قرآن کریم وہ مقدس کتاب جو ربّ کریم نے اپنے پیارے محبوب صلّی اللہُ علیہ وسلّم پر نازل فرمائی، یہ وہ مقدس کتاب ہے، جو گزشتہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے، " یہ وہ مقدس کتاب ہے، جس کے ہر حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں، جیسے الم تو الف پڑھنے پر 10 نیکیاں، ل پڑھنے پر 10 نیکیاں، م پڑھنے پر 10 نیکیاں ملتی ہیں۔"

اس مبارک قرآن پاک کے کثیر نام ہیں، اور کہا جاتا ہے ناں کہ جس چیز کے زیادہ نام ہوں، وہ اس کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔

قرآن کریم کے کثیر نام ہیں، جس میں سے ان شاءاللہ میں 10 نام عرض کرتی ہوں، ساتھ ساتھ ان شاءاللہ الکریم میں ان ناموں کی وجہ تسمیہ(یعنی نام رکھنے کی وجہ) بھی بیان کرتی ہوں۔

1۔فرقان:

قرآن کریم کا ایک نام فرقان ہے، فرقان کے معنیٰ ہے حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا اور چونکہ قرآن کریم حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے، اسی لئے قرآن کریم کو فرقان بھی کہا جاتا ہے۔

2۔برہان:

قرآن کریم کا ایک نام برہان ہے، برہان کے معنیٰ ہے دلیل اور چونکہ قرآن کریم دلیل ہے، اسی لئے اسے برہان کا نام دیا گیا ہے، قرآن پاک ربّ تعالیٰ کے واحد ہونے پر دلیل، گزشتہ آسمانوں کی تصدیق پر دلیل، انبیائے کرام کی رسالت کی دلیل ہے۔

3۔حق:

قرآن کریم کا ایک نام حق ہے، حق کے معنیٰ ہیں سچا اور چونکہ قرآن پاک حق حق اور حق ہی ہے، بلکہ جو قرآن کریم کے حق ہونے پر شک کرے وہ کافر ہے، قرآن پاک اللہ کا کلام ہے اور کلام اللہ تو حق کے سوا ہو ہی نہیں سکتا۔

4۔عزیز:

قرآن کریم کا ایک نام عزیز ہے، عزیز کے معنیٰ ہے بے مثل اور عزیز کا ایک معنیٰ غالب بھی آتا ہے اور چونکہ قرآن کریم بے مثل ہے، بے مثل کتاب ہے اور چونکہ قرآن غالب بھی ہے، تمام آسمانی کتابوں پر اور ہمیشہ غالب ہی رہے گا۔

5۔عظیم:

قرآن کریم کا ایک نام عظیم ہے، عظیم کا معنیٰ ہے عظمت والا اور چونکہ قرآن کریم بہت عظمت والا ہے، اس لئے قرآن کریم کو عظیم کا نام دیا گیا ہے۔

6۔مبارک:

قرآن کریم کا ایک نام مبارک ہے، مبارک کے معنیٰ ہے برکت والا، چونکہ قرآن کریم وہ مقدس کتاب ہے جو برکت والی ہے، لہذا اسی وجہ سے قرآن کریم کا نام مبارک بھی ہے۔

7۔بشیر:

قرآن کریم کا ایک نام بشیر بھی ہے، بشیر کے معنیٰ ہے خوشخبری دینے والا، چونکہ قرآن کریم وہ مقدس کتاب ہے، جس میں مؤمنین کے لئے بشارتیں ہیں، اور قرآن کریم اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت بھی کرے گا، تو یہ مؤمنین کے لئے اس طرح بھی خوشخبری دینے والا ہوا، اس وجہ قرآن کریم کو بشیر کا نام بھی دیا گیا ہے۔

8۔نذیر:

قرآن کریم کا ایک نام نذیر بھی ہے، نذیر کا معنیٰ ہے ڈرانے والا چونکہ قرآن کریم میں کافروں کے لئے وعیدیں ہیں اور نافرمان لوگوں کے لئے سزائیں بھی موجود ہیں اور قرآن کریم ان لوگوں کے خلاف حجت بھی ہوگا، اس وجہ سے قرآن کریم کو نذیر کا نام بھی دیا گیا ہے۔

9۔مبین:

قرآن کریم کا ایک نام مبین بھی ہے، مبین کا معنیٰ ہیں ظاہر کرنے والا، کھلا ہوا ہونا، چونکہ قرآن کریم شرعی احکام، عقائد، توحید و رسالت وغیرہ تمام باتوں کو ظاہر کرنے والا ہے، اس وجہ سے قرآن کریم کو مبین بھی کہتے ہیں۔

10۔قصص:

قرآن کریم کو قصص کا نام بھی دیا گیا ہے، قصص کے معنیٰ ہیں قصّے، کہانیاں، چونکہ قرآن کریم میں گزشتہ قوموں کے واقعات ہیں، قصے ہیں، اس وجہ سے اسے یعنی قرآن پاک کو قصص بھی کہتے ہیں۔

پیاری پیاری اسلامی بہنو! قرآن کریم کے اور بھی بہت سے نام ہیں، لیکن اختصار کے پیش نظر یہاں کچھ اسماء ہی بیان کئے ہیں، پیاری پیاری اسلامی بہنو! قرآن کریم کے بہت فضائل ہیں، قرآن کریم بہت عظمت والی کتاب ہے، ہمیں چاہئے کہ کثرت سے اس مقدس کتاب کی تلاوت کرکے اس کو سمجھنے کے لئے تفسیر پڑھ کر اپنے قلب کو منور کریں۔

یہی ہے آرزو تعلیمِ قرآن عام ہوجائے

تلاوت کرنا صبح و شام میرا کام ہوجائے


قرآن کریم اللہ پاک کی آخری کتاب ہے، جو سب سے آخری نبی محمد مصطفی صلّی اللہُ علیہ وسلّم پر نازل ہوئی، جسے انسانوں کی ہدایت کیلئے نازل کیا گیا، چنانچہ ارشادِ ربّ مجید ہے:

انا نحن نزلنا علیک القرآن تنزیلا۔

ترجمہ کنزالایمان:"بیشک ہم نے تم پر قران بتدریج اتارا۔" (پ 29، الدھر :23)

یہ کتاب دورِ رسالت سے لے کر قیامت تک آنے والے انسانوں کیلئے دلیل و برہان اور نورِ ہدایت ہے، اس کے بکثرت نام ہیں، جو اس کتاب کے مقام و مرتبہ، عزت و عظمت کی دلیل ہیں، ان میں سے 20 نام درج ذیل ہیں:

1۔القرآن:

قرآن پاک کا ایک مشہور و معروف نام قرآن ہے، قرآن کے لغوی معنی ہیں، سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب، حضرت سیدنا امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قرآن کو قرآن اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں سورتیں، آیات و حروف بعض بعض سے ملے ہوئے ہیں۔ (التفسیر الکبیر، پ 2، سورہ بقرہ تحت الآیۃ 185، الجزء الخامس253/2، کتاب اللہ کی باتیں، ص3)

2۔الکتاب:

حضرت سیّدنا امام جلال الدین عبدالرحمن سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"قرآن کو اس لئے کتاب کہا جاتا ہے کہ اس میں تمام علوم کی اقسام، قصص اور خبریں بہت بلیغ طریقے کے ساتھ جمع ہیں اور کتاب کا لغوی معنی بھی جمع کرنا ہے۔ (الاتقان فی علوم القرآن النوع السابع عشر فی معرفۃ اسمائہ و اسماء سورہ الجز الثانی، ص 339،کتاب اللہ کی باتیں، ص 3/4)

3۔ النجوم:

قرآن پاک کا ایک نام النجوم ہے، حکیم الامت مفتی احمد یار خان فرماتے ہیں:"نجوم نجم سے بنا ہے، اس کے معنی تارے کے بھی ہیں اور حصہ کے بھی، چونکہ قرآن پاک کی آیتیں تاروں کی طرح لوگوں کی ہدایت کرتی ہیں اور علیحدہ علیحدہ آئیں، اس لئے ان کا نام نجم ہوا ۔" (تفسیر نعیمی، پ1، البقرہ تحت الآیۃ2، 117/1)

4۔النور:

حضرت علامہ محمد اسمعٰیل حقی فرماتے ہیں:"قرآن کو نور کا نام اس لئے دیا گیا کہ یہ دلوں میں ایمان کے نور داخل ہونے کا سبب ہے۔" (تفسیر روح البیان، سورۃ النساء، تحت الآیۃ174، 339/2)

5۔ الروح:

مفتی احمد یار خان فرماتے ہیں:"روح حضرت جبرئیل علیہ السّلام کی معرفت آتی ہے اور یہ جانوں کی زندگی ہے، اسلئے اس کو رُوح کہتے ہیں۔" (تفسیر نعیمی، پ1، البقرہ تحت الآیۃ2، 116/1)

6۔الفرقان:

حضرت سیدنا امام ابو عبداللہ محمد بن احمد قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"قرآن کو فرقان کہنے کی یہ وجہ ہے کہ یہ حق و باطل ،مؤمن اور کافر کے درمیان فرق کرتا ہے ۔ (تفسیر القرطبی، الفرقان، تحت الآیۃ الجز للثالث عشر 3/7)

7۔تنزیل:

حضرت سیدنا علامہ محمد بن عبداللہ زرکشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"قرآن کریم کو تنزیل کا نام اس لئے دیا جاتا ہے کہ اللہ پاک کی طرف سے حضرت جبرئیل علیہ السّلام کی زبان پر نازل کیا۔" (البرھان فی علوم القرآن النوع الخامس عشر معرفتہ اسماء و اشتقاتھا، تفسیر ھذہ الاسامی،281/1)

8۔الکریم:

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان فرماتے ہیں:"کریم کے معنی سخی کے ہیں، چونکہ قرآن کریم علم، خدا کی رحمت اور ایمان اور بے حساب ثواب دیتا ہے، اس لئے اس سے بڑھ کر سخی کون ہو سکتا ہے، اس لئے اس کا نام کریم ہے۔" (تفسیر نعیمی، پ 1،البقرہ، تحت الآیۃ:2، 117/1)

9۔العلم:

قرآن کریم کا ایک نام علم ہے، حضرت ابو حفص سراج الدین عمر بن علی رشقی حنبلی فرماتے ہیں:"قرآن کریم کو علم کا نام دیا جاتا ہے کہ یہ علم حاصل کرنے کا سبب ہے۔" (الباب فی علوم الکتاب یونس تحت الآیۃ93، 409/10)

10۔المجید:

علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"قرآن کو اسکی عزت و عظمت کی وجہ سے مجید کہا جاتا ہے۔" (الاتقان فی علوم القرآن النوع السابع عشر فی معرفہ اسمائہ و اسماء سورۃ الجز الثانی، ص 343)

1۔ صحف:

قرآن پاک کا ایک نام صحف ہے، سورتوں کی کثرت کی وجہ سے قرآن پاک کو صحف کا نام دیا گیا۔ (تفسیر بحر العلوم البینہ تحت الآیۃ:2، 499/2)

1۔ العربی:

سیدنا امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں:"قرآن پاک کو عربی اسلئے کہا جاتا ہے، اس کے الفاظ اپنے ناموں اور اصطلاحات کے ساتھ عرب کے وضع پر خاص ہیں۔" (تفسیر الکبیر الز خرف، تحت الآیۃ الجز الرابع والعشرون 617/9)

13۔النبا:

علامہ مجد الدین یعقوب فیروز آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"قرآن مجید کو النبا اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں تم سے پہلے اور بعد والوں کی خبریں ہیں۔" (بعاصئر ذوی التمییز الباب الاول الفصل رابع فی ذکر اسماء القرآن 96/1)

14۔المرشد:

علامہ مجدد الدین فرماتے ہیں:"قرآن کو المرشد اسلئے کہا جاتا ہے کہ جو اس پر عمل کرتا ہے، وہ ہدایت پاتا ہے۔" (بصائر زوی التصییز الباب الاول الفصل الرابع فی ذکر اسماء القران 95/1)

15۔الرافع:

علامہ مجد الدین فرماتے ہیں:"قرآن پاک کو الرافع اس لئے کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے سے آخرت کی مصیبتیں دفع (یعنی دور ) کر دی جاتی ہیں۔" (بصائر ذوی التصییز الباب الاول الفصل الرابع فی ذکر اسماء القرآن 96/1)کتاب اللہ کی باتیں

16۔ المبین:

حضرت سیدنا محمد بن عبد اللہ زرکشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"قرآن کو مبین اس لئے کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ حق و باطل کے درمیان فرق کرتاہے ۔" (البرھان فی علوم القرآن النوع الخامس عشر معرفتہ اسمائہ و اشتفاقاتھا تفسیر ھذا الاسامی 279/1)کتاب اللہ کی باتیں

17۔ العظیم:

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان فرماتے ہیں:"العظیم کے معنی ہے بڑا، چونکہ یہ سب سے بڑی کتاب ہے، اس لئے اسے العظیم فرمایا گیا۔" (تفسیر نعیمی، پ1،البقرہ تحت الآیۃ 118/1) کتاب اللہ کی باتیں

18۔بشیر و نذیر:

حضرت سیدنا فخر الدین رازی فرماتے ہیں:"قرآن پاک اطاعت کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری سناتا ہے اور نافرمانی کرنے والوں کو آگ سے ڈراتا ہے، اس لئے اس کا نام بشیر و نذیر رکھا گیا۔" (تفسیر الکبیر البقرہ، تحت الآیۃ، الجز الثانی، 263/1)

19۔الفصل:

امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں:"قرآن کو الفصل اس لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ پاک اس سے لوگوں کے درمیان حق کے فیصلے فرماتا ہے۔" (تفسیر الکبیر البقرہ، تحت الآیۃ 2، الجز الثانی 262/1)

20۔القصص:

علامہ محمد بن عبداللہ زرکشی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اس میں پہلی امتوں کے واقعات اور خبریں ہیں، اس لئے اسے القصص کہا گیا۔" (البرھان فی علوم القرآن النوع الخامس عشر معرفۃ اسمائہ و اشفاقاتھا تفسیر ھذا الاسامی، 280/1، کتاب اللہ کی باتیں، مجلس المدینہ العلمیہ دعوت اسلامی)

قرآن پاک بہت عظیم المرتبت، شان و شوکت اور عظمت و شرافت والی کتاب ہے ، یہ وہ مبارک کتاب ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے۔

اللہ پاک ہمیں بھی قرآن پاک پڑھنے،سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین

یہی ہے آرزو تعلیمِ قرآں عام ہو جائے

ہر ایک پرچم سے اونچاپرچمِ اسلام ہو جائے

علم دین  حاصل کرنا اللہ پاک کی رضا کا سبب،بخشش و نجات کا ذریعہ اور جنت میں داخلے کا سبب ہے علم دین کی روشنی سے جہالت کے اندھیرے دور ہوتے ہیں اسی سے دنیا و آخرت میں کامیابی نصیب ہوتی ہے

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہىں : علم مدارِ کار اور قطبِ دىن ہے (یعنی علم دین ودنیا میں کامیابی کی بنیاد ہے) ( احیاء علوم الدین، کتاب العلم، الباب الاول فی فضل العلم…الخ، 1/ 29)

صدرُالشریعہ،بدْرُالطَّریقہ حضرت علّامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اِرْشاد فرماتے ہیں:عِلْم ایسی چیز نہیں جس کی فضیلت اور خوبیوں کے بیان کرنے کی حاجت ہو،ساری دنیاہی جانتی ہے کہ عِلْم بہت بہتر چیز ہے،اس کا حاصل کرنا بلندی کی علامت ہے۔یہی وہ چیزہے جس سے انسانی زندگی کامیاب اور خوشگوار ہوتی ہے اور اسی سے دنیا وآخرت بہترہوجاتی ہے۔ (اس عِلْم سے) وہ عِلْم مُراد ہے جو قرآن و حدیث سے حاصل ہو کہ یہی وہ عِلْم ہے جس سے دنیا و آخرت دونوں سَنْوَرتی ہیں،یہی عِلْم نجات کا ذریعہ ہے،اسی کی قرآن و حدیث میں تعریفیں آئی ہیں اور اسی کی تعلیم کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ (بہار شریعت ،3/618 ملخصاً)

اسلام دنیا كا وہ واحِد دین ہے جس کو یہ شَرَف حاصِل ہے کہ اس نے اپنے ہر ماننے والے کیلئے بقدر ضرورت عِلْم حاصِل کرنا فَرْض قرار دیا، یہی وجہ ہے کہ کائناتِ عالَم کے سب سے پہلے اِنسان حضرت سَیِّدُنا آدَم علیہ السّلامکو اَوّلاً اللہ پاک نے عِلْم کی بدولت ہی تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی۔چُنَانْچِہ اِرشَاد باری تعالی ہے:

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا 1، البقرة: 31)

ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ پاک نے آدم کو تمام اَشیا کے نام سکھائے۔

عُلَمائے کرام اَنبِیَائے کِرام علیہمُ السّلام کے وَارِث ہوتے ہیں جیسا کہ فرمانِ مصطفےٰ صلّی اللہُ علیہ و سلّم ہے: بے شک عُلَما ہی اَنبیاءکے وَارِث ہیں، اَنبِیَا علیہمُ السّلام دِرْہَم ودینار کاوارِث نہیں بناتے بلکہ وہ نُفُوسِ قدسیہ علیہمُ السّلام تو صِرف عِلْم کا وارِث بناتے ہیں، تو جس نے اسے حاصِل کرلیا اس نے بڑا حِصّہ پالیا۔[1]جبکہ عُلَما ءکے عِلْمِ نبوَّت کے وَارِث ہونے کی وَضَاحَت قرآنِ کریم میں یوں فرمائی گئی ہے:

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاۚ- 22، فاطر: 32)

ترجمۂ کنز الایمان: پھر ہم نے کِتاب کا وارِث کیااپنے چُنے ہوئے بندوں کو۔

مذکورہ آیات کریمہ سے علم کی اہمیت واضح طور پر معلوم ہورہی ہے دیگر آیات و کثیر احادیث مبارکہ میں بھی علم دین کے فضائل بیان ہوئے ہیں چنانچہ علم دین کے 6 حروف کی نسبت سے مُعَلِّمِ کائنات، فَخْرِ مَوجُودَات صلّی اللہُ علیہ و سلّم نے اِسْلَامی بہنوں کی تعلیم وتَرْبِیَت کے حوالے سے جو مُخْتَلِف مَوَاقِع پر فرامین اِرشَاد فرمائے، ان میں سے 6پیشِ خِدْمَت ہیں:

(1) …عورتوں کو چرخہ کاتنا سکھاؤ اور انہیں سورۂ نُور کی تعلیم دو۔

(2) …عِلْمِ دِین سیکھنے کی غَرَضْ سے آئے ہوئے صَحابۂ کِرام رضی اللہُ عنہم سے اِرشَاد فرمایا: جاؤ اپنے بیوی بچوں کو دِین کی باتیں سکھاؤ اور ان پر عَمَل کا حُکْم دو۔

(3) … اللہ پاک نے سورۂ بقرہ کو دو۲ ایسی آیات پر خَتْم فرمایا ہے جو مجھے اس کے عَرْشی خزانے سے عَطا ہوئی ہیں، لہٰذا انہیں خود سیکھو اور اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی سکھاؤ کہ یہ دونوں نَماز، قرآن اور دُعا (کا حِصّہ) ہیں۔

(4) …اپنی اولادکو تین۳ باتیں سکھاؤ (۱) اپنے نبی کی مَحبَّت (۲) اَہْلِ بیْت کی مَحبَّت اور (۳) قرأتِ قرآن۔

(5) …اپنی اولاد کے ساتھ نیک سُلُوک کرو اور انہیں آدابِ زِنْدَگی سکھاؤ۔

(6) …جس نے تین۳ بچیوں کی پروش کی، انہیں اَدَب سکھایا، ان کی شادی کی اور اَچھّا سُلُوک کیا اس کے لیے جنّت ہے۔ (احادیث کا حوالہ:صحابیات اور شوق علم دین)

مذکورہ احادیث مبارکہ سے خاص خواتین کے علم دین سیکھنے کی اہمیت معلوم ہوئی مزید خواتین کے لئے عالمہ کورس کی اہمیت کی چند وجوہات ملاحظہ فرمائیے۔

اصلاح نفس:

ہر مسلمان پر دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق اپنی اصلاح ضروری ہے اصلاح نفس کے لئےخوف خدا عزوجل بنیادی چیز ہے حضرت سَیِّدُنا ابوالحسن رضی اللہُ عنہ فرماتے تھے ، ‘‘

نیک بختی کی علامت بدبختی سے ڈرنا ہے کیونکہ خوف اللہ پاک اور بندے کے درمیان ایک لگام ہے، جب یہ لگام ٹوٹ جائے تو بندہ ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوجاتا ہے ۔ (احیاء العلوم ، کتاب الخوف والرجاء 4/199)

حضرت ابو سلیمان رضی اللہُ عنہ نے فرمایا:خوف خدا دنیا و آخرت کی ہر بھلائی کی اصل ہے (خوف خدا صفحہ نمبر18) علماء کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ پاک سے ڈرتے ہیں چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:

اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ 22، فاطر : 28)

ترجمہ کنزالایمان:اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں

مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:

اوروجہ اِس حصرکی(یعنی ڈرکو علماکے ساتھ خاص کرنے کی وجہ) ظاہر ہے کہ جب تک انسان خدا کے قہر (غضب) اور بےپرواہى(بےنیازی) اور احوالِ دوزخ اور اَہوالِ قىامت(قیامت کی ہولناکیوں) کو بتفصىل نہىں جانتا (اس وقت تک) حقىقت خوف وخشىت کى اُس کو حاصل نہىں ہوتی اور تفصىل ان چىزوں کى علماء کے سوا کسى کو معلوم نہىں۔ (فیضان علم و علماءصفحہ نمبر 10)

معلوم ہوا علم عمل کا رہنما ہے درست علم ہوگا تو خوف خدا بھی نصیب ہوگا اور خوف خدا کی برکت سے نیکیوں سے رغبت اور گناہوں سے بچنے کا ذہن بنے گا۔

نسل نو کی تعمیر:

یہ ایک مُسَلَّمَہ حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم یا مِلّت کو اس کی آئندہ نسلوں کی مذہبی و ثقافتی تَرْبِیَت کرنے اور اسے ایک مَخْصُوص قومی و مِلّی تَہْذِیب و تَمَدُّن اور کلچرسے بہرہ وَر کرنے میں اس قوم کی خواتین نے ہمیشہ بُنْیَادِی و اَساسی کِردار ادا کیا ہے۔کیونکہ ایک عورت ہر مُعَاشَرے میں بَطَورِ ماں،بہن،بیوی اور بیٹی کے زِنْدَگی گزارتی ہے اور اپنی ذات سے وَابَسْتہ اَفراد پر کسی نہ کسی طرح ضَرور اَثَر انداز ہوتی ہے، [5]لِہٰذا اِسْلَام نے عورتوں کی اس بُنْیَادِی اَہَمِیَّت کے پیشِ نَظَر اس کی ہر حَیْثِیَّت کے مُطابِق اس کے حُقُوق و فَرَائِض کا نہ صِرف تَعَیُّن کیا بلکہ اسے مُعَاشَرے کا ایک اَہَم اور مُفِید فرد بنانے کے لیے اس کی تعلیم و تَرْبِیَت پر بھی خُصُوصِی تَوَجُّہ دی تاکہ یہ اپنی ذِمَّہ داریوں سے کَمَا حَقُّہٗ عُہْدَہ بَرآ ہوں اور ان کی گود میں ایک صِحَّت مند نسل تیّار ہو۔

اصلاح معاشرہ:

اسلامی تعلیمات سے دوری کے سبب خواتین کے عقائد و اعمال اور اخلاق و کردار میں بھی شدید بگاڑ پیدا ہوگیا ہے گھروں میں دینی ماحول میسر نہیں اور دیگر ذرائع کتب اور میڈیا میں غلط اور درست کی پہچان مشکل ۔۔۔اس بگاڑ کو دور کرنے کے لئے خواتین ہی کو درست علم دین سیکھ کر معاشرے کی دیگر خواتین کو علم دین سکھانے اور نیکی کی دعوت کے ذریعے انکے عمل و کردار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

یہ صحابیات رضی اللہُ عنہُنّ کی سنت بھی ہے اسلامی بہنوں سے متعلق کئی مسائل ایسے ہیں جو صحابیات رضی اللہُ عنہُنّ کے سوال کرنے کی برکت سے ہم تک پہنچے-

خواتین کی مخصوص مسائل میں رہنمائی:

خواتین کے مخصوص مسائل کے بارے میں اسلامی بہنوں میں بہت سے غلط نظریات ہوتے ہیں لیکن شرم کے باعث سوال نہیں کرتیں اور کم علمی کے سبب گناہ میں پڑ جاتی ہیں اسلئے خواتین کو ان مسائل میں مہارت حاصل کرنی چاہئیے تاکہ عوام اسلامی بہنوں کی درست رہنمائی کرسکیں-

دور حاضر کی ضرورت:

دور حاضر میں ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کی کوشش میں بعض خواتین اسلامی تعلیمات کے خلاف زندگی گزارنے کو کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہوئے گناہوں میں مشغول ہیں انہیں نیکی کی راہ پر لانے کے لئے خواتین کو خود مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین سے متعلقہ مسائل معلوم ہونا ضروری ہے تاکہ متعلقہ خواتین کو صحیح و غلط طریقوں سے روشناس کرواتے ہوئے عمل کی طرف راغب کرسکیں۔

مذکورہ خصوصیات اور جامعۃ المدینہ گرلز کا کردار:

علم دین :قرآن و حدیث میں علمائے دین کے کثیر فضائل بیان ہوئے ایک عالم کو بنیادی طور پر جن فنون کو پڑھنا ضروری ہے جامعۃ المدینہ میں تقریبا وہ تمام فنون (تفسیر اصول تفسیر،حدیث،اصول حدیث،عقائد،فقہ اصول فقہ ،بلاغت ،عربی گرامر وغیرہ)پڑھائے جاتے ہیں-

