اکثر والدین کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ بہت ضدی ہو گیا ہے،  بات نہیں مانتا، بد تمیزی کرتا ہے، اپنی من مانی کرتا ہے وغیرہ۔ یاد رہے! بچے کا ضدی ہونا کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کا حل ممکن نہ ہو۔ کیونکہ یہ کوئی پیدائشی بیماری نہیں کہ بچے پیدا ہوتے ہی ضدی ہوں، بلکہ ان کے ضدی ہونے کی کئی وجوہات ہیں۔ بچوں کی تربیت چونکہ کسی مہارت سے کم نہیں لہٰذا والدین پر لازم ہے کہ ان تمام عوامل پر گہری نظر رکھیں جو بچے کو ضدی بناتے ہیں۔ چنانچہ والدین کی خیر خواہی کی نیت سے ذیل میں ایسی ہی چند باتوں کا ذکر جا رہا ہے، امید ہے انہیں پیش نظر رکھنے سے وہ بچوں کے ضدی ہونے کی وجوہات کے علاوہ ان کے حل بھی جان لیں گے۔

بچے کے غصے میں ہونے کی علامات

بچے عموماً غصے کی حالت میں ضد کرتے ہیں، لہٰذا سب سے پہلے وہ علامات جاننا ضروری ہیں جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ بچہ اس وقت غصے میں ہے۔ چنانچہ جب بچہ غصے کی حالت میں ہو تو ٭اکثر بلند آواز سے روتا ہے تا کہ اس کی طرف توجہ دی جائے ٭پیروں کو زمین پر مارتا ہے ٭سر اور ہاتھوں کو دیوار پر مارتا ہے ٭آس پاس کی چیزوں کو لاتیں مارتا ہے ٭بڑوں سے بد تمیزی کرتا ہے٭بغیر کسی وجہ کے دانتوں سے کاٹنے لگتا ہے ٭کھلونے وغیرہ توڑنے لگتا ہے ٭ہاتھ میں جو بھی چیز آئے اٹھا کر پھینک دیتا ہے۔

ضدی پن کے اسباب و وجوہات اور ان کا علاج

بے جا روک ٹوک: بچوں کو ہر وقت کسی نہ کسی کام یا بات سے روکتے رہنا انہیں ضدی و ڈھیٹ بنا دیتا ہے۔

علاج: بچوں کو ہر وقت ٹوکنے و منع کرنے کے بجائے انہیں جس کام سے منع کر رہے ہیں اس کے نقصان دہ ہونے کے متعلق سمجھائیں۔ مثلاً بچہ بار بار گرم برتن کو چھونے کی کوشش کرے تو اسے بار بار نہ ٹوکیں، بلکہ یہ سمجھائیں اور احساس دلائیں کہ گرم چیزوں کو چھونا کس قدر نقصان دہ ہے! آپ کا یہ احساس بیدار کرنا اسے ہمیشہ کے لئے ہر گرم شے کو چھوتے ہوئے احتیاط کا دامن تھامنا سکھا دے گا۔ ان شاء اللہ

بے جا تفتیش: بچے جب بھی کوئی کام کریں تو ان کی پوچھ گچھ شروع کر دی جائے کہ انہوں نے یہ کام کیوں کیا! یا انہیں ڈانٹا ڈپٹا جائے تو بسا اوقات ان میں ضد کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔

علاج: بچوں کو ہر وقت بے جا تفتیش کے کٹہرے میں کھڑا رکھیں نہ ان سے سختی سے پیش آئیں کہ بلا وجہ سختی برداشت کرنے والے بچے بڑے ہو کر احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں، ان میں خود اعتمادی نہیں رہتی اور انہیں ہر وقت یہی خوف رہتا ہے کہ وہ کچھ غلط کر رہے ہیں۔ چنانچہ اگر ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو نرمی سے اس غلطی کا ازالہ کریں اور اپنے اور بچوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم کرنے کوشش کریں تاکہ وہ اپنی ہر بات آپ کے ساتھ شئیر کر سکیں۔

