنہ کے
کندھوں کے درمیان وار کیا تو آپ رضی اللہُ عنہگھوڑے
سے زمین پر تشریف لے آئے اور دنیا فانی کو خیر باد کہہ کر اپنے خالق حقیقی سے
جاملے۔
حضرت
امام حسن کے دوسرے بیٹے حضرت قاسم رضی اللہُ عنہما میدان جنگ میں
جانے کے خواہش مند ہوئے لیکن امام حسین رضی اللہُ عنہ نے
اجازت نہیں دی لیکن حضرت قاسم رضی اللہُ عنہ نے اپنے ابا جان رضی اللہُ عنہ کی
وصیت جو تعویذ کے ذریعے انہیں کی گئی تھی
اُسے دکھاکر اجازت طلب کی، امام حسین رضی اللہُ عنہ نے انہیں اجازت دے دی، حضرت قاسم رضی اللہُ عنہ میدان آئے اور مدمقابل طلب کیا، لڑائی
کے دوران آپ رضی اللہُ عنہ نے
بہت سے سر تن سے جدا کردیئے اور بڑے بڑے بہادروں کو ہلاک کردیا جن میں ارزق اور اس
کے چار بیٹے بھی شامل تھے۔ ارزق کو ایک ہزار سوار کے برابر گنا جاتا تھا۔آپ رضی اللہُ عنہ نے
لشکر پر حملہ کرکے ان پر ہیبت طاری کردی، آپ رضی اللہُ عنہ
دشمنوں پر قیامت برپا کررہے تھے یزیدیوں نے آپ رضی اللہُ عنہ کے
گھوڑے پر تیروں کی بارش شروع کردی اور آپ رضی اللہُ عنہ کا گھوڑا گِرپڑا،
شیش بن سعد بد بخت نے آپ رضی اللہُ عنہ پر نیزے کا وار کیا جو آپ رضی اللہُ عنہ کی
پشت سے پار ہوگیا، جناب قاسم بن حسن رضی اللہُ عنہما کو اس جنگ میں ستائیس (27) زخم آچکے تھے۔آپ رضی اللہُ عنہ جب
گھوڑے سے زمین پر تشریف لائے تو امام حسین رضی اللہُ عنہ کو پکارا،
امام عالی مقام رضی
اللہُ عنہ
نے آکر انہیں اٹھایا اور دشمنوں سے مقابلہ کرتے ہوئے خیمہ کے دروازے تک لے آئے،
حضرت قاسم رضی
اللہُ عنہ
نے خیمے میں مسکراتےہوئے اپنی جان راہِ خدا میں قربان کردی۔
صاحبزادگان علی المرتضیٰ رضی
اللہ عنہم کی شہادتیں:
سیدنا
امام حسین رضی
اللہُ عنہکے
بھانجے اور بھتیجوں کی شہادت کے بعد آپ کے برادران یعنی امیر المؤمنین سیدنا علی
المرتضیٰ رضی
اللہُ عنہ
کے صاحبزادگان حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت عون،
حضرت جعفر اور حضرت عبد اللہ رضی اللہُ عنہم اپنے
دل میں شہادت کا جذبہ لئے میدان جنگ میں تشریف لاتے گئے اور دشمنوں سے زمین کو پاک
کرتے چلے گئے، اسد اللہ رضی اللہُ عنہ کے جانباز شیروں نے لومڑیوں کے لشکروں
کا نہایت بہادری سے مقابلہ کیا اور دین
اسلام کی خاطر اپنی جانیں قربان کردیں۔
لشکر حسینیت کے علمدار حضرت عباس رضی
اللہ عنہ کی شہادت:
میدان
جنگ میں جانے کی اجازت لینے کے لئے حضرت عباس بن علی رضی اللہُ عنہما امام
حسین رضی
اللہُ عنہ
کی بارگاہ میں پہنچے، امام حسین رضی اللہُ عنہ نے آنکھیں نم کئے انہیں اجازت دے دی۔امام
حسین رضی
اللہُ عنہ
نے کہا کہ میدان جنگ میں جائیں تو پہلے ان لوگوں پر حجت قائم کریں اور جو کچھ میں
آپ کو بتاؤں وہ کہہ دیں اور اگر وہ نہ سُنیں تو پھر اُن سے جنگ شروع کردیں۔ حضرت
عباس رضی
اللہُ عنہ
جب میدان جنگ میں تشریف لائے تو انہوں نے حجت قائم کرنے کے لئے امام حسین رضی اللہُ عنہ کے
پیغام کو مِن و عَن بیان کردیا۔حضرت عباس رضی اللہُ عنہ کا پیغام سن
کر ابن زیاد کی فوج سے شور اٹھا اور پھر خاموش ہوگئے بعد ازاں کچھ لوگوں نے گالیاں
دینا شروع کردیں اور کچھ لوگ پشیمان ہوگئے اور ایک گروہ زار و قطار رونے لگا۔ لشکر
یزید سے شمر بن جوشن، شیث بن ربعی اور حجر بن الاحجار سامنے آیا اور آپ رضی اللہُ عنہ کی
بات ماننے سے انکار کرتے ہوئے انہیں یزید کی بیعت کرنے کا کہا۔ حضرت عباس رضی اللہُ عنہ نے واپس
آکر امام حسین رضی
اللہُ عنہ
کی خدمت میں جو کچھ سنا تھا عرض کردیا۔ ابھی