اصلاح نفس: جامعۃ المدینہ گرلز کی طالبات کے اخلاق و کردار میں نمایاں تبدیلی آتی ہےایسے کئی واقعات ہیں کہ بے نمازی نمازی ،بے پردہ باپردہ،والدین کی نافرماں فرماں بردار ،بد اخلاق حسن اخلاق کا پیکر بن گئیں بلکہ طالبات کے کردار سے متاثر ہوکر گھر والے بھی نمازوں کے پابند اور سنتوں کے عامل بن جاتے ہیں

نسل نو کی تعمیر:جامعات المدینہ گرلز میں صحابیات رضی اللہُ عنہُنّ کی سیرت بھی پڑھائی جاتی ہے تاکہ انکے نقش قدم پر چلتے ہوئے طالبات اپنی گھریلو زندگی بھی شریعت کے مطابق گزارسکیں - دینی تعلیم کے ساتھ امور خانہ داری بھی سکھائے جاتے ہیں تاکہ طالبات کما حقہ اپنی ذمہ داریاں نبھا سکیں-

اصلاح معاشرہ:جامعۃ المدینہ گرلز کا اصلاح معاشرہ میں ایک اہم کردار ہے جامعۃ المدینہ گرلز معاشرے سے بے علمی و عملی کو ختم کرنے کے لئے کوشاں ہے ہر سال ہی اسکی برانچز اور طالبات میں اضافہ ہورہا ہے اور جامعۃ المدینہ گرلز کی فارغ التحصیل طالبات دعوت اسلامی کے دیگر شعبہ جات فیضان آن لائن اکیڈمی، مدرسۃ المدینہ،مجلس مالیات،مجلس اجارہ ہوغیرہ میں بھی اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں نیز دعوت اسلامی کے تحت ہونے والے تنظیمی کاموں میں بھی حصہ لیتی ہیں۔

سال 2021 سے منتخب جامعات المدینہ گرلز کی طالبات کوعلوم دینیہ کے ساتھ مروجہ دنیاوی تعلیم کا بھی آغاز کیا گیا ہے تاکہ جامعات المدینہ گرلز سے فارغ التحصیل اسلامی بہنیں معاشرے کی شرعی رہنمائی کے ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اسلام و سنیت کی خدمت کرسکیں-

خواتین کے مخصوص مسائل: خواتین کے مخصوص مسائل سے متعلق مسائل بالتفصیل شامل نصاب ہیں۔

دور حاضر کی ضرورت:دور حاضر سے متعلقہ مسائل بھی شامل نصاب کرنے کی کوشش کی گئی ہے مثلا: خواتین میں آن لائن بزنس بہت بڑھ گیا ہے جامعۃ المدینہ میں خرید و فروخت کے بنیادی مسائل بھی پڑھائے جاتے ہیں۔

المختصر دینی،دنیاوی،اخروی بھلائیوں کے حصول کے لئے علم دین سیکھنا ناگزیر ہے اور جامعات المدینہ گرلز اسکا بہترین ذریعہ ہے ۔

اللہ پاک ہمیں علم دین حاصل کرنے اس پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یا رب العالمین) ۔


دورِ جاہلیت میں عرب کے لوگ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے تھے، اسلام نے جہاں عربوں کو تہذیب و تمدن اور علم کے زیور سے آراستہ کیا، جس کی بدولت مرد حضرات علم کے سمندر سے سیراب ہونے لگے، وہیں عورتوں میں بھی علم کی پیاس بڑھنے لگی، وہ اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے خاص مواقع مثلاً عیدین وغیرہ میں حاضری کی منتظر رہتیں، ان کی علمی پیاس روز روز بڑھتی چلی گئی، اس کا اظہار اس وقت سامنے آیا، جب ایک صحابیہ نے خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی کہ ان کے لئے بھی کچھ خاص وقت ہونا چاہئے، جس میں وہ دین کی باتیں سیکھ سکیں، ان میں یہ شعور حضور پاک صلّی اللہُ علیہ وسلّم کی نظرِ رحمت کا نتیجہ تھا، کیونکہ آپ صلّی اللہُ علیہ وسلّم کو اس بات کا بخوبی ادراک تھا کہ عورت پر پوری نسل کی تعلیم و تربیت کا انحصار ہے۔

چنانچہ آپ نے خواتین کو جہاں بحیثیت ماں، بہن، بیٹی کی عظمت بخشی، ان کے حقوق مقرر کئے، وہیں ان کی بہترین تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام کیا، تا کہ ان کی گود میں ایک صحت مند نسل تیار ہو کر معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرے۔

اسلام وہ واحد دین ہے، جس کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس نے اپنے ہر ماننے والے کے لئے علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے، خواہ مرد ہو یا عورت، سب کے لئے علم حاصل کرنا ضروری ہے، رسول پاک صلّی اللہُ علیہ وسلّم نے فرمایا:طَلَبُ الْعِلْمُ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ۔ علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مردو عورت) پر فرضِ عین ہے۔" (ابن ماجہ، صفحہ 49، حدیث 224، صحابیات و صالحات کے اعلی اوصاف، ص107)

خواتین معاشرے کا اہم فرد ہیں، ان کی تعلیم و تربیت اگر بہترین انداز میں ہو تو اس سے نہ صرف ایک گھرانہ، بلکہ ایک بہترین معاشرہ قائم ہوسکتا ہے۔

سرکار مدینہ صلّی اللہُ علیہ وسلّم نے علمِ دین سیکھنے کے بارے میں خواتین کی حوصلہ افزائی فرمائی، ہم علمِ دین حاصل کر کے دنیا و آخرت سنوار سکتے ہیں، جب ایک عورت علمِ دین حاصل کرے گی تو وہ دینی مسائل جانتی ہو گی، زندگی کے ہر باب پر دینِ اسلام کی روشنی میں مسائل حل کر سکے گی، اس طرح ایک اچھی نسل پروان چڑھا کر ملک و قوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکے گی، کیونکہ تعلیم یافتہ عورت پورے گھرانے کے لئے مشعلِ راہ ہے، اس کا بہترین ذریعہ دعوت اسلامی کے مدارس و جامعات ہیں، جہاں بغیر معاوضے کے اسلامی بہنیں عالمہ کورس کرکے عالمہ بن کر اپنی دنیا اور آخرت سنوار رہی ہیں۔

عورت کے لئے پردہ کرنا فرض ہے، جب تک وہ اس کے بارے میں علم حاصل نہیں کرے گی، وہ شرعی پردہ کس طرح کر پائے گی کہ مجھے کس کس سے پردہ کرنا ہے اور کس سے پردہ نہیں کرنا، یہ معلومات حاصل کرنے کے لئے اس کا علم حاصل کرنا ہوگا ،ورنہ شرعی مسائل کو جان نہ سکے گی، عالمہ کورس کرنے سے فرض علوم سیکھنا اور اس کے ساتھ ساتھ تمام مہلکات مثلاً جھوٹ، غیبت، حسد، خود پسندی وغیرہ کے بارے میں علم حاصل کرنا بے حد آسان ہوگیا ہے۔

دعوت اسلامی ان تمام شعبہ جات میں پیش پیش ہے، مدارس و جامعات میں اسلامی بہنوں کے لئے اعلی سطح پر تعلیم کا انتظام ہے، اب تو علمِ دین کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی تعلیم بھی دی جارہی ہے، تاکہ دنیاوی اعتبار سے بھی خواتین کسی سے کم تر نا کہلائیں، علماء انبیاء کے وارث ہیں، یہ اتنی بڑی فضیلت علمِ دین حاصل کرنے کی ہی ہے۔

ہمارے اسلاف پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صحابیات اور اُمہات المؤمنین کی زندگی خواتین کے لئے بہترین نمونہ ہے، صحابیات علمِ دین حاصل کرنے کے جذبے سے سرشار تھیں، انہوں نے سرکار صلّی اللہُ علیہ وسلّم سے علمی مسائل سیکھے، اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ، طاہرہ، عالمہ، زاہدہ کی علمی شان و شوکت ہے۔

حضرت سیدنا موسٰی اشعری رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں، ہم اصحابِ رسول کو کسی بات میں اشکال ہوتا تو ہم آپ رضی اللہُ عنہا کے پاس سے ہی اس بات کا علم پاتے۔" (سنن ترمذی، صفحہ 873، حدیث3882)

اس سے حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا کی علمی حیثیت کا معلوم ہوتا ہے، آپ کے سامنے بڑے بڑے اہلِ علم کی عقلیں اور زبانیں گنگ نظر آتیں، آپ بہترین عالم اور زبردست فقیہہ تھیں۔ حضرت سیدناعطا رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں،حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا تمام لوگوں سے بڑھ کر فقیہہ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر عالمہ اور تمام لوگوں میں سب سے زیادہ اچھی رائے رکھنے والی تھیں۔ ( المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابہ کانت عائشہ افقہ الناس)

معلوم ہوا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ کو اللہ پاک نے علم و فقاہت کی نعمتوں اور بھرپور ذہنی صلاحیتوں سے نواز کر اس حوالے سے سب سے ممتاز کر دیا، اپنی امی جان کی سیرت طیبہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہم سب کو چاہئے کہ اپنے دل میں جذبہ علمِ دین بیدار کریں، اللہ پاک ان کے صدقے ہمیں بھی علم دین حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (فیضان عائشہ صدیقہ)

حضرت عائشہ کا یہ روشن پہلو اسلامی بہنوں کی توجّہ کا طالب ہے، اسلامی بہنوں کو چاہئے کہ وہ علمِ دین حاصل کر کے خود کو دنیا و آخرت میں سرخرو کریں، مگر افسوس! اس وقت جبکہ علم دین حاصل کرنا مشکل نہ رہا، ہماری اکثریت علم سے دور دکھائی دیتی ہے، نماز پڑھنے والیوں کو وضو کا درست طریقہ معلوم نہیں ہوتا، کثیر عورتیں رمضان کے فرض روزوں، حج و زکوۃ کے ضروری مسائل سے نا آشنا ہیں اور ہماری صحابیات کو جب بھی کوئی دینی اور دنیاوی الجھن ہوتی تو فوراً بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر اس کا حل معلوم کر لیا کرتی تھیں، اے کاش! ہمیں بھی علمِ دین حاصل کرنے کی تڑپ پیدا ہوجائے اور اپنی آخرت سنوارنے کی فکر پیدا ہوجائے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم اسلامی بہنوں کے اندر خوب علم دین سیکھنے کا، اس پر عمل کرنے کا جذبہ بیدار ہو جائے، تاکہ ہم اپنی دنیا وآخرت کو سنوار سکیں۔آمین

(یہ مضمون صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف حصہ اول کے باب صحابیات اور شوقِ علم دین کے صفحہ 102 سے 138 تک میں سے لکھا ہے اور فیضان عائشہ صدیقہ کتاب سے کچھ حوالے لئے ہیں)

امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت، قدروعظمت اور شان کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ تابعیت کے عظیم دینی اور روحانی شرف کے حامل ہیں، امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی یہ ایسی فضیلت ہے، جس نے اپنے معاصر فقہاء، محدّثین میں اسنادِ عالی کی حیثیت سے ممتاز کردیا۔

امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فقہ و کلام کے علاوہ بطورِ خاص حدیث پاک کی تعلیم و تحصیل کی تھی اور اس کے لئے حضرات محدّثین کی روشنی کے مطابق اسفار بھی کئے، چنانچہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ جو رجالِ علم و فن کے احوال و کوائف کی معلومات میں امتیازی شان کے مالک ہیں، اپنی مشہور اور انتہائی مفید تصنیف "سیر اعلام النبلا" میں امام صاحب کے تذکرہ میں لکھتے ہیں"امام صاحب نے طلبِ حدیث کی جانب خصوصی توجّہ کی اور اس کے لئے اسفار کئے۔"

امام معصرین کدام جو اکابر حفاظِ حدیث میں ہیں، امام صاحب کی جلالت شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رفاقت میں حدیث کی تحصیل کی، تو وہ ہم پر غالب رہے اور زہدو پرہیزگاری میں مصروف ہوئے تو اس میں بھی فائق رہے اور فقدان کے ساتھ شروع کی تو تم دیکھتے ہو کہ اس فن میں کمالات کے کیسے جوہر دکھائے۔

مشہور امام تاریخ و حدیث حافظ ابو سعد سمعانی کتاب الاشاب میں امام صاحب کے تذکرہ میں لکھتے ہیں"کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ طلب علم میں مشغول ہوئے تو اس درجہ غایت انہماک کے ساتھ ہوئے کہ جس قدر علم انہیں حاصل ہوا، دوسروں کو نہ ہو سکا۔

غالباً امام صاحب کے اس کمالِ علمی کے اعتراف کے طور پر امام احمد بن حنبل اور امام بخاری کے استاذ حدیث شیخُ الاسلام حافظ عبدالرحمن مقری، جب امام صاحب سے کوئی حدیث روایت کرتے تو اس الفاظ کے ساتھ روایت کرتے :"اخبرنا شاہنشاہ"یعنی ہمیں علمِ حدیث کے شہنشاہ نے خبر دی۔"

اس بات کا اعتراف محدثِ عظیم حافظ یزید بن ہارون نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ :"امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پاکیزہ سیرت، متقی وپرہیزگار، صداقت شعار اور اپنے زمانے میں بہت بڑے حافظ حدیث تھے۔"

امام بخاری کے ایک اور استاذِ حدیث امام مکی بن ابراہیم فرماتے ہیں:کہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ پرہیزگار، عالم،آخرت کے راغب،بڑے راست باز اور اپنے معاصرین میں سب سے بڑے حافظِ حدیث تھے۔

مشہور محدث ابو المقائل حفص بن سلم امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی فقہ و حدیث میں امام کا اعتراف ان الفاظ سے کرتے ہیں کہ "امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانے میں فقہ و حدیث اور پرہیزگاری میں امام الدنیا تھے، ان کی ذات آ زمائش تھی، جس سے اہل سنت و جماعت اور اہل بدعت میں فرق و امتیاز ہوتا تھا، انہیں کوڑوں سے مارا گیا، تاکہ وہ دنیا داروں کے ساتھ دنیا میں داخل ہوجائیں (کوڑوں کی ضرب برداشت کرلی)مگر دخولِ دنیا کو قبول نہیں کیا۔"

علمِ حدیث میں امام صاحب کے اس بلند مقام و مرتبہ کی بناء پر اکابر محدثین اور آ ئمہ حفاظ کی جماعت میں عام طور پر امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا تذکرہ کیا جاتا ہے!

