جن باتوں کے ماننے سے بندہ
اسلام میں داخل ہوتا ہے ان میں سے ایک وقوعِ قیامت کو ماننا بھی ہے، یعنی بندہ اس
بات پر ایمان رکھے کہ اللہ پاک کے حکم سے قیامت ضرور اپنے وقت پر قائم ہو گی ، جب
انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو گا اور اسے اس کے اچھے یا برے کاموں کا صلہ ملے
گا، اسی یوم الحساب کو مذہبِ اسلام میں قیامت کہتے ہیں۔ ([1])قرآنِ کریم میں لفظ قیامت 70 بار آیا ہے، قیامت کے ناموں کی تعداد کسی نے 100 اور کسی نے اس سے بھی زائد بتائی ہے۔
قرآنِ کریم میں بھی قیامت کے کئی نام مذکور ہیں، بلکہ 13 سورتوں کا نام قیامت یا قیامت کی
ہولناکیوں کے نام پر آیا ہے:
الدخان |
الواقعہ |
الحشر |
التغابن |
الحاقہ |
القیامہ |
النباء |
التکویر |
الانفطار |
الانشقاق |
الغاشیہ |
الزلزلہ |
القارعہ |
|
|
قیامت سے 40
سال پہلے تمام مسلمانوں کی وفات ہو جائے گی وہ یوں کہ مسلمانوں کی بغلوں کے نیچے
سے خوشبو دار ہوا گزرے گی جس سے تمام مسلمان فوت ہو جائیں گے۔(2) اس کے
بعد 40 سال کا زمانہ ایسا گزرے گا کہ اس میں کسی کی اولاد ہو گی نہ کوئی 40 سال سے
کم عمر کا ہو گا، اس وقت دنیا میں کافر ہی کافر ہوں گے۔(3) انہی پر
قیامت قائم ہو گی، وہ یوں کہ جب پہلی بار صور پھونکا جائے گا تو قیامت قائم ہو جائے
گی۔ اسی بات کا ذکر پارہ 23، سورۂ یٰسٓ کی 49 نمبر آیت میں یوں ہے:مَا
يَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً تَاْخُذُهُمْ وَ هُمْ يَخِصِّمُوْنَ0ترجمۂ کنز العرفان:وہ صرف ایک چیخ کا
انتظار کررہے ہیں جو انہیں اس حالت میں پکڑ لے گی جب وہ دنیا کے جھگڑوں میں پھنسے
ہوئے ہوں گے۔اس کے بعد دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو سب دوبارہ زندہ ہوکر اپنے
رب کی طرف چل پڑیں گے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:وَ
نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ
يَنْسِلُوْنَ0(پ23،یٰسٓ:51)ترجمۂ
کنز العرفان: اور
صور میں پھونک ماری جائے گی تواسی وقت وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف دوڑتے چلے جائیں گے۔
وقوع
قیامت کے منکر کا حکم:بے شک
قیامت قائم ہو گی، اس کا انکار کرنے والا کافر ہے۔(4) علامہ قاضی عیاض
مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ کی مشہور و معروف کتاب شفاء شریف میں
ہے: جس نے قیامت کا انکار کیا وہ کافر ہے کیونکہ اس پر نص موجود ہے اور اس وجہ سے
کہ قیامت کے حق ہونےکی خبر تواتر کے ساتھ منقول ہونے پر اُمّت کا اجماع ہے۔(5)
قیامت
کی قسمیں:قِیامَت کی تین قسمیں ہیں: پہلی قیامت صغریٰ: یہ موت ہے۔ مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗجو مَر
گیا اس کی قیامت قائم ہو گئی۔ دوسری قیامت وسطیٰ:وہ یہ کہ ایک قرن(یعنی ایک
زمانہ) کے تمام لوگ فنا ہو
جائیں اور دوسرے قرن کے نئے لوگ پیدا ہو جائیں۔ تیسری قیامت کبریٰ: وہ یہ کہ
آسمان و زمین سب فناہوجائیں گے۔(6)
قیامت کب قائم ہوگی؟ وقوعِ
قیامت کے متعلق اتنا تو سب جانتے ہیں کہ 10 محرم الحرام کو جمعہ کے دن قائم ہو گی،
مگر کس سال قائم ہو گی؟ اسے اللہ جانتا ہے اور اسکے بتائے سے اسکے رسول۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے:عٰلِمُ
الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖۤ اَحَدًاۙ0
اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ(پ29،الجن:26، 27) ترجمہ
کنز الایمان: غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب
پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔
وقوعِ
قیامت کا درست وقت نہ بتانے میں حکمت: اس
کا درست وقت نہ بتانے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ یہ جان کر کہ ابھی تو بہت وقت ہے ، لوگ نیک
اعمال بجا لانے میں سستی کا مظاہرہ کریں گے۔
منکرینِ
قیامت :یاد رہے! دنیا میں بعض لوگ ایسے ہیں جو