بات چل ہی رہی تھی کہ اچانک خیمے سے صدائے العطش اٹھ کر آسمان تک پہنچ گئی، حضرت
عباس رضی
اللہُ عنہ
نے اہل بیت کی چیخوں اور زاری کو سُنا تو نڈھال ہوگئے، پھر آپ رضی اللہُ عنہ نے
ایک مشکیزہ اور دو لوٹے اٹھائے نیزہ تان کر دریائے فرات کی طرف رخ کرلیا۔ نہر فرات
پر چار ہزار افراد کا پہرہ تھا ، دو ہزار لشکریوں نے آپ رضی اللہُ عنہ کا
رستہ روک لیا، آپ رضی
اللہُ عنہ
نے اہل بیت کو پانی پلانے کی تلقین کی، آپ رضی اللہُ عنہ کی بات سنتے
ہی نہر کے پانچ سو سواروں اور پیادوں نے آپ رضی اللہُ عنہ پر
تیر کی بارش شروع کردی، آپ رضی اللہُ عنہ نے اپنا بچاؤ کرتے ہوئے اُن پر حملہ
کردیا اور اسّی 80لوگوں کو ڈھیر کرکے اپنے گھوڑے کو پانی میں اتار دیا، آپ رضی اللہُ عنہ نے یزیدیوں
سے مقابلہ کرتے ہوئے فرات کے کنارے پر پہنچ کر مشکیزہ کو پانی سے بھرلیا، آپ رضی اللہُ عنہ پانی
پیئے بغیر گھوڑے پر سوار ہوگئے اور مشکیزہ کندھے پر ڈال لیا، یزیدی پیادوں اور
سواروں نے آپ رضی
اللہُ عنہ
کا رستہ روک کر جنگ شروع کردی، نوفل بن ارزق بد بخت نے حربے کا وار کیا اور آپ رضی اللہُ عنہ کا
دایاں بازوں شہید کردیا، اس کے بعد آپ رضی اللہُ عنہ نے مشکیزہ
دوسرے کاندھے پر ڈالا تو بائیں بازوں کو بھی قلم کردیا گیا، آپ رضی اللہُ عنہ نے
دانتوں کے ساتھ مشکیزے کو کاندھے سے کھینچ لیا ، اچانک مشکیزے پر ایک تیر آکر لگا
اور مشکیزے میں سوراخ ہونے کی وجہ سے تمام پانی بہ گیا۔ حضرت عباس رضی اللہُ عنہ
کاندھوں پر زخم آنے کی وجہ سے گھوڑے کی پُشت سے نیچے گر پڑےاور امام حسین رضی اللہ عنہ کو
امداد کے لئے پکارا، جب آواز امام حسین رضی اللہُ عنہ کے کانوں تک
پہنچی تو آپ نے جان لیا کہ حضرت عباس اپنے والد ِ ماجد رضی اللہُ عنہ کے
حضور پہنچ گئے ہیں۔
حضرت علی اکبر بن امام حسین رضی اللہُ عنہما
کی شہادت:
امام
عالی مقام حضرت حسین رضی اللہُ عنہ نے جب دیکھا کہ دوستوں بھائیوں اور
اقرباء میں سے کوئی شخص پیچھے نہیں بچا تو آپ نے اسلحہ پہن کر میدان کی طرف
جانے کا ارداہ کرلیا، حضرت علی اکبر رضی اللہ عنہ نے جب اپنے بابا کو میدان میں جانے کا
عزم کرتے دیکھا تو آپ کے ساتھ لپٹ گئے اور جنگ میں جانے سے روک لیا اور خود پہلے جنگ
پر جانے کی اجازت طلب کی لیکن امام حسین رضی اللہُ عنہ نے انکار
کردیا، البتہ حضرت علی اکبر رضی اللہُ عنہ نے زارو قطار رو کر اپنے والد مکرم کو
راضی کرلیا، حضرت علی اکبر رضی اللہُ عنہ نے اپنے اہل خانہ کو الوادع کہا اور
میدان کی طرف روانہ ہوگئے، میدان جنگ مبازر طلبی کے باوجود جب کوئی سامنے نہ آیا
تو آپ نے دشمنوں کے لشکر پر حملہ کردیا، آپ رضی اللہُ عنہ نے میمنہ
و میسرہ اور قلب و جناح پر اس تیزی سے حملے کئے کہ دشمنوں کے
لشکر میں شور برپا ہوگیا۔ آپ واپس اپنے بابا جان رضی اللہُ عنہما کے پاس آئے اور پیاس کا عذر پیش کیا
اور آپ رضی
اللہُ عنہ
نےاپنے نانا جان صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی انگشتری مبارک اُن کے منہ میں رکھ دی جسے چوسنے سے اُن کی پیاس بجھ
گئی اور سکون حاصل ہوگیا، آپ رضی اللہُ عنہ دوسری مرتبہ میدان میں تشریف لائے اور
مبازر طلبی کی ، یزیدی لشکر سے طارق بن شیث مقابلے کے لئے آیا ، آپ نے اپنا نیزہ
اس کے سینے میں مارکر ہلاک کردیا، اس کے بعد طارق کا بیٹا عُمر اور طلحہ ان کے
ہاتھوں واصل جہنم ہوا، یزیدی لشکر کے مصراع بن غالب کے ہلاک ہونے کے بعد ابن سعد
کے حکم پر محکم بن طفیل اور ابن نوفل کو ایک ایک ہزار سوار کا لشکر دے کر آپ رضی اللہُ عنہ سے جنگ