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

ہراک کا نصیب یہ بخت رسا کہاں

امام الائمہ، سراج الامۃ، سید الفقہاء، مسید الاتقیاء، محدث کبیر حضرت ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہُ عنہ میں اللہ پاک نے علم و عمل کی تمام خوبیاں جمع کردی تھیں، وہ میدانِ علم میں تحقیق و تدقیق کے شاہسوار، اخلاق وعادات میں لائقِ تقلید اور عبادت و ریاضت میں یگانہ روزگار تھے۔

متعصب حضرات فنِ حدیث میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی بصیرت پر نکتہ چینی کرتے ہیں، کچھ بے لگام لوگ تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو صرف سترہ حدیثیں یاد تھیں، اس لئے ہم نہایت اختصار کے ساتھ علم حدیث کے فنِ روایت و درایت میں امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مقام و رتبہ ٹھوس دلائل کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔

حق تو یہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اسلامی علم و فنون کے تمام شعبوں میں امام اور مجتہد تھے، جس طرح وہ آ سمان فقہ کے درخشندہ آ فتاب تھے، اسی طرح عقائدو کلام کے افق پر بھی انہی کا سورج طلوع ہوتا تھا۔

فن حدیث میں یہ بہار انہی کی کاوشوں کا ثمرہ ہے، حدیث پاک کے ایک راوی ہونے کی حیثیت سے رجال حدیث میں امام اعظم کا مقام معلوم کرنا نہایت ضروری ہے ، امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے معاصرین میں سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ ، اور سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے خدمت حدیث میں بڑا نام کمایا ہے، لیکن ان میں سے کسی کو بھی تابعیت وہ عظیم شرف حاصل نہیں، جو امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی خصوصیت ہے۔

"تابعی اس شخص کو کہتے ہیں، جس نے رسول اللہ صلّی اللہُ علیہ و سلّم کے کسی صحابی کو دیکھا ہو" اور اس بات پر سب نے اتفاق کیا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سیدنا انس رضی اللہُ عنہ کو دیکھا تھا اور ملاقات بھی کی تھی، کیونکہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 80ھ میں ہوئی اور حضرت انس رضی اللہُ عنہ اس کے بارہ سال سے زیادہ عرصہ تک زندہ رہے۔

صحابہ کرام رضی اللہُ عنہمسے حدیث کا سماع اور ان کی روایت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا جلیل القدر وصف اور عظیم خصوصیت ہے، احناف تو خیر کمالاتِ امام کے مداح ہیں ہی، شوافع سے بھی امام اعظم کے اس کمال کا انکار نہ ہوسکا، بلکہ بعض شافعیوں نے بڑی فراخ دلی سے امام اعظم کی روایت صحابہ پر خصوصی رسائل لکھے ہیں۔

چونکہ بعض اہلِ ہواءیہ کہتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو صرف سترہ حدیثیں یاد تھیں، اس لئے ہم ذرا تفصیل سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ امام اعظم کے پاس احادیث کا وافر ذخیرہ تھا۔

امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ:"امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف میں ستر ہزار سے زائد احادیث بیان کی ہیں اور چالیس ہزار احادیث مبارکہ سے "کتاب الآثار " کا انتخاب کیا ہے، ان حوالوں سے جو امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا علم حدیث میں تجربہ ظاہر ہو رہا ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں ہے۔

امام اعظم ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  علمِ حدیث میں  جس عظیم مہارت کے حامل اور جلیل القدر مرتبہ پر فائز تھے، فنِ حدیث میں امام اعظم کے کمالات میں سے ایک عظیم کمال یہ ہے کہ آ پ مختلف اور متناقص روایات میں بہ کثرت تطبیق دیتے تھے اور مختلف اور متناقص روایتوں کا محل اس طرح الگ الگ بیان کردیتے تھے کہ منشاء رسالت نکھر کر سامنے آ جاتا تھا۔

ہمارے آقا ہمارے مولیٰ امام اعظم ابو حنیفہ

ہمارے ملجا ہمارے ماویٰ امام اعظم ابو حنیفہ

امام اعظم ابو حنیفہ کا نام مبارک نعمان ، والد کا نام ثابت اور آپ کی کنیت ابو حنیفہ ہے، لقب امام اعظم اور سراج الامہ ہے، امام اعظم نے مرکز علم کوفہ میں آنکھ کھولی اس شہر کی علمی فضا کو معلم امت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللهُ عنہ اور مدینۃ العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور دیگر صحابہ و تابعین کی سرپرستی کا شرف حاصل تھا، آپ نے ائمہ حدیث و فقہ سے خوب خوب استفادہ حاصل کیا چنانچہ خود بیان فرماتے ہیں:"میں حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہماور ان کے اصحاب و تلامذہ کی فقہ حاصل کرچکا ہوں۔" (صفحہ30، سیرت امام ابو حنیفہ، حیات امام ابو حنیفہ ص67)

امام اعظم کی محدثانہ حیثیت پر کلام کرتے ہوئے مخالفین نے طرح طرح کی باتیں کی ہیں،بعض ائمہ حدیث نے حضرت امام اعظم پر حدیث میں ضعف کا طعن کیا ہے، خطیب نے امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کہ ابو حنیفہ حدیث میں قوی نہیں ہیں۔ (فتح الباری 1/112)

علامہ ابن خلدون رقمطراز میں:"امام اعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان سے صرف 17 احادیث مروی ہیں یا اس کے قریب قریب یہ بعض حاسدوں کی خام خیالی ہے کہ جس اِمام سے روایت کم مروی ہوں، وہ حدیث نہیں قلیل النضاعت ہوتا ہے، حالانکہ ایسا لغو تخیل کیا ائمہ کے بارے میں سخت گستاخی وبے عقلی نہیں ہے۔؟ (سیرت امام اعظم، ص236، مقدمہ ابن خلدون، ص447)

حقیقت یہ ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ نے چار ہزار مشائخ ائمہ تابعین سے حدیث اخذ کی ہیں، آپ وہ پہلے امام تھے، جنہوں نے ادلہ شرعیہ سے مخصوص اصول و ضوابط کے تحت استنباط و اجتہاد کا کام کیا اور خلاصہ یہ ہے کہ یہ کام بغیر فن حدیث کی مہارت ہو نہیں سکتا۔

امام اعظم کی حدیث فانی کا اعتراف: یحییٰ بن معین فرماتے ہیں "امام ابو حنیفہ حدیث میں شقہ تھے، ان میں اصول جرح و تعدیل کی رُو سے کوئی عیب نہیں تھا۔" ان اقوال کی روشنی میں امام اعظم پر قلت حدیث کا طعن بے بنیاد ہوکر رہ جاتا ہے۔" امام اعظم جب دنیا سے کنارہ کش ہوکر عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئے تو ایک رات خواب میں دیکھا کہ حضور اکرم صلّی اللہُ علیہ وسلّم کی ہڈیوں کو مزار اقدس سے نکال کر علیحدہ علیحدہ کررہا ہوں اور جب پریشان ہوکر اُٹھے تو امام بن سیرین سے تعبیر معلوم کی تو انہوں نے کہا کہ بہت مبارک خواب ہے اور آپ کو سنت نبوی کے پرکھنے میں وہ مرتبہ عطا کیا جائے گا کہ احادیث صحیحہ کو موضوع حدیث سے جُدا کرنے کی شناخت ہو جائے گی، اس کے بعد دوبارہ پیارے آقا کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوئے، تو آپ نے فرمایا اے ابو حنیفہ اللہ پاک نے تیری تخلیق میری سنت کے اظہار کے لئے فرمائی ہے، لہذا دنیا سے کنارہ کش مت ہو۔ (تذکرہ الاولیاء، ص122)

قبول حدیث کا معیار: یہ خواب امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی علم حدیث میں بلند مرتبہ کا ٹھوس ثبوت ہے، علم حدیث میں امام اعظم کا سب سے اہم کارنامہ قبول روایت اور وہ معیار و اصول ہیں جنہیں آپ نے وضع کیا جن سے بعد کے علمائے حدیث نے فائیدہ اٹھایا۔ (سیرت امام اعظم، ص240)

فہم حدیث: امام اعظم صاحبِ حدیث کے ظاہری الفاظ اور ان کی روایات پر زور نہیں دیتے تھے، بلکہ وہ احادیث کے مفہوم اور سائل فقیہہ کی تخریج و انسباط پر زور دیتے تھے، امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"میرے نزدیک حدیث کی تفسیر اور حدیث میں فقہی نکتوں کے مقامات کا جاننے والا امام اعظم سے بڑھ کر کوئی نہیں، مزید فرماتے ہیں: مجھ سے زیادہ امام صاحب کے متبع سفیان ثوری ہیں، سفیان ثوری نے ایک دن ابن مبارک سے امام اعظم کی تعریف بیان کی فرمایا کہ وہ ایسے علم پر سوار ہوتے ہیں، جو برچھی کی انی سے زیادہ تیز ہے، خدا کی قسم وہ غایت درجہ علم کو لینے والے محارم سے بہت رکھنے والے، اپنے شہر والوں کی بہت اتباع کرنے والے ہیں، صحیح حدیث کے سوا دوسری قسم کی حدیث لینا مبتول حلال نہ جانتے۔ (سیرت امام اعظم، ص243-242، الخیرات الحسان، ص61)

ان تمام اقوال سے امام اعظم ابو حنیفہ کا حدیث میں مقام معلوم ہوتا ہے، آپ علم حدیث کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز تھے۔

تمہارے آگے تمام عالم نہ کیوں کرے زانوئے ادب خم

کہ پیشوایانِ دیں نے مانا امام اعظم ابو حنیفہ

تلامذہ حدیث: آپ کے حلقہ درس میں کثیر تعداد میں علم حدیث سیکھنے والے موجود ہوتے، علامہ ابن حجر عسقلانی نے ذکر کیا ہے کہ امام اعظم سے حدیث کا سماع کرنے والے مشہور حضرات میں حماد بن لغمان اور ابراہیم بن طہمان، حمزہ بن حبیب، قاضی ابو یوسف، اسد بن عمرو ابو نعیم، ابو عاصم شامل تھے، وکیع بن جراح کو امام اعظم کی سب حدیثیں یاد تھیں، امام مکی بن ابراہیم آپ کے شاگرد تھے اور امام بخاری کے استاد تھے، امام اعظم کوفہ جیسے عظیم شہر میں جو فقہ و حدیث کا بڑا مرکز تھا پرورش پائی، آپ کا حدیث میں مقام بہت بلند تھا، بڑے بڑے اساتذہ سے آپ نے علم حدیث حاصل کیا، ان کے علاؤہ جلیل القدر تابعین سے بھی استفادہ حاصل کیا، بعض اہل علم نے آپ کے مشائخ کی تعداد چار ہزار بتائی ہے، ان میں اکثریت محدثین کی ہے، آپ کے تلامذہ کی بڑی تعداد محدثین کی ہے۔

امام اعظم اور عمل بالحدیث: امام اعظم پر طعن کرنے والے کہتے ہیں کہ آپ حدیث کے ہوتے ہوئے قیاس و رائے کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن اس مقام میں کوئی آپ کے برابر نہیں، سفیان فرماتے ہیں: میں نے امام ابو حنیفہ سے فرماتے سُنا کہ میں قرآن پاک سے حکم کرتا ہوں تو جو اِس میں نہیں پاتا، اس کا حکم رسول اللہ کی حدیث سے لیتا ہوں اور جو قرآن اور حدیث میں نہیں پاتا، اس میں صحابہ کرام کے اقوال سے حکم کرتا ہوں اور جس صحابی کے قول سے چاہتا ہوں سند پکڑتا ہوں اور جس کا قول چاہتا ہوں نہیں لیتا ہوں اور صحابہ کرام کے قول سے باہر نہیں جاتا لیکن جب حکم ابراہیم اور شعبی اور ابن سیرین اور حسن اور عطا اور سعید بن مسیب وغیرہ تک پہنچتا ہے تو ان لوگوں نے اجتہاد کیا، میں بھی اجتہاد کرتا ہوں، جیسے انہوں نے اجتہاد کیا۔ (تبہییض الصحیفہ 23، سیرت امام اعظم، ص250)

