معاشرے
میں عموماً گھر کے مرد باہر کام کاج کرتے ہیں اور رزق حلال کما کر گھر کا نظام چلاتے ہیں اور گھر والوں کی ضروریات
پوری کرتے ہیں اور یہ ان کی ذمہ داری بھی ہے لیکن بعض اوقات گھر کی خواتین کو بھی جاب کرنی پڑ جاتی ہے اور گھر کا نظام چلانا
پڑتا ہے، اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں: ان کے گھر کوئی مرد نہ ہو یا مرد ہو لیکن مہنگائی کی وجہ سے اس کی تنخواہ
سے گھر کے تمام افراد کا گزر بسر نہ ہوتا ہویا مرد کسی بیماری کی وجہ سے کام نہ کر
سکتا ہو یا اس طرح کی اور کچھ وجوہات ہو سکتی ہیں جن کی بنا پر خواتین کو نوکری
کرنی پڑتی ہے، اس میں بعض خواتین مجبوری کی وجہ سے کرتی ہیں اور بعض شوقیہ ایسا
کرتی ہیں، بہر حال اگر ضرورت نہ ہو یا گھر والوں کی اجازت نہ ہو یا بیوی کو شوہر
کی طرف سے اجازت نہ ہو تو نوکری نہ کرے،
نیز بلاوجہ بھی نوکری نہیں کرنی چاہیے، بلکہ گھر داری سیکھے، سلائی کڑھائی سیکھ
لے، اسلامی تعلیمات سیکھے تاکہ اس کو ساری زندگی یہ چیزیں کام آئیں اور اچھے انداز
میں اپنے گھر کی ذمہ داریاں پوری کر سکے اور اگر اجازت کی رکاوٹ نہیں ہے تو خاتون
کا نوکری کرنا بعض شرائط کے ساتھ جائز ہے۔ جیسا کہ امیرِ اہل سنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ سے جب
اسی حوالے سے سوال کیا گیا کہ کیا عورت ملازمت کر سکتی ہے تو آپ نے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کے حوالے سے اجازت کی یہ 5 شرطیں ذکر فرمائیں: (1)
کپڑے باریک نہ ہوں جن سے سر کے بال یا کلائی وغیرہ ستر کا کوئی حصّہ چمکے(2)کپڑے
تنگ وچست نہ ہوں جو بدن کی ہیئات (یعنی سینے کا ابھاریا پنڈلی وغیرہ کی گولائی)
ظاہرکریں(3)بالوں یا گلے یا پیٹ یا کلائی
یا پنڈلی کا کوئی حصّہ ظاہِر نہ ہوتا ہو(4)کبھی نامحرم کے ساتھ معمولی دیر کے لئے
بھی تنہائی نہ ہوتی ہو (5) اس کے
وہاں رہنے یا باہر آنے جانے میں کوئی فتنے کا گمان نہ ہو۔ یہ پانچوں شرطیں اگر جمع ہیں توحرج نہیں اور ان میں ایک بھی کم ہے تو(ملازمت وغیرہ) حرام([1])۔ (2)
معلوم
ہوا! اگر عورت شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے گھریلو ذمے داریوں کی وجہ سے کسبِ
معاش میں حصہ لے تو شرعاً اس پر کوئی پابندی عائد کی گئی ہے نہ اسے ناپسندیدہ قرار
دیا ہے۔ خواتینِ اسلام کی سیرت کے مطالعے سے بھی پتہ چلتا ہے کہ بہت سی صحابیات
اپنے گھر کی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی نباہتے ہوئے اور پردے کے معاملات کی رعایت کے ساتھ کسبِ مَعاش میں بھی حصہ لیتی تھیں اور حصولِ
معاش کے ایسے طریقے اختیار کرتی تھیں جن سے شریعت کی پابندیوں میں کوتاہی بھی نہ ہو۔
جیسا کہ اُم المومنین حضر ت خدیجہ رضی اللہ عنہا تجارت کیا کرتی تھیں اور بھی کئی
مثالیں موجود ہیں۔ معلوم ہوا! کچھ صحابیات نے معاشی سرگرمیوں میں حصہ ضرور لیا لیکن
اسے مقصدِ حیات بنایا نہ دنیوی عیش و آرام اور آسائشوں (Luxuries) کے لئے کمایا اور نہ فضول خرچیوں میں صرف
کیا، بلکہ اس کے ذریعے بھی اللہ اور اس کے
رسول کی رضا ہی تلاش کی۔ اللہ پاک ہمیں
بھی ایسی توفیق دے کہ اسی کی رضا کے مطابق اپنی پوری زندگی گزاریں۔
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)