کے لئے بھیج دیا، ان لشکروں نے حضرت علی اکبر رضی اللہُ عنہ پر حملہ کردیا لیکن آپ نے ایک ہی حملے میں دو
ہزار سواروں کو پسپا کردیا، آپ رضی اللہُ عنہ پر جنگ کی وجہ سےبہت زخم آچکے تھے بالآخر ابن نمیر کے نیزے کے وار
سے گھوڑے سے نیچے تشریف لے آئے، آپ رضی اللہُ عنہ کی پکار پر امام حسین رضی اللہُ عنہ
میدان میں آکر انہیں اٹھایا اور خیمہ کے دروازے پرلے آئے اور اُن کا سر اپنے آغوش
میں لے لیا، حضرت علی اکبر رضی اللہُ عنہ نے آنکھیں کھولی اور اہل خانہ کو سلام
کہہ کر جنت کی طرف روانہ ہوگئے۔
امام حسین رضی اللہُ عنہ کی اپنے اہل خانہ کو وصیت:
امام حسین رضی اللہُ عنہنے جب
دیکھا کہ ساتھ آنے والے تمام مرد حضرات ایک ایک کرکے راہِ خدا میں جان نچھاور
کرچکے ہیں، خیمے میں صرف ایک ہی شخص حضرت سیدنا امام زین العابدین بیمار حالت میں
موجود ہیں، ان کے علاوہ تمام پردہ نشین خواتین ہیں۔ امام حسین رضی اللہُ عنہ خیمے
میں تشریف لے گئےاور اپنی صاحبزادی حضرت سکینہ رضی اللہُ عنہا کو آغوش میں لے کر اپنی ہمشیرگان کو
فرمایا ! میری شہادت کے بعد سرننگے نہ کرنا، چہروں پر طمانچے نہ مارنا، سینہ کوبی
نہ کرنا اور کپڑے نہ پھاڑناکیونکہ یہ اہل جاہلیت کی عادت ہے۔ اس کے علاوہ امام
حسین رضی
اللہُ عنہ
نے اہل خانہ کو صبر کر نے کی بھی تلقین
فرمائی ۔
حضرت علی اصغر رضی اللہُ عنہ کی شہادت:
امام
حسین رضی
اللہُ عنہ
نے ان سب کو تسلی دی اور گھوڑے پر سوار ہوکر میدان کی طرف جانے کا ارادہ کرلیا کہ
اچانک خیمے سے چیخ و پکار کی صدا آنے لگی،
پوچھنے پر پتا چلا کہ ننھا علی اصغر رضی اللہُ عنہ پیاس کی وجہ سے رو رہا ہے، ان کی
والدہ کا دودھ خشک ہوچکا ہے اور شیر خوار بچہ ہلاکت کے قریب ہے۔امام حسین رضی اللہُ عنہ کے
کہنے پر حضرت زینب رضی اللہُ عنہا انہیں اٹھا کر آپ کے پا س لے آئیں،
امام حسین
رضی اللہُ عنہ
انہیں اپنی آغوش میں لے کر مخالفین فوج کے سامنے پہنچے اور انہیں ہاتھوں میں اٹھا کر آواز دی اے لوگو !تمہارے
گمان میں ، میں نے گناہ کیا ہے لیکن اس
بچے کا کوئی قصور نہیں، اِسے ایک گھونٹ پانی دے دو کیونکہ شدت پیاس کی وجہ سے اس
کی والدہ کا دودھ خشک ہوچکا ہے۔
سنگ
دل یزیدیوں نے ابن زیاد کے حکم کے بغیر آپ کے بیٹوں کو ایک قطرہ پانی دینے سے بھی
انکار کردیا، اس کے ساتھ ہی قبیلہ ازد کے ایک بد بخت شخص حرملہ بن کاہل نے تیر
کھینچا اور امام حسین رضی اللہُ عنہ کی طرف چلادیا، وہ تیر حضرت علی اصغر رضی اللہُ عنہ کے
گلے کو چیرتا ہوا حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کے بازو میں پیوست ہوگیا، پھر آپ رضی اللہُ عنہ خیمہ
کی طرف تشریف لائے حضرت علی اصغر رضی اللہُ عنہ کی والدہ کو بلاکر فرمایا کہ شہید بچے کو لے لیں اِسے حوض کوثر سے
سیراب کیا جائے گا۔
امام حسین رضی اللہُ عنہ کی امام زین العابدین رضی
اللہُ عنہ کو وصیت:
امام
حسین رضی
اللہُ عنہ
کے ساتھ مردوں میں صرف حضرت امام زین العابدین رضی اللہُ عنہ باقی
بچے تھے اور وہ بھی بیمار تھے، جب انہوں نے اپنے والد گرامی کو اکیلا دیکھا تو
نیزہ اٹھا کر خیمے سے باہر تشریف لے آئے، انتہائی کمزوری کی وجہ سے آپ کا بدن کانپ
رہا تھا، اسی حالت میں آپ نے میدان کا رخ کرلیا، امام حسین رضی اللہُ عنہ تیزی
سے ان کی طرف بڑھے اور انہیں روک کر فرمایا : اے
بیٹے !واپس جا؛کیونکہ میری نسل تجھ سے باقی رہے گی، تو ائمہ اہل بیت کا باپ ہوگا