بے جا لاڈ پیارخواہشات کی تکمیل: اکثر والدین بچوں سے بے جا لاڈ پیار کرتے ہیں اور بچہ بھی فطری طور پر والدین کے ساتھ اٹیچ ہوتا ہے، مگر جب وہ کسی موقع پر اس وہم کا شکار ہو جائے کہ اس کے والدین کی توجہ کا مرکز کوئی اور ہے یعنی وہ کسی اور بچے سے لاڈ پیار کریں تو یہ برداشت نہیں کر پاتا اور لاشعوری طور پر ضد کرنے لگتا ہے۔اسی طرح بچوں کی ہر خواہش پوری کرنے والے والدین اگر کبھی کوئی خواہش پوری نہ کر پائیں یعنی بچے ایسی خواہش کا اظہار کر دیں جو بر وقت پوری نہ ہو سکتی ہو یا ان کے لئے نقصان دہ ہو تو وہ یوں بھی ضدی ہونے لگتے ہیں۔ مثلاً ایک حکایت میں ہے کہ ایک بادشاہ کے یہاں بیٹا نہیں تھا۔ اس نے اپنے وزیر سے کہا: بھئی کبھی اپنے بیٹے کولے آنا۔ اگلے دن وزیر اپنے بیٹے کو لے کر آیا، بادشاہ نے اسے دیکھا اور پیار کرنے لگا، پھر بادشاہ نے کہا: اچھا بچے کو آج کے بعد رونے مت دینا۔ اس نے عرض کی: بادشاہ سلامت! اس کی ہر بات کیسے پوری کی جائے؟ بادشاہ نے کہا: اس میں کون سی بات ہے؟ میں سب کو کہہ دیتا ہوں کہ بچے کو جس چیز کی ضرورت ہو اسے پورا کر دیا جائے اور اسے رونے نہ دیا جائے۔ وزیر نے کہا: ٹھیک ہے۔ پھر بچے کی خواہش پر ایک ہاتھی لایا گیا، جس سے وہ تھوڑی دیر کھیلتا رہا لیکن بعد میں رونا شروع کر دیا، بادشاہ نے پوچھا: اب کیوں رو رہے ہو؟ اس نے سوئی کے ساتھ کھیلنے کی خواہش ظاہر کی، سوئی پیش کر دی گئی، مگر تھوڑی دیر کے بعد اس نے پھر رونا شروع کر دیا، بادشاہ نے کہا: ارے! اب کیوں رو رہا ہے؟ تو وہ کہنے لگا: جی! اس ہاتھی کو سوئی کے سوراخ میں سے گزار دیں۔

علاج: والدین اگرچہ بچوں سے حد درجہ مخلص ہوتے ہیں، مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس انمول رشتے کو مزید با اعتماد بنانے کے لیے بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کیا جائے، فی زمانہ سوشل میڈیا کی زبان میں یہ رویہ فرینڈلی ہو فرینکلی نہ ہو یعنی رویہ دوستانہ ہو مگر اس میں بے تکلفی نہ ہو۔ چنانچہ بچے کی ہر جائز خواہش اور مطالبہ ضرور پورا کریں۔ لیکن اگر بچہ کسی کوئی نقصان دہ چیز مانگے یا وہ مہنگی ہو یا اس کے لیے موزوں نہ ہو تو بچے کو اس شے کے متبادل پر راضی کرنے کی کوشش کریں، اس سے بچے کی ضد ختم کرنے میں بہت مدد ملے گی۔

باہمی موازنہ کرنا یا یکساں سلوک کا نہ ہونا:بچے کا اپنے بہن بھائی یا دوسرے بچوں سے موازنہ کرتے رہنا یا بچوں میں یکساں سلوک نہ رکھنا اور ان میں سے بعض کو بعض پر ترجیح دینا بھی ان کو ضدی بنا دیتا ہے۔

علاج:جو بچے یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے انصاف نہیں کیا جا رہا وہ احساسِ کمتری کا شکار ہو کر اندر ہی اندر ہی کڑھتے رہتے ہیں یا پھر احتجاج کا راستہ اپناتے ہوئے غصے کا اظہار کرنے لگتے ہیں، چنانچہ والدین کو چاہئے کہ ان امور کا خیال رکھیں اور بچوں کو کبھی بھی احساسِ کمتری کا شکار نہ ہونے دیں۔

بچے دوسروں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں: بسا اوقات گھر میں کوئی ایسا فرد بھی ہوتا ہے کہ جس کے رویہ کا بچے پہ اثر پڑتا ہے جیسے کوئی غصے کا تیز ہے یا پھر ضدی ہے تو اس کے دیکھا دیکھی بچہ بھی اس رویہ کو اپنا لیتا ہے۔

علاج:ماحول کا بچے پہ گہرا اثر پڑتا ہے، ایک اچھا ماحول ہی بچے کی مثالی تربیت میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

محسوسات کا اظہار نہ کر پانا: بسا اوقات بچوں کو ایسے معاملات کا سامنا ہوتا ہے جن کا وہ مناسب انداز میں اظہار نہیں کر پاتے تو ان میں چڑ چڑا پن اور ضد کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، مثلاً نیند آنا، بھوک محسوس کرنا یا سردی و گرمی لگنا وغیرہ۔ گرمی کی وجہ سے بچوں میں یہ کیفیت اکثر دیکھی گئی ہے۔

علاج:3بچے کو اٹھا کر سینے سے لگا لیں اور یونہی کچھ دیر مضبوطی سے تھامے رکھیں یا پھر اس سے بات چیت کریں۔ مگر اس حالت میں بچے کو بالکل نظر انداز نہ کریں۔ 3اس حالت میں بچے کی تعریف کریں، اس کی اچھائیاں بیان کریں۔ 3ایسی حالت میں بچے کا پہلے سکون سے جائزہ لیں اور اس کی ضد کی وجہ جاننے کی کوشش کریں مگر اس کے ساتھ کوئی سختی مت برتیں۔ 3 بچے کی بوریت دور کرنے کے لئے ہر وقت اس کا ایک آدھ پسندیدہ کھلونا اپنے پاس یا قریب ہی رکھیں۔


(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)