یقیناًآزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اللہ پاک نے بھی نعمت ملنے پر خوشی منانے کا حکم دیا ہے، لہٰذا 14 اگست 1947ء بمطابق 27 رمضان المبارک 1366ہجری کے جس مبارک دن ہمارا پیارا وطن پاکستان آزاد ہوا ہمیں اِس دن خوشیاں مناتے ہوئے اس بات کا بھی احساس رہنا چاہئے کہ جس مالکِ حقیقی نے ہمیں اس عظیم الشان نعمت سے نوازا ہے اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہوئے اس کا شکر بھی بجا لایا جائے۔ مگر افسوس! ہمیں اسلامی تعلیمات یاد ہیں نہ قیامِ پاکستان کے مقاصد۔ حالانکہ یہ ملک مذہب کے نام پر بنا اور ایک آزاد ملک کی فضاؤں میں سانس لینے کی آرزو میں ہزاروں لاکھوں مسلمانوں نے مال و جان وغیرہ کی قربانیاں دیں، مگر افسوس! ہمیں کچھ بھی یاد نہیں۔

بحیثیت قوم ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس دن ہم اپنے محسنوں کو یاد کر کے کم از کم انہیں خراجِ عقیدت ہی پیش کر دیتے مگر افسوس! ہماری حالت یہ ہے کہ 13 اگست کو سرشام ہی یہ انتظار کرنے لگتے ہیں کہ کب رات کے 12 بجیں اور جشنِ آزادی کے نام پر کان پھاڑ دینے والے جدید ترین ساؤنڈ سسٹم کے ذریعے بے ہنگم موسیقی بجانے، ہوائی فائرنگ و آتش بازی کرنے اور بم پٹاخے پھوڑنے جیسی خرافات کا سلسلہ شروع ہو۔ حالانکہ ان خرافات کے سبب نزدیک رہنے والے مریضوں، بوڑھوں اور گھریلو خواتین کو رات بھر سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، چھوٹے بچے خوف سے کانپ جاتے ہیں، شیر خوار بچے ہڑ بڑا کر اُٹھ جاتے اور رو رو کر بُرا حال کر لیتے ہیں۔

پھر اسی پر بس نہیں ہوتی بلکہ سڑکوں پر ہلڑ بازی کی جاتی ہے، موٹر سائیکل یا کار کے سائلنسر نکال دئیے جاتے ہیں جن سے نکلنے والی مکروہ آواز سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، تفریحی مقامات پر رش بڑھ جاتا ہے جہاں مردوں اور عورتوں کے بدن آپس میں ٹکرا رہے ہوتے ہیں، بد نگاہیاں اور بے حیائیاں اپنے عروج پر ہوتی ہیں، اجنبی لڑکے لڑکیوں میں میل ملاپ اور تحفے تحائف کا لین دین کا سلسلہ ہوتا ہے، اپنے تئیں جدید تہذیب کی کئی خواتین تنگ اور نیم عریاں لباس پہن کر مردوں کے شانہ بشانہ اس گناہ میں خود بھی شریک ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے واقعات بھی رونما ہو جاتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ سال جشنِ آزادی کے موقع پر مینارِ پاکستان پر ایسا ہی ایک نہایت دلخراش واقعہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ وائرل بھی ہوا تھا۔ اس واقعے سے پوری دنیا میں جہاں ہمارے پاک وطن کی جگ ہنسائی ہوئی وہیں ہمارے اسلاف کی ارواح کو بھی تکلیف ہوئی ہو گی کہ جس وطن کی خاطر انہوں نے قربانیاں دی تھیں آج اسی وطن کی بہو بیٹیاں یوں سر عام لوگوں کو دعوتِ نظارہ دیتی پھر رہی ہیں۔ ان اشعار میں شاید آج ہی کے معاشرے کی عکاسی کی گئی ہے:

ہر کوئی مست مئے ذوقِ تنِ آسانی ہے

تم مسلماں ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے

حیدری فقر ہے،نے دولتِ عثمانی ہے

تم کو کیا اسلاف سے نسبت روحانی ہے

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر

جشن آزادی کی خوشی میں کیا کرنا چاہئے؟٭اس دن اللہ پاک کے حضور سجدہ ریز ہوا جائے اور اس کا شکر بجا لایا جائے کہ اس نے ہمیں غلامی سے نجات اور آزادی کی نعمت عطا فرمائی ٭تحریکِ آزادی میں شامل علمائے اہلِ سنت اور شہدائے کرام کے ایصالِ ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کا اہتمام کیا جائے ٭ شکرانے کے نفل ادا کئے جائیں ٭صدقہ و خیرات کیا جائے ٭قرآن خوانی کا اہتمام کیا جائے ٭محارم رشتے داروں، سہیلیوں اور پڑوسنوں کو مبارک باد اور تحائف پیش کئے جائیں ٭قیامِ پاکستان کے مقاصد کو اجاگر کیا جائے ٭اپنے گھر، مدرسے اور جامعہ پر سبز ہلالی پرچم لہرایا جائے اور دوسرے دن اتار لیا جائے تاکہ اس کا تقدس برقرار رہے ٭ملکِ پاکستان کی بقا و خوش حالی کے لئے خصوصی دعائیں کی جائیں Pوطن کی حفاظت کے لئے اپنے تن، من، دھن کی قربانی دینے کے جذبے کا اظہار کیا جائےPصرف ایسی نظمیں پڑھی اور سنی جائیں جو موسیقی اور غیر شرعی الفاظ سے پاک ہوں ٭اس دن ہونے والی خرافات سے خود بھی بچا جائے اور اپنی اولاد کو بھی بچایا جائے٭ٹی وی اور سوشل میڈیا جشنِ آزادی کی خرافات کو پھیلانے کا بھی ذریعہ ہے اور بچنے کا بھی، لہٰذا جشنِ آزادی کی خرافات سے بچنے کیلئے اس دن صرف اور صرف مدنی چینل ہی دیکھئے٭دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ www.dawateislami.net کا وزٹ کیجئے یا سوشل میڈیا پر بنے دعوتِ اسلامی کے مختلف آفیشل یوٹیوب چینلز اور معلوماتی پیجز کا وزٹ کیجئے۔

یاد رکھئے! معاشرتی برائیوں کو روکنا جس طرح مردوں پر لازم ہے اسی طرح خواتین پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے اپنے منصب و حیثیت کے مطابق معاشرے میں رائج برائیوں کا خاتمہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ جس طرح پاکستان بنانے میں خواتین نے بھر پور کردار ادا کیا تھا اسی طرح پاکستان بچانے میں بھی خواتین کو کردار ادا کرنا ہو گا۔

اپنے بچوں کی اچھی تربیت کر کے تقریباتِ جشنِ آزادی کی خرافات کی روک تھام کے لئے خواتین اہم کردار ادا کر سکتی ہیں، لہٰذا خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کی اس حسین انداز میں تربیت کریں کہ آگے چل کر وہ دیگر معاشرتی برائیوں سمیت جشنِ آزادی پر ہونے والی خرافات سے دور رہے۔ اس ضمن میں چند معاون گزارشات پیشِ خدمت ہیں:

(1)بچپن سے ہی اپنے بچوں کی تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق کیجئے تا کہ بڑے ہوں تو یہ اسلام کے شیدائی بن کر معاشرتی برائیوں کا سد ِّباب کر سکیں۔

(2)بچوں کو اپنے اسلاف کی قربانیوں کے بارے میں بتائیے تاکہ ان میں ملک کی خدمت کرنے کا جذبہ صحیح معنوں میں پیدا ہو سکے۔

(3)گھر میں دینی ماحول بنائیے، کیونکہ جب گھر کا ماحول دینی ہو گا تو ہمارا معاشرہ بہتری کی جانب گامزن ہو سکتا ہے، اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ روزانہ گھر میں کم سے کم ایک گھنٹہ 20منٹ مدنی چینل چلائیے تا کہ آپ کے بچوں کا رحجان دین کی طرف بڑھے۔

(4)بچوں کو قیامِ پاکستان کا اصل مقصد بتائیے۔

(5)بچیوں کو پردہ کرنے کی ترغیب دینے سے پہلے خود پر پردہ نافذ کیجئے، کیونکہ بچے اپنے بڑوں کو جو کرتا دیکھتے ہیں وہ بھی ویسا ہی کرتے ہیں۔

(6)اپنے بچوں کو ایسی چیزیں خرید کر ہی نہ دیجئے جن سے جشنِ آزادی میں ہونے والی خرافات جنم لیں مثلاً باجے وغیرہ۔

(7)بچوں کو ایسے کاموں کی بھی ہر گز اجازت مت دیجئے جن سے دوسروں کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ جیسے موٹر سائیکل سے سائلنسر نکالنا۔

اللہ پاک ہمارے حالوں پر رحم فرمائے، ہمیں اپنے وطن کی قدر کرنے کی توفیق عطا کرے اور ہمارے وطن کو صبحِ قیامت تک سلامت رکھے اور اسے اسلام کا قلعہ بنائے۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)