اور تیری نسل قیامت تک منقطع نہیں ہوگی، اس کے علاوہ خواتین کی نگرانی تیرے ذمے
ہے، میرے نانا جان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور والد گرامی رضی اللہُ عنہ کی
جو امانتیں باقی ہیں وہ تیرے سپرد کرتا ہوں۔
سید الشہداء امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہُ عنہ کی شہادت:
حق و
باطل کے درمیان فرق کرنے، نا اہل اور اسلام دشمن حکمران کے خلاف سیسہ پلائی دیوار
بننے، شریعت مطہرہ کی تعلیمات کو تار تار
کرنے والوں کے خلاف شمشیر بے نیام کرنے، دھوکے باز اور بے وفا کوفیوں کو ان کا صلہ
دینے ،باغِ نبوت کے چمکتے دمکتے پھول، لختِ جگر خاتونِ جنت، اسداللہ حیدر کرار کا
خون، امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہُ عنہ نےمصری
قبہ زیب تن کیا، نانا جان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دستار
مبارک سر پر رکھی، حضرت حمزہ رضی اللہُ عنہ کی ڈھال پشت پر ڈالی، اپنے والد گرامی
رضی اللہُ
عنہ
کی تلوار ذوالفقار ہاتھ میں تھامے ذوالجناح پر سوار ہوئے اور اہل خانہ کو خالق
کائنات کے سپرد کرکے میدان کی طرف تشریف لے گئے۔
امام
حسین رضی
اللہُ عنہ
جب میدان کے درمیان پہنچے تو آپ نے نیزہ زمین میں گاڑدیا اور آغاز رجز فرمایا :
امام حسین رضی
اللہُ عنہ
نے انہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قہر سے ڈرایا، نانا جان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
واسطہ دیتے ہوئے انہیں خود کو شہید کرنے سے روکا اور اہل خانہ کو پانی دینے کی
تلقین فرمائی۔ آپ رضی
اللہُ عنہ
کی باتیں سن کر اہل کوفہ گریۂ و زاری کرنے لگے، بختری بن ربیعہ، شیث بن ربعی اور
شمر بن ذی الجوشن نے اپنے لشکر کی یہ حالت دیکھی تو امام حسین کے پاس آئے اور کہا
کہ اے ابن ابی تراب !اپنی بات لمبی نہ کریں اور اپنے ارادے کو چھوڑ کر یزید کی
بیعت کرلیں، بصورت دیگر ہم آپ کو اسی حال
میں رکھیں گے، دوسری جانب ابن سعد نے جب یہ منظر دیکھا تو اپنے پندرہ ہزار بد
بختوں کو امام حسین رضی اللہُ عنہ کی طرف تیر چلانے کا حکم دے دیا، اللہ
کے حکم سے ان کے تمام تیر خطا کرگئے اور آپ رضی اللہُ عنہ
محفوظ رہے اور واپس اپنے خیمے میں تشریف لے آئے، جب آپ رضی اللہُ عنہ نے
واپس جانے کا ارادہ کیا تو گردو غبار اٹھنے لگا اور ان کے درمیان سے جنّو کا سردار
”زعفر زاہد“ سامنے آیا اور امام حسین رضی اللہُ عنہ کو سلام عرض کیا، زعفر زاہدنے امام
حسین رضی
اللہُ عنہ
کو اپنا تعارف کروایا اور جنگ میں مدد کرنے کی اجازت طلب کی، امام حسین رضی اللہُ عنہ نے
اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مدد لینے سے انکار کردیا۔
امام
حسین رضی
اللہُ عنہ
نے دوسری مرتبہ میدان کا رخ کیا، آپ رضی اللہُ عنہکے مد مقابل تمیم بن قحطیہ آیا، آپ رضی اللہُ عنہ نے
اس کی گردن پر تلوار ماری جس سے اس کا سر پچاس قدم دور جاگرا، پھر آپ نے یزیدی فوج
پر حملہ کردیا، آپ رضی اللہُ عنہ کی تلوار کی ضرب سے دشمن یک دم بھاگنے
لگے، یزیدابطی نے جب لشکر کو ڈرتے ہوئے دیکھا تو مسلح ہوکر امام حسین رضی اللہُ عنہ کے
سامنے پہنچ گیا اور اپنی شان بیان کرتے ہوئے آپ رضی اللہُ عنہ کی
گستاخی کرنے لگااور تلوارسے وار کردیا، امام حسین رضی اللہُ عنہ نے
اُس کے وار سے پہلے اُس کی کمر پر تلوار
چلادی اور اسے چیر کر دو حصوں میں تقسیم کردیا، پھر آپ رضی اللہُ عنہ نے
فرات کا قصد کیا لیکن یزیدی فوج ان کے درمیان حائل ہوگئی۔امام حسین رضی اللہُ عنہنے