یہ اعتراض کہ آپ حدیث پر قیاس کو مقدم کرتے ہیں بالکل غلط کے، یہ آپ پر صریح بہتان ہے، آپ کی شخصیت علمی دینی اور روحانی شخصیت ہے، سفیان فرماتے ہیں:"علم میں لوگ ابوحنیفہ سے حسد کرتے ہیں۔" امام اعظم میں وہ تمام خصوصیات موجود تھیں، جو ایک بلند پایہ عالم دین میں ہونی چاہئیں، علم حدیث میں کوئی آپ کا ثانی نہیں، مال و دولت کی فراوانی کے باوجود بڑی سادہ زندگی بسر کرتے تھے، اکثر ارباب تاریخ کا بیان ہے کہ امام صاحب کی وفات 150ھ میں ہوئی، آپ نے رجب میں انتقال فرمایا، علی بن ہاشم کا قول ہے۔ (بحوالہ مناقب موفق، 1/120)

"ابو حنیفہ علم کا خزانہ تھے جو مسائل بہت بڑے عالم پر مشکل ہوتے تھے، آپ پر آسان ہوتے تھے۔" (سیرت امام اعظم، ص263)

کہ جتنے فقہا محدثین ہیں تمہارے خرمن سے خوشہ چیں ہیں

ہوں واسطے سے کہ بے وسیلہ امام اعظم ابو حنیفہ

سراج تو ہے بغیر تیرے جو کوئی سمجھے حدیث و قرآن

پھرے بھٹکتا نہ پائے رستہ امام اعظم ابو حنیفہ

(حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان صاحب سالک نعیمی علیہ الرحمۃ)


بیوہ کی عدت

Fri, 19 Aug , 2022
1 year ago

قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے: وَ الَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ يَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًا١ۚ(پ2،البقرۃ:234) ترجمہ: اور تم میں سے جو مر جائیں اور بیویاں چھوڑیں تو وہ بیویاں چار مہینے اور دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں۔

تفسیر: اس آیت میں بیوہ کی عدت کا ذکر ہو رہا ہے، عِدَّت کا لغوی معنی ٰ شمار اور گنتی ہے، جبکہ شرعاً اس سے مراد ہے کہ شوہر کے طلاق دینے یا وفات پا جانے کے بعد عورت آگے کسی سے نکاح کرنے سے پہلے ایک مخصوص مدت تک انتظار کرے۔ امام رازی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں اس آیت مبارکہ میں بیوہ عورتوں کو شوہر کی موت کے بعد خود کو ایک مخصوص مدت تک روکے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، مگر یہاں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ کس چیز سے روکے رکھیں؟ چنانچہ یاد رکھئے کہ بیوہ عورت کو 3 چیزوں سے رکے رہنے کا پابند کیا ہے: (1)نکاح سے(2)خاوند کے گھر سے نکلنے سے اور(3)زینت سے۔([1]) اب اگر کوئی عورت عدت کی پابندیاں پوری نہ کرے یعنی مذکورہ تینوں چیزوں سے نہ رکے تو جو اسے روکنے پر قادر ہے وہ اسے روکے، اگر نہیں روکے گا تو وہ بھی گناہ گار ہو گا۔(2)

(1)بیوہ نیا نکاح کب کرے؟شوہر کی وفات کے بعد وفات کی عدت گزارنا عورت پر مطلقاً لازم ہے خواہ جوان ہو یا بوڑھی یا نابالغہ، یونہی عورت کی رخصتی ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔(3)اس آیتِ مبارکہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ بیوہ عورت کی عدت 4 ماہ 10 دن ہے بشرطیکہ جب شوہر کا انتقال چاند کی پہلی تاریخ کو ہوا ہو، ورنہ وہ 130 دن پورے کرے گی(4)۔(5) لیکن اگر وہ بیوہ امید سے ہو یعنی ماں بننے والی ہو تو اب اس کیلئے کوئی خاص مدت مقرر نہیں، بلکہ جس وقت بچہ پیدا ہو گا عدت ختم ہو جائے گی۔ اگرچہ ایک منٹ بعد حمل ساقط ہو گيا اور اعضا بن چکے ہیں عدت پوری ہو گئی ورنہ نہیں اور اگر دو یا تین بچے ایک حمل سے ہوئے تو پچھلے کے پیدا ہونے سے عدت پوری ہو گی۔(6)بیوہ اگر امید سے ہو تو اس کی عدت بچہ پیدا ہونا ہے، اس کی دلیل یہ روایت ہے: حضرت سبیعہ اسلمیہ رضی اللہُ عنہا بیان کرتی ہیں کہ وہ قبیلہ بنو عامر سے تعلق رکھنے والے بدری صحابی حضرت سعد بن خولہ رضی اللہُ عنہ کی زوجیت میں تھیں۔ حجۃ الوداع کے سال ان کا انتقال ہو گیا جبکہ وہ امید سے تھیں۔ ان کی وفات کے کچھ دن بعد ہی ان کے ہاں بچے کی ولادت ہو گئی اور جب یہ نفاس سے فارغ ہو گئیں تو انہوں نے شادی کے پیغامات آنے کے خیال سے بناؤ سنگھار کیا۔ یہ دیکھ کر کسی نے انہیں کہا: کیا بات ہے آپ بنی سنوری ہوئی ہیں! لگتا ہے شادی کرنا چاہتی ہیں؟ اللہ کی قسم! آپ اس وقت تک نکاح نہیں کر سکتىں جب تک کہ چار ماہ دس دن (كى عدت) مکمل نہ ہو جائے۔ تو یہ شام کے وقت حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس گئیں اور اس بارے میں دریافت کیا تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوا تھا تو اسی وقت ان کی عدت بھی پوری ہو گئی تھی، لہٰذا اگر چاہیں تو شادی کر لیں۔(7)اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عدت کے دوران عورت نہ کسی سے نکاح کر سکتی ہے نہ ہی اسے نکاح کا پیغام دیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: عدت میں نکاح تو نکاح، نکاح کا پیغام دینا (بھی) حرامِ قطعی ہے۔(8)ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: عدت میں نکاح باطل و حرام محض ہے۔(9)

(2)عدت کہاں گزارے؟:شوہر کی موت کے وقت جس مکان میں عورت کی رہائش تھی اسی مکان میں عدت پوری کرے کہ بلا ضرورت اس مکان کو چھوڑ کر دوسری جگہ رہائش رکھنا منع ہے۔ آج کل بلاوجہ معمولی باتوں کو ضرورت سمجھ لیا جاتا ہے وہ یہاں مراد نہیں بلکہ ضرورت وہ ہے کہ اُس کے بغیر چارہ نہ ہو۔(10) مثلا ً٭جبراً (زبردستی)نکالا جائے٭مکان گر جائے یا٭گرنے کا خطرہ ہو یا٭مال کے نقصان کا خطرہ ہویا٭مکا ن کرایہ پر تھا عورت میں کرایہ دینے کی طاقت نہ ہو یا٭اور اس قسم کی ضروریات ہوں تو (ایسی عورت) قریب ترین مکان میں منتقل ہو جائے۔ (11)البتہ! موت کی عدت میں اگر باہر جانے کی حاجت ہو تو ان صورتوں میں گھر سے نکلنے کی علما نے اجازت دی ہے: ٭عورت کے پاس بقدر ِ کفایت مال نہیں اور باہر جا کر محنت مزدوری کر کے لائے گی تو کام چلے گا تو اسے اجازت ہے کہ دن میں اور رات کے کچھ حصے میں باہر جائے اور رات کا اکثر حصہ اپنے مکان میں گزارے مگر حاجت سے زیادہ باہر ٹھہرنے کی اجازت نہیں۔ ٭اگر بقدرِ کفایت اس کے پاس خرچ موجود ہے تو اسے بھی گھر سے نکلنا مطلقاً منع ہے اور اگر خرچ موجود ہے مگر باہر نہ جائے تو کوئی نقصان پہنچے گا مثلاً زراعت کا کوئی دیکھنے بھالنے والا نہیں اور کوئی ایسا نہیں جسے اس کام پر مقرر کرے تو اس کے ليے بھی جا سکتی ہے مگر رات کو اُسی گھر میں رہنا ہو گا۔ ٭یونہی کوئی سودا لانے والا نہ ہو تو اس کے ليے بھی جاسکتی ہے۔ (12)

(3)زینت ترک کرنا: کسی کے فوت ہونے پر زینت کو ترک کرنا سوگ کہلاتا ہے، سوگ اس پر ہے جو عاقلہ بالغہ مسلمان ہو اور موت یا طلاقِ بائن کی عدت ہو۔(13) ایسی عورت کو عدت پوری ہونے تک سوگ منانا شر عاً واجب ہے اور اس کا ترک حرام ہے حتی کہ شوہر نے مرنے سے پہلے کہہ دیا تھا کہ سوگ نہ کرنا جب بھی سوگ واجب ہے۔(14) البتہ! 4ماہ 10 دن تک سوگ کرنا صرف شوہر کی موت کے ساتھ خاص ہے اور کسی عزیز یا رشتہ دار کی موت پر 3دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں۔ جیسا کہ حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ جب ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہُ عنہا کے بھائی فوت ہوئے تو میں ان کے پاس گئی، انہوں نے خوشبو منگا کر اپنے جسم پر لگائی اور فرمایا: مجھے خوشبو لگانے کی اگرچہ ضرورت تو نہیں، مگر میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے یہ سنا ہے کہ جو عورت اللہ پاک پر اور یوم آخرت پر ایمان لائی ہو اس کیلئے کسی میت پر 3دن سے زیادہ سوگ کرنا جائز نہیں۔ ہاں! شوہر (کی موت) پر 4ماہ 10دن تک سوگ کرے۔(15)

سوگ کی حالت میں ممنوع کام:(1)ہر قسم کا زیور یہاں تک کہ انگوٹھی، چھلا اور چوڑیاں وغیرہ پہننا (2)ریشمی کپڑا پہننا(3)سرمہ لگانا(4)کنگھی کرنا،مجبوری ہو تو موٹے دندانوں کی کنگھی(استعمال) کرے۔ (5)ہر طرح کی زیب و زینت، ہار، پھول، مہندی، خوشبو وغیرہ کا استعمال کرنا۔ (16)

سوگ کی حالت میں جائز کام:(1)چار پائی پر سونا، بچھونا بچھانا،سونے کیلئے ہو یا بیٹھنے کیلئے منع نہیں۔ (17) (2)غسل کرنا، صاف ستھرا اور سادہ لباس پہننا(3)سر درد کی وجہ سے سر میں تیل کا استعمال کرنا(4) آنکھوں میں درد کے سبب سرمہ لگانا۔(18)

نوٹ: عدت پوری ہونے پر عورت کا مسجد میں جانا یا مسجد کو دیکھنا، کسی رشتہ دار وغیرہ کے بلانے پر نکلنا، نفل ادا کرنا، صبح یا شام کسی مخصوص وقت عدت کو ختم کرنا یا اس دن گھر سے ضرور نکلنا ان تمام باتوں کی شرعاً کوئی اصل نہیں۔ ہاں! ختمِ عدت پر اسی دن کسی وجہ سے گھر سے نکلنے اور شکرانے کے نفل پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، مگر عدت کو ختم کرنے کیلئے یہ سب کام ضروری نہیں، نیز شوہر کی قبر پر جانے کے بجائے گھر سے ہی فاتحہ پڑھ کر دعائے مغفرت کرے۔(19)


(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)



[1] تفسیر رازی، 2/ 468 2 تفسیر صراط الجنان،1/359 3 تفسیر صراط الجنان،1/359 4فتاویٰ رضویہ، 13/ 294ماخوذاً 5تفسیر صراط الجنان،1/359 6جوہرہ نیرہ،الجزء الثانی، ص96 7بخاری، 3/ 16، حدیث: 3991 8فتاویٰ رضویہ،11/ 266 9فتاویٰ رضویہ، 11/290 0بہارشریعت، 2/245ملتقطاً A فتاویٰ رضویہ،13/328 B بہار شریعت، 2/245 C در مختار،5/221 D درمختار،5/221 Eبخاری، 1/ 433، حدیث: 1282 Fفتاویٰ رضویہ، 13/331ملخصاً Gفتاویٰ رضویہ، 13/331 Hتجہیز و تکفین کا طریقہ، ص211 Iتجہیز و تکفین کا طریقہ،ص 212 


جنت سے محروم عورتیں

Fri, 19 Aug , 2022
1 year ago

صحیح مسلم شریف میں  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:صِنْفَانِ مِنْ اَهْلِ النَّارِ لَمْ اَرَهُمَا، قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ،وَ نِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ،رُءُوْسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ،لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ،وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَاِنَّ رِيْحَهَا لَتُوْجَدُ مِنْ مَسِيْرَةِ كَذَا وَكَذَا۔([1]) یعنی جہنمیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جن کو میں نے(اس زمانے میں) نہیں دیکھا: (1)وہ لوگ جن کے پاس گائے کی دم کی طرح کوڑے ہوں گے جن سے وہ لوگوں کو(ناحق) ماریں گے۔ (2)وہ عورتیں جو لباس پہننے کے باوجود برہنہ ہوں گی، مائل کرنے والی اور مائل ہونے والی ہوں گی، ان کے سَر بختی اونٹوں کی کوہانوں کی طرح ایک جانب جھکے ہوئے ہونگے، وہ جنت میں داخل ہوں گی نہ جنت کی خوشبو سونگھیں گی،حالانکہ جنت کی خوشبو بہت دور سے آتی ہو گی۔