رب کو مانتے ہیں نہ قیامت کو اور نہ کسی اور ضرورت دینی کو۔ بعض اس بات کو تو تسلیم
کرتے ہیں کہ خدا ہے اور دنیا ایک دن فنا ہو جائے گی ، مگر قیامت کو نہیں مانتے،
حالانکہ ہر عقل مند شخص جانتا ہے کہ جب رب کو مان لیا تو پھر قیامت کا انکار کرنا گویا
کہ اس کی قدرت و حکمت کو جھٹلانا ہے۔ بعض یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قیامت حق ہے تو نظر کیوں نہیں آتی؟ تو اس کا جواب یہ
ہے کہ جب ہم اس دنیا کا مکمل مشاہدہ نہیں کر سکتے جو کہ آسانی سے نظر آ رہی ہے تو
اس دنیا میں رہ کر اس عالم قیامت کو کیسے دیکھ سکتے ہیں جس کا تعلق غیب سے ہے یعنی ان
مشاہدات کے لئے جس لطافت کی ضرورت ہے وہ ہر انسان کو میسر نہیں لیکن جسے
اللہ چاہے وہ غیبی حقیقتوں کا مشاہدہ
کرلیتے ہیں۔(7) حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے
مکی دور میں کفار سب سے زیادہ وقوعِ قیامت کا ہی انکار کرنے والے تھے، چنانچہ اس
وقت سب سے زیادہ آیات ایسی نازل ہوئیں جن میں قیامت کا حق و سچ ہونا ہی مذکور ہے۔ ذیل میں وقوعِ قیامت پر چند نقلی و
عقلی دلائل مختصراً ذکر کئے جا رہے ہیں :
وقوعِ
قیامت پر نقلی دلائل: سورہ
حج کی ابتدائی آیات میں اللہ پاک نے جہاں تخلیق انسانی کے مراحل کو بیان فرمایا
وہاں یہ بھی ذکر فرمایا کہ اللہ پاک مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد مارنے اور پھر
دوبارہ اٹھانے پر بھی قادر ہے،نیز فرمایا: اَنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ
لَّا رَيْبَ فِيْهَا١ۙ (پ17،الحج:7)ترجمۂ
کنز العرفان:یہ کہ قیامت آنے والی ہے اس میں کچھ شک نہیں۔ایک مقام پر ہے:
لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ١ؕ (پ5،النساء:87)ترجمہ کنز العرفان: وہ
ضرور تمہیں قیامت کے دن اکٹھا کرے گا جس میں کوئی شک نہیں۔
وقوعِ
قیامت پر عقلی دلائل :
نظامِ دنیا ہے کہ جب کوئی محنت و مشقت کرتا ہے تو اپنے کام کی جزا پاتا ہے اور جو اپنے مالک کی یا اپنے ملکی قوانین
کی نافرمانی و خلاف ورزی کرتا ہے تو سزاوار
ٹھہرتا ہے، لہٰذا قیامت کا
قیام بھی ضروری ہے تاکہ اچھوں کو ان کے کاموں کی جزا ملے اور بروں کو ان کے کئے کی
سزا۔
بسا اوقات یوں
ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ دنیا میں ظلم سہتے رہتے ہیں، انہیں زندگی میں راحت کم ملتی ہے اور بہت سے ایسے ہیں جو ظلم
کرتے ہیں لیکن دنیا میں انہیں سزا نہیں ملتی اور ظالم کا بغیر سزا کے رہ جانا اور
مظلوم کا بغیر جزا کے رہ جانا اللہ پاک کی مصلحت کے خلاف ہے اور عقل کے بھی خلاف
ہے، نیزجزا و سزا کے معاملہ سے پہلے ضروری ہے کہ اس جہان کو مکمل ختم کیا جائے
کیونکہ یہ جہان دار العمل ہے، اس لئے ایک اور جہان ہو جو صرف دار الجزا ہو اور
وہاں جزا و سزا کا معاملہ ہو اور وہی قیامت ہے۔
اسی طرح اگرغور کریں تو معلوم ہوگا کہ انسان دنیا میں اچانک نہیں آیا بلکہ اس سے قبل کئی عالموں
میں رہ چکا ہے مثلاً عالمِ ارواح پھر شکمِ مادر پھر عالمِ دنیا جب یہ چیزیں عقل کے
دائرے میں آتی ہیں تو اب اگر چوتھا عالَم یعنی عالمِ قیامت بھی مان لیا جائے تو ا س میں کیا عقلی قباحت
ہے؟ (8)
انکارِ
قیامت کے نقصانات:منکر
قیامت فطرت سے باغی ہو جاتا ہے، وہ اچھے اخلاق سے محروم ہو جاتا ہے۔ مالک کائنات
کی قدرت، حکمت اور مصلحت سے فرار اختیار کرتا ہے، نفسانی خواہشات میں مبالغہ کرتا
ہے، کفر و ضلالت، اور سرکشی پر اتر آتا ہے، بے باک ہو جاتا ہے، اعمال حسنہ سے بیزار
ہو جاتا ہے، شیطان اور نفس کا غلام بن جاتا ہے۔
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1]عقیدۂ
آخرت، ص 4 2مسلم،ص1201،حدیث:7373 3بہار شریعت، حصہ: 1 ، 1/127 4 بہار شریعت، حصہ: 1 ، 1/129 5شفاءشریف،2/290
6ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص386 7عقیدۂ
آخرت، ص 36 ملخصاً 8عقیدۂ
آخرت، ص 5 ملخصاً