باغیوں کے سروں پر تلوار چلانا شروع کردی اور فرات تک پہنچ گئے لیکن غیبی آواز کی
وجہ سے پانی نوش نہیں فرمایا بلکہ خیمے کی طرف تشریف لے آئے، آپ رضی اللہُ عنہ کے
وار سے دشمنوں کی گردنیں اس طرح گررہی تھیں جیسے خزاں میں درخت کے پتے زمین پر گرتے
ہیں، خیمے میں امام حسین رضی اللہُ عنہ نے
عیال و اطفال کو آخری وصیتیں کیں اور آخری ملاقات کرتے ہوئے الوداع کہا۔
امام عالی مقام سیدنا امام حسین میدان میں تشریف
لائےاور مقابلے کی دعوت دی، ابن سعد نے اپنے لشکر کو اکٹھے ہوکر حملہ کرنے کا حکم
دیا، یزیدی لشکر نے حرکت میں آکر آپ رضی اللہُ عنہ کو گھیرے میں لے لیا، امام حسین
رضی اللہُ
عنہ
نے بجلی کی طرح تلوار چلاتے ہوئے اُن پر حملہ کردیا، آپ رضی اللہُ عنہ کے
واروں سے نعشوں کے انبار لگ گئے، خون کی بارشیں ہونے لگیں، حملہ کرتے ہوئے آپ رضی اللہُ عنہ پھر
فرات تک پہنچ گئے اور پانی پینے کا ارادہ کیا لیکن حصین بن نمیر نے آپ رضی اللہُ عنہکے
چہرۂ اقدس پر تیر چلادیا اور آپ پانی پینے سے قاصر رہے، آپ رضی اللہُ عنہکا
منہ مبارک گھڑی گھڑی خون سے بھرجاتا تو خون باہر بہنے لگتا، بہر حال دشمنوں نے یک
لخت حملہ کرکے آپ کے جسم مبارک کو بہت سے زخموں سے گھائل کردیا، امام عالی مقام رضی اللہُ عنہ نے
جنگ سے ہاتھ روک لیا اور آپ رضی اللہُ عنہ کا گھوڑا بھی کمزور پڑگیا، شمر کے حکم
پر یزیدی پیادوں نے امام حسین رضی اللہُ عنہ کو گھیرے میں لے لیا، آپ رضی اللہُ عنہ نے اُن پر اس طرح شمشیر چلائی کہ وہ
ہزیمت اٹھا کر بھاگ نکلے، جس وقت سواروں اور پیادوں نے حملہ کیا اور آپ کے قریب
پہنچے تو ہیبت کی وجہ سے کوئی بھی ایک قدم آگے بڑھانے کے لئے تیار نہ تھا۔ بالآخر
اُن لوگوں نے آپ رضی
اللہُ عنہ
پر تیروں کی بارش شروع کردی، امام حسین رضی اللہُ عنہ اپنے گھوڑے سے اتر آئے۔ یزیدیوں نے آپ کو پیادہ
دیکھا تو دلیر ہوکر آپ پر حملہ کردیا یہاں تک کہ ایک شخص کا تیر آپ کی نورانی
پیشانی میں پیوست ہوگئی، آپ رضی اللہُ عنہ نے تیر کھینچا اور اپنا ہاتھ مبارک
زخم پر رکھ لیا، جب آپ کا ہاتھ مبارک خون سے لت پت ہوگیا تو آپ نے اُسے چہرے پر مل
کر فرمایا، میں اسی حالت میں اپنے نانا جان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملاقات کروں گااور شہیدوں کی تفصیل بیان کروں
گا۔
اس
دن آپ رضی اللہُ عنہ کے
جسم اطہر پر تیروں، تلواروں اور نیزوں کے 72 بہتر زخم آچکے تھے، اسی حال میں آپ
قبلہ رو ہوکر بیٹھ گئے اور اپنا سر مبارک بحضور کبریا رکھ دیا، آپ رضی اللہُ عنہ کو
شہید کرنے کے ارادے سے ایک ایک دو دو آدمی آتے رہے اور چہرہ مبارک پر نظر ڈالتے
توشرمندہ ہوکر واپس چلے جاتے، جب شمر نے فوجیوں کو آپ رضی اللہُ عنہ کے
قتل سے اعراض کرتے دیکھا تو غضب کرنے لگا، اُ س کی بات سن کر زرعہ بن شریک آگے بڑھ
کر آپ کے ہاتھ مبارک پر زخم لگایا اور دس افراد آپ رضی اللہُ عنہ کو
قتل کرنے کے لئے آگے بڑھے لیکن کسی کی ہمت
نہیں ہوئی، اسی اثنا میں سنان بن انس نے امام حسین رضی اللہُ عنہ کی
پشت پر نیزہ مارا تو آپ رضی اللہُ عنہ زمین پر لیٹ گئے، خولی بن یزید اصبحی
نے اپنے گھوڑے سے اُتر کر آپ کا سر مبارک آپ کے جسم اطہر سے الگ کرنا چاہا تو اس
کا ہاتھ کانپ اٹھا اور اُس کے بھائی شبل بن یزید نے نواسۂ رسول، جگر گوشہ بتول،
نوجوان جنت کے سردار، شیر خدا کے دل کا چین، شہنشاہ اہل بیت ، سید السادات، امام
عالی مقام حضرت سیدناامام حسین رضی اللہُ عنہ کا سر مبارک کو تن سے جدا کردیا، اس
طرح آپ رضی
اللہُ عنہ