شرحِ حدیث

مذکورہ حدیثِ پاک میں جہنمی عورتوں کے تین اوصاف بیان ہوئے ہیں، ان کی تفصیل یہ ہے:

(1)لباس پہننے کے باوجود برہنہ:اس حدیثِ پاک میں عورتوں کے لباس پہننے سے مراد یا تو یہ ہے کہ وہ اللہ پاک کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گی، جبکہ بے لباس ہونے سے مراد ہے کہ وہ نعمتوں کا شکر ادا نہ کریں گی یا پھر یہ مراد ہے کہ ظاہری طور پر تو لباس پہنیں گی مگر حقیقت میں بے لباس ہوں گی، وہ اس طرح کہ ایسا باریک لباس پہنیں گی جس سے ان کا بدن جھلکے گا۔(2) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہحدیثِ مبارکہ کے ان الفاظ کے تحت فرماتے ہیں: جسم کا کچھ حصہ لباس سے ڈھکیں گی اور کچھ حصہ ننگا رکھیں گی یا اتنا باریک کپڑا پہنیں گی جس سے جسم ویسے ہی نظر آئے گا۔ یہ دونوں عیوب آج دیکھے جا رہے ہیں یا اللہ پاک کی نعمتوں سے ڈھکی ہوں گی، شکر سے ننگی یعنی خالی ہوں گی یا زیوروں سے آراستہ(اور) تقویٰ سے ننگی ہوں گی۔(3)

لباس اللہ پاک کی نعمت ہے: لباس اللہ پاک کی عطا کردہ ایک عظیم نعمت ہے قرآنِ پاک میں لباس کے دو اہم مقاصد مذکور ہیں: (1)سترِ عورت (2) زینت۔سترِ عورت چھپانے کے قابل لباس پہننا فرض ہے اور لباسِ زینت پہننا مستحب ہے۔ (4) چنانچہ پارہ 8 سورۃ الاعراف کی 26 ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے: يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِيْشًا ١ؕ ترجمہ:اے آدم کی اولاد! بیشک ہم نے تمہاری طرف ایک لباس وہ اتارا جو تمہاری شرم کی چیزیں چھپاتا ہے اور (ایک لباس وہ جو) زیب و زینت ہے۔

فیشن کے نام پر بےپردگی: ہونا تو یہ چاہئے کہ لباس اللہ پاک کی رضا کے مطابق پہنا جاتا مگر افسوس! فی زمانہ دیگر بڑھتی ہوئی برائیوں کے ساتھ ساتھ لباس کے معاملے میں بھی فیشن وغیرہ کے نام پر شرعی اَحکام کو پامال کیا جا رہا ہے۔ کبھی لباس ایسا ہوتا ہے جو پورے بدن کو ڈھانپتا ہی نہیں مثلاً ہاف آستین یا بغیر آستین(sleeve less) والا کرتہ، ٹخنوں سے اونچا پاجامہ وغیرہ اور کبھی اتنا باریک ہوتا ہے کہ جسم کی رنگت وغیرہ نظر آتی ہے جیسے باریک لان کے کپڑے، باریک ململ یا جالی (Net) والا دوپٹہ وغیرہ۔ یونہی کبھی لباس باریک تو نہیں ہوتا لیکن اس قدر تنگ اور چست ہوتا ہے کہ اعضا کی ہیئت ظاہر ہوتی ہے جیسے چوڑی دار پاجامہ، ٹائٹس (Tights)، پینٹ شرٹ وغیرہ۔ باریک لباس پہن کر اپنے بدن کی نمائش کرنے والیوں پر حدیثِ مبارکہ میں لعنت بھی کی گئی ہے۔(5) نیز باریک کپڑوں میں سے بدن چمکے يا سر کے بالوں يا گلے يا بازو یا کلائی یا پیٹ یا پنڈلی کا کوئی حصہ کھلا ہو یوں کسی نامحرم کے سامنے ہونا سخت حرامِ قطعی ہے۔(6)کیونکہ عورت کیلئے چہرے کی ٹکلی، دونوں ہتھیلیوں، دونوں پاؤں کے تلووں کے علاوہ تمام بدن، بلکہ سر کے لٹکتے ہوئے بال، گردن اور کلائیاں چھپانا بھی ضروری ہے۔(7) فی زمانہ خوفِ فتنہ کی وجہ سے نامحرم کے سامنے عورت کو اپنا چہرہ کھولنا بھی منع ہے۔(8)

شرعی مسئلہ: یاد رہے! اتنا باریک کپڑا جس سے بدن کی رنگت جھلکے یا اتنا باریک دوپٹہ جس سے بالوں کی سیاہی نظر آئے اسے پہن کر نماز پڑھی تو نماز نہ ہو گی۔ ایسا کپڑا جس سے بدن کا رنگ تو نہ چمکتا ہو لیکن وہ اتنا تنگ اور بدن سے چپکا ہوا ہوکہ دیکھنے سے عُضْو کی ہیئت معلوم ہوتی ہو، ایسے کپڑے سے نماز تو ہو جائے گی مگر اس عضو کی طرف دوسروں کو نگاہ کرنا جائز نہیں اور ایسا کپڑا لوگوں کے سامنے پہننا بھی منع ہے۔(9)

تفریح گاہوں،شادیوں وغیرہ پر ہماری حالت:فی زمانہ پردے کی اہمیت ہی ذہنوں اور دلوں سے ختم ہو چکی ہے۔ بالخصوص تفریح گاہوں، شادیوں اور دیگر فنکشنز کے موقع پر تو بے پردگی کے دلسوز مناظر خون کے آنسو رلاتے ہیں۔ حتی کہ ان مواقع پر بظاہر پردہ دار کہلانے والی خواتین بھی پردے کی تمام تر حدود کو یہ کہہ کر پامال کرتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ بھئی خوشی کے موقع پر تو سب چلتا ہے۔ حالانکہ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ سب نہیں چلتا بلکہ خوشی ہو یا غمی صرف اللہ پاک و رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا حکم ہی چلتا ہے۔

یاد رکھئے! پردہ بلاشبہ مسلم عورت کی پہچان، ہر عورت کی زینت اور عزت و عصمت کا محافظ ہی نہیں بلکہ اللہ پاک و رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رضا حاصل کرنے کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ جبکہ بے پردگی، حیا سوز لباس پہننا اور اپنے بدن کی نمائش کرنا اللہ پاک کی ناراضی اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، چنانچہ ایسے کام کرنے والیوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ کمزور اور نرم و نازک جسم جس کی آج وہ نمائش کرتی پھرتی ہیں اللہ پاک کی ناراضی کی صورت میں یہ قبر میں کیڑوں کی خوراک اور پھر جہنم کا ایندھن بنے گا۔

(2) مائل کرنے اور مائل ہونے سے مراد:یعنی دوپٹہ اپنے سر سے اور برقعہ اپنے منہ سے ہٹا دیں گی تاکہ ان کے چہرے ظاہر ہوں یا اپنی باتوں یا گانے سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خود ان کی طرف مائل ہوں گی۔(10)

(3)ان کے سر بختی اونٹنیوں کی کوہانوں کی طرح ہوں گے: مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ حدیثِ مبارکہ کے اس حصے کے تحت فرماتے ہیں:اس جملہ مبارکہ کی بہت تفسیریں ہیں۔ بہتر تفسیر یہ ہے کہ وہ عورتیں راہ چلتے شرم سے سر نیچا نہ کریں گی بلکہ بےحیائی سے اونچی گردن کیے،سر اٹھائے ہر طرف دیکھتی، لوگوں کو گُھورتی چلیں گی جیسے اونٹ کے تمام جسم میں کوہان اونچی ہوتی ہے ایسے ہی ان کے سر اونچے رہا کریں گے۔(11)

الغرض ہمیں مغربی تہذیب کو نہیں بلکہ صحابیات و صالحات کو اپنا رول ماڈل بنانا ہے۔ ہمیں ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن اور سیدہ خاتونِ جنت فاطمۃ الزہرا رضی اللہُ عنہا کے نقشِ قدم پر چلنا ہے۔ خاتونِ جنت رضی اللہُ عنہا کی شان تو یہ تھی کہ بعد از وصال کفن میں ڈھکے ہوئے مبارک بدن پر بھی کسی نامحرم کی نظر پڑنا گوارا نہ تھا۔ اے اللہ پاک! خاتونِ جنت رضی اللہُ عنہا کی شرم و حیا کا صدقہ ہمیں بھی شرم و حیا کی دولت عطا فرما۔

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

نہ دیکھ رشک سے تہذیب کی نمائش کو

کہ سارے پھول یہ کاغذ کے ہیں خدا کی قسم!

وہی ہے راہ ترے عزم و شوق کی منزل

جہاں ہیں عائشہ و فاطمہ کے نقشِ قدم

تری حیات ہے کردارِ رابعہ بصری

ترے فسانے کا موضوع ہے عصمتِ مریم


(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)



[1]مسلم،ص 1171، حدیث: 7194 ملخصاً 2جہنم میں لے جانے والے اعمال، 1/ 505 3مراۃ المناجیح، 5/255 4تفسیر صراط الجنان،3/289 5صحیح ابن حبان،7/502،حدیث:5723ماخوذاً 6فتاویٰ رضویہ، 22/217 7درمختار،2/ 95 8در مختار،2/97 9بہارشریعت،حصہ:1،3/480ملخصاً 0تفسیر صراط الجنان،8 / 22 A مراۃ المناجیح،5/ 256


جن باتوں کے ماننے سے بندہ اسلام میں داخل ہوتا ہے ان میں سے ایک وقوعِ قیامت کو ماننا بھی ہے، یعنی بندہ اس بات پر ایمان رکھے کہ اللہ پاک کے حکم سے قیامت ضرور اپنے وقت پر قائم ہو گی ، جب انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہو گا اور اسے اس کے اچھے یا برے کاموں کا صلہ ملے گا، اسی یوم الحساب کو مذہبِ اسلام میں قیامت کہتے ہیں۔ ([1])قرآنِ کریم میں لفظ قیامت 70 بار آیا ہے، قیامت کے ناموں کی تعداد کسی نے 100 اور کسی نے اس سے بھی زائد بتائی ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی قیامت کے کئی نام مذکور ہیں، بلکہ 13 سورتوں کا نام قیامت یا قیامت کی ہولناکیوں کے نام پر آیا ہے:

الدخان

الواقعہ

الحشر

التغابن

الحاقہ

القیامہ

النباء

التکویر

الانفطار

الانشقاق

الغاشیہ

الزلزلہ

القارعہ

قیامت سے 40 سال پہلے تمام مسلمانوں کی وفات ہو جائے گی وہ یوں کہ مسلمانوں کی بغلوں کے نیچے سے خوشبو دار ہوا گزرے گی جس سے تمام مسلمان فوت ہو جائیں گے۔(2) اس کے بعد 40 سال کا زمانہ ایسا گزرے گا کہ اس میں کسی کی اولاد ہو گی نہ کوئی 40 سال سے کم عمر کا ہو گا، اس وقت دنیا میں کافر ہی کافر ہوں گے۔(3) انہی پر قیامت قائم ہو گی، وہ یوں کہ جب پہلی بار صور پھونکا جائے گا تو قیامت قائم ہو جائے گی۔ اسی بات کا ذکر پارہ 23، سورۂ یٰسٓ کی 49 نمبر آیت میں یوں ہے:مَا يَنْظُرُوْنَ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً تَاْخُذُهُمْ وَ هُمْ يَخِصِّمُوْنَ0ترجمۂ کنز العرفان:وہ صرف ایک چیخ کا انتظار کررہے ہیں جو انہیں اس حالت میں پکڑ لے گی جب وہ دنیا کے جھگڑوں میں پھنسے ہوئے ہوں گے۔اس کے بعد دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو سب دوبارہ زندہ ہوکر اپنے رب کی طرف چل پڑیں گے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:وَ نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَاِذَا هُمْ مِّنَ الْاَجْدَاثِ اِلٰى رَبِّهِمْ يَنْسِلُوْنَ0(پ23،یٰسٓ:51)ترجمۂ کنز العرفان: اور صور میں پھونک ماری جائے گی تواسی وقت وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف دوڑتے چلے جائیں گے۔

وقوع قیامت کے منکر کا حکم:بے شک قیامت قائم ہو گی، اس کا انکار کرنے والا کافر ہے۔(4) علامہ قاضی عیاض مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ کی مشہور و معروف کتاب شفاء شریف میں ہے: جس نے قیامت کا انکار کیا وہ کافر ہے کیونکہ اس پر نص موجود ہے اور اس وجہ سے کہ قیامت کے حق ہونےکی خبر تواتر کے ساتھ منقول ہونے پر اُمّت کا اجماع ہے۔(5)

قیامت کی قسمیں:قِیامَت کی تین قسمیں ہیں: پہلی قیامت صغریٰ: یہ موت ہے۔ مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗجو مَر گیا اس کی قیامت قائم ہو گئی۔ دوسری قیامت وسطیٰ:وہ یہ کہ ایک قرن(یعنی ایک زمانہ) کے تمام لوگ فنا ہو جائیں اور دوسرے قرن کے نئے لوگ پیدا ہو جائیں۔ تیسری قیامت کبریٰ: وہ یہ کہ آسمان و زمین سب فناہوجائیں گے۔(6)

قیامت کب قائم ہوگی؟ وقوعِ قیامت کے متعلق اتنا تو سب جانتے ہیں کہ 10 محرم الحرام کو جمعہ کے دن قائم ہو گی، مگر کس سال قائم ہو گی؟ اسے اللہ جانتا ہے اور اسکے بتائے سے اسکے رسول۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے:عٰلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلٰى غَيْبِهٖۤ اَحَدًاۙ0 اِلَّا مَنِ ارْتَضٰى مِنْ رَّسُوْلٍ29،الجن:26، 27) ترجمہ کنز الایمان: غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔

وقوعِ قیامت کا درست وقت نہ بتانے میں حکمت: اس کا درست وقت نہ بتانے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ یہ جان کر کہ ابھی تو بہت وقت ہے ، لوگ نیک اعمال بجا لانے میں سستی کا مظاہرہ کریں گے۔

منکرینِ قیامت :یاد رہے! دنیا میں بعض لوگ ایسے ہیں جو رب کو مانتے ہیں نہ قیامت کو اور نہ کسی اور ضرورت دینی کو۔ بعض اس بات کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ خدا ہے اور دنیا ایک دن فنا ہو جائے گی ، مگر قیامت کو نہیں مانتے، حالانکہ ہر عقل مند شخص جانتا ہے کہ جب رب کو مان لیا تو پھر قیامت کا انکار کرنا گویا کہ اس کی قدرت و حکمت کو جھٹلانا ہے۔ بعض یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قیامت حق ہے تو نظر کیوں نہیں آتی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ہم اس دنیا کا مکمل مشاہدہ نہیں کر سکتے جو کہ آسانی سے نظر آ رہی ہے تو اس دنیا میں رہ کر اس عالم قیامت کو کیسے دیکھ سکتے ہیں جس کا تعلق غیب سے ہے یعنی ان مشاہدات کے لئے جس لطافت کی ضرورت ہے وہ ہر انسان کو میسر نہیں لیکن جسے اللہ چاہے وہ غیبی حقیقتوں کا مشاہدہ کرلیتے ہیں۔(7) حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مکی دور میں کفار سب سے زیادہ وقوعِ قیامت کا ہی انکار کرنے والے تھے، چنانچہ اس وقت سب سے زیادہ آیات ایسی نازل ہوئیں جن میں قیامت کا حق و سچ ہونا ہی مذکور ہے۔ ذیل میں وقوعِ قیامت پر چند نقلی و عقلی دلائل مختصراً ذکر کئے جا رہے ہیں :

وقوعِ قیامت پر نقلی دلائل: سورہ حج کی ابتدائی آیات میں اللہ پاک نے جہاں تخلیق انسانی کے مراحل کو بیان فرمایا وہاں یہ بھی ذکر فرمایا کہ اللہ پاک مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد مارنے اور پھر دوبارہ اٹھانے پر بھی قادر ہے،نیز فرمایا: اَنَّ السَّاعَةَ اٰتِيَةٌ لَّا رَيْبَ فِيْهَا١ۙ (پ17،الحج:7)ترجمۂ کنز العرفان:یہ کہ قیامت آنے والی ہے اس میں کچھ شک نہیں۔ایک مقام پر ہے: لَيَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ١ؕ (پ5،النساء:87)ترجمہ کنز العرفان: وہ ضرور تمہیں قیامت کے دن اکٹھا کرے گا جس میں کوئی شک نہیں۔

وقوعِ قیامت پر عقلی دلائل : نظامِ دنیا ہے کہ جب کوئی محنت و مشقت کرتا ہے تو اپنے کام کی جزا پاتا ہے اور جو اپنے مالک کی یا اپنے ملکی قوانین کی نافرمانی و خلاف ورزی کرتا ہے تو سزاوار ٹھہرتا ہے، لہٰذا قیامت کا قیام بھی ضروری ہے تاکہ اچھوں کو ان کے کاموں کی جزا ملے اور بروں کو ان کے کئے کی سزا۔

بسا اوقات یوں ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ دنیا میں ظلم سہتے رہتے ہیں، انہیں زندگی میں راحت کم ملتی ہے اور بہت سے ایسے ہیں جو ظلم کرتے ہیں لیکن دنیا میں انہیں سزا نہیں ملتی اور ظالم کا بغیر سزا کے رہ جانا اور مظلوم کا بغیر جزا کے رہ جانا اللہ پاک کی مصلحت کے خلاف ہے اور عقل کے بھی خلاف ہے، نیزجزا و سزا کے معاملہ سے پہلے ضروری ہے کہ اس جہان کو مکمل ختم کیا جائے کیونکہ یہ جہان دار العمل ہے، اس لئے ایک اور جہان ہو جو صرف دار الجزا ہو اور وہاں جزا و سزا کا معاملہ ہو اور وہی قیامت ہے۔

اسی طرح اگرغور کریں تو معلوم ہوگا کہ انسان دنیا میں اچانک نہیں آیا بلکہ اس سے قبل کئی عالموں میں رہ چکا ہے مثلاً عالمِ ارواح پھر شکمِ مادر پھر عالمِ دنیا جب یہ چیزیں عقل کے دائرے میں آتی ہیں تو اب اگر چوتھا عالَم یعنی عالمِ قیامت بھی مان لیا جائے تو ا س میں کیا عقلی قباحت ہے؟ (8)

انکارِ قیامت کے نقصانات:منکر قیامت فطرت سے باغی ہو جاتا ہے، وہ اچھے اخلاق سے محروم ہو جاتا ہے۔ مالک کائنات کی قدرت، حکمت اور مصلحت سے فرار اختیار کرتا ہے، نفسانی خواہشات میں مبالغہ کرتا ہے، کفر و ضلالت، اور سرکشی پر اتر آتا ہے، بے باک ہو جاتا ہے، اعمال حسنہ سے بیزار ہو جاتا ہے، شیطان اور نفس کا غلام بن جاتا ہے۔


(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)



[1]عقیدۂ آخرت، ص 4 2مسلم،ص1201،حدیث:7373 3بہار شریعت، حصہ: 1 ، 1/127 4 بہار شریعت، حصہ: 1 ، 1/129 5شفاءشریف،2/290 6ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص386 7عقیدۂ آخرت، ص 36 ملخصاً 8عقیدۂ آخرت، ص 5 ملخصاً


ہر ماہ کسی نبی کی بشارت: حضرت آمنہ رضی اللہُ عنہا جب امید سے ہوئیں تو پہلے ماہ حضرت آدم تشریف لائے اور انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے متعلق خبر دی۔دوسرے ماہ حضرت ادریس علیہ السّلام تشریف لائے اور حضور کے فضل و کرم اور شرف عالی کی خبر دی۔تیسرے ماہ حضرت نوح علیہ السّلام تشریف لائے اور بتایا کہ آپ کا نورِ نظر فتح و نصرت کا مالک ہے۔ چوتھے مہینے حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے تشریف لا کر حضور کے قدر و شرف کے متعلق آگاہ فرمایا۔ پانچویں مہینے حضرت اسماعیل علیہ السّلام نے آ کر آپ کو بتایا کہ جس ہستی کی آپ ماں بننے والی ہیں وہ صاحب مکارم و عزت ہے۔ چھٹے مہینے حضرت موسی علیہ السّلام نے تشریف لا کر حضور کی قدر و جاہ عظیم کے متعلق آپ کو بتایا۔ ساتویں مہینے حضرت داود علیہ السّلام نے آکر بتایا کہ آپ جس ہستی کی ماں بننے والی ہیں وہ مقامِ محمود، حوضِ کوثر ، لواءُ الحمد، شفاعتِ عظمیٰ اور روزِ ازل کا مالک ہے۔آٹھویں مہینے حضرت سلیمان علیہ السّلام نے آکر بتایا کہ آپ کو نبی آخر الزمان کی ماں بننے کا شرف ملنے والا ہے۔ پھر نویں مہینے حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے تشریف لا کر خبر دی کہ آپ کے نورِ نظر قول راست اور دین راجح کے مالک ہیں ۔ الغرض ہر ایک نبی نے انہیں فرمایا: اے آمنہ! آپ کو بشارت ہو کہ آپ دنیا و آخرت کے سردار کی ماں بننے والی ہیں، لہٰذا جب وہ پیدا ہوں تو ان کا نام محمد رکھئے گا۔([1])

ولادت کا ماہ و دن:مشہور یہ ہے کہ حضور کی ولادت باسعادت 12ربیع الاول شریف کو پیر کے دن ہوئی، نیز یہ کہ ولادت باسعادت کا مہینا ربیع الاول ہی تھا، محرم، رجب، رمضان یا کوئی دوسرا معزز و محترم ماہ نہ تھا کیونکہ حضور کے عزو شرف کا تعلق کسی مہینے سے نہیں، بلکہ مقامات کی طرح زمانے کو بھی آپ سے نسبت کی وجہ سے شرف حاصل ہوا۔ اگر آپ کی ولادت ان مہینوں میں سے کسی میں ہوتی تو یہ وہم کیا جاتا کہ آپ کو فلاں مہینے کی وجہ سے شرف اور مرتبہ ملا ہے، اس لئے اللہ پاک نے آپ کی ولادت ان مہینوں کے علاوہ رکھی تاکہ اس مہینے آپ کی عنایت اور آپ کے ذریعے اس کی کرامت کا اظہار ہو۔ جب جمعۃ المبارک کا یہ عالم ہے کہ اس دن حضرت آدم علیہ السّلام کی ولادت مبارکہ ہوئی اور اس میں ایک ایسی ساعت ہے جس میں کوئی مسلمان بندہ بھلائی طلب کرے تو اللہ پاک اسے عطا کرتا ہے لہٰذا اس وقت کے متعلق آپ کیا کہیں گے جس میں تمام رسولوں کے سردار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادت ہوئی۔ اللہ پاک نے اپنے محبوب کی ولادت کے دن یعنی پیر کو وہ عبادات نہ رکھیں جو جمعہ کے دن رکھیں کہ جس میں حضرت آدم پیدا ہوئے ، جس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ پاک نے حضور کے احترام و اکرام کے طور پر آپ کے وجود مسعود کی وجہ سے پیر کے دن آپ کی امت پر تخفیف رکھی، چونکہ آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا لہٰذا اس رحمت میں سے ایک بات یہ ہے کہ آپ کی ولادت کے دن کسی خاص عبادت کا مکلف نہیں بنایا۔(2)

حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے کہ حضور پیر کے دن پیدا ہوئے۔ پیر کو ہی آپ نے اعلانِ نبوت فرمایا، پیر کے دن آپ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی اور پیر کے دن ہی مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے، نیز حجر اسود کو بھی پیر کے دن نصب فرمایا۔ اسی دن فتح مکہ کا واقعہ ہوا اور سورہ مائدہ کا نزول بھی اسی دن ہوا۔(3)

یہ بھی مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادت پیر کے دن فجر کے وقت ہوئی۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں: مر الظہران کے مقام پر ایک شامی راہب کہا کرتا تھا: اے اہل مکہ! عنقریب تم میں ایک بچہ پیدا ہو گا، اہل عرب اس کے دین کو اختیار کریں گے اور وہ عجم کا بھی مالک ہو گا۔ یہ اس (بچے کی پیدائش) کا زمانہ ہے۔ چنانچہ جب بھی مکہ مکرمہ میں کوئی بچہ پیدا ہوتا اس کے متعلق پوچھتا۔ پھر جب حضور کی ولادت ہوئی تو حضرت عبد المطلب اسی صبح راہب کے پاس گئے تو وہ آپ سے کہنے لگا: (اے عبدالمطلب!) اس بچے کے باپ بن جائیے! یقیناً وہ بچہ جس کے متعلق میں آپ سے بیان کرتا ہوں وہ پیر کے دن پیدا ہو گا، اسی دن اعلانِ نبوت کرے گا اور اس کا وصال بھی اسی دن ہو گا۔ اس پر حضرت عبد المطلب نے جب اسے یہ بتایا کہ آج پیر کے دن ہمارے ہاں بھی بچہ پیدا ہوا ہے تو اس نے پوچھا: آپ نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ جب بتایا کہ اس کا نام محمد رکھا ہے تو بولا: اللہ کی قسم! میں جانتا تھا کہ وہ بچہ آپ کے ہی گھرانے میں پیدا ہو گا، اس کی پہچان کی تین خصوصیات پائی جا رہی ہیں: (1) اس کا ستارہ گزشتہ رات طلوع ہوا (2) وہ آج کے دن پیدا ہوا اور (3)اس کا نام محمد ہے۔(4)

