ہر ماہ کسی نبی کی بشارت: حضرت آمنہ رضی اللہُ عنہا جب امید سے ہوئیں تو پہلے ماہ حضرت آدم تشریف لائے اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے متعلق خبر دی۔دوسرے ماہ حضرت ادریس علیہ السّلام تشریف لائے اور حضور کے فضل و کرم اور شرف عالی کی خبر دی۔تیسرے ماہ حضرت نوح علیہ السّلام تشریف لائے اور بتایا کہ آپ کا نورِ نظر فتح و نصرت کا مالک ہے۔ چوتھے مہینے حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے تشریف لا کر حضور کے قدر و شرف کے متعلق آگاہ فرمایا۔ پانچویں مہینے حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے آ کر آپ کو بتایا کہ جس ہستی کی آپ ماں بننے والی ہیں وہ صاحب مکارم و عزت ہے۔ چھٹے مہینے حضرت موسی علیہ السّلام نے تشریف لا کر حضور کی قدر و جاہ عظیم کے متعلق آپ کو بتایا۔ ساتویں مہینے حضرت داود علیہ السّلام نے آکر بتایا کہ آپ جس ہستی کی ماں بننے والی ہیں وہ مقامِ محمود، حوضِ کوثر ، لواءُ الحمد، شفاعتِ عظمیٰ اور روزِ ازل کا مالک ہے۔آٹھویں مہینے حضرت سلیمان علیہ السّلام نے آکر بتایا کہ آپ کو نبی آخر الزمان کی ماں بننے کا شرف ملنے والا ہے۔ پھر نویں مہینے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے تشریف لا کر خبر دی کہ آپ کے نورِ نظر قول راست اور دین راجح کے مالک ہیں ۔ الغرض ہر ایک نبی نے انہیں فرمایا: اے آمنہ! آپ کو بشارت ہو کہ آپ دنیا و آخرت کے سردار کی ماں بننے والی ہیں، لہٰذا جب وہ پیدا ہوں تو ان کا نام محمد رکھئے گا۔([1])

ولادت کا ماہ و دن:مشہور یہ ہے کہ حضور کی ولادت باسعادت 12ربیع الاول شریف کو پیر کے دن ہوئی، نیز یہ کہ ولادت باسعادت کا مہینا ربیع الاول ہی تھا، محرم، رجب، رمضان یا کوئی دوسرا معزز و محترم ماہ نہ تھا کیونکہ حضور کے عزو شرف کا تعلق کسی مہینے سے نہیں، بلکہ مقامات کی طرح زمانے کو بھی آپ سے نسبت کی وجہ سے شرف حاصل ہوا۔ اگر آپ کی ولادت ان مہینوں میں سے کسی میں ہوتی تو یہ وہم کیا جاتا کہ آپ کو فلاں مہینے کی وجہ سے شرف اور مرتبہ ملا ہے، اس لئے اللہ پاک نے آپ کی ولادت ان مہینوں کے علاوہ رکھی تاکہ اس مہینے آپ کی عنایت اور آپ کے ذریعے اس کی کرامت کا اظہار ہو۔ جب جمعۃ المبارک کا یہ عالم ہے کہ اس دن حضرت آدم علیہ السّلام کی ولادت مبارکہ ہوئی اور اس میں ایک ایسی ساعت ہے جس میں کوئی مسلمان بندہ بھلائی طلب کرے تو اللہ پاک اسے عطا کرتا ہے لہٰذا اس وقت کے متعلق آپ کیا کہیں گے جس میں تمام رسولوں کے سردار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادت ہوئی۔ اللہ پاک نے اپنے محبوب کی ولادت کے دن یعنی پیر کو وہ عبادات نہ رکھیں جو جمعہ کے دن رکھیں کہ جس میں حضرت آدم پیدا ہوئے ، جس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے حضور کے احترام و اکرام کے طور پر آپ کے وجود مسعود کی وجہ سے پیر کے دن آپ کی امت پر تخفیف رکھی، چونکہ آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا لہٰذا اس رحمت میں سے ایک بات یہ ہے کہ آپ کی ولادت کے دن کسی خاص عبادت کا مکلف نہیں بنایا۔(2)

حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے کہ حضور پیر کے دن پیدا ہوئے۔ پیر کو ہی آپ نے اعلانِ نبوت فرمایا، پیر کے دن آپ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی اور پیر کے دن ہی مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے، نیز حجر اسود کو بھی پیر کے دن نصب فرمایا۔ اسی دن فتح مکہ کا واقعہ ہوا اور سورہ مائدہ کا نزول بھی اسی دن ہوا۔(3)