محرم الحرام 61ھ کی دسویں تاریخ جمعہ کے روز اپنا وعدہ پورا کر کے خالق حقیقی سے
جاملے۔آپ رضی
اللہُ عنہ
کی شہادت پر زمین پر لرزہ طاری ہوگیا، ملکوت کی عبادت گاہوں میں شور برپا ہوگیا،جبروت
کے باغات سے واویلا کی صدائیں آنے لگی،
آفتاب عالم افروز کی روشنی ختم ہوگئی۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رٰجِعُوْن
اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو
واقعہ کربلا کے تفصیلی مطالعے کے لئے مکتبۃ المدینہ
کی کتاب سوانحِ کربلا کا مطالعہ فرمائیں
نوٹ: اس مضمون کو لکھنے میں کتاب ”روضۃ الشہداء“ اور سوانحِ کربلا سے مدد لی گئی ہے۔
از:
مولانا حسین علاؤالدین عطاری مدنی
اسکالر
اسلامک ریسرچ سینٹردعوتِ اسلامی ، المدینۃ العلمیۃ
ملک کے کسی حصے سے چاند نظر آنے کی شہادت موصول نہیں ہوئی، یکم محرم الحرام
اتوار کو ہوگی،ذرائع رویت ہلال کمیٹی
پاکستان
تفصیلات کے مطابق محرم
الحرام کا چاند نظر نہیں آیا، یوم عاشور 9 اگست کو ہوگا،ملک کے کسی حصے سے چاند
نظر آنے کی کوئی شہادت موصول نہیں ہوئی، یکم محرم الحرام اتوار کو ہوگی۔ اسلامی
سال 1444 ہجری کے پہلے مہینے محرم الحرام 1444ھ کا چاند دیکھنے کے لیے مرکزی رویت
ہلال کمیٹی کا اجلاس کوئٹہ میں ہواجبکہ زونل ہلال کمیٹیوں کے اجلاس اپنے متعلقہ
دفاتر میں ہوئے، تاہم ملک کے کسی بھی حصے سے
چاند نظر آنے کی کوئی شہادت موصول نہیں ہوئی۔
اس حوالے سے رؤیتِ ہلال کمیٹی کے رکن مفتی علی اصغر عطاری مدنی صاحب کا اپنے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ”سائنسی اعتبار سے تو آج چاند نظر آنے کے امکانات تھےلیکن ملک کااکثر حصہ ابر آلود ہے، مرکزی رؤیتِ ہلال کمیٹی کو چاند نظر آنے کی کوئی شہادت موصول نہیں ہوئی لہذا بروز اتوار 31 جولائی کو یکم محرم الحرام ہے۔مفتی علی اصغر“
وہ مقدس و بابرکت گھر جس کی تعمیر کا شرف جد
الانبیاء و المرسلین سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام کو مرحمت فرمایا
گیا اور جسکی تعمیر کا مقصد حضرت خلیل نے بار گاہ خداوندی میں بایں الفاظ عرض کی :
رَبَّنَاۤ
اِنِّیْۤ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ
بَیْتِكَ الْمُحَرَّمِۙ -رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوةَ فَاجْعَلْ
اَفْىٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیْۤ اِلَیْهِمْ وَ ارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ
لَعَلَّهُمْ یَشْكُرُوْنَ (ابراہیم،پ13 ،37 )
ترجمہ: کنزالعرفان: اے ہمارے رب! میں نے اپنی کچھ اولاد کو تیرے
عزت والے گھر کے پاس ایک ایسی وادی میں ٹھہرایا ہے جس میں کھیتی نہیں ہوتی۔ اے
ہمارے رب ! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں تو تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کردے اور
انہیں پھلوں سے رزق عطا فرماتاکہ وہ شکر گزار ہوجائیں ۔
مگر وہ گھر کئی سالوں سے صنم کدہ بنا رہا جہاں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت کے بجائے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے اندھے ،
بہرے ،گونگے بتوں کی پوجا کی جاتی تھی۔ اس
مقدس گھر کو کفر وشرک سے پاک
کرنے کے لئے اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے نبی آخرالزماں ﷺ کو بھیجا ،اس محسن انسانیت نے صفا کی چوٹی پر جب ایک اللہ
وحدہ لاشریک پر ایمان لانے کے لئے لوگوں کو کہا تو جنہوں نے آپکی سچائی و امانت
داری پر صادق و امین جیسے القاب دیئے ، جن لوگوں کوآپ اپنی نیک