شب قدر افضل ہے یا شب میلاد؟ بلاشبہ حضور کی ولادت کی رات شب قدر سے افضل ہے اور اس کی تین وجوہ ہیں: (1) شبِ میلاد حضور کے ظہور کی رات ہے جبکہ شب قدر حضور کو عطا کی گئی اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ جس شے کو کسی کی وجہ سے شرف حاصل ہو وہ اس ذات سے زیادہ شرف والی نہیں ہو سکتی، لہٰذا اس اعتبار سے میلاد شریف کی رات افضل ہے۔ (2) شب قدر میں فرشتے اترتے ہیں جبکہ شب میلاد میں وہ ہستی جلوہ گر ہوئی جو فرشتوں سے بھی افضل ہے۔ یہی زیادہ پسندیدہ قول ہے۔(3)شب قدر میں صرف امت محمدیہ پر فضل خداوندی ہوتا ہے جبکہ شبِ میلاد تمام موجودات پر فضل ہوا کہ اللہ پاک نے حضور کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا، اس طرح تمام مخلوق کو نعمت حاصل ہوئی۔ لہٰذا اس رات کا نفع عام ہوا اور یہ رات افضل قرار پائی۔(5)

شب ولادت کے واقعات

ستاروں کا جھکنا:حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہُ عنہ کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ میں حضور کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ ماجدہ بی بی آمنہ کے پاس موجود تھی۔ میں دیکھ رہی تھی کہ ستارے جھکنے لگے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ یہ مجھ پر آ گریں گے، جب حضور پیدا ہوئے تو حضرت آمنہ سے ایسا نور نکلا جس نے در و دیوار کو جگمگا دیا اور مجھے ہر طرف نور ہی نور نظر آنے لگا۔(6)جبکہ شواہد النبوۃ میں ہے کہ حضرت عثمان کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ حضور کے نور کے سامنے چراغ کی روشنی بھی ماند تھی، میں نے اس رات 6 نشانیاں دیکھیں: (1)جب حضور پیدا ہوئے تو آپ نے پیدا ہوتے ہی سب سے پہلے سجدہ کیا۔ (2)جب حضور نے اپنا سرِ مبارک سجدہ سے اٹھایا تو نہایت فصاحت کے ساتھ فرمایا:لا الہ الا اللہ انی رسول اللہ۔(3)حضور کی پیدائش پر تمام گھر روشن ہو گیا۔ (4)حضور پیدا ہوئے تو میں نے آپ کو نہلانا چاہا لیکن ہاتف غیبی سے آواز آئی: اپنے آپ کو تکلیف میں نہ ڈالئے ہم نے آپ کو پاک و صاف پیدا کیا ہے۔ (5)پھر جب میں نے معلوم کرنا چاہا کہ لڑکی ہے یا لڑکا تو میں نے آپ کو ختنہ شدہ اور ناف کٹی ہوئی دیکھی۔(6)پھر جب میں نے خیال کیا کہ آپ کو کسی کپڑے میں لپیٹوں تو میں نے آپ کی پشت پر مہرِ نبوت دیکھی اور آپ کے کندھے کے درمیان لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا دیکھا۔(7)


(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)



[1] رسائل میلاد مصطفیٰ، مولد العروس اردو، ص 225 2 مواہب اللدنیہ ، 1/ 75 3 مواہب اللدنیہ ، 1/ 75 4 مواہب اللدنیہ ، 1/ 76 5 مواہب اللدنیہ ، 1/ 77 6دلائل النبوۃ لابی نعیم، ص 76، حدیث: 76 7 شواہد النبوۃ مترجم، ص 70


سابقہ شمارے میں حضرت یوسف علیہ السّلام کی سیرت اور چند معجزات ذکر کئے گئے تھے، اب آپ کے ان ایمان افروز اور دلچسپ معجزات و عجائبات کو بیان کیا جا رہا ہے جو آپ کو کنویں میں اور اس کے بعد مصر تک پہنچنے کے راستے میں اور پھر مصر میں پیش آئے۔ ان تمام باتوں کو امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب بحرالمحبۃ میں ترتیب وار ذکر کیا ہے، ذیل میں مذکور تمام معجزات و عجائبات اور آپ علیہ السّلام سے متعلق مزید مفید معلومات امام غزالی کی مذکورہ کتاب سے ہی لئے گئے ہیں:

کنویں میں تنہائی کے ساتھی: جب حضرت یوسف علیہ السّلام کے بھائیوں نے آپ کو کنویں میں ڈالا تو اللہ پاک نے آپ کی حفاظت کے لئے اور کنویں میں تنہائی و وحشت دور کرنے کے لئے آپ کے پاس جنت سے غلام بھیج دیئے ۔([1])

50 سال بعد آخر خواب پورا ہوا: حضرت یوسف علیہ السّلام کو ان کے بھائیوں سے مالک بن زعر نامی مصری شخص نے خریدا تھا، اس نے بچپن میں خواب دیکھا تھا کہ کنعان کی سر زمین پر سورج آسمان سے اتر کر اس کی آستین میں داخل ہوا، پھر نکل کر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا، اس کے بعد ایک سفید بادل سے اس پر موتی برسے جنہیں چن کر اس نے اپنے صندوق میں بھر لیا۔ اس خواب کی تعبیر اسے یہ بتائی گئی کہ اسے ایک غلام ملے گا، جو حقیقت میں غلام نہ ہو گا، اس کی برکت سے وہ اتنا دولت مند ہو جائے گا کہ اس کے اثرات قیامت تک اس کی اولاد میں باقی رہیں گے، اس کی دعا کی برکت سے وہ جہنم سے نجات کا اور جنت کا حق دار ٹھہرے گا، اس کی اولاد کثیر ہو گی اور ہمیشہ اس کا نام و ذکر باقی رہے گا۔ چنانچہ وہ فوراً کنعان پہنچا کہ کسی طرح وہ غلا م مل جائے، مگر ہاتف غیب سے آواز آئی اتنی جلدی نہ کر! ابھی اس ملاقات میں 50 سال باقی ہیں۔ پھر بھی وہ ہر سال اس علاقے میں دو بار جاتا۔ جب 50 سال پورے ہوئے تو اس نے اپنے بشریٰ نامی غلام سے کہا: اگر اس بار تجھے وہ غلام مل گیا کہ جس کی تلاش میں میں اتنے عرصے سے بھٹک رہا ہوں تو تجھے اپنا نصف مال ہی نہیں دوں گا بلکہ تو میری جس بیٹی سے چاہے گا اس سے تیری شادی بھی کروا دوں گا۔ چنانچہ

جب وہ دمشق سے کنعان پہنچا، تو دور سے ہی کیا دیکھتا ہے کہ پرندے (راستے میں موجود ایک ویران اور خشک) کنویں کا طواف کر رہے ہیں، حقیقت میں وہ فرشتے تھے جنہیں اللہ پاک نے بھیجا تھا۔ مالک نے قافلہ والوں سے کہا: اس خشک کنویں کی طرف چلو! ہو سکتا ہے اس سے پانی نکل آیا ہو۔ جب وہ کنویں کے قریب پہنچا اور اس کی سواریوں کے جانور یعنی گدھوں اور اونٹوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی خوشبو سونگھی تو وہ اپنی پیٹھ کا بوجھ پھینک کر کنویں کی طرف دوڑنے لگے۔ مالک نے قافلے کو مناسب مقام پر ٹھہرا کر اپنے غلام بشریٰ اور خادم مامل کو ایک ڈول دے کر پانی لانے کے لئے کنویں کی طرف بھیجا۔ (2)

بے مثل حسن کا خریدار کون ہو سکتا ہے؟ادھر حضرت جبریل علیہ السّلام نے حاضر خدمت ہو کر حضرت یوسف علیہ السّلام سے عرض کی: چلئے! پوچھا: کہاں؟ عرض کی: آپ کو یاد ہے کہ ایک دن آپ نے شیشے میں اپنا حسن و جمال دیکھا تو دل میں کیا کہا تھا؟ ارشاد فرمایا: ہاں! میں نے یہ کہا تھا کہ اگر میں غلام ہوتا تو کوئی بھی میری قیمت ادا نہ کر پاتا۔ عرض کی: آج وہی دن ہے، چلئے اپنی قیمت دیکھ لیجئے۔ جب آپ ڈول میں بیٹھ کر باہر آئے تو مامل خادم پکار اٹھا: اے بشریٰ! یہ تو وہی غلام ہے جسے ہم 50 سال سے تلاش کر رہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے فوراً آپ کو قافلے میں چھپا دیا۔ (3)

حضرت یوسف کے بھائیوں اور امیر قافلہ کے درمیان مکالمہ: صبح کے وقت آپ کے بھائی آپ کو دیکھنے کے لئے آئے تو کنویں میں نہ پا کر قافلے والوں کو گھیر لیا اور ان سے کہنے لگے کہ ہمارا ایک غلام بھاگ گیا ہے، ہمیں معلوم ہوا ہے کہ وہ اس کنویں میں چھپا ہوا تھا اور تم لوگوں نے اسے نکال لیا ہے، ہمیں بتاؤ! تم نے اس کے ساتھ کیا کیا ہے؟ اسے ہمارے سامنے لاؤ! ورنہ ہماری ایک پکار پر تمہاری روحیں تمہارے جسموں سے جدا ہو جائیں گی۔ حضرت یوسف علیہ السّلام بھی ان کی باتیں سن رہے تھے، چنانچہ انہوں نے قافلے والوں سے فرمایا کہ انہیں ان کے سامنے جانے دیا جائے، جب آپ کے ایک بھائی نے آپ کو دیکھا تو وہ آپ کے پاس آ کر کہنے لگا: اگر آپ نے غلامی کا اقرار کر لیا تو محفوظ رہیں گے ورنہ ہم آپ کو واقعی قتل کر دیں گے۔ تو آپ نے قافلے والوں سے فرمایا: یہ لوگ سچ کہہ رہے ہیں، یہی میرے گھر والے ہیں اور میں واقعی غلام ہوں۔ پھر جب امیر قافلہ مالک نے آپ سے یہ پوچھا کہ اس ویران کنویں اور اپنے بھائیوں سے آپ کیسے محفوظ رہے؟ارشاد فرمایا:لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی برکت سے۔امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ عبرانی زبان میں اللہ پاک کی کتاب تورات میں یونہی لکھے ہوئے تھے۔ (4)

بے مثل حسن کی بے مول قیمت: بہرحال ابھی تک مالک کو چونکہ حضرت یوسف علیہ السّلام کے غلام ہونے پر یقین نہ آیا تھا، اس لئے اس نے ایک بار پھر آپ سے پوچھا :آپ حقیقت میں کون ہیں؟ ارشاد فرمایا: میں غلام ہیں ۔ مگر اس بار یہ کہتے ہوئے اشارے سے یہ اظہار بھی کر دیا کہ میں ان کا نہیں بلکہ اللہ کا بندہ ہوں۔ مالک بن زعر چونکہ ہر قیمت پر آپ کو اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا لہٰذا اس نے آپ کے بھائیوں سے کہا: اپنے اس غلام کو کتنے میں بیچو گے؟ بولے: اگر تم اس کے عیبوں کے باوجود اسے خریدنا چاہتے ہو تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ مالک نے فوراً رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ حضرت یوسف علیہ السّلام یہ سب دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ ان کے بھائی کثیر مال و دولت مانگیں گے، مگر آپ کے بھائیوں نے مالک بن زعر کے پیش کردہ کثیر درہم و دینار میں سے صرف مٹھی بھر ہی لئے۔ چنانچہ ان کی حسب منشا انہیں رقم ادا کرنے کے بعد مالک بولا کہ کوئی ایسی تحریر بھی لکھ دو کہ یہ تمہارا غلام تھا اور تم نے اسے مجھے بیچ دیا ہے۔ لہٰذا انہوں نے یہ سب بھی لکھ دیا۔(5)

بھائیوں سے الوداعی ملاقات: جب حضرت یوسف علیہ السّلام اپنی آبائی سرزمین سے کوچ کرنے لگے تو انہوں نے مالک سے فرمایا: مجھے تھوڑی دیر کی اجازت درکار ہے تا کہ میں اپنے مالکوں کو الوداع کہہ سکوں، ہو سکتا ہے اب میں کبھی لوٹ کر واپس نہ آ سکوں اور آج کے بعد کبھی ان سے مل نہ سکوں۔ اس پر مالک بولا: تم کیسے غلام ہو! انہوں نے تمہارے ساتھ جو سلوک کیا ہے، اب بھی تم ایسا چاہتے ہو؟ ارشاد فرمایا: ہر فرد کا فعل اس کے ظرف کے مطابق ہوتا ہے۔ بہرحال اجازت ملنے پر جب بھائیوں کے پاس گئے تو فرمایا: تم نے مجھ سے اگرچہ شفقت بھرا سلوک نہیں کیا مگر میری دعا ہے کہ اللہ پاک تم سب پر رحم فرمائے، اسی طرح تم سب نے تو مجھے مقام ذلت پر پیش کر دیا ہے مگر میری دعا ہے کہ اللہ پاک تمہیں عزتیں عطا فرمائے، تم نے بھلے مجھے بیچ دیا ہے مگر میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیشہ تمہاری حفاظت فرمائے، اسی طرح تم نے بھلے مجھے بے یار و مددگار بنا دیا ہے مگر میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیشہ تمہاری مدد و نصرت فرمائے۔ اس کے بعد آپ رونے لگے اور آپ کے تمام بھائی بھی رونے لگے اور بولے: ہم اپنے فعل پر شرمندہ ہیں، مگر ہم آپ کو واپس نہیں لے جا سکتے۔(6)


(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے اگست 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)



[1] بحر المحبۃ، ص 28 2 ص 30 3 ص 31 4 ص 34 5 ص 36 6 ص 39