یہ بھی مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادت پیر کے دن فجر کے وقت ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں: مر الظہران کے مقام پر ایک شامی راہب کہا کرتا تھا: اے اہل مکہ! عنقریب تم میں ایک بچہ پیدا ہو گا، اہل عرب اس کے دین کو اختیار کریں گے اور وہ عجم کا بھی مالک ہو گا۔ یہ اس (بچے کی پیدائش) کا زمانہ ہے۔ چنانچہ جب بھی مکہ مکرمہ میں کوئی بچہ پیدا ہوتا اس کے متعلق پوچھتا۔ پھر جب حضور کی ولادت ہوئی تو حضرت عبد المطلب اسی صبح راہب کے پاس گئے تو وہ آپ سے کہنے لگا: (اے عبدالمطلب!) اس بچے کے باپ بن جائیے! یقیناً وہ بچہ جس کے متعلق میں آپ سے بیان کرتا ہوں وہ پیر کے دن پیدا ہو گا، اسی دن اعلانِ نبوت کرے گا اور اس کا وصال بھی اسی دن ہو گا۔ اس پر حضرت عبد المطلب نے جب اسے یہ بتایا کہ آج پیر کے دن ہمارے ہاں بھی بچہ پیدا ہوا ہے تو اس نے پوچھا: آپ نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ جب بتایا کہ اس کا نام محمد رکھا ہے تو بولا: اللہ کی قسم! میں جانتا تھا کہ وہ بچہ آپ کے ہی گھرانے میں پیدا ہو گا، اس کی پہچان کی تین خصوصیات پائی جا رہی ہیں: (1) اس کا ستارہ گزشتہ رات طلوع ہوا (2) وہ آج کے دن پیدا ہوا اور (3)اس کا نام محمد ہے۔(4)

شب قدر افضل ہے یا شب میلاد؟ بلاشبہ حضور کی ولادت کی رات شب قدر سے افضل ہے اور اس کی تین وجوہ ہیں: (1) شبِ میلاد حضور کے ظہور کی رات ہے جبکہ شب قدر حضور کو عطا کی گئی اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ جس شے کو کسی کی وجہ سے شرف حاصل ہو وہ اس ذات سے زیادہ شرف والی نہیں ہو سکتی، لہٰذا اس اعتبار سے میلاد شریف کی رات افضل ہے۔ (2) شب قدر میں فرشتے اترتے ہیں جبکہ شب میلاد میں وہ ہستی جلوہ گر ہوئی جو فرشتوں سے بھی افضل ہے۔ یہی زیادہ پسندیدہ قول ہے۔(3)شب قدر میں صرف امت محمدیہ پر فضل خداوندی ہوتا ہے جبکہ شبِ میلاد تمام موجودات پر فضل ہوا کہ اللہ پاک نے حضور کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا، اس طرح تمام مخلوق کو نعمت حاصل ہوئی۔ لہٰذا اس رات کا نفع عام ہوا اور یہ رات افضل قرار پائی۔(5)

شب ولادت کے واقعات

ستاروں کا جھکنا:حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہُ عنہ کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ میں حضور کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ ماجدہ بی بی آمنہ کے پاس موجود تھی۔ میں دیکھ رہی تھی کہ ستارے جھکنے لگے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ مجھ پر آ گریں گے، جب حضور پیدا ہوئے تو حضرت آمنہ سے ایسا نور نکلا جس نے در و دیوار کو جگمگا دیا اور مجھے ہر طرف نور ہی نور نظر آنے لگا۔(6)جبکہ شواہد النبوۃ میں ہے کہ حضرت عثمان کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ حضور کے نور کے سامنے چراغ کی روشنی بھی ماند تھی، میں نے اس رات 6 نشانیاں دیکھیں: (1)جب حضور پیدا ہوئے تو آپ نے پیدا ہوتے ہی سب سے پہلے سجدہ کیا۔ (2)جب حضور نے اپنا سرِ مبارک سجدہ سے اٹھایا تو نہایت فصاحت کے ساتھ فرمایا:لا الہ الا اللہ انی رسول اللہ۔(3)حضور کی پیدائش پر تمام گھر روشن ہو گیا۔ (4)حضور پیدا ہوئے تو میں نے آپ کو نہلانا چاہا لیکن ہاتف غیبی سے آواز آئی: اپنے آپ کو تکلیف میں نہ ڈالئے ہم نے آپ کو پاک و صاف پیدا کیا ہے۔ (5)پھر جب میں نے معلوم کرنا چاہا کہ لڑکی ہے یا لڑکا تو میں نے آپ کو ختنہ شدہ اور ناف کٹی ہوئی دیکھی۔(6)پھر جب میں نے خیال کیا کہ آپ کو کسی کپڑے میں لپیٹوں تو میں نے آپ کی پشت پر مہرِ نبوت دیکھی اور آپ کے کندھے کے درمیان لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا۔(7)


(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)



[1] رسائل میلاد مصطفیٰ، مولد العروس اردو، ص 225 2 مواہب اللدنیہ ، 1/ 75 3 مواہب اللدنیہ ، 1/ 75 4 مواہب اللدنیہ ، 1/ 76 5 مواہب اللدنیہ ، 1/ 77 6دلائل النبوۃ لابی نعیم، ص 76، حدیث: 76 7 شواہد النبوۃ مترجم، ص 70