نیتی و حسن کردار کے ذریعے ان کی آنکھوں کا تارا تھے، ان میں یکایک نفرت و عداوت کے
شعلے بھڑک اٹھے ، وہ آپ کے سخت دشمن بن
گئے،آپ علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے رفقاء کو حرم مکہ میں جانے پر بھی پابندی لگادی اور طرح طرح کی اذیتیں دینے لگے
حتیٰ کہ وہ آپ ﷺ کے قتل کے درپے ہوگئے جس پر رسولِ خدا ﷺ کو حکم ربانی پر یہ بابرکت شہر چھوڑنا پڑا اور آپ اپنے چند ساتھیوں سمیت رات کے اندھیرے میں مدینہ ہجرت کرگئے ۔روز بعثت سے 8 سن ہجری تک
، یہ عرصہ رسولِ خدا اور دین اسلام کے لئے سخت اور بڑا صبر آزما تھا لیکن آپ اپنی بلند ہمتی اور نیک ارادے کے ساتھ دین کی دعوت و تبلیغ میں لگے رہے اور
اپنی دور اندیشی کے سبب ایسے متعدد فیصلے کئے کہ چند سالوں میں ہی جزیرۃالعرب میں نظریاتی اور عملی انقلاب پیدا ہوا جس سے عرب کے
دور افتادہ خطے بھی نور اسلام سے جگمگا
اٹھا ۔
چنانچہ ایک وہ دن تھا جب نبی کریم ﷺ کو مکہ سے ہجرت
کرنی پڑی اور اب وہ دن بھی آگیا کہ آپ ﷺ
خانہ خدا کو کفر و شرک سے پاک کر کے خالصتاً اللہ ہی کی عبادت کے لئے مختص کردیں تا کہ عرب سے شرک و بت پرستی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے ۔چنانچہ و ہ عظیم دن 8 سن ہجری 17 رمضان
المبارک کا دن تھا جب نبی کریم ﷺ اپنے دس
ہزار جانثاروں کو لیکر مکہ میں داخل ہوئے ۔
مختصراً واقعہ بیان کرتا ہوں کہ صلح حدیبیہ میں دونوں فریقین کے درمیان
کچھ شرائط طے ہوئی تھیں جن میں ایک شرط یہ تھی کہ 10 سال تک دونوں قبائل جنگ نہیں
کرینگے اور عرب کے دیگر قبائل دونوں فریقوں میں سے جس کےساتھ چاہیں اتحاد کرلیں تو
قبیلہ بنو بکر نے قریش کے ساتھ اور بنو خزاعہ نے مسلمانوں کے ساتھ اتحاد کرلیا اور ان دونوں قبیلوں میں مدت سے لڑائی
تھی ، بنو بکر کی ایک شاخ بنو نفاشہ نے آب وتیر کے مقام پر موقع غنیمت جانتے ہوئے
خزاعہ پر رات کے وقت حملہ کردیا اور اس حملے میں قریش نے خفیہ طور پر مسلمانوں کے
خلاف مدد کی۔ اس واقعہ کی اطلاع جب رسول
اکرم ﷺ کو ملی تو آپ نے قریش کی طرف پیغام
بھیجا کہ تین شرطوں میں سے کوئی ایک شرط قبول کرلیں۔ (01)مقتولین کا خون بہا(02)بنو
نفاشہ کی حمایت سے انکار (03) اعلان کردیں معاہدہ حدیبیہ ٹوٹ گیا ۔
قریش کے نمائندے قرطہ بن عمر نے کہا ہمیں صرف تیسری شرط منظور ہے۔ چنانچہ 10 رمضان المبارک 8 ھ کو آپ ﷺ
اپنے 10 ہزار جانثار صحابہ کو لیکر مکہ کی طرف چلے ، مکہ کے قریب پہنچ کر آپ نے
اعلان کیا جو شخص ہتھیار ڈال دے ، جو اپنے
گھر کا دروازہ بند کرلے، جو حرم مکہ میں داخل ہوجائے ، جو ابو سفیان کے گھر میں
داخل ہوجائے ان سب کے لئے امان ہے پھر آپ
ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے
اور کعبے کو بتوں سے پاک فرماکر دو نفل ادا کئے اور خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد
کفار قریش (مفتوح ) سے ارشاد فرمایا :کیا میں تمہیں بتاؤں کہ آج میں تمہارے ساتھ
کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟ کفار مکہ آپ ﷺ کی
طبیعت سے آگاہ تھے تو کہنے لگے ” اخ
کریم و ابن اخ کریم
“ آپ کرم والے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کی رحمت
جوش میں آئی ،فرمایا: ” لا
تثریب علیکم الیوم فاذہبواانتم الطلقاء“ آج کے دن تم پر کوئی الزام نہیں تم سب
آزاد ہو ۔اس غیر متوقع طور پر عام معافی کا اعلان سن کر کفار جوق در جوق مسلمان
ہونے لگے ۔(واقعہ کی تفصیل کے لئے سیرت رسول عربی کا مطالعہ کریں)
