عشقِ رسول لازوال اور بہت بڑی نعمت ہے،جن کےدل محبّتِ رسول سےسرشار ہوتے ہیں ان کی روح بھی اس کی مِٹھاس کومَحسُوس کرتی ہے،ان کی زِنْدَگیاں جہاں اس پاکیزہ مَحبَّت سےسنورتی ہیں وہیں یہ مَحبَّت تاریکی میں اُمِّید کا چراغ بن کر انہیں راہِ حَق سے بھٹکنے سےبھی بچاتی ہے،محبت طبیعت کا کسی لذیذ شے کی طرف مائل ہوجانے کو کہتےہیں اور جب یہ میلان مضبوط اورشدید ہوجائے تو اسے”عشق“ کہتے ہیں۔ (احیاء العلوم، 5/6)یادرکھئے!اس دنیا میں کئی خوش نصیب ہستیاں ایسی گزری ہیں جن کی زندگیاں عشقِ رسول کا نمونہ تھیں،ان خوش نصیب ہستیوں میں 13 ویں صدی کے آخر میں ہند کےشہر بریلی میں پیدا ہونے والے ایک عاشقِ رسول جوسر سے پاؤں تک عشقِ رسول کا نمونہ تھے،اس خوش نصیب عاشقِ رسول کانام احمدرضاتھا،اس بات میں شک نہیں کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان اپنے وقت کے بہت بڑے عاشقِ رسول تھے،اعلیٰ حضرت کی پوری زندگی عشقِ رسول میں گزری ہے۔آپ گفتگو فرماتے تو الفاظ کی صورت میں عشقِ رسول کےجام پلاتے،آپ قلم اُٹھاتےتوتحریرکی صورت میں عشقِ رسول کوفروغ دیتےنظرآتےگویا کہ آپ کی زندگی کاایک ایک لمحہ عشقِ رسول کےجام پینےاور پِلانے میں صرف ہوا ہے۔ آپ کی شاعری آپ کےعشقِ رسول کاصحیح پتہ دیتی ہے،آپ اپنے عشقِ رسول کا اظہار بھی شعر میں یو ں ظاہر کرتے ہیں :

اِنہیں جانا اِنہیں مانا نہ رکھا غیر سےکام

لِلّٰہِ الحمد میں دُنیا سے مسلمان گیا

آپ کاعشقِ رسول اس درجۂ کمال پرتھا کہ آج سو سال سےز یادہ عرصہ گزرنے کے باوجودبھی اعلیٰ حضرت کے لکھے ہوئے اشعار جہاں پڑھےجائیں سننے والےاپنے دلوں میں عشقِ رسول کی تڑپ کو مزید بڑھتا ہوامحسوس کرتے ہیں۔ ان کے دل جھوم اٹھتے ہیں اور بِلا اختیار زبان سے سبحان اللہ کی صدائیں نکلتی نظر آتی ہیں۔آپ نے اپنے نعتیہ دیوان حدائقِ بخشش میں کئی مناظرِ قدرت کوعشقِ رسول میں ڈوب کر عشقی رنگ میں سمجھایا ہے۔ ان مناظر میں سے ایک سورج بھی ہے۔ یہ سورج ہے جو تمام جہاں کو اپنے نور سے روشن کررہا ہے، یہی سورج ہےجو ہزاروں سال سےدنیا کوجگمگا رہا ہےمگراس کانورکم نہیں ہورہا۔ یہی سورج ہےجوہر روز آ کر نور کی خیرات بانٹتاہے۔ یہی سورج ہے کہ جس کے طلوع وغروب ہونے سےدنیا کانظام چل رہا ہے،اس سورج کو کائنات کےمناظرمیں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔امام احمدرضاخان کی عشق کی کتاب میں اس سورج کی حقیقت کیاہے،ملاحظہ کیجئے: چنانچہ

میرے امام اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں:

جس کو قُرصِ مہر سمجھا ہے جہاں اے مُنْعِمُو!

اُن کے خوانِ جُود سے ہے ایک نانِ سوختہ

(حدائقِ بخشش،ص136)

امام عشق و محبت اعلیٰ حضرت اس شعرمیں فرماتے ہیں کہ اےتاجدارو! اے بادشاہو!سارا جہاں جسےسورج کی ٹکیا کہتا ہے،لوگ جسےآفتاب کہہ کر پکارتے ہیں، جسے سورج کا نام دیا جاتا ہے۔یہی سورج اوریہی آفتاب، جانِ عالم، نورِ مجسم کے دستر خوان کی جلی ہوئی روٹی ہے، ذرا سوچوکہ جس کریم آقا،مدینے والےمصطفےٰ ﷺ کے دسترخوان کی جلی ہوئی روٹی سے کائنات کا گزارہ ہو رہا ہے تو ان کے دستر خوان کی وہ روٹیاں جوجلن سےمحفوظ ہیں، ان کا کیا حال ہوگا اور جس محبوب کی جلی ہوئی روٹی کی طرف دیکھنے سے آنکھیں چُنْدِھیا جاتی ہیں، اس کے اپنے چہرۂ مبارک کے انوار کا عالم کیا ہوگا؟ ۔کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:

قدموں میں جبیں کو رہنے دو چہرے کا تصوّر مشکل ہے

جب چاندسے بڑھ کر ایڑی ہے تو رُخسار کا عالَم کیا ہوگا

چاند اور تخیلاتِ رضا

عاشق مزاج شاعراپنےمحبوب کےحُسن کو ،محبوب کی خوبصورتی کو،محبوب کی دلکشی کواور محبوب کی رنگت کو چاند سےتشبیہ دیتے ہیں مگر جس طرح اعلیٰ حضرت نے چاند کو نعتِ محبوب کے لئے استعمال کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

برقِ اَنگُشْتِ نبی چمکی تھی اُس پر ایک بار آج تک ہے سِینۂ مہ میں نشان ِ سوختہ

(حدائقِ بخشش، ص136)

اعلیٰ حضرت اس شعر میں فرماتےکہ نبی کریم کےمبارک ہاتھ کی نورانی انگلی ایک مرتبہ چمک کر چاند پر پڑی مگر آج تک چاند کے سینے میں جلن کا نشان موجود ہے۔

پھر ایک اور شعر میں چاندکو یہ داغ مٹانےکاطریقہ بھی بتاتے ہیں،چنانچہ” قصیدۂ معراج“ میں فرماتے ہیں:

سِتَم کِیا کیسی مَت کٹی تھی قمر! وہ خاک اُن کے رہ گُزر کی

اُٹھا نہ لایا کہ مَلتے مَلتے یہ داغ سب دیکھتا مٹے تھے

(حدائقِ بخشش، ص232)

یعنی اے چاند تمہاری عقل کو کیا ہوا کہ اتنا بڑا ستم کر بیٹھے، جب معراج کی رات آقا کریم،رسولِ عظیم ﷺ آسمانوں کی سیر کے لئے تشریف لائے تھے تو ان کے رہ گزر کی خاک لے جاتے اور اپنے داغوں پر ملتے رہتے۔ تمہارا اس خا ک کو ملنا تھا کہ تمہارے سارے داغ ختم ہو جاتے۔

ایک اور جگہ اعلیٰ حضرت اس چاند کو رسولِ کریمﷺ کے بچپنے کا کھلونا قرار دیتےہیں جس میں اس حدیثِ پاک کی طرف اشارہ ہےکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نےعرض کی:یارسول اللہﷺ!مجھے تو آپ کی علاماتِ نبوت نے دِینِ اِسلام میں داخل ہونے کی دعوت دی تھی۔میں نےدیکھا کہ آپ گہوارے(پنگھوڑے)میں چاند سےباتیں کرتےاور اپنی اُنگلی سےجس طرف اشارہ فرماتے چانداُسی طرف جھک جاتا۔(جمع الجوامع، 3/212، حدیث:8361)اس روا یت کو پڑھ کر بریلی کے امام اعلیٰ حضرت نے قلم اٹھا یا اور اپنےعشق کو اس شعر میں یوں بیان کیا:

چاند جھک جاتا جِدھر اُنگلی اٹھاتے مَہد میں

کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا

(حدائقِ بخشش، ص249)

ایک اور مقام پر اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں :

ماہِ مدینہ اپنی تجلّی عطا کرے!

یہ ڈھلتی چاندنی تو پہر دو پہر کی ہے

(حدائقِ بخشش، ص202)

یعنی ایک آسمانوں کا چاند ہےاور ایک مدینےکا چاند ہے۔آسمانوں کا چاند بھی روشنی بکھیرتا ہے مدینے کا چاند بھی نور کی خیرات بانٹتا ہے، آسمانوں کا چاند جو روشنی دیتا ہے وہ ایک دو پہر تک کے لئے ہوتی ہے جبکہ مدینے کا چاند اگر نور کی جھلک بھی عطا فرما دےتو دنیا و آخرت دونوں روشن ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے ایک اور مقام پر نور کی خیرات لینے کے لئے عرض کرتےہیں:

چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے

مِرا دِل بھی چمکا دے چمکانے والے

(حدائقِ بخشش، ص158)

چودھویں کا چاند اور طیبہ کا چاند

حدیثِ پاک میں ہےصحابی رسول،حضرت جابر بن سَمُرہ فرماتے ہیں:ایک مرتبہ میں نےرسول الله کو چاندنی رات میں سُرخ(دھاری دار) حُلّہ پہنے ہوئےدیکھا،میں کبھی چاندکی طرف دیکھتا اورکبھی آپ کےچہرۂ اَنورکو دیکھتا،تو مجھےآپ کا چہرہ چاند سے بھی زِیادہ خُوبصُورت نظر آتا تھا ۔ (ترمذی ، ۴/۳۷۰، حدیث:2820)

امام عشق و محبت ، اعلی حضرت نے اس حدیث کو اپنے ان اشعار میں یوں بند کیا کہ

خُورشید تھاکِس زور پر

کیا بڑھ کے چمکا تھا قمر

بے پردہ جب وہ رُخ ہوا

یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

(حدائقِ بخشش، ص110)

یعنی اعلی حضرت اس شعرمیں فرماتے ہیں کہ عین دوپہر کے وقت سورج اپنےعروج پر ہو، پھر رات ہو جائے اور چاند اپنے جوبن پرآجائے، ایسے میں جانِ عالَم کا رُخِ انور پردے سے باہرآئے تو سورج بھی شرما جائے گا، چاند بھی آنکھیں چُرائے گا اور منہ چھپائے گا کیونکہ جیسے میرے سرکار ہیں ایسا نہیں کوئی۔

حضورنبی کریم ﷺ کو اللہ عزوجل نے بے مثل و مثال بنایا ہے آپ جیسا نہ آپ سے پہلے کوئی ہوا اور نہ قیامت تک ہو گا، بلکے انسان تو انسان اللہ کریم کے فرشتوں کا بھی یہی کہنا ہے جسے امام عشق و محبت نے اپنے ان اشعار میں بیا ن فرمایا:

یہی بولے سدرہ والے

چمن جہاں کے تھالے

سبھی میں نے چھان ڈالے

تیرے پائے کا نہ پیایا

تجھے یک نے یک بنایا

یعنی سدرۃ المنتہی کے تمام فرشتے بمع تمام فرشتوں کے سردار سیدنا جبریل امین علیہ السلام بیک زبان ہو کر عرض کرتے ہیں کہ ہم نے پورے جہان کوچھان ڈالالیکن آپ جیسا کوئی نہیں پایا،اس شعر میں اس حدیث مبارکہ کی طرف اشارہ ہے کہ سیدنا جبریل امین حضور کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں :قلبت مشارق الا رض و مغاربھافلم اجد رجلا افضل من محمد۔گویا جبریل امین عرض کرتے ہیں میں نے سارا جہان پھرا ہے ،بڑے بڑے حسین دیکھے لیکن آپ جیسا حسین و افضل کوئی نہیں دیکھا۔(معجم اوسط،4/ 373 ،حدیث:6285)

اے عاشقانِ اعلیٰ حضرت!ان اشعار کو پڑھ کر یوں لگتاہے واقعی اعلیٰ حضرت سچے عاشقِ رسول تھے، بلکہ عاشقانِ رسول کے قافلے کے سپاہ سالار تھے، اعلیٰ حضرت ساری زندگی عشقِ رسول کےجام پلاتے رہے، اعلیٰ حضرت ساری زندگی عشقِ رسول کو فروغ دیتے رہے، اعلیٰ حضرت ساری زندگی اُمّت کو عشقِ رسول کا درس دیتے رہے اور یہ اسی عشقِ رسول کا صلہ تھا کہ نبی کریم،رؤف رحیم نے اپنے اس عاشقِ صادق کو حالتِ بیداری میں اپنا رخِ والضحی دیکھاکر اپنی زیارت سے مشرف فرمایا۔ یادرکھئے! عشقِ رسول صر ف نعرے لگانے سے یا محبت رسول کے دعوے کرنے سے نہیں بلکے اپنے کردار کو فرامینِ مصطفےٰ اور سنت ِمصطفےٰ کے سانچے میں ڈھالنے سے نصیب ہوگا۔ آئیے ! عر سِ ا علی حضرت کے موقع پر یہ نیت کرتے ہیں کہ کہ ہم بھی اپنے ظاہرو باطن کو سنّتِ رسول کے سانچے میں ڈھالیں گے ۔ان شاء اللہ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی اعلیٰ حضرت کے طفیل حقیقی عشقِ رسول عطا فرمائے۔آمین

از:مولانا عبدالجبار عطاری مدنی

المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر)

دعوت اسلامی