اس
مبارک فتح کے نتائج کیا نکلے ؟اور ہمیں اس فتح میں کیا تعلیمات دی گئی ہیں ان کا سرسری
جائزہ :
1 ۔منزل اور کامیابی کی راہ میں اگر ایک راستہ بند ہو جائے تو
ہزار راستے کھولے ہوتے ہیں ،صلح حدیبیہ میں شرائط مسلمانوں کے خلاف تھیں لیکن جب معاہدہ ہوگیا کہ قریش کے ساتھ جنگ نہیں
ہوگی تو نبی ﷺ نے تبلیغ کارخ عرب کے دیگر قبائل کی طرف پھیر
دیا نتیجۃً مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور اسلام پھلتا پھولتا رہا ۔
2 ۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو اخلاق حسنہ کا درس دیتا ہے چنانچہ مکہ فتح ہونے کے بعد جب
کلید مکہ (کعبہ کے دروازے کی چابی) نبی کریم ﷺ کے ہاتھ میں آئی تو آپ نے عثمان بن ابی طلحہ کو بلایا(کعبے کی چابی ان کے پاس ہوتی تھی، فتح مکہ سے قبل انہوں نے ایک بار رسول
اللہ ﷺ کو کعبے میں جانے سے منع کیا تھااور چابی نہیں دی تھی، اب فتحِ مکہ کے بعد
حضورﷺ نے ان کو بلایا) اور کعبے کی چابی منگوائی، جب انہوں نے لاکردی تو آپ ﷺ نے
دوبارہ ان کو عطافرمائی۔ اس موقع پر نبی کریم ﷺ نے عثمان بن ابی طلحہ سے فرمایا :”یاد
ہے وہ دن جب میں نے کہا تھا کہ ایک وقت آئیگا جب کلید کعبہ میرے قبضہ میں ہو گی
اور جسے چاہوں گا دونگا“توعثمان بن ابی
طلحہ نے آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی تصدیق کی ۔ بعض روایات کے مطابق عثمان
بن ابی طلحہ نے ابھی تک اسلام قبول نہیں
کیا تھا، حضور ﷺ کا اخلاق دیکھئے کہ پھر بھی چابی انہیں کو عطا فرمائی۔ چنانچہ بعض روایات کے مطابق عثمان بن ابی طلحہ آ پ ﷺ کے اس اخلاق حسنہ سے متأثر
ہو کر اسلام قبول کرلیا اور آپﷺ کے عقیدت مندوں میں شامل ہوگئے۔
3 ۔اس عظیم فتح اور عظیم فاتح نے دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ
فتح مندی نشے میں چور ہونے کا نام نہیں جس طرح جدید دور میں فتح کے بعد ناچ گانے
، آتش بازی بےہودہ رسومات کی جاتی ہیں بلکہ رسول اکرم ﷺ نے مکہ میں داخل ہونے کے بعد تسبیح واستغفار کی ، دو رکعت نفل ادا کی اور خطبہ دیا ۔ سورۃ
النصر میں ہے کہ جب فتح آگئی اور لوگ فوج
در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے تو اے نبی! آپ اپنے رب کی حمد کیجیئے اور استغفار
کیجیئے ۔
4۔ طاقت و اقتدار رکھ کر بدلہ لینے کے باوجود عام معافی کا اعلان کرکے نبی کریم ﷺ
نے عالمی امن کے پیغام کی واضح مثال پیش کی ہے کہ کس طرح فتح کے بعد امن وامان کی صورتحال کو باقی رکھا جائے
اور خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر اپنی فتح کو برقرار رکھا جائے ۔
5 ۔فتح مکہ ہمیں اللہ تعالی کے وعدے پر امید دلاتی ہےلیکن اسکے
وعدے کی تکمیل کے لئے خود انسان کو کتنی کوشش ،محنت اور مصائب پر صبر کرنا پڑتا ہے یہ بات آپ فتح مکہ سے
پہلےحضور ﷺ کی سیرت کو دیکھیں کہ کس طرح
آپﷺ نے دین کی خاطر محنت و کوشش کی ۔
6 ۔ حضور نبی کریمﷺ کاعمل ہمیں یہ بھی سکھاتا ہے کہ دشمنوں کو دوست کس طرح بنایا جائے ؟ چنانچہ عفو ودرگزر کر کے عام معافی
کے بعد کئی مخالفین جو آپﷺ کے دشمن تھے کلمہ
پڑھ کر مسلمان ہوتے گئے۔ چند وہ افراد جن کو خاص قتل کرنے کا حکم دیا گیا
تھا لیکن ان میں
بھی صحابہ کرام نے بعض کی سفارش کی تو معاف کردیئے گئے
اور مسلمان ہوگئے اور اس طرح جزیرۃ العرب سے بت پرستی و شرک کا خاتمہ ہوگیا ۔
از۔مولانا محمد مصطفی انیس عطاری مدنی
المدینۃ العلمیہ اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی